مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277260
ڈاؤنلوڈ: 6924

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277260 / ڈاؤنلوڈ: 6924
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

انگوٹھیوں کے نقوش

۵ـ          حسین بن خالد نے جناب امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ آیا یہ جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے ہاتھ میں ایسی انگوٹھی پہنے ہو جس پر ”لا ال ه الا اﷲ “ نقش ہو اور وہ استنجا کر لے امام(ع) نے فرمایا میں یہ امر کسی کے  لیے بہتر نہیں سمجھتا۔ اس پر حسین بن خالد نے کہا کہ آیا آپ(ع) کے آباؤ اجدا(ع) اور جنابرسول خدا(ص) انگوٹھی پہنے ہوئے استنجا نہیں کرتے تھے۔

امام(ع) نے فرمایا ہاں کرتے تھے مگر ان کے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی ہوا کرتی تھی تم خدا سے ڈرو اور ان پر بہتان مت باندھو۔ پھر فرمایا حضرت آدم(ع) کی انگوٹھی کے نگینے پر ”لا ال ه الا اﷲ محمد رسول اﷲ(ص)“ نقش تھا اور یہ انگوٹھی وہ بہشت سے اپنے ہمراہ لائے تھے۔

حضرت نوح(ع) جب کشتی میں سوار ہوئے تو خدا تعالی نے وحی کی کہ اے نوح اگر غرق ہونے  کا خوف لاحق ہوتو ہزار بار”لا ال ه الا اﷲ “ پڑھ کر دعا کرنا میں تجھے اور تیرے ایماندار ساتھیوں کو ڈوبنے سے بچالوں گا۔ کشتی چلتی جاتی تھی کہ ایک روز تیز چلی اور حضرت نوح(ع) کو غرق ہونے کا خوف لاحق ہوا اور یہ موقع بھی دستیاب نہ تھا کہ ہزار بار ”لا ال ه الا اﷲ “ کہتے لہذا انہوں نے سریانی زبان میں ”ه ي لوايا الفا الفا يا بار يا اتقن “ کہا تو طوفان جاتا رہا اور کشتی ہچکو لے لینا بند ہوگئی حضرت نوح(ع) نے چاہا کہ جن کلمات سے مجھے نجات ملی ہے وہ ہمیشہ میرے پاس رہیں تو ان کلمات کا عربی ترجمہ”لا ال ه الا اﷲ الف مرة يا رب اصلحنی “ یعنی اے میرے پروردگار میں ہزار مرتبہ یہ کہتا ہوں کہ سوائے اﷲ کے کوئیمعبود نہیں تو میری حالت کی درستی فرما اور صلاحیت عطا فرما۔ اپنی انگوٹھی پر نقش کروا لیا۔جب حضرت ابراہیم(ع) کو آگ میں ڈالنے کے لیے منجنیق میں بٹھایا گیا تو جبرائیل(ع) کو غصہ آیا حق تعالی نے جبرائیل(ع) کو وحی کی کہ تجھے غصہ کیوں آیا تو عرض  کیا اے پروردگار ابراہیم(ع) تیرا خلیل ہے اس کے سوا زمین پر کوئی اور نہیں جو تیری وحدانیت کا اقرار کرے اور تونے اپنے اور اس کے دشمن کو اس پر مسلط کردیا ہے  خدا نے جبرائیل(ع)کو وحی کی کہ خاموش رہ معاملات میں وہ شخص جلدی کرتا ہے جو

۴۲۱

 تیری مانند بندہ عاجز ہو اور جسے وقت کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف ہو ابراہیم(ع) ہمارا بندہ ہے ہم جس وقت چاہیں اسے آزاد کرواسکتے ہیں جبرائیل(ع) نے ادھر سے مطمئن ہوکر ابراہیم(ع) سے دریافت کیا کہ آپ کوئی خواہش رکھتے ہیں انہوں نے کہا ہاں مگر تجھ سے نہیں۔ حق تعالی نے اسی وقت ان کے لیے زمرد کی انگوٹھی  بھیجی جس پر یہ چھ کلمے تحریر (نقش ) تھے ”لا ال ه الا اﷲ “ یعنی سوائے خدا کے کوئی معبود نہیں (۲)محمد(ص) رسول اﷲ “ یعنی محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں۔ (۳)ولا حول قوة الا باﷲ “ یعنی سوائے وسیلہء خدا کے کسی شےمیں کوئی قدرت قوت نہیں۔

(۴) ”فوضت امری الی اﷲ “ یعنی میں نے اپنا کارو بار خدا کے سپرد کردیا ہے۔

(۵)اسندت ظ ه ری  الی اﷲ “ یعنی میرا تکیہ و توکل صرف خدا ہی ہے۔

(۶) ”حسبی اﷲ “ یعنی اﷲ میرے لیے کافی ہےاورخدا نے ابراہیم(ع) کو وحی فرمائی کہ یہ انگوٹھی  اپنے ہاتھ میں پہن لو آگ تم پر سرد ہو جائے گی اور اس کی سردی بھی ایذا نہ دے گی۔

حضرت موسی(ع) کے نگینے پر یہ کلمات تنقش تھے جو توریت سے لیے گئے تھے ”اصبر توء جوا صدق تنج “۔ یعنی صبر کر اجر پائے سچ بول نجات ملے گی۔

حضرت سلیمان(ع) کی انگوٹھی کے نگینے پر یہ نقش درج تھا۔”سبحان ه من الجم الجن بکلمات ه “ یعنی پاک و پاکیزہ ہے وہ خدا جس نے جنات کی زبان اپنے کلمات سے بند کردی ہے۔

حضرت عیسی(ع) کی انگوٹھی کے نگینے  پر یہ کلمات نقش تھے جو انجیل سے لیے گئے تھے”لعبد ذکر اﷲ من اجل ه وويل لعبد نسی اﷲ من اجل ه “  یعنی خوشا حال اس بندے کا جس کی وجہ سے لوگ خدا کو یاد کریں اور بدحال اس بندے کا جس کی وجہ سے لوگ خدا بھول جائیں۔جناب رسول خدا(ص) کی انگوٹھی کا نقش یہ تھا ”لا ال ه الا اﷲ محمد رسول اﷲ(ص)   “ یعنی خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں، جناب امیر(ع) کی انگوٹھی پر یہ نقش تھا ”ﷲ الملک “ یعنی حقیقی سلطنت خدا کی ہے۔حضرت امام حسن(ع) کو انگوٹھی کا نقش یہ تھا ”العزة ﷲ “ یعنی حقیقی غلبہ خدا کا ہے۔

۴۲۲

حضرت امام حسین(ع) کی انگوٹھی کا نقش یہ تھا ”ان ﷲ بالغ امر ه “ یعنی ذرا شک نہیں کہ خدا اپنے حکم کو پورا کرنے والا ہے۔

حضرت عل بن حسین(ع) اور حضرت امام محمد باقر(ع) ، امام حسین(ع) کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔

حضرت امام جعفر صادق(ع) کی انگوٹھی کے نگینے کا نقش یہ تھا”اﷲ وليی و عصمتی من خلق ه “ یعنی اﷲ میرا مالک ہے اور وہی اپنی مخلوقات سے مجھے بچانے والا ہے۔

حضرت امام موسی کاظم(ع) کی انگوٹھی کے نگینے پر یہ درج تھا ”حسبی اﷲ “ یعنی اﷲ میرے لیے کافی ہے۔

یہاں تک فرما کر حضرت امام رضا(ع) نے اپنا ہاتھ بڑھا کر دکھایا تو وہ اپنے والد ماجد(ع) کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھے۔

امت محمدی(ص) اور پچاس (۵۰) نمازیں

۷ـ زید بن علی(ع) نے اپنے والد علی بن حسین(ع) سے پوچھا کہ جب ہمارے جد جنابِ رسول خدا(ص) آسمان کی طرف تشریف لے گئے اور اﷲ نے انہیں پچاس نمازوں ( جو امت پر فرض ہوئی تھیں) کا حکم دیا تو جناب رسول خدا(ص) نے رب العزت سے اس وقت تک ان میں تخفیف کی درخواست نہیں کی جب تک حضرت موسی(ع) نے آپ(ص) سے ان نمازوں میں تخفیف کا نہیں کہا حضرت موسی(ع) نے رسول اکرم(ص) سے فرمایا اے فرزند، جناب رسول خدا(ص) کو خدا کی طرف سے جو بھی حکم ملتا تھا وہ اس پر خدا سے کوئی عذر یا  گفتگو نہیں کرتے تھے مگر جناب موسی(ع) نے آپ(ص) سے نمازوں میں تخفیف کا کہا تو اس سے مراد یہ تھی کہ وہ آپ(ص) کی امت کی شفاعت و سفارش فرمارہے تھے اور آپ(ص) کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ اپنے بھائی موسی(ع) کی شفاعت کو رد کرتے اس لیے آپ(ص) نے خدا کی طرف دوبارہ رجوع کیا تو خدا نے ان نمازوں میں کمی کرے کے انہیں پانچ نمازیں روزانہ کردیا۔

زید بن علی بن حسین(ع) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد(ع) سے پوچھا بابا جان، جناب رسول خدا(ص) نے ان

۴۲۳

 پانچ نمازوں میں سے بھی کچھ اور نمازیں کم کیوں نہ کروائیں امام(ع) نے فرمایا اے فرزند اﷲ تعالی کا فرمان ہے۔

مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها “ یعنی جو کوئی خدا کے حضور ایک نیکی لے کر آئے گا اسے ویسی ہی دس نیکیاں ملیں گی( انعام ، ۱۶۱) اے فرزند کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب جناب رسول خدا(ص) معراج سے واپس تشریف لائے تو جبرائیل امین(ع) نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور یہ بھی فرماتا ہے کہ ہم ان پانچ نمازوں کو پچاس ہی شمار کریں گے اور ہم نے جو کچھ کہہ دیا ہمارا قول بدلا نہیں کرتا اور ہم اپنے بندوں کے ساتھ نا اںصافی نہیں کریں گے زید کہتے ہیں کہ میں نے کہا بابا جان کیا خدا کی صفت نہیں ہے کہ وہ  لا مکان ہے۔ امام(ع) نے فرمایا ہاں اﷲ مکان و مکانیت سے بالاتر ہے وہ کسی مکان میں  نہیں ہے میں نے عرض کیا تو پھر حضرت موسی(ع) کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ ” اے رب کے پاس واپس جا کر کہیے“ امام نے فرمایا اس کا مطلب وہی ہے جو حضرت ابراہیم(ع) کے اس قول کا مطلب ہے کہ ”إِنِّي ذاهِبٌ إِلى‏ رَبِّي سَيَهْدينِ “ یعنی یقینا میں اپنے رب کی طرف واپس جانے والا ہوں وہ بہت جلد مجھے منزل مقصود پر پہنچا دے گا (صافات، ۹۹) اور اس قول کا وہی مطلب ہے جو حضرت موسی(ع) کے قول کا مطلب ہے کہ”عَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضى “ یعنی اے میرے رب میں نے تیری طرف آنے کی جلدی اس لیے کی ہے کہ تو خوش ہو“ ( طہ، ۸۴) اور اس کا وہی مطلب ہے ”َفَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ “ پس تم اﷲ کی ہی کی طرف بھاگو“ ( زاریات، ۵۰“ یعنی بیت اﷲ کے حج کے لیے بھاگو۔ تو اے فرزند کعبہ بیت اﷲ ہے اور جس نے بیت اﷲ کا حج کیا وہ گویا اﷲ کی طرف گیا اور دوسری طرف مسجدیں اﷲ کا گھر ہیں لہذا جو ان مسجدوں کی طرف گیا وہ اﷲ کی طرف گیا اور اﷲ کی طرف اس نے ارادہ کیا نیز نمازی جب نماز میں کھڑا رہتا ہے وہ اﷲ کے سامنے کھڑا رہتا ہے اور (حج کے موقع پر) حاجی جب تک عرفات میں ٹھہرا رہتا ہے وہ اﷲ کے سامنے کھڑا رہتا ہے اس طرح اﷲ کے پاس ایک خطبہ آسمانوں میں ایسا ہے کہ جو شخص اس بلندی تک پہنچ گیا وہ گویا خدا تک پہنچ گیا، کیا تم نے اس کا یہ قول نہیں سنا ”تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَ الرُّوحُ إِلَيْهِ “ یعنی فرشتے اور روح اس کے حضور میں

۴۲۴

 ایسے دن میں بلند ہوتے ہیں ( معارج ، ۴“ یعنی اسی کی طرف ملائکہ اور روح بلندی کی طرف جاتے ہیں اور اﷲ تعالی نے حضرت عیسی(ع) کے قصے میں کہا”بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ “ بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا“ ( نساء، ۱۵۸) خدا فرماتا ہے کہ ”إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه " یعنی اس کے حضور(ص) میں پاکیزہ کلمے بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل بھی کہ وہ اس کو بلند کرتا ہے(فاطر، ۱۰) اے فرزند پاک کلمے اس کی طرف بلند ہوکر پہنچتے  ہیں اور عمل صالح کو وہ اپنی طرف بلند کرلیتا ہے۔

دیدار خدا اور امام رضا(ع)

۷ـ          عبدالسلام ہروی بن صالح کہتے ہیں امام رضا(ع) سے میں نے کہا اے فرزندِ رسول (ص) اہل حدیث کی اس حدیث کے بارے میں آپکا کیا ارشاد ہے کہ ” مومنین جنت میں اپنے مکانوں سے اپنے رب کی زیارت کرتے  ہیں یا کریں گے“ امام(ع) نے فرمایا اے ابوصلت، اﷲ نے اپنے نبی(ص) کو تمام مخلوق، انبیاء، اور ملائیکہ پر فضیلت بخشی ہے اور دنیا و آخرت میں ان(ص) کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور ان(ص) کی پیروی کو اپنی پیروی اور ان(ص) کی زیارت کو اپنی زیارت قرار دیا ہے اﷲ نے فرمایا ” جس نے رسول(ص) کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی“ (نساء، ۸۰) اور فرمایا” بے شک وہ لوگ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ کی بیعت کرتے ہیں اور اﷲ کا ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھوں کے اوپر ہے“ (فتح ، ۱۰) اور نبی(ص) نے فرمایا ۔” جس نے میری زندگی یا موت کے بعد میری زیارت کی تو اس نے اﷲ کی زیارت کی“۔ نبی(ص) کا جنت میں درجہ تمام درجات سے بلند ہے تو جس نے اپنی جنت کے مقام سے ان(ص) کے درجہ کی زیارت کی تو اس نے اﷲ کی زیارت کی، ابوصلت کہتے ہیں میں نے آپ(ص) سے عرض کیا اے فرزند رسول (ص) اس خبر کے کیا معنی ہوئے جو انہوں نے روایت کی ہے کہ ”لا ال ه الا اﷲ “ کا ثواب اﷲ کے چہرے کی طرف دیکھنا تو امام(ع) نے فرمایا اے ابوصلت جس نے اﷲ کا مخلوق کےچہروں کی طرح کسی چہرہ سے وصف بیان کیا اس نے کفر کیا ہے لیکن اﷲ کا چہرہ تو اس کے انبیاء(ع) رسل اور حجتین ہیں وہی ہیں کہ جن کے ذریعہ  اﷲ اس کے دین اور اس کی معرفت کی

۴۲۵

 طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اﷲ نے فرمایا جو بھی زمین پر ہے سب فنا ہونے والے ہیں اور تمہارے عظمت و کرامت والے رب کی ذات باقی رہےگی اور فرمایا ”كُلُّ شَيْ‏ءٍ هالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ “( قصص، آیت ۸۸) اس کی ذات کے علاوہ ہر شئی ہلاک ہونے والی ہے“ پس انبیاء(ع) اور حجج الہی کی طرف دیکھنا ( ان کے درجات میں) مومنین کے لیے روزِ قیامت بڑا ثواب ہے، نبی(ص) نے فرمایا کہ جس نے میرے اہل بیت(ع) اور میری عترت(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ کو نہیں دیکھا اور نہ میں اس کو قیامت کے روز دیکھوں گا اور آپ(ص) نے فرمایا بے شک تم میں کچھ لوگ مجھ سے جدائی اختیار کرنے کے بعد مجھے نہیں دیکھیں گے، اے ابو صلت اﷲ کا وصف کسی مکان سے نہیں کیا جاسکتا اور اس کو آنکھیں اور اوھام نہیں دیکھ سکتے میں نے کہا اے فرزند رسول (ص) مجھے جنت اور دوزخ کے بارے میں بتائیے کہ کیا وہ مخلوق ہیں آپ(ع) نے فرمایا ہاں، اور رسول خدا(ص) شبِ معراج جنت میں تشریف لے گئے اور جہنم کو بھی دیکھا، میں (ابوصلت) نے عرض کیا چند لوگ کہتے ہیں کہ آج وہ مقدر ہیں غیر مخلوق ہیں آپ(ع) نے جواب میں فرمایا کہ وہ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں جس نے جنت دوزخ کی پیدائش سے انکار کیا اس نے نبی(ص) کی تکذیب کی اور ہمیں بھی جھٹلایا اور ہماری ولایت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے خدا فرماتا ہے ” یہی وہ جہنم ہے کہ گنہگار لوگ جس کی تکذیب کیا کرتے تھے لوگ جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکراتے پھریں گے ( رحمان،۴۴،۴۳) اور نبی(ص) نے فرمایا کہ جب مجھے معراج کے لیے لے جایا گیا تو جبرائیل(ع) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے جنت میں داخل کردیا اور مجھے رطب پیش کیے جو میں نے کھائے جس سے میرے صلب میں نطفہ بنا اور جب میں زمین پر واپس آیا تو میں نے خدیجہ(ع) سے ہمبستری کی اور فاطمہ(س) کا حمل قرار پایا پس فاطمہ(س) حوراء انسیہ ہیں اور جب کبھی مجھے جنت کی خوشبو کا اشتیاق ہوتا تو میں اپنی بیٹی فاطمہ(س) کی خوشبو سونگھتا۔

۸ـ          امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا، یا رسول اﷲ(ص) میں جہاد کا مشتاق ہوں اور اس میں نشاط رکھتا ہوں فرمایا راہ خدا میں جہاد کرو کہ اگر قتل ہوگئے تو زندہ ہوگے اور خدا کے پاس روزی کھاؤ گے اور اگر مرگئے تو اس کی اجرت خدا کے پاس

۴۲۶

 ہے اور اگر واپس ہوئے تو گناہوں سے باہر نکل جاؤ گے اس دن کے طرح جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اس نے کہا یا رسول اﷲ(ص) میرے ماں باپ بوڑھے ہیں۔ اور وہ مجھ سے انس کرتے ہیں اور میرے جانے کو اچھا نہیں سمجھتے رسول خدا(ص) نے فرمایا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہو جان لو کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان سے ترا ایک دن کا انس تیرے ایک سال کے جہاد سے بہتر ہے۔

۹ـ           حنان بن سدیر کہتے ہیں کہ میرے باپ نے امام باقر(ع) سے روایت کیا ہے کہ بیٹا، باپ کے معاملات میں مجاز نہیں ہے مگر دو معاملات میں ایک یہ کہ اگر اس کا باپ غلام ہے تو فرزند اسے آزاد کروادے اور دوسرا یہ کہ اگر وہ کسی کا قرض دار ہے تو فرزند اس کا قرض ادا کردے۔

۱۰ـ          ثابت بن ابو صفیہ کہتے ہیں کہ امام سجاد(ع) جب عبیداﷲ بن عباس بن علی بن ابی طالب(ع) کو دیکھتے تو آپ(ع) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور فرماتے رسول خدا(ص) پر روزِ احد سے زیادہ سخت دن کوئی نہیں گزرا کہ آپ(ص) کے چچا حمزہ اس روز قتل کیے گئے اور اس روز کے بعد روزِ موتہ ہے کہ جس دن آپ(ص) کے چچا زاد بھائی جعفر(ع) ابن ابی طالب(ع)قتل ہوئے پھر امام(ع) نے فرمایا، اے حسین(ع) وہ دن کسی دن کی طرح نہ ہوگا کہ جس دن تیس ہزار(۳۰۰۰۰) مرد جو اسی امت کے دعوی دار تھے اور جنہوں نے پردیس میں آپ(ع) پر یلغار کی اور آپ(ع) کے قتل کے بعد خدا سے تقرب کے خواہان تھے آپ(ع) نے انہیں خدا کی یاد دلائی مگر انہوں نے میرے نصیحت نہیں لی اور آپ(ع) پر ظلم وستم کرنے کے بعد آپ(ع) کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی پر جان نچھاور کردی۔ یہاں تک کہ ان کے بازو بھی قطع کردیئے گئے خدا نے اسکے بدلے انہیں بہشت میں دو پر عطا کیے جیسے کہ جعفر بن ابی طالب(ع) کو عطا کیے تھے عباس(ع) خدا کے ہاں وہ مقام رکھتے ہیں کہ جس پر اولین و آخرین کے تمام شہداء رشک کریں گے تمام تعریفین اﷲ رب العالمین کے لیے ہیں اور  صلواة ہو محمد(ص) و آل محمد(ص) پر۔ حسبنا اﷲ ونعم الوکیل۔

۴۲۷

مجلس نمبر۷۱

(غرہ جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           ابوذر غفاری(ع) کہتے ہیں کہ میں اور جناب رسول خدا(ص) ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے جارہے تھے۔ اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا جب سورج غروب ہوا تو میں نے کہا یا رسول اﷲ غروب کے بعد سورج کہاں جاتا ہے، آپ(ص) نے فرمایا آسمان میں بلکہ آسمان سے بھی اوپر ساتویں آسمان کو عبور کرتا ہوا عرش کے نیچے جا پہنچتا ہے وہاں جاکر سجدہ کرتا ہے اور اس کے ہمراہ اس پر موکل ملائیکہ بھی سجدہ کرتے ہیں اور خدا سے عرض کرتے ہیں کہ خدایا تیرا کیا حکم ہے اب سورج کو مغرب سے طلوع کریں یا مشرق سے اور اس بارے میں قول خدا یہ ہے” آفتاب جاتا ہے اپنی قرار گاہ کو“ ( یاسین ،۳۶) اور یہاں تقدیر عزیز علیم سے مراد پروردگار کی اپنے ہی ملک میں اپنی ہی خلق کی صناعی ہے، پھر آپ(ص) نے فرمایا کہ جبرائیل(ع) اس (سورج) کے لیے حرارت و چمک (دھوپ) کا لباس عرشِ نور سے لاتے ہیں اور سردی گرمی بہار و خزاں کے لیے آفتاب کے معمولات مقرر کرتے ہیں۔ پھر وہ لباس اسے اس طرح پہنایا جاتا ہے جس طرح تم میں سے ہر ایک اپنا لباس پہنتا ہے اور یہ لباس اس سے اس وقت تک جدا نہ کیا جائے گا جب تک خدا اسے ( سورج کو) مغرب سے طلوع ہونے کا حکم نہ دے لے۔ اور یہ اس قول خدا کے معنی ہیں کہ ” جب دھوپ لپیٹی جائے اور جب تارے جھڑ پڑیں ( تکویر، ۲۔۱)

اور چاند کے لیے بھی ایسا ہی ہے کہ وہ بھی اسی طرح طلوع و غریب ہوتا ہے اور ساتویں آسمان تک جاتا ہے وہاں زیر عرش سجدہ کرتا ہے پھر جبرائیل(ع) اس کے لیے کرسی سے حلہ نور لاتے ہیں اور اس کے لیے قول خدا ہے کہ” خدا وہ ہے کہ خورشید کو تاباں اور چاند کو درخشان کرتا ہے“ (یونس، ۵) ابوذر(رح) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے جناب رسول خدا(ص) کے ساتھ نماز مغرب ادا کی۔

۲ـ           امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جب ذولقرنین(ع) سد(دیوار) سے ہوتے ہوئے ظلمات میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک فرشتہ پہاڑ پر کھڑا ہے اس فرشتے  کا قد( ۵۰۰) پانچ سو ہاتھ بلند تھا

۴۲۸

اس نے ذالقرنین(ع) سے کہا کیا تیرے پیچھے راستہ نہ تھا۔ ذوالقرنین نے اس سے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا میں خدا کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں اور اس پہاڑ پر موکل ہوں اور وہ تمام پہاڑ جنہیں خدا نے خلق کیا ہے کی جڑیں اس پہاڑ سے منسلک ہیں جب خدا کسی شہر میں زلزلہ لانا چاہتا ہے ۔ تو مجھ پر وحی کرتا ہے اور میں اس شہر کو حرکت دیتا ہوں اور زلزلہ لاتا ہوں۔

۳ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ذکرِ خدا کرنے والے کو آسمانی بجلی گزند نہیں پہنچاتی۔

۴ـ          امام صادق(ع) اپنے اجداد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ زلزلہ، چاند گرہن، سورج گرہن اور طوفان، زمین کے لیے سخت گھڑی ہے جب ایسی کسی چیز کو دیکھو تو قیامت کو یاد کرو اور مسجد میں پناہ لو۔

۵ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی” اور وہ لوگ جو بدی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں“ ( آل عمران، ۱۳۵) تو ابلیس مکہ میں جبل ثور پر گیا اور اپنے چیلوں کو اکھٹا کیا جب وہ اکھٹے ہوئے تو ابلیس سے کہنے لگے اے ہمارے سردار تو نے ہمیں کس لیے اکھٹا کیا ہے اس نے کہا کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے اور تم میں سے کون ہے جو اس کے خلاف ڈٹ جائے ایک نے کہا میں فلان طریقے سے اس کا سد باب کروں گا ابلیس نے کہا تم اس کے اہل نہیں دوسرے نے کہا میں فلاں طریقے سے لوگوں کو اس آیت کی نافرمانی پر اکساؤں گا اس نے کہا تم بھی اس کی اہلیت نہیں رکھتے تب وسواس (وہم) کا شیطان کھڑا ہوا اور کہا میں اس کا اہل ہوں ابلیس نے پوچھا تم کیوںکر اس کی اہلیت رکھتے ہو وہ کہنے لگا میں لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کروں گا اور ان میں آرزو مندی پیدا کروں گا اور مغفرت کی یاد ان کے دلوں سے بھلا دوں گا ابلیس نے کہا ہاں تم اس کے اہل ہو اور پھر قیامت تک اسے اس پر نگران مقرر کیا۔

آںحضرت(ص) اور ایک مالدار یہودی

۶ـ           جناب موسی بن جعفر(ع) اپنے اجداد(ع) سے  روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی جناب رسول خدا(ص)

۴۲۹

 سے چند اشرفیوں کا طلب گار ہوا، آںحضرت(ص) نے اس سے فرما، میرے پاس  اس وقت اشرفیاں نہیں ہیں اس یہودی نے ضد کی اور کہا جب تک آپ(ص)  مجھے کچھ اشرفیاں نہیں دے دیں گے میں اس وقت تک آپ(ص) سے جدانہ ہونگا۔ اور آپ(ص) کے پاس ہی بیٹھا رہوںگا۔

آںحضرت(ص) اپنے اصحاب کے ہمراہ اس یہودی کے پاس تشریف فرما ہوگئے اور نماز ظہر سے لے کر اگلی صبح فجر کی نماز تک وہیں رکے رہے اصحاب رسول (ص) نے اس یہودی کو اس کے اس فعل پر برا بھلا کہا تو جناب رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے برا بھلا مت کہو میں اس لیے مبعوث نہیں کیا گیا کہ اس پر ظلم کروں جو امان میں ہے۔

جب دن چڑھ گیا تو اس یہودی نے کلمہ شہادت ”اش ه د انلا ال ه الا اﷲ محمد رسول اﷲ(ص)“   “ پڑھا اور کہا یا رسول اﷲ(ص) میں اپنا نصف مال راہ خدا میں وقف کرتا ہوں۔ خدا کی قسم میں نے آپ(ص) کے ساتھ یہ برتاؤ صرف اس لیے کیا کہ میں نے توریت میں آخری نبی(ص) کے جو اوصاف پرھے وہ یہ ہیں کہ محمد(ص) بن عبداﷲ جن کی جائے پیدائش مکہ اور مقام ہجرت مدینہ ہوگی وہ سخت مزاج اور تند خو نہ ہوں گے۔ وہ چیخ کر بات نہ کریں گے اور بے ہودہ گوئی اور فحش کلامی نہ کریں گے ان اوصاف کا مشاہدہ کر نیکی غرض سے میں نے یہ عمل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ(ص) خدا کے بھیجے ہوئے اور اس کے رسول(ص) ہیں، یا رسول اﷲ(ص) میرا مال حاضر ہے آپ اس مال سے خدا کے حکم کے مطابق جو چاہے خرچ کریں ، وہ یہودی بہت مالدار تھا۔جناب علی بن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ آںحضرت(ص) کا بستر مبارک ایک چادر اور ایک چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے ایک رات آپ(ص) کے آرام کی خاطر اس چادر کو دو تہیں لگا کر بچھا دیا گیا صبح ہوئی تو آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا آج رات زیادہ آرام ملنے کی وجہ سے صبح کی نماز میں تاخیر ہوگئی لہذا آئندہ چادر کو دوہرا کر کے مت بچھانا۔

۸ـ          امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں۔ رسول خدا(ص) نے اپنے ایک صحابی کو جہاد پر بھیجا جب وہ واپس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا اے بندے مرحبا کہ تم نے جہاد اصغر سرانجام دیا لیکن جہاد اکبر بھی لازم ہے عرض کیا گیا کہ یارسول اﷲ(ص)جہاد اکبر کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا جہاد بالنفس پھر فرمایا کہ بہترین

۴۳۰

 جہاد اس بندے کا ہے جو اپنے دونوں پہلوؤں کے درمیان موجود نفس سے جہاد کرے۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جناب رسول خدا(ص) نے جناب سلمان فارسی(رض) کی بیماری میں عیادت کے دوران فرمایا اے سلمان تیری اس بیماری میں تین فضیلتیں ہیں اول، یادِ جدائی ۔ دوئم ، دعا کا مستجاب ہونا اور سوئم ، گناہوں کا جھڑنا، یہ تجھے موت تک امان دیتی ہے۔

عرب بیابانی اور پردہ کعبہ

۱۰ـ          خالد بن ربعی بیان کرتے ہیں کہ جناب امیرالمومنین(ع) کسی کا کے سلسلے میں مکہ گئے تو دیکھا کہ ایک بیابانی کعبہ کے پردے کو پکڑے کہہ رہا ہے صاحب خانہ یہ گھر تیرا گھر ہے اور یہ مہمان تیرا مہمان ہے۔ ہر مہمان اپنے میزبان  سے حق پذیرائی رکھتا ہے لہذا آج کی رات میری مغفرت قبول فرما جناب امیرالمومنین(ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا سنتے ہو یہ اعرابی کیا کہہ رہا ہے اصحاب نے کہا کیوں نہ ہیں یا امیر (ع)، آپ(ع) نے فرمایا خدا اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے مہمان پر کرم کرے۔دوسری رات پھر دیکھا گیا کہ وہ بیابانی کعبہ کے پردے کو پکڑے کہہ رہا ہے اے عزیز تجھ سے زیادہ کوئی عزیز نہیں تو نے اپنی عزت سے مجھے وہ عزت بخشی جو کسی اور کو نہیں دی۔ اس لیے میں اپنا رخ تیری طرف کرتا ہوں اور تجھ ہی سے توسل کرتا ہوں، بحق محمد(ص) و آل محمد(ص) تو مجھے عطا فرما جو کسی اور کو نہیں دیا اور مجھ سے وہ کچھ ہٹا جو کسی اور سے نہیں ہٹایا، امیرالمومنین(ع) نے یہ دعا سنی تو ارشاد فرمایا خدا کی قسم یہی دعا سریانی زبان میں اسم اعظم ہے اور میرے حبیب(ص) نے مجھے اس کی خبر دی ہے اس اعرابی نے اس کے وسیلے سے بہشت کو چاہا ہے وہ  اسے دیدی گئی ہے اور چاہا ہے کہ دوزخ کو اس سے دور کردیا جائے تو خدا نے اس سے دوزخ کو دور کردیا ہے۔

پھر تیسری شب دیکھا گیا کہ وہ اعرابی خانہ کعبہ کے پردے سے لپٹا کہہ رہا ہے اے وہ جو پابندہ مکان نہیں اور کیفیت نہیں رکھتا اس اعرابی کو چار ہزار درہم عطا کر۔جناب امیر(ع) نے اسکی یہ دعا سنی تو اس کے پاس تشریف لےگئے اور فرمایا اے اعرابی تم خدا سے

۴۳۱

 پذیرائی چاہتے تھے وہ تمہیں مل گئی، تم خدا سے بہشت کےطلب گار تھے وہ اس نے تمہیں عطا کی پھر تم نے دوزخ کی دوری کی درخواست کی وہ اس نے قبول کر لی اور آج رات تم اس سے چار ہزار درھم کی درخواست کررہے ہو اس اعرابی نے کہا میں چاہتا تھا کہ آپ(ع) سے ملاقات ہوجائے تاکہ آپ کی وساطت سے اپنے پروردگار سے  حاجت کروں جناب امیر(ع) نے کہا تو بتاؤ کیا چاہتے ہو اس اعرابی نے کہا مجھے ایک ہزار درھم صداق کے لیے، اور ہزار درھم ادائے قرض کے لیے ایک ہزار درھم گھر خریدنے کے واسطے اور ایک ہزار درھم ضروریات زندگی کے لیے چاہیں جناب امیر(ع) نے کہا تو نے اںصاف سے کام لیا ہے میں اب مکہ سے مدینہ روانہ ہونے لگا ہوں تو مجھے مدینہ میں آکر مل وہاں تجھے اس رقم کی ادائیگی کردی جائے گی۔

وہ اعرابی ایک ہفتہ مکہ میں رہا اور پھر مدینہ روانہ ہوگیا مدینہ پہنچ کر وہ صدا بلند کرنے لگا۔ کوئی ہے کہ جو مجھے جناب علی بن ابی طالب(ع) کے گھر تک لے جائے“ اس کی یہ صدا جناب حسین بن علی(ع) نے سنی اور اس سے فرمایا چل تجھے میں لیے چلتا ہوں میں انکا بیٹا ہوں اس اعرابی نے کہا آپ کے والد کون ہیں؟ آپ(ع) نے فرمایا امیر المومنین علی ابن ابی طالب(ع) ہیں پھر پوچھا  آپ(ع) کی والدہ کون ہیں؟ آپ(ع) نے فرمایا فاطمہ(س) زہرا سیدة النساء العالمین ہیں پھر پوچھا آپ(ع) کے جد کون ہیں، آپ(ع) نے فرمایا رسول خدا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) ہیں اس نے پھر پوچھا آپ(ع) کی جدہ کون ہیں، آپ(ع) نے فرمایا خدیجہ(ع) بنت خویلد اس نے پوچھا کہ آپ(ع) کے بھائی کون ہیں، آپ(ع) نے فرمایا ابو محمد حسن بن علی(ع) اس اعرابی نے کہا تمام دنیا تو آپ(ع) کے پاس ہے  مجھے امیرالمومنین(ع) کے پاس لے چلیں اور ان(ع) سے کہیں کہ وہ اعرابی جسے آپ نے مکہ میں ضمانت دی تھی وہ حاضر ہوا ہے۔

حسین بن علی(ع) اسے لے گھر کے دروازے پر آئے اور اسے وہاں کھڑا کر کے اندر تشریف لے گئے اور جناب امیر(ع) نے فرمایا، بابا جان ایک اعرابی آیا ہے جو کہتا ہے کہ اسے آپ(ع) نے مکہ میں ضمانت دی تھی کہ اسے مدینہ میں کچھ ادائیگی کریں گے جناب امیر(ع) نے کہا اے فاطمہ(س) کیا گھر میں کوئی چیز ہے جو اسے کھانے کے لیے پیش کی جائے بی بی(س) نے کہا کہ گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جناب امیر(ع) نے لباس تبدیل کیا اور گھر سے باہر  تشریف لے گئے اور فرمایا اے

۴۳۲

ابوعبداﷲ(ع) جاؤ اور سلمان فارسی(رض) کو میرے پاس لے جاؤ جب سلمان آئے تو جناب امیر(ع) نے سلمان(رض) سے کہا کہ اے سلمان وہ باغ جو رسول خدا(ص) نے میرے لیے بویا تھا اسے فروخت کرو اور مجھے رقم لاکر دو جناب سلمان(رض) نے وہ باغ مدینے کے تاجروں کے ہاتھ بارہ ہزار درھم میں فروخت کردیا جناب امیر(ع) نے اس اعرابی کو طلب کیا اور چار ہزار درھم اسے دے دیے اس کے علاوہ چالیس درہم مزید سفر خرچ کے لیے دیئے۔اسی اثناء مین مدینہ کے فقیروں کو بھی یہ خبر مل گئی کہ جناب امیر(ع) نے اپنا باغ فروخت کردیا ہے اور اس سے حاصل شدہ رقم وہ راہ خا میں خرچ کررہے ہیں، تمام فقراء جناب امیر(ع) کی خدمت میں اکٹھے ہوگئے اور جناب امیر(ع) نے بقیہ تمام رقم مٹھی مٹھی تمام فقراء میں تقسیم کردی یہاں تک کہ ایک ایک درہم بھی باقی نہ رہا ادھر اںصار مدینہ نے یہ خبر بی بی فاطمہ(س) کو پہنچا دی ، جب جناب امیر(ع) گھر واپس تشریف لائے تو بھی بی(س) نے کہا اے میرے سرتاج کای ؤپ نے وہ باغ مو میرے والد(ص) نے میرے لیے بویا تھا فروخت کردیا ہے آپ(ع) نے فرمایا ہاں میں نے اسے بہتر دنیا اور بہتر آخرت کی خاطر بیچھ دیا ہے بیبی(س) نے پوچھا اس کی رقم کہاں ہے آپ(ع) نے جواب دیا وہ میں نے حاجت مندوں میں تقسیم کردی ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے سوال کریںاور مجھے شرمندگی ہو، بی بی(س) نے جناب امیر(ع) کا دامن تھام لیا اور کہا آپ(ع) سمیت میں اور میرے دونوں بچے بھوکے ہیں جب کہ ہمارے واسطے آپ(ع) نے اس (دولت) میں ایک درہم بھی نہیں رکھا جناب امیر(ع) نے فرمایا فاطمہ(س) میرا دامن چھوڑ دو بی بی(س) نے کہا نہیں خدا کی قسم میں اس وقت تک آپ(ع) کا دامن نہ چھوڑوں گی جب تک میرے والد(ص) تشریف نہ لائیں اور اس بارے میں کچھ ارشاد نہ فرمائیں۔ ادھر جبرائیل(ع) نازل ہوئے اور رسول خدا(ص) سے کہا اے محمد(ص) تیرا خدا تجھے سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرا سلام علی(ع) تک پہنچا دو اور فاطمہ(س) سے کہو کہ تمہیں حق نہیں ہے کہ تم علی(ع) کا دامن پکڑو، جناب رسول خدا(ص) بی بی فاطمہ(س) کے ہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ بی بی(س) نے جناب امیر(ع) کا دامن پکڑا ہوا ہے جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بیٹی تم نے علی(ع) کا دامن کس لیے پکڑ رکھا ہے بی بی (س) نے فرمایا بابا جان آپ(ص) نے جو باغ میرے لیے بویا تھا۔ وہ علی(ع) نے فروخت کردیا ہے اور اس کا ایک درہم بھی ہمارے لیے نہیں رکھا کہ اس سے گھر کے لیے خوراک کا سامان ہی خرید لیں۔ حضور نے فرمایا بیٹی جبرائیل(ع) نے میرے رب کی طرف

۴۳۳

سے مجھے سلام دیا ہے اور کہا ہے کہ میں علی(ع) کو اس کے رب کی طرف سے سلام پہنچا دوں اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ تم سے کہوں کہ تم یہ حق نہیں رکھتی کہ اس ( علی(ع)) کا دامن پکڑو بی بی(ع) نے یہ سن کر کہا میں اپنے اس عمل پر خدا سے مغفرت طلب کرتی ہوں کہ آیندہ اس طرح نہ کروں گی پھر جناب رسول خدا(ص) ایک طرف چلے گئے اور جناب امیر(ع) دوسری طرف کچھ ہی دیر گذری تھی کہ جناب رسول خدا(ص) دوبارہ تشریف لائے اور پوچھا اے فاطمہ(س) میرے چچا کا بیٹا کہاں ہے بی بی(س) نے بتایا وہ باہر گئے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا تم یہ سات درہم رکھ لو جب وہ واپس آئیں تو انہیں یہ درھم دے کر بازار سے کچھ کھانے کے لیے منگوا لینا کچھ دیر بعد جناب امیر(ع) واپس آئے اور پوچھا میں اپنے برادر جناب رسول خدا(ص) کی خوشبو محسوس کررہا ہوں بی بی(س) نے فرمایا ہاں وہ دوبارہ تشریف لائے تھے اور ہ سات درہم دے گئے ہیں تاکہ آپ(ع) اس رقم سے اشیاء خورد ونوش لے آئیں۔ جناب امیر(ع) نے وہ سات درہم بی بی(س) سے لیے اور فرمایا ” بسم اﷲ والحمد ﷲ کثیرا طیبا“ کہ یہ روزی خدا کی طرف سے فراہم کی گئی ہے پھر جناب حسن(ع) سے فرمایا بیٹا میرے ساتھ بازار چلو اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے صدا لگائی کہ ہے کوئی جو ضرورت مند کو قرض حسنہ دے جناب امیر(ع) نے فرمایا اے میرے بیٹے وہ پیسے اسے دیدو جناب حسن(ع) فرماتے ہیں، خدا کی قسم میرے والد(ع) نے وہ سات درہم اس سائل کو دیدیے جنابِ حسن(ع) نے جناب امیر(ع) سے کہا، بابا جان آپ(ع) نے تمام درہم اس سائل کو دیدیے ہیں جناب امیر(ع) نے فرمایا ہاں بیٹا اگر اس سے کہیںزیادہ ہوتے تو میں وہ بھی اسے دے دیتا، پھر جناب امیر(ع) کسی کے گھر گئے تاکہ کچھ قرض  لے کر خوراک کا بندوبست کیا جائے جب چکھ ادھار لے لیا اور بازار کو چلے تو ایک اعرابی انہیں ملا اس نے کہا یا علی(ع) میرا اونٹ مجھ سے خرید لیں، آپ(ع) نے فرمایا میرے پاس اس کے لیے پیسے نہیں ہیں اس نے کہا میں آپ(ع) کو اس کے پیسے ادا کرنے کے لیے مہلت دیتا ہوں کہ جب ہوں مجھے دیدیں جناب امیر(ع) نے فرمایا بیٹا حسن(ع) اس سے اونٹ  لے لو، کچھ آگے جاکر ان کی ملاقات ایک اور اعرابی سے ہوئی اس نے کہا یا علی(ع) یہ اونٹ بیچنے کے لیے ہے آپ(ع) نے پوچھا تم  کیوں خریدنا چاہتے ہو اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اس اونٹ پر بیٹھ کر میں آپ(ع) کے چچازاد (ص) کے ساتھ غزوات میں حصہ لوں جناب امیر(ع) نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو تم اسے بغیر قیمت ہی لے سکتے ہو اس اعرابی نے کہا نہیں یا علی(ع) میں اس کی قیمت ادا کرنے کی

۴۳۴

استطاعت رکھتا ہوں آپ(ع) بتائیں۔ کہ آپ(ع) نے یہ کتنے کا خریدا ہے جناب امیر(ع) نے فرمایا میں نے یہ سو درہم کا خردیدا ہےاعرابی نے کہا میں یہ اونٹ آپ(ع) سے ایک سو ستر (۱۷۰) درہم میں خریدتا ہوں۔ جناب امیر(ع) نے فرمایا۔ بیٹا حسن(ع) یہ اوںٹ اس اعرابی کو دیدو پھر اس حاصل شدہ رقم میں سے سو درہم اس کے پہلے مالک کو دینے کے لیے واپس پلٹے، جناب امیر(ع) کچھ ہی دور گئے تو دیکھا کہ جنابِ رسول خدا(ص) ایک ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا جب ان کی نگاہ جنابِ امیر(ع) پر پری تو آپ(ص) مسکرائے یہاں تک کہ آپ(ص) کے دندان مبارک نظر آنے لگے جناب امیر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) آپ ہمیشہ کی طرح آج بھی مسرور نظر آرہے ہیں کیا بات ہے، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ابو الحسن(ع) کیا تم اس اعرابی کو تلاش کررہے ہو جس نے تمہیں وہ اونٹ دیا تھا جناب امیر(ع) نے فرمایا میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان، خدا کی قسم یہی بات ہے حضور(ص) نے فرمایا اے ابوالحسن(ع) اونٹ فروخت کرنے والے جبرائیل(ع) تھے اور جنہوں نے اونٹ خریدا وہ میکائیل(ع)تھے اور جو ایک سو ستر درہم تمہیں ادا کیے گئے ہیں وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تم انہیں خوبی سے خرچ کرو اور باداری سے مت ڈرو۔

۴۳۵

مجلس نمبر۷۲

(۵ جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

فضائل اہل بیت(ع)

۱ـ           جناب علی ابن ابی طالب(ع) نے آیت ” سلام علی آل یاسین“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ” یاسین محمد(ص) ہیں اور ہم آل یاسین(ع) ہیں۔

۲ـ           ابو مالک نے ” سلام علی آل یاسین“ کی تفسیر کے ضمن میں کہا کہ یاسین“ جناب رسول خدا(ص) ہیں۔

۳ـ          ابن عباس(رض) ”سلام علی آل یاسین“ کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد(ص) ہیں۔

۴ـ          بی بی ام سلمی(رض) فرماتی ہیں کہ قرآن کی یہ آیت ” بیشک خدا چاہتا ہےکہ پلیدی کو تمہارے خاندان سے دور کردے اور بہتر طریقے سے پاکیزہ کرئے۔ ( احزاب، ۳۳) میرے ہی گھرمیں نازل ہوئی اور اس وقت گھر میں سات نفوس موجود تھے  جو یہ تھے۔

جناب رسول خدا(ص)، جبرائیل(ع)، میکائیل(ع)، علی(ع)، فاطمہ(س)، حسن(ع) اور حسین(ع)۔

میں نے کہا یا رسول اﷲ(ص) کیا میں اہل بیت(ع) میں سے نہیں ہوں تو آپ(ص) نے فرمایا ام اسلمی(رض) تم ازواج پیغمبر(ص) میں ہو۔ جناب رسول خدا(ص) نے یہ نہیں فرمایا  کہ میں اہل بیت(ع) سے ہوں۔

۵ـ          تمیمی کہتے ہیں میں زوجہء رسول خدا(ص)، عائشہ کے پاس گیا انہوں نے حدیث بیان کی کہ میں ( بی بی عائشہ) نے جناب رسول خدا(ص) کو دیکھا کہ انہوں نے علی(ع)، فاطمہ(س)، حسن(ع) اور حسین(ع) کو بلایا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہل بیت(ع) ہیں ان سے پلیدی کو دور فرما اور انہیں بہتر طریقے سے پاکیزہ کردے۔

۶ـ           ابن عباس(رض) نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا بیشک علی(ع) میرے وصی و خلیفہ اور میری بیٹی فاطمہ(س) سیدة النساء العالمین کے ہمسر ہیں اور حسن(ع) و حسین(ع) جو جوانان بہشت کے سردار ہیں وہ میرے فرزند

۴۳۶

 ہیں جو کوئی انہیں دوست رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے اور جو کوئی انہیں دشمن رکھتا ہے وہ مجھے دشمن رکھتا ہے، جو کوئی ان سے دوری اختیار کرتا ہے، وہ مجھ سے دور ہے جو کوئی ان سے جفا کرتا ہے اس نے مجھ سے جفا کی۔ جو کوئی ان سے نیکی کرے اسنے مجھ سے نیکی کی، جو کوئی ان کے ساتھ پیوستہ ہے خدا اسے اپنے ساتھ پیوستہ کرتا ہے، جو کوئی ان سے قطع تعلق کرے خدا اسےخود سے ہٹا دیتا ہے اے خدایا جو ان کی مدد کے تو اس کی مدد فرما، جو انہیں چھوڑے دے تو بھی اسے چھوڑ دے خدایا تمام پیغمبر اور رسول اپنا خاندان اور اپنے ثقل رکھتے ہیں یہ علی(ع)، فاطمہ(س)، حسن(ع) اور حسین(ع) میرے اہل بیت(ع) اور ثقل ہیں۔ ان سے پلیدی کو ہٹا دے اور انہیں بہتر طریقے سے پاکیزہ کردے۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا، جو کوئی چاہے کہ خدا تمام خیر اس کے لیے عطا کرے تو اسے چاہیے کہ میرے بعد علی(ع) اور اس کے دوستوں کو دوست رکھے اورع اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھے۔

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میری اور میرے اہل بیت(ع) کی ولایت دوزخ سے امان دیتی ہے۔

۹ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا جس پر کرم کرتا ہے اسے میرے اہل بیت(ع) کی ولایت کی معرفت عطا کر کے تمام خوبیوں کو اس کے لیے فراہم کرتا ہے۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی فرائض حق کو قائم کرتا ہے، حمرمات خدا سے بچتا ہے، میرے خاندان(ع) کی ولایت اسے خوش کرتی ہے اور وہ خدا کے دشمنوں سے بیزاری رکھتا ہے تو وہ بہشت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہیے گا داخل ہوگا۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ آیاتِ اولیاء و اعدا ہمارے بارے میں ہی نازل ہوئی ہیں کہ ” جو کوئی مقربین میں سے ہے وہ اپنی قبر میں روح و ریحان رکھتا ہے۔ اور جنت نعیم رکھتا ہے اپنی آخرت میں اگر مکذبین میں سے ہے اور گمراہ ہے تو اپنی قبر میں حمیم سے پذیرائی رکھتا ہے اور دوزخ کی آگ آخرت میں“۔

۱۲ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی ہمارے خاندان(ع) کو دوست رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ خدا کی اولین نعمت کی حمد کرے عرض کیا گیا یا رسول اﷲ(ص) اولین نعمت کونسی ہے آپ(ص) نے ارشاد فرمایا

۴۳۷

حلال زادہ ہونا پھر فرمایا ہمیں دوست نہیں رکھتا مگر حلال زادہ۔

مندرجہ بالا حدیث نمبر(۱۲) امام محمد باقر(ع) سے بھی روایت ہوئی ہے۔

۱۳ـ     جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) جو کوئی مجھے، تجھے(ع) اور تیرے اماموں(ع) جو تیری اولاد سے ہیں کو دوست رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ حلال زادہ ہونے پر خدا کی حمد کرے کیونکہ ہمیں دوست نہیں رکھتا مگر حلال زادہ اور ہمیں دشمن نہیں رکھتا مگر حرام زادہ۔

۱۴ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا ہم بنو عبدالمطلب(ع) بہشتیوں کے سردار ہیں، یعنی رسول خدا(ص)۔ حمزہ سیدالشہداء ذوالجناحین(ع)، فاطمہ(س)، حسن(ع)، حسین(ع) اور مہدی(ع)۔

۱۵ـ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں میں نے جناب رسول خدا(ص) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ میں اولاد آدم(ع) کا سردار ہوں اور اے علی(ع) تم اور تمہارے بعد تمہارے امام(ع) میری امت کے سردار ہیں جو کوئی ہمیں دوست رکھتا ہے خدا کو دوست رکھتا ہے اور جو کوئی ہمیں دشمن رکھتا ہے خدا کو دشمن رکھتا ہے جو کوئی ہماری ولایت کے ساتھ ہے وہ خدا کیولایت کے ساتھ ہے جو کوئی ہمارے فرمان پر عمل کرے اس نے خدا کے فرمان جپر عمل کیا اور جو کوئی ہماری نافرمانی کرے اس نے خدا کی نافرمانی کی۔

۱۶ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو میرے رب نے مجھے علی(ع) کے بارے میں تین کلمات وصیت کیے، میرے رب نے فرمایا اے محمد(ص) میں نے کہا” لبیک ربی“ ارشاد ہوا (۱) علی(ع) متقیوں کا امام ہے (۱۱) سفید چہروں اور ہاتھوں والوں کا پیشوا ہے۔ (۱۱۱) اور مومنین کا سردار ہے۔

۱۷ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا صدیق تین ہیں۔

۱:۔ حبیب نجار جو مومن آل یاسین(ع) ہیں کہتے ہیں کہ رسولوں اور اس بندے کی پیروی کرو جوتم سے اس کی جزا نہیں چاہتا اور رہبر ہے۔۲:۔ حزقیل(ع) جو مومن آل عمران(ع) ہیں۔۳:۔ اور علی بن ابی طالب(ع) جو سب سے بہتر ہیں۔

۴۳۸

۱۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نےفرمایا محبوب ترین میرا خاندان(ع) ہے اور برترین وہ بندہ علی بن ابی طالب(ع) ہے جو میرے بعد ہے۔

۱۹ـ          جناب سلمان فارسی(رح) فرماتے ہیں کہ جب رسول خدا(ص) کی رحلت کا وقت قریب آیا تو میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ(ص) نے فرمایا علی بن ابی طالب(ع) بہترین بندہ ہے میں اسے اپنے بعد اپنی جگہ پر مقرر کرتا ہوں۔

۲۰ـ          سلمان فارسی(رح) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا(ص) کو فرماتے سنا کہ اے گروہ مہاجرین و اںصار کیا میں تمہیں اس چیز کی راہنمائی نہ کردوں کہ اگر اس سے متمسک رہو گے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے وہ کہنے لگے کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) ، آپ(ص) نے  فرمایا یہ میرا بھائی علی(ع) میرا وزیر میرا خلیفہ میرا وارث اور تمہارا امام ہے اسے میری خاطر دوست و گرامی رکھو یہ حکم مجھے جبرائیل(ع) نے دیا ہے تاکہ میں اسے تم تک پہنچا سکوں۔

۲۱ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے لوگو کیا میں تمہیں راہنمائی نہ کروں کہ میرے بعد اگر اس دلیل کو سمجھوگے تو ہلاک اوور گمراہ نہیں ہوگے کہنے لگے کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) ، آپ(ص) نے ارشاد فرمایا تمہارا امام اور تمہارا ولی علی بن ابی طالب(ع) ہے اس کے پیچھے رہو اور اس کے خیر خواہ رہو اور اس کی تصدیق کرو کہ یہ حکم مجھے جبرائیل(ع) نے دیا ہے۔

۲۲ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے لوگو خدا نے مجھے علی(ع) کے بارے میں وصیت کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ تم سے بیان کروں سنو غور سے سنو، وہ کہنے لگے ہم غور سے سن رہے ہیں آپ(ص) نے ارشاد فرمایا بیشک علی(ع) پرچم ہدایت اور میرے دوستوں کا پیشوا ہے جو کوئی میری اطاعت کرے اس کے لیے نور ہے اور کلمہء متقین اسی سے ملتا ہے جو کوئی اسے دوست رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے جو کوئی اس کے فرمان کو مانتا ہے وہ ایسا کہ جیسے اس نےمیرے فرمان کو مانا ہے۔

۲۳ـ         امام محمد باقر(ع) نے حدیثِ طولانی کے ضمن میں فرمایا کہ جب خدا اپنے پیغمبر(ص) کو معراج پر لے گیا تو ارشاد فرمایا اے محمد(ص) تمہاری پیغمبری کی مدت اختتام کے قریب ہے یہ تمہاری عمر کا آخری حصہ ہے کیا تم نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین بنایا ہے جناب رسول خدا(ص) نے عرض کیا پالنے

۴۳۹

والے میں نے تیری مخلوق کا امتحان لیا مگر کسی کو تیری اطاعت میں علی(ع) سے زیادہ اپنا مطیع نہیں پایا، خدا نے ارشاد فرمایا وہ میرا بھی ایسا ہی مطیع ہے اسے آگاہ کردو کہ وہ میری راہ ہدایت کا نشان ہے اورمیرے دوستوں کا پیشوا ہے وہ ایک نور ہے جو میرے فرمان پر چلتا ہے۔

۲۴ـ         حضرت عمر(رض) سے روایت ہےکہ جب رسول خدا(ص) کی رحلت کے بعد لوگ کتاب وسنت سے پھر گئے تو میں نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو علی بن ابی طالب(ع) سے زیادہ صالح ہو۔

۲۵ـ ابوصادق(ع) فرماتے ہیں کہ جناب امیرالمومنین(ع) علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا یہ آیت قربانی کہ ” اورع ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں“ ( قصص ، ۵) ہمارے ہی بارے میں اور ہمارے ہی لیے نازل ہوئی ہے۔

۲۶ـ          جناب رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ جس شب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا” اے محمد(ص) “ میں نے عرض کیا” لبیک پروردگار“ ارشاد ہوا تیرے بعد میری خلق پر میری حجت اور امام، علی(ع) ہے جس کسی نے اس کےفرمان پر عمل کیا اس نے میرے فرمان پر عمل کیا اورجس کسی نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اسے اپنی امت کا امام بناؤ تمہارے بعد اسی کے ذریعے راہبری ہوگی۔

۴۴۰