مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)9%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 307049 / ڈاؤنلوڈ: 7990
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

جناب سلمان(رض) کا زندگی بھر کا روزہ

۵ـ          ابو بصیر کہتے ہیں  میں نے امام صادق(ع) سے سنا کہ انہوں نے اپنے آباؤ(ع) سے روایت کیا کہ ایک دن رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا۔ تم میں کون ہے جو تمام عمر روزہ رکھتا ہو سلمان نے عرض کیا میں ہوں یا رسول اﷲ(ص) پھر فرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ سے شب زندہ دار ( راتوں کو جاگ کے عبادت کرتا) ہے سلمان(رض) نے کہا میں ہوں یا رسول اﷲ(ص)  پھر فرمایا تم میں سے کون ہے۔ جو ہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہو سلمان نے عرض کیا میں ہوں یا رسول اﷲ(ص) ایک صحابی نے اس بات سے غصہ کیا اور کہا یا رسول اﷲ(ص) یہ سلمان جو فارسی(عجمی) ہے چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے آپ(ص) نے فرمایا ہے کہ تم میں کون ہے جو اپنی عمر بھر کا روزہ رکھے ہوتے ہیں میں نے اسے اکثر دن کے وقت دیکھا ہے کہ روزے سے نہ تھا  کھاناکھاتا تھا پھر آپ(ص) نے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو عمر بھر سے شب زندہ دار ہے میں نے اسے اکثر دیکھا کہ راتوں کو سویا ہوتا ہے پھر آپ(ص) نے فرمایا تم میں سے کون ہے جو ہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے جبکہ میں نے اکثر دیکھا کہ اس نے دن میں تلاوت نہیں کی پیغمبر(ص) نے فرمایا خاموش ہو جاؤ۔ تمہیں کیا معلوم کہ لقمان حکیم کی منزلت کیا ہے۔ سلمان کی مثال لقمان جیسی ہے۔ تم اپنے سوالات خود سلمان(رض) سے پوچھ لو۔اس شخص نےسلمان(رض) سے کہا اے ابو عبداﷲ کیا تم نے نہیں کہا کہ تم عمر بھر سے روزہ رکھے ہوئے ہو۔ جناب سلمان نے فرمایا درست ہے مگر جس طرح تو نے گمان کیا ہے ویسے نہیں میں ہر ماہ تین دن روزہ رکھتا ہوں۔ اور خدا فرماتا ہے جوکوئی ایک نیکی کرتا ہے میں اس کو دس گنا ثواب عطا کرتا ہوں۔ مزید نہ کہ میں ماہ شعبان کے بھی روزرے رکھتا ہوں اور ماہ رمضان سے اس کو ملا دیتا ہوں اور یہ  روزے پوری زندگی کے روزے بنتے ہیں اس شخص نے کہا کہ اے سلمان کیا تو یہ دعوی نہیں کرتا کہ تمام رات عبادت میں مشغول رہتا ہے جناب سلمان(رض) نے فرمایا ہاں مگر جیسے تو قیاس کررہا ہے ویسے نہیں۔ میں رسول خدا(ص) کا دوست ہوں اور میں نے ان سے یہ سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے اس نے گویا تمام رات عبادت میں گزاری اور ہمیشہ با وضو سوتا ہوں۔ اس شخص نے کہا اے سلمان کیا تو یہ نہیں کہتا کہ میں روزانہ ایک

۴۱

 قرآن ختم کرتا ہوں جنابِ سلمان نے فرمایا کیوں نہیں مگر جس طرح تو سوچ رہاہے اس طرح نہیں میں نے اپنے دوست رسول خدا(ص) کو علی(ع) سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” اے علی (ع) تیری مثال اس امت میں قل ہو اﷲ کی طرح ہے جوکوئی اسے ایک مرتبہ پڑھے گویا اس  نے قرآن کا ایک ثلث پڑھا جو دو مرتبہ پڑھے اس نے دو تہائی قرآن پڑھا اور جو تین دفعہ پڑھے گویا اس نے تمام قرآن ختم کیا۔ اے ابوالحسن(ع) جو شخص تہمیںزبان سے دوست رکھتا ہے اسے دو تہائی ایمان ملتاہے اور جو شخص دل و زبان سے تمہیں دوست رکھے اوراپنے ہاتھوں سے تیری مدد کرے۔اس کا ایمان کامل ہوتا ہے۔ اے علی(ع) مجھے اس خدا کیقسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اگر حاملانِ زمین بھی تمہیں اسی طرح دوست رکھتے جس طرح عرش والے رکھتے ہیں تو خدا کسی کو جہنم میں نہ ڈالتا“ لہذا اے بندے میں ( سلمان) ہر روز تین بار قل ہو اﷲ پڑھتا ہوں اور علی(ع) کو ہر طرح سے دوست رکھتا ہوں۔ یہ سن کر اعتراض کرنے والا ایسے خاموش ہوگیا۔ جیسے اس کے منہ میں پتھر بھر گیا ہو۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء سے روایت کیا کہ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا۔ فقہاء اور حکما کا یہ طریقہ رہا ہے ک اپنی نگارشات کے لیے تین چیزوں کے علاوہ کچھ نہ لکھتے تھے۔

۱ـ           جو کوئی خود کو اپنی آخرت کے لیے وقف کردے تو خدا بھی دنیا میں اس کی کفالت کرے گا۔

۲ـ           جو کوئی اپنے وطن کی اصلاح کرتے تو خدا اس کے ظاہر کی اصلاح کرے گا۔

۳ـ          جو کوئی اپنے اور خدا کے درمیان اصلاح کرے گا تو خدا اس کے اورخلق کے درمیان اصلاح کرے گا۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا موت کے بعد اجر کسی کے پیچھے نہیں جاتا مگر یہ کہ تین عمل کیئے ہوں۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲) ہدایت کا طریقہ اپنایا ہو اور اس کی موت کے بعد اس پر عمل ہورہا ہو۔(۳) فرزند صالح جو کہ اس کے لیے مغفرت طلب کرتا ہو۔

۸ـ          ابوالحسن اسدی کہتے ہیں امام صادق(ع) نے مجھے خبر دی ہے کہ خدا کےہاں ایک جگہ ہے جس کا نام متقمہ ہے جہاں مرنے کے بعد اس شخص کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جس کو خدا مال و دولت دے

۴۲

 اور وہ اس مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ روک لے۔

جناب علی(ع) کی فضیلت

۹ـ           نعمان بن سعد کہتے ہیں امیرالمومنین (ع) نے فرمایا میں حجت اﷲ ، خلیفہ اﷲ، باب اﷲ ہوں میں خزانہ دار علم خدا ہوں اور میں امین راز ہوں میں امام خلق ہوں اور نبی رحمت (ص) کے بعد بہترین بندہ ہوں۔

۱۰ـ          امیرالمومنین(ع) نے فرمایا میں مسجد قبا میں خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوا تو کچھ اصحاب آپ(ص) کے پاس بیٹھے تھے جب آپ(ص) نے مجھے دیکھا تو آپ(ص) کا چہرہ خوشی سے تاباںہوگیا اور آپ(ص) کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی آپ(ص) کےدانتوںکی سفیدی مثل برق نظر آتی تھی پھر آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) میرے نزدیک تشریف لاؤ پھر مجھے اس  قدر نزدیک کیا کہ میری ران آپ کی ران سے مس ہوگئی پھر اپنے اصحاب کی طرف چہرہ کر کے فرمایا اے میرے اصحاب میرے بھائی علی(ع) کا اس وقت یہاں آنا ایسا ہے جیسے رحمت خداوندی نے ادھر رخ کیا ہے بیشک علی(ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں اس کی جان میری جان سے ہے اس کی طینت میری طینت سے ہے یہ میرا بھائی اور میرا وصی وخلیفہ ہے میری زندگی میں بھی اور میری موت کے بعد بھی لہذا جو کوئی اس کا حکم مانے اس نے میرا حکم مانا جو اس سے موافقت کرے اس نےمجھ سے موافقت کی اور جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی۔

۱۱ـ           ابن عباس کہتے ہیںکہ رسول خدا(ص) نےفرمایا۔جو  کوئی خواہش رکھتا ہو کہ میری زندگی کی مانند زندگی گزارے (ایمان کامل کے ساتھ) اور جب موت آئے تو میری موت کی مانند اور جنت عدن میں میرے مقام پر آئے ( میرا ہمسایہ ہو) تو اسے چاہئے کہ خدا کی قضاء کے ساتھ تمسک رکھے علی ابن ابی طالب(ع) کو دوست رکھے اور اس کے فرزندوں (ائمہ(ع)) اور اس کے اوصیاء کی پیروی کرئے کیونکہ وہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے پیدا کیئے گئے ہیں۔ میں ان کے دشمنوں کی شکایت خدا سے کرتا ہوں۔ کیوں کہ وہ ان (ائمہ(ع)) کے منکر ہیں اور ان (ائمہ(ع)) سے صلہ رحمی نہیں کرتے خدا کی قسم میرے کے بعد میرا فرزند حسین(ع) شہید کیا جائے گا اور خدا اس کے قاتلوں سے میری شفاعت کو ہٹائے ہوئے ہے۔

۴۳

مجلس نمبر۱۰

( بیس شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جب آدمی چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو خدا اپنےفرشتوں کو وحی کرتا ہے کہ میں نے اپنے اس بندے کو جو یہ عمر دی ہے اس نے مشکل سے گزاری ہے۔ اس کا خیال رکھو اور اس کے تمام چھوٹے بڑے اعمال درج کرتے رہو امام صادق(ع) سے جب اس آیت کی تفسیر کا پوچھا  گیا کہ ” آیا میں نے تم کو عمر نہ دی تھی کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور متذکر رہو“ ( فاطر، ۳۱) تو آپ نے فرمایا سرزنش بالغ کے لیے ہے۔

۲ـ           خالد قلانسی کہتے ہیں۔ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب کسی بوڑھے آدمی کو روز قیامت حساب کے لیے لایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال کہ جس کاظاہر بدی کے سوا کچھ نہ ہوگا دیا جائے گا تو وہ شخص ناگواری محسوس کرے گا اور فریاد کرے گا کہ اے خدا میرے اس نامہ اعمال کی وجہ سے مجھے دوزخ میں جلد بھیج تاکہ میں یہاں سے جلد فارغ ہوجاؤں تب خداوند عالم اس پر رحم کرے گا اور کہے گا کہ اے بوڑھے شخص میں تیری نمازوں کی وجہ سے تجھے معاف کرتا ہوں اور حکم دے گا کہ اس کو بہشت میں لے جاؤ۔

۳ـ          انس بن مالک کہتے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا ایسا مومن جب مرجائے کہ جس کے علم کی باتیں ایک ورق پر لکھی ہوں تو وہ کاغذ روز قیامت اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک پردہ کی طرح حائل ہوجائے گا۔ اور خدا اس کے لکھے ہوئے ورق کے ایک لفظ کے بدلے اس کا ایک شہر عطا کرے گا جس کی وسعت سات دنیاؤں کے برابر ہوگی اور جو مومن ایک ساعت کے لیے کسی عالم کے پاس بیٹھ کر فیض پائے گا تو اس  کا پروردگار اسے ندا دے گا کہ اے فلاں تم میرے حبیب(ص) کے پاس جاکر بیٹھو مجھے میرے عزت و جلال کی قسم تجھے اس کے ساتھ بہشت میں ساکن کروںگا  اور یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں۔

۴ـ          یونس بن ظبیان کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا، لوگ تین وجوہات کی بنا پر خدا کی

۴۴

 عبادت کرتےہیں۔ (اول) ایک طبقہ رغبتِ ثواب کی خاطر عبادت کرتا ہے اور یہ عبادت لالچ کی عبادت ہے۔ (دویم) طمع کے لالچ میں یعنی جنت کے لیے اور یہ تجارتی عبادت ہے (سوئم) دوزخ کے خوف کی عبادت ہے۔ مگر میں اس کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کہ وہ لائق عبادت ہے یہ عبادت کریمانہ عبادت ہے۔ اور قول خدا یہ ہے کہ ” اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تم سے محبت کرے تو تم  اس کی پیروی کرو وہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا۔“ اور جو کوئی بھی خدا سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اس کا جواب اسی طرح دیتا ہے اور جان لو کہ جس سے خدا محبت کرتا ہے وی امن میں ہے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نےفرمایا کہ مومن کے لیے خداکی یہی مدد کافی ےکہ جب بھی وہ (مومن) اپنے دشمن کو دیکھتا ہے تو اس کو خدا کی نافرمانی میں مصروف پاتا ہے۔

۶ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نےفرمایا میں رسول خدا(ص) کا خلیفہ ہوں ان کا وزیر اور ان کا وارث ہوںمیں رسول خدا(ص) کا بھائی ان کا وصی اور ان کا حبیب ہوں میں رسول اﷲ(ص) کا برگزیدہ نفس ہوں میں رسول خدا(ص) کا چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کا شوہر ان کے فرزندوں کا باپ ہوں میں سید اوصاء ہوں اور وصی سید انبیاء(ص) ہوں میں حجت عظمی و آیت کبری و مثل بابِ پیغمبر مصطفی ہوں میں عروة الوثقی اور کلمة تقوی ہوں میں امین خدا اور اہل دنیا پ رحجت خدا ہوں۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جب فاسق اپنےفسق کو ظاہر کرے دے تو پھر اس کی کوئی حرمت نہیں اور نہ ہی اس کی غیبت ہے۔ (یعنی اس فاسق کے فسق کے بارے گفتگو غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گی)۔

۸ـ          طلحہ بن زید کہتے ہیں امام صادق(ع) نے اپنے آباء سے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نےفرمایا کہ جبرائیل خدائے جلیل کی طرف سے میرے پاس آئے اور کہا اےمحمد خدا جل جلالہ تم کو سلام کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اپنے بھائی علی(ع) کو خوشخبری دے دو کہ جو کوئی اس کو دوست رکھتا ہے ین اس کو عذاب نہ دوں گا اور جو کوئی اس کو دشمن رکھتا ہے میں اس پر رحم نہیں کروں گا۔

۹ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا روزِ قیامت جب تک بندہ ان چار سوالات کے جوابات نہ دے

۴۵

 گا اس وقت تک وہ اپنے قدم نہیں اٹھائے گا (۱) عمر کے متعلق کہ اس کو کہاں فنا کیا۔(۲) جوانی کے متعلق کہ یہ کیسے گزاری (۳) مال کے متعلق کہ کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا (۴) اور محبت اہل بیت(ع) کے متعلق پوچھا جائے گا۔

۱۰ـ          حضرت عائشہ کہتی ہیں میں رسول خدا(ص) کے پاس تھی کہ علی ابن ابی طالب(ع) آئے اور آںحضرت(ص) نے فرمایا یہ عرب کا سید ہے میں نے کہا  آپ عرب کے سید نہیں ہیں؟ فرمایا میں سید اولادِ آدم ہوں اور علی(ع) سید عرب ہے میں (عائشہ) نے کہا کہ آپ کی اس جگہ سید کیا مراد ہے تو آپ(ص) نے فرمایا کہ جس طرح میری فرض ہے کہ اسی طرح اس کی اطاعت بھی فرض ہے۔

۱۱ـ           معمر کہتے ہیں میں امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ زید ” زید علی(ع) بن حسین(ع) آئے اور لکڑی کے دروازے کے دونوں پٹ پکڑ کر کھڑے ہوگئے امام صادق(ع) نےفرمایا ۔میرے چچا میں تجھے خدا کی پناہ میں دیتا ہوں کہ تمہیں اسی دار پر لٹکایا جائے گا زید کی ماں نے ان سے کہا خدا کی قسم تیری اس بات میں حسد ہے جو تونے میرے بیٹے کےبارے میں کہی ہے۔ امام صادق(ع) نے فرمایا کاش حسد ہوتا کاش حسد ہوتا کاش حسد ہوتا پھر فرمایا میرے والد(ع) نے میرے دادا(ع) سے یہ روایت کی ہے کہ ان کی اولاد سے زید نامی خروج کرے گا کوفہ میں قتل ہوگا اور دار پر لٹکایا جائے گا اسے قبر سے نکال لیا جائے گا اور اس کی روح کےلیے آسمان کے دروازے کھل جائیں گے اہل آسمان اس سے خوش ہوجائیں گے اور اس کی  روح کو جنت کے ایک طائر ( پرندے) میں ڈال دیا جائے گا تاکہ بہشت میں ہر جگہ آزادنہ آجاسکے۔

۱۲ـ          جابر جعفی کہتے ہیں کہ میں ابو جعفر محمد بن علی(ع) کی خدمت میں حاضر ہوتو آپ کا بھائی زید(رح) آپ کی خدمت میں موجود تھا پھر معروف بن خربوز مکی بھی وہاں حاضر ہو امام پنجم ابوجعفر(ع) نے فرمایا اے معروف جو شعر تمہارے پاس ہیں انہیں میرے لیے بیان کرو تو معروف نے یہ قطعہ بیان کیا۔

ابو مالک تیری جان ناتواں نہیں ہے۔ ضعیفی و سستی دوسروں کی طرح نہیں ہے اس کے

۴۶

 قول میں عناد نہیں ہے۔ اس کی حکمت سے دشمنی نہ کر جب وہ منع کردے ۔ لیکن وہ سید بارک ہے بلند طبیعت رکھنے والا اور شیرین خرد، وہ حاکم ہے اس کا فرمان تیرے لیے ہے۔ وہ تیرے ہر کام میں کفایت کرتا ہے۔ محمد بن علی(ع) نے اپنا ہاتھ زید(رح) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا اے ابوالحسن(ع) یہ صفت تیرے لیے ہے۔

۴۷

مجلس نمبر۱۱

(ماہ رمضان سے ایک ہفتہ قبل سنہ۳۶۷ھ)

استقبال رمضان

۱ـ           ابو جعفر امام محمد باقر(ع) نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے شعبان کے آخری جمعہ میں لوگوں کو خطبہ دیا۔ خدا کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا اے لوگو! ایک ایسا مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے جس کی ایک رات شب قدر ہے اور وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے وہ مہینہ رمضان ہے اور خدا نے اس کے روزوں کو تم پر فرض کیا ہے اس کی رات کے نوافل کو مستحب بنایا ہے اس مہینہ کی ایک رات کے نوافل کا ثواب باقی مہینوں کی ستر راتوں کے برابر ہے۔

جو اس مہینہ میں اپنی خوشی سے مستحب اعمال کرے گا تو گویا اس نے اﷲ کے فرائض میں سے کوئی فرض انجام دیا ہے اور جو کوئی اس ماہ میں کا ایک فرض ادا کرے گا تو گویا اس نے دوسرے مہینے کے ستر فرائض ادا کیئے ہیں یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا بہشت ہے یہ ہمدردی کا مہینہ ہے اور اس ماہ اﷲ مومن کا رزق اضافہ کرتا ہے جو شخص اس ماہ میں کسی مومن روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا تو خدا کے نزدیک اس کا ثواب ایسا ہے کہ جیسے اس نے ایک غلام آزاد کی اہو اس کے گذشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں آںحضرت(ص)سے (صحابہ نے)عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ہم سب یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ روزہ دار کا روزہ افطار کرائیں تو آپ(ص) نے فرمایا اﷲ بڑا کریم ہے یہ تمام ثواب تم کو عطا کرے گا، جو افطاری کے لیے دودھ کے ایک گھونٹ سے زیادہ کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ اسی سے اس کا روزہ افطار کرادے یا میٹھے کا ایک گھونٹ یا کچھ کھجوریں ہی روزہ دار کو کھلا کر افطار کرادے توبھی وہ اس ثواب کا حق دار بن جائے گا اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے مملوک سے تھوڑا کام لے تو خدا روز قیامت اس کے حساب میں کمی کردے گا  یہ اﷲ کا مہینہ ہے اس مہینہ کی ابتداء رحمت اس کا درمیان مغفرت اس کا آخری حصہ قبولیت اور دوزخ سے آزادی ہے اس مہینے

۴۸

میں چار خصلتوں کے سوا تمہیں نجات نہیں مل سکتی دو کے ذریعہ سے اﷲ کو راضی کرو اور دو کے بغیر تمہارا گزارا نہیں ہوسکے گا جو دو چیزیں اﷲ کے راضی کرنے کا ذریعہ ہیں وہ یہ گواہی ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور بےشک میں اﷲ کا رسول(ص) ہوں اور وہ دو چیزیں کہ جن کےبغیرتمہارا گزارا نہیں یہ ہے کہ تم خدا سے اپنی حاجات اور جنت طلب کرو اور خدا سے مغفرت چاہو اور آتش جہنم سے پناہ مانگو۔

۲ـ           حمزہ بن محمد کہتےہیںامامحسن عسکری(ع) کو میں نے لکھا کہ خدا نے روزہ کیوں واجب کیا ہے انہوں نے جواب میںلکھا ” اس لیے  تاکہ امیر و توانگر بھوک کے درد کو چکھیں اور غریب و فقیری و درویش کو عطا کریں۔“

بہلول تائب کا قصہ

۳ـ          عبدالرحمن بن غنم دوسی کہتے ہیں کہ ایک دن معاذ بن جبل روتے ہوئے رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا آپ(ص) نے سلام کو جواب دیا اور پوچھا کہ  کس وجہ سے روے ہو معاذ عرض کرنےلگے میں نے ایک جوان جو نہایت خوبصورت ہے کو دیکھا جو دروازے پر کھڑا اپنی جوانی پر رو رہا ہے جیسے وہ ماں روتی ہے جس کا جوان بیٹا مرگیا ہو وہ آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے معاذ اس جوان کو میرے پاس لے آؤ۔ وہ اس کو لے کر  داخل ہوئے اس نے سلام کیا آپ(ص) نے جواب دیا اور پھر فرمایا اے جوان تو کس وجہ سے روتا ہے اس نے کہا میں ایسے گناہوں کا مرتکب ہوا ہوں کہ اگر خدا مجھے ان سے چند ایک پر بھی سزا دے تو یقینا مجھے جہنم میں ڈال دے گا اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ عنقریب خدا اس پر میرا مواخذہ کرے گا اور مجھے ہرگز معاف نہیں کرے گا رسول خدا(ص) نے فرمایا کیا کسی کو خدا کا شریک قرار دیا ہے اس نے کہا میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دوں آپ(ص) نے فرمایا کیا کسی ایسے شخص کو قتل کیا ہے جس کا قتل خدا نے حرام قرار دیا ہے کہا نہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ اگر تیرے گناہ اس زمین پر گڑے بلند پہاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں خدا معاف کردے گا اس جوان نے

۴۹

کہا میرے گناہ ان بلند پہاڑوں سے بھی بڑے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا اگر تیرے گناہ سات زمینوں، دریاؤں ریگستانوں اور درختوں اور جو کچھ ان میں مخلوقات ہیں کے برابر ہوں تو بھی خدا معاف کردے گا، اس نے کہا میرے گناہ ان تمام چیزوں سے بڑے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا اگر سات آسمانوں ستاروں اور عرش و کرسی کے برابر بھی تیرے گناہ ہوں تو تو خدا وہ بھی معاف کردے گا اس نےکہا میرے گناہ اس سے بھی بڑے ہیں رسول خدا(ص) نے غصے کی نظر سے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا اے جوان وائے ہو تم پر تیرے گناہ بڑے ہیں یا تیرا پروردگار وہ جوان سجدے میں گر گیا اور کہنے لگا میرا مالک اس بات سے منزہ و مبرا ہے کہ کوئی چیز اس سے بڑی ہو یقینا میرا پروردگار ہی بڑا ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا بڑے گناہوں کو خدا کے علاوہ کوئی معاف کرسکتا ہے؟ جوان نےکہا نہیں خدا کی قسم یا رسول اﷲ(ص)، رسول خدا(ص) نے فرمایا واے ہو تجھ پر اے جوان کیا تو کوئی ایک گناہ اپنے گناہوں سے مجھے بتا نہیں سکتا؟ کہا کیوں نہیں میں عرض کرتا ہوں، میں سات سال سے قبروں کو اکھاڑتا اور مردوں کو باہر نکال کے ان کےکفن اتار لیتا تھا ایک مرتبہ انصار کی ایک لڑکی نے وفات پائی اور جب وہ اسے دفن کرچکے اور واپس چلے گئے اور رات ہوگئی تو میں نے اس کی قبر کھو دی اس کو باہر نکالا اس کا کفن اتارا اور اسے برہنہ قبر کے کنارے چھوڑدیا جب واپس لوٹا تو شیطان نے مجھے وسوسہ ڈالا اور اس لڑکی کو میرے تخیلات میں مزین کیا اور کہا کہ کیا تم اس کے سفید جسم کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح حسین ہے میں واپس ہوا۔ اس کے ساتھ زنا کیا اور اسے وہیں چھوڑ کر چلا تو اچانک پیچھے سے یہ آواز سنائی دی” اے جوان وائے ہو تجھ پر قیامت کے دن جزا دینے والے کی طرف سے ان مردوں کے لشکر کے درمیان تو مجھے برہنہ چھوڑے جارہا ہے اور مجھے قبر سے باہر نکال کر میرا کفن لیے جارہا ہے اور مجھے اس حالت میں چھوڑے جارہا ہے کہ قیامت کے دن میں جنابت کے ساتھ اٹھوں گی وائے ہو تیری جوانی پر جہنم کی آگ سے“ یا رسول اﷲ(ص) اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میں کبھی بھی جنت کی بو نہیں سونگھوں گا یا رسول اﷲ(ص) میرے بارے میں آپ(ص) کی کیا رائے ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا اے بد کردار مجھ سے دور ہو جا میں ڈرتا ہوں کہیں تیری آگ میں میں نہ جل جاؤں کیونکہ تو جہنم کی آگ کے بہت قریب ہوچکا ہے کہ ابھی گرتا ہے آپ(ص) یہ فرماتے جا تے

۵۰

 اور ہاتھ سے دور ہونے کا اشارہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ آپ(ص) کےسامنے سے دور ہوگیا پھر اس نےکچھ توشہ لیا اور مدینہ کے پہاڑ کی طرف چلا گیا جہاں وہ عبادت کرتا تھا اور ٹاٹپ ہنے رہتا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ باندھے رہتا تھا اور کہتا تھا اے مالک اے میرے رب یہ تیرا بندہ بہلول ہے جس نے تیرے سامنے اپنے ہاتھ گردن سے باندھ رکھے ہیں۔ اے میرے رب تو مجھے پہچانتا ہے اور میرے گناہوں کو جانتا ہے اے میرے مالک میں پشیمان ہوں اور توبہ کرنے کے لیے تیرے پیغمبر(ص) کے پاس گیا انہوں نے مجھے اپنے دروازے سے دور کر دیا ہے۔ اورمیرے خوف کو بڑھا دیا ہے میں تجھے تیرے انام اورجلال و عظمت و سلطنت کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اپنی رحمت سے ناامید نہ کر اےمیرے رب میری دعا کو باطل قرار نہ دے اور مجھے اپنی شفقت سے مایوس نہ کر یہاں تک کہ چالیس شب و روز وہ یہی دعا کرتا رہا یہان تک کہ روتا رہا دررندے اور وحشی جانور بھی اس کے گریہ میں شامل ہوگئے جب چالیس شب و روز پورے ہوئے تو اس نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور کہنے لگا خدایا میرے معاملے میں تو نے کیا حکم صادر فرمایا ہے اگر میری دعا قبول کر لی ہے اور میری خطا معاف کردی ہے توپھر اپنے نبی(ص) کی طرف وحی نازل فرما کہ مجھے معلوم ہو اور اگر میری دعا قبول نہیں ہوئی اورمجھے معاف نہیں کرتا اور مجھے عذاب کرنا چاہتا ہے تو ایک آگ بھیج جو مجھے جلادے یا دنیا میں کسی عذاب میں مجھے مبتلا کردے جو روز قیامت کی رسوائی سے مجھے بچالے پس خدا نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور وہ لوگ جو کوئی برا فعل کرتے ہیں یعنی زنا یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں زنا سے بڑے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں جو کہ قبر کھود کر کفن چرانا ہے اور خدا کو یاد کرتے ہیں پس اپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں گناہوں کو اﷲ کے علاوہ کون بخش سکتا ہے۔“ (آل عمران، ۱۳۵)

پھر خدا نے فرمایا ۔ اے میرےحبیب(ص) میرا یہ بندہ تیرے پاس آیا تھا اور تونے اس کو اپنے دروازے سے لوٹا دیا۔ اگر یہ تیرے پاس نہ آتا تو کہاں جاتا۔ تب آپ(ص) نے کہا کہ اے خداوندا جو کچھ میں گزرا اس کا مجھے علم ہے خداوندا تو مجھے اس کی بازپرس سے محفوظ رکھ۔ تیرے اس بندے نے جو عمل کیا ( قبر کھود کرکفن چرانا) اسکی مغفرت تیری ہی ذات سے وابسطہ ہے۔ اور بہشت میں

۵۱

 جاری نہریں تیرے ہی حکم سے بطور انعام دی جاتی ہیں اور کیا خوب جزا ہے ان لوگوں کےلیے جو عملِ صالح کرتے ہیں لہذا جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو آپ(ص) خوش ہوئے اور مسکراتے ہوئے باہر نکلے اور اپنے صحابہ سے کہا تم میں سے کون ہے جو مجھے اس جوان کی طرف راہنمائی کرے ایک شخص جس کا نام معاذ تھا کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ(ص) مجھے خبر ملی ہے کہ وہ فلاں جگہ ہے رسول خدا(ص) اپنے اصحاب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے یہاں تک کہ اس پہاڑ کے نزدیک پہنچے اور اس کی تلاش میں پہاڑ کے اوپر گئے پھر اس جوان کو وہاں دیکھا کہ دو پتھروں کے درمیان کھڑا ہے اور اس نے اپنے ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھ رکھا ہے اور اس کا چہرہ سورج کی گرمی کی وجہ سے سیاہ ہوگیا ہے اس کی آنکھوں کی  پلکیں رو رو کر جھڑ چکی ہیں اور اسکے باوجود کہہ رہا ہے  اے میرے آقا تو نے مجھے کتنا اچھا خلق کیا  میرا چہرہ خوبصورت بنایا کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرے بارے میں تیرا کیا ارادہ ہے کیا تو مجھے آگ میں جلائے گا یا اپنی رحمت سے معاف کردے گا خدایا تو نے مجھ پر احسان کیا اور نعمت فراواں مجھے دی کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرا انجام کیا ہے بہشت یا دوزخ خدا یا میرا گناہ آسمانوں اور زمین سے بڑا ہےکرسی وعرشِ عظیم سے بڑا ہے اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تو میرے گناہوں کو معاف کردے گا یا انکی وجہ سے روز قیامت مجھے رسوا وذلیل کرے گا۔ وہ اس طرح مغفرت کرتا اور روتا تھا اور اپنے سر پر خاک ڈالتا تھا درندے اس کے پاس جمع تھے پرندے اس کے سر کے اوپر صف بستہ تھے اور اس کے رونے کی وجہ سے وہ سب روتے تھے رسول خدا(ص) اس کے قریب گئے اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سےکھولے اس کے سر سے خاک صاف کی اور ساتھ ساتھ فرماتے جاتے تھے اے بہلول تجھےبشارت ہوکہ تم جہنم سے خدا کے آزاد کردہ ہو پھر اپنے اصحاب سے فرمایا تم اپنے گناہوں کو تدارک اس طرح کیا کرو کہ جس طرح بہلول نے کیا ہے پھر جو کچھ خدا نے نازل کیا تھا اس کی تلاوت کی اور بہلول کو بہشت میں داخل ہونے کی بشارت دی۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے آباء(ع) سے نقل کیا کہ رسول خدا(ص) نے جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا اے  علی(ع) تیری منزلت میرے ساتھ ایسی ہے جیسے بیتہ اﷲ کی آدم(ع) سے تھی جیسے سام(ع) کی نوح(ع) کے ساتھ تھی جس طرح اسحق(ع) کی منزلت ابراہیم(ع) کےساتھ اور ہارون(ع) کی

۵۲

 منزلت موسی(ع) کے ساتھ تھی اور جیسی منزلتشمعون(ع)  کی عیسی(ع) کے ساتھ تھی سواے اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے اے علی(ع) تم میرے وصی و خلیفہ ہو جو کوئی تمہاری وصایت و خلافت کا منکر ہوگا وہ مجھ نہیں ہے اور میں اس سے نہیں ہوں میں روز قیامت اس کا دشمن ہوں گا اے علی(ع) تم فضل میںمیری تمام امت سے افضل ہو اور اسلام میںسب سے پہلے ہو سب سے زیادہ حلیم سب سے زیادہ بہاردر اور سب سے زیادہ سخی ہو اے علی(ع) میرے بعد تم امام ہو  امیر ہو صاحب امر، ہو اور سردار ہو، میرے وزیر ہو اور میری  امت میں تیرے مثل کوئینہیںاے علی(ع) تم جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے  والے ہو۔ تمہاری محبت نیک و فاجر کی پہچان کرواتی ہے۔ اچھوں اور بروں میں تمیز سکھاتی ہے۔نیک اور بد کی شناخت کرواتی ہے اسی سے مومن اور کافر جدا ہوتے ہیں۔ ( پہچانے جاتے ہیں)

۵۳

مجلس نمبر۱۲

( ماہ رمضان سے ۳ روز قبل سنہ۳۶۷ھ)

ماہ رمضان

۱ـ           جابر(رض) کہتے ہیں ابو جعفر محمد باقر(ع) نے فرمایا کہ جب رسول خدا(ص) ماہ رمضان کا چاند دیکھتے تو فورا اپنا چہرہ قبلہ رخ کر لیتے پھر یہ کہتے  خدایا اس نئے چاند کو امن و ایمان، سلامتی اسلام اور پوری عافیت اور وسعتِ رزق کے ساتھ ہم لوگوں پر طلوع فرما اور ہماری بیماریوں کو دور فرما، تالوت قرآن کی توفیق دے ، روزے اور نماز میں ہماری مدد فرما، خدایا ہم کو ماہ رمضان کی عبادت کے لیے صحیح و سلامت رکھ ہمیں شکوک و شبہات سے بچا اور ہم لوگوں کی عبادتوں کو قبول فرما تاکہ ماہ رمضان بحفاظت گزر جائے خدایا اس ماہ میں ہم لوگوں کی مغفرت فرما، پھر اپنا چہرہ لوگوں  کی طرف کرتے اور فرماتے اے گروہ مسلمین جب ہلال رمضان طلوع ہوتا ہے تو سرکش و نافرمان شیطان کو قید کردیا جاتا ہے اور آسمان وبہشت اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں دعائیں  مستجاب ہوتی ہیں اور اﷲ کے لیے یہ لازم ہوتا ہے کہ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کردے۔ ماہ رمضان کی ہر شب کو منادی ندا دیتا ہے کہ کیا کوئی ایسا خواہش مند ہے جو وہ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور توبہ کرے اے اﷲ! ہر راہ خدا میں خرچ کرنے والے کو دنیا و آخرت میں اس کا اجر دے اور ہر ممسک اور بخیل کو تلف کردے اور جب ماہ شوال کا ہلال طلوع ہوتا ہے تو مومنین کو ندا دی جاتی ہے کہ کل آنے والے دن میں اپنے انعامات لینے کو چلو اور کل آنے والا دن انعام کی تقسیم کا دن ہے پھر امام باقر(ع) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ انعام درہم و دینار یا سونے چاندی کی شکل میں نہیں ہوتا۔

۵۴

ثوابِ ماہِ رمضان

۲ـ           سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ اس آدمی کے لیے کیا ثواب ہے جو ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اس کے حق کو پہچانتا ہو انہوں نے کہا اے ابن جبیر تیار ہو جاؤ تاکہ تمہیں ایسی حدیث سناؤں جو تیرے کان نے کبھی نہ سنی اور نہ ہی تیرے دل میں گزری ہے جو تم نےمجھ سے پوچھا ہے یہ علم اولین اور علم آخرین ہے سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں اس وقت ان کے پاس سے چلا گیا اور خود کو دوسرے دن کے لیے آمادہ کیا جب صبح کی سفیدی ظاہر ہوئی تو میں ان کے پاس گیا اور صبح کی نماز ان کے ساتھ ادا کی پھر اس حدیث کےمتعلق ان سے دریافت کیا انہوں نے میرے طرف رخ کیا اور کہا سنو جو بیان کرتا ہوں میں نے اسے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ اگر تم یہ جان لو کہ ماہ رمضان میں ہمارے لیے کیا کچھ موجود  ہے اﷲ تعالی کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے ( ماہ رمضان کے روزوں کا ثواب اس طرح ہے جو جنابِ رسول خدا(ص) کی زبان مبارک سے بیان ہوا ہے۔)

پہلے دن:       خدا میری امت کے تمام گناہوں کو جو ظاہر اور پوشیدہ ہوں معاف کردے گا اور تمہارے لیے ہزار درجات بلند کرے گا اور پچاس شہر تمہارے لیے بنائے گا۔ ( بہشت میں)۔

دوسرے دن: جو کوئی بھی اس دن ایک قدم اٹھا کر دوسری جگہ رکھتا ہے توخدا ایک سال کی عبادت، ایک پیغمبر کے اعمال کو ثواب اور ایک سال کے روزوں کا اجر اس کےلیے لکھتا ہے۔

تیسرے دن: انسان کے بدن کے جتنے بھی بال ہیں ان کےبرابر فردوس میں اس کے لیے (گنبد) قبے بناتا ہے سفید درسے کہ اس کے دروازے بارہ پزار اور اس کے نشیب میں بارہ ہزار گھر نور کے تم کو عطا  کرے گا کہ ہر گھر میں ہزار تخت ہو گے اور ہر تخت پر حوریہ ہوگی اور ہر روز ہزار فرشتے تمہارے پاس آئیں گے اور ہر فرشتے کے پاس تمہارے لیے ہدیہ ہوگا۔

چوتھے دن:                 خدا تجھے بہشتِ خلد میں ستر ہزار قصر دے گا ہر قصر میں ستر ہزار گھر ہوں گے اور ہر گھر میں پچاس ہزار تخت ہوں گے ہر تخت پر حور ہوگی اور ہرحور کے سامنے ایک ہزار کنیزیں

۵۵

 ہوںگی کہ ہر کنیز تمام دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ہے بہتر ہے۔

پانچوان دن :               خدا تجھے جنت ماوی میں ایک لاکھ شہر دے گا کہ ہر شہر میں ستر ہزار گھر ہوںگے ہر گھر میں ستر ہزار خوان ہوں گے ہر خوان پر سترہزار کاسے ہوں گے اور اس میں ساٹھ ہزار مختلف رنگ کی خوراک ہوگی۔

چھٹے دن :         خدا تجھے دارالسلام میں سو ہزار(ایک لاکھ) شہر دے گا کہ ہر شہر میں سو ہزار گھر ہوں گے ہر گھر میںسو ہزار تخت سونے کے کہ جن کا طول ہزار ذراع کا ہوگا اور ہر تخت پر حورالعین سے ایک عورت ہوگی کہ اس کے تیس ہزار گیسو ہوں گے جو یاقوت کے ہوں گے اور ہر گیسو کو سو زہرار کنیز اٹھائے ہوگی۔

ساتویں دن :              خدا جنت نعیم میں چالیس ہزار شہدا اور چالیس ہزار صادقین کا ثواب عطا کرے گا۔

آٹھویں دن :           خدا تجھے تیرے عمل کا بدلہ ساٹھ ہزار عابدوں اور ساٹھ ہزار زاہدوں کے برابر دے گا۔

نویں دن :                 خدا تجھے ہزار متکف اور ہزار مرابط کے برابر ثواب عطا کرے گا۔

دسویں دن :               خدا تمہاری ستر ہزار حاجتیں پوری کرے گا اور سورج ، چاند ستارے،جاندار، پرندے، پتھر، خشک و تر، دریا کی مچھلیاں، درختوں کے پتے اور خدا کی کتابیں تمہارے لیے مغفرت طلب کریں گے۔

گیارہویں دن :    چار حج و عمرہ جیسا کہ ہر حج پیغمبر(ص)  کے ساتھ ادا کیا گیا ہو اور ہر عمرہ جو کسی صدیق ساتھ یا شہید کے ساتھ انجام دیا گیا ہوگا۔ کا ثواب خدا تمہیں عطا کرے گا۔

بارہویں دن :      خدا تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا اور ہر نیکی کے بدلے ہزار نیکیاں لکھے گا۔

تیرہویں دن :           خدا تجھے اہل مکہ و مدینہ کے ثواب عطا کرے گا اور ہر پھتر اور مٹی کا ڈھیلہ جو مکہ اور مدنینہ کے درمیان ہے کی شفاعت کا حق تجھے دے گا۔

۵۶

جودہویں دن :     گویا اس نے آدم(ع) و نوح(ع) و ابراہیم(ع) و موسی(ع)، حضرت داؤد(ع) اور حضرت سلیمان(ع) کو دیکھا ہے یہاں تک کہ گویا اس نے ہر پیغمبر کے ساتھ دو سوسال خدا کی عبادت کی ہے۔ کا اجر عطا کرے گا۔

پندرہویں دن :    خدا تمہاری دنیا و آخرت کی حاجات پوری کرے گا اور تمہیں وہ کچھ عطا کرے گا جو کچھ اس نے حضرت ایوب(ع) کو عطا کیا، حاملین عرش تمہارے لیے مغفرت کریںگے اور خدا  روز قیامت تمہیں چالیس نور عطا کرے گا ک ہر سمت سے دس دس نور تمہیں ملیں گے۔

سولہویں دن :           اوع جس وقت تم قبر سے نکالے جاؤ گے تو خدا تم کےساٹھ حکے عطا کرے گا جو تمہیں پہنائے جائیں گے، تمہیں ناقہ پر سوار کیا جائے گا اور ایک بادل اس دن کی گرمی سے بچانے کے لیے تم پر سایہ فگن  ہوگا۔

سترہویں دن : خدا روزہ دار کو فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے اجداد کو معاف کیا اور روز قیامت کی سختیوں کو ان سے اٹھالیا ہے۔

اٹھارویں دن :        اﷲ تعالی جبرائیل(ع)، میکائیل(ع) و اسرافیل(ع) اور حاملین عرش و کربین کو حکم دیتا ہے کہ وہ امت  محمد(ص) کے لیے اگلے سال تک مغفرت طلب کرتے رہے اور اہل بدر کے ثواب کے برابر تمہیں عطا کرتا ہے۔

انیسویں دن :          کوئی فرشتہ زمینوں اور آسمانوں میں ایسا نہیں رہتا جو اﷲ تعالی کی اجازت سے ہر روز ہدیہ اور دودھ سے زیادہ سفید شربت لے کر تمہاری قبور کی زیارت کرنے نہ آتا ہو۔

بیسویں دن :          اﷲ تعالی ستر ہزار فرشتے بھیجتا ہے جو تمہاری ہر شیطان رجیم سے حفاظت کرتے ہیں خدا ہر دن کے بدلے میں سو سال کے روزوں کا ثواب تمہارے لیے لکھ دیتا ہے تمہارے اور آگ(جہنم) کے درمیان خندق کھود دیتا  ہے اور تجھے اس بندے کے برابر ثواب عطا کرتا ہے کہ جس نے توریت و انجیل و زبور و فرقان کی تلاوت کی ہو اور جبرائیل(ع) کے پروں کے برابر تیری عبادت کا ثواب دیتا ہے اور ثوابِ تسبیح عرش و کرسی تجھے دیتا ہے اﷲ تعالی قرآن مجید کی ہر آیت کے بدلے ہزار حوروں کے ساتھ تیری تزویج کرے  گا۔

۵۷

اکیسویں دن :           ہزار فرسخ اس کی قبر کو کشادہ کیا جائے گا ظلمت و وحشت اس سے ہٹادی جائے گی اور اس کی قبر شہدا کی قبر کی مانند کر دی جائے گی اور اس کے چہرہ کو یوسف بن یعقوب(ع) کے چہرے کی طرح کردیا جائے گا۔

بائیسویں دن :              ملک الموت کو بعثت انبیاء(ع) کی طرح بھیجا جائے گا اور تم سے منکر و نکیر اور آخرت کے عذاب کے خوف ہٹا دیا جائے گا۔

تیئسویں دن :              پیغمبروں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ تجھے پل صراط سے گزارا جائے گا اور تو اس طرح ہوگا کہ جیسے تونے میری امت کےکسی پیغمبر کو سیر کیا ہے اور میری امت کے ہر برہنہ کو لباس پہنایا ہے۔

چوبیسویں دن :    وہ شخص اس وقت تک دنیا سے نہ جائے گا جب تک کہ اپنے مقام کو بہشت میں آنکھوں سے نہ دیکھ لے اور ثواب ہزار بیمار کا اور ہزار غریب کا کہ جو راہ خدا میں غریب ہوتا ہے عطا کرے گا اور ایسا ثواب کہ جیسے اس نے ہزار غلاموں کو اولاد اسماعیل(ع) میں سے آزاد کیا ہے عطا کرے گا۔

پچیسویں دن :        خدا تمہارے لیے تحت العرش  میں ایک ایسی بنیاد بنائے گا جس کے ہزار گنبد ہوں گے اور ہر گنبد کے خیمہ کے کنارے نور ہوگا خدا فرمائے گا اے محمد(ص) کی امت میں ہی تمہارا پروردگار ہوں اور تم میرے بندے اور کنیزیں  ہو تم اس گنبد میں میرے عرش کے سائے میں رہو اور دودھ سے سفید کھانے کھاؤ اور شربت پیئو تم  پر کوئی خوف اور غم نہیں ہے اے امتِ محمد(ص) مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم میں تمہیں اسی طرح بہشت میں داخل کروں گا کہ جس طرح اولین اور آخریں کو کیا ہے۔ اور عجائب و غرائب میرے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے ۔ خدا ہر طرف سے تجھے ہزار تاج نور کے عطا کرے گا اور ہر طرف سے تجھے ناقہ پر سوار کیا جائے گا جو نور سے خلق ہو اور نور کی مہار رکھتا ہوگا اور اس مہار میں ہزار حلقے سونے کے ہوں گے اور ہر حلقے پر ایک فرشتہ ہوگا کہ  وہ نور کے عمود کو ہاتھ میں لیے ہوگا یہاں تک کہ بغیر حساب بہشت میں داخل ہوگا۔

چھبیسویں دن:     خدا اس کی طرف نظر رحمت کرے گا اور اس کے تمام گناہ سوائے قتل نفس

۵۸

اور مال کی برائی کے معاف کردے گا اور ہر روز کی ستر مرتبہ کی گئی غیبت و جھوٹ و بہتان سے اس کو پاک کردے گا۔

ستائیسویں دن :    تمام مومن مرد اور مومن عورتوں کی مدد کی جائے گا اور ستر ہزار برہنہ کو اس  کی طرف سے لباس پہنانے کا اجر دیا جائے اور ہزار مرابط کی خدمت کا اس کو ثواب ملے گا اور ہر وہ کتاب کہ جو خدا نے نازل کی ہے کے پڑھنے کا ثواب دے گا۔

اٹھائیسویں دن :       خدا تجھے بہشتِ خلد میں سو ہزار شہر نور کے عطا کرے گا اور جنت ماوی میں سو ہزار قصر چاندی کے عطا کرے گا اور جنت الفردوس میں سو ہزار شہر دے گا اور ہر شہر میں سو ہزار منبر مشک کے ہوں گے ہر منبر کے ہزار گھر زعفران سے بنے ہوں گے ہر گھر میں ہزار تخت در یاقوت کے بنے ہوں گے اور ہر تخت پر حور العین میں سے اس کی ہمسر(زوجہ) بیٹھی ہوگی۔

انتیسویں دن :         خدا ہزار ہزار محلے دے گا ہر محلہ میں سفید گنبد ہوگا اور ہر گنبد کا فور سفید سے بنا ہوگا اس تخت پر ہزار بستر سندس سبز کے ہوں گے اور ہر بستر پر حور ہوگی اور جو ستر ہزار حلے پہنے ہوگی اس کے سر پر اسی ہزار شقہ گیسو ہوں گے اور ہر شقہ درِ مکلل و یاقوت کا ہوگا۔

تیسویں دن :      خدا تمہارے لیے لکھے گا کہ جو دن تم سے گزر گیا ہے ۔ اس میں ہزار صدیقوں اور ہزار شہیدوں کا ثواب تمہارے لیے ہے اس ہر دن (ماہ رمضان) کے روزے کا ثواب دو ہزار دن کے برابر ہے یہ بندہ جس قدر چلا(میری طرف) یوں سمجھے کہ دریائے نیل پر چلا۔ اے شخص خدا تیرے درجات اس قدر بلند کرے گا کہ تیرے لیے دوزخ سے آزادی۔ عذاب سے امان اور پل صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ عطا کرے گا اور بہشت کا ایک دروازہ جس کا  نام ریان ہے۔ قیامت سے پہلے نہیں کھولا جائے گا مگر وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے روزے رکھے ہوں گے کے لیے یہ دروازہ کھول دیا جائے گا اور یہ مرد اور عورتیں میری امت سے ہوں گے۔ خازنِ بہشت”رضوان“ ندا دیں گے کہ اے امت محمد(ص) ریان کی طرف آؤ۔ اور میری امت اس دروازے سے بہشت میں داخل ہوگی اور جس کے ماہ رمضان میں گناہ معاف نہ ہوں تو اور کس مہینے میں معاف ہوں گے؟ کوئی طاقت خدا کے سوا نہیں ہے۔ ہمارے لیے خدا ہی کافی ہے۔ اور ہمارے

۵۹

لیے خدا کیسا بہترین وکیل ہے۔

(جناب شیخ صدوق(رح) نے اسی دن مجلس کے بعد مندرجہ ذیل حدیث کو بیان کیا)

۳ـ          جندب بن حنادہ(رح) جناب ابوذر(رح)) کہتے ہیں، میں نے جنابِ رسول خدا(ص) کو علی(ع) سے تین جملے کہتے ہوئے سنا۔ کہ اگر ان تین میں سے میرے لیے ایک بھی کہا ہوتا تو مجھے اس دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ہے سے زیادہ محبوب ہوتا۔ میں نے سنا رسول خدا(ص) نے فرمایا : اے خدایا میں تجھ سے اس (علی(ع)) کی مدد چاہتا ہوں، میں تجھ سے اس کی دوستی چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ تیرا بندہ اور تیرے رسول(ص) کا بھائی ہے۔

جنابِ ابوزر فرماتے ہیں کہ میں نے علی(ع) کی ولایت ، ان کے اخی ہونے اور ان کے وصی ہونےکی گواہی دیتا ہوں۔

کربذہ بن صالح ( راوری حدیث) نے ابوزر سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ سلیمان فارسی(رح)، مقداد(رح) عمار(رح) جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) ابو ہیتم تیھان(رح) خزیمہ بن ثابت(ذوالشہادتین(رح)) ابوایوب(رح) ( میزبان پیغمبر(ص)) اور ہاشم بن عتبہ مرقال(رض) نے بھی علی(ع) کے بارے یہی گواہی دی ہے اور یہ تمام بلند مرتبہ اصحاب رسول(ص) ہیں۔

والحمد ﷲ رب العالمين

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

برداشت کررہے تھے(۱)

امام علیہ السلام جب سفر کرتے کرتے ''الجزائر ''پہونچے تو '' تغلِب اور نمر'' کے قبیلے والوں نے امام علیہ السلام کا شاندار استقبال کیا۔

امام علیہ السلام نے اپنے تمام سپہ سالاروں میں سے صرف '' یزید قیس '' کو اجازت دیا کہ ان لوگوں کی لائی ہوئی غذا کو کھائے، کیونکہ وہ اسی قبیلے کا رہنے والا تھا۔

پھر امام علیہ السلام کا قافلہ '' رقّہ'' پہونچا اور فرات کے کنارے قیام کیا وہاں ایک راہب گوپھا گھر میں رہتا تھا جب اسے امام علیہ السلام کے آمد کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آیا اور کہا:مجھے اپنے آباؤ اجداد سے ایک صحیفہ وراثت میں ملا ہے جسے جناب عیسیٰ کے اصحاب نے لکھا ہے اور میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اُسے پڑھوں ، پھر اس نے اس صحیفے کو پڑھا ( جس کی عبارت یہ تھی)

'' شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو رحمٰن ورحیم ہے، وہ خدا جس نے گذشتہ زمانے کے تمام حالات کو معین کررکھا ہے اور لکھا ہے کہ ہم نے امیوں میں سے ایک کو اپنی پیغمبری کے لئے چنا ہے جو ان لوگوں کو قرآن و حکمت کی تعلیم دیتاہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتاہے اور لوگوں کے درمیان صدائے توحید بلند کرتاہے اور برے کو برائی سے سزا نہیں دیتا بلکہ معاف کردیتا ہے اس کے ماننے والے خدا کے مخلص اور فرماں بردار بندے ہیں جو عظیم منصبوں پر فائز ہونے اور زندگی کے نشیب وفراز پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں ، ہر وقت ان کی زبانوں پر تسبیح وتہلیل کی آواز رہتی ہے ، خدا اسے دشمنوں پر کامیابی عطا کرتاہے جس وقت خدا اسے (پیغمبر)اپنے پاس بلالے گا تو ان کی امت دوگرہوں میں تقسیم ہوجائے گی لیکن دو بارہ پھر متحد ہوجائے گی اور کچھ دنوں تک اسی حالت پر باقی رہے گی لیکن پھر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے گی، اس کی امت سے ایک شخص اس فرات کے کنارے سے گزرے گا وہ ایسا شخص ہے جو نیکیوں اور اچھائیوں کا حکم دیتاہے اور برائیوں سے روکتا ہے صحیح فیصلہ کرتاہے اور فیصلہ کرتے وقت رشوت اور اجرت نہیں لیتا،دنیا

______________________

(۱) نہج البلاغہ باب الحکم ، نمبر ۱۳۶۔وقعہ صفین ص۱۴۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۰۳

۵۴۱

اس کی نگاہوں میں اس گرد وغبار سے بھی بدترہے جسے تیز ہوا کے جھونکے اڑاتے ہیں اور موت اس کی نگاہوں میں پیاسے انسان کی پیاس بجھنے سے بھی زیادہ محبوب ہے تنہائی میں وہ خدا سے ڈرتاہے اور ظاہری طور پر خدا کامخلص ہوتاہے خدا کا حکم جاری کرنے میں برا کہنے والوں کی سرزنش سے نہیں ڈرتا ، جو شخص بھی اس علاقہ کا اس پیغمبر سے ملاقات کرے اس پر ایمان لائے اس کی جزا میری مرضی اور بہشت ہے اور جو شخص بھی خدا کے اس صالح بندے کو پالے اور اس کی مدد کرے اور اس کی راہ میں قتل کیا جائے تو اس کی راہ میں قتل ہونے والا شہید ہے...۔

جب راہب اس صحیفے کو پڑھ چکا توکہا، میں آپ کی خدمت میں ہوں اور کبھی بھی آپ سے دور نہیں ہوؤنگا تاکہ جو چیز آپ تک پہونچے وہ مجھ تک بھی پہونچے امام علیہ السلام یہ حالت دیکھ کر رونے لگے اور فرمایا: خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے بھولنے والوں میں قرار نہیں دیا ، اس خدا کی تعریف جس نے مجھے اچھے اور نیک لوگوں کی کتابوں میں یاد کیا۔

راہب اس وقت سے امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا اور جنگ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہوگیا امام علیہ السلام نے اس کے جنازے پر نماز پڑھی اور اسے دفن کیااور فرمایا '' ھذا منّا اھل البیت '' (یہ شخص ہمارے خاندان سے ہے ) اور اس کے بعد کئی مرتبہ اس کے لئے طلب مغفرت کیا۔(۱)

امام علیہ السلام کا رقّہ میں قیام

امام علیہ السلام نے مدائن سے روانہ ہونے سے پہلے اپنے تین ہزار فوجیوں کو معقل بن قیس کی سپہ سالاری میں رقّہ کی طرف روانہ کیا(۲) اور اسے حکم دیا کہ موصل پھر اس کے بعد نصیبین کی طرف جائے اور رقّہ کی سرزمین پر قیام کرئے اور وہاں پر امام سے ملاقات کرئے اور خود امام بھی دوسرے راستے سے رقّہ کے لئے روانہ ہوئے گویا اس گروہ کو اس راستے سے بھیجنے کا مقصد اس علاقے میں حاکم کی حکومت اور موقعیت کو ثابت کرنا تھا ، لہٰذا آپ نے لشکر کے سپہ سالاروں کو حکم دیاکہ کسی سے بھی جنگ نہ کریں اور اپنے سفر میں ان

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۴۸،۱۴۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۰۶، ۲۰۵

(۲) کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۴۴۔ تاریخ طبری ج۳، جزء ۵ ص ۲۳۷

۵۴۲

علاقوں کے لوگوں کو آرام واطمینان بخشیں اور اس راستے کو صبح اور شام میں طے کریں اور دوپہر اور رات کے پہلے حصے میں آرام کریں ( کیونکہ خداوندعالم نے رات کوآرام کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ) خود اور اپنے سپاہیوں اور سواریوں کو راحت و آرام پہونچائیں، لشکر کے سپہ سالارنے امام کے حکم کے مطابق سفر طے کیا اور اس وقت رقّہ پہونچا جب امام علیہ السلام اس سے پہلے رقّہ پہونچ چکے تھے۔(۱)

رقّہ سے معاویہ کے نام خط

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں نے امام سے عرض کیا کہ آپ معاویہ کے نام خط لکھیں اور دوبارہ اپنی حجت کو اس پر تمام کریں ، امام علیہ السلام نے ان کی درخواست کو قبول کیا(۲) کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ معاویہ کی نافرمانی اور سرکشی بغیر خوں ریزی کے برطرف ہوجائے جب کہ آپ جانتے تھے کہ حکومت وقدرت حاصل کرنے والوں پر نصیحت وموعظہ کا کوئی اثر نہ ہوگا ، جب امام علیہ السلام کا خط معاویہ کے پاس پہونچا تو اس نے جواب میں جنگ کرنے کی دھمکی دی(۳) اس وجہ سے امام علیہ السلام اپنے ارادے میں اورمحکم ہوگئے اور رقّہ سے صفین کی طرف جانے کا حکم دیدیا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۴۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۰۸

(۲)(۳)امام کے خط کی عبارت اور جنگ صفین کے متعلق معاویہ کا جواب ص ۱۵۰۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۱۔۲۱۰

۵۴۳

پل بنا کر فرات سے گزرنا

اس وسیع وعریض فرات کو عبور کرنا امام علیہ السلام کے لئے بغیر کسی پل یا کسی کشتی کے مشکل امر تھا، امام علیہ السلام نے رقّہ کے لوگوں سے کہا کہ کوئی ایسا وسیلہ لائیں جس کے ذریعہ سے خود اور آپ کے تمام سپاہی فرات کو پار کرسکیں ، لیکن اس سرحدی شہر کے لوگ عراقیوں کے برخلاف مولائے کائنات سے کوئی الفت ومحبت نہیں رکھتے تھے لہٰذا پل نہیں بنایا، امام علیہ السلام نے شجاعت وقدرت کے باوجود ان کے انکار کرنے پر کوئی مزاحمت نہیں کی اور ارادہ کیا کہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس پل سے گزریں جو وہاں سے کچھ دور ''منبِج'' نامی مقام پر واقع ہے۔

اس وقت مالک اشتر نے بلند آواز میں اس قلعہ کو خراب کرنے کی دھمکی دی جس میں وہ لوگ پناہ

لئے ہوئے تھے، رقّہ کے رہنے والوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا مالک وہ شخص ہے جو اگر کوئی بات کہتا ہے تو اس پر عمل ضرور کرتاہے لہٰذا ان لوگوں نے فوراً پل بنانے کا اعلان کیا اور امام علیہ السلام کا پورا لشکر تمام سازوسامان کے ساتھ اُس پل سے گزرگیا اور سب سے

۵۴۴

آخر میں جس نے رقّہ کو چھوڑا وہ مالک اشتر تھے۔(۱)

امام علیہ السلام زمین شام پر

امام علیہ السلام نے فرات پار کرکے عراق کی سرزمین کو چھوڑدیا اور سرزمین شام پر قدم رکھا اور معاویہ کے ہر طرح کے شیطانی اور مزاحمتی حملوں کے مقابلے کے لئے اپنے دو بہترین وبہادر سپہ سالاروں ،زیاد بن نصر و شریح بن ہانی کو بالکل اسی انداز سے جیسے کہ کوفہ میں بھیجا تھا بطور ہر اول معاویہ کے لشکر کی طرف روانہ کیاوہ دونوں '' سور الرّوم '' نامی جگہ پر معاویہ کے سپاہیوں کے لشکر جس کا سپہ سالار ابو الاعور تھا روبرو ہوئے اور ان لوگوں نے کوشش کی کہ کسی بھی صورت سے دشمن کے اس سپہ سالار کو امام کا مطیع وفرمانبردار بنادیں، لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور دونوں نے امام علیہ السلام کو فوراً حارث بن جمھان جعفی کے ہمراہ خط روانہ کیا اور امام علیہ السلام کے حکم کے منتظر رہے(۲)

امام علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد فوراً مالک اشتر کو بلایا اور کہا زیاد اور شریح نے ایسا ایسا لکھا ہے جتنی جلدی ہوسکے اپنے آپ کو ان لوگوں تک پہنچادواور دونوں گرہوں کی ذمہ داری کو قبول کرلواورجب تک دشمن سے ملاقات نہ ہو اور ان کی گفتگو نہ لینا اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا مگر یہ کہ وہ لوگ جنگ کی ابتداء کریں ،دشمن پر تمہارا غصہ دشمن کی طرف آگے بڑھنے میں مانع نہ ہو مگریہ کہ کئی مرتبہ ان کی گفتگو سنو اور اپنی حجت کو ان پر تمام کردو، پھر حکم دیا: زیاد کو میمینہ اور شریح کو اپنے میسرہ سپرد کرنا اور خود قلب لشکر میں رہنا اور ہاں دشمن سے اتنا قریب نہ رہنا کہ وہ خیال کریں کہ جنگ شروع کرنا چاہتے ہو اور نہ دشمنوں سے اتنا دور

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۲۔۲۱۱۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸

(۲)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۳۔۲۱۱،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸،کامل ابن اثیر ج ۳ ص۱۴۴

۵۴۵

رہنا کہ وہ تصور کریں کہ ڈر رہے ہو اسی طریقے پر باقی رہنا یہاں تک کہ میں تم تک پہونچ جاؤں(۱) پھر امام علیہ السلام نے ان دونوں سپہ سالاروں کو یہ جواب لکھا اور مالک اشتر کی اس طرح تعریف کی''امابعد، فانی قدأمرت علیکما مالکاً فاسمعٰاله واطیعاأمره فانّه مِمّن لایخاف رهقه ولاسقاطُه ولابطوُه عن ما الاسراع اِلیه أحزم ولا اسراعه الٰی ماالبط ء عنه امثلُ وقد أمرته بمثل الّذی أمرتکما الّا یبدئُ القوم بقتال حتٰی یلقاهم فید عوهم ویعذر الیهم ان شاء اللّٰه '' (۲)

دونوں سپہ سالاروں کو معلوم ہو کہ میں نے سپہ سالاری مالک اشتر کو سونپ دی ہے، ان کی باتوں کو سنو اور ان کے حکم کی اطاعت کرو ۔ کیونکہ وہ ایسا شخص نہیں کہ اس کی عقل ولغزش سے خوف کھائے اور وہ ایسا بھی نہیں ہے کہ جلد بازی میں سستی کرے یا بردباری کے وقت جلدی کرے اور اسے ان چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا ہے کہ ہرگز دشمن کے ساتھ جنگ نہ کریں بلکہ انہیں حق کی طرف بلائیں اور حجت کو ان پر تمام کریں۔

مالک اشتر نے بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے کو اس مقام پر پہونچایا جہاں پر دونوں فوجیں آمنے سامنے موجود تھیں، فوج کو منظم کیا اس کے بعد اپنی فوج کے دفاع کے علاوہ کوئی اور کام انجام نہیں دیا اور جب شام کے سپہ سالارابو الاعور کی طرف سے حملہ ہوتا تھاتو اس کا دفاع کرتے تھے، سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ مالک اشتر نے دشمن کی فوج کے سپہ سالار کے ذریعے معاویہ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر جنگ کرنا چاہتا ہے تو خود میدان جنگ میں آئے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں اور دوسروں کے خون اور قتل وغارت گری کاسبب نہ بنیں لیکن اس نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک دن آدھی رات کو معاویہ کی فوج بہت تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی اور فرات کے کنارے ایک وسیع وعریض زمین پر پڑاؤ ڈالا اور امام کے سپاہیوں پر پانی بند کردیا۔(۳)

_______________________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۳۔۲۱۱،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸،کامل ابن اثیر ج ۳ ص۱۴۴

(۳)وقعہ صفین ص۱۵۴،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸

۵۴۶

معاویہ کا صفین میں آنا

معاویہ کو خبر ملی کہ علی علیہ السلام نے سرزمین رقّہ پر موجود فرات کے اوپر پل بنایا اور خود اور اپنے پورے لشکر کو اس دریا سے پار کرایاہے ، معاویہ جس نے شام کے لوگوں کو پہلے ہی اپنا بنالیا تھا ، منبر پر گیا اور امام علی علیہ السلام کی فوج کی آمد کی خبر دی جو کوفیوں اور بصریوں پر مشتمل تھی ،اور ان کو جنگ کرنے اور جان ومال کے دفاع کے لئے بہت زیادہ رغبت دلائی، معاویہ کی تقریر کے بعد پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت اٹھے اور معاویہ کی تائید کی بالآخر معاویہ ان تمام لوگوںکے ہمراہ جن کے اندر جنگ کرنے کی صلاحیت تھی جنگ کے لئے روانہ ہوا(۱) اور اپنی فوج کے کنارے جس کا سپہ سالار ابوالاعور تھا قیام کیا اور اسی جگہ کو اپنا محاذِ جنگ قرار دیااور ایک قول کی بنا ء پر چالیس ہزار آدمیوں کو فرات پر معین کیا تاکہ امام کے سپاہیوں کو فرات کی طرف آنے سے روک سکیں ۔(۲)

______________________

(۱) ابن مزاحم نے (وقعہ صفین میں ) معاویہ کے سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار لکھا ہے لیکن مسعودی نے (مروج الذھب، ج۳، ص ۳۸۴میں ) کہا ہے کہ جس قول پر لوگوں کا اتفاق ہے وہ پچاسی ہزار آدمی ہیں اور اسی طرح امام علی علیہ السلام کے سپاہیوں کی تعداد(وقعہ صفین ص ۱۵۷) ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لکھا ہے اور مروج الذھب میں۹۰ ہزار لکھا ہے ۔

(۲) وقعہ صفین ص۱۵۷۔۱۵۶

۵۴۷

امام علیہ السلام کا سرزمین صفین پر ورود

زیادہ دن نہ گزرا تھا کہ امام علیہ السلام اپنے عظیم وشجاع سپاہیوں کے ہمراہ صفین پہونچے اور اپنی فوج کہ جس کے سپہ سالار مالک اشتر تھے سے ملحق ہوگئے۔

علی علیہ السلام نے سرزمین صفین پر اس وقت قدم رکھا جب دشمن نے ان کے سپاہیوں اور فرات کے درمیان اپنی عظیم فوج کا پہرہ بٹھا رکھا تھا اور امام کے سپاہیوں کو فرات تک پہونچنے سے روک دیا تھا، عبداللہ بن عوف کہتا ہے امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے پاس پانی کا ذخیرہ بہت کم تھا اور ابوالاعور معاویہ کی فوج کے سپہ سالار نے نہر پر جانے کے تمام راستوں کو سواروں اور پیادوں سے بند کردیا تھا اورتیر چلانے والوںکو ان کے سامنے اور ان کے اردگرد نیزہ برداروں اور زرہ پہنے ہوئے لوگوں کو کھڑا کررکھا تھا جس کی

وجہ سے امام علیہ السلام کے لشکر میں پانی کی کمی ہونے لگی اور لوگ امام علیہ السلام کے پاس شکایتیں لے کر

۵۴۸

آئے۔(۱)

امام علیہ السلام کا تحمل

ہر معمولی اور عام کمانڈر ایسی حالت میں تحمل وبرد باری کھودیتاہے اور فوراً حملہ کرنے کا حکم دے دیتاہے لیکن امام علیہ السلام جن کا پہلے ہی دن سے یہ مقصد تھا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو بغیر خونریزی کے ہی فیصلہ ہوجائے۔ اس وقت آپ نے اپنے ایک خاص رازدار صعصعہ بن صوحان(۲) کو بلایا اور کہا کہ تم بعنوان سفیر معاویہ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو:

'' ہم لوگ اس علاقے میں آگئے ہیں اور ہمیں پسند نہیں کہ اتمام حجت سے پہلے جنگ شروع کریں اور تو پوری قدرت کے ساتھ شام سے باہر آگیا اور اس سے پہلے کہ ہم تجھ سے جنگ کریں تو نے جنگ کا آغاز کردیا میرا نظریہ ہے کہ تو جنگ سے باز آجاتا کہ میری دلیلوں کو غور سے سن سکے، یہ کا کون سابزدلانہ طریقہ ہے کہ تو نے ہمارے اور پانی کے درمیان اختیارکیا ہے، اس پہرے کو ہٹادے تاکہ میرے نظریہ کے بارے میں غورکر، اور اگر تو چاہتا ہے کہ یہی وضعیت رہے اور لوگ پانی کے لئے آپس میں جنگ کریں اور آخر میں کامیاب ہونے والاگروہ اس سے فائدہ اٹھائے تو اب مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔'' صعصعہ ، امام کے سفیر بن کر معاویہ کے خیمے میں داخل ہوئے جو لشکر کے درمیان میں تھا اور امام علیہ السلام کے پیغام کو معاویہ تک پہونچایا ، ولید بن عقبہ جیسے کور دل فرات پر قبضہ باقی رکھنے کے خواہاں تھے تاکہ امام کے لشکر والے پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائیں، لیکن سب سے بڑا سیاسی چالباز ، عمروعاص نے امیہ کے بیٹوں کے برخلاف معاویہ سے کہا فرات پر سے اپنا قبضہ ہٹالے اور جنگ کے دوسرے امور کی طرف غور کر ، اور ایک قول کی بناء پر اس نے کہا، یہ کام اچھا نہیں ہے کہ تو سیراب ہو اور علی پیاسے ہوں جب کہ ان کے پاس ایسے ایسے جانباز سپاہی ہیں جو فرات کی فکر میں ہیں یاتو اس پرقبضہ کرلیں گے یا اس راہ میں مر جائیں گے

______________________

(۱)الامامة والسیاسة ج۱ص ۹۴۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۹، کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۵۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۷

(۲) طبری اور ابن قیتہ کے بقول امام علیہ السلام نے اشعث کو بھیجا تھا ۔ الامامة والسیاسة ج۱،ص ۹۴۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۰

۵۴۹

اور تو جانتاہے کہ علی بہت بڑے بہادر ہیں اور عراق اور حجاز کے لوگ ان کے ہمرکاب ہیں ، علی اس مرد کا نام ہے کہ جب لوگوں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ کیا تو انہوں نے کہا اگر چالیس افراد میرے ساتھ ہوتے تو حملہ کرنے والوں سے بدلہ لیتا ۔

جب کہ معاویہ امام کے سپاہیوں پر پانی بند کرکے اپنی پہلی کامیابی تصور کررہا تھا ۔ ایک شخص کہ جسے لوگ عابد ہمدانی کے نام سے جانتے تھے اور عمرو عاص کے دوستوں اور بہترین خطیبوں میں سے تھا ، اس نے معاویہ کی طرف رخ کر کے کہا سبحان اللہ ، اگر تم عراق کی فوج سے پہلے اس جگہ پہونچے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ان لوگوں پر پانی بند کردو ، خدا کی قسم اگر وہ لوگ تم سے پہلے یہاں آئے ہوتے تو تم پر کبھی پانی بند نہیں کرتے ، سب سے بڑا کام جو تم اس وقت انجام دے رہے ہو وہ یہ ہے کہ وقتی طور پر ان لوگوں کے لئے فرات کا پانی بند کر دیا ہے ،لیکن دوسرے موقع کے لئے آمادہ رہو کہ وہ لوگ اسی طرح سے تمہیں سزا دیں گے، کیا تم نہیں جانتے کہ ان کے درمیان ، غلام ، کنیز ،مزدور ، ضعیف وناتواں اور بے گناہ لوگ ہیں ؟

خدا کی قسم ، تمہارا سب سے پہلا ہی کام ظلم وستم ہے۔ اے معاویہ ، تونے اس غیر انسانی حرکت کی وجہ سے خوفزدہ اور مردد افراد کو جرأت وہمت دیدی اور وہ شخص جو تجھ سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا تو نے ان کو جری کردیا(۱)

معاویہ ، ان جگہوں کے برخلاف کہ جہاں پر وہ حلم وبردباری سے کام لیتا تھا اس زاہد ہمدانی پر سخت ناراض ہوا اور عمرو عاص سے اس کی شکایت کی ، اور عاص کے بیٹے نے بھی جو کہ اس کا دوست

تھا اس پر غضبناک ہوا، لیکن سعادت اور خوش بختی نے اس زاہد پر اپنا قبضہ کررکھا تھا اس نے معاویہ کے لشکر کے افق کو تاریکی میں دیکھا اور اسی رات امام علیہ السلام سے ملحق ہوگیا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۶۰۔تھوڑے فرق کے ساتھ ،الامامة والسیاسة ج۱ص ۹۴۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۸۔تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۴۰

۵۵۰

حملہ کرنے اور قبضہ توڑنے کا حکم

پیاس کی شدت نے امام علیہ السلام کے جا نبازوں کونیم جان کردیاتھا جس کی وجہ سے امام علیہ السلام کو غم واندوہ نے اپنے گھیرے میں لے لیاتھاجب ، آپ قبیلہ '' مذ حج'' کی طر ف آئے توایک کو

ایک قصیدہ کے ضمن میں یہ کہتے ہوئے سنا :

أیمنعنا القومُ مائَ الفرات

وفینا الرماحُ وفینا الحُجف(۱)

کیاشام کی قوم ہم لوگوں کو فرات کے پانی سے روک دے گی جب کہ ہم لوگ نیزہ وزرہ سے لیس ہیں ؟ پھر امام علیہ السلام قبیلہ '' کِندہ'' کی طرف گئے تو دیکھا کہ ایک سپاہی اشعث بن قیس کے خیمے کے پاس جو اسی قبیلے کا سپہ سالار تھا کچھ شعر پڑھ رہا ہے جس کے پہلے دو شعر یہ ہیں:

لئِن لم یجلّ الا شعث الیوم کربةً

من الموت فیها للنفوس تعنّت

فنشرب من ماء الفرات بسیفه

فهبنا اناساًقبل کانوا فموّ توا(۲)

اگرآج کے دن اشعث نے سختی واذیت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو موت کے غم واندوہ سے دور نہ کیا تو ہم تلوار کے ذریعے فرات کے پانی سے سیراب ہوں گے، کتنا اچھا ہوتا کہ اے اشعث ایسے لوگوں کو ہمارے حوالے کرتے جو پہلے تھے اور اس وقت موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔

۵۵۱

امام علیہ السلام نے ان دوسپاہیوں کے اشعار سننے کے بعد جوفوجی چھاؤنی میں بلند آواز سے پڑھ

رہے تھے، اپنے خیمے میں آئے اچانک اشعث امام کے خیمے میں آیا اور کہا : کیا یہ بات صحیح ہے کہ شام کے لوگ ہمیں فرات کے پانی سے محروم رکھیں، جب کہ آپ ہمارے درمیان میں ہیں اور ہماری تلواریں ہمارے ہمراہ ہیں ؟ اجازت دیجیئے! کہ خدا کی قسم یا فرات پرسے قبضہ ہٹادیں یا اس راہ میں اپنی جان گنوادیں اور مالک اشتر کو حکم دیں کہ اپنی فوج کے ساتھ جہاں پر بھی آپ کا حکم ہو وہاں کھڑے ہو جائیں ، امام علیہ السلام نے فرمایا، تم کو اختیار ہے اس وقت آپ نے مالک اشتر کے لئے ایک جگہ معین کی تاکہ وہ وہاں اپنی فوج کے ساتھ موجود رہیں، پھر آپ نے اپنے عظیم لشکر کے درمیان مختصر سا خطبہ پڑھا اور یہ ایک ایسا ولولہ انگیز خطبہ تھا جس سے امام کے لشکر میں ایک ایسا سماں بندھ گیا کہ گویا ایک ہی حملہ میں معاویہ کے لشکر کو پچھاڑ دیں گے اور گھاٹ کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، وہ خطبہ یہ ہے:

''قد استطعموکم القتال فأقرّواعلیٰ مذلّةٍ وتاخیر محلّة روّ واالسیوف من الدماء ترووُا من المائ، فالموت فی حیاتکم مقهورین والحیاة فی موتکم قاهرین ألا

______________________

(۱)،(۲) مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۵۔ وقعة صفین ص ۱۶۶۔۱۶۴

۵۵۲

واِنَّ معاویة قاد لُمةً من الغواة وعمّس علیهمُ الخبر حتٰی جعلوا نحورهم أغراض المنیّةِ'' (۱)

معاویہ کی فوج نے اپنے اس کام (تم لوگوں پر پانی بند کرنے) کی وجہ سے تم لوگوں کو جنگ کی دعوت دی ہے اور اس وقت تم لوگوں کے سامنے دوراستے ہیں یا تو ذلت ورسوائی کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہو یا تلواروں کو خون سے سیراب کردو تاکہ تم پانی سے سیراب ہوجاؤ ، تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنے میں زندگی ہے، آگاہ رہو کہ معاویہ گمراہوں کا ایک چھوٹا سا لشکر میدان جنگ میں زبردستی گھسیٹ لایا ہے اور حقائق سے انہیں اندھیرے میں رکھا ہے یہاں تک انہوں نے اپنے گلوں کو تیروں اور شمشیروں (موت) کا نشانہ بنایاہے۔

اشعث نے اسی رات اپنے ماتحت سپاہیوں کے درمیان بلند آواز میں کہا جو شخص بھی پانی چاہتاہے یا موت ، اس سے ہمارا وعدہ صبح کے وقت ہے(۲)

پیاس کی شدت ایک طرف اور امام کا شعلہ بیاں خطبہ اور سپاہیوں کے ولولہ انگیز اشعار دوسری طرف ،یہ تمام چیزیں سبب بنیں کہ بارہ ہزار آدمیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے آمادگی کا اعلان کردیا، اشعث اپنی عظیم فوج کے ساتھ اور مالک اشتر اپنے طاقتور اور بہادر سپاہیوں کے ہمراہ جو کہ سوار تھے دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور بجلی کی طرح ایک ایساحملہ کیا کہ جو فوج رکاوٹ بنی ہوئی تھی اور قدرت وطاقت میں اس سے دوگنی تھی اسے اپنے راستے سے ہٹا ڈالا، اس طرح سے کہ جو فوج گھوڑے پر سوار تھی ان کے گھوڑے کے پیروں کے نشان فرات میں بن گئے تھے، اس حملے میں مالک اشتر کے ہاتھوں ۷ اور اشعث کے ہاتھوں ۵ افراد مارے گئے اور جنگ کا نقشہ امام کے حق میں پلٹ گیا اور عظیم نہر فرات امام اور آپ کے دوستوں کے قبضہ میں آگئی، اس وقت عمر وعاص نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا ، کیا سوچ رہے ہو اگر علی تمہارے جیسا کام کریں اور تم پر پانی بند کردیں؟

معاویہ، جو امام علیہ السلام کے اخلاقی ، روحانی عظمتوں سے واقف تھا، نے کہا :میں سوچ رہا ہوں

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۴۴

(۲) وقعہ صفین ص ۱۶۶۔ الامامة والسیاسة ج۱ ص۹۴

۵۵۳

کہ وہ ہم پر پانی بند نہیں کریں گے، کیونکہ وہ دوسرے مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں(۱)

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ابو سفیان کے بیٹے کے برے عمل (پانی بند کرنا) کے نتیجے میں امام علیہ السلام کا کیا عکس العمل تھا۔

_______________________________

(۱) مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۷۔ ۳۸۶

۵۵۴

عظیم قدرت کے باوجودانسانی اصول کی پابندی

امام علیہ السلام کے سپاہیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے فوجی تکنک کا سہارا لیا اور کامیاب ہوگئے اور پوری فرات امام کے سپاہیوں کے قبضے میں آگئی اور معاویہ کے سپاہی فرات سے دور کردیئے گئے اور ایسی جگہ پر پناہ لی جہاں پر کھانے پانی کا انتظام نہ تھا اور شامیوں کے لئے ایسے حالات میں زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا اور بہت ہی جلد ان کے پاس موجود پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیااور وہ مجبور تھے کہ تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کریں۔

۱۔ امام کے لشکر پر حملہ کریں اور دوبارہ فرات کو اپنے قبضہ میں لے لیں لیکن اپنے اندر اتنی جرأت وطاقت نہیں دیکھ رہے تھے۔

۲۔ پیاس کی شدت سے موت کا جام پی لیں اور صفین کو اپنی قبرستان بنالیں۔

۳۔ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور شام اور اس کے اطراف میں بکھر جائیں۔

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود فرات پر قبضہ نے شام کی فوج کے سرداروں خصوصاً معاویہ کو وحشت زدہ نہیں کیا کیونکہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی جوانمردی، اخلاق اور اسلام اور اس کے اصولوں پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے سے خوب واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ امام کبھی بھی اصل کو فرع پر اورہدف کو وسیلہ پر قربان نہیں کریں گے۔

اخلاقی اصولوں اور انسانی اقدار کی رعایت کا سرچشمہ ہر شریف النفس انسان کی ملکوتی روح ہوتی ہے ،ان اصول کا اظہار سارے مواقع پر مستحسن سمجھا جاتا ہے ،جنگ ،صلح تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا دوسرے انسان کے رابطے سے مربوط ہے۔

اسلام کے سپاہیوں کو روانہ کرتے وقت پیغمبر اسلام (ص) کے پیغامات اور علی علیہ السلام کے جنگ صفین میں دیئے ہوئے پیغامات ، جس میں سے کچھ کا تذکرہ ہم کریں گے ایک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کبھی بھی انسانی اصولوں کو اپنے مقصد پر قربان نہیں کرنا چاہیے بلکہ سخت سے سخت موقع پر بھی اخلاقی اصولوں سے غفلت نہیں کرنا چاہیے۔

۵۵۵

معاویہ کی فوج کے سرداروں کو امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے توسط سے فرات پر قبضہ ہونے پر فکر مند نہ ہونے کی علت کو دو سیاسی چالبازوں ( معاویہ وعمروعاص) کی گفتگو سے جانا جا سکتا ہے۔

عمروعاص، معاویہ کے انسانیت سے گرے ہوئے کاموں کا بالکل مخالف تھا لیکن معاویہ نے برخلاف عقل کام کیا ، یہاں تک کہ امام علیہ السلام کے لشکر کا قبضہ فرات پر ہوگیا اور معاویہ کی فوج فرات سے کئی فرسخ دور ہوگئی، اس وقت یہ دونوں سیاسی و شیطانی نمائندے(معاویہ وعمر وعاص) آپس میں گفتگو کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے، مضمون یہ تھا:

عمروعاص : کیا فکررہے ہو اگر عراقی تجھ پر پانی بند کردیں بالکل اسی طرح جس طرح تو نے ان پر پانی بند کیا؟ تو کیا پانی کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے ان سے جنگ کروگے اسی طرح جس طرح وہ لوگ تجھ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھے تھے؟

معاویہ : پچھلی باتوںکو چھوڑو، علی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہو؟

عمروعاص : میرا خیال ہے جس چیز کو تو نے ان کے بارے میں روا رکھا وہ تمہارے بارے میں روا نہیں رکھیں گے کیونکہ ہرگز وہ فرات پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔(۱)

معاویہ نے ایسی بات کہی کہ بوڑھا سیاسی ناراض ہوگیا اور اس نے اس کے جواب میں اشعار کہے اور اسے یاد دلایا کہ افق تاریک ہے اور ممکن ہے طلحہ وزبیر کی طرح مشکلوں میں گرفتار ہوجائیں۔(۲)

لیکن عمرو کا خیال بالکل صحیح تھا، امام علیہ السلام نے فرات پر قبضہ کرنے کے بعد دشمن کے لئے فرات کوآزاد

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص۹۴۔ مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۶

(۲) وقعہ صفین ص ۱۸۶

۵۵۶

کردیا(۱) اور اس طرح آپ نے ثابت کردیا کہ جنگ کے دوران اپنے بد ترین دشمن کے ساتھ بھی اخلاقی اصولوں کے پابند رہے اور معاویہ کے برخلاف اپنے مقصد کے حصول کے لئے غلط وسیلے کو اختیار نہیں کیا۔

فرات آزاد کرنے کے بعد

دونوں فوجیں تھوڑے سے فاصلہ پر آمنے سامنے تھیں اور اپنے اپنے سردار کے حکم کی منتظر تھیں ،لیکن امام علیہ السلام جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ کئی کئی مرتبہ آپ نے اپنے نمائندوں اور خطوط بھیج کر مشکل کو گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہا۔(۲) ربیع الثانی ۳۶ ہجری کے آخری دنوں میں اچانک '' عبید اللہ بن عمر '' مظلوم وبے گناہ ہرمزان کا قاتل امام علیہ السلام کے پاس آیا ، ہرمزان ایک ایرانی تھااور اس کے مسلمان ہونے کو خلیفہ دوم نے تسلیم کرلیا تھا اور اس کے اخراجات کے لئے کچھ رقم معین کررکھی تھی ۔(۳) جب حضرت عمر ابو لؤلو کے خنجر سے زخمی ہوئے اور سپاہیوں کو قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا(۴) تو خلیفہ کے ایک بیٹے نے جس کا نام عبیداللہ تھا انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قاتل کی جگہ بے گناہ ہرمزان کو قتل کردیا(۵) امام علیہ السلام نے بہت کوشش کی کہ عثمان کے دور حکومت میں عبیداللہ کو اس کی سزا (قصاص) مل جائے ( مگر سزا نہ ملی ) اور امام علیہ السلام نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر ہمارا تسلط ہوگیا تو اس کے متعلق خدا کے حکم

______________________

(۱) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۵۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲۔ تجاب السلف ص ۴۷

(۲) مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۷۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲

(۳)بلاذری ، فتوح البلدان ص ۴۶۹

(۴)یہ بحث کہ عمر کے قتل کے بعد ابولؤلوپہ کیا گذری مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ اسے گرفتار کرکے قتل کردیاگیا( تاریخ برگزیدہ ص ۱۸۴، تاریخ فخری ص۱۳۱) اور مسعودی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے کو خود اسی خنجر سے قتل کرلیا جس سے عمر کو قتل کیا تھا( مروج الذھب ج۲، ص۳۲۹) لیکن مولف حبیب السیر کا کہنا ہے کہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق وہ مدینہ سے بھاگ گیا اور عراق کی طرف چلا گیا اور بالآخر کاشان میں اس کی وفات ہوگئی ( حبیب السیر ج ۱ جزء ۵ ص ۲۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳، ص ۶۱۔ ،مروج الذھب ج۲ ص۳۹۵)

(۵)تاریخی یعقوبی ج۲، ص ۱۶۱۔ فتوح البلدان ص ۵۸۳۔ تجارب السلف ص ۲۳

۵۵۷

کو جاری کریں گے(۱) عثمان کے قتل کے بعد اور امام علیہ السلام کی خلافت حقہ کے بعد عبیداللہ قصاص(سزا) سے بہت ڈرا ہواتھا اور مدینہ سے شام کی طرف چلا گیا۔(۲)

اسی لئے عبیداللہ جنگ صفین کے موقع پر امام علیہ السلام کے پاس آیا اور طعنہ کے طور پر امام سے کہا خدا کا شکر کہ تمہیں ہرمزان کے خون کا بدلہ لینے اور مجھے عثمان کے خون کا بدلہ لینے والا قراردیا امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا مجھے اور تجھے میدان جنگ میں جمع کرے(۳) اتفاقاً جنگ اپنے شباب پر تھی کہ عبیداللہ امام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا(۴) ۔

______________________

(۱)امام علیہ السلام نے عبیداللہ سے کہا ''یا فاسقُ أما واللّٰه لئِن ظفرتُ بک یوماً من الدهر لأضربنّ عنقک '' انساب الاشراف ج۵، ص ۲۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۶۱۔ مروج الذھب ج۲ ۳۹۵۔

(۲)مروج الذھب ج۲ ص۳۸۸۔

(۳)الاخبار الطوال ص ۱۶۹ مطبوعہ قاہرہ ۔ وقعہ صفین ص ۱۸۶۔

(۴)مسعودی کہتے ہیں : جنگ صفین میں عبیداللہ کو خود امام علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ مزید کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے اس پر ایسی ضربت ماری کہ جو زرہ لوہے کی وہ پہنے تھا وہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور تلوار کا وار اس کی ہڈیوں تک پہنچ گیا۔ مروج الذھب ج۲ ص ۳۹۵۔

۵۵۸

سولہویں فصل

آخری اتمام حجت

معاویہ کے پاس تین نمائندے بھیجنا

ربیع الثانی ۳۶ ہجری کے آخری ایام تھے، امام علیہ السلام نے تین اسلامی شخصیتوں ، انصاری ، ہمدانی اور تمیمی کو اپنے پاس بلایا اور ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ معاویہ کے پاس جاؤ اور اسے امت اسلامی کی اطاعت اور اس سے ملحق ہونے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کی دعوت دو، تمیمی نے امام علیہ السلام سے کہا ، اگر وہ بیعت کے لئے آمادہ ہوجائے تو کیا مصلحت ہے کہ اسے انعام ( مثلاً ایک علاقہ کی حکومت) دے دیں ؟

امام علیہ السلام جو کسی بھی صورت میں اصول کی پامالی نہیں کرتے تھے ان لوگوں سے کہا'' أیتوهُ الأن فلا قوه واحتجّوا علیه وانظرومارأیه '' یعنی اس وقت اس کے پاس جاؤ اور اس پر احتجاج کرواور دیکھو کہ اس کا نظریہ کیا ہے؟

وہ تینوں معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ اور ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے:

انصاری:دنیا تجھ سے چھوٹے گی اور تو دوسری دنیا کی طرف جائے گا وہاں تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور اچھے برے اعمال کا بدلہ ملے گا ،تم کو خدا کا واسطہ کہ تم فتنہ وشر سے باز آجاؤ اور امت میں تفرقہ اور خونریزی مت کرو۔

معاویہ نے انصاری کی بات کاٹتے ہوئے کہا : تم اپنے بزرگ کو کیوں نصیحت نہیں کرتے؟

انصاری: حمد ہے خدا کی میرا بزرگ تمہاری طرح نہیں ہے وہ سابق الاسلام ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبی رشتہ دار اور عظمت وفضیلت کے تاجدار ہیں۔

معاویہ : تم کیا کہہ رہے ہو اور کیا چاہتے ہو؟

۵۵۹

انصاری: میں تجھے علی کی اطاعت کی دعوت دے رہا ہوں اوراس کے قبول کرنے میں تمہارے دین ودنیا کے لئے بھلائی ہے۔

معاویہ : اس صورت میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں تاخیر ہوگی ، نہیں ، رحمٰن کی قسم! میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔

اس وقت ہمدانی نے چاہا کہ کلام کرے لیکن تمیمی نے ان سے پہلے گفتگو شروع کردی اورکہا :

انصاری کو دیئے ہوئے جوابات سے تیرا مقصد معلوم ہوگیا اور تیرے ارادہ سے ہم لوگ بے خبر نہیں ہیں، لوگوں کو دھوکہ دینے اور ان کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے سوائے اس کے کوئی اور بہانہ نہیں ہے کہ تو یہ کہے کہ تمہارا خلیفہ مظلوم قتل ہواہے اور تم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے قتل کا بدلہ لو اس آواز پر چند جاہل لوگوں نے تمہاری آواز پر لبیک کہا ہے جب کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تم نے اپنے مقتول خلیفہ کی مدد کرنے میں تاخیر کی تھی اور اسی مقام کے حصول کے لئے تم نے ان کے قتل کو روا رکھاتھاایسا ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ مقام ومنصب کی آرزو رکھتے ہوں مگر خدا ان کی آرزؤں کو پورا نہ کرے، اور تو ایساآرزو مند ہے کہ اپنی جس آرزوتک پہونچ جائے اس میں فلاح وبہبود نہیں ہے اگر تو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا تو عرب میں تجھ سے زیادہ کوئی بدبخت نہیں ہے اور اگر مقصد میں کامیاب ہوگیا تو آخرت کی روسیاہی کے سواء کچھ نہیں ہے،اے معاویہ خدا سے ڈر اور ہٹ دھرمی چھوڑ دے اور جو خلافت کا صحیح حقدار ہے اس سے جنگ نہ کر۔امام علیہ السلام کے نمائندوں کی منطقی اور استدلالی گفتگو نے معاویہ کو بوکھلا دیا اور اپنی پرانی روش کے برخلاف تلخ لہجے میں کہا:بیاباں نشین تم میرے پاس سے چلے جاؤاب ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔

تمیمی: کیا تم ہمیں تلوار سے ڈرا رہے ہو ؟ بہت جلد ہی تلوار لے کر تمہاری طرف آرہے ہیں ، پھر تینوں نمائندے امام کی خدمت میں واپس آگئے اور تمام باتوں کے نتیجے سے امام علیہ السلام کو باخبر کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۱۸۸،۱۸۷۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۶

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658