مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277318
ڈاؤنلوڈ: 6925

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277318 / ڈاؤنلوڈ: 6925
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا : مجھے بتاؤ کہ کیا آل پر صدقہ حرام ہے؟ِ

تمام علماء نے کہا : بے شک آل پر صدقہ حرام ہے۔

امام علی رضاعلیہ السلام نے فرمایا : تو کیا امت پر بھی صدقہ حرام ہے؟“

علماء نے کہا : نہیں! امت پر صدقہ حرام نہیں ہے۔

آپ(ع) نے فرمایا ” یہ آل اور امت کا پہلا فرق ہے ۔ تم پر افسوس ہے تم کہاں جا رہے ہو اور جان بوجھ کر ںصیحت سے اعراض کررہے ہو اور کیا تم مسرفین تو نہیں ہو۔ کیا تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ وراثت و طہارت، مصطفی(ص) اور ہدایت یافتہ افراد کے لیے مخصوص ہے دوسروں  کے لیے نہیں ہے“۔

علماء نے کہا : آپ(ع) کے اس قول کی بنیاد کیا ہے؟

آپ(ع) نے فرمایا: قرآن مجید میں اﷲ تعالی کا فرمان اس دعوی کی دلیل ہے۔

وَ لَقَدْأَرْسَلْنانُوحاًوَإِبْراهيمَ وَجَعَلْنافي‏ذُرِّيَّتِهِمَاالنُّبُوَّةَوَالْكِتابَ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍوَكَثيرٌمِنْهُمْ فاسِقُونَ “ ( الحدید، ۲۶)

” اور یقینا ہم نے نوح(ع) اور ابراہیم(ع) کو رسول بناکر بھیجا اورہم نے ان دونوں کی ذریت میں نبوت وکتاب کو رکھا ان میں کچھ ہدایت یافتہ ہیں اور ان میں سے زیادہ تعداد فاسقین کی ہے“

اﷲ تعالی نے وراثت و نبوت کے لیے ہدایت یافتہ افراد کا انتخاب کیا اور فاسقین کو اس سے محروم رکھا۔

( اسی لیے وراثت قرآن بھی ہدایت یافتہ افراد کے لیے مخصوص ہے بدکار افراد قرآن کے وراث نہیں ہوسکتے)

اور کیا تمہیں یہ علم نہیں ہے کہ جب نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا غرق ہونے لگا تو انہوں نے اس کی نجات کے لیے اﷲ تعالی سے دعا کرتے ہوئے عرض کی تھی۔

رَبِّ إِنَّ ابْني‏مِنْ أَهْلي‏وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقّ ُوَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحاكِمين (ہود، ۴۵)

” پروردگار! بیشک میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ حق ہے اور تو احکم الحاکمین ہے“۔

یہ الفاظ  حضرت نوح علیہ السلام نے اس وجہ سے کہے تھے کہ اﷲ تعالی نے ان سے وعدہ

۴۸۱

 کیا تھا کہ وہ انہیں اور ان کے اہل کو طوفان سے نجات دے گا اسی لیے انہوں نے خدا کو وعدہ یاد دلاتے ہوئے عرض کیا تھا کہ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ حق ہے۔

اﷲ تعالی نے نوح علیہ السلام کو جواب دیا۔

قالَ يانُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُصالِحٍ فَلاتَسْئَلْنِ ما لَيْسَلَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجاهِلين (ہود، ۴۶)

” ارشاد ہوا کہ نوح(ع) یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے یہ عمل غیر صالح ہے لہذا مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تمہارا شمار جاہلوں میں سے نہ ہوجائے۔

مامون نے کہا : ابوالحسن(ع) ! کیا اﷲ تعالی نے عترت کو دوسرے لوگوں پر فضیلت دی ہے؟

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا ” اﷲ تعالی نے دوسرے لوگوں پر عترت(ع) کی فضیلت کو اپنی محکم کتاب میں بیان کیا ہے“

مامون نے کہا : وہ اﷲ کی کتاب میں کہاں ہے؟

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا : عترت(ع) کی فضیلت ان آیات سے ثابت ہوتی ہے۔

إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى‏آدَمَ وَنُوحاًوَآلَ إِبْراهيم َوَآلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ وَ اللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ “ ( آل عمران ، ۳۳، ۳۴)

” بے شک اﷲ نے آدم(ع)، نوح(ع)، آل ابراہیم(ع)، اور آل عمران(ع) کو تمام جہانوں سے منتخب کیا ہے یہ ایک نسل ہے کہ جس ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اﷲ سننے والا جاننے والا ہے“علاوہ ازیں اﷲ تعالی نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى‏ماآتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْآتَيْناآلَ إِبْراهيمَ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَوَآتَيْناهُمْ مُلْكاًعَظيماً “ ( نساء، ۵۴)

” یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے یقینا ہم نے آل ابراہیم(ع) کو کتاب حکمت اور ملک عظیم سب کچھ عطا کیا ہے“

۴۸۲

پھر ان چند آیات کے بعد اﷲ نے اہل ایمان کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ياأَيُّهَاالَّذينَآمَنُواأَطيعُوااللَّهَوَأَطيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْكُمْ “ ( نساء، ۵۹)

” ایمان والو اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول (ص) اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں“

یعنی اﷲ نے انہیں کتاب و حکمت عطا کی ہے اور اسی لیے باقی دنیا نے ان سے حسد کیا اور اﷲ نے انہیں ملک عظیم عطا کیا اور یہاں ” ملک“ سے مراد ان کی اطاعت ہے۔

علماء نے کہا: ابوالحسن(ع)! آپ یہ بتائیں کہ عترت(ع) کے انتخاب کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی کہیں موجود ہے؟ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا :” باطنِ قرآن سے قطع نظر اﷲ تعالی ن ظاہر قرآن میں بارہ مقامات پر عترت اہل بیت(ع) کے اصطفاء و انتخاب کا تذکرہ کیا ہے۔ اور اسی سلسلے کی پہلی آیت یہ ہے۔

وَ أَنْذِرْعَشيرَتَكَالْأَقْرَبينَ(َ و رهطك منهم المخلصين     ) “ ( الشعراء، ۲۱۴)

” اور اے پیغمبر(ص) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ( اور اپنے مخلص گروہ کو ڈرائیے ) “

( یاد رکھیں! ”و رهطك منهم المخلصين“ کے الفاظ ابی بن کعب کی قرآئت میں ہیں اور عبداﷲ بن مسعود کے مصحب میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں لہذا دعوت اسلامیہ کے آغاز کے لیے قریبی رشتہ داروں کا انتخاب عترت(ع) کے لیے ایک عظیم اعزاز ہے چنانچہ یہ عترت(ع) کی پہلی فضیلت ہے)۔

اس سلسلے کی دوسری آیت کا تعلق اہل بیت(ع) کے اصطفاء سے  ہے چنانچہ رب العزت کا ارشاد ہے۔

” إِنَّمايُريدُاللَّهُ لِيُذْهِبَعَنْكُمُالرِّجْسَ أَهْل َالْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهيرا “ (الاحزاب، ۳۳)

اے اہل بیت(ع)ااﷲ کاارادہبس یہی ہے کہ وہ تم سے ہر برائی  کور دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔

اہل بیت(ع) کی اس فضیلت سے کوئی ضد کرنے والا جاہل ہی انکار کرسکتا ہے کیونکہ اہل بیت(ع) کی طہارت قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اور یہ آںحضرت(ص) کی عترت طاہرہ(ع) کی دوسری فضیلت ہے

۴۸۳

عترت طاہرہ(ع) کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ جب اﷲ تعالی نے مخلوق میں سے پاک و پاکیزہ افراد کا انتخاب کر لیا اور ان کے حق میں آیت تطہیر نازل کردی تو اس نے اپنے نبی(ص) کو حکم دیا کہ وہ ان افراد کو لے کر ںصاری سے مباہلہ کریں چنانچہ ارشاد ہوا :

فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِماجاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْانَدْعُ أَبْناءَناوَأَبْناءَكُمْ وَنِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَأَنْفُسَناوَأَنْفُسَكُمْ ثُمّ َنَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبينَ “ ( آل عمران، ۶۱)

پھر جو شخص آپ(ص) کے پاس علم آنے کے بعد آپ(ص) سے جھگڑا کرے تو آپ(ص) کہہ دیں کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی جانوں کو بلائیں اور تم اپنی جانوں کو بلاؤ، پھر ہم مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت قرار دیں“ اس آیت کے بعد آںحضرت(ص) نے علی(ع) او حسن(ع) و حسین(ع) اور فاطمہ صلوات اﷲ علیہم کو بلایا اور خود کو ان کے ساتھ شامل کیا اور مباہلہ کے لیے چل دیئے۔

امام علیہ السلام نے اہل دربار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

جانتے ہو ”أَنْفُسَناوَأَنْفُسَكُمْ “ سے کون مراد ہیں؟

علماء نے کہا اس سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات مراد ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : نہیں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اس سے مراد علی بن ابی طالب(ع) ہیں علی(ع) ہی نفس رسول(ص) ہیں اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے آپ(ص) نے فرمایا:

لينتبه بنو وليعه اولابعثن اليهم رجلا کنفسی ي عنی علی ابن ابی طالب

بنو ولیعہ باز آجائیں ورنہ  میں ان کی طرف اسے روانہ کروں گا جو میرے نفس کی مانند ہوگا اس سے مراد علی بن ابی طالب(ع) ہیں“ اور”ابناء “سے امام حسن(ع) اور امام حسین علیہما السلام مراد ہیں اور”نساء “ سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا مراد ہیں۔ اور یہ عترت طاہرہ(ع) کی وہ خصوصیت ہےکہ کوئی ان کے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے اور یہ وہ فضیلت ہے جس میں کوئی بشر ان کا شریک نہین ہوسکتا

۴۸۴

اور اس شرف میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس لیے کہ اﷲ تعالی نے نفس علی(ع) کو نفس محمد(ص) قرار دیا ہے یہ تیسری فضیلت ہے۔اور چوتھی فضیلت یہ ہے کہ مسجد نبوی(ص) میں صحابہ کے دروازے کھلتے تھے آںحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم نے عترت طاہرہ(ع) کے علاوہ سب دروازے بند کرادیئے اس پر لوگوں نے بہت باتیں بنائیں اور آںحضرت(ص) کے چچا عباس بن عبدالمطلب(ع) نے آںحضرت(ص) سے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ کہ یا رسول اﷲ(ص) ! آپ(ص) نے علی (ع) کا دروازہ کھلا رہنے دیا اور ہمیں آپ(ص) نے باہر نکال دیا؟

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما انا ترکت ه و اخرجتکم ولکن اﷲ عزوجل ترک ه و اخرجکم

” میں نے اپنی مرضی سے علی(ع) کو نہیں رہنے دیا اور تمہیں اپنی مرضی سے نہیں نکالا، اﷲ نے اسے رہنے دیا اور تمہیں نکال دیا۔“در اصل آںحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اس عمل سے اپنی حدیث کا عملی ثبوت فراہم کیا۔

يا علی انت منی بمنزلة ه ارون من موسی ۔“

” علی(ع) ! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون(ع) کو موسی(ع) سے تھی“

علماء نے کہا : ابو الحسن(ع) ! اس کا قرآن مجید میں بھی کوئی حوالہ ہے؟

آپ(ع) نے فرمایا : جی ہاں! اس کے لیے میں تمہیں قرآن مجید کی آیت پڑھ کر سناتا ہوں“۔

علماء نے کہا : آپ(ع) ہمیں سنائیں۔ پھر آپ(ع) نے یہ آیت پڑھی۔

وَ أَوْحَيْناإِلى‏مُوسى‏وَأَخيهِ أَنْ تَبَوَّءالِقَوْمِكُمابِمِصْرَبُيُوتاًوَاجْعَلُوابُيُوتَكُمْ قِبْلَةً “ ( یونس، ۸۷)

” اور ہم نے موسی(ع) اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ قرار دو“۔

اس آیت سے حضرت ہارون (ع) کی منزلت ظاہر ہوتی ہے اور رسول خدا(ص) نے تمام دروازوں کو بند کر کے علی(ع) کا دروازہ کھول کر ہارون محمدی(ص) یعنی علی(ع) کی فضیلت ظاہر کی، اور رسول خدا صلی اﷲ

۴۸۵

علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔

یہ مسجد کسی جنابت والے کے لیے حلال نہیں ہے سوائے محمد(ص) اور آل محمد(ص) کے“ علماء نے حضرت کا استدالال سن کر کہا: ابو الحسن(ع)! یہ شرح اور یہ بیان صرف اہل بیت رسول(ص) کے پاس ہی مل سکتا ہے۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا : اس کا انکار کون کرسکتا ہے ،کیونکہ آںحضرت(ص) نے فرمایا۔

” انا مدينة العلم وعلی بابها فمن اراد العلم فليات من بابها“

” میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے جسے علم کی ضرورت ہو وہ دروازے پر آئے۔ اور ہم نے عترت طاہرہ(ع) کی فضیلت و شرف و بزرگی ” واصطفا و طہارت“ کے لیے جو وضاحت کی ہے اس کا انکار صرف بدبخت دشمن ہی کرسکتا ہے۔ ” والحمد علی ذالک“پھر امام(ع) نے فرمایا کہ عترت طاہرہ(ع) کی پانچویں فضیلت میں یہ آیت نازل ہوئی کہ عزیز و حکیم خدا نے اہل بیت پیغمبر(ص) کو مخصوص ٹھہراتے ہوئے اور امت میں سے ان کا انتخاب کرتے ہوئے فرمایا

وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ “ ( بنی اسرائیل، ۲۶)

” اور آپ(ص) قرابت دار کو اس کا حق دیں“۔

جب یہ آیت رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا۔

فاطمہ(س) کو بلاؤ چنانچہ سیدہ(س) کوبلایا گیا،

تو آپ(ص) نے فرمایا : فاطمہ(س)!“

انہوں نے کہا : لبیک یا رسول اﷲ(ص)“۔

آںحضرت(ص) نے فرمایا : یہ فدک ہے اس کے حصول کے لیے مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے یہ میری ذاتی جاگیر ہے اس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے اور میں یہ جاگیر حکم خدا کے تحت تمہیں دے رہا ہوں تم اسے لے لو۔ یہ جاگیر تیرے اور تیری اولاد کے لیے ہے“۔لہذا یہ آںحضرت(ص) کی عترت طاہرہ(ع) کی پانچویں فضیلت ہے۔

پانچویں فضیلت کے بعد امام(ع) نے فرمایا کہ ارشاد ربانی ہے۔

۴۸۶

ِ قُلْ لاأَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراًإِلاَّالْمَوَدَّةَفِي الْقُرْبى‏ وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةًنَزِدْلَهُ فيهاحُسْناًإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌشَكُورٌ “ ( شوری، ۲۳)

” آپ(ص) کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا تو ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے بے شک اﷲ بہت بخشنے والا اور قدر دان ہے“۔

یہ خصوصیت صرف آل(ع) کو حاصل ہے کہ ان کی مودت اجر رسالت ہے انبیائے سابقین(ع) نے اپنی رسالت کی اجرت طلب نہیں کی تھی۔

حضرت نوح علیہ السلام کا یہ فرمان قرآن مجید میں موجود ہے۔

ياقَوْمِلاأَسْئَلُكُمْعَلَيْهِمالاًإِنْأَجرِيَإِلاَّعَلَىاللَّهِوَماأَنَابِطارِدِ الَّذينَآمَنُواإِنَّهُمْمُلاقُوارَبِّهِمْوَلكِنِّيأَراكُمْقَوْماًتَجْهَلُونَ “ ( ھود، ۲۹)

” اے میری قوم! میں تم سے کوئی مال تو نہیں چاہتا ہوں میرا اجر تو اﷲ کے ذمے ہے اور میں صاحبان ایمان کو نکال بھی نہیں سکتا کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کرنے والے ہیں البتہ میں تم کو ایک جاہل قوم تصور کررہا ہوں۔“

حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے اﷲ تعالی نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔

ياقَوْمِلاأَسْئَلُكُمْعَلَيْهِأَجْراًإِنْأَجْرِيَإِلاَّعَلَىالَّذيفَطَرَني‏أَفَلاتَعْقِلُونَ “ ( ھود،۵۱)

اے میری قوم میں تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا میرا اجر تو اس پروردگار کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے کیا تم عقل نہیں رکھتے “۔

الغرض انبیائے سابقین(ع) میں سے کسی نے بھی اجرت طلب نہیں کی مگر اﷲ تعالی نے اپنے حبیب(ص) کو حکم دیا کہ وہ اجرت طلب کریں۔

” قُلْ لاأَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراًإِلاَّالْمَوَدَّةَفِي الْقُرْبى (شوری، ۲۳)

” آپ(ص) کہہ دیں میں تم سے تبلیغ رسالت کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتا مگر یہ میرے اقربا سے محبت کرو“۔

۴۸۷

اﷲ تعالی نے عترت طاہرہ(ع) کی مودت کو اس لیے اجر رسالت(ص) قرار دیا کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ یہ دین سے کبھی منحرف نہیں ہوں گے اور کبھی بھی گمراہی کو اختیار نہیں کریں گے۔

علاوہ ازین یہ اصول فطرت ہے کہ اگر کوئی کسی شخص سے محبت کرتا ہو لیکن اس کے افراد خانہ میں سےکسی سے دشمنی رکھتا ہو تو محبوب یہ سمجھ لیتا ہے کہ اسے مجھ سے کوئی محبت نہیں ہے کیونکہ اگر اسے مجھ سے محبت ہوتی تو پھر میرے پیاروں سے بھی محبت کرتا اس لیے اﷲ تعالی نے عترت طاہرہ(س) کی مودت فرض کی تاکہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم یقین کر لیں کہ میرے کلمہ پڑھنے والوں کو مجھ سے حققی محبت ہے اسی لیے جو شخص عترت(ع) سے محبت کرے گا رسول خدا(ص) اس سے کبھی نفرت نہیں کریں گے اور جوشخص حضور(ص) کے افراد خانہ سے نفرت کرے گا تو یقینا حضور اکرم(ص) بھی اسے اپنا محب تصور نہیں کریں گے اور اس سے نفرت کریں گے اس سے بڑھ کر فضیلت و شرف اور کیا ہو کہ عترت طاہرہ(ع) کی محبت کو اﷲنے اجر رسالت قرار دیتے ہوئے فرمایا۔

” قُلْ لاأَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراًإِلاَّالْمَوَدَّةَفِي الْقُرْبى (شوری، ۲۳)

” آپ(ص) کہہ دیں میں تم سے تبلیغ رسالت کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتا مگر یہ کہ  میرے قرابت داروں سے محبت رکھو“۔ جب یہ آیت مجیدہ نازل ہوئی تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب کے درمیان خطبہ دیا، حمد و ثناء کے بعد ارشاد فرمایا۔لوگو اﷲ نے تم پر میرا ایک حق واجب کیا ہے تم وہ حق ادا کروگے ؟ کسی نے بھی جواب نہ دیا پھر آںحضرت(ص) نے فرمایا : لوگو! میرا حق سونے چاندی اور کھانے پینے کی شکل میں نہیں ہے۔

لوگوں نے کہا: پھر آپ(ص) بیان فرمائیں اﷲ نے آپ(ص) کا کونسا حق ہم پر فرض کیا ہے؟اس وقت آپ(ص) نے یہ آیت تلاوت کی تو لوگوں نے یہ آیت سن کر کہا کہ یہ ٹھیک ہے ، لیکن اس کے باوجود اکثریت نے اس وعدے کو پورا نہیں کیا۔ حضور اکرم(ص) سے پہلے جتنے بھی نبی آئے اﷲ نے ان سب کو وحی فرمائی کہ تم قوم سے اجر رسالت طلب نہ کرنا میں تمہیں اس کا اجر عطا کروں گا۔ جب محمد(ص) رسول اﷲ(ص) کی باری آئی تو اﷲ تعالی نے ان کی اطاعت اور ان کے قرابت داروں کی مودت کو واجب کردیا اور اﷲ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اجر رسالت کو مودت اہل بیت(ع) کی صورت میں طلب

۴۸۸

 کریں اور یہ قاعدہ ہے کہ محبت، ایسے نہیں ہوتی محبت کسی کی فضیلت و کمال کو دیکھ کر ہی کی جاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ  تعالی نے اہل بیت(ع) کی محبت  اس لیے فرض کی کہ اﷲ جانتا تھا کہ خاندان محمد(ص) صاحب فضیلت بھی ہے اور صاحب کمال بھی۔ جب اﷲ تعالی نے آل محمد(ص) کی مودت کو فرض کیا تو کئی لوگوں پر یہ بات گراں گزری کیونکہ انہوں نے جان لیا تھا کہ جس سے مودت کی جائے اس کے فرمان پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد جن لوگوں نے خدا سے وفا کا عہد و پیمان کیا ہوا تھا بس وہی اس پر ثابت قدم رہے اور بغض و نفاق رکھنے والوں نے اس کی ناجائز تاویلات شروع کردیں اور حکم خدا کو اس کی حدوں سے باہر لے جانے کی مذموم کوششیں کیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ۔ قرابت سے مراد سارا عرب ہے اور تمام مسلمان ہیں۔ بہر نوع اگر ان کی یہ بات بھی ماں لی جائے تو عرب سے محبت اس لیے ضروری قرار پائی کہ وہ حضور اکرم(ص) سے عجم کی نسبت زیادہ قریب ہیں اسی طرح سے اہل مکہ و مدینہ سے محبت کی وجہ یہ ہوگی کہ ان دو شہروں کے افراد آںحضرت(ص) کے اور زیادہ قریب ہیں اور قریش سے محبت کی وجہ یہ ہوگی کہ یہ قبیلہ دوسرے قبیلوں کی نسبت آپ(ص) سے زیادہ قریب ہے تو جو جتنا قریب ہوتا جائے گا محبت کے قابل بنتا جائے گا۔ جب عرب صرف زبان کی بنیاد پر اور اہل مکہ و مدینہ صرف ہم شہر ہونے کی بنیاد پر اور قریش قبیلہ ہونے کی بنا پر لائق مودت بن سکتے ہیں تو جو افراد حضور(ص) کا خون اور گوشت پوست ہوں تو ان کے ساتھ مودت تو اور زیادہ ضروری قرار پائے گی۔ اسی لیے اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ عترت طاہرہ(ع) سے مودت کریں اور اسی مودت کے صلے میں اﷲ سے جنت حاصل کریں کیونکہ اﷲ نے فرمایا ہے

وَالَّذينَ آمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحاتِ في‏رَوْضاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مايَشاؤُنَ عِنْدَرَبِّهِمْ ذلِكَ هُوَالْفَضْل ُالْكَبيرُذلِكَ الَّذي يُبَشِّرُاللَّهُ عِبادَهُ الَّذينَ آمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحاتِ قُلْ لاأَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراًإِلاَّالْمَوَدَّةَفِي الْقُرْبى‏ “۔  (شوری، ۲۳،22)

” وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیئے وہ جنت کے باغات میں رہیں گے اور ان کے لیے

۴۸۹

 پروردگار کی بارگاہ میں وہ تمام چیزیں ہیں جن کے وہ خواہش مند ہوں گے یہ بہت بڑا فضل پروردگار ہے یہی وہ فضل عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کیے ہیں تو آپ(ص) کہہ دیجئے میں تم سے تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو۔“

             پھر امام علیہ السلام نے اس آیت کے شان نزول کے متعلق فرمایا کہ۔

مجھ سے میرے والد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے بیان کیا ہے کہ۔

مہاجرین او اںصار آںحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔

یا رسول اﷲ(ص) ! آپ کو کافی خرچے کی ضرورت ہے اور آپ(ص) کے پاس وفود بھی آتے رہتے ہیں ہم اپنے مال اور اپنی جانیں آپ(ص) کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کرتے ہیں آپ(ص) جو حکم کریںگے اس کی تعمیل ہوگی اور جسے چاہیں عطا کریں اور جس سے چاہیں روک لیں اور آپ(ص) ہمارے اموال کے مالک و مختار ہیں۔

اس وقت اﷲ تعالی نے روح الامین(ع) کو آپ(ص) پر نازل کیا جنہوں نے آپ(ص) کو یہ آیت پڑھ کر سنائی۔” کہ میری رسالت کا اجر یہی ہے کہ تم میرے بعد میرے قرابت داروں سے محبت کرو“۔

اﷲ کا یہ حکم سن کر مہاجرین و اںصار چلے گئے اور اس آیت کے نزول کے بعد منافقین نے یہ کہا کہ آںحضرت(ص) نےہماری پیش کش کو اس لیے ٹھکرایا ہے کہ وہ ہمیں اپنے قرابت داروں کی مودت کی ترغیب دے سکیں اور انہوں نے یہ بات اپنی طرف سے گھڑلی ہے۔ اس پر اﷲ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرى‏عَلَى اللَّهِ كَذِباًفَإِنْ يَشَإِاللَّهُ يَخْتِمْ عَلى‏قَلْبِكَ وَيَمْحُ اللَّهُ الْباطِلَ وَ يُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِماتِهِإ ِنَّهُ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ “۔  (شوری، 24)

” کیا ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ رسول(ص) نے اﷲ پر جھوٹا بہتان تراش لیا ہے جب کہ خدا چاہے تو تمہارے قلب پر مہر بھی لگا سکتا ہے اور خدا تو باطل کو مٹا دیتا ہے  اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے سے ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے یقینا وہ دلوں کے رازوں کو جاننے والا ہے“۔

۴۹۰

رسول خدا(ص) نے قاصد بھیج کر ان لوگوں کو اپنے ہاں طلب کیا اور فرمایا کیا اس طرح کی باتیں ہوئی ہیں لوگوں نے کہا: جی ہاں ! ہم میں سے کچھ لوگوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں اور وہ ہمیں ناگوار گزاری ہیں۔ آںحضرت(ص) نے انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی اہل ایمان یہ آیت سن کر رونے لگے اور ان کے رونے کی آوازیں کافی بلند ہوئیں تو اﷲ کو ان پر رحم آگیا اور یہ آیت نازل فرمائی۔

وَ هُوَالَّذي يَقْبَل ُالتَّوْبَةَعَنْ عِبادِهِ وَيَعْفُواعَنِ السَّيِّئاتِ وَيَعْلَمُ ماتَفْعَلُونَ “ ( شوری، ۲۵)

اور وہی وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ہے اور وہ تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے“ ۔ چنانچہ یہ اہل بیت(ع) کی چھٹی خصوصیت ہے۔

پھر امام(ع) نے اہل بیت(ع) کی ساتویں فضیلت کے بیان میں ارشاد فرمایا کہ۔

اﷲ تعالی کا فرمان ہے

إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ياأَيُّهَاالَّذينَ آمَنُواصَلُّواعَلَيْه وَسَلِّمُواتَسْليماً “ ( احزاب، ۵۶)

” بے شک اﷲ اور اس کے فرشتے نبی(ص) پر درود بھیجتے ہین ایمان والو تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو جیسا کہ سلام کرنے کا حق ہے“۔ جب یہ آیت مجید نازل ہوئی تو صحابہ نے آںحضرت(ص) سے  عرض کی یا رسول اﷲ (ص) ہمیں آپ(ص) پر سلام کرنے کا علم ہے آپ(ص) پر صلوات کیسے پڑھی جائے؟

آپ(ص) نے فرمایا یہ کہو:۔

” اللهم صل علی محمد و آل محمد کما صليت و بارکت علی ابراهيم و علی آل ابراهيم انک حميد مجيد“

امام(ع) نے فرمایا” لوگو! کیا تمہیں اس مسئلے میں کوئی اختلاف ہے؟ تمام حاضرین نے کہا:

نہیں ! ہمیں اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے پوری امت کا اس مسئلہ پر اجماع ہے“۔

مامون نے کہا:

ابوالحسن(ع)! کیا آل(ع) کے متعلق قرآن مجید میں اس سے زیادہ واضح آیت بھی موجود ہے؟

۴۹۱

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا : لوگو! مجھے قرآن مجید کی اس آیت مجیدہ کے متعلق بتلاؤ۔

” يس وَ الْقُرْآنِ الْحَكيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلينَ عَلى‏صِراطٍ مُسْتَقيمٍ “  (یس، ۱۔۴)

لفظ یاسین سے کون مراد ہیں؟ علماء نے کہا:۔

ابوالحسن(ع)! سیدھی سی بات ہے کہ ”یاسین“ سے مراد حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اس کے متعلق کوئی شک نہیں ہے۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:

” سنو ! اﷲ تعالی نے محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کو وہ فضیلت عطا کی ہے جس کی حقیقت تک لوگوں کی عقل پرواز نہیں کرسکتی۔ اﷲ تعالی نے انبیاء پر سلام بھیجا ہےلیکن کسی نبی کی آل پر سلام نہیں بھیجا چنانچہ فرمان الہی ہے۔

سَلامٌ عَلى‏نُوحٍ فِي الْعالَمين (صافات، ۷۹) یعنی ” عالمین میں نوح(ع) پر سلام ہو“۔

اﷲ تعالی نے فرمایا

سَلامٌ عَلى‏إِبْراهيمَ “ ( الصافات، ۱۰۹) ” ابراہیم(ع) پر سلام ہو“ اور فرمایا:۔

سَلامٌ عَلى‏مُوسى‏وَهارُونَ “ ( صافات، ۱۲۰)

” موسی(ع) وہارون(ع) پر سلام ہو“ اس کے برعکس پورے قرآن میں اﷲ نے یہ نہیں کہا:۔کہ آل نوح(ع) پر سلام ہو آل ابراہیم(ع) پر سلام ہو آلِ موسی(ع) و ہارون(ع) پر سلام ہو۔ لیکن جب آلِ محمد(ص) کی باری آئی تو اﷲ تعالی نے فرمایا۔

سَلامٌ عَلى‏إِلْ‏ياسينَ “ ( صافات، ۱۳۰) ” آل یاسین(ع) پر سلام ہو یعنی آل محمد(ص) پر سلام ہو“۔

امام علیہ السلام کا یہ بیان سن کر مامون نے کہا :۔ میں مان گیا ہوں کہ معدن نبوت(ع) ہی ایسی تشریح کرسکتے ہیں۔

اس کے بعد امام(ع) قرآن میں موجود عترت طاہرہ(ع) کی آٹھویں فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے۔

” وَ اعْلَمُواأَنَّماغَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍفَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْ‏بى ( انفال، ۴۱)

۴۹۲

” اور جان لو جو کچھ تمہیں غنیمت حاصل ہو اس میں پانچواں احصہ اﷲ اور رسول(ص) اور ان(ص) کے قرابت داروں کا ہے“۔ اس آیت میں اﷲ تعالی نے عترت طاہرہ(ع) کا حصہ اپنے اور اپنے رسول(ص) کے ساتھ شامل کیا یہ آل(ع) کا عظیم شرف ہے اور اﷲ تعالی نے عترت طاہرہ(ع) کے حصے کو اپنے اور رسول(ص) کے حصے سے متصل کیا اور باقی خمس کے حق داروں کو جدا اور علیحدہ رکھا اﷲ نے اپنی ذات سے ابتدا کی اور دوسرے نمبر پر اپنے رسول (ص) کا تذکرہ کیا اور تیسرے درجہ پر عترت طاہرہ(ع)  کا تذکرہ کیا۔

یہ اس کتاب کا فرمان ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں اور یہ وہ کتاب ہے کہ جس کے آگے اور پیچھے باطل نہیں آسکتا جو صاحب حکمت اور لائق حمد کی نازل کردہ ہے۔

خمس کے تین مذکورہ طبقات کے بعد اﷲ تعالی نے دوسرے مستحقین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

وَالْيَتامى‏وَالْمَساكينِ وَابْنِ السَّبيلِ “ ( انفال، ۴۱)

” خمس یتیموں اور مساکین اور مسافرین کے لیے ہے“۔

اب قابل توجہ بات ہے کہ یتیم خمس کا حقدار ہے لیکن جب یتیم بالغ ہوجائے تو وہ خمس کا حق دار نہیں رہے گا اور اس طرح سے جب مسکین آسودہ حال ہوجائے تو اسے بھی غنیمت میں سے حصہ نہیں دیا جائے گا اور جب مسافر اپنے گھر پہنچ جائے تو وہ بھی غنیمت میں سے حصہ نہیں لے گا۔اور ان تینوں طبقات کے برعکس ” ذی القربی“ کا حصہ قیامت تک قائم رہے گا چاہے وہ امیر ہوں یا غریب ہوں پھر بھی خمس میں ان کا حصہ موجود رہے گا کیوںکہ ان کے حصے کا تذکرہ اﷲ اور رسول کے حصے کے ساتھ کیا گیا ہے اور اﷲ اور رسول(ص) ہرگز غریب نہیں ہیں۔ جس طرح سے خدا نے خمس وغنیمت میں پہلے اپنا تذکرہ کیا پھر اپنے رسول(ص) کا تذکرہ کیا پھر عترت طاہرہ(ع) یعنی ” ذی القربی“ کا تذکرہ کیا اسی طرح سے اﷲ تعالی نے وجوب اطاعت کے لیے پہلے اپنا ذکر کیا پھر اپنے رسول(ص) کا ذکر کیا پھر اہل بیت(ع) کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ياأَيُّهَاالَّذينَ آمَنُواأَطيعُوااللَّهَ وَأَطيعُواالرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِمِنْكُمْ “ (نساء، ۵۹)

” ایمان والو! اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول (ص) اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہوں“۔

۴۹۳

اور آیت ولایت میں بھی اﷲ نے پہلے اپنی ولایت پھر اپنے نبی(ص) کی ولایت پھر عترت(ع) کی ولایت کا تذکرہ کیا چنانچہ ارشاد ہوا:۔

إِنَّماوَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذينَ آمَنُواالَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَوَيُؤْتُونَ الزَّكاةَوَهُمْ راكِعُونَ “ ( مائدہ ، ۵۵)

” ( اہل ایمان) تمہارا ولی بس اﷲ ہے اور اس کا رسول(ص) ہے اور مومن تمہارے ولی ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکواة دیتے ہیں “ اﷲ تعالی نے غنیمت اور ”فے“ بغیر جنگ غنیم سے ہاتھ آیا ہوا مال کے خمس میں انہیں ، اپنے اور رسول(ص) کے ساتھ شامل کیا اور اطاعت میں بھی انہیں اپنے اور اپنے رسول(ص) کے ساتھ شامل کیا اور ولایت میں بھی اﷲ نے اپنی اور اپنے رسول(ص) کی ولایت کے ساتھ عترت طاہرہ(ع) کی ولایت کو شامل کیا۔ اس سے خود اندازہ  کریں کہ اﷲ تعالی نے اہل بیت(ع) پر کتنی نعمتیں نازل کی ہیں اور جب زکواة صدقات کی باری آئی تو اﷲ تعالی نے فرمایا

إِنَّمَاالصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِوَالْمَساكينِ وَالْعامِلينَ عَلَيْهاوَالْمُؤَلَّفَةِقُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقابِ وَ الْغارِمين َوَفي‏سَبيلِاللَّهِ وَابْنِ السَّبيلِ فَريضَةًمِنَ اللَّهِ “ ( توبہ ، ۶۰)

” صدقات ، فقراء اور مساکین اور اس کے عالمین اور جن کی تالیف قلب مطلوب ہو اور غلاموں کو آزاد  کرانے اور قرض اتارنے اور خدا کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں یہ اﷲ کی طرف سے فرض ہے“۔

صدقات میں اﷲ نے اپنا کوئی حصہ نہیں رکھا اور اپنے رسول(ص) کا بھی کوئی حصہ مقرر نہیں کیا اسی طرح سے عترت طاہرہ(ع) کا بھی صدقات میں کوئی حصہ نہیں رکھا۔ اﷲ تعالی نے اپنے حبیب(ص) اور ان کے اہل بیت(ع) پر صدقہ حرام کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صدقہ لوگوں کے ہاتھ کا میل کچیل ہے اور اﷲ تعالی نے انہیں ہر طرح کے میل کچیل سے پاک و پاکیزہ رکھا ہے۔ اﷲ تعالی نے اہل بیت(ع) کا طاہر بنایا اور انہیں اپنی رضا کے لیے چن لیا اورذات احدیت نے جو کچھ اپنے لیے پسند کیا وہی کچھ اہل بیت(ع) کے لیے پسند کیا اور جس چیز کو اپنے لیے ناپسند کیا اسے اہل بیت(ع) کے لیے بھی ناپسند کیا۔ پھر امام(ع) نے اہل بیت(ع) کی نویں فضیلت بیان فرمانے کے لیے قرآن کی یہ آیت پڑھی۔

۴۹۴

کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے۔

فَسْئَلُواأَهْل َالذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ “ ( نحل، ۴۳)

” اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو “ لوگو! ہم اہل ذکر(ع) ہیں اور اگر تم  لاعلم ہو تو ہم سے پوچھو“

علماء نے کہا : ابوالحسن(ع) ! اہل ذکر(ع)“ سے تو یہود و نصاری مراد ہیں۔امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا :۔ سبحان اﷲ! اگر اس سے مراد یہود و نصاری ہیں تو امت اسلامیہ جب ان سے سوال کرے گی تو وہ اپنے دین کی دعوت دیںگے اور کہیں گے کہ ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر  ہے۔ بھلا اس صورت میں تم کیا کرو گے؟“

مامون نے کہا : ابوالحسن(ع) پھر اس آیت کی تفسیر کیا ہوسکتی ہے؟

امام علی رضا علیہ السلام  نے فرمایا ” ذکر“ سے رسول خدا(ص) مراد ہیں اور ہم اہل ذکر(ع) ہیں اﷲ تعالی نے سورہ طلاق میں ارشاد فرمایا ۔

قَدْأَنْزَل َاللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراًرَسُولاً “ (طلاق، ۱۰،۱۱)

” اﷲ نے تمہارے پاس رسول(ص) کو ذکر بنا کر نازل کیا“۔لہذا ” ذکر“ رسول اکرم(ص) ہیں اور ہم ان کے اہل ہیں لہذا ہم ہی  ” اہل الذکر“ ہیں۔ یہ  ہماری نویں خصوصیت ہے۔ اور ہماری دسویں فضیلت یہ ہے کہ اﷲ کا فرمان ہے۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهاتُكُمْ وَبَناتُكُمْ وَأَخَواتُكُمْ “ ( نساء، ۲۳)

” تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں حرام کی گئیں“اب آپ حضرات مجھے یہ جواب دیں کہ کیا میری بیٹی یا میری تواسی یا میرے صلب سے پیدا ہونے والی کوئی لڑکی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لیے حلال ہے اگر آپ(ص) زندہ ہوں؟“

حاضرین نے کہا : نہیں

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا۔

” اچھا یہ بتاؤ اگر بالفرض رسول خدا(ص) زندہ ہوں تو کیا تمہاری بیٹیاں ان کے لیے حلال ہوں گی یا حرام

۴۹۵

 ہوں گی:“

حاضریں نے کہا : ہماری بیٹیاں حلال ہوں گی۔

حاضرین نے کہا ۔ ہماری بیٹیاں حلال ہوں گی۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ” بس اس سے ثابت ہوگیا کہ میں اور ہوں اور تم اور ہو میں آل(ع) میں سے ہوں اور تم آل(ع) میں سے نہیں ہو اگر تم رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی آل(ع) ہوتے تو تمہاری بیٹیاں بھی میری بیٹیوں کی طرح آںحضرت(ص) کے لیے حرام ہوتیں۔

اس سے ثابت ہوا کہ میں آںحضرت(ص) کی آل(ع) ہوں اور تم ان(ص) کی امت ہو یہ آل(ع) اور امت کا فرق ہے آل(ع) آںحضرت(ص) کا جزو ہیں اور امت آپ(ص) کا جزو نہیں ہے۔“پھر امام(ع) نے آل محمد(ص) کی گیارہویں فضیلت بیان فرمائی کہ اﷲ تعالی نے مومن آل فرعون کے قول کو نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔

وَ قالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إيمانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلاًأَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْجاءَكُمْ بِالْبَيِّناتِ مِنْ رَبِّكُم ( مومن، ۲۸)

” اور مرد مومن نے کہا جس کا تعلق آل فرعون سے تھا جو اپنے ایمان کو چھپاتا تھا کیا تم اس شخص کو قتل کروگے جو یہ کہتا ہے کہ اﷲ میرا رب ہے اور وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔“

مومن آل فرعون رشتے میں فرعون کے ماموں کا بیٹا تھا وہ اگر چہ فرعون کے مسلک مخالف تھا، اﷲ تعالی نے نسب کی وجہ سے اسے آل فرعون قرار دیا جب ایک شخص نظریاتی مخالف ہونے کے باوجود صرف نسب کی وجہ سے کسی کی آل قرار پاتا ہے تو ہم حضور اکرم(ص) کے نسب میں بھی شریک ہیں اور دین میں بھی شریک ہیں تو ہمارے آل ہونے کا کتنا بلند مقام ہوگا؟ یہ آل اور امت کا گیارہواں فرق ہے۔پھر امام(ع) نے فرمایا کہ اﷲ تعالی نے اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا۔

وَ أْمُرْأَهْلَكَ بِالصَّلاةِوَاصْطَبِرْعَلَيْها “ ( طہ ، ۱۳۲)

” اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کی پابندی کرو“ اﷲ تعالی نے اس فضیلت کے لیے

۴۹۶

ہمیں مخصوص فرمایا کیونکہ تمام امت کےساتھ ہمیں نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور پھر امت سے علیحدہ کر کے اپنے حبیب(ص) کو کہا کہ وہ ہمیں نماز کا حکم دیں۔

چنانچہ اس آیت مجیدہ کے نزول کے بعد رسول خدا(ص) پورے نو مہینے تک ہر نماز کے وقت علی(ع) و بتول علیہم السلام کے دروازے پر روزانہ پانچ بار آتے تھے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے تھے۔

الصلوة رحمکم اﷲ “  ” خدا تم پر رحم کرے، نماز کا وقت ہے“۔

اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کی اولاد کو وہ عزت و عظمت عطا نہیں کی جو عزت و عظمت اہل بیت مصطفی(ص) کو عطا کی۔ مامون اور دوسرے علماء نے کہا اے اہل بیت پیغمبر(ص) ! خدا تمہیں اس امت کی طرف سے بہترین جزا عطاف فرمائے جو حقائق ہماری فہم و فراست سے بلند ہوتے ہیں ان کی تشریح اور بیان آپ(ع) کی طرف سے ہی ہمیں نصیب ہوتے ہیں۔

۴۹۷

مجلس نمبر ۸۰

(۴ رجب سنہ۳۶۸ھ)

فضائل ماہ رجب

۱ـ           ابو سعید خدری(رح) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا رجب خدا کے نزدیک محبوب اور بزرگ مہینہ ہے خدا کے نزدیک ماہ رجب کی فضیلت بہت زیادہ ہےزمانہ جاہلیت میں بھی اس مہینے کو محترم جانا جاتا تھا اسلام نے بھی اس مہینے میں سوائے بزرگی اور فضیلت کے کسی اور شئی کا اضافہ نہیں کیا آگاہ رہو کہ شعبان اور رجب دونوں میرے مہینے ہیں جب کہ رمضان میری امت کا مہینہ ہے آگاہ رہو کہ جوکوئی تم میں سے عقیدہ و قربت کی غرض سے ماہ رجب کا روزہ رکھے گا تو وہ خدا کی خوشنودی کا حقدار ہوگا اور روز قیامت اس کا یہ روزہ خدا کے غصے کو ٹھنڈا کرے گا اس کے لیے دوزخ کا دروازہ بند کردیا جائیگا، اگر تمام زمین کو سونے سے پر کردیا جائے تب بھی اس مہینے کے ایک دن کے روزے سے بہتر نہیں اور اس کا اجر نیکی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ اسے خالص خدا کی رضا کے لیے رکھا جائے ماہ رجب کےروزے کے افطار کے بعد اس شب میں خدا اس شخص کی دس دعائیں مستجاب کرے گا اور اگر وہ بندہ دنیا کے نقد سے اس کا اجر چاہے گا تو خدا اسےعطا کرے گا وگرنہ آخرت کے لیے یہ اس کا بہترین زخیرہ ہے اور یہ کہ خدا ایسے بندے کو اولیاء اﷲ، اصفیاء اور اپنے دوستوں کی مانند جانتا ہے اور ان کی دعائیں مستجاب فرماتا ہے۔

جو کوئی رجب کے دوران روزے میں گزارتا ہے تو زمین و آسمان کے برگزیدہ بندے اس کی کرامت کا حساب لگانے سے قاصر ہیں خدا اس بندے کی عمر دراز کرتا ہے اور دس صادقین کی عمر بھر کی نیکیوں کے برابر ثواب اس کے نامہء اعمال میں لکھتا ہے اور روزِ قیامت وہ صادقین کے ساتھ  لوگوں کی شفاعت کرے گا اور ان کے ساتھ محشور ہوگا یہاں تک کہ بہشت میں جائے گا اور صالحین و صادقین کے رفیقوں میں شمار ہوگا۔

۴۹۸

جو کوئی ماہ رجب کے تین دن روزے میں گزارتا ہے تو خدا اس کے اور دوزخ کے درمیان خندق کھودے گا یا پھر ستر سال کی مسافت کے برابر ایک پردہ حائل کردے گا اور باتحقیق اس کے افطار کے وقت اس سے فرمائے گا کہ مجھ پر تیری ولایت کی محبت کا حق لازم ہے اے میرے فرشتو گواہ رہو کہ میں نے اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا ہے اور آیندہ گناہوں کو بھی معاف کرتا ہوں۔ جو کوئی ماہ رجب کے چار دن روزے میں گذارتا ہے تو وہ تمام بلاؤں اور بیماریوں جزام و برص اور فتنہ دجال اور عذاب قبر سے پناہ میں رہے گا ۔ اور اس کے نامہ اعمال میں ” اولی الباب توابین و اوابین“ کی مانند اجر لکھا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا بالکل اس طرح کہ جس طرح عابدین کے دائیں ہاتھ میں نامہء اعمال ہوگا۔

جو کوئی ماہ رجب کے پانچ دن روزے میں گزارے گا تو خدا پر لازم ہے کہ وہ اسے روزِ قیامت خوشنود کرے اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند چمکتا ہوگا خدا اس کے حساب میں عالج ( کوہ عالج) کے زرات کے برابر ثواب لکھے گا اور اسے بے حساب بہشت میں داخل کیا جائے گا اور کہا جائے گا جو کچھ چاہتے ہو اپنے پروردگار سے طلب کرو۔ جوکوئی ماہ رجب کے چھ دن روزے میں گزارے گا تو جب اپنی قبر سے برآمد ہوگا تو نورانی چہرہ لیےہوئے ہوگا اور آفتاب اس کے نور کے سامنے ماند ہوگا اس کے علاوہ اسے  ایسا نور عطا کیا جائے گا کہ حاضرین قیامت اس نور سے استفادہ کریں گے ایک ایسی امان اسے عطا کی جائے گی کہ پل صراط سے بے حساب گزر جائے گا اس کی ماں باپ سے قطع رحمی اور نافرمانی معاف کی جائے گی۔ جو کوئی ماہ رجب کے سات دن روزہ رکھے ہوئے گذارے گا اس کے ہر روزے کے بدلے جہنم کا ایک دروازہ بند کیا جائے گا اور خدا اس کے بدن پر دوزخ کی آگ کو حرام کردے گا۔ جو کوئی ماہ رجب کے آٹھ دن روزے میں گزارے گا تو خدا اس کے ہر روزے کے بدلے بہشت کے آٹھ دروازے اس کے سامنے کھول دے گا اور فرمائے گا جہاں سے چاہو داخل ہوجاؤ جو کوئی ماہ رجب کے نویں دن مسلسل روزہ رکھے گا تو اپنی قبر سے باہر آتے ہوئے ” لا الہ الا اﷲ کہے گا۔ اور بہشت میں داخل ہونے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی اس کا چہرہ ایسے نور سے تاباں ہوگا کہ اہل محشر کہیں گے کہ کیا یہ کوئی پیغمبر ہے

۴۹۹

اس کے لیے ان روزوں کی کم تر جزا جو عطا کی گئی ہے وہ یہ ہے وہ بے حساب بہشت میں داخل ہوگا۔ جو کوئی ماہ رجب کے دس دن روزہ رکھے ہوئے گذارے گا تو خدا اسے دو سبز پر،جن کا حلقہ یاقوت کا ہوگا عطا کرے گا کہ وہ ان پروں کے ساتھ پل صراط پر سے بجلی کی طرح گزر جائے گا خدا اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا اور اس کا شمار مقربین میں کرے گا اور اس کو مقربین و قوامین بالقسط کے زمرے میں رکھے گا گویا اس نے خدا کی ایک ہزار سال تک صبر و استقامت اور قصد قربت سےعبادت کی ہو۔ جو کوئی ماہِ رجب کے گیارہویں دن کو روزے کی حالت میں گزارے گا تو روزِ قیامت اس سے زیادہ ثواب ونیکیاں رکھنے والا کوئی نہ ہوگا مگر وہ کہ جو اس کی مانند ہو یا جس نے اس سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔ جو کوئی ماہ رجب کے بارہ(۱۲) دن روزہ رکھے ہوئے گزارے تو روز قیامت اسے سندس و استبراق کے دو لباس پہنائے جائیں گے اور اسے آراستہ کیا جائے گا اگر ان لباسوں میں سے کسی ایک کو دنیا میں آیزاں کیا جائے تو مشرق سے مغرب تک روشن ہوجائیں گے اور تمام دنیا مشک کی خوشبو سے مہک اٹھے گی۔ جو کوئی ماہ رجب کے تیرہ(۱۳) دن روزے میں گزارے گا تو قیامت میں اس کے لیے سایہ عرش میں سبز یاقوت کا ایک ایسا خوان بچھایا جائے گا کہ جس کے پائے در سے بنے ہوئے ہوں گے اور اس کا پھیلاؤ دنیا کے برابر ہوگا اس خوان پر ستر(۷۰) ہزار قسم کی خوراک اس کےلیے چنی جائے گی کہ جس کی خوشبو باہم ملی ہوئی ہوگی اور جب لوگ سختی و گرفتاری میں مبتلا ہوں گے یہ اس خوان سے نوش کررہا ہوگاجو کوئی ماہ رجب کے چودہ(۱۴) دن روزے میں گزارے گا تو خدا اسے ایسا اجر عطا کرے گا جو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا خدا اس کے لیے بہشت کے قصور ( قصر کی جمع) جو یاقوت و در کے بنے ہوں گے عطا کرے گا۔ جو کوئی ماہ رجب کے پندرہویں (۱۵) دن روزہ رکھے، روزِ قیامت امان والوں کےہمراہ ہوگا اور ہرگز کوئی مقرب فرشتہ اورپیغمبر مرسل ایسا نہ ہوگا کہ جو اس کے پاس سے گزرے اور نہ کہے کہ کیا کہنا تیرا مقرب و شرافت مند اور محترم ساکنِ بہشت ہے۔ جو کوئی ماہ رجب کے سولہ(۱۶) دن روزہ رکھے ہوئے گزارے تو صفِ اول والوں کے ہمراہ نور کے گھوڑے پر سوار ہوگا اسے بہشت میں پر عطا کیے جائیں گے۔

۵۰۰