مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277357
ڈاؤنلوڈ: 6926

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277357 / ڈاؤنلوڈ: 6926
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جو کوئی ماہ رجب کے سترھویں(۱۷) دن کا روزہ رکھے تو قیامت کے دن ستر ہزار چراغ اپنے ہمراہ لیےہوئے بل صراط سے گزرے گا یہاں تک کہ بہشت میں جا پہنچے اور فرشتے اسے درود سلام کہیں گے جو کوئی ماہ رجب کے اٹھارویں (۱۸) دن کو روزہ رکھے ہوئے گزارے گا تو وہ گنبد ابراہیم(ع) جو کہ بہشت میں ہے۔ اور جس کے تختوں کے کنارے درِ یاقوت کے ہیں ، میں ساکن ہوگا جو کوئی ماہ رجب کے انیس(۱۹) دن روزے میں گزارے گا تو خدا اس کے لیے لولو سے اس کے لیے قصر ابراہیم(ع) و آدم(ع) کے برابر قصر بنائے گا تاکہ یہ روزانہ انہیں اور وہ اسے اس کے حق واجب اور احترام کے ساتھ سلام کہتے رہیں اور اس کے ہر روز کے روزے کا ثواب ہزار سال کے روزوں کے برابر ہوگا۔ جو کوئی ماہ رجب کے بیس(۲۰) دن روزے میں گزارے گا تو یہ اس کے لیے ایسا ہوگا جیسے اس نے بیس ہزار سال خدا کی عبادت کی ہو۔ ج کوئی ماہ رجب کے اکیس (۲۱) دن روزے میں گزارے تو اسے قبیلہ ربیع و مضر کی تعداد کے برابر خطا کار و گناہ گار لوگوں کی شفاعت کا حق عطا کیا جائے گا۔ جو کوئی بائیسویں (۲۲) دن ماہ رجب کا روزہ رکھے تو اس کےلیے منادی آسمان سے ندا دے گا کہ اے ولی خدا تمہیں خدا کی طرف سے کرامت و بزرگی کی خوشخبری ہو۔ خدا اسے پیغمبروں، صدیقوں اور شہداء و صالحین کی رفاقت کی نعمت عطا کرے گا اور  یہ کیا بہتر رفیق ہیں۔ جو کوئی ماہ رجب کے تئیس (۲۳) دن روزہ رکھے ہوئے گزارے گا اس کے لیے آسمان سے ندا آئے گی کہ اے بندہ خدا تیرا کیا کہنا کہ تو خدا کی رحمت اور نعمت طولانی کا حقدار ہوا۔ اور تجھے جو بہشت عطا کی گئی ہے اس کا کیا کہنا۔ جوکوئی ماہ رجب کے چوبیسویں(۲۴) دن کو روزے میں گزارے گا تو ملک الموت اس کے سامنے ایک نوجوان کی صورت میں سبز دیبا کا لباس پہن کر اور بہشت کے گھوڑے پر سوار آئیں گے اور اسے سبز حریر جو کہ مشک اذفر سے معطر ہوگا ہاتھ میں لیے ہوئے ایسا جام پلائیں گے جو کہ اس پر سکرات موت کو آسان کردے گا ۔ اس کی روح کو بہشت میںلے جایا جائے گا اور اس کسے ایسی خوشبو بر آمد ہوگی کہ ساتھ آسمانوں کے رہنے والے اسے سونگھیں گے اور اس کی قبر سیراب ہوگی یہاں تک کہ وہ حوض کوثر پر جاپہنچے گا۔ جو کوئی ماہِ رجب کے پچیس دن (۲۵) روزہ رکھے ہوئے گزازے تو جب وہ قبر سے باہر آئے گا تو ستر ہزار فرشتے اپنے ہاتھوں میں

۵۰۱

در یاقوت کے پرچم اور لباس و زیور لیے اس کا استقبال کریں گے اور اس سے کہٰیں گے اے دوست خود کو جلد از جلد رہا کر لو اور اپنے رب سے ملاقات کرو۔ وہ ایسا بندہ ہوگا جو مقربین کے ہمراہ بہشت عدن میں آئے گااور اس پر خدا خوشنود ہوگا اور یہ خدا کی طرف سے اس کے لیے فوز عظیم ہے۔ جو کوئی ماہ رجب کے چھیبسویں(۲۶) روز کو روزہ کی حالت میں گزارے گا تو خدا اس کے لیے سایہء عرش میں  ایک سو قصر در یاقوت کے بنائے گا کہ ہر قصر کے باہر بہشت کی سرخ حریر کا خیمہ ںصب ہوگا جس میں نعمتیں مہیا کی جائیں گی جب کہ لوگ اس وقت سختی میں گرفتار ہوںگے۔ جو کوئی ماہ رجب کے ستائیس (۲۷) دن روزہ رکھے ہوئے گزارے تو خدا اس کی قبر کی چار سو سال کی مسافت کے برابر وسعت دے گا اور مشک اذفر سے پر کردے گا، جو کوئی ماہ رجب کے اٹھائیس (۲۸) دن حالت روزہ میں گزارے تو خدا اس کے اور جہنم کے درمیان سات خندقین کھودے گا کہ ہر خندق کی چوڑائی زمین سے آسمان تک کے فاصلے کے برابر ہوگی اور یہ پانچ سو برس کی مسافت کے برابر ہے۔ جو کوئی ماہ رجب کے انتیس (۲۹) دن روزے میں گزارے تو چاہے زنا زادہ ہو یا زانی اور وہ بھی ایسا کہ ستر بار اس کا مرتکب ہوا ہو اور مستحق دوزخ ہو پھر بھی خدا اسے معاف کردے گا۔ اور جو کوئی ماہ رجب کے تیس (۳۰) دن حالتِ روزہ میں گزارے گا تو آسمان سے اس کے لیے ندادی جائے گی کہ خدا نے تیرے گذشتہ تمام گناہ معاف فرمادیئے ہیں اب یہ تم پر ہے کہ اپنے آیندہ اعمال کو درست رکھو خدا اسے بہشت میں چالیس ہزار طلائی شہر عطا کرے گا کہ ہر شہر میں چالیس ہزار قصر ہوں گے ہر قصر میں چالیس ہزار گھر اور ہر گھر میں چالیس ہزار طلائی خوان بچھے ہوں گے۔ ہرخوان پر چالیس ہزار کاسے اور ہر کاسے میں چالیس ہزار قسم کی خوراک ہوگی جس کا رنگ دوسری خوراک سے مختلف ہوگا پھر ہر گھر میں چالیس ہزار طلائی تخت ہونگے اور ہر تخت کا طول و عرض ہزار اور دو ہزار زراع ہوگا۔ ہر تخت پر ایک حور براجمان ہوگی کہ جس کے بالوں کی تین سونورانی لٹیں ہوں گی اور ہر لٹ کو ایک ہزار کنیزیں اٹھائے ہوئے ہوں گی اور یہ کنیزیں مشک و عنبر اس روزے دار کو مہیا کریں گی۔ اور یہ ثواب ماہ رجب کے تمام روزے رکھنے والے کے لیے ہے۔

جناب رسول خدا(ص) سے عرض کیا گیا کہ اگر کوئی اپنے صعف کی وجہ سے روزہ رکھنے سے قاصر ہو یا وہ

۵۰۲

عورتیں جو ناپاکی کی بنا پر روزہ نہ رکھ سکیں یا تمام ماہ رجب کے روزے رکھنے سے ناچار ہوں تو ان کے لیے کیا حکمہے جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا جو کوئی ایسا ہو اور چاہے کہ ماہِ رجب کے روزوں کی مانند ثواب لے ت اسے چاہیے کہ وہ صدقہ کرے اور گروہ فقراء کو روٹی تصدق کرے جان لو کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے جو کوئی روزانہ صدقہ دے تو جو کچھ میں نے ماہ رجب کے روزوں کے ثواب کے بارے میں بیان کیا ہے اس سے زیادہ حاصل کرے گا اور اگر تمام اہل زمین وآسمان اور تمام خلائق مل کر اس کے ثواب کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں تو نہ کرسکیں گے اور وہ تمام ثواب بہشت کے لیے رکھتا ہے عرض کیا گیا ۔ یا رسول اﷲ(ص) اگر کوئی صدقہ دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور ایسے ثواب کا خواہش مند ہوتو کیا کرے آپ(ص) نے فرمایا جو صدقہ نہ دے سکے اور ایسا ثواب حاصل کرنا چاہیے تو اسے چاہے کہ وہ رجب کے پورے مہینے میں روزانہ سو بار ”سبحان الا ل ه الجليل من لا ينبغی التسبيح الا ل ه سبحان الاعز الاکرم  سبحان من ليس العز و ه و ل ه ا ه ل “ کی تسبیح کرتا رہے۔

۲ـ           جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا مومن کو فشار قبر ہونا اس کے نعمتوں کو ضائع کرنے کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

۳ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جب کوئی مومن کسی مومن کی میت کو غسل دیتا ہے تو خدا اس مومن کے بدن کو دوسرے مومن کا بدن بنا دیتا ہے اور سوائے کبائر( گناہان کبیرہ) کے اس کے ایک سال کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی مومن کی میت کو غسل دے اور امانت داری کرے معاف کردیاجائے گا عرض کیا گیا کہ اس میں امانت داری کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا جو کچھ اس (میت) میں دیکھو کسی سے بیان ن کرو۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اپنے مردوں کو ”لا ال ه الا اﷲ “ کی تلقین کرو کیونکہ جس کسی کا آخری کلام ”لا ال ه الا اﷲ “ ہوگا بہشت میں جائے گا۔

۶ـ           حضرت ابوذر غفاری(رح) بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں اصحاب کے ہمراہ مسجد قباء میں

۵۰۳

 جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر تھا۔ تو جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے گروہ اصحاب اب جو شخص تمہارے سامنے آئے گا وہ امیرالمومنین(ع) اور مسلمانوں کا امام ہے تم دیکھو کہ وہ کون ہے اصحاب نے دیکھنا شروع کیا میں نے بھی ان کے ہمراہ نظر دوڑانی شروع کی کہ دیکھوں اب مسجد میں کون آتا ہے دیکھا تو جناب علی بن ابی طالب(ع) تشریف لائے جناب رسول خدا(ص) انہیں دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھے اور ان کا استقبال کیا۔ انہیں سینے سے لگایا ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اپنے پہلو میں بٹھایا۔ پھر آپ(ص) نے اپنا رخ ہماری طرف کیا اور فرمایا یہ علی(ع) میرے بعد تمہارا امام ہے اس کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت اﷲ کی اطاعت ہے اس کی نافرمانی میری نافرمانی ہے، اور میری نافرمانی خداکی نافرمانی ہے۔

۵۰۴

مجلس نمبر۸۱

(۷ رجب سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           جناب علی ابن ابی طالب(ع) نے فرمایا جو کوئی ماہ رجب میں اول عشرے یا وسط یا پھر آخری عشرے کا روزہ رکھے گا تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کیئے جائیں گے اور جو کوئی رجب کے اول، وسط یا آخری عشرے میں سے تین روزہ رکھے ، اس کے گذشتہ و آیندہ گناہ معاف کیے جائیں گے جو کوئی ماہ رجب کی ایک شب خدا کی عبادت کرتے ہوئے گذارے گا خدا اسے دوزخ سے آزادی دے گا اور ستر ہزار گناہ گاروں کےلیے اس کی شفاعت قبول ہوگی جو کوئی اس ماہ خدا کی راہ میں صدقہ دے گا تو خدا روزِ قیامت اسے ایسے ثواب سے سرفراز کرے گا جو نہ کسی نے دیکھنا نہ سنا اور نہ ہی کسی کے دل نے درک کیا ہوگا۔

 مالک بن انس اور امام صادق(ع)

۲ـ           فقیہہ مدینہ مالک بن انس روایت کرتے ہیں ۔ کہ خدا کی قسم میری نظر سے جناب جعفر بن محمد(ع) سے زیادہ افضل و زاہد اور عبادت گذار کوئی نہیں گذرا، وہ میری تعظیم کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا ابن رسول اﷲ(ص) جو کوئی رجب کا ایک روزہ عقیدہ و تقرب کی خاطر رکھے۔ اس بندے کے لیے اس کا اجر کیا ہے(مالک کہتے ہیں کہ بخدا امام(ع) نے اس سلسلے میں جو کچھ بیان فرمایا سچ ہے) امام(ع) نے فرمایا میرے والد(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے اور انہوں نے جناب رسول خدا(ص) سے روایت کیاہے کہ کوئی رجب کے ایک دن کا روزہ عقیدت و تقرب کی خاطر رکھے گا معاف کیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) جو بندہ ماہ شعبان کا روزہ رکھے اس کے لیے کیا ثواب ہے۔ امام(ع) نے اسی سلسلہء سند کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ جو کوئی شعبان کا ایک دن کا روزہ عقیدت و تقرب کے لیے رکھے معاف کردیا جائے گا۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا مذاق اور بیہودہ گوئی ترک کر کے روشنی حاصل کرو جھوٹ مت بولو

۵۰۵

 اور اس وجہ سے خرم رہو دو خصلتوں سے دور رہو اول تنگ خلقی اور دوئم سستی آپ(ع) نے فرمایا اگر تنگ خلق ہوگا تو حق پر صبر کرنے میں نا طاقت ہوگا اگر سستی غالب ہوگی تو ادائیگی حق نہ ہوسکے گی عیسی(ع) بن مریم(ع) نے فرمایا کہ جو بہت زیادہ سست ہے اس کا بدن بیمار ہے جو کوئی بد خلق ہے خود کو شکنجے میں کیے ہوئے ہے جو باتونی ہے غلطی پر ہے جو گناہ زیادہ کرتا ہے اس بندے کی کوئی قدر ومنزلت نہیں ہوتی اور جو لوگوں کے ساتھ اخلاق سے گرجاتا  ہے اس کی مروت چلی جاتی ہے۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بیسار خور کی بسیار خوری اسے برص کے مرض کی طرف لے جاتی ہے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) سے روایت ہےکہ جب جناب آدم(ع) نے خدا سے دل کے وسواس اور اندوہ نفس کی شکایت کی تو خدا نے جبرائیل(ع) کو ان(ع) پر نازل کیا اور کہا آدم(ع) کہو”لا حول و لا قوة الا باﷲ “ جب جناب آدم(ع) نے یہ کہا تو ان کے دل سے وسوسہ اور اندوہ نفس ختم ہوگیا۔

۶ـ           زید بن علی بن حسین(ع)  نے فرمایا کہ ہر زمانے میں خدا ہمارے خاندان کے ایک فرد کو اپنی مخلوق پر حجت بنائے گا اور ہمارے زمانے مین حجت خدا میرا برادر زادہ جعفر بن محمد(ع) ہے کوئی اس کی پیروی کرے گا گمراہ نہ ہوگا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا راہ نہ پائے گا۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ جبرائیل(ع) نے مجھے خدا کی طرف سے خبر دی کہ میری خلق پر علی بن ابی طالب(ع) میری ( خدا کی) حجت ہے اور میرے دین میں جزا و بخشش ہے اس کے صلب ایسے امام آئیں گے جو میرے امر سے قیام کریں گے اور میرے راستے کی دعوت دیں گے اور وہ میرے بندوں اور میری کنیزوں کے بدنوں سے عذاب کو رفع کریں گے میں ان( ائمہ(ع)) پر اپنی رحمت نازل کروں گا۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا تین چیزیں مومن کے لیے باعثِ افتخار ہیں اور دنیا و آخرت میں اس کا زیور ہیں۔

             اول :  آخر شب میں نماز

۵۰۶

             دوئم :  لوگ اپنے ہاتھ میں جوکچھ اس دنیا سے رکھتے ہیں سے بے رغبتی

             سوئم :  ائمہء آل محمد(ص) کی ولایت

۹ـ           قوم جبینہ کے کچھ افراد امام صادق(ع) کے ہاں مہمان کے طور پر ٹھہرے جب ان کا وقتِ رخصت آیا تو امام(ع) نے انہیں زاد راہ اور تحالف عطا کیے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ تم ایک طرف کھڑے ہوجاؤ اور انہیں اپنا سامان خود باندھنے دو جب وہ اپنا سامان باندھ چکے تو امام(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ(ع) نے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور ہمیں تحائف سے بھی سرفراز کیا اور ہمیں تعظیم دی مگر اب جب ہمارے رخصت ہونے کا وقت ہے تو آپ(ع) نے اپنے غلام کو ہماری مدد سے منع فرمایا ہے امام(ع) نے فرمایا ہم اس خاندان سے تعلق رکھتے جو مہمان کے رخصت ہونے میں اس کی مدد نہیں کرتے( یعنی چاہتے ہیں کہ مہمان کو زیادہ سے زیادہ دن ٹھہرایا جائے اور اس کی مہمان نوازی اور تواضع کی جائے)

۱۰ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) کے پاس جونانِ اںصار حاضر ہوئے تو جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں تمہارے سامنے قرآن کی آیات پڑھتا ہوں تم میں جو بھی انہیں سن کر گریہ کرے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا پھر جناب رسول خدا(ص) نے ان کے سامنے” سورہ زمر“ کی آیات ”و سيق الذين کفروا الی ج ه نم زمرا ۔۔۔تا آخر“ یعنی گرا دیا جائے گا کافرون کو جہنم میں گروہ در گروہ۔۔۔۔ تاآخر“ تلاوت فرمائیں یہ آیات سن کر تمام رونے لگے سوائے ایک جوان کےاس نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میرے دل پر اس کا بہت اثر ہوا ہے مگر میری آنکھ اشک بار نہیں ہوئی جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا میں دوبارہ پڑھتا ہوں جو کوئی گریہ کرے خود کو بہشت میں لے جائے گا جناب رسول خدا(ص) نے جب یہ آیت دوبارہ پڑھی تو ان تمام نے گریہ کیا اور خود کو داخل بہشت کیا۔

۱۱ـ           علی بن سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ یا ابن رسول اﷲ(ع) آپ(ع) قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہیں امام(ع) نے فرمایا وہ کلام ہے، گفتار خدا سے وحی خدا ہے، وہ خدا کی وحی کی تنزیل ہے وہ کتاب عزیز ہے کہ اس کے آگے اور پیچھے سے باطل ، راہ

۵۰۷

نہیں پاتا یہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے۔

۱۲ـ          حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) سے پوچھا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) قرآن خالق ہے یا مخلوق امام(ع) نے فرمایا نہ خالق ہے نہ مخلوق یہ کلام خدا ہے۔

۱۳ـ          ریان بن صلت کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) سے پوچھا کہ قرآن خالق ہے یا مخلوق تو امام(ع) نے فرمایا قرآن کلام خدا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت طلب مت کرو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے۔

۱۴ـ          علی بن محمد(ع) امام دہم(ع) نے بغداد کے ایک شیعہ کو خط لکھا کہ سہارا اﷲ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا نہایت مہربان ہے خدا نے ہمیں اور تمہیں فتنے سے محفوظ رکھا اس کا شکر ادا کرو کہ یہ بڑی نعمت ہے ہماری نظر میں قرآن سے جدائی بدعت ہے کہ اس کے بارے میں پوچھنے والا اور جواب دینے والا دونوں شریک ہیں، پوچھنے والے نے اس چیز کا پوچھا کہ جس کے بارے میں وہ حق نہیں رکھتا اور جواب دینے والے نے اس چیز کا قصد کیا کہ جس کا وہ متحمل نہیں ہے خالق سوائے خدا کے کوئی نہیں ہے جو مخلوق کا خالق ہے یہ قرآن کلام خدا ہے گمراہوں نے اسے اس بحث میں شامل کر لیا ہے خدا نے مجھے  اور تجھے اس سے محفوظ رکھا کہ خدا سے ڈرتے رہیں اور قیامت سے ہراساں ہوں۔

۱۵ـ          اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا میں نے جناب رسول خدا(ص) سے مومن کے اوصاف کے بارے میں دریافت کیا تو جناب رسول خدا(ص) نے اپنا سر مبارک جھکایا اور پھر بلند کر کے فرمایا مومنین کی بیس صفات ہیں جس کسی میں یہ نہ ہوں گی اس کا ایمان کامل نہ ہوگا۔

اـ نماز میں حاضری ہو۔ ۲ـ زکواة دینے میں جلدی۔ ۳ـ خانہ خدا کا حج۔ ۴ـ ماہ رمضان کا روزہ رکھنا۔ ۵ـ مسکین کو کھانا کھلانا۔ ۶ـ یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنا۔ ۷ـ اپنا ستر چھپانا۔ ۸ـ حدیث بیان کرے تو سچ بیان کرے۔ ۹ـ وعدہ کرے تو پورا کرنا۔ ۱۰ـ امانت میں خیانت نہ کرنا۔ ۱۱ـ سچ بولنا۔ ۱۲ـ راتوں کو عبادت کرنا۔ ۱۳ـ دن کو شیر کی مانند رہنا۔ ۱۴ـ دن کو روزہ رکھنا۔ ۱۵ـ راتوں کو جاگنا۔ ۱۶ـ ہمسایہ اسے آزارن نہ پہنچائے۔ ( یعنی اس کو اپنی حاجت روائی کے

۵۰۸

 ہے چاہے۔  ۱۷ـ آہستہ چلنا۔ ۱۹ـ  بیوہ عورتوں کی حاجت پوری کرنا۔ ۲۰ـ  جنازے کے ہمراہ جانا خدا ہمیں اور تمہیں متقین میں سے بنائے۔

۱۷ـ          سعید بن جبیر نے ابن عباس(رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بے شک خدا نے مجھے وحی کی کہ میں اپنی امت پر اپنا خلیفہ، وصی اور وارث مقرر کردوں میں نے عرض کیا پروردگار وہ کون ہے تو وحی کی کہ اے محمد(ص) وہ تیری امت کا امام(ع) اور تیرے بعد ان پر میری حجت ہے میں نے عرض کیا پروردگار وہ کون ہے تو وحی کی کہ اے محمد(ص) وہ، وہ ہے کہ میں اسے دوست رکھتا ہوں اور وہ مجھے دوست رکھتا ہے اور وہ میری راہ کا مجاہد ہے وہ میرے عہد کے بارے میں ناکثین کے ساتھ، میرے حکم کے بارے میں قاسطین کے ساتھ اورمیرے دین کے بارے میں مارقین کے ساتھ جنگ کرنے والا ہے اور وہ بیشک میرا ولی اور تمہاری بیٹی کا شوہر اور تیرے فرزندوں (ع) کا والد علی(ع) بن ابی طالب(ع) ہے۔

۱۸ـ          ابوامامہ کہتے ہیں جوکچھ میں نے علی(ع) کی زبانی سنا میں اس بارے میں کوئی شک نہیں رکھتا کیونکہ میں نے پیغمبر خدا(ص)  کو کہتے سنا کہ میرے بعد علی(ع) میرے اسرار کا خزینہ ہیں۔

۱۹ـ          زرین حبش نے بیان کیا کہ علی بن ابی طالب(ع) جناب رسول خدا(ص) کے اونٹ پر سوار گزرے سلمان(رح) نے انہیں دیکھا  اور پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا تم کھڑے ہوکر ان سے کوئی سوال کیوں نہیں کرتے جاتے جان لو کہ جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا یہ بجز سرارِ پیغمبر(ص) کے تمہیں کچھ نہیں بتائیں گے یہ تمام روئے زمین پر دانشمند ترین فرد ہیں اگر تم ان کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے تو دانش کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے،تو دانش کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے، ایسی دانش کہ لوگ جس سے ناشناس ہیں۔

۲۰ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میرے بعد میری امت میں میرے دین کے مطابق فیصلے کرنے والا علی بن ابی طالب(ع) ہے۔

۲۱ـ          عبداﷲ بن حسن بن حسن بن علی(ع) کہتے ہیں کہ جب بھی پیغمبر(ص) پر وحی ہوتی تو شب ہونے سے پہلے وہ اسے علی(ع) تک پہنچاتے اور اگر شب میں وحی ہوتی تو صبح ہونے سے پہلے وہ اسے علی(ع) تک پہنچا دیتے۔

۵۰۹

۲۲ـ          امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ع) نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر ادا کی اور اصحاب جناب رسول خدا(ص) کی صحبت میں تشریف فرمائے ہوگئے اور پھر جب ظہور آفتاب ہونا شروع ہوا تو اصحاب ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے یہاں تک کہ آپ(ع) کی خدمت میں صرف دو اصحاب ایک اںصار میں سے اور ایک بنی ثقیف میں سے رہ گیا جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم مجھے سے سوال کرنا چاہتے ہو اگر تم کہو تو میں بیان کروں کہ تمہارا  سوال  کیا ہے انہوں نے عرض کیا اندھے کو روشنی کے علاوہ کیا چاہتے آپ(ص) ہم سے شک دور فرمائیں اور ہمارے ایمان کو مضبوط کریں۔

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے برادر انصاری تم اہل شہر ہو اور دوسروں کو خود پر مقدم رکھتے ہوں یہ ثفقی  بیابانی ہے لہذا اسے پہلے سوال کرنے اور جواب لینے دو اںصاری نے کہا جو آپ(ص) کا حکم یا رسول اﷲ(ص) جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے برادر ثقفی تم اس لیے آئے ہوکہ  وضو اور نماز کے ثواب کو جان سکو لہذا جان لو کہ جب تم پانی میں ہاتھ ڈالو تو نام خدا لو تمہارے ہاتھوں سے جو گناہ سرزد ہوئے ہیں جھڑ جائیں گے، جب تم اپنا چہرہ دھوگے تو جو گناہ تمہاری آنکھوں سے سرزد ہوئے ہیں وہ جھڑ جائیں گے اور جو گناہ تیرے دہن نے کیے ہوں گے وہ ختم ہوجائیں گے جب تم اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ کہنیوں تک دھوگے تو جو گناہ تمہارے ہاتھوں نے کیے ہوں گے وہ جھڑ جائیں گے جب تم اپنے سر اور پاؤں کا مسح کرو گے تو وہ گناہ جن کی طرف تم اپنے قدموں پر چل کر گئے تھے وہ جھڑ جائیں گے یہ تیرے وضو کا ثواب ہے۔ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو اور قبلہ رخ ہو جاؤ تو سورہ حمد یا جو کوئی سورہ تمہیں یاد ہو پڑھو اور صحیح رکوع اور کامل سجدہ کرو پھر تشہد و سلام کہو( پڑھو) تو تمہارے تمام گناہ جو تم نے پچھلی نمازوں میں کیے ہوں گے معاف کردیئے جائیں گے یہ تمہاری نماز کا ثواب ہے۔

پھر آپ(ص) نے انصاری مرد سے فرمایا اے برادر اںصاری تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ تمہارے حج اور عمرے کی جزا کیا ہے تو تم جان لوکہ جب تم حج پر جانے کا قصد کرو  پھر اپنی سواری پر سوار ہو ” بسم اﷲ “ کہہ کر اپنی سواری کو آگے بڑھاؤ تو تمہاری سواری جو قدم اٹھائے اس کے ہر ہر

۵۱۰

 قدم پر تمہارے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور گناہ مٹایا جائے گا جب تم احرام باندھ کر تلبیہ کہو گے تو خدا تمہارے لیے دن نیکیاں لکھے گا۔ اور دس گناہ مٹائے گا جب  تم خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرو گے تو خدا کے پاس تمہارے لیے ایک عہد ہوگا جو اس کے عذاب میں مانع ہوگا جب تم مقام ابراہیم(ع) پر دو رکعت نماز پڑھو گے تو خدا تمہارے لیے دو ہزار قبول شدہ رکعات کو ثواب لکھے گا جب تم صفا ومروہ کے درمیان سعی کرو گے تو اس کے بدلے خدا تمہیں اس بندے کے برابر اجر عطا کرے گا جو اپنے ملک سے با پیادہ حج کرنے آیا ہو اور اس شخص کے برابر ثواب دے گا جس نے ستر ایسے غلام آزاد کیے ہوں جو صاحب ایمان ہوں جب تم عرفات میں غروب آفتاب تک طواف کرو گے تو تمہارے گناہ چاہے کوہ عالج اور صحراء عالج یا سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں معاف فرما دیئے جائیںگے جب تم رمی جمار کرو گے تو خدا تمہاری ہر کنکری کے بدلے دس نیکیاں تمہاری آیندہ عمر کے لیے لکھ دے گا جب تم سر منڈاؤ گے تو خدا تمہارے ہر بال کے بدلے تمہری آیندہ عمر کےلیے نیکیاں لکھے گا جب تم قربانی کا جانور ذبح کرو گے تو اس کے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے نیکیاں لکھے گا۔ جب تم خانہ کعبہ کا طواف کرو گے اور مقام ابراہیم(ع) پر دو رکعت نماز پرھو گے تو ایک مکرم فرشتہ تمہارے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کہے گا تیرے گذشتہ گناہ معاف کردئیے  گئے ہیں اب تم تین ماہ کے اندر اندر نیک اعمال شروع کر دو تمہیں یہ مہلت عطا کی گئی ہے۔

             حسبنا اﷲ و نعم الوکیل و صلواة علی محمد (ص) و آل محمد(ص)

۵۱۱

مجلس نمبر ۸۲

( ۱۱ رجب سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا روزہ دار عبادت میں ہے بیشک وہ اپنے بستر پر سویا ہوا ہی کیوں نہ ہو مگر جب تک کسی مسلمان کی غیبت نہ کرے۔

۲ـ           جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ جو کوئی طلب ثواب کی خاطر ایک مستحب روزہ رکھے گا تو خدا اسے ضرور معاف فرمائے گا۔

سخاوت و جوانمردی

۳ـ          کچھ لوگ امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سخاوت و جوانمردی کے بارے میں پوچھنے لگے تو آپ(ع) نے فرمایا تمہارا نظریہ ہے کہ سخاوت و جوانمردی فسق و ہرزگی سے ملحق ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے سخاوت کا تعلق بخشش، نیک اعمال اور دسترخوان کے وسیع کرنے اور آزار کے دفع کرنے سے ہے لیکن تم جس جوانمردی کا کہہ رہے ہو وہ عیاری و فسق ہے۔پھر امام(ع) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ سخاوت و جوانمردی کیا ہے لوگوں نے کہا ہمیں علم نہیں ہےامام(ع) نے فرمایا سخاوت یہ ہےکہ اس(بندے ) کے گھر میں دستر خوان بچھا رہے اور جوانمردی  کے  دو پہلو ہیں ایک قیام میں اور دوسرا سفر میں قیام میں یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کی جائے مساجد کی دیکھ بھال اور خدمت کی جائے اور حاجت مند بردران کو تلاش کیا جائے، دوست کی خیر خواہی اور دشمنوں کی سرکوبی کی جائے، جبکہ سفر میں یہ ہے کہ بہترین توشہ ہمراہ ہو اور بخشش کے ذریعے اپنے دوست کو خوشنود کیا جائے اور رفیق کی غیر موجودگی میں اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے ، بے باکی کا انجام خدا کا غیض و غضب ہے( یعنی بے باکی کا نام جوانمردی نہیں ہے) پھر امام(ع) نے فرمایا جان لو کہ جس نے میرے جد(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، بے شک خدا کسی بندے کو اس کی سخاوت و جوانمردی کے مطابق رزق دیتا ہے اس کے خرچ اور نفقہ کے مطابق آسمانی امداد روانہ کی

۵۱۲

جاتی ہے اور بلا کی سختی کے مطابق صبر کیا جاتا ہے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی اپنے ہمسائے کو آزار نہیں دیتا خدا روزِ قیامت اس کے گناہ معاف فرما دے گا جو کوئی اپنے شکم و فرج کی حفاظت کرتا ہے بہشت میں خرم و معظم ہوگا اور جو کوئی کسی بندہ مومن کو آزاد کروائے تو خدا ایسے کو بہشت میں گھر عطا کرے گا۔

۵ـ          سلمان جعفری کہتے ہیں کہ میں نے امام موسی بن جعفر(ع) سے دریافت کیا کہ یا ابن رسول اﷲ(ص) آپ(ع) کا قرآن کے بارے میں کیا خیال ہے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ مخلوق ہے جبکہ دوسرا کہتا ہے خالق ہے کہ امام(ع) نے فرمایا جو کچھ وہ کہتے ہیں میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کلام خدا ہے۔

۶ـ           جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا بندگان خدا وہ ہیں جو خدا کو پہچانتے ہیں اور اسے عظیم جانتے ہیں وہ فضول بات سے اپنی زبان کو روکے رکھتے ہیں اپنے شکم سے خوراک کو دور رکھتے ہیں اور روزہ و عبادت شبینہ کے غم میں مبتلا رہتے ہیں لوگوں نے پوچھا ہمارے ماں باپ آپ(ص) پر قربان یا رسول اﷲ(ص) کیا ایسے لوگ اولیاء اﷲ ہیں آپ(ص) نے فرمایا اولیاء اﷲ تو خاموشی اختیار کرتے ہیں اور خاموشی میں ذکر الہی میں مشغول رہتے ہیں دنیا پر گریہ نہیں کرتے اور عبرت حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ  کہتے ہیں وہ حکمت ہے وہ لوگوں کے درمیان راہ چلتے ہوئے بھی برکت سمیٹتے جاتے ہیں اگر ان کے مقدر میں جینا نہ ہوتا تو خوف عذاب اور شوق ثواب سے ان کے بدنوں میں جان نہ ہوتی۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا، میرے بھائی علی(ع) مجھے تمام بھائیوں میں محبوب ترین ہے اور میرے چچا حمزہ(رض) میرے تمام چچاؤں میں مجھے محبوب ترین ہیں۔

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نے جناب امیر(ع) سے فرمایا اے علی(ع) جو کوئی تم سے جدا ہوگا وہ مجھ سے جدا ہے اور جو مجھ سے جدا ہے وہ خدا سے جدا ہے۔

۹ـ           عبداﷲ بن عباس(رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) کو ایک مرتبہ سخت بھوک لگی تو آپ(ص) خانہ کعبہ میں تشریف لائے اور پردہ کعبہ کو پکڑ کر دعا فرمائی کہ پروردگار تو اس دعا کا اختتام

۵۱۳

 ہونےتک محمد(ص) کو بھوکا نہ رکھ آپ(ص) کا یہ فرمانا تھا کہ جبرائیل(ع) نازل ہوئے اور بہشت کے ایک پھل کو جناب رسول خدا(ص) کو دے کر فرمایا اے محمد(ص) خدا آپ(ص) کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس پھل کو توڑیں۔

جناب رسول خدا(ص) نے اس پھل توڑا تو اس کے اندر لکھا پایا ” لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ایدتہ محمدا بعلی نصرتہ“ جبرائیل(ع) نے فرمایا خدا کے ہاں اںصاف ہے جو کوئی خدا کے بارے یں تہمت نہیں باندھتا خدا بھی اسے رزق دینے میں تساہلی نہیں برتتا۔

۱۰ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا غفلت کے وقت نماز نافلہ پڑھ لو بیشک اس کی دونوں رکعات چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں کہ یہ باعث دار کرامت ہوں گی، عرض کیا گیا یا رسول اﷲ(ص) غفلت کی ساعت کونسی ہے آپ(ص) نے فرمایا مغرب اور عشاء کے درمیان ہے۔

جناب امیر(ع) کا وضو

۱۱ـ امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن امیرالمومنین(ع) نے اپنے فرزند محمد بن حنفیہ سے فرمایا اے محمد بن حنفیہ(رح) میرے لیے پانی کا ایک برتن لے آؤ تاکہ میں وضو کر کے نماز پڑھوں محمد بن حنفیہ(رح) ان کے لیے پانی کا ایک برتن لے آئے آپ(ع) نے اس برتن میں سے دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر بائیں ہاتھ پر گرایا اور فرمایا حمد اس خدا کی جس نے پانی کو پاک کیا اور نجس نہ بنایا پھرآپ(ع) نے استنجا کیا اور فرمایا خدایا میری شرمگاہ کو پارسا رکھ میرے ستر کو چھپا اور دوزخ کو مجھ پر حرام کر، پھر کلی کرتے وقت فرمایا خدایا اپنی حجت کو میری تلقین کے واسطے ہدایت دے اور میری زبان کو اپنے ذکر میں لگا پھر ناک میں پانی ڈالا اور فرمایا خدایا  بہشت کو خوشبو کو مجھ پر حرام نہ کر اور پاک و طیب  خوشبو عطا فرما پھر آپ(ع) نے اپنا چہرہ دھویا اور فرمایا خدایا جس دن چہرے سیاہ ہوں گے تو میرے چہرے کو سفید رکھ اور میرے چہرے کو سفیدچہرے والوں کے سامنے سیاہ مت کر پھر آپ(ع) نے اپنا دایاں ہاتھ دھویا اور فرمایا خداوندا میرے نامہء اعمال کو میرے دائیں ہاتھ میں دینا اور خلد بہشت کو مجھ سے مت ہٹانا اور مجھے آسانی سے حساب کے عمل سے گزارنا۔ پھر آپ(ع) نے اپنا بایاں ہاتھ دھویا

۵۱۴

 اور فرمایا میرا نامہء اعمال میرے بائیں ہاتھ میں مت دینا اور اسے میری گردن کا بوجھ مت بنانا میں آگ کے شعلوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ پھر آپ(ع) نے سر کا مسح کیا اور فرمایا خدایا مجھے اپنی رحمت وبرکات و عفو میں رکھ پھر جب آپ(ع) نے دونوں پیروں کا مسح کیا تو فرمایا خدایا میرے دونوں پاؤں صراط پر قائم رکھ اس دن کہ جس دن لوگوں کے پاؤں لغزش میں ہوں گے اورمیری تلاش کو ایک ایسا عمل قرار دے کہ میں تجھے خوشنود کروں۔پھر آپ(ع) نے اپنے فرزند محمد بن حنفیہ(رح) کی طرف دیکھا اور فرمایا جو کوئی میری مانند وضو کرے اور جیسا میں نے کہا ویسے کہے تو خدا اس کے وضو کے پانی کے ہر قطرے سے ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو تقدیس و تسبیح و تکبیر کہتا ہے اور خدا تا قیامت اس فرشتے کے ثواب کو اس( بندے ) کے لیے لکھتا ہے۔

حضرت عیسی(ع) کی اپنے اصحاب کو  نصیحت

۱۲ـ          امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا کہ عیسی بن مریم(ع) نے اپنے اصحاب کو نصیحت کرتےہوئے فرمایا اے فرزندان آدم(ع) اپنے دلوں سے دنیا کی محبت رخصت کر دو اور دنیا سے خدا کی طرف بھاگو یہ دنیا تمہارے لیے مناسب اور شائستہ نہیں ہے نہ ہی تم دنیا کے لائق ہو اور نہ ہی یہ دنیا باقی رہے گی اور نہ ہی تم اس دنیا کے لیے باقی رہو گے دنیا فریب دینے اور مصائب میں مبتلا کرنے والی ہے فریب خوردہ وہ ہے جو اس دنیا کےدھوکے میں آجائے اور نقصان میں وہ شخص ہے جو اس دنیا سے مطمئن ہوجائے جس نے دنیا کو دوست رکھا اور اور اس کے حاصل کرنے کی خواہش کی وہ ہلاک ہوا لہذا اپنے پیدا کرنے والے (خدا) سے مغفرت طلب کرتے رہو اور اپنے پالنے والے کے عذاب سے پرہیز کرو کہ اس دن باپ بیٹے کا اور بیٹا باپ کا فدیہ نہیں ہوسکتا غور کرو کہ تمہارے آباؤ و اجداد کہاں ہیں تمہاری مائیں ، تمہارے بھائی اور بہنیں کہاں ہیں تمہاری اولاد کہاں ہے کار کنان قضاء و قدر نے انہیں اپنے پاس بلالیا اور انہوں( تمہارے اقرباء) نے ان کی دعوت قبول کر لی اور چلے گئے اور اس وطن کو الوداع کہہ دیا وہ مردوں کےساتھ مٹی تلے چلے گئے اور یہاں سیمٹ گئے اور دوستوں سے جدا ہوگئے اور جو کچھ وہ اس سے پہلے آخرت کے لیے بھیج چکے تھے اس کے محتاج ہوگئے اور جو کچھ وہ دنیا چھوڑ گئے تھے اس سے لا پرواہ ہوگئے تمہیں ہر چند نصیحت کی جاتی ہے مگر تم

۵۱۵

بھولے ہوئے اور غفلت کا شکار اور لہو لعب میں مشغول ہو دنیا میں تمہاری مثال حیوانوں کی سی ہے تمہاری کوشش شکم پروری اور نفس کی تابعداری کے لیے ہے کیا تمہیں خدا سے شرم نہیں آتی جس نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ اس نے گناہ گاروں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا ہے تم جہنم کی آگ کی تاب و طاقت نہیں رکھتے اس نے اطاعت کرنے والوں کے لیے بہشت اور اپنی ہمسائگی کا وعدہ فرمایا ہے لہذا خدا کے وعدے کی طرف رغبت اختیار کرو اور خود کو اس کی رحمت کے لائق بناؤ اپنے ساتھ انصاف کرو اور دوسروں پر ظلم مت کرو اپنے سے کمزوروں پر رحم کرو محتاجوں کی دستگیری کرو خدا سے اپنے گناہوں کی توبہ کرو اور نصیحت پکڑو کہ پھر گناہوں کی طرف رجوع نہیں کرو گے ۔ تم نیکوکار بندے بن جاؤ بادشاہ یا جبار مت بنو اورنہ ہی فرعون کی طرح ظالم و سرکش بنو جنہوں نے اس پروردگار سے سرکشی کی تو اس(خدا) نے موت کے ذریعے ان پر اپنا قہر نازل فرمایا وہ جباروں کا جبار آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار گذشتہ و آیندہ کے لوگوں کا خدا اور روز قیامت کا بادشاہ ہے جس کا عتاب شدید اور عذاب دردناک ہے اس کے  عذاب سے کوئی ظالم نجات نہیں پاسکتا اور اس کےقبضہ قدرت سے کوئی شئی باہر نہیں جاسکتی اس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوسکتی  اس سے کوئی امر ڈھکا ہوا نہیں رہ سکتا اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس نے ہر شخص کو اس کی منزل میں جگہ دے رکھی ہےیعنی بہشت یا دوزخ میں۔اے فرزندِ آدم(ع) تو نا تواں ہے اور اس( خدا) سے بھاگ نہیں سکتا وہ شب کی تاریکی اور دن کی روشنی میں تجھے بلا لیتا ہے اور تم جس بھی حال میں ہوتے ہو تمہیں گرفت کر لیتا ہے تم ہر آن اس کے قبضہء قدرت میں ہو جس نے نصیحت کی اور جس نے اسے سنا( قبول کیا) وہ دونوں ہی راستگار ہیں۔

۱۳ـ جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا ، جس کسی کو نعمتوں کا حصول ہو اسے چاہیے کہ  وہ بہت زیادہ ” الحمد ﷲ رب العالمین“ کا ورد کرے اور جسے فقر نے گھیر رکھا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ بہت زیادہ ” لا حول و لاقوة الا باﷲ العلی العظیم“ کا ورد کرتا رہے اور بہشت کے خزانوں میں سے ایک ہے یہ بہتر(۷۲) قسم کی بلائیں دور کرتا ہے اور اس کا سب سے کم حاصل یہ ہے کہ اندوہ ہٹ جاتا ہے۔

۱۴ـ امام باقر(ع) نے راوی حدیث عمرو سے فرمایا اے عمرو یہ دوزخی لوگ کیسے ہیں، کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ موت نہیں رکھتے یہاں تک کہ یہ برھنہ ہوجاتے ہیں اور ان کے عذاب میں تخفیف نہیں ہوتی یہ تشنہ و بھوکے ، معیوب چشم اور اندھے، گونگے اور سیاہ چہروں والے، دوزخ میں

۵۱۶

 گرائے گئے اور پشیمان و مغفوب ہوتے ہیں ان کے عذاب کے سلسلے میں ان پر رحم نہیں کیا جاتا انہیں چلایا جاتا ہے حمیم پلایا جاتا ہے اور زقوم کھلایا جاتا ہے آتشین سلاخیں ان کے بدنوں میں داخل کی جاتی ہیں انہیں گرزوں سے مارا جاتا ہے فرشتے ان پر سختی کرتے ہیں اور رحم نہیں کھاتے دوزخ میں ان کو چہروں کے بل کھینچا جاتا ہے ان کا درجہ شیاطین کے برابر کردیا جاتا ہے یہ سختیوں میں گرفتار رہتے ہین اگر یہ فریاد کریں تو سنی نہیں جاتی اگر درخواست کریں تو پوری نہیں ہوتی اے عمرو دوزخیوں کا یہ حال ہے۔

۱۵ـ          سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عبداﷲ بن عباس(رض) کے پاس گیا اور ان سے کہا اے رسول خدا(ص) کے چچازاد میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں لوگوں کے اختلاف رائے کے متعلق دریافت کروں ابن عباس(رض) نے کہا اے جبیر تم نے مجھ سے ان کی بابت دریافت کیا ہے جو پیغمبر(ص) کی امت میں ان(ص) کے بعد خدا کی بہترین خلق ہیں تم نے مجھ سے اس بندے کے بارے میں پوچھا ہے جو پیغمبر(ص) سے شب قربت اور ایک رات میں تین ہزار منقبت رکھتے ہیں اے ابن جبیر تم نے مجھ سے اس بندے کے بارےمیں دریافت کیا ہے جو وصی رسول(ص) ۔ وزیر رسول(ص)۔ خلیفہء رسول(ص) ، ان(ص) کے صاحب حوض، ان(ص) کے لوائے کے اٹھانے والے اور ان(ص) کی شفاعت کے تقسیم کنندہ ہیں اور قسم ہے اس کی جس کے قبضے میں ابنِ عباس(رض) کی جان ہے اگر یہ تمام جہان سیاہی بن جائے تمام درختوں سے قلمیں بنائی جائیں اور خدا کی تمام خلق کو لکھنے پر مامور کر کے علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے مناقب لکھنے کا کہا جائے تو جس دن سے خدا نے جہان کو پیدا کیا تب سے وہ قیامت تک لکھتے رہیں تو علی بن ابی طالب(ع) کے مباقب کا دسواں حصہ بھی نہ لکھ سکیں گے۔

۱۶ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں پیغمبروں (ع) کا سردار ہوں اور علی بن ابی طالب(ع) اوصیاء کا سردار ہے اور حسن(ع) و حسین(ع) جوانان اہل بہشت کے سردار ہیں اور ان (علی(ع)) کے بعد متقیوں کے امام و سردار ہیں۔ ہم خدا کے اولیاء ہیں۔ ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے ہماری اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔

۱۷ـ          امام رضا(ع) نے فرمایا ہم دنیا میں بھی سردار ہیں اور آخرت میں بھی سردار ہیں۔

۵۱۷

مجلس نمبر۸۳

( ۱۴ رجب سنہ۳۶۸ھ)

جناب امیر(ع) اور بی بی فاطمہ(س) کی تزویج

۱ـ           امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جناب امیر(ع) نے فرمایا، میرے دل میں یہ خواہش تو تھی کہ میری شادی فاطمہ(س) سے ہو جائے مگر مجھ میں یہ ہمت نہ تھی کہ جناب رسول خدا(ص) سے اس بات کا اظہار کروں تاہم شب وروز یہی خیال مجھے گرفت کیے رکھتا تھا، ایک دن میں جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ(ص) نے فرمایا۔ اے علی(ع) میں نے کہا۔” لبیک یا رسول اﷲ“ آپ(ص) نے فرمایا تمہارا اپنی شادی کے بارے میں کیا ارادہ ہے میں نے کہا، آپ(ص) اس بارے میں بہتر جانتے ہیں۔ بعد میں مجھے خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ(ص) میری شادی قریش کی کسی دوسری خاتون سے کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں اور میں فاطمہ(س) سے محروم ہوجاؤں۔ ناگاہ ایک شخص نے آکر مجھے رسول خدا(ص) کا پیغام دیا کہ انہوں نے مجھےےبلایا ہے اس شخص نے مجھے بتایا کہ اس نے جتنا مسرور جناب رسول خدا(ص) کو آج دیکھا ہے پہلے کبھی نہیں دیکھا یہ سن کر میں تیزی سے چلا اور جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگیا اس وقت جناب رسول خدا(ص) بی بی ام سلمہ(ع) کے حجرے میں تشریف فرما تھے اور خوشی کی وجہ سے آپ(ص) کا چہرہ پر نور مزید ضیاء بار ہورہا تھا مجھے دیکھ کر آپ(ص) یوں مسکرائے کہ آپ(ص) کے دندان مبارک قمر کی مانند چمکتے ہوئے نظر آئے۔ مجھے دیکھ کر آپ(ص) کر آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تمہیں مبارک ہو خدا نے میری ساری پریشانی دور فرمادی مجھے تمہاری شادی کی فکر دامن گیر تھی میں عرض کیا وہ کیسے آپ(ص) نے فرمایا ۔ جبرائیل(ع)امین جنت سے سنبل و قرنفل ( پھول اور لونگ) لے کر آئے تھے میں نے انہیں سونگھا اور جبرائیل(ع) سے پوچھا یہ سنبل و قرنفل کیسے ہیں انہوں نے کہا اﷲ نے جنت میں مامور فرشتوں اور وہاں کے ساکنان کو حکم دیا کہ جنت کے پودوں درختوں پھلوں اور وہاں کے محلات و قصور کو پوری طرح آراستہ کریں پھر وہاں کی ہواؤں کو حکم دیا کہ وہ فضا میں طرح طرح کی

۵۱۸

خوشبوئیں بکھیریں اور وہاں کی حوروں کو حکم دیا کہ وہ سورہ طہ” طور سین“ ” یس“ اور حمعس“ کی تلاوت کریں۔ اس کے بعد ایک منادی نے زیر عرش ندا دی کی آگاہ ہو جاؤ آج علی بن ابی طالب(ع) کی شادی کا ولیمہ ہے۔ پھر خدا نے فرمایا تم سب گواہ رہنا میں فاطمہ(س) بنت محمد(ص) کا عقد علی(ع) ابن ابی طالب(ع) سے کردیا ہے۔

اور یہ دونوں بھی آپس میں شادی کرنے پر راضی و خوش ہیں پھر خدا نے ایک سفید ابر بھیجا اس نے آکر جنت کے مکینوں پر موتی، زبر جد اور یاقوت کی بارش کر دی جبکہ جنت کے مکینوں اور فرشتوں نے یہ سنبل و قرنفل لٹائے اور یہ وہی سنبل و قرنفل ہیں۔

پھر خدا نے بہشت کے ایک فرشتے کو جس کا نام راحیل ہے اور ملائکہ میں اس کی فصاحت و بلاغت کا ثانی کوئی نہیں کو حکم دیا کہ خطبہ پڑھے اس نے ایسا فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا کہ اہل آسمان و زمین نے آج تک نہین سنا پھر جارجی حق نے  ندا دی کہ اے میرے فرشتو اور جنت کے مکینو، محمد(ص) کے محبوب علی بن ابی طالب(ع) اور فاطمہزہرا(س) تک میری برکتیں پہنچا دو کیوںکہ میں نے اپنی کنیز کی شادی اس شخص سے کردی ہے جو میرے نبی(ص) کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے راحیل(ع) نے خدا سے عرض کیا بار الہا ان دونوں کے لیے جو برکتیں تو نے بہشت میں رکھی ہیں وہ ہم دیکھ چکے ہیں اب اس سے زیادہ تو انہیں کیا دینا چاہتا ہے، ارشاد ہوا اے راحیل(ع) ان دونوں کے لیے میری مزید برکت یہ ہے کہ میں ان دونوں کو اپنی محبت پر یکجا کردوں اور اپنی مخلوق پر انہیں حجت قرار دوں مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے میں ان دونوں سے ایسی ہستیاں پیدا کروں گا جنہیں میں اپنی زمین خزینہ دار، اپنے علم کا معدن، اپنے دین کا رہبر اور انبیاء مرسلین(ع) کے بعد مخلوق پر حجت بناؤں گا۔

اس کے بعد آںحضرت(ص) نے  فرمایا اے علی(ع) مبارک ہو تمہیں خدا نے وہ شرف و بزرگی عطا کی ہے اس نے عالمین میں سے کسی اور کو عطانہیں کی اور میں اپنی دختر کا عقد تم سے اسی بنا پر کر رہا ہوں جس بنا پر خدا نے اسے تمہاری زوجیت میں دیا ہے لہذا جو خدا کی مرضی ہے وہی میری مرضی ہے اب یہ تیری زوجہ ہے آج سے اس پر تمہارا حق مجھ سے زیادہ ہے مجھے جبرائیل(ع) نے خبر دی ہے کہ بہشت تم دونوں کی نہایت مشتاق ہے اگر خدا کو یہ منظور نہ ہوتا کہ تم دونوں سے ایک زریت

۵۱۹

 طیبہ(ع) پیدا کرے جو اس کی خلق پر اس کی طرف سے حجت ہوتو  وہ جنت اور اہل جنت کی یہ خواہش پوری کردیتا کہ تم ابھی سے بہشت میں سکونت پذیر ہوجاؤ پس اے علی(ع) تم میرے کتنے اچھے داماد اور صحابی ہو تمہارے لیے اس کے متعلق صرف خدا کی رضا کافی ہے، میں ( جناب امیر(ع)) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) کیا خدا کی نظر میں میری قدر و منزلت اس قدر ہے کہ میرا ذکر جنت میں ہوتا ہے اور فرشتے اور جنت کے مکین میرے مشتاق ہیں اور یہ کہ فرشتوں کی محفل میں میرے عقد کی تقریب منعقد کی گئی ہے آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) سنو جب خدا اپنے کسی ولی کو نوازنا چاہتا ہے اور اس سے محبت کرنا چاہتا ہے تو اس کی عزت اس قدر بڑھاتا ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی اور نہ کسی کان نے سنی اے علی(ع) خدا کی طرف سے یہ عزت و مرتبہ تمہیں مبارک ہو۔ میں (علی(ع)) نے کہا اے خدایا تو مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہوں آںحضرت(ص) نے یہ سن کر فرمایا آمین۔

فضائل علی(ع) و شیعیان علی(ع)

۲ـ           امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب رسولِ خدا(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا اے علی(ع) خدا نےتمہیں مساکین اور فیض پانے والوں کی محبت سے سرفراز کیا ہے تم ان کی برادری سے خوشنود ہو اور یہ تمہاری امامت سے خوشنود ہیں کیا کہنا اس بندے کا جو تجھے دوست رکھتا اور تیری تصدیق کرتا ہے اور برا ہے اس بندے کا جو تجھے دشمن رکھتا ہے اور جھوٹ کہتا ہے اے علی(ع) تم اس امت کے عالم ہو جو کوئی تجھے دوست رکھتا ہے کامیاب ہے اور جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے وہ ہلاکت میں ہے اے علی(ع) میں علم کا شہر ہوں اور تم اس کا دروازہ ہو جوکوئی شہر میں آنا چاہے وہ دروازے کے علاوہ نہیں آسکتا اے علی(ع) تیرے دوست ہدایت یافتہ رستگار اور معاف کیے گئے  ہیں کہ اگر خداکی قسم کھائیں تو خدا ان کی بات وقسم کو پورا کرے اے علی(ع) تیرا ہر دوست پاک وذکی ہے کہ حق کے لیے کوشاں ہے اور تیری خاطر دوستی و دشمنی کرتا ہے، وہ خلق کے درمیان حقیر مگر خدا کے سامنے بڑے مقام میں ہیں اور جو کچھ وہ دنیا سے ترک کرتے ہیں اس بارے میں اظہار تاسف نہیں کرتے۔اے  علی(ع) میں تمہارے دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن ہوں اے علی(ع) جو تمہیں دوست

۵۲۰