مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)6%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 306972 / ڈاؤنلوڈ: 7980
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

 رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے اور جو کوئی تمہیں دشمن رکھتا ہے مجھے دشمن رکھتا ہے اے علی(ع) تیرے دوست تشنہ لب اور بکھرے ہوئے ہیں، اے علی(ع) تیرے بھائی تین جگہوں پر شاد ہیں جان دینے کے وقت میں ان کے سرہانے کھڑا ہوں گا اور سوال وجواب کے وقت تم ان کے ہمراہ ان کی قبر میں موجود ہوگے اور صراط پر جب قطار لگی ہوگی اور پوچھ گچھ ہورہی ہوگی اور خلق جواب دینے سے قاصر ہوگی تم ان کے ساتھ ہوگے اے علی(ع) تیرے ساتھ جنگ میرے ساتھ جنگ ہے اور میرے ساتھ جنگ خدا کے ساتھ جنگ ہے اور جو تیرے ساتھ روا رکھا جائے وہ مجھ سے روا ہے اور جو کچھ میرے ساتھ روا رکھا گیا وہ خدا کےساتھ روا رکھا گیا اے  علی(ع) تیرے برادران کو مبارک ہو کہ انہیں خدا نے  اس لیے پسند کیا کہ تمہیں ان کے پیش رو کے طور پر پسند کیا اور انہوں نے تیری ولایت کو پسند کیا اے علی(ع) تم امیرالمومنین(ع) اور سفید چہروں والوں کے قائد ہو اے علی(ع) تیرے شیعہ نجات یافتہ ہیں اگر تم اور تمہارے شیعہ نہ ہوتے تو خدا کا دین نہ ہوتا اگر تم زمین میں نہ ہوتے تو خدا آسمان سے قطرہ بھی زمین پر نہ بھیجتا اے علی(ع) تم بہشت میں خزانہ رکھتے ہو اور میری امت کے ذوالقرنین(ع) ہو تمہارے شیعہ حزب اﷲ المعروف ہیں اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ عدل قائم کرنے والے اور بہترین خلق ہیں اے علی(ع) میں وہ اول بندہ ہوں جو زندہ کر کے قبر سے نکالا جاؤں گا اور تم میرے ہمراہ ہوگے ا س کے بعد دوسرے ہوں گے اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ حوض کوثر کے کنارے پر جمع ہوگے اور جسے چاہو پیاس  بجھانے دوگے اور جسے چاہوگے ہٹا دوگے جس وقت لوگ خوف و وہراس میں ہوں گے اس وقت تم بے غم اور عرش کے سائے میں بزرگ ترین مقام پر ہوگے تمہارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔” بیشک وہ کہ جو سابقہ خوبی ہماری طرف سے رکھتے ہیں ہم وہ ہیں جو دوزخ سے  دور ہیں“ ( انبیاء ، ۱۰۱) اور پھر تمہارے ہی بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اندوھناک نہ کرے گا ان کو ہراس اور بزرگ تر اور فرشتے ان کے ساتھ ملےہوں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔“ ( انبیاء)

اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ موقف میں بلائے جائیں گے اور تم بہشت میں نعمت پاؤ گے اے علی(ع) فرشتے اور خازن تیرے مشتاق ہیں۔حاملان عرش اورمقرب فرشتے تمہارے لیے دعا کریں گے

۵۲۱

 اور تیرے دوستوں کے لیے خدا سے خواہش کریں گے اور اس مسافر خاندان کی مانند جس کا سفر طویل ہوجاتا ہے تمہارے پاس آکر خوشی محسوس کریںگے اے علی(ع) تیرے دوست خلوت میں خدا سے ڈرتے ہیں اور ظاہر میں خیر کرتے ہیں اے علی(ع) تیرے شیعہ آپس میں درجات کی بلندی پر ایک دوسرے سے رقابت رکھیں گے کیوںکہ وہ خدا کے نزدیک ہوںگے  اور گناہ نہیں رکھتے اے علی(ع) تیرے شیعوں کے اعمال ہر جمعہ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور میں ان کے نیک اعمال سے شاد ہوتا ہوں اور ان کے برے کردار کی مغفرت طلب کرتا ہوں اے علی(ع) تیرا ذکر توریت میں کیا گیا ہے اورنیک شیعوں کا ان کے خلق ہونے سے پہلے تذکرہ کیا گیا ہے انجیل میں اہل کتاب نے تجھے ایلیا پکارا ہے تم خود توریت اور انجیل سے واقف ہو ان کے ہاں ایلیا(ع) کا بہت بلند مقام ہے یہ اپنی کتاب میں تمہیں اور تمہارے شیعوں کو جانتے ہیں اے علی(ع) تیرے شیعوں کا نام آسمان میں معظم کیا گیا ہے جان لو کہ وہ شاد ہوںگے اور ان کی کوشش عظیم ہوگی اے علی(ع) تیرے شیعہ حالتِ ارواح میں ثواب رکھتے ہیں جب انہیں موت آتی ہے تو وہ آسمان پر چلے جاتے ہیں اور وہاں فرشتے اپنے اشتیاق کی وجہ سے انہیں پہچان لیتے ہیں اور خدا کے ہاں ان کے مقام سے آگاہ ہیں اے علی(ع) تمہارے شیعہ عرفان کی طاقت سے لبریز ہیں ان کے دشمن ان سے اس (طاقت کی ) وجہ سے کنارہ کرتے ہیں، وہ منزہ ہوں گے کیونکہ کوئی دن اور رات ایسا نہ ہوگا کہ خدا کی رحمت انہیں گھیرے ہوئے نہ  ہو وہ عذاب سے دور ہوں گے۔اے علی(ع) خدا کا غضب اس بندے کے لیے بہت عظیم ہے جو ان سے اور تم سے دشمنی رکھے اور اس پر کہ جو تیرے دشمن کی طرف جھکاؤ رکھے تجھے چھوڑ دے اور گمراہی اختیار کرے تجھ سے جنگ چاہے اورتیرے شیعہ کو دشمن رکھے اے علی(ع) اپنے شیعوں کو میرا سلام پہنچا دو کہ میں انہیں دیکھتا ہوں مگر وہ مجھے نہیں دیکھتے انہیں اطلاع دیدو کہ وہ میرے بھائی ہیں، میں ان کا مشتاق ہوں انہیں میرے علم سے آراستہ کیا گیا ہے ان کا رشتہ خدا سے جڑا ہوا ہے یہ اپنے برادران کی حفاظت کرتے اور نیک عمل میں کوشش کرتے ہیں انہیں جو ہدایت ملی ہے وہ انہیں گمراہی میں نہیں لے جاتی ، اے علی(ع) انہیں خبر دو کہ خدا ان سے راضی ہے اور فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کے لیے مغفرت طلب کریں اے علی(ع) تم لوگوں کی مدد سے روگردان مت ہو تاکہ انہیں

۵۲۲

ہدایت ملے میں تجھے دوست رکھتا ہوں اور میری خاطر یہ تجھے دوست رکھتے ہیں اور خدا کی خاطر دین داری کرتے ہیں اور تمہاری دوستی کی وجہ سے دل پاک و صاف رکھ کر تمہارا احترام کرتے ہیں اور تمہیں اپنے ماں باپ اور اولاد سے زیادہ مقدم جانتے ہیں یہ تحمل سے تمہارے راستے پر چلتے  ہیں ہمارے سوا یہ کسی کی مدد نہیں کرتے اور ہمارے راستے میں جانبازی دکھاتے ہیں اور ہمارے بارے میں کچھ بھی برا نہیں سنتے۔ یہ سختیوں میں صبر کرتے ہیں کیوںکہ خدا نے اپنی خلق کے درمیان انہیں ہمارے علم کے واسطے چنا ہے اور ہماری طینت سے انہیں پیدا کیا ہے اور ہمارے سر(علم) کو ان کے حوالے کیا ہے ان کے دل میں ہمارے حق کی معرفت ڈالی گئی ہے ان کے سینوں کو کھلا کیا گیا ہے اور انہیں ہمارے رشتے کے ساتھ متمسک کیا گیا ہے یہ ہم پر ہمارے مخالفین کو مقدم نہیں رکھتے  یہ دنیا میں نقصان اٹھاتے ہیں مگر خدا ان کی تائید کرتا  ہے اور انہیں راہ حق پر لے جاتا ہے یہ حق کے ساتھ منسلک ہیں، لوگ اندھے پن میں گمراہی اختیار کیے ہوئے ہوائے نفس میں سرگرداں ہیں اور اس حجت سے جوخدا کی طرف سے آئی ہے منکر ہیں اور صبح و شام خدا کے غضب میں ہیں مگر تیرے شیعہ راہ حق پر ہیں یہ اپنے مخالفین سے محبت نہیں کرتے دنیا ان سے نہیں اور یہ دنیا سے نہیں یہ اندھیری رات کے چراغ ہیں۔

۳ـ          ابوسعید خدری(رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول خدا(ص) سے اس قرآنی آیت کہ ”قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتاب‏ “ ( نمل، ۴۰) ترجمہ: ” کہا وہ کہ جس کے پاس کتاب سے کچھ علم تھا“ کے بارے مین دریافت کیا تو جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا یہ میرے بھائی سلیمان ابن داؤد(ع) کے وصی( آصف بن برخیا(ع)) کے بارے میں کہا گیا ہے پھر میں نے جناب رسول خدا(ص) سے اس آیت قرآنی کہ ”قُلْ كَفى‏ بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني‏ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتاب‏   “ (رعد، ۴۳) ۔ ترجمہ : کہہ دو کہ تمہارے اور میرے درمیان اﷲ کافی ہے گواہی کے لیے وہ بندہ کہ جس کے پاس علم کتاب ہے ” کے بارے میں دریافت کیا تو آںحضرت(ص) نے فرمایا اس سے مراد میرا بھائی علی بن ابی طالب(ع) ہے۔

۵۲۳

آسمان سے ستارے کا نزول

۴ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ہم نے جناب رسول خدا(ص) کے ہمراہ نماز عشاء ادا کی جب آںحضرت(ص) سلام سے فارغ ہوئے تو فرمایا آج طلوع فجر کے وقت آسمان سے ایک ستارہ تم میں سے کسی کے گھر اترے گا جس گھر میں وہ ستارہ اترے وہی میرا خلیفہ و وصی اور میرے بعد تمہارا امام(ع) ہے۔ جیسے ہی فجر کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے دیکھنا شروع کیا اور دل میں یہ خواہش موجزن ہوگئی کہ یہ ستارہ اسی کے گھر میں اترے تمام لوگوں سے زیادہ یہ خواہش میرے والد عباس ابن عبدالمطلب(ع) کےدل میں تھی جب فجر کا وقت ہوا تو آسمان سے ایک ستارہ اترا جناب امیر(ع) کے گھر جا اترا تو جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے علی(ع) مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے نبوت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میرے بعد وصائیت و خلافت اور امامت تمہارے لیے واجب و لازم ہوگئی ہے یہ دیکھ کر منافقوں نے جب میں عبداﷲ بن ابی منافق بھی شامل تھا کہنا شروع کیا کہ محمد(ص) اپنے چچازاد بھائی کی محبت میں بہک گئے ہیں اور معاذ اﷲ گمراہ ہوگئے ہیں اور ان کی شان میں جو کچھ بھی کہتے ہیں خواہش نفسانی کی بنیاد پر کہتے ہیں جب منافقین نے اس طرح کہنا شروع کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی۔” قسم ہے ستارے کہ جب کہ وہ اترا کہ گمراہ نہ ہوا اور نہ بہکا تمہارا صاحب( یعنی محبت علی بن ابی طالب(ع) میں) اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا مگر یہ کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے( نجم، ۱ـ۴)

۵ـ          ایک دوسری روایت میں ستارے کے ظاہر ہونے  کو طلوع خورشید کے قریب بیان کیا گیا ہے ایک اور روایت میں اس موضوع کے متعلق ربیعہ سعدی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس(رض) سے اس آیت ”والنجم اذا هویٰ“ کے بارے میں پوچھا تو ابن عباس(رض) نے کہا کہ اس سے مراد وہ ستارہ ہے جو طلوع فجر کے وقت اترا اور علی بن ابی طالب(ع) کے گھر پر جا ٹھہرا میرے والد عباس بن عبدالمطلب(ع) کی یہ شدید خواہش تھی  کہ یہ ستارہ ان کے گھر پر اترے تاکہ وصایت و خلافت و امامت  ان کے خاندان سے جاری ہوجائے لیکن یہ خدا کی مرضی نہ تھی کہ علی بن ابی طالب(ع) کے علاوہ کوئی اور اس کے فضل کو حاصل کرے اور یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا کرے۔

۵۲۴

مجلس نمبر۸۴

(۱۸ رجب سنہ۳۶۸ھ)

جناب امیر(ع) کو عورت کے بارے میں نصائح

۱ـ    ابوسعید خدری(رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے جناب امیر(ع) کو عورت کے بارے میں چند نصیحتیں بیان فرمائیں۔

آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) جب تم دلہن کے پاس جاکر بیٹھو تو اس کے جوتے اتروا اور اس کے دونوں پاؤں دھوکر اس پانی کو اپنے مکان کی دیواروں اور چھت پر چھڑ کاؤ جب تم ایسا کرو گے تو اﷲ تعالی تمہارے گھر سے ستر ہزار قسم کا فقر دور کرے گا۔ ستر ہزار قسم کی برکتیں اس گھر پر نازل کرے گا اور ستر ہزار رحمتیں اس میں داخل کرے گا جو دلہن کے سر پر مںڈلاتی رہیں گی اور تم گھر کے گوشے گوشے میں انہیں دیکھ پاؤگے جب تک دلہن اس گھر میں موجود رہے گی جنون و جزام اور برص سے محفوظ رہےگی۔

تم اپنی دلہن کو نصیحت کرنا کہ وہ اس ہفتے ان چار چیزوں دودھ، دھنیا، سرکہ اور کھٹے سیب سے پرہیز کرے جناب علی(ع) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ان چار چیزوں سے پرہیز کیوں آںحضرت(ص) نے فرمایا اس لیے کہ رحم ان چار چیزوں سےعقیم و بانجھ ہو جاتا ہے اور ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور بچہ پیدا نہیں ہوتا، گھر کے کسی گوشے میں پڑی چٹائی بانجھ عورت سے بہتر ہے ، جناب علی(ع) نے دریافت کیا، یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے سرکہ استعمال کرنے کی ممانعت کیوں کی ہے ارشاد ہوا اگر سرکہ استعمال کرنے پر حیض  آیا تو عورت مکمل طور پر حیض سے پاک نہیں ہوگی، دھنیا حیض کو اس کے پیٹ میں بکھیر دے گا اور اسے بچہ جننے میں سختی ہوگی کھٹا سیب اس کے حیض کو قطع کردے گا اور یہ مرض میں تبدیل ہوجائے گا۔ پھر فرمایا اے علی(ع) اپنی عورت سے مہینے کی پہلی، درمیانی اور آخری تاریخ مجامعت مت کرنا کیونکہ اس طرح سرعت کے ساتھ جنون و جزام اور خبط الحواسی عورت اور بچے کی طرف

۵۲۵

پہنچتی ہے، اے علی(ع) ظہر کے بعد جماع نہ کرنا کیونکہ اس کے نتیجے میں جو بچہ ہوگا وہ احوال (بھینگا) ہوگا انسانوں میں احول کو دیکھ کر شیطان خوش ہوتا ہے، اے علی(ع) بوقت جماع باتیں نہ کرنا کیوںکہ اس طرح جو بچہ پیدا ہوگا خطرہ ہے کہ گونگا ہوگا اور جماع کرتے وقت اپنی نظریں عورت کی شرمگاہ پرمت ڈالنا کیونکہ خطرہ ہے کہ اس طرح جو بچہ پیدا ہو اندھا ہو اے علی(ع) کسی غیر عورت کو تصور میں لیے ہوئے اپنی عورت سے جماع مت کرنا مجھے ڈر ہے کہ اس طرح کے جماع سے جو بچہ پیدا ہو وہ مخںث یا فاترالعقل نہ ہو۔ اے علی(ع) جب کوئی شخص اپنی عورت سے ہم بستری کے بعد جنب ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ قرآن کی تلاوت نہ کرے مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان دونوں پر آسمان سے آگ نہ برسے جو انہیں جلا کر خاکستر کردے۔ اے علی(ع)  جب جماع کے بعد مادے کی صفائی کرنے لگو تو عورت اور مرد کے پاس صفائی کے لیے علیحدہ  علیحدہ کپڑا ہو ورنہ ایک ہی کپڑے سے شہوت پر شہوت واقع ہوگی جو دونوں میں باعث عداوت ہوگی اور جدائی اور طلاق پر منتج ہوگی۔ اے علی(ع) اپنی عورت سے کھڑے ہوکر جماع مت کرنا کیونکہ یہ گدھوں کا کام ہے اور اس طرح کے جماع سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ بستر پر پیشاب کرے گا جس طرح گدھا جس جگہ ہوتا ہے وہیں پیشاب کردیتا ہے اے علی(ع) اپنی عورت سے عید قربان کی شب جماع مت کرنا کیونکہ اس سے جو بچہ پیدا ہوگا اس کی چھ انگلیاں ہوں گی اے علی(ع) پھلدار درخت کے نیچے اپنی زوجہ سے جماع مت کرنا کیونکہ اس سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ جلاد یا ظلم و قتال میں مشہور ہوگی اے علی(ع) اپنی زوجہ سے سورج کے سامنے اس کی روشنی میں جماع نہ کرنا مگر یہ کہ اپنے اوپر پردہ ڈال لو جو تم دونوں کو چھپائے رکھے ورنہ اگر اس طرح کے جماع سے کوئی بچہ متولد ہوا تو وہ ہمیشہ سختی اور فقر و فاقہ میں رہے گا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجائے اے علی(ع) اپنی زوجہ سے اذان و اقامت کے درمیان جماع مت کرنا ورنہ تم دونوں سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ خون بہانے کا بہت شوقین ہوگا اے علی(ع) جب تمہاری عورت حاملہ ہوتو جب تک تم وضو نہ کر لو اس سے جماع نہ کرو ورنہ اس طرح جو بچہ پیدا ہوگا وہ دل کا اندھا اور ہاتھ کا کنجوس ہوگا اے علی(ع) اپنی زوجہ سے ںصف ماہ شعبان میں جماع مت کرنا کیونکہ جو اولاد پیدا ہوگی وہ منحوس ہوگی اور اس کے چہرے پر نحوست ہوگی اے علی(ع) اپنی زوجہ سے شعبان کے آخری

۵۲۶

دو روز جماع مت کرنا ورنہ جو لڑکا ہوگا وہ عشر وصول کرنے والا اور ظالموں کی مدد کرنے والا ہوگا اور اس کے ہاتھوں لوگوں کا ایک گروہ ہلاک ہوگا۔

اے علی(ع) اپنی زوجہ سے عمارتوں کی چھتوں پر جماع مت کرنا کیونکہ اس طرح سے جوبچہ متولد ہوگا وہ ریا کار اور بدعتی ہوگا اے علی(ع) جب تم کسی سفر پر جانے لگو تو اس شب اپنی زوجہ سے جماع مت کرنا کیونکہ اس طرح کے جماع سے جو بچہ پیدا ہوگا۔ وہ اپنا مال ناحق کاموں میں خرچ کرے گا۔

پھر جناب رسول خدا(ص) نے  اس آیت کو پڑھا ”إِنَّ الْمُبَذِّرينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطينِ وَ كانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُورا “ (بنی اسرائیل، ۲۷) ترجمہ : ” فضول خرچ لوگ شیاطین کے بھائی بند ہوتے ہیں “ اے علی(ع)جب تم کسی ایسے سفر پر نکلو جس کی مسافت تین دن اور تین رات ہوتو اپنی زوجہ سے جماع مت کرنا ورنہ جو بچہ پیدا ہوگا وہ تم پر ظلم کرنے والے کی مدد کرے گا۔

اے علی(ع) اگر تم مہینے کی دوسری تاریخ کی شب میں اپنی زوجہ سے جماع کرو گے تو جو بچہ پیدا ہوگا وہ قرآن کا حافظ ہوگا اے علی(ع) اگر تم مہینے کی تیسری تاریخ کی شب اپنی زوجہ سے مقاربت کرو گے تو تم دونوں کے مقدر مین جو بچہ ہوگا تو اسے ” لا الہ الا اﷲ“ کی شہادت اور ” محمد رسول اﷲ“ کی شہادت کے بعد شہادت کا رزق نصیب ہوگا خدا اسے مشرکین کے ساتھ معذب نہیں کرے گا وہ پاک نگہت و پاک دہن ہوگا وہ رحم دل اور ہاتھ کا سخی ہوگا اس کی زبان غیبت و کذب و بہتان سے پاک ہوگی اے علی(ع) اگر تم اپنی زوجہ سے جمعرات کی شب جماع کرو گے تو جو بچہ تمہارے مقدر میں ہوگا وہ حاکمین میں سے ایک حاکم ہوگا ۔ یا عالمون میں سے ایک عالم ہوگا بیچوں بیچ ہو جماع کرو گے  تو جو بچہ ہوگا اس کے بڑھا پے تک شیطان اس کے قریب نہیں پھٹکے گا اور وہ لوگوں کے امور کا نگران ہوگا اور اﷲ اسے دین و دنیا کی سلامتی عطا کرے گا۔ اے علی(ع) اگر تم اپنی زوجہ سے شب جمعہ جماع کرو اور اس سے جو بچہ ہو وہ بے لاگ خطیب اور بے دھڑک بولنے والا ہوگا ۔ اے علی(ع) اگر تم اپنی زوجہ سے جمعہ کے روز عصر کے بعد جماع کرو تو جو بچہ پیدا ہوگا وہ ایک معروف عالم ہوگا اور اگر تم شب جمعہ عشاء کےبعد اپنی زوجہ سے جماع کرو گے تو انشاء اﷲ امید

۵۲۷

ہے کہ جو بچہ ہوگا وہ ابدال میں سے ہوگا۔

اے علی(ع) اپنی زوجہ سے شب کی اول ساعت میں جماع مت کرنا کیونکہ خطرہ ہے کہ اس طرح جو بچہ پیدا ہو وہ ساحر یا جادوگر ہو اور دنیا کو دین پر ترجیح دے۔ اے علی(ع) میری ان نصیحتوں کو یاد رکھو جس طرح میں نے انہیں جبرائیل(ع) سے سن کر یاد کیا ہے۔

مومن کے اوصاف

۲ـ           امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ جناب امیرالمومنین(ع) کے اصحاب میں ایک مرد عابد تھے جن کا نام ھمام(رح) تھا ایک مرتبہ وہ جناب امیر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا  امیر المومنین(ع) آپ(ع) مجھے متقی لوگوں کی صفات اس طرح بیان فرمائیں کہ جیسے میں انہیں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ جناب امیر(ع) نے جواب دینے میں کچھ توقف کیا اور پھر مختصرا فرمایا اے ھمام ! اﷲ سے ڈرو اور نیک عمل کرو کیونکہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جو پرہیز گار ہیں اور نیک کردار ہیں۔

ھمام(رح) نے کہا ! یا امیرالمومنین(ع) میں آپ(ع) کو اس حق کی قسم دیتا ہوں جو آپ سے مخصوص کیا گیا اور گرامی رکھا گیا مجھے آپ(ع) اس بارے میں تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔ جناب امیر(ع) یہ سن کر کھڑے ہوگئے۔ اور خدا کی حمد اور اوصاف حمیدہ بیان فرمانے کے بعد جناب رسول خدا(ص) پر درود بھیجا اور فرمایا بے شک جب خدا نے مخلوق کو خلق فرمایا تو ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ان کی نافرمانی سے بے پرواہ ہو کر لباس وجود پہنایا اس لیے دغابازوں کی نافرمانی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی پھر خدا نے مخلوق کی معیشت کا سامان ان میں تقسیم کیا اور دنیا میں ہر ایک کو اس کےمقرر کردہ مقام پر رکھا اور آدم(ع) اور حوا(ع) نے جب حکم عدولی کی اور اس کے امر کی مخالفت کی تو انہیں لایا پس اس میں متقی اور پرہیزگار  ہی صاحب فضیلت ہیں ان کی گفتگو اور لباس درمیانہ اور ان کی رفتار عجز وانکسار ہے وہ خدا کی فرمانبرداری کے لیے خشوع کرتے ہیں خدا کی حرام قرار دی ہوئی چیزوں سے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں ہیں اور نفع بخش علم  کے حصول کےلیے کوشاں ہیں ان کے نفس مصیبت میں بھی

۵۲۸

 ویسے ہی رہتے ہین جیسے کہ آرام و راحت میں اور اگر زندگی کی مدت معین نہ کردی گئی ہوتی تو ان کی روحیں ثواب کے شوق اور عذاب کے خوف سے پلک جھپکنے کے عرصے کے لیے بھی ان کے بدنوں میں نہ رہتیں ان کی نگاہوں میں خالق کی  عظمت اس طربیٹھ گئی ہے۔ کہ ان کی نگاہوں میں اس کے سوا ہر چیز حقیر نظر آتی ہے انہیں جنت کا اس طرح یقین ہے جیسے اسے دیکھا ہو۔ اور دوزخ کے دل غمگین، لوگ ان کے شر سے محفوظ، ان کے بدن لاغر، ان کی ضرورتیں کم ان کے نفس پاک اور خواہشات نفسانی سے مبرا ہیں وہ اس دنیا سے آخرت کا توشہ لیتے ہیں اور چند روزہ چھوٹی تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں جس کے بدلے آخرت کی دائمی راحت حاصل کر لیتے ہیں یہ ایک نفع بخش تجارت ہے جو خدا نے ان کے لیے مہیا کی ہے دنیا نے انہیں چاہا مگر انہوں نے اس کی خواہش نہ کی اور وہ انہیں طلب کرتے کرتے عاجز آگئی، جب رات ہوتی ہے تو یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی رک رک کر تلاوت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو علم سے تازہ کرتے اور اپنی بیماری کا علاج تلاش کرتے ہیں۔ یہ اپنے غم سےاپنے گناہوں پر گریہ کرتے ہیں یہ اپنے دل کے زخموں سے دردمند ہوتے ہیں جب کبھی یہ کوئی ایسی آیت پڑھتے ہیں جس میں خوف دلایا گیا ہوتو اس کی طرف اپنے دل کے کان لگا دیتے ہیں اور خیال کرتے ہین کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور چیخ وپکار انہیں سنائی دے رہی ہے اور جب یہ کوئی اسی آیت پڑھتے ہیں جس میں جنت کی رغبت دلائی گئی ہو تو وہ اس کی طمع کے آگے جھک جاتے ہیں اور اس شوق میں ان کے دل بے اختیار چیخ اٹھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں جیسے وہ منظر ان کی نظروں کےسامنے  ہو وہ اپنے جبار بزرگوار کے سامنے پیشانیاں ۔ ہتھیلیاں ، زانو اور پاؤں خاک پر رکھے ہوئے گریہ کرتے ہیں بخدا یہ اپنی آزادی کے لیے آرزو مند ہیں جب دن ہوتا ہے تو یہ حلیم عالم بن کر نیک کردار اور پرہیزگار دکھائی دیتے ہیں خوف خدا نے انہیں نیزوں کی طرح پتلا اور لاغر کر دیا ہے انہیں جو کوئی دیکھتا ہے گمان کرتا ہے کہ یہ بیمار ہیں مگر یہ بیماری نہیں رکھتے جب لوگ انہیں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ دیوانے ہیں مگر ان کے ذہنوں میں قیامت کا خوف، خدا کی سلطنت کا خیال

۵۲۹

 اور عذاب کا ہراس جگہ کیے ہوئے ہے۔ یہ خدا کے لیے تھوڑے عمل سے خوش نہیں ہوتے یہ زیادہ کو کم شمار کرتے ہیں اور اپنے ہی نفس پر کوتاہی کا الزام رکھتے ہیں یہ اپنے اعمال سے خوف میں رہتے ہیں جب کوئی ان کے تقوی اور پرہیزگاری کی تعریف کے سلسلے میں کچھ کہتا ہے تو یہ کانپ جاتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنی نسبت بہتر جانتا ہوں۔ اور میرا رب مجھ سے زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے خدایا جو کچھ یہ لوگ میرے بارے میں کہہ رہے ہیں تو اس بارے میں میرا مواخذہ مت کرنا جو کچھ یہ میرے بارے میں کہہ رہے ہیں اس میں میرے لیے جو بہتر ہو وہی میرے بارے میں کرنا خدایا میرے وہ گناہ بخش دے جو یہ لوگ نہیں جانتے کیونکہ تو علام الغیوب اور ساتر عیوب ہے۔ ان( مومنین) میں سے ہر ایک کی علامت یہ ہے کہ تم ان میں یہ باتیں دیکھو گے، نرمی کے ساتھ دین میں مضبوطی ایمان میں دور اندیشی،یقین علم کی حرص، بردباری کےساتھ دانائی، حصول کسب سکون کے ساتھ ہزینہ ( نان نفقہ) دینے میں مہربان۔ توانگری میں میانہ روی، عبادت میں خشوع، ناداری میں تحمل، مصیبت میں صبر، رنج میں مہربانی، حقِ عطا میں بخشش، حلال کی طلب، ہدایت میں کیف و سرور، طمع سے نفرت ، راست روی و پاکیزگی ، شہوت سے چشم پوشی، بے جا ستائش سے پرہیز کہ نادان اس سے فریب کھاتے ہیں ، وہ جو کچھ جانتے ہیں اسے جانے نہیں دیتے۔

وہ (مومن) نیک اعمال بجالاتا ہے پھر بھی خدا سے ڈرتا ہے اپنی شام خدا کے شکر میں دن یاد الہی میں اور رات خوف خدا میں گزارتا ہے وہ صبح کوخوش اٹھتا ہے مگر یہ خطرہ دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں رات غفلت میں نہ گزر جائے اسے اس فضل اور رحمت پر خوشی ہوتی ہے جو اسے حاصل ہوئی ہے اگر اس کا نفس کسی عمل سے کراہت کر کے اسے برداشت نہیں کرنا چاہتا تو وہ اس کی خواہش پوری نہیں کرتا جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس پر خوشی ہے جو کچھ اس کے پاس ہے وہ قائم ہے اس کی آنکھیں روشن ہیں جو زوال نہیں رکھتیں جو موجود ہو ان کا شوق اسی میں ہے اور جو باقی نہ رہے وہ ان کے لیے بے رغبت ہے یہ علم کو بردباری سے حاصل کرتے ہیں اور بردباری کو عقل سے تم جب بھی انہیں دیکھو گے سستی ان سے دور ہوگی یہ ہر لمحہ نشاط میں ہیں ان کی آرزوئیں مختصر

۵۳۰

 لغزشیں کم اور موت کی تمنا لیےہوئے ہیں ان کے دل تواضع کرنے والے اور پروردگار کی یاد میں ہیں ان کے نفس قانع ان کے عمل سہل اپنی نادانی پر نادم اور گناہوں پر ترساں ہیں یہ اپنے دین کے محافظ اپنی شہوت کے قاتل اور اپنے غصے کو پی جانے والے ہیں ان کے اخلاق بلند اور ان کے ہمسائے ان سے راضی اور امن میں ہیں ان میں غرور نہیں ہے ان کا صبر استوار اور ذکر خدا کی بہتات ہے ان کا عمل محکم ہے ان کا دوست جو کچھ ان کے حوالے کرے یہ اس میں خیانت نہیں کرتے ہیں یہ اپنی گواہی کو اپنے خلاف دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ چھوٹے عمل کو ریا سے نہیں کرتے اور شرم محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خیر مورد انتظار  ہے، ان کے شر سے امن ہے ( یعنی شر نہیں پھیلاتے) یہ اگر ذکر خدا سے غفلت کرنے والوں میں بیٹھ جائیں تو اسے بھی ذکر خدا میں لکھا جاتا ہے اور اگر ذکر خدا کرنے والوں میں بیٹھ جائے تو اسے غافلوں میں شمار نہیں کیا جاتا جو ان پر ظلم کرتا ہے یہ اسے معاف کردیتے ہیں جو انہیں ان کے حق سے محروم رکھے یہ اس پر بخشش کرتے ہیں جو ان سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں بردباری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جلدی شک کا شکار نہیں ہوتے جو کچھ ان پر ظلم ہو اس سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ نادانی ان سے دور رہے ان کی گفتار میں نرمی ہے ان کا نیرنگ ( دھوکا، فریب) معدوم اور احسان معروف ہے ان کا قول سچا، ان کا عمل نیک ان کا خیر ظاہر اور اپنے شرسے گریزاں ہے یہ زلزلوں میں باوقار اور مصیبتوں میں صابر ہیں یہ خوشحالی میں شکر ادا کرنے والے ہیں اور اپنے دشمن پر بھی بے جا زیادتی نہیں کرتے ۔ یہ س سے محبت کرتے ہیں اس کی خاطر بھی گناہ نہیں کرتے اور جو کچھ ان کی ملکیت نہیں ہوتا اس کا دعوی نہیں کرتے ان پر جو حق ہوتا ہے اس سے منکر نہیں ہوتے اور اعتراف حق کرتے ہیں اس سے پہلے کہ ان پر گواہ پیش ہوں، جس کی چاہیے  حفاظت کرتے ہیں اور گم نہیں ہونے دیتے کسی کو برے لقب سے نہیں پکارتے کسی پر ظلم نہیں کرتے حسد نہیں کرتے اپنے ہمسائے کو آزار نہیں پہنچاتے۔ کسی کی مصیبت پر اسے طعنہ نہیں دیتے نادانی سے کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتے حق سے باہر نہیں جاتے  تاکہ درماندہ نہ ہوں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس خاموشی پر غمزدہ نہیں ہوتے، بات کرتے ہیں تو خطا نہیں کرتے خوش ہوتے

۵۳۱

 ہیں تو مسکراتے ہیں قہقہ بلند نہیں کرتے جو کچھ مقدر میں ہے اس پر راضی ہوتے ہیں غصہ آئے تو سر ںہیں اٹھاتے، ہوائے نفس ان پر غلبہ نہیں پاتے بخل ان پر غالب نہیں آتا، جس سے وابسطہ نہیں ہے اس کی طمع نہیں کرتے ، لوگوں سے کچھ جاننے کے لیے ملتے ہیں، خاموش رہتے ہیں تاکہ سلامت رہیں پوچھتے ہیں تاکہ سمجھیں۔ عمل کرتے ہیں تاکہ خیرلیں اگر کوئی کہے کہ اسے فلان  ضرورت ہے ( یعنی خواہش نفسانی کا اظہار کرے) تو توجہ نہیں کرتے جابروں سے بات نہیں کرتے  اگر ان کے ہاتھوں پر زیادتی کی جائے تو صبر کرتے ہیں یہاں تک کہ خدا ہی اس کا انتقام لے ان کا نفس ان کے ہاتھوں مشقت میں ہے اور لوگ اس سے راحت میں ہیں اس نے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنے نفس کو تکلیف میں جبکہ لوگوں نے آرام میں رکھا ہوا ہے اگر کسی سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ تو زہد وپاکیزگی کی وجہ سے اور جن سے قریب ہوتے ہں تو نزم مزاجی اور نرم دلی کی وجہ سے ان کی کسی سے دوری غرور یا تکبر کی وجہ سے نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کا قریب ہونا کسی مکر و فریب کی وجہ سے ہے بلکہ یہ اپنے سے پہلے والے اہل خیر کی اقتدار کرتے ہیں یہ آنے والوں کے لیے نیکو کاری میں رہبر ہیں۔

جناب امیر(ع) نے یہاں تک فرمایا تو یہ سن کر ھمام(رح) نے چیخ بلند کی اور وفات پاگئے امیرالمومنین(ع) نے فرمایا میں اسی خوف سے تردد کر رہا تھا پھر آپ(ع) نے حکم دیا کہ ھمام(رح) کی تجہیز و تکفین کریں اور  نماز جنازہ ادا کریں۔ جناب امیر(ع) نے ارشاد فرمایا کہ نصیحتیں اپنے اہل پر ایسا ہی اثر کرتی ہیں، ایک شخص نے یہ سن کر کہا کہ آپ(ع) پر خود ایسا اثر کیوں نہیں ہوتا آپ(ع) نے فرمایا، وائے ہو تم پر موت کا ایک دن معین ہے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس کا ایک سبب ہوتا ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتا یہ بات جو تمہاری زبان پر شیطان نے جاری کی ہے دوبارہ مت دہرانا۔

غدیر خم میں آںحضرت(ص) کا فرمان

۳ـ          ابو سعید خدری(رح) کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے غدیر کے روز منادی کو حکم دیا کہ وہ با جماعت نماز کے لیے ندا دے جب لوگ اکھٹے ہوگئے تو آںحضرت(ص) نے جناب امیر(ع) کا ہاتھ تھاما

۵۳۲

 اور فرمایا جس کسی کا میں آقا ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے آقا و مولا ہیں خدایا دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے اور دشمن رکھ اسے جو اسے دشمن رکھے۔

حسان بن ثابت(رض) نے کہا ۔ یا رسول اﷲ(ص) میں چاہتا ہوں کہ علی(ع) کے بارے میں اشعار کیہوں آپ(ص) نے فرمایا کہو۔ حسان(رض) نے شعر کہا۔

” غدیر کے دن خم کے مقام پر ان کا نبی(ص) انہیں پکار رہا تھا۔

سنو کہ رسول(ص) منادی کرتے ہوئے کیا فرمارہے ہیں۔

وہ فرمارہے ہیں کہ کون ہے تمہارا ولی و حاکم و مالا۔

پس انہوں نے وہاں کسی دشمنی کا ظاہر نہیں کیا۔

آج ہم میں سے کوئی بھی آپ(ص) کا نافرمان نہیں ملے گا۔

تو حضور(ص) نے کہا کھڑے ہوجاؤ اے علی(ع)

بیشک میں نے اپنے بعد تمہیں امام و ہادی ہونے کے لیے پسند کیا۔

علی(ع) کو آشوب چشم تھا اور وہ علاج کی تلاش میں تھے۔

جب انہیں کوئی معالج نہ مل سکا تو اﷲ کے رسول (ص) نے انہیں لعاب دہن سے شفا بخشی پس کیسا بابرکت علاج تھا اور با برکت ہے علاج کرنے  والا۔

۵۳۳

مجلس نمبر۸۵

(۲۲ رجب سنہ۳۶۸ھ)

استجابت دعا

۱ـ           امام باقر(ع) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب زوال ظہر ہوتا ہے تو آسمانکے دروازے کھل جاتے ہیں اور بہشت کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں اس وقت دعائیں مستجاب ہوتی ہیں کیا کہنا اس بندے کا جو اس وقت عمل صالح کرے کہ یہ سب اوپر جائیں گے۔

۲ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا ہمارے شیعوں میں سے کوئی بندہ ہرگز نماز کے لیے کھڑا نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کے مخالفین کی تعداد کے برابر فرشتے آتے ہیں اور اس کے پیچھے نماز پرھتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتےہیں یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہوجاتا ہے۔

۳ـ          عمیر بن مامون عطاردی کہتے ہیں کہ میں جناب حسن(ع) بن علی(ع) کو دیکھتا ہوں کہ جب بھی صبح کی نماز پڑھتے ہیں تو مجلس میں بیٹھ جاتے  ہیں یہاں تک کہ سورج ظاہر ہوجاتا ہے جناب حسن(ع) بن علی(ع) سے میں نے سنا کہ انہوں نے جناب رسول خدا(ص) کی حدیث بیان فرمائی کہ کوئی صبح کی نماز پڑھے اور پھر سورج کی طلوع ہونے تک تعقیب میں رہے تو خدا اسے دوزخ سے بچاتا ہے جناب حسن(ع) بن علی(ع) نے تین بار اس حدیث کو دھرایا۔

۴ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جبرائیل(ع) جناب یوسف(ع) کے پاس زندان میں تشریف لائے اور فرمایا اے یوسف(ع) ہر واجب نماز کے بعد تین مرتبہ اسطرح کہیے کہ خدایا میرے لیے وسعت پیدا کر اور مجھے محفوظ رکھ اور اس وقت کوئی گمان کرے یا نہ کرے مجھے رزق عطا فرما۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نماز شب میں ساتھ بار ” قل ہو اﷲ احد“ تیس بار پہلی رکعت میں اور تیس بار دوسری رکعت میں پڑھے تو خدا اور اس  کے درمیان کوئی گناہ نہ رہے گا۔

۵۳۴

۶ـ           ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی بازار سے اپنے اہل و عیال کے لیے تحفہ لائے تو یہ صدقہ دینے کے ثواب کے برابر فضیلت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ یہ تحفہ وہ سب سے پہلے اپنی دختر کو دے کیونکہ جو اپنی دختر کو خوش کرے گا تو گویا اس نے فرزندان اسماعیل(ع) میں کسی مومن کو راہ خدا میں آزاد کروایا اور جو کوئی اپنے فرزند کی آنکھیں روشن کرے گا تو یہ ایسا ہے کہ جیسے وہ خوف خدا سے رونے کے برابر ثواب لے اور جو کوئی خوف خدا سے گریہ کرے بہشت میں پر نعمت ہوگا۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا، جان لو کہ مجھے جبرائیل(ع) نے ایک ایسے امر کی خبر دی کہ میری آنکھیں روشن اور دل شاد ہوگیا ہے جبرائیل(ع) نےبتایا کہ اے محمد(ص) تیری امت میں سے جو کوئی خدا کی راہ میں جہاد کرےگا تو خدا اسے کوئی ایسی چیز عطا نہ کرے گا جو روزِ قیامت اس کے بارے میں گواہی نہ دے حتی کہ بارش کے قطرے بھی اس کے حق میں شہادت ( گواہی ) دیں گے۔

باب مجاہد

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) سے مروی ہے کہ بہشت کے دروازوں میں سے ایک، باب مجاہد ہے اور یہ مجاہدین کے لیے کھلا ہے مجاہدین شمشیرین لٹکائے اس کی طرف اس وقت جاتے ہیں جب کہ بقیہ خلق کا  حساب ہو رہا ہوتا ہے، فرشتے مجاہدین کو خوش آمدید کہیں گے اور جو جہاد سے کنارہ کش ہوگا خوار ہوگا اور تنگی رزق رکھے گا اور بے دین ہوگا، جو کوئی مجاہدین کو ان کے نامے (خطوط) پہنچائے گا وہ اس طرح ہوگا کہ جیسے اس نے ایک غلام آزاد کروایا ہو اور جہاد میں شریک ہوگا۔

۹ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی مجاہد کو اسکا پیغام یا خط پہنچائے وہ اس کے ساتھ جہاد میں شریک ہے۔

۱۰ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا مجاہدین کو بہشت میں وہی گھوڑے دیئے جائیں گے جو ان کے ہمراہن جہاد میں ہوں گے ( با الفاظ دیگر مجاہدین کے گھوڑے بھی ان کے  ہمراہ بہشت میں جائیں گے۔)

۵۳۵

۱۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا تمام خوبیاں ہمراہ شمشیر اور زیرِ سایہء شمشیر ہیں اور لوگ استوار نہ ہوں گے مگر شمشیر سے اور شمشیریں بہشت کی کلیدیں ہیں۔

۱۲ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی خدا کی آرزو کو پسند کرئے وہ دنیا سے اس وقت تک نہ جائے گا جب تک کہ اسے عطا نہ کیا جائے۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ایمان کا محکم ترین درجہ یہ ہے کہ خدا کی راہ میں ہی دوستی اور دشمنی رکھے اور خدا کی راہ میں ہی دے اور دریغ کرے۔

۱۴ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ جو کوئی شام کے وقت تین بار”فَسُبْحانَ اللَّهِ حينَ تُمْسُونَ وَ حينَ تُصْبِحُون‏وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ عَشِيًّا وَ حينَ تُظْهِرُون‏ “ کہے گا تو جو بھی اس شب کا خیر ہوگا حاصل کرے گا اور اس شب کے تمام شر سے محفوظ رہے گا اور جو کوئی صبح تین بار اسے دھرائے گا تو تمام دن کا خیر سمیٹ لے گا اور تمام دن کے شر سے محفوظ رہے گا۔

۱۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا دن کے شروع اور آخر میں اور شب کے شروع میں فرشتے دفترِ حساب لاتے ہیں اور آدمی کے عمل کو اس میں درج کرتے ہیں اول اور آخر دفتر میں بندے کے اعمال خیر لکھے جاتے ہیں اور جو کچھ ان( دفاتر حساب) کے درمیان ہے وہ (خدا) تمہارے لیے معاف فرمادے گا انشاء اﷲ کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ تم مجھے  یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں اور خدا فرماتا ہے کہ ذکر خدا نہایت عظیم ہے۔

۱۶ـ          امام صادق(ع) نے ابو ہارون سے فرمایا ، اے ابو ہارون میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کو تسبیح فاطمہ(س) کی تلقین کرو جس طرح تم انہیں نماز واجب کی تلقین و نصیحت کرتے ہو تمہیں چاہیئے کہ خدا کے ملازم رہو اور جو بندہ اس کی ملازمت نہیں کرتا وہ بدبخت ہوتا ہے۔

۱۷ـ          آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا جب بھی گھر سے باہر نکلو تو ” بسم اﷲ“ کہو کہ دو فرشتے اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ نجات پاگیا اگر کہو” لا حول ولا قوة الا باﷲ“ تو کہتے ہیں یہ

۵۳۶

 محفوظ ہوگیا اور اگر کہو” توکلت علی اﷲ“ تو کہتے ہیں تیرے لیے کافی ہے ایسے میں شیطان لعین کہتا ہے اب میرا اس بندے سے کیا واسطہ ہے یہ تو محفوظ ہوگیا، ہدایت پاگیا اور کفالت کا حقدار ٹھہرا۔

۱۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک دن آںحضرت(ص) نے جناب امیر(ع) سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک خوشخبری نہ سناؤں جناب امیر(ع) نے کہا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان  آپ(ص)  ہمیشہ مجھے خوش خبری ہی سناتے ہیں آںحضرت(ص) نے فرمایا جبرائیل(ع) نے مجھے ایک عجیب امر کی خبر دی ہے کہ جو کوئی میری امت میں سے مجھ پر اور میری آل(ع) پر صلواة بھیجے اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اور اس پر فرشتے صلواة بھیجتے ہیں چاہے وہ گناہ گار و خطا کار ہی کیوں نہ ہو اس کےگناہ جلدی جھڑجاتے ہیں جس طرح درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں جب وہ صلواة بھیجتا ہے تو خدا اس کے جواب میں فرماتا ہے ” لبیک عبدی وسعدیک“  اور پھر اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے اے فرشتو تم نے اس پر ستر بار صلواة بھیجی ہے مگر میں اس پر سات سو مرتبہ صلواة بھیجتا ہوں پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو بندہ مجھ پر صلواة بھیجے گا مگر میری آل(ع) پر نہ بھیجے تو اس کے اور آسمان کے درمیان ستر پردے حائل ہوں گے اور خدا فرمائےگا” لا لبیک ولا سعدیک“ اور اسکے اور خدا کے درمیان ستر حجاب حائل ہوں گے اور فرشتے اس کی دعا آسمان پر نہیں لائیں گے جب تک وہ اپنے نبی(ص) کو ان کی عترت(ع) سے ملحق نہ کرے اور ان(ص) کے اہل بیت(ع) کو اس میں شامل نہ کرے۔

۱۹ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو بندہ اپنی نماز ادا کرتے ہوئے اپنے پیغمبر(ص) کا نام ( درود و صلواة) لے وہ راہ بہشت لے گا جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جس بندے کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو دوزخ میں جائے گا اور خدا اس سے اپنی رحمت کو دور کردے گا۔

چار آدمیوں سے اہل دوزخ کو آزار

۲۰ـ                  جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا چار آدمیوں کی وجہ سے اہل دوزخ بھی آزار محسوس کریں گے وہ حمیم سے پیں گے اور جہنم میں شور کریں گے اہل دوزخ ایک دوسرے سے کہیں گے انہیں کیا

۵۳۷

ہوگیا ہے کہ سب کو تکلیف دے رہے ہیں، ان کے لیے آگ کے بھڑکتے ہوئے انگاروں کا ایک صندوق لایا جائے گا اور انہیں اس میں بند کردیا جائے گا یہ اس میں بند اپنا گوشت کھاتے ہوں گے اہل جہنم  انہیں پوچھیں گے کہ تمہارا کیا جرم ہے جس کی بدولت  تم خود بھی تکلیف میں ہو اور ہمیں بھی آزار دے رہے ہو ان میں سے ایک کہے گا کہ مرتے وقت میرے ذمے لوگوں کا مال تھا جو میں نے ادا کیا دوسرا کہے گا میرا جرم یہ ہے کہ میں بول و براز (پیشاب) میں احتیاط نہ برتتا تھا، تیسرا جس کے منہ سے خون و پیپ جاری ہوگا کہے گا کہ میں بری باتوں کی تقلید کرتا تھا اور محفلوں میں یہی سناتا تھا چوتھا کہے گا میں جو اپنا گوشت کھا رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرتا تھا اور لوگوں کا گوشت کھاتا تھا۔

۲۱ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی اپنے برادر مومن کی اس کے منہ پر تعریف کرےمگر پیٹھ پیچھے برائی کرے تو ان کے درمیان سے عصمت قطع ہوجائے گی۔

۲۲ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) سے سوال کیا گیا کہ کل کے لیے نجات کس میں ہے تو جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا نجات اس میں ہے کہ خدا کو فریب نہ دو تاکہ وہ تمہیں فریب نہ دے جو کوئی خدا کو فریب دیتا ہے خدا اسے فریب دیتا ہے اور اس کا ایمان رخصت ہوجاتا ہے اور اگر سمجھے تو اس نے خود کو فریب دیا ہے عرض کیا گیا خدا کو کیسے فریب دیا جاتا ہے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا جو بندہ اپنی مرضی پر عمل کرتا ہے تو یہ عمل کسی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے تم خدا سے ڈرو اور ریا سے کنارہ کرو کہ یہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ہے ریا کار روز قیامت چار ناموں سے پکارا جائے گا۔ اسے آوازدی جائے گی اے  کافر، اے فاجر، اے غادر، اے خاسر تیرے اعمال بے کار ہیں تیرا اجر باطل ہوا ہے آج تم کوئی عزت نہیں رکھتے آج تم اس بندے سے اپنا اجر طلب کرو جس  کے لیے تم یہ اعمال کرتے تھے۔

۲۳ـ                 جناب رسول خدا(ص) ارشاد فرماتے ہیں، جب  خدا کسی امت پر غصہ کرے اور عذاب نہ دے تو اس امت میں گرانی نرخ ہوگی ان کی زندگیاں مختصر ان کی تجارت بے نفع ان کا میوہ نابود ان کا پانی کم اور بارش ان کے لیے ممنوع ہوگی اور برے لوگ ان پر مسلط ہوں گے۔

۵۳۸

۲۴ـ                 جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا علی بن ابی طالب(ع) اور ان کی اولاد میں سے امام(ع) میرے بعد اہل زمین کے سردار اور قیامت میں سفید چہروں اور ہاتھوں والوں کے پیشوا ہوں گے۔

۲۵ـ         ام المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) سے میں نے سنا کہ میں سیدِ اولین و آخرین ہوں اور علی بن ابی طالب(ع) سید الاوصیاء ہیں وہ میرے بھائی میرے وارث اور میری امت پر میرے خلیفہ ہیں، ان کی ولایت فریضہ اور ان کی محبت وسیلہ ہے بخدا ان کا حزب خدا کا حزب اور ان کے شیعہ انصارانِ خدا اور اولیاء اﷲ ہیں اور ان کے دشمن خدا کے دشمن ہیں وہ میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں اور مومنین کے مولا و امیر ہیں۔

۲۶ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی قضیب احمر کو دیکھنا چاہے اور یہ چاہے کہ اس سے متمسک ہو اسے چاہیے کہ وہ علی(ع) اور اس کے فرزندان، ائمہ(ع) کو دوست رکھے کہ وہ بہترین خلق ہیں اور ہر گناہ و خطا سے معصوم ہیں، وہ خدا کے منتخب شدہ ہیں۔

۲۷ـ                 جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی علی(ع) کو اس کی زندگی اور بعد میں دوست رکھتا ہے تو خدا اس کے لیے امن و ایمان لکھے گا۔ جس کی وسعت آفتاب کےطلوع و غروب کے مقام جتنی ہوگی اور جو کوئی علی(ع) کو اس کی زندگی یا بعد میں دشمن رکھتا ہے وہ جاہلیت کی موت پر مرے گا اور جو بھی عمل کرے گا اس کا محاسبہ ہوگا۔

۲۸ـ                 جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تیری دوستی مرد مومن کے دل میں قائم ہوگی اس کے قدم پل صراط پر لغزش نہ کھائیں گے وہ ثابت قدم رہےگا یہاں تک کہ تیری دوستی کے صلے میں خدا اسے داخلِ بہشت کردے گا۔

۵۳۹

مجلس نمبر۸۶

(۲۵ رجب سنہ۳۶۸ھ)

آںحضرت(ص) کا ستارے کی خبر دینا

۱ـ           امام صادق(ع) اپنے والد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آںحضرت(ص) مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو آپ(ص) کے خاندان کے افراد اور اصحاب آپ(ص) کے گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اﷲ(ص) اگر آپ(ص) کو حادثہ پیش آگیا تو آپ(ص) کے بعد ہمارا سرپرست کون ہوگا اور آپ(ص) کے امر کو ہمارے درمیان کون قائم کرے گا آںحضرت(ص) نے سکوت اختیار کیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن ان سب نے پھر یہی سوال دہرایا مگر آپ(ص) پھر سکوت اختیار کیے رہے تیسرے دن پھر وہ سب جمع ہوئے اور وہی بات پوچھی تو آںحضرت(ص) نے فرمایا تم میں سے کسی کے گھر آج ایک ستارہ اترے گا تم دیکھنا کہ وہ کون ہے وہی میرے بعد تمہارا خلیفہ  اور میرا امر کو قائم کرنے والا ہوگا۔

ہر کوئی انتظار کرنے اور خواہش رکھنے لگا کہ یہ سعادت اسے نصیب ہو۔ ناگاہ آسمان سے ایک ایسا ستارہ نمودار ہوا جس کا نور تمام دنیا پر غالب تھا وہ ستارہ جناب علی بن ابی طالب(ع) کے  گھر جا اترا۔ یہ دیکھنا تھا کہ امت میں ہیجان پیدا ہو اور وہ گستاخی کرنے لگے کہ یہ مرد ( معاذ اﷲ) گمراہ ہوگیا ہے اور راستے میں ہٹ گیا جبھی اپنے چچازاد بھائی کے بارے میں ہوائے نفس سے بات کرتا ہے اس پر خدا نے یہ آیت نازل فرمائی ” قسم ہے ستارے کی جس وقت وہ نیچے آیا گمراہ  نہیں ہے تمہارا صاحب اور راہ سے بھٹکا ہوا نہیں ہے بیشک یہ جو کہتا ہے وحی سے کہتا ہے۔ “ ( نجم، ۱ـ۴)

۲ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی ہمارے خاندان کو دشمن رکھتا ہے خدا روزِ قیامت اسے یہودی محشور کرے گا عرض ہوا یا رسول اﷲ(ص) اگر چہ وہ شہادتین کہتا ہو آںحضرت(ص) نے فرمایا ہاں یہ دو کلمات کہنے سے اس کا خون محفوظ ہوا اور جزیہ کی خواری سے معاف ہوا پھر آپ(ص) نے دوبارہ فرمایا جو کوئی ہمارے خاندان کو دشمن رکھتا ہے خدا اسے روزِ قیامت یہودی محشور کرے گا عرض ہوا یا رسول اﷲ(ص)

۵۴۰

 کیسے، آپ(ص) نے فرمایا ہمارے خاندان کا دشمن ایسا ہے کہ اگر دجال کو پائے تو اس پر ایمان لائے گا۔

۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو مسلمان اپنی جائے نماز پر بیٹھے اور صبح کی نماز کے بعد ذکر خدا کرے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے تو وہ حج بیت اﷲ کا ثواب لے گا اور معاف کیا جائے گا اور اگر دو یا چار رکعت نماز پڑھ لے ( نافلہ) تو اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف ہوں گے اور حجِ بیت اﷲ کا اجر پائے گا۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نماز مغرب کے بعد گفتگو نہ کرے اور دو رکعت نماز پڑھے تو دفتر علیین اس کے لیے ثبت ہوگا اور اگر چار رکعات نماز پڑھ لے تو حج مقبول کا ثواب لے گا۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی حاجی سے ملاقات کرے اور اس سے مصافحہ کرے وہ اس بندے کی طرح ہے کہ جس نے حجر کو مس کیا ہو۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی ستائیس (۲۷) رجب کو روزہ رکھے گا خدا اسے ستر سال کے روزوں کا ثواب عطا کرے گا۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی گرمی کا روزہ رکھے اور پیاسا ہوتو خدا اس کے گھر فرشتوں کو بھیجے گا جو اس کے چہرے کو مس کریںگے اور خوشخبری دیں گے یہاں تک کہ افطار کرے خدا فرماتا ہے کیا خوشی ہے تیری خوشی اور کیا نسیم ہے تیری نسیم، اے میرے فرشتو گواہ رہو کہ میں نے اسے معاف کیا۔

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو شخص کسی ایسی قوم کے درمیان روزہ رکھے جو کھاتی پیتی ہو تو اس ( روزہ دار) کے اعضاء اس کے لیے تسبیح کرتے ہیں اور فرشتے اس کے لیے رحمت طلب کرتے ہیں اور اس کی مغفرت ہوتی ہے۔

۹ـ           حلبی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے وطن میں روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا وہ ہر ماہ میں تین (۳) دن ہیں پہلے ہفتے سے جمعرات دوسرے سے بدھ اور تیسرے اور آخری ہفتے سے جمعرات حلبی کہتے ہیں میں نے پوچھا یعنی ہر دس روز میں سے ایک

۵۴۱

 دن امام (ع) نے فرمایا ہاں پھر فرمایا جناب امیرالمومنین(ع) کا ارشاد ہے کہ ماہ رمضان کے روزے اور ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھنا سینوں میں سے وسواس کے لے جاتا ہے بے شک ہر ماہ میں تین دن کا روزہ دہر کے روزے کے برابر ہے اور خدا فرماتا ہے جو کوئی ایک نیکی لائے گا اسے دس عطا کی جائیں گی۔

ثواب زیارت جناب ابو عبداﷲ (ع) ( امام حسین(ع))

۱۰ـ          مقام طوس سے ایک شخص امام صادق(ع) کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جو بندہ تربت ابوعبداﷲ(ص) کی زیارت کرے کیا اجر رکھتا ہے ، امام(ع) نے فرمایا اےطوسی جو کوئی جناب ابو عبداﷲ(ع) کی تربت کی زیارت کرے اور معتقد ہو کہ وہ خدا کی طرف سے امام(ع) ہیں اور واجب اطاعت ہیں تو خدا اس کے گذشتہ و آیندہ گناہ معاف فرمائے گا اور ستر گناہ گاروں کے لیے اس کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسی اثناء میں جناب موسی بن جعفر(ع) تشریف لائے تو انہیں اپنے زانو پر بٹھایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا پھر طوسی کی طرف رخ کیا اور فرمایا اے طوسی یہ میرے بعد امام اورحجت ہے اور اس کے صلب سے ایک فرزند پیدا ہوگا جو آسمان و زمین میں اس ( خدا) کے بندوں کے لیے اس کی رضا ہوگا وہ تمہاری زمین پر زہر سے قتل ہوگا اس پر ظلم وستم کیا جائے اور تمہاری زمین  میں غربت کے عالم میں دفن ہوگا آگاہ ہوجاؤ کہ  جو کوئی اس کی غربت کے عالم میں اس کی زیارت کرے گا یہ اعتقاد لیے ہوئے کہ وہ اپنے باپ(ع) کے بعد امام(ع) ہے اور اس کی اطاعت فرض ہے تو گویا اس بندے نے جناب رسول خدا(ص) کی زیارت کی۔

۱۱ـ           صقر بن دلف کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آقا علی بن محمد(ع) ( امام علی نقی(ع)) سےسنا کہ جو شخص خدا سے کوئی حاجت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ طوس میں غسل کے  ساتھ میرے جد امام رضا(ع) کی تربت کی زیارت کرے اور دو رکعت نماز ان کے سر مبارک کی سمت ادا کرے اور  اپنی حاجت خدا سے بیان کرے قنوت کے دوران، تو اس کی دعا مستجاب ہوگی مگر گناہ اور قطع رحم کے لیے قبول نہ ہوگی اور بیشک اس کی قبر کی جگہ ایک بقعہ بہشت سے ہے اور مومن اس کی زیارت نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اسے دوزخ سے آزاد کرے اور بہشت میں داخل کرے۔

۵۴۲

۱۲ـ          آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا بیشک حلقہء بہشت سونے کے صفحے پر یاقوت سرخ سے ہے جب اس حلقے کو دروازہ بہشت پر آویزاں کیا جائے گا” یا علی“ کا نعرہ بلند کرے گا۔

۱۳ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ جب جناب رسول خدا(ص) نے مکہ فتخ کیا تو اس دن ہم آٹھ ہزار لوگ مسلمان ہوئے اور رات ہونے تک یہ تعداد اسی (۸۰) ہزار تک پہنچی آںحضرت(ص) نے قانون ہجرت کو ختم کرتے ہوئے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے پھر جناب علی بن ابی طالب(ع) سے فرمایا اے علی(ع) اٹھو اور انہیں کرامت خدا سے معجزہ رکھاؤ۔ جب آفتاب طلوع ہوا تو جناب امیر(ع) نے آفتاب سے گفتگو کی اور بخدا اس دن جناب امیر(ع) کے علاوہ لوگوں  نے کسی اور پر رشک نہ کیا میں نے دیکھا کہ علی بن ابی طالب(ع)  اٹھے اور آفتاب سے فرمایا سلام ہو تم پر اے عبد صالح اور اپنے پررودگار کے مطیع، آفتاب نے ان کے جواب میں کہا آپ(ع) پر بھی سلام ہو اے برادر رسول خدا(ص)۔ وصی رسول(ص) اور خلق خدا پر اس کی حجت، یہ سن کر جناب امیر(ع) سجدے میں چلے گئے اور خدا کا شکر ادا کیا آںحضرت(ص) آگے بڑھے اور جناب امیر(ع) کو اٹھایا ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا اے میرے حبیب اٹھو تمہارے گریہ سے اہل آسمان بھی گریہ میں ہیں، خدا تمہارے وجود سے اہل آسمان پر مباہات کرتا ہے۔

ہشام اور عمرو بن عبید کے درمیان مناظرہ

۱۴ـ          امام صادق(ع) نے اپنے اصحاب میں موجود ایک صحابی ہشام سے فرمایا اے ہشام اس نے کہا ” لبیک یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) آپ(ع) نے فرمایا تمہاری جو گفتگو عمرو بن عبید سے ہوئی ہے بیان کرو ہشام نے کہا میں آپ(ع) پر قربان میں ہمت نہیں رکھتا اور شرم محسوس کرتا ہوں کہ آپ(ع) کے سامنے لب کشائی کروں امام(ع) نے فرمایا جب میں نے تجھے اس کا حکم دیا ہے تو بیان کر۔ہشام نے کہا جب مجھے خبر ملی کہ عمرو بن عبید عالم فاضل بنا ہوا مسجد بصرہ میں مجالس منقعد کرتا ہے تو یہ مجھ پر گراں گزرا میں بصرہ گیا اور بروز جمعہ مسجد میں چلا گیا وہاں دیکھا کہ عمرو بن عبیدسیاہ پٹکا کمر سے باندھے سیاہ لباس پہنے اور علماء کی روش اختیار کیے ہوئے لوگوں کا جمگھٹا لگائے ان کے سوالوں

۵۴۳

کے جواب دے رہا ہے میں نے لوگوں کو ہٹا کر راستہ بنایا اور اس کے سامنے جاکر دو زانو بیٹھ گیا جب موقع ملا تو میں نے اس سے کہا اے عالم میں ایک غریب آدمی ہوں اگر تم اجازت دو تو میں ایک مسئلہ تم سے دریافت کرنا چاہتا ہوں اس نے کہا ہاں بیان کرو میں نے کہا کیا تم آنکھیں رکھتے ہو۔ اس نے کہا ہاں رکھتا ہوں۔ میں نے کہا ان سے کیا دیکھتے ہو اس نے کہا میں ان سے رنگوں میں تمیز کرتا ہوں پھر میں نے پوچھا اپنی ناک سے کیا کرتے ہو اس نے کہا بو اور خوشبو سونگھتا ہوں، میں نے کہا دہن رکھتے ہو کہا ہاں میں نےکہا اس سے کیا کرتے ہو کہنے لگا اس سے چیزوں کا مزہ چکھتا ہوں میں نے کہا کیا تم زبان رکھتے ہو کہنے لگا ہاں تو پوچھا اس سے کیا کرتے ہو کہا اس سے گفتگو کرتا ہوں میں نے پوچھا کان رکھتے ہو کہا ہاں۔ میں نے پوچھا ان سے کیا کرتے ہو کہنے لگا آواز سنتا ہوں میں نے پوچھا ہاتھ رکھتے ہو کہنے لگا ہاں۔ میں نے کہا ان سےکیا کرتے ہو کہا ان سے چیزوں کو اٹھاتا ہوں پھر میں نے کہا کیا تم دل رکھتے ہو کہنے لگا ہاں میں نے کہا یہ کیا کام کرتا ہے تو کہا جو کچھ اعضاء کرتے ہیں یہ اس میں تمیز کرتا ہے میں نے کہا اعضاء جو کچھ انجام دیتے ہیں۔ اس کی دل کے بغیر تم تمیز کرسکتے ہو اس نے  کہا میرے فرزند میری جان جب اعضاء کسی چیز کو پہچاننے میں غلطی کرتے ہیں یا دیکھنے ، سننے یا لکھنے میں شک پڑ جاتے ہیں تو میں اسے استعمال کرتا ہوں اور دل سے گواہی طلب کرتا ہوں تاکہ شک زائل ہوجائے۔ میں نے کہا خدا نے  اسے ( دل کو) اعضاء کے شک کو رفع کرنے کی خاطر بنایا ہے  اس نےکہا ہاں میں نے کہا اے ابو عیبید خدا نے جسم کے لیے تو دل بنا دیا جو شک کی صورت میں حق کو پہچانتا ہے اور یقین تک لے جاتا ہے مگر اس ( خدا) نے اپنی مخلوق کو شک و حیرت اور اختلاف میں چھوڑ دیا ہے اور ان کے لیے کوئی امام مقرر نہیں کیا کہ مورد شک میں وہ اس کی طرف رجوع کریں جب کہ تیرے بدن کا امام (دل)  بنادیا تاکہ شک و اختلاف کی صورت میں اس کی طرف رجوع  کیا جائے عمرو بن عبید یہ سن کر خاموش ہوگیا اور کوئی بات نہیں کی پھر کچھ دیر بعد اس نے میری طرف رخ کیا اور کہا تم ہشام ہو میں  نے کہا نہیں کہا۔ کہاں کے ہو۔ میں نے کہا میں کوفہ کا رہنے والا ہوں اس نے کہا پس تم وہی ہو پھر اس نے مجھے آغوش میں لیا اور اپنے پہلو میں بٹھایا اور اس کے بعد کسی سے بات نہ کی یہاں تک  کہ ہم رخصت ہوگئے۔

۵۴۴

 امام صادق(ع) مسکرائے اور فرمایا اے ہشام تجھے یہ تعلیم کس نے دی میں نے کہا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) یہ میری زبان پر بے اختیار آگیا تھا امام(ع) نے فرمایا اے ہشام خدا کی قسم صحف ابراہیم(ع) اور صحف موسی(ع) میں یہ اسی طرح رقم ہے۔

۱۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا آںحضرت(ص) جب معراج پر گئے اور اس جگہ تک پہنچے جہاں تک خدا کی مرضی تھی تو آپ(ص) نے ادب کے ساتھ خدا سے  مناجات کی اور واپس پلٹے جب چوتھے آسمان پر آئے تو خدا کی طرف سے انہیں ندا آئی، ” اے محمد(ص)“ آپ(ص) نے عرض کیا” لبیک ربی“ ارشاد ہوا تیرے بعد تیری امت سے کسے برگذیدہ کروں۔ عرض کیا خدایا تو بہتر جانتا ہے ارشاد ہوا۔ تیرے لیے علی(ع) بن ابی طالب(ع) کو چنا ہے کہ وہ تیرے مختار ہے۔

۱۶ـ                  امام صادق(ع) نے فرمایا، مومن کے لیے شائستہ ہے کہ وہ مندرجہ ذیل خصلتیں رکھتا ہو

     ۱ ـ فتنوں اور آزمائشوں میں با وقار بن کررہے۔   ۲  ـ  بلاؤں اور مصیبتوں میں صبر کرے ۔ ۳ ـ  راحت و آرام میں شکر کرے۔ ۴ ـ  اﷲ کے دیے ہوئے رزق پر قناعت کرئے ۔  ۵ ـ  دوستوں سے عرض مندانہ اور مطلبی محبت نہ کرے۔  ۷ ـ  اپنے بدن کو رنج دے تاکہ لوگ اس سے امان میں رہیں پھر فرمایا علم مومن کا دوست ہے حلم اس کا وزیر ہے صبر اس کا سردار لشکر ہے رفیق اس کا بھائی اور نرمی اس کا باپ ہے۔

۱۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا بی بی فاطمہ(س) کے لیے خدا کے ہاں نو(۹) نام ہیں

ا ) فاطمہ(س) ۔  ۲) صدیقہ(س)۔   ۳)  مبارکہ(س)  ۴) طاہرہ(س)  ۵)  زکیہ(س)  ۶) رضیہ(س)  ۷) مرضیہ(س)  ۸) محدثہ(س)  ۹) زہرا (س)۔

پھر امام(ع) نے فرمایا جانتے ہو ان کا نام فاطمہ(س) کیوں ہے راوی کہتا ہے میں نے کہا میرے آقا آپ(ع) مجھے بتائیں، فرمایا اس لیے کہ دوزخ ان سے شرم کھاتی ہے پھر فرمایا اگر علی(ع) سے سیدہ(س) کی تزویج نہ ہوتی تو قیامت تک زمین پر ان کا کوئی ہمسر نہ ہوتا نہ ہی آدم(ع) اور نہ ہی وہ جو آدم(ع) کے بعد پیدا ہوئے۔

۵۴۵

خدا کا فرشتہ ” محمود“

۱۸ـ          جناب موسی بن جعفر(ع) نے بیان فرمایا جناب رسول خدا(ص) ایک مرتبہ تشریف فرما تھے کہ ایک فرشتہ ان(ص) پر نازل ہوا جس کے چوبیس ہزار چہرے تھے آںحضرت(ص) نے فرمایا میرے حبیب جبرائیل(ع) میں نے آپ کو پہلے کبھی اس صورت میں نہیں دیکھا فرشتے نے عرض کیا اے محمد(ص) میں جبرائیل(ع) نہیں ہوں میرا نام محمود ہے مجھے خدا نے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ نور کی تزویج نور سے کردیجئے  فرمایا کس کی تزویج کس سے کروں فرشتے نے کہا فاطمہ(س) کو علی(ع) سے رشتہ ازدواج منسلک کردیں۔ یہ پیغام دے کر جب یہ فرشتہ واپس ہوا تو اس کے شانوں کے درمیان لکھا تھا۔ ” محمد رسول اﷲ علی وصی رسول اﷲ“ آںحضرت(ص) نے اس سے فرمایا تیرے شانوں کے درمیان یہ کب سے لکھا ہوا ہے  اس نے بتایا آدم(ع) کی خلقت سے بائیس (۲۲) ہزار سال پہلے سے یہ میرے شانوں کے درمیان ثبت ہے۔

۵۴۶

مجلس نمبر۸۷

(۲۸ رجب سنہ۳۶۸ھ)

بی بی فاطمہ(س) کی پیدائش

۱ـ           مفضل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے درخواست کی کہ مجھے بی بی فاطمہ(س) کی پیدائش کا حال بتائیں۔ امام(ع) نے فرمایا جب بی بی خدیجہ(س) کی تزویج جناب رسول خدا(ص) سے ہوئی تو قریش کی عورتیں ان کے پاس نہ جاتی تھیں نہ ہی ان سے سلام لیتیں اور نہ کسی دوسری عورت کو ان سے ملنے دیتیں اس صورت حال سے بی بی خدیجہ(س) کو وحشت ہونے لگی تنہائی و بے تابی اور غم کے بادل بی بی(ع) پر سایہ فگن ہوگئے۔

جب آپ(ع) بی بی فاطمہ(س) کے نور عصمت سے حاملہ ہوئیں تو با اعجاز آپ(ع) شکم مادر میں موجود جنین سے گفتگو فرماتیں اور اس طرح اپنی تنہائی دور کرتیں بی بی خدیجہ(ع) نے اس راز کو جناب رسول خدا(ص) سے پوشیدہ رکھا ایک دن اچانک جناب رسول خدا(ص) تشریف لائے اور بی بی خدیجہ(ع) کو  کسی سے باتیں کرتے ہوئے پایا تو فرمایا اے خدیجہ(ع) تم کس سے باتیں کررہی تھیں بی بی(ع) نے جواب دیا اس بچے سے جو میرے شکم میں موجود ہے یہ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور انسیت رکھتا ہےجناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے خدیجہ(ع) مجھے جبرائیل(ع) نے خبر دی ہے  کہ یہ جنین دختر ہے اور نسل طاہرہ(س) سے ہے اور بہت با برکت ہے خدا نے میری ذریت کو اسی میں سے مقرر فرمایا ہے اور اس کی اولاد سے ائمہ(ع) آئیں گے خدا انہیں اپنی زمین میں خلیفہ مقرر فرمائے گا۔

مدت حمل پوری ہونے تک بی بی خدیجہ(ع) اسی طرح رہیں جب  وقت ولادت آگیا تو قریش اور بنو ہاشم کی عورتوں کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ آئیں اور خدیجہ(ع) کی پذیرائی کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ تم نے محمد(ص) سے شادی کی جو یتیم اور ابوطالب(ع) کا پروردہ ہے اس لیے ہم تمہیں قبول نہیں کرتیں، بی بی خدیجہ(ع) یہ جواب سن کر غمزدہ ہوگئیں ناگاہ چار بلند قامت گندم گوں خواتین جو کہ قریش اور

۵۴۷

 بنو ہاشم کی عورتوں کی مانند معلوم ہوتی تھیں تشریف لائیں۔ انہیں دیکھ کر بی بی خدیجہ(ع) کو خوف محسوس ہوا تو ان میں سے ایک نے بی بی(ع) سے کہا اے خدیجہ(ع) غم نہ کرو اور مت ڈرو ہم تیرے پاس خدا کی طرف سے آئیں ہیں اور تیری بہینیں ہیں، میں سارہ ہوں اور یہ آسیہ بنت مزاحم ہیں جو کہ جنت میں تیری رفیقہ ہیں یہ مریم بنت عمران(ع) ہیں اور یہ موسی بن عمران(ع) کی بہن کلثوم(س) ہیں ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ تیری پذیرائی کریں پھر وہ عام عورتوں کی مانند آپ(ع) کے دائیں ، بائیں آگے اور پیچھے بیٹھ گئیں اور فاطمہ(س) متولد ہوگئیں اور وہ جب دنیا میں تشریف لائیں تو ان سے اس قدر نور پھوٹا کہ مکہ کے دیوار روشن ہوگئے آپ(ع)  اس دنیا میں پاک و پاکیزہ تشریف لائیں آپ(ع) کے نور سے مشرق تا مغرب کوئی گھر ایسا نہ تھا جو منور نہ ہوگیا ہو پھر حجرہ مبارک میں دس حوریں داخل ہوئیں ان میںسے  ہر ایک کے ہاتھ میں بہشت کی صراحیاں اور طشت تھے وہ اپنے ساتھ کوثر سے پانی لائی تھیں انہوں نے وہ پانی کے برتن ان خاتون کے حوالے کیے جو بی بی فاطمہ(س) کے سامنے بیٹھی تھیں ان خاتون نے فاطمہ(س) کو کوثر کے پانی سے غسل دیا اور حوروں کے لائے ہوئے کپڑوں میں سے ایک کپڑے میں آپ(س) کو لپیٹ دیا اور دوسرا سر اور چہرے پر باندھ دیا ان کپڑوں سے مشک و عنبر سے زیادہ خوشبو آتی تھی پھر ان خاتون نے اپنی زبان فاطمہ(س) کے دہن میں ڈال دی فاطمہ(س) گویا ہوئیں اور کہا” اش ه د ان لا ال ه الا اﷲ و اش ه د ان ابی رسول اﷲ سيد الانبياء و ان بعلی سيد الاوصاء  و ولدی سادة الاسباط “ میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ میرے والد رسول اﷲ(ص) سید انبیاء ہیں اور میرا شوہر سید اوصیاء اور میرے فرزند فرزندانِ پیغمبر(ص) اور پھر اس کے بعد بی بی فاطمہ(س) نے ان تمام عورتوں کو ان کے ناموں سے مخاطب کر کے انہیں سلام کیا وہ تمام خواتین مسکرائیں اور خوش ہوگئیں بہشت سے آئی حوروں نے بھی بشارت دی ولادت فاطمہ(س) کے وقت آسمان پر بھی ایک ایسا نور چمکا کہ فرشتوں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر ان خواتین نے کہا اے خدیجہ(ع) اس پاک و پاکیزہ دختر کو لے لو یہ ذکیہ، میمونہ اور مبارک ہے خدا نے اسے اور اس کی نسل کو برکت دی ہے یہ سن کر خدیجہ(ع) خوش ہوگئیں اور فاطمہ(س) کو گود میں لے کر دودھ

۵۴۸

پلانا شروع کیا۔ بی بی فاطمہ(س) روزانہ تین ماہ کی نشو و نما کے برابر بڑھتی تھیں اور ایک ماہ میں آپ(س) ایک سال کے برابر نشو ونما پاجاتیں۔

آںحضرت(ص)  کے سیدہ(س) سے راز و نیاز

۲ـ           ام المومنین عائشہ بیان کرتیں ہیں کہ ایک مرتبہ فاطمہ(س) میرے ہاں تشریف لائیں تو جناب رسول خدا(ص) نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور فرمایا مرحبا میری بیٹی  فاطمہ(س) پھر آپ(ص) نے انہیں اپنے دائیں پہلو میں بٹھا یا اور ان کے کان میں راز کی کوئی بات کہی جسے سن کر فاطمہ(س) رونے لگیں پھر آںحضرت(ص) نے دوبارہ فاطمہ(س) کے کان پر کچھ کہا تو وہ مسکرانے  لگیں یہ دیکھ کر میں نے فاطمہ(س) سے  اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ پہلی مرتبہ جناب رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہر سال جبرائیل(ع) ایک مرتبہ مجھے قرآن پیش کیا تھے اس مرتبہ جبرائیل(ع) دو مرتبہ تشریف لائے تھے لہذا میں سمجھ گیا کہ اب وقت رحلت آگیا ہے اور میرے خاندان میں سے تم وہ پہلی فرد ہو جو مجھے بہشت میں آکر ملے گی یہ خبر سن کر میں نے گریہ کیا تو جناب رسول خدا(ص) نے دوبارہ فرمایا کیا تمہیں پسند نہیں کہ تم مومنین کی عورتوں کی بہشت میں سرداری کرو تو میں مسکرا دی۔

۳ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں آںحضرت(ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اور علی بن ابی طالب(ع) اور فاطمہ(س) وحسن(ع) و حسین(ع) بھی موجود تھے کہ جبرائیل(ع) تشریف لائے اور ایک سیب آںحضرت(ص) کو پیش کیا آںحضرت(ص) نے اس سیب کو لیا اور اسے اپنا تعارف کروایا پھر وہ سیب علی(ع) بن ابی طالب(ع) کو دیا اور ان کا تعارف اس سیب سے کروایا۔ پھر جناب علی(ع) نے وہ سیب آںحضرت(ص) کو دیا جنہوں نے اسے جناب حسن(ع) کو دیا جناب ِ حسن(ع) نے اسے لیا اور بوسہ دے کر اپنا تعارف اس سے کروایا اور واپس  آںحضرت(ص) کو دیدیا آںحضرت(ص) کو دیدیا آںحضرت(ص)  نے وہ سیب لے کر پھر اسے اپنا تعارف کروایا اور دوبارہ علی(ع) کو دیدیا اس کے بعد جب علی(ع) نے چاہا کہ اسے آںحضرت(ص) کو پیش کریں تو وہ ہاتھ سے گر گیا اور دو ٹکڑے ہوگیا اس کے دو ٹکڑے ہوتے ہی اس سے ایک ایسا

۵۴۹

نور خارج ہوکہ زمین و آسمان منور ہوگئے اور اس سیب کے اندر دو سطریں لکھی تھیں کہ ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ یہ تحفہ ہے محمدمصطفی(ص) وعلی مرتضی(ع) اور فاطمہ زہرا(س) و حسن(ع) و حسین(ع) ، سبطین رسول خدا(ص) کے لیے خدا کی طرف سے۔ اور ان کے دوستوں کے لیے قیامت میں دوزخ سے امان ہے۔

۴ـ              حذیفہ بن یمان(رض) بیان کرتے ہیں میں نے دیکھا کہ جناب رسول خدا(ص) نے حسین بن علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے لوگو اسے پہچان لو یہ حسین بن علی(ع) ہے جان لو، جس کے ہاتھ میں اس کی جان ہے یہ بہشت میں ہے اور اس کے ساتھ اس کا دوست بھی بہشت میں ہوگا۔

ارضِ نینوا

۵ـ              ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں میں صفین کے سفر میں جناب امیرالمومنین(ع) کے ہمراہ تھا جب ہم مقام نینوا میں دریائے فرات کے کنارے پہنچے تو جناب امیر(ع) نے با آواز بلند پکارا۔ اے ابن عباس(رض) کیا تم اس جگہ کو پہچانتے ہو میں نےکہا نہیں یا امیرالمومنین(ع)۔ فرمایا ۔ اے ابنِ عباس(رض) اگر تم اس جگہ کو اس طرح پہچانتے جس طرح میں جانتا ہوں تو یہاں سے ہرگز نہ گذرتے جب تک کہ اس طرح گریہ نہ کر لیتے جس طرح مٰیں گریہ کرتا ہوں یہ فرما کر آپ(ع) نے گریہ فرمایا یہاں تک کہ آپ(ع) کی ریش مبارک آنسوں سے تر ہوگئی اور آپ(ع) کے سینے پر بہنے لگے یہ دیکھ کر میں نے بھی ان کے ہمراہ گریہ کیا پھر  آپ(ع) نے فرمایا آہ مجھے آل ابوسفیان سے کیا کام۔ آہ مجھے آل حرب سے جو لشکر شیطان و والیان کفر وعدوان ہیں سے کیا کام۔ اے ابو عبداﷲ(ع) صبر کرو جو تم دیکھتے ہو وہ تمہارے باپ(ع) کو بھی نظر آتا ہے۔پھر جناب امیر(ع) نے پانی طلب کر کے وضو کیا اور بہت طویل نماز پڑھی پھر نماز کے بعد گریہ کیا پھر آپ(ع) نے ایک ساعت کے لیے آرام فرمایا جب آپ(ع) نینوا سے بیدار ہوئے تو فرمایا اے ابن عباس(رض) میں نے کہا میں حاضر ہوں، فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا ہے تم سے بیان کروں میں نے  عرض کیا خدا کرے جو کچھ آپ(ع) نے خواب میں دیکھا ہے وہ آپ(ع) کے لیے خیر و سعادت ہو انشاء اﷲ، آپ(ع) نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ چند مرد آسمان سے نیچے آئے

۵۵۰

جو سفید رنگ کا علم ہاتھ میں لیے ہوئے تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے وہ نور کی سفیدی کی وجہ سے چمک رہے تھے انہوں نے اس زمین کے گرد خط کھینچا پھر نے دیکھا کہ درختوں کی شاخیں جھک گئیں اور تازہ خون اس صحرا میں موج زن ہوگیا پھر نے اپنے  فرزند حسین(ع) کو دیکھا جو خون میں تڑپ رہا  ہے اور استغاثہ کی آواز بلند کر رہا ہے مگر کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا اور سفید پوش مرد جوآسمان سے زمین پر آئے تھے حسین(ع) سے کہہ رہے تھے صبر کرو تم بدترین امت کے ہاتھوں سے قتل ہوگے اور اس وقت بہشت تمہاری مشتاق ہے پھر وہ مرد میرے پاس آئے اور مجھ سے تعزیت کی اور کہا اے ابوالحسن(ع) شاد و خوش رہیے خدا آپ(ع) کی آنکھیں قیامت کے دن ان مصائب کی وجہ سے روشن رکھے گا یہ دیکھ کر میں بیدار ہوگیا میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں  جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے مجھے سچا جانو کیونکہ جناب رسول خدا(ص) نے مجھے  خبر دی تھی کہ جب میں باغیوں سے لڑنے جاؤں گا اور سر کشی کریں گے تو میں اس سر زمین کو دیکھوں گا اور یہ زمین کرب وبلا ہے میرا فرزند حسین(ع) اور اس کے ساتھ اولاد فاطمہ(ع) میں سے سترہ آدمی اس سر زمین میں دفن ہوں گے یہ زمین آسمانوں میں معروف ہے جس طرح کعبہ و حرم مدینہ اور بیت المقدس ہیں پھر جناب امیر(ع) نے فرمایا اے ابن عباس(رض) اس صحرا میں سرگین آہو ڈھونڈو خدا کی قسم میں ہرگز جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی جناب رسول خدا(ص) نے جھوٹ سنا کہ میں اس صحرا میں سرگین کا ڈھیر دیکھوں گ جو زعفران کی طرح زرد ہوگا( سرگین آہو سے مراد ہرن کی مینگنیاں ہیں) ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ میں نے سرگین آہو کو تلاش کرنا شروع کیا اور ایک جگہ میں نے ان سرگین کا ڈھیر دیکھا جناب امیر(ع) نے فرمایا خدا اور اس کا رسول(ص) سچ فرماتے ہیں پھر آپ(ع) تیزی سے ان سرگین کی طرف بڑھے اور اٹھا کر انہیں سونگھا اور فرمایا اے ابن عباس(رض) یہ وہی سرگین ہیں جس کی مجھے خبر دی گئی ہے اے ابن عباس(رح) کیا تم جانتے ہو یہ سرگین کونسی ہیں، یہ وہی ہیں کہ جب عیسی(ع) بن مریم(ع) اس صحرا سے گزرے اور ان کے حواری اور مصاحب ان کے ہمراہ تھے تو ان کی نظر ان سرگین پر پڑی انہوں نے دیکھا کہ ایک گلہء آہو یہاں جمع ہے اور تمام آہو رو رہے ہیں حضرت عیسی(ع) نے یہ سرگین اٹھا کر سونگھے اور بیٹھ کر رونا شروع کردیا ان کے مصاحبین نے بھی ان کے ہمراہ گریہ کرنا شروع کردیا پھر کچھ دیر بعد حضرت عیسی(ع) سے

۵۵۱

 دریافت کیا کہ کیا وجہ سے آپ(ع) یہاں بیٹھ کر گریہ کر رہے ہیں تو حضرت(ع) نے فرمایا ، کیا تم جانتے ہو یہ کون سی سرزمین ہے انہوں نے کہا نہیں تو فرمایا یہ وہ سرزمین ہے جس میں نبی آخر الزمان کا فرزند اور ان کی دختر فاطمہ(س) کا فرزند(ع) شہید ہوگا اور دفن ہوگا اس زمین کی خاک کی خوشبو مشک سے زیادہ ہے میرے گریہ کرنے کا سبب یہی ہے ان شہیدوں کی طینت ابنیاء(ع) و اولیاء(ع) جیسی ہے یہ آہو مجھ سے باتین کررہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں دوسرے درندوں کے شر سے محفوظ ہیں یہ فرماکر حضرت عیسی(ع) نے ان سرگین کو سونگھا اور فرمایا اس سرگین کی خوشبو میں اس گھاس کی خوشبو ہے جو اس سرزمین ( کربلا) میں اگتی ہے خدایا اس (سرگین و آہو) کو اپنے حال پر اس وقت تک قائم رکھنا جب تک اس (حسین(ع)) کا باپ یہاں آکر اسے نہ سونگھ لے اور یہ اس کے لیے موجب سلی ہو۔

اے ابن عباس(رض) یاد رکھو عیسی(ع) کی یہ دعا اب تک باقی رہی ہے اور مدت دراز کے باوجود انہیں (سرگیں)محفوظ رکھا گیا ہے اور یہ زمین، زمین کرب و بلا ہے اس کے بعد جناب امیر(ع) نے با آواز بلند فرمایا اے پروردگار عیسی بن مریم(ع)۔ میرے بیٹے کے قاتلوں کو اور وہ اشقیاء جو ان کی مدد کریں اپنی رحمت و برکت نہ دینا۔ یہ کہہ کر جناب امیر(ع) کثرت گریہ کی وجہ سے منہ کے بل گر گئے اور ایک ساعت بے ہوش رہے جب آپ(ع) ہوش میں آئے تو تھوڑی سی سرگین اٹھا کر اپنی رداء مبارک میں باندھ لیں اور مجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی تھوڑی سی اپنی رداء میں باندھ لوں پھر جناب امیر(ع) نے فرمایا اے ابن عباس(رض) جب تم دیکھو کہ یہ سرگین تازہ خون میں تبدیل ہوگئیں ہیں تو سمجھ جانا کہ میرا فرزند حسین(ع) اسی زمین میں شہید کردیا گیا ہے۔

ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ میں ان سرگین کو ہمیشہ اپنی آستین کے ساتھ باندھ کر رکھتا تھا اور ان کی حفاظت کیا کرتا تھا اور اپنی نماز واجب سے زیادہ ان کی حفاظت کرتا تھا ایک دن میں اپنے گھر میں آرام کررہا تھا اور جب میں نیند سے بیدار ہوا تو کیا دیکھا کہ میری آستین خون آلودہ ہوچکی ہے اور ان سرگین سے  خون جاری ہے یہ دیکھ کر میں رونے پیٹنے لگا اور واویلا کرنے لگا کہ خدا کی قسم حسین بن علی(ع) شہید ہوگئے ہیں میں نے ہرگز علی بن ابی طالب(ع) سے جھوٹ نہیں سنا مجھے جو خبر دی گئی

۵۵۲

تھی وہ وقوع پذیر ہوگئی ہے جب میں گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ ایک غبار مدینہ کو گھیرے ہوئے ہے اور لوگ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے آفتاب خون سے بھرے ہوئے طشت کی مانند سرخ ہوچکا ہے مدینے کے دیوار اس طرح سرخ ہوگئے ہیں جیسے ان پر خون مل دیا گیا ہو اس کے بعد میں گھر واپس آگیا اور گریہ کی حالت میں کہا خدا کی قسم حسین بن علی(ع) شہید ہوگئے ہیں ناگاہ گھر کے اطراف سے ایک آواز میرے کان میں پڑی مگر آواز دینے والا نظر نہ آیا اور وہ آواز یہ تھی کہ اے آل رسول(ص) صبر کرو فرزندِ رسول(ص) شہید ہوگئے ہیں۔ اور جبرائیل(ع) روتے ہوئے نازل ہوئے ہیں جب یہ آواز میں نے سنی تو میری گریہ و زاری زیادہ ہوگئی اور میں نے جان لیا کہ حسین(ع) اسی وقت شہید کیے گئے تھے اس دن محرم کی دس (۱۰) تاریخ تھی اس کے بعد جب کربلا سے شہادت حسین(ع) کی خبر مدینہ پہنچی تو معلوم ہوا کہ امام حسین(ع) کو اسی دن ( دس محرم کو) ہی شہید کیا گیا تھا اور وہ جماعت جو کربلا میں موجود تھی انہوں نے بھی بیان کیا کہ شہادت حسین(ع) کے بعد ویسی ہی آواز کربلا میں بھی سنائی دی تھی جیسی مدینہ میں سنی گئی تھی مگر آواز دینے والا نظر نہیں آیا ہمارا خیال ہے یہ آواز حضرت خضر(ع) کی تھی۔

۶ـ           زرارہ بیان کرتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا جب جناب رسول خدا(ص) معراج پر گئے تو جس مخلوق کے پاس سے گذرے اسے خوش وخرم دیکھا مگر ایک فرشتے ایسا دیکھا جو شاد نہ تھا آپ(ص) نے جبرائیل(ع) سے دریافت کیا کہ میں نے اہل آسمان میں سے جسے دیکھا خوش وخرم دیکھا مگر اس فرشتے کو شاد نہیں دیکھا یہ کون ہے کیا خدا نے اسے اس طرح پیدا کیا ہے  جبرائیل(ع) نے فرمایا یہ خازن دوزخ ہے اور خدا نے اسے اسی طرح خلق فرمایا  ہے میں چاہتا ہوں آپ(ص) اس سے دوزخ کے بارے میں پوچھیں۔ پھر جبرائیل(ع) نے خازن جہنم سے کہا کہ محمد رسول خدا(ص) ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ تم سے دوزخ کے بارے میں پوچھوں۔ اس نے کہا میرے سامنے خدا تعالی نے ایک شخص کو حاضر کرنے کا حکم دیا جب وہ حاضر کیا گیا تو اس کو گردن سے پکڑ کر اس کی جان نکالنے کا حکم دیا گیا جب اس کی جان نکلتے میں نے دیکھی تو تب سے آج تک میں نہیں مسکرایا۔

             ”وصلی اﷲ علی رسولہ و آلہ الطاہرین۔“

۵۵۳

مجلس نمبر۸۸

(سلخ رجب سنہ۳۶۸ھ)

آںحضرت(ص) کی ولادت با سعادت

۱ـ           لیث بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ معاویہ کے پاس بیٹھا تھا اور کعب الاحبار بھی وہیں موجود تھا میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی کتابوں میں آںحضرت(ص) کے ولادت کے متعلق کیا پیش گوئیاں پڑھیں اور ان(ص) کے کیا فضائل و صفات تم نے مرقوم دیکھے میرا سوال سن کر کعب نے معاویہ کی طرف دیکھا کہ اس کے کیا تاثرات ہیں کہیں وہ اس کے بولنے پر راضی ہے یا نہیں۔ اس وقت خدا کی قدرت سے معاویہ کی زبان پر جاری ہوا کہ اے ابو اسحاق جو کچھ تم نے دیکھا اور جو کچھ تم جانتے ہو بیان کرو۔

کعب نے کہا میں نے بہتر(۷۲) آسمانی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور دانیال(ع) کے صحائف بھی پڑھے ہیں ان تمام کتابوں میں ان کا نام بہت واضح طور پر موجود ہے۔ اور ان(ص) کی عترت(ع) و ولادت کا تذکرہ ہے سوائے حضرت عیسی(ع) اور حضرت محمد(ص)  کی ولادت کے کسی نبی یا پیغمبر(ع) کی ولادت کے وقت فرشتے نازل نہیں ہوئے اور سوائے جناب مریم(ع) اور جناب آمنہ(ع) کے کسی کے واسطے آسمانوں کے پردے نہیں ہٹائے گئے اور حضرت عیسی(ع) اور حضرت محمد(ص) کی ولادت کے سوا کسی اور عورت پر فرشتے موکل نہیں کیے گئے حضرت محمد(ص) کے حمل کی علامت یہ تھی کہ جس رات جناب آمنہ(ع) حمل سے ہوئیں ساتوں آسمانوں پر ایک منادی نے ندار دی کہ  آپ(ع) کو خوشخبری ہو، در شہوار نطفہء خاتم الانبیاء(ص) قرار پایا اس خوشخبری کی منادی تمام زمینوں میں بھی کی گئی اور کوئی چلنے اور پرواز کرنے والا ایسا نہیں تھا جس کو آںحضرت(ص) کی ولادت کی خبر نہ ہوئی ہو۔ آںحضرت(ص) کی ولادت کی رات ستر ہزار قصر یاقوتِ سرخ اور ستر ہزار قصر مروارید کے بنائے گئے جن کے نام قصور ولادت رکھے گئے اور تمام بہشتوں کو آراستہ کیا گیا اور ان سے فرمایا گیا کہ خوشی مناؤ اور اپنے مقام پر بالیدہ

۵۵۴

ہوتی رہو آج تمہارا دوست اور دوستوں کا پیغمبر(ص) پیدا ہوا ہے یہ سن کر ہر بہشت خوش ہوکر ہنسی اور وہ قیامت تک ہنستی رہیں گی اور میں نے سنا ہے کہ دریا کی مچھلیوں میں سے ایک عماسا نام کی مچھلی ہے جو سب سے بڑی ہے جس کی ہزار دمیں ہیں اس کی پیٹھ پر ہر وقت سات لاکھ گائیں ایسی چلتی ہیں کہ ہر گائے دینا سے بڑی  ہے ہر گائے کے سر پر ستر ہزار زمرد کے سینگ ہیں اس مچھلی کی پشت پر جب یہ گائیں چلتی ہیں تو اسے پتا بھی نہیں چلتا وہ  مچھلی حضرت(ص) کی ولادت سے خوش و مسرور ہو کر حرکت میں آئی اگر خدا اسے ساکن ہونے کا حکم نہ دے دیتا تو تمام دینا پلٹ جاتی۔ میں نےسنا کہ اس روز کوئی پہاڑ ایسا نہ تھا جس نے دوسرے پہاڑ کو خوشخبری نہ دی ہو سب پہاڑ ” لا الہ الا اﷲ“ کا ورد کررہے تھے اور تمام پہاڑ آںحضرت(ص) کی ولادت کی خوشی میں کوہ ابو قیس کے سامنے جھکے ہوئے تھے تمام درخت اور ان کی شاخیں اپنے پتوں اور پھلوں سمیت خداوند عالم کی تقدیس و تسبیح کررہے تھے اس روز آسمان و زمین کے درمیان مختلف انور کے ستر ستوں نصب کیے گئے جس میں سے کوئی ایک، دوسرے سے متشابہ نہ تھا جب حضرت آدم(ع) کو آںحضرت(ص) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو فرطِ مسرت سے ان کا حسن ستر گنا بڑھ گیااور موت کی تلخی ان کے حلق سے زائل ہوگئی او حوض کوثر میں خوشی سے تلاطم پیدا ہوا اور اس نے دریاقوت کے ستر ہزار قصر آںحضرت(ص) پر نثار کرنے کے واسطے اپنی تہہ میں سے نکال کر باہر ڈال دیئے شیطان کو زنجیروں سے چالیس روز کے لیے جکڑ دیا گیا اور اس کا تخت چالیس روز کے لیے پانی میں غرق کر دیا گیا تمام بت سرنگوں ہوگئے اور ان کی زبانوں سے فریاد واویلا کی آوازیں بلند ہونے لگیں خانہ کعبہ سے آواز بلند ہوئی کہ اے آل قریش تمہاری طرف ثواب کی خوشخبری دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا آگیا ہے اور اس کا ساتھ دینے میں عزت ابدی اور  بے انتہا فائدہ ہے اور وہی خاتم النبیین(ص) ہے پھر کعب نے کہا ہم نے کتابوں میں پایا ہےکہ ان(ص) کی عترت(ع) ان کے بعد تمام دنیا کی مخلوق سے افضل ہے اور جب تک ان میں سے ایک بھی اس زمین پر رہے گا۔ دنیا والے خدا کے عذاب سے امان میں رہیں گے۔

معاویہ نے پوچھا اے ابو اسحاق اس(ص) کی عترت(ع) کون لوگ ہیں کعب نے کہا ان(ص) کی عترت(ع) اولاد فاطمہ(س) ہیں یہ سن کر معاویہ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگا اور اپنی ڈارھی پر

۵۵۵

 ہاتھ پھیرنے لگا پھر کعب نے کہا ہم نے ان(ص) کے دونوں فرزندوں کے اوصاف کے بارے میں کتابوں میں پڑھا اور دیکھا ہے کہ وہ دونوں فرزندان فاطمہ(س) ہیں اور انہیں بدترین خلق شہید کردیں گے معاویہ نے پوچھا انہیں کون لوگ قتل کریں گے تو اس نے کہا انہیں قریش میں سے ایک شہید کرے گا یہ سن کر معاویہ غصہ میں بے تاب ہو کر بولا اگر تم خیریت چاہتے ہو تو میرے پاس سے چلے جاؤ تو ہم لوگ اٹھ کر وہاں سے چلے آئے۔

۲ـ           نویر بن سعید اپنے والد سعید سے اور وہ حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب امیرالمومنین(ع) مسجد بصرہ کے منبر پر تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو میرا حسب ونسب بیان کرو جو کوئی مجھے پہچانتا ہے وہ لوگوں کے سامنے میرا نسب بیان کرے یا پھر میں اپنا نسب خود ہی بیان کرتا ہوں۔ میں زید(رح) بن عبد مناف(رح)  بن عامر(رح)  بن عمرو(رح)  بن مغیرہ(رح)  بن زید(رح)  بن کلاب(رح)  ہوں یہ سن کر ابن کوا کھڑا ہوا اور کہا اے میرے آقا ہم آپ(ع) کا نسب اس کے سوا نہیں جانتے کہ آپ علی(ع) بن ابی طالب(ع) بن عبدالمطلب(ع) بن ہاشم(رح) بن عبدمناف(رح) بن قصی(رح) بن کلاب(رح) ہیں جناب امیر(ع) نے فرمایا اے بغیر باپ کی اولاد میرا نام میرے والد(ع) نے اپنے جد کے نام پر زید رکھا اور میرے والد(ع) کا نام عبدمناف(ع) ہے مگر ان کی کنیت ابوطالب(ع) زباں زد عام ہوگئی میرے دادا کا نام عبدالمطلب(ع) عامر ہے مگر ان کی کنیت عبدالمطلب(ع) ہی عرف عام میں مستعمل ہوگئی ان کے والد کا نام ہاشم عمرو(رح) ہے مگر وہ لقب سے شہرت پاگئے ان کے والد کا نام عبدو مناف مغیرہ(رح) ہے لیکن وہ اپنے لقب سے پکارے جانے لگے ان کے والد کا نام قصی زید ہے مگر عرب کے لوگ ان کی کنیت کے نام سے انہیں پکارنے لگے یہ لوگ دور کے شہروں سے مکہ میں آئے اور ان کے لقب ان کے ناموں پر  غالب ہوگئے۔

۳ـ          ابوعبد اﷲ امام صادق(ع) نے فرمایا خدا نے داؤد(ع) کو وحی کی کہ میرے بندوں میں سے جب بھی کوئی میری خوشنودی کے لیے ایک نیک عمل کرتا ہے تو میں نے اس کے لیے بہشت کو مباح کرتا ہوں داؤد(ع) نے عرض کیا خدایا وہ نیک کام کیا ہے تو ارشاد ہوا وہ نیک کام یہ ہے کہ کوئی بندہ میری خوشنودی کی خاطر ایک دانہ خرما کسی مستحق کو دے داؤد(ع) نے عرض کیا بارالہا یہ ( بہشت ) اس کے لیے بھی ہے تو تجھے پہچانتا ہو( تیری معرفت رکھتا ہو) اور تجھ سے امید قطع نہ کرے۔

۵۵۶

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ہم وہ اول خاندان ہیں کہ خدا نے ہمارے نام کو بلند کیا جب خدا نے زمین و آسمان کو خلق کیا تو منادی کو حکم دیا کہ وہ تین بار آواز بلند کرے ”اش ه د ان لا ال ه الا اﷲ محمد رسول اﷲ اش ه د ان عليا اميرالمومنين حقا

۵ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا خدا نے آںحضرت(ص) کو وحی کی کہ  ” اے محمد(ص) میں نے تجھے پیدا کیا اور اس وقت کوئی چیز نہ تھی پھر میں نے اپنی روح کو تجھ میں پھونکا اور تجھے گرامی کیا کہ تیری اطاعت تمام خلق پر لازم قرار دی جو کوئی تیری اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور اس امر کو علی(ع) اور اس کی نسل کے لیے مخصوص گیا ہے۔“

۶ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا ہر صبح دو فرشتے ندا دیتے ہیں کہ اے طالب خیر سامنے آ اور اے طالب شر پیچھے  جا، کیاکوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے کیا کوئی ہے جو مغفرت طلب کرتا ہو کہ اسے معاف کیا جائے ، کوئی ہے جو تائب ہو اور اس کی توبہ قبول کی جائے کیا کوئی ایسا ہے جو مغموم ہو کہ اس کا غم ختم کیا جائے خدایا جو کوئی اپنا مال تیری راہ میں خرچ کرتا ہے اسے اس کا بدلہ دے اور جو کوئی بخیل ہے اسے تلف کر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ان کی یہ دعا تمام دن جاری رہتی ہے۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوجاتا ہے۔

۷ـ          ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا خدا نے  عیسی بن مریم(ع) کو وحی کی کہ اے عیسی(ع) میرے دین کے علاوہ کسی کو گرامی مت رکھو اور جو اسے گرامی نہ رکھے گا میں اپنی رحمت سے اسے نعمت عطا نہ کروں گا اے عیسی(ع) اپنے اندرون و بیرون کو پانی سے دھوکے ( پاکیزہ ) رکھو حسنات کو زخیرہ کرو میرے حضور توبہ کے لیے تیار رہو اپنی حزین آواز مجھ سناتے رہو اور جو کچھ بھی ہے وہ میرے ہی پاس ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) کا فرمان ہے کہ جو کوئی کسی کافر کو دوست رکھتا ہے وہ خدا کو دشمن رکھے ہوئے ہے اور جو کوئی کسی کافر کو دشمن رکھے ہوئے ہے وہ  خدا کا دوست ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا ، دشمن خدا کا دوست خدا کا دشمن ہے۔

۵۵۷

۹ـ اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین(ع) نے اپنی تقریر میں ارشاد فرمایا ، اے لوگو! میری بات غور سے سنو اور سمجھو کہ جدائی نزدیک ہے میں خلق پر امام(ع) ہوں اور بہترین لوگوں میں سے وصی ہوں میں عترت طاہرہ(ع) اور ائمہ(ع) کا باپ ہوں جو رہبر ہیں، جناب رسول خدا(ص) کا برادر ان کا وصی ولی اور وزیر ہوں میں ان(ص) کا صاحب، صفی اور ان کا حبیب وخلیل ہوں میں امیرالمومنین(ع) اور سفید چہروں و ہاتھوں والوں کا پیشوا اور سید الاوصیاء ہوں میرے ساتھ جنگ خدا کے ساتھ جنگ ہے میرے خلاف سازش خدا کے خلاف سازش ہے میری اطاعت خدا کی اطاعت اور مجھ سے دوستی خدا کے ساتھ دوستی ہے میرے شیعہ اولیاء اﷲ ہیں اورمیرے انصار اںصارانِ خدا ہیں جان لو جب مجھے پیدا کیا گیا تو کسی چیز کا وجود نہ تھا جناب رسول خدا(ص) کے اصحاب نے اپنے پیغمبر(ص) امی کی زبانی سنا اور یاد کیا ہے کہ ناکثین ، مارقین و قاسطین ملعون ہیں اور جو افترا باندھتے ہیں وہ نا امید ہیں۔

۱۰ـجناب موسی بن جعفر(ع) فرماتے ہیں میں نے اپنے والد(ع) سے سنا کہ بندہ جب سورہ حمد پڑھتا ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور اس کی جزا بھی رکھتا ہے پھر میرے والد(ع) نے فرمایا  جو کوئی سورة حمد کو پڑھے وہ امن میں ہوگا پھر انہوں نے فرمایا ” جو انا انزلنا“ پرھتا ہے اس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ تو نے سچ کہا اور معاف کردیا گیا پھر میرے والد(ع) نے فرمایا، جوکوئی ” آیت الکرسی“ پڑھتا ہے اس کے لیے مبارک ہے مبارک ہے اور اس کے لیے دوزخ سے بیزاری نازل کی گئی ہے۔

۱۱ـ ابو الحسن موسی بن جعفر(ع) نے فرمایا خدا بروز جمعہ ہزار نفعات رکھتا ہے اور جس کسی کا جتنا حصہ ہوتا ہے دیتا ہے ، جو کوئی  عصر کے بعد بروز  جمعہ سو مرتبہ ” انا انزلنا“ پڑھے خدا اسے وہ ہزار نفعات اور ان کی مانند مزید عطا کرتا ہے۔

۱۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا جبرائیل(ع) جناب رسول خدا(ص) پر نازل ہوئے اور فرمایا اے محمد(ص) خدا تجھے سلام دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تیرے باپ پر کہ جس میں سے تجھے لایا اس کو کھ پر کہ جس نے تجھے اٹھایا اور اس دامن پر کہ جس نے تجھے پرورش کیا پر آگ کو حرام قرار دیا جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے جبرائیل(ع) اس وحی کی وضاحت کریں جبرائیل(ع) نے فرمایا باپ جو آپ(ص) کو لایا وہ عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) ہیں وہ جو کچھ جس نے آپ(ص) کو اٹھایا سے مراد آپ کی والدہ آمنہ(ع) بنت وہب ہیں

۵۵۸

 اور دامن کہ جس نے آپ کو پرورش کیا وہ جناب ابوطالب(ع) بن عبدالمطلب(ع) اور فاطمہ(ع) بن اسد ہیں۔

۱۳ـ                  جناب ابو عبداﷲ امام صادق(ع) نے ارشاد فرمایا ایک زمانے میں بنی اسرائیل کو قحب نے گھیر لیا حالت یہاں تک جا پہنچی کہ انہوں نے قبروں سے مردے نکال کر کھانا شروع کردیے ایک قبر انہوں نے ایسی کھودی کہ اس سے ایک لوح بر آمد ہوئی جس پر تحریر تھا کہ میں فلاں پیغمبر ہوں ایک حبشی میری قبر کھولے گا، میں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے ا سے حاصل کیا جو کچھ کھایا اس سے فائدہ حاصل کیا اور جو کچھ چھوڑا اس سے نقصان اٹھایا۔

۱۴ـ          پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی اپنے دل میں تعصب رکھتا ہوگا تو خدا روزِ قیامت اسے زمانہ عرب کے جہلا کے ساتھ محشور کرے گا۔

۱۵ـ                  امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) سے روایت ہے، جو کوئی ” سبحان اﷲ“ کہے تو خدا اسکے لیے بہشت میں درخت لگائے گا جو کوئی ” الحمد ﷲ“ کہے خدا اس کے لیے بہشت میں درخت لگائے گا جو کوئی ” لا الہ الا اﷲ “ کہے خدا اس کے لیے بہشت میں درخت لگائے گا ایک صحابی نے کہا یا رسول اﷲ(ص) کیا ہم بہشت میں بہت زیادہ درخت رکھتے ہیں آںحضرت(ص) نے فرمایا ہاں مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ آگ نازل ہو اور انہیں جلادے  اور خداتعالی ارشاد فرماتا ہے

” آیا وہ بندے ہیں کہ ایمان لائے اور خدا اور اس کے رسول (ص) پر اور فرمانبردار ہیں اور اپنے عمل سے اس کو باطل کرتے ہیں۔ “ ( محمد(ص)، ۳۳)

۱۶ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی بازار میں (روز مرہ معمولات کے دوران) اشہد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ “ کہے تو خدا اس کے لیے ایک لاکھ نیکیوں کا ثواب لکھتا ہے۔

۵۵۹

مجلس نمبر۸۹

(غرہ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا ۔ خدانے آدم(ع) کو وحی کی کہ اے آدم(ع) میں نے تیرے لیے تمام خیر کو چار کلمات میں جمع کردیا ہے جن میں سے ایک مجھ سے ہے ایک تیرے لیے ایک تیرے اور میرے درمیان اور ایک تیرے اور لوگوں کے درمیان ہے۔

جو تیرے لیے ہے وہ تیرا عمل ہے جس کی جزا کے تم محتاج ہو وہ میں تمہیں دوں گا جو تیرے اور میرے درمیان ہے وہ تیرا مجھ سے دعا کرنا ہے اور جو میرے لیے ہے وہ تیری دعاؤں کو قبول کرنا ہے اور جو تیرے اور خلق کے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ تو ان کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔

۲ـ            جناب علی بن موسی (ع) ( امام رضا(ع)) نے ارشاد فرمایا خدایا تیری توانائی عیاں اور تیری ہیبت نہاں ہے  خدایا جو تجھے نہیں جانتے وہ تجھے اجسام سے تشبہیہ دیتے ہیں اور یہ درست نہیں ہے  معبودا میں ان سے بیزار ہوں جو تیری تشبیہ بناتے ہیں اور تجھے درک نہیں کرتے تو نے جو کچھ نعمت سے انہیں نوازا ہے تو یہ تیری راہنمائی کی وجہ سے ہے ورنہ وہ  اس قابل نہیں ، جبکہ ان پر حق تو یہ تھا کہ ان نعمتوں کے حصول کے بعد وہ تجھے ہی پہچانتے اور تجھ ہی تک رسائی اختیار کرتے جب کہ وہ تجھے نہیں پہچانتے اور تیرے لیے علامات بیان کرتے  اور بدن سے وصف کرتے ہیں اے میرے پروردگار جس چیز سے یہ تجھے تشبیہ دیتے ہیں تو اس سے کہیں برتر ہے۔

۳ـ          مفضل بن عمر امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب علی بن حسین(ع) ( امام زین العابدین(ع) ) سے سوال ہوا کہ صحبت سے کیا مراد ہے آپ(ع) نے فرمایا صحبت یہ ہے کہ پروردگار مرے سر پر موجود ہے  دوزخ میرے سامنے ہے موت میرے پیچھے اور حساب میرے گرد ہے اور میں خود حساب میں جکڑا ہوا ہوں جس چیز کو پسند نہیں کرتا اپنے پاس نہیں رکھتا اور جو کچھ برا جانتا ہوں وہ آگے ہے اور میں ناطاقت ہوں۔ ( عاجز ہوں)  کہ عمل دوسرے کے ہاتھ میں ہے اگر وہ چاہے تو

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658