مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)9%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 306980 / ڈاؤنلوڈ: 7981
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

یہ سن کر راہب کے چہرے کا خوف و وحشت کا پیلاپن ختم ہو گیا اور اس کا چہرا کچھ کھلا ہوا نظر آنے لگا ، اس نے ایک گہری سانس لی اور ہم سے بالکل قریب ہو کرگذارش کرتے ہوئے کہا:میری التماس ہے کہ آپ مجھے اپنے مولیٰ کے پاس لے چلیں ، آپکو خدا کا واسطہ میری درخواست کو قبول کرلیجےل۔

ہم نے راہب کی التماس کو قبول کیا اورحضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس لے آئے۔

حضرت (ع)نے جیسے ہی راہب کو دیکھا خندہ پیشانی کے ساتھ فرمایا:

شمعون تم!....

راہب نے حیرت زدہ ہو کر جواب دیا:

ہاں میں شمعون ہوں یہ وہی نام ہے جو میری ماں نے رکھا تھا اور خدا وند عالم کے علاوہ کوئی میرا نام نہیں جانتا ،میں نہیں جانتا کہ آپ کو میرا نام کہاں سے معلوم ہوا لیکن اگر آپ واقعاً و صی پیغمبرﷺ ہیں تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔

اب آپ سے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے معجزہ کو مکمل کر دیجےآ تا کہ آپ کی وصایت و ولایت پر میرا ایمان کا مل ہو جائے ۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

اے شمعون ! تم کیا چاہتے ہو؟

شمعون نے کہا:

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کونسا چشمہ ہے اور اس کا نام کیا ہے؟

امام علی علیہ السلام نے جواب دیا:

۶۱

اس چشمے کا نام ”راحوما“ہے اور یہ بہشت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے اب تک ۳۱۳ پیغمبروں (ع)کے جانشین اس چشمہ کا پانی پی چکے ہیں اور میں آخری وصی ہوں کہ جس نے اس چشمہ کا پانی پیا ہے چونکہ پیغمبر آخر محمد مصطفٰےﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میں انکا وصی ہوں۔ راہب کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ تمام عمر انتظار،تلاش و کوشش کے بعد اب اس کو اسکی کھوئی ہوئی چیز واپس مل گئی ہے ، اس نے بڑے شوق سے کہا :

میں نے انجیل میں یہی پڑھا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور تم محمدﷺکے وصی وجانشین ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے لشکر کا عابدین نامی جگہ پر معاویہ کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو سب سے پہلے مولائے کائنا ت کی طرف سے شمعون نے جام شہادت نوش کیا۔

جب آپ کو شمعون راہب کی شہادت کی خبر ملی تو آپ اس کے احترام میں گھوڑے سے اتر گئے اور روتے ہوئے فرمایا:

جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے قیامت کے دن اس کا حساب اسی کے ساتھ ہوگااور یہ راہب قیامت کے دن جنت میں ہمارا دوست اور پڑوسی ہوگا۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 33 ، ص 39-40، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ص 155 ، حدیث 14 از مجلس 44.

۶۲

جنت کے پھول اور سنبل

اس واقعہ کو امام رضاعلیہ السلام نے مجھ (اباصلت)سے اپنے اجداد کو واسطہ قرار دیتے ہوئے بیا ن کیا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:(1)

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ میری شادی کو ابھی زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ایک روزمیں حضرت رسولخداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، یہ دن دوسرے دنوں سے کچھ الگ تھا چونکہ اس دن پیغمبرﷺ زیادہ خوشحال نظر آرہے تھے !

جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے فرمایا:

آج میرے پاس تمہارے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے ایک خوشخبری ہے۔

میں نے شوق سے پوچھا :

خوشخبری؟کون سی خوش خبری؟

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

تمہاری اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی کے بعد سے مجھے تم دونوں کی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ فکر رہتی تھی آج خدا نے میری وہ فکر دور کر دی ہے۔

امام علی علیہ السلامنے سوال کیا:

یا رسول اللہ ﷺ! وہ کس طرح؟

--------------

(1):-  جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت اگر چہ مستقیما حضرت امیر المؤمنین سے مربوط ہے ، لیکن چونکہ اس کو اباصلت نے امام رضا(ع) سے سنا ہے اور نقل کیا ہے لہذا یہ (خاطرات اباصلت از امام رضا (ع)میں شامل ہے) اور اسی وجہ سے ہم نے یہاں پر اس کو ذکر کیا ہے۔

۶۳

رسول خداﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور آہستہ آہستہ مہربانی کے ساتھ اپنی طرف کھینچااور اپنے پاس بیٹھا تے ہوئے فرمایا:

 آج جب جبرئیل میرے پاس آئے تو جنت کے پھول کی دو شاخ ساتھ لے کر آئے تھےایک سنبل کی اور دوسرے گل نار کی!میں نے پھولوں کو لیا اور سونگھا،پھول بہت زیادہ خوشبودار اور خوبصورت تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا:

اے جبرئیل !ان پھولو ں کے لانے کا کیا مقصد ہے؟

جبرئیل نے جواب دیا:خدا وند عالم نے تمام فرشتوں اور اہل بہشت کوحکم دیا ہے کہ جنت کے درختوں،نہروں،قصروں، گھروں،مکانوں ،کمروں کو جتنا ممکن ہو سکے سجائںں اور خوبصورت آنکھو ں والی حوروں کو حکم دیا ہے  کہ سب مل کرحمعسق (1) ،یٰس (2) اورطٰه ٰ (3) کو بہترین لحن کے ساتھ پڑھںہ ،پھر ایک ندا کرنے والے نے ندا کی:

خدا وند عالم فرماتا ہے: میں نے فاطمہ سلام اللہ علیھا بنت محمد کی شادی علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے ساتھ کر دی ہے ۔

پھر خدا وند عالم نے ایک بادل کو حکم دیا کہ اس جشن میں شامل ہونے والوں پر ہیرے،یاقوت،مروارید ،سنبل اورگل نار کی بارش کرو!

جبرئیل نے رسول اکرم سے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!یہ سنبل اور گل نار ان چیزوں میں سے ہیں جو فرشتوں کے سروں پر نثار ہوئے ہے۔(4)

--------------

(1):- سورہ شوری(42)، آیات 1 و 2.

(2):- قرآن کا 36 واں سورہ.

(3):- قرآن کا 20 واں سورہ، البتہ اس روایت میں اس سورہ کا نام موجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دوسری روایت میں اس سورہ کا نام بھی آیا ہے لہذا ہم نے اس سورہ کا نام ذکر کردیا ہے.

(4):- بررسی زندگی عبدالسلام بن صالح اباصلت ہروی، ص 100-101 ، بہ نقل از دلائل الامامة ، ص 19 و مسند فاطمة (س) ، ص 186.

۶۴

معراج

یہ ماجرامجھ(اباصلت)سےامام رضاعلیہ السلامنےحضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے رسول خداکی زبانی بیان کیا ہے۔

 رسول اکرمﷺ نے واقعہ معراج کو اس طرح بیان کیا ہے:

جب مجھ کو معراج پر لیجایا گیا تو جبرئیل نے اذان و اقامت کہی اور ہر جز ءکی دو ،دو مرتبہ تکرار کی اسکے بعد مجھ سے کہا:

اے محمدﷺ! نماز کے لئےآگے بڑھئے۔

میں نے تعجب سے پوچھا:

یعنی میں تم سے آگے بڑھوں ؟

جبرئیل نے جواب دیا:

جی ،ہاں آپ مجھ سے آگے بڑھ جائیے چونکہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبروںﷺ کو فرشتوں پر فضیلت عطا کی ہے اور خصوصاً آپ کو توتمام انبیاءﷺپر فضیلت عطا کی ہے ۔

 میں آگے بڑھا اور تمام فرشتوں نے میری اقتدا کی لیکن میں نے اسکے بعد بھی غرور و تکبر نہیں کیا، نماز تمام ہونے کے بعد ہم آگے بڑھے ۔

جب ہم نور کے پردوں میں پہونچے تو جبرئیل نے کہا:

آپ چلتے رہیں، آگے بڑھیں یہ کہکر جبرئیل خود پیچھے ہٹ گئے۔

میں نے جبرئیل سے کہا :ایسے موقع پر مجھے تنہا چھوڑ دوگے؟

جیسے ہی میں نے یہ بات کہی ،جبرئیل نے جواب میں کہا :

خدا وند عالم نے اس جگہ کو میری آخری حد قرار دیا ہے اگر میں اس سے آگے بڑھنا چاہوں تو خدا وند عالم میرے بالوں و پر جلا دے گا۔

۶۵

بہر حال اس گفتگو کے بعد میں آگے بڑھا اور اس اعلی مقام تک پہونچ گیا جہا ں خدا وندعالم چاہتا تھا،پروردگار عالم کی آواز آئی :اے محمد !(ص)

میں نے جواب دیا: لبیک اے پروردگار،تو بلند مرتبہ اوربزرگ مقام والاہے۔

جب میں نے یہ کہا تو آواز آئی:

اے محمدﷺ! تو میرا بند ہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں پس تو میری عبادت کر اور مجھ پر بھروسہ کر ،تو میرے بندوں میں میرانور،میری مخلوق کے درمیان میرارسول، اور میری مخلوقات پر میری حجت ہے میں نے تیرے اور تیری پیروی کرنے والوں کے لئے جنت اور تیرے مخالفین کے لئے جہنم کو پیدا کیا ہے اورتیرے جانشینوں کے لئے اپنے احترام اور ان کے شیعوں کے لئے اپنے ثواب کو واجب قرار دیا ہے۔

میرے دل میں شوق پیدا ہوا اور میں نے یہ جاننے کے لئے کہ میرے اوصیا اور جانشین کون لوگ ہیں ، سوال کیا:

پروردگار میرے اوصیاءو جانشین کون لوگ ہیں؟

خداوند عالم کی آواز آئی کہ:

اے محمدﷺ! تیرے اوصیا کے نام میرے عرش کے پائے پر لکھے ہوئے ہیں۔

جب میں نے عرش کی طرف نگاہ کی تو چودہ نور نظر آئے کہ ہر نور میں ایک سبز رنگ کی سطر موجود تھی اور اس سطر پر میرے اوصیا میں سے ایک وصی کا نام (کہ ان میں سے پہلے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلاماور آخری مہدی(عج) ہیں)لکھا ہوا تھا۔ میں نے  درگاہ خداوند میں عرض کیا:

۶۶

معبود ! کیا یہ میرے بعد میرے اوصیاءہونگے؟

آواز پروردگار آئی:

اے محمدﷺ! یہ بارہ (کے بارہ امام(ع) معصوم)تیرے بعد میری مخلوقات کے در میان تیرے جانشین و دوست اور میرے برگزیدہ و حجت قرار پائیں گے۔

مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم میں اپنے دین کو ان کے وسیلے سے کامیاب کرونگا اوران کے ذریعہ اپنے کلمہ کو بلند کرونگا اور ان اوصیا میں سے آخری وصی کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کرونگا اور دنیا کا مشرق و مر ب اسکے اختیار اور حکومت میں دیدونگا، ہواؤں کو اس کا فرمانبردار بنادونگا اور وزنی بادلوں کو اسکے سامنے ذلیل و خوار کردونگا،اس کو آسمانوں کی سیر کراؤ¶نگا۔ اپنے لشکر اور فرشتوں کے ذریعہ اسکی مدد کرونگا،تا کہ وہ میری دعوت کو تمام دنیا کے سامنے ظاہر کردے اور مخلوق کو توحید پرستی پر جمع کردے ، اسکے بعد اسکی حکومت کو آگے بڑھاؤ¶نگا اور قیامت تک اپنے اولیاءمیں سے ایک کے بعد دوسرے کے اختیار میں دیتا رہونگا۔(1)

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا، ج 1 ، ص 541.

۶۷

قید خانہ یا عبادتگاہ؟!

امام رضا علیہ السلام نے اپنی زندگی کی ایک مدت سرخس کے ایک بہت تنگ اور ایسے قید خانہ میں گذاری ہے کہ جس میں فقط ایک انسان کے رہنے کی گنجائش تھی اور وہ بہت تاریک تھا، اس وقت میں نے سوچا کہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں آپ سے ملاقات کروں۔

میں قید خانہ آیا اور قید خانہ کے دربان سے امام سے ملاقات کرانے کی درخواست کی لیکن اس نے اجازت نہ دی اور کہا:

کسی بھی صورت میں تم ان سے ملاقات نہیں کرسکتے!

جب میں نے اسکے چہرے پر رعب کے ساتھ(1) نگاہ ڈالی تو اس نے اپنے لہجے کو بدلتے ہوئے کہا:

ایسا نہیں ہے کہ میں تم کو ملاقات کی اجازت نہیں دینا چاہتا بلکہ خود انکے پاس وقت نہیں ہے کہ کسی سے ملاقات کریں!

یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی میں نے کہا:

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ملاقات کا وقت نہ رکھتے ہوں ؟!

ایک قیدی قید خانہ میں کیا کرتاہے کہ اس کے پاس ایک مختصرسی ملاقات کا بھی وقت نہیں ہے؟!

قید خانہ کے دربان نے جواب دیا:

میرا خیال ہے کہ وہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ یہ ایک ہزار نماز ان نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے جو آپ ہر روز طلوع آفتاب،زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں وہ ان اوقات میں ہمیشہ اپنے مصلی پر ہوتے ہیں اور اپنے خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں!

--------------

(1):- (رعب کے ساتھ ) یہ عبارت اباصلت کی روایت میں موجود نہیں ہے ہم نے اس کو اقتضاء حالکی بنا پر بڑھایا ہے۔

۶۸

میں نے قید خانہ کے دربان سے کہا کہ تم مجھ پر یہ احسان کردو کہ آقا سے میرے لئے انھیں اوقات میں سے کسی وقت ملاقات کے لئے وقت لے لو۔

دربان اندر گیا امام (ع)سے اجازت طلب کی اور میں قید خانہ میں داخل ہو گیا۔

آپکی آنکھیں کوئی برا دن نہ دیکیں)،ان نامردوں نے امام کو زنجیر وطوق سے جکڑاہوا تھا!امام (ع)محراب عبادت میں بیٹھے ہوئے کچھ سوچ رہے تھے۔ جب میں نے امام (ع)کو اس حال میں دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسوں آگئے ، لیکن میں نے کوشش کی کہ خود کنٹرول کروں اس وقت حکومت نے لوگوں کے در میان ایک افواہ پھیلائی ہوئی تھی ، میرا اہم کام یہ تھا کہ اس افواہ کا جواب خود امام (ع)کی زبان سے سنوں اور لوگوں کو بتاؤ¶ں اس لئے میں نے امام(ع) سے پوچھا!

اے فرزند رسولﷺ میں نے ایک بات سنی ہے جس کو لوگ آپ سے نقل کرتے ہیں؟!

امام(ع) نے پوچھا کہ: لوگ کیا کہتے ہیں؟

میں نے عرض کیا:

لوگ کہتے ہیں کہ آپکا دعوی ہے کہ تمام لوگ آپ کے غلام ہیں!

امام رضاعلیہ السلامنے تعجب اور ناراضگی کے ساتھ آسمان کی طرف سر بلند کیا اور کہا:

اے میرے پروردگار! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے ، اے ظاہر و باطن کو جاننے والے!تو گواہ ہے میں نے  ہرگز اور کیسے بھی شرائط کے تحت ایسی بات نہیں کہی ہے اور نہ ہی اپنے بزرگوں سے ایسا کچھ سنا ہے ،معبود جو ستم اس امت کی جانب سے ہم پر ہوئے ہیں تو ان کو جانتا ہے اور یہ بھی ایک ہی ستم ہے! پھر آپ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:

اے عبدالسلام جو بات لوگ ہم سے نقل کرتے اگر یہ حقیقت ہے پس جو لوگ کسی کے غلام نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں ہم نے ان کو کس سے خریداہے؟!

۶۹

امام(ع) کا یہ فرمان سن کر میں نے سوچا کہ یہ جواب خود میرے ذہن میں کیوں نہ آیا، میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا:

فرزند رسول بے شک آپ درست فرماتے ہیں!

لیکن امام(ع) کو مجھ سے امید نہ تھی کہ میں آپ سے اس طرح کا سوال کروں گا، آپ نے تعجب یا شاید میری تنبیہ کے لئے مجھ سے پوچھا:

اے عبدالسلام ، کیا تم بھی تمام لوگوں کی طرح اس ولایت کے منکر ہوگئے ہو جو خدا نے ہمارے لئے واجب قرار دی ہے؟!(1)

میں نے اپنے ہاتھ پیروں کو سمیٹتے ہوئے جواب دیا:

نہیں ، نہیں خدا کی پناہ !خدا ایسا دن نہ لائے کہ میں ایک لمحے کے لئے بھی ایسا سوچوں، میں اپنے تمام وجود کے ساتھ آپکی ولایت کا اقرار کرتا ہوں۔(2)

-------------

(1):- یہ عبارت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ائمہ تمام بندگان خدا پر ولی ہیں ، تمام لوگوں پر واجب ہے کہ ان کی اطاعت کریں جیسے کہ غلام اپنے آقاؤں کی اطاعت کرتے ہیں ، اس اعتبار سے تمام لوگ چودہ معصومین کے غلام ہیں۔.

(2):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 170-171 و 49 ، ج 25 ص 268 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا ، ص 311. یہ روایت اباصلت کے شیعہ ہونے پر بہترین دلیل ہے۔

۷۰

مامون پر امام رضاعلیہ السلام کی نفرین

ایک دن مامون کو بہت زیادہ ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کو سمجھ میں آگیا کہ اب آئندہ امام رضاعلیہ السلامسے کس طرح گفتگو کرنی چاہئے!ماجرا اس طرح سے ہے کہ امامت اور پیغمبرﷺکی جانشینی کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے امام (ع)نے علمی اور اعتقادی مجلسیں(کلاسیں) تیار کی تھیں اور لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے تھے، یہ کام اس بات کا سبب بنا کہ لوگ آپکے دیوانے ہوگئے اور روز بروز معاشرے کے مختلف طبقوں کے افراد کے دلوں میں آپ کی محبت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور لوگ خود بہ خود آہستہ آہستہ اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ امام رضاعلیہ السلاممسند پیامبرﷺ پر بیٹھنے کے لائق و اہل ہیں نہ کہ مامون!

اس دن کسی نے مامون کو خبر دی کہ امام نے ایک مجلس بر پا کی ہے اور لوگ آپ سے علمی و اعتقادی سوال کر رہے ہیں اور آپ ان کے جواب دے رہے ہیں،مامون کو یہ سن کر غصہ آگیا اس نے اپنے قصر کے مسؤل انتظامات (محمد بن عمرو طوسی)کو حکم دیا کہ لوگوں کو امام(ع) کے پاس سے جدا کردو اور امام(ع)کو میرے پاس بلاکر لاؤ¶۔ محمد بن عمروطوسی امام(ع) کو بلاکر لے آیا!

جب مامون کی نظر امام رضاعلیہ السلام پر پڑی تو اس نے حسد سے جل کر غصہ کے عالم میں امام رضاعلیہ السلامسے بلند آواز میں گفتگو کی یہاں تک کہ اس نے آپ کو ذلیل و رسوا کیا۔جب امام رضاعلیہ السلاممامون کے دربار سے باہر آرہے تھے تو آپ غصہ کے عالم میں آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے کہ:محمدمصطفیﷺ ، علی مرتضیعلیہ السلام ، فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے حق کی قسم میں اس پر ایسی لعنت کرونگا کہ اس علاقے کےکتّے(1) اسوآ ڈورائیں گے اور وہ عام و خاص کی نظر میں ذلیل و خوار ہوجائیگا۔آپ گھر پہونچے ، وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور قنوت میں ایک دعا پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:(2)

--------------

(1):- یہ واقعہ شہر مرو میں واقع ہواہے۔

(2):-  ہم یہاں پر اس دعا کے ترجمے پر اکتفا کر رہے ہیں اس کا عربی متن (اصل دعا) بحارا الانوار ج49 ص 82-83 پر موجود ہے۔

۷۱

اے وہ خدا کہ جو مکمل قدرت ، بے کران رحمت، بے پایان نعمتوں ، لگاتار نیکیوں اور بے شمار کرامتوں کا مالک ہے!

اے وہ خدا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ، جس کو کسی مانند و نظیر سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، اور تمام طاقتیں مل کر بھی تیرے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں!

اے وہ کہ جس نے ہم کو پیدا کیا اور روزی دی، الہام کیا اور بولنا سکھایا ، وجود بخشا اور ہدایت کی بلندی عنایت کی اور ایک نظام عطا کیا، نیک بنایا اور ایک راستہ دکھایا، ہم کو محکم اور مضبوط بنایا اور دلیل پیش کی ، ہم کو مکمل و سالم بنایا اور نعمت عطا کی اور ہم کو ہمارے مقصد تک پہونچایا اور بہت زیادہ نعمتوں سے نوازا ۔

اے وہ کہ جو اپنی عز و کبریائی میں اتنا بلند ہے کہ دیکھنے والے اس کو دیکھ نہیں سکتے اور اپنی لطافت میں اتنا قریب ہوگیا کہ اتنی قربت کا ذہن تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اے وہ کہ جو اپنی سلطنت میں ایسا اکیلا ہے کہ تمام کائنات میں کوئی  اسکا مانند و مثل نہیں ہے اور اپنی کبریائی میں ایسا تنہا ہے کہ کوئی بھی اس کی قدرت اور جبروت کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اے وہ کہ جس کی ہیبت اتنی زیادہ ہے کہ فکر کرنے والوں کی فکریں اسکے آگے حیران و سرگردان ہیں ، اور اسکی عظمت کو درک کرنے سے دیکھنے والے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔

اے کہ لوگوں کے دلوں کی باتوں کو جاننے والے۔

اے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے نور، اے وہ کہ جس کی ہیبت سے چہرے خاک پر گڑ پڑے ہیں اور سر اسکے جلال کی بلندی کے سامنے جھک گئے ہیں اور دل اسکی قدرت کے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں اور انسان کے جسم کی رگیں اسکی وحشت سے لرز رہی ہیں۔

۷۲

اے پیدا کرنے والے، اے نور عطا کرنے والے، اے طاقتور اے بزرگ مقام والے ، اے بلند مرتبے والے، دورد بھیج اس پر کہ جس پر درود بھیجنے کے ذریعہ تونے نماز کو شرف بخشا ہے ، اور انتقام لے اس شخص سے کہ جس نے مجھ پر ستم کیا، مجھ کو ذلیل سمجھا، اور میرے شیعوں کو جلا وطن کیا، خدایا اس کو ذلت اور سوائی کا مزہ چکھادے بالکل اسی طرح جیسے اس نے مجھے ذلیل کیا ہے اوراس پر ایسی بلا نازل فرما کہ دنیا کے پست وگناہکار افراد بھی اس کو قبول نہ کریں بلکہ اس سے نفرت اور دوری اختیار کریں۔

ابھی میرے مولا و آقا کی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ شہر میں سخت زلزلہ آیا کہ پورا شہر لرز گیا،تمام لوگ فریادیں بلند کرنے لگے، کالی آندھی آنے لگی، تمام فضا میں گردو غبار اڑنے لگی اور پورے شہر میں شور و غوغا ہونے لگا۔

میں اپنی جگہ سے نہ ہلا یہاں تک کہ امام(ع) نے نماز تمام کی اور فرمایا:

اے اباصلت ، چھت کے اوپر جاؤ وہاں تم کو ایک بدکار، لاغر اندام، بد ہیکل، تباہ کارو احمق عورت نظر آئیگی کہ جو اپنی شہوت کے اعضا کو حرکت دے رہی ہوگی اور کتھئی رنگ کا لباس پہنے ہوگی اس علاقے کے لوگ اس کی بے حیائی اور بے حرمتی کی وجہ سے اس کو ”سمّانہ“ کے نام سے پکارتے ہیں وہ نیزے کے بدلے ایک نوک دار لکڑی ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور اپنی لال رنگ کی چادر کو اس لکڑی پر باندھے ہوئے پرچم کی جگہ پر اس کو استعمال کررہی ہے اور اشرار کے لشکر کو مامون کے قصر اور اس کے فرمانرواؤ¶ں کے کی طرف بھیج کر رہی ہے!جب میں چھت پر پہونچا تو میں نے  بہت سارے لوگوں کو دیکھا کہ لکڑی سے حملہ کر رہے ہیں اور پتھروں سے سروں کو پھوڑ رہیں ، اچانک میں نے دیکھا کہ مامون زرہ پہن کر قصر (شاہ جان)سے باہر آیا اور فرار ہو گیا۔

بہت زیادہ نفسا نفسی کا عالم ہوگیا تھا اور میں زیادہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ؟!فقط ایک دفعہ میں نے دیکھاکہ حجّام کے شاگرد نے ایک چھت سے ایک بہت بڑی اینٹ اٹھائی اور مامون کی طرف پھینکی، اسکا نشانہ بالکل فٹ رہا اور وہ اینٹ مامون کی گدی پر جا لگی، تاج اسکےسر سےگر پڑا اور اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گیا۔

۷۳

ایک شخص جس نے مامون کو پہچان لیا تھا اس نے حجّام کے شاگرد کی طرف رخ کیا اور فریاد کی: تجھ پر لعنت ہو!یہ امیر المؤ¶منین مامون ہے کہ جس کے سر پر تو نے اینٹ ماری ہے اور یہ اسکا حال کردیا ہے!

سمّانہ بدکار نے جب یہ بات سنی اور مامون کو پہچان لیا تو اس مرد سے چلا کر کہا کہ: دفعہ ہوجا اے بے ماں کی اولاد!آج  امتیاز ظاہر کرنے اور کسی کی طرفداری کرنے کا دن نہیں ۔ آج احترام کرنے یا مقام عطا کرنے کا دن نہیں ہے، کہ ہر انسان کے ساتھ اس کے مقام و منزلت کے اعتبار سے سلوک کیا جائے، اگر وہ واقعاً امیرالمؤ¶منین ہو تا تو اپنے خیر خواہ اور غیر ذمہ دار لوگوں کو ہرگز جوان اور باکرہ لڑکیوں پر مسلط نہ کرتا!

اس دن مامو ن اور اس کے لشکر کو ذلت و خواری اور رسوائی کے ساتھ شہر سے بھگادیا گیا اور ان کے اموال کو غارت کردیا گیا!(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 82-84 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص 173-174.

۷۴

شفا بخش سند کا سلسلہ

میں ”عبد الرحمن بن ابی حاتم الرازی“ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ شام کا ایک سفر کیا تھا جس میں مجھے ایک بہترین تجربہ حاصل ہوا بہتر سمجھتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں:میں ایک دن شام میں ایک سڑک سے بابا کے ساتھ گزر رہا تھا میں نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں آور ایک ہنگامہ برپا ہے سب لوگ باری باری کپڑے  کا ایک ٹکڑا ہوا میں اڑاتے تھے اور دوسرے لوگ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگتے تھے!

میں کچھ آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک دیوانہ زمین پر پڑا ہے ، اور ایک پھٹا ہوا، گرد و غبار سے بھرا ہوا لباس پہنے ہوئے ہے، اسکی ناک سے بلغم، اورمنھ سے رال بہہ رہی ہے!مجھے اس کی حالت پر بہت رحم آیا اور میں نے خود سے کہا:

کاش کہ میں اس کی کوئی مدد کرسکتا:اچانک مجھے یاد آیا کہ بارہا اباصلت نے امام رضاعلیہ السلام سے اور انھوں نےاپنے معصوم اجداد سے (یہاں تک کہ سلسلہ سند پیغمبر اسلامﷺ تک پھونچتا ہے)(1)

ایک روایت نقل کی ہے، اور اباصلت نے کہا ہے کہ اگر اس سلسلہ سند کو کسی دیوانے پر پڑھ دیا جائے تو اس کی دیوانگی جاتی رہے گی اور وہ بہتر ہو جائیگا۔سچ تو یہ ہے میں مطمئن نہ تھا کہ بغیر کسی دوا کو استعمال کئے صرف ” چند ایسے افراد کے نام لینے سے جو بارگاہ خدا میں مقرب ہیں“ کسی دیوانے کو شفا حاصل ہو جائیگی۔لیکن میں نے سوچا کہ اس عمل کو آزمانے میں کوئی نقصان نہیں ہے میں آگے بڑھا اور ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا، جیسے ہی میں نے ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا ، وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ، سب لوگوں پر ایک عاقلانہ نگاہ ڈالی اور ان کی حرکتوں پر تعجب کیا ، اور اپنے لباس سے مٹی کو جھاڑ کر آہستہ سے لوگوں کے درمیان سے نکلا اور چلا گیا!(2)

--------------

(1):- یہ روایت اسی کتاب کی تیسری فصل میں ترجمہ کے ساتھ آئیگی اور وہ یہ ہے: الایمان اقرار باللسان و معرفة بالقلب و عمل بالارکان.

(2):- بحارالانوار ، ج10 ، ص 367 ، بہ نقل از صحیفة الرضا (ع)، و عیون اخبار الرضا (ع)، ص 195  212.

۷۵

تقیہ کی حالت میں امام محمد تقی علیہ السلام

کا احکام بیان کرنے کا طریقہ!

ایک رو ز ، میں امام محمد تقی علیہ السلامکی مجلس میں حاضر تھا اس دن شیعوں کے علاوہ کچھ جاسوس بھی آپ کی مجلس میں بیٹھے تھے جو یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون کون افراد امام کے شیعہ اور پیروکار ہیں ، لیکن شیعہ حضرات کو اس بات کا علم نہ تھا!

ایک شیعہ کھڑا ہوا تا کہ آپ سے سوال کرے، اس نے اپنی بات کو اس طرح شروع کیا: فرزند رسول میری جان آپ پر قربان.......

ابھی اس نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ امام نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا: تم اپنی نماز کو قصر نہیں بلکہ پوری پڑھو، اور اب بیٹھ جاؤ۔

جب اس کو ، اس کا جواب مل گیا تو وہ بیٹھ گیا پھر ایک دوسرا شیعہ کھڑا ہوا اور کہا: میرے آقا میں آپ پر قربان ہو جاؤ¶ں.......

اما م نے اسکی بات کو بھی کاٹ دیا اور فرمایا:

اگر تم کو وہاں کوئی نہ ملے تو اس کو پانی میں پھینک دو وہ اپنے مالک کے پاس پہونچ جائیگا!

گویا کہ اس کو بھی اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا اس لئے وہ بھی بیٹھ گیا

اور پھر کچھ نہ پوچھا ۔

جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے امام(ع)سے عرض کیا:میری جان آپ پر قربان آج میں نے آپکی خدمت عجیب منظر کو ملاحظہ کیاہے!

۷۶

امام :ہاں ٹھیک کہتے ہو، کیا تم ان دو مردوں کے بارے میں بات کررہےہو؟

ابا صلت: جی ہاں ، میرے آقا(ع)۔

امام: پہلا اس لئے کھڑا ہوا تا کہ یہ سوال کرے کہ کیا کشتی چلانے والا اپنی نماز قصر پڑھے گا؟

میں نے اس کو جواب دیا کہ قصر نہیں تمام پڑھے گا چونکہ کشتی اس کے لئے گھر کی طرح ہے اور وہ اس سے خارج نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیشہ اسی میں زندگی بسر کرتا ہے۔

دوسرا یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی شیعہ زکات نکالے اور اس کو کوئی مستحق شیعہ نہ ملے تو زکات کس کو دیگا؟

میں نے کہا: اگر تم کو کوئی نہ ملے، تو زکات کو پانی میں ڈال دو ، وہ خود اپنے اہل کے پاس پہونچ جائیگی۔(1)

-------------

(1):-  بررسی زندگی عبد السلام بن صالح اباصلت ہروی ، ص 118 ، بہ نقل از الثاقب فی المناقب، ص 523 ، و مدینة المعاجز ص 534، و مسند الامام الجواد ، ص 129.

ممکن ہے کہ ایسی صورت میں (یعنی مستحق شیعہ نہ ملنے کی صورت میں) زکات کا حکم واقعی پانی میں ڈالنا ہو، لیکن امام جواد نے راز کو محفوظ رکھنے کے لئے اس خاص مورد میں اس شخص کو یہی حکم دیا ہو۔

۷۷

قیمتی نصیحتیں

امام رضاعلیہ السلامنے مجھ سے ایک عجیب و غریب اور درس آموز و اقعہ بیان کیا ہے اگر میں اس کو آپ سے بیان نہ کروں تو مجھ کو بہت افسوس ہوگا ،وہ واقعہ یہ ہے کہ:

خداوند عالم نے اپنے ایک نبی (ع)پر وحی کی کہ:

کل صبح تم گھر سے باہر نکلو کسی ایک سمت سفر اختیار کرو، تم کو راستے میں پانچ چیزیں ملیں گی۔

پہلی کو کھالینا، دوسری کو چھپا لینا، تیسری کو قبول کرنا، چوتھی کو نا امید نہ کرنااور پانچویں سے پرہیز کرنا(دور رہنا)۔

انھوں نے سر پر ٹوپی اوڑھی، کاندھے پر شال ڈالی اور صبح سویرے طلوع آفتاب کے وقت گھر سے نکل پڑے سب سے پہلے آپکو ایک بہت بڑا کالا پہاڑ نظرآیا! اس کو دیکھ کر آپ حیرت زدہ ہوگئے اور خود سے کہنے لگے:

آخر میں اس سخت، کالے اور اتنے بڑے پہاڑ کو کیسے کھا سکتا ہوں؟!

آپ نے کچھ سوچا اور پھر خود سے کہا:

خداوند عالم مجھے اس کام کا حکم ہرگز نہیں دے سکتا جس کے بجالانے کی مجھ میں طاقت نہ ہو پس حتماً میں یہ کام کر سکتا ہوں(یعنی اس پھاڑ کو کھا سکتا ہوں) آگے بڑھ کر دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔

یہ سوچ کر نبی خداﷺ آگے بڑے ، جتنا بھی وہ آگے بڑھتے تھے اور بہاڑ کے قریب جاتے تھے، پہاڑ چھوٹا ہوتا چلا جاتا تھا یہاں تک جب آپ پہاڑ کے پاس پہونچے تو وہ ایک لقمہ کے برابر ہو چکا تھا! آپ نے اس کو اٹھا کر کھالیا۔

جب آپ نے اس کو کھا یا تو معلوم ہوا کہ آج تک جتنا بھی کھانا کھایا ہے یہ لقمہ ان سب سے لذیذ ہے!

۷۸

اس کے بعد اللہ کے نبی آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک سونے کے طشت کو دیکھا ، سونا بہت بہترین چیز ہے کسی کا دل نہیں چاہتا کہ اتنی بہترین اور قیمتی چیز کو زمین میں چھپادے اور اس کو چھوڑ کر چلائے، لیکن آپ کو خداوند عالم کے حکم کے مطابق یہ کام انجام دینا تھا لہذا آپ نے اس کو چھپادیا!

جب آپ کچھ اور آگے بڑھے توپلٹ کر دیکھا کو وہ طشت زمین سے نکل کر اوپر آگیا ہے!

یہ دیکھ کر آپ نے خود سے کہا:

میں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا اب اس کے بعد کیا ہو رہا ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

پھر آپ آگے بڑہے اچانک ایک ہراسان پرندے کی چیخ پکار کی آواز نے آپکو اپنی طرف متوجہ کرلیا ، ایک شکاری باز ایک کمزور و مجبور پرندے کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ پرندہ پیغمبرﷺکے پاس آیا اور انکے گرد چکر لگاتےہوئے اور اپنی زبان حال سے آپ سے پناہ کی درخواست کی۔ آپ نے فرمان خدا پر عمل کرتےہوئے اپنی آستین کوکھولا اور پرندےنے آپ کی آستین میں پناہ لی۔

شکاری باز بھی زمین پر آپ کے سامنے بیٹھ گیا اور گویا ہوکر اعتراض کیا :

کئی دن سے میں اس شکار کے پیچھے دوڑ رہا ہوں یہاں تک کہ آج میں اس کو پکڑنے ہی والا تھا لیکن آپ نے اس کو مجھ سے بچالیا ، اب میں اپنے اس بھوکے پیٹ کا کیا کروں؟!

 پیغمبر خدا کو یاد آیا کہ یہ باز چوتھی چیز ہے جو آج مجھ کو ملی ہے، مجھے اس کو ناامید نہیں کرنا چاہئے آپ نے اپنا سامان، جیبںے اور ادھر ادھر بہت تلاش کیا لیکن کوئی چیز ایسی نہ ملی جس سے اس شکاری باز کا بیٹ بھر جائے مجبور ہو کر آپ نے اپنی ران سے گوشت کاایک ٹکڑا کاٹا اور باز کو دیدیا!(خدا کی قدرت سے آپکی ران کو کوئی نقصان نہ ہوا اور آپ ٹھیک ہوگئے)۔

پھر آپ کچھ آگے بڑھے یہاں تک کہ آپکو ایک بدبو دار مردار نظر آیا جسکے جسم پر ہاتھ پیر نہ تھے خدا کے حکم کے مطابق آپ بہت جلدی سے اس سے دور ہوگئے اور اپنے گھر پلٹ آئے۔

۷۹

جیسے ہی آپ گھر پہونچے بہت زیادہ تھکن کی وجہ سے آپ گہری نیند سوگئے، خواب میں کسی نے آپ سے کہا:

تم نے خدا کے حکم انجام دیا ہے لیکن کیا تم اسکا مطلب بھی سمجھے ہو؟

پیغمبر خدا ﷺ نے جواب دیا:

نہیں، میں تو فقط اپنے وظیفے کو انجام دینےکی فکر میں لگا تھا، اپنے کام کے مطلب و معنا کی طرف متوجہ نہ تھا! اگر ممکن ہو تو آپ مجھ کو ان کاموں کے معنی بتادیجئے۔

ادھر سے جواب ملا:

وہ کالا اور بڑا پہاڑ غصہ ہے ، جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ خود کو بھی نہیں دیکھتا اور اپنی قدر کو نہیں پہچانتا (اور کچھ بھی کر بیٹھتا ہے)لیکن اگر یہ انسان اس وقت خود پر کنٹرول کرے ، اپنے وجود کے گوہر کی قدر کو پہچان لے اور اپنے غصے کو ختم کردے تو اسکا آخر بھی اس لذیذ لقمے کی طرح بن جائیگا کہ جس کو تم نے کھا یا ہے۔

وہ سونے کا طشت ایک عمل صالح اور پسندیدہ خدا ہے کہ اگر بندہ اس کو خالص نیت اورتقرب خدا کے ارادے سے انجام دے اور چھپالے (یعنی اپنے عمل کو سب کے سامنے ظاہر نہ کرے)تو پھرخداوند عالم خود ہی اس عمل کو لوگوں پر آشکار کردیگا تا کہ یہ عمل اس بندے کی زینت بن جائے اور یہ جزاء اس انعام سے الگ ہے جو خداوند عالم نے آخرت میں اس کے لئے معین کیا ہے۔

اور وہ پرندہ جس کو تم نے پناہ دی ہے ، وہ شخص ہے جو نصیحت اور خیر خواہی کے لئے تمہارے پاس آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کا استقبال کرو اور اس کی نصیحت قبول کرو!وہ باز جس کو تم نے گوشت دیا، وہ ایسا شخص ہے کہ جو تمہارے پا س اپنی حاجت لیکر آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کو نا امید نہ کرو(اور حد امکان میں اسکے کام کو حل کرنے کی کوشش کرو)۔لیکن وہ مرد ارکا سڑا ہوا گوشت (بدن)غیبت ہے کہ اس سے جتنا جلدی ممکن ہو دوری اختیار کرو۔(1)

--------------

(1):-  بحارالانوار ، ج 14، ص 456-457، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص 152-153.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

 رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے اور جو کوئی تمہیں دشمن رکھتا ہے مجھے دشمن رکھتا ہے اے علی(ع) تیرے دوست تشنہ لب اور بکھرے ہوئے ہیں، اے علی(ع) تیرے بھائی تین جگہوں پر شاد ہیں جان دینے کے وقت میں ان کے سرہانے کھڑا ہوں گا اور سوال وجواب کے وقت تم ان کے ہمراہ ان کی قبر میں موجود ہوگے اور صراط پر جب قطار لگی ہوگی اور پوچھ گچھ ہورہی ہوگی اور خلق جواب دینے سے قاصر ہوگی تم ان کے ساتھ ہوگے اے علی(ع) تیرے ساتھ جنگ میرے ساتھ جنگ ہے اور میرے ساتھ جنگ خدا کے ساتھ جنگ ہے اور جو تیرے ساتھ روا رکھا جائے وہ مجھ سے روا ہے اور جو کچھ میرے ساتھ روا رکھا گیا وہ خدا کےساتھ روا رکھا گیا اے  علی(ع) تیرے برادران کو مبارک ہو کہ انہیں خدا نے  اس لیے پسند کیا کہ تمہیں ان کے پیش رو کے طور پر پسند کیا اور انہوں نے تیری ولایت کو پسند کیا اے علی(ع) تم امیرالمومنین(ع) اور سفید چہروں والوں کے قائد ہو اے علی(ع) تیرے شیعہ نجات یافتہ ہیں اگر تم اور تمہارے شیعہ نہ ہوتے تو خدا کا دین نہ ہوتا اگر تم زمین میں نہ ہوتے تو خدا آسمان سے قطرہ بھی زمین پر نہ بھیجتا اے علی(ع) تم بہشت میں خزانہ رکھتے ہو اور میری امت کے ذوالقرنین(ع) ہو تمہارے شیعہ حزب اﷲ المعروف ہیں اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ عدل قائم کرنے والے اور بہترین خلق ہیں اے علی(ع) میں وہ اول بندہ ہوں جو زندہ کر کے قبر سے نکالا جاؤں گا اور تم میرے ہمراہ ہوگے ا س کے بعد دوسرے ہوں گے اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ حوض کوثر کے کنارے پر جمع ہوگے اور جسے چاہو پیاس  بجھانے دوگے اور جسے چاہوگے ہٹا دوگے جس وقت لوگ خوف و وہراس میں ہوں گے اس وقت تم بے غم اور عرش کے سائے میں بزرگ ترین مقام پر ہوگے تمہارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔” بیشک وہ کہ جو سابقہ خوبی ہماری طرف سے رکھتے ہیں ہم وہ ہیں جو دوزخ سے  دور ہیں“ ( انبیاء ، ۱۰۱) اور پھر تمہارے ہی بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اندوھناک نہ کرے گا ان کو ہراس اور بزرگ تر اور فرشتے ان کے ساتھ ملےہوں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔“ ( انبیاء)

اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ موقف میں بلائے جائیں گے اور تم بہشت میں نعمت پاؤ گے اے علی(ع) فرشتے اور خازن تیرے مشتاق ہیں۔حاملان عرش اورمقرب فرشتے تمہارے لیے دعا کریں گے

۵۲۱

 اور تیرے دوستوں کے لیے خدا سے خواہش کریں گے اور اس مسافر خاندان کی مانند جس کا سفر طویل ہوجاتا ہے تمہارے پاس آکر خوشی محسوس کریںگے اے علی(ع) تیرے دوست خلوت میں خدا سے ڈرتے ہیں اور ظاہر میں خیر کرتے ہیں اے علی(ع) تیرے شیعہ آپس میں درجات کی بلندی پر ایک دوسرے سے رقابت رکھیں گے کیوںکہ وہ خدا کے نزدیک ہوںگے  اور گناہ نہیں رکھتے اے علی(ع) تیرے شیعوں کے اعمال ہر جمعہ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور میں ان کے نیک اعمال سے شاد ہوتا ہوں اور ان کے برے کردار کی مغفرت طلب کرتا ہوں اے علی(ع) تیرا ذکر توریت میں کیا گیا ہے اورنیک شیعوں کا ان کے خلق ہونے سے پہلے تذکرہ کیا گیا ہے انجیل میں اہل کتاب نے تجھے ایلیا پکارا ہے تم خود توریت اور انجیل سے واقف ہو ان کے ہاں ایلیا(ع) کا بہت بلند مقام ہے یہ اپنی کتاب میں تمہیں اور تمہارے شیعوں کو جانتے ہیں اے علی(ع) تیرے شیعوں کا نام آسمان میں معظم کیا گیا ہے جان لو کہ وہ شاد ہوںگے اور ان کی کوشش عظیم ہوگی اے علی(ع) تیرے شیعہ حالتِ ارواح میں ثواب رکھتے ہیں جب انہیں موت آتی ہے تو وہ آسمان پر چلے جاتے ہیں اور وہاں فرشتے اپنے اشتیاق کی وجہ سے انہیں پہچان لیتے ہیں اور خدا کے ہاں ان کے مقام سے آگاہ ہیں اے علی(ع) تمہارے شیعہ عرفان کی طاقت سے لبریز ہیں ان کے دشمن ان سے اس (طاقت کی ) وجہ سے کنارہ کرتے ہیں، وہ منزہ ہوں گے کیونکہ کوئی دن اور رات ایسا نہ ہوگا کہ خدا کی رحمت انہیں گھیرے ہوئے نہ  ہو وہ عذاب سے دور ہوں گے۔اے علی(ع) خدا کا غضب اس بندے کے لیے بہت عظیم ہے جو ان سے اور تم سے دشمنی رکھے اور اس پر کہ جو تیرے دشمن کی طرف جھکاؤ رکھے تجھے چھوڑ دے اور گمراہی اختیار کرے تجھ سے جنگ چاہے اورتیرے شیعہ کو دشمن رکھے اے علی(ع) اپنے شیعوں کو میرا سلام پہنچا دو کہ میں انہیں دیکھتا ہوں مگر وہ مجھے نہیں دیکھتے انہیں اطلاع دیدو کہ وہ میرے بھائی ہیں، میں ان کا مشتاق ہوں انہیں میرے علم سے آراستہ کیا گیا ہے ان کا رشتہ خدا سے جڑا ہوا ہے یہ اپنے برادران کی حفاظت کرتے اور نیک عمل میں کوشش کرتے ہیں انہیں جو ہدایت ملی ہے وہ انہیں گمراہی میں نہیں لے جاتی ، اے علی(ع) انہیں خبر دو کہ خدا ان سے راضی ہے اور فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کے لیے مغفرت طلب کریں اے علی(ع) تم لوگوں کی مدد سے روگردان مت ہو تاکہ انہیں

۵۲۲

ہدایت ملے میں تجھے دوست رکھتا ہوں اور میری خاطر یہ تجھے دوست رکھتے ہیں اور خدا کی خاطر دین داری کرتے ہیں اور تمہاری دوستی کی وجہ سے دل پاک و صاف رکھ کر تمہارا احترام کرتے ہیں اور تمہیں اپنے ماں باپ اور اولاد سے زیادہ مقدم جانتے ہیں یہ تحمل سے تمہارے راستے پر چلتے  ہیں ہمارے سوا یہ کسی کی مدد نہیں کرتے اور ہمارے راستے میں جانبازی دکھاتے ہیں اور ہمارے بارے میں کچھ بھی برا نہیں سنتے۔ یہ سختیوں میں صبر کرتے ہیں کیوںکہ خدا نے اپنی خلق کے درمیان انہیں ہمارے علم کے واسطے چنا ہے اور ہماری طینت سے انہیں پیدا کیا ہے اور ہمارے سر(علم) کو ان کے حوالے کیا ہے ان کے دل میں ہمارے حق کی معرفت ڈالی گئی ہے ان کے سینوں کو کھلا کیا گیا ہے اور انہیں ہمارے رشتے کے ساتھ متمسک کیا گیا ہے یہ ہم پر ہمارے مخالفین کو مقدم نہیں رکھتے  یہ دنیا میں نقصان اٹھاتے ہیں مگر خدا ان کی تائید کرتا  ہے اور انہیں راہ حق پر لے جاتا ہے یہ حق کے ساتھ منسلک ہیں، لوگ اندھے پن میں گمراہی اختیار کیے ہوئے ہوائے نفس میں سرگرداں ہیں اور اس حجت سے جوخدا کی طرف سے آئی ہے منکر ہیں اور صبح و شام خدا کے غضب میں ہیں مگر تیرے شیعہ راہ حق پر ہیں یہ اپنے مخالفین سے محبت نہیں کرتے دنیا ان سے نہیں اور یہ دنیا سے نہیں یہ اندھیری رات کے چراغ ہیں۔

۳ـ          ابوسعید خدری(رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول خدا(ص) سے اس قرآنی آیت کہ ”قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتاب‏ “ ( نمل، ۴۰) ترجمہ: ” کہا وہ کہ جس کے پاس کتاب سے کچھ علم تھا“ کے بارے مین دریافت کیا تو جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا یہ میرے بھائی سلیمان ابن داؤد(ع) کے وصی( آصف بن برخیا(ع)) کے بارے میں کہا گیا ہے پھر میں نے جناب رسول خدا(ص) سے اس آیت قرآنی کہ ”قُلْ كَفى‏ بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني‏ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتاب‏   “ (رعد، ۴۳) ۔ ترجمہ : کہہ دو کہ تمہارے اور میرے درمیان اﷲ کافی ہے گواہی کے لیے وہ بندہ کہ جس کے پاس علم کتاب ہے ” کے بارے میں دریافت کیا تو آںحضرت(ص) نے فرمایا اس سے مراد میرا بھائی علی بن ابی طالب(ع) ہے۔

۵۲۳

آسمان سے ستارے کا نزول

۴ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ہم نے جناب رسول خدا(ص) کے ہمراہ نماز عشاء ادا کی جب آںحضرت(ص) سلام سے فارغ ہوئے تو فرمایا آج طلوع فجر کے وقت آسمان سے ایک ستارہ تم میں سے کسی کے گھر اترے گا جس گھر میں وہ ستارہ اترے وہی میرا خلیفہ و وصی اور میرے بعد تمہارا امام(ع) ہے۔ جیسے ہی فجر کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے دیکھنا شروع کیا اور دل میں یہ خواہش موجزن ہوگئی کہ یہ ستارہ اسی کے گھر میں اترے تمام لوگوں سے زیادہ یہ خواہش میرے والد عباس ابن عبدالمطلب(ع) کےدل میں تھی جب فجر کا وقت ہوا تو آسمان سے ایک ستارہ اترا جناب امیر(ع) کے گھر جا اترا تو جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے علی(ع) مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے نبوت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میرے بعد وصائیت و خلافت اور امامت تمہارے لیے واجب و لازم ہوگئی ہے یہ دیکھ کر منافقوں نے جب میں عبداﷲ بن ابی منافق بھی شامل تھا کہنا شروع کیا کہ محمد(ص) اپنے چچازاد بھائی کی محبت میں بہک گئے ہیں اور معاذ اﷲ گمراہ ہوگئے ہیں اور ان کی شان میں جو کچھ بھی کہتے ہیں خواہش نفسانی کی بنیاد پر کہتے ہیں جب منافقین نے اس طرح کہنا شروع کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی۔” قسم ہے ستارے کہ جب کہ وہ اترا کہ گمراہ نہ ہوا اور نہ بہکا تمہارا صاحب( یعنی محبت علی بن ابی طالب(ع) میں) اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا مگر یہ کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے( نجم، ۱ـ۴)

۵ـ          ایک دوسری روایت میں ستارے کے ظاہر ہونے  کو طلوع خورشید کے قریب بیان کیا گیا ہے ایک اور روایت میں اس موضوع کے متعلق ربیعہ سعدی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس(رض) سے اس آیت ”والنجم اذا هویٰ“ کے بارے میں پوچھا تو ابن عباس(رض) نے کہا کہ اس سے مراد وہ ستارہ ہے جو طلوع فجر کے وقت اترا اور علی بن ابی طالب(ع) کے گھر پر جا ٹھہرا میرے والد عباس بن عبدالمطلب(ع) کی یہ شدید خواہش تھی  کہ یہ ستارہ ان کے گھر پر اترے تاکہ وصایت و خلافت و امامت  ان کے خاندان سے جاری ہوجائے لیکن یہ خدا کی مرضی نہ تھی کہ علی بن ابی طالب(ع) کے علاوہ کوئی اور اس کے فضل کو حاصل کرے اور یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا کرے۔

۵۲۴

مجلس نمبر۸۴

(۱۸ رجب سنہ۳۶۸ھ)

جناب امیر(ع) کو عورت کے بارے میں نصائح

۱ـ    ابوسعید خدری(رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے جناب امیر(ع) کو عورت کے بارے میں چند نصیحتیں بیان فرمائیں۔

آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) جب تم دلہن کے پاس جاکر بیٹھو تو اس کے جوتے اتروا اور اس کے دونوں پاؤں دھوکر اس پانی کو اپنے مکان کی دیواروں اور چھت پر چھڑ کاؤ جب تم ایسا کرو گے تو اﷲ تعالی تمہارے گھر سے ستر ہزار قسم کا فقر دور کرے گا۔ ستر ہزار قسم کی برکتیں اس گھر پر نازل کرے گا اور ستر ہزار رحمتیں اس میں داخل کرے گا جو دلہن کے سر پر مںڈلاتی رہیں گی اور تم گھر کے گوشے گوشے میں انہیں دیکھ پاؤگے جب تک دلہن اس گھر میں موجود رہے گی جنون و جزام اور برص سے محفوظ رہےگی۔

تم اپنی دلہن کو نصیحت کرنا کہ وہ اس ہفتے ان چار چیزوں دودھ، دھنیا، سرکہ اور کھٹے سیب سے پرہیز کرے جناب علی(ع) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ان چار چیزوں سے پرہیز کیوں آںحضرت(ص) نے فرمایا اس لیے کہ رحم ان چار چیزوں سےعقیم و بانجھ ہو جاتا ہے اور ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور بچہ پیدا نہیں ہوتا، گھر کے کسی گوشے میں پڑی چٹائی بانجھ عورت سے بہتر ہے ، جناب علی(ع) نے دریافت کیا، یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے سرکہ استعمال کرنے کی ممانعت کیوں کی ہے ارشاد ہوا اگر سرکہ استعمال کرنے پر حیض  آیا تو عورت مکمل طور پر حیض سے پاک نہیں ہوگی، دھنیا حیض کو اس کے پیٹ میں بکھیر دے گا اور اسے بچہ جننے میں سختی ہوگی کھٹا سیب اس کے حیض کو قطع کردے گا اور یہ مرض میں تبدیل ہوجائے گا۔ پھر فرمایا اے علی(ع) اپنی عورت سے مہینے کی پہلی، درمیانی اور آخری تاریخ مجامعت مت کرنا کیونکہ اس طرح سرعت کے ساتھ جنون و جزام اور خبط الحواسی عورت اور بچے کی طرف

۵۲۵

پہنچتی ہے، اے علی(ع) ظہر کے بعد جماع نہ کرنا کیونکہ اس کے نتیجے میں جو بچہ ہوگا وہ احوال (بھینگا) ہوگا انسانوں میں احول کو دیکھ کر شیطان خوش ہوتا ہے، اے علی(ع) بوقت جماع باتیں نہ کرنا کیوںکہ اس طرح جو بچہ پیدا ہوگا خطرہ ہے کہ گونگا ہوگا اور جماع کرتے وقت اپنی نظریں عورت کی شرمگاہ پرمت ڈالنا کیونکہ خطرہ ہے کہ اس طرح جو بچہ پیدا ہو اندھا ہو اے علی(ع) کسی غیر عورت کو تصور میں لیے ہوئے اپنی عورت سے جماع مت کرنا مجھے ڈر ہے کہ اس طرح کے جماع سے جو بچہ پیدا ہو وہ مخںث یا فاترالعقل نہ ہو۔ اے علی(ع) جب کوئی شخص اپنی عورت سے ہم بستری کے بعد جنب ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ قرآن کی تلاوت نہ کرے مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان دونوں پر آسمان سے آگ نہ برسے جو انہیں جلا کر خاکستر کردے۔ اے علی(ع)  جب جماع کے بعد مادے کی صفائی کرنے لگو تو عورت اور مرد کے پاس صفائی کے لیے علیحدہ  علیحدہ کپڑا ہو ورنہ ایک ہی کپڑے سے شہوت پر شہوت واقع ہوگی جو دونوں میں باعث عداوت ہوگی اور جدائی اور طلاق پر منتج ہوگی۔ اے علی(ع) اپنی عورت سے کھڑے ہوکر جماع مت کرنا کیونکہ یہ گدھوں کا کام ہے اور اس طرح کے جماع سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ بستر پر پیشاب کرے گا جس طرح گدھا جس جگہ ہوتا ہے وہیں پیشاب کردیتا ہے اے علی(ع) اپنی عورت سے عید قربان کی شب جماع مت کرنا کیونکہ اس سے جو بچہ پیدا ہوگا اس کی چھ انگلیاں ہوں گی اے علی(ع) پھلدار درخت کے نیچے اپنی زوجہ سے جماع مت کرنا کیونکہ اس سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ جلاد یا ظلم و قتال میں مشہور ہوگی اے علی(ع) اپنی زوجہ سے سورج کے سامنے اس کی روشنی میں جماع نہ کرنا مگر یہ کہ اپنے اوپر پردہ ڈال لو جو تم دونوں کو چھپائے رکھے ورنہ اگر اس طرح کے جماع سے کوئی بچہ متولد ہوا تو وہ ہمیشہ سختی اور فقر و فاقہ میں رہے گا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجائے اے علی(ع) اپنی زوجہ سے اذان و اقامت کے درمیان جماع مت کرنا ورنہ تم دونوں سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ خون بہانے کا بہت شوقین ہوگا اے علی(ع) جب تمہاری عورت حاملہ ہوتو جب تک تم وضو نہ کر لو اس سے جماع نہ کرو ورنہ اس طرح جو بچہ پیدا ہوگا وہ دل کا اندھا اور ہاتھ کا کنجوس ہوگا اے علی(ع) اپنی زوجہ سے ںصف ماہ شعبان میں جماع مت کرنا کیونکہ جو اولاد پیدا ہوگی وہ منحوس ہوگی اور اس کے چہرے پر نحوست ہوگی اے علی(ع) اپنی زوجہ سے شعبان کے آخری

۵۲۶

دو روز جماع مت کرنا ورنہ جو لڑکا ہوگا وہ عشر وصول کرنے والا اور ظالموں کی مدد کرنے والا ہوگا اور اس کے ہاتھوں لوگوں کا ایک گروہ ہلاک ہوگا۔

اے علی(ع) اپنی زوجہ سے عمارتوں کی چھتوں پر جماع مت کرنا کیونکہ اس طرح سے جوبچہ متولد ہوگا وہ ریا کار اور بدعتی ہوگا اے علی(ع) جب تم کسی سفر پر جانے لگو تو اس شب اپنی زوجہ سے جماع مت کرنا کیونکہ اس طرح کے جماع سے جو بچہ پیدا ہوگا۔ وہ اپنا مال ناحق کاموں میں خرچ کرے گا۔

پھر جناب رسول خدا(ص) نے  اس آیت کو پڑھا ”إِنَّ الْمُبَذِّرينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطينِ وَ كانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُورا “ (بنی اسرائیل، ۲۷) ترجمہ : ” فضول خرچ لوگ شیاطین کے بھائی بند ہوتے ہیں “ اے علی(ع)جب تم کسی ایسے سفر پر نکلو جس کی مسافت تین دن اور تین رات ہوتو اپنی زوجہ سے جماع مت کرنا ورنہ جو بچہ پیدا ہوگا وہ تم پر ظلم کرنے والے کی مدد کرے گا۔

اے علی(ع) اگر تم مہینے کی دوسری تاریخ کی شب میں اپنی زوجہ سے جماع کرو گے تو جو بچہ پیدا ہوگا وہ قرآن کا حافظ ہوگا اے علی(ع) اگر تم مہینے کی تیسری تاریخ کی شب اپنی زوجہ سے مقاربت کرو گے تو تم دونوں کے مقدر مین جو بچہ ہوگا تو اسے ” لا الہ الا اﷲ“ کی شہادت اور ” محمد رسول اﷲ“ کی شہادت کے بعد شہادت کا رزق نصیب ہوگا خدا اسے مشرکین کے ساتھ معذب نہیں کرے گا وہ پاک نگہت و پاک دہن ہوگا وہ رحم دل اور ہاتھ کا سخی ہوگا اس کی زبان غیبت و کذب و بہتان سے پاک ہوگی اے علی(ع) اگر تم اپنی زوجہ سے جمعرات کی شب جماع کرو گے تو جو بچہ تمہارے مقدر میں ہوگا وہ حاکمین میں سے ایک حاکم ہوگا ۔ یا عالمون میں سے ایک عالم ہوگا بیچوں بیچ ہو جماع کرو گے  تو جو بچہ ہوگا اس کے بڑھا پے تک شیطان اس کے قریب نہیں پھٹکے گا اور وہ لوگوں کے امور کا نگران ہوگا اور اﷲ اسے دین و دنیا کی سلامتی عطا کرے گا۔ اے علی(ع) اگر تم اپنی زوجہ سے شب جمعہ جماع کرو اور اس سے جو بچہ ہو وہ بے لاگ خطیب اور بے دھڑک بولنے والا ہوگا ۔ اے علی(ع) اگر تم اپنی زوجہ سے جمعہ کے روز عصر کے بعد جماع کرو تو جو بچہ پیدا ہوگا وہ ایک معروف عالم ہوگا اور اگر تم شب جمعہ عشاء کےبعد اپنی زوجہ سے جماع کرو گے تو انشاء اﷲ امید

۵۲۷

ہے کہ جو بچہ ہوگا وہ ابدال میں سے ہوگا۔

اے علی(ع) اپنی زوجہ سے شب کی اول ساعت میں جماع مت کرنا کیونکہ خطرہ ہے کہ اس طرح جو بچہ پیدا ہو وہ ساحر یا جادوگر ہو اور دنیا کو دین پر ترجیح دے۔ اے علی(ع) میری ان نصیحتوں کو یاد رکھو جس طرح میں نے انہیں جبرائیل(ع) سے سن کر یاد کیا ہے۔

مومن کے اوصاف

۲ـ           امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ جناب امیرالمومنین(ع) کے اصحاب میں ایک مرد عابد تھے جن کا نام ھمام(رح) تھا ایک مرتبہ وہ جناب امیر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا  امیر المومنین(ع) آپ(ع) مجھے متقی لوگوں کی صفات اس طرح بیان فرمائیں کہ جیسے میں انہیں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ جناب امیر(ع) نے جواب دینے میں کچھ توقف کیا اور پھر مختصرا فرمایا اے ھمام ! اﷲ سے ڈرو اور نیک عمل کرو کیونکہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جو پرہیز گار ہیں اور نیک کردار ہیں۔

ھمام(رح) نے کہا ! یا امیرالمومنین(ع) میں آپ(ع) کو اس حق کی قسم دیتا ہوں جو آپ سے مخصوص کیا گیا اور گرامی رکھا گیا مجھے آپ(ع) اس بارے میں تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔ جناب امیر(ع) یہ سن کر کھڑے ہوگئے۔ اور خدا کی حمد اور اوصاف حمیدہ بیان فرمانے کے بعد جناب رسول خدا(ص) پر درود بھیجا اور فرمایا بے شک جب خدا نے مخلوق کو خلق فرمایا تو ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ان کی نافرمانی سے بے پرواہ ہو کر لباس وجود پہنایا اس لیے دغابازوں کی نافرمانی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی پھر خدا نے مخلوق کی معیشت کا سامان ان میں تقسیم کیا اور دنیا میں ہر ایک کو اس کےمقرر کردہ مقام پر رکھا اور آدم(ع) اور حوا(ع) نے جب حکم عدولی کی اور اس کے امر کی مخالفت کی تو انہیں لایا پس اس میں متقی اور پرہیزگار  ہی صاحب فضیلت ہیں ان کی گفتگو اور لباس درمیانہ اور ان کی رفتار عجز وانکسار ہے وہ خدا کی فرمانبرداری کے لیے خشوع کرتے ہیں خدا کی حرام قرار دی ہوئی چیزوں سے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں ہیں اور نفع بخش علم  کے حصول کےلیے کوشاں ہیں ان کے نفس مصیبت میں بھی

۵۲۸

 ویسے ہی رہتے ہین جیسے کہ آرام و راحت میں اور اگر زندگی کی مدت معین نہ کردی گئی ہوتی تو ان کی روحیں ثواب کے شوق اور عذاب کے خوف سے پلک جھپکنے کے عرصے کے لیے بھی ان کے بدنوں میں نہ رہتیں ان کی نگاہوں میں خالق کی  عظمت اس طربیٹھ گئی ہے۔ کہ ان کی نگاہوں میں اس کے سوا ہر چیز حقیر نظر آتی ہے انہیں جنت کا اس طرح یقین ہے جیسے اسے دیکھا ہو۔ اور دوزخ کے دل غمگین، لوگ ان کے شر سے محفوظ، ان کے بدن لاغر، ان کی ضرورتیں کم ان کے نفس پاک اور خواہشات نفسانی سے مبرا ہیں وہ اس دنیا سے آخرت کا توشہ لیتے ہیں اور چند روزہ چھوٹی تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں جس کے بدلے آخرت کی دائمی راحت حاصل کر لیتے ہیں یہ ایک نفع بخش تجارت ہے جو خدا نے ان کے لیے مہیا کی ہے دنیا نے انہیں چاہا مگر انہوں نے اس کی خواہش نہ کی اور وہ انہیں طلب کرتے کرتے عاجز آگئی، جب رات ہوتی ہے تو یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی رک رک کر تلاوت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو علم سے تازہ کرتے اور اپنی بیماری کا علاج تلاش کرتے ہیں۔ یہ اپنے غم سےاپنے گناہوں پر گریہ کرتے ہیں یہ اپنے دل کے زخموں سے دردمند ہوتے ہیں جب کبھی یہ کوئی ایسی آیت پڑھتے ہیں جس میں خوف دلایا گیا ہوتو اس کی طرف اپنے دل کے کان لگا دیتے ہیں اور خیال کرتے ہین کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور چیخ وپکار انہیں سنائی دے رہی ہے اور جب یہ کوئی اسی آیت پڑھتے ہیں جس میں جنت کی رغبت دلائی گئی ہو تو وہ اس کی طمع کے آگے جھک جاتے ہیں اور اس شوق میں ان کے دل بے اختیار چیخ اٹھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں جیسے وہ منظر ان کی نظروں کےسامنے  ہو وہ اپنے جبار بزرگوار کے سامنے پیشانیاں ۔ ہتھیلیاں ، زانو اور پاؤں خاک پر رکھے ہوئے گریہ کرتے ہیں بخدا یہ اپنی آزادی کے لیے آرزو مند ہیں جب دن ہوتا ہے تو یہ حلیم عالم بن کر نیک کردار اور پرہیزگار دکھائی دیتے ہیں خوف خدا نے انہیں نیزوں کی طرح پتلا اور لاغر کر دیا ہے انہیں جو کوئی دیکھتا ہے گمان کرتا ہے کہ یہ بیمار ہیں مگر یہ بیماری نہیں رکھتے جب لوگ انہیں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ دیوانے ہیں مگر ان کے ذہنوں میں قیامت کا خوف، خدا کی سلطنت کا خیال

۵۲۹

 اور عذاب کا ہراس جگہ کیے ہوئے ہے۔ یہ خدا کے لیے تھوڑے عمل سے خوش نہیں ہوتے یہ زیادہ کو کم شمار کرتے ہیں اور اپنے ہی نفس پر کوتاہی کا الزام رکھتے ہیں یہ اپنے اعمال سے خوف میں رہتے ہیں جب کوئی ان کے تقوی اور پرہیزگاری کی تعریف کے سلسلے میں کچھ کہتا ہے تو یہ کانپ جاتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنی نسبت بہتر جانتا ہوں۔ اور میرا رب مجھ سے زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے خدایا جو کچھ یہ لوگ میرے بارے میں کہہ رہے ہیں تو اس بارے میں میرا مواخذہ مت کرنا جو کچھ یہ میرے بارے میں کہہ رہے ہیں اس میں میرے لیے جو بہتر ہو وہی میرے بارے میں کرنا خدایا میرے وہ گناہ بخش دے جو یہ لوگ نہیں جانتے کیونکہ تو علام الغیوب اور ساتر عیوب ہے۔ ان( مومنین) میں سے ہر ایک کی علامت یہ ہے کہ تم ان میں یہ باتیں دیکھو گے، نرمی کے ساتھ دین میں مضبوطی ایمان میں دور اندیشی،یقین علم کی حرص، بردباری کےساتھ دانائی، حصول کسب سکون کے ساتھ ہزینہ ( نان نفقہ) دینے میں مہربان۔ توانگری میں میانہ روی، عبادت میں خشوع، ناداری میں تحمل، مصیبت میں صبر، رنج میں مہربانی، حقِ عطا میں بخشش، حلال کی طلب، ہدایت میں کیف و سرور، طمع سے نفرت ، راست روی و پاکیزگی ، شہوت سے چشم پوشی، بے جا ستائش سے پرہیز کہ نادان اس سے فریب کھاتے ہیں ، وہ جو کچھ جانتے ہیں اسے جانے نہیں دیتے۔

وہ (مومن) نیک اعمال بجالاتا ہے پھر بھی خدا سے ڈرتا ہے اپنی شام خدا کے شکر میں دن یاد الہی میں اور رات خوف خدا میں گزارتا ہے وہ صبح کوخوش اٹھتا ہے مگر یہ خطرہ دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں رات غفلت میں نہ گزر جائے اسے اس فضل اور رحمت پر خوشی ہوتی ہے جو اسے حاصل ہوئی ہے اگر اس کا نفس کسی عمل سے کراہت کر کے اسے برداشت نہیں کرنا چاہتا تو وہ اس کی خواہش پوری نہیں کرتا جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس پر خوشی ہے جو کچھ اس کے پاس ہے وہ قائم ہے اس کی آنکھیں روشن ہیں جو زوال نہیں رکھتیں جو موجود ہو ان کا شوق اسی میں ہے اور جو باقی نہ رہے وہ ان کے لیے بے رغبت ہے یہ علم کو بردباری سے حاصل کرتے ہیں اور بردباری کو عقل سے تم جب بھی انہیں دیکھو گے سستی ان سے دور ہوگی یہ ہر لمحہ نشاط میں ہیں ان کی آرزوئیں مختصر

۵۳۰

 لغزشیں کم اور موت کی تمنا لیےہوئے ہیں ان کے دل تواضع کرنے والے اور پروردگار کی یاد میں ہیں ان کے نفس قانع ان کے عمل سہل اپنی نادانی پر نادم اور گناہوں پر ترساں ہیں یہ اپنے دین کے محافظ اپنی شہوت کے قاتل اور اپنے غصے کو پی جانے والے ہیں ان کے اخلاق بلند اور ان کے ہمسائے ان سے راضی اور امن میں ہیں ان میں غرور نہیں ہے ان کا صبر استوار اور ذکر خدا کی بہتات ہے ان کا عمل محکم ہے ان کا دوست جو کچھ ان کے حوالے کرے یہ اس میں خیانت نہیں کرتے ہیں یہ اپنی گواہی کو اپنے خلاف دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ چھوٹے عمل کو ریا سے نہیں کرتے اور شرم محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خیر مورد انتظار  ہے، ان کے شر سے امن ہے ( یعنی شر نہیں پھیلاتے) یہ اگر ذکر خدا سے غفلت کرنے والوں میں بیٹھ جائیں تو اسے بھی ذکر خدا میں لکھا جاتا ہے اور اگر ذکر خدا کرنے والوں میں بیٹھ جائے تو اسے غافلوں میں شمار نہیں کیا جاتا جو ان پر ظلم کرتا ہے یہ اسے معاف کردیتے ہیں جو انہیں ان کے حق سے محروم رکھے یہ اس پر بخشش کرتے ہیں جو ان سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں بردباری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جلدی شک کا شکار نہیں ہوتے جو کچھ ان پر ظلم ہو اس سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ نادانی ان سے دور رہے ان کی گفتار میں نرمی ہے ان کا نیرنگ ( دھوکا، فریب) معدوم اور احسان معروف ہے ان کا قول سچا، ان کا عمل نیک ان کا خیر ظاہر اور اپنے شرسے گریزاں ہے یہ زلزلوں میں باوقار اور مصیبتوں میں صابر ہیں یہ خوشحالی میں شکر ادا کرنے والے ہیں اور اپنے دشمن پر بھی بے جا زیادتی نہیں کرتے ۔ یہ س سے محبت کرتے ہیں اس کی خاطر بھی گناہ نہیں کرتے اور جو کچھ ان کی ملکیت نہیں ہوتا اس کا دعوی نہیں کرتے ان پر جو حق ہوتا ہے اس سے منکر نہیں ہوتے اور اعتراف حق کرتے ہیں اس سے پہلے کہ ان پر گواہ پیش ہوں، جس کی چاہیے  حفاظت کرتے ہیں اور گم نہیں ہونے دیتے کسی کو برے لقب سے نہیں پکارتے کسی پر ظلم نہیں کرتے حسد نہیں کرتے اپنے ہمسائے کو آزار نہیں پہنچاتے۔ کسی کی مصیبت پر اسے طعنہ نہیں دیتے نادانی سے کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتے حق سے باہر نہیں جاتے  تاکہ درماندہ نہ ہوں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس خاموشی پر غمزدہ نہیں ہوتے، بات کرتے ہیں تو خطا نہیں کرتے خوش ہوتے

۵۳۱

 ہیں تو مسکراتے ہیں قہقہ بلند نہیں کرتے جو کچھ مقدر میں ہے اس پر راضی ہوتے ہیں غصہ آئے تو سر ںہیں اٹھاتے، ہوائے نفس ان پر غلبہ نہیں پاتے بخل ان پر غالب نہیں آتا، جس سے وابسطہ نہیں ہے اس کی طمع نہیں کرتے ، لوگوں سے کچھ جاننے کے لیے ملتے ہیں، خاموش رہتے ہیں تاکہ سلامت رہیں پوچھتے ہیں تاکہ سمجھیں۔ عمل کرتے ہیں تاکہ خیرلیں اگر کوئی کہے کہ اسے فلان  ضرورت ہے ( یعنی خواہش نفسانی کا اظہار کرے) تو توجہ نہیں کرتے جابروں سے بات نہیں کرتے  اگر ان کے ہاتھوں پر زیادتی کی جائے تو صبر کرتے ہیں یہاں تک کہ خدا ہی اس کا انتقام لے ان کا نفس ان کے ہاتھوں مشقت میں ہے اور لوگ اس سے راحت میں ہیں اس نے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنے نفس کو تکلیف میں جبکہ لوگوں نے آرام میں رکھا ہوا ہے اگر کسی سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ تو زہد وپاکیزگی کی وجہ سے اور جن سے قریب ہوتے ہں تو نزم مزاجی اور نرم دلی کی وجہ سے ان کی کسی سے دوری غرور یا تکبر کی وجہ سے نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کا قریب ہونا کسی مکر و فریب کی وجہ سے ہے بلکہ یہ اپنے سے پہلے والے اہل خیر کی اقتدار کرتے ہیں یہ آنے والوں کے لیے نیکو کاری میں رہبر ہیں۔

جناب امیر(ع) نے یہاں تک فرمایا تو یہ سن کر ھمام(رح) نے چیخ بلند کی اور وفات پاگئے امیرالمومنین(ع) نے فرمایا میں اسی خوف سے تردد کر رہا تھا پھر آپ(ع) نے حکم دیا کہ ھمام(رح) کی تجہیز و تکفین کریں اور  نماز جنازہ ادا کریں۔ جناب امیر(ع) نے ارشاد فرمایا کہ نصیحتیں اپنے اہل پر ایسا ہی اثر کرتی ہیں، ایک شخص نے یہ سن کر کہا کہ آپ(ع) پر خود ایسا اثر کیوں نہیں ہوتا آپ(ع) نے فرمایا، وائے ہو تم پر موت کا ایک دن معین ہے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس کا ایک سبب ہوتا ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتا یہ بات جو تمہاری زبان پر شیطان نے جاری کی ہے دوبارہ مت دہرانا۔

غدیر خم میں آںحضرت(ص) کا فرمان

۳ـ          ابو سعید خدری(رح) کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے غدیر کے روز منادی کو حکم دیا کہ وہ با جماعت نماز کے لیے ندا دے جب لوگ اکھٹے ہوگئے تو آںحضرت(ص) نے جناب امیر(ع) کا ہاتھ تھاما

۵۳۲

 اور فرمایا جس کسی کا میں آقا ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے آقا و مولا ہیں خدایا دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے اور دشمن رکھ اسے جو اسے دشمن رکھے۔

حسان بن ثابت(رض) نے کہا ۔ یا رسول اﷲ(ص) میں چاہتا ہوں کہ علی(ع) کے بارے میں اشعار کیہوں آپ(ص) نے فرمایا کہو۔ حسان(رض) نے شعر کہا۔

” غدیر کے دن خم کے مقام پر ان کا نبی(ص) انہیں پکار رہا تھا۔

سنو کہ رسول(ص) منادی کرتے ہوئے کیا فرمارہے ہیں۔

وہ فرمارہے ہیں کہ کون ہے تمہارا ولی و حاکم و مالا۔

پس انہوں نے وہاں کسی دشمنی کا ظاہر نہیں کیا۔

آج ہم میں سے کوئی بھی آپ(ص) کا نافرمان نہیں ملے گا۔

تو حضور(ص) نے کہا کھڑے ہوجاؤ اے علی(ع)

بیشک میں نے اپنے بعد تمہیں امام و ہادی ہونے کے لیے پسند کیا۔

علی(ع) کو آشوب چشم تھا اور وہ علاج کی تلاش میں تھے۔

جب انہیں کوئی معالج نہ مل سکا تو اﷲ کے رسول (ص) نے انہیں لعاب دہن سے شفا بخشی پس کیسا بابرکت علاج تھا اور با برکت ہے علاج کرنے  والا۔

۵۳۳

مجلس نمبر۸۵

(۲۲ رجب سنہ۳۶۸ھ)

استجابت دعا

۱ـ           امام باقر(ع) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب زوال ظہر ہوتا ہے تو آسمانکے دروازے کھل جاتے ہیں اور بہشت کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں اس وقت دعائیں مستجاب ہوتی ہیں کیا کہنا اس بندے کا جو اس وقت عمل صالح کرے کہ یہ سب اوپر جائیں گے۔

۲ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا ہمارے شیعوں میں سے کوئی بندہ ہرگز نماز کے لیے کھڑا نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کے مخالفین کی تعداد کے برابر فرشتے آتے ہیں اور اس کے پیچھے نماز پرھتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتےہیں یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہوجاتا ہے۔

۳ـ          عمیر بن مامون عطاردی کہتے ہیں کہ میں جناب حسن(ع) بن علی(ع) کو دیکھتا ہوں کہ جب بھی صبح کی نماز پڑھتے ہیں تو مجلس میں بیٹھ جاتے  ہیں یہاں تک کہ سورج ظاہر ہوجاتا ہے جناب حسن(ع) بن علی(ع) سے میں نے سنا کہ انہوں نے جناب رسول خدا(ص) کی حدیث بیان فرمائی کہ کوئی صبح کی نماز پڑھے اور پھر سورج کی طلوع ہونے تک تعقیب میں رہے تو خدا اسے دوزخ سے بچاتا ہے جناب حسن(ع) بن علی(ع) نے تین بار اس حدیث کو دھرایا۔

۴ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جبرائیل(ع) جناب یوسف(ع) کے پاس زندان میں تشریف لائے اور فرمایا اے یوسف(ع) ہر واجب نماز کے بعد تین مرتبہ اسطرح کہیے کہ خدایا میرے لیے وسعت پیدا کر اور مجھے محفوظ رکھ اور اس وقت کوئی گمان کرے یا نہ کرے مجھے رزق عطا فرما۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نماز شب میں ساتھ بار ” قل ہو اﷲ احد“ تیس بار پہلی رکعت میں اور تیس بار دوسری رکعت میں پڑھے تو خدا اور اس  کے درمیان کوئی گناہ نہ رہے گا۔

۵۳۴

۶ـ           ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی بازار سے اپنے اہل و عیال کے لیے تحفہ لائے تو یہ صدقہ دینے کے ثواب کے برابر فضیلت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ یہ تحفہ وہ سب سے پہلے اپنی دختر کو دے کیونکہ جو اپنی دختر کو خوش کرے گا تو گویا اس نے فرزندان اسماعیل(ع) میں کسی مومن کو راہ خدا میں آزاد کروایا اور جو کوئی اپنے فرزند کی آنکھیں روشن کرے گا تو یہ ایسا ہے کہ جیسے وہ خوف خدا سے رونے کے برابر ثواب لے اور جو کوئی خوف خدا سے گریہ کرے بہشت میں پر نعمت ہوگا۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا، جان لو کہ مجھے جبرائیل(ع) نے ایک ایسے امر کی خبر دی کہ میری آنکھیں روشن اور دل شاد ہوگیا ہے جبرائیل(ع) نےبتایا کہ اے محمد(ص) تیری امت میں سے جو کوئی خدا کی راہ میں جہاد کرےگا تو خدا اسے کوئی ایسی چیز عطا نہ کرے گا جو روزِ قیامت اس کے بارے میں گواہی نہ دے حتی کہ بارش کے قطرے بھی اس کے حق میں شہادت ( گواہی ) دیں گے۔

باب مجاہد

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) سے مروی ہے کہ بہشت کے دروازوں میں سے ایک، باب مجاہد ہے اور یہ مجاہدین کے لیے کھلا ہے مجاہدین شمشیرین لٹکائے اس کی طرف اس وقت جاتے ہیں جب کہ بقیہ خلق کا  حساب ہو رہا ہوتا ہے، فرشتے مجاہدین کو خوش آمدید کہیں گے اور جو جہاد سے کنارہ کش ہوگا خوار ہوگا اور تنگی رزق رکھے گا اور بے دین ہوگا، جو کوئی مجاہدین کو ان کے نامے (خطوط) پہنچائے گا وہ اس طرح ہوگا کہ جیسے اس نے ایک غلام آزاد کروایا ہو اور جہاد میں شریک ہوگا۔

۹ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی مجاہد کو اسکا پیغام یا خط پہنچائے وہ اس کے ساتھ جہاد میں شریک ہے۔

۱۰ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا مجاہدین کو بہشت میں وہی گھوڑے دیئے جائیں گے جو ان کے ہمراہن جہاد میں ہوں گے ( با الفاظ دیگر مجاہدین کے گھوڑے بھی ان کے  ہمراہ بہشت میں جائیں گے۔)

۵۳۵

۱۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا تمام خوبیاں ہمراہ شمشیر اور زیرِ سایہء شمشیر ہیں اور لوگ استوار نہ ہوں گے مگر شمشیر سے اور شمشیریں بہشت کی کلیدیں ہیں۔

۱۲ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی خدا کی آرزو کو پسند کرئے وہ دنیا سے اس وقت تک نہ جائے گا جب تک کہ اسے عطا نہ کیا جائے۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ایمان کا محکم ترین درجہ یہ ہے کہ خدا کی راہ میں ہی دوستی اور دشمنی رکھے اور خدا کی راہ میں ہی دے اور دریغ کرے۔

۱۴ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ جو کوئی شام کے وقت تین بار”فَسُبْحانَ اللَّهِ حينَ تُمْسُونَ وَ حينَ تُصْبِحُون‏وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ عَشِيًّا وَ حينَ تُظْهِرُون‏ “ کہے گا تو جو بھی اس شب کا خیر ہوگا حاصل کرے گا اور اس شب کے تمام شر سے محفوظ رہے گا اور جو کوئی صبح تین بار اسے دھرائے گا تو تمام دن کا خیر سمیٹ لے گا اور تمام دن کے شر سے محفوظ رہے گا۔

۱۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا دن کے شروع اور آخر میں اور شب کے شروع میں فرشتے دفترِ حساب لاتے ہیں اور آدمی کے عمل کو اس میں درج کرتے ہیں اول اور آخر دفتر میں بندے کے اعمال خیر لکھے جاتے ہیں اور جو کچھ ان( دفاتر حساب) کے درمیان ہے وہ (خدا) تمہارے لیے معاف فرمادے گا انشاء اﷲ کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ تم مجھے  یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں اور خدا فرماتا ہے کہ ذکر خدا نہایت عظیم ہے۔

۱۶ـ          امام صادق(ع) نے ابو ہارون سے فرمایا ، اے ابو ہارون میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کو تسبیح فاطمہ(س) کی تلقین کرو جس طرح تم انہیں نماز واجب کی تلقین و نصیحت کرتے ہو تمہیں چاہیئے کہ خدا کے ملازم رہو اور جو بندہ اس کی ملازمت نہیں کرتا وہ بدبخت ہوتا ہے۔

۱۷ـ          آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا جب بھی گھر سے باہر نکلو تو ” بسم اﷲ“ کہو کہ دو فرشتے اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ نجات پاگیا اگر کہو” لا حول ولا قوة الا باﷲ“ تو کہتے ہیں یہ

۵۳۶

 محفوظ ہوگیا اور اگر کہو” توکلت علی اﷲ“ تو کہتے ہیں تیرے لیے کافی ہے ایسے میں شیطان لعین کہتا ہے اب میرا اس بندے سے کیا واسطہ ہے یہ تو محفوظ ہوگیا، ہدایت پاگیا اور کفالت کا حقدار ٹھہرا۔

۱۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک دن آںحضرت(ص) نے جناب امیر(ع) سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک خوشخبری نہ سناؤں جناب امیر(ع) نے کہا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان  آپ(ص)  ہمیشہ مجھے خوش خبری ہی سناتے ہیں آںحضرت(ص) نے فرمایا جبرائیل(ع) نے مجھے ایک عجیب امر کی خبر دی ہے کہ جو کوئی میری امت میں سے مجھ پر اور میری آل(ع) پر صلواة بھیجے اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اور اس پر فرشتے صلواة بھیجتے ہیں چاہے وہ گناہ گار و خطا کار ہی کیوں نہ ہو اس کےگناہ جلدی جھڑجاتے ہیں جس طرح درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں جب وہ صلواة بھیجتا ہے تو خدا اس کے جواب میں فرماتا ہے ” لبیک عبدی وسعدیک“  اور پھر اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے اے فرشتو تم نے اس پر ستر بار صلواة بھیجی ہے مگر میں اس پر سات سو مرتبہ صلواة بھیجتا ہوں پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو بندہ مجھ پر صلواة بھیجے گا مگر میری آل(ع) پر نہ بھیجے تو اس کے اور آسمان کے درمیان ستر پردے حائل ہوں گے اور خدا فرمائےگا” لا لبیک ولا سعدیک“ اور اسکے اور خدا کے درمیان ستر حجاب حائل ہوں گے اور فرشتے اس کی دعا آسمان پر نہیں لائیں گے جب تک وہ اپنے نبی(ص) کو ان کی عترت(ع) سے ملحق نہ کرے اور ان(ص) کے اہل بیت(ع) کو اس میں شامل نہ کرے۔

۱۹ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو بندہ اپنی نماز ادا کرتے ہوئے اپنے پیغمبر(ص) کا نام ( درود و صلواة) لے وہ راہ بہشت لے گا جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جس بندے کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو دوزخ میں جائے گا اور خدا اس سے اپنی رحمت کو دور کردے گا۔

چار آدمیوں سے اہل دوزخ کو آزار

۲۰ـ                  جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا چار آدمیوں کی وجہ سے اہل دوزخ بھی آزار محسوس کریں گے وہ حمیم سے پیں گے اور جہنم میں شور کریں گے اہل دوزخ ایک دوسرے سے کہیں گے انہیں کیا

۵۳۷

ہوگیا ہے کہ سب کو تکلیف دے رہے ہیں، ان کے لیے آگ کے بھڑکتے ہوئے انگاروں کا ایک صندوق لایا جائے گا اور انہیں اس میں بند کردیا جائے گا یہ اس میں بند اپنا گوشت کھاتے ہوں گے اہل جہنم  انہیں پوچھیں گے کہ تمہارا کیا جرم ہے جس کی بدولت  تم خود بھی تکلیف میں ہو اور ہمیں بھی آزار دے رہے ہو ان میں سے ایک کہے گا کہ مرتے وقت میرے ذمے لوگوں کا مال تھا جو میں نے ادا کیا دوسرا کہے گا میرا جرم یہ ہے کہ میں بول و براز (پیشاب) میں احتیاط نہ برتتا تھا، تیسرا جس کے منہ سے خون و پیپ جاری ہوگا کہے گا کہ میں بری باتوں کی تقلید کرتا تھا اور محفلوں میں یہی سناتا تھا چوتھا کہے گا میں جو اپنا گوشت کھا رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرتا تھا اور لوگوں کا گوشت کھاتا تھا۔

۲۱ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی اپنے برادر مومن کی اس کے منہ پر تعریف کرےمگر پیٹھ پیچھے برائی کرے تو ان کے درمیان سے عصمت قطع ہوجائے گی۔

۲۲ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) سے سوال کیا گیا کہ کل کے لیے نجات کس میں ہے تو جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا نجات اس میں ہے کہ خدا کو فریب نہ دو تاکہ وہ تمہیں فریب نہ دے جو کوئی خدا کو فریب دیتا ہے خدا اسے فریب دیتا ہے اور اس کا ایمان رخصت ہوجاتا ہے اور اگر سمجھے تو اس نے خود کو فریب دیا ہے عرض کیا گیا خدا کو کیسے فریب دیا جاتا ہے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا جو بندہ اپنی مرضی پر عمل کرتا ہے تو یہ عمل کسی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے تم خدا سے ڈرو اور ریا سے کنارہ کرو کہ یہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ہے ریا کار روز قیامت چار ناموں سے پکارا جائے گا۔ اسے آوازدی جائے گی اے  کافر، اے فاجر، اے غادر، اے خاسر تیرے اعمال بے کار ہیں تیرا اجر باطل ہوا ہے آج تم کوئی عزت نہیں رکھتے آج تم اس بندے سے اپنا اجر طلب کرو جس  کے لیے تم یہ اعمال کرتے تھے۔

۲۳ـ                 جناب رسول خدا(ص) ارشاد فرماتے ہیں، جب  خدا کسی امت پر غصہ کرے اور عذاب نہ دے تو اس امت میں گرانی نرخ ہوگی ان کی زندگیاں مختصر ان کی تجارت بے نفع ان کا میوہ نابود ان کا پانی کم اور بارش ان کے لیے ممنوع ہوگی اور برے لوگ ان پر مسلط ہوں گے۔

۵۳۸

۲۴ـ                 جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا علی بن ابی طالب(ع) اور ان کی اولاد میں سے امام(ع) میرے بعد اہل زمین کے سردار اور قیامت میں سفید چہروں اور ہاتھوں والوں کے پیشوا ہوں گے۔

۲۵ـ         ام المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) سے میں نے سنا کہ میں سیدِ اولین و آخرین ہوں اور علی بن ابی طالب(ع) سید الاوصیاء ہیں وہ میرے بھائی میرے وارث اور میری امت پر میرے خلیفہ ہیں، ان کی ولایت فریضہ اور ان کی محبت وسیلہ ہے بخدا ان کا حزب خدا کا حزب اور ان کے شیعہ انصارانِ خدا اور اولیاء اﷲ ہیں اور ان کے دشمن خدا کے دشمن ہیں وہ میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں اور مومنین کے مولا و امیر ہیں۔

۲۶ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی قضیب احمر کو دیکھنا چاہے اور یہ چاہے کہ اس سے متمسک ہو اسے چاہیے کہ وہ علی(ع) اور اس کے فرزندان، ائمہ(ع) کو دوست رکھے کہ وہ بہترین خلق ہیں اور ہر گناہ و خطا سے معصوم ہیں، وہ خدا کے منتخب شدہ ہیں۔

۲۷ـ                 جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی علی(ع) کو اس کی زندگی اور بعد میں دوست رکھتا ہے تو خدا اس کے لیے امن و ایمان لکھے گا۔ جس کی وسعت آفتاب کےطلوع و غروب کے مقام جتنی ہوگی اور جو کوئی علی(ع) کو اس کی زندگی یا بعد میں دشمن رکھتا ہے وہ جاہلیت کی موت پر مرے گا اور جو بھی عمل کرے گا اس کا محاسبہ ہوگا۔

۲۸ـ                 جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تیری دوستی مرد مومن کے دل میں قائم ہوگی اس کے قدم پل صراط پر لغزش نہ کھائیں گے وہ ثابت قدم رہےگا یہاں تک کہ تیری دوستی کے صلے میں خدا اسے داخلِ بہشت کردے گا۔

۵۳۹

مجلس نمبر۸۶

(۲۵ رجب سنہ۳۶۸ھ)

آںحضرت(ص) کا ستارے کی خبر دینا

۱ـ           امام صادق(ع) اپنے والد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آںحضرت(ص) مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو آپ(ص) کے خاندان کے افراد اور اصحاب آپ(ص) کے گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اﷲ(ص) اگر آپ(ص) کو حادثہ پیش آگیا تو آپ(ص) کے بعد ہمارا سرپرست کون ہوگا اور آپ(ص) کے امر کو ہمارے درمیان کون قائم کرے گا آںحضرت(ص) نے سکوت اختیار کیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن ان سب نے پھر یہی سوال دہرایا مگر آپ(ص) پھر سکوت اختیار کیے رہے تیسرے دن پھر وہ سب جمع ہوئے اور وہی بات پوچھی تو آںحضرت(ص) نے فرمایا تم میں سے کسی کے گھر آج ایک ستارہ اترے گا تم دیکھنا کہ وہ کون ہے وہی میرے بعد تمہارا خلیفہ  اور میرا امر کو قائم کرنے والا ہوگا۔

ہر کوئی انتظار کرنے اور خواہش رکھنے لگا کہ یہ سعادت اسے نصیب ہو۔ ناگاہ آسمان سے ایک ایسا ستارہ نمودار ہوا جس کا نور تمام دنیا پر غالب تھا وہ ستارہ جناب علی بن ابی طالب(ع) کے  گھر جا اترا۔ یہ دیکھنا تھا کہ امت میں ہیجان پیدا ہو اور وہ گستاخی کرنے لگے کہ یہ مرد ( معاذ اﷲ) گمراہ ہوگیا ہے اور راستے میں ہٹ گیا جبھی اپنے چچازاد بھائی کے بارے میں ہوائے نفس سے بات کرتا ہے اس پر خدا نے یہ آیت نازل فرمائی ” قسم ہے ستارے کی جس وقت وہ نیچے آیا گمراہ  نہیں ہے تمہارا صاحب اور راہ سے بھٹکا ہوا نہیں ہے بیشک یہ جو کہتا ہے وحی سے کہتا ہے۔ “ ( نجم، ۱ـ۴)

۲ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی ہمارے خاندان کو دشمن رکھتا ہے خدا روزِ قیامت اسے یہودی محشور کرے گا عرض ہوا یا رسول اﷲ(ص) اگر چہ وہ شہادتین کہتا ہو آںحضرت(ص) نے فرمایا ہاں یہ دو کلمات کہنے سے اس کا خون محفوظ ہوا اور جزیہ کی خواری سے معاف ہوا پھر آپ(ص) نے دوبارہ فرمایا جو کوئی ہمارے خاندان کو دشمن رکھتا ہے خدا اسے روزِ قیامت یہودی محشور کرے گا عرض ہوا یا رسول اﷲ(ص)

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658