مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277326
ڈاؤنلوڈ: 6925

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277326 / ڈاؤنلوڈ: 6925
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 کیسے، آپ(ص) نے فرمایا ہمارے خاندان کا دشمن ایسا ہے کہ اگر دجال کو پائے تو اس پر ایمان لائے گا۔

۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو مسلمان اپنی جائے نماز پر بیٹھے اور صبح کی نماز کے بعد ذکر خدا کرے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے تو وہ حج بیت اﷲ کا ثواب لے گا اور معاف کیا جائے گا اور اگر دو یا چار رکعت نماز پڑھ لے ( نافلہ) تو اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف ہوں گے اور حجِ بیت اﷲ کا اجر پائے گا۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نماز مغرب کے بعد گفتگو نہ کرے اور دو رکعت نماز پڑھے تو دفتر علیین اس کے لیے ثبت ہوگا اور اگر چار رکعات نماز پڑھ لے تو حج مقبول کا ثواب لے گا۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی حاجی سے ملاقات کرے اور اس سے مصافحہ کرے وہ اس بندے کی طرح ہے کہ جس نے حجر کو مس کیا ہو۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی ستائیس (۲۷) رجب کو روزہ رکھے گا خدا اسے ستر سال کے روزوں کا ثواب عطا کرے گا۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی گرمی کا روزہ رکھے اور پیاسا ہوتو خدا اس کے گھر فرشتوں کو بھیجے گا جو اس کے چہرے کو مس کریںگے اور خوشخبری دیں گے یہاں تک کہ افطار کرے خدا فرماتا ہے کیا خوشی ہے تیری خوشی اور کیا نسیم ہے تیری نسیم، اے میرے فرشتو گواہ رہو کہ میں نے اسے معاف کیا۔

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو شخص کسی ایسی قوم کے درمیان روزہ رکھے جو کھاتی پیتی ہو تو اس ( روزہ دار) کے اعضاء اس کے لیے تسبیح کرتے ہیں اور فرشتے اس کے لیے رحمت طلب کرتے ہیں اور اس کی مغفرت ہوتی ہے۔

۹ـ           حلبی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے وطن میں روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا وہ ہر ماہ میں تین (۳) دن ہیں پہلے ہفتے سے جمعرات دوسرے سے بدھ اور تیسرے اور آخری ہفتے سے جمعرات حلبی کہتے ہیں میں نے پوچھا یعنی ہر دس روز میں سے ایک

۵۴۱

 دن امام (ع) نے فرمایا ہاں پھر فرمایا جناب امیرالمومنین(ع) کا ارشاد ہے کہ ماہ رمضان کے روزے اور ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھنا سینوں میں سے وسواس کے لے جاتا ہے بے شک ہر ماہ میں تین دن کا روزہ دہر کے روزے کے برابر ہے اور خدا فرماتا ہے جو کوئی ایک نیکی لائے گا اسے دس عطا کی جائیں گی۔

ثواب زیارت جناب ابو عبداﷲ (ع) ( امام حسین(ع))

۱۰ـ          مقام طوس سے ایک شخص امام صادق(ع) کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جو بندہ تربت ابوعبداﷲ(ص) کی زیارت کرے کیا اجر رکھتا ہے ، امام(ع) نے فرمایا اےطوسی جو کوئی جناب ابو عبداﷲ(ع) کی تربت کی زیارت کرے اور معتقد ہو کہ وہ خدا کی طرف سے امام(ع) ہیں اور واجب اطاعت ہیں تو خدا اس کے گذشتہ و آیندہ گناہ معاف فرمائے گا اور ستر گناہ گاروں کے لیے اس کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسی اثناء میں جناب موسی بن جعفر(ع) تشریف لائے تو انہیں اپنے زانو پر بٹھایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا پھر طوسی کی طرف رخ کیا اور فرمایا اے طوسی یہ میرے بعد امام اورحجت ہے اور اس کے صلب سے ایک فرزند پیدا ہوگا جو آسمان و زمین میں اس ( خدا) کے بندوں کے لیے اس کی رضا ہوگا وہ تمہاری زمین پر زہر سے قتل ہوگا اس پر ظلم وستم کیا جائے اور تمہاری زمین  میں غربت کے عالم میں دفن ہوگا آگاہ ہوجاؤ کہ  جو کوئی اس کی غربت کے عالم میں اس کی زیارت کرے گا یہ اعتقاد لیے ہوئے کہ وہ اپنے باپ(ع) کے بعد امام(ع) ہے اور اس کی اطاعت فرض ہے تو گویا اس بندے نے جناب رسول خدا(ص) کی زیارت کی۔

۱۱ـ           صقر بن دلف کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آقا علی بن محمد(ع) ( امام علی نقی(ع)) سےسنا کہ جو شخص خدا سے کوئی حاجت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ طوس میں غسل کے  ساتھ میرے جد امام رضا(ع) کی تربت کی زیارت کرے اور دو رکعت نماز ان کے سر مبارک کی سمت ادا کرے اور  اپنی حاجت خدا سے بیان کرے قنوت کے دوران، تو اس کی دعا مستجاب ہوگی مگر گناہ اور قطع رحم کے لیے قبول نہ ہوگی اور بیشک اس کی قبر کی جگہ ایک بقعہ بہشت سے ہے اور مومن اس کی زیارت نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اسے دوزخ سے آزاد کرے اور بہشت میں داخل کرے۔

۵۴۲

۱۲ـ          آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا بیشک حلقہء بہشت سونے کے صفحے پر یاقوت سرخ سے ہے جب اس حلقے کو دروازہ بہشت پر آویزاں کیا جائے گا” یا علی“ کا نعرہ بلند کرے گا۔

۱۳ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ جب جناب رسول خدا(ص) نے مکہ فتخ کیا تو اس دن ہم آٹھ ہزار لوگ مسلمان ہوئے اور رات ہونے تک یہ تعداد اسی (۸۰) ہزار تک پہنچی آںحضرت(ص) نے قانون ہجرت کو ختم کرتے ہوئے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے پھر جناب علی بن ابی طالب(ع) سے فرمایا اے علی(ع) اٹھو اور انہیں کرامت خدا سے معجزہ رکھاؤ۔ جب آفتاب طلوع ہوا تو جناب امیر(ع) نے آفتاب سے گفتگو کی اور بخدا اس دن جناب امیر(ع) کے علاوہ لوگوں  نے کسی اور پر رشک نہ کیا میں نے دیکھا کہ علی بن ابی طالب(ع)  اٹھے اور آفتاب سے فرمایا سلام ہو تم پر اے عبد صالح اور اپنے پررودگار کے مطیع، آفتاب نے ان کے جواب میں کہا آپ(ع) پر بھی سلام ہو اے برادر رسول خدا(ص)۔ وصی رسول(ص) اور خلق خدا پر اس کی حجت، یہ سن کر جناب امیر(ع) سجدے میں چلے گئے اور خدا کا شکر ادا کیا آںحضرت(ص) آگے بڑھے اور جناب امیر(ع) کو اٹھایا ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا اے میرے حبیب اٹھو تمہارے گریہ سے اہل آسمان بھی گریہ میں ہیں، خدا تمہارے وجود سے اہل آسمان پر مباہات کرتا ہے۔

ہشام اور عمرو بن عبید کے درمیان مناظرہ

۱۴ـ          امام صادق(ع) نے اپنے اصحاب میں موجود ایک صحابی ہشام سے فرمایا اے ہشام اس نے کہا ” لبیک یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) آپ(ع) نے فرمایا تمہاری جو گفتگو عمرو بن عبید سے ہوئی ہے بیان کرو ہشام نے کہا میں آپ(ع) پر قربان میں ہمت نہیں رکھتا اور شرم محسوس کرتا ہوں کہ آپ(ع) کے سامنے لب کشائی کروں امام(ع) نے فرمایا جب میں نے تجھے اس کا حکم دیا ہے تو بیان کر۔ہشام نے کہا جب مجھے خبر ملی کہ عمرو بن عبید عالم فاضل بنا ہوا مسجد بصرہ میں مجالس منقعد کرتا ہے تو یہ مجھ پر گراں گزرا میں بصرہ گیا اور بروز جمعہ مسجد میں چلا گیا وہاں دیکھا کہ عمرو بن عبیدسیاہ پٹکا کمر سے باندھے سیاہ لباس پہنے اور علماء کی روش اختیار کیے ہوئے لوگوں کا جمگھٹا لگائے ان کے سوالوں

۵۴۳

کے جواب دے رہا ہے میں نے لوگوں کو ہٹا کر راستہ بنایا اور اس کے سامنے جاکر دو زانو بیٹھ گیا جب موقع ملا تو میں نے اس سے کہا اے عالم میں ایک غریب آدمی ہوں اگر تم اجازت دو تو میں ایک مسئلہ تم سے دریافت کرنا چاہتا ہوں اس نے کہا ہاں بیان کرو میں نے کہا کیا تم آنکھیں رکھتے ہو۔ اس نے کہا ہاں رکھتا ہوں۔ میں نے کہا ان سے کیا دیکھتے ہو اس نے کہا میں ان سے رنگوں میں تمیز کرتا ہوں پھر میں نے پوچھا اپنی ناک سے کیا کرتے ہو اس نے کہا بو اور خوشبو سونگھتا ہوں، میں نے کہا دہن رکھتے ہو کہا ہاں میں نےکہا اس سے کیا کرتے ہو کہنے لگا اس سے چیزوں کا مزہ چکھتا ہوں میں نے کہا کیا تم زبان رکھتے ہو کہنے لگا ہاں تو پوچھا اس سے کیا کرتے ہو کہا اس سے گفتگو کرتا ہوں میں نے پوچھا کان رکھتے ہو کہا ہاں۔ میں نے پوچھا ان سے کیا کرتے ہو کہنے لگا آواز سنتا ہوں میں نے پوچھا ہاتھ رکھتے ہو کہنے لگا ہاں۔ میں نے کہا ان سےکیا کرتے ہو کہا ان سے چیزوں کو اٹھاتا ہوں پھر میں نے کہا کیا تم دل رکھتے ہو کہنے لگا ہاں میں نے کہا یہ کیا کام کرتا ہے تو کہا جو کچھ اعضاء کرتے ہیں یہ اس میں تمیز کرتا ہے میں نے کہا اعضاء جو کچھ انجام دیتے ہیں۔ اس کی دل کے بغیر تم تمیز کرسکتے ہو اس نے  کہا میرے فرزند میری جان جب اعضاء کسی چیز کو پہچاننے میں غلطی کرتے ہیں یا دیکھنے ، سننے یا لکھنے میں شک پڑ جاتے ہیں تو میں اسے استعمال کرتا ہوں اور دل سے گواہی طلب کرتا ہوں تاکہ شک زائل ہوجائے۔ میں نے کہا خدا نے  اسے ( دل کو) اعضاء کے شک کو رفع کرنے کی خاطر بنایا ہے  اس نےکہا ہاں میں نے کہا اے ابو عیبید خدا نے جسم کے لیے تو دل بنا دیا جو شک کی صورت میں حق کو پہچانتا ہے اور یقین تک لے جاتا ہے مگر اس ( خدا) نے اپنی مخلوق کو شک و حیرت اور اختلاف میں چھوڑ دیا ہے اور ان کے لیے کوئی امام مقرر نہیں کیا کہ مورد شک میں وہ اس کی طرف رجوع کریں جب کہ تیرے بدن کا امام (دل)  بنادیا تاکہ شک و اختلاف کی صورت میں اس کی طرف رجوع  کیا جائے عمرو بن عبید یہ سن کر خاموش ہوگیا اور کوئی بات نہیں کی پھر کچھ دیر بعد اس نے میری طرف رخ کیا اور کہا تم ہشام ہو میں  نے کہا نہیں کہا۔ کہاں کے ہو۔ میں نے کہا میں کوفہ کا رہنے والا ہوں اس نے کہا پس تم وہی ہو پھر اس نے مجھے آغوش میں لیا اور اپنے پہلو میں بٹھایا اور اس کے بعد کسی سے بات نہ کی یہاں تک  کہ ہم رخصت ہوگئے۔

۵۴۴

 امام صادق(ع) مسکرائے اور فرمایا اے ہشام تجھے یہ تعلیم کس نے دی میں نے کہا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) یہ میری زبان پر بے اختیار آگیا تھا امام(ع) نے فرمایا اے ہشام خدا کی قسم صحف ابراہیم(ع) اور صحف موسی(ع) میں یہ اسی طرح رقم ہے۔

۱۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا آںحضرت(ص) جب معراج پر گئے اور اس جگہ تک پہنچے جہاں تک خدا کی مرضی تھی تو آپ(ص) نے ادب کے ساتھ خدا سے  مناجات کی اور واپس پلٹے جب چوتھے آسمان پر آئے تو خدا کی طرف سے انہیں ندا آئی، ” اے محمد(ص)“ آپ(ص) نے عرض کیا” لبیک ربی“ ارشاد ہوا تیرے بعد تیری امت سے کسے برگذیدہ کروں۔ عرض کیا خدایا تو بہتر جانتا ہے ارشاد ہوا۔ تیرے لیے علی(ع) بن ابی طالب(ع) کو چنا ہے کہ وہ تیرے مختار ہے۔

۱۶ـ                  امام صادق(ع) نے فرمایا، مومن کے لیے شائستہ ہے کہ وہ مندرجہ ذیل خصلتیں رکھتا ہو

     ۱ ـ فتنوں اور آزمائشوں میں با وقار بن کررہے۔   ۲  ـ  بلاؤں اور مصیبتوں میں صبر کرے ۔ ۳ ـ  راحت و آرام میں شکر کرے۔ ۴ ـ  اﷲ کے دیے ہوئے رزق پر قناعت کرئے ۔  ۵ ـ  دوستوں سے عرض مندانہ اور مطلبی محبت نہ کرے۔  ۷ ـ  اپنے بدن کو رنج دے تاکہ لوگ اس سے امان میں رہیں پھر فرمایا علم مومن کا دوست ہے حلم اس کا وزیر ہے صبر اس کا سردار لشکر ہے رفیق اس کا بھائی اور نرمی اس کا باپ ہے۔

۱۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا بی بی فاطمہ(س) کے لیے خدا کے ہاں نو(۹) نام ہیں

ا ) فاطمہ(س) ۔  ۲) صدیقہ(س)۔   ۳)  مبارکہ(س)  ۴) طاہرہ(س)  ۵)  زکیہ(س)  ۶) رضیہ(س)  ۷) مرضیہ(س)  ۸) محدثہ(س)  ۹) زہرا (س)۔

پھر امام(ع) نے فرمایا جانتے ہو ان کا نام فاطمہ(س) کیوں ہے راوی کہتا ہے میں نے کہا میرے آقا آپ(ع) مجھے بتائیں، فرمایا اس لیے کہ دوزخ ان سے شرم کھاتی ہے پھر فرمایا اگر علی(ع) سے سیدہ(س) کی تزویج نہ ہوتی تو قیامت تک زمین پر ان کا کوئی ہمسر نہ ہوتا نہ ہی آدم(ع) اور نہ ہی وہ جو آدم(ع) کے بعد پیدا ہوئے۔

۵۴۵

خدا کا فرشتہ ” محمود“

۱۸ـ          جناب موسی بن جعفر(ع) نے بیان فرمایا جناب رسول خدا(ص) ایک مرتبہ تشریف فرما تھے کہ ایک فرشتہ ان(ص) پر نازل ہوا جس کے چوبیس ہزار چہرے تھے آںحضرت(ص) نے فرمایا میرے حبیب جبرائیل(ع) میں نے آپ کو پہلے کبھی اس صورت میں نہیں دیکھا فرشتے نے عرض کیا اے محمد(ص) میں جبرائیل(ع) نہیں ہوں میرا نام محمود ہے مجھے خدا نے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ نور کی تزویج نور سے کردیجئے  فرمایا کس کی تزویج کس سے کروں فرشتے نے کہا فاطمہ(س) کو علی(ع) سے رشتہ ازدواج منسلک کردیں۔ یہ پیغام دے کر جب یہ فرشتہ واپس ہوا تو اس کے شانوں کے درمیان لکھا تھا۔ ” محمد رسول اﷲ علی وصی رسول اﷲ“ آںحضرت(ص) نے اس سے فرمایا تیرے شانوں کے درمیان یہ کب سے لکھا ہوا ہے  اس نے بتایا آدم(ع) کی خلقت سے بائیس (۲۲) ہزار سال پہلے سے یہ میرے شانوں کے درمیان ثبت ہے۔

۵۴۶

مجلس نمبر۸۷

(۲۸ رجب سنہ۳۶۸ھ)

بی بی فاطمہ(س) کی پیدائش

۱ـ           مفضل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے درخواست کی کہ مجھے بی بی فاطمہ(س) کی پیدائش کا حال بتائیں۔ امام(ع) نے فرمایا جب بی بی خدیجہ(س) کی تزویج جناب رسول خدا(ص) سے ہوئی تو قریش کی عورتیں ان کے پاس نہ جاتی تھیں نہ ہی ان سے سلام لیتیں اور نہ کسی دوسری عورت کو ان سے ملنے دیتیں اس صورت حال سے بی بی خدیجہ(س) کو وحشت ہونے لگی تنہائی و بے تابی اور غم کے بادل بی بی(ع) پر سایہ فگن ہوگئے۔

جب آپ(ع) بی بی فاطمہ(س) کے نور عصمت سے حاملہ ہوئیں تو با اعجاز آپ(ع) شکم مادر میں موجود جنین سے گفتگو فرماتیں اور اس طرح اپنی تنہائی دور کرتیں بی بی خدیجہ(ع) نے اس راز کو جناب رسول خدا(ص) سے پوشیدہ رکھا ایک دن اچانک جناب رسول خدا(ص) تشریف لائے اور بی بی خدیجہ(ع) کو  کسی سے باتیں کرتے ہوئے پایا تو فرمایا اے خدیجہ(ع) تم کس سے باتیں کررہی تھیں بی بی(ع) نے جواب دیا اس بچے سے جو میرے شکم میں موجود ہے یہ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور انسیت رکھتا ہےجناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے خدیجہ(ع) مجھے جبرائیل(ع) نے خبر دی ہے  کہ یہ جنین دختر ہے اور نسل طاہرہ(س) سے ہے اور بہت با برکت ہے خدا نے میری ذریت کو اسی میں سے مقرر فرمایا ہے اور اس کی اولاد سے ائمہ(ع) آئیں گے خدا انہیں اپنی زمین میں خلیفہ مقرر فرمائے گا۔

مدت حمل پوری ہونے تک بی بی خدیجہ(ع) اسی طرح رہیں جب  وقت ولادت آگیا تو قریش اور بنو ہاشم کی عورتوں کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ آئیں اور خدیجہ(ع) کی پذیرائی کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ تم نے محمد(ص) سے شادی کی جو یتیم اور ابوطالب(ع) کا پروردہ ہے اس لیے ہم تمہیں قبول نہیں کرتیں، بی بی خدیجہ(ع) یہ جواب سن کر غمزدہ ہوگئیں ناگاہ چار بلند قامت گندم گوں خواتین جو کہ قریش اور

۵۴۷

 بنو ہاشم کی عورتوں کی مانند معلوم ہوتی تھیں تشریف لائیں۔ انہیں دیکھ کر بی بی خدیجہ(ع) کو خوف محسوس ہوا تو ان میں سے ایک نے بی بی(ع) سے کہا اے خدیجہ(ع) غم نہ کرو اور مت ڈرو ہم تیرے پاس خدا کی طرف سے آئیں ہیں اور تیری بہینیں ہیں، میں سارہ ہوں اور یہ آسیہ بنت مزاحم ہیں جو کہ جنت میں تیری رفیقہ ہیں یہ مریم بنت عمران(ع) ہیں اور یہ موسی بن عمران(ع) کی بہن کلثوم(س) ہیں ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ تیری پذیرائی کریں پھر وہ عام عورتوں کی مانند آپ(ع) کے دائیں ، بائیں آگے اور پیچھے بیٹھ گئیں اور فاطمہ(س) متولد ہوگئیں اور وہ جب دنیا میں تشریف لائیں تو ان سے اس قدر نور پھوٹا کہ مکہ کے دیوار روشن ہوگئے آپ(ع)  اس دنیا میں پاک و پاکیزہ تشریف لائیں آپ(ع) کے نور سے مشرق تا مغرب کوئی گھر ایسا نہ تھا جو منور نہ ہوگیا ہو پھر حجرہ مبارک میں دس حوریں داخل ہوئیں ان میںسے  ہر ایک کے ہاتھ میں بہشت کی صراحیاں اور طشت تھے وہ اپنے ساتھ کوثر سے پانی لائی تھیں انہوں نے وہ پانی کے برتن ان خاتون کے حوالے کیے جو بی بی فاطمہ(س) کے سامنے بیٹھی تھیں ان خاتون نے فاطمہ(س) کو کوثر کے پانی سے غسل دیا اور حوروں کے لائے ہوئے کپڑوں میں سے ایک کپڑے میں آپ(س) کو لپیٹ دیا اور دوسرا سر اور چہرے پر باندھ دیا ان کپڑوں سے مشک و عنبر سے زیادہ خوشبو آتی تھی پھر ان خاتون نے اپنی زبان فاطمہ(س) کے دہن میں ڈال دی فاطمہ(س) گویا ہوئیں اور کہا” اش ه د ان لا ال ه الا اﷲ و اش ه د ان ابی رسول اﷲ سيد الانبياء و ان بعلی سيد الاوصاء  و ولدی سادة الاسباط “ میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ میرے والد رسول اﷲ(ص) سید انبیاء ہیں اور میرا شوہر سید اوصیاء اور میرے فرزند فرزندانِ پیغمبر(ص) اور پھر اس کے بعد بی بی فاطمہ(س) نے ان تمام عورتوں کو ان کے ناموں سے مخاطب کر کے انہیں سلام کیا وہ تمام خواتین مسکرائیں اور خوش ہوگئیں بہشت سے آئی حوروں نے بھی بشارت دی ولادت فاطمہ(س) کے وقت آسمان پر بھی ایک ایسا نور چمکا کہ فرشتوں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر ان خواتین نے کہا اے خدیجہ(ع) اس پاک و پاکیزہ دختر کو لے لو یہ ذکیہ، میمونہ اور مبارک ہے خدا نے اسے اور اس کی نسل کو برکت دی ہے یہ سن کر خدیجہ(ع) خوش ہوگئیں اور فاطمہ(س) کو گود میں لے کر دودھ

۵۴۸

پلانا شروع کیا۔ بی بی فاطمہ(س) روزانہ تین ماہ کی نشو و نما کے برابر بڑھتی تھیں اور ایک ماہ میں آپ(س) ایک سال کے برابر نشو ونما پاجاتیں۔

آںحضرت(ص)  کے سیدہ(س) سے راز و نیاز

۲ـ           ام المومنین عائشہ بیان کرتیں ہیں کہ ایک مرتبہ فاطمہ(س) میرے ہاں تشریف لائیں تو جناب رسول خدا(ص) نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور فرمایا مرحبا میری بیٹی  فاطمہ(س) پھر آپ(ص) نے انہیں اپنے دائیں پہلو میں بٹھا یا اور ان کے کان میں راز کی کوئی بات کہی جسے سن کر فاطمہ(س) رونے لگیں پھر آںحضرت(ص) نے دوبارہ فاطمہ(س) کے کان پر کچھ کہا تو وہ مسکرانے  لگیں یہ دیکھ کر میں نے فاطمہ(س) سے  اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ پہلی مرتبہ جناب رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہر سال جبرائیل(ع) ایک مرتبہ مجھے قرآن پیش کیا تھے اس مرتبہ جبرائیل(ع) دو مرتبہ تشریف لائے تھے لہذا میں سمجھ گیا کہ اب وقت رحلت آگیا ہے اور میرے خاندان میں سے تم وہ پہلی فرد ہو جو مجھے بہشت میں آکر ملے گی یہ خبر سن کر میں نے گریہ کیا تو جناب رسول خدا(ص) نے دوبارہ فرمایا کیا تمہیں پسند نہیں کہ تم مومنین کی عورتوں کی بہشت میں سرداری کرو تو میں مسکرا دی۔

۳ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں آںحضرت(ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اور علی بن ابی طالب(ع) اور فاطمہ(س) وحسن(ع) و حسین(ع) بھی موجود تھے کہ جبرائیل(ع) تشریف لائے اور ایک سیب آںحضرت(ص) کو پیش کیا آںحضرت(ص) نے اس سیب کو لیا اور اسے اپنا تعارف کروایا پھر وہ سیب علی(ع) بن ابی طالب(ع) کو دیا اور ان کا تعارف اس سیب سے کروایا۔ پھر جناب علی(ع) نے وہ سیب آںحضرت(ص) کو دیا جنہوں نے اسے جناب حسن(ع) کو دیا جناب ِ حسن(ع) نے اسے لیا اور بوسہ دے کر اپنا تعارف اس سے کروایا اور واپس  آںحضرت(ص) کو دیدیا آںحضرت(ص) کو دیدیا آںحضرت(ص)  نے وہ سیب لے کر پھر اسے اپنا تعارف کروایا اور دوبارہ علی(ع) کو دیدیا اس کے بعد جب علی(ع) نے چاہا کہ اسے آںحضرت(ص) کو پیش کریں تو وہ ہاتھ سے گر گیا اور دو ٹکڑے ہوگیا اس کے دو ٹکڑے ہوتے ہی اس سے ایک ایسا

۵۴۹

نور خارج ہوکہ زمین و آسمان منور ہوگئے اور اس سیب کے اندر دو سطریں لکھی تھیں کہ ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ یہ تحفہ ہے محمدمصطفی(ص) وعلی مرتضی(ع) اور فاطمہ زہرا(س) و حسن(ع) و حسین(ع) ، سبطین رسول خدا(ص) کے لیے خدا کی طرف سے۔ اور ان کے دوستوں کے لیے قیامت میں دوزخ سے امان ہے۔

۴ـ              حذیفہ بن یمان(رض) بیان کرتے ہیں میں نے دیکھا کہ جناب رسول خدا(ص) نے حسین بن علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے لوگو اسے پہچان لو یہ حسین بن علی(ع) ہے جان لو، جس کے ہاتھ میں اس کی جان ہے یہ بہشت میں ہے اور اس کے ساتھ اس کا دوست بھی بہشت میں ہوگا۔

ارضِ نینوا

۵ـ              ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں میں صفین کے سفر میں جناب امیرالمومنین(ع) کے ہمراہ تھا جب ہم مقام نینوا میں دریائے فرات کے کنارے پہنچے تو جناب امیر(ع) نے با آواز بلند پکارا۔ اے ابن عباس(رض) کیا تم اس جگہ کو پہچانتے ہو میں نےکہا نہیں یا امیرالمومنین(ع)۔ فرمایا ۔ اے ابنِ عباس(رض) اگر تم اس جگہ کو اس طرح پہچانتے جس طرح میں جانتا ہوں تو یہاں سے ہرگز نہ گذرتے جب تک کہ اس طرح گریہ نہ کر لیتے جس طرح مٰیں گریہ کرتا ہوں یہ فرما کر آپ(ع) نے گریہ فرمایا یہاں تک کہ آپ(ع) کی ریش مبارک آنسوں سے تر ہوگئی اور آپ(ع) کے سینے پر بہنے لگے یہ دیکھ کر میں نے بھی ان کے ہمراہ گریہ کیا پھر  آپ(ع) نے فرمایا آہ مجھے آل ابوسفیان سے کیا کام۔ آہ مجھے آل حرب سے جو لشکر شیطان و والیان کفر وعدوان ہیں سے کیا کام۔ اے ابو عبداﷲ(ع) صبر کرو جو تم دیکھتے ہو وہ تمہارے باپ(ع) کو بھی نظر آتا ہے۔پھر جناب امیر(ع) نے پانی طلب کر کے وضو کیا اور بہت طویل نماز پڑھی پھر نماز کے بعد گریہ کیا پھر آپ(ع) نے ایک ساعت کے لیے آرام فرمایا جب آپ(ع) نینوا سے بیدار ہوئے تو فرمایا اے ابن عباس(رض) میں نے کہا میں حاضر ہوں، فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا ہے تم سے بیان کروں میں نے  عرض کیا خدا کرے جو کچھ آپ(ع) نے خواب میں دیکھا ہے وہ آپ(ع) کے لیے خیر و سعادت ہو انشاء اﷲ، آپ(ع) نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ چند مرد آسمان سے نیچے آئے

۵۵۰

جو سفید رنگ کا علم ہاتھ میں لیے ہوئے تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے وہ نور کی سفیدی کی وجہ سے چمک رہے تھے انہوں نے اس زمین کے گرد خط کھینچا پھر نے دیکھا کہ درختوں کی شاخیں جھک گئیں اور تازہ خون اس صحرا میں موج زن ہوگیا پھر نے اپنے  فرزند حسین(ع) کو دیکھا جو خون میں تڑپ رہا  ہے اور استغاثہ کی آواز بلند کر رہا ہے مگر کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا اور سفید پوش مرد جوآسمان سے زمین پر آئے تھے حسین(ع) سے کہہ رہے تھے صبر کرو تم بدترین امت کے ہاتھوں سے قتل ہوگے اور اس وقت بہشت تمہاری مشتاق ہے پھر وہ مرد میرے پاس آئے اور مجھ سے تعزیت کی اور کہا اے ابوالحسن(ع) شاد و خوش رہیے خدا آپ(ع) کی آنکھیں قیامت کے دن ان مصائب کی وجہ سے روشن رکھے گا یہ دیکھ کر میں بیدار ہوگیا میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں  جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے مجھے سچا جانو کیونکہ جناب رسول خدا(ص) نے مجھے  خبر دی تھی کہ جب میں باغیوں سے لڑنے جاؤں گا اور سر کشی کریں گے تو میں اس سر زمین کو دیکھوں گا اور یہ زمین کرب وبلا ہے میرا فرزند حسین(ع) اور اس کے ساتھ اولاد فاطمہ(ع) میں سے سترہ آدمی اس سر زمین میں دفن ہوں گے یہ زمین آسمانوں میں معروف ہے جس طرح کعبہ و حرم مدینہ اور بیت المقدس ہیں پھر جناب امیر(ع) نے فرمایا اے ابن عباس(رض) اس صحرا میں سرگین آہو ڈھونڈو خدا کی قسم میں ہرگز جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی جناب رسول خدا(ص) نے جھوٹ سنا کہ میں اس صحرا میں سرگین کا ڈھیر دیکھوں گ جو زعفران کی طرح زرد ہوگا( سرگین آہو سے مراد ہرن کی مینگنیاں ہیں) ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ میں نے سرگین آہو کو تلاش کرنا شروع کیا اور ایک جگہ میں نے ان سرگین کا ڈھیر دیکھا جناب امیر(ع) نے فرمایا خدا اور اس کا رسول(ص) سچ فرماتے ہیں پھر آپ(ع) تیزی سے ان سرگین کی طرف بڑھے اور اٹھا کر انہیں سونگھا اور فرمایا اے ابن عباس(رض) یہ وہی سرگین ہیں جس کی مجھے خبر دی گئی ہے اے ابن عباس(رح) کیا تم جانتے ہو یہ سرگین کونسی ہیں، یہ وہی ہیں کہ جب عیسی(ع) بن مریم(ع) اس صحرا سے گزرے اور ان کے حواری اور مصاحب ان کے ہمراہ تھے تو ان کی نظر ان سرگین پر پڑی انہوں نے دیکھا کہ ایک گلہء آہو یہاں جمع ہے اور تمام آہو رو رہے ہیں حضرت عیسی(ع) نے یہ سرگین اٹھا کر سونگھے اور بیٹھ کر رونا شروع کردیا ان کے مصاحبین نے بھی ان کے ہمراہ گریہ کرنا شروع کردیا پھر کچھ دیر بعد حضرت عیسی(ع) سے

۵۵۱

 دریافت کیا کہ کیا وجہ سے آپ(ع) یہاں بیٹھ کر گریہ کر رہے ہیں تو حضرت(ع) نے فرمایا ، کیا تم جانتے ہو یہ کون سی سرزمین ہے انہوں نے کہا نہیں تو فرمایا یہ وہ سرزمین ہے جس میں نبی آخر الزمان کا فرزند اور ان کی دختر فاطمہ(س) کا فرزند(ع) شہید ہوگا اور دفن ہوگا اس زمین کی خاک کی خوشبو مشک سے زیادہ ہے میرے گریہ کرنے کا سبب یہی ہے ان شہیدوں کی طینت ابنیاء(ع) و اولیاء(ع) جیسی ہے یہ آہو مجھ سے باتین کررہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں دوسرے درندوں کے شر سے محفوظ ہیں یہ فرماکر حضرت عیسی(ع) نے ان سرگین کو سونگھا اور فرمایا اس سرگین کی خوشبو میں اس گھاس کی خوشبو ہے جو اس سرزمین ( کربلا) میں اگتی ہے خدایا اس (سرگین و آہو) کو اپنے حال پر اس وقت تک قائم رکھنا جب تک اس (حسین(ع)) کا باپ یہاں آکر اسے نہ سونگھ لے اور یہ اس کے لیے موجب سلی ہو۔

اے ابن عباس(رض) یاد رکھو عیسی(ع) کی یہ دعا اب تک باقی رہی ہے اور مدت دراز کے باوجود انہیں (سرگیں)محفوظ رکھا گیا ہے اور یہ زمین، زمین کرب و بلا ہے اس کے بعد جناب امیر(ع) نے با آواز بلند فرمایا اے پروردگار عیسی بن مریم(ع)۔ میرے بیٹے کے قاتلوں کو اور وہ اشقیاء جو ان کی مدد کریں اپنی رحمت و برکت نہ دینا۔ یہ کہہ کر جناب امیر(ع) کثرت گریہ کی وجہ سے منہ کے بل گر گئے اور ایک ساعت بے ہوش رہے جب آپ(ع) ہوش میں آئے تو تھوڑی سی سرگین اٹھا کر اپنی رداء مبارک میں باندھ لیں اور مجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی تھوڑی سی اپنی رداء میں باندھ لوں پھر جناب امیر(ع) نے فرمایا اے ابن عباس(رض) جب تم دیکھو کہ یہ سرگین تازہ خون میں تبدیل ہوگئیں ہیں تو سمجھ جانا کہ میرا فرزند حسین(ع) اسی زمین میں شہید کردیا گیا ہے۔

ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ میں ان سرگین کو ہمیشہ اپنی آستین کے ساتھ باندھ کر رکھتا تھا اور ان کی حفاظت کیا کرتا تھا اور اپنی نماز واجب سے زیادہ ان کی حفاظت کرتا تھا ایک دن میں اپنے گھر میں آرام کررہا تھا اور جب میں نیند سے بیدار ہوا تو کیا دیکھا کہ میری آستین خون آلودہ ہوچکی ہے اور ان سرگین سے  خون جاری ہے یہ دیکھ کر میں رونے پیٹنے لگا اور واویلا کرنے لگا کہ خدا کی قسم حسین بن علی(ع) شہید ہوگئے ہیں میں نے ہرگز علی بن ابی طالب(ع) سے جھوٹ نہیں سنا مجھے جو خبر دی گئی

۵۵۲

تھی وہ وقوع پذیر ہوگئی ہے جب میں گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ ایک غبار مدینہ کو گھیرے ہوئے ہے اور لوگ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے آفتاب خون سے بھرے ہوئے طشت کی مانند سرخ ہوچکا ہے مدینے کے دیوار اس طرح سرخ ہوگئے ہیں جیسے ان پر خون مل دیا گیا ہو اس کے بعد میں گھر واپس آگیا اور گریہ کی حالت میں کہا خدا کی قسم حسین بن علی(ع) شہید ہوگئے ہیں ناگاہ گھر کے اطراف سے ایک آواز میرے کان میں پڑی مگر آواز دینے والا نظر نہ آیا اور وہ آواز یہ تھی کہ اے آل رسول(ص) صبر کرو فرزندِ رسول(ص) شہید ہوگئے ہیں۔ اور جبرائیل(ع) روتے ہوئے نازل ہوئے ہیں جب یہ آواز میں نے سنی تو میری گریہ و زاری زیادہ ہوگئی اور میں نے جان لیا کہ حسین(ع) اسی وقت شہید کیے گئے تھے اس دن محرم کی دس (۱۰) تاریخ تھی اس کے بعد جب کربلا سے شہادت حسین(ع) کی خبر مدینہ پہنچی تو معلوم ہوا کہ امام حسین(ع) کو اسی دن ( دس محرم کو) ہی شہید کیا گیا تھا اور وہ جماعت جو کربلا میں موجود تھی انہوں نے بھی بیان کیا کہ شہادت حسین(ع) کے بعد ویسی ہی آواز کربلا میں بھی سنائی دی تھی جیسی مدینہ میں سنی گئی تھی مگر آواز دینے والا نظر نہیں آیا ہمارا خیال ہے یہ آواز حضرت خضر(ع) کی تھی۔

۶ـ           زرارہ بیان کرتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا جب جناب رسول خدا(ص) معراج پر گئے تو جس مخلوق کے پاس سے گذرے اسے خوش وخرم دیکھا مگر ایک فرشتے ایسا دیکھا جو شاد نہ تھا آپ(ص) نے جبرائیل(ع) سے دریافت کیا کہ میں نے اہل آسمان میں سے جسے دیکھا خوش وخرم دیکھا مگر اس فرشتے کو شاد نہیں دیکھا یہ کون ہے کیا خدا نے اسے اس طرح پیدا کیا ہے  جبرائیل(ع) نے فرمایا یہ خازن دوزخ ہے اور خدا نے اسے اسی طرح خلق فرمایا  ہے میں چاہتا ہوں آپ(ص) اس سے دوزخ کے بارے میں پوچھیں۔ پھر جبرائیل(ع) نے خازن جہنم سے کہا کہ محمد رسول خدا(ص) ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ تم سے دوزخ کے بارے میں پوچھوں۔ اس نے کہا میرے سامنے خدا تعالی نے ایک شخص کو حاضر کرنے کا حکم دیا جب وہ حاضر کیا گیا تو اس کو گردن سے پکڑ کر اس کی جان نکالنے کا حکم دیا گیا جب اس کی جان نکلتے میں نے دیکھی تو تب سے آج تک میں نہیں مسکرایا۔

             ”وصلی اﷲ علی رسولہ و آلہ الطاہرین۔“

۵۵۳

مجلس نمبر۸۸

(سلخ رجب سنہ۳۶۸ھ)

آںحضرت(ص) کی ولادت با سعادت

۱ـ           لیث بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ معاویہ کے پاس بیٹھا تھا اور کعب الاحبار بھی وہیں موجود تھا میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی کتابوں میں آںحضرت(ص) کے ولادت کے متعلق کیا پیش گوئیاں پڑھیں اور ان(ص) کے کیا فضائل و صفات تم نے مرقوم دیکھے میرا سوال سن کر کعب نے معاویہ کی طرف دیکھا کہ اس کے کیا تاثرات ہیں کہیں وہ اس کے بولنے پر راضی ہے یا نہیں۔ اس وقت خدا کی قدرت سے معاویہ کی زبان پر جاری ہوا کہ اے ابو اسحاق جو کچھ تم نے دیکھا اور جو کچھ تم جانتے ہو بیان کرو۔

کعب نے کہا میں نے بہتر(۷۲) آسمانی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور دانیال(ع) کے صحائف بھی پڑھے ہیں ان تمام کتابوں میں ان کا نام بہت واضح طور پر موجود ہے۔ اور ان(ص) کی عترت(ع) و ولادت کا تذکرہ ہے سوائے حضرت عیسی(ع) اور حضرت محمد(ص)  کی ولادت کے کسی نبی یا پیغمبر(ع) کی ولادت کے وقت فرشتے نازل نہیں ہوئے اور سوائے جناب مریم(ع) اور جناب آمنہ(ع) کے کسی کے واسطے آسمانوں کے پردے نہیں ہٹائے گئے اور حضرت عیسی(ع) اور حضرت محمد(ص) کی ولادت کے سوا کسی اور عورت پر فرشتے موکل نہیں کیے گئے حضرت محمد(ص) کے حمل کی علامت یہ تھی کہ جس رات جناب آمنہ(ع) حمل سے ہوئیں ساتوں آسمانوں پر ایک منادی نے ندار دی کہ  آپ(ع) کو خوشخبری ہو، در شہوار نطفہء خاتم الانبیاء(ص) قرار پایا اس خوشخبری کی منادی تمام زمینوں میں بھی کی گئی اور کوئی چلنے اور پرواز کرنے والا ایسا نہیں تھا جس کو آںحضرت(ص) کی ولادت کی خبر نہ ہوئی ہو۔ آںحضرت(ص) کی ولادت کی رات ستر ہزار قصر یاقوتِ سرخ اور ستر ہزار قصر مروارید کے بنائے گئے جن کے نام قصور ولادت رکھے گئے اور تمام بہشتوں کو آراستہ کیا گیا اور ان سے فرمایا گیا کہ خوشی مناؤ اور اپنے مقام پر بالیدہ

۵۵۴

ہوتی رہو آج تمہارا دوست اور دوستوں کا پیغمبر(ص) پیدا ہوا ہے یہ سن کر ہر بہشت خوش ہوکر ہنسی اور وہ قیامت تک ہنستی رہیں گی اور میں نے سنا ہے کہ دریا کی مچھلیوں میں سے ایک عماسا نام کی مچھلی ہے جو سب سے بڑی ہے جس کی ہزار دمیں ہیں اس کی پیٹھ پر ہر وقت سات لاکھ گائیں ایسی چلتی ہیں کہ ہر گائے دینا سے بڑی  ہے ہر گائے کے سر پر ستر ہزار زمرد کے سینگ ہیں اس مچھلی کی پشت پر جب یہ گائیں چلتی ہیں تو اسے پتا بھی نہیں چلتا وہ  مچھلی حضرت(ص) کی ولادت سے خوش و مسرور ہو کر حرکت میں آئی اگر خدا اسے ساکن ہونے کا حکم نہ دے دیتا تو تمام دینا پلٹ جاتی۔ میں نےسنا کہ اس روز کوئی پہاڑ ایسا نہ تھا جس نے دوسرے پہاڑ کو خوشخبری نہ دی ہو سب پہاڑ ” لا الہ الا اﷲ“ کا ورد کررہے تھے اور تمام پہاڑ آںحضرت(ص) کی ولادت کی خوشی میں کوہ ابو قیس کے سامنے جھکے ہوئے تھے تمام درخت اور ان کی شاخیں اپنے پتوں اور پھلوں سمیت خداوند عالم کی تقدیس و تسبیح کررہے تھے اس روز آسمان و زمین کے درمیان مختلف انور کے ستر ستوں نصب کیے گئے جس میں سے کوئی ایک، دوسرے سے متشابہ نہ تھا جب حضرت آدم(ع) کو آںحضرت(ص) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو فرطِ مسرت سے ان کا حسن ستر گنا بڑھ گیااور موت کی تلخی ان کے حلق سے زائل ہوگئی او حوض کوثر میں خوشی سے تلاطم پیدا ہوا اور اس نے دریاقوت کے ستر ہزار قصر آںحضرت(ص) پر نثار کرنے کے واسطے اپنی تہہ میں سے نکال کر باہر ڈال دیئے شیطان کو زنجیروں سے چالیس روز کے لیے جکڑ دیا گیا اور اس کا تخت چالیس روز کے لیے پانی میں غرق کر دیا گیا تمام بت سرنگوں ہوگئے اور ان کی زبانوں سے فریاد واویلا کی آوازیں بلند ہونے لگیں خانہ کعبہ سے آواز بلند ہوئی کہ اے آل قریش تمہاری طرف ثواب کی خوشخبری دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا آگیا ہے اور اس کا ساتھ دینے میں عزت ابدی اور  بے انتہا فائدہ ہے اور وہی خاتم النبیین(ص) ہے پھر کعب نے کہا ہم نے کتابوں میں پایا ہےکہ ان(ص) کی عترت(ع) ان کے بعد تمام دنیا کی مخلوق سے افضل ہے اور جب تک ان میں سے ایک بھی اس زمین پر رہے گا۔ دنیا والے خدا کے عذاب سے امان میں رہیں گے۔

معاویہ نے پوچھا اے ابو اسحاق اس(ص) کی عترت(ع) کون لوگ ہیں کعب نے کہا ان(ص) کی عترت(ع) اولاد فاطمہ(س) ہیں یہ سن کر معاویہ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگا اور اپنی ڈارھی پر

۵۵۵

 ہاتھ پھیرنے لگا پھر کعب نے کہا ہم نے ان(ص) کے دونوں فرزندوں کے اوصاف کے بارے میں کتابوں میں پڑھا اور دیکھا ہے کہ وہ دونوں فرزندان فاطمہ(س) ہیں اور انہیں بدترین خلق شہید کردیں گے معاویہ نے پوچھا انہیں کون لوگ قتل کریں گے تو اس نے کہا انہیں قریش میں سے ایک شہید کرے گا یہ سن کر معاویہ غصہ میں بے تاب ہو کر بولا اگر تم خیریت چاہتے ہو تو میرے پاس سے چلے جاؤ تو ہم لوگ اٹھ کر وہاں سے چلے آئے۔

۲ـ           نویر بن سعید اپنے والد سعید سے اور وہ حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب امیرالمومنین(ع) مسجد بصرہ کے منبر پر تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو میرا حسب ونسب بیان کرو جو کوئی مجھے پہچانتا ہے وہ لوگوں کے سامنے میرا نسب بیان کرے یا پھر میں اپنا نسب خود ہی بیان کرتا ہوں۔ میں زید(رح) بن عبد مناف(رح)  بن عامر(رح)  بن عمرو(رح)  بن مغیرہ(رح)  بن زید(رح)  بن کلاب(رح)  ہوں یہ سن کر ابن کوا کھڑا ہوا اور کہا اے میرے آقا ہم آپ(ع) کا نسب اس کے سوا نہیں جانتے کہ آپ علی(ع) بن ابی طالب(ع) بن عبدالمطلب(ع) بن ہاشم(رح) بن عبدمناف(رح) بن قصی(رح) بن کلاب(رح) ہیں جناب امیر(ع) نے فرمایا اے بغیر باپ کی اولاد میرا نام میرے والد(ع) نے اپنے جد کے نام پر زید رکھا اور میرے والد(ع) کا نام عبدمناف(ع) ہے مگر ان کی کنیت ابوطالب(ع) زباں زد عام ہوگئی میرے دادا کا نام عبدالمطلب(ع) عامر ہے مگر ان کی کنیت عبدالمطلب(ع) ہی عرف عام میں مستعمل ہوگئی ان کے والد کا نام ہاشم عمرو(رح) ہے مگر وہ لقب سے شہرت پاگئے ان کے والد کا نام عبدو مناف مغیرہ(رح) ہے لیکن وہ اپنے لقب سے پکارے جانے لگے ان کے والد کا نام قصی زید ہے مگر عرب کے لوگ ان کی کنیت کے نام سے انہیں پکارنے لگے یہ لوگ دور کے شہروں سے مکہ میں آئے اور ان کے لقب ان کے ناموں پر  غالب ہوگئے۔

۳ـ          ابوعبد اﷲ امام صادق(ع) نے فرمایا خدا نے داؤد(ع) کو وحی کی کہ میرے بندوں میں سے جب بھی کوئی میری خوشنودی کے لیے ایک نیک عمل کرتا ہے تو میں نے اس کے لیے بہشت کو مباح کرتا ہوں داؤد(ع) نے عرض کیا خدایا وہ نیک کام کیا ہے تو ارشاد ہوا وہ نیک کام یہ ہے کہ کوئی بندہ میری خوشنودی کی خاطر ایک دانہ خرما کسی مستحق کو دے داؤد(ع) نے عرض کیا بارالہا یہ ( بہشت ) اس کے لیے بھی ہے تو تجھے پہچانتا ہو( تیری معرفت رکھتا ہو) اور تجھ سے امید قطع نہ کرے۔

۵۵۶

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ہم وہ اول خاندان ہیں کہ خدا نے ہمارے نام کو بلند کیا جب خدا نے زمین و آسمان کو خلق کیا تو منادی کو حکم دیا کہ وہ تین بار آواز بلند کرے ”اش ه د ان لا ال ه الا اﷲ محمد رسول اﷲ اش ه د ان عليا اميرالمومنين حقا

۵ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا خدا نے آںحضرت(ص) کو وحی کی کہ  ” اے محمد(ص) میں نے تجھے پیدا کیا اور اس وقت کوئی چیز نہ تھی پھر میں نے اپنی روح کو تجھ میں پھونکا اور تجھے گرامی کیا کہ تیری اطاعت تمام خلق پر لازم قرار دی جو کوئی تیری اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور اس امر کو علی(ع) اور اس کی نسل کے لیے مخصوص گیا ہے۔“

۶ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا ہر صبح دو فرشتے ندا دیتے ہیں کہ اے طالب خیر سامنے آ اور اے طالب شر پیچھے  جا، کیاکوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے کیا کوئی ہے جو مغفرت طلب کرتا ہو کہ اسے معاف کیا جائے ، کوئی ہے جو تائب ہو اور اس کی توبہ قبول کی جائے کیا کوئی ایسا ہے جو مغموم ہو کہ اس کا غم ختم کیا جائے خدایا جو کوئی اپنا مال تیری راہ میں خرچ کرتا ہے اسے اس کا بدلہ دے اور جو کوئی بخیل ہے اسے تلف کر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ان کی یہ دعا تمام دن جاری رہتی ہے۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوجاتا ہے۔

۷ـ          ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا خدا نے  عیسی بن مریم(ع) کو وحی کی کہ اے عیسی(ع) میرے دین کے علاوہ کسی کو گرامی مت رکھو اور جو اسے گرامی نہ رکھے گا میں اپنی رحمت سے اسے نعمت عطا نہ کروں گا اے عیسی(ع) اپنے اندرون و بیرون کو پانی سے دھوکے ( پاکیزہ ) رکھو حسنات کو زخیرہ کرو میرے حضور توبہ کے لیے تیار رہو اپنی حزین آواز مجھ سناتے رہو اور جو کچھ بھی ہے وہ میرے ہی پاس ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) کا فرمان ہے کہ جو کوئی کسی کافر کو دوست رکھتا ہے وہ خدا کو دشمن رکھے ہوئے ہے اور جو کوئی کسی کافر کو دشمن رکھے ہوئے ہے وہ  خدا کا دوست ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا ، دشمن خدا کا دوست خدا کا دشمن ہے۔

۵۵۷

۹ـ اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین(ع) نے اپنی تقریر میں ارشاد فرمایا ، اے لوگو! میری بات غور سے سنو اور سمجھو کہ جدائی نزدیک ہے میں خلق پر امام(ع) ہوں اور بہترین لوگوں میں سے وصی ہوں میں عترت طاہرہ(ع) اور ائمہ(ع) کا باپ ہوں جو رہبر ہیں، جناب رسول خدا(ص) کا برادر ان کا وصی ولی اور وزیر ہوں میں ان(ص) کا صاحب، صفی اور ان کا حبیب وخلیل ہوں میں امیرالمومنین(ع) اور سفید چہروں و ہاتھوں والوں کا پیشوا اور سید الاوصیاء ہوں میرے ساتھ جنگ خدا کے ساتھ جنگ ہے میرے خلاف سازش خدا کے خلاف سازش ہے میری اطاعت خدا کی اطاعت اور مجھ سے دوستی خدا کے ساتھ دوستی ہے میرے شیعہ اولیاء اﷲ ہیں اورمیرے انصار اںصارانِ خدا ہیں جان لو جب مجھے پیدا کیا گیا تو کسی چیز کا وجود نہ تھا جناب رسول خدا(ص) کے اصحاب نے اپنے پیغمبر(ص) امی کی زبانی سنا اور یاد کیا ہے کہ ناکثین ، مارقین و قاسطین ملعون ہیں اور جو افترا باندھتے ہیں وہ نا امید ہیں۔

۱۰ـجناب موسی بن جعفر(ع) فرماتے ہیں میں نے اپنے والد(ع) سے سنا کہ بندہ جب سورہ حمد پڑھتا ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور اس کی جزا بھی رکھتا ہے پھر میرے والد(ع) نے فرمایا  جو کوئی سورة حمد کو پڑھے وہ امن میں ہوگا پھر انہوں نے فرمایا ” جو انا انزلنا“ پرھتا ہے اس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ تو نے سچ کہا اور معاف کردیا گیا پھر میرے والد(ع) نے فرمایا، جوکوئی ” آیت الکرسی“ پڑھتا ہے اس کے لیے مبارک ہے مبارک ہے اور اس کے لیے دوزخ سے بیزاری نازل کی گئی ہے۔

۱۱ـ ابو الحسن موسی بن جعفر(ع) نے فرمایا خدا بروز جمعہ ہزار نفعات رکھتا ہے اور جس کسی کا جتنا حصہ ہوتا ہے دیتا ہے ، جو کوئی  عصر کے بعد بروز  جمعہ سو مرتبہ ” انا انزلنا“ پڑھے خدا اسے وہ ہزار نفعات اور ان کی مانند مزید عطا کرتا ہے۔

۱۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا جبرائیل(ع) جناب رسول خدا(ص) پر نازل ہوئے اور فرمایا اے محمد(ص) خدا تجھے سلام دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تیرے باپ پر کہ جس میں سے تجھے لایا اس کو کھ پر کہ جس نے تجھے اٹھایا اور اس دامن پر کہ جس نے تجھے پرورش کیا پر آگ کو حرام قرار دیا جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے جبرائیل(ع) اس وحی کی وضاحت کریں جبرائیل(ع) نے فرمایا باپ جو آپ(ص) کو لایا وہ عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) ہیں وہ جو کچھ جس نے آپ(ص) کو اٹھایا سے مراد آپ کی والدہ آمنہ(ع) بنت وہب ہیں

۵۵۸

 اور دامن کہ جس نے آپ کو پرورش کیا وہ جناب ابوطالب(ع) بن عبدالمطلب(ع) اور فاطمہ(ع) بن اسد ہیں۔

۱۳ـ                  جناب ابو عبداﷲ امام صادق(ع) نے ارشاد فرمایا ایک زمانے میں بنی اسرائیل کو قحب نے گھیر لیا حالت یہاں تک جا پہنچی کہ انہوں نے قبروں سے مردے نکال کر کھانا شروع کردیے ایک قبر انہوں نے ایسی کھودی کہ اس سے ایک لوح بر آمد ہوئی جس پر تحریر تھا کہ میں فلاں پیغمبر ہوں ایک حبشی میری قبر کھولے گا، میں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے ا سے حاصل کیا جو کچھ کھایا اس سے فائدہ حاصل کیا اور جو کچھ چھوڑا اس سے نقصان اٹھایا۔

۱۴ـ          پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی اپنے دل میں تعصب رکھتا ہوگا تو خدا روزِ قیامت اسے زمانہ عرب کے جہلا کے ساتھ محشور کرے گا۔

۱۵ـ                  امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) سے روایت ہے، جو کوئی ” سبحان اﷲ“ کہے تو خدا اسکے لیے بہشت میں درخت لگائے گا جو کوئی ” الحمد ﷲ“ کہے خدا اس کے لیے بہشت میں درخت لگائے گا جو کوئی ” لا الہ الا اﷲ “ کہے خدا اس کے لیے بہشت میں درخت لگائے گا ایک صحابی نے کہا یا رسول اﷲ(ص) کیا ہم بہشت میں بہت زیادہ درخت رکھتے ہیں آںحضرت(ص) نے فرمایا ہاں مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ آگ نازل ہو اور انہیں جلادے  اور خداتعالی ارشاد فرماتا ہے

” آیا وہ بندے ہیں کہ ایمان لائے اور خدا اور اس کے رسول (ص) پر اور فرمانبردار ہیں اور اپنے عمل سے اس کو باطل کرتے ہیں۔ “ ( محمد(ص)، ۳۳)

۱۶ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی بازار میں (روز مرہ معمولات کے دوران) اشہد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ “ کہے تو خدا اس کے لیے ایک لاکھ نیکیوں کا ثواب لکھتا ہے۔

۵۵۹

مجلس نمبر۸۹

(غرہ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا ۔ خدانے آدم(ع) کو وحی کی کہ اے آدم(ع) میں نے تیرے لیے تمام خیر کو چار کلمات میں جمع کردیا ہے جن میں سے ایک مجھ سے ہے ایک تیرے لیے ایک تیرے اور میرے درمیان اور ایک تیرے اور لوگوں کے درمیان ہے۔

جو تیرے لیے ہے وہ تیرا عمل ہے جس کی جزا کے تم محتاج ہو وہ میں تمہیں دوں گا جو تیرے اور میرے درمیان ہے وہ تیرا مجھ سے دعا کرنا ہے اور جو میرے لیے ہے وہ تیری دعاؤں کو قبول کرنا ہے اور جو تیرے اور خلق کے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ تو ان کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔

۲ـ            جناب علی بن موسی (ع) ( امام رضا(ع)) نے ارشاد فرمایا خدایا تیری توانائی عیاں اور تیری ہیبت نہاں ہے  خدایا جو تجھے نہیں جانتے وہ تجھے اجسام سے تشبہیہ دیتے ہیں اور یہ درست نہیں ہے  معبودا میں ان سے بیزار ہوں جو تیری تشبیہ بناتے ہیں اور تجھے درک نہیں کرتے تو نے جو کچھ نعمت سے انہیں نوازا ہے تو یہ تیری راہنمائی کی وجہ سے ہے ورنہ وہ  اس قابل نہیں ، جبکہ ان پر حق تو یہ تھا کہ ان نعمتوں کے حصول کے بعد وہ تجھے ہی پہچانتے اور تجھ ہی تک رسائی اختیار کرتے جب کہ وہ تجھے نہیں پہچانتے اور تیرے لیے علامات بیان کرتے  اور بدن سے وصف کرتے ہیں اے میرے پروردگار جس چیز سے یہ تجھے تشبیہ دیتے ہیں تو اس سے کہیں برتر ہے۔

۳ـ          مفضل بن عمر امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب علی بن حسین(ع) ( امام زین العابدین(ع) ) سے سوال ہوا کہ صحبت سے کیا مراد ہے آپ(ع) نے فرمایا صحبت یہ ہے کہ پروردگار مرے سر پر موجود ہے  دوزخ میرے سامنے ہے موت میرے پیچھے اور حساب میرے گرد ہے اور میں خود حساب میں جکڑا ہوا ہوں جس چیز کو پسند نہیں کرتا اپنے پاس نہیں رکھتا اور جو کچھ برا جانتا ہوں وہ آگے ہے اور میں ناطاقت ہوں۔ ( عاجز ہوں)  کہ عمل دوسرے کے ہاتھ میں ہے اگر وہ چاہے تو

۵۶۰