مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277258
ڈاؤنلوڈ: 6924

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277258 / ڈاؤنلوڈ: 6924
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجھے گرفت میں کرے اور چاہے تو مجھے چھوڑ دے کون ہے جو مجھ سے احتیاج رکھتا ہے۔

۴ـ          امام صادق(ع) ارشاد فرماتے ہیں لوگوں کی گرفتاری بڑی ہے کہ اگر انہیں دعوت دوں تو یہ ہمیں قبول نہیں کرتے اور اگر انہیں چھوڑدوں تو ان کی راہبری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جس کسی کا دل ہماری دوستی سے ٹھنڈا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ماں کے لیے بہت زیادہ دعا کیا کرے کہ اس کی ماں نے اس کے باپ کےساتھ خیانت نہیں کی۔

۶ـ           ابراہیم کرخی کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ اگر کوئی بندہ اپنے خواب میں خدا کو دیکھے تو یہ کیسا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا یہ وہ شخص ہے کہ دین نہیں رکھتا کیونکہ خدا بیداری، خواب، دنیا اور آخرت میں نہیں دیکھا جاتا۔

۷ـ          ابان بن عثمان احمر کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ مجھے بتائیے کیا خدا ہمیشہ سے ہی سننے اور دیکھنے والا اور توانا ہے امام(ع) نے فرمایا ہاں پھر میں نے کہا جو لوگ آپ(ع) کے ذریعے جاننے والا اور غصے میں قدرت کے ذریعے سے توانا ہوا ہے امام(ع) نے فرمایا جو کوئی اس عقیدے کا رکھنے والا ہے جان لوکہ وہ مشرک ہے اور ہرگز ہمارا پیرو کار نہیں خدا تعالی ذات ہے مگر دانش مند دیکھنے والا سننے والا اور توانا۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے اور انہوں نے اپنے آبائے طاہرین(ع) سے روایت کیا ہے کہ سلمان فارسی(رح) اور ایک بندے  کے درمیان نزاع ہوا اور گفتگو کے دوران اس شخص نےجناب سلمان فارسی(رح) سے کہا ” تم کون ہو“ سلمان نے کہا تیرا اور میرا آغاز خون کے ایک نطفے سے ہوا اور تیرا اور میرا انجام ایک بد بودار مردار ہے ہمیں روزِ قیامت میزان سے گزرنا ہے اور اس وقت جس کی میزان وزنی ہوگی وہ بلند ہوگا اور جس کی میزان ہلکی ہوگی وہ پست ہوگا۔

۹ـ           امام رضا (ع) نے اپنے متعلق فرمایا میں زہر سے قتل کیا جاؤں گا اور ایک سرزمین میں غربت کے عالم میں دفن کیا جاؤں گا کیا تم جانتے ہو وہ زمین کونسی ہے، میرے والد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) سے اور انہوں نے جناب رسول خدا(ص) سے میرے متعلق فرمایا  ہے کہ جو کوئی ،

۵۶۱

 میرے عالم غربت میں میری زیارت کرے گا۔ میں اور میرے والد(ع) روزِ قیامت اس کے شفیع ہوں گے اور جس کسی کے ہم شفیع ہونگے وہ نجات پائے گا چاہے اس کے گناہ ستاروں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

ربیع حاجب کا بیان

۱۰ـ          داؤد شعیری کہتے ہیں کہ ربیع حاجب مںصور نے بیان کیا کہ جب منصور دوانیقی تک کسی نے امام صادق(ع) کے متعلق ایک بات پہنچائی جو اس ( منصور دوانیقی)  سے متعلق تھی تو اس نے امام(ع) کو طلب کرلیا جب امام(ع) اس کے دروازے پر پہنچے تو اندر سے میں (ربیع حاجب) باہر آیا اور امام(ع) سے کہا اس ظالم و جابر کے عتاب سے خدا آپ(ع) کو بچائے اس وقت وہ آپ(ع) سے سخت ناراض اور غصے کی حالت میں ہے آپ(ع) نے فرمایا خدا میرا محافظ و مددگار ہے وہ میری مدد فرمائے گا انشاء اﷲ تعالی۔ تم جاؤ اور میرے لیے اس سے ملنے کی اجازت لے آؤ۔ وہ اندر گیا اور اجازت لے آیا آپ(ع) اندر تشریف لے گئے اور اسے سلام کیا اس نے سلام کو جواب دیا اور کہنے گا اے جعفر(ع) تمہیں معلوم ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے تمہارے جد علی(ع) کے بارے مین فرمایا ہے کہ اے علی(ع) اگر مجھے اس کا ڈر نہ ہوتا کہ میری امت کا ایک گروہ تمہارے بارے میں وہ گمان کرے گا جس طرح ںصاری عیسی بن مریم(ع) کے بارے میں گمان کرتے ہیں تو میں تمہاری وہ فضیلت بیان کرتا کہ لوگ تمہارے قدموں کی خاک برکت و شفا کے لیے اٹھالے جاتے۔ اور علی(ع) نے اپنے متعلق خود فرمایا ہے کہ میرے بارے میں دو  لوگ ہلاکت کا شکار ہون گے ایک وہ  جو میری محبت میں حد سے تجاوز کرجائے اور دوسرا وہ جو میری دشمنی میں حد سے تجاوز کر جائے اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں خدا کی قسم اگر حضرت عیسی(ع) ںصاریٰ کے قول پر خاموش رہتے تو خدا انہیں معذب کردیتا ۔ اے جعفر(ع) تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ تمہارے بارے میں کیا کیا جھوٹ اور بہتان کہا جاتا ہے مگر ان سب پر تمہاری خاموشی اور رضا اﷲ کی ناراضگی کا سبب ہے حجاز کے احمق اور کمینے لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تم عالمِ زمانہ ہو معبود کی ناموس وحجت ہو اس کے ترجمان اور اس کے علم کے خزینہ دار اس کے عدل کی میزان ہو اس

۵۶۲

کے وہ روشن چراغٰ ہو جس سے طلب حق  کے لیے تاریکیان دور ہوجاتی ہیں اور راستہ واضح ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ تمہارے حدود کو نہ پہچاننے والے کسی عامل کا عمل نہ دنیا میں اﷲ قبول کرے گا اور نہ قیامت میں اس کے عمل کا کوئی وزن ہوگا ان لوگوں نے تمہیں حد سے بڑھا دیا ہے اور ایسی باتیں تیرے بارےمیں کہتے ہیں جو تم میں نہیں ہیں بہتر یہ ہے کہ تم اپنے بارے میں غلط فہمی نہ پیدا ہونے دو اور سچ سچ کہہ دو اس لیے کہ سب سے پہلے تیرے جد محمد مصطفی(ص) سچ بولنے والے تھے اور سب سے پہلے تیرے جد حضرت علی(ع) نے ان(ص) کی تصدیق کی تھی تمہیں بھی یہی چاہیے کہ ان ہی حضرات(ع) کے نقش قدم پر چلو اور انہیں کا راستہ اختیار کرو۔

امام صادق(ع) نےفرمایا سنو میں بھیاسی شجرہ زیتون کی شاخوں سے ایک شاخ ہوں خانہ نبوت(ص) کی قندیلوں سے ایک قندیل ہوں اور ادب آموز کاتبان قضا ہوں پروردہ آغوش صاحبان کرامت و خوبی ہوں میں اس مشکواة کے چراغوں میں سے ایک چراغ ہوں جس میں سارے انوار کا نچوڑ ہے میں کلمہء باقیہ کا خلاصہ ہوں جو برگزیدہ منتخب ہسیتوں کے بعد  تا قیامت رہے گا یہ سن کر منصور حاضرین اور ہم نشینوں کی طرف متوجہ ہوا اور بولا انہوں نے مجھے ایک ایسے سمندر میں ڈال دیا  جس کا نہ کہیں کنارہ نظر آتا ہے اور نہ اس کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے کہ اس کےسامنے بڑے بڑے غوطہ خور غوطہ لگا کر ناکام واپس ہوجائیں گے یہی تو خلفائے اسلام کے گلے کی پھانسی ہے جس کو نہ مٹانا جائز ہے نہ قتل کرنا روا ہے اگر ہم اس ایک شجرہ سے نہ ہوتے جس کی جڑ طیب و طاہر ہے جس کی شاخین پھیلی ہوئی ہیں جس کے پھل شیرین ہیں جس کی ذریت با برکت جس کی عقل و حکمت پاک و مقدس ہے تو میں ان کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا کیونکہ میں نے سنا ہے کہ یہ ہماری عیب جوئی کرتے اور ہمیں برا  کہتے ہیں۔

امام صادق(ع) نے فرمایا آپ اپنے  رشتہ داروں اور خاندان کے افراد کے متعلق ان لوگوں کی بات نہ مانیں جن کے لیے جنت حرام اور جن کا ٹھکانہ جہنم ہے کیونکہ چغل خور ایک دھوکہ باز گواہ ہے اور لوگوں کو بہکانے میں ابلیس کا شریک کار ہے اﷲ فرماتا ہے۔

۵۶۳

” يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصيبُوا قَوْماً بِجَهالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلى‏ ما فَعَلْتُمْ نادِمينَ “ ( حجرات، ۶)

ترجمہ ” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اسکی تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا  نہ ہو کہ تم اپنی جہالت کے سبب سے لوگوں کو صدمہ پہنچاؤ پھر اپنے کیے پر خود ہی نادم ہوتے پھرو۔“ ہم لوگ آپ کے اںصار و مدد  کرنے والے اور آپ کی سلطنت کے ستون و ارکان بنے رہیں گے اور شیطان کی ناک رگڑتے رہیں گے۔ آپ کے پاس تو وسعت فہم اور کثرت علم ہے آپ آداب الہی کی معرفت رکھتے ہیں آپ پر واجب ہے کہ جو شخص آپ سے قطع رحم کرے جو آپ کو محروم رکھے اسے عطا کریں جو آپ پر ظلم کرے آپ اسے معاف کریں اس لیے کہ صلہء رحم کے بدلے میں صلہء رحم کرنے والا در حقیقت صلہء رحم کرنے والا نہیں کہا جائے گا بلکہ در اصل صلہء رحم کرنے والا وہ ہے کہ جو اس کے ساتھ قطع رحم کرے یہ اس کے ساتھ صلہء رحم کرے لہذا اﷲ آپ کی عمر زیادہ کرے آپ صلہء رحم لے کر قیامت کے دن حساب کو اپنے لیے ہلکا کرلیں منصور نے کہا جایئے آپ(ع) کی قدر و منزلت کو دیکھتے ہوئے میں نے آپ(ع) کو چھوڑ دیا اور آپ(ع) کی حق پسندی و سچائی کی نبا پر میں نے آپ(ع) سے در گزر کیا اب آپ(ع) مجھے کوئی ایسی نصیحت کریں جو مجھے برائیوں سے بچائے امام صادق(ع) نے فرمایا آپ بردباری رہیں اور برداشت سے کام لیں کیوںکہ یہ علم کو ستون ہے آپ قدرت و طاقت  کے باوجود اپنے نفس پر قابو رکھیں کیونکہ اگر آپ نے اپنی قدرت و طاقت کا استعمال کیا تو گویا آپ نے اپنے غیظ کی تشفی کی یا اپنی کدورت کا مداوا کیا یا خود کو با صولت و باشوکت وبا رعب کہلوانے کی خواہش کی اور یہ بھی یاد رکھیں اگر آپ نے کسی مستحق سزا کو سزا دی تو زیادہ سے زیادہ لوگ یہی کہیں گے کہ آپ نے عدل و اںصاف سے کام لیا مگر مستحق سزا آپ کے عدل پر صبر کرے ، اس سے بہتر ہے کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرے مںصور نے کہا آپ(ع) نے بڑی نصیحت کی اور مختصر بھی اب آپ(ع) اپنے جد علی بن ابی طالب(ع) کی فضیلت میں کوئی ایسی حدیث بیان کریں جس سے عوام واقف نہ ہوں۔

امام صادق(ع) نے فرمای میرے والد(ع) نے مجھ سے بیان کیا اور ان سے ان کے والد(ع) نے کہ رسول خدا(ص)

۵۶۴

 نے فرمایا کہ جب شب معراج میں آسمان پر پہنچا تو میرے  رب نے مجھ سے علی(ع) کے بارے میں تین باتیں کہیں اور فرمایا اے محمد(ص) میں نے عرض کیا ” لبیک وسعدیک “ تو میرے رب اﷲ نے فرمایا سنو علی(ع) امام المتقین قائد الغرالمحجلین اور یعسوب المومنین ہیں علی(ع) کو جاکر اس کی خوشخبری سنا دینا۔ جب نبی(ص) نے یہ خوشخبری سنائی تو حضرت علی(ع) اپنے پروردگار کے شکر کے لیے سجدہ میں گر گئے اور پھر سجدے سے سر اٹھایا اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) کیا میری قدر و منزلت اس حد تک ہے کہ وہاں بھی میرا ذکر ہوا ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا ہاں اے علی(ع) اﷲ تم کو خوب جانتا ہے اور رفقاء اعلی میں تمہارا تذکرہ رہتا ہے منصور نے کہا ” ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء “ ( مائدہ ، ۵۴)  ترجمہ ” یہ اﷲ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔“

۱۰ـ          عبداﷲ بن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو طالب (ع) نے جناب رسول خدا(ص) سے کہا اے برادر زادے آپ(ص) کو خدا نے بھیجا ہے آںحضرت(ص) نے فرمایا ہاں ابوطالب(ع)نے کہا کوئی نشانی پیش کریں اور اس درخت کو میری طرف بلائیں جناب رسول خدا(ص) نے درخت کو پاس آنے کا حکم دیا وہ درخت اپنی جگہ سے متحرک ہوا اور جناب ابوطالب(ع) کے سامنے آکر خاک پر گر گیا اور پھر واپس ہوا اور اپنی جگہ پر چلا گیا ابوطالب(ع) نے یہ دیکھ کر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سچ کہتے ہو پھر جناب امیر(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تم اپنے چچازاد بھائی کے پہلو سے پیوست ہوجاؤ۔

۱۱ـ           سعید بن حبیب کہتے ہیں ایک شخص نے عبداﷲ ابن عباس(رض) سے کہا اے رسول خدا(ص) کے چچا کے بیٹے مجھے بتائیں کہ ابو طالب(ع) مسلمان تھے یا نہیں ابن عباس نے کہا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ تھے اس لیے کہ ابو طالب(ع) نے فرمایا تھا ” و قدعلموا ان ابننا لامکذب لاینا و لایعباء بقول ( بقیل) الا باطل“  یعنی جانتے ہو کہ ہمارا فرزند(محمد(ص)) ہمارے ہاں مورد تکذیب نہیں ہے اور باطل بات سے اعتنا نہیں رکھتا ۔ “ ابو طالب(ع) کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے کہ وہ دل سے مومن ہوئے مگر ظاہرا ایمان کا اعلان نہ فرمایا اور خدا نے انہیں دوہرا ثواب عطا فرمایا۔

۱۲ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں ابوطالب (ع) کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے کہ دل سے مومن ہوئے اور بظاہر مشرک اور خدا نے انہیں دو ثواب عطا فرمائیے۔

۵۶۵

مجلس نمبر ۹۰

(۲شعبان سنہ۳۶۸ھ)

علم کیا ہے؟

۱ـ           اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین(ع) نے فرمایا علم حاصل کرو کیونکہ اس کا حاصل کرنا نیکی ہے اس کا ذکر کرنا تسبیح اس میں بحث جہاد اور اس کا حاصل کرنا نا دانی میں صدقہ ہے یہ اپنے طالب کو بہشت میں لے جاتا ہے اور انیس و حشت ورفیق تنہائی ہے یہ دشمن کے خلاف اسلحہ اور دوست کے لیے زیور ہے جان لو کہ خدا اس کی وجہ سے بندے کے درجات بلند کرتا ہے اور اسے خیر کا رہبر بناتا ہے کہ اس (بندے) کا کردار توجہ کے قبل ہوتے ہیں اور نماز میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور کیونکہ علم دلوں کی زندگی اور  آنکھوں کا نور ہے یہ اندھے پر سے بچاتا ہے اور ضعف میں بدن کی طاقت ہے۔ خدا، عالم کو نیکیوں کے ساتھ جگہ دیتا ہے اور آخرت میں اچھوں کی ہم نشین عطا کرتا ہے دنیا و آخرت میں علم حاصل کرنے والا قیمت رکھتا ہے علم ہی سے خدا کی اطاعت کی جاتی ہے اور توحید کی معرفت ہوتی ہے علم ہی سے صلہء رحم ہوتا ہے اور حلال و حرام کی تمیز ہوتی ہے علم عقل  کا رہبر ہے اور عقل اس کی پیرو کار، خدا نے اسے سعادت مندوں کو عطا کیا اور اشقیاء سے دور رکھا ہے۔

۲ـ           حفص بن غیاث قاضی کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ اس دنیا میں زہد کیا ہے امام(ع) نے جواب دیا کہ خدا نے اسے اپنی ایک آیت میں بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے ۔ ” یہ اس لیے ہے کہ تم افسوس نہ کرو اس پر جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور خوش نہ ہو اس پر جو تمہاری طرف آئے اور اﷲ ہر اترانے والے فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔(حدید، ۲۳)

۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں خدا کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں عرض کیا گیا کہ

۵۶۶

 یا رسول اﷲ(ص) اس سلسلے میں کیا کیا جائے ( یعنی کیسے بچاجائے) آپ(ص) نے فرمایا اگر تم اس سے محفوظ ہونا چاہو تو تم میں سے ہر ایک اس وقت تک نہ سوئے  جب  تک اپنی موت کو یاد نہ کرے تم اپنے حواس پر خودسری طاری ہونے نہ دو اور دل میں قبر اور بوسیدگی کو یاد رکھو اور جو کوئی آخرت چاہے اسے چاہیے کہ وہ دنیا کی زندگی چھوڑدے۔

امام صادق(ع) اور ابنِ عوجا

۴ـ          فضل بن یونس کہتے ہیں کہ ابن عوجا جو حسن بصری کا شاگرد تھا توحید سے منحرف ہوگیا اس سے کہا گیا کہ تم نے اپنے ساتھ کے مذہب کو ترک کردیا  اور اس مسئلہ میں داخل ہوگئے جس کی کوئی بنیاد و حقیقت نہیں ابن عوجا کہنے لگا  میرا استاد گفتگو میں قیاس سے کام لینے والا تھا وہ خلط ملط باتیں بیان کیا کرتا کبھی وہ قدر کا قائل ہوجاتا اور کبھی جبر کا مجھے معلوم نہیں کہ وہ کس نتیجے پر تھا پھر جب وہ ( ابن عوجا) حج سے بغاوت و انکار کرتے ہوئے مکہ آیا تو علماء اس کے مسائل پر بحث کرتے تھے اور اس کے ساتھ نشت و برخاست کو اس کی زبان درازی اور ضمیر کی خرابی کی وجہ سے برا سمجھتے تھے اس کے بعد ابن عوجا امام صادق(ع)کے خدمت میں حاضر ہوا اس کے مسلک کے لوگ بھی اس کے ہمراہ تھے وہ امام صادق(ع) کے پاس کچھ دریافت کرنے آیا تھا وہ کہنے لگا اے ابوعبداﷲ(ع) ان مجالس میں امانت کا خیال رکھنا چاہیے اور جس کسی کو کھانسی آئے اسے کھانسنے کی اجازت ہونی چاہیے یعنی جو شخص سوالات کرنا چاہیے اسے سوالات کرنے کی اجازت ہونی چاہییے ۔ کیا آپ(ع) مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ(ع) سے سوالات کروں امام(ع) نے فرمایا جو کچھ پوچھنا چاہو تو پوچھو اس نے کہا آپ لوگ کب تک اس کھلیان ( خانہ کعبہ) کو پاؤں سے روندتے رہیں گے جو  پکی اینٹوں اور مٹی سے لیپائی کر کے بلند کیا گیا ہے آپ کب تک اونٹ کی طرح اس کے گرد چکر لگاتے رہیں گے اور تیزی سے چلتے رہیں گے بے شک جس نے اس کے بارے میں غور کیا اور اندازہ لگایا وہ اس حقیقت سے واقف ہوگیا کہ اس فعل کی بنیاد کسی غیر حکیم نے رکھی ہے نہ کسی صاحب نظر نے پس آپ(ع) اس کی وضاحت فرمائیے کیونکہ آپ(ع) اس امر کے سردار و بلند مرتبہ آدمی ہیں اور آپ(ع) کے

۵۶۷

 والد(ع) اس نظام کی اساس ہیں۔ امام صادق(ع) نے فرمایا جسے اﷲ نے گمراہ کردیا ہو اور جس کو قلب اندھا ہوگیا جس نے حق کو کڑوا جانا ہو اور اسے خوش گوارنہ بنایا ہو اور شیطان اس کا سرپرست ن بیٹھا ہو جو سے ہلاکت کے چشموں پر وارد کرتا ہو اور اسے واپس نہ جانے دیتا ہو اے ابن عوجا یہ وہ گھر ہے کہ جس کے ذریعے سے اﷲ نے اپنی مخلوق کو اس کا فرمانبردار بنایا ہے تاکہ اپنے اثبات کے بارے میں اس کا امتحان لے پھر اس (خدا) نے انہیں ( مخلوق کو) اس کی زیارت و تعظیم پر اکسایا اور اسے انبیاء کی جائے ورود اور  نماز گذاروں کا قبلہ قرار دیا اسے پیغمبروں کا مرکز قرار دیا یہ اس کی خوشنودی کا ایک حصہ اور ایک ایسا راستہ ہے جو بندوں کو اس کی بخشش کی طرف لے جاتا ہے۔

جس کی بنیاد منطقہء کمال اور عظمت وجلال کے اجتماع پر رکھی گئی ہے اﷲ نے اس زمین کو بچھانے سے دو ہزار سال پہلے پیدا کیا اور جس کے بارے میں حکم دیا گیا اور جس سے روکا اور  دھتکارا گیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اﷲ ہی روح اور صورت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ یہ سن کر ابن عوجا نے کہا اے ابو عبداﷲ(ع) آپ(ع) نے اس (خانہ کعبہ) کا ذکر کیا پھر غائب کا مناسب تذکرہ کیا امام صادق(ع) نے فرمایا اے ابن عوجا تجھ پر وائے ہو وہ کیونکر غائب ہوسکتا ہے جو اپنی مخلوق کا شاہد اور انکی شہہ رگ سے زیادہ قریب ہے وہ ان کی بات سنتا ہے اور ان کے افراد کو دیکھتا ہے اور وہ ان کے راز جانتا ہے۔ ابن عوجا نے کہا وہ ہر جگہ ہے اور کیا ایسا نہیں ہے کہ جب وہ آسمان میں ہوتو زمین میں کیونکر ہوسکتا ہے اور جب کہ وہ زمین میں ہوتو آسمان میں کس طرح ہوسکتا ہے امام(ع) نے فرمایا یہ تونے اس مخلوق کے وصف کو بیان کیا ہے وہ جب کسی جگہ سے منتقل ہوتی ہے اور کسی جگہ مصروف و مشغول ہوتی ہے تو یہ درک نہیں کرسکتی کہ کسی دوسری جگہ کیا امر واقع ہوا ہے مگر وہ عظیم شان کا مالک ہے کوئی جگہ اس سے پوشیدہ نہیں ہے حساب لینے والے سے کوئی خالی نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی جگہ مصروف رہتا ہے اور نہ کوئی ایک جگہ دوسری جگہ سے قریب تر ہوتی ہے  اور وہ شخص جس کو اﷲ نے محکم آیات اور واضح دلائل و براہین کے ساتھ مبعوث فرمایا اور جس کی تائید اپنی مدد سے ساتھ فرمائی اور جسے اپنی رسالت کی تبلیغ کے لیے منتخب کیا اس کے قول کی تصدیق ہم نے کی جو یہ ہے کہ اس کےرب نے اسے مبعوث کیا اور اس سے کلام کیا۔ یہ سن کر ابن عوجا کھڑا ہوا

۵۶۸

اور اپنے ساتھیوں سے کہا یہ تم نے مجھے کس سمندر میں ڈال دیا ہے میں نے تم سے بوشابہ (آب حیات۔ شیرین پانی) طلب کیا مگر تم نے مجھے انگاروں میں ڈال دیا اس کے ساتھیوں نے کہا تو ان(ع) کی مجلس میں حقیر نظر آرہا تھا اس نے کہا وہ اس شخص کے فرزند ہیں جنہوں نے لوگوں کے سر( حج کے لیے) منڈوا دیئے۔

علا بن حضرمی کے اشعار

۶ـ           علا بن حضرمی جناب رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں اپنے خاندان والوں سے احسان کرتا ہوں مگر وہ اس کے بدلے میں مجھ سے برا سلوک روا رکھتے ہیں میں ان سے صلہء رحمی کرتا ہوں اور مگر وہ مجھ سے صلہء رحمی سے گریزاں ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا تم اس کا احسن دفاع کرو تاکہ جو تمہارا دشمن ہے وہ تمہارا دوست ہوجائے۔ جو صبر کرتے ہین وہ غصہ نہیں کرتے اور جو غصہ نہیں کرتے جان لوکہ وہ بڑا غصہ رکھنے والے صاحبان ہیں  علا بن حضرمی نے کہا یا رسول اﷲ(ص) اگر حکم ہو تو میں اس بارے  میں اشعار کہوں آپ(ص) نے فرمایا کہو کیا کہتے ہو۔

تو حضرمی نے یہ قطعہ بیان کیا۔

             اگر کینہ غالب ہو تو دل کو قابو میں رکھو۔

             (اسے) بلند سلام دو تاکہ وہ شکست کھائے

             اگر خوش آمدید کہا جائے تو سب کے ساتھ خوشی سے پیش آؤ۔

             وگرنہ اگر تم سے کچھ ( ناروا) سرزد ہو تو دوسرے سے پوچھو (یعنی اس کا مداوا کرو)

             جو کچھ تم سنتے ہو اس سے تمہارے آزار میں اضافہ ہوتا ہے۔

             جو کچھ پوشیدہ کہا جاتا ہے وہ کسی اور کے لیے ہے۔

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بعض دفعہ ایسا سحر آمیز شعر ہوتا ہے کہ اس میں حکمت ہوتی ہے تیرے اشعار بہتر ہیں مگر خدا کی کتاب اس سے بھی بہتر ہے۔

۵۶۹

دنیا جناب امیر(ع) کی نظر میں

 ۷ـ                 امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا ہے کہ جناب امیر(ع) نے اس خطبے میں دینا کے متعلق فرمایا  کہ خدا کی قسم تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک یک مسافروں کی منزل گاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کہ مسافر یہاں آتے ہیں اور اس کے کنارے سے پانی بھرتے  ہیں اور جب قافلہ سالار انہیں آواز دیتا ہے تو کوچ کر جاتے ہین اس دنیا کی لذتیں میرے سامنے حمیم دوزخ کی مانند ہیں جو پینے والے کو داغ لگاتی ہیں یہ تلخ شربت ہے جو حلق سے نیچے لے جانے میں ناگواری محسوس ہوتی ہے یہ ہلاک کرنے والا زہر ہے جو بدن میں سرایت کر جاتا ہے اور ایک ایسی گردن بند  آگ ہے جو میرےگلو گیر ہے میں نے اپنے اس پالتو کو اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مزید پیوند لگانے میں مجھے شرم آتی ہے اور آخر اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں اسے جلے ہوئے کتے کی طرح دور پھینک دوں کہ اسے پسند نہیں کہ میں اسے مزید پیوند لگاؤں لہذا اسے کہتا ہوں کہ مجھ سے دور رہ۔اگر میں چاہوں تو اس میں سے عمدہ لباس اپنے لیے منتخب کرلوں اور عمدہ خوراک نوش جان کروں اور اس کے لذائذ سے بہرہ مند ہوجاؤں مگر میں اﷲ جل جلالہ عظمتہ کی تصدیق کرتا ہوں کہ وہ فرماتا ہے ” جو کوئی اس دنیا کی خوبصورتی چاہتا ہے تو اس کےکردار کو بدل دیتا ہے اور دنیا کم وکاست نہیں رکھتی “ ( ھود، ۱۵) پھر فرمان الہی ہے ” اور وہ ہیں کہ جو سوائے آگ کے کچھ نہیں رکھتے “ ( ھود، ۱۶) آگ کو برداشت کرنے  کی طاقت کس میں سے اس کا ایک انگارہ زمین کے جنگلات کو خاکستر کرسکتا ہے او اگر اس سے بچنے کے لیے کوئی کسی قلعے میں پناہ لے لے تو یہ اس قلعے کو بھی جلا ڈالے علی(ع) کے لیے کیا بہتر ہے، کیا یہ کہ خدا کے نزدیک مقرب کہلائے یا یہ کہ دوزخ کی آگ اسے آلے اور اس کے جرم کی سزا دے یا یہ کہ مورد تکذیب ہو، خدا کی قسم میرے لییے خواری اور زنجیروں میں جکڑا جانا اور درختوں کی راکھ کی مانند خاکستر ہوجانا اور کندلو ہے کو میرے سر میں مارا جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ میں محمد(ص) کے سامنے اس خیانت کے ساتھ پیش ہوں کہ کسی یتیم پر ستم کیا ہوا ہو میں اپنے نفس کی خاطر یتیموں پر ستم نہیں کرتا کہ بوسیدگی جلد ہی آنے والی ہے اور زیر خاک جانا ہے جہاں مدتوں رہنا ہے۔ بخدا میں نے اپنے بھائی عقیل (رح) کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا وہ تمہارے حصے کے

۵۷۰

غلے میں سے ایک صاع گیہوں مجھ سے مانگتے تھے میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جو فاقہ کشی کی وجہ سے پریشان تھے ان کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے بھوک کی زیادتی کی وجہ سے زرد و سیاہ ہوگئے تھے جیسے کسی نے ان کے چہرون  پر تیل چھڑک کر سیاہ کردیا ہو وہ میرے پاس آئے اور اصرار کرنے لگے ( گہیوں کے بارے میں) میں نے کان لگا کر ان کی بات کو سنا تو انہوں نے گمان کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی راہ (حق) چھوڑ کر ان کے پیچھے چل پڑوں گا مگر میں نے لوہے کی ایک سلاخ کو تپایا اور عقیل(رح) کے بدن کے قریب لے گیا وہ اس طرح چیخے جس طرح کوئی بیمار درد و کرب سے چیختا ہے اور نزدیک تھا کہ ان کا بدن لوہے کی حرارت سےجل جائے تو میں نے ان سے کہا اے عقیل(رح) رونے والیاں تم روئیں کیا تم اس لوہے کے ٹکڑے کی حرارت سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے تپایا ہے جبکہ مجھے ایسی آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے تم خود تو اس لوہے کی حرارت سے چیخو میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں اس سے بھی عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص رات کے وقت شہد میں گندھا  ہوا حلوا ایک برتن میں لیے ہمارے گھر آیا مجھے حلوئے سے ایسی نفرت ہوئی جیسے وہ سانپ کے تھوک یا قے میں گوندھا گیا ہو میں نے اس آدمی سے پوچھا کیا یہ کسی بات کا انعام ہے یا زکواة یا صدقہ ہے جو ہم اہل بیت(ع) پر حرام ہے تو اس نے کہا یہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ آپ(ع) کےلیے ایک تحفہ ہے میں نے کہا اے پسر مردہ، عورتیں تجھ پر روئیں کیا تو مجھے دین کے راستے سے فریب دینے آیا ہے کیا تو بہک گیا ہے یا پاگل ہوگیا ہے یا یونہی ہذیان بک رہا ہے خدا کی قسم اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانون کے نیچے ہیں مجھے دیدی جائیں اور میں خدا کی معصیت صرف اس حد تک کرون کہ میں کسی چیونٹی سے جو کا چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہ کروں گا یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتی سے بھی زیادہ بے وقعت ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اسے چبا رہی ہو علی(ع) کو فنا ہوجانے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذتوں سے کیا واسطہ ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ مانگتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔

             اللہم صلی اﷲ محمد(ص) و آل محمد(ص)

۵۷۱

مجلس نمبر۹۱

(۵ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

آدم(ع) اور محمد(ص)

۱ـ            امام صادق(ع)اپنے آباء(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) سے دریافت کیا گیا کہ آپ (ص) آدم(ع) کے ہمراہ بہشت میں کس مقام پر تھے آپ(ص) نے جواب دیا میں ان کی پشت (صلب) میں تھا وہ مجھے نیچے اس زمین پر لائے پھر میں پشت نوح(ع) میں کشتی پر سوار ہوا پھر پشتِ ابراہیم(ع) میں آگ میں گرایا گیا میرے اجداد(ع) کسی بھی زمانے میں ہرگز زنا سے کثیف و آلودہ نہ ہوئے خدا نے مجھے پاک صلبوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل کیا ہدایت کے طریقہ کار  سے، پھر یہاں تک کہ مجھ سے عہد نبوت لیا گیا اور پیمان اسلام کو میرے ساتھ منسلک کردیا گیا میری تمام صفات کو بیان کیا گیا، توریت و انجیل میں مجھے یاد کیا اور آسمان پر لے جایا گیا میرے نام کو خدانے اپنے نیک ناموں میں سے رکھا میری امت حمد کہنے والی ہے عرش کا پروردگار محمود اور میں محمد(ص) ہوں۔

ذکر علی(ع) اور معاویہ

۲ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ ضرار ابن ضمرہ نبشلی ۔معاویہ بن ابو سفیان کے پاس گیا تو معاویہ نے اس سے کہا میرے سامنے علی(ع) کے اوصاف بیان کرو اس نے کہا مجھے اس سے معاف رکھیں معاویہ نے کہا اے ضرار ڈرو مت بیان کرو۔ ضرار نے کہا خدا علی(ع) پر اپنی رحمت نازل فرمائے وہ ہمارے درمیان ہماری ہی مانند تھے ہم جس وقت بھی ان کی خدمت میں جاتے تو وہ اپنی قربت ہمیں عطا فرماتے جب بھی ہم ان سے کوئی سوال کرتے تو وہ بیان فرماتے ہم جب بھی انہیں دیکھنے جاتے تو ہم سب محبت فرماتے انہوں نے کبھی اپنے دروازے ہمارے لیے بند نہیں کیے اور نہ ہی دوازے پر نگران مقرر کیا اور خدا کی قسم انہوں نے ہر حال میں ہمیں اس طرح اپنے قریب رکھا کہ وہ خود ہم سے زیادہ ہمارے قریب تھے ان کی ہیبت اس قدر تھی کہ ہم ان سے بات

۵۷۲

 کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے اور ان کی بزرگی ان کے سامنے آغاز سخن کی دعوت نہ دیتی تھی جب آپ(ع) مسکراتے تو آپ(ع) کے دندان مبارک موتیوں کی لڑی کی مانند دکھائی دیتے۔

معاویہ نے کہا اے ضرار مزید بیان کرو ضرار نے کہا خدا اپنی رحمت علی(ع) پر نازل فرمائے خدا کی قسم وہ بہت زیادہ جاگنے اور بہت کم سونے والے تھے وہ شب و روز کی ہر ساعت قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے انہوں نے اپنی جان خدا کی راہ میں دیدی ان کی آنکھوں سے اشک جاری رہتے اور پردہ ان کے لیے نہ گرایا جاتا۔ مال و دولت انہوں نے کبھی ذخیرہ نہ کیا اور نہ ہی کبھی خود اس سے وابستہ رکھا وہ جفا کاروں سے نرمی نہ برتتے مگر بدخوئی نہ کرتے ہم نے انہیں اکثر محراب عبادت میں ہی کھڑے دیکھا اور جب رات ہوتی تو اپنے معبود کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے اور اپنی ڈارھی پکڑے اس کے سامنے یوں کانپتے جیسے کوئی سانپ مارنے والا کانپ رہا ہوتا ہے جب آپ(ع) غمزدہ ہوتے گریہ فرماتے اور کہتے اے دینا تو اپنا رخ میری طرف کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ میں تیرا مشتاق بنوں دور رہ ، دور رہ کہ میں تجھ سے احتیاج نہیں رکھتا میں نے تجھے تین طلاقین دی ہیں تو رجوع نہیں کرسکتی اور فرمایا کرتے آہ، راستہ طویل ہے  اور توشہ کم اور طریقہ سخت ہے۔ معاویہ نے یہ سنا تو گریہ کیا اور کہا اے ضرار خدا کی قسم علی(ع) اسی طرح کے تھے خدا ابوالحسن(ع) پر رحمت کرے۔

شیعیان علی (ع) کے بارے میں

۳ـ          امام باقر(ع) نے جابر سے فرمایا اے جابر جو بندہ شیعہ ہے اور صرف ہماری محبت پر اکتفا کرتا ہے خدا کی قسم وہ ہمارا شیعہ نہیں مگر وہ بندہ جو خدا پر تقوی رکھے اور اس کے حکم پر چلے اور تواضع وخشوع و کثرت ذکر خدا ، روزہ ، نماز، اور حاجت مندوں، ہمسایوں، فقیروں، قرض داروں، اور یتیموں کی احوال پرسی ، راست گوئی، تلاوت قرآن وحفاظت، زبان لوگوں سے خیر اور ہر چیز میں امانت داری کے علاوہ کسی چیز سے نہ پہچانا جائے۔

جابر نے کہا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) میں کسی بندے کو نہیں جانتا جو ایسے اوصاف رکھتا ہو امام(ع) نے فرمایا جابر تم ان کو اپنے درمیان جگہ مت دو جو یہ کہیں کہ میں رسول خدا(ص) اور علی(ع) کے ساتھ مگر ان کا

۵۷۳

کردار نہ اپنائیں اور ان کے طریقے و راستے کے پیروکار نہ ہوں تو یہ محبت انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی لہذا خدا سے ڈرو اور جو کچھ خدا کے پاس ہے اس پر عمل کرو خدا اور بندے کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے اور ان میں سے فرمانبردار اور باتقوی خدا کے نزدیک دوست اور گرامی ترین ہے خدا کی قسم خدا کا تقرب اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہوگا اور ہم دوزخ سے برائت اپنے ہمراہ نہیں رکھتے اور کوئی بھی خدا پر حجت نہیں رکھتا جو کوئی خدا کا مطیع ہے ہمارا دوست ہے اور جو کوئی خدا کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور بجز پرہیز گاری اور نیک کردار کے ہماری دوستی تک نہیں پہنچا جاسکتا ۔

معصوم(ع) کا شیعوں سے خطاب

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا میں اورمیرے والد(ع) باہر تشریف لائے اور منبر تک گئے وہاں بہت سے شیعہ حضرات جمع تھے میرے والد(ع) نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا میرے والد(ع) نے فرمایا خدا کی قسم میں تمہاری بو اور تمہاری جان کو دوست رکھتا ہوں تم میری مدد اپنی پرہیزگاری اور کوشش سے کرو کہ ہماری ولایت صرف وسیلہء عمل اور کوشش (نیک اعمال میں) کے ذریعے ہی ہاتھ آتی ہے تم میں سے جوکوئی بھی کسی ایسے کو دیکھے جو خدا کی اقتداء کرتا ہے تو تمہیں چاہیے کہ اس کی پیروی کرو تم شیعیان خدا، انصارانِ خدا اور پیشروان بہشت ہو  تمہیں ضانت خدا اور ضمانتِ رسول(ص) کے صلے میں بہشت عطا کی جائے گی ( ضمانت سے مراد شہادت دینا ہے) اور بہشت کے درجات میں کوئی بندہ تم سے زیادہ بڑھ کر نہیں ہوگا تمہیں چاہیے کہ ایک دوسرے سے برتری درجات میں رقابت اختیار کرو تم پاک ہو تمہاری عورتیں پاک ہیں اور ہر زن مومنہ ، حوریہ ء شوخ چشم ہے اور ہر مرد مومن صدیق ہے اے لوگو جناب امیرالمومنین(ع) نے قنبر(رض) سے فرمایا اے قنبر(رض) خوش خبری لو اور خوش خبری دو اور خوش رہو کہ پیغمبر(ص) سوائے شیعہ کے اپنی امت کے ہر شخص پر غضبناک تھے ہر چیز دست گیری رکھتی ہے اور اسلام کی وست گیری شیعہ ہیں آگاہ ہوجاؤ کہ ہر چیز کا ستون ہے اور اسلام کا ستون شیعہ ہیں ہر چیز کا کنگرہ ( کلٰغی جو ٹوپی پر لگائی جاتی ہے) اور اسلام کا کنگرہ شیعہ ہیں ہر چیز کےلیے سردار ہے اور مجالس کی سرداری مجالس شیعہ میں ہے آگاہ ہوجاؤ کہ ہر چیز کے لیے امام

۵۷۴

ہے اور امام کائینات یہ زمین  ہے کہ اس کے ساکنان شیعہ ہیں خدا کی قسم اگر تم اس زمین میں نہ ہوتے تو خدا تمہارے مخالفین کونعمت نہ دیتا اور وہ اس دنیا میں طیبات کو  نہ پہنچ سکتے مگر ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہےمگر یہ کہ عبادت کرے اور کوشش کرے اور جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے اس پرعمل کرو” بیشک تمہارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائے گی کتنے ہی منہ اس دن ذلیل ہوں گے کام کریں مشقت جھلیں جائیں بھڑکتی آگ میں اور نہایت جلتے ہوئے چشمے کا پانی پلایا جائے اور ان کے لیے کچھ کھانا نہیں مگر آگ کے کانٹے کہ نہ فربہی لائیں اور نہ بھوک میں کام دیں۔ ( غاشیہ، ۱ـ۷) ہر ناصبی کی کوشش وعمل برباد ہے ہمارے شیعہ نور خدا کو دیکھتے ہیں اور ان کے مخالفین کےلیے خدا کا غصہ ہے خدا کی قسم کوئی بندہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں سوتا مگر یہ کہ خدا اس کی روح کو آسمان پر لے جاتاہے اور اگر موت سے ہمکنار ہوجائے  توخدا اسے گنجینہ رحمت میں رکھتا ہے اور اگر نہ آسکے تو خدا اس کے پاس ایک امین فرشتہ بھیجتا ہے کہ اس کے جسم تک پہنچے اور اس کی روح کو اپنے تک راہنمائی کرے خدا کی قسم تم حج و عمرہ کرنے ولاے ہو( تمہارے حج و عمرہ قبول شدہ ہیں) تم خدا کے خاص بندے  ہو تمہارے غریب و فقیر بے نیاز اور تمہارے توانگر قانع ہیں تم خدا کی دعوت کے اہل او اس کے نزدیک مقبول ہو۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا رمضان خدا کا مہینہ اور شعبان میرا مہینہ ہے جو کوئی میرے مہینے کا ایک دن کا روزہ رکھے گا میں قیامت میں اس کا شفیع ہوں گا اور جو کوئی ماہ رمضان کا روزہ رکھے گا تو وہ دوزخ سے آزاد ہے۔

۶ـ           امام رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی ماہ شعبان میں روزانہ ستر بار ”استغفر اﷲ واسئلہ التوبہ“ کہے تو خدا اسے دوزخ سے برائت عطا فرماتا ہے اور اسے پل صراط سے گزرنے کا پروانہ مہیا کرتا ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جوکوئی ماہ شعبان میں صدقہ دے تو خدا اسے اس طرح پالے گا جیسے کوئی اس زمین پر شتر پالتا ہے ( یعنی جس طرح پالتو اور منفعت بخش جانور کی خدمت کی جاتی ہے اور اسے نت نئی خوراک دی جاتی ہے اور خیال رکھا جاتا ہے )  اور روز قیامت اسے کوہ و دریا کی مانند دے گا۔ (یعنی بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا)

۵۷۵

۸ـ          اسحاق بن عمار بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا اے اسحاق منافقین سے بحث مت کرو اور مومن سے اخلاص ( نیک عمل) کرو اگر تمہارے ساتھ کوئی یہودی بھی بیٹھ جائے تو خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔

طالب علم کی اقسام

۹ـ           ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے جناب علی بن ابی طالب(ع) سے سنا ہے کہ طالب علموں کی تین اقسام ہیں جن کی صفات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

     پہلا گروہ  وہ ہے جو دین کی تعلیم ریا کاری اور جھگڑے کے لیے حاصل کرتا ہے۔

دوسرا گروہ وہ ہے جو مال بٹورنے اور دھوکا دینے کے لیے علم حاصل کرتا ہے۔

تیسرا گروہ وہ ہے جو سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے۔

پہلا گروہ جو ایذا دینے والون اور ریا کاروں کا ہے عوام کی محفلوں میں بلند پایہ خطیب بنتا ہے اور عبادات کو بڑی روانگی اور باقاعدگی سے ادا کرتا ہے مگر تقوی سے خالی ہے خدا ایسے افراد کو گمنام رکھے اور علماء کی بزم سے ان کا نام ونشان مٹادے۔

دوسرا گروہ کہ جو مال بٹورنے والے اور فریب کار ہیں وہ خوشامدی اور اپنے جیسے لوگوں کی ہم نشینی کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ لوگوں کے لذیذ کھانوں کے رسیا اور اپنے دین کو تباہ کرنے والے ہیں اے اﷲ ان کی ناک زمین پر رگڑ اور ان کی آرزوئیں کبھی پوری نہ فرما۔

تیسرا گروہ جو صاحبان فقہ وعمل پر مشتمل ہے وہ خوف الہی اور انکسار کرنے والوں کا گروہ ہے اس گروہ کے لوگ خوف الہی کی وجہ سے رونے والے زیادہ تضرع وزاری کرنے والے اپنے دور کے شناسا اور اس کے علاج کے لیے تیار اپنے انتہائی قابل بھروسہ بھائیوں سے بھی وحشت محسوس کرنے والے اور اپنے زہد کے لباس میں خشوع کرنے والے اور رات کی تاریکی میں نماز شب ادا کرنے والے ہیں انہیں لوگوں کے ذریعے خدا  اپنے ارکان دین کو مضبوط کرتا ہے اور انہیں خوف آخرت سے امان عنایت فرماتا ہے۔

۵۷۶

۱۰ ـ         جناب حٰسین بن علی(ع) نے اپنے والد(ع) جناب امیر(ع) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے جناب رسول خدا(ص) سے ائمہ(ع) کے متعلق دریافت کیا کہ ان کی تعداد کیا ہے تو جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی (ع) یہ بارہ(۱۲) ہیں ان کے اول تم اور آخری قائم(عج) ہیں۔

             اللہم صلی علی محمد(ص) و آل محمد(ص)

۵۷۷

مجلس نمبر۹۲

(۹ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

خلق کی دو قسمیں

۱ـ           ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا نے خلق کی دو قسمیں پیدا کی ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی میں اصحاب یمین اور اصحاب شمال کا ذکر ہوا ہے اور میں اصحاب یمین سے ہوں پھر خالق نے ان دو قسموں کو تین میں تقسیم کیا ہے اور مجھے بہترین قسم میں رکھا ارشاد ربانی ہے کہ ” پس دائیں طرف والے کیا کہنے دائں طرف دسوالوں کے اوف بائیں طرف والے کیا پوچھنا بائیں ہاتھ والوں کا اوع سبقت کرنے والے تو سبعت رکنے والے ہی ہیں۔ “ ( واقعہ، ۷ـ۱۰) اور میں اصحاب سابقوں ( سبقت کرنے والوں ) میں سے ہوں پھر خدا نے ان تمام تین قسموں کو قبیلوں تقسیم کیا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا اور ارشاد ربانی ہے ” ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخین اور قبیلے قرار دییے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اﷲ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے با خبر ہے “ (حجرات، ۱۳) اور میں اولاد آدم(ع) میں تقوی میں سب سے بڑھ کر ہوں اور خدا کے نزدیک ترین ہوں۔  پھرخدا نے ان قبائل کو خاندان میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین خاندان میں رکھا ارشاد ربانی ہے ” بیشک خدا چاہتا ہے کہ تمہارے خاندان ( اہل بیت(ع)) سے لے جائے  پلیدی کو اور خوب پاک و پاکیزہ کرے تم کو“ ( احزاب، ۳۳)

۲ـ           جناب زید بن علی بن حسین(ع) نے اس آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی ” اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکال لیں“ ( کہف، ۸۲) پھر جناب زید(رح) نے فرمایا خدا نے ان دو بچوں کی ان کے باپ کے بہتر ہونے کی وجہ سے حفاظت فرمائی اور ہم سے زیادہ بہتر حفاظت میں کون ہے کہ جناب رسول خدا(ص) ہمارے جد ہیں

۵۷۸

 ان کی دختر ہماری والدہ(ع) ہیں وہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ہمارے والد(ع) جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جناب رسول خدا(ص) کے ہمراہ نماز ادا کی۔

یحی بن یعمر

۳ـ          عبدالمالک بن عمیر کہتے ہیں کہ حجاج نے یحی بن یعمر کو طلب کیا اور اس سے کہا کہ تم معتقد ہو کہ علی (ع) کے دو بیٰٹے رسول خدا(ص) کے فرزند ہیں اس نے کہا ہاں ایسا ہی ہے اور اگر مجھے امان ہوتو میں اس کی دلیل قرآن سے پیش کرسکتا ہوں ۔ حجاج نے کہا تجھے امان ہے بیان کر۔

یحی نے کہا خدا ارشاد فرماتا ہے ” اور ہم نے انہیں ( ابراہیم(ع)) اسحق(ع) و یعقوب(ع) عطا کیے اور ان سب کو ہم نے راہ دکھلائی اور ان سے پہلے نوح(ع) کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد مین سے داؤد(ع) اور سلیمان اور ایوب(ع) اور یوسف(ع) اور موسی(ع) اور ہارون(ع) کو اورہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو“ ( انعام، ۸۲) پھر یحی بن یعمر نے کہا کہ حضرت زکریا(ع) اور یحیٰ باپ رکھتے تھے کیا عیسی(ع) کے بھی والد تھے حجاج نے کہا نہین یحی بن یعمر نے کہا خدا نے ان کو اپنی کتاب میں ان کی ماں کے وسیلے سے ابراہیم(ع) کا فرزند کہا ہے حجاج نے کہا اے یحیٰ تم نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا کہ اس طرح بیان کرتے ہو اور یحیٰ نے کہا میں نےیہ علم خدا کے اس عہدسے حاصل کیا جو اس نے علماء سے لیا ہے کہ وہ اپنے علم نہ چھپائیں۔

سدرة المنتہی

۴ـ          عبداﷲ بن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا جب مجھے ساتویں آسمان تک لے جایا گیا یہان تک کہ میں سدرة المنتھی پر پہنچا پھر وہاں سے حجاب نور تک  گیا تو خدا نے مجھے آواز دی کہ اے محمد(ص) تم میرے بندے ہو لہذا میرے لیے خضوع و تواضع کرو میری عبادت کرو مجھ پر بھروسہ کر میرے غیر پر اعتماد مت کرو کیونکہ میں نے تمہیں پسند کیا کہ تم میرے حبیب میرے رسول(ص) اور پیغمبر ہو میں نے تمہارے بھائی علی(ع) کو پسند کیا کہ وہ میرے خلیفہ اور میری بارگاہ کے مقرب ہوں لہذا وہی میرے بندوں پر میری حجت ہیں اور میری خلق کے پیشوا ہیں انہیں

۵۷۹

 کے ذریعے سے میرے دوست اور میرے دشمن پہچانے جائینگے اور انہیں کے ذریعے سے شیطان کا  لشکر میرے لشکر سےجدا ہوگا اور انہیں کے ذریعے سے میرا دین قائم رہے گا میرے حدود محفوظ رہیں گے اور میرے احکام جاری ہوں گے اے میرے حبیب(ص) میں اپنے بندون اور کنیزوں پر ان کے اور ان کی اولاد کے فرزندوں کے سبب سے رحم کروں گا اور تمہارے قائم کے سبب سے زمین کو اپنی تقدیس و تہلیل و تکبیر کے ساتھ آباد کروں گا اور اس کے ذریعے سے زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا اور اپنے دوستوں کو میراث دوں گا ان کے ذریعے کافروں کے کلمے کو پست اور اپنے کلمے کو بلند کروں گا اور اسی کےسبب سےاپنے بندوں کو زندہ کروں گا ۔اور شہر کو آباد کروں گا اور اپنی مشیت کےساتھ اپنے خزانوں اور زخیروں کو ظاہر کروں گا اپنے رازوں سے اسے آگاہ کروں گا اور اپنے فرشتوں کے ذریعے ان لوگوں کی مدد کروں گا جو اس کو میرے امر کے جاری کرنے اورمیرے احکام بلند کرنے میں قوت دیں گے اور وہی میرا ولی بر حق اور سچائی کے ساتھ میرے بندوں کی ہدایت کرنے والا  ہے۔

عصمت امام

۵ـ          علی بن ابراہیم بن ہاشم ۔ محمد بن ابی عمیر سے روایت کرتے ہیں کہ ہشام بن حکم کی مصاحب کی مدت میں کوئی  بات میں نے اس سے بہتر ان سے حاصل نہیں کی ایک روز میں نے ان سےپوچھا کہ آیا امام معصوم ہوتا ہے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا وہ کیا دلیل ہے  جس کی وجہ سے اسے معصوم جاننا چاہیے ہشام نے جواب دیا گناہوں کے ارتکاب کی چار وجوہات ہیں پانچویں کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور وہ چار وجوہات حرص، حسد، غضب، اور شہوت ہیں امام کی ذات میں ان وجوہات میں سے کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی جائز نہیں کہ امام دنیا کا حریص ہو کیونکہ تمام دنیا اس کے زیر نگین ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کا خزینہ دار ہوتا ہے لہذا وہ کس چیز میں حرص کرے گا دوئم یہ جائز نہیں کہ وہ حاسد ہو کیونکہ انسان اس پر حسد کرتا ہے جو اس سے بالاتر ہو جب کہ کوئی شخص اس(امام) سے بالاتر نہیں ہوتا تو وہ کس  پر حسد کرے گا سوئم یہ جائزنہیں کہ امور دنیا میں سے کسی چیز کے بارے میں

۵۸۰