مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)6%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 307029 / ڈاؤنلوڈ: 7986
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

مجھے گرفت میں کرے اور چاہے تو مجھے چھوڑ دے کون ہے جو مجھ سے احتیاج رکھتا ہے۔

۴ـ          امام صادق(ع) ارشاد فرماتے ہیں لوگوں کی گرفتاری بڑی ہے کہ اگر انہیں دعوت دوں تو یہ ہمیں قبول نہیں کرتے اور اگر انہیں چھوڑدوں تو ان کی راہبری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جس کسی کا دل ہماری دوستی سے ٹھنڈا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ماں کے لیے بہت زیادہ دعا کیا کرے کہ اس کی ماں نے اس کے باپ کےساتھ خیانت نہیں کی۔

۶ـ           ابراہیم کرخی کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ اگر کوئی بندہ اپنے خواب میں خدا کو دیکھے تو یہ کیسا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا یہ وہ شخص ہے کہ دین نہیں رکھتا کیونکہ خدا بیداری، خواب، دنیا اور آخرت میں نہیں دیکھا جاتا۔

۷ـ          ابان بن عثمان احمر کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ مجھے بتائیے کیا خدا ہمیشہ سے ہی سننے اور دیکھنے والا اور توانا ہے امام(ع) نے فرمایا ہاں پھر میں نے کہا جو لوگ آپ(ع) کے ذریعے جاننے والا اور غصے میں قدرت کے ذریعے سے توانا ہوا ہے امام(ع) نے فرمایا جو کوئی اس عقیدے کا رکھنے والا ہے جان لوکہ وہ مشرک ہے اور ہرگز ہمارا پیرو کار نہیں خدا تعالی ذات ہے مگر دانش مند دیکھنے والا سننے والا اور توانا۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے اور انہوں نے اپنے آبائے طاہرین(ع) سے روایت کیا ہے کہ سلمان فارسی(رح) اور ایک بندے  کے درمیان نزاع ہوا اور گفتگو کے دوران اس شخص نےجناب سلمان فارسی(رح) سے کہا ” تم کون ہو“ سلمان نے کہا تیرا اور میرا آغاز خون کے ایک نطفے سے ہوا اور تیرا اور میرا انجام ایک بد بودار مردار ہے ہمیں روزِ قیامت میزان سے گزرنا ہے اور اس وقت جس کی میزان وزنی ہوگی وہ بلند ہوگا اور جس کی میزان ہلکی ہوگی وہ پست ہوگا۔

۹ـ           امام رضا (ع) نے اپنے متعلق فرمایا میں زہر سے قتل کیا جاؤں گا اور ایک سرزمین میں غربت کے عالم میں دفن کیا جاؤں گا کیا تم جانتے ہو وہ زمین کونسی ہے، میرے والد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) سے اور انہوں نے جناب رسول خدا(ص) سے میرے متعلق فرمایا  ہے کہ جو کوئی ،

۵۶۱

 میرے عالم غربت میں میری زیارت کرے گا۔ میں اور میرے والد(ع) روزِ قیامت اس کے شفیع ہوں گے اور جس کسی کے ہم شفیع ہونگے وہ نجات پائے گا چاہے اس کے گناہ ستاروں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

ربیع حاجب کا بیان

۱۰ـ          داؤد شعیری کہتے ہیں کہ ربیع حاجب مںصور نے بیان کیا کہ جب منصور دوانیقی تک کسی نے امام صادق(ع) کے متعلق ایک بات پہنچائی جو اس ( منصور دوانیقی)  سے متعلق تھی تو اس نے امام(ع) کو طلب کرلیا جب امام(ع) اس کے دروازے پر پہنچے تو اندر سے میں (ربیع حاجب) باہر آیا اور امام(ع) سے کہا اس ظالم و جابر کے عتاب سے خدا آپ(ع) کو بچائے اس وقت وہ آپ(ع) سے سخت ناراض اور غصے کی حالت میں ہے آپ(ع) نے فرمایا خدا میرا محافظ و مددگار ہے وہ میری مدد فرمائے گا انشاء اﷲ تعالی۔ تم جاؤ اور میرے لیے اس سے ملنے کی اجازت لے آؤ۔ وہ اندر گیا اور اجازت لے آیا آپ(ع) اندر تشریف لے گئے اور اسے سلام کیا اس نے سلام کو جواب دیا اور کہنے گا اے جعفر(ع) تمہیں معلوم ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے تمہارے جد علی(ع) کے بارے مین فرمایا ہے کہ اے علی(ع) اگر مجھے اس کا ڈر نہ ہوتا کہ میری امت کا ایک گروہ تمہارے بارے میں وہ گمان کرے گا جس طرح ںصاری عیسی بن مریم(ع) کے بارے میں گمان کرتے ہیں تو میں تمہاری وہ فضیلت بیان کرتا کہ لوگ تمہارے قدموں کی خاک برکت و شفا کے لیے اٹھالے جاتے۔ اور علی(ع) نے اپنے متعلق خود فرمایا ہے کہ میرے بارے میں دو  لوگ ہلاکت کا شکار ہون گے ایک وہ  جو میری محبت میں حد سے تجاوز کرجائے اور دوسرا وہ جو میری دشمنی میں حد سے تجاوز کر جائے اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں خدا کی قسم اگر حضرت عیسی(ع) ںصاریٰ کے قول پر خاموش رہتے تو خدا انہیں معذب کردیتا ۔ اے جعفر(ع) تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ تمہارے بارے میں کیا کیا جھوٹ اور بہتان کہا جاتا ہے مگر ان سب پر تمہاری خاموشی اور رضا اﷲ کی ناراضگی کا سبب ہے حجاز کے احمق اور کمینے لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تم عالمِ زمانہ ہو معبود کی ناموس وحجت ہو اس کے ترجمان اور اس کے علم کے خزینہ دار اس کے عدل کی میزان ہو اس

۵۶۲

کے وہ روشن چراغٰ ہو جس سے طلب حق  کے لیے تاریکیان دور ہوجاتی ہیں اور راستہ واضح ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ تمہارے حدود کو نہ پہچاننے والے کسی عامل کا عمل نہ دنیا میں اﷲ قبول کرے گا اور نہ قیامت میں اس کے عمل کا کوئی وزن ہوگا ان لوگوں نے تمہیں حد سے بڑھا دیا ہے اور ایسی باتیں تیرے بارےمیں کہتے ہیں جو تم میں نہیں ہیں بہتر یہ ہے کہ تم اپنے بارے میں غلط فہمی نہ پیدا ہونے دو اور سچ سچ کہہ دو اس لیے کہ سب سے پہلے تیرے جد محمد مصطفی(ص) سچ بولنے والے تھے اور سب سے پہلے تیرے جد حضرت علی(ع) نے ان(ص) کی تصدیق کی تھی تمہیں بھی یہی چاہیے کہ ان ہی حضرات(ع) کے نقش قدم پر چلو اور انہیں کا راستہ اختیار کرو۔

امام صادق(ع) نےفرمایا سنو میں بھیاسی شجرہ زیتون کی شاخوں سے ایک شاخ ہوں خانہ نبوت(ص) کی قندیلوں سے ایک قندیل ہوں اور ادب آموز کاتبان قضا ہوں پروردہ آغوش صاحبان کرامت و خوبی ہوں میں اس مشکواة کے چراغوں میں سے ایک چراغ ہوں جس میں سارے انوار کا نچوڑ ہے میں کلمہء باقیہ کا خلاصہ ہوں جو برگزیدہ منتخب ہسیتوں کے بعد  تا قیامت رہے گا یہ سن کر منصور حاضرین اور ہم نشینوں کی طرف متوجہ ہوا اور بولا انہوں نے مجھے ایک ایسے سمندر میں ڈال دیا  جس کا نہ کہیں کنارہ نظر آتا ہے اور نہ اس کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے کہ اس کےسامنے بڑے بڑے غوطہ خور غوطہ لگا کر ناکام واپس ہوجائیں گے یہی تو خلفائے اسلام کے گلے کی پھانسی ہے جس کو نہ مٹانا جائز ہے نہ قتل کرنا روا ہے اگر ہم اس ایک شجرہ سے نہ ہوتے جس کی جڑ طیب و طاہر ہے جس کی شاخین پھیلی ہوئی ہیں جس کے پھل شیرین ہیں جس کی ذریت با برکت جس کی عقل و حکمت پاک و مقدس ہے تو میں ان کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا کیونکہ میں نے سنا ہے کہ یہ ہماری عیب جوئی کرتے اور ہمیں برا  کہتے ہیں۔

امام صادق(ع) نے فرمایا آپ اپنے  رشتہ داروں اور خاندان کے افراد کے متعلق ان لوگوں کی بات نہ مانیں جن کے لیے جنت حرام اور جن کا ٹھکانہ جہنم ہے کیونکہ چغل خور ایک دھوکہ باز گواہ ہے اور لوگوں کو بہکانے میں ابلیس کا شریک کار ہے اﷲ فرماتا ہے۔

۵۶۳

” يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصيبُوا قَوْماً بِجَهالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلى‏ ما فَعَلْتُمْ نادِمينَ “ ( حجرات، ۶)

ترجمہ ” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اسکی تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا  نہ ہو کہ تم اپنی جہالت کے سبب سے لوگوں کو صدمہ پہنچاؤ پھر اپنے کیے پر خود ہی نادم ہوتے پھرو۔“ ہم لوگ آپ کے اںصار و مدد  کرنے والے اور آپ کی سلطنت کے ستون و ارکان بنے رہیں گے اور شیطان کی ناک رگڑتے رہیں گے۔ آپ کے پاس تو وسعت فہم اور کثرت علم ہے آپ آداب الہی کی معرفت رکھتے ہیں آپ پر واجب ہے کہ جو شخص آپ سے قطع رحم کرے جو آپ کو محروم رکھے اسے عطا کریں جو آپ پر ظلم کرے آپ اسے معاف کریں اس لیے کہ صلہء رحم کے بدلے میں صلہء رحم کرنے والا در حقیقت صلہء رحم کرنے والا نہیں کہا جائے گا بلکہ در اصل صلہء رحم کرنے والا وہ ہے کہ جو اس کے ساتھ قطع رحم کرے یہ اس کے ساتھ صلہء رحم کرے لہذا اﷲ آپ کی عمر زیادہ کرے آپ صلہء رحم لے کر قیامت کے دن حساب کو اپنے لیے ہلکا کرلیں منصور نے کہا جایئے آپ(ع) کی قدر و منزلت کو دیکھتے ہوئے میں نے آپ(ع) کو چھوڑ دیا اور آپ(ع) کی حق پسندی و سچائی کی نبا پر میں نے آپ(ع) سے در گزر کیا اب آپ(ع) مجھے کوئی ایسی نصیحت کریں جو مجھے برائیوں سے بچائے امام صادق(ع) نے فرمایا آپ بردباری رہیں اور برداشت سے کام لیں کیوںکہ یہ علم کو ستون ہے آپ قدرت و طاقت  کے باوجود اپنے نفس پر قابو رکھیں کیونکہ اگر آپ نے اپنی قدرت و طاقت کا استعمال کیا تو گویا آپ نے اپنے غیظ کی تشفی کی یا اپنی کدورت کا مداوا کیا یا خود کو با صولت و باشوکت وبا رعب کہلوانے کی خواہش کی اور یہ بھی یاد رکھیں اگر آپ نے کسی مستحق سزا کو سزا دی تو زیادہ سے زیادہ لوگ یہی کہیں گے کہ آپ نے عدل و اںصاف سے کام لیا مگر مستحق سزا آپ کے عدل پر صبر کرے ، اس سے بہتر ہے کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرے مںصور نے کہا آپ(ع) نے بڑی نصیحت کی اور مختصر بھی اب آپ(ع) اپنے جد علی بن ابی طالب(ع) کی فضیلت میں کوئی ایسی حدیث بیان کریں جس سے عوام واقف نہ ہوں۔

امام صادق(ع) نے فرمای میرے والد(ع) نے مجھ سے بیان کیا اور ان سے ان کے والد(ع) نے کہ رسول خدا(ص)

۵۶۴

 نے فرمایا کہ جب شب معراج میں آسمان پر پہنچا تو میرے  رب نے مجھ سے علی(ع) کے بارے میں تین باتیں کہیں اور فرمایا اے محمد(ص) میں نے عرض کیا ” لبیک وسعدیک “ تو میرے رب اﷲ نے فرمایا سنو علی(ع) امام المتقین قائد الغرالمحجلین اور یعسوب المومنین ہیں علی(ع) کو جاکر اس کی خوشخبری سنا دینا۔ جب نبی(ص) نے یہ خوشخبری سنائی تو حضرت علی(ع) اپنے پروردگار کے شکر کے لیے سجدہ میں گر گئے اور پھر سجدے سے سر اٹھایا اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) کیا میری قدر و منزلت اس حد تک ہے کہ وہاں بھی میرا ذکر ہوا ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا ہاں اے علی(ع) اﷲ تم کو خوب جانتا ہے اور رفقاء اعلی میں تمہارا تذکرہ رہتا ہے منصور نے کہا ” ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء “ ( مائدہ ، ۵۴)  ترجمہ ” یہ اﷲ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔“

۱۰ـ          عبداﷲ بن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو طالب (ع) نے جناب رسول خدا(ص) سے کہا اے برادر زادے آپ(ص) کو خدا نے بھیجا ہے آںحضرت(ص) نے فرمایا ہاں ابوطالب(ع)نے کہا کوئی نشانی پیش کریں اور اس درخت کو میری طرف بلائیں جناب رسول خدا(ص) نے درخت کو پاس آنے کا حکم دیا وہ درخت اپنی جگہ سے متحرک ہوا اور جناب ابوطالب(ع) کے سامنے آکر خاک پر گر گیا اور پھر واپس ہوا اور اپنی جگہ پر چلا گیا ابوطالب(ع) نے یہ دیکھ کر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سچ کہتے ہو پھر جناب امیر(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تم اپنے چچازاد بھائی کے پہلو سے پیوست ہوجاؤ۔

۱۱ـ           سعید بن حبیب کہتے ہیں ایک شخص نے عبداﷲ ابن عباس(رض) سے کہا اے رسول خدا(ص) کے چچا کے بیٹے مجھے بتائیں کہ ابو طالب(ع) مسلمان تھے یا نہیں ابن عباس نے کہا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ تھے اس لیے کہ ابو طالب(ع) نے فرمایا تھا ” و قدعلموا ان ابننا لامکذب لاینا و لایعباء بقول ( بقیل) الا باطل“  یعنی جانتے ہو کہ ہمارا فرزند(محمد(ص)) ہمارے ہاں مورد تکذیب نہیں ہے اور باطل بات سے اعتنا نہیں رکھتا ۔ “ ابو طالب(ع) کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے کہ وہ دل سے مومن ہوئے مگر ظاہرا ایمان کا اعلان نہ فرمایا اور خدا نے انہیں دوہرا ثواب عطا فرمایا۔

۱۲ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں ابوطالب (ع) کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے کہ دل سے مومن ہوئے اور بظاہر مشرک اور خدا نے انہیں دو ثواب عطا فرمائیے۔

۵۶۵

مجلس نمبر ۹۰

(۲شعبان سنہ۳۶۸ھ)

علم کیا ہے؟

۱ـ           اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین(ع) نے فرمایا علم حاصل کرو کیونکہ اس کا حاصل کرنا نیکی ہے اس کا ذکر کرنا تسبیح اس میں بحث جہاد اور اس کا حاصل کرنا نا دانی میں صدقہ ہے یہ اپنے طالب کو بہشت میں لے جاتا ہے اور انیس و حشت ورفیق تنہائی ہے یہ دشمن کے خلاف اسلحہ اور دوست کے لیے زیور ہے جان لو کہ خدا اس کی وجہ سے بندے کے درجات بلند کرتا ہے اور اسے خیر کا رہبر بناتا ہے کہ اس (بندے) کا کردار توجہ کے قبل ہوتے ہیں اور نماز میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور کیونکہ علم دلوں کی زندگی اور  آنکھوں کا نور ہے یہ اندھے پر سے بچاتا ہے اور ضعف میں بدن کی طاقت ہے۔ خدا، عالم کو نیکیوں کے ساتھ جگہ دیتا ہے اور آخرت میں اچھوں کی ہم نشین عطا کرتا ہے دنیا و آخرت میں علم حاصل کرنے والا قیمت رکھتا ہے علم ہی سے خدا کی اطاعت کی جاتی ہے اور توحید کی معرفت ہوتی ہے علم ہی سے صلہء رحم ہوتا ہے اور حلال و حرام کی تمیز ہوتی ہے علم عقل  کا رہبر ہے اور عقل اس کی پیرو کار، خدا نے اسے سعادت مندوں کو عطا کیا اور اشقیاء سے دور رکھا ہے۔

۲ـ           حفص بن غیاث قاضی کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ اس دنیا میں زہد کیا ہے امام(ع) نے جواب دیا کہ خدا نے اسے اپنی ایک آیت میں بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے ۔ ” یہ اس لیے ہے کہ تم افسوس نہ کرو اس پر جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور خوش نہ ہو اس پر جو تمہاری طرف آئے اور اﷲ ہر اترانے والے فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔(حدید، ۲۳)

۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں خدا کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں عرض کیا گیا کہ

۵۶۶

 یا رسول اﷲ(ص) اس سلسلے میں کیا کیا جائے ( یعنی کیسے بچاجائے) آپ(ص) نے فرمایا اگر تم اس سے محفوظ ہونا چاہو تو تم میں سے ہر ایک اس وقت تک نہ سوئے  جب  تک اپنی موت کو یاد نہ کرے تم اپنے حواس پر خودسری طاری ہونے نہ دو اور دل میں قبر اور بوسیدگی کو یاد رکھو اور جو کوئی آخرت چاہے اسے چاہیے کہ وہ دنیا کی زندگی چھوڑدے۔

امام صادق(ع) اور ابنِ عوجا

۴ـ          فضل بن یونس کہتے ہیں کہ ابن عوجا جو حسن بصری کا شاگرد تھا توحید سے منحرف ہوگیا اس سے کہا گیا کہ تم نے اپنے ساتھ کے مذہب کو ترک کردیا  اور اس مسئلہ میں داخل ہوگئے جس کی کوئی بنیاد و حقیقت نہیں ابن عوجا کہنے لگا  میرا استاد گفتگو میں قیاس سے کام لینے والا تھا وہ خلط ملط باتیں بیان کیا کرتا کبھی وہ قدر کا قائل ہوجاتا اور کبھی جبر کا مجھے معلوم نہیں کہ وہ کس نتیجے پر تھا پھر جب وہ ( ابن عوجا) حج سے بغاوت و انکار کرتے ہوئے مکہ آیا تو علماء اس کے مسائل پر بحث کرتے تھے اور اس کے ساتھ نشت و برخاست کو اس کی زبان درازی اور ضمیر کی خرابی کی وجہ سے برا سمجھتے تھے اس کے بعد ابن عوجا امام صادق(ع)کے خدمت میں حاضر ہوا اس کے مسلک کے لوگ بھی اس کے ہمراہ تھے وہ امام صادق(ع) کے پاس کچھ دریافت کرنے آیا تھا وہ کہنے لگا اے ابوعبداﷲ(ع) ان مجالس میں امانت کا خیال رکھنا چاہیے اور جس کسی کو کھانسی آئے اسے کھانسنے کی اجازت ہونی چاہیے یعنی جو شخص سوالات کرنا چاہیے اسے سوالات کرنے کی اجازت ہونی چاہییے ۔ کیا آپ(ع) مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ(ع) سے سوالات کروں امام(ع) نے فرمایا جو کچھ پوچھنا چاہو تو پوچھو اس نے کہا آپ لوگ کب تک اس کھلیان ( خانہ کعبہ) کو پاؤں سے روندتے رہیں گے جو  پکی اینٹوں اور مٹی سے لیپائی کر کے بلند کیا گیا ہے آپ کب تک اونٹ کی طرح اس کے گرد چکر لگاتے رہیں گے اور تیزی سے چلتے رہیں گے بے شک جس نے اس کے بارے میں غور کیا اور اندازہ لگایا وہ اس حقیقت سے واقف ہوگیا کہ اس فعل کی بنیاد کسی غیر حکیم نے رکھی ہے نہ کسی صاحب نظر نے پس آپ(ع) اس کی وضاحت فرمائیے کیونکہ آپ(ع) اس امر کے سردار و بلند مرتبہ آدمی ہیں اور آپ(ع) کے

۵۶۷

 والد(ع) اس نظام کی اساس ہیں۔ امام صادق(ع) نے فرمایا جسے اﷲ نے گمراہ کردیا ہو اور جس کو قلب اندھا ہوگیا جس نے حق کو کڑوا جانا ہو اور اسے خوش گوارنہ بنایا ہو اور شیطان اس کا سرپرست ن بیٹھا ہو جو سے ہلاکت کے چشموں پر وارد کرتا ہو اور اسے واپس نہ جانے دیتا ہو اے ابن عوجا یہ وہ گھر ہے کہ جس کے ذریعے سے اﷲ نے اپنی مخلوق کو اس کا فرمانبردار بنایا ہے تاکہ اپنے اثبات کے بارے میں اس کا امتحان لے پھر اس (خدا) نے انہیں ( مخلوق کو) اس کی زیارت و تعظیم پر اکسایا اور اسے انبیاء کی جائے ورود اور  نماز گذاروں کا قبلہ قرار دیا اسے پیغمبروں کا مرکز قرار دیا یہ اس کی خوشنودی کا ایک حصہ اور ایک ایسا راستہ ہے جو بندوں کو اس کی بخشش کی طرف لے جاتا ہے۔

جس کی بنیاد منطقہء کمال اور عظمت وجلال کے اجتماع پر رکھی گئی ہے اﷲ نے اس زمین کو بچھانے سے دو ہزار سال پہلے پیدا کیا اور جس کے بارے میں حکم دیا گیا اور جس سے روکا اور  دھتکارا گیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اﷲ ہی روح اور صورت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ یہ سن کر ابن عوجا نے کہا اے ابو عبداﷲ(ع) آپ(ع) نے اس (خانہ کعبہ) کا ذکر کیا پھر غائب کا مناسب تذکرہ کیا امام صادق(ع) نے فرمایا اے ابن عوجا تجھ پر وائے ہو وہ کیونکر غائب ہوسکتا ہے جو اپنی مخلوق کا شاہد اور انکی شہہ رگ سے زیادہ قریب ہے وہ ان کی بات سنتا ہے اور ان کے افراد کو دیکھتا ہے اور وہ ان کے راز جانتا ہے۔ ابن عوجا نے کہا وہ ہر جگہ ہے اور کیا ایسا نہیں ہے کہ جب وہ آسمان میں ہوتو زمین میں کیونکر ہوسکتا ہے اور جب کہ وہ زمین میں ہوتو آسمان میں کس طرح ہوسکتا ہے امام(ع) نے فرمایا یہ تونے اس مخلوق کے وصف کو بیان کیا ہے وہ جب کسی جگہ سے منتقل ہوتی ہے اور کسی جگہ مصروف و مشغول ہوتی ہے تو یہ درک نہیں کرسکتی کہ کسی دوسری جگہ کیا امر واقع ہوا ہے مگر وہ عظیم شان کا مالک ہے کوئی جگہ اس سے پوشیدہ نہیں ہے حساب لینے والے سے کوئی خالی نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی جگہ مصروف رہتا ہے اور نہ کوئی ایک جگہ دوسری جگہ سے قریب تر ہوتی ہے  اور وہ شخص جس کو اﷲ نے محکم آیات اور واضح دلائل و براہین کے ساتھ مبعوث فرمایا اور جس کی تائید اپنی مدد سے ساتھ فرمائی اور جسے اپنی رسالت کی تبلیغ کے لیے منتخب کیا اس کے قول کی تصدیق ہم نے کی جو یہ ہے کہ اس کےرب نے اسے مبعوث کیا اور اس سے کلام کیا۔ یہ سن کر ابن عوجا کھڑا ہوا

۵۶۸

اور اپنے ساتھیوں سے کہا یہ تم نے مجھے کس سمندر میں ڈال دیا ہے میں نے تم سے بوشابہ (آب حیات۔ شیرین پانی) طلب کیا مگر تم نے مجھے انگاروں میں ڈال دیا اس کے ساتھیوں نے کہا تو ان(ع) کی مجلس میں حقیر نظر آرہا تھا اس نے کہا وہ اس شخص کے فرزند ہیں جنہوں نے لوگوں کے سر( حج کے لیے) منڈوا دیئے۔

علا بن حضرمی کے اشعار

۶ـ           علا بن حضرمی جناب رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں اپنے خاندان والوں سے احسان کرتا ہوں مگر وہ اس کے بدلے میں مجھ سے برا سلوک روا رکھتے ہیں میں ان سے صلہء رحمی کرتا ہوں اور مگر وہ مجھ سے صلہء رحمی سے گریزاں ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا تم اس کا احسن دفاع کرو تاکہ جو تمہارا دشمن ہے وہ تمہارا دوست ہوجائے۔ جو صبر کرتے ہین وہ غصہ نہیں کرتے اور جو غصہ نہیں کرتے جان لوکہ وہ بڑا غصہ رکھنے والے صاحبان ہیں  علا بن حضرمی نے کہا یا رسول اﷲ(ص) اگر حکم ہو تو میں اس بارے  میں اشعار کہوں آپ(ص) نے فرمایا کہو کیا کہتے ہو۔

تو حضرمی نے یہ قطعہ بیان کیا۔

             اگر کینہ غالب ہو تو دل کو قابو میں رکھو۔

             (اسے) بلند سلام دو تاکہ وہ شکست کھائے

             اگر خوش آمدید کہا جائے تو سب کے ساتھ خوشی سے پیش آؤ۔

             وگرنہ اگر تم سے کچھ ( ناروا) سرزد ہو تو دوسرے سے پوچھو (یعنی اس کا مداوا کرو)

             جو کچھ تم سنتے ہو اس سے تمہارے آزار میں اضافہ ہوتا ہے۔

             جو کچھ پوشیدہ کہا جاتا ہے وہ کسی اور کے لیے ہے۔

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بعض دفعہ ایسا سحر آمیز شعر ہوتا ہے کہ اس میں حکمت ہوتی ہے تیرے اشعار بہتر ہیں مگر خدا کی کتاب اس سے بھی بہتر ہے۔

۵۶۹

دنیا جناب امیر(ع) کی نظر میں

 ۷ـ                 امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا ہے کہ جناب امیر(ع) نے اس خطبے میں دینا کے متعلق فرمایا  کہ خدا کی قسم تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک یک مسافروں کی منزل گاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کہ مسافر یہاں آتے ہیں اور اس کے کنارے سے پانی بھرتے  ہیں اور جب قافلہ سالار انہیں آواز دیتا ہے تو کوچ کر جاتے ہین اس دنیا کی لذتیں میرے سامنے حمیم دوزخ کی مانند ہیں جو پینے والے کو داغ لگاتی ہیں یہ تلخ شربت ہے جو حلق سے نیچے لے جانے میں ناگواری محسوس ہوتی ہے یہ ہلاک کرنے والا زہر ہے جو بدن میں سرایت کر جاتا ہے اور ایک ایسی گردن بند  آگ ہے جو میرےگلو گیر ہے میں نے اپنے اس پالتو کو اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مزید پیوند لگانے میں مجھے شرم آتی ہے اور آخر اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں اسے جلے ہوئے کتے کی طرح دور پھینک دوں کہ اسے پسند نہیں کہ میں اسے مزید پیوند لگاؤں لہذا اسے کہتا ہوں کہ مجھ سے دور رہ۔اگر میں چاہوں تو اس میں سے عمدہ لباس اپنے لیے منتخب کرلوں اور عمدہ خوراک نوش جان کروں اور اس کے لذائذ سے بہرہ مند ہوجاؤں مگر میں اﷲ جل جلالہ عظمتہ کی تصدیق کرتا ہوں کہ وہ فرماتا ہے ” جو کوئی اس دنیا کی خوبصورتی چاہتا ہے تو اس کےکردار کو بدل دیتا ہے اور دنیا کم وکاست نہیں رکھتی “ ( ھود، ۱۵) پھر فرمان الہی ہے ” اور وہ ہیں کہ جو سوائے آگ کے کچھ نہیں رکھتے “ ( ھود، ۱۶) آگ کو برداشت کرنے  کی طاقت کس میں سے اس کا ایک انگارہ زمین کے جنگلات کو خاکستر کرسکتا ہے او اگر اس سے بچنے کے لیے کوئی کسی قلعے میں پناہ لے لے تو یہ اس قلعے کو بھی جلا ڈالے علی(ع) کے لیے کیا بہتر ہے، کیا یہ کہ خدا کے نزدیک مقرب کہلائے یا یہ کہ دوزخ کی آگ اسے آلے اور اس کے جرم کی سزا دے یا یہ کہ مورد تکذیب ہو، خدا کی قسم میرے لییے خواری اور زنجیروں میں جکڑا جانا اور درختوں کی راکھ کی مانند خاکستر ہوجانا اور کندلو ہے کو میرے سر میں مارا جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ میں محمد(ص) کے سامنے اس خیانت کے ساتھ پیش ہوں کہ کسی یتیم پر ستم کیا ہوا ہو میں اپنے نفس کی خاطر یتیموں پر ستم نہیں کرتا کہ بوسیدگی جلد ہی آنے والی ہے اور زیر خاک جانا ہے جہاں مدتوں رہنا ہے۔ بخدا میں نے اپنے بھائی عقیل (رح) کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا وہ تمہارے حصے کے

۵۷۰

غلے میں سے ایک صاع گیہوں مجھ سے مانگتے تھے میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جو فاقہ کشی کی وجہ سے پریشان تھے ان کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے بھوک کی زیادتی کی وجہ سے زرد و سیاہ ہوگئے تھے جیسے کسی نے ان کے چہرون  پر تیل چھڑک کر سیاہ کردیا ہو وہ میرے پاس آئے اور اصرار کرنے لگے ( گہیوں کے بارے میں) میں نے کان لگا کر ان کی بات کو سنا تو انہوں نے گمان کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی راہ (حق) چھوڑ کر ان کے پیچھے چل پڑوں گا مگر میں نے لوہے کی ایک سلاخ کو تپایا اور عقیل(رح) کے بدن کے قریب لے گیا وہ اس طرح چیخے جس طرح کوئی بیمار درد و کرب سے چیختا ہے اور نزدیک تھا کہ ان کا بدن لوہے کی حرارت سےجل جائے تو میں نے ان سے کہا اے عقیل(رح) رونے والیاں تم روئیں کیا تم اس لوہے کے ٹکڑے کی حرارت سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے تپایا ہے جبکہ مجھے ایسی آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے تم خود تو اس لوہے کی حرارت سے چیخو میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں اس سے بھی عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص رات کے وقت شہد میں گندھا  ہوا حلوا ایک برتن میں لیے ہمارے گھر آیا مجھے حلوئے سے ایسی نفرت ہوئی جیسے وہ سانپ کے تھوک یا قے میں گوندھا گیا ہو میں نے اس آدمی سے پوچھا کیا یہ کسی بات کا انعام ہے یا زکواة یا صدقہ ہے جو ہم اہل بیت(ع) پر حرام ہے تو اس نے کہا یہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ آپ(ع) کےلیے ایک تحفہ ہے میں نے کہا اے پسر مردہ، عورتیں تجھ پر روئیں کیا تو مجھے دین کے راستے سے فریب دینے آیا ہے کیا تو بہک گیا ہے یا پاگل ہوگیا ہے یا یونہی ہذیان بک رہا ہے خدا کی قسم اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانون کے نیچے ہیں مجھے دیدی جائیں اور میں خدا کی معصیت صرف اس حد تک کرون کہ میں کسی چیونٹی سے جو کا چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہ کروں گا یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتی سے بھی زیادہ بے وقعت ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اسے چبا رہی ہو علی(ع) کو فنا ہوجانے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذتوں سے کیا واسطہ ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ مانگتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔

             اللہم صلی اﷲ محمد(ص) و آل محمد(ص)

۵۷۱

مجلس نمبر۹۱

(۵ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

آدم(ع) اور محمد(ص)

۱ـ            امام صادق(ع)اپنے آباء(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) سے دریافت کیا گیا کہ آپ (ص) آدم(ع) کے ہمراہ بہشت میں کس مقام پر تھے آپ(ص) نے جواب دیا میں ان کی پشت (صلب) میں تھا وہ مجھے نیچے اس زمین پر لائے پھر میں پشت نوح(ع) میں کشتی پر سوار ہوا پھر پشتِ ابراہیم(ع) میں آگ میں گرایا گیا میرے اجداد(ع) کسی بھی زمانے میں ہرگز زنا سے کثیف و آلودہ نہ ہوئے خدا نے مجھے پاک صلبوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل کیا ہدایت کے طریقہ کار  سے، پھر یہاں تک کہ مجھ سے عہد نبوت لیا گیا اور پیمان اسلام کو میرے ساتھ منسلک کردیا گیا میری تمام صفات کو بیان کیا گیا، توریت و انجیل میں مجھے یاد کیا اور آسمان پر لے جایا گیا میرے نام کو خدانے اپنے نیک ناموں میں سے رکھا میری امت حمد کہنے والی ہے عرش کا پروردگار محمود اور میں محمد(ص) ہوں۔

ذکر علی(ع) اور معاویہ

۲ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ ضرار ابن ضمرہ نبشلی ۔معاویہ بن ابو سفیان کے پاس گیا تو معاویہ نے اس سے کہا میرے سامنے علی(ع) کے اوصاف بیان کرو اس نے کہا مجھے اس سے معاف رکھیں معاویہ نے کہا اے ضرار ڈرو مت بیان کرو۔ ضرار نے کہا خدا علی(ع) پر اپنی رحمت نازل فرمائے وہ ہمارے درمیان ہماری ہی مانند تھے ہم جس وقت بھی ان کی خدمت میں جاتے تو وہ اپنی قربت ہمیں عطا فرماتے جب بھی ہم ان سے کوئی سوال کرتے تو وہ بیان فرماتے ہم جب بھی انہیں دیکھنے جاتے تو ہم سب محبت فرماتے انہوں نے کبھی اپنے دروازے ہمارے لیے بند نہیں کیے اور نہ ہی دوازے پر نگران مقرر کیا اور خدا کی قسم انہوں نے ہر حال میں ہمیں اس طرح اپنے قریب رکھا کہ وہ خود ہم سے زیادہ ہمارے قریب تھے ان کی ہیبت اس قدر تھی کہ ہم ان سے بات

۵۷۲

 کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے اور ان کی بزرگی ان کے سامنے آغاز سخن کی دعوت نہ دیتی تھی جب آپ(ع) مسکراتے تو آپ(ع) کے دندان مبارک موتیوں کی لڑی کی مانند دکھائی دیتے۔

معاویہ نے کہا اے ضرار مزید بیان کرو ضرار نے کہا خدا اپنی رحمت علی(ع) پر نازل فرمائے خدا کی قسم وہ بہت زیادہ جاگنے اور بہت کم سونے والے تھے وہ شب و روز کی ہر ساعت قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے انہوں نے اپنی جان خدا کی راہ میں دیدی ان کی آنکھوں سے اشک جاری رہتے اور پردہ ان کے لیے نہ گرایا جاتا۔ مال و دولت انہوں نے کبھی ذخیرہ نہ کیا اور نہ ہی کبھی خود اس سے وابستہ رکھا وہ جفا کاروں سے نرمی نہ برتتے مگر بدخوئی نہ کرتے ہم نے انہیں اکثر محراب عبادت میں ہی کھڑے دیکھا اور جب رات ہوتی تو اپنے معبود کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے اور اپنی ڈارھی پکڑے اس کے سامنے یوں کانپتے جیسے کوئی سانپ مارنے والا کانپ رہا ہوتا ہے جب آپ(ع) غمزدہ ہوتے گریہ فرماتے اور کہتے اے دینا تو اپنا رخ میری طرف کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ میں تیرا مشتاق بنوں دور رہ ، دور رہ کہ میں تجھ سے احتیاج نہیں رکھتا میں نے تجھے تین طلاقین دی ہیں تو رجوع نہیں کرسکتی اور فرمایا کرتے آہ، راستہ طویل ہے  اور توشہ کم اور طریقہ سخت ہے۔ معاویہ نے یہ سنا تو گریہ کیا اور کہا اے ضرار خدا کی قسم علی(ع) اسی طرح کے تھے خدا ابوالحسن(ع) پر رحمت کرے۔

شیعیان علی (ع) کے بارے میں

۳ـ          امام باقر(ع) نے جابر سے فرمایا اے جابر جو بندہ شیعہ ہے اور صرف ہماری محبت پر اکتفا کرتا ہے خدا کی قسم وہ ہمارا شیعہ نہیں مگر وہ بندہ جو خدا پر تقوی رکھے اور اس کے حکم پر چلے اور تواضع وخشوع و کثرت ذکر خدا ، روزہ ، نماز، اور حاجت مندوں، ہمسایوں، فقیروں، قرض داروں، اور یتیموں کی احوال پرسی ، راست گوئی، تلاوت قرآن وحفاظت، زبان لوگوں سے خیر اور ہر چیز میں امانت داری کے علاوہ کسی چیز سے نہ پہچانا جائے۔

جابر نے کہا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) میں کسی بندے کو نہیں جانتا جو ایسے اوصاف رکھتا ہو امام(ع) نے فرمایا جابر تم ان کو اپنے درمیان جگہ مت دو جو یہ کہیں کہ میں رسول خدا(ص) اور علی(ع) کے ساتھ مگر ان کا

۵۷۳

کردار نہ اپنائیں اور ان کے طریقے و راستے کے پیروکار نہ ہوں تو یہ محبت انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی لہذا خدا سے ڈرو اور جو کچھ خدا کے پاس ہے اس پر عمل کرو خدا اور بندے کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے اور ان میں سے فرمانبردار اور باتقوی خدا کے نزدیک دوست اور گرامی ترین ہے خدا کی قسم خدا کا تقرب اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہوگا اور ہم دوزخ سے برائت اپنے ہمراہ نہیں رکھتے اور کوئی بھی خدا پر حجت نہیں رکھتا جو کوئی خدا کا مطیع ہے ہمارا دوست ہے اور جو کوئی خدا کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور بجز پرہیز گاری اور نیک کردار کے ہماری دوستی تک نہیں پہنچا جاسکتا ۔

معصوم(ع) کا شیعوں سے خطاب

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا میں اورمیرے والد(ع) باہر تشریف لائے اور منبر تک گئے وہاں بہت سے شیعہ حضرات جمع تھے میرے والد(ع) نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا میرے والد(ع) نے فرمایا خدا کی قسم میں تمہاری بو اور تمہاری جان کو دوست رکھتا ہوں تم میری مدد اپنی پرہیزگاری اور کوشش سے کرو کہ ہماری ولایت صرف وسیلہء عمل اور کوشش (نیک اعمال میں) کے ذریعے ہی ہاتھ آتی ہے تم میں سے جوکوئی بھی کسی ایسے کو دیکھے جو خدا کی اقتداء کرتا ہے تو تمہیں چاہیے کہ اس کی پیروی کرو تم شیعیان خدا، انصارانِ خدا اور پیشروان بہشت ہو  تمہیں ضانت خدا اور ضمانتِ رسول(ص) کے صلے میں بہشت عطا کی جائے گی ( ضمانت سے مراد شہادت دینا ہے) اور بہشت کے درجات میں کوئی بندہ تم سے زیادہ بڑھ کر نہیں ہوگا تمہیں چاہیے کہ ایک دوسرے سے برتری درجات میں رقابت اختیار کرو تم پاک ہو تمہاری عورتیں پاک ہیں اور ہر زن مومنہ ، حوریہ ء شوخ چشم ہے اور ہر مرد مومن صدیق ہے اے لوگو جناب امیرالمومنین(ع) نے قنبر(رض) سے فرمایا اے قنبر(رض) خوش خبری لو اور خوش خبری دو اور خوش رہو کہ پیغمبر(ص) سوائے شیعہ کے اپنی امت کے ہر شخص پر غضبناک تھے ہر چیز دست گیری رکھتی ہے اور اسلام کی وست گیری شیعہ ہیں آگاہ ہوجاؤ کہ ہر چیز کا ستون ہے اور اسلام کا ستون شیعہ ہیں ہر چیز کا کنگرہ ( کلٰغی جو ٹوپی پر لگائی جاتی ہے) اور اسلام کا کنگرہ شیعہ ہیں ہر چیز کےلیے سردار ہے اور مجالس کی سرداری مجالس شیعہ میں ہے آگاہ ہوجاؤ کہ ہر چیز کے لیے امام

۵۷۴

ہے اور امام کائینات یہ زمین  ہے کہ اس کے ساکنان شیعہ ہیں خدا کی قسم اگر تم اس زمین میں نہ ہوتے تو خدا تمہارے مخالفین کونعمت نہ دیتا اور وہ اس دنیا میں طیبات کو  نہ پہنچ سکتے مگر ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہےمگر یہ کہ عبادت کرے اور کوشش کرے اور جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے اس پرعمل کرو” بیشک تمہارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائے گی کتنے ہی منہ اس دن ذلیل ہوں گے کام کریں مشقت جھلیں جائیں بھڑکتی آگ میں اور نہایت جلتے ہوئے چشمے کا پانی پلایا جائے اور ان کے لیے کچھ کھانا نہیں مگر آگ کے کانٹے کہ نہ فربہی لائیں اور نہ بھوک میں کام دیں۔ ( غاشیہ، ۱ـ۷) ہر ناصبی کی کوشش وعمل برباد ہے ہمارے شیعہ نور خدا کو دیکھتے ہیں اور ان کے مخالفین کےلیے خدا کا غصہ ہے خدا کی قسم کوئی بندہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں سوتا مگر یہ کہ خدا اس کی روح کو آسمان پر لے جاتاہے اور اگر موت سے ہمکنار ہوجائے  توخدا اسے گنجینہ رحمت میں رکھتا ہے اور اگر نہ آسکے تو خدا اس کے پاس ایک امین فرشتہ بھیجتا ہے کہ اس کے جسم تک پہنچے اور اس کی روح کو اپنے تک راہنمائی کرے خدا کی قسم تم حج و عمرہ کرنے ولاے ہو( تمہارے حج و عمرہ قبول شدہ ہیں) تم خدا کے خاص بندے  ہو تمہارے غریب و فقیر بے نیاز اور تمہارے توانگر قانع ہیں تم خدا کی دعوت کے اہل او اس کے نزدیک مقبول ہو۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا رمضان خدا کا مہینہ اور شعبان میرا مہینہ ہے جو کوئی میرے مہینے کا ایک دن کا روزہ رکھے گا میں قیامت میں اس کا شفیع ہوں گا اور جو کوئی ماہ رمضان کا روزہ رکھے گا تو وہ دوزخ سے آزاد ہے۔

۶ـ           امام رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی ماہ شعبان میں روزانہ ستر بار ”استغفر اﷲ واسئلہ التوبہ“ کہے تو خدا اسے دوزخ سے برائت عطا فرماتا ہے اور اسے پل صراط سے گزرنے کا پروانہ مہیا کرتا ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جوکوئی ماہ شعبان میں صدقہ دے تو خدا اسے اس طرح پالے گا جیسے کوئی اس زمین پر شتر پالتا ہے ( یعنی جس طرح پالتو اور منفعت بخش جانور کی خدمت کی جاتی ہے اور اسے نت نئی خوراک دی جاتی ہے اور خیال رکھا جاتا ہے )  اور روز قیامت اسے کوہ و دریا کی مانند دے گا۔ (یعنی بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا)

۵۷۵

۸ـ          اسحاق بن عمار بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا اے اسحاق منافقین سے بحث مت کرو اور مومن سے اخلاص ( نیک عمل) کرو اگر تمہارے ساتھ کوئی یہودی بھی بیٹھ جائے تو خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔

طالب علم کی اقسام

۹ـ           ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے جناب علی بن ابی طالب(ع) سے سنا ہے کہ طالب علموں کی تین اقسام ہیں جن کی صفات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

     پہلا گروہ  وہ ہے جو دین کی تعلیم ریا کاری اور جھگڑے کے لیے حاصل کرتا ہے۔

دوسرا گروہ وہ ہے جو مال بٹورنے اور دھوکا دینے کے لیے علم حاصل کرتا ہے۔

تیسرا گروہ وہ ہے جو سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے۔

پہلا گروہ جو ایذا دینے والون اور ریا کاروں کا ہے عوام کی محفلوں میں بلند پایہ خطیب بنتا ہے اور عبادات کو بڑی روانگی اور باقاعدگی سے ادا کرتا ہے مگر تقوی سے خالی ہے خدا ایسے افراد کو گمنام رکھے اور علماء کی بزم سے ان کا نام ونشان مٹادے۔

دوسرا گروہ کہ جو مال بٹورنے والے اور فریب کار ہیں وہ خوشامدی اور اپنے جیسے لوگوں کی ہم نشینی کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ لوگوں کے لذیذ کھانوں کے رسیا اور اپنے دین کو تباہ کرنے والے ہیں اے اﷲ ان کی ناک زمین پر رگڑ اور ان کی آرزوئیں کبھی پوری نہ فرما۔

تیسرا گروہ جو صاحبان فقہ وعمل پر مشتمل ہے وہ خوف الہی اور انکسار کرنے والوں کا گروہ ہے اس گروہ کے لوگ خوف الہی کی وجہ سے رونے والے زیادہ تضرع وزاری کرنے والے اپنے دور کے شناسا اور اس کے علاج کے لیے تیار اپنے انتہائی قابل بھروسہ بھائیوں سے بھی وحشت محسوس کرنے والے اور اپنے زہد کے لباس میں خشوع کرنے والے اور رات کی تاریکی میں نماز شب ادا کرنے والے ہیں انہیں لوگوں کے ذریعے خدا  اپنے ارکان دین کو مضبوط کرتا ہے اور انہیں خوف آخرت سے امان عنایت فرماتا ہے۔

۵۷۶

۱۰ ـ         جناب حٰسین بن علی(ع) نے اپنے والد(ع) جناب امیر(ع) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے جناب رسول خدا(ص) سے ائمہ(ع) کے متعلق دریافت کیا کہ ان کی تعداد کیا ہے تو جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی (ع) یہ بارہ(۱۲) ہیں ان کے اول تم اور آخری قائم(عج) ہیں۔

             اللہم صلی علی محمد(ص) و آل محمد(ص)

۵۷۷

مجلس نمبر۹۲

(۹ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

خلق کی دو قسمیں

۱ـ           ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا نے خلق کی دو قسمیں پیدا کی ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی میں اصحاب یمین اور اصحاب شمال کا ذکر ہوا ہے اور میں اصحاب یمین سے ہوں پھر خالق نے ان دو قسموں کو تین میں تقسیم کیا ہے اور مجھے بہترین قسم میں رکھا ارشاد ربانی ہے کہ ” پس دائیں طرف والے کیا کہنے دائں طرف دسوالوں کے اوف بائیں طرف والے کیا پوچھنا بائیں ہاتھ والوں کا اوع سبقت کرنے والے تو سبعت رکنے والے ہی ہیں۔ “ ( واقعہ، ۷ـ۱۰) اور میں اصحاب سابقوں ( سبقت کرنے والوں ) میں سے ہوں پھر خدا نے ان تمام تین قسموں کو قبیلوں تقسیم کیا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا اور ارشاد ربانی ہے ” ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخین اور قبیلے قرار دییے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اﷲ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے با خبر ہے “ (حجرات، ۱۳) اور میں اولاد آدم(ع) میں تقوی میں سب سے بڑھ کر ہوں اور خدا کے نزدیک ترین ہوں۔  پھرخدا نے ان قبائل کو خاندان میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین خاندان میں رکھا ارشاد ربانی ہے ” بیشک خدا چاہتا ہے کہ تمہارے خاندان ( اہل بیت(ع)) سے لے جائے  پلیدی کو اور خوب پاک و پاکیزہ کرے تم کو“ ( احزاب، ۳۳)

۲ـ           جناب زید بن علی بن حسین(ع) نے اس آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی ” اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکال لیں“ ( کہف، ۸۲) پھر جناب زید(رح) نے فرمایا خدا نے ان دو بچوں کی ان کے باپ کے بہتر ہونے کی وجہ سے حفاظت فرمائی اور ہم سے زیادہ بہتر حفاظت میں کون ہے کہ جناب رسول خدا(ص) ہمارے جد ہیں

۵۷۸

 ان کی دختر ہماری والدہ(ع) ہیں وہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ہمارے والد(ع) جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جناب رسول خدا(ص) کے ہمراہ نماز ادا کی۔

یحی بن یعمر

۳ـ          عبدالمالک بن عمیر کہتے ہیں کہ حجاج نے یحی بن یعمر کو طلب کیا اور اس سے کہا کہ تم معتقد ہو کہ علی (ع) کے دو بیٰٹے رسول خدا(ص) کے فرزند ہیں اس نے کہا ہاں ایسا ہی ہے اور اگر مجھے امان ہوتو میں اس کی دلیل قرآن سے پیش کرسکتا ہوں ۔ حجاج نے کہا تجھے امان ہے بیان کر۔

یحی نے کہا خدا ارشاد فرماتا ہے ” اور ہم نے انہیں ( ابراہیم(ع)) اسحق(ع) و یعقوب(ع) عطا کیے اور ان سب کو ہم نے راہ دکھلائی اور ان سے پہلے نوح(ع) کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد مین سے داؤد(ع) اور سلیمان اور ایوب(ع) اور یوسف(ع) اور موسی(ع) اور ہارون(ع) کو اورہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو“ ( انعام، ۸۲) پھر یحی بن یعمر نے کہا کہ حضرت زکریا(ع) اور یحیٰ باپ رکھتے تھے کیا عیسی(ع) کے بھی والد تھے حجاج نے کہا نہین یحی بن یعمر نے کہا خدا نے ان کو اپنی کتاب میں ان کی ماں کے وسیلے سے ابراہیم(ع) کا فرزند کہا ہے حجاج نے کہا اے یحیٰ تم نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا کہ اس طرح بیان کرتے ہو اور یحیٰ نے کہا میں نےیہ علم خدا کے اس عہدسے حاصل کیا جو اس نے علماء سے لیا ہے کہ وہ اپنے علم نہ چھپائیں۔

سدرة المنتہی

۴ـ          عبداﷲ بن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا جب مجھے ساتویں آسمان تک لے جایا گیا یہان تک کہ میں سدرة المنتھی پر پہنچا پھر وہاں سے حجاب نور تک  گیا تو خدا نے مجھے آواز دی کہ اے محمد(ص) تم میرے بندے ہو لہذا میرے لیے خضوع و تواضع کرو میری عبادت کرو مجھ پر بھروسہ کر میرے غیر پر اعتماد مت کرو کیونکہ میں نے تمہیں پسند کیا کہ تم میرے حبیب میرے رسول(ص) اور پیغمبر ہو میں نے تمہارے بھائی علی(ع) کو پسند کیا کہ وہ میرے خلیفہ اور میری بارگاہ کے مقرب ہوں لہذا وہی میرے بندوں پر میری حجت ہیں اور میری خلق کے پیشوا ہیں انہیں

۵۷۹

 کے ذریعے سے میرے دوست اور میرے دشمن پہچانے جائینگے اور انہیں کے ذریعے سے شیطان کا  لشکر میرے لشکر سےجدا ہوگا اور انہیں کے ذریعے سے میرا دین قائم رہے گا میرے حدود محفوظ رہیں گے اور میرے احکام جاری ہوں گے اے میرے حبیب(ص) میں اپنے بندون اور کنیزوں پر ان کے اور ان کی اولاد کے فرزندوں کے سبب سے رحم کروں گا اور تمہارے قائم کے سبب سے زمین کو اپنی تقدیس و تہلیل و تکبیر کے ساتھ آباد کروں گا اور اس کے ذریعے سے زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا اور اپنے دوستوں کو میراث دوں گا ان کے ذریعے کافروں کے کلمے کو پست اور اپنے کلمے کو بلند کروں گا اور اسی کےسبب سےاپنے بندوں کو زندہ کروں گا ۔اور شہر کو آباد کروں گا اور اپنی مشیت کےساتھ اپنے خزانوں اور زخیروں کو ظاہر کروں گا اپنے رازوں سے اسے آگاہ کروں گا اور اپنے فرشتوں کے ذریعے ان لوگوں کی مدد کروں گا جو اس کو میرے امر کے جاری کرنے اورمیرے احکام بلند کرنے میں قوت دیں گے اور وہی میرا ولی بر حق اور سچائی کے ساتھ میرے بندوں کی ہدایت کرنے والا  ہے۔

عصمت امام

۵ـ          علی بن ابراہیم بن ہاشم ۔ محمد بن ابی عمیر سے روایت کرتے ہیں کہ ہشام بن حکم کی مصاحب کی مدت میں کوئی  بات میں نے اس سے بہتر ان سے حاصل نہیں کی ایک روز میں نے ان سےپوچھا کہ آیا امام معصوم ہوتا ہے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا وہ کیا دلیل ہے  جس کی وجہ سے اسے معصوم جاننا چاہیے ہشام نے جواب دیا گناہوں کے ارتکاب کی چار وجوہات ہیں پانچویں کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور وہ چار وجوہات حرص، حسد، غضب، اور شہوت ہیں امام کی ذات میں ان وجوہات میں سے کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی جائز نہیں کہ امام دنیا کا حریص ہو کیونکہ تمام دنیا اس کے زیر نگین ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کا خزینہ دار ہوتا ہے لہذا وہ کس چیز میں حرص کرے گا دوئم یہ جائز نہیں کہ وہ حاسد ہو کیونکہ انسان اس پر حسد کرتا ہے جو اس سے بالاتر ہو جب کہ کوئی شخص اس(امام) سے بالاتر نہیں ہوتا تو وہ کس  پر حسد کرے گا سوئم یہ جائزنہیں کہ امور دنیا میں سے کسی چیز کے بارے میں

۵۸۰

غضب کرے لیکن اس کا غضب خدا کے لیے ہوتا ہے کیونکہ خدا نے اس پر حدود کا قائم رکھنا واجب قرار دیا ہے یعنی کوئی بھی اس کی راہ میں اجرائے حدود الہی میں مانع نہیں ہوسکتا اور دین خدا میں حد جاری کرنے میں کوئی بھی رحم اسے نہین روکتا اور چہارم یہ جائز نہیں کہ امام دنیا کی شہوت کی متابعت کرے اور دنیا کو آخرت کے عوض اختیار کرے اس لیے کہ خدا نے آخرت کو اس کا محبوب قرار دیا ہے لہذا وہ آخرت پر نظر رکھتا ہے اس طرح جس طرح ہماری نظریں دینا پر لگی ہوئی ہیں  کیا تم نے کسی کو دیکھا ہے کہ وہ خوبصورت چہرے کو بد صورت چہرے کی خاطر ترک کردے یا تلخ طعام کی خاطر لذیذ کھانوں کو چھوڑدے یا نرم لباس کو سخت کپڑوں کے بدلے چھوڑدے اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمت کو خالی اور زائل ہونے والی نعمت کے لیے ترک کردے۔

وفات نبی(ص) اور غسل و کفن

۶ـ                   ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ جب جناب رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے اور آںحضرت(ص) کے اصحاب آپ(ص) کے گرد جمع ہوئے تو عمار یاسر رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے یا رسول اﷲ(ص) آپ پر میرے باپ ماں فدا ہوں جب آپ(ص) عالم قدس  کی طرف تشریف لے جائیں تو ہم میں کون آپ کو غسل دے گا آپ(ص) نے فرمایا کہ میرے غسل دینے والے علی بن ابی طالب(ع) ہیں کیونکہ وہ میرے جس عضو کو دھونا چاہیں گے فرشتے اس کے دھونے پر ان کی مدد کریں گے پوچھا یا رسول اﷲ آپ(ص) پر میرے باپ ماں فدا ہوں ہم مین کون آپ(ص) کی نماز پڑھائے گا حضرت نے فرمایا خاموش ہوجاؤ خدا تم پر رحمت نازل کرے پھر اپنا رخ علی بن ابی طالب(ع) کی طرف کر کے فرمایا کہ اے علی(ع) جب تم دیکھو کہ میری روح میرے جسم سے مفارقت کرچکی ہے تو مجھے غسل دینا اور اچھی طرح دینا اور مجھے انہیں دونوں کپڑوں کا کفن دینا جو میں پہنے ہوئے ہوں یا مصری جامہء سفید یا برد یمانی کا کفن دینا اور میرا کفن بہت قیمتی نہ ہو۔ اور مجھے قبر کے کنارے تک اٹھا کر لے جانا اور وہاں مجھے چھوڑ کر الگ ہو جانا تو سب سے پہلے جو مجھ پر نماز پڑھے گا وہ خداوند عالم ہوگا جو اپنے عظمت وجلال عرش سے مجھ پر صلوات بھیجے گا اس کے بعد جبرائیل(ع) و میکائیل(ع) اور اسرافیل(ع) اپنے لشکروں

۵۸۱

 اور فرشتوں کی فوجوں کے ساتھ جن کی تعداد سوائے خداوند عالمین کے کوئی نہیں جانتا مجھ پر نماز پڑھیں گے اس کے بعد وہ فرشتے جو عرش الہی کے گرد ہیں اس کے بعد ہر آسمان کے فرشتے یکے بعد دیگرے مجھ پر نماز پڑھین گے پھرمیرے تمام اہل بیت(ع) افور میری بیویاں اپنے اپنے قرب و منزلت کے مطابق ایما کریں گے جو ایما کرنے کا حق ہے اور سلام کریںگے جو سلام کرنے کا حق ہے اور ان کو چاہیے کہ نوحہ فریاد بلند کر کے مجھے آزار نہ پہنچائیں اس کے بعد فرمایا اے بلال(رض) لوگوں کو میرے پاس بلاؤ کہ مسجد میں جمع ہوں جب لوگ جمع ہوگئے تو آںحضرت(ص) عمامہ سر باندھے ہوئے اور اپن کمان پر  سہارا کرتے ہوئے باہر تشریف لائے اور منبر پر گئے اور حمد و ثناء الہی بجالائے اور فرمایا اے گروہ اصحاب میں تمہارے لیے کیسا پیغمبر تھا کیا میں نے تمہارے ساتھ رہ کر خود جہاد نہیں کیا، کیا میرے سامنے کے دانت تم نے شہید نہیں کیے، کیا تم نے میری پیشانی کو خاک آلود نہیں کیا کیا میرے چہرے پر تم نے خون جاری نہیں کیا کیا یہاں تک کہ میری ڈاڑھی خون سے رنگین ہوگئی۔ کیا میں نے تکلیفوں اور مصیبتوں کو اپنی قوم کے نادانوں سے برداشت نہیں کیا، کیا میں نے بھوک میں اپنی امت کے ایثار کے لیے شکم پر پتھر نہیں باندھے صحابہ نے کہا یارسول اﷲ(ص) کیوں نہیں بیشک آپ(ص) خدا کی خوشنودی کے لیے صبر کرنے والے تھےے اور برائیوں سے منع کرنے والے تھے لہذا آپ(ص) کو ہماری طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے حضرت (ص) نے فرمایا خدا تم کو بھی جزائے خیر دے پرھ فرمایا کہ خدا نے ( مجھے بتادینے کا) حکم دیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ کوئی ظلم کرنے والا اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا لہذا تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ جس پر محمد(ص) سے کوئی ظلم ہوگیا ہو وہ ( بلاتامل) اٹھے اور قصاص لے لے کیونکہ دنیا میں قصاص لے لینا میرے نزدیک عقبی کے قصاص سے زیادہ بہتر ہے جو فرشتوں اور انبیاء کے سامنے ہوگا یہ سنکر آخر سے ایک شخص اٹھا جس کو اسود بن قیس کہتے تھے اور کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اﷲ(ص) جس وقت آپ طائف سے واپس آرہے تھے میں حضور کے استقبال کے لیے گیا اس وقت آپ اپنے ناقہ غضبا پر سوار تھے اور اپنا عصائے ممشوق تھامے ہوئے تھے اور جب آپ(ص) نے اس کو بلند کیا تاکہ اپنے ناقہ کو ماریں تو وہ میرے شکم پر لگ گیا تھا مجھے نہیں معلوم کہ یہ آپ(ص) نے جان بوجھکر مارا

۵۸۲

یا غلطی سے حضرت(ص) نے فرمایا خدا کی پناہ کہ میں نے دانستہ مارا ہو۔ پھر بلال(رض) سے فرمایا کہ جاؤ فاطمہ(س) کےگھر اور میرے وہ عصا لے آؤ بلال مسجد سے نکلے اور گلیوں اور بازاروں میں آواز دیتے ہوئے چلے کہ اے لوگو تم میں کون ہے جو اپنے نفس کو قصاص دینے پر آمادہ کردے دیکھو محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) روز قیامت سے پہلے اپنے تئیس قصاص دینے پر آمادہ ہیں، جناب سدہ(س) نے فرمایا اے بلال(رض) یہ وقت تو عصا کام میں لانے کا نہیں ہے کس لیے وہ طلب فرمارہے ہیں بلال نے عرض کی آپ(ع) کو نہیں معلوم آپ ک پدر بزرگوار منبر پر تشریف فرما ہیں اور دینداروں اور دنیا والوں کو وداع فرمارہے ہین جب جناب معصومہ(س) نے وداع کی بات سنی فریاد و زاری کی اور کہا ہائے رنج و ملال آپ(ص) کےلیے اے میرے پدر بزرگوار(ص) آپ(ص) کے بعد فقراء ومساکین غریب اور کمزور لوگ کس کی پناہ میں ہوں گے غرض بلال(رض) کو عصا دے یا وہ لے کر آںحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت(ص) نے عصا لے کر فرمایا وہ بوڑھا آدمی کہاں گیا اس نے حاضر ہوکر عرض کی میں موجود ہوں یا رسول اﷲ(ص) آپ پر میرے باپ ماں فدا ہوں۔ حضرت(ص) نے فرمایا یہ عصاء لے لو اور مجھ سے اپنا قصاص لو تاکہ مجھ سے راضی ہوجاؤ۔ اس شخص نے کہا یا رسول اﷲ(ص) اپنا شکم مبارک کھولیے جب آںحضرت(ص) نے اپنے شکم اقدس سےکپڑا ہٹایا تو اس نے کہا مولا کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنا دہن حضرت کے شکم سے مس کروں حضرت(ص) نے  اجازت دے دی تو اس نے حضرت(ص) کے شکم مبارک کو بوسہ دیا اور کہا میں روز جزا آتش جہنم سے  پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ رسول خدا(ص)کے شکم مبارک سے قصاص لوں حضرت(ص) نے فرمایا اے سوادہ قصاص لے لو یا معاف کردو۔ سوادہ نے کہا میں نے معاف کردیا یا رسول اﷲ(ص)حضرت نے فرمایا خداوندا تو بھی سوادہ بن قیس کو بخش دے جس طرح اس نے نے تیرے پیغمبر(ص) سے درگزر کی پھر حضرت منبر سے نیچے تشریف لائے اور خانہ ء ام سلمہ(رض) میں داخل جہوئے اور فرماتے جاتے تھے کہ خداوند تو امت محمد(ص) کو آتش جہنم سے محفوظ رکھ اور س پر حساب روز قیامت آسان فرما جناب ام سلمہ(رض) نے عرض کی یا رسول اﷲ(ص) آپ غمگین کیوں ہیں اور آپ(ص) کا رنگ مبارک کیوں متغیر ہے حضرت(ص) نے فرمایا جبرائیل(ع) نے مجھے اس وقت میری موت کی خبر دی ہے تم پر سلامتی ہو دنیا میں کیونکہ آج کے  بعد محمد(صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی

۵۸۳

آواز نہ سنوگی۔ جناب ام سلمہ(رض) نے جب یہ وحشت اثر خبر آںحضرت(ص) سےسنی نالہ و فریاد کرنے لگیں کہ واحسرتاہ ایسا صدمہ مجھے پہنچا کہ ندامت و حسرت جس کا تدارک نہیں کرسکتے اس کے بعد حضرت(ص) نے فرمایا اے ام سلمہ(ض) میرے دل کی محبوب اور میری آنکھوں کے نور فاطمہ(س) کو بلاؤ یہ کہہ کر حضرت(ص) بے ہوش ہوگئے غرض جناب فاطمہ(س) زہرا سلام اﷲ علیہا آئیں اور اپنے پدر بزرگوار(ص) کی یہ حالت دیکھی تو نالہ و فرماد کرنے لگیں اور کہا اے پدر بزرگوار میری جان آپ کی جان پر فدا ہو اور میری صورت آپ کی صورت پر قربان ہو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ص) سفر آخرت پر آمادہ ہیں اور موت کا لشکر ہر طرف سے آپ(ص)  کو گھیرے ہوئے ہے کیا اپنی بیٹی سے کچھ بات نہ کیجیے گا اور اس کے آتش حسرت کو اپنے بیان سے ساکن نہ فرمائے گا جب آںحضرت کے کان میں اپنے نور عین کی یہ آواز پنہچی اپنی آنکھیں کھول دیں اور فرمایا پارہ جگر میں بہت جلد تم سے جدا ہونے والا ہوں اور تم کو وداع کرتا ہوں لہذا تم پر سلامتی ہو جناب فاطمہ(ص) نے  جب یہ خبر وحشت اثر حضرت سید البشر سے سنی دل پر درد سے ایک آہ کھینچی اور عرض کی ابا جان میں روز قیامت آپ سے کہاں ملاقات کروں گی حضرت(ص) نے فرمایا ایسے مقام پر جہان مخلوقاتِ عالم کا حساب کیاجائے گا جناب فاطمہ(س) نے عرض کی اگر وہاں آپ(ص) کو نہ پاؤں تو پھر آپ(ص) کو کہاں ڈھونڈوں فرمایا مقام محمود میں جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے جس جگہ میں امت کے گنہگاروں کی شفاعت کروں گا عرض کی اگر وہاں بھی آپ سے ملاقات نہ ہو تو کہاں تلاش کروں فرمایا صراط کے نزدیک دیکھنا جب کہ میری امت اس پر سے گذر رہی ہوگی اور میں کھڑا ہوں گا جبرائیل(ع)میری داہنی جانب اور میکائیل(ع) بائیں جانب اور خدا کے فرشتے میرے آگے اور پیچھے ہوں گے اور سب خدا کی بارگاہ مین تضرع و زاری کے ساتھ دعا کرتے ہون گے کہ خداوندا امت محمد(ص) کو صراط سے سلامتی کے ساتھ گزار دے اور ان پر حساب آسان فرما پھر جناب سیدہ(س) نے عرض کی میری مادر گرامی جناب خدیجہ(ع) کہاں ملیں گی حضرت نے فرمایا بہشت کے اس قصر میں جس کے گرد چار قصر ہوں گے یہ فرما کر حضرت(ص) پھر بے ہوش ہوگئے اور عالم قدس کی جانب متوجہ ہوئے اتنے میں بلال(رض) نے اذان دی اور کہا ( الصلوة رحمک اﷲ) حضرت کو ہوش آیا اور اٹھ کر مسجد میں تشریف لائے

۵۸۴

اور مختصر نماز اداکی جب فارغ ہوئے تو جناب امیر(ع) اور اسام بن زید(رض) کو بلا کر فرمایا کہ مجھے خانہ فاطمہ(س) میں لے چلو جب وہاں پہنچے تو اپنا سر اقدس جناب سیدہ(س) کی گود میں رکھ کر تکیہ فرمایا ۔ امام حسن(ع) و امام حسین(ع) نے اپنے جد بزرگوار کا یہ حال دیکھا تو بے تاپ ہوگئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش برسانے لگے اور فریاد کرنے لگے کہ ہماری جانیں آپ(ص) پر فدا ہوں حضرت(ص) نے پوچھا یہ کون ہیں جو رو رہےہیں امیرالمومنین(ع) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) آپ کے فرزند حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ حضرت(ص) نے ان کو اپنے قریب بلایا اور ان کے گلے میں باہیں ڈال کر ان کو اپنے سینے سے لپٹالیا چونکہ حضرت امام حسن(ع) بہت زیادہ بے قرار تھے حضرت(ص) نے فرمایا اے حسن(ع) مت روؤ کیونکہ تمہارا رونا مجھ پر دشوار ہے اور میرے دل کو تکلیف پہنچاتا ہے اسی اثناء میں ملک الموت میں نازل ہوئے اور کہا السلام علیک یا رسول اﷲ(ص) حضرت نے فرمایا علیک السلام اے ملک الموت تم سے میر ایک حاجت ہے ملک الموت نے عرض کی حضور  وہ کیا حاجت ہے فرمایا جب تک جبرائیل(ع) نہ آجائیں اور سلام نہ کرلیں اور میں ان کے سلام کو جواب نہ دے دوں اور میں ان کو وداع نہ کرلوں میری روح قبض نہ کرنا یہ سنکر ملک الموت یا محمداہ(ص) کہتے ہوئے باہر آگئے اسی اثناء میں جبرائیل ہوا میں ملک الموت کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ محمڈ(ص) کی روح قبض کر لی؟ کہا نہیں حضرت نے مجھے سے فرمایا ہے کہ جب تک حضرت سے تمہاری ملاقات نہ ہوجائے اور وہ تم کو وداع نہ کر لیں ان کی روح قبض نہ کرون جبرائیل(ع) نے کہا اے ملک الموت کیا تم نہین دیکھتے ہو کہ آسمانوں کے دروازے محمد(ص) کے لیے کھولے گئے ہیں اور بہشت کی حوروں نے خود کو آراستہ کیا ہے پھر جبرائیل آںحضرت(ص) کے پاس حاضر ہوگئے اور کہا السلام علیک یا اباالقاسم(ص) ۔ حضرت(ص) نے فرمایا وعلیک السلام یا جبرائیل کیا ایسی حالت میں مجھے تنہا چھوڑ دو گے جبرائیل(ع) نے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ کی اجل قریب ہے اور ہر ایک کے لیے موت در پیش ہے اور ہر نفس موت کا مزہ چکھے گا حضرت نے فرمایا اے حبیب میرے قریب آؤ جبرائیل(ع) حضرت(ص) کے نزدیک گئے اور ملک الموت نازل ہوئے جبرائیل آںحضرت(ص) کی داہپنی  جانب اور میکائیل بائیں جانب کھڑے ہوئے اور ملک الموت حضرت(ص) کے رو برو روح قبض کرنے میں مشغول ہوئے  ابن  عباس کہتے ہیں کہ اس روز آںحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کئی

۵۸۵

بار فرمایا کہ میرے حبیب قلب کو بلاؤ جب کوئی بلایا جاتا تو حضرت  اس کی طرف سےمنہ پھیر لیتے تو جناب فاطمہ(س) سے کہاگیا کہ ہمارا گمان ہے کہ حضرت جناب امیر(ع) کو طلب فرمارہے ہیں فاطمہ(س) امیر المومنین(ع) کو بلالائیں جب جناب رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ جناب امیرالمومنین(ع) پر پڑی شاد ومسرور ہوگئے اور کئی بار فرمایا اے علی میرے پاس آؤ اور ان کے ہاتھ پکڑ کر اپنے سرہانے بٹھایا پھر غشی طاری ہوگئی اور اسی اثناء میں حسنین علیہم السلام بھی آگئے جب آںحضرت(ص) کے جمال مبارک پر ان کی نگاہیں پڑیں بے چین ہوگئے اور وجداہ و محمداہ(ص) کہہ کر فریاد و زاری کرتےہوئے آںحضرت(ص) کے سینہ اقدس سے لپٹ گئے۔ جناب امیر(ع) نے چاہا کہ ان کو حضرت سے علیحدہ کردیں اسی اثناء میں آںحضرت(ص) کو ہوش آگیا فرمایا اے علی (ع) ان کو چھوڑ دو تاکہ میں اپنے باغ کے ان دونوں پھولوں کو سونگھتا رہوں اور یہ میری خوشبو سے معطر ہوتے رہیں میں ان کو رخصت کروں اور یہ مجھے وداع کر لیں بیشک یہ میرے بعد مطلوم ہوں گے اور زہر ستم اور تیغ ظلم سے مارے جائینگے پھر تین مرتبہ فرمایا کہ خدا کی لعنت ہو اس پر جو ان پر ظلم و ستم کرے پھر اپنا ہاتھ بڑھا کر امیرالمومنین(ع) کو اپنے لحاف کے اندر کھینچ لیا اور اپنے منہ کو ان کے منہ پر رکھ دیا اور دوسری روایت کے مطابق اپنا دہن اقدس اس کے کان سے ملا دیا اور بہت سی راز کی باتیں کیں اور اسرار الہی اور علوم لامتناہی آپ(ع) کو تعلیم فرمائے یہاں تک کہ آپ کا طائر روح آشیانہ عرش رحمت کی جانب پرواز کر گیا پھر امیرالمومنین(ع) ، سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لحاف سے باہر آئے اور فرمایا لوگو تمہارے پیغمبر(ص) کےغٰم میں خداوند عالم تمہارا اجر زیادہ کرے کیونکہ حضرت رب العزت نے اس برگزیدہ عالم کی روح اپنے پاس بلائی یہ سنتے ہی اہل بیت رسالت میں گریہ و زاری اور نالہ وفریاد کا شور بلند ہوا اور مومنوں کا ایک مختصر گروہ جو خلافت کے غصب کرنے میں مشغول نہیں ہوا تھا اہل بیت(ع) کے ساتھ تعزیت اور مصیبت میں شریک ہوا، ابن عباس کہتے ہیں کہ جناب امیر(ع) سے لوگوں نے پوچھا کہ جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سےکیا  راز بیان کیے جب کہ آپ زیر لحاف داخل کر لیا تھا حضرت نے فرمایا کہ ہزار باب علم تعلیم فرمائے تھے جن میں ہر باب سے ہزار ہزار باب خود بخود منکشف ہوگئے۔

۵۸۶

۷ـ                  امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں کہ چار ہزار فرشتے حسین(ع) کے ساتھ مل کر جنگ کرنا چاہتے تھے۔ مگر امام نے اجازت نہ دی اوروہ واپس چلے گئے اور جا کر رب العزت سے اجازت طلب کی اور دوبارہ زمین پر اترے مگر وقت تک حسین(ع) ہوچکے تھے یہ فرشتے خاک آلودہ حالت مں آپ(ع) کی قبر مبارک پر موجود ہیں اور قیامت تک گریہ کرتے رہیں گے ان فرشتوں کا سردار اور رئیس منصور نامی فرشتہ ہے۔

۵۸۷

مجلس نمبر۹۳

(۱۲ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

شرائع الدین

۱ـ           شیخ فقیہ ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی(رح) کے پاس اصحاب جلسہ و مشائخ حاضر ہوئے اور ان سے کہا ہمیں دین امامیہ کے بارے میں مختصرا بتائیں۔

جناب صدوق نے بیان فرمایا ۔ دین امامیہ اقرار توحید ہے اور اس (خدا ) کی تشبیہ و تنزیہ سے انکار ہے جو کہ اس کے لائق نہیں ہے خدا کے تمام انبیاء(ع) اور فرشتے ، اس کی تمام کتب  و تمام حجج کا اقرار اور یہ کہ محمد(ص) سید الانبیاء والمرسلین ہیں اور ان تمام سے افضل ہیں اور وہ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد قیامت تک کوئی پیغمبر نہیں ہے اور تمام انبیاء و ائمہ تمام فرشتوں سے بہتر ہیں ، تمام معصوم ہیں اور ہر آلودگی اور پلیدی سے پاک ہیں اور تمام گناہاں صغیرہ وکبیرہ سے پاک ہیں یہ اہل زمین کے لیے اسی طرح باعث امان ہیں جس طرح فرشتے اہل آسمان کے لیے باعث امان ہیں۔ اسلام کے پانچ ستون ہیں۔ نماز ، روزہ، حج، زکواة اور ولایت پیغمبر اور ان کے  بعد ائمہ(ع) جو کہ بارہ ہیں جن کے اول علی بن ابی طالب(ع) پھر حسن بن علی(ع) پھر حسین بن علی(ع) پھر علی بن حسین(ع) پھر محمد بن علی(ع) پھر جعفر صادق بن محمد(ع) پھر موسی بن جعفر(ع) (موسی کاظم(ع)) پھر علی رضا بن موسی(ع) پھرجواد محمد تقی(ع) بن علی(ع) پھر ہادی علی نقی(ع) بن محمد(ع) پھر عسکری حسن بن علی (ع۹ پھر ان کے بعد حضرت حجت بن حسن بن علی(ع) اور اس بات کا اقرار کر یہ سب کے سب اولی الامر ہیں کہ خدانے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور فرمایاہے کہ ” پیروی کرو اپنے رسول کی او الوالامر کی“ ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت خدا کی معصیت ہے ان کے دوست خدا کے دوست ہیں اور ان کے دشمن خدا کے دشمن ہیں اور پیغمبر(ص) کی ذریت سے دوستی کہ وہ اپنے باپ دادا(ع) کےطریقے پر قائم ہیں یہ اس کے بندوں پر ایک فریضہ واجب ہے قیامت تک اور یہ اجر نبوت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ” ان سے کہو کہ

۵۸۸

 میں تم سے کوئی جزا نہیں چاہتا سوائے اپنے رشتہ داروں کی محبت کے “ ( شوری، ۲۳) اور اس بات کا اعتراف کہ اسلام شہادتین کا زبان سے اقرار اور  دل سے ایمان و ارادے اور اعضاء بدن سے عمل کا نام ہے اور یہی اصل ایمان ہے اور جو صرف شہادتین کی حد تک رہے اس کا مال و خون محفوظ ہے سواے احقاق حق کے اور اس کا حساب خدا پر ہے۔

پھر دین امامیہ اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ موت کے بعد قبر میں منکر نکیر کےسوال وجواب اور قبر کا عذاب ہوگا۔ پھر اقرار پیدائش بہشت و دوزخ اورمعراج نبوت کا اقرار کہ آپ(ص) سات آسمانوں تک گئے پھر وہاں سے سدرة المنتہی اور یہاں سے حجاب نور تک لے جائے گئے جہاں آپ(ص) نے خدا سے راز کی باتیں کی اور یہ کہ آپ کو آپ کے جسم و روح کےساتھ معراج پر لے جایا گیا نہ کہ خواب میں اور اسی لیے نہیں کہ خدا مکان رکھتا ہے اور آپ(ص) نے اس سے مکان میں ملاقات کی خدا اس سے کہیں برتر ہے خدا جناب رسول خدا(ص) کا احترام اور ترضیع مقام کے لیے معراج پر لے گئے جہاں انہیں ملکوت زمین کی مانند ملکوت آسمان کا مشاہدہ کروایا گیا اور جناب رسول خدا(ص) نے عظمت خدا کو دیکھا یہ اس لیے تھا کہ وہ وہاں جو کچھ اپنی امت کے بارے میں اور علامات علویہ دیکھیں اس سے امت کو آگاہ کریں۔ پھر حوض کوثر کا اقرار اور گناہ گاروں کی شفاعت کا اقرار پھر صراط ، حساب، میزان، لوح وقلم، عرش و کرسی کا اقرار اور یہ کہ نماز دین کا ستون ہے اور یہ وہ پہلا عمل ہے جس کے بارے میں قیامت میں سوال کیا جائے گا اور معرفت کے بعد بندے کا پہلا عمل ہے جس کا وہ مسئول ہے اگر یہ قبول ہوگی تو دیگر اعمال بھی قبول ہوں گے اور اگر رد کردی گئی تو پھر باقی عمل بھی رد کر دینے جائیںگے ، روز وشب میں واجب نمازیں پانچ ہیں جو کہ (۱۷) سترہ رکعات پر مشتمل ہیں دو رکعات فجر، چار رکعات ظہر، چار عصر،تین مغرب، اور پھر چار عشاء نافلہ (نفلی نماز) چونتیس رکعات ہیں یعنی دو نوافل ایک فرض کے برابر کہ آٹھ (۸) رکعات ظہر سے پہلے آٹھ (۸) رکعات عصر سے پہلے پھر چار(۴) رکعات مغرب کے بعد اور دو رکعات بیٹھ کر عشاء کے بعد کہ یہ ایک رکعت شمار ہوتی ہے اور یہ اس بندے کاوتر شمار کی جاتی ہے جو کہ رات کو وتر ادا نہیں کرتا نماز شت آٹھ (۸) رکعات ہے ہر دو رکعات کے بعد ایک سلام ہے اور نماز شفع دو (۲) رکعات ہے

۵۸۹

 اور ایک رکعت نماز وتر اور دو رکعت نمازنافلہ صبح ہے جسے فریضہء فجر سے پہلے پڑھا جاتا ہےاور یہ فرائض و نوافلی نمازیں دن رات میں (۵۱) اکیاون رکعات پر مشتمل ہیں اور اذان واقامت کے ہمراہ ہیں نماز کے واجبات سات ہیں طہارت ، رو بہ قبلہ ہونا، رکوع، سجود، وقت مقررہ پر ادائیگی ،دعا اور قنوت کہ یہ ہر نماز کی دوسری رکعت میں واجب و مستحب ہے رکوع سے پہلے اور اس میں سورہ حمد اور اس کے ہمراہ کوئی دوسری سورہ اور رب اغفر وارحم و تجاوز عما تعلم انک الاعز الاکرم“ اور تین مرتبہ سبحان اﷲ“ بھی اس میں کافی ہے اگر نمازی چاہے تو ائمہ(ع) کے اسماء گرامی قنوت کے دوران لے سکتا ہے اور ان پر مختصر صلواة بھیجے تکبیرة الاحرام ایک مرتبہ پڑھنا کافی ہے مگر سات مرتبہ بہترین اور مستحب ہے “ بسم اﷲ الرحمن الرحیم “ کو با آواز بلند پڑھنا مستحب ہے کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اسم اعظم ہے اس خدا کا جو ہم سے اس طرح نزدیک ہے جس طرح آنکھ کی سیاہی اس کی سفیدی سے نزدیک ہے نماز کی ہر تکبیر میں اپنے ہاتھوں کو بلند کرنا نماز کی زینت ہے نماز کی رکعات میں اول فریضہ سورہ حمد پڑھنا ہے تاہم اس کے ہمراہ سورہ عزیمہ نہ پڑھے کہ ان میں سجدہ واجب جہے اور یہ سورتین الم تنزیل ، حم سجدہ، والنجم، اور اقراء باسم ربک ہیں، سورہ قریش اور سورہ فیل یا سورہ والضحی اور سورہ الم نشرح میں سے ہر دو سورتین ایک سورہ شمار ہوں گی اور نماز واجب میں ان میں سے ایک پر اکتفا نہیں ہوگا اور اگر کوئی چاہے کہ ان سورتوں کو نماز واجب میں پڑھے تو اس کو چاہیے کہ سورہ لایلف اور سورہ الم ترکیف کو یا والضحی اور الم نشرح کو ایک رکعت میں اکھٹا پرھے تاہم نافلہ نمازوں میں سورہ عزیمہ میں سے بھی پڑھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی ممانعت صرف فریضہ نمازوں میں ہے۔ جمعے کے روز نماز ظہر میں سورہ جمعہ اور سورہ المنافقین کا پڑھنا مستحب اور سنت رسول (ص) ہے رکوع وسجود میں پڑھے جانے والے کلمات کی کم از کم تعداد تین مرتبہ ہے جبکہ پانچ مرتبہ احسن ہے اور سات مرتبہ افضل ہے اور اگر اس سے ایک کم کرے گا ( یعنی تین سے ایک کم کرے گا) تو نماز کا تیسرا حصہ کم کیا اگر دو تسبیح کم کرے گا تو اپنی نماز کو دو حصے کم کیا اگر رکوع و سجود میں ہرگز تسبیح نہ کہے گا تو اس کی نماز نہیں ہے تا ہم اس کی جگہ پر اتنی ہی تعداد میں ” لا الہ الا اﷲ“  یا ” اﷲ اکبر“ یا جناب رسول خدا(ص) پر صلواة بھیجے تو وہ بھی جائز ہے اور تشہد میں بھی یہی اداے شہادتیں کافی ہیں نماز میں ایک سلام

۵۹۰

کافی ہے جو آنکھ کے اشارے سے قبلے کی دائیں جانب کیا جائے تاہم اگر جماعت مخالفین میں موجود ہوتو تقیہ کی خاطر مخالفین کی طرح سلام ادا کرے۔ نماز واجب کے بعد تسبیح فاطمہ زہرا(س) کہے جو کہ چونتیس(۳۴) مرتبہ” اﷲ اکبر“ تینتیس (۳۳) مرتبہ ” الحمد ﷲ“ اور تینتیس مرتبہ ” سبحان اﷲ“ ہے اور جو بندہ نماز واجب کے بعد زانو کو اٹھائے بغیرتسبیح فاطمہ(س) کہے گا خدا اسے معاف کردے گا پھر چاہٰیے کہ جناب رسول خدا(ص) اور ائمہ(ع) پر درود بھیجے اور پھر اپنے لیے جو چاہیے مانگے اور دعا کے بعد سجدہ شکر کرے سجدہ شکر میں تین بار ” شکرا“ کہے۔ اگر مخالف موجود نہ ہوتو اس عمل کو ہرگز ترک نہ کرے اور نہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے اور نہ آمین کہے۔

سورہ حمد کے بعد سجدہ کرنے میں زانو کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر نہ رکھے۔ سجدہ زمین اور زمین سے پیدا ہونے والی چیز ( کھانے اور پہننے کے علاوہ ) پر جائز ہے۔ حلال جانورں کے بال اور کھال سے بنے ہوئے لباس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ لیکن حرام جانوروں کے بال اور کھال سے بنے ہوئے لباس اور ریشم و زرد دوزی سے بنے ہوئے لباس میں نماز جائز نہیں ہے سواے مجبوری یا حالت تقیہ میں نماز کو قطع کرنے والی چیز نماز گزار کی ریح کا خارج ہونا یا دیگر امور جو وضو کو باطل کریں یا اسے یاد آئے کہ قبل از نماز اس نے وضو نہیں کیا۔ یا دوران نماز اسے کوئی ایسی ضرب لگ جائے جس کو برداشت کرنے سے قاصر ہو۔ یا سر پر ایسی چوٹ پہنچ جائے جو برداشت سے باہر ہو اور جس سے خون نکل کر چہرے پر آجائے اس کا چہرہ قبلے کی طرف سے پھر جائے یا دیگر امور جو نماز کو باطل کردٰیں۔ نافلہ نمازوں میں شک کی صورت واجب نماز میں شک  کی طرح نہیں ہوتی ہے۔ نافلہ میں نماز گزار رکعات میں شک کی صورت میں جسے چاہے  اختیار کر لے ( چاہے قلیل کو اختیار کرے ۔ چاہے تو کثیر کو اختیار کر لے) تا ہم نماز واجب میں تین یا چار میں شک کی بناء پر کثیر کو اختیار کرے یعنی چار رکعات ادا کرے۔ جو کوئی دو رکعات میں سے اول میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ سے دوبارہ پڑھے۔ جو کوئی نماز مغرب میں شک کرے اسے چاہیے کہ اسے دوبارہ پڑھےجب سلام کہے تو جو کچھ کم ہونے کا شک رکھتا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔سجدہ سہو نماز گزار پر واجب نہ ہوگا مگر قیام کے لیے حالت قعود یا قعود قیام کی جگہ میں یا ترک تشہد یا شک کثیر

۵۹۱

 میں یا سلام کے بعد نماز میں کمی کی  صورت میں سلام کے بعد دو سجدے ( سجدہ سہو) ہیں کہ ان میں کہے ”بسم اﷲ وباﷲ السلام علیک اي ه ا النبی ایمانا و تصديقا لا ال ه الا اﷲ عبودية و رقا سجدت لک يا رب تعبدا و رقا لا مستنکف ولا مستکبرا بل انا عبد ذليل خائف مستجيرا “اور جب سراٹھائے تو ” اﷲ اکبر“ کہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ نمازی سے ربع یا ثلث یا ںصف یا ایک حصہ قبول کیا جاتا ہے مگر خدا اسے اس کی نافلہ نماز سے درست کردے گا۔ امامت نماز کے لیے زیادہ حقدار بندہ وہ ہے جو قرآن کا علم زیادہ جانتا ہو۔ اگر قرآن جاننے میں تمام لوگ برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ مقدم جانا جائے۔ اگر تمام ہجرت کرنے میں برابر ہیں تو بزرگی والے کو مقدم رکھا جائے۔ اگر اس میں بھی برابر ہیں تو تمام میں سے زیادہ خوش رو کو مقدم گردانا جائے گا۔ صاحب مسجد اپنی مسجد میں امامت کا زیادہ اہل ہے۔ صاحب امامت کا تمام مین سے عالم ہونا بھی ضروری ہے۔ تاہم اس کے اعمال پشت نہ ہوں۔ جمعے کی نماز کی جماعت وقجب مگر دوسرے دنوں میں مستحب  ہے۔ جو وئی بغیر عذر جماعت ترک کرے اور اجماعت مسلمین سے روگردان ہو وہ نماز نہیں رکھتا۔ نماز جمعہ نو(۹) قسم کے لوگوں پر ساقط ہے۔ ۱ ـ نابالغ۔  ۲ـ ضیف۔ ۳ ـ دیوانہ۔ ۴ـ مسافر۔ ۵ـ قیدی۔ ۶ـ عورت۔ ۷ـ بیمار۔ ۸ـ اندھا ۹ـ اور وہ شخص جو نماز جمعہ کے مقام سے دو فرسخ دور ہے۔ با جماعت نماز فرادی پڑھی جانے والی نماز سے پچیس (۲۵) درجات بلند رکھتی ہے۔ سفر کی حالت میں نماز واجب دو رکعات رکھتی ہے۔ مگر نماز مغرب کہ جناب رسول خدا(ص) نے اسے دوران سفر بھی اپنی حالت پر برقرار رکھا ہے۔ دوران سفر دن کے نوافل ساقط ہیں مگر  نافلہء شب ترک نہ ہوں گے۔ نماز شب کو اول شب میں پڑھے۔ مگر سفر میں اول شب میں اس کی قضا پڑھے تو بہتر ہے کہ نماز شب میں پڑھے اور وہ سفر جس میں نماز میں کمی ہوجاتی ہے تو ایسے میں روزہ آٹھ فرسخ پر قصر ہوجائے گا۔ اگر چار فرسخ سفر کرے اور اس دن واپس نہ آئے تو چاہے تو قصر پڑھے یا مکمل تا ہم اگر خواہش رکھتا ہے کہ اسی دن واپس آئے گا تو قصر پڑھنا واجب ہے۔ اگر اس کا سفر قصد معصیت ( حرام یا گناہ) کے لیے ہے۔ تو پوری نماز پڑھنا واجب ہے اور روزہ بھی پورے وقت تک کا ہوگا۔ اگر کوئی بندہ سفر میں نماز

۵۹۲

 کی مکمل ادائیگی کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وطن میں ( اتنی ہی نمازیں) قصر کردے۔ وہ بندہ جو کثیر السفر ہو مثلا۔ منڈی جانے والا تاجر ۔ ڈاکیا، گڈریا و کشتی ران وغیرہ کہ جن کا پیشہ سفر سے وابستہ ہو اور وہ شکاری جو کہ تفریح و مسرت کی خاطر شکار کو جائے تو چاہیے کہ پوری نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ لیکن اگر اس کے عیال کے گذر اوقات کا انحصار اسی شکار پر ہو تو چاہیے کہ نماز اور روزے کو قصر کردے  اور وہ مسافر جو ماہ رمضان کے روزے کے بوجہ سفر قصر کردے حق جماع نہیں رکھتا۔ نماز تین حصوں پر مشتمل ہے  ایک ثلث طہارت ایک ثلث رکوع  اور ایک ثلث سجود ہے بغیر طہارت نماز درست نہیں وضو، اعضاء کے ( کم از کم ) ایک بار دھونے سے ہوتا ہے اور اگر دو مرتبہ دھوئے تو جائز ہے مگر اجر نہیں رکھتا ہر پانی اس وقت تک پانی ہے جب تک اس کے نجس ہونے کا علم نہ ہوجائے ایسا جانور جس کا خون جاری ہو پانی کو نجس کرتا ہے وضو و غسل جنابت عرقِ گلاب کے ساتھ جائز ہے مگر وہ پانی جو آفتاب کی گرمی و روشنی سے گرم ہوا ہے وضو غسل اور کپڑے دھونے کے لیے جائز تا ہم باعث برص ہے اندازہ ایک کر پانی جو کہ ۱۲۰۰ رطل مدنی کے برابر ہے کو کوئی شے نجس نہیں کرتی کر پانی والے برتن کی پیمائش تین بالشت لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی ہے  کنوئیں کا پانی اس وقت تک پاک ہے جب تک اس میں کوئی نجس کرنے والے چیز نہ گر جائے دریا کا تمام پانی پاک ہے وضو کو باطل کرنے والی چیزیں، بول و براز، ریح، منی، اور نیند جو ہوش ختم کردتے ہیں، مسح عمامہ یا ٹوپی پر جائز نہیں اور اسی طرح جوتے اور جوراب پر بھی جائز نہیں تا ہم دشمن کے خوف یا برف سے گذند پہنچنے کے خیال سے کہ اس سے پاؤں کو نقصان ہوگا جائز ہے اسی طرح جبیرہ شکستہ پر بھی جائز ہے جیسا کہ ام المومنین عائشہ نے جناب رسول خدا(ص) سے روایت کیا ہے کہ روز قیامت وہ بندہ شدید غم میں مبتلا ہوگا جو اپنا مسح کسی دوسرے کے چمڑے پر کرے عائشہ روایت کرتی ہیں کہ کسی بیابان میں جانور کی پشت پر مسح کرنا جوتے  یا جوراب پر مسح کرنے سے بہتر ہے جس کسی کو پانی میسر نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ تیمم کرے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ” تیمم کرو پاک و طیب مٹی سے “ اور طیب مٹی وہ ہے جس سے پانی نکلا ہو بندہ جب تیمم کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ ہاتھوں کو مٹی یا زمین پر مارے اور انہیں ملے پھر چہرے پر پھیرے، پھر بایاں ہاتھ زمین  پر مارے اور دائیں ہاتھ پر انگلیوں کے

۵۹۳

سروں تک پھیرے پھر دایاں ہاتھ زمین یا مٹی پر مارے اور بائیں ہاتھ کی پشت پر انگلیون کے سرے تک پھیرے روایت میں ہے کہ پیشانی و ابرو اور دونوں ہاتھوں کی پشت کا مسح کرے ہمارے مشائخ کا عقیدہ ہے کہ جو امور وضو کو باطل کرتے ہیں وہی تیمم کو بھی باطل کرتے ہیں اور جو شخص تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور پھر پانی میسر ہوجائے تو ضروری نہیں کہ وہ نماز دوبارہ دہرائی جائے کہ تیمم بھی طہارت کی اقسام میں سے ایک ہے تاہم پانی میسر ہونے پر دوسری نماز وضو سے پڑھے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی بندہ ایک ہی وضو سے نماز شب اور تمام دن کی نمازیں ادا کرے یہاں تک کہ اس کا وضو باطل نہ ہو یہی احکام تیمم کے واسطے بھی ہیں یہاں تک کہ باطل ہو۔

غسل سترہ(۱۷) مواقع پر واجب اور مستحب ہے۔

سترہ(۱۷) انیس(۱۹) اکیس(۲۱) اور تئیس(۲۳) رمضان کی شب دخول حرمین کے وقت۔ احرام باندھنے کے وقت ، زیارت کے وقت، دخول خانہ کعبہ کے وقت، روز ترویہ، روز عرفہ، غسل مس میت جو کہ میت کو غسل دینے کے بعد، کفن پہنانے  کے بعد، اور میت کے سرد ہونے کے بعد مس کرنے سے واجب ہوجاتا ہے، غسل بروز جمعہ، غسل حیض ، و غسل جنابت، امام صادق(ع) نے فرمایا کہ غسل حیض و نفاس و غسل جنابت اس شرط سے مبرا ہیں کیونکہ غسل حیض و غسل جنابت فرض ہے او دو فرائض کی ادائیگی لازم ہوتو بڑا چھوٹے سے کافی ہے، غسل جنابت سے ہلے چاہیے کہ پیشاب کرے تاکہ منی وغیرہ میں سے جو کچھ جمع ہو خارج ہو جائے پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے چاہیے کہ تین مرتبہ دھوئے پھر استنجا کرے اور اپنی شرمگاہ کو دھوئے پھر تین مرتبہ چلو بھر پانی لے کر اپنے بالوں میں خلال کرے تاکہ پانی بالوں کو جڑوں تک پہنچ جائے پھر برتن سے پانی لے کر اپنے سر اور بدن پر دو مرتبہ گرائے اور اپنے ہاتھ سے بدن ملتا رہے اور دونوں کانوں میں اپنی انگلی سے خلال کرے بدن پر پانی جہاں تک پہنچ سکے پہنچائے اور پاک کرے اگرکسی ایسی جگہ پر ہو جہاں ندی یا دریا ہو تو خود کو مکمل طور پر زیر آب لے جائے ( ارتماسی غسل) تو اس کا غسل ہو جائے گا۔ لیکن اگر بارش میں اپنے سر تا پاؤں تک گیلا کرے تو اس کا یہ غسل محسوب ( جس کا حساب

۵۹۴

 لیا جائے گا) ہے غسل جنابت میں کلی یا ناک میں پانی ڈالنا جائز ہے لیکن واجب نہیں کیونکہ غسل بیرون بدن کا ہے نہ کہ اندرون بدن کا لیکن غسل جنابت سے پہلے کھانے پینے کے لیےکلی، ناک میں پانی ڈالنا اور ہاتھوں کو دھونا چاہیے ورنہ محاسبہ ہوگا اور اس کا یہ عمل پیش کیا جائے گا حلال جنابت سے خارج ہونے والا پسینہ اگر لباس میں جذب ہوجائے تو نماز اس میں جائز ہے مگر حرام جماع سے خارج ہونے والا پسینہ اگر لباس میں ہوتو نماز باطل ہے کم ترخیص تین(۳) دن اور زیادہ سے زیادہ  دس(۱۰) دن کا ہے اسی طرح کم از کم طہر(۱۰) دس دن اور زیادہ سے زیادہ  کی کوئی حد نہیں نفاس کی زیادہ سے زیادہ حد کہ اس میں عبادت سے باز رہے اٹھارہ(۱۸) دن ہے جب کہ ایک یا دو دن میں اگر استفہار کرے تو چاہیے کہ عبادت سے پہلے پاک ہوجائے۔ زکواة نو(۹) چیزوں پر واجب ہے جو کہ گندم ، جو، خرما، مویز(کشمش) اونٹ، گائے، گوسفند( بھیڑ) سونا اور چاندی ہیں، جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ ان کے علاوہ زکواة معاف ہے اور چاہیے کہ زکواة شیعہ اثناء عشری کو ادا کرے، ماں باپ فرزند، شوہر ، مملوک اور زوجہ و واجب نفقہ کو نہ دے خمس، سونے کے ایک دینار دفینے، معدنیات، غوطہ لگا کر حاصل کیے گیے موتی و جواہرات اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت پر ہے تمام سال کے روزوں میں سے ہر ماہ کے تین دن کا روزہ ( مستحب روزوں کی طرف اشارہ ہے) یعنی ہرماہ کی اول جمعرات ، درمانی بدھ جو پہلے دس دن کےبعد آئے اور آخری دس دنوں میں آخری جمعرات کو رکھے جبکہ ماہ رمضان کے روزے واجب ہیں جو کہ رؤیت ہلال سے ثابت ہوں نہ کہ رائے گمان ( قیاس) سے جو کوئی بغیر رویت ( چاند دیکھے بغیر) روزہ رکھے اور افطار کرے اس کا دین امامیہ سے کوئی تعلق نہیں رؤیت یا طلاق میں عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ماہ رمضان میں نماز کی ادائیگی دیگر مہینوں کی طرح ہے جو کوئی اس میں اضافہ کرنا چاہیے تو اسے چاہیے کہ بیس رکعات نافلہء شب ادا کرے جس میں سے آٹھ رکعات مغرب و عشاء کے درمیان یہاں تک کہ ماہ رمضان کی بیس(۲۰) تاریخ ہو پھر ہر رات تیس(۳۰) رکعات نافلہ ادا کرے کہ آٹھ رکعات مغرب و عشاء کے درمیان ہوں گی اور بائیس (۲۲) رکعات عشاء

۵۹۵

 کے بعد اور ہررکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اس کے ہمراہ جو کچھ وہ قرآن میں سے جانتا ہے پرھے۔ سوائے اکیس (۲۱) اورتئیس(۲۳) کی شب کہ اس میں مستحب ہے کہ احیاء کرے اور سو (۱۰۰) رکعات نماز نافلہ ادا کرے اور اس میں سورہ حمد کے ہمراہ دس(۱۰) مرتبہ ” قل ہو اﷲ “ پڑھے جو کوئی ان دو راتوں میں ذکر و علم کو زندہ کرے یہ اس کے لیے بہتر ہے اور حقدار ( انعام واکرام کا ) ہے پھر عید الفطر کی شب نمازِ مغرب کے بعد سجدے میں جائے اور کہے” يا ذالطول يا ذالحول يا مصطفی محمد و ناصره صلی علی محمد وآل محمد اغفرلی کل ذنب اذنبت ه و نسيت ه و ه و عندک فی کتاب مبين “  پھر سو مرتبہ کہے۔

” اتوب الی اﷲ عزوجل “ اور چاہیے کہ مغرب وعشاء کے بعد اور نماز صبح و نماز عید اور روز عید کی ظہر و عصر کی نماز کے بعد ” تکبیرات ایام تشریق “ کو ادا کرے اور اس کے سوا کچھ اور نہ کہے جو کہ یہ ہیں۔ ”اللَّهُ أَكْبَرُاللَّهُ أَكْبَرُلَاإِلَه َإِلَّااللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُاللَّهُ أَكْبَرُوَالْحَمْدُلِلَّه ِعَلَى‏ مَاأَبْلَانَا. “ یہ تکبیرات ایام تشریق سے مخصوص ہیں۔ زکوة فطرہ ادا کرنا واجب ہے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنا اپنے اہل و عیال ، آزاد و غلام اور اپنے ہاں کھان کھانے والوں کا فطرہ ادا کرے طفرہ فی کسی ایک صاع کے حساب سے ادا کرنا چاہیے۔ ایک صاع خرما، کشمش ، گندم یا جوا ادا کرنا چاہیے یہی ہے کہ ایک صاع فی کس کے حساب سے خرما بطور فطرہ دے ایک صاع ۴ مد کا ہوتا ہے اور مد ۲۹۰-۲-۱ درہم یا ۲۱۷۰ عراقی درہم کے برابر ہے اگر طاقت رکھتا ہے تو اس کی قیمت روپے یا سونے چاندی کی صورت میں ادا کرے ( رقم کا یہ تناسب جناب صدوق(رح) کے ہاں زمانہء قدیم کے مطابق ہے فتاوی جدید میں اس کی شکل مختلف ہوسکتی ہے۔ محقق) اگر اپنے تمام اہل و عیال کا فطرہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو ایک تن کا فطرہ اپنی بیوی یا اپنے عیال میں سے کسی ایک کو دے دے اور وہ بھی اسی نیت سے دوسرے کو دے دے  اور وہ اسے ترتیب وار اسی طرح اپنے گھر کے دیگر افراد کو دیتے رہیں حتی کہ وہ جنس خاندان کے آخری فر تک پہنچ جائے پھر وہ کسی ایسے شخص کو دے دی جائے جو ان سے نہ ہو لیکن ایک فطرہ دو فقراء میں تقسیم نہ کیا جائے بلکہ ہر ضرورتمند کو ایک تن کا فطرہ دے ، فطرہ ماہ رمضان سے قبل اور دوران ماہ رمضان دینا جائز نہیں شوال کا چاند دیکھنے کے بعد عید الفطر کی نماز سے پہلے ادا کرے اور اگر ماہ رمضان میں دے تو یہ صدقہ ہوگا جو کہ

۵۹۶

 شوال کا چاند دیکھنے کے بعد دوبارہ فطرہ کی مد میں ادا کرنا پڑے گا جو شخص مملوک( غلام) رکھتا ہو اس پر غلام کا فطرہ واجب الادا ہے خواہ وہ مملوک کافر ہو یا کافر ذمی جب کہ ظہر کے بعد پیدا ہونے والے بچے کا فطرہ دینا بھی واجب ہے اور اگر ظہر سے بعد کوئی دشمن مسلمان ہوجائے تو اس کا فطرہ دینا واجب نہیں ہے حج کی تین اقسام ہے قران، افراد،اور حج تمتع، حج قرِان اور حج افراد ان پر واجب ہے جو مکہ کے رہائشی ہوں اور حج تمتع ان پر واجب ہے جو مکہ سے سولہ(۱۶) فرسخ یعنی اڑتالیس (۴۸) میل دور رہتے ہوں ، ایسا شخص حج تمتع انجام دے گا اور اس کا دوسرا حج قابل قبول نہیں ہے حج کرنے والے کو چاہیے کہ وہ مسلخ سے احرام باندھے اگر وہاں سے نہٰیں باندھا ہے توپھر غمرہ سے احرام باندھے تاہم مسلخ سے احرام باندھنا افضل ہے جناب رسول خدا(ص) نے اہل عراق کے لیے مقام عقیق کو میقات قرار دیا ہے ، اہل طائف کے لیے قرن منازل، اور اہل یمن کے لیے یلملم، اہل شام کے لیے مہیمہ جو کہ جہفہ ہے اور اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ جو کہ مسجد شجرہ ہے، میقات سے پہلے احرام جائز نہیں مگر بیمار یا تقیہ اختیار کیے ہوئے کے لیے، واجبات حج سات (۷) ہیں ( تفصیل میں جائیں تو تیرہ(۱۳) بنتے ہیں، محقق ) اول احرام۔

دوئم  : تلبیہ جو کہ چار ہیں۔”لبيک الل ه م لبيک ان الحمد وانعمة لک والملک لا شريک لک “ اس کے علاوہ باقی مستحب ہیں اور محرم کے لیے جائز ہے کہ بہت زیادہ لبیک کہے۔ جناب رسول خدا(ص) یہ تلبیہ پڑھا کرتے تھے ” لبیک ذوالمعارج لبیک“

سوئم : طواف کعبہ، مقام ابراہیم(ع) میں ” رکعت نماز کے ساتھ۔

چہارم : صفا و مروہ کے درمیان سعی۔

پنجم : وقوف عرفہ۔

ششم : وقوف مشعر یعنی دونوں وقوف۔

ہفتم : قربانی تمتع جو کہ واجب ہے۔

اس کے علاوہ باقی امور مستحب ہیں، جو کوئی زوال روز ترویہ یعنی آٹھ (۸) ذوالحجہ سے حج تمتع کی رات یعنی نو(۹) ذوالحجہ تک وقوف کو عرفہ میں حاصل کر لے تو اس کا حج صحیح ہے اس طرح روزِ مشعر یعنی دس ذوالحجہ کو مشعر کا وقوف حاصل کر لے جبکہ پانچ نفر وہاں موجود ہوں تو اس کا حج درست

۵۹۷

ہے ( یہ شرط کہ پانچ نفر مقام مشعر میں موجود ہوں مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے پاس ہے اور کسی کے پاس یہ شرط نہیں ہے) قربانی اگر اونٹ کی ہوتو وہ اپنی عمر کے پانچ سال مکمل کیے ہوئے ہو اگر گائے اور بکری ہو تو اپنی عمر کے سال دوئم میں داخل ہو اور گوسفند جس نے اپنی عمر کے چھ ماہ پورے کیے ہوں کافی ہے قربانی کا جانور معیوب نہیں ہونا چاہیے ایک گائے پانچ آدمیوں اور ایک خاندان کے لیے کافی ہے اگر بیل ہو تو ایک فرد  کے لیے اور اگر اونٹنی ہو تو سات افراد اور اونٹ (نر) دس افراد کے لیے کافی ہے۔ اگر قربانی نایاب ہو تو ایک گوسفند ستر(۷۰) افراد کے لیے کافی ہے ( یہ مسئلہ فقط شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے پاس ہے۔ جبکہ دیگر فقہاء کے نزدیک اگر حج کرنے والا فرد قربانی دینے کی استطاعت نہ رکھے یا نہ دے سکے تو اس کے بدلے تین دن مکہ میں سات دن اپنے وطن میں روزہ رکھے ، محقق) قربانی کے تین حصے ہیں ایک حصہ اپنے کھانے کے لیے دوسرا حصہ فقراء اور تیسرا حصہ ہدیے کے لیے ہے۔ ایام تشریق یعنی ۱۱ـ۱۲ـ۱۳ ذوالحجہ کو اگر کوئی روزہ رکھے تو اس کے لیے کھانا پینا اور ہمبستری جائز نہیں ہے عید قربان کے روز عید کی نماز کے بعد اور عیدالفطر میں نماز عید سے پہلے کچھ کھانا پینا سنت ہے ایام تشریق کی تکبیرات منی میں پندرہ نمازوں کے بعد یعنی عید کے دن ظہر کی نماز سے لے کر عید کے چوتھے روز نماز صبح تک جب کہ دیگر شہروں میں دس(۱۰) نمازوں کے بعد یعنی روز عید نماز ظہر سے لے کر عید کے تیسرے روز نماز صبح تک ہیں۔

عورتوں سے ہمبستری تین وجوہات سے حلال ہوتی ہے۔

اول : نکاح دائم جو کہ میراث رکھتا ہے۔

دوئم : نکاح منقطع ( نکاح موقت ، متعہ) جو کہ میراث نہیں رکھتا ۔

سوئم : ملک یمین ( لونڈی کنیز)۔

کنیز جب باکرہ ہوتو اس پر کوئی ولایت نہیں رکھتا سوائے باپ کے اگر بیوہ ہو تو کوئی اس پر حق تصرف نہیں رکھتا نہ باپ نہ کوئی دوسرا اور باپ کے علاوہ کوئی اس کی تزویج نہیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ خود کسی کے ساتھ مہر پر راضی ہو اور طلاق بھی کتاب و سنت کے مطابق ہوگی لہذا یہاں طلاق بھی نہیں کیونکہ طلاق کے لیے نکاح کا ہونا لازمی ہے اور  یہ دونوں یہاں پر نہیں ہیں کیونکہ عتق کے لیے

۵۹۸

 ملکیت لازمی ہے اور یہ دونوں یہاں پر نہیں ہیں نہ نکاح اور نہ ہی ملکیت البتہ عتق قصد قربت سے ہو یعنی اس طرح کہلائے کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ”قربتا الی اﷲ “۔

وصیت ثلث مال میں ہوتی ہے ( یعنی ورثا کے علاوہ کسی کو کچھ وصیت کرے تو ثلث مال سے زائد میں جائز نہیں ) اگر کوئی تیسرے حصے سے زائد کو کسی کے لیے وصیت کرے تو یہ ہو جائے گی مگر مستحب یہ ہے کہ تیسرے حصےسے وصیت کرے چاہے زیادہ کے لیے ہو یا کم کے لیے خصوصا ان بہن بھائیوں کے لیے ہو جو حق وراثت نہیں رکھتے اس سے عمر دراز ہوتی ہے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس سے اس کی عمر مختصر ہوجاتی ہے۔ میراث کے تین طبقات ہیں پہلے طبقے میں چھ حصے میراث سے زاید نہ ہوگا والدین اور اولاد کے ہوتے ہوئے کوئی ارث نہیں لے سکتا اور بیوی شوہر سے ارث لے گی، مسلمان کافر سے ارث لے سکتا ہے مگر کافر مسلمان سے ارث نہ لے گا اگر چہ بیٹا ہی کیوں  نہ ہو عورت کا بیٹا لعان شدہ باپ سے ارث نہ لے گا ( لعان سے مراد یہ ہے کہ باپ یہ کہے کہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے) اسی طرح باپ کے رشتوں یعنی دادا چچا وغیرہ سے بھی ارث نہ لے گا لیکن اس کی ماں لعان شدہ شوہر سے ارث لے گی اور بیٹا ماں کے رشتے داروں سے ارث لے گا، اگر باپ لعان کے بعد اعتراف کرے کہ بیٹا اسی کا ہے تو بیٹا باپ سے ارث لے گا مگر باپ بیٹے سے ارث نہ لے گا اور نہ ہی بیٹے کے قرابتداروں سے ارث لے گا اور اگر باپ مرجائے تو بیٹا باپ سے ارث لے گا مگر باپ بیٹے سے ارث نہ لے گا۔

شرائط دین امامیہ یہ ہیں یقین، اخلاص، توکل، رضا، تسلیم، ورع، اجتہاد، زہد و عبادت، صدق، وفا، ادائے امانت اگر چہ قاتل حسین(ع) ہی کیوں نہ ہو۔ والدین سے اچھا سلوک،میراث،صبر، شجاعت، اجتنابِ محرمات۔ دنیا کی طمع سے دوریا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، خدا کی راہ میں جان ومال سے جہاد۔  برادران سے نیک سلوک اور انکا احسان سےبدلہ چکانا۔ شکرِ نعمت، نیک کام کی ستائش کرنا۔ صلہء رحم ماں باپ کے ساتھ، ہمسائیوں سے عمدہ سلوک، انصاف ایثار۔ نیک لوگوں کی ہم نشینی، لوگوں کے ساتھ اچھی معاشرت۔ سب لوگوں کو اس اعتقاد کے ساتھ سلام کرناکہ خدا کا سلام ظالمین تک نہیں پہنچتا۔ مسلمانوں کا احترام، بزرگوں کا احترام۔ چھوٹوں سے مہربانی، کسی بھی قوم کے بزرگ کی تعظیم، تواضع و خشوع، بہت کثرت سے ذکرِ خدا، کثرت سے قرآن خوانی

۵۹۹

 کثرت دعا، دوسروں کے عیوب سے چشم پوشی، تحمل۔ غصہ پینا فقر اور مساکین کی حاجت روائی اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، عورتوں اور غلام سے خوش اخلاقی اور سوائے بہتر کے ان کو کسی کام کے لیے مجبور نہ کرنا۔ خدا سے خوش گمانی، اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا، بہتر عمل کرنا اور گناہوں پر استغفار کرنا، تمام مکارم اخلاق اور دین  دنیا کے بہتر امور کو اختیار کرنا، اور غصہ، بد خلقی، غصب، حمیت، تعصب، تکبر، طاقت کا ناجائز استعمال ، بیہودہ گوئی، بے شرمی، زنا قطع رحم، حسد، ناجائز آرزوئیں، شکم پری، طمع، نادانی، سفاہت، جھوٹ، خیانت، فسق و نا بکاری جھوٹی قسم، گواہی کو چھپانا، ناجائز و جھوٹی گواہی دینا، غیبت، بہتان، دشنام طرازی، لعن و طعن گوئی، نیرنگ ( جادو ٹونہ وغیرہ) سےاجتناب۔ فریب، پیمان شکنی، بدقولی او قتلِ ناحق اور ظلم و ستم سخت دلی، ناشکری، نفاق، و ریا و زنا و لواطت سے دوری راہ جہاد سے فرار ہجرت کرنے سے تعرب، ماں باپ کی ناشکری و نافرمانی، برادر (حقیقی و دینی)سے دغا کرنا اور اس سے نا روا سلوک ، یتیم کا مال کھانا اور پارسا عورتوں کو ناحق بدنام کرنا ان تمام امور سے دوری اختیار کرنا اور کنارہ کش رہنے کا نام دین امامیہ ہے۔

اس کے بعد جناب صدوق علیہ الرحمہ نے فرمایا برادران یہ دین امامیہ کا خلاصہ ہے جو میں نے جلدی میں بیان کیا اور اس کی تفسیر بھی مختصرا بیان کی اگر خداوند نے توفیق عطا فرمائی تو میں اس سے مزید نیشاپور میں بیان کروں گا انشاء اﷲ۔ ” ولا حول ولا قوة الا باﷲ العلی العظیم و صلی اﷲ علی محمد و آلہ و سلم“

پھر جناب صدوق(رح) نے فرمایا ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان کی ہر شب میں ایک ہزار مرتبہ ” انا انزلناہ فی لیلة القدر“ پڑھو اور ۲۳ رمضان کی رات اپنے دل کو محکم کرو اپنے کا ن کھلے رکھو اور عجائبات کو سنو اور دیکھو۔ ایک شخص نے کہا یا ابن رسول اﷲ(ص) یہ علم کیسے ہو کہ شب قدر ہر سال میں ہے امام(ع) نے ارشاد فرمایا اول ماہ رمضان سے ہر شب میں سورہ دخان کو پڑھو اور ۲۳ رمضان کی شب جو کچھ تم نے پوچھا ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھو اور باور کرو۔ امام ششم(ع) سے روایت ہے کہ شب قدر کی صبح بھی اس جیسی ہی ہے لہذا عبادت کرو اور کوشش کرو۔

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658