مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)9%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 306987 / ڈاؤنلوڈ: 7981
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ہو اور اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوئی ہو اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسکو ذلیل سمجھا ہو اور اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ہو''

کتب احادیث میں اس قسم کی روایات بہت زیادہ ہیں مگر یہ دوسری بات ہے کہ ان روایات میں کا ئنات کے بارے میںالہی سنتوںکی وضاحت جس انداز میںپیش کی گئی ہے اگر کوئی اس سے واقف نہ ہوتو یہ روایات اسکے لئے کچھ مبہم ہیں لیکن جولوگ زبان وبیان حدیث سے واقفیت رکھتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان روایات میں جس عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے مراد وہ عذاب ہے جو خدا سے روگردانی کرنے اور دنیا سے دل لگالینے کی صورت میں اسکے سامنے آتا ہے یعنی یہ دنیا ہی اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے لیکن اگر اسکا دل خداوند عالم کی طرف متوجہ رہے اور وہ دنیا کو خداوند عالم تک رسائی حاصل کرنے کے ذریعہ کے علاوہ کچھ اور خیال نہ کرے اور اسی نیت سے دنیاکا ہر کام کرتار ہے اور اپنا رزق کمائے تو دنیا اسے نقصان نہیں پہونچاسکتی بلکہ وہ اسکے لئے فائدہ مند اور خدمت گذارہی ثابت ہوگی۔

خواہشات کی پیروی کے بعد انسان کی دوسری مصیبت

گذشتہ صفحات میں ہم نے دنیا داری اور خواہشات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے پہلے عذاب کا تذکرہ کیا ہے جس میں انسان کے معاملاتِ زندگی بکھرکر رہ جاتے ہیں اوراسکی خواہشات کے آپسی ٹکرائو کی بناء پر اسکا نفس عجیب وغریب اندرونی خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے ۔

مگر اس تذبذب اور خلفشار کے بعد بھی یہ خواہشات انسان کو چین سے نہیں رہنے دیتیں بلکہ جب انسان خدا سے اپنا منھ پھیرکر انہیں خواہشات کے مطابق چلتا ہے تو وہ حرص اور لالچ کے عذاب میں بھی پھنس جاتا ہے کیونکہ اگر انسان کی توجہ خدا کے بجائے دنیا کی طرف ہوتو وہ کسی چیز سے سیر نہیں ہوپاتا اور اسے چاہے جس مقدار میںدنیا مل جائے یا اسکے برعکس وہ اس سے منھ پھیرے رہے تب بھی اسکی طمع کا وہی حال رہے گا کیونکہ یہ ایک نفسیاتی بات ہے اور مال ودولت وغیرہ کی کمی یا زیادتی سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جتنی زیادہ فراوانی کے ساتھ دولت ملتی ہے اسکے اندر دنیا کی محبت اور لالچ اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انسان دنیا کے پیچھے دیوانہ بنا رہتا ہے اور اسکا پیٹ کبھی بھی نہیں بھر پاتا اور اسکے سینہ میں محبت دنیا کی آگ پہلے کی طرح ہی جلتی رہتی ہے اور وہ کبھی سردنہیں پڑتی ہے ۔

۱۶۱

دنیا انسان کا ایک سایہ

جب انسان اس دنیا کو اپنا مقصد حیات بنالے تو پھر اس دنیا کے بارے میں وہی مثال مناسب ہے جو بعض روایات میں امیر المومنین سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(مثل الدنیا کظلکِ،انْ وقفتَ وقفَ،وانْ طلبتَه بَعُدَ )( ۱ )

''دنیا کی مثال تمہارے سایہ کی طرح ہے کہ اگر تم رک جائو تو وہ بھی رک جائے گا اور اگر تم اسے پکڑنا چاہو تو وہ تم سے دور بھاگے گا''

آپ کا یہ جملہ دنیا سے انسان کے رابطہ اور انسان سے دنیا کے رابطہ کے بارے میں بہت ہی بلیغ ہے کیونکہ دنیا کی لالچ اور اس پر ٹوٹ پڑنے سے اسے اپنے نصیب سے زیادہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ دنیا بالکل سایہ کی طرح ہے کہ اگرہم اسکی طرف آگے بڑھیں گے تووہ ہم سے اتنا ہی آگے بڑھ جائے گا ۔گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپناپیچھا کرنے والے سے فرار کرجاتا ہے ، لہٰذا اسکے پیچھے دوڑنے سے تھکن اور دردسر کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے ۔۔۔ اور بالکل یہی حال دنیا کا بھی ہے ۔

لہٰذا دنیا کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ طلب دنیا کی آرزو کو مختصر کردیا جائے اور دنیا کے اوپر جان کی بازی نہ لگائی جائے کیونکہ اس کے اوپر مرمٹنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ انسان اپنے لئے مزید مصیبت مول لے لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ ص۲۸۴۔

۱۶۲

روایات کی روشنی میں عذاب دنیا کے چند نمونے

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(ما سکن حب الدنیاقلباً الا التاط بثلاث:شغل لاینفدْ عناؤه،وفقرلا ید رکغناه،وأمل لاینال مناه )( ۱ )

''دنیا کی محبت کسی دل میں نہیں آتی مگر یہ کہ وہ تین چیزوں میں مبتلاہوجاتاہے ایسی مصروفیت جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی،ایسی فقیری جو مالداری میں تبدیل نہیں ہوسکتی اور ایسی آرزو جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی ہے ''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من أصبح والدنیا أ کبرهمه،فلیس من ﷲ فی شی ئ،وألزمه قلبه أربع خصال:همّاً لا ینقطع أبداً،وشغلاً لاینفرج عنه أبداً،وفقراً لایبلغ غناه أبداً،وأملا ً لا یبلغ منتهاه ابداً )( ۲ )

''صبح ہوتے ہی جسے سب سے زیادہ دنیا کی فکر ہوا سے خدا سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ وہ اسکے دل میں چار خصلتوںکو راسخ کردے گا۔کبھی ختم نہ ہونے والا غم،ایسی مصروفیت جس سے کبھی چھٹکارانہ ملے،ایسی فقیری جو استغنا تک نہ پہونچ سکے ،ایسی آرزو جو کبھی اپنی آخری منزل نہ پا سکے''

حضرت علی :

(من لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قلبه منهابثلاث:همّ لایغنیه، ومرض لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج ۷۷ ص ۱۸۸ ۔

(۲)میزان الحکمت ج۳ص۳۱۹۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ابی الحدیدج۱۹ص۵۲،بحارالانوار ج۷۳ص۱۳۰۔

۱۶۳

''جس شخص کا دل دنیا کی محبت کا دلدادہ ہوجائے اسکا دل تین چیزوں میں پھنس کررہ جاتا ہے ۔ ایسا غم جس سے افاقہ ممکن نہیںایسی بیماری جو اسے کبھی نہ چھوڑے گی ایسی آرزو جسے وہ کبھی نہیں پاسکتا''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا اکبر همّه،طال شقاؤه وغمه )( ۱ )

''جسکے لئے دنیا سب کچھ ہوگی اسکی بدبختی اور غم طولانی ہوجائینگے''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا همّته اشتدت حسرته عند فراقها )( ۲ )

''جسکا سب سے بڑا مقصد، دنیا ہو تو اس سے دوری کے وقت اس کی حسرت شدید ہوجاتی ہے ''

حضرت علی :

(المتمتّعون من الدنیا تبکی قلوبهم وان فرحوا،ویشتد مقتهم لانفسهم وان اغتبطواببعض مارزقوا )( ۳ )

''دنیا سے لطف اندوز ہونے والے اگر چہ بظاہر خوش نظر آتے ہیں مگر ان کے دل روتے ہیں اور وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں''

امام جعفر صادق :

(من تعلّق قلبه بالدنیا تعلّق قلبه بثلاث خصال:همّ لایُغنی،وأمل لایُدرک، ورجاء لایُنال )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۸۱۔

(۲) بحارالانوار ج۷۱ ص۱۸۱۔

(۳)بحارالانوارج۷۸ص۲۱۔

(۴)بحار الانوار جلد ۷۳ص۲۴۔

۱۶۴

''جسکا دل دنیا سے وابستہ ہوجائے اسکے دل کے اندر تین خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں:لازوال غم ،پو ری نہ ہونے والی آرزو،ہاتھ نہ آنے والی امید''

یہ رنگ برنگے عذاب ،دنیا کے ان عذابوں کا کچھ حصہ ہیں جو خداوند عالم نے خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے لئے آخرت سے پہلے اسی دنیا میں معین فرمادئے ہیں مثلاً اہل ثروت کو اپنے اقرباء یا دور والوں سے اپنے مال کے بارے میں جو خوف اور پریشانی لا حق رہتی ہے یہ ان کے لئے دنیاوی عذاب کا صرف ایک حصہ ہے ۔

آخرت میں انسان کی سرگردانی وپریشا ں حالی

حدیث قدسی میں انسان کی جس پریشان حالی (افتراق اوردرہم برہم ہوجانے )کا تذکرہ ہے اسکا تعلق صرف دنیا سے ہی نہیںہے بلکہ دنیا کی طرح اسے آخرت میں بھی اسی صورتحال سے دوچارہونا پڑے گا ۔

آخرت میں یہ افتراق اور بیقراری سب سے پہلے اپنے خواہشات نفس اور ہوی وہوس کے پیچھے چلنے والوں کے درمیان ہی دکھائی دینگے کیونکہ وہ دنیا میں جسمانی اعتبار سے بظاہر متحدضرور تھے مگر ان سب کی تمنائیں اور ہوس ایک دوسرے سے الگ تھیں نیزانھوں نے اپنے جواختلافات دنیا میں چھپارکھے تھے وہ سب آخرت میں کھل کر سامنے آجائیں گے خداوند عالم نے قرآن مجید میں اہل جہنم کے حالات کی یوںتصویر کشی کی ہے :

(کلّما دخلت اُمة لعنت اُختها )( ۱ )

''جہنم میں داخل ہونے والی ہر جماعت اپنی دوسری برادری پر لعنت کرے گی''

اس اختلاف اور انتشار یا خانہ جنگی کی دوسری صورت اس وقت سامنے آئے گی کہ جب

انسان خدا سے اپنے جرائم چھپانا چاہے گا اور اسی وقت اس کے اعضاء اسکے جرائم کے بارے میں

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۳۸

۱۶۵

گواہی دینے لگیں گے تو وہ ان پر غصہ ہو گااوراسی وقت اسکے یہی ہاتھ پیر اور کھال وغیرہ اسے ذلیل و رسوا کرکے رکھ دینگے تووہ اپنے اعضاء سے یہ کہے گا:

(وقالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شیئ )( ۱ )

''اور وہ (اہل جہنم )اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی تو وہ جواب دینگے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے ہر چیز کو گویائی عطا کی ہے ''

بلکہ روایات میں تو یہاں تک ہے کہ روز قیامت اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے گنہگاروں کے بعض اعضاء ان سے اظہار نفرت کرینگے اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے دکھائی دینگے اور یہ بعینہ وہی صورتحال ہے جو دنیا میں خواہشات کی پیروی کی بنا پر انسان کے اندر دکھائی دیتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(کُفّ أذاک عننفسک،ولا تتابع هواهافی معصیةاللّٰه،اذتخاصمک یوم القیامة،فیلغی بعضک بعضاً،الا أن یغفرﷲو یستر برحمته )( ۲ )

''اپنے نفس کو اذیت نہ دواور معصیت خدا میں اپنے نفس کے خواہشات کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ روز قیامت تم سے جھگڑا کریگا اور اسکا بعض حصہ دوسرے حصہ کو برا بھلاکہے گا ۔مگر یہ کہ خدا وند کریم تمہیں معاف فرمادے اور اپنی رحمت کے پردے ڈال دے ''

____________________

(۱)سورئہ فصلت آیت ۲۱۔

(۲)محجةالبیضاء فیض کاشانی ج۵ص۱۱۱۔

۱۶۶

۲۔اسکی دنیا کو اسکے لئے مزین کردوںگا

دنیا کا ظاہر اور باطن

خواہشات کی پیروی کرنے والے کی دوسری سزا یہ ہے کہ اسکے لئے دنیا مزین کردی جاتی ہے اور دنیا کے مزین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری لحاظ سے دنیا اس پرفریب انداز میں اس کے سامنے آتی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر دھوکہ میں پڑا رہتا ہے جبکہ وہ دنیا کی واقعی شکل نہیں ہو تی ہے اور انسان اسی ظاہری صورت سے فریب کھا جاتا ہے کیونکہ اس کی جن ظاہری صورتوں کو دیکھ کر وہ فریب خوردہ رہتا ہے وہ وقتی ہیں اور ان میں بہت جلد تبدیلی آجاتی ہے لیکن دنیا کی واقعی شکل و صورت جو اسکے بالکل برخلاف ہے وہ درحقیقت یہ ہے کہ یہ دنیاانسان کے لئے مقام عبرت اور چشم بصیرت حاصل کرنے نیز زہد وتقوی اختیار کرنے کا سرچشمہ اور مرکز ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن افراد کو خداوند عالم نے چشم بصیرت عنایت فرمائی ہے ان کی نگاہیں دنیاکے وقتی اور اوپری خول کے اندر گھس کر اس کی حقیقت کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں اسی لئے وہ اس میں زہد سے کام لیتے ہیں اور اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرتے رہتے ہیںلیکن جو لوگ خداوندعالم کی عطا کردہ بصیرت کو ضائع کردیتے ہیں وہ زندگانی دنیا کو اسی ظاہری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی نگاہیں اس کے باطن اور حقیقت تک نہیں پہونچ پاتی ہیں لہٰذا ان کے دل اس کے دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ دنیا کے دو روپ ہیں :

۱۔ظاہری

۲۔ باطنی

اسی اعتبار سے اہل دنیا کی بھی دو قسمیں ہیں :

۱۔کچھ وہ لوگ ہیں جن کی نگاہیں دنیا کے ظاہرسے آگے نہیں بڑھتی ہیں ۔

۲۔ کچھ ایسے افراد ہیں جن کی نظر یںدنیا کے باطن کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں ۔

۱۶۷

اس تقسیم کی طرف قرآن مجید نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۔

(یعلمون ظاهراًمن الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة هم غافلون )( ۱ )

''یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں ''

لیکن جن لوگوں کو خداوند عالم نے فہم وبصیرت عطا فرمائی ہے ان کے سامنے دنیاکا ظاہر وباطن ایک دوسرے سے مشتبہ نہیں ہوتا ہے ۔البتہ جب خداوند عالم کسی سے غضبنا ک ہوجاتا ہے تو اس کی بصیرت سلب کرلیتا ہے اور پھر اسکے سامنے دنیا کا ظاہر وباطن مخلوط ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ظاہری خول اور اسکی واقعی حقیقت کے درمیان تمیزنہیں کرپاتا لہٰذا دنیا کی ظاہری رنگینیاں اسے دھوکہ دیدیتی ہیں اور وہ بھی اس دنیا کوفریب خوردہ نگاہ سے دیکھتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے یوں اشارہ کیا ہے :

(زُیّن للذ ین کفروا الحیاة الدنیا )( ۲ )

''اصل میں کافروں کے لئے زندگانی دنیا آراستہ کردی گئی ہے ''

لہٰذا کیونکہ وہ اسکے پرفریب ظاہر کو دیکھتا ہے اس لئے اسکی نگاہوں میں دنیا سجی رہتی ہے لیکن اگر اسکے باطن پر نگاہ رکھی جائے تو پھر کبھی اسکی رنگینی نظر نہ آئے گی۔

مختصر یہ کہ زندگانی دنیا کے دو روپ اور دوچہرے ہوتے ہیں :

ا۔باطنی حقیقت (اصلی چہرہ)

ب۔ظاہری چہرہ

أ ۔دنیا کا باطنی چہرہ (اصل حقیقت)

جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ دنیاکی واقعی شکل و صورت صرف اہل بصیرت کو دکھائی دیتی

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۷۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت۲۱۲۔

۱۶۸

ہے اوراسکی اس شکل میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب نہیں ہے بلکہ وہ منزل عبرت ونصیحت ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی دنیا کے اس پہلو کی نہایت دقیق تعریف و توصیف فرمائی ہے جسکے بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں :

۱۔دنیا ایک پونجی ہے :ارشاد الٰہی ہے :

(وماالحیاة الدنیا فی الآخرة الامتاع )( ۱ )

''اور آخرت میں زندگانی دنیا کی حقیقت مختصر پونجی کے علاوہ اور کیا ہے ''

متاع ،وقتی لذت کو کہا جاتا ہے جبکہ اس کے بالمقابل آخرت کی لذتیں دائمی اور باقی رہنے والی ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

(فما متاع الحیاة الدنیا فی الآخرة الا قلیل )( ۲ )

''پس آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے ''

۲۔دنیا عارضی ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

(تریدون عرَضَ الد نیاوﷲ یرید الآخرة )( ۳ )

''تم لوگ صرف مال دنیا چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے ''

یا ارشا د ہے :

(تبتغون عَرَضَ الحیاة الدنیا فعند ﷲ مغانم کثیرة )( ۴ )

''اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں''

____________________

(۱)سورئہ رعد آیت ۲۶۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۳۸۔

(۳)سورئہ انفال آیت ۶۷۔

(۴)سورئہ نساء آیت ۹۴۔

۱۶۹

(یأخذون عَرَضَ هذا الادنیٰ و یقولون سَیُغْفَرلنا )( ۱ )

''لیکن وہ دنیا کا ہر مال لیتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا ''

عارضی چیز اسکو کہتے ہیں جو بہت جلد تبدیل ہوکر ختم ہوجائے اور کیونکہ دنیا کی لذتیں تبدیل ہوکر ختم ہو جاتی ہیں اور کسی کے لئے بھی باقی رہنے والی نہیںہیںاسکے باوجود بھی یہ لوگوںکو بری طرح فریب میں مبتلا کردیتی ہیں۔

گویادنیا کی دوصفتیں ہیں :

۱۔وہ صفت جس سے انسان زاہد دنیا بن جاتا ہے ۔

۲۔وہ صفت جو انسان کو فریب میں مبتلا کردیتی ہے ۔(جس سے انسان دھوکہ کھاجاتاہے )

وہ صفت جس کی بنا پر انسان زاہد بن جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا عارضی، زوال پذیر اور بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے ۔(لہٰذا وہ اس سے دل نہیں لگاتا)

لیکن اسکا پر فریب رخ یہ ہے کہ یہ نرم لقمہ ہے نچلی سطح پر جلد ہاتھ آجاتی ہے ۔

اور کیونکہ لوگ عام طورسے عجلت پسند ہوتے ہیں لہٰذاوہ جلد ہاتھ آنے والی چٹپٹی چیزوں کو دیر سے ملنے والی دائمی نعمتوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

(لوکان عرضاً قریباً وسفراً قاصد اً لا تّبعوک )( ۲ )

''پیغمبر،اگر کوئی قریبی فائدہ یا آسان سفر ہوتا تو یہ ضرور تمہارا اتباع کرتے ''

اس طرح انسان کی طبیعت اور فطرت میں ہی جلدبازی پائی جاتی ہے ۔

۳۔دنیا دھوکہ اور فریب کا اڈہ ہے ۔

ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۱۶۹۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۴۲۔

۱۷۰

(فلا تغرّنّکم الحیاة الدنیا ولایغرّنّکم بﷲ الغرور )( ۱ )

''لہٰذا تمہیں زندگانی دنیا دھوکہ میں نہ ڈال دے اور خبردار کوئی دھوکہ دینے والا بھی تمہیں دھوکہ نہ دے سکے''

۴۔اور دنیا متاع غرور ہے: یہ دو الفاظ کی ترکیب ہے جن کو قرآن مجید نے دنیا کے لئے الگ الگ اور ایک ساتھ دونوں طرح استعمال کیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

(وماالحیاةالدنیاالامتاع الغرور )( ۲ )

''اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے ''

اس فریب کی اصل بنیاد دنیا کی وقتی اور ختم ہوجانے والی پونجی ہے ۔

دنیا اورآخرت کا تقابلی جائزہ

اگر ہم قرآن مجید پر ایک اور نظر ڈالیں تو اسکے بیان کردہ اوصاف کی روشنی میں دنیا و آخرت کا موازنہ کرنا بہت آسان ہے جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کے قرآن مجید کی نگاہ میں یہ دنیا وقتی ،بہت جلد قابل زوال اور ایسی پونجی ہے جو کسی کے لئے دائمی (اور باقی رہنے والی)نہیں ہے لیکن آخرت سکون واطمینان کی ایک دائمی جگہ ہے ۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( یاقوم انماهذه الحیاة الدنیامتاع وانّ الآخرة هی دارالقرار ) ( ۳ )

''قوم والو،یاد رکھو کہ یہ حیات دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے ''

____________________

(۱)سورئہ لقمان آیت ۳۳سورئہ فاطر آیت ۵۔

(۲)سورئہ آل عمران آیت ۱۸۵سورئہ حدید آیت ۲۰ ۔

(۳)سورئہ غافر آیت۳۹۔

۱۷۱

دنیا ایک کھیل تماشہ ہے لیکن آخرت دائمی حیات کا گھر ہے اور وہی حقیقی زندگی ہے اور وہ زندگی کھیل تما شہ نہیں ہے ۔

جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

(وماهذه الحیاةالدنیاالالهوولعب وان الدارالآخرة لهی الحیوان لوکانوایعلمون )( ۱ )

''اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ لوگ سمجھیں بو جھیں تو اس میں شک نہیں کہ ابدی زندگی (کی جگہ)تو بس آخرت کا گھر ہے ''

کلا م امیر المومنین میں دنیاکا تذکرہ

مولائے کائنات نے اپنے اقوال میں دنیا کی حقیقت کو بالکل آشکار کر دیا ہے اور اس کے چہرہ سے دھوکہ اور فریب کی نقاب نوچ لی ہے جس کے بعد ہر شخص دنیا کی اصلی شکل و صورت کو بآسانی پہچان سکتا ہے۔

لہٰذا دنیا کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :

۱۔(وﷲ مادنیاکم عندی الاکسَفْرٍعلیٰ منهل حلّوا،اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا،ولالذاذاتُهافی عینی الاکحمیم أشربُه غسّاقا،وعلقم أتجرع به زُعافا،وسمّ أفعاةٍ دِهاقاً،وقَلادةٍ من نار )( ۲ )

''خدا کی قسم تمہاری دنیا میرے نزدیک ان مسافروں کی طرح ہے جو کسی چشمہ پر اترے ہوں ،اور جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں ،اور اسکی لذتیں میری نگاہ میں اس گرم اور

____________________

(۱)سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۷ص۳۵۲۔

۱۷۲

گندے پانی کی طرح ہیں جسے مجبوراً پینا پڑے اور وہ کڑوی چیز ہے جسے مردنی کی حالت میں زبردستی گلے سے نیچے اتارا جائے اور وہ اژدہے کے زہر سے بھرا ہوا پیالہ اور آگ کا طوق ہے''

اس دنیا کا جو رخ لوگوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اسی بھرے ہوئے چشمہ کی طرح ہے جس پر قافلہ ٹھہراہو '' سفرعلی منھل حلوا''اور یہ اسکا وہی ظاہری رخ ہے جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے کو تیار رہتے ہیں ۔جبکہ مولائے کائنات نے اس کو زود گذر قرار دیا ہے جو کہ دنیا کا واقعی چہرہ ہے :

(اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا )''جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں''

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جن لذتوں کیلئے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مولائے کائنات کی نگاہ میں گرم، بدبوداراور سانپ کے زہر کے پیالہ کی طرح ہے ۔

''جب معاویہ نے جناب ضرار بن حمزہ شیبانی(رح) سے امیر المومنین کے اوصاف و خصائل و معلوم کئے تو آپ نے کہا کہ بعض اوقات میں نے خوددیکھا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں محراب عبادت میں کھڑے ہیں اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میںلئے ہوئے ایک بیمار کی طرح تڑپ رہے ہیں اور ایک غمزدہ کی طرح گریہ کررہے ہیںاس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری رہتے ہیں :

(یادنیاالیک عنی،أبی تعرّضتِ؟أم الیّ تشوّقتِ؟هیهات!!غرّی غیری لا حاجة لی فیکِ،قدطلقتک ثلاثاً،لارجعة فیها:فعیشک قصیر،وخطرک کبیر،واملک حقیر،آه من قلّة الزاد،وطول الطریق )( ۱ )

''اے دنیا مجھ سے دورہوجا کیا تو میرے سامنے بن ٹھن کر آئی ہے اور کیا واقعاً میری مشتاق بن کر آئی ہے بہت بعید ہے جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دینا مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے ۔میں تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جسکے بعد رجوع ممکن نہیں ہے تیری زندگی بہت مختصر، تیری حیثیت

____________________

(۱) نہج البلاغہ حکمت ۷۷وبحارالانوار ج۷۳ص۱۲۹۔

۱۷۳

بہت معمولی ،تیری آرزوئیں حقیر ہیں ،آہ، زاد راہ کس قدر کم اور راستہ کتنا طولانی ہے ''

آپ نے دنیاکے ان تینوں حقائق کو اس سے فریب کھانے والے شخص کے لئے واضح کردیا ہے کہ اسکی زندگی بہت مختصر اسکے خطرات زیادہ اور اسکی آرزوئیں حقیر ہیں ۔

اس بارے میں آپ کے یہ ارشادات بھی ہیں ۔

۱۔(ألاوان الدنیا دارغرّارة،خدّاعة، تنکح فی کل یوم بعلاً،وتقتل فی کل لیلة أهلاً،وتُفرّق فی کل ساعة شملاً )( ۱ )

''یاد رکھو یہ دنیا بہت پر فریب گھر ہے اور بیحد دھوکے باز(عورت کے مانند ہے جو) ہر روز ایک نئے شوہر سے نکاح کرتی ہے اوہر رات اپنے گھر والوں کوہلاک کرڈالتی ہے اور ہرساعت ایک قوم کو متفرق کرڈالتی ہے ''

۲۔(ان اقبلت غرّت،وان أدبرت ضرّت )( ۲ )

''اگریہ دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی تو تمہیں فریب میں مبتلا کردیگی اور اگروہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئی تونقصان دہ ہے ''

۳۔(الدنیا غرورحائل،وسراب زائل،وسنادمائل )( ۳ )

''دنیابدل جانے والا فریب، زائل ہوجانے والا سراب اور خم شدہ ستون ہے ''

۴۔دنیا کے ظاہر وباطن کی نقشہ کشی آپ نے ان الفاظ میں کی ہے :

(مثل الد نیا مثل الحیّة مسّها لیّن،وفی جوفهاالسم القاتل،یحذرها الرجال ذووالعقول،ویهوی الیهاالصبیان بأید یهم )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۳۷۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ ص۲۳۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۴) بحارالانوارج۷۸ص۳۱۱۔

۱۷۴

''یہ دنیا بالکل سانپ کی طرح ہے جو چھونے میں بہت نرم ہے مگراسکے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے اہل عقل اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور بچے اسے ہاتھ میں اٹھانے کیلئے جھک جاتے ہیں ''

اس قول میں امام نے بہت ہی حسین وجمیل انداز میں دنیا کے ظاہروباطن کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے کہ اسکا ظاہر سانپ کی طرح جاذب نظراور چھونے پر بہت نرم معلوم ہوتا ہے لیکن اسکے باطن میں دھوکہ اور زوال ہی زوال ہے جیسے ایک سانپ کے منھ میں مہلک زہر بھرا رہتا ہے ۔

اسی طرح اس دنیا کی طرف دیکھنے والے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہیں :

اہل عقل اور صاحبان بصیرت اس سے خائف رہتے ہیں جس طرح انہیں سانپ سے خوف محسوس ہوتاہے ۔لیکن ان کے علاوہ بقیہ لوگ اس سے اسی طرح دھوکہ کھاجاتے ہیں جس طرح زہریلے سانپ کی چمکیلی اور نرم کھال دیکھ کر بچے دھوکہ کھاتے ہیں ۔

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ

''یہ ایک ایسا گھر ہے جو بلائوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے ۔

اسکے حالات مختلف اور اسکے طورطریقے بدلنے والے ہیں اس میں پر کیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن وامان کا کہیں دو ر دور تک پتہ نہیں ہے ۔۔۔اسکے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انھیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے ۔

۱۷۵

اے بندگان خدا ،یاد رکھو اس دنیا میں تم اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہی راستہ ہے جس پر پہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویل اور جن کے علاقے تم سے زیادہ آبادتھے ان کے آثار بھی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کی آوازیں دب گئیں ہیں ان کی ہوائیں اکھڑگئیں ہیں ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں ۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثار مٹ چکے ہیں وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اور چنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرقبروں میں تبدیل کرچکے ہیں جن کے صحنوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اور جن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے ۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ ہیں ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہوکر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں ۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں ۔حالانکہ بالکل قرب وجوار اور نزدیک ترین دیار میں ہیں ۔ اور ظاہر ہے اب ملاقات کا کیاامکان ہے جبکہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیس ڈالا ہے اور پتھروں اور مٹی نے انہیں کھاکر برابر کردیا ہے اور گویا کہ اب تم بھی وہیں پہونچ گئے ہو جہاں وہ پہونچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گروی رکھ لیا ہے اور اسی امانت گا ہ نے جکڑلیا ہے ۔

ذرا سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد تک پہنچ جائیںگے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہر نفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹادیا جائے گا اور کسی پر کوئی افترا پر دازی کام آنے والی نہ ہوگی۔( ۱ )

سید رضی نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت امیر المومنین نے شریح بن حارث سے فرمایا:

(بلغنی انّک ابتعت داراً بثمانین دیناراً،وکتبت لهاکتاباً، وأشهدت فیه شهوداً؟!)

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسی (۸۰) دینا ر میں ایک گھر خریدا ہے اور اسکے لئے باقاعدہ ایک بیع نامہ لکھ کر لوگوں کی گواہی بھی درج کی ہے ۔تو شریح نے عرض کی :اے امیر المومنین ۔جی ہاں: ایسا ہی ہے ۔تو آپ نے ان کی طرف غصہ بھری نظر وں سے دیکھ کرکہا ۔اے شریح عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آنے والا ہے جو نہ تمہارے اس بیع نامہ کو دیکھے گا اور نہ گواہوں کے بارے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶۔

۱۷۶

میں تم سے کچھ سوال کرے گا اور وہ تمہیں اس گھر سے نکال کر تن تنہا تمہاری قبر کے حوالے کردیگا لہٰذا ۔ اے شریح۔کہیں ایسا نہ ہوکہ تم نے اس گھر کو اپنے مال سے نہ خریدا ہو اور ناجائز طریقے سے اسکے دام ادا کئے ہوں۔اگر ایسا ہواتو تم دنیا اورآخرت دونوں جگہ گھاٹے میں ہو ۔کاش تم یہ گھر خریدنے سے پہلے میرے پاس آجاتے تو میں تمہارے لئے ایک دستاویز تحریر کردیتا تو تم ایک درہم میں بھی یہ گھر نہ خریدتے ۔

میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا :

یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندئہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریداہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے ۔یہ مکان پر فریب دنیا میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے ۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں ۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف سے گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب وخواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے ۔اب اگر اس خریدار کو اس سودے میں کوئی خسارہ ہوتو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کو تہ وبالا کرنے والا، جابروں کی جان لینے والا،فرعونوں کی سلطنت کوتباہ کردینے والا،کسریٰ وقیصر ،تبع وحمیر اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں،مستحکم عمارتیں بناکر انھیں سجانے والوں،ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فناکے گھاٹ اتار دینے والا ہے ۔کہ ان سب کو قیامت کے میدان حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق وباطل کا حتمی فیصلہ ہوگا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہونگے۔

۱۷۷

اس سودے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''( ۱ )

دنیا کے بارے میںآپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

یاد رکھو:اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اسکا گھاٹ گندھلاہے ،اسکا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطرناک ہیں ،یہ ایک فنا ہوجانے والا فریب، بجھ جانے والی روشنی ،ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا ستون ہے ۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ہے اور اسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو پٹکنے لگتی ہے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی ہے اور پھر اپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے انسان کی گردن میں موت کا پھندہ ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کرلیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پر آجاتی ہے نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اور نہ آنے والے افراد گناہوں سے باز آتے ہیں پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہا ء وفنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :

''میں اس دار دنیاکے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتہا فنا ونابودی ہے

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۳۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔

۱۷۸

اسکے حلال میں حساب ہے اور حرام میںعذاب،جو اس میں غنی ہوجائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجائے ۔ اور جو فقیر ہوجائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجائے ۔جو اسکی طرف دوڑلگائے اسکے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اسکے پاس حاضر ہوجائے جو اسکو ذریعہ بناکر آگے دیکھے اسے بینابنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے ''( ۱ )

اپنے دور خلافت سے پہلے آپ نے جناب سلمان فارسی کو اپنے ایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا ۔اما بعد :اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن اسکا زہر انتہائی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرو۔کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے ۔اسکے ہم وغم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اسکے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں ۔اس سے جس وقت زیادہ انس محسوس کرو اس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اسکا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی ہے اور انس سے نکال کرو حشت کے حالات تک پہونچادیتی ہے ۔والسلام ''( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

آگاہ ہوجائو دنیا جارہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اسکی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں وہ تیزی سے منھ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف لی جارہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے اسکی شیرینی تلخ ہوچکی ہے اور اسکی صفائی ہوچکی ہے اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو، تہ میں بچاہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیاسا پی بھی لے تو اسکی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے لہٰذا بند گان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جسکے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبردار: تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۸۲۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب۶۸۔

۱۷۹

مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا''( ۱ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہو ئی ہے اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خو شی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کو ئی محفوظ رہنے والا ہے یہ دھوکہ باز ،نقصان رساں ،بدل جانے والی ،فنا ہو جانے والی ،زوال پذیراور ہلاک ہو جانے والی ہے ۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اور مٹا بھی دیتی ہے ۔

جب اسکی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش ہو جانے والوںکی خواہشات انتہاء کو پہونچ جاتی ہے تویہ بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے :

(کمائٍ أنزلناه من السماء فاختلط به نبَات الأرض فأصبح هشیماً تذروه الریاح وکان ﷲ علیٰ کل شیئٍ مقتدرا )( ۲ )

''یعنی دنیا کی مثال اس پانی کے جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا اور اسکے ذریعہ زمین کے سبزہ مخلوط(ہوکر روئیدہ)ہوئے وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہوگیا جسے ہوائیں اڑالے جاتی ہیں اور اللہ ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے ''

اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نہیں ہوا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت وآرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلائوں کا دو گڑا گرنے لگتا ہے ۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۵۲۔

(۲)سورئہ کہف آیت۴۵۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

مجلس نمبر۹۴

(۱۷ سترہ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           سید عبدالعظیم(رح) بیان کرتے ہیں، میں نے امام تقی(ع) سےسنا کہ جو کوئی میرے والد(ع) کی (تربت کی ) زیارت کرنے جائے اور اس سلسلے میں گرمی اور سردی کی تکالیف اٹھائے تو خدا اس پر دوزخ کی آگ حرام کردے گا۔

۲ـ           اسماعیل بن فضل ہاشمی بیان کرتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ جب موسی بن عمران(ع)نے جادوگروں کی رسیوں اورلاٹھیوں کو دیکھا تو وہ خوف زدہ ہوگئے مگر ابراہیم(ع) کو جب منجنیق میں بٹھا کر آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کوئی خوف محسوس نہ کیا اس کی کیا وجہ تھی۔ امام(ع) نے فرمایا ابراہیم(ع) کو جب آگ میں گرایا گیا تو وہ اپنی پشت (صلب) میں موجود حجج الہی کا اعتماد رکھتے تھے اس لیے خوف زدہ نہ ہوئے مگر موسی(ع) اس طرح نہ تھے اس لیے انہوں نے خوف محسوس کیا۔

حدیث طیر

۳ـ                  ابوہدیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو دیکھا جو رومال سے اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھا میں نے اس سے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ یہ علی بن ابی طالب(ع) کی مجھ پر نفرین کا اثر ہے میں نے کہا وہ کس طرح تو اس نے کہا، ایک مرتبہ میں جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر تھا تو ایک بھنا ہوا پرندہ آںحضرت(ص) کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آںحضرت(ص) نے اس بھنے ہوئے پرندے کو وصول کر کے فرمایا۔ اے خدایا، لوگوں میں سے جو تیرا سب سے زیادہ دوست ہے اسے میرے پاس بھیج دے تاکہ وہ میرے ساتھ یہ پرندہ تناول کرے اسی اثناء میں علی(ع) آئے تو میں نے ان سے (جھوٹ) کہہ دیا کہ جناب رسول خدا(ص) کام سے باہر گئے ہوئے ہیں اور انہیں اندر آنے کا راستہ نہ دیا، میں (انس) اس انتظار میں تھا کہ میری ہی قوم کا کوئی فرد آجائے اور آںحضرت(ص) کے ساتھ یہ پرندہ تناول کرے پھر جناب رسول خدا(ص) نے دوبارہ دعا فرمائی تو دوسری مرتبہ بھی علی(ع) ہی

۶۰۱

تشریف لائے میں نے انہیں پہلے والا جواب دے کر دوسری مرتبہ بھی رخصت کردیا۔ اسی اثناء میں جناب رسول خدا(ص) نے تیسری مرتبہ دعا فرمائی اور تیسری بار بھی علی(ع) ہی تشریف لائے جب میں نے انہیں پہلے والا جواب دیا تو علی(ع) نے با آواز بلند فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) کو ایسا کیا کام ہےکہ وہ مجھ سے نہیں ملنا چاہتے۔ ان کی یہ آواز جناب رسول خدا(ص) کے کانوں میں پڑی تو آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا اے انس یہ کون ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) یہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں آپ(ص) نے فرمایا انہیں اندر آنے دو جب علی(ع) اندر داخل ہوئے تو آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) میں نے تین مرتبہ بارگاہ خدا میں یہ دعا کی کہ تیری خلق سے جو محبوب ترین ہے اسے بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ یہ پرندہ تناول فرمائے اگر تم اس دفعہ نہ آتے تو میں تمہارا نام لے کر تمہیں طلب کرتا علی(ع) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) یہ تیسری بار ہے کہ میں آپ(ص) کے دروازے پر آیا میں جب بھی آتا انس مجھے یہ کہتا کہ رسول خدا(ص) کسی کام میں مشغول ہیں اور انہیں مل سکتے اور مجھے واپس لوٹا دیتا اور یہ سن کر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے انس کیا میں نے تجھے اس لیے اپنے پاس رکھا ہے، میں (انس) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں نے جب آپ(ص) کی دعا سنی تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آپ(ص) کی دعوت میں میری قوم کاکوئی فرد شریک ہوجائے  اس لیے میں نے ایسا کیا۔ پھر انس نے بتایا کہ جس روز جناب علی بن ابی طالب(ع) نے احتجاج خلافت بلند کیا تو علی(ع) نے اپنی خلافت پر میری گواہی چاہی جسے میں نے چھپایا اور یہ کہا کہ میں ( خلافت کے بارے میں جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد) بھول گیا تو علی(ع) نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور دعا فرمائی کہ اے خدایا انس کو برص کے ایسے مرض میں مبتلا کردے جسے وہ  چھپانا چاہے تو نہ چھپ سکے اور لوگ اسے دیکھیں یہ کہہ کر کہ انس نے اپنے سر سے رومال ہٹایا اور برض کا نشان دکھا کر کہا یہ نفرین علی(ع)۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جوکوئی دوسرے اصحاب کو علی(ع) پر فضیلت دے وہ کافر ہے۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میرے بعد جو کوئی علی(ع) کی امامت کا منکر ہوگا وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جو میری زندگی میں میری رسالت کا منکر ہے اور جو کوئی میری رسالت کامنکر ہے وہ پروردگار کی ربوبیت کا منکر ہے۔

۶۰۲

۶ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تم میری زندگی میں اور میری زندگیکے بعد بھی  میرے برادرمیرے وارث ووصی اور خلیفہ ہو  میرے خاندان و میری امت کے لیے۔ اور جو کوئی تیرا دوست ہے وہ میرا دوست ہے تیرا دشمن میرا دشمن ہے۔ اے علی(ع) تم اور میں دونوں اس امت کے باپ ہیں۔ تیرے فرزندوں میں سے امام(ع) دنیا و آخرت کے سردار وپیشوا ہیں جو کوئی ہمیں پہچانتا ہے وہ خدا کو پہچانتا ہے اور جو کوئی ہمارا منکر ہے وہ خدا کا منکر ہے۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا نے فرمایا اگر تمام لوگ ولایتِ علی(ع) پر متفق ہوجاتے تو میں دوزخ کو پیدا ہی نہ کرتا۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا اگر دشمن علی(ع) فرات کے  کنارے پر آکر پانی پیئے اور پینے سے پہلے مسم اﷲ اور بعد میں الحمد اﷲ بھی کہے تو بیشک یہ اس کے لیے مردار، جاری شدہ خون اور سور کھانے کے مترادف ہے۔

۹ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ فاطمہ(س) کو رات کو دفن کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ قوم پر غضبناک تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کے جنازے میں ایسے لوگ اور ان لوگوں کی اولاد شریک نہ ہوں اور نہ ہی وہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔

۱۰ـ          جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل(ع) میرے پاس مسرور و شاد تشریف لائے میں نے ان سے پوچھا کیا آپ میرے بھائی علی بن ابی طالب(ع) کا مقام خدا کے نزدیک جانتے ہیں جبرائیل(ع) نے فرمایا اے محمد(ص) جان لو کہ جس نے تمہیں پیغمبر(ص)مبعوث کیا ہے اور رسالت  سے برگذیدہ کیا میں اس وقت یہی عنوان لیے نیچے آیا ہوں اے محمد(ص) خداوند اعلیٰ تجھے سلام دیتا ہے اور فرماتا ہے ک محمد(ص) میرا پیغمبر رحمت(ص) ہے اور علی(ع) میرا مقیم الحجت ہے میں اس کے محب کو عذاب نہ دوں گا چاہے گناہ گار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس کے دشمن پر رحم نہ کروں گا چاہیے میرا فرمانبردار ہی کیوں نہ ہو، ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اس کے بعد فرمایا کہ روز قیامت جبرائیل(ع) میرے پاس آئیں گے اور لواءحمد ہاتھ میں لیے ہوں گے جس کے ستر پھریرے ہوں گے اس کے ہر پھریرے کے وسعت چاند و سورج سے زیادہ ہوگی  وہ یہ میرے حوالے کردیں گے میں یہ لواء لے کر علی بن ابی طالب(ع) کو دیدوں گا۔

۶۰۳

ایک شخص نے یہ سن کر کہا یا رسول اﷲ(ص)، علی(ع) میں اسے اٹھانے کی تاب کیونکر ہوگی جب کہ آپ(ص) فرمارہے ہیں کہ اس کے ستر پھریرے ہوں گے اور ہر پھریرے کی وسعت خورشید قمر سے زیادہ ہے یہ سن کر جناب رسول خدا(ص) نے غصہ کیا اور فرمایا اے مرد ، خدا روز قیامت علی(ع) کو جبرائیل(ع) کی مانند طاقت عطا کرے گا۔ انہیں حسنِ یوسف(ع)، حلم رضوان(ع) اور لحن داؤد(ع) عطا فرمائے گا اور داؤد(ع) بہشت کے خطیب ہیں علی(ع) وہ اول بندہ ہے جو سلسبیل اور زنجبیل سے پیئے گا اس کے شیعہ خدا کے نزدیک اولین و آخرین میں ایک مقام رکھتے ہیں جس پر رشک کیا جائے گا۔

۱۱ـ           جناب علی بن حسین(ع) اپنے آبائے طاہرین(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) کے اصحاب بڑی تعداد میں آپ(ص) کے پاس جمع تھے اور جناب علی بن ابی طالب(ع) آںحضرت(ص) کے قریب تھے، آںحضرت(ص) نے فرمایا جو کوئی چاہے کہ وہ جمال یوسف(ع)، سخاوت ابراہیم(ع)، سلیمان(ع) کی حجت اور داؤد(ع) کی حکمت دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ( علی (ع)کو) دیکھے۔

۱۲ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا علی(ع) مجھ  سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں علی(ع) سے جنگ کرنا خدا کے ساتھ جنگ کرنا ہے اور جو علی(ع) کی مخالفت کرتا ہے خدا اس پر لعنت کرتا ہے علی(ع) میرے بعد خلق کا امام ہے جو کوئی علی(ع) کی عظمت گھٹانا ہے وہ میری عظمت گھٹاتا ہے جو کوئی اس سے جدا ہوگا وہ مجھ سے جدا ہے  جو کوئی اس کے غم میں شریک ہے میں اس کے غم میں شریک ہوں جو کوئی اس کی مدد کرے اس نے میری مدد کی اور جو اس سے جنگ کرے میں اس کے خلاف جنگ میں ہوں جو اس کا دوست ہے میں اس کا دوست ہوں اور جو اس کا دشمن ہے میں اس کا دشمن ہوں۔

۱۳ـ          یاسر کہتے ہیں کہ جب امام رضا(ع) کو مامون نے اپنا ولی عہد بنایا تو میں نے دیکھا کہ امام رضا(ع) نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور بارگاہ احدیت میں عرض کیا، ” خدایا تو جانتا ہے کہ میں بے بس اور مجبور ہوں اس لیے مجھ سے اس کا مواخذہ نہ کرنا جس طرح تو نے یوسف(ع) سے والی مصر ہونے پر مواخذہ نہیں کیا تھا۔“

۱۴ـ          ابراہیم بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) کی مانند کسی دوسرے کو نہیں دیکھا

۶۰۴

کہ ان سے جو بھی سوال کیا جاتا ہے تو جواب میں فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے، زمانے میں ان سے بڑا عالم اور کوئی نہ تھا مامون ان سے ہر تیسرے دن مختلف چیزوں کا سوال کر کے ان کا امتحان لیتا تھا اور وہ تمام جوابات قرآن سے دیا کرتے اور قرآنی آیات مثالیں پیش کیا کرتے تھے اور آپ(ع) قرآن کو تین دن میں ختم کرلیا کرتے تھے اور فرماتے کہ اگر چاہوں تو اس سے پہلے بھی ختم کرلوں مگر میں ہر قرآنی آیت پر غور و فکر کرتا ہوں کہ یہ کس لیے نازل ہوئی اور کس وقت نال ہوئی۔

۱۵ـ                  حسین بن ہیثم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ مامون منبر پر گیا تاکہ امام علی بن موسی رضا (ع( کی بیعت کرے اس نے لوگوں سے کہا اے لوگو تمہاری بیعت علی(ع)  بن موسی(ع)  بن جعفر(ع)  بن محمد(ع)  بن علی(ع)  بن حسین(ع)  بن علی(ع)  ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ ہے۔خدا کی قسم اگر ان ناموں کو  بیمار پر پڑھ کر دم کیا جائے تو وہ اذن خدا سے تندرستی پاجائے۔

دعبل خزاعی کا مرثیہ

۱۶ـ          دعبل خزاعی بیان کرتے ہیں کہ جب قم میں مجھے امام رضا(ع) کی وفات کی خبر پہنچی تو میں نے وہیں یہ مرثیہ کہا ” اگر بنی امیہ نے آل محمد(ص) کو قتل کیا تو ان کے پاس یہ عذر تھا کہ ان کے اسلاف ان( علی(ع)) کے ہاتھوں قتل ہوئے “ مگر بنی عباس کے پاس تو ان کے قتل کا کوئی عذر نظر نہیں آتا، طوس میں دو قبریں ہیں ایک بہترین خلق کی اور دوسری بدترین خلق کی، یہ انتہائی عبرت کا مقام ہے مگر ایک ناپاک کسی پاک کی قربت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی کسی پاک و طاہر کو ایک ناپاک کی قبر کی قربت سے کوئی ضرر پہنچ سکتاہے۔

روایت اباصلت اور وفات امام رضا(ع)

۱۷ـ          ابوصلت ہروی کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ(ع) نے فرمایا اے ابوصلت اس قبہ کے اندر جاؤ جس میں ہارون رشید کی قبر کے ہر چہار طرف کی تھوڑی سی مٹی لے آؤ لہذا اندر گیا اور چاروں طرف کی مٹی لایا آپ(ع) نے دروازے کے

۶۰۵

سامنے والی مٹی کے لیے یہ فرمایا مٹی مجھے دینا میں نے وہ مٹی دی تو آپ نے اسے سونگھا اور پھینک دیا اور کہا میری قبر یہاں کھودنے کی کوشش کی جائے گی مگر یہاں ایک ایسی چٹان ہے۔ کہ اگر خراسان کے سارے کدال چلانے والے مل کر کدال چلائیں تو بھی اس کو نہیں کھودسکتے پھر پاؤں کی طرف اور سر کی طرف کی مٹی کے لیے بھی آپ(ع) نے یہی فرمایا اس کے بعد فرمایا اب وہ چوتھی طرف کی مٹی دو وہی میری قبر کی مٹی ہے۔ پھر آپ(ع) نےفرمایا لوگ میری قبر یہاں کھودیں گے تو ان سے کہہ دینا کہ سات زینے نیچے تک کھودیں وہاں ایک ضریح تیار ملے گی اگر وہ لوگ لحد کھودنا چاہیں تو کہہ دینا کہ لحد کو دو ہاتھ ایک بالشت چوڑی بنائیں اور اﷲ اس کو جس قدر چاہیے گا وسیع کر دے گا اور جب وہ ( گورکن) ایسا کریں تو تمہیں میرے سر کی طرف کچھ نمی اور تری نظر آئے گی۔ وہاں وہ کچھ پڑھ کر دم کرنا جو میں تمہیں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں نظر آئیں گی میں تمہیں روٹی دوں گا۔تم اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر اس میں ڈال دینا وہ مچھلیاں اس کو کھائیں گی جب وہ سارے روٹی ٹکڑے کھا کر ختم کر لیں گی تو ایک بڑی مچھلی نمودار ہوگی جو ان تمام چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو نگل جائے گی اس کے بعد وہ غائب ہوجائے گی جب وہ بڑی مچھلی غائب ہوجائے تو پھر تم پانی پر ہاتھ رکھ کر وہ چیز دم کرنا جو میں تمہیں بتاؤں گا سارا پانی زمین کے اندر واپس چلائے جائے گا اور پھر کچھ نہ رہے گا اور یہ سارا کام تم مامون کی نظروں کے سامنے کرنا پھر فرمایا اے ابو صلت یہ مرد فاجر کل مجھ کو اپنے پاس بلائے گا اگر میں اس کے پاس سے اس طرح نکلوں کہ میرا سرکھلا ہوا تو مجھ سے مخاطب ہونا میں تمہیں جواب دوں گا اور اگر میں اس طرح نکلوں کہ سر ڈھکا ہو تو پھر مجھ سے بات نہ کرنا۔

ابوصلت کہتے ہیں کہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو آپ(ع) نے اپنا پہنا اور اپنی محراب عبادت میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے تھوڑی دیر میں مامون کا غلام آیا اور اس نے کہا امیرالمومنین آپ(ع) کو یاد کرتے ہیں یہ سن کر آپ(ع) نے اپنی جوتی پاؤں میں پہنی، اپنی ردا کندھوں پر ڈالی اور کھڑے ہوگئے۔ پھر روانہ ہوئے میں بھی آپ(ع) کے پیچھے پیچھے ہو لیا آپ(ع) مامون کے پاس پہنچے اس کے سامنے ایک طبق رکھا ہوا تھا جس میں انگور کا ایک گچھا موجود تھا اس میں سے وہ بعض دانوں کو توڑ کر کھاتا

۶۰۶

اور بعض دانوں کو چھوڑ دیتا تھا جب اس نے امام رضا(ع) کو آتے دیکھا تو اٹھ کر کھڑا ہوا آگے بڑھ کر گلے لگایا، پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھ بٹھالیا اورکہنے لگا فرزندِ رسول(ص) میں نے اس سے بہتر انگور آج تک نہیں دیکھا، آپ(ع) نے فرمایا ہاں بعض انگور ایسے اچھے ہوتے ہیں کہ ویسے شاید جنت ہی میں ہوں مامون نے کہا لیجیئے آپ(ع) بھی کھائیں آپ(ع) نے فرمایا نہیں مجھے معاف رکھیں مامون نے کہا نہیں یہ تو آپ(ع) کو کھانا ہی پڑیں گے آپ(ع) شاید اس لیے پرہیز کر رہے ہیں کہ آپ(ع) کو میری طرف سے بدگمانی ہے یہ کہہ کر اس نے وہ انگور کا گچھا لیا اور اس میں سے چند دانے خود کھائے باقی گچھے میں وہ دانے رہ گئے جن میں زہر دالا گیا تھا اس نے وہ گچھا امام رضا(ع) کی طرف بڑھایا آپ(ع) نے اس میں سے صرف تین دانے کھائے بقیہ پھینک دیئے اور اٹھ کھڑے ہوئے مامون نے پوچھا آپ(ع) کہاں جارہے ہیں کہ جب میں نے یہ صورت دیکھی تو پھر کوئی بات نہ کی آپ(ع) سیدھے گھر میں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ دروازہ بند کر دو پھر آپ(ع) اپنے بستر پر لیٹ گئے اور میں صحن میں مہموم و مغموم بیٹھ گیا ابھی مجھے بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک حسین و جمیل نوجوان جس کی پر پیچ و خم زلفین تھیں اور وہ شکل و صورت میں امام رضا(ع) کے بالکل مشابہ تھا مکان میں داخل ہوا میں فورا اسکی طرف بڑھا اور کہا تم بند دروازے سے کس طرح اندر آگئے ہو۔ اس نے مجھے جواب دیا جو مجھے مدینہ سے اس وقت یہاں لایا اسی نے مجھے گھر کے اندر کردیا دروازہ بند ہے تو ہوا کرے میں نے پوچھا تم کون ہو کہا ابوصلت میں تم پر حجت خدا ہوں میرا نام محمد بن علی(ع) ہے یہ کہہ کر آپ(ع) اپنے والد(ع) کی طرف بڑھے، اندر داخل ہوئے اور مجھے بھی داخلے کی اجازت دی جب امام رضا(ع) نے ان کو دیکھا تو فورا انہیں سینے سے لگایا پیشانی پر بوسہ دیا اور انہیں اپنے بستر پر لٹا لیا پھر محمد بن علی(ع) ان پر جھک گئے اور ان کے بوسے لیے اور راز دار نہ انداز سے آپس میں کچھ  باتیں کرنے لگے جن کو میں نہیں سمجھ سکا پھر میں نے دیکھا کہ امام رضا(ع) کے لب مبارک پربرف کی مانند کوئی سفید سی شئی تھی جسے اور کوئی چیز جو عصفور( چڑیا) سے مشابہ تھی نکالی اور ابو جعفر(ع) نے اسے بھی اپنے دہن مبارک میں رکھ لیا اس کے بعد امام رضا(ع) نے رحلت فرمائی تو ابو جعفر(ع) نے فرمایا اے ابوصلت اٹھو اور توشہ خانہ سے غسل

۶۰۷

کا برتن اور پانی لے آؤ۔ میں نے عرض کیا کہ توشہ خانہ میں غسل کا برتن اور پانی تو نہیں ہے آپ(ع) نے فرمایا تم جاؤ تو سہی آپ(ع) کے فرمانے پر میں گیا تو دیکھا کہ توشہ خانہ میں غسل کا برتن اور پانی رکھا ہوا ہے میں اسے نکال لایا اس کے بعد آپ(ع) نے اپنا لباس سیمٹاتا کہ غسل دینے میں میں آپ(ع) کا ہاتھ بٹاؤں تو آپ(ع) نے فرمایا اے ابوصلت تم ہٹ جاؤ غسل میں میری مدد کرنے والا موجود ہے میں ہٹ گیا اور آپ(ع) نے غسل دیا اس کے بعد فرمایا اے ابوصلت توشہ خانہ میں جاؤ وہاں ایک ٹوکری ہے جس میں کفن اور حنوط رکھا ہوا ہے وہ اٹھا لاؤ میں اندر گیا تو دیکھا کہ ایک ٹوکری رکھی ہوئی تھی جسے میں نے اس توشہ خانہ میں پہلے نہ دیکھا تھا میں وہ اٹھا لایا آپ(ع) نے خود اپنے ہاتھوں امام رضا(ع) کو کفن پہنایا اور نماز جنازہ پڑھی پھر مجھ سے فرمایا تابوت لاؤ میں نے عرض کیا بہتر میں ابھی کسی نجار (بڑھئی) کے پاس جاکر بنوا لاتا ہوںآپ(ع) نے فرمایا اس توشہ خانہ میں تابوت بھی رکھا ہے میں گیا تو دیکھا کہ اس میں ایک تابوت بھی رکھا ہواہے، جس کو میں نے وہاں نہیں دیکھا تھا بہر حال میں اسے بھی اٹھالایا آپ(ع) نے نماز جنارہ پڑھنے کے لیے میت کو تابوت میں رکھ دیا اور میت کے پاؤں وغیرہ برابر کردیئے پھر دو رکعت نماز پڑھی ابھی نماز سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے۔ کہ وہ تابوت خودبخود بلند ہوا چھت شگافتہ ہوئی اور تابوت روانہ ہوگیا۔ میں نے عرض کیا فرزند رسول(ص) نے ابھی مامون آئے گا اور مجھ سے امام رضا(ع) کی میت کا مطالبہ کرے گا تو میں کیا جواب دوں گا آپ(ع) نے فرمایا خاموش رہو تابوت واپس آئے گا، اے بوصلت اگر کوئی نبی مشرق میں وفات پائے اور اس کا وصی مغرب میں تو اﷲ ان کے اجساد ارواح کو لازما جمع کردیتاہے( یہ مدینہ میں روضہء رسول (ص) پر حاضری کے لیے گئے ہیں) ابھی یہ گفتگو ختم نہیں ہوئی تھی کہ چھت دوبارہ شق ہوئی اور تابوت اتر کرآگیا پھر آپ(ع) اٹھے اور امام رضا(ع) کی میت کو تابوت سے نکالا اور ان کے بستر پر اس طرح لٹا دیا جیسے غسل و کفن کچھ نہیں دیا گیا پھر اس کے بعد آپ(ع) نے فرمایا اچھا اے ابو صلت اب دروازہ کھول دو میں نے دروازہ کھولا تو مامون اپنے غلاموں کے ساتھ گریبان چاک ، روتا ، سر پیٹتا اندر داخل ہوا اور یہ کہہ رہا تھا کہ فرزند رسول خدا(ص) تمہارے مرنے کا مجھے بے حد افسوس ہے پھر آکر میت کے سرہانے بیٹھ گیا اور حکم دیا کہ تجہیز و تکفین کا سامان کیا جائے اور قبر کھودی جائے پھر اس کی بتائی ہوئی جگہ پر قبر کھودی گئی اور تو امام رضا(ع) کے بتائے ہوئے قول کے مطابق قبر نہ کھد سکی مجبور اس نے کہا کہ

۶۰۸

جانب کھو دو ابوصلت کہتے ہیں میں نے اس سے کہا کہ امام رضا(ع) نے مجھے سے فرمایا کہ سات زینہ نیچے تک کھودو تو ایک ضریح بر آمد ہوگی مامون نے کھودنے والوں سے کہا ابوصلت جس طرح کہتا ہے اس طرح کھودو مگر ضریح تک نہیں ملکہ اس میں بغلی لحد بنا دو جب لحد کھودی گئی تو مامون نے اس میں نمی اور پانی کا چشمہ پھر مچھلیاں وغیرہ دیکھیں تو کہنے لگا امام رضا(ع) اپنی زندگی میں تو عجائبات دکھاتے رہے تھے مرنے کے بعد بھی وہی دکھا رہے ہیں یہ دیکھ کر اس کے ایک وزیر نے اس سے کہا معلوم ہے ان مچھلیوں وغیرہ سے امام رضا(ع) آپ کو کیا بتانا چاہتے ہیں مامون نے کہا نہیں اس نے کہا وہ آپ کو یہ بتارہے ہیں کہ اے بنو عباس، تمہاری سطلنت باوجود تمہاری کثرت اور طول مدت کے ان مچھلیوں کی مانند ہے۔ جب اس کا وقت پورا ہوجائے گا اور تمہاری سلطنت ختم ہونے والی ہوگی تو اﷲ ہم اہل بیت(ع) میں سے ایک فرد کو تم لوگوں پر مسلط کردے گا اور وہ تم لوگوں میں سے ایک بھی باقی نہیں چھوڑے گا( جس طرح بڑی مچھلی نے ساری مچھلیوں کو ختم کر دیا ہے) مامون نے کہا سچ کہتے ہو واقعی اس کا مطلب یہی ہے اس کے بعد مامون نے مجھے یہ کہا اے ابوصلت مجھے وہ تمام باتیں بتاؤ جو تم سے امام رضا(ع) نے کہی ہیں میں نے کہا خدا کی قسم میں وہ تمام باتیں بھول گیا ہوں اور واقعی میں نےسچ کہا تھا مامون نے حکم دیا کہ اس کو لے جاؤ اور قید میں ڈال دو اس کے بعد اس نے امام رضا(ع) کو دفن کیا، میں ایک سال تک قید میں پڑا رہا جب قید سے تنگ آگیا تو ایک رات جاگ کر حضرت محمد(ص) اور آل(ع) محمد(ص)کا واسطہ دے کر اپنی رہائی کے لیے اﷲ سے دعا مانگی ابھی میری دعاختم بھی نہ ہوئی تھی تو دیکھا کہ حضرت ابو جعفر محمد بن علی(ع) قید خانہ میں تشریف لائے اور فرمایا اے ابو صلت تم اس قید سے تنگ آچکے ہو میں نے عرض کیا جی ہاں خدا کی قسم، آپ(ع) نے فرمایا اچھا تو پھر اٹھو پھر آپ(ع) نے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ سب جدا ہوگئیں پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے قید سے نکال لے گئے میں گھر کے مرکزی دروازے سے نکلا سارے پہرے دار اور غلام دیکھتے رہ گئے اور مجھ سے کچھ نہ کہہ سکے اور اس کے بعد آپ(ع) نے مجھ سے کہا جاؤ میں نے تمہٰیں خدا کے سپرد کیا اب وہ ابد تک تمہیں گرفتار نہیں کرسکتا چنانچہ میں آج تک اس کی گرفت سے باہر ہوں۔

۶۰۹

مجلس نمبر۹۵

( بروز بدھ، جبکہ ماہ شعبان ختم ہونے میں ۱۲ دن باقی تھے سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           محمد بن عذافر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام باقر(ع) سے دریافت کیا گیا کہ خدا نے مردار کے خون اور گوشت کو کیوں حرام قرار دیا ۔

امام(ع) نے فرمایا اﷲ نے اپنے بندوں کے لیے بعض چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور بعض کو حرام تو یہ اس لیے نہیں کہ اس نے جس چیز کو حلال قرار دیاوہ اسے پسند تھی اور جسے حرام قرار دیا وہ اسے ناپسند تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور وہ بہتر جانتا ہے کہ مخلوق کے بدن کا قیام کس چیز سے رہیے گا اس کے لیے کونسی چیز بہتر و مناسب ہے لہذا مخلوق کے لیے بہتر کو اس نے حلال قرار دیا اور جو مناسب نہیں اسے حرام قرار دیا مگر اضطرار اور شدید ضرورت میں اس نے حکم دیا کہ یہ چیزوں صرف اتنی مقدار میں استعمال کرلے جس سے کہ اس( آدمی) کا بدن ( زندگی ) باقی رہے اس کے علاوہ اسے حرام قرار دیا۔

پھر امام(ع) نے فرمایا جو کوئی بھی مردار کھائے گا اس کے بدن میں ضعف و سستی عود کر آئے گی اور اس کی نسل منقطع ہوجائے گی، مردار کھانے والے کی موت ناگہانی ہوگی  اس کا خون انسان کے بدن میں آپ صفرا پیدا کرے گا اور امراض قلب اور قساوت قلب پیدا کرے گا اس انسان میں رحم و مہربانی اتنی کم ہوگی کہ اس کے مخلص دوست اور اس کی صحبت میں رہنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

اور سور کے گوشت کا یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے ایک قوم پر عذاب نازل کیا تو اس کے افراد کو مختلف شکلوں میں مسخ کردیا اور انہیں سور، بندر اور ریچھ کی شکل میں تبدیل کردیا پھر حکم دیا کہ ان جانوروں کے گوشت کو کبھی مت کھانا تاکہ کہ ان کے عذاب کو کوئی خفیف نہ جانے۔ اور شراب کے بارے میں یہ ہے کہ اس کے عمل اور اس کے فساد کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا پھر امام(ع) نے فرمایا کہ شراب کا عادی ایسا ہی ہے جیسا کہ بت پرست ، شراب جسم میں رعشہ پیدا کرتی ہے شرابی میں

۶۱۰

 مروت ختم ہو جاتی ہے اور وہ حرام کی جسارت کرنے  لگتا ہے جیسے کہ قتل اور زنا یہاں تک کہ نشے کی حالت میں وہ اپنی محرم عورتوں پر بھی حملہ کر گزرتا ہے اور اسے اس کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ شراب اپنے پینے والے میں بدی کے علاوہ کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کرسکتی۔

حضرت موسیٰ(ع) اور شیطان

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا ایک مرتبہ حضرت موسی(ع) خدا سے مناجات میں مشغول تھے کہ شیطان ان کے پاس آیا تو ایک فرشتے نے شیطان سے کہا ایسی حالت میں تو ان سے کیا امید رکھتا ہے شیطان نے کہامیں وہی امید رکھتا ہوں جو اس کے باپ آدم(ع) سے رکھتا تھا جس وقت وہ بہشت میں تھے۔

امام نے فرمایا کہ موسی(ع) کی مناجات کے جواب میں جو موعظ خدا نے ان سے بیان فرمائے وہ یہ ہیں کہ اے موسی(ع) میں اس کی نماز قبول کرتا ہوں جو فروتنی اور تواضع اختیار کرتا ہے اور میری عظمت کے لیے اپنے دل پر میرا خوف طاری کر لیتا ہے اپنا دن میری یاد میں بسر کرتا ہے اپنی رات اپنے گناہوں کے افراد میں گذرتا ہے اور میرے اولیاء اور دوستوں کے حق کو پہچانتا ہے موسی(ع) نے عرض کیا خدایا ، اولیاء اور محبوں سے تیری کیا مراد ہے کیا یہ ابراہیم(ع) اسحاق(ع)، اور یعقوب(ع) ہیں ارشاد ربانی ہوا اے موسی(ع) وہ لوگ ایسے ہی ہیں اور میرے دوست ہیں مگر میری مراد وہ ہیں جن کے لیے مین نے آدم(ع) حوا(ع) کو پیدا کیا اور بہشت و دوزخ کو خلق کیا موسی(ع) نے دریافت کیا بار الہا وہ کون ہیں ارشاد ہوا وہ محمد(ص) کہ جس کا نام احمد(ص) ہے اس کے نام کو میں نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے اس  لیے کہ میرا نام محمود ہے ، موسی(ع) نے کہا خدایا تو مجھے ان(ع) کی امت میں قرار دے ارشاد ہوا اے موسی(ع) جب تم انہیں پہچان لوگے اور میرے  نزدیک ان کے اہل بیت(ع) کی منزلت سمجھ لوگے تو تم ان(ع) کی امت میں شامل ہوجاؤ گے یقینا میری تمام امت  میں ان کی مثال ایسی ہے جیسے تمام باغوں میں فردوس کی کہ جس کی پتیاں کبھی خشک نہیں ہوتیں اور جس کا مزہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا جو شخص ان کے اور ان کے اہل بیت(ع) کے حق کو پہچان لے تو میں انہیں اس کی نادانی اور اسکی تاریکی میں روشنی

۶۱۱

بنادوں گا اور اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے دعا کرے میں اسکی دعا قبول کروں گا اور عطا کروں گا اے موسی(ع) جب تمہاری طرف کوئی پریشانی آئے تو اسے مرحبا کہو اور کہہ کہ کیہ کہ یہ میری نیکیوں کی جزا میں عطا کی گئی اور جب توانگری تمہارا رخ کرے تو کہو کہ اس کا سبب کوئی گناہ ہے جس کا عذاب مجھے دیا گیا ہے اس لیے کہ دنیا عذاب کام مقام ہے آدم(ع) نے جب خطا کی تو میں نے سزا کے طور پر انہیں اس دنیا میں بھیجا اور یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر میں لعنت کی سوائے اس چیز کے جو مریے لیے ہو اور جس سے میری خوشنودی حاصل ہو، اے موسی(ع) یقینا میرے نیک بندوں نے اپنے اس علم کی وجہ سے جو میرے متعلق رکھتے ہیں ترک دنیا اور زہد اختیار کیا ہے اور میری بہت سی مخلوق نے اپنی نادانی اور مجھے نہ پہچاننے کی وجہ سے دنیا کی رغبت اختیار کی ہے اور جس نے بھی دنیا کی تعظیم کی اور اسے بزرگ جانا تو دنیا نے اس کی آنکھیں روشن نہیں کیں اور نہ ہی اسے فائدہ دیا اور جس نے دنیا کو حقیر جانا وہ فائدے میں رہا۔

پھر امام صادق(ع) نے فرمایا اگر تم طاقت رکھتے ہوتو دنیا سے ناشناس رہو اگر ایسا ہوتو تم کچھ نقصان میں نہیں ہو بیشک لوگ تیری مذمت کریں مگر تجھے خدا کا قرب حاصل ہوگا جناب امیر(ع) نے فرمایا کہ دنیا دو آدمیوں میں سے ایک کے لیے خبر نہیں رکھتی اور وہ وہ ہے کہ جو روزانہ اپنے احسان میں اضافہ کرتا ہے اور توبہ کے ذریعے اپنے گناہوں کو تحلیل کرتا ہے خدا کی قسم اگر انسان اس وقت تک سجدہ میں رہے جب تک اس کی گردن قطع نہ کردی جائے تو خدا اسے ہرگز معاف نہ کرے گا جب تک کہ وہ ہمارے خاندان کی ولایت کا معترف نہ ہوگا۔

۳ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے عشق کے متعلق سوال کیا تو فرمایا عشق یہ ہے کہ دل یاد خدا کے علاوہ ہر چیز سے خالی ہوجائے اور خدا اس کی دوستی و محبت کا مزہ دوسروں کو چکھادے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جس کسی کا گذرا ہوا دن اور آنے والا دن برابر ہیں وہ شخص مغبون ( وہ آدمی جس کاغبن ہوا ہو، نقصان میں) ہے، جو ترقی نہیں کرتا وہ نقصان میں ہے اس کی موت اس کی زندگی سے بہتر ہے۔

۶۱۲

لقمان کی نصیحت

۵ـ          امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں لقمان نے اپنے فرزند کو نصیحت کی کہ اے فرزند تجھے چاہیے کہ اپنے دشمن کے لیے کوئی حربہ تیار رکھ جو اسے زمین پر گرادے اور وہ حربہ یہ ہے کہ تو اس سے مصافحہ کرے اور اس سے نیک برتاؤ کرتا رہے تو اس سے علیحدگی اختیار مت کر اور اپنی دشمنی کا اظہار مت کرتا کہ جو کچھ وہ اپنے دل میں تیرے خلاف رکھتا ہے وہ تجھ پر ظاہر کردے اور اے میرے فرزند خدا سے اس طرح ڈر جس طرح ڈرنے کا حق ہے اگر جن وانس کی نیکیوں کے برابر نیکیاں رکھتا ہو تو تب بھی حساب سے خوفزدہ رہ اور خدا سے امیدوار رہ کہ اگر تیرے گناہ جن و انس کے گناہوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں وہ تجھے معاف فرمائے گا۔ اے میرے فرزند میں نے  لوہا پتھر اور ہر وزنی چیز کو اٹھایا اور اسے برداشت کیا ہے مگر میں نے کوئی بوجھ بد ہمسائے سے زیادہ گراں نہیں پایا میں نے تلخ ترین چیزوں کا مزہ چکھا ہےمگر کسی شے کو پریشانی اور دنیا والوں کے سامنے محتاجی سے زیادہ تلخ نہیں پایا۔

۶ـ           لقمان(ع) اپنے فرزند سے کہا اے فرزند تو اپنے لیے ہزار لوگوں کو دوست بنا کیوں کہ ہزار دوست بھی کم ہیں مگر تو اپنے لیے کسی ایک کو بھی دشمن نہ بنا کیوں کہ ایک دشمن بھی بہت ہے اور اسی سلسلے میں جناب امیرالمومنین(ع) نے فرمایا اگر تجھ میں طاقت ہے تو بہت زیادہ دوست بنا کیوں کہ وہ تیری پشت پناہی کریں گے اور تیرے لیے ستون و مددگار ثابت ہوں گے تیرے جتنے بھی دوست ہوں کم ہیں چاہیے ہزار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ دشمن ایک بھی بہت ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا دوستی کی کچھ حدود معین ہیں سب سے پہلے یہ ہے کہ اس (دوست) کا ظاہر و باطن تمہارے لیے ایک ہو، دوئم یہ کہ وہ جس چیز کو اپنے لیے باعث ننگ و عار جانے اسے تمہارے لیے بھی ایسا ہی سمجھے اور دولت و منصب اسے پھیر نہ سکے اس کے پایہ ثبات میں لغزش نہ آسکے چہارم یہ کہ جو کچھ اس کے اختیار اور قدرت میں ہو اس سے  تمہیں فائدہ پہنچانے میں پہلو تہی نہ کرے اور پنجم یہ کہ وہ پریشانی و مصیبت میں تمہیں تنہا نہ چھوڑے۔ پھر امام(ع)

۶۱۳

نے فرمایا جو کوئی تم پر تین مرتبہ غصہ کرے مگر برانہ کہے اسے اپنا دوست بنالو اور تم اپنے دوست سے پوشیدگی نہ رکھو جو مصیبت تم پر آئے اس سے بیان کرو پھر آپ(ع) نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص سے فرمایا کہ وہ راز جو تیرے دوست اور تیرے درمیان ہے سے دوسروں کو آگاہ نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر یہ دشمن کو پتا چل جائے تو کبھی وہ بھی گزند نہیں پہنچاتا مگر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوست دشمن بن جاتا ہےمیرے جد(ع) نے امیرالمومنین(ع) سے روایت ہے کہ کوئی مہذب مرد ایسا ہے کہ جو تیرا ایک دن کے لیے بھی دوست ہو( یعنی اگر مہذب انسان کی ایک دن کی دوستی بھی میسر آجائے تو بہتر ہے)۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی ماہ شعبان کے آخری تین دن کا روزہ رکھے اور اسے ماہ رمضان سے ملا دے تو خدا اس کےلیے لگا تار دو ماہ کے روزوں کا اجر لکھے لگا۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ماہ رمضان اور ماہ رمضان کا روزہ خدا سے بندے کے گناہ معاف کرواتا ہے چاہیے وہ خونِ حرام کا مرتکب ہی کیون نہ ہو۔

۱۰ـ          جناب رسول  خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) قیامت کے روز تجھے نور کی سواری ”شکہ“ پر سوار کرایا جائے گا اور تیرے سر پر ایک ایسا تاج ہوگا جس کے چار(۴) رکن ہوں گے ، ہر رکن پر تین(۳) سطروں میں لکھا ہوگا” لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ“ میں بہشت کی کنجیاں تیرے حوالے کروں گا اور تجھے ایک تخت کرامت پر بٹھایا جائے گا اور تم اعلان کروگے کہ تمہارے شیعہ بہشت میں داخل ہوجائیں پھر تم اپنے دشمنوں کے دوزخ میں جانے کا اعلان کرو گے اے علی(ع) تم قسیم نار و قسیم جنت ہو جو تجھے دوست رکھتا ہے وہ کامیاب ہے اور نقصان میں ہے وہ جو تجھے دشمن رکھے تم ہی اس دن امین خدا اور اس کی واضح حجت ہوگے۔

۶۱۴

 مجلس نمبر۹۶

(یہ مجلس جناب صدوق(رح) اسی روز یعنی بدھ سنہ۳۶۸ھ جب ماہ شعبان ختم ہونے میں بارہ دن باقی تھے پڑھی)

خدا کب سے ہے

۱ـ                   امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں کہ ایک دانشمند یہودی امیرالمومنین(ع) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین(ع) آپ(ع) کا پروردگار کب سے ہے۔ جناب امیر(ع) نے فرمایا تیری ماں تیرے غم میں گریہ کرے وہ کب نہ تھا کہ میں تجھے  بتاؤں وہ کب سے ہے۔ میرا پروردگار پہلے سے بھی پہلے کہ اس سے پہلے کوئی نہیں ہے ابد تک اور وہ بعد بھی نہیں رکھتا، اس مقام کی کوئی ابتداء اور کوئی انتہا نہیں ہے وہ وہ ہے کہ نہایت کا دخول اس میں نہیں وہ ہر نہایت کی نہایت ہے۔

آدم(ع) اور عقل

۲ـ                   جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا جبرائیل(ع) آدم(ع) پر نازل ہوئے اور فرمایا اے آدم(ع) مجھے حکم ہوا ہے کہ تین چیزیں لے کر تمہارے پاس جاؤں تاکہ تم ان میں سے ایک کو اختیار کرلو اور باقی دو کو چھوڑ دو یہ تین چیزیں عقل ، شرم اور دیانت ہیں آدم(ع) نے کہا میں نے عقل کو اختیار کیا۔ جبرائیل(ع) نے شرم اور دیانت سے کہا کہ وہ واپس چلی جائیں پھر آدم(ع) سے سوال کیا کہ آپ(ع) نے عقل کو کیوں اختیار کیا آدم(ع) نے جواب دیا ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم (انبیاء(ع)) عقل اختیار کریں جبرائیل(ع) نے کہا آپ(ع) مختار ہیں جو چاہیں اختیار کریں پھر جبرائیل(ع) واپس تشریف لے گئے۔

۳ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا بے شک بندہ ستر)۷۰) خریف جہنم میں رکھا جائے گا اور ایک خریف ستر سال کی مسافت کے برابر ہے پھر وہ خدا سےمحمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) کا واسطہ دے کر فریاد کرے گا کہ اس پر رحم کیا جائے پس خدا جبرائیل(ع) کو وحی کرے گا کہ میرے بندے کے پاس جاؤ اور اسے

۶۱۵

 آگ سے باہر نکالو جبرائیل(ع) کہیں گے اے پروردگار میں آتش جہنم میں کیسے جاؤں تو ارشاد ہوگا میں نے آگ کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہارے لیے سرد ہوجائے اور سلامتی کا باعث رہے پھر جبرائیل(ع) کہیں گے اے پروردگار مجھے اس جگہ کیسے ہوگا جہاں وہ ہے تو ارشاد وہ سجین کے ایک گڑھےمیں ہے۔

امام فرماتے ہیں کہ جبرائیل(ع) اس حال میں جہنم میں آئیں گے کہ اپنے پر سمیٹے ہوں گے اور اس بندے کو جہنم سے باہر نکالیں گے۔ تو اﷲ اس سے فرمائے گا اے میرے بندے تو کتنے دن جہنم میں جلتا رہا وہ کہے گا اے میرے معبود میں شمار نہیں کرسکتا تو اﷲ فرمائے گا میری عزت کی قسم اگر تونے  ان ہستیوں کا واسطہ دے کر سوال نہ کیا ہوتا تو میں دوزخ میں تیرے قیام کو طول دے دیتا لیکن میں نے اسے اپنے لیے لازم قرار دیا ہے کہ جو کوئی مجھ محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) کے واسطے سے فریاد کرے گا میں اس کے اور اپنے درمیان تمام گناہ بخش دوں گا بے شک میں نے تجھے آج معاف فرما دیا۔

۵ـ جابر ابن عبداﷲ انصاری(ع) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا جو بندہ علی(ع) پر دوسرے اصحاب کو فضیلت و فوقیت دے وہ یقینا کافر ہے۔

۶ـ                   جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی علی (ع) سے دشمنی رکھے وہ خدا سے جنگ میں ہے اور جو علی(ع) کے بارے میں شک کرے وہ کافر ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) اپنے آباء (ع) سے قولِ خدا” اور تم سے پوچھتے ہیں کیا وہ حق ہے تم فرماؤ ہاں میرے رب کی قسم بیشک وہ ضرور حق ہے اور تم کچھ تھکانہ سکو گے“ (یونس ، ۵۳) کی تفسیر روایت کرتے ہیں کہ ارشاد ہوا اے محمد(ص) اہل مک تم سے خبر لیتے ہیں کہ کیا علی(ع) امام ہے  تو تم کہو ہاں خدا کی قسم وہ حق کےساتھ امام(ع) ہے۔

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں ارشاد فرمایا اس مرد کا ہاتھ تھام لو کہ یہ صدیق اکبر و فاروق اعظم ہے یہ حق و باطل کو جدا کرنے والا ہے جوکوئی اسے دوست رکھتا ہے اس کی راہنمائی خدا فرماتا ہے جو کوئی اسے دشمن رکھتا ہے خدا اسے دشمن رکھتا ہے جو کوئی اس کی

۶۱۶

 مخالفت کرے گا خدا اسے نابود کردے  گا اس میں سے میرے دو فرزند حسن(ع) و حسین(ع) ہیں وہ امام برحق اور رہبر ہیں خدانے انہیں میرا علم وفہم عطا کیا ہے انہیں دوست رکھو کہ ان کےسوا پناہ نہ دی جائے گی یہاں تک کہ میرا غصہ اسے ( دوست نہ رکھنے والے کو) گھیرے اور جس کسی کو میرا غصہ گھیرے وہ زوال میں ہوگا اور دنیا فریب اور دھوکے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

                     و صلی اﷲ علی محمد(ص) وآلہ الطاہرین(ع)۔

۶۱۷

مجلس نمبر۹۷

( بروز جمعرات جبکہ ماہ شعبان سنہ۳۶۸ھ ختم ہونے میں ۱۱ روز باقی تھے۔)

امامت کی وضاحت

۱ـ           عبدالعزیز بن مسلم کہتے ہیں کہ ہم امام رضا(ع) کے ساتھ مقام مرو میں تھے اور ہر جمعہ جامع مسجد گئے تو وہاں لوگ امر امامت پر اپنی اپنی رائے مطابق گفتگو کر رہے تھے اور اپنی آراء کا اظہار کرتے تھے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ جب میں امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے نظریات کو بیان کیا تو امام (ع) نے مسکرا کر فرمایا اے عبدالعزیز یہ لوگ ناواقف ہیں ان کی رائے نے ان کو دھوکا دیا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے جب تک دین اسلام کو کامل نہ کر لیا اپنے نبی(ص) کو  اس وقت تک دنیا سے نہیں بلایا۔ ان پر قرآن نازل کیا جس میں ہر چیز حلال و حرام ، حدود و احکام اور انسانی ضروریات کا مفصل ذکر کیا خدا فرماتا ہے ” ہم نے اس کتاب میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رکھی“ ( انعام ، ۳۹) اور حجت الوداع میں جو حضور(ص ) کی عمر کا آخری حصہ تھا یہ آیت نازل کی” ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دينا “ (مائدہ، ۳) آج مین نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا اور تمہارے لیےمیں نے دین کو اسلام کے نام سے پسند کیا۔“

امر امامت کا تعلق تمام دین سے ہے اور نبی(ص) نے عقبی کو اس وقت تک اختیار نہ کیا جب تک انہوں نے معالم دین بیان نہ کردیئے اور نبی(ص) ان ( امت) کا راستہ واضح کر کے انہیں راہ حق پر ڈال کر گئے اور ان کے لیے علی(ع) کو علم اور امام مقرر کر کے گئے آپ نے ہر اس چیز کو جس  کی امت کو حاجت تھی بیان کردی لہذا جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اﷲ تعالی نے  اپنے دین کو مکمل نہیں کیا وہ در اصل کتاب ِ خدا کو رد کرتا ہے اور جو کتاب خدا کو رد کرے وہ کافر ہے ۔ اے عبدالعزیز جانتے ہو کہ قدر امامت کیا ہے اور کیا امت کے لیے امامت میں تصرف کرنا جائز بھی ہے یا نہیں امامت کی

۶۱۸

 قدر ومنزلت اس کی شان اور اس کامقام، اس کے اطراف وجوانب اور اس کی گہرائی اس بات سے کہیں جلیل ، عظیم ، اعلی محفوظ اور بعید ہے کہ لوگ اپنی عقلوں سے اس تک پہنچیں یا اپنی آراء سے اس کو حاصل کریں یا امام کو اپنے اختیار سے قائم کریں، امامت ایک ایسا جوہر ہے جو اﷲ نے ابراہیم(ع) کو نبوت وخلافت کے بعد عطا کیا پس امامت نبوت و خلافت کے بعد کا تیسرا درجہ ہے، امامت وہ فضیلت ہے کہ اس سے ان(ا براہیم(ع)) کو شرف عنایت فرمایا اور اسی سے ان کے ذکر کو محکم فرمایا خدا فرماتا ہے ”إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً “ (بقرہ، ۱۲۴) ” بے شک میں تمہیں لوگوں کو امام بنانے والا ہوں“  یہ سن  ابراہیم(ع) نہایت خوش ہوئے اور عرض کیا”وَ مِنْ ذُرِّيَّتي “ ( بقرہ، ۱۲۴) ترجمہ: میری ذریت میں بھی ہوگا۔ ارشاد ہوا ” لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمينَ “( بقرہ، ۱۲۴) ترجمہ : ہان مگر ظالمین کویہ عہد نہ ملے گا۔ “ اس آیت سے ہر ظالم کی امامت کو قیامت تک کے لیے باطل کردیا اور صرف معصوم(ع) کو باقی رکھا پھر خدانے ابراہیم(ع) کی تعظیم و تکریم کے لیے ان کی ذریت میں معصوم و مطہر کو خلق فرمایا اور فرمایا ”وَ وَهَبْنالَه ُإِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةًوَكُلاًّجَعَلْناصالِحينَ وَ جَعَلْناهُمْ أَئِمَّةًيَهْدُونَ بِأَمْرِناوَأَوْحَيْناإِلَيْهِمْ فِعْلَالْخَيْراتِ وَإِقامَ الصَّلاةِوَإيتاءَالزَّكاةِوَكانُوالَناعابِدينَ “ انبیاء، ۷۲ـ۷۳)ترجمہ : ہم نے ابراہیم(ع) کو اسحاق(ع) یعقوب(ع) عطا کیے اور ان کو صالح بنایا اور ہم نے ان کو امام بنایا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کریں اور ہم نے ان کو وحی کی کہ سب اچھے کاموں کو بجالائیں اور مخلوقات میں نماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں اور وہ سب اﷲ کی ہی عبادت کرنے والے تھے۔“ پس یہ عہدہ امامت ابراہیم(ع) کی ذریت میں بطور وراثت جاری ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اس کا وارث ہوتا رہا یہاں تک کہ خدا نے اپنے حبیب محمد(ص) کو وارث بنایا اور فرمایا ”إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعُوهُ وَهذَاالنَّبِيُّ وَالَّذينَ آمَنُواوَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنينَ “ (آل عمران، ۶۸) ترجمہ : ” بے شک وراثت ابراہیم(ع) کے سب سے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جہنوں نے ان کی پیروی کی ہے اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اﷲ مومنین کا ولی ہے“ پس  یہ عہدہ امامت خاص نبی(ص) کے لیے تھا اور جو انہوں نے طریقہ خدا کے مطابق اپنے بھائی علی بن ابی طالب(ع)

۶۱۹

کے حوالے کیا پس علی بن ابی طالب(ع) کی ذریت میں اصفیاء و اتقیاء پیدا ہوئے جہنیں خدا نے علم و ھبی اور ایمان لدنی عنایت فرمایا جس کا بیان اس آیت میں مذکور ہے ”وَ قالَ الَّذينَ أُوتُواالْعِلْم َوَالْإِيمانَ لَقَدْلَبِثْتُمْ في‏كِتابِ اللَّهِ إِلى‏يَوْمِ الْبَعْثِ فَهذايَوْمُ الْبَعْثِ “ ( روم، ۵۶)  ” جن لوگوں کو علم اور ایمان خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے وہ کہیں گے کہ تم لوگ کتاب خدا کے مطابق قیامت کے دن تک  ٹھہرے رہے تو یہ قیامت کا دن ہے“ پس وہ امامت اب اولاد علی(ع) میں قیامت تک کے لیے مخصوص ہے کیونکہ نبی(ص) کے بعد کوئی نبی نہیں ہے یہ جاہل لوگ کہاں سے امامت کو اختیار کرتے ہیں کیونکہ امامت مقام انبیاء(ع) اور میراث انبیاء(ع) ہے اور امامت خلافت الہی اور خلافت سول (ص) ہے اور مقام امیرالمومنین(ع) اور میراث حسن(ع) و حسین(ع) ہے۔ امامت مسلک دین ہے امامت نظام مسلمین ہے، امام صلاح دنیا، مومنین کی عزت ، اسلام کا اصول اور اس کی بلند ترین شاخ ہے اور امام کی وجہ سے نماز، زکوة، حج اور جہاد غنیمت و صدقات کامل ہوتے ہیں اور امام ہی حدود الہی اور احکام خدا کو جاری کرتے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں امام حلال خڈا کو حلال اور حرام خدا کو حرام کرتے ہیں اور حدود الہیہ کا قائم کرتے ہیں، دین خدا کی حفاظت کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی حکمت موعظہ حسنہ اور حجت بالغہ سے دعوت دیتے ہیں ، امام سورج کی طرح ہے جو اپنی روشنی سے دنیاء عالم کو روشن کرتا ہے خود عالی قدر بلند مقام پر ہوتا ہے کہ نہ تو وہاں تک کوئی ہاتھ پہنچ سکتا ہے اور نہ نظر کرسکتی ہے اور امام بدر منیر، روشن چراغ، نور ساطع ، تاریک راتوں، شہروں کے چوراھوں ،میدانوں اور بہتے ہوئے سمندروں میں راہنمائی کرنے والا ستارہ ہے، امام پیاسوں کے لیے آب شیرین اور ہدایت کا رہبر ہے ، ہلاکت سے نجات دینے والا ہے اور امام آگ سے بقعہ نور کی گرمی کی شدت ہے ( اسخیائے عرب قحط سالی میں بلند مقام پر آگ روشن کردیتے تھے تاکہ بھولا بھٹکا شخص  اسے دیکھ کر ان کے پاس آجائے) امام سرماء خورد کے لیے حرارت ہے خوفناک مقامات پر رہبر ہے جو امام کو چھور دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا، امام برسنے والا بادل ہے، جھڑی والی گھٹا، ضیاء بار سورج ، سایہ دار آسمان ہے، امام پر فضا زمین پر بہتا ہوا چشمہ پانی سے لبریز تالاب ، پر بہار سبزہ زار ہے، امام رفیق ، ساتھی ، شفیق والد، اورمہربان بھائی، شفیق ماں

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658