مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277249
ڈاؤنلوڈ: 6924

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277249 / ڈاؤنلوڈ: 6924
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس نمبر ۱۸

(۱۹ رمضان سنہ۳۶۷ھ)

علی (ع) خیرالبشر

۱ـ جابر(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا بہشت کے دروزاہ پرلکھا ہوا ہے” لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی اخو رسول اﷲ“ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں اور علی(ع) رسول خدا(ص) کے بھائی ہیں زمین و آسمان کی پیدایش سے دو ہزار سال پہلے سے۔

۲ـ ابن عباس کہتے ہیں، میں نے پیغمبر(ص) نے ان کلمات کے بارے میں پوچھا جو آدم(ع) نے اپنے رب سے دریافت کیئے اور ان کی توبہ قبول ہوئی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ آدم(ع) نے جب کہا اے خدایا تو بحق محمد(ص) و علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) میری توبہ قبول کر لے تو خدا نے ان کی توبہ قبول کی۔

۳ـ عطاء کہتے  ہیں کہ میں نے عائشہ سے علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے بارے میں پوچھا تو کہا آںحضرت علی خیرالبشر ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کرتا مگر کافر۔

۴ـ ربعی کہتے ہیں کہ خذیفہ(رض) سے علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں سوال ہوا انہوں نے کہا وہ حضرت(ع) خیرالبشر ہیں اور اس میں کوئی شک  نہیں کرتا مگر وہ جو منافق ہے۔

۵ـ حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ پیغمبرنے فرمایا کہ علی ابن ابی طالب خیرالبشر ہےاورجوبھی اسکے سر کشی کرے گا وہ کافر ہے۔

۶ـ ابوزبیر مکی کہتے ہیں میں نے جابر کو دیکھا کہ اپنے عصا کو پکڑے ہوئے کوچہ انصار کی ایک مجلس کے اندر ہیں اور کہتے ہیں کہ علی خیرالبشر ہے اورجو کوئی بھی اس سے سرکشی کرے گا وہ کافرہے اے گروہ انصار اپنی اولاد کو محبت علی ابن ابی طالب پر ورش کرو اور جو کوئی اس معاملے میں سر کشی کرے اس کی ماں کے بارے میں نظر کی جائے گی (یعنی اس کے نطفہ میں شک ہے)

۷ـ امام رضا(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) سے روایت کی ہے کہ علی ابن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ

۸۱

 پیغمبر(ص) نے مجھ سے فرمایا تم خیرالبشر ہو اور شک نہیں کرتا تیرے بارے میں مگر وہ  جو کافر ہے۔

۸ـ          زید بن علی(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا کہ علی(ع) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) کی طرف سے مجھے دس چیزیں دی گئی ہیں جو کسی کو مجھ سے پہلے نہیں دی گئیں اور کسی بندے کو میرے بعد بھی نہ دی جائیں گی، آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تم میرے بھائی ہو دنیا میں اور آخرت میں بہشت میں برابر ہوگی جیسے کہ دو بھائیوں کی ہوتی ہے، تم حق ہو، تم ولی ہو، تم وزیر ہو تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے، تیرا دوست میرا دوست ہے اور میرا دوست خدا کا دوست ہے۔

علی(ع) کی عبادت

۹ـ           عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہم مسجد رسول خدا(ص) میں جمع ہوکر مجلس کی شکل میں بیٹھے تھے اور اہل بدر اور اصحاب بیعت رضوان کے اعمال کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ ابودردا(رض) نے کہا اے لوگو کیا میں تمہیں ایسے بندے سے آگاہ کروں کہ جس کا مال تمام سے کمتر ہے اور اس کی ورع سب سے افضل اور اس کی کوشش عبادت بہت زیادہ ہے، ہم نے کہا وہ کون ہے کہا علی(ع) بن ابی طالب(ع) تو خدا کی قسم جو کوئی اس محفل میں تھا اس نے یہ سن کر منہ پھیر لیا ایک اںصاری نے ابو دردا(رض) سے کہا اے عویمر تم  نے ایسی بات کی ہے کہ کسی نے تیری موافقت نہیں کی ابو دردا(رض) نے کہا کہ اے لوگو! میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہی کچھ کہا اور تم کو بھی چاہیے کہ جو کچھ دیکھو وہی کہو میں نے خود علی(ع) بن ابی طالب(ع) کو نجار میں دیکھا کہ اپنے موالی سے علیحدہ ہوگئے اور دور کجھور کے درختوں کے جھنڈ کے پیچھے غائب ہوگئے اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید گھر تشریف لے گئے ہیں۔ ناگاہ ایک دردناک گریہ کی آواز اس جھنڈ سے آتی ہوئی محسوس ہوئی میں معلوم کرنے کے لیے بڑھا کہ یہ کون ہے  جو گریہ کر رہا ہے جب قریب پہنچا تو آواز آنے لگی، اے خداوندا تیرا کرم ہے کہ میری کوتاہیوں کو تو نے نظر انداز کیا اورمجھے عظیم نعمتوں سے نوازا اور اپنے کشف کی بزرگی عنایت کی۔ بار الہا میں اپنے گناہوں کے سلسلے میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ

۸۲

کوئی آرزو نہیں رکھتا اور سوائے تیری رضا کے میں کچھ نہیں چاہتا۔ میں ( ابو دردا) یہ جملے سن کر آسگے بڑھا تو دیکھا کہ علی(ع) ہیں میں نے خود کو درختوں میں پوشیدہ کر لیا۔ جنابِ امیر(ع) نے اپنی مناجات کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا اے خداوندا تو ماضی کا حال جانتا ہے تو جانتا ہے کہ میرے دل کو تیرے خوف نے جکڑ لیا ہے۔ خداوندا میں اس وقت سے پناہ مانگتا ہوں جب نامہء اعمال سامنے آئے گا بار الہا میں اس نامہء اعمال کے عشر عشیرہ کا بار اٹھانے کے قابل بھی نہیں مجھے اس بار سے محفوظ رکھ مجھے اس بار سے محفوظ رکھ۔ جس کو اٹھانے کی طاقت ایک پورا قبیلہ بھی نہیں رکھتا۔ یا اﷲ مجھے اس آگ سے محفوظ رکھ جو بدنوں کو اس طرح جلائے گی جیسے آگ پر جانور کو بھونا جاتا ہے جو کلیجے اور دل کو ایسے جلا دے گی جیسے کوئلہ دہکتا ہے  یہ فرما کر آپ(ع) نے بے حد گریہ  کیا اور اس قدر غلبہ خوف آپ کے جسم پر طاری ہوگیا کہ آپ بالکل ساکت اور بے حس و حرکت ہو کر گر گئے۔ جب اس حالت میں بہت دیر گزر گئی تو میں نے سوچا کہ یہ اس حالت میں کافی دیر سے ہیں انہیں نماز کے لیے اٹھانا چاہیئے لہذا جب میں نے انہیں چھو کر دیکھا تو علم ہوا کہ آپ(ع) ایک خشک لکڑی کی مانند پڑے ہیں۔ اور اٹھنے بیٹھنے کی قوت سے عاری ہیں۔ تو میری زبان سے بے اختیار ”انا ﷲ و انا الیہ راجعون“ جاری ہوگیا۔ خدا کی قسم ایسا معلوم ہوا جیسے علی بن ابی طالب(ع) دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں پھر میں وہاں سے ان کے گھر کی طرف چلاتا کہ ان کی موت کی خبر فاطمہ(س) کو پہنچادوں ۔ جب میں نے ان سے ذکر کیا تو  جناب فاطمہ(س) نے فرمایا اے ابو دردا(رض) خدا کی قسم یہ وہ غشی ہے جو خوفِ خدا کے دل میں گھر کر لینے سے انہیں ہوتی ہے۔ لہذا جب علی(ع) کے چہرے پر پانی چھڑکا گیا تو وہ ہوش میں آگئے اور مجھے گریہ کرتے دیکھ کر فرمایا اے ابو دردا تم سے اس وقت کسیے برداشت ہوگا جب دیکھو گے کہ مجھے حساب کے لیے بلایا گیا ہے اور سخت گیر فرشتے مجھ سے سوالات کررہے ہوں گے اور تند خو جہنمی بھی اس میدان میں موجود ہوں گے وہ وقت ایسا ہوگا کہ اپنے بھی ہاتھ کھیچ لیں گے لہذا یہی چیزیں میرے خوف  اور اس کیفیت کا باعث ہیں اے ابو دردا جان لو کہ خدا سے کوئی پردہ نہیں۔ حضرت ابودردا فرماتے ہیں، خدا کی قسم علی(ع) جیسی حالت میں نے کسی صحابی کی نہیں دیکھی۔

۸۳

مغرب کا وقت

۱۰ـ          داؤد بن فرقد کہتے ہیں کہ میرے باپ نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ مغرب کا وقت کب تصور کیا جائے۔ آپ(ع) نےفرمایا جب سورج کی سرخی آنکھوں سے غائب ہوجائے۔ ( سورج مکمل غروب ہوجائے اور سیاسی پھیلنےلگے) تب وقتِ مغرب ہوگا۔

۱۱ـ           داؤد بن ابو زید کہتے ہیں امام صادق(ع) نے فرمایا جس وقت سورج غائب ہوجائے تو مغرب کا وقت ہوجاتا ہے۔

۱۲ـ          ابو اسامہ زید شحام یا کسی اور سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ کوہ ابوقیس پر گیا اس نے دیکھا کہ سورج پہاڑ کی اوٹ میں چھپ چکا ہے اور کچھ لوگ مغرب پڑھ رہے ہیں میں نے اس مسئلے کو امام صادق(ع) سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب یہ یقین نہ ہوجائے کہ سورج مکمل طور پر غروب ہوچکا ہے اور اب وقتِ مغرب شروع ہوگیا ہے اس عمل کو مت کرو بادلوں میں سورج کے چھپنے کی تاریکی کے باعث نماز مغرب نہیں ہوگی اور بے شک دین کے احکامات میں کوئی بحث نہیں ہے۔

۱۳ـ          سماعہ بن مہران کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے مغرب کے وقت کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا بعض دفعہ ہم نماز مغرب پڑھتے اور خوف رکھتے ہیں کہ سورج پہاڑ کے پیچھے ہوگا یا پہاڑ نے اس کو ہماری نظروں سے غائب کردیا ہے فرمایا تم پر یہ لازم نہیں ہے کہ تم پہاڑ پر چڑھ کر دیکھو۔

۱۴ـ          محمد بن یحیی حشمعی بیان کرتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) جب نمازِ مغرب کو اںصار کے قبیلہ بنو سلمیٰ جن کے گھر نصف میل دور تھے کے ساتھ ادا کرتے تو واپسی پر رات کی سیاہی پھیل چکی ہوتی۔

۱۵ـ          عبید بن زرارہ کہتے ہیں امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک شخص میرے ساتھ تھا کہ اس نے رات ہونے تک نمازِ مغرب میں تاخیر کی اور نماز فجر کو اندھیرے میں پڑھا اور میں نے مغرب کے فقط سورج کے پوشیدہ ہونے پر پڑھا اور فجر کو روشنی کے سپیدہ میں، اس شخص نے مجھ سے کہا کہ تو

۸۴

نے اس طرح کیوں نہ کیا جیسے کہ میں کررہا تھا کیا سورج ہمارے سامنے طلوع و غروب نہیں ہوتا ؟ میں نے کہا یہ فقط یوں ہے کہ سورج جب غروب ہوجائے تو نماز مغرب کو ادا کریں اور جب سپیدہ ظاہر ہو جائے تو فجر پڑھیں، ہم پر یہ لاگو اور لازم ہے کہ سورج کے طلوع و غروب کا خیال رکھ کر نماز ادا کریں۔

۱۶ـ          ابان بن تغلب و ربیع بن سلمان و ابان بن ارقم اور دوسروں نے روایت کیا ہے کہ ہم مکہ سے آرہے تھے وادی اجفر میں پہنچ کر دیکھا کہ دور ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے دیکھا کہ آسمان پر تھوڑی سرخی باقی تھی ہم نے سوچا کہ شاید یہ نوجوان مدینے کا ہے ہمارے قریب جانے تک وہ جوان ایک رکعت ادا کرچکا تھا۔ جب ہم نزدیک پہنچ چکے تو دیکھا کہ امام صادق(ع) ہیں ہم سوار یوں سے نیچے اترے اور ان کے ساتھ نماز ادا کی جب نماز ادا کرچکے تو پوچھا کہ مغرب کا وقت کیا ہے تو انہوں نے فرمایا جب آفتاف غروب ہوجائے تو اس کا وقت آپہنچتا ہے۔

۸۵

مجلس نمبر۱۹

(۲۲ رمضان سنہ ۳۶۷ھ)

ام ایمن کا خواب

۱ـ           عبداﷲ بن سنان کہتے ہیں امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک دفعہ ام ایمن کے ہمسائے رسول اﷲ(ص) کی خدمت میںآئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ام ایمن پچھلی رات نہیں سوئیں اور لگاتار روتی رہیں یہاں تک کہ صبح ہوگئی رسول خدا(ص) نے ایک شخص کو بھیجا کہ ام ایمن کو میرے پاس لاؤ جب وہ آئیں تو فرمایا اے ام ایمن خدا تیری آنکھوں کو کبھی نہ رلائے یہ تیرے ہمسائے میرے پاس آئے ہیں اور مجھے تیرے گریہ کرنے کے بارے میں بتایا ہے ام ایمن نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں نے ایک ہولناک خواب دیکھا ہے جس کی وجہ سے میں ساری رات روتی رہی ہوں رسول خدا(ص) نے فرمایا اپنا خواب مجھ سے بیان کرو کہ جس کی تعبیر کو اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں کہا میرے لیے یہ سخت اور گراں ہے اور ہمت نہیں کہ میں اپنے خواب کو بیان کروں آپ(ص) نے فرمایا تمہارے خواب کی تعبیر اس طرح نہیں جیسا کہ تم نے اس کو دیکھا لہذا اسے بیان کرو ام ایمن نے کہا میں نے اس شب خواب میں دیکھا کہ آپ(ص) کے بدن کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں پڑا ہے، رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ام ایمن اﷲ تمہاری آنکھوں کو سونا ںصیب کرے فاطمہ(س) کے یہاں حسین(ع) پیدا ہونے والے ہیں اور تم حسین(ع) کی پرورش کرو گی  اور ان کو آغوش میں لوگی اس مناسبت سے میرے بدن کا ایک ٹکڑا تیرے گھر میں ہوگا پس جب فاطمہ(س) کے ہاں حسین(ع) پیدا ہوئے تو ساتویں دن رسول خدا(ص)  نے حکم دیا کہ اس بچہ کا سرمنڈوا دو اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی تصدق کر دو اور ان  کا عقیقہ کرو پھر ام ایمن نے ان کو تیار کیا اور ایک چادر میں لپیٹا اور رسول خدا(ص) کی خدمت پیش کیا رسول خدا(ص) نے فرمایا مرحبا اس بچہ کو لے آؤ جب لایا گیا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ام ایمن یہ تیرے اس خواب کی تاویل ہے جو تم نے دیکھا تھا۔

۸۶

فرزندان مسلم بن عقیل(ع)

۲ـ           حمران بن اعین کہتے ہیں کہ شیخ ابو محمد کوفی نے روایت کیا کہ جب حسین بن علی (ع) کو قتل کر دیا گیا تو دو بچوں کو حضرت(ع) کےلشکر سے قید کر کے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا اس ملعون نے اس دونوں کو قید خانہ میں بھیجا اور محافظِ زندان کو طلب کر کے کہا کہ اچھی خوراک اور ٹھنڈا پانی ان کو نہ دینا اور ان پر سختی کرنا، یہ دونوں بچے روزہ رکھتے تھے اور بوقت شب دو روٹیاں جو کی اور ایک کوزہ پانی ان کے لیے لایا جاتا تھا یہاں تک ایک سال گزر گیا ایک دن ایک بھائی نےدوسرے سے کہا اے بھائی ایک مدت سے ہم اس زندان میں ہیں اور ہماری عمر ختم ہونے والی ہے قریب ہے کہ ہماری زندگی اسی غم میں ختم ہوجائے لہذا زندان کے نگران کو اپنے مقام و حسب ونسب سے آگاہ کردیں اور جو قربت ہم رسول (ص) نے رکھتے ہیں اس پر ظاہر کردیں شاید اس کو ہمارے حال پر رحم آجائے لہذا جب وہ خوراک اور پانی کا کوزہ لایا تو چھوٹے نے کہا اے شیخ کیا تو محمد(ص) کو پہچانتا ہے کہا اس نے کیوں نہیں پہچانتا وہ میرا پیغمبر(ص) ہے کہاجعفر بن ابی طالب(ع) کو بھی پہچانتے ہو کہا کیوں نہیں پہچانتا خدا نے انہیں دو پر عطا کیے ہیں کہ وہ بہشت میں فرشتوں کےساتھ جہاں چاہیں پرواز کرتے ہیں کہا علی ابن ابی طالب(ع) کو پہچانتے ہو کہا کیوں نہیں پہچانتا وہ رسول (ص) کے چچا کا بیٹا ہے اور میرے نبی کا بھائی ہے بچوں نے کہا اے شیخ ہم تیرے نبی(ص) کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی عترت ہیں مسلم بن عقیل بن ابی طالب(ع) کے بیٹے ہیں اور تیرے ہاتھوں اسیرہوئے ہیں۔ تم نے اچھی خوراک و ٹھنڈا پانی ہمیں نہ دیا اور ہمیں زندان میں سخت تنگ کیا ہے وہ شیخ گر پڑا اور ان کے پاؤں کے بوسے لینے لگا اور کہا کہ میری جان آپ قربان اے عترتِ رسول اﷲ(ص) یہ زندان کا دروازہ کھلا ہے جہاں چاہو چلے جاؤ پھر دو روٹیاں اور پانی کا کوزہ دیا اور انہیں راستہ بتا دیا اور کہا راتوں کو سفر کرنا اور دن کو چھپ جانا یہاں تک کہ خدا تمہارے لیے وسعت پیدا کردے لہذا وہ دونوں بوقتِ شب روانہ ہوئے اور کچھ دور جاکر ایک ضعیفہ کے مکان پر پہنچے وہاں اور اس سے کہا کہ ہم پریشان حال و آوارہ وطن ہیں جب کہ رات کا وقت ہے آج رات ہمیں اپنا مہمان رکھ لے ہم صبح ہوتے ہی چلے جائیں گے، اس نے کہا تم کون ہو کہ تمہارے بدن سے عطر سے زیادہ خوشبو آتی ہے

۸۷

بچے کہنے لگے ہم اولادِ رسول(ص) سے ہیں اور زندان ابنِ زیاد سے نکلے ہیں تاکہ وہ ہمیں قتل نہ کردے اس بوڑھی عورت نے کہا اے میرے عزیز میرا ایک داماد ہے جو بدکردار ہے اور عبیداﷲ ابن زیاد کے ساتھ واقعہ کربلا کے وقت موجود تھا ڈرتی ہوں کہ کہیں وہ یہاں آکر تم کو قید نہ کرلے اور قتل کردے کہنےلگے ہم صرف آج کی رات ہی یہاں ٹھہریں گے اور صبح اپنی راہ چلے جائیں گے عورت نے کہا اچھا میں تمہارے لیے شام کا کھانا لاتی ہوں وہ کھانا لائی انہوں نے کھانا کھایا پانی پیا اور سوگئے چھوٹے نے بڑے سے کہا جانِ برادر مجھے امید ہے کہ آج رات آرام کی رات ہوگی آؤ بغل گیر ہوکر سوجائیں اور ایک دوسرے کے بوسے لے لیں کہیں یہ نہ ہو  کہ موت ہم دونوں کو جدا کردے لہذا دونوں بغل گیر ہو کر سوگئے جب رات کا کچھ حصہ گزرا تو اس عورت کا داماد فاسق آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا بوڑھی عورت نے پاچھا کون ہے اس نے کہا فلان ہوں کہا کیوں بے وقت آئے ہو وہ باہر سے کہنے لگا وائے ہو تجھ پر میں سخب بدحواس ہوں قبل اس کے کہ میری عقل چلی جائے۔ دروازہ کھول میں سخت مایوس ہوں عورت نے کہا وائے ہو تم پر کونسی مصیبت میں گرفتار ہو اس نے کہا کہ دو بچے لشکر عبیداﷲ لعین سے نکل گئے ہیں اور امیر نے اعلان کیا ہے کہ جو کوئی ان دونوں میں سے کسی ایک کا بھی سر لائے گا اسے ایک ہزار درہم انعام دوں گا اور جو کوئی ان دونوں کا سر لائے گا اسے  دو ہزار درہم انعام دوں گا مجھے یہ رنج ہے کہ میرے ہاتھ نہیں آئے بوڑھی عورت نے کہا اس  بات سے ڈرو کہ روز قیامت محمد(ص) تیرے دشمن ہوں وہ کہنے لگا وائے ہو تم پر میں دنیا ہاتھ میں لیںا چاہتا ہوں اور تو آخرت کی بات کرتی ہو۔ عورت نے کہا وہ دنیا جو آخرت کے بغیر ہو تجھے کیا کام دے گی اس نے کہا تم ان کی طرف داری کیوں کرتی ہو کیا تجھے ان کی خبر ہے چل میں تجھے اپنے امیر کے پاس لے چلتا ہوں تاکہ وہ تجھ سے پوچھے وہ کہنے لگی امیر مجھ بوڑھی عورت سے جو گوشہ نشین ہے کیا چاہے گا اس نے کہا اچھا دروازہ کھولو تاکہ آرام کروں اور سوچوں کہ صبح کس راستہ پر ان کے پیچھے جاؤں عورت نے دروازہ کھولا اور اس کو کھانادیا آدھی رات کو اس نے بچوں کے سانس لینے کی آواز سنی تو وہ نہایت خشم ناک اٹھا اور اندھیرے میں دیوار کا سہارا لے کر کمرے کی جانب چلا یہاں تک کہ چھوٹے بچے کے پہلو پر ہاتھ پڑا بچے نے کہا کون ہے اس نے کہا میں خانہ ہوں تم کون ہو چھوٹے نے بڑے کو ہلایا اور کہا اٹھو اور جان لو کہ جس چیز سے ڈرتے

۸۸

تھے سی میں گرفتار ہوگئے  اس نے کہا تم کن ہو کہنےلگےاگر سچ کہیں تو امان دوگے کہا ہاں کہنےلگے اے شیخ خدا، رسول(ص) اور ان کے مرتبے کا واسطہ کیا ہمیں امان دو گے کہنے لگا ہاں امان ہے تو بچے کہنے لگے محمد بن عبداﷲ گواہ ہے امان دوگے اس نے کہا ہاں بچوں نے کہا کیا خدا اس پر گواہ اور وکیل ہے کہ جو کچھ عہد کررہا ہے دیوار کرے گا کہا ہاں کہنے لگے اے شیخ ہم تیرے نبی(ص) نے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس کی عترت ہیں اور زندان عبیداﷲ بن زیاد لعین سے جان کے خوف سے نکلے ہیں اس نے کہا موت سے ڈرتے ہو مگر موت میں گرفتار ہوگئے ہو حمد اس خدا کی جس نے تم کو میرے قابو میں دیا ہے وہ اٹھا اور ان کو باندھ دیا بچوں نے تمام شب بندھے ہوئے گزاری جب سفیدی ظاہر ہوئی تو اس نے ایک غلام کو جس کا نام خلیج تھا بلایا اور کہا کہ ان دونوں بچوں کے دریائے فرات کے کنارے لے جاؤ اور ان کی گردنیں کاٹ دو اور ان کے سروں کو میرے پاس لے آؤ گے کیا جب گھر سے کچھ دور ہوگئے تو ایک بچے نے کہا الشیخ ( حبشی) تم بلال موذن رسول(ص) کی مانند ہو ہم پر رحم کرو اس نے کہا میرے آقا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہاری گردنوں کو کاٹ دوں مگر یہ بتاؤ کہ تم کون ہو کہنے لگے ہم تیرے نبی محمد(ص) کی عترت ہیں اور جان کے خوف سے ابن زیاد کے زندان سے نکلے ہیں اس بوڑھی عورت نے ہمیں مہمان رکھا لیکن تیرا آقا چاہتا ہے کہ ہمیں قتل کرے اس حبشی غلام نے ان کے پاؤں کے بوسے لیے اور کہا میری جان تم پر فدا اے عترت مصطفیٰ(ص) خدا کی قسم میں نہیں چاہتا کہ محمد(ص) بروز قیامت میرے دشمن ہوں پھر تلوار کو دور پھینکا اور خود کو فرات میں گرا دیا اور دریا عبور کر گیا اس کے آقا نے آواز دی کہ تم نےمیری نا فرمانی کی ہے اس نے کہا میں تیرا اس وقت فرمانبردار ہوں جب تک تم خدا کے فرمامبردار ہو اب جبکہ تم نے خدا کی نافرمانی کی تو میں دنیا و آخرت میں تجھ سے بیزار ہوں پھر اس شقی نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا میں نے تیرے لیے حلال و حرام کو جمع کیا میں چاہتا ہوں کہ انعام وصول کروں تو ان دو بچوں کو فرات  کے کنارے لے جا اور ان کی گردنوں کا کاٹ دے اور ان کے سر میرے پاس لے آ تاکہ میں عبیداﷲ کے پاس لے جاؤں اور دو ہزار درہم معاوضہ لے آؤں اس نے تلوار لی اور بچوں کے لے کر چلا کچھ دور جا کر ان دونوں بچوں میں سے ایک نے کہا اے جوان میں تیرے دوزخ میں جانے سے

۸۹

 خوف محسوس کرتا ہوں اس لڑکے نے کہا اے عزیز تم کون ہو وہ کہنےلگے ہم تیرے نبی(ص) کی عترت ہیںاور تیرا باپ ہمیں قتل کرنا چاہتا ہے یہ سن کر اس ملعون کا بیٹا بھی ان کے قدموں پر گر پڑا اور ان کے بوسے لیے اور انہی الفاظ کو دوہرایا جو حبشی غلام نے کہا تھا  پھر تلوار کو دور پھینکا اور خود کو فرات میںچھلانگ لگا گیا اس کے باپ نے آواز دی کہ تو میری نافرمانی کر رہا ہے اس نے کہا کہ خدا کا حکم تیرے حکم پر مقدم ہے اس شقی نے کہا اب سوائے میرے کوئی دوسرا ان کو قتل نہ کرے گا لہذا تلوار لی اور ان کو آگے کیا اور فرات کے کنارے تلوار نیام سے نکالی جب بچوں کی نظر تلوار پر پڑھی تو رونے لگے اور کہنے لگے اے شیخ ہمیں بازار میں فروخت کردے اور روز قیامت محمد(ص) کی دشمنی کو اپنے سر نہ لے اس نے کہا میں تمہارے سر کو ابن زیادہ کے پاس لے جاؤں گا اور معاوضہ ( انعام) حاصل کروں گا بچے کہنے لگے تو ہمارے رشتہ رسول(ص) کا احترام نہیں کرتا اس نے کہا تمہارا رسول اﷲ(ص) کے ساتھ کوئی رشتہ واسطہ نہیں ہے۔ کہنے لگے اے شیخ تو ہم کو عبیداﷲ کے پاس لے جا تاکہ وہ خود ہمارے بارے میں کوئی حکم دے کہا میں تمہارے خون کے بدلے اسکا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہوں بچے کہنےلگے اے شیخ کیا تجھے ہمارے کمسنِ ہوںے پر رحم نہیں آتا اس نےکہا خدا نے میرے دل میں رحم پیدانہیں کیا کہنے لگے پھر ہمیں اتنی مہلت دے کہ ہم چند رکعت نماز پڑھ لیں اس نے کہا اگر نماز تمہیں کوئی فائدہ دیتی ہے تو جس طرح چاہو نماز پڑھو پھر ان بچوں نے چار رکعت نماز پڑھی پھر ہاتھ اٹھائے اور اپنی نظروں کوآسمان کی طرف کر کے فریاد کی” یا حی یا حکیم یا احکم الحاکمین“ ہمارے اور اس کے درمیان حق کا فیصلہ کردے“ یہ شقی اٹھا اور اس نے بڑے کی گردن کاٹ دیاور اسکے سر کو توبرہ( تھیلا) میں رکھا ، چھوٹا بھائی غم سے نڈھال اپنے برادر کے خون میں لوٹ پوٹ ہوگیا اور کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائی کے خون میں رنگین ہوکر رسول خد(ص) سے ملاقات کروں اس ملعون نے کہا کوئی باتنہیں تجھے بھی ابھی اس کے پاس پہنچاتا ہوں، پھر چھوٹے کو بھی قتل کردیا اور اس کے سرکو بھی توبرہ میں رکھا اور دونوں کے بدنوں کو دریا کے پانی میں پھینک دیا پھر ان کے سروں کو ابن زیاد کے پاس لے گیا وہ تخت پر بیٹھا تھا اور ایک چھڑی اس کے ہاتھ میں تھی اس شخص نے ان کے سروں کو اس سامنے رکھا جب اس لعین کی نظر ان پر پڑی تو تین بار اٹھا اور تین بار بیٹھا اور وہ لعین بولا ای وائے ہو تم پر ان کو تم نے کہاں سے پایا کہا بوڑھی عورت جو

۹۰

ہمارے خاندان سے تھی اس نے ان کو مہمان رکھا تھا۔ ابن زیاد نے کہا کیا توع نے یہ حق مہمان نوازی ادا کیا ہے؟ کیا ان بچوں نے فریاد نہیں  کی تھی؟ اس شخص  نے کہا کہ ان بچوں نے مجھ سے اس بات کا تقاضہ کیا تھا کہ ہمیں بازار میں فروخت کر کے رقم وصول کر لے اور محمد(ص) کو روز قیامت اپنا دشمن مت بنا ابن زیاد نے کہا تو پھر تو نے کیا کیا اس شخص نے کہا کہ میں نے ان بچوں سے کہا تھا کہ میں تمہارے سر ابن زیاد کے پاس لے کر کر معاوضہ وصول کروں گا۔ ابن زیاد نے پوچھا اس علاوہ انہوں نے اور کیا بات کی تھی اس نے بتایا کہ بچوں نے فریاد کی تھی کہ ہمیں ابن زیاد کے پاس لے چل تاکہ وہ خود ہمارے بارے میں کوئی فیصلہ کرے ابن زیادہ نے پوچھا پھر تو نے ان سے کیا کہ اس نے بتایا کہ میں نے ان سے کہا میں تمہارے سر ابن زیاد گو دے کر اس کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ابن زیاد نے اس شخص سے کہا کہ جب انہوں نے فریاد کی تھی تو انہیں لے کر تو میرے پاس کیوں نہیں آیا میں تجھے ان کے بدلے چار ہزار درہم دیتا اس شخص نے کہا کہ مجھے نہ یقین تھا کہ ان کیزندہ گرفتاری پر زیادہ انعام ملے گا۔ ابن زیاد نے پوچھا کہ یہ بتا جب تو انہیں قتل کرنے لگا تھا تو انہوں نے تجھے کیا کہا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب میں انہیں قتل کرنے لگا تو انہوں نے کہا اے شیخ کیا تجھے رسول خدا(ص) سے شرم نہیں آتی کیا تو ہمیں بچہ سمجھ کر بھی رحم نہیں کرتا کیا تو ہمیں تھوڑی مہلت دے گا کہ ہم نماز پڑھ لیں یہ سن کر میں نے بچوں سے کہا کہ اگر تمہیں نماز اس وقت فائدہ دیتی ہے تو پڑھ لو لہذا انہوں نے چار رکعت نماز پڑھی اور نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اس طرح دعا مانگی۔،” یا حیی یا حکیم یا احکم الحاکمین تو ہمارے اور اس کے  درمیان فیصلہ کردے“ اس کے بعد میں نے انہیں قتل کر دیا۔ ابن زیاد نے یہ سن کر کہا خدا نے تیرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیا پھر حکم دیا کہ کون ہے جو اسے ٹھکانے لگائےگا ایک شامی اٹھا ابن زیاد نے اسے کہا کہ اس کو وہیں لے جاؤ جہاں اس نے ان بچوں کو قتل کیا ہے مگر اس کاخون ان کے خون سے نہ ملنے پائے وہ شامی اسے لے کر فرات کے کنارے آیا اور اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ اور پھر اس کے سر کو ایک نیزے پر آویزان کردیا۔ لوگ اس کے سر کو دیکھتے اور حقارت سے ڈھیلے اور پھتر مارتے تھے کہ اس نے ذریت رسول(ص) کو شہید کیا ہے۔

۹۱

مجلس نمبر۲۰

(۲۶ ماہ رمضان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           جابر بن عبداﷲ اںصاری(رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا(ص) کو علی(ع) کے بارے میں فرماتے سنا کہ بے شک اﷲ نے علی(ع) کو چند فضائل ایسے عطا کیے ہیں کہ ان میں سے ایک بھی اس تمام دنیا کے انسانوں کی فضیلت سے بڑھ کر پھر رسول اﷲ(ص) نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی(ع) مولا ہے۔ علی(ع) کی نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسے ہارون(ع) کی موسی(ع) سے تھی وہ مجھ سے اور میں اس سے ہوں وہ میری جان ہے اس کی اطاعت میری اطاعت ہے اس کی نافرمانی میری نافرمانی ہے علی(ع) سے جنگ خدا سے جنگ ہے۔ اس سے صلح خدا سے صلح ہے علی(ع) کا دوست خدا کا دوست اور علی(ع) کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ وہ بندوں پر خدا کی حجت اور خدا کا خلیفہ ہے۔ علی(ع) کی محبت ایمان اور اس سے بغض کفر ہے۔ علی(ع) کا گروہ خدا کا گروہ اور اس کے دشمنوں کا گروہ شیطان کا گروہ ہے علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچ جائیں جو کوئی علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہے اور جو کوئی مجھ سے جدا ہو وہ اﷲ سے جدا ہے اور علی(ع) اور اس کے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہیں۔

۲ـ           انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا تم میرے لیے چھ صفتوں کو اپناؤ میں تمہارے لیے جنت کا وعدہ کرتا ہوں، جھوٹ نہ بولو، جب وعدہ کرو تو اس کے خلاف نہ کرو امانت میں خیانت نہ کرو، اپنی نظریں نیچے رکھو، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اپنے ہاتھ اور زبان کو روکے رکھو۔

عصمتِ انبیاء(ع)

۳ـ          ابوصلت ہروی کہتے ہیں کہ جب مامون نے اہل اسلام و غیر اسلام اور یہود و نصاریٰ و مجوس و صائیبین میں سے اہل نظر اور دوسرے متکلمین کو جمع کیا تاکہ وہ جناب علی بن موسی رضا(ع) کے

۹۲

ساتھ مباحثہ کریں تو جو کوئی بحث کے لیے کھڑا ہوتا تو آپ اس کو محکوم کردیتے گویا اس کےمنہ میں پتھر رکھ دیا گیا ہے اس سلسلے میں علی بن محمد بن جبم سامنے آیا اور اس نے عرض کیا اے فرزند رسول(ص) آپ عصمت انبیاء(ع) کے قائل ہیں فرمایا ہاں اس نے کہا مگر کیا کریں کہ خدا کہتا ہے”آدم(ع) نے نافرمانی کی اور گمراہ ہوا“ ( طہ، ۱۲۱) اس کے علاوہ خدا کہتا ہے” اور ذوالنون نے جب کہ وہ غضبناک ہوکر چلا گیا تو اس کو یقین تھا کہ ہم ہرگز اس پر روزی تنگ نہ کریں گے“ ( انبیاء، ۸۷) اور اس (خدا) کا قول یوسف(ع) کے بارے میں ہے کہ ” یقینا ( زلیخا) نے اس (یوسف(ع)) سے ارادہ کر ہی لیا اور وہ بھی ارادہ کرلیتا“ (یوسف، ۲۴) اور اس قول داؤد(ع) کے بارے میں ” کہ اس نے گمان کیاکہ ماسواے اس کے ہم نے اس کا امتحان لیا ہے“(ص، ۲۵) اور اپنے نبی کے بارے میں خدا فرماتا ہے” تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کا اﷲ ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اﷲ اس بات کا زیادہ مستحق ہے“ (احزاب، ۳۷)

ہمارے مولا امام رضا(ع) نے اس کے جواب میں فرمایا وائے ہو تم پر اے علی بن جہم خدا سے ڈرو اور پیغمبران خدا کے بارے میں ہرزہ سرائی مت کرو اور کتاب خدا کی اپنی رائے سے تفسیر مت بیان کرو خدا فرماتا ہے کوئی نہیں جانتا اس کی تاویل بجز خدا کے اور وہ جو علم میں راسخ ہیں۔ پھر یہ کہ خدانے فرمایا” آدم(ع) نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور گمراہ ہوا بیشک خدا نے آدم(ع) کو زمین میں حجت اور اپنے بندوں پر خلیفہ پیدا کیا اس کو بہشت کے لیے پیدا نہ کیا“ اور آدم(ع) کی نافرمانی بہشت میں تھی نہ کہ زمین میں اس لیے تاکہ مقدرات امر خدا کامل ہوجائیں پھر جب انہیں زمین پر اتارا تو وہ حجت و خلیفہ ہوئے اور معصوم تھے اس کی دلیل خدا کا قول ہے” بیشک خدا نے برگزیدہ کیا آدم(ع) کو اور نوح(ع) کو اور آل ابراہیم(ع) کو اور آل عمران(ع) کو تمام عالمین“ پر اور پھر یہ گفتارِ خدا کہ ” ذوالنون(ع) جس وقت غضبناک ہوکر گیا اور اس نے گمان کیا کہ اس پر قادر نہیں ہے“ تو مراد  یہ ہے کہ ہم روزی کو اس پر تنگ کریں گے مگر تم نے اس قول خدا کو نہیں سنا“(فجر) اور پھر جب اس کے خدانے آزمای اور تنگ ہوگئی اسکی روزی اس پر اور اگر گمان کیا ہوتا کہ خدا اس پر طاقت نہیں رکھتا تو کافر ہو جاتا “ اور آیت”وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَ هَمَّ بِها “ مراد یہ ہے کہ زلیخا نے قصد معصیت کیا

۹۳

اور یوسف نے اس کے قتل کا قصد کیا اور یہ اس لیے تھا کہ زلیخا نے یوسف کو معصیت کے لیے اتنا مجبور کیا کہ انہیں غصہ آگیا اور انہوں نے زلیخا کے قتل کا اردہ کر لیا لیکن خدا تعالی نے اس صورت حال کو بدل دیا اب تم یہ بتاؤ کہ حضرت داؤد(ع) کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں علی بن جہم نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ داؤد(ع) محرابِ عبادت میں نماز پڑھ رہے تھے کہ نا گاہ شیطان ایک خوبصورت پرندے کی شکل میں ظاہر ہوا داؤد(ع) نے اپنی نماز قطع کردی اور پرندے کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگے وہ پرند اوریابن حنان کے مکان پر جا بیٹھا آپ بھی اس کے پیچھے گئے اوریا کی بیوی کو دیکھا جو برہنہ غسل کررہی تھیں۔ حضرت داؤد(ع) نے ان کو دیکھا تو ان پر عاشق ہوگئے داؤد(ع) نے اوریا کو کسی جنگ پر بھیجا ہوا تھا لہذا آپ(ع) نے اپنے سپہ سالار کو حکم بھجوایا کہ اوریا کو مقابلے کے لیے مخالف کے سامنے کرو مگر اوریا فتح یاب ہوئے اور مشرکین پر غلہ حاصل کر لیا یہ دیکھکر سپہ سالار نے دوبارہ انہیں میدان جنگ میں بھیجا اور اس مرتبہ وہ قتل ہوگئے۔ اس کے بعد داؤد(ع) نے ان کی بیوی سے شادی کر لی امام رضا(ع) نے جب ی سنا تو ماتھے پر ہاتھ مار کر بولے”إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ “ تم لوگ ایک پیغمبر کو ایسی نسبت دیتے ہو کہاس نے نماز کو حقیر سمجھا اور ایک پرندے لے لیے نماز قطع کردی اور ایک عورت پر عاشق ہوگئے اور ایک بے گناہ کے قتل کا اہتمام کیا علی جہم نے عرض کیا اے فرزند رسول(ص) ان (داؤد(ع)) کی غلطی کیا تھی امام(ع) نے فرمایا تم پر وائے ہو داؤد کو گمان ہوا کہ خدا نے ان سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار کسی اور کو پیدا نہیں کیا تو خدا نے دو فرشتوں کو ان کے پاس بھیجا۔ جو کہ ان کے گھر کی دیوار سے گزر کر ان کے پاس پہنچے۔ اور ان (داؤد(ع)) سے کہا کہ ہم ایک فیصلہ کروانے کے لیے آپ کے پاس آئے ہیں داؤد(ع) نے کہا کرو تو فرشتے نے( جو کہ شکل انسان میں موجود تھا) کہااے داؤد(ع) خدا فرماتا ہے ہے کہ ہمارے درمیانحق کا فیصلہ کرو اور خلاف نہ کرو اور ہم کو راہ حق کی راہنمائی کرو میرے اس بھائی کے پاس نو(۹) بھیڑیں ہیں جب کہ میں ایک رکھتا ہوں اور میرا  بھائی میری ایک بھیڑ بھی مجھ سے لینا چاہتا ہے داؤد(ع) نے اس کی بات سن کر جلد بازی سے فیصلہ سنادیا اور اس مسئلہ پر گواہ بھی طلب نہ کیے۔ اور نہ ہی دوسرے فریق کا موقف سنا بس یہ داؤد(ع) کی خطا

۹۴

 تھی۔ حالانکہ خدا فرماتا ہے ” اے داؤد(ع) بیشک ہم نے تم کو زمین مین اپنا خلیفہ بنایا ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان حق و اںصاف سے فیصلہ کرو“ علی بن جہم نے کہا پھر اوریا کا کیا قصہ ہے امام(ع) نے فرمایا داؤد(ع) کے زمانے میں قانون شریعت تھا کہ کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو وہ دوسری شادی نہیں کرسکتی تھی اوریا کی بیوی وہ پہلی عورت تھی جو اوریا کی موت کے بعد داؤد(ع) کے لیے حلال کی گئی۔اور محمد(ص) کے بارے میں خدا فرماتا ہے ” اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے کہ جس کو خدا ظاہر کرنے والاتھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا اس بات کا زیادہ مستحق ہے“(احزاب، ۳۷) موضوع یہ ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبر کو ان کی بیویوں کے نام عرش اور فرش پر اعلان فرمادیے تھے اور فرمایا کہ یہ تمام ام المومنین ہیں اور انہیں میں سے ایک زینت بن جحش بھی ہیں وہ زید بن حارثہ کی بیوی تھیں پیغمبر(ص) نے ان کے نام کو پوشیدہ رکھا مبادا منافقین طعنہ نہ دیں کہ دوسروں کی بیوی کا اپنی بیوی کے بطور نام لیتے ہیں اور ام المومنین شمار کرتے ہیں لہذا پیغمبر(ص) نےمنافقین کا جو خوف محسوس کیا تھا تو اس پر خدا نے فرمایا کہ تم خدا کے علاوہ کسی کا خوف دل میں مت رکھو، اور خدا نے آدم(ع) کو تزویج حوا سے محمد(ص) کی تزویج زینب سے اور علی(ع) کی تزویج فاطمہ(س) سے کا ذمہ خود لیا اور مخلوق کو اس کا حق نہیں دیا یہ سن کر علی بن جہم نے ندامت سے گریہ کیا میں توبہ کرتا ہوں اور خدا سے اپنے اس عمل کی مغفرت چاہتا ہوں۔

ثواب افطار اور فضیلت علی(ع)

۴ـ          امام رضا(ع) نے اپنے آبائے طاہرین سے روایت کیا کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب(ع) نے کہا کہ ایک دن رسول خدا(ص) نے ہم سے یہ خطبہ بیان فرمایا:

اے لوگو تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے جس میں گناہ معاف ہوتےہیں یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے جس کے دن دوسرے دنوں سے بہتر ہیں جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں اہل کرامت بنایا ہے، اس میں تمہارا

۹۵

سانس لینا تسبیح اور تمہارا سونا عبادت ، تمہارا کردار (عمل) اس میںقبول اور تمہاری دعائیں مستجاب ، تم اچھی نیت لیے اور بری باتوں سے پاک دلوں سے خدا سے سوال کرو تم اس ماہ میں روزہ رکھو اور قرآن کی تلاوت کرو اﷲ تمہیں اس کی توفیق دے بدبخت ہے وہ بندہ جس کی مغفرت اس ماہ میں نہ ہو اور وہ محروم رہے، اس ماہ میں اپنی بھوک پیاس کو محسوس کر کے قیامت کی بھوک پیاس کو تصور کرو اور فقرا اور مساکین کو صدقہ دو بزرگوں کو احترام کرو اور چھوٹوں پر رحم کرو اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو اپنی زبانوں کی حفاظت کو اور جس چیز کا دیکھنا حلال نہیں کیا گیا اس سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو اور جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے حلا نہیںکیا گیا ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو دوسرے لوگوں کے یتیموں پر رحم و محبت کرو تاکہ تمہارے یتیمون  پر رحم و محبت کی جائے اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور نمازوں کے اوقات میں اپنے ہاتھوں کو بلند کرو(تکبیر برائے نماز) کہ یہ بہترین گھڑیاں ہیں جن میں خدا نے اپنے بندوں کی طرف نظرِ رحمت ولطف و کرم کرتا ہے انکی مناجات کا جواب دیتا ہے اور ان کی پکار پر لبیککہتا ہے تو اس وقت درخواست کرو تاکہ وہ تمہاری دعائیں مستجاب کرے  اے لوگو تمہاری جانیں تمہارےکردار کی وجہ سے گروی ہیں انہیں استغفار کے ذریعہ آزاد کراؤ تمہارے دوش (کندھے) تمہارے گناہوں کی وجہ سے بہت زیادہ سخت بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں تم طول سجدہ سے انہیں ہلکا کرو اور جان لو کہ خدا نے اپنی عزت کی قسم کھا رکھی ہے کہ نماز پڑھنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہ کرےگا اور ان کو روز قیامت دوزخ کا خوف نہ دلائے گا اے لوگو کوئی شخص خواہ ایک روز دار کا روزہ افطار کرائے تو خدا اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے عرض کیا گیا یا رسول اﷲ(ص) ہم تمام مہینہ تو اس کی استطاعت نہیں رکھتا فرمایا خدا سے ڈرو اگر چہ نصف کھجور سے ہو یا شربت پانی کے ایک گھونٹ سے اور خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں خوش خلقی کرے گا تو یہ اس کے پل صراط سے گزرنے کا جواز نامہ ہوگا اس دن کے لیے کہ تمام لوگوں کے قدم لغزش میں ہوں گے اور جوشخص اس مہینے میں اپنے مملوکوں (غلاموں) سے کام لینے میں کمی کرے گا تو خدا اس کے حساب میں کمی کردے گا اور جو کوئی خود کو شر سے باز رکھے گا خدا اپنے

۹۶

 غصے کو اس پر سے ہٹائے رہے گا اس دن کہ جس دن خدا سے ملاقات کرے گا، اور جو کوئی کسی  یتیم کو گرامی رکھے گا تو خدا اس روز کہ جس روز اس سے ملاقات ہوگی اس کو گرامی رکھے گا اور جوشخص اس مہینے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کرے گا تو روزِ قیامت خدا اس سے صلہ رحمی کرے گا اور اپنی رحمت سے ملادے گا جو کوئی اپنے رشتہ داروں سے قطع رحم کرے گا تو خدا روزِ ملاقات اس سے اپنی رحمت کو ہٹالے گا اور جو کوئی اس مہینے نمازِ مستحب کو پڑھے گا تو خدا برائت جہنم اس کے لیے لکھے گا  اور جو کوئی اس مہینے واجبات ادا کرے گا اور تو اس کا ثواب ستر(۷۰) واجب بہ نسبت دوسرے مہینوں کے ادا کیا جائے گا  اور جوکوئی مجھ پہر بہت زیادہ صلوات بھیجے  گا تو خدا  اس دن کہ جب اس کی میزان ہلکی ہوگی اسے بھاری کردے گا اور جو کوئی ایک آیتِ قرآن اس مہینہ میں پڑھے گا تو وہ اس شخص جیسا ہوگا کہ جس نے مکمل قرآن ختم کیا ہے اے لوگو! اس مہینہ میں بہشت کے دروازے کھلے ہیں خدا سے دعاکرو کہ وہ ان کتو تم پر بند نہ کرے اور اس نے اس مہینے دوزخ کے دروازے بند کر دیئے ہیں اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ پھر ان کونہ کھولے اور شیاطین اس مہینہ میں قید کردیئے گئے ہیں اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ پھر وہ تم پر مسلط نہ ہوں امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں میں اٹھا اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) کو ن سا عمل اس ماہ میں بہتر ہے فرمایا اے ابو الحسن(ع) بہترین عمل اس مہینے میں خدا کی حرام کی گئی اشیاء سے پرہیز ہے پھر آپ(ص) نے گریہ کیا، میں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ(ص) آپ کیوں محو گریہ ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) مجھے اس امر نے غمزدہ کردیا ہے جو اس ماہ میں تمہارے بارے میں وقوع پذیر ہوگا اے علی(ع) میں دیکھ رہا ہوں کہ جس طرح ایک شقی ازلی نے ناقہِ صالح(ع) کے پاؤں قطع کیے تھے بالکل اسی طرح ایک بدبخت دوران نماز تیرے سر پر تلوار سے ضرب لگائے گا اور تیرے سر اور ڈاڑھی کو تیرے خون سے رنگین کردے گا، امیرالمومنین(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) اس صورت میں میرا دین سالم ہوگا آپ(ص) نے فرمایا ہاں اے علی(ع) ہوگا پھر فرمایا اے علی(ع) جس نے تجھے قتل کیا اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تجھے دشمن رکھا اس نے مجھے دشمن رکھا جو کوئی تجھے دشنام دیتا ہے وہ مجھے دشنام دیتا ہے کیونکہ تیری جان میری جان اور تیری روح میری روح ہے اور تیری طینت میری طینت سے  ہے بیشک خدا نے مجھے تیرے ساتھ برگزیدہ کیا مجھے نبوت کے لیے منتخب کیا

۹۷

اور تجھے امامت کے لیے مقرر کیا جو کوئی تیری امامت کا منکر ہے وہ میری نبوت کا منکر ہے اے علی(ع) تم میرے وصی میرے بیٹوں کے باپ میری بیٹی کے شوہر اور میری امت پر میرے خلیفہ ہو میری زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی تیرا فرمان میرا فرمان اور تیری نہی میری نہی ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبوت  کے لیے اختیار کیا اور بہترین خلق بنایا تم اسکی خلق پر اسکی حجت ہو اور امین ہو اس کے رازوں کے اور اس کے بندوں پر اس کے خلیفہ ہو۔

۹۸

مجلس نمبر۲۱

( سلخ ماہ رمضان سنہ۳۶۷ھ)

فتح خیبر کے بعد فضیلتِ علی(ع)

۱ـ           جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) کہتے ہیں کہ جب فتح خیبر کی خوشخبری رسول خدا(ص) کو سنائی گئی تو آپ(ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کاخیال نہ ہوتا کہ میری امت میں سے ایک جماعت تیرے بارے میں وہی خیال رکھے گی جو نصاری، عیسی بن مریم(ع) کے بارے میں رکھتے ہیں ( معاذ اﷲ ابن خدا) تو میں تیرے بارے میں وہ چیز بیان کرتا کہ لوگ تیرے پاؤں کی مٹی اٹھا کر آنکھوں کو لگاتے اور تیرے وضو کے پانی سے شفا حاصل کرتے مگر اے علی(ع) تیرے لیے یہی فضیلت کافی ہے کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں، تم میرے وارث ہو اور میں تمہارا وارث ہوں، تیری وراثت میری وراثت ہے، تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسی(ع) کو ہارون(ع) سے ہے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور نہ ہوگا تم میری پناہ اور میری ہی روش پر تم جنگ کرو گے( حق اور باطل کے درمیان) اور  کل تم حوض کے کنارے میرے خلیفہ ہوگے اور تم وہ پہلے آدمی ہو جو حوضِ کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچو گے، تم وہ بندہ ہو جو میرے ساتھ لباس پہنو گے، تم اول بندے ہو جو میری امت میں سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوگے، تیرے شیعہ منبر ہائے نور کے کنارے سفید چہروں کے ساتھ میرے گرد ہوںگے اور میں ان کی شفاعت کروں گا اور وہ کل بہشت میں میرے پڑوسی ہونگے اور بیشک تیرے ساتھ جنگ میرے ساتھ جنگ ہے، تیرے ساتھ سازش میرے ساتھ سازش ہے، تیرا راز میرا راز اور تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے اور تیرے سینہ کا راز میرے سینے کا راز کی طرح ہے، تیرے فرزند میرے فرزند ہیں، تم ہی میرے وعدے پر عمل کرو گے، حق تیرے ساتھ ہے اور تیری زبان پر جاری ہے اور تیرے دل پر اور دو آنکھوں کے درمیان ایمان کا نور ہے اور تیرے گوشت اور تیرے خون کے ساتھ ملا ہوا ہے جیسا کہ میرے

۹۹

گوشت اور خون کے ساتھ ملا ہوا ہے اور تیرا دشمن حوض پر میرے پاس داخل نہ ہوگا اور تیرا دوست پوشیدہ نہ ہوگا یہاں تک کہ تیرے ساتھ حوض پرآئے گا یہ سن کر علی(ع) نےسجدہ شکر ادا کیا اور کہا حمد ہے اس خدا کی کہ جس نے مجھے نعمت دینی عطا کی اور مجھے قرآن کی تعلیم دی مجھے خاتم النبیین کے ساتھ خیر سے خلق کیا اور اپنے احسان و فضل کو مجھے عطا کیا، پیغمبر(ص) نے فرمایا اگر تم نہ ہوتے تو مومنین میرے بعد پہچانے نہ جاتے۔

۲ـ           ابن عباس(رض) ایک مجلس قریش کے پاس سے گزرے انھوں نے دیکھا کہ وہ لوگ علی(ع) کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ابن عباس(رض) نے ان کےقائد سے کہا یہ کیا کہتے ہیں اس نے کہا یہ علی(ع) کو دشنام دیتے ہیں ابن عباس(رض) نے کہا مجھے ان کے پاس لے چلو، جس وقت ان کے پاس جا کر کھڑے ہوئے تو کہا تم میں سے کون ہے جو خدا کو دشنام دیتا ہے کہنے لگے نعوذ باﷲ کون دشنام دے سکتا ہے کہ اس نے خدا کا شریک بنایا ابن عباس نے کہا تم میں سے کون ہے جو رسول خدا(ص) کو دشنام دیتا ہے وہ کہنے لگے کہ جو کوئی رسول خدا(ص) کو دشنام دے وہ کافر ہے ابن عباس(رض) نے کہاکون ہے تم میں سے جو علی بن ابی طالب(ع) کو دشنام دیتاہے وہ کہنےلگے کہ ہم میں بعض ایسا کرتے ہیں ابن عباس نے فرمایا میں خدا کو گواہ کرتا ہوں اور اس کے لیے ادائے شہادت کرتا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی علی(ع) کو دشنام دے اس نے مجھے دشنام دی اور جو کوئی مجھے دشنام دے اس نے خدا کو دشنام دی۔ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ جب آپ نے ان لوگوں کو یہ بتایا تو انہوں نے کیاجواب دیا ابن عباس فرماتے ہیں کہ انہوں نے کوئی رد عمل زبانی طور پر ظاہر نہیں کیا مگر سرخ آنکھوں  سے اس طرح گھورتے تھے جیسے قصاب جانور کو ذبح کرنےسے پہلے دیکھتا ہے ان کے ابرؤ تنے ہوئے گردن اکڑی ہوئی  اور نگاہوں میں قہر تھا۔ اس کے بعد ابن عباس(رض) خود فرماتے ہیں کہ جب تک یہ لوگ زندہ ہیں ان کی زندگی باعثِ ننگ دعا رہوگی اور مرنے کے بعد رسوائی ان کا مقدر اور باقی ان کی رسوائی رہے گی۔

۳ـ          ابوبصیر کہتے ہیں کہ انھوں نے امام صادق(ع) سے سنا کہ جو کوئی چار رکعت نماز پڑھے اور اس میں دو سو دفعہ” قل ہو اﷲ“ پڑھے ( ہر رکعت میں پچاس دفعہ) تو خدا اس کے تمام گناہ جو بھی اس سے سرزد ہوئے ہوں گے معاف کردے گا۔

۱۰۰