فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون0%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيه الله ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 293
مشاہدے: 82278
ڈاؤنلوڈ: 3142

تبصرے:

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82278 / ڈاؤنلوڈ: 3142
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کے سینے تک جا پہنچے آپ اپنے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیتے اور فرماتے خدایا میں حسن(ع) اور حسین(ع) کو دوست رکھتا ہوں(۱) _

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جناب حسن(ع) اور حسین(ع) پیغمبر(ص) کے سامنے کشتی کرتے تھے_ پیغمبر(ص) امام حسن (ع) کو فرماتے شاباش حسن (ع) شاباش حسن (ع) _ جناب فاطمہ (ع) عرض کرتیں یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) باوجودیکہ حسین (ع) سے بڑا ہے آپ انہیں حسین (ع) کے خلاف شاباش اور تشویق دلا رہے ہیں_

آپ(ص) نے جواب دیا کہ حسین (ع) باوجودیکہ حسن (ع) سے چھوٹے ہیں لیکن شجاعت اور طاقت میں زیادہ ہیں اور پھر جناب جبرئیل حسین(ع) کو تشویق اورشاباش دے رہے ہیں _(۲)

جابر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول خدا(ص) پاؤں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور آپ کی پشت پر حسن (ع) اور حسین سوار ہیں اور فرما رہے تھے تمہارا اونٹ سب سے بہتر اونٹ ہے اور تم بہترین سوار ہو_(۲)

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اجداد سے روایت کی ہے کہ جناب حسن (ع) اور حسین (ع) کافی رات تک جناب رسول خدا(ص) کے گھر میں کھیلتے رہتے تھے جناب رسولخدا اس کے بعد ان سے فرماتے کہ اب اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ جب آپ گھر سے باہر نکلنے تو بجلی چمکتی اورراستہ روشن ہوجاتا اور اپنے گھر تک جا پہنچے_ اور پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ اس اللہ کا شکر کہ جس نے ہم اہلبیت کو معظم قرار دیا ہے_(۴)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۶۵_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۵_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۶۶_

۱۰۱

حصّہ چہارم

فضائل حضرت زہرا(ع)

۱۰۲

پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ بہترین عورتیں چار ہیں، مریم دختر عمران، فاطمہ (ع) دختر محمد(ص) ، خدیجہ بنت خویلد، آسیہ زوجہ فرعون _(۱)

پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ بہشت کی عورتوں میں سے بہترین عورت فاطمہ (ع) ہیں_(۲)

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی، عرش سے اللہ کا منادی ندا دے گا، لوگو اپنی آنکھیں بند کر لو تا کہ فاطمہ (ع) پل صراط سے گزر جائیں_(۳)

پیغمبر (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ خدا تیرے واسطے سے غضب کرتا ہے اور تیری خوشنودی کے ذریعہ خوشنود ہوتا ہے _(۴)

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ میںنے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۷۶_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۷۶_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۳، ذخائز العقبی ، ص ۴۸_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۴_ سدالغابہ، ج ۵ ص ۵۳۲_

۱۰۳

کسی کو جناب فاطمہ (ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا_(۱)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم، اللہ نے فاطمہ (ع) کو علم کے وسیلہ سے فساد اور برائیوں سے محفوظ رکھا ہے _(۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے جناب فاطمہ (ع) اللہ تعالی کے یہاں نوناموں سے یاد کی جاتی ہے_ فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا، فاطمہ (ع) کے نام رکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ برائیوں اور فساد سے محفوظ اور معصوم ہیں، اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا_(۳)

جناب امام محمد باقر(ع) سے پوچھا گیا کہ جناب فاطمہ (ع) کا نام زہراء کیوں رکھا گیا؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ خدا نے آپ کو اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا ہے آپ کے نور سے زمین اور آسمان اتنے روشن ہوئے کہ ملائکہ اس نور سے متاثر ہوئے اور وہ اللہ کے لئے سجدہ میںگر گئے اور عرض کی خدایا یہ کس کا نور ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میری عظمت کے نور سے ایک شعلہ ہے کہ جسے میں نے پیدا کیا ہے اور اسے آسمان پر سکونت دی ہے اسے پیغمبروں میں سے بہترین پیغمبر(ص) کے صلب سے پیدا کروں گا اور اسی نور سے دین کے امام اور پیشوا پیدا کروں گا تا کہ لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کریں وہ پیغمبر(ص) کے جانشین اور خلیفہ ہوں گے_(۴)

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_ ذخائر العقبی ، ص ۴۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۰_

۱۰۴

پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا بیٹی خداوند عالم نے دینا کی طرف پہلی دفعہ توجہ اورمجھے تمام مردوں پرچنا، دوسری مرتبہ اس کی طرف توجہ کی تو تمہارے شوہر علی(ع) کو تمام لوگوں پر چنا، تیسری مرتبہ اس کی طرف توجہ کی تو تمہیں تمام عالم کی عورتوں پر برتری اور فضیلت دی، چوتھی مرتبہ توجہ کی تو حسن (ع) اور حسین (ع) کو جنت کے جوانوں پر امتیاز دیا _(۱)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہشت چہار عورتوں کے دیکھنے کی مشتاق ہے ، پہلے مریم دختر عمران، دوسری آسیہ فرعون کی بیوی ، تیسری خدیجہ دختر خویلد ، چہوتھی فاطمہ (ع) دختر محمد (ص) _(۲)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اس کی اذیت میری اذیت ہے اور اس کی خوشنودی میری خوشنودی ہے _(۳)

پیغمبر(ص) نے اس حالت میں جب کے فاطمہ (ع) ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فرمایا جو شخص اسی پہچانتا ہے تو وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ یہ فاطمہ(ع) پیغمبر (ص) کی دختر ہے اور میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میرا دل اور روح ہے جو شخص اسے ذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جوشخص مجھے اذیت دے گا اس نے خدا کو اذیت دی ہے _(۴)

جناب ام سلمہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شباہت پیغمبر اسلام (ص) سے

____________________

ا_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ا۹_

۲_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۲_

۳_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۳_

۴_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۲ اور الفصول المہمہ مولفہ ابن صباغ نجف ، ص ۲۸ا_

۱۰۵

جناب فاطمہ (ع) کو تھی(ا) _

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) انسانوں کی شکل میں جنت کی حور ہیں _(۲)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگی_(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) کا نام فاطمہ (ع) اس لئے رکھا گیا ہے کہ لوگوں کو آپ کی حقیقت کے درک کرنے کی قدرت نہیں ہے _(۴)

پیغمبر(ص) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن و حسین کو ایک نور سے پیدا کیا ہے_(۵)

ابن عباس فرماتے ہیںکہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ وہ کلمات کہ جو اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بتلائے اور ان کی وجہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی وہ کیا تھے؟ آپ نے فرمایا کہ جناب آدم نے خدا کو محمد(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے حق کی قسم دی اسی وجہ سے آپ کی توبہ قبول ہوئی _(۶)

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۷_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۵۳_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۴۳ ص ۴۴_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۶۵_

۵) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۱_

۶) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۱_

۱۰۶

پیغمبر(ص) نے فرمایا اگر علی نہ ہو تے تو جناب فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا _(۱)

پیغمبر(ص) فرماتے ہیں کہ جب میں معراج پر گیا تو بہشت کی سیر کی میں نے جناب فاطمہ (ع) کا محل دیکھا جس میں ستر قصر تھے کہ جو لولو اور مرجان سے بنانے گئے تھے_(۲)

پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ جانتی ہو کہ کیوں تیرا نام فاطمہ (ع) رکھا گیا ہے؟ حضرت علی (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ (ص) کیوں فاطمہ (ع) نام رکھا گیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا چوں کہ آپ اور اس کے پیروکار دوزخ کی آگ سے امان میںہیں _(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ (ع) کو زیادہ بوسہ دیا کرتے تھے ایک روز جناب عائشےہ نے اعتراض کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے جواب میں فرمایا جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں بہشت میں داخل ہوا، جبرئیل مجھے طوبی کے درخت کے نزدیک لے گئے اور اس کا میوہ مجھے دیا میں نے اس کو کھایا تو اس سے نطفہ وجود میں آیا، جب میں زمین پر آیا اور جناب خدیجہ(ع) سے ہمبستر ہوا تو اس سے جناب فاطمہ (ع) کا حمل ٹھہرا یہی وجہ ہے کہ جب میں فاطمہ (ع) کو بوسہ دیتا ہوں تو درخت طوبی کی خوشبو میرے شام میں پہنچتی ہے _(۴)

ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن علی (ع) اورفاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) پیغمبر(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توپیغمبر(ص) نے فرمایا اے خدا مجھے علم ہے کہ یہ میرے اہلبیت

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۸_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۷۶_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۴_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۶_

۱۰۷

ہیں اور میرے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھ ان کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما انہیں تمام برائیوں سے پاک رکھ اور تمام گناہوں سے محفوظ رکھ روح القدس کے ذریعے ان کی تائید فرما اس کے بعد آپ نے فرمایا، یا علی (ع) تم اس امت کے امام اور میرے جانشین ہو اور مومنین کو بہشت کی طرف ہدایت کرنے والے ہو، گویا میں اپنی بیٹی کو دیکھ رہا ہوں کہ قیامت کے دن ایک نورانی سواری پرسوارہے کہ جس کے دائیں جانب ستر ہزار فرشتے اور بائیں جانب ستر ہزار فرشتے اس کے آگے ستر ہزار فرشتے اور اس کے نیچے ستر ہزار فرشتے چل رہے ہیں اور تم میری امت کی عورتوں کو بہشت میں لئے جا رہی ہو پس جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے خانہ کعبہ کا حج بجالائے اور اپنے مال کو زکوة ادا کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے اور علی ابن ابیطالب کو دوست رکھتی ہو وہ جناب فاطمہ (ع) کی شفاعت سے بہشت میں داخل ہوگی، فاطمہ (ع) دنیا کی عورتوں میں سے بہترین عورت ہے_

عرض کیا گیا یا رسول اللہ (ص) فاطمہ (ع) اپنے زمانے کی عورتوں سے بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تو جناب مریم ہیں کہ جو اپنے زمانے کی عورتوں سے بہتر ہیں، میری بیٹی فاطمہ (ع) تو پچھلی اور ا گلی عورتوں سے بہتر ہے، جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اللہ تعالی کے ستر ہزار مقرب فرشتے اسے سلام کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں اے فاطمہ (ع) اللہ نے تجھے چنا ہے اور پاکیزہ کیا ہے اور تمام عالم کی عورتوں پرتجھے برتری دی ہے_

اس کے بعد آپ علی (ع) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یاعلی (ع) ، فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میری آنکھوں کا نور اور دل کا میوہ ہے جو بھی اسے تکلیف دے

۱۰۸

اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اسے خشنود کیااس نے مجھے خوشنود کیا فاطمہ (ع) پہلی شخصیت ہیں جو مجھ سے ملاقات کریں گی میرے بعد اس سے نیکی کرنا، حسن (ع) اور حسین (ع) میرے فرزند ہیں اور میرے پھول ہیں اور جنت کے جوانوں سے بہتر ہیں انہیں بھی آپ آنکھ اور کان کی طرح محرّم شمار کریں_

اس کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا اے میرے خدا تو گواہ رہنا کہ میں ان کے دوستون کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھتا ہوں_(۱)

فاطمہ (ع) کا علم و دانش

عمار کہتے ہیں ایک دن حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) آپ میرے نزدیک آئیں تا کہ میں آپ کوگزشتہ اور آئندہ کے حالات بتلاؤں، حضرت علی (ع) ، فاطمہ (ع) کی اس گفتگو سے حیرت میں پڑ گئے اور پیغمبر (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور سلام کیا اور آپ کے نزدیک جا بیٹھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آپ بات شروع کریں گے یا میں کچھ کہوں؟ حضرت علی (ع) نے عرض کی کہ میں آپ کے فرمان سے استفادہ کرنے کو دوست رکھتا ہوں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا گویا آپ سے فاطمہ (ع) نے یہ کہا ہے اور اسی وجہ سے تم نے میری طرف مراجعت کی ہے_ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) کیا فاطمہ (ع) کا نور بھی ہمارے نور سے ہے_ پیغمبر(ص) نے فرمایا کیا آپ کو علم نہیں ہے؟ حضرت علی (ع) یہ بات

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴_

۱۰۹

سن کر سجدہ شکر میں گر گئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا_

اس کے بعد جناب فاطمہ (ع) کے پاس لوٹ آئے_ حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) گویا میرے بابا کے پاس گئے تھے اور آپ(ص) نے یہ فرمایا؟ آپ نے فرمایا ہاں اے دختر پیغمبر (ص) _ فاطمہ (ع) نے فرمایا ، اے ابوالحسن (ع) خداوند عالم نے میرے نور کو پیدا کیا اور وہ اللہ تعالی کی تسبیح کرتا تھا اس وقت اللہ تعالی نے اس نور کو بہشت کے ایک درخت میں ودیعت رکھ دیا میرے والد بہشت میں داخل ہوئے تو اللہ تعالی نے آپ کو حکم یا کہ اس درخت کامیوہ تناول کریں، میرے والد نے اس درخت کے میوے تنال فرمائے اسی ذریعہ سے میرا تور آپ(ص) کے صلب میں منتقل ہوگیا اورمیرے بابا کے صلب سے میری ماں کے رحم میں وارد ہوا_ یا علی (ع) میں اسی نور سے ہوں اور گزشتہ اور آئندہ کے حالات اور واقعات کو اس نور کے ذریعہ پالیتی ہوں_ یا ابالحسن، مومن نور کے واسطے سے خدا کو دیکھتا ہے_(۱)

امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت فاطمہ (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی کہ میری ماں عاجز ہے اسے نماز کے بارے میں بعض مشکل مسائل در پیش ہیںمجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ میںآپ سے سوال کروں، اس نے مسئلہ پیش کیا اور جناب فاطمہ (ع) نے اس کا جواب دیا اس عورت نے دوسری دفعہ دوسرا مسئلہ پوچھا جناب فاطمہ (ع) نے اس کا بھی جواب دیا، اس عورت نے تیسری دفعہ پھر تیسرا مسئلہ پوچھا اور اسی طرح آپ سے دس مسئلے پوچھے اور حضرت زہرا (ع) نے سب کے جواب دیئے اس کے بعد وہ عورت

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴_

۱۱۰

زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے شرمسار ہوئی اور عرض کی، دختر رسول(ص) اب اور میں مزاحم نہیں ہوتی آپ تھک گئی ہیں، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا شرم نہ کر جو بھی سوال ہو پوچھو تا کہ میں اس کا جواب دوں_ میں تیرے سوالوں سے نہیں تھکتی بلکہ کمال محبت سے جوال دوں گی اگر کسی کو زیادہ بوجھ چھت تک اٹھا کرلے جانے کے لئے اجرت پر لیا جائے اور وہ اس کے عوض ایک لاکھ دینار اجرت لے تو کیا وہ بارے کے اٹھانے سے تھکے گا؟ اس عورت نے جواب دیا نہیں، کیوں کہ اس نے اس بار کے اٹھانے کی زیادہ مزدورں وصول کی ہے حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ خدا ہر ایک مسئلے کے جواب میں اتنا ثواب عنایت فرماتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے کہ زمین اور آسمان کو مروارید سے پر کر دیا جائے تو کیااس کے باوجود میںمسئلے کے جواب دینے میں تھکوں گی_

میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ میرے شیعوں کے علماء قیامت میں محشور ہوں گے اور خدا ان کے علم کی مقدار اور لوگوں کو ہدایت اور ارشاد کرنے میں کوشش اور جد و جہد کے مطابق خلعت اور ثواب عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ ان میں سے ایک کو دس لاکھ حلے نور کے عطا فرمائے گا اور اس کے بعد حق کامنادی ندا دے گا، اے وہ لوگو کو جنہوں نے آل محمد(ص) کے یتیموں کی کفالت کی ہے، اور اس زمانے میں کہ ان کے امام کا سلسلہ ان سے منقطع ہوچکا تھا یہ لوگ تمہارے شاگرد تھے اور وہ یتیم ہیں کہ جو تمہاری کفالت کے ماتحت اپنی دینداری پر باقی رہے ہیں اور ارشاد اورہدایت کرتے رہے ہیں، جتنی مقدار انہوں نے تمہارے علوم سے استفادہ کیا ہے ان کو بھی خلعت دو اس وقت میری امت کے علماء اپنے پیروکاروں

۱۱۱

کو خلعت عطا فرمائیں گے، پھر وہ پیروکار اور شاگرد اپنے شاگروں کو خلعت دیں گے، جب لوگوں میں خلعت تقسیم ہوچکے گی تو اللہ کی طرف سے دستور دیا جائے گا جو خلعت علماء نے تقسیم کی ہیں ان کو مکمل کیا جائے یہاں تک کہ سابقہ تعداد کے برابر ہوجائے، پھر دستور ملے گا کہ اسے دوبرابر کردو اور اس طرح ان کے پیروکاروں کو بھی اسی طرح دو_

اس وقت جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا: اے کنیز خدا اس خلعت کا ایک دھاگا ہزار درجہ اس چیز سے بہتر ہوگا جس پر سورج چمکتا ہے اس لئے کہ دنیاوی امور مصیبت اور کدورت سے آلودہ ہوتے ہیں، لیکن اخروی نعمات میںکوئی نقص اور عیب نہیں ہوتا _(۱)

امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو عورتیں کہ ان میں سے ایک مومن اور دوسری معاند اور دشمن تھی، ایک دینی مطلب میں آپس میں اختلاف رکھتی تھیں اس اختلاف کے حل کرنے کے لئے جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے مطلب کو بتلایا چونکہ حق مومن عورت کے ساتھ تھا تو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی گفتگو اور دلائل اور برہان سے اس کی تائید کی اور اس ذریعے سے اس پر فتح مند کردیا اور وہ مومن عورت اس کامیابی سے خوشحال ہوگئی_ جناب فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت سے فرمایا کہ اللہ تعالی کے فرشتے تجھ سے زیادہ خوشحال ہوئے ہیں اور شیطان اور اس کے پیروکاروں پرغم و اندوہ اس سے زیادہ ہوا ہے جو اس معاند اوردشمن عورت پر وارد ہوا ہے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲ ص ۳_

۱۱۲

اس وقت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا اس وجہ سے خدا نے فرشتوں سے فرمایا ہے کہ اس خدمت کے عوض جو فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت کے لئے انجام دی ہے، بہشت اور بہشتی نعمتوں کو اس سے جو پہلے سے مقرر تھیں کئی ہزار گناہ مقرر کردیا جائے اور یہی روش اور سنت اس عالم کے بارے میں بھی جاری کی جاتی ہے جو اپنے علم سے کسی مومن کو کسی معاند پر فتح دلاتا ہے اور اس کے ثواب کو اللہ تعالی کئی کئی ہزار برابر مقرر کردیتا ہے_(۱)

فاطمہ (ع) کا ایمان اور عبادت

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی کا ایمان فاطمہ (ع) کے دل کی گہرائیوں اور روح کے اندر اتنا نفوذ کر چکا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کے لئے اپنے آپ کو ہر ایک چیز سے مستغنی کرلیتی ہیں _(۲)

امام حسن علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری والدہ شب جمعہ صبح تک اللہ تعالی کی عبادت میںمشغول رہتی تھیں اور متواتر رکوع اور سجود بجالاتی تھیں یہاں تک کہ صبح نمودار ہوجاتی میں نے سنا کہ آپ مومنین کے لئے نام بنام دعا کر رہی ہیں لیکن وہ اپنے لئے دعا نہیں کرتی تھیں میں نے عرض کی امّاں جان: کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتیں؟ آپ(ع) نے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲ ص ۸_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۶_

۱۱۳

فرمایا پہلے ہمسائے اور پھر خود _(۱)

امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ جناب فاطمہ زہرا(ع) تمام لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والی تھیں اللہ تعالی کی عبادت میں اتنا کھڑی رہتیں کہ ان کے پاؤں ورم کرجاتے _(۲)

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے تھے کہ میری بیٹی فاطمہ عالم کی عورتوں سے بہترین عورت ہیں، میرے جسم کا ٹکڑا ہیں، میری آنکھوں کا نور، دل کا میوہ اور میری روح رواں ہیں، انسان کی شکل میںحور ہیں، جب عبادت کے لئے محراب میں کھڑی ہوتیں تو آپ کا نور فرشتوں میں چمکتا تھا، خداوند عالم نے ملائکہ کوخطاب کیا کہ میری کنیز کو دیکھو میرے مقابل نماز کے لئے کھڑی ہے اور اس کے اعضاء میرے خوف سے لرز رہے ہیں اور میری عبادت میں فرق ہے، ملائکہ گواہ ہو میں نے فاطمہ (ع) کے پیروکاروں کو دوزخ کی اگ سے مامون قرار دے دیا ہے _(۳)

البتہ جو شخص قرآن کے نزول کے مرکز میں پیدا ہو اور روحی کے دامن میں رشد پایا اورغور کیا ہو اور دن رات اس کے کان قرآن کی آواز سے آشنا ہوں اور محمد(ع) جیسے باپ کی تربیت میں رہا ہو کہ آنجناب اس قدر اللہ تعالی کی عبادت کرتے کہ آپ کے پائے مبارک ورم کرجاتے تھے اور علی جیسے شوہر کے گھر رہی ہو تو اسے اہل زمان کے افراد سے عابدترین انسان ہونا

____________________

۱) کشف الغمہ،ج ۲ ص ۱۴ و دلائل الامامہ، ص ۵۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص۷۶_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۲_

۱۱۴

ہی چاہیئےسے عبادت میںاتنا بلند مقام رکھنا چاہیئے اور ایمان اس کی روح کی گہرائیوں میں سماجاتا چاہیئے_

بابرکت ہار

جابربن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن عصر کی نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھی آپ کے اصحاب آپ کے ارد گرد بیٹھے تھے، اچانک ایک آدمی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا لباس پرانا اور پھٹا ہوا اور سخت بڑھا پے کی وجہ سے اپنی جگہ پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی مزاج پرسی کی، یا رسول اللہ(ص) میں ایک بھوکا آدمی ہوں مجھے سیر کیجئے ننگاہوں مجھے لباس عنایت فرمایئےور خالی ہاتھ ہوں مجھے کچھ عنایت فرمایئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سر دست تو میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن میںتجھے ایک جگہ کی راہنمائی کرتا ہوں شاید وہاں تیری حاجت پوری ہوجائے_ اس شخص کے گھر جا کہ جو خداوند اور رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور رسول اسے دوست رکھتے ہیں جا میری بیٹی فاطمہ (ع) کے گھر کہ شاید تجھے وہ کوئی چیز عنایت فرما دے آپ اس کے بعد بلال سے فرمایا کہ اسے فاطمہ (ع) کا گھر کھلا آؤ_

جناب بلال اس بوڑھے کے ساتھ جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے، بوڑھے نے عرض کی سلام ہو میرا خانوادہ اہلبیت پر کہ جو فرشتوں کے نازل ہونے کا مرکز ہے جناب فاطمہ (ع) نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تم کون ہو؟ اس نے عرض کیا کہ میں ایک فقیر ہوں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں گیا تھا انہوں نے

۱۱۵

مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اے دختر پیغمبر(ص) بھوکا ہوں سیر کیجئے، برہنہ ہوں لباس مجھے پہنایئےفقیر ہوں کوئی چیز عنایت فرمایئےجناب فاطمہ جاتی تھیں کہ گھر میں کوئی غذا موجود نہیں ہے ایک گوسفند کی کھال ہے کہ جو امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے فرش کے لئے تھی اسے دی اس نے عرض کی یہ چمڑے کی کھال میری زندگی کی اصلاح کہاں کرسکتی ہے_ جناب فاطمہ (ع) نے ایک ہار جو آپ کے چچا کی لڑکی نے بطور ہدیہ دیا تھا اس فقیر کو دے دیا اور فرمایا اسے فروخت کر کے اپنی زندگی کی اصلاح کرلے_

وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں لوٹ آیا اور تمام قصہ بیان کیا، آپ رودیئےور فرمایا کہ اس ہار کو فروخت کر ڈالوتا کہ میری بیٹی کے عطیے کی برکت سے خدا تیری کشائشے کردے_

عمار یاسر نے جناب رسول خدا(ص) سے اجازت لی کہ اس ہار کو خرید لوں اس بوڑھے سے پوچھا کہ اسے کتنے میں فروخت کروگے؟ اس نے کہا کہ اتنی قیمت پر کہ روٹی اور گوشت سے میرا پیٹ سیر ہوجائے ایک یمانی چادر جسم کے ڈھانپے کے لئے ہوجائے کہ جس میں نماز پڑھوں اور ایک دینار کہ میں اپنے گھر اور اہل و عیال کے پاس جاسکوں_

عمار نے کہا میں اس ہار کو بیس دینار اور دو سو درہم اور ایک برد یمانی اور ایک سواری کا حیوان اور روٹی اور گوشت کے عوض خریدتا ہوں اس بوڑھے نے ہار جناب عمار کو فروخت کردیا اور معاوضہ لے لیا اور پیغمبر(ص) کی خدمت میں لوٹ آیا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا کہ تمہاری حاجت پوری ہوئی، اس نے عرض کی ہاں، میں جناب فا طمہ (ع) کی بخشش کی بدولت بے نیاز ہوگیا ہوں کہ خداوند عالم اس کے عوض جناب فاطمہ (ع)

۱۱۶

کو ایسی چیز دے کہ نہ آنکھ دیکھی ہو اور نہ کان نے سنی ہو_

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحاب سے فرمایا کہ خداوند عالم نے اسی دنیا میں اس قسم کی چیز جناب فاطمہ (ع) کو عطا کردی ہے کیونکہ اسے مجھ جیسا باپ اور علی جیسا شوہر اور حسن (ع) اور حسین (ع) جیسے فرزند عنایت فرمائے ہیں، جب عزرائیل فاطمہ (ع) کی روح قبض کرے گا اور اس سے قبر میں سوال کرے گا کہ تیرا پیغمبر کون ہے؟ تو جواب دے گی میرا باپ، اور اگر پوچھے گاتیرا امام کون ہے تو جواب دے گی میرا شوہر علی بن ابیطالب(ع) ، خداوند عالم نے ملائکہ کی ایک جماعت کی ڈیوٹی لگادی ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد ہمیشہ ان پراور ان کے والد اور شوہر پر درود بھیجتے رہیں_ خبردار ہو جو شخص میرے مرنے کے بعد میری زیارت کوآئے تو وہ اس کے مانند ہے کہ وہ میری زندگی میں زیارت کو آیا ہے اور جو شخص فاطمہ (ع) کی زیارت کو جائے اس کے مثل ہے کہ اس نے میری زیارت کی_

جناب عمار نے وہ ہار لیا اور اسے خوشبو لگائی اور یمانی کپڑے میں لپیٹ کر اپنے غلام کو دیا اور کہا کہ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے جاکر حاضر کرو میں نے تجھے بھی آنجناب کو بخش دیا ہے_ جب وہ غلام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میںگیا تو حضرت نے وہ ہار مع غلام کے جناب فاطمہ علیہا السلام کو بخش دیا_ جناب فاطمہ علیہا السلام نے وہ ہار لیا اور اس غلام کو آزاد کردیا_ جب غلام آزاد ہوا تو ہنسنے لگا جب اس سے ہنسنے کی علت پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ اس ہار کی برکت پر مجھے تعجب ہوا ہے کیونکہ اس نے بھوکے کو سیر کیا ہے، برہنہ کو کپڑا پہنایا، فقیر کو غنی

۱۱۷

کردیا، غلام کو آزاد کردیا اور پھر وہ اپنے مالک کے پاس لوٹ گیا _(۱)

پیغمبر(ص) کی فاطمہ (ع) سے محبت اوران کا احترام

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) بات کرنے میں تمام لوگوں کی نسبت پیغمبر(ص) سے زیادہ شباہت رکھتی تھی، جب آپ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاتیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کا ہاتھ پکڑتے اوراسے بوسہ دیتے اورجناب فاطمہ (ع) کو اپنی جگہ بٹھاتے اور جب رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے پاس جاتے تو آپ والد کے احترام کے لئے کھڑی ہوجاتیں اور آپ کے ہاتھ چومتیں اور اپنی جگہ آپ کوبٹھلاتیں _(۲)

ایک دن جناب عائشےہ نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کو بوسہ دے رہے ہیں تو عرض کیا یا رسول اللہ(ص) اب بھی آپ فاطمہ (ع) کو چومتے میں کتنا فاطمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں تو تیری محبت بھی اس کے ساتھ زیادہ ہوجاتی، فاطمہ (ع) یہ انسان کی شکل وصورت میں حور ہیں، جب بھی میں بہشت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو اسے بوسہ د یتا ہوں _(۳)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۵۶_

۲) کشف ا لغمہ، ج ۲ ص ۷۹_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ص ۸۵_

۱۱۸

علی بن ابیطالب نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا یا رسول اللہ(ص) مجھے زیادہ دوست رکھتے ہیں یا فاطمہ (ع) کو؟ تو آپ نے فرمایا تم عزیزترین ہو اور فاطمہ محبوت تر(۱) _

جناب فاطمہ (ع) فرماتی ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی کر:

( لاتجعلوا دعا الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا )

یعنی پیغمبر کو اپنی طرح آواز نہ دیا کرو_ تو میں اس کے بعد اباجان کے لفظ سے آپ کو خطاب نہ کرتی تھی اور یا رسول اللہ(ص) کہا کرتی تھی، کئی دفعہ میں نے آپ کو اسی سے آواز دی تو آپ نے میرا جواب نہ دیا اور اس کے بعد فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) یہ آیت تمہارے اورتمہاری اولاد کے بارے میں نازل نہیں ہوئی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، یہ آیت قریش کے متکبر افراد کے لئے نازل ہوئی ہے، تم مجھے ابّا کہہ کر پکارا کرو کیونکہ یہ لفظ میرے دل کو زندہ کرتا ہے اور پروردگار عالم کو خشنود کرتا ہے(۲) _

جناب عائشےہ سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو آپ نے کہا کہ فاطمہ (ع) ، اس کے بعد پوچھا گیا کہ مردوں میں سے زیادہ محبوب کون تھا تو آپ نے کہا فاطمہ (ع) کے شوہر علی (ع) _(۳)

جب تک پیغمبر(ص) فاطمہ (ع) کو چوم نہ لیتے سویا نہیں کرتے تھے(۴) _

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۸_

۲) بیت الاحزان، ص ۱۰_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۸_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۳_

۱۱۹

پیغمبر(ص) جب سفر کو جاتے تھے تو آخری آدمی جسے وداع فرماتے تھے فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو پہلا شخص جس کی ملاقات کو جلدی جاتے فاطمہ (ع) ہوتیں(۱) _

پیغمبر(ص) فرماتے تھے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے خوشنود کرے گا اس نے مجھے خوشنود کیا، اور جو شخص اسے اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی سب سے عزیزترین میرے نزدیک فاطمہ (ع) ہیں(۲) _

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول خدا(ص) حد سے زیادہ اور معمول اور متعارف سے بڑھ کر جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار اس حد تک کرتے تھے کہ بسا اوقات اعتراض کئے جاتے تھے البتہ ہر باپ کو طبعی طور پر اولاد سے محبت ہوتی ہے لیکن جب محبت اورتعلق معمول سے تجاوز کرجائے تو اس کی کوئی خاص وجہ اور علت ''جو فطری محبت کے علاوہ ہو، ہونی چاہیئے، ممکن ہے حد سے زیادہ محبت کا اظہار جہالت اور کوتاہ فکری کی وجہ سے ہو لیکن اس علت کی پیغمبر(ص) کی ذات کی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی،کیونکہ اللہ تعالی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق فرماتا ہے:( انک العلی خلق عظیم ) (۳) _ ''یعنی خلق عظیم کے مالک ہو_

پیغمبر(ص) کے تمام کا وحی الہی کے ماتحت ہوا کرتے تھے اللہ تعالی فرماتا ہے( ان هو الا وحيٌ یوحی ) (۴) _

____________________

۱) دخائر العقیی ، ص ۳۷_

۲) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۳۲_

۳) سورہ قلم آیت ۴_

۴) سورہ نجم آیت ۴_

۱۲۰