فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون26%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 101995 / ڈاؤنلوڈ: 4597
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

کے سینے تک جا پہنچے آپ اپنے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیتے اور فرماتے خدایا میں حسن(ع) اور حسین(ع) کو دوست رکھتا ہوں(۱) _

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جناب حسن(ع) اور حسین(ع) پیغمبر(ص) کے سامنے کشتی کرتے تھے_ پیغمبر(ص) امام حسن (ع) کو فرماتے شاباش حسن (ع) شاباش حسن (ع) _ جناب فاطمہ (ع) عرض کرتیں یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) باوجودیکہ حسین (ع) سے بڑا ہے آپ انہیں حسین (ع) کے خلاف شاباش اور تشویق دلا رہے ہیں_

آپ(ص) نے جواب دیا کہ حسین (ع) باوجودیکہ حسن (ع) سے چھوٹے ہیں لیکن شجاعت اور طاقت میں زیادہ ہیں اور پھر جناب جبرئیل حسین(ع) کو تشویق اورشاباش دے رہے ہیں _(۲)

جابر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول خدا(ص) پاؤں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور آپ کی پشت پر حسن (ع) اور حسین سوار ہیں اور فرما رہے تھے تمہارا اونٹ سب سے بہتر اونٹ ہے اور تم بہترین سوار ہو_(۲)

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اجداد سے روایت کی ہے کہ جناب حسن (ع) اور حسین (ع) کافی رات تک جناب رسول خدا(ص) کے گھر میں کھیلتے رہتے تھے جناب رسولخدا اس کے بعد ان سے فرماتے کہ اب اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ جب آپ گھر سے باہر نکلنے تو بجلی چمکتی اورراستہ روشن ہوجاتا اور اپنے گھر تک جا پہنچے_ اور پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ اس اللہ کا شکر کہ جس نے ہم اہلبیت کو معظم قرار دیا ہے_(۴)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۶۵_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۵_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۶۶_

۱۰۱

حصّہ چہارم

فضائل حضرت زہرا(ع)

۱۰۲

پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ بہترین عورتیں چار ہیں، مریم دختر عمران، فاطمہ (ع) دختر محمد(ص) ، خدیجہ بنت خویلد، آسیہ زوجہ فرعون _(۱)

پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ بہشت کی عورتوں میں سے بہترین عورت فاطمہ (ع) ہیں_(۲)

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی، عرش سے اللہ کا منادی ندا دے گا، لوگو اپنی آنکھیں بند کر لو تا کہ فاطمہ (ع) پل صراط سے گزر جائیں_(۳)

پیغمبر (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ خدا تیرے واسطے سے غضب کرتا ہے اور تیری خوشنودی کے ذریعہ خوشنود ہوتا ہے _(۴)

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ میںنے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۷۶_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۷۶_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۳، ذخائز العقبی ، ص ۴۸_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۴_ سدالغابہ، ج ۵ ص ۵۳۲_

۱۰۳

کسی کو جناب فاطمہ (ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا_(۱)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم، اللہ نے فاطمہ (ع) کو علم کے وسیلہ سے فساد اور برائیوں سے محفوظ رکھا ہے _(۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے جناب فاطمہ (ع) اللہ تعالی کے یہاں نوناموں سے یاد کی جاتی ہے_ فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا، فاطمہ (ع) کے نام رکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ برائیوں اور فساد سے محفوظ اور معصوم ہیں، اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا_(۳)

جناب امام محمد باقر(ع) سے پوچھا گیا کہ جناب فاطمہ (ع) کا نام زہراء کیوں رکھا گیا؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ خدا نے آپ کو اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا ہے آپ کے نور سے زمین اور آسمان اتنے روشن ہوئے کہ ملائکہ اس نور سے متاثر ہوئے اور وہ اللہ کے لئے سجدہ میںگر گئے اور عرض کی خدایا یہ کس کا نور ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میری عظمت کے نور سے ایک شعلہ ہے کہ جسے میں نے پیدا کیا ہے اور اسے آسمان پر سکونت دی ہے اسے پیغمبروں میں سے بہترین پیغمبر(ص) کے صلب سے پیدا کروں گا اور اسی نور سے دین کے امام اور پیشوا پیدا کروں گا تا کہ لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کریں وہ پیغمبر(ص) کے جانشین اور خلیفہ ہوں گے_(۴)

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_ ذخائر العقبی ، ص ۴۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۰_

۱۰۴

پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا بیٹی خداوند عالم نے دینا کی طرف پہلی دفعہ توجہ اورمجھے تمام مردوں پرچنا، دوسری مرتبہ اس کی طرف توجہ کی تو تمہارے شوہر علی(ع) کو تمام لوگوں پر چنا، تیسری مرتبہ اس کی طرف توجہ کی تو تمہیں تمام عالم کی عورتوں پر برتری اور فضیلت دی، چوتھی مرتبہ توجہ کی تو حسن (ع) اور حسین (ع) کو جنت کے جوانوں پر امتیاز دیا _(۱)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہشت چہار عورتوں کے دیکھنے کی مشتاق ہے ، پہلے مریم دختر عمران، دوسری آسیہ فرعون کی بیوی ، تیسری خدیجہ دختر خویلد ، چہوتھی فاطمہ (ع) دختر محمد (ص) _(۲)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اس کی اذیت میری اذیت ہے اور اس کی خوشنودی میری خوشنودی ہے _(۳)

پیغمبر(ص) نے اس حالت میں جب کے فاطمہ (ع) ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فرمایا جو شخص اسی پہچانتا ہے تو وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ یہ فاطمہ(ع) پیغمبر (ص) کی دختر ہے اور میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میرا دل اور روح ہے جو شخص اسے ذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جوشخص مجھے اذیت دے گا اس نے خدا کو اذیت دی ہے _(۴)

جناب ام سلمہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شباہت پیغمبر اسلام (ص) سے

____________________

ا_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ا۹_

۲_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۲_

۳_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۳_

۴_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۲ اور الفصول المہمہ مولفہ ابن صباغ نجف ، ص ۲۸ا_

۱۰۵

جناب فاطمہ (ع) کو تھی(ا) _

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) انسانوں کی شکل میں جنت کی حور ہیں _(۲)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگی_(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) کا نام فاطمہ (ع) اس لئے رکھا گیا ہے کہ لوگوں کو آپ کی حقیقت کے درک کرنے کی قدرت نہیں ہے _(۴)

پیغمبر(ص) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن و حسین کو ایک نور سے پیدا کیا ہے_(۵)

ابن عباس فرماتے ہیںکہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ وہ کلمات کہ جو اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بتلائے اور ان کی وجہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی وہ کیا تھے؟ آپ نے فرمایا کہ جناب آدم نے خدا کو محمد(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے حق کی قسم دی اسی وجہ سے آپ کی توبہ قبول ہوئی _(۶)

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۷_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۵۳_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۴۳ ص ۴۴_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۶۵_

۵) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۱_

۶) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۱_

۱۰۶

پیغمبر(ص) نے فرمایا اگر علی نہ ہو تے تو جناب فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا _(۱)

پیغمبر(ص) فرماتے ہیں کہ جب میں معراج پر گیا تو بہشت کی سیر کی میں نے جناب فاطمہ (ع) کا محل دیکھا جس میں ستر قصر تھے کہ جو لولو اور مرجان سے بنانے گئے تھے_(۲)

پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ جانتی ہو کہ کیوں تیرا نام فاطمہ (ع) رکھا گیا ہے؟ حضرت علی (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ (ص) کیوں فاطمہ (ع) نام رکھا گیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا چوں کہ آپ اور اس کے پیروکار دوزخ کی آگ سے امان میںہیں _(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ (ع) کو زیادہ بوسہ دیا کرتے تھے ایک روز جناب عائشےہ نے اعتراض کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے جواب میں فرمایا جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں بہشت میں داخل ہوا، جبرئیل مجھے طوبی کے درخت کے نزدیک لے گئے اور اس کا میوہ مجھے دیا میں نے اس کو کھایا تو اس سے نطفہ وجود میں آیا، جب میں زمین پر آیا اور جناب خدیجہ(ع) سے ہمبستر ہوا تو اس سے جناب فاطمہ (ع) کا حمل ٹھہرا یہی وجہ ہے کہ جب میں فاطمہ (ع) کو بوسہ دیتا ہوں تو درخت طوبی کی خوشبو میرے شام میں پہنچتی ہے _(۴)

ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن علی (ع) اورفاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) پیغمبر(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توپیغمبر(ص) نے فرمایا اے خدا مجھے علم ہے کہ یہ میرے اہلبیت

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۸_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۷۶_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۴_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۶_

۱۰۷

ہیں اور میرے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھ ان کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما انہیں تمام برائیوں سے پاک رکھ اور تمام گناہوں سے محفوظ رکھ روح القدس کے ذریعے ان کی تائید فرما اس کے بعد آپ نے فرمایا، یا علی (ع) تم اس امت کے امام اور میرے جانشین ہو اور مومنین کو بہشت کی طرف ہدایت کرنے والے ہو، گویا میں اپنی بیٹی کو دیکھ رہا ہوں کہ قیامت کے دن ایک نورانی سواری پرسوارہے کہ جس کے دائیں جانب ستر ہزار فرشتے اور بائیں جانب ستر ہزار فرشتے اس کے آگے ستر ہزار فرشتے اور اس کے نیچے ستر ہزار فرشتے چل رہے ہیں اور تم میری امت کی عورتوں کو بہشت میں لئے جا رہی ہو پس جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے خانہ کعبہ کا حج بجالائے اور اپنے مال کو زکوة ادا کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے اور علی ابن ابیطالب کو دوست رکھتی ہو وہ جناب فاطمہ (ع) کی شفاعت سے بہشت میں داخل ہوگی، فاطمہ (ع) دنیا کی عورتوں میں سے بہترین عورت ہے_

عرض کیا گیا یا رسول اللہ (ص) فاطمہ (ع) اپنے زمانے کی عورتوں سے بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تو جناب مریم ہیں کہ جو اپنے زمانے کی عورتوں سے بہتر ہیں، میری بیٹی فاطمہ (ع) تو پچھلی اور ا گلی عورتوں سے بہتر ہے، جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اللہ تعالی کے ستر ہزار مقرب فرشتے اسے سلام کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں اے فاطمہ (ع) اللہ نے تجھے چنا ہے اور پاکیزہ کیا ہے اور تمام عالم کی عورتوں پرتجھے برتری دی ہے_

اس کے بعد آپ علی (ع) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یاعلی (ع) ، فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میری آنکھوں کا نور اور دل کا میوہ ہے جو بھی اسے تکلیف دے

۱۰۸

اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اسے خشنود کیااس نے مجھے خوشنود کیا فاطمہ (ع) پہلی شخصیت ہیں جو مجھ سے ملاقات کریں گی میرے بعد اس سے نیکی کرنا، حسن (ع) اور حسین (ع) میرے فرزند ہیں اور میرے پھول ہیں اور جنت کے جوانوں سے بہتر ہیں انہیں بھی آپ آنکھ اور کان کی طرح محرّم شمار کریں_

اس کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا اے میرے خدا تو گواہ رہنا کہ میں ان کے دوستون کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھتا ہوں_(۱)

فاطمہ (ع) کا علم و دانش

عمار کہتے ہیں ایک دن حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) آپ میرے نزدیک آئیں تا کہ میں آپ کوگزشتہ اور آئندہ کے حالات بتلاؤں، حضرت علی (ع) ، فاطمہ (ع) کی اس گفتگو سے حیرت میں پڑ گئے اور پیغمبر (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور سلام کیا اور آپ کے نزدیک جا بیٹھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آپ بات شروع کریں گے یا میں کچھ کہوں؟ حضرت علی (ع) نے عرض کی کہ میں آپ کے فرمان سے استفادہ کرنے کو دوست رکھتا ہوں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا گویا آپ سے فاطمہ (ع) نے یہ کہا ہے اور اسی وجہ سے تم نے میری طرف مراجعت کی ہے_ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) کیا فاطمہ (ع) کا نور بھی ہمارے نور سے ہے_ پیغمبر(ص) نے فرمایا کیا آپ کو علم نہیں ہے؟ حضرت علی (ع) یہ بات

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴_

۱۰۹

سن کر سجدہ شکر میں گر گئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا_

اس کے بعد جناب فاطمہ (ع) کے پاس لوٹ آئے_ حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) گویا میرے بابا کے پاس گئے تھے اور آپ(ص) نے یہ فرمایا؟ آپ نے فرمایا ہاں اے دختر پیغمبر (ص) _ فاطمہ (ع) نے فرمایا ، اے ابوالحسن (ع) خداوند عالم نے میرے نور کو پیدا کیا اور وہ اللہ تعالی کی تسبیح کرتا تھا اس وقت اللہ تعالی نے اس نور کو بہشت کے ایک درخت میں ودیعت رکھ دیا میرے والد بہشت میں داخل ہوئے تو اللہ تعالی نے آپ کو حکم یا کہ اس درخت کامیوہ تناول کریں، میرے والد نے اس درخت کے میوے تنال فرمائے اسی ذریعہ سے میرا تور آپ(ص) کے صلب میں منتقل ہوگیا اورمیرے بابا کے صلب سے میری ماں کے رحم میں وارد ہوا_ یا علی (ع) میں اسی نور سے ہوں اور گزشتہ اور آئندہ کے حالات اور واقعات کو اس نور کے ذریعہ پالیتی ہوں_ یا ابالحسن، مومن نور کے واسطے سے خدا کو دیکھتا ہے_(۱)

امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت فاطمہ (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی کہ میری ماں عاجز ہے اسے نماز کے بارے میں بعض مشکل مسائل در پیش ہیںمجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ میںآپ سے سوال کروں، اس نے مسئلہ پیش کیا اور جناب فاطمہ (ع) نے اس کا جواب دیا اس عورت نے دوسری دفعہ دوسرا مسئلہ پوچھا جناب فاطمہ (ع) نے اس کا بھی جواب دیا، اس عورت نے تیسری دفعہ پھر تیسرا مسئلہ پوچھا اور اسی طرح آپ سے دس مسئلے پوچھے اور حضرت زہرا (ع) نے سب کے جواب دیئے اس کے بعد وہ عورت

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴_

۱۱۰

زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے شرمسار ہوئی اور عرض کی، دختر رسول(ص) اب اور میں مزاحم نہیں ہوتی آپ تھک گئی ہیں، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا شرم نہ کر جو بھی سوال ہو پوچھو تا کہ میں اس کا جواب دوں_ میں تیرے سوالوں سے نہیں تھکتی بلکہ کمال محبت سے جوال دوں گی اگر کسی کو زیادہ بوجھ چھت تک اٹھا کرلے جانے کے لئے اجرت پر لیا جائے اور وہ اس کے عوض ایک لاکھ دینار اجرت لے تو کیا وہ بارے کے اٹھانے سے تھکے گا؟ اس عورت نے جواب دیا نہیں، کیوں کہ اس نے اس بار کے اٹھانے کی زیادہ مزدورں وصول کی ہے حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ خدا ہر ایک مسئلے کے جواب میں اتنا ثواب عنایت فرماتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے کہ زمین اور آسمان کو مروارید سے پر کر دیا جائے تو کیااس کے باوجود میںمسئلے کے جواب دینے میں تھکوں گی_

میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ میرے شیعوں کے علماء قیامت میں محشور ہوں گے اور خدا ان کے علم کی مقدار اور لوگوں کو ہدایت اور ارشاد کرنے میں کوشش اور جد و جہد کے مطابق خلعت اور ثواب عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ ان میں سے ایک کو دس لاکھ حلے نور کے عطا فرمائے گا اور اس کے بعد حق کامنادی ندا دے گا، اے وہ لوگو کو جنہوں نے آل محمد(ص) کے یتیموں کی کفالت کی ہے، اور اس زمانے میں کہ ان کے امام کا سلسلہ ان سے منقطع ہوچکا تھا یہ لوگ تمہارے شاگرد تھے اور وہ یتیم ہیں کہ جو تمہاری کفالت کے ماتحت اپنی دینداری پر باقی رہے ہیں اور ارشاد اورہدایت کرتے رہے ہیں، جتنی مقدار انہوں نے تمہارے علوم سے استفادہ کیا ہے ان کو بھی خلعت دو اس وقت میری امت کے علماء اپنے پیروکاروں

۱۱۱

کو خلعت عطا فرمائیں گے، پھر وہ پیروکار اور شاگرد اپنے شاگروں کو خلعت دیں گے، جب لوگوں میں خلعت تقسیم ہوچکے گی تو اللہ کی طرف سے دستور دیا جائے گا جو خلعت علماء نے تقسیم کی ہیں ان کو مکمل کیا جائے یہاں تک کہ سابقہ تعداد کے برابر ہوجائے، پھر دستور ملے گا کہ اسے دوبرابر کردو اور اس طرح ان کے پیروکاروں کو بھی اسی طرح دو_

اس وقت جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا: اے کنیز خدا اس خلعت کا ایک دھاگا ہزار درجہ اس چیز سے بہتر ہوگا جس پر سورج چمکتا ہے اس لئے کہ دنیاوی امور مصیبت اور کدورت سے آلودہ ہوتے ہیں، لیکن اخروی نعمات میںکوئی نقص اور عیب نہیں ہوتا _(۱)

امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو عورتیں کہ ان میں سے ایک مومن اور دوسری معاند اور دشمن تھی، ایک دینی مطلب میں آپس میں اختلاف رکھتی تھیں اس اختلاف کے حل کرنے کے لئے جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے مطلب کو بتلایا چونکہ حق مومن عورت کے ساتھ تھا تو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی گفتگو اور دلائل اور برہان سے اس کی تائید کی اور اس ذریعے سے اس پر فتح مند کردیا اور وہ مومن عورت اس کامیابی سے خوشحال ہوگئی_ جناب فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت سے فرمایا کہ اللہ تعالی کے فرشتے تجھ سے زیادہ خوشحال ہوئے ہیں اور شیطان اور اس کے پیروکاروں پرغم و اندوہ اس سے زیادہ ہوا ہے جو اس معاند اوردشمن عورت پر وارد ہوا ہے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲ ص ۳_

۱۱۲

اس وقت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا اس وجہ سے خدا نے فرشتوں سے فرمایا ہے کہ اس خدمت کے عوض جو فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت کے لئے انجام دی ہے، بہشت اور بہشتی نعمتوں کو اس سے جو پہلے سے مقرر تھیں کئی ہزار گناہ مقرر کردیا جائے اور یہی روش اور سنت اس عالم کے بارے میں بھی جاری کی جاتی ہے جو اپنے علم سے کسی مومن کو کسی معاند پر فتح دلاتا ہے اور اس کے ثواب کو اللہ تعالی کئی کئی ہزار برابر مقرر کردیتا ہے_(۱)

فاطمہ (ع) کا ایمان اور عبادت

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی کا ایمان فاطمہ (ع) کے دل کی گہرائیوں اور روح کے اندر اتنا نفوذ کر چکا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کے لئے اپنے آپ کو ہر ایک چیز سے مستغنی کرلیتی ہیں _(۲)

امام حسن علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری والدہ شب جمعہ صبح تک اللہ تعالی کی عبادت میںمشغول رہتی تھیں اور متواتر رکوع اور سجود بجالاتی تھیں یہاں تک کہ صبح نمودار ہوجاتی میں نے سنا کہ آپ مومنین کے لئے نام بنام دعا کر رہی ہیں لیکن وہ اپنے لئے دعا نہیں کرتی تھیں میں نے عرض کی امّاں جان: کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتیں؟ آپ(ع) نے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲ ص ۸_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۶_

۱۱۳

فرمایا پہلے ہمسائے اور پھر خود _(۱)

امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ جناب فاطمہ زہرا(ع) تمام لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والی تھیں اللہ تعالی کی عبادت میں اتنا کھڑی رہتیں کہ ان کے پاؤں ورم کرجاتے _(۲)

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے تھے کہ میری بیٹی فاطمہ عالم کی عورتوں سے بہترین عورت ہیں، میرے جسم کا ٹکڑا ہیں، میری آنکھوں کا نور، دل کا میوہ اور میری روح رواں ہیں، انسان کی شکل میںحور ہیں، جب عبادت کے لئے محراب میں کھڑی ہوتیں تو آپ کا نور فرشتوں میں چمکتا تھا، خداوند عالم نے ملائکہ کوخطاب کیا کہ میری کنیز کو دیکھو میرے مقابل نماز کے لئے کھڑی ہے اور اس کے اعضاء میرے خوف سے لرز رہے ہیں اور میری عبادت میں فرق ہے، ملائکہ گواہ ہو میں نے فاطمہ (ع) کے پیروکاروں کو دوزخ کی اگ سے مامون قرار دے دیا ہے _(۳)

البتہ جو شخص قرآن کے نزول کے مرکز میں پیدا ہو اور روحی کے دامن میں رشد پایا اورغور کیا ہو اور دن رات اس کے کان قرآن کی آواز سے آشنا ہوں اور محمد(ع) جیسے باپ کی تربیت میں رہا ہو کہ آنجناب اس قدر اللہ تعالی کی عبادت کرتے کہ آپ کے پائے مبارک ورم کرجاتے تھے اور علی جیسے شوہر کے گھر رہی ہو تو اسے اہل زمان کے افراد سے عابدترین انسان ہونا

____________________

۱) کشف الغمہ،ج ۲ ص ۱۴ و دلائل الامامہ، ص ۵۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص۷۶_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۲_

۱۱۴

ہی چاہیئےسے عبادت میںاتنا بلند مقام رکھنا چاہیئے اور ایمان اس کی روح کی گہرائیوں میں سماجاتا چاہیئے_

بابرکت ہار

جابربن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن عصر کی نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھی آپ کے اصحاب آپ کے ارد گرد بیٹھے تھے، اچانک ایک آدمی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا لباس پرانا اور پھٹا ہوا اور سخت بڑھا پے کی وجہ سے اپنی جگہ پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی مزاج پرسی کی، یا رسول اللہ(ص) میں ایک بھوکا آدمی ہوں مجھے سیر کیجئے ننگاہوں مجھے لباس عنایت فرمایئےور خالی ہاتھ ہوں مجھے کچھ عنایت فرمایئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سر دست تو میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن میںتجھے ایک جگہ کی راہنمائی کرتا ہوں شاید وہاں تیری حاجت پوری ہوجائے_ اس شخص کے گھر جا کہ جو خداوند اور رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور رسول اسے دوست رکھتے ہیں جا میری بیٹی فاطمہ (ع) کے گھر کہ شاید تجھے وہ کوئی چیز عنایت فرما دے آپ اس کے بعد بلال سے فرمایا کہ اسے فاطمہ (ع) کا گھر کھلا آؤ_

جناب بلال اس بوڑھے کے ساتھ جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے، بوڑھے نے عرض کی سلام ہو میرا خانوادہ اہلبیت پر کہ جو فرشتوں کے نازل ہونے کا مرکز ہے جناب فاطمہ (ع) نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تم کون ہو؟ اس نے عرض کیا کہ میں ایک فقیر ہوں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں گیا تھا انہوں نے

۱۱۵

مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اے دختر پیغمبر(ص) بھوکا ہوں سیر کیجئے، برہنہ ہوں لباس مجھے پہنایئےفقیر ہوں کوئی چیز عنایت فرمایئےجناب فاطمہ جاتی تھیں کہ گھر میں کوئی غذا موجود نہیں ہے ایک گوسفند کی کھال ہے کہ جو امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے فرش کے لئے تھی اسے دی اس نے عرض کی یہ چمڑے کی کھال میری زندگی کی اصلاح کہاں کرسکتی ہے_ جناب فاطمہ (ع) نے ایک ہار جو آپ کے چچا کی لڑکی نے بطور ہدیہ دیا تھا اس فقیر کو دے دیا اور فرمایا اسے فروخت کر کے اپنی زندگی کی اصلاح کرلے_

وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں لوٹ آیا اور تمام قصہ بیان کیا، آپ رودیئےور فرمایا کہ اس ہار کو فروخت کر ڈالوتا کہ میری بیٹی کے عطیے کی برکت سے خدا تیری کشائشے کردے_

عمار یاسر نے جناب رسول خدا(ص) سے اجازت لی کہ اس ہار کو خرید لوں اس بوڑھے سے پوچھا کہ اسے کتنے میں فروخت کروگے؟ اس نے کہا کہ اتنی قیمت پر کہ روٹی اور گوشت سے میرا پیٹ سیر ہوجائے ایک یمانی چادر جسم کے ڈھانپے کے لئے ہوجائے کہ جس میں نماز پڑھوں اور ایک دینار کہ میں اپنے گھر اور اہل و عیال کے پاس جاسکوں_

عمار نے کہا میں اس ہار کو بیس دینار اور دو سو درہم اور ایک برد یمانی اور ایک سواری کا حیوان اور روٹی اور گوشت کے عوض خریدتا ہوں اس بوڑھے نے ہار جناب عمار کو فروخت کردیا اور معاوضہ لے لیا اور پیغمبر(ص) کی خدمت میں لوٹ آیا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا کہ تمہاری حاجت پوری ہوئی، اس نے عرض کی ہاں، میں جناب فا طمہ (ع) کی بخشش کی بدولت بے نیاز ہوگیا ہوں کہ خداوند عالم اس کے عوض جناب فاطمہ (ع)

۱۱۶

کو ایسی چیز دے کہ نہ آنکھ دیکھی ہو اور نہ کان نے سنی ہو_

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحاب سے فرمایا کہ خداوند عالم نے اسی دنیا میں اس قسم کی چیز جناب فاطمہ (ع) کو عطا کردی ہے کیونکہ اسے مجھ جیسا باپ اور علی جیسا شوہر اور حسن (ع) اور حسین (ع) جیسے فرزند عنایت فرمائے ہیں، جب عزرائیل فاطمہ (ع) کی روح قبض کرے گا اور اس سے قبر میں سوال کرے گا کہ تیرا پیغمبر کون ہے؟ تو جواب دے گی میرا باپ، اور اگر پوچھے گاتیرا امام کون ہے تو جواب دے گی میرا شوہر علی بن ابیطالب(ع) ، خداوند عالم نے ملائکہ کی ایک جماعت کی ڈیوٹی لگادی ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد ہمیشہ ان پراور ان کے والد اور شوہر پر درود بھیجتے رہیں_ خبردار ہو جو شخص میرے مرنے کے بعد میری زیارت کوآئے تو وہ اس کے مانند ہے کہ وہ میری زندگی میں زیارت کو آیا ہے اور جو شخص فاطمہ (ع) کی زیارت کو جائے اس کے مثل ہے کہ اس نے میری زیارت کی_

جناب عمار نے وہ ہار لیا اور اسے خوشبو لگائی اور یمانی کپڑے میں لپیٹ کر اپنے غلام کو دیا اور کہا کہ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے جاکر حاضر کرو میں نے تجھے بھی آنجناب کو بخش دیا ہے_ جب وہ غلام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میںگیا تو حضرت نے وہ ہار مع غلام کے جناب فاطمہ علیہا السلام کو بخش دیا_ جناب فاطمہ علیہا السلام نے وہ ہار لیا اور اس غلام کو آزاد کردیا_ جب غلام آزاد ہوا تو ہنسنے لگا جب اس سے ہنسنے کی علت پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ اس ہار کی برکت پر مجھے تعجب ہوا ہے کیونکہ اس نے بھوکے کو سیر کیا ہے، برہنہ کو کپڑا پہنایا، فقیر کو غنی

۱۱۷

کردیا، غلام کو آزاد کردیا اور پھر وہ اپنے مالک کے پاس لوٹ گیا _(۱)

پیغمبر(ص) کی فاطمہ (ع) سے محبت اوران کا احترام

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) بات کرنے میں تمام لوگوں کی نسبت پیغمبر(ص) سے زیادہ شباہت رکھتی تھی، جب آپ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاتیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کا ہاتھ پکڑتے اوراسے بوسہ دیتے اورجناب فاطمہ (ع) کو اپنی جگہ بٹھاتے اور جب رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے پاس جاتے تو آپ والد کے احترام کے لئے کھڑی ہوجاتیں اور آپ کے ہاتھ چومتیں اور اپنی جگہ آپ کوبٹھلاتیں _(۲)

ایک دن جناب عائشےہ نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کو بوسہ دے رہے ہیں تو عرض کیا یا رسول اللہ(ص) اب بھی آپ فاطمہ (ع) کو چومتے میں کتنا فاطمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں تو تیری محبت بھی اس کے ساتھ زیادہ ہوجاتی، فاطمہ (ع) یہ انسان کی شکل وصورت میں حور ہیں، جب بھی میں بہشت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو اسے بوسہ د یتا ہوں _(۳)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۵۶_

۲) کشف ا لغمہ، ج ۲ ص ۷۹_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ص ۸۵_

۱۱۸

علی بن ابیطالب نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا یا رسول اللہ(ص) مجھے زیادہ دوست رکھتے ہیں یا فاطمہ (ع) کو؟ تو آپ نے فرمایا تم عزیزترین ہو اور فاطمہ محبوت تر(۱) _

جناب فاطمہ (ع) فرماتی ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی کر:

( لاتجعلوا دعا الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا )

یعنی پیغمبر کو اپنی طرح آواز نہ دیا کرو_ تو میں اس کے بعد اباجان کے لفظ سے آپ کو خطاب نہ کرتی تھی اور یا رسول اللہ(ص) کہا کرتی تھی، کئی دفعہ میں نے آپ کو اسی سے آواز دی تو آپ نے میرا جواب نہ دیا اور اس کے بعد فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) یہ آیت تمہارے اورتمہاری اولاد کے بارے میں نازل نہیں ہوئی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، یہ آیت قریش کے متکبر افراد کے لئے نازل ہوئی ہے، تم مجھے ابّا کہہ کر پکارا کرو کیونکہ یہ لفظ میرے دل کو زندہ کرتا ہے اور پروردگار عالم کو خشنود کرتا ہے(۲) _

جناب عائشےہ سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو آپ نے کہا کہ فاطمہ (ع) ، اس کے بعد پوچھا گیا کہ مردوں میں سے زیادہ محبوب کون تھا تو آپ نے کہا فاطمہ (ع) کے شوہر علی (ع) _(۳)

جب تک پیغمبر(ص) فاطمہ (ع) کو چوم نہ لیتے سویا نہیں کرتے تھے(۴) _

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۸_

۲) بیت الاحزان، ص ۱۰_

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۸_

۴) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۳_

۱۱۹

پیغمبر(ص) جب سفر کو جاتے تھے تو آخری آدمی جسے وداع فرماتے تھے فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو پہلا شخص جس کی ملاقات کو جلدی جاتے فاطمہ (ع) ہوتیں(۱) _

پیغمبر(ص) فرماتے تھے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے خوشنود کرے گا اس نے مجھے خوشنود کیا، اور جو شخص اسے اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی سب سے عزیزترین میرے نزدیک فاطمہ (ع) ہیں(۲) _

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول خدا(ص) حد سے زیادہ اور معمول اور متعارف سے بڑھ کر جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار اس حد تک کرتے تھے کہ بسا اوقات اعتراض کئے جاتے تھے البتہ ہر باپ کو طبعی طور پر اولاد سے محبت ہوتی ہے لیکن جب محبت اورتعلق معمول سے تجاوز کرجائے تو اس کی کوئی خاص وجہ اور علت ''جو فطری محبت کے علاوہ ہو، ہونی چاہیئے، ممکن ہے حد سے زیادہ محبت کا اظہار جہالت اور کوتاہ فکری کی وجہ سے ہو لیکن اس علت کی پیغمبر(ص) کی ذات کی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی،کیونکہ اللہ تعالی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق فرماتا ہے:( انک العلی خلق عظیم ) (۳) _ ''یعنی خلق عظیم کے مالک ہو_

پیغمبر(ص) کے تمام کا وحی الہی کے ماتحت ہوا کرتے تھے اللہ تعالی فرماتا ہے( ان هو الا وحيٌ یوحی ) (۴) _

____________________

۱) دخائر العقیی ، ص ۳۷_

۲) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۳۲_

۳) سورہ قلم آیت ۴_

۴) سورہ نجم آیت ۴_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293