فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون0%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيه الله ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 293
مشاہدے: 82260
ڈاؤنلوڈ: 3142

تبصرے:

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82260 / ڈاؤنلوڈ: 3142
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بس خدا کے رسول کا ان تمام غیر عادی محبت کے اظہار میں کوئی اور منشا اور غرض ہونی چاہیئے_

جناب رسول خدا(ص) نے اپی بیٹی فاطمہ (ع) کے مقام و مرتبت کو خود مشخص کیا تھا اور آپ ان کے رتبے کو اچھی طرح پہچانتے تھے_ جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) ولایت اور امامت کی تولید کامرکز اور دین کے پیشواؤں کی ماں ہیں، اسلام کی نمونہ اور مثال اور ہر گناہ سے معصوم ہیں_ حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی آپ کے بلند مقام کو درک نہیں کرسکتا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کا نور آسمان کے فرشتوں کو روشنی دینے والا ہے، بہشت کی خوشبو کو فاطمہ (ع) سے استشمام کرتے تھے یہی علت تھی کہ آپ حد سے زیادہ فاطمہ (ع) سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے_

فاطمہ (ع) اور علی (ع) کی سخت زندگی

ایک زمانہ میں حضرت علی (ع) کی زندگی بہت سخت گزر رہی تھی_ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا گویا زہرا(ع) دروازے پرہے دروازہ کھولو_ دیکھو کون ہے، جب انہوں نے گھر کا دروازہ کھولا تو جناب فاطمہ علیہا السلام گھر کے اندر داخل ہوئیں سلام کیا اور باپ کی خدمت میں بیٹھ گئیں، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) تم اس وقت پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا کرتی تھیں کیا ہوا ہے؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ملائکہ کی غذا کیا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالی

۱۲۱

کی حمد_ عرض کیا، اباجان ہماری غذا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا کی قسم ایک مہینہ ہونے کو ہے کہ آل محمد(ص) کے گھر میں آگ نہیں جلائی گئی_ میری آنکھوں کانور، آگے آؤ میں تمہیں وہ پانچ کلمات بتلاتا ہوں جو جبرئیل نے مجھے تعلیم دیئے ہیں_

''یا رب الاولین وَ الآخرین یا ذالقوة المتین

و یا ارحم المساکین و یا ارحم الراحمین''

جناب فاطمہ (ع) نے یہ دعا یاد کی اور گھر لوٹ آئیں، حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا کہاں گئی تھیں؟ جواب دیا دنیا طلب کرنے گئی تھی لیکن آخرت کے لئے دستور لے کر آئی ہوں_ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا آج سب سے بہتر دن تھا(۱) _

ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کی عیادت کی اور آپ کے احوال پوچھے تو آپ نے عرض کیا اباجان بیمار ہوں اور اس سے بدتر یہ کہ گھر میں کوئی چیز موجود نہیں جو کھاؤں، آپ نے فرمایا کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں کہ دنیا کی عورتوں سے بہترہو(۲) _

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جو آتا ہے وہ فقراء میں تقسیم کردیتے ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا: بیٹی فاطمہ (ع) خبردار میرے بھائی اور چچازاد علی (ع) کوناراحت نہ کرنا

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۲_

۲) در رالسمطین، ص ۱۷۹_

۱۲۲

کیوں کہ علی (ع) کاغضب میرا غضب ہے اورمیرا غضب خدا کا غضب ہے(۱) _

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ ایک دن رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے دیکھا کہ حسن(ع) اور حسین(ع) گھر میں موجود نہیں ہیں ان کی حالت پوچھی، جناب فاطمہ (ع) نے عرض کی، آج ہمارے گھر میںکھانے کے لئے کچھ موجود نہ تھا، علی (ع) نے جب باہر جانا چاہا فرمایا کہ میںحسن (ع) و حسین (ع) کو اپنے ساتھ باہر لے جاتا ہوں تا کہ یہاں روئیں نہ اور تم سے غذا کا مطالبہ نہ کریں_ ان کواٹھایا اور فلاںیہودی کے پاس چلے گئے_ جناب رسول خدا(ص) علی کی تلاش میں باہر گئے اور انہیں یہودی کے باغ میں ڈول کھینچتے دیکھا اور دیکھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) کھیل میں مشغول ہیں اور ان کے سامنے تھوڑی مقدار خرما کی بھی موجود ہے_ پیغمبر(ص) نے علی (ع) سے فرمایا کہ دن گرم ہونے سے پہلے حسن (ع) و حسین (ع) کو گھر لوٹانا نہیںچاہتے؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) جب میںگھر سے باہر آیا تھا تو ہمارے گھر کوئی غذا موجود نہ تھی آپ تھوڑ ا توقف کریں تا کہ میںکچھ خرما جناب فاطمہ (ع) کے لئے مہیا کروں_ میں نے اس یہودی سے ہر ڈول کے کھینچنے پر ایک خرما مقرر کیا ہے_ جب کچھ خرمے مہیا ہوگئے انہیں آپ نے اپنے دامن میں ڈالا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کواٹھایا اور گھر واپس لوٹ آئے(۲) _

ایک دن پیغمبر(ص) فاطمہ (ع) کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ (ع) گلوبند پہنے ہوئے ہیں، آپ نے فاطمہ (ع) سے روگردانی کی اور چلے گئے، جناب فاطمہ (ع) آپ کی روگردانی

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۳_

۱۲۳

کی علت کو بھانپ گئیں، ہارا تارا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر کردیا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) تم مجھ سے ہو_ اس کے بعد ایک غریب آدمی آیا تو آپ نے وہ ہار اس کو عطا کردیا اور فرمایا کہ جو شخص ہمارا خون بہائے اورمیرے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت دے خداوند عالم اس پر غضب کرے گا(۱) _

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں بیٹھی تھی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں آئے، آپ نے فاطمہ (ع) کی گردن میں سونے کا ہار دیکھا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) لوگوں کے اس کہنے پر کہ فاطمہ (ع) رسول(ص) کی دختر ہے مغرور نہ ہونا جب کہ تم اس حالت میں ہو کہ ظالموں کا لباس تمہارے جسم پرہو_ جناب زہراء نے فوراً ہار کو اتارا اور فروخت کردیا اور اس کی قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا، پیغمبر(ص) آپ کے اس کام سے بہت خوش ہوئے(۲) _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت یہ تھی کہ جب سفر کو جاتے تو آخری آدمی کہ جس سے وداع کرتے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو پہلا انسان جس کا آپ دیدار کرتے تھے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں، آپ ایک سفر سے جب جناب فاطمہ (ع) کے گھر آئے تو دیکھا حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کا دست بند ہے اور ایک پردہ بھی لٹکا ہوا ہے آپ نے اسے تھوڑی دیر تک دیکھا اور اپنی عادت کے خلاف

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۲_

۲) نظم در رالسمطین ص ۱۷۹_

۱۲۴

جناب زہرا(ع) کے گھر نہ ٹھہرے اور فوراً واپس لوٹ گئے، جناب فاطمہ (ع) غمگین ہوئیں اوراس واقعہ کی علت سمجھ گئیں، پردہ اتار اورحضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھ سے دست بند بھی اتارا، اور یہ کسی ذریعہ سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کردیا_ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی آنکھوں کو بوسہ دیا اور آپ کو نوازش دی اور دس بند کو مسجد میں حوفقراء رہتے تھے ان میں تقسیم کردیا اور پردے کے ٹکڑے کر کے مختلف برہنہ انسانوں کودیئے تا کہ وہ ستر عورت کرسکیں اس کے بعد جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا فاطمہ (ع) پر رحمت کرے اور اسے بہشتی لباس پہنائے اور بہشتی زینت اسے عطا کرے(۱) _

عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ جناب فاطمہ (ع) زہراء وہاں تشریف لے آئیں_ جب رسول خدا کی نگاہ آپ کے چہرے پر پڑی جو بھوک سے زرد ہوچکا تھا اور اس پر خون کے موجود ہونے کے آثار نہیں نظر آرہے تھے تو انہوں نے اپنے پاس بلایا اور اپنا دست مبارک جناب فاطمہ (ع) کے سینے پر رکھا اور فرمایا اے وہ خدا جو بھوکوں کو سیر کرتا ہے اور ضعیفوں کو بلند کرتا ہے، فاطمہ (ع) محمد(ص) کی دختر کو بھوکا نہ رکھ_ عمران کہتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی دعا کی برکت سے جناب فاطمہ (ع) کے چہرے کی زردی ختم ہوگئی، اور آپ کے چہرے پرخون دوڑے کے آثار

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۳_

۲) نظم در رالسمطین، ص ۱۹۱_

۱۲۵

عملی دعوت

روایات اور تواریخ یہ گواہی دے رہی ہیں کہ اہلبیت کی فرد اول یعنی پیغمبر اسلام(ص) اور اسلام کی دوسری شخصیت علی بن ابیطالب(ع) اور اسلام کی پہلی خاتون فاطمہ زہراء (ع) کی زندگی بہت سادہ بلکہ بہت سختی اور مشقت سے گزرتی تھی، اور اس پر بہت زیادہ تعجب بھی نہیں کیا جانا چاہیئےیوں کہ اس زمانے میں تمام مسلمانوں کی عمومی زندگی اچھی نہ تھی_

اکثر مسلمان فقیر اور معاشرے سے محروم افراد ہوا کرتے تھے وہ گروہ کہ جن کی ایک حد تک زندگی بری نہ تھی دشمنوں کے خوف سے مجبور ہوگئے تھے اور اپنی تمام پونجی اور گھر بار مکہ چھوڑکر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے، مدینہ میں بھی اکثریت فقراء کی تھی اور جو چند آدمی جن کی وضع کسی حدتک اچھی تھی وہ بھی مجبور تھے کہ ان مسلمانوں سے جو مکہ چھوڑکر ہجرت کر آئے تھے ہمدرد ی اور مالی مواسات بجالائیں اور اپنی قدرت کے مطابق ان کی مدد اور مساعدت کریں اور دوسری طرف وہ زمانہ اسلام کا بحرانی زمانہ تھا مسلمان ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہتے تھے اور اکثر اوقات جنگ اور دفاع میں مشغول رہتے تھے اسی وجہ سے اپنی اقتصادی اوضاع کو قوی نہیںکرسکتے تھے_

ان حالات میں کیا پیغمبر(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے لئے مناسب اور ممکن تھا کہ وہ اپنے لئے اچھی زندگی فراہم کریں اور فقراء اور بیچاروں سے ہمدردی نہ کریں اگر چہ پیغمبر(ص) اور حضرت علی (ع) خود کام کیا کرتے تھے اور اسی ذریعہ سے

۱۲۶

ان کے پاس مشروع اورجائز دولت بھی اکھٹی ہوجاتی تھی اور جنگ کی غنیمت سے بھی انہیں حصہ ملتا تھا اور اگر چاہتے تو اچھی زندگی گزار سکتے تھے، لیکن کیا یہ ممکن تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے داماد اور ان کی بیٹی تو آرام سے زندگی گزاریں لیکن مدینہ کے فقراء کی فریادیں بلند ہوں، کیا یہ مناسب تھا کہ پیغمبر(ص) کی دختر تو گھر پر پردے لٹکائے رکھے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کے پاس سترعورت کے لئے کپڑے تک موجود نہ ہوں، کیا یہ ہوسکتا تھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) توہاتھوں میں چاندی کے دست بند پہنے ہوئے ہوں اور مسلمانوں کے بچوں کی بھوک سے فضاء میں آوازیں بلند ہو رہی ہوں_

قاعدتاً اگر اسلام کا پہلا شخص اور اہلبیت گرامی دوسرے مسلمانوں سے مواسات نہ کرتے تو کیا ممکن ہوتا کہ مسلمانوں کے مستضعف گروہ کو صدر اسلام میں کہ جو ابھی اچھی طرح پیغمبری اور وحی کے معنی کو درک نہیں کرتے تھے اور ان کی عقلیں صرف ان کی آنکھوں تک محدود تھی حاضر کیا جاتا کہ وہ میدان جہاد میں فداکاری کریں اور اپنی جان کو قربان کریں؟ اسلام کی پیشرفت اور اس کے معنوی نفوذ کی ایک علت یہ بھی تھی کہ جو آنحضرت سے سنتے تھے اسے عملی طور سے بھی رفتار و گفتار اور زندگی فردی اور خانوادے کی زندگی میںمشاہدہ بھی کرتے تھے اسی عملی دعوت کی وجہ سے وہ اسلام اور جانبازی کی طرف مائل ہوا کرتے تھے لیکن

حضرت زہراء کی عصمت

لغت میں لفظ معصوم کے معنی محفوظ اور ممنوع کے ہیں_ اصطلاح میں معصوم اس شخص کو کہاجاتا ہے جو غلطی اور اشتباہ اور گناہوں سے امان میں ہو اور محفوظ ہو معصوم اسے کہتے ہیں کہ اس کی بصیرت

۱۲۷

کی آنکھ ایسی ہو کہ عالم کے حقائق کا مشاہدہ کر رہی ہو اور اس ارتباط اور اتصال کی وجہ سے جو اسے عالم ملکوت سے ہے اور غیبی تائیدات سے گناہ اور نافرمانی نہ کرے اور اس کے وجود مقدس میں غلطی اور اشتباہ اور سرکشی اور عصیاں گزر نہ کرسکے_ عصمت کا بلند و بالا رتبہ اور مقام دلائل عقلی اور نقلی اور براہین سے پیغمبروں کے لئے تو ثابت ہوچکا ہے_

شیعہ امامیہ کاعقیدہ ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) کے حقیقی جانشین و خلفاء اور بارہ اماموں کو بھی معصوم ہونا چاہیئےور ان کے پاس ان بزرگوں کی عصمت کے لئے دلائل اور براہین بھی موجود ہیں_ اگر ہم ان کا ذکر یہاں شروع کردیں تو اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے_

شیعہ امامیہ پیغمبروں کی عصمت کے علاوہ حضرت زہرا (ع) کو بھی گناہوں اور نافرمانی سے معصوم جانتے ہیں اور آپ کی عصمت کے ثبوت کے لئے بہت سی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں_ بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے_

پہلی دلیل اس آیت کے تمسک کر کے آپ کی عصمت کو ثابت کیاجاسکتا ہے_

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (۱)

آیت کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے_ ''خدا چاہتا ہے کہ ناپاکی اور آلودگی کو تم اہلبیت سے دور کردے اورکاملاً تمہیں پاکیزہ اور طاہر کردے_

شیعہ اور سنی نے بہت زیادہ احادیث نقل کی ہے جو دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت پیغمبر(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے_

____________________

۱) سورہ احزاب آیت ۲۴_

۱۲۸

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کندھے پر سیاہ پشم کا بنا ہوا کپڑا ڈالے گھر س باہر نکلے اس کے بعد حسن اور حسین (ع) اور فاطمہ (ع) اور علی (ع) کو اس کپڑے اور چادر کے درمیان لیا اور فرمایا:

انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت الخ (۱)

جناب ام سلمہ فرماتی ہیں ایک دن جناب فاطمہ (ع) ایک ظرف میں حریر (ایک کا حلوہ ہے) لے کر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو بھی بلاؤ، جب یہ تمام حضرات رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہویئےور غذا کھا نے میں مشغول ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی، اس کے بعد پیغمبر(ص) نے خیبری چادر ان کے سرپر ڈالی اور تین مرتبہ فرمایا کہ اے میرے خدا یہ میرے اہل بیت ہیں، آلودگی کو ان سے زائل کردے اورپاکیزہ بنادے(۲) _

عمر ابن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ یہ آیت''انما یريد الله'' جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی، پس پیغمبر اکرم(ص) نے علی (ع) اورفاطمہ اور حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور چادر ان کے سرپر ڈالی اور فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ فرما جو حق ہے جناب ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں بھی ان کے ساتھ ہوں یعنی اہلبیت میں داخل ہوں آپ نے جواب دیا کہ تم بھی اچھائی پر ہو(۳) _

____________________

۱) ینابیع المودہ، ص ۱۲۴_ درالمنثور، ج ۵ ص ۱۹۸_

۲) ینابیع المودہ، ص ۱۲۵ و درالمنثور، ج ۵ ص ۱۹۸_

۳) ینابیع المودہ، ص ۱۲۵_

۱۲۹

واثلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو زانو پر، اس کے بعد ان کے سروں پر چادر ڈال کر فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے(۱) _

خلاصہ رسول خدا(ص) کے اصحاب کی ایک جماعت جیسے جناب عائشےہ، ام سلمہ، معقل بن یسار، ابی الحمرائ، انس بن مالک، سعد ابن ابی وقاص، واثلہ ابن اسقعہ، حسن ابن علی، علی بن ابیطالب، ابوسعید خدری، زینب، ابن عباس اور ان کے علاوہ ایک اور جماعت نے اسی سے ملتی جلتی روایات اس آیت کی شان نزول میں نقل کی ہیں_ شیعہ اور سنی علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے درالمنثور میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودة اور دوسرے سنی علماء نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے_

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) اس آیت کے نازل ہوئے کے بعد متعدد مقامات پر اور ان میں سے خود جناب فاطمہ (ع) اور جناب ام سلمہ کے گھر اپنی عبا علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے سرپر ڈالتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا جو اشخاص میری عبا کے نیچے موجود ہیں یہی میرے اہلبیت ہیں، آلودگی کو ان سے دور فرما، رسول خدا(ص) اس قسم کا عمل اس لئے انجام دیتے تھے تا کہ اہلبیت (ع) کی شناخت ہوجائے اور یہ موضوع پایہ ثبوت کو پہنچ جائے یہاں تک کہ چھ ماہ اوربعض روایات کی بنا پرسات اور بعض دوسری روایت کی بناپر آٹھ مہینہ تک آپ کی یہ عادت تھی

____________________

۱)ینابیع المودہ، ص ۱۲۵ و درالمنثور ج ۵ ص ۱۹۹_

۱۳۰

کہ آپ صبح کے وقت جب نماز کے لئے جاتے اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر سے گزرتے تو ٹہرجاتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے(۱) _

رسول خدا(ص) ان موارد اورمواقع پر اپنی چادر علی (ع) اور فاطمہ (ع) اورحسن (ع) اور حسین (ع) علیہم السلام کے سر پر ڈالتے اور یہی آیت تلاوت فرماتے تا کہ اس سے غلط مطلب لینے کی کسی کو گنجائشے نہ رہے کہ کوئی دعوی کرے کہ میں بھی اہلبیت کا مصداق اور فرد ہوں، آپ اس مطلب کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ جب ام سلمہ نے عبا کے اندر داخل ہونا چاہا تو آپ نے چادر ان کے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تم نیکی پر ہو_ ایک زمانے تک صبح کے وقت آپ نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ (ع) کے گھر میں رہنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرماتے تا کہ لوگ سن لیں اور اس کے بعد انکار نہ کرسکیں_ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) بھی متعدد مقامات پر اور صحابہ کے روبرو فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے حق میںنازل ہوئی ہے_ اور کسی وقت بھی اس کا کسی نے انکار نہیں کیا_

اس آیت کے مطابق خداوند عالم فرماتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا کہ تم اہلبیت کو آلودگی اور رجس سے منزہ قرار دے_ اس رجس سے مراد ظاہری نجاست نہیں ہے کیونکہ اس کا دور کرنا اہلبیت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان مکلف ہیں کہ وہ اپنے آپ سے ظاہری نجاست کو دور رکھیں اور اس سے پرہیز کریں، اس کے علاوہ اگر ظاہری نجاست مراد ہوتی تو اس کے لئے اتنے اہتمام اور تکلف کی ضرور نہ تھی اور نہ ہی پیغمبر کو دعا

____________________

۱) کشف الغمہ،ج ۲ ص ۸۳، و در المنثور ج ۵ ص ۱۹۹، و فصول المتمہ ص ۸_

۱۳۱

کی ضرورت تھی_ مطلب اتنا مہم نہیں تھا کہ ام سلمہ اس کا مصداق ہونے کی خواہش کرتیں اور رسول خدا اس سے مانع ہوتے اس سے معلوم ہوجائے گا کہ مراد اس آیت میں ظاہری نجاست اور آلودگی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اور مقصود باطنی آلودگی یعنی گناہ اور اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، لہذا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا نے چاہا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ اہلبیت گناہ سے پاکیزہ ہوں اور اس ارادہ سے مراد بھی ارادہ تشریعی نہیں ہے، یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ خداتعالی نے اہلبیت سے_ طلب کیا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ اورمعصیت سے پاک کریں کیونکہ ایسا ارادہ بھی اہلبیت کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتا، کیوں کہ خداوند عالم تمام لوگوں سے یہی چاہتا ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں بلکہ اس ارادے سے مراد اس آیت میں تکوینی ارادہ ہے یعنی خدا نے اس طرح مقدر کردیا ہے کہ اہلبیت کا دامن معصیت اور گناہ سے پاک اور منزہ ہو حالانکہ تمام بشر مختار ہیں کہ وہ علم اور ارادے سے گناہوں کو ترک کریں_

پیغمبر(ص) نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے یعنی گناہوں سے معصوم ہونا_ ابن عباس نے رسول خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مخلوق کی دو قسم کی ہیں اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا ہے کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

( اصحاب الیمین ما اصحاب الیمین و اصحاب الشمال ما اصحاب الشمال ) _

میںاصحاب یمین سے اوران سے بہترین میں سے ہوں، اس کے بعد اللہ تعالی نے ان کی تین قسمیں کی ہیں اور مجھے ان میں سے بہترین قسم میں قرار دیا ہے_ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

۱۳۲

( فاصحاب المیمنة ما اصحاب المیمنة و اصحاب المشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون )

میں سابقین میں سے ہوں اور ان سے بہترین ہوں_ پھر ان تین قسموں کو قبیلوں میں تقسیم کیا_ اور مجھے بہترین میں قرار دیا_ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

( و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم )

پس میں حضرت آدم(ع) کی اولاد میں سے پرہیزگاروں اورمعظم ترین لوگوں میں سے ہوں، لیکن اس پرمیں فخر نہیں کرتا پھر اللہ تعالی نے ان قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا ہے، اور مجھے بہترین خاندان میں قرار دیا ہے_ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیراً )

پس میں اور میرے اہلبیت گناہوں اورمعصیت سے معصوم ہیں(۱) _

اعتراض

کہا گیا ہے کہ یہ آیت عصمت پر دلالت نہیں کرتی کیوں کہ اس سے پہلی آیت اور اس سے بعد کی آیات تمام کی تمام پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور انہی کوخطاب کیا گیا ہے_

اس قرینے کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت بھی پیغمبر(ص) کی ازدواج

____________________

۱) درالمنثور، ج ۱ ص ۱۹۹_

۱۳۳

کی شان میں نازل ہوئی ہے اور وہی اس آیت میں اس کی مخاطب ہیں اور اگر اس آیت کی دلالت عصمت پر مان لی جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ پیغمبر(ص) کی ازدواج گناہوں سے معصوم ہیں حالانکہ اس مطلب کو کسی نے نہیں کہا اور نہ ہی یہ مطلب کہا جاسکتا ہے لہذا کہنا ہوگا کہ اصلاً یہ آیت عصمت پر دلالت ہی نہیں کرتی نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازدواج کے مورد میں اور نہ ہی اہلبیت کے مورد میں_

اعتراض کا جواب

علامہ سید عبدالحسین شرف الدین نے اس اشکال کونقل کر کے اس کا جواب دیا ہے_ ہم یہاں وہ جواب نقل کر رہے ہیں_

پہلا جواب:

یہ ہے کہ جو احتمال اعتراض میں دیا گیا ہے وہ نص اور صریح روایات کے خلاف ہے اور یہ ایک ایسا اجتہاد ہے کہ جو نصوص اور روایات کے خلاف ہے کیوں کہ روایات حد تواتر تک موجود ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرات علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت انہیں سے مخصوص ہے_ یہان تک کہ جب جناب ام سلمہ نے چاہا کہ چادر کے اندر داخل ہوجائیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں سختی سے روک دیا_

دوسرا جواب:

اگر یہ آیت پیغمبر(ص) کی ازواج کے حق میں نازل ہوتی تو پھر

۱۳۴

چاہیئےھا کہ صیغہ مونث حاضر کا استعمال کیا جاتا اور یوں آیت ہوتی انما یرید اللہ لیذہب عنکم کی جگہ عنکنَّ ہوتا اور جمع مذکر کا صیغہ جو موجودہ آیت میں ہے نہ لایا جاتا_

تیسرا جواب:

عربی فصیح زبان میںعربوں کے درمیان یہ عام رواج ہے کہ وہ ایک مطلب کے درمیان جملہ معترضہ لایا کرتے ہیں، لہذا کیا حرج ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت کو جو اہلبیت سے مخصوص ہے ازواج پیغمبر(ص) کے ذکر کے درمیان ذکرکردیا ہو تا کہ اہلبیت کے موضوع کی اہمیت واضح ہوجائے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلانی ہو کہ چونکہ پیغمبر(ص) کے اہلبیت گناہوں سے معصوم ہیں کسی کو اس مقام کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے یہاں تک کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات بھی اس مقام کے حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتیں_

چوتھا جواب:

باوجودیکہ قرآن مجید میںتحریف واقع نہیں ہوئی اور قرآن مجید کی آیات میں کمی زیادتی نہیں ہوئی لیکن یہ مطلب تمام کے نزدیک مسلم نہیں کہ قرآن کی تدوین اور جمع کرنے کے وقت ان تمام آیات اور سورتوں کو بعینہ ویسے ہی رکھا گیا ہے جس ترتیب سے نازل ہوئی تھیں مثلاً کوئی بعید نہیں کہ اس آیت کو جو اہلبیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ایک علیحدہ جگہ نازل ہوئی ہو لیکن قرآن جمع کرنے کے وقت اس کو ان آیات کے درمیان رکھ دیا ہو جو پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں(۱) _

____________________

۱) کتاب کلمة الغراء فی تفصیل الزہرائ_ مولفہ سید عبدالحسین شرف الدین، ص ۲۱۲_

۱۳۵

دوسری دلیل

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) خدا تیرے غضبناک ہونے پرغضبناک ہوتا ہے اور تیری خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے(۱) _

اس حدیث کو شیعہ اور سنیوں نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کو دونوں قبول کرتے ہیں، اس حدیث کے مطابق جس جگہ فاطمہ (ع) غضبناک ہوں گی خدا بھی غضبناک ہوگا اور فاطمہ (ع) خوشنود ہوگی تو خدا بھی راضی اور خوشنود ہوگا اور یہ امر مسلم ہے کہ خدا واقع اور حق کے مطابق راضی اور غضبناک ہوتا ہے اور کبھی بھی برے یا خلاف حق کام کرنے پر راضی اور خوشنود نہیں ہوتا اگر چہ دوسرے اس پر راضی اور خوشنود ہی کیوں نہ ہوں اور کبھی بھی اچھے کاموں اور حق کے مطابق اعمال پر غضب ناک نہیں ہوتا، اگر چہ دوسرے لوگ اس پر غضبناک ہی کیوں نہ ہوتے ہوں، ان دو چیزوں کا لازمہ یہ ہوگا کہ جناب فاطمہ (ع) گناہ اور خطا سے معصوم ہوں، کیوں کہ اگر معصوم ہوئیں تو آپ کا غضب اور رضا شریعت کے میزان کے مطابق ہوگی اور کبھی بھی اللہ تعالی کی رضا کے خلاف راضی نہ ہوں گی اور کبھی بھی نیک اور حق کاموں سے غضبناک نہ ہوں گی اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے اور اگر وہ خوشنود ہو ت و خدا خوشنود ہوتا ہے_

بخلاف اگر گناہ اور خطا آپ کے حق میں جائز قرار دیا جائے تو بطور کلی یہ

____________________

۱) ینابیع المودہ، ص ۲۰۳ اور مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۰۳_

۱۳۶

نہیں کہا جاسکتا کہ فاطمہ (ع) کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی سے خدا خوشنود ہوتا ہے، اس مطلب کو ایک مثال دیگر واضح کردوں فرض کریں کہ حضرت فاطمہ (ع) معصوم نہ ہوں اور ان کے حق میں اشتباہ اور خطا ممکن ہو تو اس صورت میں ممکن ہے کہ آپ اشتباہ یا خواہشات نفسانی کی وجہ سے حق اور واقع کے خلاف کسی سے کوئی چیز طلب کریں اور اس کی وجہ سے ان میں نزاع اور کشمکش کی نوبت پہنچ جائے اور آپ کامد مقابل اس مقابلے پر جو آپ کر رہی ہیں راضی نہ ہو اور آپ کو مغلوب کردے تو ممکن ہے کہ آپ اس صورت میں غضب ناک ہوجائیں اور عدم رضایت کا اظہار کردیں تو کیا اس فرض اور صورت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ چونکہ فاطمہ (ع) اس شخص پر غضبناک ہیں لہذا اللہ بھی اس پر غضبناک ہے گر چہ حق اسی مد مقابل کے ساتھ ہے_ ایسا بالکل نہیںہوسکتا اور نہ ہی ایسے برے کام کو اللہ کی طرف نسبت دی جائیگی ہے_

ایک دوسری روایت سے بھی جناب فاطمہ (ع) کی عصمت کوثابت کیا جاسکتا ہے کہ جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو بھی اسے غضبناک کرے اس نے مجھے غضبناک کیا(۱) _

یہ حدیث بھی شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود ہے اور تمام مسلمان اس حدیث کو حتی کہ جناب عمر اور ابوبکر بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں_ سابقہ بیان کو جب اس حدیث کے پیرایہ میں دیکھا جاتا ہے تو اس سے بھی حضرت زہرا(ع) کی عصمت پر دلالت ہوجاتی ہے_ کیونکہ پیغمبر(ص) گناہ اور خطا اور خواہشات نفسانی سے معصوم ہیں

____________________

۱) صحیح بخاری، ج ۲ ص ۳۰۲_

۱۳۷

آپ اس کام پہ غضبناک ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے اور اس چیز سے راضی ہوتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اس صورت میں کہاجاسکتا ہے کہ فاطمہ (ع) معصوم اور گناہ اور خطا کا احتمال ان کے حق میں جائز نہیں_

ایک اور دلیل جو حضرت زہرا(ع) کی عصمت کو ثابت کرتی ہے، وہ حدیث ہے جو امام صادق (ع) نے نقل فرمائی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کا نام زہراء اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ کے وجود میں شر اور برائی کو کوئی راستہ نہیں ہے(۱) _

عورت جناب زہراء (ع) کی نظر میں

علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ایک جماعت کے ساتھ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ عورت کی مصلحت کس میں ہے؟ آپ کو کوئی صحیح جواب نہ دے سکا، جب اصحاب چلے گئے اور میں بھی گھر گیا تو میں نے پیغمبر(ص) کے سوال کو جناب فاطمہ (ع) کے سامنے پیش کیا_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ میں اس کا جواب جانتی ہوں، عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ اجنبی مرد کو نہ دیکھے اور اسے اجنبی مرد نہ دیکھے_ میں جب جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ آپ کے سوال

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۱۳۸

کے جواب میںجناب فاطمہ (ع) نے یہ فرمایا ہے_ پیغمبر(ص) نے آپ کے اس جواب سے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے(۱) _

اس میں کوئی شک نہیں کہ دین مقدس اسلام نے عورتوں کی ترقی اور پیشرفت کے لئے بلند قدم اٹھائے ہیں اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے ان کے لئے عادلانہ قوانین اور احکام وضع کئے ہیں، اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے اس کے مال اور کام کا محترم قرار دیا ہے، اجتماعی قوانین وضع کرتے وقت عورتوں کے واقعی منافع اورمصالح کی پوری طرح مراعات کی ہے_

لیکن یہ بات قابل بحث ہے کہ آیا عورت کی مصلحت اجتماع اورمعاشرے میں اجنبی مردوں کے ساتھ مخلوط رہنے میں ہے یا عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح عمومی مجالس اورمحافل میں بیگانوں کے ساتھ گھل مل کر پھرتی رہے؟ کیا یہ مطلب واقعاً عورتوں کے فائدے میں ہے کہ وہ زینت کر کے بغیر کسی بند و بار کے مردوں کی مجالس میں شریک ہو اور اپنے آپ کو انظار عمومی میں قرار دے؟ کیا یہ عورتوں کے لئے مصلحت ہے کہ وہ بیگانوں کے لئے آنکھ مچولی کرنے کا موقع فراہم کرنے اور مردوں کے لئے امکانات فراہم کرے کہ وہ اس سے دیدنی لذت اورمفت کی لذت حاصل کرتے رہیں؟ کیا یہ عورتوں کی منفعت میںہے کہ کسی پابندی کو اپنے لئے جائز قرار نہ دیں اور پوری طرح اجنبی مردوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں اور آزادانہ طور سے ایک دوسرے کو دیکھیں؟ کیا عورتوں کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ گھر سے اس طرح نکلے کہ

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۲_

۱۳۹

اس کاتعاقب اجنبی لوگوں کی نگاہیں کر رہی ہوں_

یا نہ بلکہ عورتوں کی مصلحت معاشرے میں اس میں ہے کہ اپنے آپ کو مستور کر کے سادہ طریقے سے گھر سے باہر آئیں اور اجنبی مردوں کے لئے زینت ظاہر نہ کریں نہ خود بیگانوں کودیکھیں اور نہ کوئی بیگانہ انہیں دیکھے_

آیا پہلی کیفیت میں تمام عورتوں کی مصلحت ہے اور وہ ان کے منافع کو بہتر طور پرمحفوظ کرسکتی ہے یا دوسری کیفیت میں؟ آیا پہلی کیفیت عورتوں کی روح اور ترقی اور پیشرفت کے بہتر اسباب فراہم کرسکتی ہے یا دوسری کیفیت ؟ پیغمبر اسلام(ص) نے اس مہم اوراجتماع اور معاشرے کے اساسی مسئلہ کواپنے اصحاب کے افکار عمومی کے سامنے پیش کیااور ان کی اس میں رائے طلب کی لیکن اصحاب میں سے کوئی بھی اس کا پسندیدہ جواب نہ دے سکا، جواب اس کی اطلاع حضرت زہراء (ع) کو ئی تو آپ نے اس مشکل موضوع میں اس طرح اپنا نظریہ بیان کیا کہ عورتوں کی معاشرے میں مصلحت اس میں ہے کہ نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھیں اور نہ اجنبی مرد انہیں دیکھیں_ وہ زہراء (ع) جو وحی اور ولایت کے گھر میں تربیت پاچکی تھی اس کا اتنا ٹھوس اور قیمتی جواب دیا اوراجتماعی موضوع میں سے ایک حساس اور مہم موضوع میں اپنے نظریئے اورعقیدے کااظہار کیا کہ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کاٹکڑا ہے_

اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات کو دور رکھ کر غیر جانبدارانہ اس مسئلے میں سوچے اور اس کے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فکر کرے تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ جو جواب جناب فاطمہ (ع) نے دیا ہے وہ بہترین دستورالعمل ہوسکتا ہے جو عورتوں کے منافع کا ضامن ہو_ اور اس کے مقام اور رتبے کو

۱۴۰