فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون20%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104341 / ڈاؤنلوڈ: 4816
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بس خدا کے رسول کا ان تمام غیر عادی محبت کے اظہار میں کوئی اور منشا اور غرض ہونی چاہیئے_

جناب رسول خدا(ص) نے اپی بیٹی فاطمہ (ع) کے مقام و مرتبت کو خود مشخص کیا تھا اور آپ ان کے رتبے کو اچھی طرح پہچانتے تھے_ جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) ولایت اور امامت کی تولید کامرکز اور دین کے پیشواؤں کی ماں ہیں، اسلام کی نمونہ اور مثال اور ہر گناہ سے معصوم ہیں_ حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی آپ کے بلند مقام کو درک نہیں کرسکتا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کا نور آسمان کے فرشتوں کو روشنی دینے والا ہے، بہشت کی خوشبو کو فاطمہ (ع) سے استشمام کرتے تھے یہی علت تھی کہ آپ حد سے زیادہ فاطمہ (ع) سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے_

فاطمہ (ع) اور علی (ع) کی سخت زندگی

ایک زمانہ میں حضرت علی (ع) کی زندگی بہت سخت گزر رہی تھی_ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا گویا زہرا(ع) دروازے پرہے دروازہ کھولو_ دیکھو کون ہے، جب انہوں نے گھر کا دروازہ کھولا تو جناب فاطمہ علیہا السلام گھر کے اندر داخل ہوئیں سلام کیا اور باپ کی خدمت میں بیٹھ گئیں، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) تم اس وقت پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا کرتی تھیں کیا ہوا ہے؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ملائکہ کی غذا کیا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالی

۱۲۱

کی حمد_ عرض کیا، اباجان ہماری غذا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا کی قسم ایک مہینہ ہونے کو ہے کہ آل محمد(ص) کے گھر میں آگ نہیں جلائی گئی_ میری آنکھوں کانور، آگے آؤ میں تمہیں وہ پانچ کلمات بتلاتا ہوں جو جبرئیل نے مجھے تعلیم دیئے ہیں_

''یا رب الاولین وَ الآخرین یا ذالقوة المتین

و یا ارحم المساکین و یا ارحم الراحمین''

جناب فاطمہ (ع) نے یہ دعا یاد کی اور گھر لوٹ آئیں، حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا کہاں گئی تھیں؟ جواب دیا دنیا طلب کرنے گئی تھی لیکن آخرت کے لئے دستور لے کر آئی ہوں_ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا آج سب سے بہتر دن تھا(۱) _

ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کی عیادت کی اور آپ کے احوال پوچھے تو آپ نے عرض کیا اباجان بیمار ہوں اور اس سے بدتر یہ کہ گھر میں کوئی چیز موجود نہیں جو کھاؤں، آپ نے فرمایا کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں کہ دنیا کی عورتوں سے بہترہو(۲) _

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جو آتا ہے وہ فقراء میں تقسیم کردیتے ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا: بیٹی فاطمہ (ع) خبردار میرے بھائی اور چچازاد علی (ع) کوناراحت نہ کرنا

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۲_

۲) در رالسمطین، ص ۱۷۹_

۱۲۲

کیوں کہ علی (ع) کاغضب میرا غضب ہے اورمیرا غضب خدا کا غضب ہے(۱) _

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ ایک دن رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے دیکھا کہ حسن(ع) اور حسین(ع) گھر میں موجود نہیں ہیں ان کی حالت پوچھی، جناب فاطمہ (ع) نے عرض کی، آج ہمارے گھر میںکھانے کے لئے کچھ موجود نہ تھا، علی (ع) نے جب باہر جانا چاہا فرمایا کہ میںحسن (ع) و حسین (ع) کو اپنے ساتھ باہر لے جاتا ہوں تا کہ یہاں روئیں نہ اور تم سے غذا کا مطالبہ نہ کریں_ ان کواٹھایا اور فلاںیہودی کے پاس چلے گئے_ جناب رسول خدا(ص) علی کی تلاش میں باہر گئے اور انہیں یہودی کے باغ میں ڈول کھینچتے دیکھا اور دیکھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) کھیل میں مشغول ہیں اور ان کے سامنے تھوڑی مقدار خرما کی بھی موجود ہے_ پیغمبر(ص) نے علی (ع) سے فرمایا کہ دن گرم ہونے سے پہلے حسن (ع) و حسین (ع) کو گھر لوٹانا نہیںچاہتے؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) جب میںگھر سے باہر آیا تھا تو ہمارے گھر کوئی غذا موجود نہ تھی آپ تھوڑ ا توقف کریں تا کہ میںکچھ خرما جناب فاطمہ (ع) کے لئے مہیا کروں_ میں نے اس یہودی سے ہر ڈول کے کھینچنے پر ایک خرما مقرر کیا ہے_ جب کچھ خرمے مہیا ہوگئے انہیں آپ نے اپنے دامن میں ڈالا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کواٹھایا اور گھر واپس لوٹ آئے(۲) _

ایک دن پیغمبر(ص) فاطمہ (ع) کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ (ع) گلوبند پہنے ہوئے ہیں، آپ نے فاطمہ (ع) سے روگردانی کی اور چلے گئے، جناب فاطمہ (ع) آپ کی روگردانی

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۳_

۱۲۳

کی علت کو بھانپ گئیں، ہارا تارا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر کردیا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) تم مجھ سے ہو_ اس کے بعد ایک غریب آدمی آیا تو آپ نے وہ ہار اس کو عطا کردیا اور فرمایا کہ جو شخص ہمارا خون بہائے اورمیرے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت دے خداوند عالم اس پر غضب کرے گا(۱) _

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں بیٹھی تھی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں آئے، آپ نے فاطمہ (ع) کی گردن میں سونے کا ہار دیکھا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) لوگوں کے اس کہنے پر کہ فاطمہ (ع) رسول(ص) کی دختر ہے مغرور نہ ہونا جب کہ تم اس حالت میں ہو کہ ظالموں کا لباس تمہارے جسم پرہو_ جناب زہراء نے فوراً ہار کو اتارا اور فروخت کردیا اور اس کی قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا، پیغمبر(ص) آپ کے اس کام سے بہت خوش ہوئے(۲) _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت یہ تھی کہ جب سفر کو جاتے تو آخری آدمی کہ جس سے وداع کرتے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو پہلا انسان جس کا آپ دیدار کرتے تھے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں، آپ ایک سفر سے جب جناب فاطمہ (ع) کے گھر آئے تو دیکھا حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کا دست بند ہے اور ایک پردہ بھی لٹکا ہوا ہے آپ نے اسے تھوڑی دیر تک دیکھا اور اپنی عادت کے خلاف

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۲_

۲) نظم در رالسمطین ص ۱۷۹_

۱۲۴

جناب زہرا(ع) کے گھر نہ ٹھہرے اور فوراً واپس لوٹ گئے، جناب فاطمہ (ع) غمگین ہوئیں اوراس واقعہ کی علت سمجھ گئیں، پردہ اتار اورحضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھ سے دست بند بھی اتارا، اور یہ کسی ذریعہ سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کردیا_ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی آنکھوں کو بوسہ دیا اور آپ کو نوازش دی اور دس بند کو مسجد میں حوفقراء رہتے تھے ان میں تقسیم کردیا اور پردے کے ٹکڑے کر کے مختلف برہنہ انسانوں کودیئے تا کہ وہ ستر عورت کرسکیں اس کے بعد جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا فاطمہ (ع) پر رحمت کرے اور اسے بہشتی لباس پہنائے اور بہشتی زینت اسے عطا کرے(۱) _

عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ جناب فاطمہ (ع) زہراء وہاں تشریف لے آئیں_ جب رسول خدا کی نگاہ آپ کے چہرے پر پڑی جو بھوک سے زرد ہوچکا تھا اور اس پر خون کے موجود ہونے کے آثار نہیں نظر آرہے تھے تو انہوں نے اپنے پاس بلایا اور اپنا دست مبارک جناب فاطمہ (ع) کے سینے پر رکھا اور فرمایا اے وہ خدا جو بھوکوں کو سیر کرتا ہے اور ضعیفوں کو بلند کرتا ہے، فاطمہ (ع) محمد(ص) کی دختر کو بھوکا نہ رکھ_ عمران کہتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی دعا کی برکت سے جناب فاطمہ (ع) کے چہرے کی زردی ختم ہوگئی، اور آپ کے چہرے پرخون دوڑے کے آثار

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۳_

۲) نظم در رالسمطین، ص ۱۹۱_

۱۲۵

عملی دعوت

روایات اور تواریخ یہ گواہی دے رہی ہیں کہ اہلبیت کی فرد اول یعنی پیغمبر اسلام(ص) اور اسلام کی دوسری شخصیت علی بن ابیطالب(ع) اور اسلام کی پہلی خاتون فاطمہ زہراء (ع) کی زندگی بہت سادہ بلکہ بہت سختی اور مشقت سے گزرتی تھی، اور اس پر بہت زیادہ تعجب بھی نہیں کیا جانا چاہیئےیوں کہ اس زمانے میں تمام مسلمانوں کی عمومی زندگی اچھی نہ تھی_

اکثر مسلمان فقیر اور معاشرے سے محروم افراد ہوا کرتے تھے وہ گروہ کہ جن کی ایک حد تک زندگی بری نہ تھی دشمنوں کے خوف سے مجبور ہوگئے تھے اور اپنی تمام پونجی اور گھر بار مکہ چھوڑکر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے، مدینہ میں بھی اکثریت فقراء کی تھی اور جو چند آدمی جن کی وضع کسی حدتک اچھی تھی وہ بھی مجبور تھے کہ ان مسلمانوں سے جو مکہ چھوڑکر ہجرت کر آئے تھے ہمدرد ی اور مالی مواسات بجالائیں اور اپنی قدرت کے مطابق ان کی مدد اور مساعدت کریں اور دوسری طرف وہ زمانہ اسلام کا بحرانی زمانہ تھا مسلمان ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہتے تھے اور اکثر اوقات جنگ اور دفاع میں مشغول رہتے تھے اسی وجہ سے اپنی اقتصادی اوضاع کو قوی نہیںکرسکتے تھے_

ان حالات میں کیا پیغمبر(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے لئے مناسب اور ممکن تھا کہ وہ اپنے لئے اچھی زندگی فراہم کریں اور فقراء اور بیچاروں سے ہمدردی نہ کریں اگر چہ پیغمبر(ص) اور حضرت علی (ع) خود کام کیا کرتے تھے اور اسی ذریعہ سے

۱۲۶

ان کے پاس مشروع اورجائز دولت بھی اکھٹی ہوجاتی تھی اور جنگ کی غنیمت سے بھی انہیں حصہ ملتا تھا اور اگر چاہتے تو اچھی زندگی گزار سکتے تھے، لیکن کیا یہ ممکن تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے داماد اور ان کی بیٹی تو آرام سے زندگی گزاریں لیکن مدینہ کے فقراء کی فریادیں بلند ہوں، کیا یہ مناسب تھا کہ پیغمبر(ص) کی دختر تو گھر پر پردے لٹکائے رکھے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کے پاس سترعورت کے لئے کپڑے تک موجود نہ ہوں، کیا یہ ہوسکتا تھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) توہاتھوں میں چاندی کے دست بند پہنے ہوئے ہوں اور مسلمانوں کے بچوں کی بھوک سے فضاء میں آوازیں بلند ہو رہی ہوں_

قاعدتاً اگر اسلام کا پہلا شخص اور اہلبیت گرامی دوسرے مسلمانوں سے مواسات نہ کرتے تو کیا ممکن ہوتا کہ مسلمانوں کے مستضعف گروہ کو صدر اسلام میں کہ جو ابھی اچھی طرح پیغمبری اور وحی کے معنی کو درک نہیں کرتے تھے اور ان کی عقلیں صرف ان کی آنکھوں تک محدود تھی حاضر کیا جاتا کہ وہ میدان جہاد میں فداکاری کریں اور اپنی جان کو قربان کریں؟ اسلام کی پیشرفت اور اس کے معنوی نفوذ کی ایک علت یہ بھی تھی کہ جو آنحضرت سے سنتے تھے اسے عملی طور سے بھی رفتار و گفتار اور زندگی فردی اور خانوادے کی زندگی میںمشاہدہ بھی کرتے تھے اسی عملی دعوت کی وجہ سے وہ اسلام اور جانبازی کی طرف مائل ہوا کرتے تھے لیکن

حضرت زہراء کی عصمت

لغت میں لفظ معصوم کے معنی محفوظ اور ممنوع کے ہیں_ اصطلاح میں معصوم اس شخص کو کہاجاتا ہے جو غلطی اور اشتباہ اور گناہوں سے امان میں ہو اور محفوظ ہو معصوم اسے کہتے ہیں کہ اس کی بصیرت

۱۲۷

کی آنکھ ایسی ہو کہ عالم کے حقائق کا مشاہدہ کر رہی ہو اور اس ارتباط اور اتصال کی وجہ سے جو اسے عالم ملکوت سے ہے اور غیبی تائیدات سے گناہ اور نافرمانی نہ کرے اور اس کے وجود مقدس میں غلطی اور اشتباہ اور سرکشی اور عصیاں گزر نہ کرسکے_ عصمت کا بلند و بالا رتبہ اور مقام دلائل عقلی اور نقلی اور براہین سے پیغمبروں کے لئے تو ثابت ہوچکا ہے_

شیعہ امامیہ کاعقیدہ ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) کے حقیقی جانشین و خلفاء اور بارہ اماموں کو بھی معصوم ہونا چاہیئےور ان کے پاس ان بزرگوں کی عصمت کے لئے دلائل اور براہین بھی موجود ہیں_ اگر ہم ان کا ذکر یہاں شروع کردیں تو اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے_

شیعہ امامیہ پیغمبروں کی عصمت کے علاوہ حضرت زہرا (ع) کو بھی گناہوں اور نافرمانی سے معصوم جانتے ہیں اور آپ کی عصمت کے ثبوت کے لئے بہت سی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں_ بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے_

پہلی دلیل اس آیت کے تمسک کر کے آپ کی عصمت کو ثابت کیاجاسکتا ہے_

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (۱)

آیت کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے_ ''خدا چاہتا ہے کہ ناپاکی اور آلودگی کو تم اہلبیت سے دور کردے اورکاملاً تمہیں پاکیزہ اور طاہر کردے_

شیعہ اور سنی نے بہت زیادہ احادیث نقل کی ہے جو دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت پیغمبر(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے_

____________________

۱) سورہ احزاب آیت ۲۴_

۱۲۸

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کندھے پر سیاہ پشم کا بنا ہوا کپڑا ڈالے گھر س باہر نکلے اس کے بعد حسن اور حسین (ع) اور فاطمہ (ع) اور علی (ع) کو اس کپڑے اور چادر کے درمیان لیا اور فرمایا:

انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت الخ (۱)

جناب ام سلمہ فرماتی ہیں ایک دن جناب فاطمہ (ع) ایک ظرف میں حریر (ایک کا حلوہ ہے) لے کر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو بھی بلاؤ، جب یہ تمام حضرات رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہویئےور غذا کھا نے میں مشغول ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی، اس کے بعد پیغمبر(ص) نے خیبری چادر ان کے سرپر ڈالی اور تین مرتبہ فرمایا کہ اے میرے خدا یہ میرے اہل بیت ہیں، آلودگی کو ان سے زائل کردے اورپاکیزہ بنادے(۲) _

عمر ابن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ یہ آیت''انما یريد الله'' جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی، پس پیغمبر اکرم(ص) نے علی (ع) اورفاطمہ اور حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور چادر ان کے سرپر ڈالی اور فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ فرما جو حق ہے جناب ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں بھی ان کے ساتھ ہوں یعنی اہلبیت میں داخل ہوں آپ نے جواب دیا کہ تم بھی اچھائی پر ہو(۳) _

____________________

۱) ینابیع المودہ، ص ۱۲۴_ درالمنثور، ج ۵ ص ۱۹۸_

۲) ینابیع المودہ، ص ۱۲۵ و درالمنثور، ج ۵ ص ۱۹۸_

۳) ینابیع المودہ، ص ۱۲۵_

۱۲۹

واثلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو زانو پر، اس کے بعد ان کے سروں پر چادر ڈال کر فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے(۱) _

خلاصہ رسول خدا(ص) کے اصحاب کی ایک جماعت جیسے جناب عائشےہ، ام سلمہ، معقل بن یسار، ابی الحمرائ، انس بن مالک، سعد ابن ابی وقاص، واثلہ ابن اسقعہ، حسن ابن علی، علی بن ابیطالب، ابوسعید خدری، زینب، ابن عباس اور ان کے علاوہ ایک اور جماعت نے اسی سے ملتی جلتی روایات اس آیت کی شان نزول میں نقل کی ہیں_ شیعہ اور سنی علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے درالمنثور میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودة اور دوسرے سنی علماء نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے_

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) اس آیت کے نازل ہوئے کے بعد متعدد مقامات پر اور ان میں سے خود جناب فاطمہ (ع) اور جناب ام سلمہ کے گھر اپنی عبا علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے سرپر ڈالتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا جو اشخاص میری عبا کے نیچے موجود ہیں یہی میرے اہلبیت ہیں، آلودگی کو ان سے دور فرما، رسول خدا(ص) اس قسم کا عمل اس لئے انجام دیتے تھے تا کہ اہلبیت (ع) کی شناخت ہوجائے اور یہ موضوع پایہ ثبوت کو پہنچ جائے یہاں تک کہ چھ ماہ اوربعض روایات کی بنا پرسات اور بعض دوسری روایت کی بناپر آٹھ مہینہ تک آپ کی یہ عادت تھی

____________________

۱)ینابیع المودہ، ص ۱۲۵ و درالمنثور ج ۵ ص ۱۹۹_

۱۳۰

کہ آپ صبح کے وقت جب نماز کے لئے جاتے اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر سے گزرتے تو ٹہرجاتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے(۱) _

رسول خدا(ص) ان موارد اورمواقع پر اپنی چادر علی (ع) اور فاطمہ (ع) اورحسن (ع) اور حسین (ع) علیہم السلام کے سر پر ڈالتے اور یہی آیت تلاوت فرماتے تا کہ اس سے غلط مطلب لینے کی کسی کو گنجائشے نہ رہے کہ کوئی دعوی کرے کہ میں بھی اہلبیت کا مصداق اور فرد ہوں، آپ اس مطلب کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ جب ام سلمہ نے عبا کے اندر داخل ہونا چاہا تو آپ نے چادر ان کے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تم نیکی پر ہو_ ایک زمانے تک صبح کے وقت آپ نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ (ع) کے گھر میں رہنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرماتے تا کہ لوگ سن لیں اور اس کے بعد انکار نہ کرسکیں_ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) بھی متعدد مقامات پر اور صحابہ کے روبرو فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے حق میںنازل ہوئی ہے_ اور کسی وقت بھی اس کا کسی نے انکار نہیں کیا_

اس آیت کے مطابق خداوند عالم فرماتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا کہ تم اہلبیت کو آلودگی اور رجس سے منزہ قرار دے_ اس رجس سے مراد ظاہری نجاست نہیں ہے کیونکہ اس کا دور کرنا اہلبیت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان مکلف ہیں کہ وہ اپنے آپ سے ظاہری نجاست کو دور رکھیں اور اس سے پرہیز کریں، اس کے علاوہ اگر ظاہری نجاست مراد ہوتی تو اس کے لئے اتنے اہتمام اور تکلف کی ضرور نہ تھی اور نہ ہی پیغمبر کو دعا

____________________

۱) کشف الغمہ،ج ۲ ص ۸۳، و در المنثور ج ۵ ص ۱۹۹، و فصول المتمہ ص ۸_

۱۳۱

کی ضرورت تھی_ مطلب اتنا مہم نہیں تھا کہ ام سلمہ اس کا مصداق ہونے کی خواہش کرتیں اور رسول خدا اس سے مانع ہوتے اس سے معلوم ہوجائے گا کہ مراد اس آیت میں ظاہری نجاست اور آلودگی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اور مقصود باطنی آلودگی یعنی گناہ اور اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، لہذا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا نے چاہا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ اہلبیت گناہ سے پاکیزہ ہوں اور اس ارادہ سے مراد بھی ارادہ تشریعی نہیں ہے، یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ خداتعالی نے اہلبیت سے_ طلب کیا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ اورمعصیت سے پاک کریں کیونکہ ایسا ارادہ بھی اہلبیت کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتا، کیوں کہ خداوند عالم تمام لوگوں سے یہی چاہتا ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں بلکہ اس ارادے سے مراد اس آیت میں تکوینی ارادہ ہے یعنی خدا نے اس طرح مقدر کردیا ہے کہ اہلبیت کا دامن معصیت اور گناہ سے پاک اور منزہ ہو حالانکہ تمام بشر مختار ہیں کہ وہ علم اور ارادے سے گناہوں کو ترک کریں_

پیغمبر(ص) نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے یعنی گناہوں سے معصوم ہونا_ ابن عباس نے رسول خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مخلوق کی دو قسم کی ہیں اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا ہے کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

( اصحاب الیمین ما اصحاب الیمین و اصحاب الشمال ما اصحاب الشمال ) _

میںاصحاب یمین سے اوران سے بہترین میں سے ہوں، اس کے بعد اللہ تعالی نے ان کی تین قسمیں کی ہیں اور مجھے ان میں سے بہترین قسم میں قرار دیا ہے_ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

۱۳۲

( فاصحاب المیمنة ما اصحاب المیمنة و اصحاب المشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون )

میں سابقین میں سے ہوں اور ان سے بہترین ہوں_ پھر ان تین قسموں کو قبیلوں میں تقسیم کیا_ اور مجھے بہترین میں قرار دیا_ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

( و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم )

پس میں حضرت آدم(ع) کی اولاد میں سے پرہیزگاروں اورمعظم ترین لوگوں میں سے ہوں، لیکن اس پرمیں فخر نہیں کرتا پھر اللہ تعالی نے ان قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا ہے، اور مجھے بہترین خاندان میں قرار دیا ہے_ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیراً )

پس میں اور میرے اہلبیت گناہوں اورمعصیت سے معصوم ہیں(۱) _

اعتراض

کہا گیا ہے کہ یہ آیت عصمت پر دلالت نہیں کرتی کیوں کہ اس سے پہلی آیت اور اس سے بعد کی آیات تمام کی تمام پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور انہی کوخطاب کیا گیا ہے_

اس قرینے کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت بھی پیغمبر(ص) کی ازدواج

____________________

۱) درالمنثور، ج ۱ ص ۱۹۹_

۱۳۳

کی شان میں نازل ہوئی ہے اور وہی اس آیت میں اس کی مخاطب ہیں اور اگر اس آیت کی دلالت عصمت پر مان لی جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ پیغمبر(ص) کی ازدواج گناہوں سے معصوم ہیں حالانکہ اس مطلب کو کسی نے نہیں کہا اور نہ ہی یہ مطلب کہا جاسکتا ہے لہذا کہنا ہوگا کہ اصلاً یہ آیت عصمت پر دلالت ہی نہیں کرتی نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازدواج کے مورد میں اور نہ ہی اہلبیت کے مورد میں_

اعتراض کا جواب

علامہ سید عبدالحسین شرف الدین نے اس اشکال کونقل کر کے اس کا جواب دیا ہے_ ہم یہاں وہ جواب نقل کر رہے ہیں_

پہلا جواب:

یہ ہے کہ جو احتمال اعتراض میں دیا گیا ہے وہ نص اور صریح روایات کے خلاف ہے اور یہ ایک ایسا اجتہاد ہے کہ جو نصوص اور روایات کے خلاف ہے کیوں کہ روایات حد تواتر تک موجود ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرات علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت انہیں سے مخصوص ہے_ یہان تک کہ جب جناب ام سلمہ نے چاہا کہ چادر کے اندر داخل ہوجائیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں سختی سے روک دیا_

دوسرا جواب:

اگر یہ آیت پیغمبر(ص) کی ازواج کے حق میں نازل ہوتی تو پھر

۱۳۴

چاہیئےھا کہ صیغہ مونث حاضر کا استعمال کیا جاتا اور یوں آیت ہوتی انما یرید اللہ لیذہب عنکم کی جگہ عنکنَّ ہوتا اور جمع مذکر کا صیغہ جو موجودہ آیت میں ہے نہ لایا جاتا_

تیسرا جواب:

عربی فصیح زبان میںعربوں کے درمیان یہ عام رواج ہے کہ وہ ایک مطلب کے درمیان جملہ معترضہ لایا کرتے ہیں، لہذا کیا حرج ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت کو جو اہلبیت سے مخصوص ہے ازواج پیغمبر(ص) کے ذکر کے درمیان ذکرکردیا ہو تا کہ اہلبیت کے موضوع کی اہمیت واضح ہوجائے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلانی ہو کہ چونکہ پیغمبر(ص) کے اہلبیت گناہوں سے معصوم ہیں کسی کو اس مقام کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے یہاں تک کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات بھی اس مقام کے حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتیں_

چوتھا جواب:

باوجودیکہ قرآن مجید میںتحریف واقع نہیں ہوئی اور قرآن مجید کی آیات میں کمی زیادتی نہیں ہوئی لیکن یہ مطلب تمام کے نزدیک مسلم نہیں کہ قرآن کی تدوین اور جمع کرنے کے وقت ان تمام آیات اور سورتوں کو بعینہ ویسے ہی رکھا گیا ہے جس ترتیب سے نازل ہوئی تھیں مثلاً کوئی بعید نہیں کہ اس آیت کو جو اہلبیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ایک علیحدہ جگہ نازل ہوئی ہو لیکن قرآن جمع کرنے کے وقت اس کو ان آیات کے درمیان رکھ دیا ہو جو پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں(۱) _

____________________

۱) کتاب کلمة الغراء فی تفصیل الزہرائ_ مولفہ سید عبدالحسین شرف الدین، ص ۲۱۲_

۱۳۵

دوسری دلیل

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) خدا تیرے غضبناک ہونے پرغضبناک ہوتا ہے اور تیری خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے(۱) _

اس حدیث کو شیعہ اور سنیوں نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کو دونوں قبول کرتے ہیں، اس حدیث کے مطابق جس جگہ فاطمہ (ع) غضبناک ہوں گی خدا بھی غضبناک ہوگا اور فاطمہ (ع) خوشنود ہوگی تو خدا بھی راضی اور خوشنود ہوگا اور یہ امر مسلم ہے کہ خدا واقع اور حق کے مطابق راضی اور غضبناک ہوتا ہے اور کبھی بھی برے یا خلاف حق کام کرنے پر راضی اور خوشنود نہیں ہوتا اگر چہ دوسرے اس پر راضی اور خوشنود ہی کیوں نہ ہوں اور کبھی بھی اچھے کاموں اور حق کے مطابق اعمال پر غضب ناک نہیں ہوتا، اگر چہ دوسرے لوگ اس پر غضبناک ہی کیوں نہ ہوتے ہوں، ان دو چیزوں کا لازمہ یہ ہوگا کہ جناب فاطمہ (ع) گناہ اور خطا سے معصوم ہوں، کیوں کہ اگر معصوم ہوئیں تو آپ کا غضب اور رضا شریعت کے میزان کے مطابق ہوگی اور کبھی بھی اللہ تعالی کی رضا کے خلاف راضی نہ ہوں گی اور کبھی بھی نیک اور حق کاموں سے غضبناک نہ ہوں گی اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے اور اگر وہ خوشنود ہو ت و خدا خوشنود ہوتا ہے_

بخلاف اگر گناہ اور خطا آپ کے حق میں جائز قرار دیا جائے تو بطور کلی یہ

____________________

۱) ینابیع المودہ، ص ۲۰۳ اور مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۰۳_

۱۳۶

نہیں کہا جاسکتا کہ فاطمہ (ع) کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی سے خدا خوشنود ہوتا ہے، اس مطلب کو ایک مثال دیگر واضح کردوں فرض کریں کہ حضرت فاطمہ (ع) معصوم نہ ہوں اور ان کے حق میں اشتباہ اور خطا ممکن ہو تو اس صورت میں ممکن ہے کہ آپ اشتباہ یا خواہشات نفسانی کی وجہ سے حق اور واقع کے خلاف کسی سے کوئی چیز طلب کریں اور اس کی وجہ سے ان میں نزاع اور کشمکش کی نوبت پہنچ جائے اور آپ کامد مقابل اس مقابلے پر جو آپ کر رہی ہیں راضی نہ ہو اور آپ کو مغلوب کردے تو ممکن ہے کہ آپ اس صورت میں غضب ناک ہوجائیں اور عدم رضایت کا اظہار کردیں تو کیا اس فرض اور صورت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ چونکہ فاطمہ (ع) اس شخص پر غضبناک ہیں لہذا اللہ بھی اس پر غضبناک ہے گر چہ حق اسی مد مقابل کے ساتھ ہے_ ایسا بالکل نہیںہوسکتا اور نہ ہی ایسے برے کام کو اللہ کی طرف نسبت دی جائیگی ہے_

ایک دوسری روایت سے بھی جناب فاطمہ (ع) کی عصمت کوثابت کیا جاسکتا ہے کہ جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو بھی اسے غضبناک کرے اس نے مجھے غضبناک کیا(۱) _

یہ حدیث بھی شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود ہے اور تمام مسلمان اس حدیث کو حتی کہ جناب عمر اور ابوبکر بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں_ سابقہ بیان کو جب اس حدیث کے پیرایہ میں دیکھا جاتا ہے تو اس سے بھی حضرت زہرا(ع) کی عصمت پر دلالت ہوجاتی ہے_ کیونکہ پیغمبر(ص) گناہ اور خطا اور خواہشات نفسانی سے معصوم ہیں

____________________

۱) صحیح بخاری، ج ۲ ص ۳۰۲_

۱۳۷

آپ اس کام پہ غضبناک ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے اور اس چیز سے راضی ہوتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اس صورت میں کہاجاسکتا ہے کہ فاطمہ (ع) معصوم اور گناہ اور خطا کا احتمال ان کے حق میں جائز نہیں_

ایک اور دلیل جو حضرت زہرا(ع) کی عصمت کو ثابت کرتی ہے، وہ حدیث ہے جو امام صادق (ع) نے نقل فرمائی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کا نام زہراء اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ کے وجود میں شر اور برائی کو کوئی راستہ نہیں ہے(۱) _

عورت جناب زہراء (ع) کی نظر میں

علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ایک جماعت کے ساتھ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ عورت کی مصلحت کس میں ہے؟ آپ کو کوئی صحیح جواب نہ دے سکا، جب اصحاب چلے گئے اور میں بھی گھر گیا تو میں نے پیغمبر(ص) کے سوال کو جناب فاطمہ (ع) کے سامنے پیش کیا_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ میں اس کا جواب جانتی ہوں، عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ اجنبی مرد کو نہ دیکھے اور اسے اجنبی مرد نہ دیکھے_ میں جب جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ آپ کے سوال

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۱۳۸

کے جواب میںجناب فاطمہ (ع) نے یہ فرمایا ہے_ پیغمبر(ص) نے آپ کے اس جواب سے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے(۱) _

اس میں کوئی شک نہیں کہ دین مقدس اسلام نے عورتوں کی ترقی اور پیشرفت کے لئے بلند قدم اٹھائے ہیں اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے ان کے لئے عادلانہ قوانین اور احکام وضع کئے ہیں، اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے اس کے مال اور کام کا محترم قرار دیا ہے، اجتماعی قوانین وضع کرتے وقت عورتوں کے واقعی منافع اورمصالح کی پوری طرح مراعات کی ہے_

لیکن یہ بات قابل بحث ہے کہ آیا عورت کی مصلحت اجتماع اورمعاشرے میں اجنبی مردوں کے ساتھ مخلوط رہنے میں ہے یا عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح عمومی مجالس اورمحافل میں بیگانوں کے ساتھ گھل مل کر پھرتی رہے؟ کیا یہ مطلب واقعاً عورتوں کے فائدے میں ہے کہ وہ زینت کر کے بغیر کسی بند و بار کے مردوں کی مجالس میں شریک ہو اور اپنے آپ کو انظار عمومی میں قرار دے؟ کیا یہ عورتوں کے لئے مصلحت ہے کہ وہ بیگانوں کے لئے آنکھ مچولی کرنے کا موقع فراہم کرنے اور مردوں کے لئے امکانات فراہم کرے کہ وہ اس سے دیدنی لذت اورمفت کی لذت حاصل کرتے رہیں؟ کیا یہ عورتوں کی منفعت میںہے کہ کسی پابندی کو اپنے لئے جائز قرار نہ دیں اور پوری طرح اجنبی مردوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں اور آزادانہ طور سے ایک دوسرے کو دیکھیں؟ کیا عورتوں کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ گھر سے اس طرح نکلے کہ

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۲_

۱۳۹

اس کاتعاقب اجنبی لوگوں کی نگاہیں کر رہی ہوں_

یا نہ بلکہ عورتوں کی مصلحت معاشرے میں اس میں ہے کہ اپنے آپ کو مستور کر کے سادہ طریقے سے گھر سے باہر آئیں اور اجنبی مردوں کے لئے زینت ظاہر نہ کریں نہ خود بیگانوں کودیکھیں اور نہ کوئی بیگانہ انہیں دیکھے_

آیا پہلی کیفیت میں تمام عورتوں کی مصلحت ہے اور وہ ان کے منافع کو بہتر طور پرمحفوظ کرسکتی ہے یا دوسری کیفیت میں؟ آیا پہلی کیفیت عورتوں کی روح اور ترقی اور پیشرفت کے بہتر اسباب فراہم کرسکتی ہے یا دوسری کیفیت ؟ پیغمبر اسلام(ص) نے اس مہم اوراجتماع اور معاشرے کے اساسی مسئلہ کواپنے اصحاب کے افکار عمومی کے سامنے پیش کیااور ان کی اس میں رائے طلب کی لیکن اصحاب میں سے کوئی بھی اس کا پسندیدہ جواب نہ دے سکا، جواب اس کی اطلاع حضرت زہراء (ع) کو ئی تو آپ نے اس مشکل موضوع میں اس طرح اپنا نظریہ بیان کیا کہ عورتوں کی معاشرے میں مصلحت اس میں ہے کہ نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھیں اور نہ اجنبی مرد انہیں دیکھیں_ وہ زہراء (ع) جو وحی اور ولایت کے گھر میں تربیت پاچکی تھی اس کا اتنا ٹھوس اور قیمتی جواب دیا اوراجتماعی موضوع میں سے ایک حساس اور مہم موضوع میں اپنے نظریئے اورعقیدے کااظہار کیا کہ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کاٹکڑا ہے_

اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات کو دور رکھ کر غیر جانبدارانہ اس مسئلے میں سوچے اور اس کے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فکر کرے تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ جو جواب جناب فاطمہ (ع) نے دیا ہے وہ بہترین دستورالعمل ہوسکتا ہے جو عورتوں کے منافع کا ضامن ہو_ اور اس کے مقام اور رتبے کو

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

میں تھا ساقط ہوگیا(۱) _

حضرت علی (ع) کو پکڑا اور مسجد کی طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھلیں تو دیکھا کہ علی (ع) کو مسجد لے گئے ہیں فوراً اپنی جگہ سے ا ٹھیں چونکہ حضرت علی (ع) کی جان کو خطرے میں دیکھ رہی تھیں اور ان کا دفاع کرنا چاہتی تھیں لہذا نحیف جسم پہلو شکستہ کے باوجود گھر سے باہر نکلیں اور بنی ہاشم کی مستورات کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوگئیں دیکھا کہ علی (ع) کو پکڑے ہوئے ہیں آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا میرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا کی قسم اپنے سر کے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر اسلام(ص) کا پیراہن سر پر رکھ کر اللہ تعالی کی درگاہ میں نالہ کروں گی اور تم پر نفرین اور بدعا کروں گی_ اس کے بعد جناب ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا کیا تم نے میرے شوہر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور میرے بچوں کو یتیم کرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہیں نہ چھوڑا تو اپنے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر(ص) کی قبر پر اللہ کی درگاہ میں استغاثہ کروں گی یہ کہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور رسول خدا(ص) کی قبر کی طرف روانہ ہوگئیں آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس جمعیت پر نفرین کریں اور اپنے دل ہلادینے والے گریہ سے حکومت کو الٹ کر رکھ دیں_

حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ وضع بہت خطرناک ہے اور کسی صورت میں ممکن نہیں کہ حضرت زہرا (ع) کو اپنے ارادے سے روکا جائے تو آپ نے سلمان فارسی سے فرمایا کہ پیغمبر(ص) کی دختر کے پاس جاؤ اور انہیں بددعا کرنے سے منع کردو_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۱

جناب سلمان جناب زہرا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آپ کے والد دنیا کے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرین نہ کیجئے_

جناب زہرا (ع) نے فرمایا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو میں ان متجاوزین سے دادخواہی کروں_ سلمان نے عرض کیا کہ مجھے حضرت علی (ع) نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ اپنے گھر لوٹ جائیں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت علی (ع) کا حکم دریافت کیا تو آپ نے کہا جب انہوں نے حکم دیا ہے تو میں اپنے گھر لوٹ جاتی ہوں اور صبر کا آغاز کروں گی_ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ اور گھر لوٹ آئیں(۱) _

مختصر مبارزہ

حضرت زہرا (ع) کے زمانہ جہاد اور مبارزہ کی مدت گرچہ تھوڑی اور آپ کی حیات کا زمانہ بہت ہی مختصر تھا، لیکن آپ کی حیات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھی_

پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے دیکھا کہ حکومت کے حامیوں نے حضرت علی (ع) کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے تو آپ عام عورتوں کی روش سے ہٹ کر جو معمولاً ایسے مواقع میں کنارہ گیری کرلیتی ہیں گھر کے دروازے کے پیچھے آگئیں اور استقامت کا مظاہرہ کیا_

دوسرے: جب دروازہ کھول لیا گیا تب بھی جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹیں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۷ و روضہ کافی، ص ۱۹۹_

۱۶۲

بلکہ اپنے آپ کو میدان کارزار میں بر قرار رکھا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئیں اتنی مضبوطی سے کھڑی رہیں کہ تلوار کے نیام سے آپ کے پہلو کو مارا گیا اور تازیانے سے آپ کے بازو سیاہ کردیئےئے_

تیسرے: جب علی (ع) گرفتار کرلئے گئے اور چاہتے تھے کہ آپ کو وہاں سے لے جائیں تب بھی آپ میدان میں آگئیں اور علی (ع) کے دامن کو پکڑلیا اور وہاں سے لے جانے میں مانع ہوئیں اور جب تک آپ کا بازو تازیانے سے سیاہ نہ کردیا گیا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_

چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخری مورچہ گھر کو بنایا اور گھر میں آکر علی (ع) کو باہر لے جانے سے ممانعت کی، اس مورچہ میں اتنی پائیداری سے کام لیا کہ دروازے اور دیوار کے درمیان آپ کا پہلو ٹوٹ گیا اور بچہ ساقط ہوگیا_

اس مرحلہ کے بعد آپ نے سوچا کہ چونکہ میرا یہ مبارزہ گھر کے اندر واقع ہوا ہے شاید اس کی خبر باہر نہ ہوئی ہو لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ مجمع عام گریہ و بکا اور آہ و زاری شروع کردی اور جب تمام طریقوں سے نا امید ہوگئیں تو مصمم ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا کریں، لیکن حضرت علی (ع) کے پیغام پہنچنے پر ہی آپ کے حکم کی اطاعت کی اور واپس گھر لوٹ آئیں_

جی ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ آخری لحظہ اور قدرت تک علی (ع) سے دفاع کرتی رہوں گی اور یہ سوچا تھا کہ جب میدان مبارزہ میں وارد ہوگئی ہوں تو مجھے اس سے کامیاب اور فتحیاب ہوکر نکلنا ہوگا اور حضرت علی (ع) کو بیعت کے لئے لے جانے میں ممانعت کرنی ہوگی، اس طرح عمل کر کے

۱۶۳

اپنے شوہر کے نظریئے اور عمل اور رفتار کی تائید کروں گی اور جناب ابوبکر کی خلافت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کروں گی اور اگر مجھے مارا پیٹا گیا تب بھی شکستہ پہلو اور سیاہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے کے باوجود جناب ابوبکر کی خلافت کو بدنام اور رسوا کردوں ی اور اپنے عمل سے جہان کو سمجھاؤں گی کہ حق کی حکومت سے روگردانی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اپنی حکومت کو دوام دینے کے لئے پیغمبر (ص) کی دختر کا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) کے فرزند کو ماں کے پیٹ میں شہید کرنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں اور ابھی سے تمام عالم کے مسلمانوں کی بتلا دینا چاہتی ہوں کہ بیداری اور ہوش میں آجاؤ کہ انتخابی حکومت کا ایک زندہ اور واضح فاسد نمونہ یہ ہو رہا ہے_

البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولایت کے مکتب کی تربیت شدہ تھیں، فداکاری اور شجاعت کا درس ان دو گھروں میں پڑھا تھا اپنے پہلو کے شکستہ ہونے اور مار پیٹ کھانے سے نہ ڈریں اور اپنے ہدف کے دفاع کے معاملے میں کسی بھی طاقت کے استعمال کی پرواہ نہ کی_

تیسرا مرحلہ فدک(۱)

جب سے جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تخت خلافت پر بیٹھے اسی وقت سے ارادہ کرلیا تھا کہ فدک کو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدک ایک علاقہ

____________________

۱) فدک کا موضوع اور اس میں حضرت فاطمہ (ع) کا ادعا مفصل اور عمیق اس کتاب کے آخر میں بیان کیا گیا ہے_

۱۶۴

ہے جو مدینے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس میں کئی ایک باغ اور بستان ہیں اور علاقہ قدیم زمانے میں بہت زیادہ آباد تھا اور یہودیوں کے ہاتھ میں تھا، جب اس علاقے کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفت کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک آدمی کو رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کیا اور آپ سے صلح کی پیش کش کی پیغمبر اسلام(ص) نے ان کی صلح کو قبول کرلیا اور بغیر لڑائی کے صلح کا عہدنامہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اس قرار داد کی روسے فدک آدھی زمین جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے دی گئی اور یہ خالص رسول(ص) کا مال ہوگیا(۱) _

کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے جو زمین بغیر جنگ کے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) کی ہوا کرتی ہے اور باقی مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوا کرتا_

فدک کی زمینیں پیغمبر(ص) کی ملکیت اور اختیار میں آگئی تھیں آپ اس کے منافع کو بنی ہاشم اور مدینہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی_''وات ذا القربی حقه'' (۲) _ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے اللہ تعالی کے دستور اور حکم کے مطابق فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا اس باب میں پیغمبر(ص) سے کافی روایات وارد ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند _ یہ ہیں_

ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت''وات ذاالقربی حقه'' نازل

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۰_

۲) سورہ اسراء آیت ص ۲۶_

۱۶۵

ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ کہتے ہیں کہ جب آیت''و آت ذاالقربی حقه'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا(۲) _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا(۳) _

فدک کا علاقہ معمولی اور کم قیمت نہ تھا بلکہ آباد علاقہ تھا اور اس کی کافی آمدنی تھی ہر سال تقریباً چوبیس ہزار یا ستر ہزار دینار اس سے آمدنی ہوا کرتی تھی(۴) _

اس کے ثبوت کے لئے دو چیزوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے یعنی فدک کا علاقہ وسیع اور بیش قیمت تھا اسے دو چیزوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

پہلی: جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) کے جواب ہیں، جب آپ نے فدک کا مطالبہ کیا تھا تو فرمایا تھا کہ فدک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کے اموال میں سے ایک مال تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اس کے ذریعے جنگی آدمیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے اور اس آمدنی کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے(۵) _

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور تفسیر در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور کتاب در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷ ور غایة المرام ص ۳۲۳ میں اس موضوع کی احادیث کا مطالعہ کیجئے_

۴) سفینة البحار، ج ۲ ص ۲۵۱_

۵) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۶

دوسرے: جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اس نے فدک مروان ابن حکم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان مستقیم کردیا(۱) _

ان دونوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ فدک ایک پر قیمت اور زرخیز علاقہ تھا کہ جس کے متعلق جناب ابوبکر نے فرمایا کہ رسول خدا اس کی آمدنی سے لوگوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے، اور خدا کی راہ میںخرچ کیا کرتے تھے_

اگر فدک معمولی ملکیت ہوتا تو معاویہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدمیوں کے درمیان تقسیم نہ کرتا_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک کبوں فاطمہ (ع) کو بخشا

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے مطالعے سے یہ امر بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آپ ثروت اور مال کے شیدائی نہ تھے اور مال کو ذخیرہ کرنا اور جمع رکھنے کی کوشش نہیں کیا کرتھے اپنے مال کو اپنے ہدف یعنی خداپرستی کے لئے خرچ کردیا کرتے تھے، مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جناب خدیجہ کی بے حد اور بے حساب دولت کو اسی ہدف اور راستے میں خرچ کر رہے تھے اور خود اور آپ کے داماد اور لڑکی کمال سختی اور مضیقہ میں زندگی بسر کرتے تھے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۷

کبھی بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے شکم مبارک پر پتھر باندھا کرتے تھے_ پیغمبر(ص) ان آدمیوں میں نہ تھے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اولاد کے لئے مال، دولت حاصل کرتے مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کی لڑکی اپنے گھر کے لئے ایک پشمی پردہ لٹکائے رکھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو چاندی کا دستبند پہنائیں_ اور خود گردن میں ہار پہنے رکھے_

سوچنے کی بات ہے اپنی زندگی اور بیٹی کی داخلی زندگی میں اتنا سخت گیر ہونے کے باوجود کس علت کی بناء پر اتنے بڑے علاقے اور باقیمت مال کو فاطمہ (ع) کے لئے بخش دیا تھا؟ آپ کا یہ غیر معمولی کام بے جہت اور بے علت نہ تھا اس واقعہ کی یوں علت بیان کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین کریں اور یہ بھی جانتے تھے کہ لوگ اتنی آسانی سے آپ کی رہبری اور حکومت کو قبول نہیں کریں گے اور آپ کی خلافت کے لئے رکاوٹیں ڈالیں گے اور یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے بہت زیادہ گھرانے اور خاندان حضرت علی (ع) کی طرف سے بغض و کدورت رکھتے ہیں کیوں کہ علی (ع) شمشیر زن مرد تھے اور بہت تھوڑے گھر ایسے تھے کہ جن میں کا ایک یا ایک سے زائد آدمی زمانہ کفر میں علی (ع) کے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو___ پیغمبر(ص) کو علم تھا کہ خلافت اور مملکت کے چلانے کے لئے مال اور دولت کی ضرورت ہوتی ہے ان حالات اور شرائط میں قوری کا جمع ہوجانا مشکل کام ہوگا_ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ اگر علی (ع) فقراء اور بیچاروں کی مدد اور اعانت کرسکے اور ان کی معاشی احتیاجات برطرف کرسکے تو دلوں کا بغض اور کدورت ایک حد تک کم ہوجائے گا اور آپ کی طرف دل مائل ہوجائیں گے_

۱۶۸

یہی وجہ تھی کہ آنحضرت نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا_ در حقیقت یہ مستقبل کے حقیقی خلیفہ کے اختیار میں دے دیا تھا تا کہ اس کی زیادہ آمدنی فقراء اور مساکین کے درمیان تقسیم کریں شاید کینے اور پرانی کدروتیں لوگ بھول جائیں اور حضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوجائیں، خلافت کے آغاز میں اس کی بحرانی حالت میں اس مال سے استفادہ کریں اور خدا اور رسول (ص) کے ہدف کی ترقی اور پیشرفت میں اس سے بہرہ برداری کریں_ در حقیقت پیغمبر اسلام(ص) نے اس ذریعے سے خلافت کی اقتصادی مدد کی تھی_

فدک جناب رسول خدا(ص) کی زندگی میں جناب زہرا(ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا آپ قوت لایموت یعنی معمولی مقدار اپنے لئے لیتیں اور باقی کو خدا کی راہ میں خرچ کردیتیں اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیتیں_

جب جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکوت پر قبضہ کیا اور تخت خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک آنجناب سے واپس لے لیں، چنانچہ انہوں نے حکم د یا کہ جناب فاطمہ (ع) کے کارکنوں اور عمال اور مزارعین کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ حکومت کے کارکن نصب کردیئے جائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا(۱) _

فدک لینے کے اسباب

فدک لینے کے لئے دو اصلی عوامل قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ جن کے بعد جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ

____________________

۱) تفسیر نورالثقلین، ج ۴ ص ۲۷۲_

۱۶۹

کرلیا تھا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لیا جائے_

پہلا عامل: تاریخ کے مطالعے سے یہ مطلب روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جناب عائشےہ دو چیزوں سے ہمیشہ رنجیدہ خاطر رہتی تھی_ پہلی: چونکہ پیغمبر اسلام(ص) جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور ان کا کبھی کبھار نیکی سے ذکر کیا کرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی تھی اور بسا اوقات اعتراض بھی کردیتی تھیں اور کہتی تھیں خدیجہ ایک بوڑھی عورت سے زیادہ کچھ نہ تھیں آپ ان کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں_ پیغمبر(ص) جواب دیا کرتے تھے، خدیجہ جیسا کون ہوسکتا ہے؟ پہلی عورت تھیں جو مجھ پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال میرے اختیار میں دے دیا، میرے تمام کاموں میں میری یار و مددگار تھیں خداوند عالم نے میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا ہے(۱) _

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہ جتنا کسی عورت سے بھی رشک نہیں کیا حالانکہ آپ میری شادی سے تین سال پہلے فوت ہوچکی تھیں کیونکہ رسول خدا(ص) ان کی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) کو حکم دے رکھا تھا کہ خدیجہ کو بشارت دے دیں کہ بہشت میں ان کے لئے ایک قصر تیار کیا جاچکا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) کوئی گوسفند ذبح کرتے تو اس کا گوشت جناب خدیجہ کے سہیلیوں کے گھر بھی بھیج دیتے تھے(۲) _

____________________

۱) تذکرة الخواص، ص ۳۰۳ و مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۲۴_

۲) صحیح مسلم ج ۲ ص ۱۸۸۸_

۱۷۰

جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) گھر میں آئے تو دیکھا کہ جناب عائشےہ حضرت زہراء کے سامنے کھڑی قیل و قال کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں اے خدیجہ کی بیٹی تو گمان کرتی ہے کہ تیری ماں مجھ سے افضل تھی، اسے مجھ پر کیا فضیلت تھی؟ وہ بھی میری طرح کی ایک عورت تھی جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ کی گفتگو سن لی اور جب جناب فاطمہ (ع) کی نگاہ باپ پر پڑی تو آپ نے رونا شروع کردیا_ پیغمبر نے فرمایا فاطمہ (ع) کیوں روتی ہو؟ عرض کیا کہ جناب عائشےہ نے میری ماں کی توہین کی ہے رسول خد ا(ص) خشمناک ہوئے اور فرمایا: عائشےہ ساکت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت کرنے والی بچہ دار عورتوں کو مبارک قرار دیا ہے_ جناب خدیجہ سے میری نسل چلی، لیکن خداوند عالم نے تمہیں بانجھ قرار دیا(۱) _

دوسرا عامل: پیغمبر اکرم(ص) حد سے زیادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے آپ کے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر رکھی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ عذاب میں مبتلا رہتی تھیں کیونکہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اسے اپنی سوکن کی اولاد پسند نہیں آتی اور عائشےہ کبھی اتنی سخت ناراحت ہوتیں کہ پیغمبر(ص) پر بھی اعتراض فرما دیتیں اور کہتیں کہ اب جب کہ فاطمہ (ع) کی شادی ہوچکی ہے آپ پھر بھی اس کا بوسہ لیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اس کے جواب میں فرماتے ہیں تم فاطمہ (ع) کے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ایسی بات نہ کرتیں(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۱۶ ص ۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۵_

۱۷۱

آپ جناب فاطمہ (ع) کی جتنی زیادہ تعری کرتے اتناہی جناب عائشےہ کی اندرونی کیفیت دگرگوں ہوتی اور اعتراض کرنا شروع کردیتیں_

ایک دن جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے کہ آپ نے جناب عائشےہ کی آواز اور چیخنے کو سنا کہ رسول خدا(ص) سے کہہ رہی ہیں کہ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ آپ علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو میرے اور میرے باپ سے زیادہ دوست رکھتے ہیں، جناب ابوبکر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے کہا کیوں پیغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات کر رہی ہو(۱) _

ان دو باتوں کے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھی تھیں اور پیغمبر(ص) کی نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود میں آئی یہ مطلب بھی جناب عائشےہ کو رنج پہنچاتا تھا، بنابرایں جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب فاطمہ (ع) کی شکایت کرتیں ہوسکتا ہے کہ جناب ابوبکر بھی دل سے جناب فاطمہ (ع) کے حق میں بہت زیادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں کہ کبھی اپنی اس کیفیت کو بجھانے کے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام لیں_

جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پاچکے تو جناب فاطمہ (ع) رویا کرتیں اور فرماتیں کتنے برے دن آگئے ہیں جناب ابوبکر فرماتے کہ ابھی برے دن اور آگے ہیں(۲) _

____________________

۱) مجمع الزواید، ج ۹ ص ۲۰۱_

۲) ارشاد شیخ مفید، ص ۹۰_

۱۷۲

دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبکر سوچتے تھے کہ حضرت علی (ع) کے ذاتی کمالات اور فضائل اور علم و دانش کا مقام قابل انکار نہیں اور پھر پیغمبر(ص) کی سفارشات بھی ان کی نسبت بہت معروف اور مشہور ہیں پیغمبر (ص) کے داماد اور چچازاد بھائی ہیں اگر ان کی مالی اور اقتصادی حالت اچھی ہوئی اور ان کے ہاتھوں میں دوپیہ بھی ہوا تو ممکن ہے کہ ایک گروہ ان کا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت کے لئے خطرے کا موجب بن جائے یہ ایک نکتہ تھا کہ جس کا ذکر جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کیا اور جناب ابوبکر سے کہا کہ لوگ دنیا کے بندے ہوا کرتے ہیں اور دنیا کے سوا ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا تم خمس اور غنائم کو علی (ع) سے لے لو اور فدک بھی ان کے ہاتھ سے نکال لو جب ان کے چاہنے والے انہیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انہیں چھوڑ دیں گے اور تیری طرف مائل ہوجائیں گے(۱) _

جی ہاں یہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے کہ جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک کو مصادرہ کر کے واپس لے لیں اور حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے عمال اور کارکنوں کا باہر کیا جائے اور اسے اپنے عمال کے تصرف میں دے دیا_

جناب زہراء (ع) کا رد عمل

جب جناب فاطمہ (ع) کو اطلاع ملی کہ آپ کے کارکنوں کو فدک سے نکال دیاگیا ہے تو آپ بہت غمگین ہوئیں اور

____________________

۱) ناسخ التواریخ جلد زہرائ، ص ۱۲۳_

۱۷۳

اپنے آپ کو ایک نئی مشکل اور مصیبت میں دیکھا کیونکہ حکومت کا نقشہ حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفی نہ تھا اور ان کے اصلی اقدام کی غرض و غایت سے بھی بے خبر نہ تھے_

اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا تھے_

پہلا راستہ یہ تھا کہ جناب ابوبکر کے سامنے ساکت ہوجائیں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشی کرلیں اور کہیں کہ ہمیں تو دنیا کے مال و متاع سے کوئی محبت اور علاقہ نہیں چھوڑو فدک بھی جناب ابوبکر لے جائیں اس کے ساتھ یہ بھی اس کے لئے ہوسکتا ہے کہ وہ جناب خلیفہ کو خوش کرنے کی غرض سے پیغام دالواتیں کہ تم میرے ولی امر ہو میں ناچیز فدک کو آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں_

دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنی پوری قدرت سے رکھتی ہیں اپنے حق کا دفاع کریں_

پہلا راستہ اختیار کرنا حضرت زہراء (ع) کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ حکومت کے پوشیدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھیں جانتی تھیں کہ وہ اقتصادی دباؤ اور آمدنی کے ذریعے قطع کردینے سے اسلام کے حقیقی خلیفہ حضرت علی (ع) کے اثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے حضرت علی (ع) کا ہاتھ حکومت سے کوتاہ ہوجائے اور وہ کسی قسم کا خلافت کے خلاف اقدام کرنے سے مایوس ہوجائیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ فدک کو زور سے لے لینے سے علی (ع) کے گھر کا دروازہ بند کرنا چاہتے تھے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اب بہت اچھی فرصت اور مدرک ہاتھ آگیا ہے اس وسیلہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی خلافت سے مبارزہ کر کے

۱۷۴

اسے بدنام اور رسوا کیا جائے اور عمومی افکار کو بیدار کیا جائے اور اس قسم کی فرصت ہمیشہ ہاتھ نہیں آیا کرتی_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اگر میں جناب ابوبکر کے دباؤ میں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ کروں تو جناب ابوبکر کی حکومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے کی عادی ہوجائے گی اور پھر لوگوں کے حقوق کی مراعات نہ ہوسکے گی_

جناب فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ اگر میں نے اپنے حق کا دفاع نہ کیا تو لوگ خیال کریں گے اپنے حق سے صرف نظر کرنا اور ظلم و ستم کے زیر بار ہونا اچھا کام ہے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر میں نے ابوبکر کو بدنام نہ کیا تو دوسرے خلفاء کے درمیان عوام فریبی رواج پاجائے گی_

حضرت فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ پیغمبر(ص) کی دختر ہوکر اپنے صحیح حق سے صرف نظر کرلوں تو مسلمانوں خیال کریں گے کہ عورت تمام اجتماعی حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے حق کے احقاق کے لئے مبارزہ کرے_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ میں جو وحی کے دامن اور ولایت کے گھر کی تربیت یافتہ ہوں اور میں اسلام کی خواتین کے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ایک اسلام کی تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے میرے اعمال اور رفتار کو ایک اسلام کی نمونہ عورت کی رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر میں اس مقام میں سستی کروں اور اپنے حق کے لینے میں عاجزی کا اظہار کروں تو پھر اسلام میں عورت عضو معطل سمجھی جائے گی_

۱۷۵

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دیگر عمدہ افکار تھے جو جناب فاطمہ (ع) کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پہلا راستہ اختیار کرتیں یہی وجہ تھی کہ آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ توانائی اور قدرت کی حد تک اپنے حق سے دفاع کریں گی_

البتہ یہ کام بہت زیادہ سہل اور آسان نہ تھا کیوں کہ ایک عورت کا مقابلہ جناب خلیفہ ابوبکر سے بہت زیادہ خطرناک تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) نای عورت کا کہ جو پہلے سے پہلو شکستہ بازو سیاہ شدہ اور جنین ساقط شدہ تھیں، ان میں سے ہر ایک حادثہ اور واقعہ عورت کے لئے کافی تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_

لیکن فاطمہ (ع) نے فداکاری اور شجاعت اور بردباری اور استقامت کی عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خدیجہ کبری سے وراثت میں پائی تھی اور انہوں نے مبارزت اسلامی کے مرکز میں تربیت پائی تھی انہوں نے ان فداکاروں اور قربانی دینے والوں کے گھر میں زندگی گزاری تھی کہ جہاں کئی دفعہ وہ شوہر کے خون آلود کپڑے دھوچکی تھیں اور ان کے زخمی بدن کی مرہم پٹی کرچکی تھیں وہ ان جزئی حوادث سے خوف نہیں کھاتی تھیں اور جناب ابوبکر کی حکومت سے مرعوب نہیں ہوتی تھیں_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے کو کئی ایک مراحل میں انجام دیا_

بحث اور استدلال

جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم نے کیوں میرے کارکنوں کو میری ملکیت سے باہر

۱۷۶

نکال دیا ہے؟ میرے باپ نے اپنی زندگی میں فدک مجھے ہبہ کردیا تھا جناب ابوبکر نے جواب دیا اگر چہ میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتیں لیکن پھر بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ایمن اور حضرت علی (ع) کو گواہ کے طور پر لے گئیں، جناب ام ایمن نے جناب ابوبکر سے کہ تجھ خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے میرے بارے میںفرمایا ہے کہ ام ایمن بہشتی ہیں، جناب ابوبکر نے جواب دیا، یہ میں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ایمن نے فرمایا میں گواہی دیتی ہوں کہ جب یہ آیت ''و آت ذی القربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا_

حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس قسم کی گواہی دی جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو لوٹا دیں لہذا ایک تحریر ایک کے متعلق لکھی اور وہ حضرت زہراء (ع) کو دے دی_

اچانک اسی وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دریافت کیا جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ چونکہ جناب فاطمہ (ع) فدک کا دعوی کر رہی تھیں اور اس پر گواہ بھی پیش کردیئےیں لہذا میں نے فدک انہیں واپس کردیا ہے جناب عمر نے وہ تحریر زہراء کے ہاتھ سے لی اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبکر نے بھی جناب عمر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ علی (ع) کے علاوہ کوئی اور آدمی گواہ لے آئیں یا ایم ایمن کے علاوہ کوئی دوسری عورت بھی گواہی دے جناب فاطمہ (ع) روتی ہوئی جناب ابوبکر کے گھر سے باہر چلے گئیں_

ایک اور روایت کی بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہی دی

۱۷۷

کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے(۱) _

ایک دن حضرت علی (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ کیوں فدک کو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو دیاتھا ان سے لے لیا ہے؟ آپ نے جواب دیاانہیں اپنے دعوی پر گواہ لے آنے چاہئیں اور چونکہ ان کے گواہ ناقص تھے جو قبول نہیں کئے گئے_ حضرت علی (ع) نے فرمایا اے ابوبکر، کیا تم ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم کرتے ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے ہوا کرتا ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ نہیں_ حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر کچھ مال کسی کے ہاتھ میں ہو اور میں دعوی کروں کہ وہ میرا مال ہے اور فیصلہ کرانے کے لئے جناب کے پاس آئیں تو آپ کس سے گواہ کا مطالبہ کریں گے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ سے گواہ طلب کروں گا کیوں کہ مال کسی دوسرے کے تصرف میں موجود ہے، آپ نے فرمایا پھر تم نے کیوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا ہے در انحالیکہ فدک آپ(ص) کی ملکیت اور تصرف میں موجود ہے، جناب ابوبکر نے سوکت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا لیکن جناب عمر نے کہایا علی ایسی باتین چھوڑو(۲) _

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس فیصلے مین حق حضرت زہراء کے

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱، اور کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_ اور شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۷۴_

۲) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱_ کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_

۱۷۸

ساتھ ہے کیونکہ فدک آپ کے قبضے میں تھا اسی لئے تو حضرت علی (ع) نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے_ جی ہاں دنیا کے اموال سے فدک ہمارے اختیار میں تھا لیکن ایک جماعت نے اس پر بھی بخل کیا اور ایک دوسرا گروہ اس پر راضی تھا(۱) _

قضاوت کے قواعد اور قانون کے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ دوسری طرف جو ابوبکر تھے انہیں گواہ لانے چاہیئے تھے، لیکن جناب ابوبکر نے فیصلے کے اس مسلم قانون کی مخالفت کی، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے میں کامیاب ہوگوئیں اور اپنی حقانیت کو مضبوط دلیل و برہان اور منطق سے ثابت کردیا اور حضرت ابوبکر مجبور ہوگئے کہ وہ فدک کے واپس کردینے کا دستور بھی لکھ دیں یہ اور بات ہے کہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت کی منطق کو میدان میں لائے اور لکھی ہوئی تحریر کو پھاڑ دیا اور گواہوں کے ناقص ہونے کا اس میں بہانا بنایا_

پھر بھی استدلال

ایک دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور باپ کی وراثت کے متعلق بحث اور احتجاج کیا آپ نے فرمایا اے ابوبکر، میرے باپ کا ارث مجھے کیوں نہیں دیتے ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے_

____________________

۱) نہج البلاغہ، ج ۳ ص ۴۵_

۱۷۹

آپ نے فرمایا مگر خداوند عالم قرآن میں نہیں فرماتا:

''و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

کیا جناب سلیمان جناب داؤد کے وارث نہیں بنے؟ جناب ابوبکر غضبناک ہوئے اور کہا تم سے کہا کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا زکریا نبی نے خدا سے عرض نہیں کیا تھا_

''فهب لی من لدنک وَلیاً یرثنی وَ یرث من آل یعقوب'' (۲)

جناب ابوبکر نے پھر بھی وہی جواب دیا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا:

''یوصیکم الله فی اولادکم للذکر حظ الانثیین'' (۳)

کیا میں رسول اللہ (ص) کی اولاد نہیں ہوں؟ چونکہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے محکم دلائل کا سامنا کر رہے تھے اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ اسی سابقہ کلام کی تکرار کریں اور کہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_

جناب ابوبکر نے اپنی روش اور غیر شرعی عمل کے لئے ایک حدیث نقل کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھی

____________________

۱) سورہ نحل آیت ۱۶_

۲) سورہ مریم آیت ۶_

۳) سورہ نساء آیت ۱۱_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293