فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون13%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104340 / ڈاؤنلوڈ: 4816
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بس خدا کے رسول کا ان تمام غیر عادی محبت کے اظہار میں کوئی اور منشا اور غرض ہونی چاہیئے_

جناب رسول خدا(ص) نے اپی بیٹی فاطمہ (ع) کے مقام و مرتبت کو خود مشخص کیا تھا اور آپ ان کے رتبے کو اچھی طرح پہچانتے تھے_ جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) ولایت اور امامت کی تولید کامرکز اور دین کے پیشواؤں کی ماں ہیں، اسلام کی نمونہ اور مثال اور ہر گناہ سے معصوم ہیں_ حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی آپ کے بلند مقام کو درک نہیں کرسکتا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کا نور آسمان کے فرشتوں کو روشنی دینے والا ہے، بہشت کی خوشبو کو فاطمہ (ع) سے استشمام کرتے تھے یہی علت تھی کہ آپ حد سے زیادہ فاطمہ (ع) سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے_

فاطمہ (ع) اور علی (ع) کی سخت زندگی

ایک زمانہ میں حضرت علی (ع) کی زندگی بہت سخت گزر رہی تھی_ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا گویا زہرا(ع) دروازے پرہے دروازہ کھولو_ دیکھو کون ہے، جب انہوں نے گھر کا دروازہ کھولا تو جناب فاطمہ علیہا السلام گھر کے اندر داخل ہوئیں سلام کیا اور باپ کی خدمت میں بیٹھ گئیں، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) تم اس وقت پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا کرتی تھیں کیا ہوا ہے؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ملائکہ کی غذا کیا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالی

۱۲۱

کی حمد_ عرض کیا، اباجان ہماری غذا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا کی قسم ایک مہینہ ہونے کو ہے کہ آل محمد(ص) کے گھر میں آگ نہیں جلائی گئی_ میری آنکھوں کانور، آگے آؤ میں تمہیں وہ پانچ کلمات بتلاتا ہوں جو جبرئیل نے مجھے تعلیم دیئے ہیں_

''یا رب الاولین وَ الآخرین یا ذالقوة المتین

و یا ارحم المساکین و یا ارحم الراحمین''

جناب فاطمہ (ع) نے یہ دعا یاد کی اور گھر لوٹ آئیں، حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا کہاں گئی تھیں؟ جواب دیا دنیا طلب کرنے گئی تھی لیکن آخرت کے لئے دستور لے کر آئی ہوں_ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا آج سب سے بہتر دن تھا(۱) _

ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کی عیادت کی اور آپ کے احوال پوچھے تو آپ نے عرض کیا اباجان بیمار ہوں اور اس سے بدتر یہ کہ گھر میں کوئی چیز موجود نہیں جو کھاؤں، آپ نے فرمایا کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں کہ دنیا کی عورتوں سے بہترہو(۲) _

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جو آتا ہے وہ فقراء میں تقسیم کردیتے ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا: بیٹی فاطمہ (ع) خبردار میرے بھائی اور چچازاد علی (ع) کوناراحت نہ کرنا

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۲_

۲) در رالسمطین، ص ۱۷۹_

۱۲۲

کیوں کہ علی (ع) کاغضب میرا غضب ہے اورمیرا غضب خدا کا غضب ہے(۱) _

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ ایک دن رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے دیکھا کہ حسن(ع) اور حسین(ع) گھر میں موجود نہیں ہیں ان کی حالت پوچھی، جناب فاطمہ (ع) نے عرض کی، آج ہمارے گھر میںکھانے کے لئے کچھ موجود نہ تھا، علی (ع) نے جب باہر جانا چاہا فرمایا کہ میںحسن (ع) و حسین (ع) کو اپنے ساتھ باہر لے جاتا ہوں تا کہ یہاں روئیں نہ اور تم سے غذا کا مطالبہ نہ کریں_ ان کواٹھایا اور فلاںیہودی کے پاس چلے گئے_ جناب رسول خدا(ص) علی کی تلاش میں باہر گئے اور انہیں یہودی کے باغ میں ڈول کھینچتے دیکھا اور دیکھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) کھیل میں مشغول ہیں اور ان کے سامنے تھوڑی مقدار خرما کی بھی موجود ہے_ پیغمبر(ص) نے علی (ع) سے فرمایا کہ دن گرم ہونے سے پہلے حسن (ع) و حسین (ع) کو گھر لوٹانا نہیںچاہتے؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) جب میںگھر سے باہر آیا تھا تو ہمارے گھر کوئی غذا موجود نہ تھی آپ تھوڑ ا توقف کریں تا کہ میںکچھ خرما جناب فاطمہ (ع) کے لئے مہیا کروں_ میں نے اس یہودی سے ہر ڈول کے کھینچنے پر ایک خرما مقرر کیا ہے_ جب کچھ خرمے مہیا ہوگئے انہیں آپ نے اپنے دامن میں ڈالا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کواٹھایا اور گھر واپس لوٹ آئے(۲) _

ایک دن پیغمبر(ص) فاطمہ (ع) کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ (ع) گلوبند پہنے ہوئے ہیں، آپ نے فاطمہ (ع) سے روگردانی کی اور چلے گئے، جناب فاطمہ (ع) آپ کی روگردانی

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۳_

۱۲۳

کی علت کو بھانپ گئیں، ہارا تارا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر کردیا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) تم مجھ سے ہو_ اس کے بعد ایک غریب آدمی آیا تو آپ نے وہ ہار اس کو عطا کردیا اور فرمایا کہ جو شخص ہمارا خون بہائے اورمیرے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت دے خداوند عالم اس پر غضب کرے گا(۱) _

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں بیٹھی تھی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں آئے، آپ نے فاطمہ (ع) کی گردن میں سونے کا ہار دیکھا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) لوگوں کے اس کہنے پر کہ فاطمہ (ع) رسول(ص) کی دختر ہے مغرور نہ ہونا جب کہ تم اس حالت میں ہو کہ ظالموں کا لباس تمہارے جسم پرہو_ جناب زہراء نے فوراً ہار کو اتارا اور فروخت کردیا اور اس کی قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا، پیغمبر(ص) آپ کے اس کام سے بہت خوش ہوئے(۲) _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت یہ تھی کہ جب سفر کو جاتے تو آخری آدمی کہ جس سے وداع کرتے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو پہلا انسان جس کا آپ دیدار کرتے تھے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں، آپ ایک سفر سے جب جناب فاطمہ (ع) کے گھر آئے تو دیکھا حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کا دست بند ہے اور ایک پردہ بھی لٹکا ہوا ہے آپ نے اسے تھوڑی دیر تک دیکھا اور اپنی عادت کے خلاف

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۲_

۲) نظم در رالسمطین ص ۱۷۹_

۱۲۴

جناب زہرا(ع) کے گھر نہ ٹھہرے اور فوراً واپس لوٹ گئے، جناب فاطمہ (ع) غمگین ہوئیں اوراس واقعہ کی علت سمجھ گئیں، پردہ اتار اورحضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھ سے دست بند بھی اتارا، اور یہ کسی ذریعہ سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کردیا_ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی آنکھوں کو بوسہ دیا اور آپ کو نوازش دی اور دس بند کو مسجد میں حوفقراء رہتے تھے ان میں تقسیم کردیا اور پردے کے ٹکڑے کر کے مختلف برہنہ انسانوں کودیئے تا کہ وہ ستر عورت کرسکیں اس کے بعد جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا فاطمہ (ع) پر رحمت کرے اور اسے بہشتی لباس پہنائے اور بہشتی زینت اسے عطا کرے(۱) _

عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ جناب فاطمہ (ع) زہراء وہاں تشریف لے آئیں_ جب رسول خدا کی نگاہ آپ کے چہرے پر پڑی جو بھوک سے زرد ہوچکا تھا اور اس پر خون کے موجود ہونے کے آثار نہیں نظر آرہے تھے تو انہوں نے اپنے پاس بلایا اور اپنا دست مبارک جناب فاطمہ (ع) کے سینے پر رکھا اور فرمایا اے وہ خدا جو بھوکوں کو سیر کرتا ہے اور ضعیفوں کو بلند کرتا ہے، فاطمہ (ع) محمد(ص) کی دختر کو بھوکا نہ رکھ_ عمران کہتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی دعا کی برکت سے جناب فاطمہ (ع) کے چہرے کی زردی ختم ہوگئی، اور آپ کے چہرے پرخون دوڑے کے آثار

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۳_

۲) نظم در رالسمطین، ص ۱۹۱_

۱۲۵

عملی دعوت

روایات اور تواریخ یہ گواہی دے رہی ہیں کہ اہلبیت کی فرد اول یعنی پیغمبر اسلام(ص) اور اسلام کی دوسری شخصیت علی بن ابیطالب(ع) اور اسلام کی پہلی خاتون فاطمہ زہراء (ع) کی زندگی بہت سادہ بلکہ بہت سختی اور مشقت سے گزرتی تھی، اور اس پر بہت زیادہ تعجب بھی نہیں کیا جانا چاہیئےیوں کہ اس زمانے میں تمام مسلمانوں کی عمومی زندگی اچھی نہ تھی_

اکثر مسلمان فقیر اور معاشرے سے محروم افراد ہوا کرتے تھے وہ گروہ کہ جن کی ایک حد تک زندگی بری نہ تھی دشمنوں کے خوف سے مجبور ہوگئے تھے اور اپنی تمام پونجی اور گھر بار مکہ چھوڑکر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے، مدینہ میں بھی اکثریت فقراء کی تھی اور جو چند آدمی جن کی وضع کسی حدتک اچھی تھی وہ بھی مجبور تھے کہ ان مسلمانوں سے جو مکہ چھوڑکر ہجرت کر آئے تھے ہمدرد ی اور مالی مواسات بجالائیں اور اپنی قدرت کے مطابق ان کی مدد اور مساعدت کریں اور دوسری طرف وہ زمانہ اسلام کا بحرانی زمانہ تھا مسلمان ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہتے تھے اور اکثر اوقات جنگ اور دفاع میں مشغول رہتے تھے اسی وجہ سے اپنی اقتصادی اوضاع کو قوی نہیںکرسکتے تھے_

ان حالات میں کیا پیغمبر(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے لئے مناسب اور ممکن تھا کہ وہ اپنے لئے اچھی زندگی فراہم کریں اور فقراء اور بیچاروں سے ہمدردی نہ کریں اگر چہ پیغمبر(ص) اور حضرت علی (ع) خود کام کیا کرتے تھے اور اسی ذریعہ سے

۱۲۶

ان کے پاس مشروع اورجائز دولت بھی اکھٹی ہوجاتی تھی اور جنگ کی غنیمت سے بھی انہیں حصہ ملتا تھا اور اگر چاہتے تو اچھی زندگی گزار سکتے تھے، لیکن کیا یہ ممکن تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے داماد اور ان کی بیٹی تو آرام سے زندگی گزاریں لیکن مدینہ کے فقراء کی فریادیں بلند ہوں، کیا یہ مناسب تھا کہ پیغمبر(ص) کی دختر تو گھر پر پردے لٹکائے رکھے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کے پاس سترعورت کے لئے کپڑے تک موجود نہ ہوں، کیا یہ ہوسکتا تھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) توہاتھوں میں چاندی کے دست بند پہنے ہوئے ہوں اور مسلمانوں کے بچوں کی بھوک سے فضاء میں آوازیں بلند ہو رہی ہوں_

قاعدتاً اگر اسلام کا پہلا شخص اور اہلبیت گرامی دوسرے مسلمانوں سے مواسات نہ کرتے تو کیا ممکن ہوتا کہ مسلمانوں کے مستضعف گروہ کو صدر اسلام میں کہ جو ابھی اچھی طرح پیغمبری اور وحی کے معنی کو درک نہیں کرتے تھے اور ان کی عقلیں صرف ان کی آنکھوں تک محدود تھی حاضر کیا جاتا کہ وہ میدان جہاد میں فداکاری کریں اور اپنی جان کو قربان کریں؟ اسلام کی پیشرفت اور اس کے معنوی نفوذ کی ایک علت یہ بھی تھی کہ جو آنحضرت سے سنتے تھے اسے عملی طور سے بھی رفتار و گفتار اور زندگی فردی اور خانوادے کی زندگی میںمشاہدہ بھی کرتے تھے اسی عملی دعوت کی وجہ سے وہ اسلام اور جانبازی کی طرف مائل ہوا کرتے تھے لیکن

حضرت زہراء کی عصمت

لغت میں لفظ معصوم کے معنی محفوظ اور ممنوع کے ہیں_ اصطلاح میں معصوم اس شخص کو کہاجاتا ہے جو غلطی اور اشتباہ اور گناہوں سے امان میں ہو اور محفوظ ہو معصوم اسے کہتے ہیں کہ اس کی بصیرت

۱۲۷

کی آنکھ ایسی ہو کہ عالم کے حقائق کا مشاہدہ کر رہی ہو اور اس ارتباط اور اتصال کی وجہ سے جو اسے عالم ملکوت سے ہے اور غیبی تائیدات سے گناہ اور نافرمانی نہ کرے اور اس کے وجود مقدس میں غلطی اور اشتباہ اور سرکشی اور عصیاں گزر نہ کرسکے_ عصمت کا بلند و بالا رتبہ اور مقام دلائل عقلی اور نقلی اور براہین سے پیغمبروں کے لئے تو ثابت ہوچکا ہے_

شیعہ امامیہ کاعقیدہ ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) کے حقیقی جانشین و خلفاء اور بارہ اماموں کو بھی معصوم ہونا چاہیئےور ان کے پاس ان بزرگوں کی عصمت کے لئے دلائل اور براہین بھی موجود ہیں_ اگر ہم ان کا ذکر یہاں شروع کردیں تو اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے_

شیعہ امامیہ پیغمبروں کی عصمت کے علاوہ حضرت زہرا (ع) کو بھی گناہوں اور نافرمانی سے معصوم جانتے ہیں اور آپ کی عصمت کے ثبوت کے لئے بہت سی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں_ بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے_

پہلی دلیل اس آیت کے تمسک کر کے آپ کی عصمت کو ثابت کیاجاسکتا ہے_

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (۱)

آیت کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے_ ''خدا چاہتا ہے کہ ناپاکی اور آلودگی کو تم اہلبیت سے دور کردے اورکاملاً تمہیں پاکیزہ اور طاہر کردے_

شیعہ اور سنی نے بہت زیادہ احادیث نقل کی ہے جو دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت پیغمبر(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے_

____________________

۱) سورہ احزاب آیت ۲۴_

۱۲۸

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کندھے پر سیاہ پشم کا بنا ہوا کپڑا ڈالے گھر س باہر نکلے اس کے بعد حسن اور حسین (ع) اور فاطمہ (ع) اور علی (ع) کو اس کپڑے اور چادر کے درمیان لیا اور فرمایا:

انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت الخ (۱)

جناب ام سلمہ فرماتی ہیں ایک دن جناب فاطمہ (ع) ایک ظرف میں حریر (ایک کا حلوہ ہے) لے کر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو بھی بلاؤ، جب یہ تمام حضرات رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہویئےور غذا کھا نے میں مشغول ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی، اس کے بعد پیغمبر(ص) نے خیبری چادر ان کے سرپر ڈالی اور تین مرتبہ فرمایا کہ اے میرے خدا یہ میرے اہل بیت ہیں، آلودگی کو ان سے زائل کردے اورپاکیزہ بنادے(۲) _

عمر ابن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ یہ آیت''انما یريد الله'' جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی، پس پیغمبر اکرم(ص) نے علی (ع) اورفاطمہ اور حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور چادر ان کے سرپر ڈالی اور فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ فرما جو حق ہے جناب ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں بھی ان کے ساتھ ہوں یعنی اہلبیت میں داخل ہوں آپ نے جواب دیا کہ تم بھی اچھائی پر ہو(۳) _

____________________

۱) ینابیع المودہ، ص ۱۲۴_ درالمنثور، ج ۵ ص ۱۹۸_

۲) ینابیع المودہ، ص ۱۲۵ و درالمنثور، ج ۵ ص ۱۹۸_

۳) ینابیع المودہ، ص ۱۲۵_

۱۲۹

واثلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو زانو پر، اس کے بعد ان کے سروں پر چادر ڈال کر فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے(۱) _

خلاصہ رسول خدا(ص) کے اصحاب کی ایک جماعت جیسے جناب عائشےہ، ام سلمہ، معقل بن یسار، ابی الحمرائ، انس بن مالک، سعد ابن ابی وقاص، واثلہ ابن اسقعہ، حسن ابن علی، علی بن ابیطالب، ابوسعید خدری، زینب، ابن عباس اور ان کے علاوہ ایک اور جماعت نے اسی سے ملتی جلتی روایات اس آیت کی شان نزول میں نقل کی ہیں_ شیعہ اور سنی علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے درالمنثور میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودة اور دوسرے سنی علماء نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے_

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) اس آیت کے نازل ہوئے کے بعد متعدد مقامات پر اور ان میں سے خود جناب فاطمہ (ع) اور جناب ام سلمہ کے گھر اپنی عبا علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے سرپر ڈالتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا جو اشخاص میری عبا کے نیچے موجود ہیں یہی میرے اہلبیت ہیں، آلودگی کو ان سے دور فرما، رسول خدا(ص) اس قسم کا عمل اس لئے انجام دیتے تھے تا کہ اہلبیت (ع) کی شناخت ہوجائے اور یہ موضوع پایہ ثبوت کو پہنچ جائے یہاں تک کہ چھ ماہ اوربعض روایات کی بنا پرسات اور بعض دوسری روایت کی بناپر آٹھ مہینہ تک آپ کی یہ عادت تھی

____________________

۱)ینابیع المودہ، ص ۱۲۵ و درالمنثور ج ۵ ص ۱۹۹_

۱۳۰

کہ آپ صبح کے وقت جب نماز کے لئے جاتے اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر سے گزرتے تو ٹہرجاتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے(۱) _

رسول خدا(ص) ان موارد اورمواقع پر اپنی چادر علی (ع) اور فاطمہ (ع) اورحسن (ع) اور حسین (ع) علیہم السلام کے سر پر ڈالتے اور یہی آیت تلاوت فرماتے تا کہ اس سے غلط مطلب لینے کی کسی کو گنجائشے نہ رہے کہ کوئی دعوی کرے کہ میں بھی اہلبیت کا مصداق اور فرد ہوں، آپ اس مطلب کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ جب ام سلمہ نے عبا کے اندر داخل ہونا چاہا تو آپ نے چادر ان کے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تم نیکی پر ہو_ ایک زمانے تک صبح کے وقت آپ نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ (ع) کے گھر میں رہنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرماتے تا کہ لوگ سن لیں اور اس کے بعد انکار نہ کرسکیں_ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) بھی متعدد مقامات پر اور صحابہ کے روبرو فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے حق میںنازل ہوئی ہے_ اور کسی وقت بھی اس کا کسی نے انکار نہیں کیا_

اس آیت کے مطابق خداوند عالم فرماتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا کہ تم اہلبیت کو آلودگی اور رجس سے منزہ قرار دے_ اس رجس سے مراد ظاہری نجاست نہیں ہے کیونکہ اس کا دور کرنا اہلبیت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان مکلف ہیں کہ وہ اپنے آپ سے ظاہری نجاست کو دور رکھیں اور اس سے پرہیز کریں، اس کے علاوہ اگر ظاہری نجاست مراد ہوتی تو اس کے لئے اتنے اہتمام اور تکلف کی ضرور نہ تھی اور نہ ہی پیغمبر کو دعا

____________________

۱) کشف الغمہ،ج ۲ ص ۸۳، و در المنثور ج ۵ ص ۱۹۹، و فصول المتمہ ص ۸_

۱۳۱

کی ضرورت تھی_ مطلب اتنا مہم نہیں تھا کہ ام سلمہ اس کا مصداق ہونے کی خواہش کرتیں اور رسول خدا اس سے مانع ہوتے اس سے معلوم ہوجائے گا کہ مراد اس آیت میں ظاہری نجاست اور آلودگی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اور مقصود باطنی آلودگی یعنی گناہ اور اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، لہذا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا نے چاہا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ اہلبیت گناہ سے پاکیزہ ہوں اور اس ارادہ سے مراد بھی ارادہ تشریعی نہیں ہے، یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ خداتعالی نے اہلبیت سے_ طلب کیا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ اورمعصیت سے پاک کریں کیونکہ ایسا ارادہ بھی اہلبیت کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتا، کیوں کہ خداوند عالم تمام لوگوں سے یہی چاہتا ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں بلکہ اس ارادے سے مراد اس آیت میں تکوینی ارادہ ہے یعنی خدا نے اس طرح مقدر کردیا ہے کہ اہلبیت کا دامن معصیت اور گناہ سے پاک اور منزہ ہو حالانکہ تمام بشر مختار ہیں کہ وہ علم اور ارادے سے گناہوں کو ترک کریں_

پیغمبر(ص) نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے یعنی گناہوں سے معصوم ہونا_ ابن عباس نے رسول خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مخلوق کی دو قسم کی ہیں اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا ہے کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

( اصحاب الیمین ما اصحاب الیمین و اصحاب الشمال ما اصحاب الشمال ) _

میںاصحاب یمین سے اوران سے بہترین میں سے ہوں، اس کے بعد اللہ تعالی نے ان کی تین قسمیں کی ہیں اور مجھے ان میں سے بہترین قسم میں قرار دیا ہے_ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

۱۳۲

( فاصحاب المیمنة ما اصحاب المیمنة و اصحاب المشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون )

میں سابقین میں سے ہوں اور ان سے بہترین ہوں_ پھر ان تین قسموں کو قبیلوں میں تقسیم کیا_ اور مجھے بہترین میں قرار دیا_ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

( و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم )

پس میں حضرت آدم(ع) کی اولاد میں سے پرہیزگاروں اورمعظم ترین لوگوں میں سے ہوں، لیکن اس پرمیں فخر نہیں کرتا پھر اللہ تعالی نے ان قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا ہے، اور مجھے بہترین خاندان میں قرار دیا ہے_ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیراً )

پس میں اور میرے اہلبیت گناہوں اورمعصیت سے معصوم ہیں(۱) _

اعتراض

کہا گیا ہے کہ یہ آیت عصمت پر دلالت نہیں کرتی کیوں کہ اس سے پہلی آیت اور اس سے بعد کی آیات تمام کی تمام پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور انہی کوخطاب کیا گیا ہے_

اس قرینے کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت بھی پیغمبر(ص) کی ازدواج

____________________

۱) درالمنثور، ج ۱ ص ۱۹۹_

۱۳۳

کی شان میں نازل ہوئی ہے اور وہی اس آیت میں اس کی مخاطب ہیں اور اگر اس آیت کی دلالت عصمت پر مان لی جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ پیغمبر(ص) کی ازدواج گناہوں سے معصوم ہیں حالانکہ اس مطلب کو کسی نے نہیں کہا اور نہ ہی یہ مطلب کہا جاسکتا ہے لہذا کہنا ہوگا کہ اصلاً یہ آیت عصمت پر دلالت ہی نہیں کرتی نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازدواج کے مورد میں اور نہ ہی اہلبیت کے مورد میں_

اعتراض کا جواب

علامہ سید عبدالحسین شرف الدین نے اس اشکال کونقل کر کے اس کا جواب دیا ہے_ ہم یہاں وہ جواب نقل کر رہے ہیں_

پہلا جواب:

یہ ہے کہ جو احتمال اعتراض میں دیا گیا ہے وہ نص اور صریح روایات کے خلاف ہے اور یہ ایک ایسا اجتہاد ہے کہ جو نصوص اور روایات کے خلاف ہے کیوں کہ روایات حد تواتر تک موجود ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرات علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت انہیں سے مخصوص ہے_ یہان تک کہ جب جناب ام سلمہ نے چاہا کہ چادر کے اندر داخل ہوجائیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں سختی سے روک دیا_

دوسرا جواب:

اگر یہ آیت پیغمبر(ص) کی ازواج کے حق میں نازل ہوتی تو پھر

۱۳۴

چاہیئےھا کہ صیغہ مونث حاضر کا استعمال کیا جاتا اور یوں آیت ہوتی انما یرید اللہ لیذہب عنکم کی جگہ عنکنَّ ہوتا اور جمع مذکر کا صیغہ جو موجودہ آیت میں ہے نہ لایا جاتا_

تیسرا جواب:

عربی فصیح زبان میںعربوں کے درمیان یہ عام رواج ہے کہ وہ ایک مطلب کے درمیان جملہ معترضہ لایا کرتے ہیں، لہذا کیا حرج ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت کو جو اہلبیت سے مخصوص ہے ازواج پیغمبر(ص) کے ذکر کے درمیان ذکرکردیا ہو تا کہ اہلبیت کے موضوع کی اہمیت واضح ہوجائے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلانی ہو کہ چونکہ پیغمبر(ص) کے اہلبیت گناہوں سے معصوم ہیں کسی کو اس مقام کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے یہاں تک کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات بھی اس مقام کے حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتیں_

چوتھا جواب:

باوجودیکہ قرآن مجید میںتحریف واقع نہیں ہوئی اور قرآن مجید کی آیات میں کمی زیادتی نہیں ہوئی لیکن یہ مطلب تمام کے نزدیک مسلم نہیں کہ قرآن کی تدوین اور جمع کرنے کے وقت ان تمام آیات اور سورتوں کو بعینہ ویسے ہی رکھا گیا ہے جس ترتیب سے نازل ہوئی تھیں مثلاً کوئی بعید نہیں کہ اس آیت کو جو اہلبیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ایک علیحدہ جگہ نازل ہوئی ہو لیکن قرآن جمع کرنے کے وقت اس کو ان آیات کے درمیان رکھ دیا ہو جو پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں(۱) _

____________________

۱) کتاب کلمة الغراء فی تفصیل الزہرائ_ مولفہ سید عبدالحسین شرف الدین، ص ۲۱۲_

۱۳۵

دوسری دلیل

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) خدا تیرے غضبناک ہونے پرغضبناک ہوتا ہے اور تیری خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے(۱) _

اس حدیث کو شیعہ اور سنیوں نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کو دونوں قبول کرتے ہیں، اس حدیث کے مطابق جس جگہ فاطمہ (ع) غضبناک ہوں گی خدا بھی غضبناک ہوگا اور فاطمہ (ع) خوشنود ہوگی تو خدا بھی راضی اور خوشنود ہوگا اور یہ امر مسلم ہے کہ خدا واقع اور حق کے مطابق راضی اور غضبناک ہوتا ہے اور کبھی بھی برے یا خلاف حق کام کرنے پر راضی اور خوشنود نہیں ہوتا اگر چہ دوسرے اس پر راضی اور خوشنود ہی کیوں نہ ہوں اور کبھی بھی اچھے کاموں اور حق کے مطابق اعمال پر غضب ناک نہیں ہوتا، اگر چہ دوسرے لوگ اس پر غضبناک ہی کیوں نہ ہوتے ہوں، ان دو چیزوں کا لازمہ یہ ہوگا کہ جناب فاطمہ (ع) گناہ اور خطا سے معصوم ہوں، کیوں کہ اگر معصوم ہوئیں تو آپ کا غضب اور رضا شریعت کے میزان کے مطابق ہوگی اور کبھی بھی اللہ تعالی کی رضا کے خلاف راضی نہ ہوں گی اور کبھی بھی نیک اور حق کاموں سے غضبناک نہ ہوں گی اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے اور اگر وہ خوشنود ہو ت و خدا خوشنود ہوتا ہے_

بخلاف اگر گناہ اور خطا آپ کے حق میں جائز قرار دیا جائے تو بطور کلی یہ

____________________

۱) ینابیع المودہ، ص ۲۰۳ اور مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۰۳_

۱۳۶

نہیں کہا جاسکتا کہ فاطمہ (ع) کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی سے خدا خوشنود ہوتا ہے، اس مطلب کو ایک مثال دیگر واضح کردوں فرض کریں کہ حضرت فاطمہ (ع) معصوم نہ ہوں اور ان کے حق میں اشتباہ اور خطا ممکن ہو تو اس صورت میں ممکن ہے کہ آپ اشتباہ یا خواہشات نفسانی کی وجہ سے حق اور واقع کے خلاف کسی سے کوئی چیز طلب کریں اور اس کی وجہ سے ان میں نزاع اور کشمکش کی نوبت پہنچ جائے اور آپ کامد مقابل اس مقابلے پر جو آپ کر رہی ہیں راضی نہ ہو اور آپ کو مغلوب کردے تو ممکن ہے کہ آپ اس صورت میں غضب ناک ہوجائیں اور عدم رضایت کا اظہار کردیں تو کیا اس فرض اور صورت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ چونکہ فاطمہ (ع) اس شخص پر غضبناک ہیں لہذا اللہ بھی اس پر غضبناک ہے گر چہ حق اسی مد مقابل کے ساتھ ہے_ ایسا بالکل نہیںہوسکتا اور نہ ہی ایسے برے کام کو اللہ کی طرف نسبت دی جائیگی ہے_

ایک دوسری روایت سے بھی جناب فاطمہ (ع) کی عصمت کوثابت کیا جاسکتا ہے کہ جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو بھی اسے غضبناک کرے اس نے مجھے غضبناک کیا(۱) _

یہ حدیث بھی شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود ہے اور تمام مسلمان اس حدیث کو حتی کہ جناب عمر اور ابوبکر بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں_ سابقہ بیان کو جب اس حدیث کے پیرایہ میں دیکھا جاتا ہے تو اس سے بھی حضرت زہرا(ع) کی عصمت پر دلالت ہوجاتی ہے_ کیونکہ پیغمبر(ص) گناہ اور خطا اور خواہشات نفسانی سے معصوم ہیں

____________________

۱) صحیح بخاری، ج ۲ ص ۳۰۲_

۱۳۷

آپ اس کام پہ غضبناک ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے اور اس چیز سے راضی ہوتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اس صورت میں کہاجاسکتا ہے کہ فاطمہ (ع) معصوم اور گناہ اور خطا کا احتمال ان کے حق میں جائز نہیں_

ایک اور دلیل جو حضرت زہرا(ع) کی عصمت کو ثابت کرتی ہے، وہ حدیث ہے جو امام صادق (ع) نے نقل فرمائی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کا نام زہراء اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ کے وجود میں شر اور برائی کو کوئی راستہ نہیں ہے(۱) _

عورت جناب زہراء (ع) کی نظر میں

علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ایک جماعت کے ساتھ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ عورت کی مصلحت کس میں ہے؟ آپ کو کوئی صحیح جواب نہ دے سکا، جب اصحاب چلے گئے اور میں بھی گھر گیا تو میں نے پیغمبر(ص) کے سوال کو جناب فاطمہ (ع) کے سامنے پیش کیا_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ میں اس کا جواب جانتی ہوں، عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ اجنبی مرد کو نہ دیکھے اور اسے اجنبی مرد نہ دیکھے_ میں جب جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ آپ کے سوال

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹_

۱۳۸

کے جواب میںجناب فاطمہ (ع) نے یہ فرمایا ہے_ پیغمبر(ص) نے آپ کے اس جواب سے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے(۱) _

اس میں کوئی شک نہیں کہ دین مقدس اسلام نے عورتوں کی ترقی اور پیشرفت کے لئے بلند قدم اٹھائے ہیں اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے ان کے لئے عادلانہ قوانین اور احکام وضع کئے ہیں، اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے اس کے مال اور کام کا محترم قرار دیا ہے، اجتماعی قوانین وضع کرتے وقت عورتوں کے واقعی منافع اورمصالح کی پوری طرح مراعات کی ہے_

لیکن یہ بات قابل بحث ہے کہ آیا عورت کی مصلحت اجتماع اورمعاشرے میں اجنبی مردوں کے ساتھ مخلوط رہنے میں ہے یا عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح عمومی مجالس اورمحافل میں بیگانوں کے ساتھ گھل مل کر پھرتی رہے؟ کیا یہ مطلب واقعاً عورتوں کے فائدے میں ہے کہ وہ زینت کر کے بغیر کسی بند و بار کے مردوں کی مجالس میں شریک ہو اور اپنے آپ کو انظار عمومی میں قرار دے؟ کیا یہ عورتوں کے لئے مصلحت ہے کہ وہ بیگانوں کے لئے آنکھ مچولی کرنے کا موقع فراہم کرنے اور مردوں کے لئے امکانات فراہم کرے کہ وہ اس سے دیدنی لذت اورمفت کی لذت حاصل کرتے رہیں؟ کیا یہ عورتوں کی منفعت میںہے کہ کسی پابندی کو اپنے لئے جائز قرار نہ دیں اور پوری طرح اجنبی مردوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں اور آزادانہ طور سے ایک دوسرے کو دیکھیں؟ کیا عورتوں کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ گھر سے اس طرح نکلے کہ

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۲_

۱۳۹

اس کاتعاقب اجنبی لوگوں کی نگاہیں کر رہی ہوں_

یا نہ بلکہ عورتوں کی مصلحت معاشرے میں اس میں ہے کہ اپنے آپ کو مستور کر کے سادہ طریقے سے گھر سے باہر آئیں اور اجنبی مردوں کے لئے زینت ظاہر نہ کریں نہ خود بیگانوں کودیکھیں اور نہ کوئی بیگانہ انہیں دیکھے_

آیا پہلی کیفیت میں تمام عورتوں کی مصلحت ہے اور وہ ان کے منافع کو بہتر طور پرمحفوظ کرسکتی ہے یا دوسری کیفیت میں؟ آیا پہلی کیفیت عورتوں کی روح اور ترقی اور پیشرفت کے بہتر اسباب فراہم کرسکتی ہے یا دوسری کیفیت ؟ پیغمبر اسلام(ص) نے اس مہم اوراجتماع اور معاشرے کے اساسی مسئلہ کواپنے اصحاب کے افکار عمومی کے سامنے پیش کیااور ان کی اس میں رائے طلب کی لیکن اصحاب میں سے کوئی بھی اس کا پسندیدہ جواب نہ دے سکا، جواب اس کی اطلاع حضرت زہراء (ع) کو ئی تو آپ نے اس مشکل موضوع میں اس طرح اپنا نظریہ بیان کیا کہ عورتوں کی معاشرے میں مصلحت اس میں ہے کہ نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھیں اور نہ اجنبی مرد انہیں دیکھیں_ وہ زہراء (ع) جو وحی اور ولایت کے گھر میں تربیت پاچکی تھی اس کا اتنا ٹھوس اور قیمتی جواب دیا اوراجتماعی موضوع میں سے ایک حساس اور مہم موضوع میں اپنے نظریئے اورعقیدے کااظہار کیا کہ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کاٹکڑا ہے_

اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات کو دور رکھ کر غیر جانبدارانہ اس مسئلے میں سوچے اور اس کے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فکر کرے تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ جو جواب جناب فاطمہ (ع) نے دیا ہے وہ بہترین دستورالعمل ہوسکتا ہے جو عورتوں کے منافع کا ضامن ہو_ اور اس کے مقام اور رتبے کو

۱۴۰

معاشرے میںمحفوظ کردے گا کیونکہ اگر عورتیں گھر سے اس طرح نکلیں اور اجنبیوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھیں کہ مرد ان سے ہر قسم کی تمتعات حاصل کرسکیں اور عورتیں ہر جگہ مردوں کے لئے آنکھ مچولی کے اسباب فراہم کریں تو پھر جوان دیر سے شادی کریں گے اور وہ زندگی اور ازدواج کے زیربار نہیں ہوں گے، ہر روز لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد میں جو بے شوہر ہوں گی اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ علاوہ ازین کہ معاشرے کے لئے مضر ہے اور ماں، باپ کے لئے مشکلات اور محذورات کا موجب ہے خود عام عورتوں کے اجتماع کے لئے بھی موجب ضرر ہوگا، اور اگرعورتیں اپنی خوبصورتی کو تمام نگاہوں کے لئے عام قرار دے دیں اور اجنبیوں میں دلربائی کرتی رہیں تو ایک بہت بڑے گروہ کا دل اپنے ساتھ لئے پھریں گی اور چونکہ مرد محرومیت سے دوچار ہوں گے اوران تک دست رسی اور وصال بغیر قید اور شرط کے حاصل نہ کرسگیں گے قہراً ان میںنفسیاتی بیماریاں اور ضعف اعصاب اورخودکشی اور زندگی سے مایوسی عام ہوجائے گی_

اس کا نتیجہ بلاواسطہ خود عورتوں کی طرف لوٹے گا، یہی عام لطف نگاہ ہے کہ بعض مرد مختلف قسم کے حیلے اور فریب کرتے ہیں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑکیوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کی عفت و آبرو کے سرمایہ کو برباد کردیتے ہیں اور انہیں فساد اور بدبختی اورتباہی کی وادی میں ڈھکیل دیتے ہیں_

جب شوہردار عورت دیکھے کہ اس کا شوہر دوسری عورتوں کے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومی مجالس اورمحافل میں ان سے ارتباط رکھتا ہے توغالباً عورت کی غیرت کی حس اسے اکساتی ہے کہ اس میں بدگمانی اور سو ظن پیدا

۱۴۱

ہوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع کردے، بے جہت باصفا اور گرم زندگی کو سرد اور متزلزل بنا کر رکھ دے گی اور نتیجہ،جدائی اور طلاق کی صورت بس ظاہر ہوگا یا اسی ناگوار حالت میں گھر کے سخت قیدخانے میں زندگی گزارتے رہے گی اور قید خانے کی مدت کے خاتمہ کا انتظار کرنے میں زندگی کے دن شمار کرتی رہے گی اورمیاں، بیوی دو سپاہیوں کی طرح ایک دوسرے کی مراقبت میں لگے رہیں گے_

اگر مرد اجنبی عورتوں کو آزاد نہ دیکھ سکتا ہو تو قہراً ان میں ایسی عورتیں دیکھ لے گا جو اس کی بیوی سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گی اور بسا اوقات زبان کے زخم اورسرزنش سے اپنی بیوی کے لئے ناراحتی کے اسباب فراہم کرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے باصفا اور گرم زندگی کوجلانے والی جہنم میں تبدیل کردے گا_

جس مرد کوآزاد فکری سے کسب و کار اور اقتصادی فعالیت میںمشغول ہونا چاہیئے،جب آنے جانے میں یا کام کی جگہ نیم عرباں اور آرائشے کی ہوئی عورتوں سے ملے گا تو قہراً غریزہ جنسی سے مغلوب ہوجائے گا اور اپنے دل کو کسی دل رباء کے سپرد کردے گا، ایسا آدمی کبھی آزاد فکری سب کسب و کار میں یا تحصیل علم میں مشغول نہیں ہوسکتا اور اقتصادی فعالیت میںپیچھے رہ جائے گا اس قسم کے ضرر میں خود عورتیں بھی شریک ہوں گی_ اور یہ ضرر ان پر بھی وارد ہوگا_

اگر عورت پردہ نشین ہو تو وہ اپنی قدر اور قیمت کو بہتر مرد کے دل میں جاگزین کرسکتی ہے اور عورتوں کے عمومی منافع کو معاشرے میںحفظ کرسکتی ہے اور اجتماعی کے نفع کے لئے قدم اٹھاسکتی ہے_

اسلام چونکہ عورت کو اجتماع اور معاشرے کا ایک اہم جز و جانتا

۱۴۲

ہے اور اس کی رفتار اور سلوک کومعاشرے میں موثر جانتا ہے، لہذا اس سے یہ بڑا وظیفہ طلب کیا گیا ہے کہ وہ پردے کے ذریعے فساد اور انحراف کے عوامل سے جلوگیری کرے اورملت کی ترقی اورعمومی صحت اور بہداشت کو برقرار رکھنے میں مدد کرے_ اس لئے اسلام کی نمونہ اور مثالی خاتون نے جو وحی کے گھر کی تربیت یافتہ تھی، عورتوں کے معاشرے کے متعلق اس قسم کے عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ عورتوں کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ نہ انہیں اجنبی مرد دیکھ سکیں اور نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھ سکیں_

۱۴۳

حصّہ پنجم

جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد

۱۴۴

پیغمبر اسلام(ص) نے سنہ ہجری کو تمام مسلمانوں کو حج بجالانے کی دعوت دی اور آپ آخری دفعہ مکہ مشرف ہوئے آپ نے مسلمانوں کو حج کے اعمال اور مراسم بتلائے اور واپسی پر جب آپ غدیر خم پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے اور مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور اس کے بعد آپ منبر پر تشریف لے گئے اور علی ابن ابیطالب (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین فرمایا اس کے بعد مسلمانوں نے حضرت علی (ع) کی بیعت کی اور اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے اور رسول خدا(ص) بھی مدینہ واپس لوٹ آئے، آپ سفر کی مراجعت کے بعد مریض ہوگئے آپ کی حالت دگرگوںہوتی گئی، آپ کے احوال سے معلوم ہو رہا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت آگیا ہے_ کبھی کبھار کسی مناسبت سے اپنے اہل بیت کی سفارش فرمایا کرتے تھے، کبھی جنت البقیع کے قبرستان جاتے اورمردوں کے لئے طلب مغفرت کرتے_

جناب فاطمہ (ع) نے حجة الوداع کے بعد خواب دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں قرآن ہے اور اچانک وہ ان کے ہاتھ سے گرا_ اورغائب ہوگیا_ آپ وحشت زدہ جاگ اٹھیں اور اپنے خواب کواپنے والد کے سامنے نقل کیا، جناب رسول خدا(ص)

۱۴۵

نے فرمایا،میری آنکھوں کی نور ہیں وہ قرآن ہوں کہ جس کو تم نے خواب میںدیکھا ہے، انہیں دنوں میں نگاہوں سے غائب ہوجاؤں گا(۱) _

آپ پر آہستہ آہستہ بیماری کے آثار ظاہر ہونے لگے_ آپ نے ایک لشکر جناب اسامہ کی سپہ سالاری میں مرتب کیا اورفرمایا کہ تم روم کی طرف روانہ ہوجاؤ، آپ نے چند آدمیوںکے خصوصیت سے نام لئے اورفرمایا کہ یہ لوگ اس جنگ میں ضرور شریک ہوں آپ کی اس سے غرض یہ تھی کہ مدینہ میں کوئی منافق نہ رہے اور خلافت اعلی کا مسئلہ کسی کی مدافعت اور مخالفت کے بغیر حضرت علی (ع) کے حق میں طے ہوجائے_ رسول خدا(ص) کی بیماری میں شدت آگئی اور گھر میں صاحب فراش ہوگئے_ پیغمبر(ص) کی بیماری نے جناب فاطمہ (ع) کو وحشت اور اضطراب میں ڈال دیا، کبھی آپ باپ کے زرد چہرے اور ان کے اڑے ہوئے رنگ کو دیکھتیں اور رودیتیں اور کبھی باپ کی صحت اور سلامتی کے لئے دعا کرتیں اور کہتیں خدایا میرے والد نے ہزاروں رنج اور مشقت سے اسلام کے درخت کا پودا لگایا ہے اور ابھی ثمر آور ہوا ہی ہے اور فتح و نصرت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں_

مجھے امید ہوگئی تھی کہ میرے والد کے واسطے سے دین اسلام غالب ہوجائے گا اور کفر اور بت پرستی، ظلم اور ستم ختم ہوجائیں گے لیکن صد افسوس کے میرے باپ کی حالت اچھی نہیں_ خدایا تجھ سے ان کی شفا اور صحت چاہتی ہوں_

پیغمبر(ص) کی حالت شدیدتر ہوگئی اور بیماری کی شدت سے بیہوش ہوگئے

____________________

۱) ریاحین الشریعة، ج ۱ ص ۲۳۹_

۱۴۶

جب ہوش میں آئے اور دیکھا جناب ابوبکر اور عمر اور ایک گروہ کہ جن کو اسامہ کے لشکر میں شریک ہوتا تھا شریک نہیں ہوئے اور مدینہ میں رہ گئے ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اسامہ کے لشکر میں شریک ہوجاؤ؟ ہر ایک نے اپنے جواب میں کوئی عذر اور بہانہ تراشا، لیکن پیغمبر(ص) کو ان کے خطرناک عزائم اور ہدف کا علم ہوچکا تھا اور جانتے تھے کہ یہ حضرات خلافت کے حاصل کرنے کی غرض سے مدینہ میں رہ گئے ہیں_

اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کاغذ اور دوات لاؤ تا کہ میں وصیت لکھ دوں حاضرین میں سے بعض نے چاہا کہ آپ کے حکم پر عمل کیا جائے لیکن حضرت عمر نے کہا_ کہ آپ پر بیماری کا غلبہ ہے، ہذیان کہہ رہے ہیں لہذا قلم و قرطاس دینے کی ضرورت نہیں ہے(۱) _

جناب زہراء (ع) یہ واقعات دیکھ رہی تھیں آور آپ کا غم اور اندوہ زیادہ ہو رہا تھا اپنے آپ سے کہتی تھیں کہ ابھی سے لوگوں میں اختلاف اور دوروئی کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں_ میرے باپ کے کام اور حکم اللہ کی وحی سے سرچشمہ لیتے ہیں اور آپ ملت کے مصالح اور منافع کو مد نظر رکھتے ہیں پس کیوں لوگ آپ کے فرمان سے روگرانی کرنے لگے ہیں، گویا مستقبل بہت خطرناک نظر آرہا ہے گویا لوگوں نے مصمّم ارادہ کرلیا ہے کہ میرے والد کی زحمات کو پائمال کردیں_

تعجب اور تبسم

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت سخت ہوگئی آپ نے

____________________

۱) الکامل فی التاریخ، ج ۲ ص ۲۱۷ و صحیح بخاری، ج ۳ ص ۱۲۵۹_

۱۴۷

اپنا سر مبارک حضرت علی (ع) کے زانو پر رکھا اور بے ہوش ہوگئے، حضرت زہراء (ع) اپنے باپ کے نازنین چہرے کو دیکھتیں اور رونے لگتیں اور فرماتیں_ آہ، میرے باپ کی برکت سے رحمت کی بارش ہوا کرتی تھی آپ یتیموں کی خبر لینے والے اور بیواؤں کے لئے پناہ گاہ تھے_ آپ کے رونے کی آواز پیغمبر(ص) کے کانوں تک پہنچی آپ نے آنکھیں کھولیں اور نحیف آواز میں فرمایا بیٹی یہ آیت پڑھو_

''و ما محمد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اور قتل انقلبتم علی اعقابکم''(۱)

موت سے گریز نہیں جیسے سابقہ پیغمبر(ص) مرگئے ہیں میں بھی مروں گا کیوں ملت اسلامی میرے ہدف کا پیچھا نہیں کرتی اور اس کے ختم کرنے اور لوٹ جانے کا قصد رکھتی ہے_

اس گفتگو کے سننے سے حضرت زہراء (ع) کے رونے میں شدت پیدا ہوگئی رسول خدا کی حالت اپنی بیٹی کو روتے اور پریشان دیکھ دگرگوں ہوگئی_ آپ نے انہیں تسلی دینا چاہی مگر کیا آپ کو آسانی سے آرام میں لایا جاسکتا تھا؟ اچانک آپ کی فکر میں ایک چیز آئی، جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا میرے پاس آؤ جب جناب فاطمہ (ع) اپنا چہرہ اپنے باپ کے نزدیک لے گئیں تو آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے کان میں کچھ کہا_ حاضرین نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) کا چہرہ روشن ہوگیا اور آپ مسکرانے لگیں، اس بے جا ہنسی اور تبسم پر حاضرین نے تعجب کیا تبسم کی علت آپ سے دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ جب تک میرے باپ

____________________

۱) سورہ آل عمران، آیت ص ۱۴۴_

۱۴۸

زندہ ہیں میں یہ راز فاش نہیں کروں گی آپ نے آن جناب کے فوت ہونے کے بعد اس راز سے پردہ اٹھایا اور فرمایا کہ میرے باپ نے میرے کان میں یہ فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) تمہاری موت نزدیک ہے تو پہلی فرد ہوگی جو مجھ سے ملحق ہوگی(۱) _

انس نے کہا ہے کہ اس زمانے میں جب پیغمبر(ص) بیمار تھے جناب فاطمہ (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور باپ کے گھر آئیں اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے جسم مبارک پر گرادیا اور پیغمبر(ص) کے سینے سے لگ کر رونے لگیں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا، فاطمہ (ع) روو مت، میری موت پر منھ پر طمانچے نہ مارتا، بالوں کو پریشان نہ کرنا، میرے لئے رونے اور نوحہ سرائی کی مجلس منعقد کرنا اس کے بعد پیغمبر خدا(ص) کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا اے میرے خدا میں اپنے اہلبیت کو تیرے اور مومنین کے سپرد کرتا ہوں(۲) _

راز کی پرستش

امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہے کہ پیغمبر(ص) نے اپنی زندگی کی آخری رات حضرات علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کی دعوت کی اور گھر کا دروازہ بند کردیا اور انہیں کے ساتھ تنہائی میں رہے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور کافی وقت تک آپ کے کان میں کچھ فرماتے رہے چونکہ آپ کی

____________________

۱) الکامل فی التاریخ، ج ۲ ص ۲۱۹ و بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۴۷۰_ ارشاد مفید، ص ۸۸ طبقات ابن سعد، ج ۲ قسمت دوم ص ۳۹، ۴۰_ صحیح مسلم، ج ۴ ص ۱۰۹۵_

۲_ بحار الانوار، ص ۲۲ ص ۴۶۰_

۱۴۹

گفتگو طویل ہوگئی تھی اس لئے حضرت علی (ع) اور حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) وہاں سے چلے آئے تھے اور دروازے پر آکھڑے ہوئے تھے اور لوگ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے_ پیغمبر(ص) کی ازواج حضرت علی (ع) کو دیکھ رہی تھیں_ جناب عائشےہ نے حضرت علی (ع) سے کہا کہ کیوں پیغمبر(ص) نے آپ کو اس وقت وہاں سے باہر نکال دیا ہے اور فاطمہ (ع) کے ساتھ تنہائی میں ہیں آپ نے جواب دیا میں جانتا ہوں کس غرض کے لئے اپنی بیٹی سے خلوت فرمائی ہے اور کون سے راز انہیں بتلا رہے ہیں؟ تمہارے والد اور ان کے ساتھیوں کے کاموں کے متعلق گفتگو فرما رہے ہیں_ جناب عائشےہ ساکت ہوگئیں_

حضرت علی (ع) نے فرمایا بہت زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھے بلایا جب میں اندر گیا تو دیکھا کہ پیغمبر(ص) کی حالت خطرناک ہے تو میں اپنے آنسؤں پر قابو نہ رکھا سکا_ جناب پیغمبر(ص) نے فرمایا یا علی (ع) کیوں روتے ہو فراق اور جدائی کا وقت آپہنچا ہے تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں اور پروردگار کی طرف جا رہا ہوں، میرا غم اور اندوہ تمہارے اور زہراء (ع) کے واسطے ہے اس لئے کہ لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے حقوق کو پائمال کریں اور تم پر ظلم ڈھائیں، تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں خدا میری امانت قبول فرمائے گا_

یا علی (ع) چند ایک اسرار میں نے فاطمہ (ع) کو بتلائے ہیں وہ تمہیں بتلائیں گی میرے دستورات پر عمل کرنا اور یہ جان لو کہ فاطمہ (ع) سچی ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بغل میں لیا آپ کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا، بیٹی فاطمہ (ع) تیرا باپ قربان جائے اس وقت زہراء (ع) کے رونے کی صدا بلند ہوگئی_ پیغمبر (ص) نے فرمایا خدا ظالموں سے تمہارا انتقام لے گا_ وای ہو ظالموں پر_ اس کے بعد آپ نے رونا شروع کردیا_

۱۵۰

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے آنسو بارش کی طرح جاری تھے آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی اور آپ اس حالت میں فاطمہ (ع) سے جدا نہ ہوئے تھے، اور آپ نے سر مبارک میرے سینے پر رکھے ہوئے تھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) آپ کے پاؤں کا بوسہ لے رہے تھے اور چیخ چیخ کر رو رہے تھے، میں ملائکہ کے رونے کی آوازیں سنی رہا تھا_ یقینا اس قسم کے اہم موقع پر جناب جبرئیل نے بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑا ہوگا_ جناب فاطمہ (ع) اس طرح رو رہی تھیں کہ زمین اور آسمان آپ کے لئے گریہ کر رہے تھے پیغمبر(ص) نے اس کے بعد فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) ، خدا تمہارا میری جگہ خلیفہ ہے اور وہ بہترین خلیفہ ہے_ عزیزم مت رو کیونکہ تمہارے رونے سے عرش خدا اور ملائکہ اور زمین اور آسمان گریا کناں ہیں_ خدا کی قسم ، جب تک میں بہشت میں داخل نہ ہوں گا کوئی بھی بہشت میں داخل نہ ہوگا اور تم پہلی شخصیت ہوگی جو میرے بعد بہترین لباس کے ساتھ، بہشت میں داخل ہوگی اللہ تعالی کی تکریم تمہیں مبارک ہو، خدا کی قسم تم بہشتی عورتوں میں سے بزرگ ہو_ خدا کی قسم دوزخ اس طرح فریاد کرے گی کہ جس کی آواز سے ملائکہ اور انبیاء آواز دیں گے، پروردگار کی طرف سے خطاب ہوگا کہ چپ ہوجاؤ، جب تک فاطمہ (ع) جناب محمد(ص) کی دختر بہشت کی طرف جارہی ہے، بخدا یہ اس حالت میں ہوگا کہ حسن (ع) تیرے دائیں جانب چل رہے ہوں گے اور حسین (ع) بائیں جانب اور تم بہشت میں داخل ہوگی، بہشت کے اوپر والے طبقے سے محشر کا نظارہ کروگی، جب کہ محمد(ص) کا پرچم حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں ہوگا_ خدا کی قسم اس وقت اللہ تعالی تمہارے حق کا دشمن سے مطالبہ کرے گا اس وقت جن لوگوں نے تمہارا حق غصب کیا ہوگا اور تمہاری دوستی کو چھوڑ دیا ہوگا_ پشیمان ہوں گے میں جتنا بھی کہتا رہوں گا خدایا میری امت

۱۵۱

کی داد کو پہنچو، میرے جواب میں کہا جائے گا تمہارے بعد انہوں نے دستورات اور قوانین کو تبدیل کیا ہے اس لئے وہ دوزخ کے مستحق ٹھہرے ہیں(۱) _

فاطمہ (ع) باپ کے بعد

اس حالت میں کہ پیغمبر(ص) کا سر مبارک حضرت علی (ع) کے زانو پر تھا اور جناب فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) ، پیغمبر(ص) کے نازنین چہرے کو دیکھ رہے تھے اور رو رہے تھے کہ آپ کی حق بین آنکھ بند ہوگئی اور حق گو زبان خاموش ہوگئی اور آپ کی روح عالم ابدی کی طرف پرواز کرگئی، پیغمبر(ص) کی اچانک اور غیرمنتظرہ موت سے جہان کا غم اور اندوہ حضرت فاطمہ (ع) پر آپڑا وہ فاطمہ (ع) کہ جس نے اپنی عمر غم اور غصّہ اور گرفتاری میں کاٹی تھی صرف ایک چیز سے دل خوش تھیں اور وہ تھا ان کے والد کا وجود مبارک_ اس جانگداز حادثہ کے پیش آنے سے آپ کی امیدوں اور آرزؤں کا محل یکدم زمیں پر آگرا_ اسی حالت میں آپ باپ کی کمرشکن موت میں گریہ و زاری اور نوحہ سرائی کر رہی تھیں، اور حضرت علی (ع) آپ کے دفن کے مقدمات کفن اور دفن میں مشغول تھے اچانک یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اجتماع کیا ہے تا کہ پیغمبر(ص) کے جانشین کو مقرر کریں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ دوسری خبر آملی کہ انہوں نے جناب ابوبکر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین اور خلیفہ منتخب کرلیا ہے_

گریہ و بکا اور غم و غصہ کے اس بحرانی وقت میں اتنی بڑی خبر نے حضرت فاطمہ (ع)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۴۹۰_

۱۵۲

اور حضرت علی (ع) کے مغز کو تکان دی اور ان کے تھکے ماندے اعصاب کو دوبارہ کوٹ کر رکھ دیا_ سبحان اللہ _ کیا میرے باپ نے حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر نہیں کیا؟ کیا دعوت ذوالعشیرہ سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک کئی مرتبہ حضرت علی (ع) کی خدمت کی سفارش نہیں کرتے رہے؟ کیا چند مہینہ پہلے ایک بہت بڑے اجتماع میں غدیر خم کے مقام پر انہیں خلیفہ معین نہیں فرمایا تھا؟ کیا میرے شوہر علی (ع) کے جہاد اور فداکاری کا انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا علی (ع) کی علمی منزلت کا کوئی شخص انکار کرسکتا ہے؟ مگر میرے باپ نے علی (ع) کو بچپن سے اپنی تربیت اور تعلیم میں نہیں رکھا تھا؟ خدایا اسلام کا انجام کیا ہوگا؟ اسلام کو ایسے رہبر کی ضرورت ہے جو مقام عصمت پر فائز ہو اور لغزش اور انحراف سے دوچار نہ ہو_ آہ_ مسلمان کس خطرناک راستے پر چل پڑے ہیں؟

اے میرے خدا میرے باپ نے اسلام کے لئے کتنی زحمت برداشت کی ہے، میرے شوہر نے کتنی فداکاری اور قربانی دی ہے؟ میدان جنگ میں سخت ترین اور خطرناک ترین حالت میں اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا؟ میں ان کی زخمی بدن اور خون آلودہ لباس سے باخبر ہوں_ خدایا ہم نے کتنی مصیبتیں اور زحمات دیکھی ہیں_ فاقہ کاٹے ہیں وطن سے بے وطن ہوئے_ یہ سب کچھ توحید اور خداپرستی کے لئے تھا، مظلوموں کے دفاع کے لئے تھا اور ظالموں کے ظلم کا مبارزہ اور مقابلہ تھا_ مگر ان مسلمانوں کو علم نہیں کہ اگر علی (ع) مسلمانوں کا خلیفہ ہو تو وہ اپنی عصمت اور علوم کے مقام سے جو انہیں میرے باپ کے ورثہ میں ملے ہیں مسلمانوں کے اجتماع اور معاشرے کی بہترین طریقے سے رہبری کرے گا اور میرے باپ کے مقدس ہدف اور غرض کو آگے بڑھائے گا اور جو اسلام کو سعادت اور کمال کی

۱۵۳

طرف لے جائے گا_

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دوسرے افکار جناب زہراء (ع) کے ذہن اور اعصاب پر فشار وارد کرتے تھے اور اس بہادر اور شجاع بی بی کے صبر اور تحمل کی طاقت کو ختم کردیا تھا_

حضرت زہراء (ع) کے تین مبارزے

اگر ہم سقیفہ کی طولانی اور وسیع کہانی اور جناب ابوبکر کے انتخاب کے بارے میں بحث شروع کردیں تو ہم اصل مطلب سے ہٹ جائیں گے اور بات بہت طویل ہوجائے گی، لیکن مختصر رودادیوں ہے کہ جب حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفن اور کفن سے فارغ ہوگئے تو وہ ایک تمام شدہ کام کے روبرو ہوئے انہوں نے دیکھا کہ جناب ابوبکر خلافت کے لئے منصوب کئے جاچکے ہیں اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان کی بیعت بھی کرلی ہے_

اس حالت میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ان طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کرنا چاہیئے تھا_

پہلا: یہ کہ حضرت علی (ع) ایک سخت قدم اٹھائیں اور رسماً جناب ابوبکر کی حکومت کے خلاف اقدام کریں اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کائیں اور برانگیختہ کریں_

دوسرا: جب وہ دیکھ چکے کہ کام ختم ہوچکا ہے تو اپنے شخصی مفاد اور مستقبل کی زندگی کے لئے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں اس صورت میں آپ کے شخصی منافع

۱۵۴

بھی محفوظ ہوجائیں گے اور حکومت کے نزدیک قابل احترام میں قرار پائیں گے، لیکن دونوں طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ حضرت علی کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ اگر چاہتے کہ کھلم کھلا حکومت سے ٹکر لیں اور میدان مبارزہ میں وارد ہوجائیں تو ان کا یہ اقدام اسلام کے لئے ضرر رسائل ہوتا اور اسلام کے وہ دشمن جو کمین گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے موقع سے فائدہ اٹھاتے اور ممکن تھا کہ ''اسلام جو ابھی جوان ہوا ہے'' کلی طور پر ختم کردیا جاتا اسی لئے حضرت علی (ع) نے اسلام کے اعلی اور ارفع منافع کو ترجیح دی اور سخت کاروائی کرنے سے گریز گیا_

آپ کے دوسرے طریقے پر عمل کرنے میں بھی مصلحت نہ تھی کیونکہ جانتے تھے کہ اگر ابتداء ہی سے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں تو اس کی وجہ سے لوگوں اور جناب ابوبکر کی کاروائی جو انجام پاچکی تھی اس کا تائید ہوجائے گی اور پیغمبر(ص) کی خلافت اور امامت کا مسئلہ اپنے حقیقی محور سے منحرف ہو جائے اور پیغمبر(ص) اور ان کی اپنی تمام تر زحمات اور فداکاریاں بالکل ختم ہوکر رہ جائیں گی_ اس کے علاوہ جو کام بھی جناب ابوبکر اور عمر اپنے دور خلافت میں انجام دیں گے وہ پیغمبر(ص) اور دین کے حساب میں شمار کئے جائیں گے حالانکہ وہ دونوں معصوم نہیں ہیں اور ان سے خلاف شرع اعمال کا صادر ہونا بعید نہیں_

تیسرا: جب آپ نے پہلے اور دوسرے طریقے میں مصلحت نہ دیکھی تو سوائے ایک معتدل روش کے انتخاب کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا_ حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا کہ ایک وسیع اور عاقلانہ مبارزہ اور اقدام کیا جائے تا کہ اسلام کو ختم ہونے اور متغیر ہونے سے نجات دلاسکیں گرچہ اس عاقلانہ اقدام کا نتیجہ مستقبل بعید میں ہی ظاہر ہوگا آپ کے اس اقدام اور مبارزے کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

۱۵۵

پہلا مرحلہ:

حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتے اور رات کے وقت مدینہ کے بڑے لوگوں کے گھر جاتے اور انہیں اپنی مدد کے لئے دعوت دیتے_ پیغمبر اکرم(ص) کے وصایا اور سفارشات کا تذکرہ کرتے(۱) _

جناب فاطمہ (ع) فرماتیں، لوگو کیا میرے باپ نے حضرت علی (ع) کو خلافت کے لئے معین نہیں فرمایا؟ کیا ان کی فداکاریوں کو فراموش کرگئے ہو؟ اگر میرے والد کے دستورات پر عمل کرو اور علی (ع) کو رہبری کے لئے معین کردو تو تم میرے والد کے ہدف پر عمل کروگے اور وہ تمہیں اچھی طرح ہدایت کریں گے_ لوگو مگر میرے باپ نے نہیں فرمایا تھا کہ میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے تمسک رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب دوسرے میرے اہلبیت (ع) _ لوگو کیا یہ مناسب ہے کہ ہمیں تنہا چھوڑ دو اور ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لو حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اپنی مدد کے لئے دعوت دیتے تھے کہ شاید وہ اپنے کرتوت پر پشیمان ہوجائیں اور خلافت کو اس کے اصلی مرکز طرف لوٹا دیں_

اس رویے سے بہت تھوڑا گروہ اس تبلیغ سے متاثر ہوا اور مدد کرنے کا وعدہ کیا، لیکن ان تھوڑے سے آدمیوں نے بھی اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا

____________________

۱) الامامہ والسیاستہ، ج ۱ ص ۱۲ _

۱۵۶

اور انہوں نے حکومت کی مخالفت کی جرات نہیں کی_

حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) بغیر شور و غل اور تظاہر کے جناب ابوبکر_ سے اپنی مخالفت ظاہر کرتے تھے اور انہوں نے ملّت اسلامی کو ایک حد تک بیدار بھی کیا اور اسی رویے سے مسلمانوں کا ایک گروہ باطنی طور سے ان کا ہم عقیدہ ہوگیا_ لیکن صرف یہی نتیجہ معتدل اقدام سے برآمد ہوا اور اس سے زیادہ کوئی اور نتیجہ نہ نکل سکا_

دوسرا مرحلہ:

حضرت علی (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ جناب ابوبکر کی بیعت نہیں کریں گے تا کہ اس رویہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی حکومت سے اپنی مخالفت ظاہر کرسکیں اور عملی طور سے تمام جہاں کو سمجھا دیں کہ علی (ع) ابن ابیطالب اور ان کا خاندان جو پیغمبر اسلام کے نزدیکی ہیں جناب ابوبکر کی خلافت سے ناراض ہیں تو معلوم ہوجائے گا کہ اس خلافت کی بنیاد اسلام کے مذاق کے خلاف ہے، حضرت زہراء (ع) نے بھی حضرت علی کے اس نظریئےی تائید کی اور ارادہ کرلیا کہ احتمالی خطرات اور حوادث کے ظاہر ہونے میں اپنے شوہر کی حتمی مدد کریں گی اور عملی لحاظ سے جہان کو سمجھائیں گی کہ میں پیغمبر اسلام(ص) کی دختر جناب ابوبکر کی خلافت کے موافق نہیں ہوں، لہذا حضرت علی (ع) اس غرض کی تکمیل کے لئے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور قرآن مجید کے جمع کرنے میں مشغول ہوگئے اور یہ ایک قسم کا منفی مبارزہ تھا جو آپ نے شروع کیا تھا_

چند دن اسی حالت میں گزر گئے، ایک دن جناب عمر نے جناب ابوبکر سے اظہار کیا کہ تم لوگوں نے سوائے علی (ع) اور ان کے رشتہ داروں کے تمہاری

۱۵۷

بیعت کرلی ہے، لیکن تمہاری حکومت کا استحکام بغیر علی (ع) کی بیعت کے ممکن نہیں ہے، علی (ع) کو حاضر کیا جائے اور انہیں بیعت پر مجبور کیا جائے، حضرات ابوبکر نے جناب عمر کی اس رائے کو پسند کیا اور قنفذ سے کہا کہ علی (ع) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول (ص) کے خلیفہ چاہتے ہیں کہ تم بیعت کے لئے مسجد میں حاضر ہوجاؤ_

قنفذ کئی بار حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور گئے لیکن حضرت علی (ع) نے جناب ابوبکر کے پاس آنے سے انکار کردیا_ جناب عمر خشمناک ہوئے اور خالد بن ولید اور قنفذ اور ایک گروہ کے ساتھ حضرت زہراء (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا یا علی (ع) دروازہ کھولو_ فاطمہ (ع) سر پر پٹی باندھے اور بیماری کی حالت میں دروازے کے پیچھے آئیں اور فرمایا_ اے عمر ہم سے تمہیں کیا کام ہے؟ تم ہمیں اپنی حالت پر کیوں نہیں رہنے دیتے؟ جناب عمر نے زور سے آواز دی کہ دروازہ کھولو ورنہ گھر میں آگ لگا دوں گا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے عمر خدا سے نہیں ڈرتے، میرے گھر میں داخل ہونا چاہتے ہو؟ آپ کی گفتگو سے عمر اپنے ارادے سے منحرف نہ ہوئے، جب جناب عمر نے دیکھا کہ دروازہ نہیں کھولتے تو حکم دیا کہ لکڑیاں لے آؤتا کہ میں گھر کو آگ لگادوں(۲) _

دروازہ کھل گیا جناب عمر نے گھر کے اندر داخل ہونا چاہا، حضرت زہراء (ع)

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، الحدید، ج ۲ ص ۵۶ اور، ج ۶ ص ۴۸_

۲) اثبات الوصیتہ، ص ۱۱۰_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۷_ الامامہ السیاسہ، ج ۱ ص ۱۲_

۱۵۸

نے جب دروازہ کھلا دیکھا اور خطرے کو نزدیک پایا تو مردانہ وار جناب عمر کے سامنے آکر مانع ہوئیں(۱) _

____________________

۱) سنی شیعہ تاریخ اور مدارک اس پر متفق ہیں کہ جناب ابوبکر کے سپاہیوں نے حضرت زہراء (ع) کے گھر پر حملہ کردیا اور جناب عمر نے لکڑیاں طلب کی اور گھرواروں کو گھر جلادینے کی دھمکی دی بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ جناب عمر سے کہا گیا کہ اس گھر میں فاطمہ (ع) موجود ہیں آپ نے جواب دیا کہ اگر بیعت کے لئے حاضر نہ ہوں گے تو میں اس گھر کو آگ لگادوں گا گرچہ اس میں فاطمہ (ع) ہی موجود ہوں_ جیسے کہ یہ مطلب ابوالفداء ابن ابی الحدید ابن قیتبہ نے امامہ و السیاسہ میں، انساب الاشرف یعقوبی اور دوسروں نے گھر پر حملہ کرنے اور جلانے کی دھمکی کو تحریر کیا ہے، خود حضرت ابوبکر نے اپنی موت کے وقت حضرت زہراء (ع) گے گھر پر حملے پر ندامت کا اظہار کیا ہے_

چنانچہ ابن ابی الحدید جلد ۲ ص ۴۶ پر اور ج ۱۲ ص ۱۹۴ پر لکھتے ہیں کہ جس وقت جناب زینب پیغمبر کی(۱) لڑکی مکہ سے مدینہ آرہی تھیں تو راستے میں دشمنوں نے اس پر حملہ کردیا اور حصار بن الود نے آک کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کردیا اور حصار بن الود نے آپ کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کی اس وجہ سے جناب زینب کا بچہ سقط ہوگیا، رسول اللہ(ص) اس مطلب سے اس قدر ناراحت ہوئے کہ آپ نے فتح مکہ کے دن ہبار کے خون کو مباح قرار دے دیا_ اس کے بعد ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ نقیب ابی جعفر کے سامنے پڑھا تو اس نے کہ کہ جب رسول خدا(ص) نے ہبار کے خون مباح کردیا تھا تو معلوم

۱) ضعیف روایات کی بناء پر مولّف نے حاشیہ لگایا ہے ورنہ رسول (ص) کی بیٹی فقط جناب فاطمہ (ع) ہیں کے علاوہ کوئی بیٹی تاریخ سے اگر ثابت ہے تو ضعیف روایات کی رو ہے_

۱۵۹

اور یہ آواز بلند گریہ و بکا اور شیون کرنا شروع کردیا تا کہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور حضرت علی (ع) کا دفاع کریں_ زہراء (ع) کے استغاثے اور گریہ و بکا نے صرف ان لوگوں پر اثر نہیں کیا بلکہ انہوں نے تلوار کا دستہ _ آپ کے پہلو پر مارا اور تازیانے سے آپ کے بازو کو بھی سیاہ کردیا تا کہ آپ اپنا ہاتھ علی (ع) کے ہاتھ سے م ہٹالیں(۱) _

آخر الامر حضرت علی (ع) کو گرفتار کرلیا گیا اور آپ کو مسجد کی طرف لے گئے جناب زہراء (ع) علی (ع) کی جان کو خطرے میںدیکھ رہی تھیں، مردانہ اور اٹھیں اور حضرت علی (ع) کے دامن کو مضبوطی سے پکڑلیا اور کہا کہ میں اپنے شوہر کو نہ جانے دوں گی _ قنفذ نے دیکھا کہ زہرا (ع) اپنے ہاتھ سے علی (ع) کو نہیں چھوڑتیں تو اس نے اتنے تازیانے آپ کے ہاتھ پر مارے کہ آپ کا بازو ورم کرگیا(۲) _

حضرت زہرا (ع) سلام اللہ علیہا اس جمیعت میں دیوار اور دروازے کے درمیان ہوگئیں اور آپ پر دروازے کے ذریعہ اتنا زور پڑا کہ آپ کے پہلو کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ بچہ جو آپ کے شکم مبارک

ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) زندہ ہوتے تو اس شخص کے خون کو جس نے فاطمہ (ع) کو تحدید کی تھی کہ جس سے فاطمہ (ع) کا بچہ ساقط ہوگیا تھا مباح کردیتے_ اہلسنت کی کتابیں تہدید کے بعد کے واقعات کے بیان کرنے میں ساکت ہیں، لیکن شیعوں کی تواریخ اور احادیث نے بیان کیا ہے کہ بالاخر آپ کے گھر کے دروازے کو آگ لگادی گئی اور پیغمبر(ص) کی دختر کو اتنا زد و کوب کیا گیا کہ بچہ ساکت ہوگیا

''مولف''

____________________

۱) بحار الانوار ج ۴۳ ص ۱۹۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293