فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون13%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102058 / ڈاؤنلوڈ: 4601
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

معاشرے میںمحفوظ کردے گا کیونکہ اگر عورتیں گھر سے اس طرح نکلیں اور اجنبیوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھیں کہ مرد ان سے ہر قسم کی تمتعات حاصل کرسکیں اور عورتیں ہر جگہ مردوں کے لئے آنکھ مچولی کے اسباب فراہم کریں تو پھر جوان دیر سے شادی کریں گے اور وہ زندگی اور ازدواج کے زیربار نہیں ہوں گے، ہر روز لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد میں جو بے شوہر ہوں گی اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ علاوہ ازین کہ معاشرے کے لئے مضر ہے اور ماں، باپ کے لئے مشکلات اور محذورات کا موجب ہے خود عام عورتوں کے اجتماع کے لئے بھی موجب ضرر ہوگا، اور اگرعورتیں اپنی خوبصورتی کو تمام نگاہوں کے لئے عام قرار دے دیں اور اجنبیوں میں دلربائی کرتی رہیں تو ایک بہت بڑے گروہ کا دل اپنے ساتھ لئے پھریں گی اور چونکہ مرد محرومیت سے دوچار ہوں گے اوران تک دست رسی اور وصال بغیر قید اور شرط کے حاصل نہ کرسگیں گے قہراً ان میںنفسیاتی بیماریاں اور ضعف اعصاب اورخودکشی اور زندگی سے مایوسی عام ہوجائے گی_

اس کا نتیجہ بلاواسطہ خود عورتوں کی طرف لوٹے گا، یہی عام لطف نگاہ ہے کہ بعض مرد مختلف قسم کے حیلے اور فریب کرتے ہیں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑکیوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کی عفت و آبرو کے سرمایہ کو برباد کردیتے ہیں اور انہیں فساد اور بدبختی اورتباہی کی وادی میں ڈھکیل دیتے ہیں_

جب شوہردار عورت دیکھے کہ اس کا شوہر دوسری عورتوں کے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومی مجالس اورمحافل میں ان سے ارتباط رکھتا ہے توغالباً عورت کی غیرت کی حس اسے اکساتی ہے کہ اس میں بدگمانی اور سو ظن پیدا

۱۴۱

ہوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع کردے، بے جہت باصفا اور گرم زندگی کو سرد اور متزلزل بنا کر رکھ دے گی اور نتیجہ،جدائی اور طلاق کی صورت بس ظاہر ہوگا یا اسی ناگوار حالت میں گھر کے سخت قیدخانے میں زندگی گزارتے رہے گی اور قید خانے کی مدت کے خاتمہ کا انتظار کرنے میں زندگی کے دن شمار کرتی رہے گی اورمیاں، بیوی دو سپاہیوں کی طرح ایک دوسرے کی مراقبت میں لگے رہیں گے_

اگر مرد اجنبی عورتوں کو آزاد نہ دیکھ سکتا ہو تو قہراً ان میں ایسی عورتیں دیکھ لے گا جو اس کی بیوی سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گی اور بسا اوقات زبان کے زخم اورسرزنش سے اپنی بیوی کے لئے ناراحتی کے اسباب فراہم کرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے باصفا اور گرم زندگی کوجلانے والی جہنم میں تبدیل کردے گا_

جس مرد کوآزاد فکری سے کسب و کار اور اقتصادی فعالیت میںمشغول ہونا چاہیئے،جب آنے جانے میں یا کام کی جگہ نیم عرباں اور آرائشے کی ہوئی عورتوں سے ملے گا تو قہراً غریزہ جنسی سے مغلوب ہوجائے گا اور اپنے دل کو کسی دل رباء کے سپرد کردے گا، ایسا آدمی کبھی آزاد فکری سب کسب و کار میں یا تحصیل علم میں مشغول نہیں ہوسکتا اور اقتصادی فعالیت میںپیچھے رہ جائے گا اس قسم کے ضرر میں خود عورتیں بھی شریک ہوں گی_ اور یہ ضرر ان پر بھی وارد ہوگا_

اگر عورت پردہ نشین ہو تو وہ اپنی قدر اور قیمت کو بہتر مرد کے دل میں جاگزین کرسکتی ہے اور عورتوں کے عمومی منافع کو معاشرے میںحفظ کرسکتی ہے اور اجتماعی کے نفع کے لئے قدم اٹھاسکتی ہے_

اسلام چونکہ عورت کو اجتماع اور معاشرے کا ایک اہم جز و جانتا

۱۴۲

ہے اور اس کی رفتار اور سلوک کومعاشرے میں موثر جانتا ہے، لہذا اس سے یہ بڑا وظیفہ طلب کیا گیا ہے کہ وہ پردے کے ذریعے فساد اور انحراف کے عوامل سے جلوگیری کرے اورملت کی ترقی اورعمومی صحت اور بہداشت کو برقرار رکھنے میں مدد کرے_ اس لئے اسلام کی نمونہ اور مثالی خاتون نے جو وحی کے گھر کی تربیت یافتہ تھی، عورتوں کے معاشرے کے متعلق اس قسم کے عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ عورتوں کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ نہ انہیں اجنبی مرد دیکھ سکیں اور نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھ سکیں_

۱۴۳

حصّہ پنجم

جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد

۱۴۴

پیغمبر اسلام(ص) نے سنہ ہجری کو تمام مسلمانوں کو حج بجالانے کی دعوت دی اور آپ آخری دفعہ مکہ مشرف ہوئے آپ نے مسلمانوں کو حج کے اعمال اور مراسم بتلائے اور واپسی پر جب آپ غدیر خم پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے اور مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور اس کے بعد آپ منبر پر تشریف لے گئے اور علی ابن ابیطالب (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین فرمایا اس کے بعد مسلمانوں نے حضرت علی (ع) کی بیعت کی اور اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے اور رسول خدا(ص) بھی مدینہ واپس لوٹ آئے، آپ سفر کی مراجعت کے بعد مریض ہوگئے آپ کی حالت دگرگوںہوتی گئی، آپ کے احوال سے معلوم ہو رہا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت آگیا ہے_ کبھی کبھار کسی مناسبت سے اپنے اہل بیت کی سفارش فرمایا کرتے تھے، کبھی جنت البقیع کے قبرستان جاتے اورمردوں کے لئے طلب مغفرت کرتے_

جناب فاطمہ (ع) نے حجة الوداع کے بعد خواب دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں قرآن ہے اور اچانک وہ ان کے ہاتھ سے گرا_ اورغائب ہوگیا_ آپ وحشت زدہ جاگ اٹھیں اور اپنے خواب کواپنے والد کے سامنے نقل کیا، جناب رسول خدا(ص)

۱۴۵

نے فرمایا،میری آنکھوں کی نور ہیں وہ قرآن ہوں کہ جس کو تم نے خواب میںدیکھا ہے، انہیں دنوں میں نگاہوں سے غائب ہوجاؤں گا(۱) _

آپ پر آہستہ آہستہ بیماری کے آثار ظاہر ہونے لگے_ آپ نے ایک لشکر جناب اسامہ کی سپہ سالاری میں مرتب کیا اورفرمایا کہ تم روم کی طرف روانہ ہوجاؤ، آپ نے چند آدمیوںکے خصوصیت سے نام لئے اورفرمایا کہ یہ لوگ اس جنگ میں ضرور شریک ہوں آپ کی اس سے غرض یہ تھی کہ مدینہ میں کوئی منافق نہ رہے اور خلافت اعلی کا مسئلہ کسی کی مدافعت اور مخالفت کے بغیر حضرت علی (ع) کے حق میں طے ہوجائے_ رسول خدا(ص) کی بیماری میں شدت آگئی اور گھر میں صاحب فراش ہوگئے_ پیغمبر(ص) کی بیماری نے جناب فاطمہ (ع) کو وحشت اور اضطراب میں ڈال دیا، کبھی آپ باپ کے زرد چہرے اور ان کے اڑے ہوئے رنگ کو دیکھتیں اور رودیتیں اور کبھی باپ کی صحت اور سلامتی کے لئے دعا کرتیں اور کہتیں خدایا میرے والد نے ہزاروں رنج اور مشقت سے اسلام کے درخت کا پودا لگایا ہے اور ابھی ثمر آور ہوا ہی ہے اور فتح و نصرت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں_

مجھے امید ہوگئی تھی کہ میرے والد کے واسطے سے دین اسلام غالب ہوجائے گا اور کفر اور بت پرستی، ظلم اور ستم ختم ہوجائیں گے لیکن صد افسوس کے میرے باپ کی حالت اچھی نہیں_ خدایا تجھ سے ان کی شفا اور صحت چاہتی ہوں_

پیغمبر(ص) کی حالت شدیدتر ہوگئی اور بیماری کی شدت سے بیہوش ہوگئے

____________________

۱) ریاحین الشریعة، ج ۱ ص ۲۳۹_

۱۴۶

جب ہوش میں آئے اور دیکھا جناب ابوبکر اور عمر اور ایک گروہ کہ جن کو اسامہ کے لشکر میں شریک ہوتا تھا شریک نہیں ہوئے اور مدینہ میں رہ گئے ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اسامہ کے لشکر میں شریک ہوجاؤ؟ ہر ایک نے اپنے جواب میں کوئی عذر اور بہانہ تراشا، لیکن پیغمبر(ص) کو ان کے خطرناک عزائم اور ہدف کا علم ہوچکا تھا اور جانتے تھے کہ یہ حضرات خلافت کے حاصل کرنے کی غرض سے مدینہ میں رہ گئے ہیں_

اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کاغذ اور دوات لاؤ تا کہ میں وصیت لکھ دوں حاضرین میں سے بعض نے چاہا کہ آپ کے حکم پر عمل کیا جائے لیکن حضرت عمر نے کہا_ کہ آپ پر بیماری کا غلبہ ہے، ہذیان کہہ رہے ہیں لہذا قلم و قرطاس دینے کی ضرورت نہیں ہے(۱) _

جناب زہراء (ع) یہ واقعات دیکھ رہی تھیں آور آپ کا غم اور اندوہ زیادہ ہو رہا تھا اپنے آپ سے کہتی تھیں کہ ابھی سے لوگوں میں اختلاف اور دوروئی کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں_ میرے باپ کے کام اور حکم اللہ کی وحی سے سرچشمہ لیتے ہیں اور آپ ملت کے مصالح اور منافع کو مد نظر رکھتے ہیں پس کیوں لوگ آپ کے فرمان سے روگرانی کرنے لگے ہیں، گویا مستقبل بہت خطرناک نظر آرہا ہے گویا لوگوں نے مصمّم ارادہ کرلیا ہے کہ میرے والد کی زحمات کو پائمال کردیں_

تعجب اور تبسم

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت سخت ہوگئی آپ نے

____________________

۱) الکامل فی التاریخ، ج ۲ ص ۲۱۷ و صحیح بخاری، ج ۳ ص ۱۲۵۹_

۱۴۷

اپنا سر مبارک حضرت علی (ع) کے زانو پر رکھا اور بے ہوش ہوگئے، حضرت زہراء (ع) اپنے باپ کے نازنین چہرے کو دیکھتیں اور رونے لگتیں اور فرماتیں_ آہ، میرے باپ کی برکت سے رحمت کی بارش ہوا کرتی تھی آپ یتیموں کی خبر لینے والے اور بیواؤں کے لئے پناہ گاہ تھے_ آپ کے رونے کی آواز پیغمبر(ص) کے کانوں تک پہنچی آپ نے آنکھیں کھولیں اور نحیف آواز میں فرمایا بیٹی یہ آیت پڑھو_

''و ما محمد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اور قتل انقلبتم علی اعقابکم''(۱)

موت سے گریز نہیں جیسے سابقہ پیغمبر(ص) مرگئے ہیں میں بھی مروں گا کیوں ملت اسلامی میرے ہدف کا پیچھا نہیں کرتی اور اس کے ختم کرنے اور لوٹ جانے کا قصد رکھتی ہے_

اس گفتگو کے سننے سے حضرت زہراء (ع) کے رونے میں شدت پیدا ہوگئی رسول خدا کی حالت اپنی بیٹی کو روتے اور پریشان دیکھ دگرگوں ہوگئی_ آپ نے انہیں تسلی دینا چاہی مگر کیا آپ کو آسانی سے آرام میں لایا جاسکتا تھا؟ اچانک آپ کی فکر میں ایک چیز آئی، جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا میرے پاس آؤ جب جناب فاطمہ (ع) اپنا چہرہ اپنے باپ کے نزدیک لے گئیں تو آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے کان میں کچھ کہا_ حاضرین نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) کا چہرہ روشن ہوگیا اور آپ مسکرانے لگیں، اس بے جا ہنسی اور تبسم پر حاضرین نے تعجب کیا تبسم کی علت آپ سے دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ جب تک میرے باپ

____________________

۱) سورہ آل عمران، آیت ص ۱۴۴_

۱۴۸

زندہ ہیں میں یہ راز فاش نہیں کروں گی آپ نے آن جناب کے فوت ہونے کے بعد اس راز سے پردہ اٹھایا اور فرمایا کہ میرے باپ نے میرے کان میں یہ فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) تمہاری موت نزدیک ہے تو پہلی فرد ہوگی جو مجھ سے ملحق ہوگی(۱) _

انس نے کہا ہے کہ اس زمانے میں جب پیغمبر(ص) بیمار تھے جناب فاطمہ (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور باپ کے گھر آئیں اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے جسم مبارک پر گرادیا اور پیغمبر(ص) کے سینے سے لگ کر رونے لگیں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا، فاطمہ (ع) روو مت، میری موت پر منھ پر طمانچے نہ مارتا، بالوں کو پریشان نہ کرنا، میرے لئے رونے اور نوحہ سرائی کی مجلس منعقد کرنا اس کے بعد پیغمبر خدا(ص) کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا اے میرے خدا میں اپنے اہلبیت کو تیرے اور مومنین کے سپرد کرتا ہوں(۲) _

راز کی پرستش

امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہے کہ پیغمبر(ص) نے اپنی زندگی کی آخری رات حضرات علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کی دعوت کی اور گھر کا دروازہ بند کردیا اور انہیں کے ساتھ تنہائی میں رہے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور کافی وقت تک آپ کے کان میں کچھ فرماتے رہے چونکہ آپ کی

____________________

۱) الکامل فی التاریخ، ج ۲ ص ۲۱۹ و بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۴۷۰_ ارشاد مفید، ص ۸۸ طبقات ابن سعد، ج ۲ قسمت دوم ص ۳۹، ۴۰_ صحیح مسلم، ج ۴ ص ۱۰۹۵_

۲_ بحار الانوار، ص ۲۲ ص ۴۶۰_

۱۴۹

گفتگو طویل ہوگئی تھی اس لئے حضرت علی (ع) اور حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) وہاں سے چلے آئے تھے اور دروازے پر آکھڑے ہوئے تھے اور لوگ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے_ پیغمبر(ص) کی ازواج حضرت علی (ع) کو دیکھ رہی تھیں_ جناب عائشےہ نے حضرت علی (ع) سے کہا کہ کیوں پیغمبر(ص) نے آپ کو اس وقت وہاں سے باہر نکال دیا ہے اور فاطمہ (ع) کے ساتھ تنہائی میں ہیں آپ نے جواب دیا میں جانتا ہوں کس غرض کے لئے اپنی بیٹی سے خلوت فرمائی ہے اور کون سے راز انہیں بتلا رہے ہیں؟ تمہارے والد اور ان کے ساتھیوں کے کاموں کے متعلق گفتگو فرما رہے ہیں_ جناب عائشےہ ساکت ہوگئیں_

حضرت علی (ع) نے فرمایا بہت زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھے بلایا جب میں اندر گیا تو دیکھا کہ پیغمبر(ص) کی حالت خطرناک ہے تو میں اپنے آنسؤں پر قابو نہ رکھا سکا_ جناب پیغمبر(ص) نے فرمایا یا علی (ع) کیوں روتے ہو فراق اور جدائی کا وقت آپہنچا ہے تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں اور پروردگار کی طرف جا رہا ہوں، میرا غم اور اندوہ تمہارے اور زہراء (ع) کے واسطے ہے اس لئے کہ لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے حقوق کو پائمال کریں اور تم پر ظلم ڈھائیں، تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں خدا میری امانت قبول فرمائے گا_

یا علی (ع) چند ایک اسرار میں نے فاطمہ (ع) کو بتلائے ہیں وہ تمہیں بتلائیں گی میرے دستورات پر عمل کرنا اور یہ جان لو کہ فاطمہ (ع) سچی ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بغل میں لیا آپ کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا، بیٹی فاطمہ (ع) تیرا باپ قربان جائے اس وقت زہراء (ع) کے رونے کی صدا بلند ہوگئی_ پیغمبر (ص) نے فرمایا خدا ظالموں سے تمہارا انتقام لے گا_ وای ہو ظالموں پر_ اس کے بعد آپ نے رونا شروع کردیا_

۱۵۰

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے آنسو بارش کی طرح جاری تھے آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی اور آپ اس حالت میں فاطمہ (ع) سے جدا نہ ہوئے تھے، اور آپ نے سر مبارک میرے سینے پر رکھے ہوئے تھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) آپ کے پاؤں کا بوسہ لے رہے تھے اور چیخ چیخ کر رو رہے تھے، میں ملائکہ کے رونے کی آوازیں سنی رہا تھا_ یقینا اس قسم کے اہم موقع پر جناب جبرئیل نے بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑا ہوگا_ جناب فاطمہ (ع) اس طرح رو رہی تھیں کہ زمین اور آسمان آپ کے لئے گریہ کر رہے تھے پیغمبر(ص) نے اس کے بعد فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) ، خدا تمہارا میری جگہ خلیفہ ہے اور وہ بہترین خلیفہ ہے_ عزیزم مت رو کیونکہ تمہارے رونے سے عرش خدا اور ملائکہ اور زمین اور آسمان گریا کناں ہیں_ خدا کی قسم ، جب تک میں بہشت میں داخل نہ ہوں گا کوئی بھی بہشت میں داخل نہ ہوگا اور تم پہلی شخصیت ہوگی جو میرے بعد بہترین لباس کے ساتھ، بہشت میں داخل ہوگی اللہ تعالی کی تکریم تمہیں مبارک ہو، خدا کی قسم تم بہشتی عورتوں میں سے بزرگ ہو_ خدا کی قسم دوزخ اس طرح فریاد کرے گی کہ جس کی آواز سے ملائکہ اور انبیاء آواز دیں گے، پروردگار کی طرف سے خطاب ہوگا کہ چپ ہوجاؤ، جب تک فاطمہ (ع) جناب محمد(ص) کی دختر بہشت کی طرف جارہی ہے، بخدا یہ اس حالت میں ہوگا کہ حسن (ع) تیرے دائیں جانب چل رہے ہوں گے اور حسین (ع) بائیں جانب اور تم بہشت میں داخل ہوگی، بہشت کے اوپر والے طبقے سے محشر کا نظارہ کروگی، جب کہ محمد(ص) کا پرچم حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں ہوگا_ خدا کی قسم اس وقت اللہ تعالی تمہارے حق کا دشمن سے مطالبہ کرے گا اس وقت جن لوگوں نے تمہارا حق غصب کیا ہوگا اور تمہاری دوستی کو چھوڑ دیا ہوگا_ پشیمان ہوں گے میں جتنا بھی کہتا رہوں گا خدایا میری امت

۱۵۱

کی داد کو پہنچو، میرے جواب میں کہا جائے گا تمہارے بعد انہوں نے دستورات اور قوانین کو تبدیل کیا ہے اس لئے وہ دوزخ کے مستحق ٹھہرے ہیں(۱) _

فاطمہ (ع) باپ کے بعد

اس حالت میں کہ پیغمبر(ص) کا سر مبارک حضرت علی (ع) کے زانو پر تھا اور جناب فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) ، پیغمبر(ص) کے نازنین چہرے کو دیکھ رہے تھے اور رو رہے تھے کہ آپ کی حق بین آنکھ بند ہوگئی اور حق گو زبان خاموش ہوگئی اور آپ کی روح عالم ابدی کی طرف پرواز کرگئی، پیغمبر(ص) کی اچانک اور غیرمنتظرہ موت سے جہان کا غم اور اندوہ حضرت فاطمہ (ع) پر آپڑا وہ فاطمہ (ع) کہ جس نے اپنی عمر غم اور غصّہ اور گرفتاری میں کاٹی تھی صرف ایک چیز سے دل خوش تھیں اور وہ تھا ان کے والد کا وجود مبارک_ اس جانگداز حادثہ کے پیش آنے سے آپ کی امیدوں اور آرزؤں کا محل یکدم زمیں پر آگرا_ اسی حالت میں آپ باپ کی کمرشکن موت میں گریہ و زاری اور نوحہ سرائی کر رہی تھیں، اور حضرت علی (ع) آپ کے دفن کے مقدمات کفن اور دفن میں مشغول تھے اچانک یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اجتماع کیا ہے تا کہ پیغمبر(ص) کے جانشین کو مقرر کریں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ دوسری خبر آملی کہ انہوں نے جناب ابوبکر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین اور خلیفہ منتخب کرلیا ہے_

گریہ و بکا اور غم و غصہ کے اس بحرانی وقت میں اتنی بڑی خبر نے حضرت فاطمہ (ع)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۴۹۰_

۱۵۲

اور حضرت علی (ع) کے مغز کو تکان دی اور ان کے تھکے ماندے اعصاب کو دوبارہ کوٹ کر رکھ دیا_ سبحان اللہ _ کیا میرے باپ نے حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر نہیں کیا؟ کیا دعوت ذوالعشیرہ سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک کئی مرتبہ حضرت علی (ع) کی خدمت کی سفارش نہیں کرتے رہے؟ کیا چند مہینہ پہلے ایک بہت بڑے اجتماع میں غدیر خم کے مقام پر انہیں خلیفہ معین نہیں فرمایا تھا؟ کیا میرے شوہر علی (ع) کے جہاد اور فداکاری کا انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا علی (ع) کی علمی منزلت کا کوئی شخص انکار کرسکتا ہے؟ مگر میرے باپ نے علی (ع) کو بچپن سے اپنی تربیت اور تعلیم میں نہیں رکھا تھا؟ خدایا اسلام کا انجام کیا ہوگا؟ اسلام کو ایسے رہبر کی ضرورت ہے جو مقام عصمت پر فائز ہو اور لغزش اور انحراف سے دوچار نہ ہو_ آہ_ مسلمان کس خطرناک راستے پر چل پڑے ہیں؟

اے میرے خدا میرے باپ نے اسلام کے لئے کتنی زحمت برداشت کی ہے، میرے شوہر نے کتنی فداکاری اور قربانی دی ہے؟ میدان جنگ میں سخت ترین اور خطرناک ترین حالت میں اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا؟ میں ان کی زخمی بدن اور خون آلودہ لباس سے باخبر ہوں_ خدایا ہم نے کتنی مصیبتیں اور زحمات دیکھی ہیں_ فاقہ کاٹے ہیں وطن سے بے وطن ہوئے_ یہ سب کچھ توحید اور خداپرستی کے لئے تھا، مظلوموں کے دفاع کے لئے تھا اور ظالموں کے ظلم کا مبارزہ اور مقابلہ تھا_ مگر ان مسلمانوں کو علم نہیں کہ اگر علی (ع) مسلمانوں کا خلیفہ ہو تو وہ اپنی عصمت اور علوم کے مقام سے جو انہیں میرے باپ کے ورثہ میں ملے ہیں مسلمانوں کے اجتماع اور معاشرے کی بہترین طریقے سے رہبری کرے گا اور میرے باپ کے مقدس ہدف اور غرض کو آگے بڑھائے گا اور جو اسلام کو سعادت اور کمال کی

۱۵۳

طرف لے جائے گا_

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دوسرے افکار جناب زہراء (ع) کے ذہن اور اعصاب پر فشار وارد کرتے تھے اور اس بہادر اور شجاع بی بی کے صبر اور تحمل کی طاقت کو ختم کردیا تھا_

حضرت زہراء (ع) کے تین مبارزے

اگر ہم سقیفہ کی طولانی اور وسیع کہانی اور جناب ابوبکر کے انتخاب کے بارے میں بحث شروع کردیں تو ہم اصل مطلب سے ہٹ جائیں گے اور بات بہت طویل ہوجائے گی، لیکن مختصر رودادیوں ہے کہ جب حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفن اور کفن سے فارغ ہوگئے تو وہ ایک تمام شدہ کام کے روبرو ہوئے انہوں نے دیکھا کہ جناب ابوبکر خلافت کے لئے منصوب کئے جاچکے ہیں اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان کی بیعت بھی کرلی ہے_

اس حالت میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ان طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کرنا چاہیئے تھا_

پہلا: یہ کہ حضرت علی (ع) ایک سخت قدم اٹھائیں اور رسماً جناب ابوبکر کی حکومت کے خلاف اقدام کریں اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کائیں اور برانگیختہ کریں_

دوسرا: جب وہ دیکھ چکے کہ کام ختم ہوچکا ہے تو اپنے شخصی مفاد اور مستقبل کی زندگی کے لئے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں اس صورت میں آپ کے شخصی منافع

۱۵۴

بھی محفوظ ہوجائیں گے اور حکومت کے نزدیک قابل احترام میں قرار پائیں گے، لیکن دونوں طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ حضرت علی کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ اگر چاہتے کہ کھلم کھلا حکومت سے ٹکر لیں اور میدان مبارزہ میں وارد ہوجائیں تو ان کا یہ اقدام اسلام کے لئے ضرر رسائل ہوتا اور اسلام کے وہ دشمن جو کمین گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے موقع سے فائدہ اٹھاتے اور ممکن تھا کہ ''اسلام جو ابھی جوان ہوا ہے'' کلی طور پر ختم کردیا جاتا اسی لئے حضرت علی (ع) نے اسلام کے اعلی اور ارفع منافع کو ترجیح دی اور سخت کاروائی کرنے سے گریز گیا_

آپ کے دوسرے طریقے پر عمل کرنے میں بھی مصلحت نہ تھی کیونکہ جانتے تھے کہ اگر ابتداء ہی سے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں تو اس کی وجہ سے لوگوں اور جناب ابوبکر کی کاروائی جو انجام پاچکی تھی اس کا تائید ہوجائے گی اور پیغمبر(ص) کی خلافت اور امامت کا مسئلہ اپنے حقیقی محور سے منحرف ہو جائے اور پیغمبر(ص) اور ان کی اپنی تمام تر زحمات اور فداکاریاں بالکل ختم ہوکر رہ جائیں گی_ اس کے علاوہ جو کام بھی جناب ابوبکر اور عمر اپنے دور خلافت میں انجام دیں گے وہ پیغمبر(ص) اور دین کے حساب میں شمار کئے جائیں گے حالانکہ وہ دونوں معصوم نہیں ہیں اور ان سے خلاف شرع اعمال کا صادر ہونا بعید نہیں_

تیسرا: جب آپ نے پہلے اور دوسرے طریقے میں مصلحت نہ دیکھی تو سوائے ایک معتدل روش کے انتخاب کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا_ حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا کہ ایک وسیع اور عاقلانہ مبارزہ اور اقدام کیا جائے تا کہ اسلام کو ختم ہونے اور متغیر ہونے سے نجات دلاسکیں گرچہ اس عاقلانہ اقدام کا نتیجہ مستقبل بعید میں ہی ظاہر ہوگا آپ کے اس اقدام اور مبارزے کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

۱۵۵

پہلا مرحلہ:

حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتے اور رات کے وقت مدینہ کے بڑے لوگوں کے گھر جاتے اور انہیں اپنی مدد کے لئے دعوت دیتے_ پیغمبر اکرم(ص) کے وصایا اور سفارشات کا تذکرہ کرتے(۱) _

جناب فاطمہ (ع) فرماتیں، لوگو کیا میرے باپ نے حضرت علی (ع) کو خلافت کے لئے معین نہیں فرمایا؟ کیا ان کی فداکاریوں کو فراموش کرگئے ہو؟ اگر میرے والد کے دستورات پر عمل کرو اور علی (ع) کو رہبری کے لئے معین کردو تو تم میرے والد کے ہدف پر عمل کروگے اور وہ تمہیں اچھی طرح ہدایت کریں گے_ لوگو مگر میرے باپ نے نہیں فرمایا تھا کہ میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے تمسک رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب دوسرے میرے اہلبیت (ع) _ لوگو کیا یہ مناسب ہے کہ ہمیں تنہا چھوڑ دو اور ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لو حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اپنی مدد کے لئے دعوت دیتے تھے کہ شاید وہ اپنے کرتوت پر پشیمان ہوجائیں اور خلافت کو اس کے اصلی مرکز طرف لوٹا دیں_

اس رویے سے بہت تھوڑا گروہ اس تبلیغ سے متاثر ہوا اور مدد کرنے کا وعدہ کیا، لیکن ان تھوڑے سے آدمیوں نے بھی اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا

____________________

۱) الامامہ والسیاستہ، ج ۱ ص ۱۲ _

۱۵۶

اور انہوں نے حکومت کی مخالفت کی جرات نہیں کی_

حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) بغیر شور و غل اور تظاہر کے جناب ابوبکر_ سے اپنی مخالفت ظاہر کرتے تھے اور انہوں نے ملّت اسلامی کو ایک حد تک بیدار بھی کیا اور اسی رویے سے مسلمانوں کا ایک گروہ باطنی طور سے ان کا ہم عقیدہ ہوگیا_ لیکن صرف یہی نتیجہ معتدل اقدام سے برآمد ہوا اور اس سے زیادہ کوئی اور نتیجہ نہ نکل سکا_

دوسرا مرحلہ:

حضرت علی (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ جناب ابوبکر کی بیعت نہیں کریں گے تا کہ اس رویہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی حکومت سے اپنی مخالفت ظاہر کرسکیں اور عملی طور سے تمام جہاں کو سمجھا دیں کہ علی (ع) ابن ابیطالب اور ان کا خاندان جو پیغمبر اسلام کے نزدیکی ہیں جناب ابوبکر کی خلافت سے ناراض ہیں تو معلوم ہوجائے گا کہ اس خلافت کی بنیاد اسلام کے مذاق کے خلاف ہے، حضرت زہراء (ع) نے بھی حضرت علی کے اس نظریئےی تائید کی اور ارادہ کرلیا کہ احتمالی خطرات اور حوادث کے ظاہر ہونے میں اپنے شوہر کی حتمی مدد کریں گی اور عملی لحاظ سے جہان کو سمجھائیں گی کہ میں پیغمبر اسلام(ص) کی دختر جناب ابوبکر کی خلافت کے موافق نہیں ہوں، لہذا حضرت علی (ع) اس غرض کی تکمیل کے لئے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور قرآن مجید کے جمع کرنے میں مشغول ہوگئے اور یہ ایک قسم کا منفی مبارزہ تھا جو آپ نے شروع کیا تھا_

چند دن اسی حالت میں گزر گئے، ایک دن جناب عمر نے جناب ابوبکر سے اظہار کیا کہ تم لوگوں نے سوائے علی (ع) اور ان کے رشتہ داروں کے تمہاری

۱۵۷

بیعت کرلی ہے، لیکن تمہاری حکومت کا استحکام بغیر علی (ع) کی بیعت کے ممکن نہیں ہے، علی (ع) کو حاضر کیا جائے اور انہیں بیعت پر مجبور کیا جائے، حضرات ابوبکر نے جناب عمر کی اس رائے کو پسند کیا اور قنفذ سے کہا کہ علی (ع) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول (ص) کے خلیفہ چاہتے ہیں کہ تم بیعت کے لئے مسجد میں حاضر ہوجاؤ_

قنفذ کئی بار حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور گئے لیکن حضرت علی (ع) نے جناب ابوبکر کے پاس آنے سے انکار کردیا_ جناب عمر خشمناک ہوئے اور خالد بن ولید اور قنفذ اور ایک گروہ کے ساتھ حضرت زہراء (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا یا علی (ع) دروازہ کھولو_ فاطمہ (ع) سر پر پٹی باندھے اور بیماری کی حالت میں دروازے کے پیچھے آئیں اور فرمایا_ اے عمر ہم سے تمہیں کیا کام ہے؟ تم ہمیں اپنی حالت پر کیوں نہیں رہنے دیتے؟ جناب عمر نے زور سے آواز دی کہ دروازہ کھولو ورنہ گھر میں آگ لگا دوں گا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے عمر خدا سے نہیں ڈرتے، میرے گھر میں داخل ہونا چاہتے ہو؟ آپ کی گفتگو سے عمر اپنے ارادے سے منحرف نہ ہوئے، جب جناب عمر نے دیکھا کہ دروازہ نہیں کھولتے تو حکم دیا کہ لکڑیاں لے آؤتا کہ میں گھر کو آگ لگادوں(۲) _

دروازہ کھل گیا جناب عمر نے گھر کے اندر داخل ہونا چاہا، حضرت زہراء (ع)

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، الحدید، ج ۲ ص ۵۶ اور، ج ۶ ص ۴۸_

۲) اثبات الوصیتہ، ص ۱۱۰_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۷_ الامامہ السیاسہ، ج ۱ ص ۱۲_

۱۵۸

نے جب دروازہ کھلا دیکھا اور خطرے کو نزدیک پایا تو مردانہ وار جناب عمر کے سامنے آکر مانع ہوئیں(۱) _

____________________

۱) سنی شیعہ تاریخ اور مدارک اس پر متفق ہیں کہ جناب ابوبکر کے سپاہیوں نے حضرت زہراء (ع) کے گھر پر حملہ کردیا اور جناب عمر نے لکڑیاں طلب کی اور گھرواروں کو گھر جلادینے کی دھمکی دی بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ جناب عمر سے کہا گیا کہ اس گھر میں فاطمہ (ع) موجود ہیں آپ نے جواب دیا کہ اگر بیعت کے لئے حاضر نہ ہوں گے تو میں اس گھر کو آگ لگادوں گا گرچہ اس میں فاطمہ (ع) ہی موجود ہوں_ جیسے کہ یہ مطلب ابوالفداء ابن ابی الحدید ابن قیتبہ نے امامہ و السیاسہ میں، انساب الاشرف یعقوبی اور دوسروں نے گھر پر حملہ کرنے اور جلانے کی دھمکی کو تحریر کیا ہے، خود حضرت ابوبکر نے اپنی موت کے وقت حضرت زہراء (ع) گے گھر پر حملے پر ندامت کا اظہار کیا ہے_

چنانچہ ابن ابی الحدید جلد ۲ ص ۴۶ پر اور ج ۱۲ ص ۱۹۴ پر لکھتے ہیں کہ جس وقت جناب زینب پیغمبر کی(۱) لڑکی مکہ سے مدینہ آرہی تھیں تو راستے میں دشمنوں نے اس پر حملہ کردیا اور حصار بن الود نے آک کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کردیا اور حصار بن الود نے آپ کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کی اس وجہ سے جناب زینب کا بچہ سقط ہوگیا، رسول اللہ(ص) اس مطلب سے اس قدر ناراحت ہوئے کہ آپ نے فتح مکہ کے دن ہبار کے خون کو مباح قرار دے دیا_ اس کے بعد ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ نقیب ابی جعفر کے سامنے پڑھا تو اس نے کہ کہ جب رسول خدا(ص) نے ہبار کے خون مباح کردیا تھا تو معلوم

۱) ضعیف روایات کی بناء پر مولّف نے حاشیہ لگایا ہے ورنہ رسول (ص) کی بیٹی فقط جناب فاطمہ (ع) ہیں کے علاوہ کوئی بیٹی تاریخ سے اگر ثابت ہے تو ضعیف روایات کی رو ہے_

۱۵۹

اور یہ آواز بلند گریہ و بکا اور شیون کرنا شروع کردیا تا کہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور حضرت علی (ع) کا دفاع کریں_ زہراء (ع) کے استغاثے اور گریہ و بکا نے صرف ان لوگوں پر اثر نہیں کیا بلکہ انہوں نے تلوار کا دستہ _ آپ کے پہلو پر مارا اور تازیانے سے آپ کے بازو کو بھی سیاہ کردیا تا کہ آپ اپنا ہاتھ علی (ع) کے ہاتھ سے م ہٹالیں(۱) _

آخر الامر حضرت علی (ع) کو گرفتار کرلیا گیا اور آپ کو مسجد کی طرف لے گئے جناب زہراء (ع) علی (ع) کی جان کو خطرے میںدیکھ رہی تھیں، مردانہ اور اٹھیں اور حضرت علی (ع) کے دامن کو مضبوطی سے پکڑلیا اور کہا کہ میں اپنے شوہر کو نہ جانے دوں گی _ قنفذ نے دیکھا کہ زہرا (ع) اپنے ہاتھ سے علی (ع) کو نہیں چھوڑتیں تو اس نے اتنے تازیانے آپ کے ہاتھ پر مارے کہ آپ کا بازو ورم کرگیا(۲) _

حضرت زہرا (ع) سلام اللہ علیہا اس جمیعت میں دیوار اور دروازے کے درمیان ہوگئیں اور آپ پر دروازے کے ذریعہ اتنا زور پڑا کہ آپ کے پہلو کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ بچہ جو آپ کے شکم مبارک

ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) زندہ ہوتے تو اس شخص کے خون کو جس نے فاطمہ (ع) کو تحدید کی تھی کہ جس سے فاطمہ (ع) کا بچہ ساقط ہوگیا تھا مباح کردیتے_ اہلسنت کی کتابیں تہدید کے بعد کے واقعات کے بیان کرنے میں ساکت ہیں، لیکن شیعوں کی تواریخ اور احادیث نے بیان کیا ہے کہ بالاخر آپ کے گھر کے دروازے کو آگ لگادی گئی اور پیغمبر(ص) کی دختر کو اتنا زد و کوب کیا گیا کہ بچہ ساکت ہوگیا

''مولف''

____________________

۱) بحار الانوار ج ۴۳ ص ۱۹۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۰

میں تھا ساقط ہوگیا(۱) _

حضرت علی (ع) کو پکڑا اور مسجد کی طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھلیں تو دیکھا کہ علی (ع) کو مسجد لے گئے ہیں فوراً اپنی جگہ سے ا ٹھیں چونکہ حضرت علی (ع) کی جان کو خطرے میں دیکھ رہی تھیں اور ان کا دفاع کرنا چاہتی تھیں لہذا نحیف جسم پہلو شکستہ کے باوجود گھر سے باہر نکلیں اور بنی ہاشم کی مستورات کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوگئیں دیکھا کہ علی (ع) کو پکڑے ہوئے ہیں آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا میرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا کی قسم اپنے سر کے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر اسلام(ص) کا پیراہن سر پر رکھ کر اللہ تعالی کی درگاہ میں نالہ کروں گی اور تم پر نفرین اور بدعا کروں گی_ اس کے بعد جناب ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا کیا تم نے میرے شوہر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور میرے بچوں کو یتیم کرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہیں نہ چھوڑا تو اپنے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر(ص) کی قبر پر اللہ کی درگاہ میں استغاثہ کروں گی یہ کہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور رسول خدا(ص) کی قبر کی طرف روانہ ہوگئیں آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس جمعیت پر نفرین کریں اور اپنے دل ہلادینے والے گریہ سے حکومت کو الٹ کر رکھ دیں_

حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ وضع بہت خطرناک ہے اور کسی صورت میں ممکن نہیں کہ حضرت زہرا (ع) کو اپنے ارادے سے روکا جائے تو آپ نے سلمان فارسی سے فرمایا کہ پیغمبر(ص) کی دختر کے پاس جاؤ اور انہیں بددعا کرنے سے منع کردو_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۱

جناب سلمان جناب زہرا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آپ کے والد دنیا کے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرین نہ کیجئے_

جناب زہرا (ع) نے فرمایا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو میں ان متجاوزین سے دادخواہی کروں_ سلمان نے عرض کیا کہ مجھے حضرت علی (ع) نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ اپنے گھر لوٹ جائیں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت علی (ع) کا حکم دریافت کیا تو آپ نے کہا جب انہوں نے حکم دیا ہے تو میں اپنے گھر لوٹ جاتی ہوں اور صبر کا آغاز کروں گی_ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ اور گھر لوٹ آئیں(۱) _

مختصر مبارزہ

حضرت زہرا (ع) کے زمانہ جہاد اور مبارزہ کی مدت گرچہ تھوڑی اور آپ کی حیات کا زمانہ بہت ہی مختصر تھا، لیکن آپ کی حیات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھی_

پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے دیکھا کہ حکومت کے حامیوں نے حضرت علی (ع) کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے تو آپ عام عورتوں کی روش سے ہٹ کر جو معمولاً ایسے مواقع میں کنارہ گیری کرلیتی ہیں گھر کے دروازے کے پیچھے آگئیں اور استقامت کا مظاہرہ کیا_

دوسرے: جب دروازہ کھول لیا گیا تب بھی جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹیں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۷ و روضہ کافی، ص ۱۹۹_

۱۶۲

بلکہ اپنے آپ کو میدان کارزار میں بر قرار رکھا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئیں اتنی مضبوطی سے کھڑی رہیں کہ تلوار کے نیام سے آپ کے پہلو کو مارا گیا اور تازیانے سے آپ کے بازو سیاہ کردیئےئے_

تیسرے: جب علی (ع) گرفتار کرلئے گئے اور چاہتے تھے کہ آپ کو وہاں سے لے جائیں تب بھی آپ میدان میں آگئیں اور علی (ع) کے دامن کو پکڑلیا اور وہاں سے لے جانے میں مانع ہوئیں اور جب تک آپ کا بازو تازیانے سے سیاہ نہ کردیا گیا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_

چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخری مورچہ گھر کو بنایا اور گھر میں آکر علی (ع) کو باہر لے جانے سے ممانعت کی، اس مورچہ میں اتنی پائیداری سے کام لیا کہ دروازے اور دیوار کے درمیان آپ کا پہلو ٹوٹ گیا اور بچہ ساقط ہوگیا_

اس مرحلہ کے بعد آپ نے سوچا کہ چونکہ میرا یہ مبارزہ گھر کے اندر واقع ہوا ہے شاید اس کی خبر باہر نہ ہوئی ہو لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ مجمع عام گریہ و بکا اور آہ و زاری شروع کردی اور جب تمام طریقوں سے نا امید ہوگئیں تو مصمم ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا کریں، لیکن حضرت علی (ع) کے پیغام پہنچنے پر ہی آپ کے حکم کی اطاعت کی اور واپس گھر لوٹ آئیں_

جی ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ آخری لحظہ اور قدرت تک علی (ع) سے دفاع کرتی رہوں گی اور یہ سوچا تھا کہ جب میدان مبارزہ میں وارد ہوگئی ہوں تو مجھے اس سے کامیاب اور فتحیاب ہوکر نکلنا ہوگا اور حضرت علی (ع) کو بیعت کے لئے لے جانے میں ممانعت کرنی ہوگی، اس طرح عمل کر کے

۱۶۳

اپنے شوہر کے نظریئے اور عمل اور رفتار کی تائید کروں گی اور جناب ابوبکر کی خلافت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کروں گی اور اگر مجھے مارا پیٹا گیا تب بھی شکستہ پہلو اور سیاہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے کے باوجود جناب ابوبکر کی خلافت کو بدنام اور رسوا کردوں ی اور اپنے عمل سے جہان کو سمجھاؤں گی کہ حق کی حکومت سے روگردانی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اپنی حکومت کو دوام دینے کے لئے پیغمبر (ص) کی دختر کا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) کے فرزند کو ماں کے پیٹ میں شہید کرنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں اور ابھی سے تمام عالم کے مسلمانوں کی بتلا دینا چاہتی ہوں کہ بیداری اور ہوش میں آجاؤ کہ انتخابی حکومت کا ایک زندہ اور واضح فاسد نمونہ یہ ہو رہا ہے_

البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولایت کے مکتب کی تربیت شدہ تھیں، فداکاری اور شجاعت کا درس ان دو گھروں میں پڑھا تھا اپنے پہلو کے شکستہ ہونے اور مار پیٹ کھانے سے نہ ڈریں اور اپنے ہدف کے دفاع کے معاملے میں کسی بھی طاقت کے استعمال کی پرواہ نہ کی_

تیسرا مرحلہ فدک(۱)

جب سے جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تخت خلافت پر بیٹھے اسی وقت سے ارادہ کرلیا تھا کہ فدک کو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدک ایک علاقہ

____________________

۱) فدک کا موضوع اور اس میں حضرت فاطمہ (ع) کا ادعا مفصل اور عمیق اس کتاب کے آخر میں بیان کیا گیا ہے_

۱۶۴

ہے جو مدینے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس میں کئی ایک باغ اور بستان ہیں اور علاقہ قدیم زمانے میں بہت زیادہ آباد تھا اور یہودیوں کے ہاتھ میں تھا، جب اس علاقے کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفت کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک آدمی کو رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کیا اور آپ سے صلح کی پیش کش کی پیغمبر اسلام(ص) نے ان کی صلح کو قبول کرلیا اور بغیر لڑائی کے صلح کا عہدنامہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اس قرار داد کی روسے فدک آدھی زمین جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے دی گئی اور یہ خالص رسول(ص) کا مال ہوگیا(۱) _

کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے جو زمین بغیر جنگ کے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) کی ہوا کرتی ہے اور باقی مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوا کرتا_

فدک کی زمینیں پیغمبر(ص) کی ملکیت اور اختیار میں آگئی تھیں آپ اس کے منافع کو بنی ہاشم اور مدینہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی_''وات ذا القربی حقه'' (۲) _ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے اللہ تعالی کے دستور اور حکم کے مطابق فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا اس باب میں پیغمبر(ص) سے کافی روایات وارد ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند _ یہ ہیں_

ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت''وات ذاالقربی حقه'' نازل

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۰_

۲) سورہ اسراء آیت ص ۲۶_

۱۶۵

ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ کہتے ہیں کہ جب آیت''و آت ذاالقربی حقه'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا(۲) _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا(۳) _

فدک کا علاقہ معمولی اور کم قیمت نہ تھا بلکہ آباد علاقہ تھا اور اس کی کافی آمدنی تھی ہر سال تقریباً چوبیس ہزار یا ستر ہزار دینار اس سے آمدنی ہوا کرتی تھی(۴) _

اس کے ثبوت کے لئے دو چیزوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے یعنی فدک کا علاقہ وسیع اور بیش قیمت تھا اسے دو چیزوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

پہلی: جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) کے جواب ہیں، جب آپ نے فدک کا مطالبہ کیا تھا تو فرمایا تھا کہ فدک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کے اموال میں سے ایک مال تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اس کے ذریعے جنگی آدمیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے اور اس آمدنی کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے(۵) _

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور تفسیر در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور کتاب در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷ ور غایة المرام ص ۳۲۳ میں اس موضوع کی احادیث کا مطالعہ کیجئے_

۴) سفینة البحار، ج ۲ ص ۲۵۱_

۵) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۶

دوسرے: جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اس نے فدک مروان ابن حکم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان مستقیم کردیا(۱) _

ان دونوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ فدک ایک پر قیمت اور زرخیز علاقہ تھا کہ جس کے متعلق جناب ابوبکر نے فرمایا کہ رسول خدا اس کی آمدنی سے لوگوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے، اور خدا کی راہ میںخرچ کیا کرتے تھے_

اگر فدک معمولی ملکیت ہوتا تو معاویہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدمیوں کے درمیان تقسیم نہ کرتا_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک کبوں فاطمہ (ع) کو بخشا

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے مطالعے سے یہ امر بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آپ ثروت اور مال کے شیدائی نہ تھے اور مال کو ذخیرہ کرنا اور جمع رکھنے کی کوشش نہیں کیا کرتھے اپنے مال کو اپنے ہدف یعنی خداپرستی کے لئے خرچ کردیا کرتے تھے، مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جناب خدیجہ کی بے حد اور بے حساب دولت کو اسی ہدف اور راستے میں خرچ کر رہے تھے اور خود اور آپ کے داماد اور لڑکی کمال سختی اور مضیقہ میں زندگی بسر کرتے تھے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۷

کبھی بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے شکم مبارک پر پتھر باندھا کرتے تھے_ پیغمبر(ص) ان آدمیوں میں نہ تھے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اولاد کے لئے مال، دولت حاصل کرتے مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کی لڑکی اپنے گھر کے لئے ایک پشمی پردہ لٹکائے رکھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو چاندی کا دستبند پہنائیں_ اور خود گردن میں ہار پہنے رکھے_

سوچنے کی بات ہے اپنی زندگی اور بیٹی کی داخلی زندگی میں اتنا سخت گیر ہونے کے باوجود کس علت کی بناء پر اتنے بڑے علاقے اور باقیمت مال کو فاطمہ (ع) کے لئے بخش دیا تھا؟ آپ کا یہ غیر معمولی کام بے جہت اور بے علت نہ تھا اس واقعہ کی یوں علت بیان کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین کریں اور یہ بھی جانتے تھے کہ لوگ اتنی آسانی سے آپ کی رہبری اور حکومت کو قبول نہیں کریں گے اور آپ کی خلافت کے لئے رکاوٹیں ڈالیں گے اور یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے بہت زیادہ گھرانے اور خاندان حضرت علی (ع) کی طرف سے بغض و کدورت رکھتے ہیں کیوں کہ علی (ع) شمشیر زن مرد تھے اور بہت تھوڑے گھر ایسے تھے کہ جن میں کا ایک یا ایک سے زائد آدمی زمانہ کفر میں علی (ع) کے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو___ پیغمبر(ص) کو علم تھا کہ خلافت اور مملکت کے چلانے کے لئے مال اور دولت کی ضرورت ہوتی ہے ان حالات اور شرائط میں قوری کا جمع ہوجانا مشکل کام ہوگا_ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ اگر علی (ع) فقراء اور بیچاروں کی مدد اور اعانت کرسکے اور ان کی معاشی احتیاجات برطرف کرسکے تو دلوں کا بغض اور کدورت ایک حد تک کم ہوجائے گا اور آپ کی طرف دل مائل ہوجائیں گے_

۱۶۸

یہی وجہ تھی کہ آنحضرت نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا_ در حقیقت یہ مستقبل کے حقیقی خلیفہ کے اختیار میں دے دیا تھا تا کہ اس کی زیادہ آمدنی فقراء اور مساکین کے درمیان تقسیم کریں شاید کینے اور پرانی کدروتیں لوگ بھول جائیں اور حضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوجائیں، خلافت کے آغاز میں اس کی بحرانی حالت میں اس مال سے استفادہ کریں اور خدا اور رسول (ص) کے ہدف کی ترقی اور پیشرفت میں اس سے بہرہ برداری کریں_ در حقیقت پیغمبر اسلام(ص) نے اس ذریعے سے خلافت کی اقتصادی مدد کی تھی_

فدک جناب رسول خدا(ص) کی زندگی میں جناب زہرا(ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا آپ قوت لایموت یعنی معمولی مقدار اپنے لئے لیتیں اور باقی کو خدا کی راہ میں خرچ کردیتیں اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیتیں_

جب جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکوت پر قبضہ کیا اور تخت خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک آنجناب سے واپس لے لیں، چنانچہ انہوں نے حکم د یا کہ جناب فاطمہ (ع) کے کارکنوں اور عمال اور مزارعین کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ حکومت کے کارکن نصب کردیئے جائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا(۱) _

فدک لینے کے اسباب

فدک لینے کے لئے دو اصلی عوامل قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ جن کے بعد جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ

____________________

۱) تفسیر نورالثقلین، ج ۴ ص ۲۷۲_

۱۶۹

کرلیا تھا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لیا جائے_

پہلا عامل: تاریخ کے مطالعے سے یہ مطلب روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جناب عائشےہ دو چیزوں سے ہمیشہ رنجیدہ خاطر رہتی تھی_ پہلی: چونکہ پیغمبر اسلام(ص) جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور ان کا کبھی کبھار نیکی سے ذکر کیا کرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی تھی اور بسا اوقات اعتراض بھی کردیتی تھیں اور کہتی تھیں خدیجہ ایک بوڑھی عورت سے زیادہ کچھ نہ تھیں آپ ان کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں_ پیغمبر(ص) جواب دیا کرتے تھے، خدیجہ جیسا کون ہوسکتا ہے؟ پہلی عورت تھیں جو مجھ پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال میرے اختیار میں دے دیا، میرے تمام کاموں میں میری یار و مددگار تھیں خداوند عالم نے میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا ہے(۱) _

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہ جتنا کسی عورت سے بھی رشک نہیں کیا حالانکہ آپ میری شادی سے تین سال پہلے فوت ہوچکی تھیں کیونکہ رسول خدا(ص) ان کی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) کو حکم دے رکھا تھا کہ خدیجہ کو بشارت دے دیں کہ بہشت میں ان کے لئے ایک قصر تیار کیا جاچکا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) کوئی گوسفند ذبح کرتے تو اس کا گوشت جناب خدیجہ کے سہیلیوں کے گھر بھی بھیج دیتے تھے(۲) _

____________________

۱) تذکرة الخواص، ص ۳۰۳ و مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۲۴_

۲) صحیح مسلم ج ۲ ص ۱۸۸۸_

۱۷۰

جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) گھر میں آئے تو دیکھا کہ جناب عائشےہ حضرت زہراء کے سامنے کھڑی قیل و قال کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں اے خدیجہ کی بیٹی تو گمان کرتی ہے کہ تیری ماں مجھ سے افضل تھی، اسے مجھ پر کیا فضیلت تھی؟ وہ بھی میری طرح کی ایک عورت تھی جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ کی گفتگو سن لی اور جب جناب فاطمہ (ع) کی نگاہ باپ پر پڑی تو آپ نے رونا شروع کردیا_ پیغمبر نے فرمایا فاطمہ (ع) کیوں روتی ہو؟ عرض کیا کہ جناب عائشےہ نے میری ماں کی توہین کی ہے رسول خد ا(ص) خشمناک ہوئے اور فرمایا: عائشےہ ساکت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت کرنے والی بچہ دار عورتوں کو مبارک قرار دیا ہے_ جناب خدیجہ سے میری نسل چلی، لیکن خداوند عالم نے تمہیں بانجھ قرار دیا(۱) _

دوسرا عامل: پیغمبر اکرم(ص) حد سے زیادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے آپ کے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر رکھی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ عذاب میں مبتلا رہتی تھیں کیونکہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اسے اپنی سوکن کی اولاد پسند نہیں آتی اور عائشےہ کبھی اتنی سخت ناراحت ہوتیں کہ پیغمبر(ص) پر بھی اعتراض فرما دیتیں اور کہتیں کہ اب جب کہ فاطمہ (ع) کی شادی ہوچکی ہے آپ پھر بھی اس کا بوسہ لیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اس کے جواب میں فرماتے ہیں تم فاطمہ (ع) کے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ایسی بات نہ کرتیں(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۱۶ ص ۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۵_

۱۷۱

آپ جناب فاطمہ (ع) کی جتنی زیادہ تعری کرتے اتناہی جناب عائشےہ کی اندرونی کیفیت دگرگوں ہوتی اور اعتراض کرنا شروع کردیتیں_

ایک دن جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے کہ آپ نے جناب عائشےہ کی آواز اور چیخنے کو سنا کہ رسول خدا(ص) سے کہہ رہی ہیں کہ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ آپ علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو میرے اور میرے باپ سے زیادہ دوست رکھتے ہیں، جناب ابوبکر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے کہا کیوں پیغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات کر رہی ہو(۱) _

ان دو باتوں کے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھی تھیں اور پیغمبر(ص) کی نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود میں آئی یہ مطلب بھی جناب عائشےہ کو رنج پہنچاتا تھا، بنابرایں جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب فاطمہ (ع) کی شکایت کرتیں ہوسکتا ہے کہ جناب ابوبکر بھی دل سے جناب فاطمہ (ع) کے حق میں بہت زیادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں کہ کبھی اپنی اس کیفیت کو بجھانے کے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام لیں_

جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پاچکے تو جناب فاطمہ (ع) رویا کرتیں اور فرماتیں کتنے برے دن آگئے ہیں جناب ابوبکر فرماتے کہ ابھی برے دن اور آگے ہیں(۲) _

____________________

۱) مجمع الزواید، ج ۹ ص ۲۰۱_

۲) ارشاد شیخ مفید، ص ۹۰_

۱۷۲

دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبکر سوچتے تھے کہ حضرت علی (ع) کے ذاتی کمالات اور فضائل اور علم و دانش کا مقام قابل انکار نہیں اور پھر پیغمبر(ص) کی سفارشات بھی ان کی نسبت بہت معروف اور مشہور ہیں پیغمبر (ص) کے داماد اور چچازاد بھائی ہیں اگر ان کی مالی اور اقتصادی حالت اچھی ہوئی اور ان کے ہاتھوں میں دوپیہ بھی ہوا تو ممکن ہے کہ ایک گروہ ان کا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت کے لئے خطرے کا موجب بن جائے یہ ایک نکتہ تھا کہ جس کا ذکر جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کیا اور جناب ابوبکر سے کہا کہ لوگ دنیا کے بندے ہوا کرتے ہیں اور دنیا کے سوا ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا تم خمس اور غنائم کو علی (ع) سے لے لو اور فدک بھی ان کے ہاتھ سے نکال لو جب ان کے چاہنے والے انہیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انہیں چھوڑ دیں گے اور تیری طرف مائل ہوجائیں گے(۱) _

جی ہاں یہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے کہ جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک کو مصادرہ کر کے واپس لے لیں اور حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے عمال اور کارکنوں کا باہر کیا جائے اور اسے اپنے عمال کے تصرف میں دے دیا_

جناب زہراء (ع) کا رد عمل

جب جناب فاطمہ (ع) کو اطلاع ملی کہ آپ کے کارکنوں کو فدک سے نکال دیاگیا ہے تو آپ بہت غمگین ہوئیں اور

____________________

۱) ناسخ التواریخ جلد زہرائ، ص ۱۲۳_

۱۷۳

اپنے آپ کو ایک نئی مشکل اور مصیبت میں دیکھا کیونکہ حکومت کا نقشہ حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفی نہ تھا اور ان کے اصلی اقدام کی غرض و غایت سے بھی بے خبر نہ تھے_

اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا تھے_

پہلا راستہ یہ تھا کہ جناب ابوبکر کے سامنے ساکت ہوجائیں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشی کرلیں اور کہیں کہ ہمیں تو دنیا کے مال و متاع سے کوئی محبت اور علاقہ نہیں چھوڑو فدک بھی جناب ابوبکر لے جائیں اس کے ساتھ یہ بھی اس کے لئے ہوسکتا ہے کہ وہ جناب خلیفہ کو خوش کرنے کی غرض سے پیغام دالواتیں کہ تم میرے ولی امر ہو میں ناچیز فدک کو آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں_

دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنی پوری قدرت سے رکھتی ہیں اپنے حق کا دفاع کریں_

پہلا راستہ اختیار کرنا حضرت زہراء (ع) کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ حکومت کے پوشیدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھیں جانتی تھیں کہ وہ اقتصادی دباؤ اور آمدنی کے ذریعے قطع کردینے سے اسلام کے حقیقی خلیفہ حضرت علی (ع) کے اثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے حضرت علی (ع) کا ہاتھ حکومت سے کوتاہ ہوجائے اور وہ کسی قسم کا خلافت کے خلاف اقدام کرنے سے مایوس ہوجائیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ فدک کو زور سے لے لینے سے علی (ع) کے گھر کا دروازہ بند کرنا چاہتے تھے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اب بہت اچھی فرصت اور مدرک ہاتھ آگیا ہے اس وسیلہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی خلافت سے مبارزہ کر کے

۱۷۴

اسے بدنام اور رسوا کیا جائے اور عمومی افکار کو بیدار کیا جائے اور اس قسم کی فرصت ہمیشہ ہاتھ نہیں آیا کرتی_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اگر میں جناب ابوبکر کے دباؤ میں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ کروں تو جناب ابوبکر کی حکومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے کی عادی ہوجائے گی اور پھر لوگوں کے حقوق کی مراعات نہ ہوسکے گی_

جناب فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ اگر میں نے اپنے حق کا دفاع نہ کیا تو لوگ خیال کریں گے اپنے حق سے صرف نظر کرنا اور ظلم و ستم کے زیر بار ہونا اچھا کام ہے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر میں نے ابوبکر کو بدنام نہ کیا تو دوسرے خلفاء کے درمیان عوام فریبی رواج پاجائے گی_

حضرت فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ پیغمبر(ص) کی دختر ہوکر اپنے صحیح حق سے صرف نظر کرلوں تو مسلمانوں خیال کریں گے کہ عورت تمام اجتماعی حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے حق کے احقاق کے لئے مبارزہ کرے_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ میں جو وحی کے دامن اور ولایت کے گھر کی تربیت یافتہ ہوں اور میں اسلام کی خواتین کے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ایک اسلام کی تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے میرے اعمال اور رفتار کو ایک اسلام کی نمونہ عورت کی رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر میں اس مقام میں سستی کروں اور اپنے حق کے لینے میں عاجزی کا اظہار کروں تو پھر اسلام میں عورت عضو معطل سمجھی جائے گی_

۱۷۵

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دیگر عمدہ افکار تھے جو جناب فاطمہ (ع) کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پہلا راستہ اختیار کرتیں یہی وجہ تھی کہ آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ توانائی اور قدرت کی حد تک اپنے حق سے دفاع کریں گی_

البتہ یہ کام بہت زیادہ سہل اور آسان نہ تھا کیوں کہ ایک عورت کا مقابلہ جناب خلیفہ ابوبکر سے بہت زیادہ خطرناک تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) نای عورت کا کہ جو پہلے سے پہلو شکستہ بازو سیاہ شدہ اور جنین ساقط شدہ تھیں، ان میں سے ہر ایک حادثہ اور واقعہ عورت کے لئے کافی تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_

لیکن فاطمہ (ع) نے فداکاری اور شجاعت اور بردباری اور استقامت کی عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خدیجہ کبری سے وراثت میں پائی تھی اور انہوں نے مبارزت اسلامی کے مرکز میں تربیت پائی تھی انہوں نے ان فداکاروں اور قربانی دینے والوں کے گھر میں زندگی گزاری تھی کہ جہاں کئی دفعہ وہ شوہر کے خون آلود کپڑے دھوچکی تھیں اور ان کے زخمی بدن کی مرہم پٹی کرچکی تھیں وہ ان جزئی حوادث سے خوف نہیں کھاتی تھیں اور جناب ابوبکر کی حکومت سے مرعوب نہیں ہوتی تھیں_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے کو کئی ایک مراحل میں انجام دیا_

بحث اور استدلال

جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم نے کیوں میرے کارکنوں کو میری ملکیت سے باہر

۱۷۶

نکال دیا ہے؟ میرے باپ نے اپنی زندگی میں فدک مجھے ہبہ کردیا تھا جناب ابوبکر نے جواب دیا اگر چہ میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتیں لیکن پھر بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ایمن اور حضرت علی (ع) کو گواہ کے طور پر لے گئیں، جناب ام ایمن نے جناب ابوبکر سے کہ تجھ خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے میرے بارے میںفرمایا ہے کہ ام ایمن بہشتی ہیں، جناب ابوبکر نے جواب دیا، یہ میں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ایمن نے فرمایا میں گواہی دیتی ہوں کہ جب یہ آیت ''و آت ذی القربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا_

حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس قسم کی گواہی دی جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو لوٹا دیں لہذا ایک تحریر ایک کے متعلق لکھی اور وہ حضرت زہراء (ع) کو دے دی_

اچانک اسی وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دریافت کیا جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ چونکہ جناب فاطمہ (ع) فدک کا دعوی کر رہی تھیں اور اس پر گواہ بھی پیش کردیئےیں لہذا میں نے فدک انہیں واپس کردیا ہے جناب عمر نے وہ تحریر زہراء کے ہاتھ سے لی اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبکر نے بھی جناب عمر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ علی (ع) کے علاوہ کوئی اور آدمی گواہ لے آئیں یا ایم ایمن کے علاوہ کوئی دوسری عورت بھی گواہی دے جناب فاطمہ (ع) روتی ہوئی جناب ابوبکر کے گھر سے باہر چلے گئیں_

ایک اور روایت کی بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہی دی

۱۷۷

کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے(۱) _

ایک دن حضرت علی (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ کیوں فدک کو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو دیاتھا ان سے لے لیا ہے؟ آپ نے جواب دیاانہیں اپنے دعوی پر گواہ لے آنے چاہئیں اور چونکہ ان کے گواہ ناقص تھے جو قبول نہیں کئے گئے_ حضرت علی (ع) نے فرمایا اے ابوبکر، کیا تم ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم کرتے ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے ہوا کرتا ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ نہیں_ حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر کچھ مال کسی کے ہاتھ میں ہو اور میں دعوی کروں کہ وہ میرا مال ہے اور فیصلہ کرانے کے لئے جناب کے پاس آئیں تو آپ کس سے گواہ کا مطالبہ کریں گے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ سے گواہ طلب کروں گا کیوں کہ مال کسی دوسرے کے تصرف میں موجود ہے، آپ نے فرمایا پھر تم نے کیوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا ہے در انحالیکہ فدک آپ(ص) کی ملکیت اور تصرف میں موجود ہے، جناب ابوبکر نے سوکت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا لیکن جناب عمر نے کہایا علی ایسی باتین چھوڑو(۲) _

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس فیصلے مین حق حضرت زہراء کے

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱، اور کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_ اور شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۷۴_

۲) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱_ کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_

۱۷۸

ساتھ ہے کیونکہ فدک آپ کے قبضے میں تھا اسی لئے تو حضرت علی (ع) نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے_ جی ہاں دنیا کے اموال سے فدک ہمارے اختیار میں تھا لیکن ایک جماعت نے اس پر بھی بخل کیا اور ایک دوسرا گروہ اس پر راضی تھا(۱) _

قضاوت کے قواعد اور قانون کے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ دوسری طرف جو ابوبکر تھے انہیں گواہ لانے چاہیئے تھے، لیکن جناب ابوبکر نے فیصلے کے اس مسلم قانون کی مخالفت کی، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے میں کامیاب ہوگوئیں اور اپنی حقانیت کو مضبوط دلیل و برہان اور منطق سے ثابت کردیا اور حضرت ابوبکر مجبور ہوگئے کہ وہ فدک کے واپس کردینے کا دستور بھی لکھ دیں یہ اور بات ہے کہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت کی منطق کو میدان میں لائے اور لکھی ہوئی تحریر کو پھاڑ دیا اور گواہوں کے ناقص ہونے کا اس میں بہانا بنایا_

پھر بھی استدلال

ایک دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور باپ کی وراثت کے متعلق بحث اور احتجاج کیا آپ نے فرمایا اے ابوبکر، میرے باپ کا ارث مجھے کیوں نہیں دیتے ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے_

____________________

۱) نہج البلاغہ، ج ۳ ص ۴۵_

۱۷۹

آپ نے فرمایا مگر خداوند عالم قرآن میں نہیں فرماتا:

''و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

کیا جناب سلیمان جناب داؤد کے وارث نہیں بنے؟ جناب ابوبکر غضبناک ہوئے اور کہا تم سے کہا کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا زکریا نبی نے خدا سے عرض نہیں کیا تھا_

''فهب لی من لدنک وَلیاً یرثنی وَ یرث من آل یعقوب'' (۲)

جناب ابوبکر نے پھر بھی وہی جواب دیا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا:

''یوصیکم الله فی اولادکم للذکر حظ الانثیین'' (۳)

کیا میں رسول اللہ (ص) کی اولاد نہیں ہوں؟ چونکہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے محکم دلائل کا سامنا کر رہے تھے اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ اسی سابقہ کلام کی تکرار کریں اور کہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_

جناب ابوبکر نے اپنی روش اور غیر شرعی عمل کے لئے ایک حدیث نقل کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھی

____________________

۱) سورہ نحل آیت ۱۶_

۲) سورہ مریم آیت ۶_

۳) سورہ نساء آیت ۱۱_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293