فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون26%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 101999 / ڈاؤنلوڈ: 4598
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (1)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (2)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (3)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (4)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(5)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(6) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ مطففین 35 (2)۔ سورئہ مبارکہ ہود 38

(3)۔ سورئہ مبارکہ یس 30 (5)۔ بحار الانوار ج72 ص 155

(5)۔ وسائل الشیعہ ج13، ص 270 (6)۔ اسد الغابہ ج3، ص 76، ج5 ص362

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

معاشرے میںمحفوظ کردے گا کیونکہ اگر عورتیں گھر سے اس طرح نکلیں اور اجنبیوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھیں کہ مرد ان سے ہر قسم کی تمتعات حاصل کرسکیں اور عورتیں ہر جگہ مردوں کے لئے آنکھ مچولی کے اسباب فراہم کریں تو پھر جوان دیر سے شادی کریں گے اور وہ زندگی اور ازدواج کے زیربار نہیں ہوں گے، ہر روز لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد میں جو بے شوہر ہوں گی اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ علاوہ ازین کہ معاشرے کے لئے مضر ہے اور ماں، باپ کے لئے مشکلات اور محذورات کا موجب ہے خود عام عورتوں کے اجتماع کے لئے بھی موجب ضرر ہوگا، اور اگرعورتیں اپنی خوبصورتی کو تمام نگاہوں کے لئے عام قرار دے دیں اور اجنبیوں میں دلربائی کرتی رہیں تو ایک بہت بڑے گروہ کا دل اپنے ساتھ لئے پھریں گی اور چونکہ مرد محرومیت سے دوچار ہوں گے اوران تک دست رسی اور وصال بغیر قید اور شرط کے حاصل نہ کرسگیں گے قہراً ان میںنفسیاتی بیماریاں اور ضعف اعصاب اورخودکشی اور زندگی سے مایوسی عام ہوجائے گی_

اس کا نتیجہ بلاواسطہ خود عورتوں کی طرف لوٹے گا، یہی عام لطف نگاہ ہے کہ بعض مرد مختلف قسم کے حیلے اور فریب کرتے ہیں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑکیوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کی عفت و آبرو کے سرمایہ کو برباد کردیتے ہیں اور انہیں فساد اور بدبختی اورتباہی کی وادی میں ڈھکیل دیتے ہیں_

جب شوہردار عورت دیکھے کہ اس کا شوہر دوسری عورتوں کے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومی مجالس اورمحافل میں ان سے ارتباط رکھتا ہے توغالباً عورت کی غیرت کی حس اسے اکساتی ہے کہ اس میں بدگمانی اور سو ظن پیدا

۱۴۱

ہوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع کردے، بے جہت باصفا اور گرم زندگی کو سرد اور متزلزل بنا کر رکھ دے گی اور نتیجہ،جدائی اور طلاق کی صورت بس ظاہر ہوگا یا اسی ناگوار حالت میں گھر کے سخت قیدخانے میں زندگی گزارتے رہے گی اور قید خانے کی مدت کے خاتمہ کا انتظار کرنے میں زندگی کے دن شمار کرتی رہے گی اورمیاں، بیوی دو سپاہیوں کی طرح ایک دوسرے کی مراقبت میں لگے رہیں گے_

اگر مرد اجنبی عورتوں کو آزاد نہ دیکھ سکتا ہو تو قہراً ان میں ایسی عورتیں دیکھ لے گا جو اس کی بیوی سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گی اور بسا اوقات زبان کے زخم اورسرزنش سے اپنی بیوی کے لئے ناراحتی کے اسباب فراہم کرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے باصفا اور گرم زندگی کوجلانے والی جہنم میں تبدیل کردے گا_

جس مرد کوآزاد فکری سے کسب و کار اور اقتصادی فعالیت میںمشغول ہونا چاہیئے،جب آنے جانے میں یا کام کی جگہ نیم عرباں اور آرائشے کی ہوئی عورتوں سے ملے گا تو قہراً غریزہ جنسی سے مغلوب ہوجائے گا اور اپنے دل کو کسی دل رباء کے سپرد کردے گا، ایسا آدمی کبھی آزاد فکری سب کسب و کار میں یا تحصیل علم میں مشغول نہیں ہوسکتا اور اقتصادی فعالیت میںپیچھے رہ جائے گا اس قسم کے ضرر میں خود عورتیں بھی شریک ہوں گی_ اور یہ ضرر ان پر بھی وارد ہوگا_

اگر عورت پردہ نشین ہو تو وہ اپنی قدر اور قیمت کو بہتر مرد کے دل میں جاگزین کرسکتی ہے اور عورتوں کے عمومی منافع کو معاشرے میںحفظ کرسکتی ہے اور اجتماعی کے نفع کے لئے قدم اٹھاسکتی ہے_

اسلام چونکہ عورت کو اجتماع اور معاشرے کا ایک اہم جز و جانتا

۱۴۲

ہے اور اس کی رفتار اور سلوک کومعاشرے میں موثر جانتا ہے، لہذا اس سے یہ بڑا وظیفہ طلب کیا گیا ہے کہ وہ پردے کے ذریعے فساد اور انحراف کے عوامل سے جلوگیری کرے اورملت کی ترقی اورعمومی صحت اور بہداشت کو برقرار رکھنے میں مدد کرے_ اس لئے اسلام کی نمونہ اور مثالی خاتون نے جو وحی کے گھر کی تربیت یافتہ تھی، عورتوں کے معاشرے کے متعلق اس قسم کے عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ عورتوں کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ نہ انہیں اجنبی مرد دیکھ سکیں اور نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھ سکیں_

۱۴۳

حصّہ پنجم

جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد

۱۴۴

پیغمبر اسلام(ص) نے سنہ ہجری کو تمام مسلمانوں کو حج بجالانے کی دعوت دی اور آپ آخری دفعہ مکہ مشرف ہوئے آپ نے مسلمانوں کو حج کے اعمال اور مراسم بتلائے اور واپسی پر جب آپ غدیر خم پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے اور مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور اس کے بعد آپ منبر پر تشریف لے گئے اور علی ابن ابیطالب (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین فرمایا اس کے بعد مسلمانوں نے حضرت علی (ع) کی بیعت کی اور اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے اور رسول خدا(ص) بھی مدینہ واپس لوٹ آئے، آپ سفر کی مراجعت کے بعد مریض ہوگئے آپ کی حالت دگرگوںہوتی گئی، آپ کے احوال سے معلوم ہو رہا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت آگیا ہے_ کبھی کبھار کسی مناسبت سے اپنے اہل بیت کی سفارش فرمایا کرتے تھے، کبھی جنت البقیع کے قبرستان جاتے اورمردوں کے لئے طلب مغفرت کرتے_

جناب فاطمہ (ع) نے حجة الوداع کے بعد خواب دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں قرآن ہے اور اچانک وہ ان کے ہاتھ سے گرا_ اورغائب ہوگیا_ آپ وحشت زدہ جاگ اٹھیں اور اپنے خواب کواپنے والد کے سامنے نقل کیا، جناب رسول خدا(ص)

۱۴۵

نے فرمایا،میری آنکھوں کی نور ہیں وہ قرآن ہوں کہ جس کو تم نے خواب میںدیکھا ہے، انہیں دنوں میں نگاہوں سے غائب ہوجاؤں گا(۱) _

آپ پر آہستہ آہستہ بیماری کے آثار ظاہر ہونے لگے_ آپ نے ایک لشکر جناب اسامہ کی سپہ سالاری میں مرتب کیا اورفرمایا کہ تم روم کی طرف روانہ ہوجاؤ، آپ نے چند آدمیوںکے خصوصیت سے نام لئے اورفرمایا کہ یہ لوگ اس جنگ میں ضرور شریک ہوں آپ کی اس سے غرض یہ تھی کہ مدینہ میں کوئی منافق نہ رہے اور خلافت اعلی کا مسئلہ کسی کی مدافعت اور مخالفت کے بغیر حضرت علی (ع) کے حق میں طے ہوجائے_ رسول خدا(ص) کی بیماری میں شدت آگئی اور گھر میں صاحب فراش ہوگئے_ پیغمبر(ص) کی بیماری نے جناب فاطمہ (ع) کو وحشت اور اضطراب میں ڈال دیا، کبھی آپ باپ کے زرد چہرے اور ان کے اڑے ہوئے رنگ کو دیکھتیں اور رودیتیں اور کبھی باپ کی صحت اور سلامتی کے لئے دعا کرتیں اور کہتیں خدایا میرے والد نے ہزاروں رنج اور مشقت سے اسلام کے درخت کا پودا لگایا ہے اور ابھی ثمر آور ہوا ہی ہے اور فتح و نصرت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں_

مجھے امید ہوگئی تھی کہ میرے والد کے واسطے سے دین اسلام غالب ہوجائے گا اور کفر اور بت پرستی، ظلم اور ستم ختم ہوجائیں گے لیکن صد افسوس کے میرے باپ کی حالت اچھی نہیں_ خدایا تجھ سے ان کی شفا اور صحت چاہتی ہوں_

پیغمبر(ص) کی حالت شدیدتر ہوگئی اور بیماری کی شدت سے بیہوش ہوگئے

____________________

۱) ریاحین الشریعة، ج ۱ ص ۲۳۹_

۱۴۶

جب ہوش میں آئے اور دیکھا جناب ابوبکر اور عمر اور ایک گروہ کہ جن کو اسامہ کے لشکر میں شریک ہوتا تھا شریک نہیں ہوئے اور مدینہ میں رہ گئے ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اسامہ کے لشکر میں شریک ہوجاؤ؟ ہر ایک نے اپنے جواب میں کوئی عذر اور بہانہ تراشا، لیکن پیغمبر(ص) کو ان کے خطرناک عزائم اور ہدف کا علم ہوچکا تھا اور جانتے تھے کہ یہ حضرات خلافت کے حاصل کرنے کی غرض سے مدینہ میں رہ گئے ہیں_

اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کاغذ اور دوات لاؤ تا کہ میں وصیت لکھ دوں حاضرین میں سے بعض نے چاہا کہ آپ کے حکم پر عمل کیا جائے لیکن حضرت عمر نے کہا_ کہ آپ پر بیماری کا غلبہ ہے، ہذیان کہہ رہے ہیں لہذا قلم و قرطاس دینے کی ضرورت نہیں ہے(۱) _

جناب زہراء (ع) یہ واقعات دیکھ رہی تھیں آور آپ کا غم اور اندوہ زیادہ ہو رہا تھا اپنے آپ سے کہتی تھیں کہ ابھی سے لوگوں میں اختلاف اور دوروئی کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں_ میرے باپ کے کام اور حکم اللہ کی وحی سے سرچشمہ لیتے ہیں اور آپ ملت کے مصالح اور منافع کو مد نظر رکھتے ہیں پس کیوں لوگ آپ کے فرمان سے روگرانی کرنے لگے ہیں، گویا مستقبل بہت خطرناک نظر آرہا ہے گویا لوگوں نے مصمّم ارادہ کرلیا ہے کہ میرے والد کی زحمات کو پائمال کردیں_

تعجب اور تبسم

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت سخت ہوگئی آپ نے

____________________

۱) الکامل فی التاریخ، ج ۲ ص ۲۱۷ و صحیح بخاری، ج ۳ ص ۱۲۵۹_

۱۴۷

اپنا سر مبارک حضرت علی (ع) کے زانو پر رکھا اور بے ہوش ہوگئے، حضرت زہراء (ع) اپنے باپ کے نازنین چہرے کو دیکھتیں اور رونے لگتیں اور فرماتیں_ آہ، میرے باپ کی برکت سے رحمت کی بارش ہوا کرتی تھی آپ یتیموں کی خبر لینے والے اور بیواؤں کے لئے پناہ گاہ تھے_ آپ کے رونے کی آواز پیغمبر(ص) کے کانوں تک پہنچی آپ نے آنکھیں کھولیں اور نحیف آواز میں فرمایا بیٹی یہ آیت پڑھو_

''و ما محمد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اور قتل انقلبتم علی اعقابکم''(۱)

موت سے گریز نہیں جیسے سابقہ پیغمبر(ص) مرگئے ہیں میں بھی مروں گا کیوں ملت اسلامی میرے ہدف کا پیچھا نہیں کرتی اور اس کے ختم کرنے اور لوٹ جانے کا قصد رکھتی ہے_

اس گفتگو کے سننے سے حضرت زہراء (ع) کے رونے میں شدت پیدا ہوگئی رسول خدا کی حالت اپنی بیٹی کو روتے اور پریشان دیکھ دگرگوں ہوگئی_ آپ نے انہیں تسلی دینا چاہی مگر کیا آپ کو آسانی سے آرام میں لایا جاسکتا تھا؟ اچانک آپ کی فکر میں ایک چیز آئی، جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا میرے پاس آؤ جب جناب فاطمہ (ع) اپنا چہرہ اپنے باپ کے نزدیک لے گئیں تو آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے کان میں کچھ کہا_ حاضرین نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) کا چہرہ روشن ہوگیا اور آپ مسکرانے لگیں، اس بے جا ہنسی اور تبسم پر حاضرین نے تعجب کیا تبسم کی علت آپ سے دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ جب تک میرے باپ

____________________

۱) سورہ آل عمران، آیت ص ۱۴۴_

۱۴۸

زندہ ہیں میں یہ راز فاش نہیں کروں گی آپ نے آن جناب کے فوت ہونے کے بعد اس راز سے پردہ اٹھایا اور فرمایا کہ میرے باپ نے میرے کان میں یہ فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) تمہاری موت نزدیک ہے تو پہلی فرد ہوگی جو مجھ سے ملحق ہوگی(۱) _

انس نے کہا ہے کہ اس زمانے میں جب پیغمبر(ص) بیمار تھے جناب فاطمہ (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور باپ کے گھر آئیں اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے جسم مبارک پر گرادیا اور پیغمبر(ص) کے سینے سے لگ کر رونے لگیں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا، فاطمہ (ع) روو مت، میری موت پر منھ پر طمانچے نہ مارتا، بالوں کو پریشان نہ کرنا، میرے لئے رونے اور نوحہ سرائی کی مجلس منعقد کرنا اس کے بعد پیغمبر خدا(ص) کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا اے میرے خدا میں اپنے اہلبیت کو تیرے اور مومنین کے سپرد کرتا ہوں(۲) _

راز کی پرستش

امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہے کہ پیغمبر(ص) نے اپنی زندگی کی آخری رات حضرات علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کی دعوت کی اور گھر کا دروازہ بند کردیا اور انہیں کے ساتھ تنہائی میں رہے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور کافی وقت تک آپ کے کان میں کچھ فرماتے رہے چونکہ آپ کی

____________________

۱) الکامل فی التاریخ، ج ۲ ص ۲۱۹ و بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۴۷۰_ ارشاد مفید، ص ۸۸ طبقات ابن سعد، ج ۲ قسمت دوم ص ۳۹، ۴۰_ صحیح مسلم، ج ۴ ص ۱۰۹۵_

۲_ بحار الانوار، ص ۲۲ ص ۴۶۰_

۱۴۹

گفتگو طویل ہوگئی تھی اس لئے حضرت علی (ع) اور حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) وہاں سے چلے آئے تھے اور دروازے پر آکھڑے ہوئے تھے اور لوگ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے_ پیغمبر(ص) کی ازواج حضرت علی (ع) کو دیکھ رہی تھیں_ جناب عائشےہ نے حضرت علی (ع) سے کہا کہ کیوں پیغمبر(ص) نے آپ کو اس وقت وہاں سے باہر نکال دیا ہے اور فاطمہ (ع) کے ساتھ تنہائی میں ہیں آپ نے جواب دیا میں جانتا ہوں کس غرض کے لئے اپنی بیٹی سے خلوت فرمائی ہے اور کون سے راز انہیں بتلا رہے ہیں؟ تمہارے والد اور ان کے ساتھیوں کے کاموں کے متعلق گفتگو فرما رہے ہیں_ جناب عائشےہ ساکت ہوگئیں_

حضرت علی (ع) نے فرمایا بہت زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھے بلایا جب میں اندر گیا تو دیکھا کہ پیغمبر(ص) کی حالت خطرناک ہے تو میں اپنے آنسؤں پر قابو نہ رکھا سکا_ جناب پیغمبر(ص) نے فرمایا یا علی (ع) کیوں روتے ہو فراق اور جدائی کا وقت آپہنچا ہے تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں اور پروردگار کی طرف جا رہا ہوں، میرا غم اور اندوہ تمہارے اور زہراء (ع) کے واسطے ہے اس لئے کہ لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے حقوق کو پائمال کریں اور تم پر ظلم ڈھائیں، تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں خدا میری امانت قبول فرمائے گا_

یا علی (ع) چند ایک اسرار میں نے فاطمہ (ع) کو بتلائے ہیں وہ تمہیں بتلائیں گی میرے دستورات پر عمل کرنا اور یہ جان لو کہ فاطمہ (ع) سچی ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بغل میں لیا آپ کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا، بیٹی فاطمہ (ع) تیرا باپ قربان جائے اس وقت زہراء (ع) کے رونے کی صدا بلند ہوگئی_ پیغمبر (ص) نے فرمایا خدا ظالموں سے تمہارا انتقام لے گا_ وای ہو ظالموں پر_ اس کے بعد آپ نے رونا شروع کردیا_

۱۵۰

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے آنسو بارش کی طرح جاری تھے آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی اور آپ اس حالت میں فاطمہ (ع) سے جدا نہ ہوئے تھے، اور آپ نے سر مبارک میرے سینے پر رکھے ہوئے تھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) آپ کے پاؤں کا بوسہ لے رہے تھے اور چیخ چیخ کر رو رہے تھے، میں ملائکہ کے رونے کی آوازیں سنی رہا تھا_ یقینا اس قسم کے اہم موقع پر جناب جبرئیل نے بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑا ہوگا_ جناب فاطمہ (ع) اس طرح رو رہی تھیں کہ زمین اور آسمان آپ کے لئے گریہ کر رہے تھے پیغمبر(ص) نے اس کے بعد فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) ، خدا تمہارا میری جگہ خلیفہ ہے اور وہ بہترین خلیفہ ہے_ عزیزم مت رو کیونکہ تمہارے رونے سے عرش خدا اور ملائکہ اور زمین اور آسمان گریا کناں ہیں_ خدا کی قسم ، جب تک میں بہشت میں داخل نہ ہوں گا کوئی بھی بہشت میں داخل نہ ہوگا اور تم پہلی شخصیت ہوگی جو میرے بعد بہترین لباس کے ساتھ، بہشت میں داخل ہوگی اللہ تعالی کی تکریم تمہیں مبارک ہو، خدا کی قسم تم بہشتی عورتوں میں سے بزرگ ہو_ خدا کی قسم دوزخ اس طرح فریاد کرے گی کہ جس کی آواز سے ملائکہ اور انبیاء آواز دیں گے، پروردگار کی طرف سے خطاب ہوگا کہ چپ ہوجاؤ، جب تک فاطمہ (ع) جناب محمد(ص) کی دختر بہشت کی طرف جارہی ہے، بخدا یہ اس حالت میں ہوگا کہ حسن (ع) تیرے دائیں جانب چل رہے ہوں گے اور حسین (ع) بائیں جانب اور تم بہشت میں داخل ہوگی، بہشت کے اوپر والے طبقے سے محشر کا نظارہ کروگی، جب کہ محمد(ص) کا پرچم حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں ہوگا_ خدا کی قسم اس وقت اللہ تعالی تمہارے حق کا دشمن سے مطالبہ کرے گا اس وقت جن لوگوں نے تمہارا حق غصب کیا ہوگا اور تمہاری دوستی کو چھوڑ دیا ہوگا_ پشیمان ہوں گے میں جتنا بھی کہتا رہوں گا خدایا میری امت

۱۵۱

کی داد کو پہنچو، میرے جواب میں کہا جائے گا تمہارے بعد انہوں نے دستورات اور قوانین کو تبدیل کیا ہے اس لئے وہ دوزخ کے مستحق ٹھہرے ہیں(۱) _

فاطمہ (ع) باپ کے بعد

اس حالت میں کہ پیغمبر(ص) کا سر مبارک حضرت علی (ع) کے زانو پر تھا اور جناب فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) ، پیغمبر(ص) کے نازنین چہرے کو دیکھ رہے تھے اور رو رہے تھے کہ آپ کی حق بین آنکھ بند ہوگئی اور حق گو زبان خاموش ہوگئی اور آپ کی روح عالم ابدی کی طرف پرواز کرگئی، پیغمبر(ص) کی اچانک اور غیرمنتظرہ موت سے جہان کا غم اور اندوہ حضرت فاطمہ (ع) پر آپڑا وہ فاطمہ (ع) کہ جس نے اپنی عمر غم اور غصّہ اور گرفتاری میں کاٹی تھی صرف ایک چیز سے دل خوش تھیں اور وہ تھا ان کے والد کا وجود مبارک_ اس جانگداز حادثہ کے پیش آنے سے آپ کی امیدوں اور آرزؤں کا محل یکدم زمیں پر آگرا_ اسی حالت میں آپ باپ کی کمرشکن موت میں گریہ و زاری اور نوحہ سرائی کر رہی تھیں، اور حضرت علی (ع) آپ کے دفن کے مقدمات کفن اور دفن میں مشغول تھے اچانک یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اجتماع کیا ہے تا کہ پیغمبر(ص) کے جانشین کو مقرر کریں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ دوسری خبر آملی کہ انہوں نے جناب ابوبکر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین اور خلیفہ منتخب کرلیا ہے_

گریہ و بکا اور غم و غصہ کے اس بحرانی وقت میں اتنی بڑی خبر نے حضرت فاطمہ (ع)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۴۹۰_

۱۵۲

اور حضرت علی (ع) کے مغز کو تکان دی اور ان کے تھکے ماندے اعصاب کو دوبارہ کوٹ کر رکھ دیا_ سبحان اللہ _ کیا میرے باپ نے حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر نہیں کیا؟ کیا دعوت ذوالعشیرہ سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک کئی مرتبہ حضرت علی (ع) کی خدمت کی سفارش نہیں کرتے رہے؟ کیا چند مہینہ پہلے ایک بہت بڑے اجتماع میں غدیر خم کے مقام پر انہیں خلیفہ معین نہیں فرمایا تھا؟ کیا میرے شوہر علی (ع) کے جہاد اور فداکاری کا انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا علی (ع) کی علمی منزلت کا کوئی شخص انکار کرسکتا ہے؟ مگر میرے باپ نے علی (ع) کو بچپن سے اپنی تربیت اور تعلیم میں نہیں رکھا تھا؟ خدایا اسلام کا انجام کیا ہوگا؟ اسلام کو ایسے رہبر کی ضرورت ہے جو مقام عصمت پر فائز ہو اور لغزش اور انحراف سے دوچار نہ ہو_ آہ_ مسلمان کس خطرناک راستے پر چل پڑے ہیں؟

اے میرے خدا میرے باپ نے اسلام کے لئے کتنی زحمت برداشت کی ہے، میرے شوہر نے کتنی فداکاری اور قربانی دی ہے؟ میدان جنگ میں سخت ترین اور خطرناک ترین حالت میں اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا؟ میں ان کی زخمی بدن اور خون آلودہ لباس سے باخبر ہوں_ خدایا ہم نے کتنی مصیبتیں اور زحمات دیکھی ہیں_ فاقہ کاٹے ہیں وطن سے بے وطن ہوئے_ یہ سب کچھ توحید اور خداپرستی کے لئے تھا، مظلوموں کے دفاع کے لئے تھا اور ظالموں کے ظلم کا مبارزہ اور مقابلہ تھا_ مگر ان مسلمانوں کو علم نہیں کہ اگر علی (ع) مسلمانوں کا خلیفہ ہو تو وہ اپنی عصمت اور علوم کے مقام سے جو انہیں میرے باپ کے ورثہ میں ملے ہیں مسلمانوں کے اجتماع اور معاشرے کی بہترین طریقے سے رہبری کرے گا اور میرے باپ کے مقدس ہدف اور غرض کو آگے بڑھائے گا اور جو اسلام کو سعادت اور کمال کی

۱۵۳

طرف لے جائے گا_

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دوسرے افکار جناب زہراء (ع) کے ذہن اور اعصاب پر فشار وارد کرتے تھے اور اس بہادر اور شجاع بی بی کے صبر اور تحمل کی طاقت کو ختم کردیا تھا_

حضرت زہراء (ع) کے تین مبارزے

اگر ہم سقیفہ کی طولانی اور وسیع کہانی اور جناب ابوبکر کے انتخاب کے بارے میں بحث شروع کردیں تو ہم اصل مطلب سے ہٹ جائیں گے اور بات بہت طویل ہوجائے گی، لیکن مختصر رودادیوں ہے کہ جب حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفن اور کفن سے فارغ ہوگئے تو وہ ایک تمام شدہ کام کے روبرو ہوئے انہوں نے دیکھا کہ جناب ابوبکر خلافت کے لئے منصوب کئے جاچکے ہیں اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان کی بیعت بھی کرلی ہے_

اس حالت میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ان طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کرنا چاہیئے تھا_

پہلا: یہ کہ حضرت علی (ع) ایک سخت قدم اٹھائیں اور رسماً جناب ابوبکر کی حکومت کے خلاف اقدام کریں اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کائیں اور برانگیختہ کریں_

دوسرا: جب وہ دیکھ چکے کہ کام ختم ہوچکا ہے تو اپنے شخصی مفاد اور مستقبل کی زندگی کے لئے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں اس صورت میں آپ کے شخصی منافع

۱۵۴

بھی محفوظ ہوجائیں گے اور حکومت کے نزدیک قابل احترام میں قرار پائیں گے، لیکن دونوں طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ حضرت علی کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ اگر چاہتے کہ کھلم کھلا حکومت سے ٹکر لیں اور میدان مبارزہ میں وارد ہوجائیں تو ان کا یہ اقدام اسلام کے لئے ضرر رسائل ہوتا اور اسلام کے وہ دشمن جو کمین گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے موقع سے فائدہ اٹھاتے اور ممکن تھا کہ ''اسلام جو ابھی جوان ہوا ہے'' کلی طور پر ختم کردیا جاتا اسی لئے حضرت علی (ع) نے اسلام کے اعلی اور ارفع منافع کو ترجیح دی اور سخت کاروائی کرنے سے گریز گیا_

آپ کے دوسرے طریقے پر عمل کرنے میں بھی مصلحت نہ تھی کیونکہ جانتے تھے کہ اگر ابتداء ہی سے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں تو اس کی وجہ سے لوگوں اور جناب ابوبکر کی کاروائی جو انجام پاچکی تھی اس کا تائید ہوجائے گی اور پیغمبر(ص) کی خلافت اور امامت کا مسئلہ اپنے حقیقی محور سے منحرف ہو جائے اور پیغمبر(ص) اور ان کی اپنی تمام تر زحمات اور فداکاریاں بالکل ختم ہوکر رہ جائیں گی_ اس کے علاوہ جو کام بھی جناب ابوبکر اور عمر اپنے دور خلافت میں انجام دیں گے وہ پیغمبر(ص) اور دین کے حساب میں شمار کئے جائیں گے حالانکہ وہ دونوں معصوم نہیں ہیں اور ان سے خلاف شرع اعمال کا صادر ہونا بعید نہیں_

تیسرا: جب آپ نے پہلے اور دوسرے طریقے میں مصلحت نہ دیکھی تو سوائے ایک معتدل روش کے انتخاب کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا_ حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا کہ ایک وسیع اور عاقلانہ مبارزہ اور اقدام کیا جائے تا کہ اسلام کو ختم ہونے اور متغیر ہونے سے نجات دلاسکیں گرچہ اس عاقلانہ اقدام کا نتیجہ مستقبل بعید میں ہی ظاہر ہوگا آپ کے اس اقدام اور مبارزے کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

۱۵۵

پہلا مرحلہ:

حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتے اور رات کے وقت مدینہ کے بڑے لوگوں کے گھر جاتے اور انہیں اپنی مدد کے لئے دعوت دیتے_ پیغمبر اکرم(ص) کے وصایا اور سفارشات کا تذکرہ کرتے(۱) _

جناب فاطمہ (ع) فرماتیں، لوگو کیا میرے باپ نے حضرت علی (ع) کو خلافت کے لئے معین نہیں فرمایا؟ کیا ان کی فداکاریوں کو فراموش کرگئے ہو؟ اگر میرے والد کے دستورات پر عمل کرو اور علی (ع) کو رہبری کے لئے معین کردو تو تم میرے والد کے ہدف پر عمل کروگے اور وہ تمہیں اچھی طرح ہدایت کریں گے_ لوگو مگر میرے باپ نے نہیں فرمایا تھا کہ میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے تمسک رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب دوسرے میرے اہلبیت (ع) _ لوگو کیا یہ مناسب ہے کہ ہمیں تنہا چھوڑ دو اور ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لو حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اپنی مدد کے لئے دعوت دیتے تھے کہ شاید وہ اپنے کرتوت پر پشیمان ہوجائیں اور خلافت کو اس کے اصلی مرکز طرف لوٹا دیں_

اس رویے سے بہت تھوڑا گروہ اس تبلیغ سے متاثر ہوا اور مدد کرنے کا وعدہ کیا، لیکن ان تھوڑے سے آدمیوں نے بھی اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا

____________________

۱) الامامہ والسیاستہ، ج ۱ ص ۱۲ _

۱۵۶

اور انہوں نے حکومت کی مخالفت کی جرات نہیں کی_

حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) بغیر شور و غل اور تظاہر کے جناب ابوبکر_ سے اپنی مخالفت ظاہر کرتے تھے اور انہوں نے ملّت اسلامی کو ایک حد تک بیدار بھی کیا اور اسی رویے سے مسلمانوں کا ایک گروہ باطنی طور سے ان کا ہم عقیدہ ہوگیا_ لیکن صرف یہی نتیجہ معتدل اقدام سے برآمد ہوا اور اس سے زیادہ کوئی اور نتیجہ نہ نکل سکا_

دوسرا مرحلہ:

حضرت علی (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ جناب ابوبکر کی بیعت نہیں کریں گے تا کہ اس رویہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی حکومت سے اپنی مخالفت ظاہر کرسکیں اور عملی طور سے تمام جہاں کو سمجھا دیں کہ علی (ع) ابن ابیطالب اور ان کا خاندان جو پیغمبر اسلام کے نزدیکی ہیں جناب ابوبکر کی خلافت سے ناراض ہیں تو معلوم ہوجائے گا کہ اس خلافت کی بنیاد اسلام کے مذاق کے خلاف ہے، حضرت زہراء (ع) نے بھی حضرت علی کے اس نظریئےی تائید کی اور ارادہ کرلیا کہ احتمالی خطرات اور حوادث کے ظاہر ہونے میں اپنے شوہر کی حتمی مدد کریں گی اور عملی لحاظ سے جہان کو سمجھائیں گی کہ میں پیغمبر اسلام(ص) کی دختر جناب ابوبکر کی خلافت کے موافق نہیں ہوں، لہذا حضرت علی (ع) اس غرض کی تکمیل کے لئے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور قرآن مجید کے جمع کرنے میں مشغول ہوگئے اور یہ ایک قسم کا منفی مبارزہ تھا جو آپ نے شروع کیا تھا_

چند دن اسی حالت میں گزر گئے، ایک دن جناب عمر نے جناب ابوبکر سے اظہار کیا کہ تم لوگوں نے سوائے علی (ع) اور ان کے رشتہ داروں کے تمہاری

۱۵۷

بیعت کرلی ہے، لیکن تمہاری حکومت کا استحکام بغیر علی (ع) کی بیعت کے ممکن نہیں ہے، علی (ع) کو حاضر کیا جائے اور انہیں بیعت پر مجبور کیا جائے، حضرات ابوبکر نے جناب عمر کی اس رائے کو پسند کیا اور قنفذ سے کہا کہ علی (ع) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول (ص) کے خلیفہ چاہتے ہیں کہ تم بیعت کے لئے مسجد میں حاضر ہوجاؤ_

قنفذ کئی بار حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور گئے لیکن حضرت علی (ع) نے جناب ابوبکر کے پاس آنے سے انکار کردیا_ جناب عمر خشمناک ہوئے اور خالد بن ولید اور قنفذ اور ایک گروہ کے ساتھ حضرت زہراء (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا یا علی (ع) دروازہ کھولو_ فاطمہ (ع) سر پر پٹی باندھے اور بیماری کی حالت میں دروازے کے پیچھے آئیں اور فرمایا_ اے عمر ہم سے تمہیں کیا کام ہے؟ تم ہمیں اپنی حالت پر کیوں نہیں رہنے دیتے؟ جناب عمر نے زور سے آواز دی کہ دروازہ کھولو ورنہ گھر میں آگ لگا دوں گا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے عمر خدا سے نہیں ڈرتے، میرے گھر میں داخل ہونا چاہتے ہو؟ آپ کی گفتگو سے عمر اپنے ارادے سے منحرف نہ ہوئے، جب جناب عمر نے دیکھا کہ دروازہ نہیں کھولتے تو حکم دیا کہ لکڑیاں لے آؤتا کہ میں گھر کو آگ لگادوں(۲) _

دروازہ کھل گیا جناب عمر نے گھر کے اندر داخل ہونا چاہا، حضرت زہراء (ع)

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، الحدید، ج ۲ ص ۵۶ اور، ج ۶ ص ۴۸_

۲) اثبات الوصیتہ، ص ۱۱۰_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۷_ الامامہ السیاسہ، ج ۱ ص ۱۲_

۱۵۸

نے جب دروازہ کھلا دیکھا اور خطرے کو نزدیک پایا تو مردانہ وار جناب عمر کے سامنے آکر مانع ہوئیں(۱) _

____________________

۱) سنی شیعہ تاریخ اور مدارک اس پر متفق ہیں کہ جناب ابوبکر کے سپاہیوں نے حضرت زہراء (ع) کے گھر پر حملہ کردیا اور جناب عمر نے لکڑیاں طلب کی اور گھرواروں کو گھر جلادینے کی دھمکی دی بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ جناب عمر سے کہا گیا کہ اس گھر میں فاطمہ (ع) موجود ہیں آپ نے جواب دیا کہ اگر بیعت کے لئے حاضر نہ ہوں گے تو میں اس گھر کو آگ لگادوں گا گرچہ اس میں فاطمہ (ع) ہی موجود ہوں_ جیسے کہ یہ مطلب ابوالفداء ابن ابی الحدید ابن قیتبہ نے امامہ و السیاسہ میں، انساب الاشرف یعقوبی اور دوسروں نے گھر پر حملہ کرنے اور جلانے کی دھمکی کو تحریر کیا ہے، خود حضرت ابوبکر نے اپنی موت کے وقت حضرت زہراء (ع) گے گھر پر حملے پر ندامت کا اظہار کیا ہے_

چنانچہ ابن ابی الحدید جلد ۲ ص ۴۶ پر اور ج ۱۲ ص ۱۹۴ پر لکھتے ہیں کہ جس وقت جناب زینب پیغمبر کی(۱) لڑکی مکہ سے مدینہ آرہی تھیں تو راستے میں دشمنوں نے اس پر حملہ کردیا اور حصار بن الود نے آک کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کردیا اور حصار بن الود نے آپ کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کی اس وجہ سے جناب زینب کا بچہ سقط ہوگیا، رسول اللہ(ص) اس مطلب سے اس قدر ناراحت ہوئے کہ آپ نے فتح مکہ کے دن ہبار کے خون کو مباح قرار دے دیا_ اس کے بعد ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ نقیب ابی جعفر کے سامنے پڑھا تو اس نے کہ کہ جب رسول خدا(ص) نے ہبار کے خون مباح کردیا تھا تو معلوم

۱) ضعیف روایات کی بناء پر مولّف نے حاشیہ لگایا ہے ورنہ رسول (ص) کی بیٹی فقط جناب فاطمہ (ع) ہیں کے علاوہ کوئی بیٹی تاریخ سے اگر ثابت ہے تو ضعیف روایات کی رو ہے_

۱۵۹

اور یہ آواز بلند گریہ و بکا اور شیون کرنا شروع کردیا تا کہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور حضرت علی (ع) کا دفاع کریں_ زہراء (ع) کے استغاثے اور گریہ و بکا نے صرف ان لوگوں پر اثر نہیں کیا بلکہ انہوں نے تلوار کا دستہ _ آپ کے پہلو پر مارا اور تازیانے سے آپ کے بازو کو بھی سیاہ کردیا تا کہ آپ اپنا ہاتھ علی (ع) کے ہاتھ سے م ہٹالیں(۱) _

آخر الامر حضرت علی (ع) کو گرفتار کرلیا گیا اور آپ کو مسجد کی طرف لے گئے جناب زہراء (ع) علی (ع) کی جان کو خطرے میںدیکھ رہی تھیں، مردانہ اور اٹھیں اور حضرت علی (ع) کے دامن کو مضبوطی سے پکڑلیا اور کہا کہ میں اپنے شوہر کو نہ جانے دوں گی _ قنفذ نے دیکھا کہ زہرا (ع) اپنے ہاتھ سے علی (ع) کو نہیں چھوڑتیں تو اس نے اتنے تازیانے آپ کے ہاتھ پر مارے کہ آپ کا بازو ورم کرگیا(۲) _

حضرت زہرا (ع) سلام اللہ علیہا اس جمیعت میں دیوار اور دروازے کے درمیان ہوگئیں اور آپ پر دروازے کے ذریعہ اتنا زور پڑا کہ آپ کے پہلو کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ بچہ جو آپ کے شکم مبارک

ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) زندہ ہوتے تو اس شخص کے خون کو جس نے فاطمہ (ع) کو تحدید کی تھی کہ جس سے فاطمہ (ع) کا بچہ ساقط ہوگیا تھا مباح کردیتے_ اہلسنت کی کتابیں تہدید کے بعد کے واقعات کے بیان کرنے میں ساکت ہیں، لیکن شیعوں کی تواریخ اور احادیث نے بیان کیا ہے کہ بالاخر آپ کے گھر کے دروازے کو آگ لگادی گئی اور پیغمبر(ص) کی دختر کو اتنا زد و کوب کیا گیا کہ بچہ ساکت ہوگیا

''مولف''

____________________

۱) بحار الانوار ج ۴۳ ص ۱۹۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293