فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون13%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 101997 / ڈاؤنلوڈ: 4598
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

میں تھا ساقط ہوگیا(۱) _

حضرت علی (ع) کو پکڑا اور مسجد کی طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھلیں تو دیکھا کہ علی (ع) کو مسجد لے گئے ہیں فوراً اپنی جگہ سے ا ٹھیں چونکہ حضرت علی (ع) کی جان کو خطرے میں دیکھ رہی تھیں اور ان کا دفاع کرنا چاہتی تھیں لہذا نحیف جسم پہلو شکستہ کے باوجود گھر سے باہر نکلیں اور بنی ہاشم کی مستورات کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوگئیں دیکھا کہ علی (ع) کو پکڑے ہوئے ہیں آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا میرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا کی قسم اپنے سر کے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر اسلام(ص) کا پیراہن سر پر رکھ کر اللہ تعالی کی درگاہ میں نالہ کروں گی اور تم پر نفرین اور بدعا کروں گی_ اس کے بعد جناب ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا کیا تم نے میرے شوہر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور میرے بچوں کو یتیم کرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہیں نہ چھوڑا تو اپنے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر(ص) کی قبر پر اللہ کی درگاہ میں استغاثہ کروں گی یہ کہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور رسول خدا(ص) کی قبر کی طرف روانہ ہوگئیں آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس جمعیت پر نفرین کریں اور اپنے دل ہلادینے والے گریہ سے حکومت کو الٹ کر رکھ دیں_

حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ وضع بہت خطرناک ہے اور کسی صورت میں ممکن نہیں کہ حضرت زہرا (ع) کو اپنے ارادے سے روکا جائے تو آپ نے سلمان فارسی سے فرمایا کہ پیغمبر(ص) کی دختر کے پاس جاؤ اور انہیں بددعا کرنے سے منع کردو_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۱

جناب سلمان جناب زہرا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آپ کے والد دنیا کے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرین نہ کیجئے_

جناب زہرا (ع) نے فرمایا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو میں ان متجاوزین سے دادخواہی کروں_ سلمان نے عرض کیا کہ مجھے حضرت علی (ع) نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ اپنے گھر لوٹ جائیں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت علی (ع) کا حکم دریافت کیا تو آپ نے کہا جب انہوں نے حکم دیا ہے تو میں اپنے گھر لوٹ جاتی ہوں اور صبر کا آغاز کروں گی_ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ اور گھر لوٹ آئیں(۱) _

مختصر مبارزہ

حضرت زہرا (ع) کے زمانہ جہاد اور مبارزہ کی مدت گرچہ تھوڑی اور آپ کی حیات کا زمانہ بہت ہی مختصر تھا، لیکن آپ کی حیات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھی_

پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے دیکھا کہ حکومت کے حامیوں نے حضرت علی (ع) کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے تو آپ عام عورتوں کی روش سے ہٹ کر جو معمولاً ایسے مواقع میں کنارہ گیری کرلیتی ہیں گھر کے دروازے کے پیچھے آگئیں اور استقامت کا مظاہرہ کیا_

دوسرے: جب دروازہ کھول لیا گیا تب بھی جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹیں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۷ و روضہ کافی، ص ۱۹۹_

۱۶۲

بلکہ اپنے آپ کو میدان کارزار میں بر قرار رکھا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئیں اتنی مضبوطی سے کھڑی رہیں کہ تلوار کے نیام سے آپ کے پہلو کو مارا گیا اور تازیانے سے آپ کے بازو سیاہ کردیئےئے_

تیسرے: جب علی (ع) گرفتار کرلئے گئے اور چاہتے تھے کہ آپ کو وہاں سے لے جائیں تب بھی آپ میدان میں آگئیں اور علی (ع) کے دامن کو پکڑلیا اور وہاں سے لے جانے میں مانع ہوئیں اور جب تک آپ کا بازو تازیانے سے سیاہ نہ کردیا گیا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_

چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخری مورچہ گھر کو بنایا اور گھر میں آکر علی (ع) کو باہر لے جانے سے ممانعت کی، اس مورچہ میں اتنی پائیداری سے کام لیا کہ دروازے اور دیوار کے درمیان آپ کا پہلو ٹوٹ گیا اور بچہ ساقط ہوگیا_

اس مرحلہ کے بعد آپ نے سوچا کہ چونکہ میرا یہ مبارزہ گھر کے اندر واقع ہوا ہے شاید اس کی خبر باہر نہ ہوئی ہو لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ مجمع عام گریہ و بکا اور آہ و زاری شروع کردی اور جب تمام طریقوں سے نا امید ہوگئیں تو مصمم ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا کریں، لیکن حضرت علی (ع) کے پیغام پہنچنے پر ہی آپ کے حکم کی اطاعت کی اور واپس گھر لوٹ آئیں_

جی ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ آخری لحظہ اور قدرت تک علی (ع) سے دفاع کرتی رہوں گی اور یہ سوچا تھا کہ جب میدان مبارزہ میں وارد ہوگئی ہوں تو مجھے اس سے کامیاب اور فتحیاب ہوکر نکلنا ہوگا اور حضرت علی (ع) کو بیعت کے لئے لے جانے میں ممانعت کرنی ہوگی، اس طرح عمل کر کے

۱۶۳

اپنے شوہر کے نظریئے اور عمل اور رفتار کی تائید کروں گی اور جناب ابوبکر کی خلافت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کروں گی اور اگر مجھے مارا پیٹا گیا تب بھی شکستہ پہلو اور سیاہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے کے باوجود جناب ابوبکر کی خلافت کو بدنام اور رسوا کردوں ی اور اپنے عمل سے جہان کو سمجھاؤں گی کہ حق کی حکومت سے روگردانی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اپنی حکومت کو دوام دینے کے لئے پیغمبر (ص) کی دختر کا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) کے فرزند کو ماں کے پیٹ میں شہید کرنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں اور ابھی سے تمام عالم کے مسلمانوں کی بتلا دینا چاہتی ہوں کہ بیداری اور ہوش میں آجاؤ کہ انتخابی حکومت کا ایک زندہ اور واضح فاسد نمونہ یہ ہو رہا ہے_

البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولایت کے مکتب کی تربیت شدہ تھیں، فداکاری اور شجاعت کا درس ان دو گھروں میں پڑھا تھا اپنے پہلو کے شکستہ ہونے اور مار پیٹ کھانے سے نہ ڈریں اور اپنے ہدف کے دفاع کے معاملے میں کسی بھی طاقت کے استعمال کی پرواہ نہ کی_

تیسرا مرحلہ فدک(۱)

جب سے جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تخت خلافت پر بیٹھے اسی وقت سے ارادہ کرلیا تھا کہ فدک کو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدک ایک علاقہ

____________________

۱) فدک کا موضوع اور اس میں حضرت فاطمہ (ع) کا ادعا مفصل اور عمیق اس کتاب کے آخر میں بیان کیا گیا ہے_

۱۶۴

ہے جو مدینے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس میں کئی ایک باغ اور بستان ہیں اور علاقہ قدیم زمانے میں بہت زیادہ آباد تھا اور یہودیوں کے ہاتھ میں تھا، جب اس علاقے کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفت کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک آدمی کو رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کیا اور آپ سے صلح کی پیش کش کی پیغمبر اسلام(ص) نے ان کی صلح کو قبول کرلیا اور بغیر لڑائی کے صلح کا عہدنامہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اس قرار داد کی روسے فدک آدھی زمین جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے دی گئی اور یہ خالص رسول(ص) کا مال ہوگیا(۱) _

کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے جو زمین بغیر جنگ کے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) کی ہوا کرتی ہے اور باقی مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوا کرتا_

فدک کی زمینیں پیغمبر(ص) کی ملکیت اور اختیار میں آگئی تھیں آپ اس کے منافع کو بنی ہاشم اور مدینہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی_''وات ذا القربی حقه'' (۲) _ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے اللہ تعالی کے دستور اور حکم کے مطابق فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا اس باب میں پیغمبر(ص) سے کافی روایات وارد ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند _ یہ ہیں_

ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت''وات ذاالقربی حقه'' نازل

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۰_

۲) سورہ اسراء آیت ص ۲۶_

۱۶۵

ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ کہتے ہیں کہ جب آیت''و آت ذاالقربی حقه'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا(۲) _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا(۳) _

فدک کا علاقہ معمولی اور کم قیمت نہ تھا بلکہ آباد علاقہ تھا اور اس کی کافی آمدنی تھی ہر سال تقریباً چوبیس ہزار یا ستر ہزار دینار اس سے آمدنی ہوا کرتی تھی(۴) _

اس کے ثبوت کے لئے دو چیزوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے یعنی فدک کا علاقہ وسیع اور بیش قیمت تھا اسے دو چیزوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

پہلی: جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) کے جواب ہیں، جب آپ نے فدک کا مطالبہ کیا تھا تو فرمایا تھا کہ فدک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کے اموال میں سے ایک مال تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اس کے ذریعے جنگی آدمیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے اور اس آمدنی کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے(۵) _

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور تفسیر در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور کتاب در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷ ور غایة المرام ص ۳۲۳ میں اس موضوع کی احادیث کا مطالعہ کیجئے_

۴) سفینة البحار، ج ۲ ص ۲۵۱_

۵) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۶

دوسرے: جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اس نے فدک مروان ابن حکم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان مستقیم کردیا(۱) _

ان دونوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ فدک ایک پر قیمت اور زرخیز علاقہ تھا کہ جس کے متعلق جناب ابوبکر نے فرمایا کہ رسول خدا اس کی آمدنی سے لوگوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے، اور خدا کی راہ میںخرچ کیا کرتے تھے_

اگر فدک معمولی ملکیت ہوتا تو معاویہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدمیوں کے درمیان تقسیم نہ کرتا_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک کبوں فاطمہ (ع) کو بخشا

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے مطالعے سے یہ امر بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آپ ثروت اور مال کے شیدائی نہ تھے اور مال کو ذخیرہ کرنا اور جمع رکھنے کی کوشش نہیں کیا کرتھے اپنے مال کو اپنے ہدف یعنی خداپرستی کے لئے خرچ کردیا کرتے تھے، مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جناب خدیجہ کی بے حد اور بے حساب دولت کو اسی ہدف اور راستے میں خرچ کر رہے تھے اور خود اور آپ کے داماد اور لڑکی کمال سختی اور مضیقہ میں زندگی بسر کرتے تھے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۷

کبھی بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے شکم مبارک پر پتھر باندھا کرتے تھے_ پیغمبر(ص) ان آدمیوں میں نہ تھے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اولاد کے لئے مال، دولت حاصل کرتے مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کی لڑکی اپنے گھر کے لئے ایک پشمی پردہ لٹکائے رکھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو چاندی کا دستبند پہنائیں_ اور خود گردن میں ہار پہنے رکھے_

سوچنے کی بات ہے اپنی زندگی اور بیٹی کی داخلی زندگی میں اتنا سخت گیر ہونے کے باوجود کس علت کی بناء پر اتنے بڑے علاقے اور باقیمت مال کو فاطمہ (ع) کے لئے بخش دیا تھا؟ آپ کا یہ غیر معمولی کام بے جہت اور بے علت نہ تھا اس واقعہ کی یوں علت بیان کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین کریں اور یہ بھی جانتے تھے کہ لوگ اتنی آسانی سے آپ کی رہبری اور حکومت کو قبول نہیں کریں گے اور آپ کی خلافت کے لئے رکاوٹیں ڈالیں گے اور یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے بہت زیادہ گھرانے اور خاندان حضرت علی (ع) کی طرف سے بغض و کدورت رکھتے ہیں کیوں کہ علی (ع) شمشیر زن مرد تھے اور بہت تھوڑے گھر ایسے تھے کہ جن میں کا ایک یا ایک سے زائد آدمی زمانہ کفر میں علی (ع) کے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو___ پیغمبر(ص) کو علم تھا کہ خلافت اور مملکت کے چلانے کے لئے مال اور دولت کی ضرورت ہوتی ہے ان حالات اور شرائط میں قوری کا جمع ہوجانا مشکل کام ہوگا_ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ اگر علی (ع) فقراء اور بیچاروں کی مدد اور اعانت کرسکے اور ان کی معاشی احتیاجات برطرف کرسکے تو دلوں کا بغض اور کدورت ایک حد تک کم ہوجائے گا اور آپ کی طرف دل مائل ہوجائیں گے_

۱۶۸

یہی وجہ تھی کہ آنحضرت نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا_ در حقیقت یہ مستقبل کے حقیقی خلیفہ کے اختیار میں دے دیا تھا تا کہ اس کی زیادہ آمدنی فقراء اور مساکین کے درمیان تقسیم کریں شاید کینے اور پرانی کدروتیں لوگ بھول جائیں اور حضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوجائیں، خلافت کے آغاز میں اس کی بحرانی حالت میں اس مال سے استفادہ کریں اور خدا اور رسول (ص) کے ہدف کی ترقی اور پیشرفت میں اس سے بہرہ برداری کریں_ در حقیقت پیغمبر اسلام(ص) نے اس ذریعے سے خلافت کی اقتصادی مدد کی تھی_

فدک جناب رسول خدا(ص) کی زندگی میں جناب زہرا(ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا آپ قوت لایموت یعنی معمولی مقدار اپنے لئے لیتیں اور باقی کو خدا کی راہ میں خرچ کردیتیں اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیتیں_

جب جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکوت پر قبضہ کیا اور تخت خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک آنجناب سے واپس لے لیں، چنانچہ انہوں نے حکم د یا کہ جناب فاطمہ (ع) کے کارکنوں اور عمال اور مزارعین کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ حکومت کے کارکن نصب کردیئے جائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا(۱) _

فدک لینے کے اسباب

فدک لینے کے لئے دو اصلی عوامل قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ جن کے بعد جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ

____________________

۱) تفسیر نورالثقلین، ج ۴ ص ۲۷۲_

۱۶۹

کرلیا تھا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لیا جائے_

پہلا عامل: تاریخ کے مطالعے سے یہ مطلب روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جناب عائشےہ دو چیزوں سے ہمیشہ رنجیدہ خاطر رہتی تھی_ پہلی: چونکہ پیغمبر اسلام(ص) جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور ان کا کبھی کبھار نیکی سے ذکر کیا کرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی تھی اور بسا اوقات اعتراض بھی کردیتی تھیں اور کہتی تھیں خدیجہ ایک بوڑھی عورت سے زیادہ کچھ نہ تھیں آپ ان کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں_ پیغمبر(ص) جواب دیا کرتے تھے، خدیجہ جیسا کون ہوسکتا ہے؟ پہلی عورت تھیں جو مجھ پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال میرے اختیار میں دے دیا، میرے تمام کاموں میں میری یار و مددگار تھیں خداوند عالم نے میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا ہے(۱) _

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہ جتنا کسی عورت سے بھی رشک نہیں کیا حالانکہ آپ میری شادی سے تین سال پہلے فوت ہوچکی تھیں کیونکہ رسول خدا(ص) ان کی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) کو حکم دے رکھا تھا کہ خدیجہ کو بشارت دے دیں کہ بہشت میں ان کے لئے ایک قصر تیار کیا جاچکا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) کوئی گوسفند ذبح کرتے تو اس کا گوشت جناب خدیجہ کے سہیلیوں کے گھر بھی بھیج دیتے تھے(۲) _

____________________

۱) تذکرة الخواص، ص ۳۰۳ و مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۲۴_

۲) صحیح مسلم ج ۲ ص ۱۸۸۸_

۱۷۰

جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) گھر میں آئے تو دیکھا کہ جناب عائشےہ حضرت زہراء کے سامنے کھڑی قیل و قال کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں اے خدیجہ کی بیٹی تو گمان کرتی ہے کہ تیری ماں مجھ سے افضل تھی، اسے مجھ پر کیا فضیلت تھی؟ وہ بھی میری طرح کی ایک عورت تھی جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ کی گفتگو سن لی اور جب جناب فاطمہ (ع) کی نگاہ باپ پر پڑی تو آپ نے رونا شروع کردیا_ پیغمبر نے فرمایا فاطمہ (ع) کیوں روتی ہو؟ عرض کیا کہ جناب عائشےہ نے میری ماں کی توہین کی ہے رسول خد ا(ص) خشمناک ہوئے اور فرمایا: عائشےہ ساکت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت کرنے والی بچہ دار عورتوں کو مبارک قرار دیا ہے_ جناب خدیجہ سے میری نسل چلی، لیکن خداوند عالم نے تمہیں بانجھ قرار دیا(۱) _

دوسرا عامل: پیغمبر اکرم(ص) حد سے زیادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے آپ کے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر رکھی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ عذاب میں مبتلا رہتی تھیں کیونکہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اسے اپنی سوکن کی اولاد پسند نہیں آتی اور عائشےہ کبھی اتنی سخت ناراحت ہوتیں کہ پیغمبر(ص) پر بھی اعتراض فرما دیتیں اور کہتیں کہ اب جب کہ فاطمہ (ع) کی شادی ہوچکی ہے آپ پھر بھی اس کا بوسہ لیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اس کے جواب میں فرماتے ہیں تم فاطمہ (ع) کے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ایسی بات نہ کرتیں(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۱۶ ص ۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۵_

۱۷۱

آپ جناب فاطمہ (ع) کی جتنی زیادہ تعری کرتے اتناہی جناب عائشےہ کی اندرونی کیفیت دگرگوں ہوتی اور اعتراض کرنا شروع کردیتیں_

ایک دن جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے کہ آپ نے جناب عائشےہ کی آواز اور چیخنے کو سنا کہ رسول خدا(ص) سے کہہ رہی ہیں کہ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ آپ علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو میرے اور میرے باپ سے زیادہ دوست رکھتے ہیں، جناب ابوبکر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے کہا کیوں پیغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات کر رہی ہو(۱) _

ان دو باتوں کے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھی تھیں اور پیغمبر(ص) کی نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود میں آئی یہ مطلب بھی جناب عائشےہ کو رنج پہنچاتا تھا، بنابرایں جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب فاطمہ (ع) کی شکایت کرتیں ہوسکتا ہے کہ جناب ابوبکر بھی دل سے جناب فاطمہ (ع) کے حق میں بہت زیادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں کہ کبھی اپنی اس کیفیت کو بجھانے کے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام لیں_

جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پاچکے تو جناب فاطمہ (ع) رویا کرتیں اور فرماتیں کتنے برے دن آگئے ہیں جناب ابوبکر فرماتے کہ ابھی برے دن اور آگے ہیں(۲) _

____________________

۱) مجمع الزواید، ج ۹ ص ۲۰۱_

۲) ارشاد شیخ مفید، ص ۹۰_

۱۷۲

دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبکر سوچتے تھے کہ حضرت علی (ع) کے ذاتی کمالات اور فضائل اور علم و دانش کا مقام قابل انکار نہیں اور پھر پیغمبر(ص) کی سفارشات بھی ان کی نسبت بہت معروف اور مشہور ہیں پیغمبر (ص) کے داماد اور چچازاد بھائی ہیں اگر ان کی مالی اور اقتصادی حالت اچھی ہوئی اور ان کے ہاتھوں میں دوپیہ بھی ہوا تو ممکن ہے کہ ایک گروہ ان کا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت کے لئے خطرے کا موجب بن جائے یہ ایک نکتہ تھا کہ جس کا ذکر جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کیا اور جناب ابوبکر سے کہا کہ لوگ دنیا کے بندے ہوا کرتے ہیں اور دنیا کے سوا ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا تم خمس اور غنائم کو علی (ع) سے لے لو اور فدک بھی ان کے ہاتھ سے نکال لو جب ان کے چاہنے والے انہیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انہیں چھوڑ دیں گے اور تیری طرف مائل ہوجائیں گے(۱) _

جی ہاں یہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے کہ جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک کو مصادرہ کر کے واپس لے لیں اور حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے عمال اور کارکنوں کا باہر کیا جائے اور اسے اپنے عمال کے تصرف میں دے دیا_

جناب زہراء (ع) کا رد عمل

جب جناب فاطمہ (ع) کو اطلاع ملی کہ آپ کے کارکنوں کو فدک سے نکال دیاگیا ہے تو آپ بہت غمگین ہوئیں اور

____________________

۱) ناسخ التواریخ جلد زہرائ، ص ۱۲۳_

۱۷۳

اپنے آپ کو ایک نئی مشکل اور مصیبت میں دیکھا کیونکہ حکومت کا نقشہ حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفی نہ تھا اور ان کے اصلی اقدام کی غرض و غایت سے بھی بے خبر نہ تھے_

اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا تھے_

پہلا راستہ یہ تھا کہ جناب ابوبکر کے سامنے ساکت ہوجائیں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشی کرلیں اور کہیں کہ ہمیں تو دنیا کے مال و متاع سے کوئی محبت اور علاقہ نہیں چھوڑو فدک بھی جناب ابوبکر لے جائیں اس کے ساتھ یہ بھی اس کے لئے ہوسکتا ہے کہ وہ جناب خلیفہ کو خوش کرنے کی غرض سے پیغام دالواتیں کہ تم میرے ولی امر ہو میں ناچیز فدک کو آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں_

دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنی پوری قدرت سے رکھتی ہیں اپنے حق کا دفاع کریں_

پہلا راستہ اختیار کرنا حضرت زہراء (ع) کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ حکومت کے پوشیدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھیں جانتی تھیں کہ وہ اقتصادی دباؤ اور آمدنی کے ذریعے قطع کردینے سے اسلام کے حقیقی خلیفہ حضرت علی (ع) کے اثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے حضرت علی (ع) کا ہاتھ حکومت سے کوتاہ ہوجائے اور وہ کسی قسم کا خلافت کے خلاف اقدام کرنے سے مایوس ہوجائیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ فدک کو زور سے لے لینے سے علی (ع) کے گھر کا دروازہ بند کرنا چاہتے تھے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اب بہت اچھی فرصت اور مدرک ہاتھ آگیا ہے اس وسیلہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی خلافت سے مبارزہ کر کے

۱۷۴

اسے بدنام اور رسوا کیا جائے اور عمومی افکار کو بیدار کیا جائے اور اس قسم کی فرصت ہمیشہ ہاتھ نہیں آیا کرتی_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اگر میں جناب ابوبکر کے دباؤ میں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ کروں تو جناب ابوبکر کی حکومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے کی عادی ہوجائے گی اور پھر لوگوں کے حقوق کی مراعات نہ ہوسکے گی_

جناب فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ اگر میں نے اپنے حق کا دفاع نہ کیا تو لوگ خیال کریں گے اپنے حق سے صرف نظر کرنا اور ظلم و ستم کے زیر بار ہونا اچھا کام ہے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر میں نے ابوبکر کو بدنام نہ کیا تو دوسرے خلفاء کے درمیان عوام فریبی رواج پاجائے گی_

حضرت فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ پیغمبر(ص) کی دختر ہوکر اپنے صحیح حق سے صرف نظر کرلوں تو مسلمانوں خیال کریں گے کہ عورت تمام اجتماعی حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے حق کے احقاق کے لئے مبارزہ کرے_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ میں جو وحی کے دامن اور ولایت کے گھر کی تربیت یافتہ ہوں اور میں اسلام کی خواتین کے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ایک اسلام کی تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے میرے اعمال اور رفتار کو ایک اسلام کی نمونہ عورت کی رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر میں اس مقام میں سستی کروں اور اپنے حق کے لینے میں عاجزی کا اظہار کروں تو پھر اسلام میں عورت عضو معطل سمجھی جائے گی_

۱۷۵

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دیگر عمدہ افکار تھے جو جناب فاطمہ (ع) کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پہلا راستہ اختیار کرتیں یہی وجہ تھی کہ آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ توانائی اور قدرت کی حد تک اپنے حق سے دفاع کریں گی_

البتہ یہ کام بہت زیادہ سہل اور آسان نہ تھا کیوں کہ ایک عورت کا مقابلہ جناب خلیفہ ابوبکر سے بہت زیادہ خطرناک تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) نای عورت کا کہ جو پہلے سے پہلو شکستہ بازو سیاہ شدہ اور جنین ساقط شدہ تھیں، ان میں سے ہر ایک حادثہ اور واقعہ عورت کے لئے کافی تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_

لیکن فاطمہ (ع) نے فداکاری اور شجاعت اور بردباری اور استقامت کی عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خدیجہ کبری سے وراثت میں پائی تھی اور انہوں نے مبارزت اسلامی کے مرکز میں تربیت پائی تھی انہوں نے ان فداکاروں اور قربانی دینے والوں کے گھر میں زندگی گزاری تھی کہ جہاں کئی دفعہ وہ شوہر کے خون آلود کپڑے دھوچکی تھیں اور ان کے زخمی بدن کی مرہم پٹی کرچکی تھیں وہ ان جزئی حوادث سے خوف نہیں کھاتی تھیں اور جناب ابوبکر کی حکومت سے مرعوب نہیں ہوتی تھیں_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے کو کئی ایک مراحل میں انجام دیا_

بحث اور استدلال

جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم نے کیوں میرے کارکنوں کو میری ملکیت سے باہر

۱۷۶

نکال دیا ہے؟ میرے باپ نے اپنی زندگی میں فدک مجھے ہبہ کردیا تھا جناب ابوبکر نے جواب دیا اگر چہ میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتیں لیکن پھر بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ایمن اور حضرت علی (ع) کو گواہ کے طور پر لے گئیں، جناب ام ایمن نے جناب ابوبکر سے کہ تجھ خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے میرے بارے میںفرمایا ہے کہ ام ایمن بہشتی ہیں، جناب ابوبکر نے جواب دیا، یہ میں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ایمن نے فرمایا میں گواہی دیتی ہوں کہ جب یہ آیت ''و آت ذی القربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا_

حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس قسم کی گواہی دی جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو لوٹا دیں لہذا ایک تحریر ایک کے متعلق لکھی اور وہ حضرت زہراء (ع) کو دے دی_

اچانک اسی وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دریافت کیا جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ چونکہ جناب فاطمہ (ع) فدک کا دعوی کر رہی تھیں اور اس پر گواہ بھی پیش کردیئےیں لہذا میں نے فدک انہیں واپس کردیا ہے جناب عمر نے وہ تحریر زہراء کے ہاتھ سے لی اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبکر نے بھی جناب عمر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ علی (ع) کے علاوہ کوئی اور آدمی گواہ لے آئیں یا ایم ایمن کے علاوہ کوئی دوسری عورت بھی گواہی دے جناب فاطمہ (ع) روتی ہوئی جناب ابوبکر کے گھر سے باہر چلے گئیں_

ایک اور روایت کی بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہی دی

۱۷۷

کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے(۱) _

ایک دن حضرت علی (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ کیوں فدک کو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو دیاتھا ان سے لے لیا ہے؟ آپ نے جواب دیاانہیں اپنے دعوی پر گواہ لے آنے چاہئیں اور چونکہ ان کے گواہ ناقص تھے جو قبول نہیں کئے گئے_ حضرت علی (ع) نے فرمایا اے ابوبکر، کیا تم ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم کرتے ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے ہوا کرتا ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ نہیں_ حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر کچھ مال کسی کے ہاتھ میں ہو اور میں دعوی کروں کہ وہ میرا مال ہے اور فیصلہ کرانے کے لئے جناب کے پاس آئیں تو آپ کس سے گواہ کا مطالبہ کریں گے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ سے گواہ طلب کروں گا کیوں کہ مال کسی دوسرے کے تصرف میں موجود ہے، آپ نے فرمایا پھر تم نے کیوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا ہے در انحالیکہ فدک آپ(ص) کی ملکیت اور تصرف میں موجود ہے، جناب ابوبکر نے سوکت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا لیکن جناب عمر نے کہایا علی ایسی باتین چھوڑو(۲) _

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس فیصلے مین حق حضرت زہراء کے

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱، اور کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_ اور شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۷۴_

۲) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱_ کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_

۱۷۸

ساتھ ہے کیونکہ فدک آپ کے قبضے میں تھا اسی لئے تو حضرت علی (ع) نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے_ جی ہاں دنیا کے اموال سے فدک ہمارے اختیار میں تھا لیکن ایک جماعت نے اس پر بھی بخل کیا اور ایک دوسرا گروہ اس پر راضی تھا(۱) _

قضاوت کے قواعد اور قانون کے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ دوسری طرف جو ابوبکر تھے انہیں گواہ لانے چاہیئے تھے، لیکن جناب ابوبکر نے فیصلے کے اس مسلم قانون کی مخالفت کی، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے میں کامیاب ہوگوئیں اور اپنی حقانیت کو مضبوط دلیل و برہان اور منطق سے ثابت کردیا اور حضرت ابوبکر مجبور ہوگئے کہ وہ فدک کے واپس کردینے کا دستور بھی لکھ دیں یہ اور بات ہے کہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت کی منطق کو میدان میں لائے اور لکھی ہوئی تحریر کو پھاڑ دیا اور گواہوں کے ناقص ہونے کا اس میں بہانا بنایا_

پھر بھی استدلال

ایک دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور باپ کی وراثت کے متعلق بحث اور احتجاج کیا آپ نے فرمایا اے ابوبکر، میرے باپ کا ارث مجھے کیوں نہیں دیتے ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے_

____________________

۱) نہج البلاغہ، ج ۳ ص ۴۵_

۱۷۹

آپ نے فرمایا مگر خداوند عالم قرآن میں نہیں فرماتا:

''و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

کیا جناب سلیمان جناب داؤد کے وارث نہیں بنے؟ جناب ابوبکر غضبناک ہوئے اور کہا تم سے کہا کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا زکریا نبی نے خدا سے عرض نہیں کیا تھا_

''فهب لی من لدنک وَلیاً یرثنی وَ یرث من آل یعقوب'' (۲)

جناب ابوبکر نے پھر بھی وہی جواب دیا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا:

''یوصیکم الله فی اولادکم للذکر حظ الانثیین'' (۳)

کیا میں رسول اللہ (ص) کی اولاد نہیں ہوں؟ چونکہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے محکم دلائل کا سامنا کر رہے تھے اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ اسی سابقہ کلام کی تکرار کریں اور کہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_

جناب ابوبکر نے اپنی روش اور غیر شرعی عمل کے لئے ایک حدیث نقل کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھی

____________________

۱) سورہ نحل آیت ۱۶_

۲) سورہ مریم آیت ۶_

۳) سورہ نساء آیت ۱۱_

۱۸۰

جناب ابوبکر کی اس حدیث کی تائید کردی ((ص) )_

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مباحثے میں بھی حضرت زہراء (ع) غالب آئیں اور دلائی و برہان سے ثابت کردیا کہ وہ حدیث جس کا تم دعوی کر رہے ہو وہ صریح قرآنی نصوص کے خلاف ہے اور جو حدیث بھی قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی جناب ابوبکر مغلوب ہوئے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہ تھا کہ جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں اسی سابقہ جواب کی تکرار کریں_

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہی جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ کی بیان کردہ وضعی حدیث کی تائید کی ہے جناب عثمان کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس گئیں اور پیغمبر (ص) کی وراثت کا ادعا کیا_ جناب عثمان نے جواب دیا کیا تم نے گواہی نہیں دی تھی کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے؟ اور اسی سے تم نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت سے محروم کردیا تھا، اب کیسے آپ خود رسول (ص) کی وراثت کا مطالبہ کر رہی ہیں(۲) _

خلیفہ سے وضاحت کا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ میں کامیاب ہوئیں اور اپنی منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل کو محکوم

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ س ۱۰۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۵_

۱۸۱

کردیا قرآن مجید کی آیات سے اپنی حقانیت کو ثابت کیا اور اپنے مد مقابل کو اپنے استدلال سے ناتواں بنادیا، آپ نے دیکھا کہ _ مد مقابل اپنی روش کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل کو بجالانے کے لئے حتی کہ حدیث بناکر پیش کرنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور دلیل و برہان کے مقابلے میں قوت اور طاقت کا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب کیا اور کہا عجیب انہوں نے میرے شوہر کی خلافت پر قبضہ کرلیا ہے_ یہ آیات قرآن کے مقابل کیوں سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ کیوں اسلام کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں؟ کیوں جناب ابوبکر تو مجھے تحریر لکھ کر دیتے ہیں لیکن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہیں؟ اے میرے خدا یہ کسی قسم کی حکومت ہے اور یہ کسی قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبکر رسول خدا(ص) کی جگہ بیٹھتے ہیں، لیکن حدیث از خود بناتے ہیں تا کہ میرے حق کو پائمال کریں؟ ایسے افراد دین اور قرآن کے حامی ہوسکتے ہیں؟ مجھے فدک اور غیر فدک سے دلچسپی نہیں لیکن اس قسم کے اعمال کو بھی تحمل نہیں کرسکتی بالکل چپ نہ رہوں گی اور مجھے چاہیئے کہ تما لوگوں کے سامنے خلیفہ سے وضاحت طلب کروں اور اپنی حقانیت کو ثابت کروں اور لوگوں کو بتلادوں کہ جس خلیفہ کا تم نے انتخاب کیا ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ قرآن اور اسلام کے دستور پر عمل کرے اپنی مرضی سے جو کام چاہتا ہے انجام دیتا ہے_ جی ہان مسجد جاؤں گی اور لوگوں کے سامنے تقریر کروں گی_

یہ خبر بجلی کی طرح مدینہ میں پھیل گئی اور ایک بم کی طرح پورے شہر کو ہلاک رکھ دیا، فاطمہ (ع) جو کہ پیغمبر(ص) کی نشانی ہیں چاہتی ہیں کہ تقریر کریں؟ لیکن

۱۸۲

کس موضوع پر تقریر ہوگی؟ اور خلیفہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ چلیں آپ کی تاریخی تقریر کو سنیں_

مہاجر اور انصار کی جمعیت کا مسجد میں ہجوم ہوگیا، بنی ہاشم کی عورتیں جناب زہراء (ع) کے گھر گئیں اور اسلام کی بزرگ خاتون کو گھر سے باہر لائیں، بنی ہاشم کی عورتیں آپ کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں، بہت عظمت اور جلال کے ساتھ آپ چلیں، پیغمبر(ص) کی طرح قدم اٹھا رہی تھیں، جب مسجد میں داخل ہوئیں تو پردہ آپ کے سامنے لٹکا دیاگیا، باپ کی جدائی اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) کو منقلب کردیا کہ آپ کے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دینے والی آواز نے مجمع پر بھی اثر کیا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑی دیر کے لئے ساکت رہیں تا کہ لوگ آرام میں آجائیں اس کے بعد آپ نے گفتگو شروع کی، اس کے بعد پھر ایک دفعہ لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں آپ پھر خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ لوگ اچھی طرح ساکت ہوگئے اس وقت آپ نے کلام کا آغاز کیا اور فرمایا:

جناب فاطمہ (ع) کی دہلا اور جلادینے والی تقریر

میں خدا کی اس کی نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتی ہوں اور اس کی توفیقات پر شکر ادا کرتی ہوں اس کی بے شمار نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بجالاتی ہوں وہ نعمتیں کہ جن کی کوئی انتہانہیں اور نہیں ہوسکتا کہ

۱۸۳

ان کی تلافی اور تدارک کیا جاسکے ان کی انتہا کاتصور کرنا ممکن نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکرہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی مقامی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا کو طلب کیا ہے تا کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہمارے لئے زیادہ کرے_

میں خدا کی توحید اور یگانگی گواہی دیتی ہوں توحید کا وہ کلمہ کہ اخلاص کو اس کی روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس کی گواہی دے تا کہ اس سے نظر و فکر روشن ہو، وہ خدا کہ جس کو آنکھ کے ذریعے دیکھا نہیں جاسکتا اور زبان کے ذریعے اس کی وصف اور توصیف نہیں کی جاسکتی وہ کس طرح کا ہے یہ وہم نہیں آسکتا_ عالم کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنی مشیئت کے مطابق خلق کیا ہے_ جہان کے پیا کرنے میں اسے اپنے کسی فائدے کے حاصل کرنے کا قصد نہ تھا_ جہان کو پیدا کیا تا کہ اپنی حکمت اور علم کو ثابت کرے اور اپنی اطاعت کی یاد دہانی کرے، اور اپنی قدرت کا اظہار کرے، اور بندوں کو عبادت کے لئے برانگیختہ کرے، اور اپنی دعوت کو وسعت دے، اپنی اطاعت کے لئے جزاء مقرر کی اور نافرمانی کے لئے سزا معین فرمائی_ تا کہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے اور بہشت کی طرف لے جائے_

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبری کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل

۱۸۴

اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّد(ص) رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپی ہوئی تھی اور عدم کی سرحد سے ملی ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالی ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) کو مبعوث کیا تا کہ اپنے امر کو آخر تک پہنچائے اور اپنے حکم کو جاری کردے، اور اپنے مقصد کو عملی قرار دے_ لوگ دین میں تفرق تھے اور کفر و جہالت کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خداوند عالم کے دستورات کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) کے وجود مبارک سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور جہالت اور نادانی دلوں سے دور ہوگئی، سرگردانی اور تحیر کے پردے آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے میرے باپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہی سے نجات دلائی اور نابینا کو بینا کیا اور دین اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے کی طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کی مہربانی اور اس کے اختیار اور رغبت سے اس کی روح قبض فرمائی_ اب میرے باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت کے عالم میں اللہ تعالی کے فرشتوں اور پروردگار کی رضایت کے ساتھ اللہ تعالی کے قرب میں زندگی بسر کر رہے ہیں، امین اور وحی کے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس کے بعد مجمع کو خطاب کیا اور فرمایا لوگو تم اللہ تعالی

۱۸۵

کے امر اور نہی کے نمائندے اور نبوت کے دین اور علوم کے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئےم ہو جن کو باقی اقوام تک دین کی تبلیغ کرنی ہے تم میں پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین موجود ہے اللہ تعالی نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمکنے والانور ہے اس کی چشم بصیرت روش اور رتبے کے آرزومند ہیں اس کی پیروی کرنا انسان کو بہشت رضوان کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی باتوں کو سننا نجات کا سبب ہوتا ہے اس کے وجود کی برکت سے اللہ تعالی کے نورانی دلائل اور حجت کو دریافت کیا جاسکتا ہے اس کے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جاسکتا ہے_

اللہ تعالی نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے___ اللہ نے نماز واجب کی تا کہ تکبر سے روکاجائے_ زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا_ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا_ حج کو واجب کرنے سے دین کی بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا، اہلبیت کی اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا_ امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکی کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور نفوس کی زیادتی کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا_

۱۸۶

قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا_ نذر کے پورا کرنے کو گناہوں گا آمرزش کا سبب بنایا_ پلیدی سے محفوظ رہنے کی غرض سے شراب خوری پر پابندی لگائی، بہتان اور زنا کی نسبت دینے کی لغت سے روکا، چوری نہ کرنے کو پاکی اور عفت کا سبب بتایا_ اللہ تعالی کے ساتھ شرک، کو اخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا_

لوگو تقوی اور پرہیزگاری کو اپناؤ اور اسلام کی حفاظت کرو اور اللہ تعالی کے اوامر و نواحی کی اطاعت کرو، صرف علماء اور دانشمندی خدا سے ڈرتے ہیں_

اس کے بعد آپ نے فرمایا، لوگو میرے باپ محمد(ص) تھے اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تک کے واقعات اور امور سے آگاہ کرتی ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئےہ میں جھوٹ نہیں بولتی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی_

لوگو اللہ تعالی نے تمہارے لئے پیغمبر(ص) جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہاری تکلیف سے اسے تکلیف ہوتی تھی اور وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہاری عورت کے باپ، میرے شوہر کے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں کے بھائی، کتنی عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور مشرکوں کی راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان کی پشت پر سخت ضرب وارد کی ان کا گلا پکڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا کی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو سرنگوں کیا کفار نے شکست کھائی اور شکست کھا کر

۱۸۷

بھاگے تاریکیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کی زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق کے پیروکار ہلاک ہوئے کفر اور اختلاف کے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت کی وجہ سے شہادت کا کلمہ جاری کیا، جب کہ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور وہ ظالموں کا تر اور لذیذ لقمہ بن چکے تھے اور آگ کی تلاش کرنے والوں کے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل کے پاؤں کے نیچے ذلیل تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانات کے چمڑوں اور درختوں کے پتوں سے غذا کھاتے تھے دوسروں کے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگی بسر کرتے تھے_

ان تمام بدبختیوں کے بعد خدا نے محمد(ص) کے وجود کی برکت سے تمہیں نجات دی حالانکہ میرے باپ کو عربوں میں سے بہادر اور عرب کے بھیڑیوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے تھے خدا سے خاموش کردیتا تھا، جب کوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی کھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائی علی (ع) کو ان کے گلے میں اتار دیتے اور حضرت علی (ع) ان کے سر اور مغز کو اپنی طاقت سے پائمال کردیتے اور جب تک ان کی روشن کی ہوئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے جنگ کے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ کی رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے تھے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے تھے، اللہ کے رسول کے نزدیک تھے_ علی (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد کرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشی میں خوش و خرم زندگی گزار

۱۸۸

رہے تھے اور کسی خبر کے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن کے ساتھ لڑائی لڑنے سے ا جتناب کرتے تھے اور جنگ کے وقت فرار کرجاتے تھے_

جب خدا نے اپنے پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں کی جگہ کی طرف منتقل کیا تو تمہارے اندرونی کینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین کا لباس کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں کرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل کا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنی دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سرکمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی، حالانکہ ابھی پیغمبر(ص) کی موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھی تک ہمارے دل کے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھی پیغمبر(ص) کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنے کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ کرلیا، لیکن خبردار رہو کہ تم فتنے میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے_ افسوس تمہیں کیا ہوگیا ہے اور کہاں چلے جارہے ہو؟ حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے اوامر و نواہی ظاہر ہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تمہارا ارادہ ہے کہ قرآن سے اعراض اور روگردانی

۱۸۹

کرلو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے کرتا چاہتے تو؟ لیکن تم کو علم ہونا چاہیئے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا، اتنا صبر بھی نہ کرسکے کہ وہ فتنے کی آگ کو خاموش کرے اور اس کی قیادت آسان ہوجائے بلکہ آگ کو تم نے روشن کیا اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) کے خاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ہو_ کام کو الٹا ظاہر کرتے ہو اور پیغمبر(ص) کے اہلبیت کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہو، تمہارے کام اس چھری کے زخم اور نیزے کے زخم کی مانند ہیں جو پیٹ کے اندر واقع ہوئے ہوں_

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ ہم پیغمبر(ص) سے میراث نہیں لے سکتے، کیا تم جاہلیت کے قوانین کی طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ اسلام کے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں رسول خدا(ص) کی بیٹی ہوں کیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب کی طرح یہ روشن ہے_ مسلمانوں کیا یہ درست ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبکر آیا خدا کی کتاب میں تو لکھا ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں کہتا کہ سلیمان داود کے وارث ہوئے_

''ورث سلیمان داؤد''

کیا قرآن میں یحیی علیہ السلام کا قول نقل نہیں ہوا کہ خدا سے انہوں نے عرض کی پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا کہ وہ میرا وارث

۱۹۰

قرار پائے او آل یعقوب کا بھی وارث ہو_

کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں کے وارث ہوتے ہیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ اللہ نے حکم دیا کہ لڑکے، لڑکیوں سے دوگنا ارث لیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ تم پر مقرر کردیا کہ جب تمہارا کوئی موت کے نزدیک ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے کیونکہ پرہیزگاروں کے لئے ایسا کرنا عدالت کا مقتضی ہے_

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں باپ سے نسبت نہیں رکھتی؟ کیا ارث والی آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کرتے ہو جو دو مذہب کے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے؟ کیا میں اور میرا باپ ایک دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد علی (ع) سے قرآن کو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبکر فدک اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارک ہو، لیکن قیامت کے دن تم سے ملاقات کروں گی کہ جب حکم اور قضاوت کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوگا اور محمد(ص) بہترین پیشوا ہیں_

اے قحافہ کے بیٹھے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت کا دن ہے کہ جس دن بیہودہ لوگوں کا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالی کے عذاب کو دیکھ لوگے آپ اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:

اے ملت کے مددگار جوانو اور اسلام کی مدد کرنے والو کیوں حق

۱۹۱

کے ثابت کرنے میں سستی کر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ کیا میرے والد نے نہیں فرمایا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ ہوتا ہے یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام کیا کرو؟ کتنا جلدی فتنہ برپا کیا ہے تم نے؟ اور کتنی جلدی ہوی اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم کے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت رکھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ کے برلانے پر طاقت رکھتے ہو_ کیا کہتے ہو کہ محمد(ص) مرگئے؟ جی ہاں لیکن یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کہ ہر روز اس کا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس کا خلل زیادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) کی غیبت سے زمین تاریک ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ کی مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبر(ص) کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی، قسم خدا کی یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی کہ جس کی مثال ابھی تگ دیکھی نہیں گئی اللہ کی کتاب جو صبح اور شام کو پڑھی جا رہی ہے آپ کی اس مصیبت کی خبر دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) بھی عام لوگوں کی طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ محمد(ص) بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح ہیں، اگر آپ(ص) مرے یا قتل کئے گئے تو تم دین سے پھر جاوگے، جو بھی دین سے خارج ہوگا وہ اللہ پر کوئی نقصان وارد نہیں کرتا خدا شکر ادا کرنے والوں کو جزا عنایت کرتا ہے(۱) _

اے فرزندان قبلہ: آیا یہ مناسب ہے کہ میں باپ کی میراث سے محروم

____________________

۱) سورہ آل عمران_

۱۹۲

رہوں جب کہ تم یہ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میری پکار تم تک پہنچ چکی ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہاری تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ کی آواز تم تک پہنچتی ہے لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے میری فریاد کو سنتے ہو لیکن میری فریاد رسی نہیں کرتے تم بہادری میں معروف اور نیکی اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ کی اولاد ہو تم ہم اہلبیت کے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں کے ساتھ تم نے جنگیں کیں سختیوں کو برداشت کیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی کی ہے جب ہم اٹھ کھڑے ہوتے تھے تم بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے ہم حکم دیتے تھے تم اطاعت کرتے تھے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشرکین تسلیم ہوگئے اور ان کا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا_

اے انصار متحیر ہوکر کہاں جارہے ہو؟ حقائق کے معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کیوں چھپانے ہو؟ کیوں ایمان لے آنے کے بعد مشرک ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے ایمان اور عہد اور پیمان کو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ کیا ہو کہ رسول خدا(ص) کو شہر _ بدر کریں اور ان سے جنگ کا آغاز کریں کیا منافقین سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ تمہیں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہیئے تھا_ لوگو میں گویا دیکھ رہی کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو، اس آدمی کو جو حکومت کرنے کا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ کر عیش اور نوش

۱۹۳

میں مشغول ہوگئے ہو زندگی اور جہاد کے وسیع میدان سے قرار کر کے راحت طلبی کے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر کردیا ہے اور جو کچھ پی چکے تھے اسے اگل دیا ہے لیکن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے_

اے لوگو جو کچھ مجھے کہنا چاہیئے تھا میں نے کہہ دیا ہے حالانکہ میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہیں کروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفی نہیں، لیکن کیا کروں دل میں ایک درد تھا کہ جس کو میں نے بہت ناراحتی کے باوجود ظاہر کردیا ہے تا کہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدک اور خلافت کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس میں مشکلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس کا ننگ و عار ہمیشہ کے لئے تمہارے دامن پہ باقی رہ جائے گا، اللہ تعالی کا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس کی جزا جہنم کی آگ ہوگی اللہ تعالی تمہارے کردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے_ لوگو میں تمہارے اس نبی کی بیٹی ہوں کہ جو تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو کچھ کرسکتے ہو اسے انجام دو ہم بھی تم سے انتقام لیں گے تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں(۱) _

____________________

۱) احتجاج طبرسی، طبع نجف ۱۳۸۶ ھ ج ۱ ۱۳۱_۱۴۱ _ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۱_ کتاب بلاغات النسائ، تالیف احمد بن طاہر، متولد ۲۰۴ ہجری ص ۱۲_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۶_

۱۹۴

خلیفہ کا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشین بیان کو ہزاروں کے مجمع میں جناب ابوبکر کے سامنے کمال شجاعت سے بیان کیا اور اپنی مدلل اور مضبوط تقریر میں جناب ابوبکر سے فدک لینے کی وضاحت طلب کی اور ان کے ناجائز قبضے کو ظاہر کیا اور جو حقیقی خلیفہ تھے ان کے کمالات اور فضائل کو بیان فرمایا_

لوگ بہت سخت پریشان ہوئے اور اکثر لوگوں کے افکار جناب زہراء (ع) کے حق میں ہوگئے_ جناب ابوبکر بہت کشمکش__ _ میں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں کے افکار کے مطابق فیصلہ دیں اور فدک جناب زہراء (ع) کو واپس لوٹا یں تو ان کے لئے دو مشکلیں تھیں_

ایک: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی بات تسلیم کرلی گئی تو ''انہیں اس کا ڈر ہوا کہ'' کل پھر آئیں گی اور خلافت اپنے شوہر کو دے دینے کا مطالبہ کریں گی اور پھر پر جوش تقریر سے اس کا آغاز کریں گے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ میں نے علی بن فاروقی سے جو مدرسہ غربیہ بغداد کے استاد تھے عرض کی آیا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے میں سچی تھیں یا نہ، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ جناب ابوبکر انہیں سچا جانتے تھے ان کو فدک واپس کیوں نہ کیا؟ استاد ہنسے اور ایک عمدہ جواب دیا اور کہا اگر اس دن فدک فاطمہ (ع) کو واپس کردیتے تو دوسرے دن وہ واپس آتیں اور خلافت کا اپنے شوہر کے لئے مطالبہ کردیتیں اور جناب ابوبکر

۱۹۵

کو خلافت کے مقام سے معزول قرار دے دیتیں کیونکہ جب پہلے سچی قرار پاگئیں تو اب ان کے لئے کوئی عذر پیش کرنا ممکن نہ رہتا(۱) _

دوسرے: اگر جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) کی تصدیق کردیتے تو انہیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا اس طرح سے خلافت کے آغاز میں ہی اعتراض کرنے والوں کا دروازہ کھل جاتا اور اس قسم کا خطرہ حکومت اور خلافت کے لئے قابل تحمل نہیں ہوا کرتا_

بہرحال جناب ابوبکر اس وقت ایسے نظر نہیں آرہے تھے کہ وہ اتنی جلدی میدان چھوڑ جائیں گے البتہ انہوں نے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی پہلے سے پیشین گوئی کر رکھی تھی آپ نے سوچا اس وقت جب کہ موجودہ حالات میں ملت کے عمومی افکار کو جناب زہراء (ع) نے اپنی تقری سے مسخر کرلیا ہے یہ مصلحت نہیں کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کا جواب دیا جانا چاہیئے اور عمومی افکار کو ٹھنڈا کیا جائے، بس کتنا___ اچھا ہے کہ وہی سابقہ پروگرام دھرایا جائے اور عوام کو غفلت میں رکھا جائے اور دین اور قوانین کے اجراء کے نام سے جناب فاطمہ (ع) کو چپ کرایا جائے اور اپنی تقصیر کو ثابت کیا جائے، جناب ابوبکر نے سوچا کہ دین کی حمایت اور ظاہری دین سے دلسوزی کے اظہار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو یہاں تک کہ خود دین کو بھی نظرانداز کرایا جاسکتا ہے_ جی ہاں دین سے ہمدردی کے مظاہرے سے دین کے ساتھ دنیا میں مقابلہ کیا جاتا ہے_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۸۴_

۱۹۶

جناب ابوبکر کا جواب

رسول اللہ (ص) کی بیٹی کے قوی اور منطقی اور مدلل دلائل کے مقابلے میں جناب ابوبکر نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کے باپ مومنین پر مہربان اور رحیم اور بلاشک محمّد(ص) آپ کے باپ ہیں اور کسی عورت کے باپ نہیں اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور علی (ع) کو تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے، جو شخص آپ کو دوست رکھے گا وہی نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنی کرے گا وہ خسارے میں رہے گا، آپ پیغمبر(ص) کی عترت ہیں، آپ نے ہمیں خیر و صلاح اور بہشت کی طرف ہدایت کی ہے، اے عورتوں میں سے بہترین عورت اور بہتر پیغمبر(ص) کی دختر، آپ کی عظمت اور آپ کی صداقت اور فضیلت اور عقل کسی پر مخفی نہیں ہے_ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کو آپ کے حق سے محروم کرے، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے تجاوز نہیں کرتا جو کام بھی انجام دیتا ہوں آپ کے والد کی اجازت سے انجام دیتا ہوں قافلہ کا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہیں بولتا خدا کی قسم میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ ہم پیغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت کے گھر اور جائیدار و وراثت میں نہیں چھوڑتے جو مال ہمارا باقی رہ جائے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے اختیار میں ہوگا، میں فدک کی آمدنی سے اسلحہ خریدتا ہوں اور کفار سے جنگ کرونگا، مبادا آپ کو خیال ہو کہ میں نے تنہا فدک پر قبضہ کیا ہے بلکہ اس اقدام میں تمام مسلمان میرے

۱۹۷

موافق اور شریک ہیں، البتہ میرا ذاتی مال آپ کے اختیار میں ہے جتنا چاہیں لے لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے والد کے دستورات کی مخالفت کروں؟

جناب فاطمہ (ع) کاجواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کی اس تقریر کا جواب دیا_ سبحان اللہ، میرے باپ قرآن مجید سے روگردانی نہیں کرسکتے اور اسلام کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے کیا تم نے اجماع کرلیا ہے کہ خلاف واقع عمل کرو اور پھر اسے میرے باپ کی طرف نسبت دو؟ تمہارا یہ کام اس کام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے میرے والد کی زندگی میں انجام دیا_ کیا خدا نے جناب زکریا کا قول قرآن میں نقل نہیں کیا جو خدا سے عرض کر رہے تھے،

فهب لی یرثنی و یرث من آل یعقوب (۱) _

خدایا مجھے ایسا فرزند دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث ہو_ کیا قرآن میں یہ نہیں ہے_

ورث سلیمان داؤد (۲) _

سلیمان داؤد کے وارث ہوئے_ کیا قرآن میں وراثت کے احکام موجود نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، یہ تمام مطالب قرآن میں موجود ہیں اور تمہیں بھی اس

____________________

۱) سورہ مریم آیت۶_

۲) سورہ نمل آیت ۱۶_

۱۹۸

کی اطلاع ہے لیکن تمہارا ارادہ عمل نہ کرنے کا ہے اور میرے لئے بھی سواے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں_

جناب ابوبکر نے اس کا جواب دیا کہ خدا رسول (ص) اور تم سچ کہتی ہو، لیکن یہ تمام مسلمان میرے اور اپ کے درمیان فیصلہ کریں گے کیونکہ انہوں نے مجھے خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اور میں نے ان کی رائے پر فدک لیا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے ظاہرسازی اور عوام کو خوش کرنے والی تقریر کر کے ایک حد تک عوام کے احساسات اور افکار کو ٹھنڈا کردیا اور عمومی افکار کو اپنی طررف متوجہ کرلیا_

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھی اس مطلب کی سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کی تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں_

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کی تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامی کا دارالخلافة تک منقلب کردیا_ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہ روئے تھے_

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۱_

۱۹۹

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کی مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھی اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں_

جناب عمر نے جواب دیا _ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھرچکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتی اور عارضی ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں_ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمی بجالاؤ تا کہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں_ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنی مشکل کو حل کردیا ہے_

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جاکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول(ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑی جیسے ہے کہ جس کی گواہ اس کی دم تھی_

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب لڑی سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293