فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون20%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102008 / ڈاؤنلوڈ: 4599
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : فاطمہ زہراء (س) اسلام کی مثالی خاتون

مولف : آیہ اللہ ابراہیم امینی

مترجم : اختر عباس

کتابت : صغیر حسن خاں ہندی

ناشر : انصاریان پبلیشر، خیابان صفائیہ، جنب مدرسہ امیرالمومنین (ع) - قم - اسلامی جمہوری ایران

تعداد : ۳۰۰۰

تاریخ اشاعات : جون سنہ ۱۹۹۱

اشاعات : بار دوم

۳

انتساب

پروردگارا تیرے سوا شہید کے حقیقی مرتبے سے کوئی واقف نہیں کہ انہوں نے اپنی ستی کو تیری راہ میں قربان کردیا، ان کا انسانیت پر عظیم احسان ہے کہ جس کا صحیح عوض تو ہی دے سکتا ہے_

خداوندا اگر اس معمولی کوشش کا تیرے نزدیک کوئی ثواب ہو تو میں اسے اسلام کے پاکیزہ شہداء اور بالاخص ایران کے انقلاب اسلامی کے شہداء اور انقلاب کے عظیم رہبر حضرت آیت اللہ العظمی نائب امام زمان آقا خمینی کے ایثارگر رفقا کو ہدیہ کرتا ہوں اور یہ معمولی ہدیہ پیش کرتے ہوئے امیدوار ہوں کہ وہ پروردگار کے سامنے نگاہ لطف کریں گے، معذرت خواہ_

مولّف

مترجم کی تمنا بھی وہی ہے جو کہ مولّف کی ہے_

مترجم

۴

پیش لفظ

جن لوگوں کو تاریخ سے لگاؤ رہا ہے اور جنہوں نے اپنی عمر کا کچھ حصّہ مردوں اور مشہور عورتوں کے حالات زندگی کے مطالعہ میں صرف کیا ہے_ ہوسکتا ہے کہ اس میں ان کے مختلف اغراض ہوں_

بعض لوگوں کی تاریخی کتابوں کے مطالعے سے غرض وقت کا کاٹنا ہوتا ہے اور وہ فراغت کا وقت تاریخی کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتے ہیں وہ تاریخ اس غرض سے پڑھتے ہیں کہ وقت گزاری کے ساتھ تعجب آور اور جاذب نظر کہانیاں یادکریں اور پھر انہیں دوستوں کی محفل میں آب و تاب سے بیان کریں لیکن ایک گروہ کی غرض تاریخ کے مطالعے سے اس سے بالاتر اور قیمتی ہوا کرتی ہے_ وہ بزرگوں کے حالات کا اس غرض سے مطالعہ کرتے ہیں کہ اس سے زندگی کا درس حاصل کریں، وہ تاریخ میں ان کی عظمت اور کامیابی کا راز معلوم کرتے ہیں تا کہ ان کے اعمال او رافعال کو اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ قرار دیں اسی طرح قوموں کی اور افراد کی شکست اور انحطاط کے عوامل و اسباب معلوم کرتے ہیں تا کہ خود ان میں گرفتار نہ ہوں اور اپنے معاشرے کو اس سے محفوظ رکھیں، اسی طرح جو عظیم پیغمبروں کے مفصل حالات اور آئمہ اطہار(ع) اور دوسرے دینی افراد کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں دو قسم کے ہوتے ہیں_

ایک گروہ کا مقصد سوائے وقت گزاری اور مشغول رہنے کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ پیغمبروں اور اماموں کے مناقب اس لئے پڑھتے ہیں کہ تعجب اور قصّے حفظ کریں اور

۵

ان کا مجالس میں تذکرہ اور ساتھ ساتھ وقت بھی کٹتا جائے وہ عجیب و غریب واقعات کے پڑھنے سے لذت اندوز ہوتے ہیں اور تذکرہ اہل بیت کے مراثی اور فضائل کے سننے کے ثواب پرہی قناعت کرتے ہیں_

لیکن دوسرا گروہ ایک ایسے انسانوں کا ہے جو اللہ تعالی کی برگزیدہ ہستیوں کے حالات کا مطالعہ اس غرض کے لئے کرتے ہیں تا کہ ان کی عظمت او رمحبوبیت کے راز کو معلوم کریں اور ان کی زندگی اور روش کے راستے ''جو در حقیقت دین کا صراط مستقیم ہے'' حاصل کریں اور ان کے اعمال اور کردار سے زندگی کا درس حاصل کریں_

افسوس اس بات پر ہے کہ اکثر لوگ جو آئمہ علیہم السلام کی تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ پہلی قسم کے لوگ ہوتے ہیں_

غالباً پیغمبروں اور آئمہ اطہار کے مناقب کی کتابیں تعجب خیز بلکہ بسا اوقات مبالغہ آمیز واقعات سے مملو پائی جاتی ہیں_ لیکن ان کی اجتماعی اور سیاسی اور اخلاقی زندگی کو اور ان کی رفتار اور کردار اور گفتار کو بطور اختصار بیان کردیا جاتا ہے، ہر ایک مسلمان نے پیغمبر اور ہر ایک امام کی کئی او رتعجب انگیز داستانیں تو یاد کر رکھی ہوں گی لیکن ان کی اجتماعی زندگی اور ان کے انفرادی اعمال و کردار اور ان کا ظالموں اور اسلام دشمن حکومت کے برتاؤ سے مطلع تک نہ ہوں گے_

اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت زہرا علیہا السلام کی زندگی کے دوسرے پہلو کی تحقیق کی جائے اور اسے مورد تجزیہ اور تحلیل قرار دیا جائے اسی وجہ سے اگر بعض مناقب یا قصے یہاں ذکر نہیں کئے گئے تو اس پر اعتراض نہ کیا جائے، کیوں کہ اصلی غرض یہ ہے کہ آنحضرت کی شخصیت کو زندگی اور اخلاق اور رفتار کے لحاظ سے واضح کیا جائے_

افسوس ہوتا ہے کہ اس بزرگوار کی زندگی اس قدر مبہم رکھی گئی ہے کہ جس کا ذکر

۶

اسلام کے ابتدائی مدارک میں بہت کم ملتا ہے_ آپ کی زندگی کو ابہام میں رکھنے کی کئی ایک وجوہ ہیں_

پہلی وجہ: آپ کی زندگی مختصر تھی اور اٹھارہ سال سے متجاوز نہ تھی آپ کی آدھی زندگی بلوغ سے پہلے کی بہت زیادہ مورد توجہ قرار نہیں پائی ، بلوغ سے موت تک کا فاصلہ بہت زیادہ نہ تھا_

دوسری وجہ: چونکہ آپ کا تعلق صنف نازک سے تھا اور آپ کی اکثر زندگی گھر کی چہار دیواری کے اندر بیت کئی لہذا بہت تھوڑے لوگ تھے جو آپ کی داخل زندگی کے صحیح طور پر واقف تھے_

تیسری وجہ: اس زمانے کے لوگوں کے افکار اتنے بلند نہ تھے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کی دختر جو اسلام کی مثالی خاتون تھی کی قدر و قیمت کے اتنے قائل ہوتے کہ ان کی زندگی کے جزئیات کو محفوظ کر لینے کو اہمیت دیتے_

بہرحال گرچہ آپ کی زندگی کے جزئیات کو کامل طور پر اور آپ کے رفتار و کردار پر جو اسلام کی خاتون کا نمونہ تھے، مکمل طور پر محفوظ نہیں کیا گیا لیکن ہم نے اس مقدار پر جو اس وقت تاریخ میں موجود ہیں ان سے آپ کی شخصیت کا تجزیہ کر کے بیان کیا ہے_ اسی لئے بعض اوقات مجبور ہوکر بعض معمولی تاریخ نویسوں کے حوالے اور نقل پر اکتفا کر کے نتیجہ اخذ کیا ہے اور اسے مورد تجزیہ اور تحلیل قرار دیا ہے_

مثالی خاتون

اسلام نے عورتوں کے حقوق اور ترقی کے لئے خاص احکام اور قوانین وضع کئے ہیں ایک دستور ہے کہ جس سے اسلام کی شائستہ خاتون اور اس کی اسلامی تربیت کے آثار اور نتائج کو دیکھا جاسکتا ہے یہ ہے کہ صدر اسلام کی ان خاتون کی زندگی کو کامل طور پر معلوم کیا جائے کہ جن کی تربیت وحی کے مالک نے کی ہو اور ان کی زندگی کے

۷

تمام جزئیات کا دقیق نظر سے مطالعہ کیا جائے_

حضرت زہراء (ع) تمام اسلامی خواتین میں درجہ اول پر فائز ہیں کیونکہ صرف یہی وہ ایک خاتون ہیں کہ جن کا باپ معصوم ہے اور شوہر معصوم اور خود بھی معصوم ہیں آپ کی زندگی اور تربیت کا ماحول عصمت و طہارت کا ماحول تھا، آپ(ع) کا عہد طفلی اس ذات کے زیر سایہ گزرا جس کی تربیت بلاواسطہ پروردگار عالم نے کی تھی_

امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش کا زمانہ اسلام کی دوسری عظیم شخصیت یعنی علی بن ابی طالب علیہ السلام کے گھر میں گزارا اسی زمانے میں آپ نے دو معصوم ''امام حسن اور امام حسین علیہم السلام'' کی تربیت فرمائی اور دو جرات مند و شیر دل اور فداکاربیٹیوں جناب زینب اور جناب ام کلثوم کو اسلامی معاشرہ کے سپرد کیا_ ایسے گھر میں واضح طور سے احکام اسلامی اور تہذیب اسلامی کی رواج کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں اسلام کی پاکیزہ او رمثالی خاتون کو تلاش کیا جاسکتا ہے_

ہماری روش:

لکھنے و ا لے کئی قسم کے ہوتے ہیں_

ایک گروہ ہے کہ جو ان مطالب کو معتبر اور پر ارزش شمار کرتا ہے جو اہلسنت کی کتابوں اور مدارک میں موجود ہوں اور ان مطالب کو کہ جو صرف شیعوں کی کتابوں میں پائے جاتے ہوں نقل کرنے سے بالکل پرہیز کرتا ہے بلکہ ان کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے_

ایک گروہ، وہ ہے جو صرف ان مطالب کو صحیح اور معتبر قرار دیتا ہے جو شیعوں کی کتابوں میں موجود ہوں اور ان مطالب کے نقل کرنے سے گریز کرتا ہے جو صرف اہل سنت کی کتابوں میں پائے جاتے ہوں_

لیکن ہماری نگاہ میں دونوں افراط اور تفریط میں مبتلا ہیں_ بہت سے حقائق کو

۸

نظرانداز کرجاتے ہیں، چونکہ وہ صرف اہلسنت کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں، ایسے حقائق بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں جو شیعوں کی کتابوں میں موجود نہیں ہوتے اور شیعوں کی کتابوں میں ایسے حقائق بھی معلوم کئے جاسکتے ہیں جو اہلسنت کی کتابوں میں موجود نہیں ہوتے، شیعوں نے بھی کتابیں لکھی ہیں اور بہت سے مطالب کو آئمہ طاہرین(ع) اور پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) سے چونکہ یہی حضرات علم کے لئے مرجع بتلائے گئے ہیں'' نقل کیا ہے_

زمانہ کے لحاظ سے شیعہ مولف سنّی مؤلفین سے مقدم ہیں یہ انصاف سے دور نظر آتا ہے کہ بعض سنّی مؤلفین، شیعوں کی کتابوں اور مدارک سے قطع نظر کرتے ہوئے ان مطالب کے نقل سے گریز کریں جو سنّی کتابوں اور ماخذ میں نہ پائے جاتے ہوں یہ حضرات حد سے زیادہ اہلسنت کی کتابوں کے متعلق حسن ظن رکھتے ہیں_ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کتابوں کے تمام لکھنے والے حقیقت کے عاشق اور ہر قسم کے تعصب سے خالی ہیں اور مبراء تھے اور انہوں نے تمام حقائق او رواقعات کو لکھ ہی دیا ہے، جب ان کتابوں میں کوئی مطلب نہ پایا جاتا ہو تو وہ لازماً مطلب بے بنیاد ہوگا حالانکہ ایسی سوچ صحیح نہیں ہے کیونکہ جو شخص بھی غیر جانبدار ہو کر اہلسنت کی کتابوں اور مدارک کا وقت سے مطالعہ کرے بلکہ ایک ہی کتاب کی متعدد طباعت دیکھ لے تو اس کا یہ حسن ظن اور خوشبینی بے بنیاد نظر آئے گا_ اور اس طرح نظر نہیں آئے گا کہ تمام لکھنے والے تعصب اور خود غرضی سے خالی تھے_

بنابراین، ہم نے اس کتاب میں اہل سنت کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے اور شیعوں کی کتابوں اور مدارک سے بھی، بعض ایسے مطالب کہ جن کے نقل کرنے سے سنی مؤلفین نے احتراز کیا ے یابطور اجمال اور اشارہ کے نقل کیا ہے ہم نے انہیں شیعوں کی کتابوں اور مدارک سے نقل کیا ہے_

ابراہیم امینی

۹

حصّہ اوّل

ولادت سے ازدواج تک

۱۰

ہر انسان کی شخصیت ایک حد تک اس کے خاندان او راپنے ماں، باپ کے اخلاق اور جس ماحول میں وہ نشو و نما پاتا ہے اس سے اس کی زندگی وابستہ ہوا کرتی ہے، ماں، باپ ہی ہوتے ہیں کہ جو کسی انسان کی شخصیت کی داغ بیل ڈالتے ہیں اور اسے اپنے روحی قالب اور اخلاق میں ڈھال کر معاشرہ کے سپرد کرتے ہیں کہ در حقیقت کہا جاسکتا ہے کہ ہر ایک فرزند اپنے ماں باپ کے اسوہ کا پورا آئینہ دار ہوتا ہے_

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے باپ کی تعریف و توصیف وضاحت اور تشریح کی محتاج نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کا فوق العادہ شخصیت کا مالک ہونا اور آپ کی عظمت روحی اور پسندیدہ اخلاق اور بلند ہمت اور فداکاری کسی مسلمان فرد پر بلکہ کسی بھی با اطلاع انسان پر مخفی نہیں ہے آپ کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خداوند عالم نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے محمد(ص) آپ تو خلق عظیم کے مالک ہیں_

اگر ہم یہاں پیغمبر اسلام(ص) کی تعریف اور توصیف اور اخلاق کا ذکر کرنا شروع کردیں تو اصل مطلب سے دور ہٹ جائیں گے_

فاطمہ (ع) کی ماں

آپ کی والدہ ماجدہ جناب خدیجہ بنت خویلد تھیں، جناب خدیجہ

۱۱

قریش کے ایک شریف او رمعزز خاندان میں پیدا ہوئی اور اسی ماحول میں پرورش پائی_ آپ کے خاندان کے سارے افراد دانشمند اور اہل علم تھے اور وہ خانہ کعبہ کی حمایت کرنے والوں میں شمار ہوتے تھے_

جس زمانے میں یمن کے بادشاہ تبّع نامی نے حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اکھاڑ کر یمن لے جانے کا ارادہ کیا تھا تو جناب خدیجہ کے والد ہی تھے جو ان کے دفاع کے لئے کھڑے ہوئے تھے اور آپ کی فداکاری اور مبارزہ کے نتیجے میں تبّع نے اپنے ارادے کو ترک کردیا اور حجر اسود سے معترض نہ ہوا_(۱)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب خدیجہ کے خاندان والے صاحب فکر، گہری سوچ کے مالک اور جناب ابراہیم علیہ السلام کے دین کے گرویدہ تھے_

خدیجہ کی تجارت

گرچہ تاریخ نے جناب خدیجہ کی زندگی کے جزئیات محفوظ نہیں کہے لیکن جو کچھ بعض تاریخوں سے ملتا ہے اس سے آپ کی شخصیت واضح ہوجاتی ہے_

ملتا ہے کہ جناب خدیجہ نے جوانی کی ابتداء میں عتیق بن عامر نامی شخص سے شادی کی لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد عتیق فوت ہوگیا اور جناب خدیجہ کے لئے بہت زیادہ ماں و دولت چھوڑ گیا_ آپ نے ایک مدت تک شوہر نہیں کیا لیکن بنی تمیم کے ایک بڑے آدمی ہند بن بناس سے آپ نے بعد میں شادی کرلی، لیکن یہ مند بھی جوانی کے عالم میں فوت ہوگیا اور جناب خدیجہ کے لئے کافی ثروت چھوڑ گیا_

ایک ایسی بات کہ جس سے جناب خدیجہ کی بزرگی اور بلند ہمتی اور آزادی اور

____________________

۱) الروض الانف_ ج ۲ _ ص ۲۱۳_

۱۲

استقلال نفس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جناب خدیجہ کو پہلے شوہر اور دوسرے شوہر سے جو بے پناہ دولت ملی تھی اسے آپ نے یوں ہی روک نہیں رکھا تھا اور نہ ہی اسے ربا، اور سود پر اٹھا دیا تھا کہ جو اس زمانے میں مروج اور عام کار و ربار شمار ہوتا تھا بلکہ آپ نے اسے تجازت میں لگا دیا اور اس کے لئے آپ نے دیانت دار افراد کو ملازم رکھا اور ان کے ذریعہ سے تجارت کرنی شروع کردی_ آپ نے جائز تجازت کے ذریعے بہت زیادہ دولت کمائی، لکھا ہے کہ ہزاروں اونٹ آپ کے نوکروں کے ہاتھوں میں تھے کہ جن سے وہ مصر، شام، حبشہ میں تجارت کرتے تھے_(۱)

ابن ہشام لکھتے ہیں کہ جناب خدیجہ ایک شریف اور مالدار عورت تھیں وہ ایسی سرمایہ دار تھیں کہ جو تجارت کیا کرتی تھیں، بہت سے افراد ان کے یہاں ملازمت کرتے تھے، جو آپ کے لئے تجارت کیا کرتے تھے_(۲)

یہ واضح رہے کہ اتنے بڑے کار و بار کو چلانا اور وہ بھی اس زمانے میں اور بالخصوص جریرہ العرب میں کوئی معمولی کام نہ تھا اور وہ بھی ایک عورت کے لئے اور اس زمانے میں جب کہ عورتیں تمام اجتماعی حقوق سے محروم تھیں اور بہت سنگدل مرد اپنی بے گناہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، لامحالہ یہ بزرگوار عورت ایک غیرعادی ذہن اور شخصیت اور استقلال نفسانی کی مالک ہونی چاہیئے کہ جس کے پاس کافی معلومات ہوں گے تا کہ وہ اتنی بڑی وسیع و عریض تجارت کو چلاسکے_

____________________

۱) بحار الانوار_ ۱۶_ ص ۲۲_

۲) سیرة بن ہشام_ ج۱ _ ص ۱۹۹_

۱۳

مستقل مزاج عورت

جناب خدیجہ کی روشنی زندگی کا برجستہ نکتہ آپ کا جناب رسول خدا(ص) سے ازدواج کا قصّہ ہے، جب آپ کے پہلے اور دوسرے شوہر وفات پاگئے تو آپ میں ایک مستقل مزاجی اور مخصوص قسم کی آزادی پیدا ہوگئی، آپ عاقل ترین اور رشید ترین مردوں سے جو تجارت میں ماہر تھے شادی کرنے پر بھی حاضر نہیں ہوتی تھیں حالانکہ آپ سے شادی کرنے کے خواشمندوں میں خاندانی لحاظ سے نجیب اور بہت زیادہ سرمایہ دار ہوتے تھے اور اس بات پر تیار تھے کہ آپ کے لئے بہت زیادہ گراں مہر ادا کر کے بھی شادی کرلیں لیکن آپ بہت سختی سے شادی کی مخالفت کیا کرتی تھیں_ لیکن دلچسپ و جاذب نظر نکتہ یہ ہے کہ یہی خدیجہ جو اشراف عرب اور سرمایہ داروں سے شادی کرنے پر تیار نہ ہوتی تھیں، کمال شوق اور فراخ دلی سے جناب محمد(ص) کے ساتھ جو یتیم اور تہی دست تھے شادی کرلیتی ہیں_

جناب خدیجہ ان عورتوں میں سے نہ تھی کہ جس کا چاہنے والا کوئی نہ ہو بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خواستگار بڑی شخصیت کے مالک اور معزز لوگ تھے بلکہ بادشاہ اور سرمایہ دار آپ کے پاس شادی کرنے کی خواہش لے کر آتے اور آپ ان سے شادی کرنے پر راضی نہ ہوتی تھیں، لیکن پیغمبر اسلام علیہ اسلام کے ساتھ ازدواج کرنے پر نہ فقط راضی ہوئیں بلکہ خود انہوں نے بہت زیادہ اصرار اور علاقہ مندی سے اس کی پیش کش کی اور حق مہر کو بھی اپنے مال سے ہی قرار دیا جاب کہ یہی چیز آپ کے لئے استہزاء اور سرزنش کا باعث بھی بنی_

جب کہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ عورتیں اکثر مال اور زندگی کی آرائشے اور تجملات سے بہت

۱۴

زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں اور ان کی انتہائی خواہش ہوتی ہے کہ مال دار اور آبرومند شوہر انہیں نصیب ہوتا کہ اس کے گھر میں آرام اور عیش اور نوش کی زندگی کی بسر کریں تو یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ جناب خدیجہ شادی کرنے میں کوئی اعلی فکر اور سوچ رکھتی تھیں اور کسی غیر معمولی برجستہ شوہر کے انتظار میں تھیں، معلوم ہوتا ہے کہ جناب خدیجہ مال دار شوہر نہیں چاہتی تھیں بلکہ وہ کسی روحانی لحاظ سے برجستہ شخصیت کی تلاش میں تھیں کہ جو اس جہاں کو بدبختی اور جہالت کے گرداب سے نجابت دینے والا ہو_

تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ جناب خدیجہ نے بعض دانشمندوں سے سن رکھا تھا کہ جناب محمد (ص) پیغمبر آخرالزمان ہوں گے اور آپ کو اس مطلب سے عقیدت بھی ہوچکی تھی جب آپ نے جناب محمد(ص) کو اپنی تجارت کا امین منتخب کیا اور شاید ایسا بھی امتحان لینے کے لئے کیا ہو تا کہ دانشمندوں کی پیش گوئی کو اس ذریعے سے آزما سکیں تو اپنے غلام میرہ کو تجارت کے سفر کا ناظر قرار دیا اور اس غلام نے آکر اس سفر کے دوران جنا ب محمد(ص) کے واقعات اور حوادث عجیبہ کو جناب خدیجہ کے سامنے نقل کیا تب اس نجیب اور شریف عورت نے اپنی مطلوب کو گمشدہ شخصیت اور متاع کو پالیا تھا اسی لئے جناب خدیجہ نے خود آنحضور(ص) کے سامنے اظہار کردیا کہ اے محمد(ص) میں نے تجھے شریف اور امین اور خوش خلق اور سچا پایا ہے میری خواہش ہے کہ میں آپ سے شادی کروں_

جناب محمد(ص) نے اس واقعہ کا ذکر اپنے چچاوں سے کیا وہ خواستگاری کی غرض سے جناب خدیجہ کے چچا کے پاس گئے اور اپنے مقصد کا ایک خطبے کے درمیان اظہار کیا، جناب خدیجہ کے چچا ایک دانشمند انسان تھے چاہتے تھے کہ اس کا جواب دیں، لیکن اچھی طرح بات نہ کرسکے تو خود جناب خدیجہ فرط شوق سے فصیح زبان سے

۱۵

گویا ہوئیں اور کہا اے چچا گرچہ آپ گفتگو کرنے میں مجھ سے سزاوارتر ہیں لیکن آپ مجھ سے زیادہ صاحب اختیار نہیں ہیں اس کے بعد کہنے لگیں:

اے محمد(ص) میں اپنی تزویج آپ سے کر رہی ہوں اور اپنا حق مہر میں نے اپنے ماں میں قرار دیا ہے آپ اپنے چچا سے کہہ دیں کہ عروسی کے ولیمہ کے لئے اونٹ ذبح کریں _(۱)

تاریخ کہتی ہے کہ جناب خدیجہ نے اپنے چچازاد بھائی ورقہ ابن نوفل کو واسطہ قرار دیا تا کہ وہ آپ کی شادی جناب محمد(ص) سے کرادیں_ جب ورقہ نے جناب خدیجہ کو یہ بشارت سنائی کہ میں نے جناب محمد(ص) اور ان کے رشتہ داروں کو آپ سے شادی کرنے پر راضی کرلیا ہے تو جناب خدیجہ نے اس کی اس بہت بڑی خدمت پر اسے ایک خلعت عطا کیا کہ جس کی قیمت پانچ سوا شرفی تھی_

جب جناب محمد(ص) آپ کے گھر سے باہر نکلنے لگے تو جناب خدیجہ نے عرض کی کہ میرا گھر آپ کا گھر ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں، آپ جس وقت چاہیں اس گھر میں تشریف لائیں _(۲)

پیغمبر علیہ السلام کے لئے یہ شادی بہت اہمیت کے حال تھی کیونکہ ایک طرف تو آپ خود فقیر اور خالی ہاتھ تھے ، اسی وجہ سے، اور دوسری بعض وجوہ سے آپ بچپن سال کی عمر تک شادی نہ کرسکے تھے، اور دوسری طرف آپ کے پاس کوئی گھر نہ تھا اور تنہا تھا اور تنہائی کا آپ کو احساس ہوا کرتا تھا، اس مبارک شادی سے آپ کا فقر دور ہوگیا اور آپ کو ایک بہترین مشیر و غمگسار بھی مل گیا_

____________________

۱) تذکرة الخواص_ ص ۲۰۲_ بحارالانوار _ ج۱۶ ص ۱۴_

۲) بحارالانوار_ ج ۱۶_ ص ۶۵_

۱۶

فداکار عورت

جی ہاں جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جناب خدیجہ نے باصفا اور گرم زندگی کی بنیاد ڈالی_

پہلی عورت جو جناب رسول خدا(ص) پر ایمان لائیں جناب خدیجہ تھیں، اس باعظمت خاتون نے تمام مال اور بے حساب ثروت کو بغیر کسی قید اور شرط کے جناب رسولخدا(ص) کے اختیار میں دے دیا، جناب خدیجہ ان کوتاہ فکر عورتوں میں سے نہ تھیں جو معمولی مال اور استقلال کے دیکھنے سے اپنے شوہر کی پر واہ نہیں کرتیں اور اپنے مال کو شوہر پر خرچ کرنے سے دریغ کرتی ہیں_ جناب خدیجہ پیغمبر علیہ السلام کے عالی مقصد سے باخبر تھیں اور آپ سے عقیدت بھی رکھتی تھیں لہذا اپنے تمام مال کو آنحضرت(ص) کے اختیار میں دے دیا اور کہا کہ آپ جس طرح مصلحت دیکھیں اس کو خدا کے دین کی ترویج اور اشاعت میں خرچ کریں_

ہشام نے لکھا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) کو جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت تھی آور آپ ان کااحترام کرتے تھے اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ لیتے تھے وہ اور رشید اور روشن فکر خاتون آپ کے لئے ایک اچھا وزیر اور مشیر تھیں پہلی عورت جو آپ پر ایمان لائیں جناب خدیجہ تھیں، جب تک آپ زندہ رہیں جناب رسول خدا(ص) نے دوسری شادی نہیں کی_(۱)

جناب رسول خدا(ص) فرمایا کرتے تھے کہ جناب خدیجہ اس امت کی عورتوں میں سے بہترین عورت ہیں_(۲)

____________________

۱ ), ۲) تذکرة الخواص سبط ابن جوزی_ چھاپ نجف ۱۳۸۲_ ص ۳۰۲_

۱۷

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ جناب پیغمبر علیہ السلام جناب خدیجہ کا اتنی اچھائی سے ذکر کرتے تھے کہ ایک دن میں نے عرض کر ہی دیا کہ یا رسول اللہ (ص) خدیجہ ایک بوڑھی عورت تھیں اللہ تعالی نے اس سے بہتر آپ کو عطا کی ہے_ پیغمبر اسلام(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا خدا کی قسم اللہ نے اس سے بہتر مجھے عطا نہیں کی، خدیجہ اس وقت ایمان لائیں جب دوسرے کفر پر تھے، اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب دوسرے میری تکذیب کرتے تھے اس نے بلاعوض اپنا مال میرے اختیار میں دے د یا جب کہ میرے مجھے محروم رکھتے تھے، خدا نے میری نسل اس سے چلائی _ __جناب عائشےہ کہتی ہیں کہ میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس کے بعد خدیجہ کی کوئی بر ائی نہیں کروں گی _(۱)

روایات میں وارد ہوا ہے کہ جب جبرئیل پیغمبر(ص) پر نازل ہوتے تھے تو عوض کرتے تھے کہ خدا کا پیغام جناب خدیجہ کو پہنچا دیجئے اور ان سے کہہ دیجئے کہ بہت خوبصورت قصر بہشت میں تمہارے لئے بنایا گیا ہے_(۲)

اسلام کا پہلا خانوادہ

اسلام میں پہلا گھر اور کنبہ کہ جس کی بنیاد پڑی وہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہ کا گھر تھا، اس گھر کا خانوادہ تین افراد پر مشتمل تھا_ جناب رسول خدا(ص) ، جناب خدیجہ اور حضرت علی علیہ السلام، یہ گھر انقلاب اسلامی کہ جو عالمی انقلاب کامرکز تھا اس پر بہت زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی تھی اس کے وظائف بہت زیادہ سخت تھے کیونکہ اسے کفر اور بت پرستی سے نبرد آزما ہونا تھا_

____________________

۱) تذکرة الخواص_ ص ۳۰۳_

۲) تذکرة الخواص_ ص ۳۰۲_

۱۸

توحید کے دین کو دنیا میں پھیلانا تھا، تمام عالم میں ایک گھر سے سوا اور کوئی اسلامی گھر موجود نہ تھا، لیکن توحید کی پہلی چھاونی کے فداکار سپاہیوں کا مصمم یہ ارادہ تھا کہ دینا (والوں) کے دلوں کو فتح کر کے ان پر عقیدہ توحید کا پرچم لہرائیں گے_ یہ طاقتور چھاؤنی ہر قسم سے لیس اور مسلح تھی، جناب رسول خدا(ص) ان کے سردار تھے کہ جن کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمد (ص) تو خلق عظیم کا مالک ہے _(۱)

آپ جناب خدیجہ کو بہت چاہتے تھے اور ان کااحترام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان سہیلیوں کو معزز سمجھتے تھے_

انس کہتے ہیں کہ جب کبھی آپ(ص) کے لئے ہدیہ لایا جاتا تھا تو آپ(ص) فرماتے کہ اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ جناب خدیجہ کی سہیلی تھیں_(۲)

اس گھر کی داخلی مدیر اور سردار جناب خدیجہ تھیں وہ جناب رسول خدا(ص) کے مقصد اور مقدس ہدف پر پورا ایمان رکھتی تھیں اور اس مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے کسی بھی کوشش و فداکاری سے دریغ نہیں کرتی تھیں_ اپنی تمام دولت کو جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے رکھا تھا اور عرض کیا تھا کہ یہ گھر اور اس کا تمام مال آپ کا ہے اور میں آپ کی کنیز اور خدمت گزار ہوں مصیبت کے وقت جناب رسول خدا(ص) کو تسلی دیا کرتیں، اور ہدف تک پہنچنے کی امید دلایا کرتیں، اگر کفار آپ کو آزار اور تکالیف پہنچاتے اور آپ گھر میں داخل ہوتے تو آپ(ص) جناب خدیجہ کی محبت اور شفقت کی وجہ سے تمام پریشانیوں کو فراموش کردیتے تھے، سخت حوادث او رمشکلات میں اس باہوش اور رشید خاتون سے مشورہ کیا کرتے تھے_

____________________

۱) سورہ قلم آیت ۴_

۲) سفینة البحار_ ج ۱_ ص ۳۸۰_

۱۹

جی ہاں اس مہر و محبت کے ماحول کے بعد پیغمبر(ص) کا ارادہ مستحکم ہوجاتا تھا، اس قسم کے فداکار ماں باپ کے باصفا گھر اور گرم خانوادگی میں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا متولد ہوئیں_

آسمانی دستور

ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابطح میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کی کہ خداوند عالم نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ چالیس دن رات آپ جناب خدیجہ سے علیحدگی اختیار کرلیں اور عبادت اور تہجد میں مشغول رہیں، پیغمبر اسلام(ص) اللہ تعالی کے حکم کے مطابق چالیس دن تک جناب خدیجہ کے گھر نہ گئے اور اس مدت میں رات کو نماز اور عبادت میں مشغول رہتے تھے اور دن میں روزے رکھتے تھے_

آپ(ص) نے عمار کے توسط سے جناب خدیجہ کو پیغام بھیجا کہ اے معزز خاتون میرا تم سے کنارہ کشی کرنا کسی دشمنی اور کدورت کی وجہ سے نہیں ہے تم پہلے کی طرح میرے نزدیک معزز اور محترم ہو بلکہ اس علیحدگی اور کنارہ گیری میں پروردگار کے حکم کی پیروی کر رہا ہوں، خدا مصالح سے آگاہ ہے اے خدیجہ تم بزرگوار خاتون ہو اللہ تعالی ہر روز کئی مرتبہ تیرے وجود سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، رات کو گھر کا دروازہ بند کر کے اپنے بستر پر آرام کیا کرو میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں میں اس مدت میں فاطمہ بنت اسد کے گھر رہوں گا_

جناب خدیجہ پیغمبر اسلام(ص) کی ہدایات کے مطالق عمل کرتیں، لیکن اس مدت میں اپنے محبوب کی جدائی میں غمگین رہتے ہوئے رویا کرتیں_

جب اسی طرح چالیس دن مکمل ہوگئے تو اللہ تعالی کی طرف سے فرشتہ نازل ہوا

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے

***

۴۱

میں نوحہ گر ہوں

امجد اسلام امجد

میں نوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں

اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں

زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر

مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں میں نو

حہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں

حُسین،

میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حُسین، تجھ کو سلام میرا

***

۴۲

آنسوؤں کے موسم میں

اقبال ساجد

حُسین تیرے لیے خواہشوں نے خوں رویا

فضائے شہرِ تمنّا بہت اداس ہوئی

*

غبارِ ظلم پہ رنگِ شفق بھڑک اٹھا

زمیں پہ آگ بگولا گُلوں کی باس ہوئی

*

غموں کو کاشت کیا آنسوؤں کے موسم میں

یہ فصل اب کے بہت دل کے آس پاس ہوئی

*

وہ پیاس جس کو سمندر سلام کرتے ہیں

ہوئی تو تیرے لبوں سے ہی روشناس ہوئی

*

جو تُو نے خون سے لکھی حُسین وہ تحریر

کتابِ حق و صداقت کا اقتباس ہوئی

*

کبھی بجھا نہ سکے گی ترے چراغ کی لو

کہ جمع تیری امانت ہوا کے پاس ہوئی

*

دکھوں میں ڈوب گئی دشتِ کربلا کی سحر

ہوائے شام ترے غم میں بد حواس ہوئی

***

۴۳

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

*

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

*

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

*

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

*

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

*

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

*

قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر

کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے

*

قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا

جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفیٰ سا ہے

***

۴۴

عبدالحمید عدم

تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین

وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

*

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق

کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین

*

وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند

درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین

*

کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے

نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین

*

وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی

گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین

***

۴۵

فارغ بخاری

حُسین نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے

حدیثِ حرمتِ انساں ہے سرخرو تجھ سے

*

ملایا خاک میں تُو نے ستمگروں کا غرور

یزیدیت کے ارادے ہوئے لہو تجھ سے

*

بہت بلند ہے تیری جراحتوں کا مقام

صداقتوں کے چمن میں ہے رنگ و بُو تجھ سے

*

ترے لہو کا یہ ادنیٰ سا اک کرشمہ ہے

ہوئی ہے عام شہادت کی آرزو تجھ سے

*

کبھی نہ جبر کی قوت سے دب سکا فارغ

ملی ہے ورثے میں یہ سر کشی کی خُو تجھ سے

***

۴۶

عطاء الحق قاسمی

جب بھی شام کو سورج ڈوبنے لگتا ہے

ایسے میں یہ دل بھی ڈولنے لگتا ہے

*

آنکھوں میں پھر جاتی ہے وہ سوہنی صورت

اور پھر دل پر خنجر چلنے لگتا ہے

*

اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں

خیموں میں کوئی بچہ رونے لگتا ہے

*

چاروں جانب گھیرا جھوٹ کے لشکر کا

سچ کا سایہ اس پر پھیلنے لگتا ہے

*

سچ کا سایہ حُر کی صورت سامنے ہے

وہ ہر دل پر دستک دینے لگتا ہے

*

حرص و ہوس کے بندے لیکن کیا جانیں

مرنے والا کیسے جینے لگتا ہے

*

لیکن تم مایوس نہ ہونا دل والو

دل جو سوچتا ہے وہ ہونے لگتا ہے

****

۴۷

خالد احمد

اے لب گرفتگی، وہ سمجھتے ہیں پیاس ہے

یہ خستگی تو اہلِ رضا کا لباس ہے

*

اے تشنگی، یہ حُسنِ محبت کے رنگ ہیں

اے چشمِ نم، یہ قافلۂ اہلِ یاس ہے

*

یہ عشق ہے کہ وسعتِ آفاقِ کربلا

یہ عقل ہے کہ گوشۂ دشتِ قیاس ہے

*

سایہ ہے سر پہ چادرِ صبر و صلوٰۃ کا

بادل کی آرزو ہے نہ بارش کی آس ہے

*

سوئے دمشق صبر کا سکہ رواں ہوا

اک رخ پہ ہے خراش تو اک رخ پہ لاس ہے

*

اے زینِ عابدین، امامِ شکستگاں

زنجیر زن ہواؤں میں کس خوں کی باس ہے

*

اے سر بلند و سر بہ فلک اہلِ دین و دل

مدفون کربلا میں ہماری اساس ہے

*

۴۸

تاجِ سرِ نیاز کا ہالہ ہے رفتگی

آہِ امامِ دل زدگاں آس پاس ہے

*

ممکن ہے کسطرح وہ ہماری خبر نہ لیں

ہر سانس، تارِ پیرہنِ التماس ہے

*

خالد شکست و فتح کے معنی بدل گئے

بازارِ شام ہے کہ شبِ التباس ہے

***

۴۹

محمد اعظم چشتی

جہانِ عشق و محبّت ہے آستانِ حُسین

نشانِ حق و صداقت ہے آستانِ حُسین

*

حدیثِ صدق و صفا، داستانِ صبر و رضا

بنائے شوقِ شہادت ہے آستانِ حُسین

*

جہاں میں مسکن و ماوا ہے اہلِ ایماں کا

دیارِ حُسنِ عقیدت ہے آستانِ حُسین

*

زمانہ کہتا ہے جس کو جمالِ لم یزلی

اسی جمال کی حجّت ہے آستانِ حُسین

*

نظر گئی مگر اب تک نہ لوٹ کر آئی

وہ برجِ اوجِ امامت ہے آستانِ حُسین

*

جو دیکھنا ہو تو میری نگاہ سے دیکھو

گناہ گاروں کی جنّت ہے آستانِ حُسین

*

یہیں سے جلتے ہیں اعظم حقیقتوں کے چراغ

ضیائے شمعِ نبوت ہے آستانِ حُسین

***

۵۰

رباعیات ۔

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر

نغمۂ بربطِ کونین ہے فریادِ حُسین

جادۂ راہِ بقا مسلک آزاد حُسین

شوخیِ لالۂ رنگین ہے کہیں خونِ شفق

کس قدر عام ہوئی سرخیِ رودادِ حُسین

***

زندہ اسلام کو کیا تُو نے

حق و باطل کو دکھا دیا تُو نے

جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے

مر کے جینا سکھا دیا تُو نے

***

بڑھائی دینِ مُحمد کی آبرو تُو نے

جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے

چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر

عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بُو تُو نے

***

لب پہ جب شاہِ شہیداں ترا نام آتا ہے

ساقی بادۂ عرفاں لیے جام آتا ہے

مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دے دیتے

کھوٹا سکہ بھی تو آقا کبھی کام آتا ہے

****

۵۱

سبط علی صبا

جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا

سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا

*

حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا

جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا

*

کچھ اس لیے بھی ترے نام کے ہوئے دشمن

تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا

*

کچھ اس طرح سے بہتر کا انتخاب کیا

کسی رسول کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا

*

حسین ابنِ علی کو نہ آفتاب کہو

وہ جب تھا جب کہ کہیں نامِ آفتاب نہ تھا

*

حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا

بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا

*

حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو

غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا

***

۵۲

گردھاری پرشاد باقی

سلامی کربلا ہے اور میں ہوں

غمِ کرب و بلا ہے اور میں ہوں

*

کہا شہ نے نہیں کوئی رفیق اب

فقط ذاتِ خدا ہے اور میں ہوں

*

دیا ہے اپنا سر میں نے خوشی سے

قضا ہے یا رضا ہے اور میں ہوں

*

جو کچھ وعدہ کیا پورا کروں گا

یہ خنجر ہے گلا ہے اور میں ہوں

***

۵۳

نظم طباطبائی

چمکا خدا کا نور عرب کے دیار میں

پھیلی شعاع ہند میں چین و تتار میں

*

پہنچا ستارہ اوج پہ دینِ حُسین کا

اب تک تھا گردشِ فلکِ کج مدار میں

*

چونکیں ذرا یہود و نصاریٰ تو خواب سے

آئی نسیم صبحِ شبِ انتظار میں

*

وردِ زبانِ پاک صحیفہ ہے نور کا

اترا تھا جو خلیل پہ گلزارِ نار میں

*

ہے یاد دشت میں گہر افشانیِ کلیم

اور موعظ مسیح کا وہ کوہسار میں

*

موسیٰ کی رات کی مناجات طُور پر

داؤد کا وظیفہ وہ صبح بہار میں

*

بت ہو گیا ہے سنگ سرِ بت پرست پر

سرکہ بنی شراب کہن بادہ خوار میں

*

وہ جام پی کے اٹھ گئے پردے نگاہ سے

دریائے علم و نور کو پایا کنار میں

***

۵۴

ثروت حسین

کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے

روشنی اب کے سوا آتی ہے

*

ساعتِ علم و خبر سے پہلے

منزلِ کرب و بلا آتی ہے

*

روزِ پیکار و جدل ختم ہوا

شبِ تسلیم و رضا آتی ہے

*

گریہ و گرد کا ہنگام نہیں

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے

*

پھر سرِ خاکِ شہیداں ثروت

پھول رکھنے کو ہوا آتی ہے

****

۵۵

صدائے استغاثہ

افتخار عارف

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گ

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا

صدیوں پہلے دشتِ بلا میں اک آواز

سنائی دی تھی

جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا مری امی کہتی تھی

یہ جو صفِ عزا بچھتی ہے اسی صدا کی

بازگشت ہے

اسی صدا پر بستی بستی گریہ و زاری کا

سامان کیا جاتا ہے

اور تجدیدِ بیعتِ نصرت کا اعلان کیا

جاتا ہے

تب میں پہروں بیٹھ کے پیارے پیارے

اچھے اچھے لوگوں کی باتیں سنتا تھا

سچے سچے لوگوں کی باتیں پڑھتا تھا اور پہروں روتا تھا

اور اب برسوں بیت گئے ہیں

۵۶

جن آنکھوں میں آنسو تھے اب ان آنکھوں میں حیرت ہے

سچائی کی گواہی دینے والے آخر ظالم کو

ظالم کہنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟

موت سے پہلے مرتے کیوں ہیں؟

***

۵۷

شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہ دار حسین

بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرار حسین

*

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیِ نجد میں اسلام کی للکار حسین

*

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت

اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حسین

*

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

*

ابو سفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہ دار حسین

*

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

*

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حسین

*

۵۸

دینِ قیم کے شہیدوں کا امامِ برحق

حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حسین

*

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حسین

*

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے دوچار حسین

***

۵۹

شہزاد احمد

وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے

کتنے بیدرد ہیں یہ لوگ زمانے والے

*

اہلِ کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں

کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے

*

رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی

کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے

*

فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟

آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے

*

ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابنِ علی

غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے

*

ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری

اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے

*

عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی

خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے

*

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293