فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون0%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيه الله ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 293
مشاہدے: 83645
ڈاؤنلوڈ: 3241

تبصرے:

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 83645 / ڈاؤنلوڈ: 3241
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اے رسول خدا(ص) کے اصحاب مجھے بعض نادانوں کی داستان پہنچی ہے حالانکہ تم اس کے سزاوار ہو کہ رسول خدا(ص) کے دستور کی پیروی کرو تم نے رسول(ص) کو جگہ دی تھی اور مدد کی تھی اسی لئے سزاوار ہے کہ تم رسول خدا(ص) کے دستور سے انحراف نہ کرو_ اس کے باوجود کل آنا اور اپنے وظائف اور حقوق لے جانا اور جان لو کہ میں کسی کے راز کو فاش نہیں کروں گا اور ہاتھ اور زبان سے کسی کو اذیت نہیں دوں گا مگر اسے جو سزا کا مستحق ہوگا(۱) _

جناب ام سلمہ(ع) کی حمایت

اس وقت جناب امّ سلمہ (ع) نے اپنا سر گھر سے باہر نکالا اور کہا اے ابوبکر، آیا یہ گفتگو اس عورت کے متعلق کر رہے ہو جسے فاطمہ (ع) کہتے ہیں اور جو انسانوں کی شکل میں حور ہے، اس نے پیغمبر(ص) کے دامن میں پرورش پائی اور فرشتوں سے مصافحہ کرتی تھی، اور پاکیزہ گود میں پرورش پائی ہے اور بہترین ماحول میں ہوش سنبھالا ہے_ آیا گمان کرتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو ارث سے محروم کیا ہے، لیکن خود اس کو نہیں بتلایا؟ حالانکہ خدا پیغمبر(ص) کو حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو انذاز کرو اور ڈراؤ یا تم احتمال دیتے ہو کہ پیغمبر(ص) نے تو اسے بتلایا ہو لیکن وہ اس کے باوجود وراثت کا مطالبہ کر رہی ہو، حالانکہ وہ عالم کی عورتوں سے بہترہے اور بہترین جوانوں کی ماں ہے

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۳۸_

۲۰۱

اور جناب مریم کے ہم پایہ ہے اور اس کا باپ خاتم پیغمبران ہے، خدا کی قسم رسول خدا(ص) فاطمہ (ع) کی گرمی اور سردی سے حفاظت کیا کرتے تھے اور سوتے وقت اپنا دایاں ہاتھ فاطمہ (ع) کے نیچے اور بایاں ہاتھ اس کے جسم پر رکھتے کرتے تھے، ذرا نرم ہوجاؤ اور آہستہ رونیؤ، ابھی تو رسول خدا(ص) تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں اور جلد ہی تم خدا کے حضور وارد ہوگے اور اپنے کئے کا نتیجہ دیکھو گے_ جناب امّ سلمہ نے جناب فاطمہ (ع) کی حمایت کی لیکن انہیں ایک سال تک حقوق سے محروم کردیا گیا(۱) _

قطع کلامی

جناب زہراء (ع) نے ارادہ کرلیا کہ اس کے باوجود بھی اپنے مبارزے کو باقی رکھیں، اپنے اس پروگرام کے لئے انہوں نے قطع کلام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور رسمی طور پر جناب ابوبکر کے متعلق اعلان کر دیا کہ اگر تم میرا فدک واپس نہیں کروگے تو میں تم سے جب تک زندہ ہوں گفتگو اور کلام نہیں کروں گی_ آپ کا جہاں کہیں بھی جناب ابوبکر سے آمنا سامنا ہوجاتا تو اپنا منھ پھیر لیتیں اور ان سے کلام نہ کرتی تھیں(۲) _

مگر جناب فاطمہ (ع) ایک عام فرد نہ تھیں کہ اگر انہوں نے اپنے خلیفہ سے قطع کلامی کی تو وہ چندان اہمیت نہ رکھتی ہو؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزیز بیٹی رسول خدا(ص) کی حد سے زیادہ محبت کسی پر پوشیدہ نہ

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۳۹_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۳_ شرح ابن ابی الحدید، ج ۶ ص ۴۶_

۲۰۲

تھی _ آپ وہ ہے کہ جس کے متعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے _ جو اسی اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے _(ا)

اور آپ فرماتے ہیں کہ فاطمہ (ع) ان عورتوں میں سے ہیں کہ جن کے دیدار کے لئے بہشت مشتاق ہے _(۲)

جی ہاں پیغمبر (ص) اور خدا کی محبوب خاتون نے جناب ابو بکر سے قطع کلامی کا مبارزہ کررہا ہے آپ ان سے بات نہیں کرتیں آہستہ آہستہ لوگوں میں شائع اور مشہور ہوگیا کہ پیغمبر(ص) کی دختر جناب ابوبکر سے رتھی ہوئی ہے اور ان پر خشمناک ہے _ مدینہ کے باہر بھی لوگ اس موضوع سے باخبر ہوچکے تھے تمام لوگ ایک دوسرے سے سؤال کرتے تھے کہ جنا ب فاطمہ (ع) کیوں خلیفہ کے ساتھ بات نہیں کرتیں ؟ ضرور اس کی وجہ وہی فدک کا زبردستی لے لینا ہوگا _ فاطمہ (ع) جھوٹ نہیں بولتیں اور اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف کسی پر غضبناک نہیں ہوتیں کیونکہ پیغمبر خدا (ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کی اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے _

____________________

ا_ صحیح مسلم ، ج ۳ ص ۰۳ا_

۲_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۲_

۳_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۸۴_

۲۰۳

اس طرح ملت اسلامی کے احساسات روزبروز وسیع سے وسیع تر ہو رہے تھے اور خلافت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا_ خلافت کے کارکن یہ تو کرسکتے تھے کہ جناب فاطمہ (ع) کے قطع روابط سے چشم پوشی کرلیتے جتنی انہوں نے کوشش کی کہ شاید وہ صلح کرادیں ان کے لئے ممکن نہ ہوسکا_ فاطمہ (ع) اپنے ارادے پر ڈٹی ہوئی تھیں اور اپنے منفی مبارزے کو ترک کرنے پر راضی نہ ہوتی تھیں_

جب جناب فاطمہ (ع) بیمار ہوئیں تو جناب ابوبکر نے کئی دفعہ جناب فاطمہ (ع) سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن اسے رد کردیا گیا، ایک دن جناب ابوبکر نے اس موضوع کو حضرت علی (ع) کے سامنے پیش کیا اور آپ سے خواہش کی آپ جناب فاطمہ (ع) کی عیادت کا وسیلہ فراہم کریں اور آپ سے ملاقات کی اجازت حاصل کریں_ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) کے پاس گئے اور فرمایا اے دختر رسول(ص) جناب عمر اور ابوبکر نے ملاقات کی اجازت چاہی ہے آپ اجازت دیتی ہیں کہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں، جناب زہرا (ع) حضرت علی (ع) کے مشکلات سے آگاہ تھیں آپ نے جواب دیا، گھر آپ کا ہے اور میں آپ کے اختیار میں ہوں جس طرح آپ مصلحت دیکھیں عمل کریں یہ فرمایا اور اپنے اوپر چادران لی اور اپنے منھ کو دیوار کی طرف کردیا_

جناب ابوبکر اور عمر گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ آپ ہم سے راضی ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ میں ایک بات تم سے پوچھتی ہوں اس کا مجھے جواب دو، انہوں نے عرض کی فرمایئےآپ نے فرمایا تمہیں خدا کی قسم دیتی ہوں___ کہ آیا تم نے میرے باپ سے یہ سنا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ

۲۰۴

فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے انہوں نے عرض کیا ہاں ہم نے یہ بات آپ کے والدسے سنی ہے اس وقت آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا اے میرے خدا گواہ رہ کہ ان دو آدمیوں نے مجھے اذیت دی ہے ان کی شکایت تیری ذات اور تیرے پیغمبر(ص) سے کرتی ہوں میں_ ہرگز راضی نہ ہوں گی یہاں تک کہ اپنے بابا سے جاملوں اور وہ اذیتیں جو انہوں نے مجھے دی ہیں ان سے بیان کروں تا کہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کریں جناب ابوبکر جناب زہرا (ع) کی یہ بات سننے کے بعد بہت غمگین اور مضطرب ہوئے لیکن جناب عمر نے کہا اے رسول (ص) کے خلیفہ، ایک عورت کی گفتگو سے ناراحت ہو رہے ہو(۱) _

یہاں پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ بات آسکتی ہے کہ وہ کہیں کہ گرچہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے فدک لے کر اچھا کام نہیں کیا تھا لیکن جب وہ پشیمانی اور ندامت کا اظہار کر رہے ہیں تو اب مناسب یہی تھا کہ ان کا عذر قبول کرلیا جاتا لیکن اس نکتہ سے غافل نہیں رہتا چاہیئے کہ حضرت زہرا (ع) کے مبارزے کی اصلی علت اور وجہ خلافت تھی فدک کا زبردستی لے لینا اس کے ذیل میں آتا تھا اور خلافت کا غصب کرنا ایسی چیز نہ تھی کہ جسے معاف کیا جاسکتا ہو اور اس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہو اور پھر جناب زہراء (ع) جانتی تھیں کہ حضرت ابوبکر یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں تا کہ اس اقدام سے عوام کو دھوکہ میں رکھا جاسکے اور وہ اپنے کردار پر نادم اور پشیمان نہ تھے کیونکہ ندامت کا طریقہ عقلا کے لحاظ سے یہ تھا کہ وہ حکم دیتے کہ فدک کو فوراً جناب فاطمہ (ع) کے حوالے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۲۰۵

کردو اور اس کے بعد آپ آتے اور معاف کردینے کی خواہش کرتے اور کہتے کہ ہم اپنے اس اقدام پر پشیمان اور نادم ہوچکے ہیں تو اس بات کو صداقت پر محمول کیا جاسکتا تھا_

شب میں تدفین

جناب زہراء (ع) اپنے ہدف اور مقصد میں اس قدر استقامت رکھتی تھیں کہ اس کے لئے اپنی زندگی کی آخری گھڑی میں بھی مبارزہ کرتی گئیں بلکہ اپنے مبارزہ کا دامن قیامت تک پھیلا گئیں پڑھنے والوں کو تعجب ہوگا کہ کسی شخص کے لئے کیسے ممکن ہوگا کہ وہ اپنے مبارزہ اور مقابلے کو موت کے بعد بھی باقی رکھے، لیکن فاطمہ (ع) کہ جس نے وحی کے گھر میں تربیت حاصل کی تھی ایک ایسا منصوبہ بتایا تا کہ ان کا مبارزہ اور مقابلہ موت کے وقت تک ختم نہ ہوجائے_ جناب زہراء (ع) نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے شوہر علی (ع) کو بلایا اور وصیت کی اے علی (ع) مجھے رات کو غسل دیتا اور رات کو کفن دینا اور مخفی طور پر دفن کرنا_ میں راضی نہیں ہوں کہ جن لوگوں نے میرا پہلو زخمی کیا ہے جس سے میرا بچہ ساقط ہوا اور میرے مال پر قبضہ کرلیا ہے وہ میرے جنازے کی تشیع کریں_ میری قبر کو بھی چھپاکر رکھنا_ حضرت علی (ع) نے بھی جناب زہراء (ع) کی وصیت کے مطابق آپ کو رات میں دفن کیا اور آپ کی قبر کو ہموار کردیا اور چالیس قبریں نئی بنائیں کہ کہیں آپ کی قبر پہچانی نہ جائے(۱) _

حضرت زہراء (ع) نے اس منصوبے اور نقشے سے اپنے حریف پر آخری وار

____________________

۱) دلائل الامامہ_ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۶۳_

۲۰۶

کیا اور ایک زندہ اور مضبوط سند اپنی مظلومیت اور حکومت کی زبردستی کے لئے ہمیشہ کے لئے باقی چھوڑ گئیں_

کیونکہ ہر مسلمان یہ چاہے گا کہ اسے علم ہو کہ پیغمبر اسلام(ص) کی عزیز بیٹی کی قبر کہاں ہے جب اسے معلوم ہوگا کہ اس کی قبر معلوم نہیں ہے تو پوچھے گا کیوں؟ جواب سنے گا خود جناب زہرا (ع) نے وصیت کی تھی کہ اس کی قبر مخفی رکھی جائے_ اس وقت اسے قبر کے مخفی ہونے کی علت معلوم ہوجائے گی اور سمجھ لے گا کہ آپ وقت کی خلافت سے ناراض تھیں اور آپ کا جنازہ اس محیط خفیہ آور میں دفن ہوا اس وقت سوچے گا کہ ہوسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کی دختر ان فضائل اورکمالات کے باوجود اپنے باپ کے خلیفہ سے ناراض ہوں اور پھر اس کی خلافت بھی درست اور صحیح ہو؟ یہ چیز ممکن نہیں پس معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خلافت پیغمبر(ص) اور ان کے خاندان کے نظریئے کے خلاف واقع ہوئی تھی جو کسی طرح بھی صحیح قرار نہیں دی جاسکتی_

نتیجہ

گرچہ جناب ابوبکر جناب زہراء (ع) کے دلائل اور مبارزات کے سامنے ڈٹے رہے اور حاضر نہ ہوئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو واپس کردیں لیکن انہی حضرت زہراء (ع) نے انہیں مبارزات کے ذریعے عالم اسلام پر خلافت اور حکومت کی زیادتیوں اور اپنی حقانیت کو ثابت کردیا_ یہی فدک خلافت کے لئے ایک بم اور مثل استخوان کے ثابت ہوا جوان کے گلے میں پھنس کررہ گیا بہت مدت تک وہ حکومت کا نقطہ ضعف اور ایک اہم پروپیگنڈا اس کے خلاف شمار ہوتا ر ہا کے حل سے عاجز تھے_ کبھی سادات کی موافقت

۲۰۷

حاصل کرنے کے لئے فدک ان کو دے دیا جاتا تھا اور کبھی ان سے خشمناک ہوتے تھے تو واپس لے لیا جاتا تھا_ جب معاویہ کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو اس نے فدک ک ایک تہائی مروان کو اور ایک تہائی عمر بن عثمان کو اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو بخش دیا_ مروان کی خلافت کے زمانے میں پورا فدک اس کے اختیار میں تھا اور اس نے اسے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو دے دیا عبدالعزیز نے اسے اپنے بیٹے عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا اور جب عمر بن عبدالعزیز خلافت پر متمکن ہوا تو فدک کو جناب حسن بن حسن یا علی بن الحسین کو واپس کردیا_

عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے دوران فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کے ہاتھ میں رہا اور جب یزید بن عاتکہ کو حاکم بنایاگیا تو اس نے فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد سے لے لیا اور پھر بنی مروان کے قبضے میں دے دیا، یہ ان کے پاس رہا یہاں تک کہ خلافت ان کے ہاتھ سے نکل گئی_ جب صفّاح خلافت پر قابض ہوا تو اس نے فدک جناب عبداللہ بن حسن کو دے دیا اور جب ابوجعفر عباسی اولاد حسن پر غضبناک ہوا تو فدک ان سے واپس لے لیا اس کے بعد پھر مہدی عباسی نے فدک فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کردیا، اس کے بعد موسی بن مہدی اور ہارون نے اسے واپس لے لیا اور اس کے پاس مامون کے حاکم بننے تک رہا اور اس نے پھر فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کردیا_

ایک دن مامون قضاوت کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خط اسے دیا گیا، جب اس نے اسے پڑھا تو رود یا اس کے بعد کہا کہ فاطمہ (ع) کا وکیل کون ہے اور کہاں ہے؟ ایک بوڑھا آدمی اٹھا اور اس کے نزدیک گیا_ مامون نے فدک کے بارے میں اس سے مباحثہ شروع کردیا وہ بوڑھا اس پر غالب آیا_ تو

۲۰۸

مامون نے حکم دیا کہ فدک کو قبالہ کی صورت میں لکھ کر اسے دے دیا جائے اس کے بعد یہ فاطمہ (ع) کی اولاد کے پاس متوکل کے زمانے تک رہا اس نے فدک کو عبداللہ بن عمر بازیار کو دے دیا_

فدک میں خرما کے گیارہ درخت ایسے تھے کہ جنہیں خود رسول اللہ (ص) نے لگایا تھا فاطمہ (ع) کی اولاد ان د رختوں سے خرمالے کرحج کے موقع پر حاجیوں کو ہدیہ دیتیں اور حاجی ان کے عوض ان کی اچھی خاصی مدد کردیتے اور ان کے پاس اس ذریعہ سے اچھا خاصہ مال اکٹھا ہوجاتا_ عبداللہ بن عمر بازیار نے بشر ان بن ابی امیہ ثقفی کو بھیجا اور ان درختوں کو کٹوادیا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) کے مبارزات کا ہی نتیجہ تھا کہ جناب عمر باوجود اس سختی کے جو اس کے وجود میں تھی، جناب فاطمہ (ع) کو صدقات مدینہ بلکہ جو بھی جناب فاطمہ (ع) کے ادّعا میں داخل تھے انہیں واپس کردیئےھے(۲) _

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۰_

۲۰۹

حصہ ششم

جناب فاطمہ موت کے نزدیک

۲۱۰

جناب فاطمہ (ع) باپ کی وفات کے بعد چند مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہیں، اور اسی طرح تھوڑی مدت میں بھی اتنا روئیں کہ آپ کو زیادہ رونے والوں میں سے ایک قرار دیا گیا آپ کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا گیا(۱) _

جناب زہرا (ع) کے رونے کے مختلف عوامل اور سبب تھے سب سے زیادہ اہم سبب کہ جو آپ کی غیور اور احساس روح کو ناراحت کرتا تھا وہ یہ تھا کہ آپ دیکھ رہی تھیں کہ اسلام کی جوان ملت اپنے حقیقی اور صحیح راستے سے ہٹ گئی ہے اور ایک ایسے راستے پر گامزن ہوگئی ہے کہ بدبختی اور تفرقے اس کا حتمی انجام ہے_

چونکہ حضرت زہرا (ع) نے اسلام کی ترقی، سریع اور پیشرفت کو دیکھا تھا آپ کو توقع تھی کہ اسی طرح اسلام ترقی کرے گا اور تھوڑی سی مدت میں کفر اور بت پرستی کو ختم کرکے رکھ دے گا اور ستم کا قلع قمع کردے گا، لیکن خلافت کے اصلی محور سے ہٹنے کی غیر متوقع صورت حال نے آپ کی امیدوں کے محل کو یکدم گرادیا_

____________________

۱) طبقات ابن سعد، ج ۲ ص ۸۵_

۲۱۱

ایک دن جناب ام سلمہ جناب فاطمہ (ع) کے پاس آئیں اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آج رات صبح تک کیئے گزری؟ آپ نے فرمایا کہ غم و اندوہ میں کٹی_ بابا مجھ سے جدا ہوگئے اور شوہر کی خلافت لے لی گئی اللہ اور رسول (ص) کے دستور کے خلاف امامت اور خلافت کو علی سے چھپناگیا کیوں کہ لوگوں کو علی (ع) سے کینہ تھا چوں کہ وہ ان لوگوں کے آباء و اجداد کو بدر کی جنگ میں قتل کرچکے تھے(۱) _

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے ایک دن اپنے باپ کی قمیص مجھ سے طلب کی جب میں نے ان کی قمیص انہیں دی تو اسے ا؟ نے سونگھا اور رونا شروع کردیا اور اتنا روئیں کہ آپ بیہوش ہوگئیں میں نے جب یہ حالت دیکھی تو میں نے آپ کی قمیص ان سے چھپادی(۲) _

روایت میں ہے کہ جب پیغمبر(ص) وفات پاگئے تو بلال نے جو آپ کے مخصوص موذن تھے اذان دینی بند کردی تھی ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپ کے موذن کی اذان سنو_ بلال نے جناب فاطمہ (ع) کے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اللہ اکبر کہا، جناب فاطمہ (ع) کو اپنے باپ کے زمانے کی یا آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو جناب فاطمہ (ع) نے باپ کے نام سننے پر ایک چیخ ماری اور غش کرگئیں_ بلال کو خبر دی گئی کہ آذان دینا بند کردو کیونکہ فاطمہ (ع) بیہوش ہوگئیں ہیں_ بلال نے آذان روک دی جب جناب فاطمہ (ع) کو ہوش آیا تو بلال سے کہا کہ اذان کو پورا کرو انہوں نے عرض کی کہ آپ اگر اجازت دیں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۵_

۲۱۲

تو باقی اذان نہ کہوں کیوں کہ مجھے آپ کے بے ہوش ہونے کا خوف ہے(۱) _

جناب فاطمہ (ع) اتنا روئیں کہ آپ کے رونے سے ہمسائے تنگ آگئے وہ حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارا سلام جناب فاطمہ (ع) کو پہنچادیں اور ان سے کہیں کہ یا رات کو روئیں اور دن کو آرام کریں یا دن کو روئیں اور رات کو آرام کریں کیونکہ آپ کے رونے ہمارا آرام ختم کردیا ہے جناب فاطمہ (ع) نے ان کے جواب میں فرمایا کہ میری عمر ختم ہونے کو ہے میں زیادہ دنوں تک تم میں موجود نہ رہوں گی_ آپ دن میں امام حسن (ع) اور حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتیں اور جناب رسول خدا (ص) کی قبر پر چلی جاتیں اور وہاں رویا کرتیں اور اپنے بیٹوں سے کہتیں میرے پیارو یہ تہارے نانا کی قبر ہے کہ جو تمہیں کندھے پر اٹھایا کرتے تھے اور تمہیں دوست رکھتے تھے اس کے بعد آپ بقیع کے قبرستان میں شہداء کی قبر پر جاتیں اور صدر اسلام کے سپاہیوں پر گریہ کرتیں حضرت علی (ع) نے آپ کے آرام کے لئے بقیع میں سائبان بنادیا تھا کہ جسے بعد میں بیت الحزن کے نام سے پکارا جانے لگا(۲) _

انس کہتا ہے کہ جب ہم پیغمبر (ص) کے دفن سے فارغ ہوچکے اور گھر واپس لوٹ آئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے انس کس طرح راضی ہوئے کہ پیغمبر(ص) کے بدن پر مٹی ڈالو(۳) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۷_

۳) اسد الغابة ابن اثیر، ج ۵ ص ۵۲۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ رقم ۲ ص ۸۳_

۲۱۳

محمود بن بسید کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد کی وفات کے بعد جناب حمزہ کی قبر پر گریہ کرتی تھیں ایک دن میرا گزر احد کے شہدا سے ہوا تو میں نے فاطمہ (ع) کو دیکھا کہ جناب حمزہ کی قبر پر بہت سخت گریہ کر رہی ہیں میں نے صبر کیا یہاں تک کہ آپ نے توقف کیا، میں سامنے گیا اور سلام کیا اور عرض کی اے میری سردار آپ نے اپنے اس جانگداز گریہ سے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے حق پہنچتا ہے کہ اس طرح کا گریہ کروں کیونکہ میں نے کیسا مہربان باپ اور پیغمبروں میں بہترین پیغمبر اپنے ہاتھ سے کھودیا ہے، کتنا آپ کی زیارت کا مجھ میں شوق موجود ہے_ میں نے عرض کی اے میری سردار میں دوست رکھتا ہوں کہ آپ سے ایک مسئلہ پوچھوں آپ نے فرمایا کہ پوچھو_ میں نے عرض کیا رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں حضرت علی (ع) کی امامت کی تصریح کردی تھی آپ نے فرمایا تعجب ہے_ کیا تم نے غدیر کا واقعہ بھلادیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ غدیر کا واقعہ تو میں جانتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں یہ معلوم کروں کہ جناب رسول خدا(ص) نے اس بارے میں آپ سے کیا فرمایا ہے_ آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد علی (ع) میرا خلیفہ اور امام ہے اگر اس کی اطلاعت کی تو ہدایت پاؤگے اور اگر اس کی مخالفت کی تو قیامت کے دن تک تم میں اختلاف موجود رہے گا(۱) _

____________________

۱) ریاحین الشریعہ، ج ۱ ص ۲۵۰_

۲۱۴

فاطمہ (ع) بیماری کے بستر پر جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب قنفذ کی ان ضربات سے جو اس نے جناب فاطمہ (ع) کے نازنین جسم پر لگائی تھیں آپ کے بچے کا اسقاط ہوگیا اور اسی وجہ _ سے آپ ہمیشہ بیمار اور ضعیف رہیں یہاں تک کہ آپ بالکل بستر سے لگ گئیں(۱) _

حضرت علی (ع) اور جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمارداری کیا کرتے تھے(۲) _

ایک دن انصار اور مہاجرین کی عورتوں کی ایک جماعت آپ کی مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوئی اور عرض کی اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کی حالت کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا قسم خدا کی میں دنیا سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی تمہارے مردوں سے جب ان کا امتحان کرچکی ہوں تو دلگیر ہوں اور انہیں دور پھینک دیا ہے اور ان کے ہاتھ سے ملول خاطر ہوں_ ان کی متزلزل رائے اور سست عقیدہ اور ان کی بے حالی پر اف ہو_ کتنا برا انہوں نے کام انجام دیا ہے اور غضب الہی کے مستحق بنے ہیں؟ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہیں_ ہم نے خلافت اور امامت کو ان کے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے_ لیکن اس کا عار اور ننگ ان کے دامن پر ہمیشہ رہے گا، ظلم کرنے والوں پر ذلت اور خواری ہوا کرتی ہے ان کی حالت پر افسوس اور روائے ہو_ کس طرح انہوں نے حضرت علی (ع) سے خلافت کو چھینا ہے خدا کی قسم ان کا علی (ع) سے دور ہٹنا اس کے

____________________

۱) دلائل امامہ ص ۴۵_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۷۰ ۱_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۱_

۲۱۵

علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ حضرت علی (ع) کی کاٹنے والی تلوار اور بہادری اور خدا کی راہ میں سخت حملے کرنے سے خوش نہ تھے_

خدا کی قسم اگر خلافت علی (ع) کے ہاتھ سے نہ لی ہوتی اور علی (ع) ان کی حکومت کی زمام اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو وہ بہت آسانی سے انہیں خوش بختی اور سعادت کی طرف ہدایت کرتے اور بہت جلد ریاست طلب کا متقی اور سچے کا جھوٹے سے امتیاز ہوجاتا بہت جلد ظالم اپنے اعمال کی سزا پالیتا، ان لوگوں کا کام بہت زیادہ تعجب آور ہے، ایسا کیوں کیا انہوں نے؟ کس دلیل پر انہوں نے اعتماد اور تکیہ کیا ہے؟ کون سی رسی سے تمسک کیا ہے؟ اور کس خاندان کے خلاف انہوں نے اقدام کیا ہے؟ علی (ع) کی جگہ کس کا انتخاب کیا ہے؟ خدا کی قسم علی (ع) کی جگہ اتنی لیاقت والے کو نہیں لائے؟ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کام کیا ہے، حالانکہ انہوں نے غیر معقول کام انجام دیا ہے_ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے اصلاح کی جگہ فساد اور فتنے کو ایجاد کیا ہے_ آیا وہ شخص جو لوگوں کو ہدایت کی طرف لے جائے رہبری کے لئے بہتر ہے یا وہ شخص جو ابھی ہدایت پانے کا دوسروں کی طرف محتاج ہو تم کس طرح فیصلہ دیتی ہو؟ خدا کی قسم ان کے کردار اور آئندہ آنے والے حالات کا نتیجہ بعد میں ظاہر ہوگا لیکن تمہیں معلومم ہونا چاہیئے کہ سوائے تازہ خون اور قتل کرنے والے زہر کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا_

اس وقت ظلم کرنے والوں کا نقصان میں ہونا ظاہر ہوجائے گا_ اب تم ناگوار واقعات کے لئے تیار ہوجاؤ اور کاٹنے والی تلواروں اور دائمی گڑبڑ اور ڈکٹیٹر شپ کا انتظار کرو_ تمہارے بیت المال کو لوٹیں گے اور تمہارے منافع کو اپنی جیب میں ڈالیں گے تمہاری حالت پر افسوس_ اس

۲۱۶

طرح کیوں ہوگئے ہو؟ تمہیں علم نہیں کہ کس خطرناک راستے پر چل پڑے ہو؟ نتائج سے نا واقف ہو؟ کیا ہم تم کو ہدایت پر مجبور کرسکتے ہیں جب کہ تم ہدایت کی طرف جانے کو پسند نہیں کرتے(۱) _

زیادہ غم و اندوہ

جناب زہراء (ع) کی بیماری اور کمزوری کی وجہ صرف سابقہ بیماری ہی نہ تھی بلکہ غم اور افکار اور زیادہ پریشانیاں بھی آپ پر بہت زیادہ روحانی فشار کا موجب بنی ہوئی تھیں جب بھی آپ اپنے چھوٹے سے کمرے میں چمڑے کے فرش پر گھاس سے پر کئے ہوئے سرہانہ پر تکیہ کر کے سو رہی ہوتی تھیں تو آپ پر مختلف قسم کے افکار ہجوم کرتے_ آہ کس طرح لوگوں نے میرے باپ کی وصیت پر عمل نہیں کیا اور میرے شوہر سے خلافت کو لے لیا؟ خلافت کے لے لینے کے آثار اور خطرناک نتائح قیامت تک باقی رہیں گے_ جو خلافت ملت پر زبردستی اور حیلہ بازی سے مسلط کی جائے اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا_ مسلمانوں کی ترقی اور پیشرفت کی علت ان کا اتحاد اور اتفاق تھا وہ کتنا بڑا سرمایہ اور طاقت ان سے چھن گیا ہے؟ ان میں اندرونی اختلاف پیدا کردیئے گئے ہیں_ اسلام کے اقتدار کی تنہا جو طاقت تھی وہ پراگندگی اور اختلاف میں تبدیل کردی گئی ہے_ اسلام کو انہوں نے کمزوری اور پراگندگی اور ذلت

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۷_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۶۱_ شرح ابن ابی الحدید ج ۱۶ ص ۲۳۳_ بلاغات النساء ص ۱۹_

۲۱۷

کے راستے پر ڈال دیا ہے_

آہ کیا میں رسول(ص) کی عزیز وہی فاطمہ (ع) نہیں ہوں جو اب بیماری کے بستر پر پڑی ہوئی ہوں اور اسی امت کے ضربات سے درود کرب سے نالاں ہوں اور موت کا مشاہدہ کر رہی ہوں؟ پس پیغمبر(ص) کی وہ تمام سفارشیں کہاں گئیں؟ خدایا علی (ع) اس بہادری اور شجاعت کے باوجود کہ جو ان میں میں دیکھتی ہوں کس طرح گرفتار اور مجبور ہوگئے ہیں کہ اسلام کے مصالح کی حفاظت کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اپنے صحیح حق کے جانے پر سکوت کو اختیار کر بیٹھے؟ آہ میری موت نزدیک ہوگئی اور جوانی کے عالم میں اس دنیا سے جارہی ہوں اور دنیا کے غم اور غصے سے نجات حاصل کر رہی ہوں لیکن اپنے یتیم بچوں کا کیا کروں؟ حسن (ع) اور حسین (ع) ، زینب اور کلثوم بے سرپرست اور یتیم ہوجائیں گے ، آہ کتنی مصیبت میرے ان جگر گوشوں پر وارد ہوں گی میں نے ک ئی دفعہ اپنے باپ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ تیرے حسن (ع) کو زہر دے دیں گے اور حسین (ع) کو تلوار سے قتل کردیں گے ابھی سے اس پیشین گوئی کی علامتیں ظاہر ہونے لگی ہیں_

آپ کبھی اپنے چھوٹے سے حسین (ع) کو گود میں لے کر ان کی گردن کا بوسہ لیتیں اور ان کے مصائب پر آنسو بہاتیں اور کبھی آپ اپنے حسن (ع) کو سینے سے لگالیتیں اور ان کے معصوم لبوں پر بوسہ دیتیں اور کبھی زینب و کلثوم پر وارد ہونے والی مصیبتیں اور واقعات کو یاد کرتیں اور ان کے لئے گریہ کرتیں_

جی ہاں اس قسم کے پریشان کرنے والے افکار جناب زہراء (ع) کو تکلیف اور رنج دیتے تھے اور آپ دن بدن کمزور اور ضعیف ہوتی جا رہی تھیں_

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) وفات کے وقت رو

۲۱۸

رہی تھیں حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ کے مستقبل کے واقعات اور مصائب پر رو رہی ہوں_ حضرت علی (ع) نے فرمایا آپ نہ روئیں، قسم خدا کی اس قسم کے واقعات میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے(۱) _

ناپسندیدہ عیادت

مسلمانوں کی عورتیں اور پیغمبر(ص) کی رشتہ دار عورتوں اور پیغمبر(ص) کے خاص اصحاب کبھی نہ کبھی جناب فاطمہ (ع) کی احوال پرسی اور عیادت کرتے تھے لیکن جناب عمر اور ابوبکر آپ کی عیادت سے روکے گئے تھے کیوں کہ جناب زہراء (ع) نے پہلے سے ارادہ کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ قطع کلام رکھیں گی اس لئے آپ انہیں عیادت اور ملاقات کی اجازت نہ دیتی تھیں آہستہ آہستہ اراکین خلافت میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں جناب فاطمہ (ع) فوت نہ ہوجائیں اور وقت کے خلیفہ سے ناراض رہ کر انتقال کر گئیں تو یہ قیامت تک ان کے دامن پر ننگ اور رعار کا دہبہ لگ جائے گا اسی لئے وہ عمومی افکار کے دباؤ میں تھے اور مجبور تھے کہ کسی طرح جناب فاطمہ (ع) کی عبادت کریں لہذا حضرت علی (ع) سے انہوں نے با اصرار تقاضہ کیا کہ ان کی ملاقات کے اسباب فراہم کریں _ حضرت علی (ع) جناب فاطمہ (ع) کے پاس آئے اور فرمایا اے دختر رسول (ص) ان دو آدمیوں نے آپ کی عیادت کرنے کی آپ سے اجازت چاہی ہے_ آپ کی اس میں کیا رائے ہے؟

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۸_

۲۱۹

حضرت زہرا ء (ع) حضرت علی (ع) کی حالت سے بخوبی واقف تھیں آپ نے عرض کیا گھر آپ کا ہے اور میں آپ کے اختیار میں ہوں آپ جس طرح مصلحت دیکھیں اس پر عمل کریں؟ آپ نے یہ کہا اور اپنے سر کے اوپر چادر اوڑھ لی اور دیوار کی طرف منھ کرلیا، دونوں آدمی اندر آئے اور اسلام کیا اور احوال پرسی کی اور عرض کیا کہ ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں، آپ ہم سے راضی ہوجائیں_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ میں ایک چیز تم سے پوچھنا چاہتی ہوں اس کا جواب دو، انہوں نے عرض کی کہ فرمایئےآپ نے فرمایا کہ تمہیں خدا کی قسم دیتی ہوں کہ آیا تم نے رسول خدا(ص) سے یہ سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو اسے اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے، انہوں نے عرض کی ہاں ہم نے یہ حدیث آپ کے والد سی سنی ہے_ آپ نے اس کے بعد اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا اے میرے خدا تو گواہ رہنا کہ انہوں نے مجھے اذیت دی ہے، ان کی شکایت تجھ سے اور تیرے رسول (ص) سے کروں گی، نہیں میں ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گی یہاں تک کہ والد سے ملاقات کروں، تمہارے کردار اور رفتار کو ان سے بیان کروں گی تا کہ وہ(ع) ہمارے درمیان قضاوت کریں(۱) _

فاطمہ (ع) کی وصیت

جناب زہراء (ع) کی بیماری تقریباً چالیس دن تک

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۲۲۰