فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون13%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102155 / ڈاؤنلوڈ: 4605
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اے رسول خدا(ص) کے اصحاب مجھے بعض نادانوں کی داستان پہنچی ہے حالانکہ تم اس کے سزاوار ہو کہ رسول خدا(ص) کے دستور کی پیروی کرو تم نے رسول(ص) کو جگہ دی تھی اور مدد کی تھی اسی لئے سزاوار ہے کہ تم رسول خدا(ص) کے دستور سے انحراف نہ کرو_ اس کے باوجود کل آنا اور اپنے وظائف اور حقوق لے جانا اور جان لو کہ میں کسی کے راز کو فاش نہیں کروں گا اور ہاتھ اور زبان سے کسی کو اذیت نہیں دوں گا مگر اسے جو سزا کا مستحق ہوگا(۱) _

جناب ام سلمہ(ع) کی حمایت

اس وقت جناب امّ سلمہ (ع) نے اپنا سر گھر سے باہر نکالا اور کہا اے ابوبکر، آیا یہ گفتگو اس عورت کے متعلق کر رہے ہو جسے فاطمہ (ع) کہتے ہیں اور جو انسانوں کی شکل میں حور ہے، اس نے پیغمبر(ص) کے دامن میں پرورش پائی اور فرشتوں سے مصافحہ کرتی تھی، اور پاکیزہ گود میں پرورش پائی ہے اور بہترین ماحول میں ہوش سنبھالا ہے_ آیا گمان کرتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو ارث سے محروم کیا ہے، لیکن خود اس کو نہیں بتلایا؟ حالانکہ خدا پیغمبر(ص) کو حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو انذاز کرو اور ڈراؤ یا تم احتمال دیتے ہو کہ پیغمبر(ص) نے تو اسے بتلایا ہو لیکن وہ اس کے باوجود وراثت کا مطالبہ کر رہی ہو، حالانکہ وہ عالم کی عورتوں سے بہترہے اور بہترین جوانوں کی ماں ہے

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۳۸_

۲۰۱

اور جناب مریم کے ہم پایہ ہے اور اس کا باپ خاتم پیغمبران ہے، خدا کی قسم رسول خدا(ص) فاطمہ (ع) کی گرمی اور سردی سے حفاظت کیا کرتے تھے اور سوتے وقت اپنا دایاں ہاتھ فاطمہ (ع) کے نیچے اور بایاں ہاتھ اس کے جسم پر رکھتے کرتے تھے، ذرا نرم ہوجاؤ اور آہستہ رونیؤ، ابھی تو رسول خدا(ص) تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں اور جلد ہی تم خدا کے حضور وارد ہوگے اور اپنے کئے کا نتیجہ دیکھو گے_ جناب امّ سلمہ نے جناب فاطمہ (ع) کی حمایت کی لیکن انہیں ایک سال تک حقوق سے محروم کردیا گیا(۱) _

قطع کلامی

جناب زہراء (ع) نے ارادہ کرلیا کہ اس کے باوجود بھی اپنے مبارزے کو باقی رکھیں، اپنے اس پروگرام کے لئے انہوں نے قطع کلام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور رسمی طور پر جناب ابوبکر کے متعلق اعلان کر دیا کہ اگر تم میرا فدک واپس نہیں کروگے تو میں تم سے جب تک زندہ ہوں گفتگو اور کلام نہیں کروں گی_ آپ کا جہاں کہیں بھی جناب ابوبکر سے آمنا سامنا ہوجاتا تو اپنا منھ پھیر لیتیں اور ان سے کلام نہ کرتی تھیں(۲) _

مگر جناب فاطمہ (ع) ایک عام فرد نہ تھیں کہ اگر انہوں نے اپنے خلیفہ سے قطع کلامی کی تو وہ چندان اہمیت نہ رکھتی ہو؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزیز بیٹی رسول خدا(ص) کی حد سے زیادہ محبت کسی پر پوشیدہ نہ

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۳۹_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۳_ شرح ابن ابی الحدید، ج ۶ ص ۴۶_

۲۰۲

تھی _ آپ وہ ہے کہ جس کے متعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے _ جو اسی اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے _(ا)

اور آپ فرماتے ہیں کہ فاطمہ (ع) ان عورتوں میں سے ہیں کہ جن کے دیدار کے لئے بہشت مشتاق ہے _(۲)

جی ہاں پیغمبر (ص) اور خدا کی محبوب خاتون نے جناب ابو بکر سے قطع کلامی کا مبارزہ کررہا ہے آپ ان سے بات نہیں کرتیں آہستہ آہستہ لوگوں میں شائع اور مشہور ہوگیا کہ پیغمبر(ص) کی دختر جناب ابوبکر سے رتھی ہوئی ہے اور ان پر خشمناک ہے _ مدینہ کے باہر بھی لوگ اس موضوع سے باخبر ہوچکے تھے تمام لوگ ایک دوسرے سے سؤال کرتے تھے کہ جنا ب فاطمہ (ع) کیوں خلیفہ کے ساتھ بات نہیں کرتیں ؟ ضرور اس کی وجہ وہی فدک کا زبردستی لے لینا ہوگا _ فاطمہ (ع) جھوٹ نہیں بولتیں اور اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف کسی پر غضبناک نہیں ہوتیں کیونکہ پیغمبر خدا (ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کی اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے _

____________________

ا_ صحیح مسلم ، ج ۳ ص ۰۳ا_

۲_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۲_

۳_ کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۸۴_

۲۰۳

اس طرح ملت اسلامی کے احساسات روزبروز وسیع سے وسیع تر ہو رہے تھے اور خلافت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا_ خلافت کے کارکن یہ تو کرسکتے تھے کہ جناب فاطمہ (ع) کے قطع روابط سے چشم پوشی کرلیتے جتنی انہوں نے کوشش کی کہ شاید وہ صلح کرادیں ان کے لئے ممکن نہ ہوسکا_ فاطمہ (ع) اپنے ارادے پر ڈٹی ہوئی تھیں اور اپنے منفی مبارزے کو ترک کرنے پر راضی نہ ہوتی تھیں_

جب جناب فاطمہ (ع) بیمار ہوئیں تو جناب ابوبکر نے کئی دفعہ جناب فاطمہ (ع) سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن اسے رد کردیا گیا، ایک دن جناب ابوبکر نے اس موضوع کو حضرت علی (ع) کے سامنے پیش کیا اور آپ سے خواہش کی آپ جناب فاطمہ (ع) کی عیادت کا وسیلہ فراہم کریں اور آپ سے ملاقات کی اجازت حاصل کریں_ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) کے پاس گئے اور فرمایا اے دختر رسول(ص) جناب عمر اور ابوبکر نے ملاقات کی اجازت چاہی ہے آپ اجازت دیتی ہیں کہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں، جناب زہرا (ع) حضرت علی (ع) کے مشکلات سے آگاہ تھیں آپ نے جواب دیا، گھر آپ کا ہے اور میں آپ کے اختیار میں ہوں جس طرح آپ مصلحت دیکھیں عمل کریں یہ فرمایا اور اپنے اوپر چادران لی اور اپنے منھ کو دیوار کی طرف کردیا_

جناب ابوبکر اور عمر گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ آپ ہم سے راضی ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ میں ایک بات تم سے پوچھتی ہوں اس کا مجھے جواب دو، انہوں نے عرض کی فرمایئےآپ نے فرمایا تمہیں خدا کی قسم دیتی ہوں___ کہ آیا تم نے میرے باپ سے یہ سنا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ

۲۰۴

فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے انہوں نے عرض کیا ہاں ہم نے یہ بات آپ کے والدسے سنی ہے اس وقت آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا اے میرے خدا گواہ رہ کہ ان دو آدمیوں نے مجھے اذیت دی ہے ان کی شکایت تیری ذات اور تیرے پیغمبر(ص) سے کرتی ہوں میں_ ہرگز راضی نہ ہوں گی یہاں تک کہ اپنے بابا سے جاملوں اور وہ اذیتیں جو انہوں نے مجھے دی ہیں ان سے بیان کروں تا کہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کریں جناب ابوبکر جناب زہرا (ع) کی یہ بات سننے کے بعد بہت غمگین اور مضطرب ہوئے لیکن جناب عمر نے کہا اے رسول (ص) کے خلیفہ، ایک عورت کی گفتگو سے ناراحت ہو رہے ہو(۱) _

یہاں پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ بات آسکتی ہے کہ وہ کہیں کہ گرچہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے فدک لے کر اچھا کام نہیں کیا تھا لیکن جب وہ پشیمانی اور ندامت کا اظہار کر رہے ہیں تو اب مناسب یہی تھا کہ ان کا عذر قبول کرلیا جاتا لیکن اس نکتہ سے غافل نہیں رہتا چاہیئے کہ حضرت زہرا (ع) کے مبارزے کی اصلی علت اور وجہ خلافت تھی فدک کا زبردستی لے لینا اس کے ذیل میں آتا تھا اور خلافت کا غصب کرنا ایسی چیز نہ تھی کہ جسے معاف کیا جاسکتا ہو اور اس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہو اور پھر جناب زہراء (ع) جانتی تھیں کہ حضرت ابوبکر یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں تا کہ اس اقدام سے عوام کو دھوکہ میں رکھا جاسکے اور وہ اپنے کردار پر نادم اور پشیمان نہ تھے کیونکہ ندامت کا طریقہ عقلا کے لحاظ سے یہ تھا کہ وہ حکم دیتے کہ فدک کو فوراً جناب فاطمہ (ع) کے حوالے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۲۰۵

کردو اور اس کے بعد آپ آتے اور معاف کردینے کی خواہش کرتے اور کہتے کہ ہم اپنے اس اقدام پر پشیمان اور نادم ہوچکے ہیں تو اس بات کو صداقت پر محمول کیا جاسکتا تھا_

شب میں تدفین

جناب زہراء (ع) اپنے ہدف اور مقصد میں اس قدر استقامت رکھتی تھیں کہ اس کے لئے اپنی زندگی کی آخری گھڑی میں بھی مبارزہ کرتی گئیں بلکہ اپنے مبارزہ کا دامن قیامت تک پھیلا گئیں پڑھنے والوں کو تعجب ہوگا کہ کسی شخص کے لئے کیسے ممکن ہوگا کہ وہ اپنے مبارزہ اور مقابلے کو موت کے بعد بھی باقی رکھے، لیکن فاطمہ (ع) کہ جس نے وحی کے گھر میں تربیت حاصل کی تھی ایک ایسا منصوبہ بتایا تا کہ ان کا مبارزہ اور مقابلہ موت کے وقت تک ختم نہ ہوجائے_ جناب زہراء (ع) نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے شوہر علی (ع) کو بلایا اور وصیت کی اے علی (ع) مجھے رات کو غسل دیتا اور رات کو کفن دینا اور مخفی طور پر دفن کرنا_ میں راضی نہیں ہوں کہ جن لوگوں نے میرا پہلو زخمی کیا ہے جس سے میرا بچہ ساقط ہوا اور میرے مال پر قبضہ کرلیا ہے وہ میرے جنازے کی تشیع کریں_ میری قبر کو بھی چھپاکر رکھنا_ حضرت علی (ع) نے بھی جناب زہراء (ع) کی وصیت کے مطابق آپ کو رات میں دفن کیا اور آپ کی قبر کو ہموار کردیا اور چالیس قبریں نئی بنائیں کہ کہیں آپ کی قبر پہچانی نہ جائے(۱) _

حضرت زہراء (ع) نے اس منصوبے اور نقشے سے اپنے حریف پر آخری وار

____________________

۱) دلائل الامامہ_ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۶۳_

۲۰۶

کیا اور ایک زندہ اور مضبوط سند اپنی مظلومیت اور حکومت کی زبردستی کے لئے ہمیشہ کے لئے باقی چھوڑ گئیں_

کیونکہ ہر مسلمان یہ چاہے گا کہ اسے علم ہو کہ پیغمبر اسلام(ص) کی عزیز بیٹی کی قبر کہاں ہے جب اسے معلوم ہوگا کہ اس کی قبر معلوم نہیں ہے تو پوچھے گا کیوں؟ جواب سنے گا خود جناب زہرا (ع) نے وصیت کی تھی کہ اس کی قبر مخفی رکھی جائے_ اس وقت اسے قبر کے مخفی ہونے کی علت معلوم ہوجائے گی اور سمجھ لے گا کہ آپ وقت کی خلافت سے ناراض تھیں اور آپ کا جنازہ اس محیط خفیہ آور میں دفن ہوا اس وقت سوچے گا کہ ہوسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کی دختر ان فضائل اورکمالات کے باوجود اپنے باپ کے خلیفہ سے ناراض ہوں اور پھر اس کی خلافت بھی درست اور صحیح ہو؟ یہ چیز ممکن نہیں پس معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خلافت پیغمبر(ص) اور ان کے خاندان کے نظریئے کے خلاف واقع ہوئی تھی جو کسی طرح بھی صحیح قرار نہیں دی جاسکتی_

نتیجہ

گرچہ جناب ابوبکر جناب زہراء (ع) کے دلائل اور مبارزات کے سامنے ڈٹے رہے اور حاضر نہ ہوئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو واپس کردیں لیکن انہی حضرت زہراء (ع) نے انہیں مبارزات کے ذریعے عالم اسلام پر خلافت اور حکومت کی زیادتیوں اور اپنی حقانیت کو ثابت کردیا_ یہی فدک خلافت کے لئے ایک بم اور مثل استخوان کے ثابت ہوا جوان کے گلے میں پھنس کررہ گیا بہت مدت تک وہ حکومت کا نقطہ ضعف اور ایک اہم پروپیگنڈا اس کے خلاف شمار ہوتا ر ہا کے حل سے عاجز تھے_ کبھی سادات کی موافقت

۲۰۷

حاصل کرنے کے لئے فدک ان کو دے دیا جاتا تھا اور کبھی ان سے خشمناک ہوتے تھے تو واپس لے لیا جاتا تھا_ جب معاویہ کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو اس نے فدک ک ایک تہائی مروان کو اور ایک تہائی عمر بن عثمان کو اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو بخش دیا_ مروان کی خلافت کے زمانے میں پورا فدک اس کے اختیار میں تھا اور اس نے اسے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو دے دیا عبدالعزیز نے اسے اپنے بیٹے عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا اور جب عمر بن عبدالعزیز خلافت پر متمکن ہوا تو فدک کو جناب حسن بن حسن یا علی بن الحسین کو واپس کردیا_

عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے دوران فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کے ہاتھ میں رہا اور جب یزید بن عاتکہ کو حاکم بنایاگیا تو اس نے فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد سے لے لیا اور پھر بنی مروان کے قبضے میں دے دیا، یہ ان کے پاس رہا یہاں تک کہ خلافت ان کے ہاتھ سے نکل گئی_ جب صفّاح خلافت پر قابض ہوا تو اس نے فدک جناب عبداللہ بن حسن کو دے دیا اور جب ابوجعفر عباسی اولاد حسن پر غضبناک ہوا تو فدک ان سے واپس لے لیا اس کے بعد پھر مہدی عباسی نے فدک فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کردیا، اس کے بعد موسی بن مہدی اور ہارون نے اسے واپس لے لیا اور اس کے پاس مامون کے حاکم بننے تک رہا اور اس نے پھر فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کردیا_

ایک دن مامون قضاوت کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خط اسے دیا گیا، جب اس نے اسے پڑھا تو رود یا اس کے بعد کہا کہ فاطمہ (ع) کا وکیل کون ہے اور کہاں ہے؟ ایک بوڑھا آدمی اٹھا اور اس کے نزدیک گیا_ مامون نے فدک کے بارے میں اس سے مباحثہ شروع کردیا وہ بوڑھا اس پر غالب آیا_ تو

۲۰۸

مامون نے حکم دیا کہ فدک کو قبالہ کی صورت میں لکھ کر اسے دے دیا جائے اس کے بعد یہ فاطمہ (ع) کی اولاد کے پاس متوکل کے زمانے تک رہا اس نے فدک کو عبداللہ بن عمر بازیار کو دے دیا_

فدک میں خرما کے گیارہ درخت ایسے تھے کہ جنہیں خود رسول اللہ (ص) نے لگایا تھا فاطمہ (ع) کی اولاد ان د رختوں سے خرمالے کرحج کے موقع پر حاجیوں کو ہدیہ دیتیں اور حاجی ان کے عوض ان کی اچھی خاصی مدد کردیتے اور ان کے پاس اس ذریعہ سے اچھا خاصہ مال اکٹھا ہوجاتا_ عبداللہ بن عمر بازیار نے بشر ان بن ابی امیہ ثقفی کو بھیجا اور ان درختوں کو کٹوادیا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) کے مبارزات کا ہی نتیجہ تھا کہ جناب عمر باوجود اس سختی کے جو اس کے وجود میں تھی، جناب فاطمہ (ع) کو صدقات مدینہ بلکہ جو بھی جناب فاطمہ (ع) کے ادّعا میں داخل تھے انہیں واپس کردیئےھے(۲) _

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۰_

۲۰۹

حصہ ششم

جناب فاطمہ موت کے نزدیک

۲۱۰

جناب فاطمہ (ع) باپ کی وفات کے بعد چند مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہیں، اور اسی طرح تھوڑی مدت میں بھی اتنا روئیں کہ آپ کو زیادہ رونے والوں میں سے ایک قرار دیا گیا آپ کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا گیا(۱) _

جناب زہرا (ع) کے رونے کے مختلف عوامل اور سبب تھے سب سے زیادہ اہم سبب کہ جو آپ کی غیور اور احساس روح کو ناراحت کرتا تھا وہ یہ تھا کہ آپ دیکھ رہی تھیں کہ اسلام کی جوان ملت اپنے حقیقی اور صحیح راستے سے ہٹ گئی ہے اور ایک ایسے راستے پر گامزن ہوگئی ہے کہ بدبختی اور تفرقے اس کا حتمی انجام ہے_

چونکہ حضرت زہرا (ع) نے اسلام کی ترقی، سریع اور پیشرفت کو دیکھا تھا آپ کو توقع تھی کہ اسی طرح اسلام ترقی کرے گا اور تھوڑی سی مدت میں کفر اور بت پرستی کو ختم کرکے رکھ دے گا اور ستم کا قلع قمع کردے گا، لیکن خلافت کے اصلی محور سے ہٹنے کی غیر متوقع صورت حال نے آپ کی امیدوں کے محل کو یکدم گرادیا_

____________________

۱) طبقات ابن سعد، ج ۲ ص ۸۵_

۲۱۱

ایک دن جناب ام سلمہ جناب فاطمہ (ع) کے پاس آئیں اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آج رات صبح تک کیئے گزری؟ آپ نے فرمایا کہ غم و اندوہ میں کٹی_ بابا مجھ سے جدا ہوگئے اور شوہر کی خلافت لے لی گئی اللہ اور رسول (ص) کے دستور کے خلاف امامت اور خلافت کو علی سے چھپناگیا کیوں کہ لوگوں کو علی (ع) سے کینہ تھا چوں کہ وہ ان لوگوں کے آباء و اجداد کو بدر کی جنگ میں قتل کرچکے تھے(۱) _

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے ایک دن اپنے باپ کی قمیص مجھ سے طلب کی جب میں نے ان کی قمیص انہیں دی تو اسے ا؟ نے سونگھا اور رونا شروع کردیا اور اتنا روئیں کہ آپ بیہوش ہوگئیں میں نے جب یہ حالت دیکھی تو میں نے آپ کی قمیص ان سے چھپادی(۲) _

روایت میں ہے کہ جب پیغمبر(ص) وفات پاگئے تو بلال نے جو آپ کے مخصوص موذن تھے اذان دینی بند کردی تھی ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپ کے موذن کی اذان سنو_ بلال نے جناب فاطمہ (ع) کے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اللہ اکبر کہا، جناب فاطمہ (ع) کو اپنے باپ کے زمانے کی یا آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو جناب فاطمہ (ع) نے باپ کے نام سننے پر ایک چیخ ماری اور غش کرگئیں_ بلال کو خبر دی گئی کہ آذان دینا بند کردو کیونکہ فاطمہ (ع) بیہوش ہوگئیں ہیں_ بلال نے آذان روک دی جب جناب فاطمہ (ع) کو ہوش آیا تو بلال سے کہا کہ اذان کو پورا کرو انہوں نے عرض کی کہ آپ اگر اجازت دیں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۵_

۲۱۲

تو باقی اذان نہ کہوں کیوں کہ مجھے آپ کے بے ہوش ہونے کا خوف ہے(۱) _

جناب فاطمہ (ع) اتنا روئیں کہ آپ کے رونے سے ہمسائے تنگ آگئے وہ حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارا سلام جناب فاطمہ (ع) کو پہنچادیں اور ان سے کہیں کہ یا رات کو روئیں اور دن کو آرام کریں یا دن کو روئیں اور رات کو آرام کریں کیونکہ آپ کے رونے ہمارا آرام ختم کردیا ہے جناب فاطمہ (ع) نے ان کے جواب میں فرمایا کہ میری عمر ختم ہونے کو ہے میں زیادہ دنوں تک تم میں موجود نہ رہوں گی_ آپ دن میں امام حسن (ع) اور حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتیں اور جناب رسول خدا (ص) کی قبر پر چلی جاتیں اور وہاں رویا کرتیں اور اپنے بیٹوں سے کہتیں میرے پیارو یہ تہارے نانا کی قبر ہے کہ جو تمہیں کندھے پر اٹھایا کرتے تھے اور تمہیں دوست رکھتے تھے اس کے بعد آپ بقیع کے قبرستان میں شہداء کی قبر پر جاتیں اور صدر اسلام کے سپاہیوں پر گریہ کرتیں حضرت علی (ع) نے آپ کے آرام کے لئے بقیع میں سائبان بنادیا تھا کہ جسے بعد میں بیت الحزن کے نام سے پکارا جانے لگا(۲) _

انس کہتا ہے کہ جب ہم پیغمبر (ص) کے دفن سے فارغ ہوچکے اور گھر واپس لوٹ آئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے انس کس طرح راضی ہوئے کہ پیغمبر(ص) کے بدن پر مٹی ڈالو(۳) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۷_

۳) اسد الغابة ابن اثیر، ج ۵ ص ۵۲۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ رقم ۲ ص ۸۳_

۲۱۳

محمود بن بسید کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد کی وفات کے بعد جناب حمزہ کی قبر پر گریہ کرتی تھیں ایک دن میرا گزر احد کے شہدا سے ہوا تو میں نے فاطمہ (ع) کو دیکھا کہ جناب حمزہ کی قبر پر بہت سخت گریہ کر رہی ہیں میں نے صبر کیا یہاں تک کہ آپ نے توقف کیا، میں سامنے گیا اور سلام کیا اور عرض کی اے میری سردار آپ نے اپنے اس جانگداز گریہ سے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے حق پہنچتا ہے کہ اس طرح کا گریہ کروں کیونکہ میں نے کیسا مہربان باپ اور پیغمبروں میں بہترین پیغمبر اپنے ہاتھ سے کھودیا ہے، کتنا آپ کی زیارت کا مجھ میں شوق موجود ہے_ میں نے عرض کی اے میری سردار میں دوست رکھتا ہوں کہ آپ سے ایک مسئلہ پوچھوں آپ نے فرمایا کہ پوچھو_ میں نے عرض کیا رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں حضرت علی (ع) کی امامت کی تصریح کردی تھی آپ نے فرمایا تعجب ہے_ کیا تم نے غدیر کا واقعہ بھلادیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ غدیر کا واقعہ تو میں جانتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں یہ معلوم کروں کہ جناب رسول خدا(ص) نے اس بارے میں آپ سے کیا فرمایا ہے_ آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد علی (ع) میرا خلیفہ اور امام ہے اگر اس کی اطلاعت کی تو ہدایت پاؤگے اور اگر اس کی مخالفت کی تو قیامت کے دن تک تم میں اختلاف موجود رہے گا(۱) _

____________________

۱) ریاحین الشریعہ، ج ۱ ص ۲۵۰_

۲۱۴

فاطمہ (ع) بیماری کے بستر پر جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب قنفذ کی ان ضربات سے جو اس نے جناب فاطمہ (ع) کے نازنین جسم پر لگائی تھیں آپ کے بچے کا اسقاط ہوگیا اور اسی وجہ _ سے آپ ہمیشہ بیمار اور ضعیف رہیں یہاں تک کہ آپ بالکل بستر سے لگ گئیں(۱) _

حضرت علی (ع) اور جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمارداری کیا کرتے تھے(۲) _

ایک دن انصار اور مہاجرین کی عورتوں کی ایک جماعت آپ کی مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوئی اور عرض کی اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کی حالت کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا قسم خدا کی میں دنیا سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی تمہارے مردوں سے جب ان کا امتحان کرچکی ہوں تو دلگیر ہوں اور انہیں دور پھینک دیا ہے اور ان کے ہاتھ سے ملول خاطر ہوں_ ان کی متزلزل رائے اور سست عقیدہ اور ان کی بے حالی پر اف ہو_ کتنا برا انہوں نے کام انجام دیا ہے اور غضب الہی کے مستحق بنے ہیں؟ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہیں_ ہم نے خلافت اور امامت کو ان کے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے_ لیکن اس کا عار اور ننگ ان کے دامن پر ہمیشہ رہے گا، ظلم کرنے والوں پر ذلت اور خواری ہوا کرتی ہے ان کی حالت پر افسوس اور روائے ہو_ کس طرح انہوں نے حضرت علی (ع) سے خلافت کو چھینا ہے خدا کی قسم ان کا علی (ع) سے دور ہٹنا اس کے

____________________

۱) دلائل امامہ ص ۴۵_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۷۰ ۱_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۱_

۲۱۵

علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ حضرت علی (ع) کی کاٹنے والی تلوار اور بہادری اور خدا کی راہ میں سخت حملے کرنے سے خوش نہ تھے_

خدا کی قسم اگر خلافت علی (ع) کے ہاتھ سے نہ لی ہوتی اور علی (ع) ان کی حکومت کی زمام اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو وہ بہت آسانی سے انہیں خوش بختی اور سعادت کی طرف ہدایت کرتے اور بہت جلد ریاست طلب کا متقی اور سچے کا جھوٹے سے امتیاز ہوجاتا بہت جلد ظالم اپنے اعمال کی سزا پالیتا، ان لوگوں کا کام بہت زیادہ تعجب آور ہے، ایسا کیوں کیا انہوں نے؟ کس دلیل پر انہوں نے اعتماد اور تکیہ کیا ہے؟ کون سی رسی سے تمسک کیا ہے؟ اور کس خاندان کے خلاف انہوں نے اقدام کیا ہے؟ علی (ع) کی جگہ کس کا انتخاب کیا ہے؟ خدا کی قسم علی (ع) کی جگہ اتنی لیاقت والے کو نہیں لائے؟ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کام کیا ہے، حالانکہ انہوں نے غیر معقول کام انجام دیا ہے_ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے اصلاح کی جگہ فساد اور فتنے کو ایجاد کیا ہے_ آیا وہ شخص جو لوگوں کو ہدایت کی طرف لے جائے رہبری کے لئے بہتر ہے یا وہ شخص جو ابھی ہدایت پانے کا دوسروں کی طرف محتاج ہو تم کس طرح فیصلہ دیتی ہو؟ خدا کی قسم ان کے کردار اور آئندہ آنے والے حالات کا نتیجہ بعد میں ظاہر ہوگا لیکن تمہیں معلومم ہونا چاہیئے کہ سوائے تازہ خون اور قتل کرنے والے زہر کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا_

اس وقت ظلم کرنے والوں کا نقصان میں ہونا ظاہر ہوجائے گا_ اب تم ناگوار واقعات کے لئے تیار ہوجاؤ اور کاٹنے والی تلواروں اور دائمی گڑبڑ اور ڈکٹیٹر شپ کا انتظار کرو_ تمہارے بیت المال کو لوٹیں گے اور تمہارے منافع کو اپنی جیب میں ڈالیں گے تمہاری حالت پر افسوس_ اس

۲۱۶

طرح کیوں ہوگئے ہو؟ تمہیں علم نہیں کہ کس خطرناک راستے پر چل پڑے ہو؟ نتائج سے نا واقف ہو؟ کیا ہم تم کو ہدایت پر مجبور کرسکتے ہیں جب کہ تم ہدایت کی طرف جانے کو پسند نہیں کرتے(۱) _

زیادہ غم و اندوہ

جناب زہراء (ع) کی بیماری اور کمزوری کی وجہ صرف سابقہ بیماری ہی نہ تھی بلکہ غم اور افکار اور زیادہ پریشانیاں بھی آپ پر بہت زیادہ روحانی فشار کا موجب بنی ہوئی تھیں جب بھی آپ اپنے چھوٹے سے کمرے میں چمڑے کے فرش پر گھاس سے پر کئے ہوئے سرہانہ پر تکیہ کر کے سو رہی ہوتی تھیں تو آپ پر مختلف قسم کے افکار ہجوم کرتے_ آہ کس طرح لوگوں نے میرے باپ کی وصیت پر عمل نہیں کیا اور میرے شوہر سے خلافت کو لے لیا؟ خلافت کے لے لینے کے آثار اور خطرناک نتائح قیامت تک باقی رہیں گے_ جو خلافت ملت پر زبردستی اور حیلہ بازی سے مسلط کی جائے اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا_ مسلمانوں کی ترقی اور پیشرفت کی علت ان کا اتحاد اور اتفاق تھا وہ کتنا بڑا سرمایہ اور طاقت ان سے چھن گیا ہے؟ ان میں اندرونی اختلاف پیدا کردیئے گئے ہیں_ اسلام کے اقتدار کی تنہا جو طاقت تھی وہ پراگندگی اور اختلاف میں تبدیل کردی گئی ہے_ اسلام کو انہوں نے کمزوری اور پراگندگی اور ذلت

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۷_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۶۱_ شرح ابن ابی الحدید ج ۱۶ ص ۲۳۳_ بلاغات النساء ص ۱۹_

۲۱۷

کے راستے پر ڈال دیا ہے_

آہ کیا میں رسول(ص) کی عزیز وہی فاطمہ (ع) نہیں ہوں جو اب بیماری کے بستر پر پڑی ہوئی ہوں اور اسی امت کے ضربات سے درود کرب سے نالاں ہوں اور موت کا مشاہدہ کر رہی ہوں؟ پس پیغمبر(ص) کی وہ تمام سفارشیں کہاں گئیں؟ خدایا علی (ع) اس بہادری اور شجاعت کے باوجود کہ جو ان میں میں دیکھتی ہوں کس طرح گرفتار اور مجبور ہوگئے ہیں کہ اسلام کے مصالح کی حفاظت کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اپنے صحیح حق کے جانے پر سکوت کو اختیار کر بیٹھے؟ آہ میری موت نزدیک ہوگئی اور جوانی کے عالم میں اس دنیا سے جارہی ہوں اور دنیا کے غم اور غصے سے نجات حاصل کر رہی ہوں لیکن اپنے یتیم بچوں کا کیا کروں؟ حسن (ع) اور حسین (ع) ، زینب اور کلثوم بے سرپرست اور یتیم ہوجائیں گے ، آہ کتنی مصیبت میرے ان جگر گوشوں پر وارد ہوں گی میں نے ک ئی دفعہ اپنے باپ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ تیرے حسن (ع) کو زہر دے دیں گے اور حسین (ع) کو تلوار سے قتل کردیں گے ابھی سے اس پیشین گوئی کی علامتیں ظاہر ہونے لگی ہیں_

آپ کبھی اپنے چھوٹے سے حسین (ع) کو گود میں لے کر ان کی گردن کا بوسہ لیتیں اور ان کے مصائب پر آنسو بہاتیں اور کبھی آپ اپنے حسن (ع) کو سینے سے لگالیتیں اور ان کے معصوم لبوں پر بوسہ دیتیں اور کبھی زینب و کلثوم پر وارد ہونے والی مصیبتیں اور واقعات کو یاد کرتیں اور ان کے لئے گریہ کرتیں_

جی ہاں اس قسم کے پریشان کرنے والے افکار جناب زہراء (ع) کو تکلیف اور رنج دیتے تھے اور آپ دن بدن کمزور اور ضعیف ہوتی جا رہی تھیں_

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) وفات کے وقت رو

۲۱۸

رہی تھیں حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ کے مستقبل کے واقعات اور مصائب پر رو رہی ہوں_ حضرت علی (ع) نے فرمایا آپ نہ روئیں، قسم خدا کی اس قسم کے واقعات میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے(۱) _

ناپسندیدہ عیادت

مسلمانوں کی عورتیں اور پیغمبر(ص) کی رشتہ دار عورتوں اور پیغمبر(ص) کے خاص اصحاب کبھی نہ کبھی جناب فاطمہ (ع) کی احوال پرسی اور عیادت کرتے تھے لیکن جناب عمر اور ابوبکر آپ کی عیادت سے روکے گئے تھے کیوں کہ جناب زہراء (ع) نے پہلے سے ارادہ کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ قطع کلام رکھیں گی اس لئے آپ انہیں عیادت اور ملاقات کی اجازت نہ دیتی تھیں آہستہ آہستہ اراکین خلافت میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں جناب فاطمہ (ع) فوت نہ ہوجائیں اور وقت کے خلیفہ سے ناراض رہ کر انتقال کر گئیں تو یہ قیامت تک ان کے دامن پر ننگ اور رعار کا دہبہ لگ جائے گا اسی لئے وہ عمومی افکار کے دباؤ میں تھے اور مجبور تھے کہ کسی طرح جناب فاطمہ (ع) کی عبادت کریں لہذا حضرت علی (ع) سے انہوں نے با اصرار تقاضہ کیا کہ ان کی ملاقات کے اسباب فراہم کریں _ حضرت علی (ع) جناب فاطمہ (ع) کے پاس آئے اور فرمایا اے دختر رسول (ص) ان دو آدمیوں نے آپ کی عیادت کرنے کی آپ سے اجازت چاہی ہے_ آپ کی اس میں کیا رائے ہے؟

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۸_

۲۱۹

حضرت زہرا ء (ع) حضرت علی (ع) کی حالت سے بخوبی واقف تھیں آپ نے عرض کیا گھر آپ کا ہے اور میں آپ کے اختیار میں ہوں آپ جس طرح مصلحت دیکھیں اس پر عمل کریں؟ آپ نے یہ کہا اور اپنے سر کے اوپر چادر اوڑھ لی اور دیوار کی طرف منھ کرلیا، دونوں آدمی اندر آئے اور اسلام کیا اور احوال پرسی کی اور عرض کیا کہ ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں، آپ ہم سے راضی ہوجائیں_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ میں ایک چیز تم سے پوچھنا چاہتی ہوں اس کا جواب دو، انہوں نے عرض کی کہ فرمایئےآپ نے فرمایا کہ تمہیں خدا کی قسم دیتی ہوں کہ آیا تم نے رسول خدا(ص) سے یہ سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو اسے اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے، انہوں نے عرض کی ہاں ہم نے یہ حدیث آپ کے والد سی سنی ہے_ آپ نے اس کے بعد اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا اے میرے خدا تو گواہ رہنا کہ انہوں نے مجھے اذیت دی ہے، ان کی شکایت تجھ سے اور تیرے رسول (ص) سے کروں گی، نہیں میں ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گی یہاں تک کہ والد سے ملاقات کروں، تمہارے کردار اور رفتار کو ان سے بیان کروں گی تا کہ وہ(ع) ہمارے درمیان قضاوت کریں(۱) _

فاطمہ (ع) کی وصیت

جناب زہراء (ع) کی بیماری تقریباً چالیس دن تک

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۲۲۰

طول پکڑگئی لیکن ہر روز آپ کی حالت سخت تر ہوتی جا رہی تھی اور آپ کی بیماری میں شدت آتی جارہی تھی_ آپ نے ایک دن حضرت علی (ع) سے کہا اے ابن عم ___ میں موت کے آثار اور علامتیں اپنے آپ میں مشاہدہ کر رہی ہوں مجھے گمان ہے کہ میں عنقریب اپنے والد سے ملاقات کروں میں آپ کو وصیت کرنا چاہتی ہوں_ حضرت علی (ع) جناب فاطمہ (ع) کے بستر کے قریب آبیٹھے اور کمرہ کو خالی کردایا اور فرمایا اے دختر پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کیجئے اور یقین کیجئے کہ میں آپ کی وصیت پر عمل کروں گا_ آپ کی وصیت کی انجام دہی کو اپنے ذاتی کاموں پر مقدم کروں گا_ حضرت علی (ع) نے جناب زہراء (ع) کے افسردہ چہرے اور حلقے پڑی ہوئی آنکھوں پر نگاہ کی اور رودیئے، جناب فاطمہ (ع) نے پلٹ کر اپنی ان آنکھوں سے حضرت علی (ع) کے غمناک اور پمردہ مہربان چہرے کو دیکھا اور کہا اے ابن عم میں نے آج تک آپ کے گھر میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی خیانت کی ہے اور نہ کبھی آپ کے احکام اور دستورات کو پس پشت ڈالا ہے_

حضرت علی (ع) نے فرمایا آپ کو اللہ تعالی کی معرفت اور آپ کا تقوی اتنا قوی اور عالی ہے کہ آپ کے بارے میں اس کا احتمال تک نہیں دیا جاسکتا خدا کی قسم آپ کی جدائی اور فراق مجھ پر بہت سخت ہے لیکن موت کے سامنے کسی کا چارہ نہیں_ خدا کی قسم تم نے میرے مصائب تازہ کردیئے ہیں، تمہاری بے وقت موت میرے لئے ایک دردناک حادثہ ہے_ ''انا للہ و انا الیہ راجعون'' یہ مصیبت کتنی ناگوار اور دردناک ہے؟ خدا کی قسم اس ہلاک کردینے والی مصیبت کو میں کبھی نہیں فراموش کروں گا _ کوئی چیز اس مصیبت سے تسلی بخش نہیں ہوسکتی، اس

۲۲۱

وقت دونو بزرگوار رو رہے تھے(۱) _

جناب زہراء (ع) نے اپنے مختصر جملوں میں اپنی زندگی کے برنامے کو سمودیا اپنی صداقت کے مقام اور پاکدامنی اور شوہر کی اطاعت کو اپنے شوہر سے بیان کیا حضرت علی (ع) نے بھی آپ کے علمی عظمت اور پرہیزگاری و صداقت اور دوستی و زحمات کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بے پنا محبت اور لگاؤ کو آپ کی نسبت ظاہر کیا، اس وقت عواطف اور احساسات پھر سے دونوں زن و شوہر ہیں ''جو اسلام کے نمونہ اور مثال تھے'' اس طرح ابھرے کہ دونوںاپنے رونے پر قابو نہ پاسکے اور کافی وقت تک دونوں روتے رہے اور اپنی مختصر سی ازدواجی زندگی پر جو محبت و صفا اور مہر و صداقت سے پر تھی گریہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو غیر معمولی زحمات اور گرفتاریوں اور مصائب پر روتے رہے تا کہ یہی آنکھوں کے آنسو ان کی اندرونی آگ جو ان کے جسم کو جلا دینے کے نزدیک تھی ٹھنڈا کرسکیں_

جب آپ کا گریہ ختم ہوا حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کا سر مبارک اپنے زانو پر رکھا اور فرمایا، اے پیغمبر(ص) کی عزیز دختر جو آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کریں اور مطمئن رہین کہ میں آپ کی وصیتوں سے تخلف نہ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے یہ وصیتیں کیں_

۱_ مرد بغیر عورت کے زندگی نہیں بسر کرسکتا اور آپ بھی مجبور ہیں کہ شادی کریں میری خواہش ہے کہ آپ میرے بعد امامہ سے شادی کیجئے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۱_

۲۲۲

گا، کیونکہ یہ میرے بچوں پر زیادہ مہربان ہے(۱) _

۲_ میرے بچے میرے بعد یتیم ہوجائیں گے ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ان کو سخت لہجہ سے نہ پکارنا، ان کی دلجوئی کے لئے ایک رات ان کے پاس رہنا ایک رات اپنی بیوی کے پاس(۲) _

۳_ میرا اس طرح اور کیفیت کا تابوت بناناتا کہ میرا جنازہ اٹھاتے وقت میرا جسم ظاہر نہ ہو پھر آپ نے اس تابوت کی کیفیت بیان کی(۳) _

۴_ مجھے رات کو غسل دینا اور کفن پہنانا اور دفن کرنا اور ان آدمیوں کو اجازت نہ دینا جنہوں نے میرا حق غصب کیا ہے اور مجھے اذیت اور آزار دیا ہے کہ وہ میر نماز جنازہ یا تشیع میں حاضر ہوں(۴) _

۵_ رسول خدا کی بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ وقیہ (گندم کا وزن) دینا _

۶_ بنی ہاشم کی ہر ایک عورت کو بھی بارہ وقیہ دینا_

۷_ امامہ کو بھی کچھ دینا(۵) _

۸_ ذی الحسنی نامی باغ اور ساقیہ اور دلال اور غراف اور ہیشم اور ام ابراہیم نامی باغات جو سات عدد بنتے ہیں میرے بعد آپ کے اختیار میں ہوں گے اور آپ کے بعد حسن (ع) اور حسن (ع) کے بعد حسین (ع) اور حسین (ع) کے بعد ان کے بڑے لڑکے کے اختیار میں ہوں گے اس وصیت کے لکھنے والے

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۶۲_

۲) بحار الانوارء ج ۴۳ ص ۱۷۸_

۳،۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۵) دلائل الامامہ ص ۴۲_

۲۲۳

علی (ع) اور گواہ مقداد اور زبیر تھے(۱) _

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ یہ تحریری وصیت بھی آنحضرت(ص) سے ہاتھ لگی ہے_

بسم اللہ الرحمن الرحیم_ یہ وصیت نامہ فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی دختر کا ہے میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد(ص) خدا کے رسول ہیں_ بہشت و دوزخ حق ہیں، قیامت کے واقع ہونے میں شک نہیں ہے_ خدا مردوں کو زندہ کرے گا، اے علی (ع) خدا نے مجھے آپ کا ہمسر قرار دیا ہے تا کہ دنیا اور آخرت میں اکٹھے رہیں، میرا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے، اے علی (ع) رات کو مجھے غسل و کفن دینا اور حنوط کرنا اور دفن کرنا اور کسی کو خبر نہ کرنا اب میں آپ سے وداع ہوتی ہوں، میرا سلام میری تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہوگی پہنچا دینا(۲)

آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں

جناب فاطمہ (ع) کی بیماری شدید ہوگئی اور آپ کی حالت خطرناک ہوگئی حضرت علی (ع) ضروری کاموں کے علاوہ آپ کے بستر سے جدا نہ ہوتے تھے_ جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمار داری کیا کرتی تھیں_ جناب امام حسن اور امام حسین اور زینب و ام کلثوم ماں کی یہ حالت دیکھ کر آپ سے

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۴۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۴_

۲۲۴

بہت کم جدا ہوا کرتے تھے، جناب فاطمہ (ع) کبھی مرض کی شدت سے بیہوش ہوجایا کرتی تھیں، کبھی آنکھیں کھولتیں اور اپنے عزیز فرزندوں پر حسرت کی نگاہ ڈالتیں_

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے احتضار کے وقت آنکھیں کھولیں اور ایک تند نگاہ اطراف پر ڈالی اور فرمایا السلام علیک یا رسول اللہ (ص) اے میرے اللہ مجھے اپنے پیغمبر(ص) کے ساتھ محشور کر خدایا مجھے اپنی بہشت اور اپنے جوار میں سکونت عنایت فرما اس وقت حاضرین سے فرمایا اب فرشتگان خدا اور جبرئیل موجود ہیں میرے بابا بھی حاضر ہیں اور مجھ سے فرما رہے ہیں کہ میرے پاس جلدی آو کہ یہاں تمہارے لئے بہتر ہے(۱) _

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھ سے وفات کی رات فرمایا کہ اے ابن عم ابھی جبرئیل مجھے اسلام کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ خدا بعد از سلام فرماتا ہے کہ عنقریب تم بہشت میں والد سے ملاقات کروگی اس کے بعد آپ نے فرمایا و علیکم السلام_ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے ابن عم ابھی میکائیل نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے پیغام لائے اس کے بعد فرمایا و علیکم السلام_ اس وقت آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ابن عم خدا کی قسم عزرائیل آگئے ہیں اور میری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہیں، اس وقت عزرائیل سے فرمایا کہ میری روح قبض کرلو لیکن نرمی سے_ آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں فرمایا خدایا تیری طرف آوں نہ آ گ کی طرف، یہ کلمات آپ نے فرمائے اور اپنی نازنین آنکھوں کو بند کرلیا اور

____________________

۱) دلائل الامامہ ص ۴۴_

۲۲۵

اور جان کو خالق جان کے سپرد کردیا_

اسماء بنت عمیس نے جناب زہراء (ع) کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد کی وفات کے وقت جبرئیل (ع) کچھ کا فور لے کرئے تھے آپ (ص) نے اسے تین حصّوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک حصّہ اپنے لئے رکھا تھا ایک حصّہ حضرت علی (ع) کے لئے اور ایک حصّہ مجھے دیا تھا اور میں نے اسے فلاں جگہ رکھا ہے اب مجھے اس کی ضرورت ہے اسے لے آؤ_ جناب اسماء وہ کافور لے آئیں_ آپ نے اس کے بعد_ آپ نے غسل کیا اور وضو کیا اور اسماء سے فرمایا میرے نماز کے کپڑے لے آؤ اور خوشبو بھی لے آؤ_

جناب اسماء نے لباس حاضر کیا آپ نے وہ لباس پہنا اور خوشبو لگائی اور قبلہ رخ ہو کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور اسماء سے فرمایا کہ آرام کرتی ہوں تھوڑی دیر___ بعد مجھے آواز دینا اگر میں نے جواب نہ دیا تو سمجھ لینا کہ میں دنیا سے رخصت ہوگئی ہوں اور علی (ع) کو بہت جلدی اطلاع دے دینا، اسماء کہتی ہیں کہ میں تھوڑی دیر صبر کیا اور پھر میں کمرے کے دروازے پر آئی جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی لیکن جواب نہ سنا تب میں نے لباس کو آپ کے چہرے سے ہٹایا تو دیکھا آپ د نیا سے گزر گئی ہیں_ میں آپ کے جنازے پر گرگئی آپ کو بوسہ دیا اور روئی اچانک امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) وارد ہوگئے اپنی والدہ کی حالت پوچھی اور کہا کہ اس وقت ہماری ماں کے سونے کا وقت نہیں ہے میں نے عرض کی اے میرے عزیز و تمہاری ماں دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں_

۲۲۶

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ماں کے جنازے پر گرگئے بوسہ دیتے اور روتے جاتے، امام حسن (ع) کہتے تھے اماں مجھ سے بات کیجئے، امام حسین (ع) کہتے تھے اماں جان میں تیرا حسین (ع) ہوں قبل اس کے میری روح پرواز کرجائے مجھ سے بات کیئجے، جناب زہرا (ع) کے یتیم مسجد کی طرف دوڑے تا کہ باپ کو ماں کی موت کی خبردیں، جب جناب زہراء (ع) کی موت کی خبر علی (ع) کی ملی تو آپ نے شدت غم اور اندوہ سے بیتاب ہوکر فرمایا_ پیغمبر(ص) کی دختر آپ میرے لئے سکون کا باعث تھیں، اب آپ کے بعد کس سے سکون حاصل کروں گا؟(۱)

آپ کا دفن اور تشیع جنازہ

جناب زہراء (ع) کے گھر سے رونے کی آواز بلند ہوئی اہل مدینہ کو علم ہوگیا اور تمام شہر سے رونے اور گریہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں لوگوں نے حضرت علی (ع) کے گھر کا رخ کیا، حضرت علی (ع) بیٹھے ہوئے تھے جناب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے اردگرد بیٹھے گریہ کر رہے تھے_ جناب ام کلثوم روتی اور فرماتی تھیں یا رسول اللہ (ص) گویا آپ ہمارے پاس سے چلے گئے لوگ گھر کے باہر اجتماع کئے ہوئے تھے اور وہ حضرت زہراء (ع) کے جنازے کے باہر آنے کے منتظر تھے، اچانک جناب ابوذر گھر سے باہر نکلے اور کہا لوگو چلے جاؤ کیونکہ جنازے کی تشیع میں دیر کردی گئی ہے(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲۲۷

جناب ابوبکر اور عمر نے حضرت علی (ع) کو تعزیب دی اور عرض کیا یا اباالحسن مبادا ہم سے پہلے جناب فاطمہ (ع) پر نماز پڑھیں(۱) _

لیکن حضرت علی (ع) نے اسماء کے ساتھ مل کر اسی رات جناب زہراء (ع) کو غسل و کفن دیا، جناب زہرا کے چھوٹے چھوٹے بچے جنازے کے اردگرد گریہ کر رہے تھے، جب آپ غسل و کفن سے فارغ ہوگئے تو آواز دی اے حسن (ع) و حسین (ع) اے زینب و ام کلثوم آو ماں کو وداع کرو کہ پھر ان کو نہ دیکھ سکو گے، جناب زہراء (ع) کے یتیم، ماں کے نازنین جنازے پر گرے اور بوسہ دیا اور روئے_ حضرت علی (ع) نے ان کو جنازے سے ہٹایا(۲) _

جنازے پر نماز پڑھی اور جناز اٹھایا، جناب عباس، فضل، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، حسن (ع) اور حسین (ع) ، عقیل، بریدہ، حذیفہ، ابن مسعود جنازے کی تشیع میں شریک ہوئے(۳) _

جب تمام آنکھیں ہو رہی تھیں اندھیرے میں جنازے کو آہستہ آہستہ اور خاموشی کے ساتھ قبر کی طرف لے گئے تا کہ منافقین کو علم نہ ہوجائے اور دفن کرنے سے روک نہ دیں، جنازے کو قبر کے کنارے زمین پر رکھا گیا_ امیرالمومنین حضرت علی (ع) نے خود اپنی بیوی کے نازنین جسم کو اٹھایا اور قبر میں رکھ دیا اور قبر کو فوراً بند کردیا(۴) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۹_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۲۸

حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کی قبر پر

جناب زہراء (ع) کے دفن کو مخفی اور بہت سرعت سے انجام دیا گیا تا کہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ _ آپ کے دفن میں مانع نہ ہوں لیکن جب حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زیادہ غم و اندوہ نے غلبہ کیا آپ نے فرمایا اے خدا کس طرح میں نے پیغمبر (ص) کی نشانی کو زمین میں دفن کیا ہے، کتنی مہربان بیوی، باصفا، پاکدامن اور فداکار کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھا ہوں خدایا اس نے میرا دفاع کرنے میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں کتنی میرے گھر میں زحمت اٹھائی ہے_ آہ زہراء (ع) کا اندرونی درد افسوس ان کے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان کے ورم کئے ہوئے بازو پر ان کے ساقط شدہ بچے پر، اے میرے خدا میری امید تھی کہ آخری زندگی تک اس مہربان بیوی کے ساتھ گزاروں گا لیکن افسوس اور صد افسوس کو موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی ہے_ آہ میں زہراء (ع) کے یتیم چھوٹے بچوں کا کیا کروں؟

رات کے اندھیرے میں آپ جناب رسول خدا (ص) کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی سلام ہو آپ پر اے رسول خدا (ص) میری طرف سے اور آپ کی پیاری دختر کی طرف سے جو ابھی آپ کی خدمت میں پہنچنے والی ہے اور آپ کے جوار میں دفن ہوئی ہے اور سب سے پہلے آپ سے جاملی ہے، یا رسول اللہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے، جیسے آپ کی مصیبت پر صبر کیا ہے زہراء کے فراق پر بھی صبر کروں گا

۲۲۹

یا رسول اللہ (ص) آپ کی روح میرے دامن میں قبض کی گئی میں آپ کی آنکھوں کو بند کرتا تھا میں تھا کہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں التارا ہاں صبر کروں گا اور پڑھوں گا انا للہ و انا الیہ راجعون، یا رسول اللہ وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کی تھی اب آپ (ص) کے پاس لوٹ گئی ہے_ زہراء (ع) میرے ہاتھ سے چھینی گئی ہے، آسمان اور زمین کی رونق ختم ہوگئی ہے، یا رسول اللہ (ص) میرے غم کی کوئی انتہا نہیں رہی میری آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب کہ میں مروں گا اور آپ (ص) کے پاس پہنچوں گا یہ ایسے غم اور مصائب ہیں جو دل کے زخموں سے پیدا ہوئے ہیں، ہماری باصفا گھریلو زندگی کتنی جلدی لٹ گئی ہیں اپنے دل کے درد کو خدا سے بیان کرتا ہوں_

یا رسول اللہ (ص) آپ کی دختر آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے اتفاق کر کے خلافت کو مجھ سے چھیں لیا اور زہراء (ع) کے حق پر قبضہ کرلیا_ یا رسول اللہ (ص) حالات اور اوضاع کو اصرار سے جناب فاطمہ (ع) سے پوچھنا کیوں کہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر یہ کرسکیں لیکن آپ سے وہ بیان کریں گی، تا کہ خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے_ یا رسول اللہ(ص) آپ کو وداع کرتا ہوں اس لئے نہیں کہ آپ (ص) کی قبر پر بیٹھنے سے تھک گیا ہوں اور آپ سے رخصت ہوتا ہوں، اس لئے نہیں کہ یہاں ملول خاطر ہوگیا ہوں اور اگر آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہوں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالی کے اس وعدے پر ''جو صبر کرنے والوں کو دیا گیا ہے'' یقین نہیں رکھتا پھر بھی صبر کرنا تمام چیزوں سے بہتر ہے_

۲۳۰

یا رسول اللہ (ص) اگر دشمنوں کی شماتت کا خوف نہ ہوتا تو آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہتا اور اس مصیبت عظمی پر روتا رہتا، یا رسول اللہ (ص) ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کی بیٹی کو مخفی طور سے رات کی تاریکی میں دفن کریں_ اس کا حق لے لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا، یا رسول اللہ (ص) میں اپنے اندرونی درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس دردناک مصیبت پر آپ (ص) کو تسلیت پیش کرتا ہوں آپ(ص) پر اور اپنی مہربانی بیوی پر میرا درد رہو(۱) _

حضرت علی (ع) نے دشمنوں کے خوف سے جناب زہراء (ع) کی قبر مبارک کو ہموار کردیا اور سات یا چالیس تازہ قبریں مختلف جگہ پر بنادیں تا کہ حقیقی قبر نہ پہچانی جاسکے(۲) _

اس کے بعد آپ اپنے گھر واپس لوٹ آئے، جناب ابوبکر اور عمر اور دوسرے مسلمان دوسری صبح کو تشیع جنازہ کے لئے حضرت علی (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، لیکن مقداد نے اطلاع دی کہ جناب فاطمہ (ع) کو کل رات دفن کردیا گیا ہے جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کہا ہیں نے نہیں کہا تھا کہ وہ ایسا ہی کریں گے؟ جناب عباس نے اس وقت کہا کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے وصیت کی تھی کہ مجھے رات کو دفن کردیا جائے اور ہم نے آپ(ع) کی وصیت کے مطابق عمل کیا ہے_ جناب عمر نے کہا، کہ بنی ہاشم کی دشمنی اور حسد ختم ہونے والا نہیں میں فاطمہ (ع) کی قبر کو کھودونگا

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۳۱

اور اس پر نماز پڑھوں گا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا اے عمر خدا کی قسم اگر تم ایسا کروگے تو میں تیرا خون تلوار سے بہادوں گا ہرگز اجازت نہیں دوں گا کہ فاطمہ (ع) کے جنازے کو قبر سے باہر نکالاجائے_ جناب عمر نے حالت کو خطرناک پھانپ لیا اور اپنے اس ارادے سے منحرف ہوگئے(۱) _

وفات کی تاریخ

بظاہر اس امر میں شک کی گنجائشے نہیں کہ جناب زہراء (ع) کی وفات گیا رہ ہجری کو ہوئی ہے کیونکہ پیغمبر (ص) دس ہجری کو حجة الوداع کے سفر پر تشریف لے گئے اور گیارہویں ہجری کے ابتدا میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ ے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

دلائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح یں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ کے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

لائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح میں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ کی وفات تیسری جمادی الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی میں بتائی ہے_

ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲۳۲

فرمایا ہے کہ جناب زہراء (ع) نے تیسرے رمضان المبارک کو وفات پائی مجلسی نے بحار الانوار میں بھی یہ محمد بن عمر سے نقل کیا ہے_

مجلسی نے ___ بحار الانوار میںمحمد بن میثم سے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کی وفات بیس جمادی الثانی کو ہوئی_

محمد تقی سپہر نے ناسخ التواریخ میں ستائیس جمادی الاوّل کو آپ کی وفات بتلائی ہے_

یہ اتنا بڑا اختلاف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد کتنے دن زندہ رہیں_ / دن: کلینی نے کافی ہیں اور دلائل الامامہ کے مولّف نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہی ہیں_ سید مرتضی نے عیون المعجزات میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اس قول کی دلیل وہ روایت ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) ، پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں_ /دن : ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) باپ کے بعد بہتر دن زندہ رہیں_

۳ مہینے: ابوالفرج نے مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ جناب زہرا (ع) کی زندگی میں پیغمبر (ص) کے بعد اختلاف ہے، لیکن آٹھ مہینہ سے زیادہ اور چالیس دن سے کمتر نہ تھی، لیکن صحیح قول وہی ہے کہ جو جعفر صادق علیہ السلام

____________________

۱) اصول کافی، ج ۱ ص ۲۴۱_

۲۳۳

سے روایت ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت زہرا ء (ع) رسول خدا (ص) کے بعد تین مہینے زندہ رہیں(۱) _ اس قول کو صاحب کشف الغمہ نے دولابی سے اور ابن جوزی نے عمر ابن دینار سے بھی نقل کیا ہے_ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں جناب فضّہ سے جو جناب زہراء (ع) کی کنیز تھیں اور کتاب روضة الواعظین میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد چالیس دن زندہ رہی ہیں شہر ابن آشوب نے مناقب میں اسی قول کو قربانی سے نقل کیا ہے_

۶ مہینے: مجلسی نے بحار الانوار میں امام محمد باقر (ع) سے روایت کی ہے کہ حضرت زہراء (ع) باپ کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں، کشف الغمہ میں اسی قول کو ابی شہاب اور زہری اور عائشےہ اور عروہ بن زبیر سے نقل کیا ہے_ ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں ایک قول چھ مہینے سے دس دن کم کا نقل کیا ہے_

۴ مہینے: ابن شہر آشوب نے مناقب میں چہار مہینے کا قول نقل کیا ہے_ دن: امام محمد باقر (ع) سے روایت کی گئی ہے کہ آپ زندہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد پنچانوے دن زندہ رہیں_ دن: ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد ستّر دن زندہ رہیں_

۲ مہینے، ۸ مہینے اور ۱۰۰ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں دو مہینے اور آٹھ مہینے اور سو دن کا قول بھی نقل کیا ہے_

____________________

۱) مقاتل الطالبین، ص ۳۱

۲۳۴

پیغمبر (ص) کی وفات کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آپ کی وفات اٹھائیس صفر کو ہوئی لیکن اہل سنت کے اکثر علماء نے آپ کی وفات کو بارہ ربیع الاوّل کہی ہے اور دوسری ربیع الاوّل بھی گہی گئی ہے_

حضرت زہراء (ع) کا والد کی وفات کے بعد زندہ رہنے میں تیرہ قول ہیں اور جب ان کو جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے اقوال کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو پھر جناب فاطمہ (ع) کی وفات میں دن اور مہینے کے لحاظ سے بہت کافی احتمال ہوجائیں گے یعنی تیرہ کو جب تین سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب انتالیس اقوال ہوجائیں گے، لیکن محققین پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اس معالے میں آئمہ علیہم السلام کے اقوال اور آراء ہی دوسرے اقوال پر مقدم ہوں گے کیوں کہ حضرت زہراء (ع) کی اولاد دوسروں کی نسبت اپنی ماں کی وفات سے بہتر طور باخبر تھی_ لیکن جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے خود آئمہ علیہم السلام کی روایات اس باب میں مختلف وارد ہوئی ہیں اس لئے کہ روایات میں پچہتر دن اور پنچانوے دن اور ستر دن اور تین مہینے اور چھ مہینے بھی وارد ہوئے ہیں_

اگر پیغمبر (ص) کی وفات کو اٹھائیس صفر تسلیم کرلیں اور پھر پچہتر دن کی روایت کا لحاظ کریں تو آپ (ع) کی وفات اس لحاظ سے ۱۳/ اور ۱۵/ جمادی الاوّل کو ہی محتمل ہوگی اور اگر پنچانوے دن کی روایت کا لحاظ کریں تو پھر تیسری یا پانچویں جمادی الثانی کو آنحضرت کی وفات ممکن ہوگی_

اسی طرح آپ خود حساب کرسکتے ہیں اور جو احتمال بن سکتے ہیں انہیں معلوم کرسکتے ہیں_

جناب زہراء (ع) کی عمر کے بارے میں بھی ۱۸، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۵ سال

۲۳۵

جیسے اختلافات موجود ہیں اور چونکہ پہلے ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں لہذا یہاں دوبارہ تکرار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہیتی_

جناب فاطمہ (ع) کی قبر مبارک

ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ آپ کی قبر مخفی رہے اسی لئے حضرت علی (ع) نے آپ (ص) کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور آپ کی قبر کو زمین سے ہموار کردیا اور چالیس تازہ قبروں کی صورت بنادی تا کہ دشمن اشتباہ میں رہیں اور آپ کی حقیقی قبر کی جگہ معلوم نہ کرسکیں گرچہ خود حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد اور خاص اصحاب اور رشتہ دار آپ کی قبر کی جگہ جانتے تھے_ لیکن انہیں جناب زہراء (ع) کی شفارش تھی کہ قبر کو مخفی رکھیں لہذا ان میں سے کوئی بھی حاضر نہ ہوتا تھا کہ آپ (ع) کی قبر کی نشاندہی کرتا یہاں تک کہ ایسے قرائن اور آثار بھی نہیں چھوڑے گئے کہ جس سے آپ کی قبر معلوم کی جاسکے_ آئمہ طاہرین یقینی طور سے آپ کی قبر سے آگاہ تھے لیکن انہیں بھی اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ اس راز الہی کو فاش اور ظاہر کریں لیکن اس کے باوجود اہل تحقیق نے اس کی جستجو میں کمی نہیں کی اور ہمیشہ اس میں بحث و گفتگو کرتے رہے لہذا بعض قرائن اور امارات سے آپ کے دفن کی جگہ کو انہوں نے بتلایا ہے_

۱_ بعض علماء نے کہا ہے کہ آپ جناب پیغمبر (ص) کے روضہ میں ہی دفن ہیں_ مجلسی نے محمد بن ہمام سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کو رسول (ص) کے روضہ میں دفن کیا ہے لیکن قبر کے آثار کو بالکل

۲۳۶

مٹادیا_ نیز مجلسی نے جناب فضہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے کہا کہ جناب فاطمہ (ع) کی نماز جنازہ روضہ رسول میں پڑھی گئی اور آپ کو رسول (ص) کے روضہ میں ہی دفن کردیا گیا_

شیخ طوسی نے فرمایا ہے کہ بظاہر جناب فاطمہ (ع) کو جناب رسول خدا (ص) کے روضہ میں ی اپنے گھر میں دفن کیا گیا ہے اس احتمال کے لئے مزید دلیل جولائی جاسکتی ہے وہ وہ روایت ہے کہ جو رسول خدا (ص) سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے(۱) _

دوسری دلیل یہ ہے کہ لکھا ہے کہ حضرت علی (ع) نے روضہ پیغمبر پر فاطمہ (ع) کی نماز پڑھی اور اس کے بعد پیغمبر کو مخاطب کیا اور فرمایا میرا اور آپ کی دختر کا آپ پر سلام ہو جو آپ کے جوار میں دفن ہے_

۲_ مجلسی نے ابن بابویہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات صحیح ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو اپنے گھر میں دفن کیا تھا اور جب بنی امیہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو جناب فاطمہ (ع) کی قبر مسجد میں آگئی_ مجلسی نے محمد ابن ابی نصر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے جناب ابوالحسن (ع) سے پوچھا کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر کہاں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر میں مدفون ہیں اور بعد میں مسجد میں آگئی ہیں جب مسجد کی توسیع کی گئی _

۳_ صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں کہ مشہور یہی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو بقیع میں دفن کیا گیا_ سید مرتضی نے بھی عیون المعجزات میں یہی قول اختیار کیا ہے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۵_

۲۳۷

ابن جوزی لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بقیع میں مدفون ہیں یہ مطلب شاید اس لئے سمجھا گیا ہو کہ حضرت علی (ع) نے چالیس تازہ قبریں بقیع میں بنائی تھیں اور جب بعض نے ان قبروں میں جناب فاطمہ (ع) کے جنازے کو نکالنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی (ع) خشمناک اور غصّے میں آگئے تھے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دے دی تھی پس معلوم ہوتا ہے کہ ان قبروں میں سے ایک قبر جناب زہراء (ع) کی تھی_

۴_ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ بعض نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو عقیل کے گھر کے قریب دفن کیا گیا تھا آپ کی قبر سے راستے تک سات ذرع کا فاصلہ ہے_ عبداللہ بن جعفر نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر عقیل کے گھر کے قریب واقع ہے_ ان چار احتمالات میں سے پہلا اور دوسرا احتمال ترجیح رکھتا ہے_

۲۳۸

حصّہ ہفتم

حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف اور اس کی تحقیق

۲۳۹

واقعہ فدک اور جناب زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے_ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان تمام مباحث کا ذکر کرنا جب کہ اس کتاب کی غرض جناب فاطمہ (ع) کی زنگی کے ان واقعات کی تشریح کرنے ہے جو لوگوں کے لئے عملی درس ہوں، بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتا اور اہم پہلے سادہ اور مختصر طور پر اس کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات نہیں رکھتے بلکہ ان میں بعض حضرات محقق ہوا کرتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ اس حساس اور مہم موضوع پر جو صدر اسلام سے مورد بحث رہا ہے زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہیئے اور اس واقعہ کو علمی لحاظ سے مورد بحث اور تحقیقی لحاظ سے ہونا چاہیئے لہذا اہم اس حصے کو سابقہ بحث کی بہ نسبت تفصیل سے بحث کرنے کے لئے اس موضوع میں وارد ہو رہے ہیں تا کہ اس موضوع پر زیادہ بحث کی جائے_

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293