فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون0%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيه الله ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 293
مشاہدے: 82253
ڈاؤنلوڈ: 3138

تبصرے:

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82253 / ڈاؤنلوڈ: 3138
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

طول پکڑگئی لیکن ہر روز آپ کی حالت سخت تر ہوتی جا رہی تھی اور آپ کی بیماری میں شدت آتی جارہی تھی_ آپ نے ایک دن حضرت علی (ع) سے کہا اے ابن عم ___ میں موت کے آثار اور علامتیں اپنے آپ میں مشاہدہ کر رہی ہوں مجھے گمان ہے کہ میں عنقریب اپنے والد سے ملاقات کروں میں آپ کو وصیت کرنا چاہتی ہوں_ حضرت علی (ع) جناب فاطمہ (ع) کے بستر کے قریب آبیٹھے اور کمرہ کو خالی کردایا اور فرمایا اے دختر پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کیجئے اور یقین کیجئے کہ میں آپ کی وصیت پر عمل کروں گا_ آپ کی وصیت کی انجام دہی کو اپنے ذاتی کاموں پر مقدم کروں گا_ حضرت علی (ع) نے جناب زہراء (ع) کے افسردہ چہرے اور حلقے پڑی ہوئی آنکھوں پر نگاہ کی اور رودیئے، جناب فاطمہ (ع) نے پلٹ کر اپنی ان آنکھوں سے حضرت علی (ع) کے غمناک اور پمردہ مہربان چہرے کو دیکھا اور کہا اے ابن عم میں نے آج تک آپ کے گھر میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی خیانت کی ہے اور نہ کبھی آپ کے احکام اور دستورات کو پس پشت ڈالا ہے_

حضرت علی (ع) نے فرمایا آپ کو اللہ تعالی کی معرفت اور آپ کا تقوی اتنا قوی اور عالی ہے کہ آپ کے بارے میں اس کا احتمال تک نہیں دیا جاسکتا خدا کی قسم آپ کی جدائی اور فراق مجھ پر بہت سخت ہے لیکن موت کے سامنے کسی کا چارہ نہیں_ خدا کی قسم تم نے میرے مصائب تازہ کردیئے ہیں، تمہاری بے وقت موت میرے لئے ایک دردناک حادثہ ہے_ ''انا للہ و انا الیہ راجعون'' یہ مصیبت کتنی ناگوار اور دردناک ہے؟ خدا کی قسم اس ہلاک کردینے والی مصیبت کو میں کبھی نہیں فراموش کروں گا _ کوئی چیز اس مصیبت سے تسلی بخش نہیں ہوسکتی، اس

۲۲۱

وقت دونو بزرگوار رو رہے تھے(۱) _

جناب زہراء (ع) نے اپنے مختصر جملوں میں اپنی زندگی کے برنامے کو سمودیا اپنی صداقت کے مقام اور پاکدامنی اور شوہر کی اطاعت کو اپنے شوہر سے بیان کیا حضرت علی (ع) نے بھی آپ کے علمی عظمت اور پرہیزگاری و صداقت اور دوستی و زحمات کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بے پنا محبت اور لگاؤ کو آپ کی نسبت ظاہر کیا، اس وقت عواطف اور احساسات پھر سے دونوں زن و شوہر ہیں ''جو اسلام کے نمونہ اور مثال تھے'' اس طرح ابھرے کہ دونوںاپنے رونے پر قابو نہ پاسکے اور کافی وقت تک دونوں روتے رہے اور اپنی مختصر سی ازدواجی زندگی پر جو محبت و صفا اور مہر و صداقت سے پر تھی گریہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو غیر معمولی زحمات اور گرفتاریوں اور مصائب پر روتے رہے تا کہ یہی آنکھوں کے آنسو ان کی اندرونی آگ جو ان کے جسم کو جلا دینے کے نزدیک تھی ٹھنڈا کرسکیں_

جب آپ کا گریہ ختم ہوا حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کا سر مبارک اپنے زانو پر رکھا اور فرمایا، اے پیغمبر(ص) کی عزیز دختر جو آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کریں اور مطمئن رہین کہ میں آپ کی وصیتوں سے تخلف نہ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے یہ وصیتیں کیں_

۱_ مرد بغیر عورت کے زندگی نہیں بسر کرسکتا اور آپ بھی مجبور ہیں کہ شادی کریں میری خواہش ہے کہ آپ میرے بعد امامہ سے شادی کیجئے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۱_

۲۲۲

گا، کیونکہ یہ میرے بچوں پر زیادہ مہربان ہے(۱) _

۲_ میرے بچے میرے بعد یتیم ہوجائیں گے ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ان کو سخت لہجہ سے نہ پکارنا، ان کی دلجوئی کے لئے ایک رات ان کے پاس رہنا ایک رات اپنی بیوی کے پاس(۲) _

۳_ میرا اس طرح اور کیفیت کا تابوت بناناتا کہ میرا جنازہ اٹھاتے وقت میرا جسم ظاہر نہ ہو پھر آپ نے اس تابوت کی کیفیت بیان کی(۳) _

۴_ مجھے رات کو غسل دینا اور کفن پہنانا اور دفن کرنا اور ان آدمیوں کو اجازت نہ دینا جنہوں نے میرا حق غصب کیا ہے اور مجھے اذیت اور آزار دیا ہے کہ وہ میر نماز جنازہ یا تشیع میں حاضر ہوں(۴) _

۵_ رسول خدا کی بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ وقیہ (گندم کا وزن) دینا _

۶_ بنی ہاشم کی ہر ایک عورت کو بھی بارہ وقیہ دینا_

۷_ امامہ کو بھی کچھ دینا(۵) _

۸_ ذی الحسنی نامی باغ اور ساقیہ اور دلال اور غراف اور ہیشم اور ام ابراہیم نامی باغات جو سات عدد بنتے ہیں میرے بعد آپ کے اختیار میں ہوں گے اور آپ کے بعد حسن (ع) اور حسن (ع) کے بعد حسین (ع) اور حسین (ع) کے بعد ان کے بڑے لڑکے کے اختیار میں ہوں گے اس وصیت کے لکھنے والے

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۶۲_

۲) بحار الانوارء ج ۴۳ ص ۱۷۸_

۳،۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۵) دلائل الامامہ ص ۴۲_

۲۲۳

علی (ع) اور گواہ مقداد اور زبیر تھے(۱) _

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ یہ تحریری وصیت بھی آنحضرت(ص) سے ہاتھ لگی ہے_

بسم اللہ الرحمن الرحیم_ یہ وصیت نامہ فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی دختر کا ہے میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد(ص) خدا کے رسول ہیں_ بہشت و دوزخ حق ہیں، قیامت کے واقع ہونے میں شک نہیں ہے_ خدا مردوں کو زندہ کرے گا، اے علی (ع) خدا نے مجھے آپ کا ہمسر قرار دیا ہے تا کہ دنیا اور آخرت میں اکٹھے رہیں، میرا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے، اے علی (ع) رات کو مجھے غسل و کفن دینا اور حنوط کرنا اور دفن کرنا اور کسی کو خبر نہ کرنا اب میں آپ سے وداع ہوتی ہوں، میرا سلام میری تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہوگی پہنچا دینا(۲)

آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں

جناب فاطمہ (ع) کی بیماری شدید ہوگئی اور آپ کی حالت خطرناک ہوگئی حضرت علی (ع) ضروری کاموں کے علاوہ آپ کے بستر سے جدا نہ ہوتے تھے_ جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمار داری کیا کرتی تھیں_ جناب امام حسن اور امام حسین اور زینب و ام کلثوم ماں کی یہ حالت دیکھ کر آپ سے

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۴۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۴_

۲۲۴

بہت کم جدا ہوا کرتے تھے، جناب فاطمہ (ع) کبھی مرض کی شدت سے بیہوش ہوجایا کرتی تھیں، کبھی آنکھیں کھولتیں اور اپنے عزیز فرزندوں پر حسرت کی نگاہ ڈالتیں_

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے احتضار کے وقت آنکھیں کھولیں اور ایک تند نگاہ اطراف پر ڈالی اور فرمایا السلام علیک یا رسول اللہ (ص) اے میرے اللہ مجھے اپنے پیغمبر(ص) کے ساتھ محشور کر خدایا مجھے اپنی بہشت اور اپنے جوار میں سکونت عنایت فرما اس وقت حاضرین سے فرمایا اب فرشتگان خدا اور جبرئیل موجود ہیں میرے بابا بھی حاضر ہیں اور مجھ سے فرما رہے ہیں کہ میرے پاس جلدی آو کہ یہاں تمہارے لئے بہتر ہے(۱) _

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھ سے وفات کی رات فرمایا کہ اے ابن عم ابھی جبرئیل مجھے اسلام کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ خدا بعد از سلام فرماتا ہے کہ عنقریب تم بہشت میں والد سے ملاقات کروگی اس کے بعد آپ نے فرمایا و علیکم السلام_ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے ابن عم ابھی میکائیل نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے پیغام لائے اس کے بعد فرمایا و علیکم السلام_ اس وقت آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ابن عم خدا کی قسم عزرائیل آگئے ہیں اور میری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہیں، اس وقت عزرائیل سے فرمایا کہ میری روح قبض کرلو لیکن نرمی سے_ آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں فرمایا خدایا تیری طرف آوں نہ آ گ کی طرف، یہ کلمات آپ نے فرمائے اور اپنی نازنین آنکھوں کو بند کرلیا اور

____________________

۱) دلائل الامامہ ص ۴۴_

۲۲۵

اور جان کو خالق جان کے سپرد کردیا_

اسماء بنت عمیس نے جناب زہراء (ع) کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد کی وفات کے وقت جبرئیل (ع) کچھ کا فور لے کرئے تھے آپ (ص) نے اسے تین حصّوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک حصّہ اپنے لئے رکھا تھا ایک حصّہ حضرت علی (ع) کے لئے اور ایک حصّہ مجھے دیا تھا اور میں نے اسے فلاں جگہ رکھا ہے اب مجھے اس کی ضرورت ہے اسے لے آؤ_ جناب اسماء وہ کافور لے آئیں_ آپ نے اس کے بعد_ آپ نے غسل کیا اور وضو کیا اور اسماء سے فرمایا میرے نماز کے کپڑے لے آؤ اور خوشبو بھی لے آؤ_

جناب اسماء نے لباس حاضر کیا آپ نے وہ لباس پہنا اور خوشبو لگائی اور قبلہ رخ ہو کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور اسماء سے فرمایا کہ آرام کرتی ہوں تھوڑی دیر___ بعد مجھے آواز دینا اگر میں نے جواب نہ دیا تو سمجھ لینا کہ میں دنیا سے رخصت ہوگئی ہوں اور علی (ع) کو بہت جلدی اطلاع دے دینا، اسماء کہتی ہیں کہ میں تھوڑی دیر صبر کیا اور پھر میں کمرے کے دروازے پر آئی جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی لیکن جواب نہ سنا تب میں نے لباس کو آپ کے چہرے سے ہٹایا تو دیکھا آپ د نیا سے گزر گئی ہیں_ میں آپ کے جنازے پر گرگئی آپ کو بوسہ دیا اور روئی اچانک امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) وارد ہوگئے اپنی والدہ کی حالت پوچھی اور کہا کہ اس وقت ہماری ماں کے سونے کا وقت نہیں ہے میں نے عرض کی اے میرے عزیز و تمہاری ماں دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں_

۲۲۶

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ماں کے جنازے پر گرگئے بوسہ دیتے اور روتے جاتے، امام حسن (ع) کہتے تھے اماں مجھ سے بات کیجئے، امام حسین (ع) کہتے تھے اماں جان میں تیرا حسین (ع) ہوں قبل اس کے میری روح پرواز کرجائے مجھ سے بات کیئجے، جناب زہرا (ع) کے یتیم مسجد کی طرف دوڑے تا کہ باپ کو ماں کی موت کی خبردیں، جب جناب زہراء (ع) کی موت کی خبر علی (ع) کی ملی تو آپ نے شدت غم اور اندوہ سے بیتاب ہوکر فرمایا_ پیغمبر(ص) کی دختر آپ میرے لئے سکون کا باعث تھیں، اب آپ کے بعد کس سے سکون حاصل کروں گا؟(۱)

آپ کا دفن اور تشیع جنازہ

جناب زہراء (ع) کے گھر سے رونے کی آواز بلند ہوئی اہل مدینہ کو علم ہوگیا اور تمام شہر سے رونے اور گریہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں لوگوں نے حضرت علی (ع) کے گھر کا رخ کیا، حضرت علی (ع) بیٹھے ہوئے تھے جناب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے اردگرد بیٹھے گریہ کر رہے تھے_ جناب ام کلثوم روتی اور فرماتی تھیں یا رسول اللہ (ص) گویا آپ ہمارے پاس سے چلے گئے لوگ گھر کے باہر اجتماع کئے ہوئے تھے اور وہ حضرت زہراء (ع) کے جنازے کے باہر آنے کے منتظر تھے، اچانک جناب ابوذر گھر سے باہر نکلے اور کہا لوگو چلے جاؤ کیونکہ جنازے کی تشیع میں دیر کردی گئی ہے(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲۲۷

جناب ابوبکر اور عمر نے حضرت علی (ع) کو تعزیب دی اور عرض کیا یا اباالحسن مبادا ہم سے پہلے جناب فاطمہ (ع) پر نماز پڑھیں(۱) _

لیکن حضرت علی (ع) نے اسماء کے ساتھ مل کر اسی رات جناب زہراء (ع) کو غسل و کفن دیا، جناب زہرا کے چھوٹے چھوٹے بچے جنازے کے اردگرد گریہ کر رہے تھے، جب آپ غسل و کفن سے فارغ ہوگئے تو آواز دی اے حسن (ع) و حسین (ع) اے زینب و ام کلثوم آو ماں کو وداع کرو کہ پھر ان کو نہ دیکھ سکو گے، جناب زہراء (ع) کے یتیم، ماں کے نازنین جنازے پر گرے اور بوسہ دیا اور روئے_ حضرت علی (ع) نے ان کو جنازے سے ہٹایا(۲) _

جنازے پر نماز پڑھی اور جناز اٹھایا، جناب عباس، فضل، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، حسن (ع) اور حسین (ع) ، عقیل، بریدہ، حذیفہ، ابن مسعود جنازے کی تشیع میں شریک ہوئے(۳) _

جب تمام آنکھیں ہو رہی تھیں اندھیرے میں جنازے کو آہستہ آہستہ اور خاموشی کے ساتھ قبر کی طرف لے گئے تا کہ منافقین کو علم نہ ہوجائے اور دفن کرنے سے روک نہ دیں، جنازے کو قبر کے کنارے زمین پر رکھا گیا_ امیرالمومنین حضرت علی (ع) نے خود اپنی بیوی کے نازنین جسم کو اٹھایا اور قبر میں رکھ دیا اور قبر کو فوراً بند کردیا(۴) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۹_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۲۸

حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کی قبر پر

جناب زہراء (ع) کے دفن کو مخفی اور بہت سرعت سے انجام دیا گیا تا کہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ _ آپ کے دفن میں مانع نہ ہوں لیکن جب حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زیادہ غم و اندوہ نے غلبہ کیا آپ نے فرمایا اے خدا کس طرح میں نے پیغمبر (ص) کی نشانی کو زمین میں دفن کیا ہے، کتنی مہربان بیوی، باصفا، پاکدامن اور فداکار کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھا ہوں خدایا اس نے میرا دفاع کرنے میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں کتنی میرے گھر میں زحمت اٹھائی ہے_ آہ زہراء (ع) کا اندرونی درد افسوس ان کے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان کے ورم کئے ہوئے بازو پر ان کے ساقط شدہ بچے پر، اے میرے خدا میری امید تھی کہ آخری زندگی تک اس مہربان بیوی کے ساتھ گزاروں گا لیکن افسوس اور صد افسوس کو موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی ہے_ آہ میں زہراء (ع) کے یتیم چھوٹے بچوں کا کیا کروں؟

رات کے اندھیرے میں آپ جناب رسول خدا (ص) کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی سلام ہو آپ پر اے رسول خدا (ص) میری طرف سے اور آپ کی پیاری دختر کی طرف سے جو ابھی آپ کی خدمت میں پہنچنے والی ہے اور آپ کے جوار میں دفن ہوئی ہے اور سب سے پہلے آپ سے جاملی ہے، یا رسول اللہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے، جیسے آپ کی مصیبت پر صبر کیا ہے زہراء کے فراق پر بھی صبر کروں گا

۲۲۹

یا رسول اللہ (ص) آپ کی روح میرے دامن میں قبض کی گئی میں آپ کی آنکھوں کو بند کرتا تھا میں تھا کہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں التارا ہاں صبر کروں گا اور پڑھوں گا انا للہ و انا الیہ راجعون، یا رسول اللہ وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کی تھی اب آپ (ص) کے پاس لوٹ گئی ہے_ زہراء (ع) میرے ہاتھ سے چھینی گئی ہے، آسمان اور زمین کی رونق ختم ہوگئی ہے، یا رسول اللہ (ص) میرے غم کی کوئی انتہا نہیں رہی میری آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب کہ میں مروں گا اور آپ (ص) کے پاس پہنچوں گا یہ ایسے غم اور مصائب ہیں جو دل کے زخموں سے پیدا ہوئے ہیں، ہماری باصفا گھریلو زندگی کتنی جلدی لٹ گئی ہیں اپنے دل کے درد کو خدا سے بیان کرتا ہوں_

یا رسول اللہ (ص) آپ کی دختر آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے اتفاق کر کے خلافت کو مجھ سے چھیں لیا اور زہراء (ع) کے حق پر قبضہ کرلیا_ یا رسول اللہ (ص) حالات اور اوضاع کو اصرار سے جناب فاطمہ (ع) سے پوچھنا کیوں کہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر یہ کرسکیں لیکن آپ سے وہ بیان کریں گی، تا کہ خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے_ یا رسول اللہ(ص) آپ کو وداع کرتا ہوں اس لئے نہیں کہ آپ (ص) کی قبر پر بیٹھنے سے تھک گیا ہوں اور آپ سے رخصت ہوتا ہوں، اس لئے نہیں کہ یہاں ملول خاطر ہوگیا ہوں اور اگر آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہوں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالی کے اس وعدے پر ''جو صبر کرنے والوں کو دیا گیا ہے'' یقین نہیں رکھتا پھر بھی صبر کرنا تمام چیزوں سے بہتر ہے_

۲۳۰

یا رسول اللہ (ص) اگر دشمنوں کی شماتت کا خوف نہ ہوتا تو آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہتا اور اس مصیبت عظمی پر روتا رہتا، یا رسول اللہ (ص) ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کی بیٹی کو مخفی طور سے رات کی تاریکی میں دفن کریں_ اس کا حق لے لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا، یا رسول اللہ (ص) میں اپنے اندرونی درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس دردناک مصیبت پر آپ (ص) کو تسلیت پیش کرتا ہوں آپ(ص) پر اور اپنی مہربانی بیوی پر میرا درد رہو(۱) _

حضرت علی (ع) نے دشمنوں کے خوف سے جناب زہراء (ع) کی قبر مبارک کو ہموار کردیا اور سات یا چالیس تازہ قبریں مختلف جگہ پر بنادیں تا کہ حقیقی قبر نہ پہچانی جاسکے(۲) _

اس کے بعد آپ اپنے گھر واپس لوٹ آئے، جناب ابوبکر اور عمر اور دوسرے مسلمان دوسری صبح کو تشیع جنازہ کے لئے حضرت علی (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، لیکن مقداد نے اطلاع دی کہ جناب فاطمہ (ع) کو کل رات دفن کردیا گیا ہے جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کہا ہیں نے نہیں کہا تھا کہ وہ ایسا ہی کریں گے؟ جناب عباس نے اس وقت کہا کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے وصیت کی تھی کہ مجھے رات کو دفن کردیا جائے اور ہم نے آپ(ع) کی وصیت کے مطابق عمل کیا ہے_ جناب عمر نے کہا، کہ بنی ہاشم کی دشمنی اور حسد ختم ہونے والا نہیں میں فاطمہ (ع) کی قبر کو کھودونگا

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۳۱

اور اس پر نماز پڑھوں گا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا اے عمر خدا کی قسم اگر تم ایسا کروگے تو میں تیرا خون تلوار سے بہادوں گا ہرگز اجازت نہیں دوں گا کہ فاطمہ (ع) کے جنازے کو قبر سے باہر نکالاجائے_ جناب عمر نے حالت کو خطرناک پھانپ لیا اور اپنے اس ارادے سے منحرف ہوگئے(۱) _

وفات کی تاریخ

بظاہر اس امر میں شک کی گنجائشے نہیں کہ جناب زہراء (ع) کی وفات گیا رہ ہجری کو ہوئی ہے کیونکہ پیغمبر (ص) دس ہجری کو حجة الوداع کے سفر پر تشریف لے گئے اور گیارہویں ہجری کے ابتدا میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ ے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

دلائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح یں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ کے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

لائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح میں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ کی وفات تیسری جمادی الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی میں بتائی ہے_

ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲۳۲

فرمایا ہے کہ جناب زہراء (ع) نے تیسرے رمضان المبارک کو وفات پائی مجلسی نے بحار الانوار میں بھی یہ محمد بن عمر سے نقل کیا ہے_

مجلسی نے ___ بحار الانوار میںمحمد بن میثم سے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کی وفات بیس جمادی الثانی کو ہوئی_

محمد تقی سپہر نے ناسخ التواریخ میں ستائیس جمادی الاوّل کو آپ کی وفات بتلائی ہے_

یہ اتنا بڑا اختلاف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد کتنے دن زندہ رہیں_ / دن: کلینی نے کافی ہیں اور دلائل الامامہ کے مولّف نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہی ہیں_ سید مرتضی نے عیون المعجزات میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اس قول کی دلیل وہ روایت ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) ، پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں_ /دن : ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) باپ کے بعد بہتر دن زندہ رہیں_

۳ مہینے: ابوالفرج نے مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ جناب زہرا (ع) کی زندگی میں پیغمبر (ص) کے بعد اختلاف ہے، لیکن آٹھ مہینہ سے زیادہ اور چالیس دن سے کمتر نہ تھی، لیکن صحیح قول وہی ہے کہ جو جعفر صادق علیہ السلام

____________________

۱) اصول کافی، ج ۱ ص ۲۴۱_

۲۳۳

سے روایت ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت زہرا ء (ع) رسول خدا (ص) کے بعد تین مہینے زندہ رہیں(۱) _ اس قول کو صاحب کشف الغمہ نے دولابی سے اور ابن جوزی نے عمر ابن دینار سے بھی نقل کیا ہے_ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں جناب فضّہ سے جو جناب زہراء (ع) کی کنیز تھیں اور کتاب روضة الواعظین میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد چالیس دن زندہ رہی ہیں شہر ابن آشوب نے مناقب میں اسی قول کو قربانی سے نقل کیا ہے_

۶ مہینے: مجلسی نے بحار الانوار میں امام محمد باقر (ع) سے روایت کی ہے کہ حضرت زہراء (ع) باپ کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں، کشف الغمہ میں اسی قول کو ابی شہاب اور زہری اور عائشےہ اور عروہ بن زبیر سے نقل کیا ہے_ ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں ایک قول چھ مہینے سے دس دن کم کا نقل کیا ہے_

۴ مہینے: ابن شہر آشوب نے مناقب میں چہار مہینے کا قول نقل کیا ہے_ دن: امام محمد باقر (ع) سے روایت کی گئی ہے کہ آپ زندہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد پنچانوے دن زندہ رہیں_ دن: ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد ستّر دن زندہ رہیں_

۲ مہینے، ۸ مہینے اور ۱۰۰ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں دو مہینے اور آٹھ مہینے اور سو دن کا قول بھی نقل کیا ہے_

____________________

۱) مقاتل الطالبین، ص ۳۱

۲۳۴

پیغمبر (ص) کی وفات کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آپ کی وفات اٹھائیس صفر کو ہوئی لیکن اہل سنت کے اکثر علماء نے آپ کی وفات کو بارہ ربیع الاوّل کہی ہے اور دوسری ربیع الاوّل بھی گہی گئی ہے_

حضرت زہراء (ع) کا والد کی وفات کے بعد زندہ رہنے میں تیرہ قول ہیں اور جب ان کو جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے اقوال کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو پھر جناب فاطمہ (ع) کی وفات میں دن اور مہینے کے لحاظ سے بہت کافی احتمال ہوجائیں گے یعنی تیرہ کو جب تین سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب انتالیس اقوال ہوجائیں گے، لیکن محققین پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اس معالے میں آئمہ علیہم السلام کے اقوال اور آراء ہی دوسرے اقوال پر مقدم ہوں گے کیوں کہ حضرت زہراء (ع) کی اولاد دوسروں کی نسبت اپنی ماں کی وفات سے بہتر طور باخبر تھی_ لیکن جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے خود آئمہ علیہم السلام کی روایات اس باب میں مختلف وارد ہوئی ہیں اس لئے کہ روایات میں پچہتر دن اور پنچانوے دن اور ستر دن اور تین مہینے اور چھ مہینے بھی وارد ہوئے ہیں_

اگر پیغمبر (ص) کی وفات کو اٹھائیس صفر تسلیم کرلیں اور پھر پچہتر دن کی روایت کا لحاظ کریں تو آپ (ع) کی وفات اس لحاظ سے ۱۳/ اور ۱۵/ جمادی الاوّل کو ہی محتمل ہوگی اور اگر پنچانوے دن کی روایت کا لحاظ کریں تو پھر تیسری یا پانچویں جمادی الثانی کو آنحضرت کی وفات ممکن ہوگی_

اسی طرح آپ خود حساب کرسکتے ہیں اور جو احتمال بن سکتے ہیں انہیں معلوم کرسکتے ہیں_

جناب زہراء (ع) کی عمر کے بارے میں بھی ۱۸، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۵ سال

۲۳۵

جیسے اختلافات موجود ہیں اور چونکہ پہلے ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں لہذا یہاں دوبارہ تکرار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہیتی_

جناب فاطمہ (ع) کی قبر مبارک

ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ آپ کی قبر مخفی رہے اسی لئے حضرت علی (ع) نے آپ (ص) کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور آپ کی قبر کو زمین سے ہموار کردیا اور چالیس تازہ قبروں کی صورت بنادی تا کہ دشمن اشتباہ میں رہیں اور آپ کی حقیقی قبر کی جگہ معلوم نہ کرسکیں گرچہ خود حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد اور خاص اصحاب اور رشتہ دار آپ کی قبر کی جگہ جانتے تھے_ لیکن انہیں جناب زہراء (ع) کی شفارش تھی کہ قبر کو مخفی رکھیں لہذا ان میں سے کوئی بھی حاضر نہ ہوتا تھا کہ آپ (ع) کی قبر کی نشاندہی کرتا یہاں تک کہ ایسے قرائن اور آثار بھی نہیں چھوڑے گئے کہ جس سے آپ کی قبر معلوم کی جاسکے_ آئمہ طاہرین یقینی طور سے آپ کی قبر سے آگاہ تھے لیکن انہیں بھی اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ اس راز الہی کو فاش اور ظاہر کریں لیکن اس کے باوجود اہل تحقیق نے اس کی جستجو میں کمی نہیں کی اور ہمیشہ اس میں بحث و گفتگو کرتے رہے لہذا بعض قرائن اور امارات سے آپ کے دفن کی جگہ کو انہوں نے بتلایا ہے_

۱_ بعض علماء نے کہا ہے کہ آپ جناب پیغمبر (ص) کے روضہ میں ہی دفن ہیں_ مجلسی نے محمد بن ہمام سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کو رسول (ص) کے روضہ میں دفن کیا ہے لیکن قبر کے آثار کو بالکل

۲۳۶

مٹادیا_ نیز مجلسی نے جناب فضہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے کہا کہ جناب فاطمہ (ع) کی نماز جنازہ روضہ رسول میں پڑھی گئی اور آپ کو رسول (ص) کے روضہ میں ہی دفن کردیا گیا_

شیخ طوسی نے فرمایا ہے کہ بظاہر جناب فاطمہ (ع) کو جناب رسول خدا (ص) کے روضہ میں ی اپنے گھر میں دفن کیا گیا ہے اس احتمال کے لئے مزید دلیل جولائی جاسکتی ہے وہ وہ روایت ہے کہ جو رسول خدا (ص) سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے(۱) _

دوسری دلیل یہ ہے کہ لکھا ہے کہ حضرت علی (ع) نے روضہ پیغمبر پر فاطمہ (ع) کی نماز پڑھی اور اس کے بعد پیغمبر کو مخاطب کیا اور فرمایا میرا اور آپ کی دختر کا آپ پر سلام ہو جو آپ کے جوار میں دفن ہے_

۲_ مجلسی نے ابن بابویہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات صحیح ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو اپنے گھر میں دفن کیا تھا اور جب بنی امیہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو جناب فاطمہ (ع) کی قبر مسجد میں آگئی_ مجلسی نے محمد ابن ابی نصر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے جناب ابوالحسن (ع) سے پوچھا کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر کہاں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر میں مدفون ہیں اور بعد میں مسجد میں آگئی ہیں جب مسجد کی توسیع کی گئی _

۳_ صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں کہ مشہور یہی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو بقیع میں دفن کیا گیا_ سید مرتضی نے بھی عیون المعجزات میں یہی قول اختیار کیا ہے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۵_

۲۳۷

ابن جوزی لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بقیع میں مدفون ہیں یہ مطلب شاید اس لئے سمجھا گیا ہو کہ حضرت علی (ع) نے چالیس تازہ قبریں بقیع میں بنائی تھیں اور جب بعض نے ان قبروں میں جناب فاطمہ (ع) کے جنازے کو نکالنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی (ع) خشمناک اور غصّے میں آگئے تھے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دے دی تھی پس معلوم ہوتا ہے کہ ان قبروں میں سے ایک قبر جناب زہراء (ع) کی تھی_

۴_ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ بعض نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو عقیل کے گھر کے قریب دفن کیا گیا تھا آپ کی قبر سے راستے تک سات ذرع کا فاصلہ ہے_ عبداللہ بن جعفر نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر عقیل کے گھر کے قریب واقع ہے_ ان چار احتمالات میں سے پہلا اور دوسرا احتمال ترجیح رکھتا ہے_

۲۳۸

حصّہ ہفتم

حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف اور اس کی تحقیق

۲۳۹

واقعہ فدک اور جناب زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے_ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان تمام مباحث کا ذکر کرنا جب کہ اس کتاب کی غرض جناب فاطمہ (ع) کی زنگی کے ان واقعات کی تشریح کرنے ہے جو لوگوں کے لئے عملی درس ہوں، بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتا اور اہم پہلے سادہ اور مختصر طور پر اس کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات نہیں رکھتے بلکہ ان میں بعض حضرات محقق ہوا کرتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ اس حساس اور مہم موضوع پر جو صدر اسلام سے مورد بحث رہا ہے زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہیئے اور اس واقعہ کو علمی لحاظ سے مورد بحث اور تحقیقی لحاظ سے ہونا چاہیئے لہذا اہم اس حصے کو سابقہ بحث کی بہ نسبت تفصیل سے بحث کرنے کے لئے اس موضوع میں وارد ہو رہے ہیں تا کہ اس موضوع پر زیادہ بحث کی جائے_

۲۴۰