فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون13%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102076 / ڈاؤنلوڈ: 4601
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

دوسرے: حضرت علی (ع) نے تصریح فرمائی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کہ ہاں ہمارے پاس اس میں سے کہ جس پر آسمان سایہ فگن ہے صرف فدک تھا، ایک گروہ نے اس پر بخل کیا اور دوسرا گروہ راضی ہوگیا اور اللہ ہی بہترین قضاوت کرنے والا ہے(۱) _

تیسرے: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب جناب ابوبکر نے حکم دیا کہ فدک سے جناب فاطمہ (ع) کے آدمیوں اور کام کرنے والوں کو نکال دیا جائے تو حضرت علی (ع) ان کے پا س گئے اور فرمایا اے ابوبکر، اس جائداد کو کہ جو رسول خدا (ص) نے فاطمہ (ع) کو بخش دی تھی اور ایک مدت تک جناب فاطمہ (ع) کا نمائندہ پر قابض رہا آپ نے کیوں لے لی ہے؟(۲) _

رسول خدا(ص) کا فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دینا اور جناب فاطمہ (ع) کا اس پر قابض ہونا یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، اسی لئے جب عبداللہ بن ہارون الرشید کو مامون کی طرف سے حکم ملا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کردیا جائے تو اس نے ایک خط میں مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ رسول خدا (ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا اور یہ بات آل رسول (ص) میں واضح اور معروف ہے اور کسی کو اس بارے میں شک نہیں ہے اب امیرالمومنین (مامون) نے مصلحت اسی میں دیکھی ہے کہ فدک فاطمہ (ع) کے وارثوں کو واپس کردیا جائے(۳) _

ان شواہد اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک جناب رسول خدا(ص) کے

____________________

۱) نہج البلاغہ باب المختار من الکتاب، کتاب ۴۵_

۲) نورالثقلین، ج ۴ ص ۲۷۲_

۳) فتوح البلدان، ص ۴۶_

۲۶۱

زمانے میں حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کے قبضے میں تھا اس قسم کے موضوع میں گواہوں کا طلب کرنا اسلامی قضا اور شہادت کے قانوں کے خلاف ہے_

دوسرا اعتراض:

جناب ابوبکر اس نزاع میں جانتے تھے کہ حق جناب فاطمہ (ع) کے ساتھ اور خود_ انہیں جناب زہراء (ع) کی صداقت اور راست گوئی کا نہ صرف____ اعتراف تھا بلکہ تمام مسلمان اس کا اعتراف کرتے تھے کوئی بھی مسلمان آپ کے بارے میں جھوٹ اور افتراء کا احتمال نہ دیتا تھا کیوں کہ آپ اہل کساء میں سے ایک فرد تھیں کہ جن کے حق میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے کہ جس میں خداوند عالم نے آپ کی عصمت اور پاکیزگی کی تصدیق کی ہے_

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ مطلب کتاب قضا اور شہادت میں ثابت ہے کہ اموال اور دیوں کے معاملے میں اگر قاضی کو واقعہ کا علم ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرسکتا ہے او روہ گواہ اور بینہ کا محتاج نہ ہوگا، بنابراین جناب ابوبکر جب جانتے تھے کہ حضرت زہراء (ع) ، سچی ہیں اور رسول خدا(ص) نے فدک انہیں عطا کیا ہے تو آپ کو چاہیئے تھا کہ فوراً جناب زہراء (ع) کی بات تسلیم کرلیتے اور آپ سے گواہوں کا مطالبہ نہ کرتے_

جی ہاں مطلب تو یوں ہی ہے کہ جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق حضرت زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور رسول خدا(ص) نے فدک میں انہیں دے دیا ہے شاید ابوبکر پیغمبر(ص) کے اس عمل سے ناراض تھے اسی لئے جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں کہا کہ یہ مال پیغمبر اسلام کا نہ تھا بلکہ یہ مسلمانوں کا مال تھا کہ جس سے پیغمبر (ص) فوج تیار کرتے تھے اور جب آپ فوت ہوگئے تو اب

۲۶۲

میں اس مال کا متولی ہوں جیسے کہ پیغمبر(ص) متولی تھے(۱) _

ایک اور جگہ جناب ابوبکر نے اپنے آپ کو دوبڑے خطروں میں دیکھا ایک طرف جناب زہراء (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک انہیں بخشا ہے اور اپنے اس مدعا کے لئے دو گواہ علی (ع) اور ام ایمن کو حاضر کیا اور جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور انہیں اور ان کے گواہوں کو نہیں چھٹلا سکتے تھے اور دوسری طرف سیاست وقت کے لحاظ سے جناب عمر اور عبدالرحمن کو بھی نہیں جھٹلاسکتے تھے تو آپ نے ایک عمدہ چال سے جناب عمر کے قول کو ترجیح دی اور تمام گواہوں کے اقوال کی تصدیق کردی اور ان کے اقوال میں جمع کی راہ نکالی اور فرمایا کہ اے دختر رسول (ص) آپ سچی ہیں علی (ع) سچے ہیں اور ام ایمن سچی ہیں اور جناب عمر اور عبدالرحمن بھی سچے ہیں، اس لئے کہ جناب رسول خدا(ص) فدک سے آپ کے آذوقہ کی مقدار نکال کر باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور آپ اس مال میں کیا کریں گی؟ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہی کروں گی جو میرے والد کرتے تھے، جناب ابوبکر نے کہا کہ میں قسم کھا کر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے(۲) _

ایک طرف تو جناب ابوبکر جناب زہراء (ع) کے اس ادعا ''کہ فدک میرا مال ہے'' کی تصدیق کرتے ہیں اور حضرت علی (ع) اور ام ایمن کی گواہوں کی بھی تصدیق کرتے ہیں اور دوسری طرف جناب عمر اور عبدالرحمن کے قول کی

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲۶۳

بھی انہوں نے کہا کہ رسول خدا فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے تصدیق کرتے ہیں اور اس وقت اپنے اجتہاد کے مطابق ان اقوال (توافق) جمع کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا مال آپ کے والد کا مال تھا کہ جس سے آپ کا آذوقہ لے لیتے تھے اور باقی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کردیتے تھے اس کے بعد جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) سے پوچھتے ہیں کہ اگر فدک آپ کو دے دیا جائے تو آپ کیا کریں گی، آپ نے فرمایا کہ میں اپنے والد کی طرح خرچ کروں گی تو فوراً جناب ابوبکر نے قسم کھا کر جواب دیا کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے اور میں آپ(ص) کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا_

لیکن کوئی نہ تھا کہ جناب ابوبکر سے سوال کرتا کہ جب آپ مانتے ہیں کہ فدک جناب زہراء (ع) کی ملک ہے اور آپ جناب فاطمہ (ع) اور ان کے گواہوں کی تصدیق بھی کر رہے ہیں تو پھر ان کی ملکیت ان کو واپس کیوں نہیں کردیتے؟ جناب عمر اور عبدالرحمن کی گواہوں صرف یہی بتلانی ہے کہ پیغمبر(ص) فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے، اس سے جناب زہراء (ع) کی ملکیت کی نفی تو نہیں ہوتی کیونکہ پیغمبر(ص) جناب زہراء (ع) کی طرف سے ماذون تھے کہ فدک کی زائد آمدنی کو راہ خدا میں خرچ کردیں، لیکن اس قسم کی اجازت جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر کو تو نہیں دے رکھی تھی بلکہ اس کی اجازت ہی نہیں دی تو پھر ابوبکر کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ فرمائیں کہ میں بھی آپ کے والد کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا، مالک تو کہتا ہے کہ میری ملکیت مجھے واپس کردو اور آپ اس سے انکار کر کے وعدہ کرتے ہیں کہ میں بھی آپ کے والد کی طرح عمل کروں گا، سبحان اللہ اور آفرین اس قضاوت اور فیصلے پر_

۲۶۴

تیسرا اعتراض:

فرض کیجئے کہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے گواہوں کے نصاب کو ناقص سمجھتے تھے اور ان کی حقانیت پر یقین بھی نہیں رکھتے تھے تو پھر بھی ان کا وظیفہ تھا کہ حضرت زہراء (ع) سے قسم کھانے کا مطالبہ کرتے اور ایک گواہ اور قسم کے ساتھ قضاوت کرتے کیوں کہ کتاب قضا اور شہادت میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ ام وال اور دیون کے واقعات میں قاضی ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر حکم لگا سکتا ہے، روایت میں موجود ہے کہ رسول خدا (ص) ایک گواہ کے ساتھ قسم ملا کر قضاوت اور فیصلہ کردیا کرتے تھے(۱) _

چوتھا اعتراض:

اگر ہم ان سابقہ تمام اعتراضات سے صرف نظر کرلیں تو اس نزاع میں جناب فاطمہ (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک انہیں بخش دیا ہے اور جناب ابوبکر منکر تھے اور کتب فقہی میں یہ مطلب مسلم ہے کہ اگر مدعی کا ثبوت ناقص ہو تو قاضی کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ مدعی کو اطلاع دے کہ تمہارے گواہ ناقص ہیں اور تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تم منکر سے قسم اٹھانے کا مطالبہ کرو، لہذا جناب ابوبکر پر لازم تھا کہ وہ جناب زہراء (ع) کو تذکر دیتے کہ چونکہ آپ کے گواہ ناقص ہیں اگر آپ چاہیں تو چونکہ میں منکر ہوں آپ مجھ سے قسم اٹھوا سکتی ہیں، لیکن جناب ابوبکر نے قضاوت کے اس قانون کو بھی نظرانداز کیا اور صرف گواہ کے ناقص ہونے کے ادعا کو نزاع کے خاتمہ کا اعلان کر کے رد کردیا_

____________________

۱) مجمع الزوائد، ج ۳ ص ۲۰۲ _

۲۶۵

پانچواں اعتراض:

اگر فرض کرلیں کہ جناب زہراء (ع) کی حقانیت اس جگھڑے میں جناب ابوبکر کے نزدیک ثابت نہیں ہوسکی تھی لیکن پھر بھی فدک کی آراضی حکومت اسلامی کے مال میں تھی، مسلمانوں کے حاکم اور خلیفہ کو حق پہنچتا تھا کہ وہ عمومی مصلحت کا خیال کرتے، جب کہ آپ اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ تصور کرتے تھے، فدک کو بعنوان اقطاع جناب فاطمہ (ع) دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اس عمل سے ایک بہت بڑا اختلاف جو سالہا سال تک مسلمانوں کے درمیان چلنے والا تھا اس کے تلخ نتائج کا سد باب کردیتے_

کیا رسول خدا(ص) نے بنی نضیر کی زمینیں جناب ابوبکر اور عبدالرحمن بن عوف اور ابو دجانہ کو نہیں دے دی تھیں(۱) _

کیا بنی نضیر کی زمین مع درختوں کے زبیر بن عوام کو پیغمبر(ص) اسلام نے نہیں دے دی تھیں(۲) _

کیا معاویہ نے اسی فدک کا تہائی حصہ کے عنوان سے مروان بن الحکم اور ایک تہائی جناب عمر بن عثمان کو اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو نہیں دے دیا تھا(۳) _

کیا یہ بہتر نہ تھا کہ جناب ابوبکر بھی اسی طرح دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اتنے بڑے خطرے اور نزاع کو ختم کردیتے؟

____________________

۱) فتوح البلدان، ص ۳۱_

۲) فتوح البلدان، ص ۳۴_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲۶۶

چھٹا اعتراض:

اصلاً جناب ابوبکر کا اس نزاع میں فیصلہ اور قضاوت کرنا ہی ازروئے قانون قضاء اسلام درست نہ تھا کیونکہ جناب زہراء (ع) اس واقعہ میں مدعی تھیں اور جناب ابوبکر منکر تھے، اس قسم کے موارد میں یہ فیصلہ کسی تیسر آدمی سے _ کرانا چاہیئے تھا، جیسے کہ پیغمبر(ص) اور حضرت علی (ع) اپنے نزاعات میں اپنے علاوہ کسی اور قاضی سے فیصلہ کرایا کرتے تھے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جناب ابوبکر خود ہی منکر ہوں او رخود ہی قاضی بن کر اپنے مخالف سے گواہ طلب کریں اور اپنی پسند کا فیصلہ اور قضاوت خود ہی کرلیں_

ان تمام مطالب سے یہ امر مستفاد ہوتا ہے کہ فدک کے معاملے میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ تھا اور جناب ابوبکر نے عدل اور انصاف کے راستے سے عدول کر کے ان کے حق میں تعدی اور تجاوز سے کام لیا تھا_

رسول خدا (ص) کے مدینہ میں اموال

بنی نضیر یہودیوں کی زمینیں رسول خدا (ص) کا خالص مال تھا، کیونکہ بغیر جنگ کے فتح ہوئی تھیں اس قسم کے مال میں پیغمبر اسلام (ص) کو پورا اختیار تھا کہ جس طرح مصلحت دیکھیں انہیں مصرف میں لائیں، چنانچہ آپ نے بنی نضیر سے منقول اموال جو لئے تھے وہ تو مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیئےور کچھ زمین اپنے لئے مخصوص کرلی اور حضرت علی (ع) کو حکم دیا کہ اس پر تصرف کریں اور بعد میں اسی زمین کو وقف کردیا اور موقوفات میں داخل قرار دیا اپنی زندگی میں اس کے متولی خود آپ تھے آپ کی وفات کے بعد اس کی تولیت حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور ان کی اولاد کے سپرد کی(۱)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲۰ ص ۱۷۳_

۲۶۷

یہودیوں کے علماء میں سے مخیرق نامی ایک عالم _ مسلمانوں ہوگئے انہوں نے اپنا مال جناب رسول خدا (ص) کو بخش دیا ان کے اموال میں سے سات باغ تھے کہ جن کے یہ نام تھے_ مشیب، صافیہ، دلال، حسنی، برقہ، اعوف، مشربہ ام ابراہیم یہ تمام اس نے جناب رسول خدا (ص) کو ہبہ کردیئےھے آپ(ص) نے بھی انہیں وقف کردیا تھا(۱) _

بزنطی کہتے ہیں کہ میں نے سات زرعی زمینوں کے متعلق ''جو جناب فاطمہ (ع) کی تھیں'' امام رضا (ع) سے سوال کیا _ آپ نے فرمایا یہ رسول خدا(ص) نے وقف کی تھیں کہ جو بعد میں حضرت زہراء (ع) کو ملی تھیں، پیغمبر اسلام (ص) اپنی ضروریات بھر ان میں سے لیا کرتے تھے جب آپ نے وفات پائی تو جناب عباس نے ان کے بارے میں حضرت فاطمہ (ع) سے نزاع کیا، حضرت علی (ع) اور دوسروں نے گواہی دی کہ یہ وقفی املاک ہیں وہ زرعی زمینیں اس نام کی تھیں دلال، اعوف حسنی، صافیہ، مشربہ ام ابراہیم، مشیب، برقہ(۲) _

حلبی اور محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ ہم نے رسول خدا (ص) اور فاطمہ زہراء (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا کہ وہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کا مال تھا(۳) _

ابومریم کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا(ص) اور حضرت علی (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ

____________________

۱) فتوح البلدان، ص ۳۱_ سیرة ابن ہشام، ج ۲ ص ۵ ۱۶_

۲) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۲۹۶_

۳) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۲۶۶_

۲۶۸

ہمارے لئے حلال ہے جناب فاطمہ (ع) کے صدقات بنی ہاشم اور بنی المطلب کا مال تھا(۱) _

جناب رسول خدا(ص) نے ان املاک کو جو مدینہ کے اطراف میں تھے وقف کردیا تھا اور ان کی تولیت حضرت فاطمہ (ع) اور حضرت علی (ع) کے سپرد کردی تھی_ یہ املاک بھی ایک مورد تھا کہ جس میں حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا ہوا تھا_

بظاہر حضرت زہراء (ع) اس جھگڑے میں کامیاب ہوگئیں اور مدینہ کے صدقات اور اوقاف کو آپ نے ان سے لے لیا، اس کی دلیل اور قرینہ یہ ہے کہ آپ نے موت کے وقت ان کی تولیت کی علی (ع) اور اپنی اولاد کے لئے وصیت کی تھی، لیکن مجلسی نے نقل کیا ہے کہ جناب ابوبکر نے بالکل کوئی چیز بھی جناب فاطمہ (ع) کو واپس نہیں کی البتہ جب جناب عمر خلافت کے مقام پر پہنچے تو آپ نے مدینہ کے صدقات اور اوقاف حضرت علی (ع) اور عباس کو واپس کردیئےلیکن خیبر اور فدک واپس نہ کئے اور کہا کہ یہ رسول خدا(ص) کے لازمی اور ناگہانی امور کے لئے وقف ہیں_

مدینہ کے اوقاف اور صدقات حضرت علی (ع) کے قبضے میں تھے اس بارے میں جناب عباس نے حضرت علی (ع) سے نزاع کیا لیکن اس میں حضرت علی کامیاب ہوگئے لہذا آپ کے بعد یہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں آیا اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کے بعد جناب عبداللہ بن حسن (ع) کے ہاتھ میں تھے یہاں تک کہ بنی عباس خلافت پر پہنچے تو انہوں نے یہ صدقات بنی ہاشم سے واپس لے لئے(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۲۹۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۲ ص ۳۰۰_

۲۶۹

خیبر کے خمس کا بقایا

۷ ہجری کو اسلام کی سپاہ نے خیبر کو فتح کیا اس کے فتح کرنے میں جنگ اور جہاد کیا گیا اسی وجہ سے یہودیوں کا مال اور اراضی مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوئی_

رسول خدا(ص) نے قانون اسلام کے مطابق غنائم خیبر کو تقسیم کیا، آپ نے منقولہ اموال کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا چار حصّے فوج میں تقسیم کردیئےور ایک حصہ خمس کا ان مصارف کے لئے مخصوص کیا کہ جسے قرآن معین کرتا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے :

( و اعلموا انما غنمتم من شیئً فان لله خمسه و للرسول و لذی القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل ) (۱)

یعنی جان لو کہ جو بھی تم غنیمت لو اس کا خمس خدا اور پیغمبر(ص) اور پیغمبر(ص) کے رشتہ دار اور ذوی القربی اور اس کے یتیم اور تنگ دست اور ابن سبیل کے لئے ہے_ اس آیت اور دیگر احادیث کے رو سے غنیمت کا خمس چھ جگہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف اسی جگہ خرچ کرنا ہوگا_

جناب رسول خدا (ص) خمس کو علیحدہ رکھ دیتے تھے اور بنی ہاشم کے ذوالقربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کی ضروریات زندگی پورا کیا کرتے تھے اور باقی کو اپنے ذاتی مصارف او رخدائی کاموں پر خرچ کیا کرتے

____________________

۱) سورہ انفال آیت ۴۱_

۲۷۰

تھے آپ نے خیبر کے خمس کو بھی انہیں مصارف کے لئے علیحدہ رکھ چھوڑا تھا اس کی کچھ مقدار کو آپ نے اپنی بیویوں میں تقسیم کردیا تھا مثلاً جناب عائشےہ کو خرما اور گندم اور جو کے دو وسق وزن عنایت فرمائے_ کچ مقدار اپنے رشتہ داروں اور ذوی القربی میں تقسیم کیا مثلاً دو وسق سو وزن جناب فاطمہ (ع) کو اور ایک سو وسق حضرت علی (ع) کو عطا فرمائے(۱) _

اور خیبر کی زمین کو دو حصوں میں تقسیم کی ایک حصہ زمین کا ان مصارف کے لئے جو حکومت کو در پیش ہوا کرتے ہیں مخصوص کردیا اور دوسرا حصہ مسلمانوں اور افواج اسلام کی ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کردیا اور پھر ان تمام زمینوں کو یہودیوں کو اس شرط پر واپس کردیا کہ وہ اس میں کاشت کریں اور اس کی آمدنی کا ایک معین حصّہ پیغمبر(ص) کو دیا کریں_ آپ اس حصہ کو وہیں خرچ کرتے تھے کہ جسے خداوند عالم نے معین کیا(۲) _

جب رسول خدا (ص) کی وفات ہوگئی تو جناب ابوبکر نے خیبر کے تمام موجود غنائم پر قبضہ کرلیا، یہاں تک کہ وہ خمس جو خدا اور اس کے رسول (ص) اور بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں، مسکینوں اور ابن سبیل کا حصہ تھا اس پر بھی قبضہ کرلیا_ اور بنی ہاشم کو خمس سے محروم کردیا_

حسن بن محمد بن علی (ع) ابن ابیطالب کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے ذوی القربی کا سہم جناب فاطمہ (ع) اور دوسرے بنی ہاشم کو نہیں دیا اور اس کو کار خیر میں جیسے اسلحہ اور زرہ و غیرہ کی خریداری پر خرچ کرتے تھے(۳) _

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام، ج ۳ ص ۳۶۵، ص ۳۷۱_

۲) فتوح البلدان، ص ۲۶ تا ۴۲_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۲۷۱

عروہ کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور فدک اور سہم ذی القربی کا ان سے مطالبہ کیا_ جناب ابوبکر نے انہیں کوئی چیز نہ دی اور اسے اللہ کے اموال میں داخل کردیا(۱) _

الحاصل یہ موضوع بھی ان موارد میں سے ایک ہے کہ جس میں جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا و مورد نزاع قرار پایا کہ آپ کبھی اسے خیبر کے عنوان سے اور کبھی اسے سہم ذی القربی کے عنوان سے جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا کرتی تھیں_

اس مورد میں بھی حق جناب فاطمہ زہراء (ع) کے ساتھ ہے کیونکہ قرآن شریف کے مطابق خمس ان خاص موارد میں صرف ہوتا ہے کہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور ضروری ہے کہ بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کو دیا جائے_ یہ کوئی وراثت نہیں کہ اس کا یوں جواب دیا جائے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے، جناب فاطمہ (ع) ابوبکر سے فرماتی تھیں کہ خداوند عالم نے قرآن میں ایک سہم خمس کا ذوی القربی کے لئے مخصوص کیا ہے اور چاہیئے کہ یہ اسی مورد میں صرف ہو آپ تو ذوی القربی میں داخل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے مصداق ہیں آپ نے یہ ہمارا حق کیوں لے رکھا ہے_

انس بن مالک کہتے ہیں کہ فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم خود جانتے ہو کہ تم نے اہلبیت کے ساتھ زیادتی کی ہے اور ہمیں رسول خدا (ص) کے صدقات اور غنائم کے سہم ذوی القربی سے کہ جسے قرآن نے معین کیا ہے محروم کردیا ہے خداوند عالم فرماتا ہے''و اعلموا انما غنمتم من شیء الخ'' جناب ابوبکر نے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۳۱_

۲۷۲

جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر اور آپ کے والد پر قربان جائیں اس رسول (ص) کی دختر میں اللہ کتاب اور رسول (ص) کے حق اور ان کے قرابت داروں کے حق کا پیرو ہوں، جس کتاب کو آپ پڑھتی ہیں میں بھی پڑھتا ہوں لیکن میری نگاہ میں یہ نہیں آیا کہ خمس کا ایک پورا حصہ تمہیں دے دوں_

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ آیا خمس کا یہ حصہ تیرے اور تیرے رشتہ داروں کے لئے ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس کی کچھ مقدار تمہیں دونگا اور باقی کو مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا حکم تو اس طرح نہیں ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ اللہ تعالی کا حکم یوں ہی ہے(۱) _

رسول خدا کی وراثت

جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے ایک نزاع اور اختلاف رسول خدا (ص) کی وراثت کے بارے میں تھا_ تاریخ اور احادیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) کی وفات کے بعد جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور اپنے والد کی وراثت کا ان سے مطالبہ کیا، جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت کے عنوان سے کچھ بھی نہ دیا اور یہ عذر پیش کیا کہ پیغمبر (ص) میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ وہ مال چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس مطلب کے لئے انہوں نے ایک حدیث بھی بیان کی کہ جس کے راوی وہ خود ہیں اور کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین اور ملک اور گھر بار میراث میں نہیں چھوڑتے بلکہ ہماری وراثت ایمان اور حکمت

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۰_

۲۷۳

اور علم و دانش اور شریعت ہے_ میں اس موضوع میں پیغمبر(ص) کے دستور اور ان کی مصلحت کے مطابق کام کروں گا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے حضرت ابوبکر کی اس بات کو تسلیم نہ کیا اور اس کی تردید قرآن مجید کی کئی آیات سے تمسک کر کے کی ہمیں اس موضوع میں ذرا زیادہ بحث کرنی چاہئے تا کہ وراثت کا مسئلہ زیادہ واضح اور روشن ہوجائے_

قرآن میں وراثت

قرآن کریم میں وراثت کا مطلق قانون وارد ہوا ہے_ خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ تمہیں اولاد کے بارے میں سفارش کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ لڑکی کے دو برابر ہے(۲) _

یہ آیت اور قرآن کی دوسری آیات جو میراث کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان میں کلیت اور عمومیت ہے اور وہ تمام لوگوں کو شامل ہیں اور پیغمبروں کو بھی یہی آیات شامل ہیں_ پیغمبر (ص) بھی ان نصوص کلیہ کی بناء پر میراث چھوڑنے والے سے میراث حاصل کریں گے اور ان کے اپنے اموال بھی ان کے وارثوں کو ملیں گے انہیں نصوص کلیہ کی بناء پر ہمارے رسول (ص) کے اموال اور ترکے کو ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہونا چاہیئے، البتہ اس قانون توارث کے عموم اور کلیت میں کسی قسم کا شک نہیں کرنا چاہیئے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا کوئی قطعی دلیل ہے جو پیغمبروں کو اس کلی اور عمومی قانون وراثت سے خارج اور مستثنی قرار دے رہا ہے ؟

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲) سورہ نساء آیت ۱۱_

۲۷۴

جناب ابوبکر کی حدیث

حضرت زہراء (ع) کے مقابلے میں جناب ابوبکر دعوی کرتے تھے کہ تمام پیغمبر (ص) وراثت کے کلی قوانین سے مستثنی اور خارج ہیں اور وہ میراث نہیں چھوڑتے اپنے اس ادعا کے لئے جناب ابوبکر نے ایک حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس کے راوی خود آپ ہیں اور یہ روایت کتابوں میں مختلف عبارات سے نقل ہوئی ہے:

''قال ابوبکر لفاطمة فانی سمعت رسول الله یقول انا معاشر الانبیاء لانورث ذهبا و لا فضّة و لا ارضا و لا دار او لکنا نورث الایمان و الحکمة و العلم و السنة فقد عملت بما امرنی و نصحت له '' (۱)

یعنی ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے کہا کہ میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین، مکان ارث میں نہیں چھوڑتے ہمارا ارث ایمان، حکمت، دانش، شریعت ہوا کرتا ہے میں رسول خدا (ص) کے دستور پر عمل کرتا ہوں اور ان کی مصلحت کے مطابق عمل کرتا ہوں_

دوسری جگہ روایت اس طرح ہے کہ جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا کہ آپ ان سے رسول خدا (ص) کی میراث طلب کرتی تھیں اور آپ وہ چیزیں طلب کرتی تھیں جو رسول اللہ نے مدینہ میں چھوڑی تھیں_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲۷۵

اور فدک اور جو خیبر کا خمس بچا ہوا تھا، جناب ابوبکر نے کہا رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو چھوڑجاتے ہیں وہ صدقہ (یعنی وقف) ہوتا ہے، آل محمد(ص) تو اس سے صرف کھاسکتے ہیں(۱) _

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر سے گفتگو کی تو جناب ابوبکر رودیئےور کہا کہ اے دختر رسول اللہ (ص) آپ کے والد نے نہ دینا اور نہ درہم چھوڑا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے(۲) _

ایک اور حدیث یوں ہے کہ جناب ام ہانی کہتی ہیں کہ جناب فاطمہ نے جناب ابوبکر سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا اس نے جواب دیا کہ میری اولاد اور اہل، آپ نے فرمایا پھر تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو رسول اللہ کا وارث بن بیٹھا ہے اور ہم نہیں؟ اس نے کہا اے دختر رسول (ص) آپ کے والد نے گھر، مال اور سونا اور چاندی وراثت میں نہیں چھوڑی، جب جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ ہمارا وہ حصہ جو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اور ہمارا فئی تمہارے ہاتھ میں ہے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ یہ ایک طعمہ ہے کہ جس سے اللہ نے ہم اہلبیت کو کھانے کے لئے دیا ہے، جب میں مرجاؤں تو یہ مسلمانوں کے لئے ہوجائے گا(۳) _

ایک اور روایت یوں ہے کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۱۷_

۲)شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۱۶_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۱۸_

۲۷۶

فرمایا کہ میری میراث رسول اللہ (ص) سے جو بنتی ہے وہ مجھے دو_ جناب ابوبکر نے کہا کہ انبیاء ارث نہیں چھوڑتے جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ (یعنی وقف) ہوتا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے اس قسم کی حدیث سے استدلال کر کے جناب فاطمہ (ع) کو والد کی میراث سے محروم کردیا لیکن یہ حدیث کئی لحاظ سے حجت نہیں کہ جس سے استدلال کیا جاسکے_

قرآن کی مخالفت

یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے کیونکہ قرآن میں تصریح کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے مردوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں اور جیسا کہ آئمہ طاہرین نے فرمایا ہے کہ جو حدیث قرآن کی مخالف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی اسے دیوار پر دے مارو، ان آیات میں سے کہ جو انبیاء کے ارث چھوڑنے کو بتلاتی ہیں ایک یہ ہے:

''ذکر رحمة ربک عبده ذکر یا اذ نادی ربه خفیا خفیا'' تا ''فهب لی من لدنک ولیاً یرثنی و یرث من آل یعقوب و اجعله رب رضیاً'' (۲) _

لکھا ہے کہ جناب زکریا کے چچازاد بھائی بہت برے لوگ تھے اگر جناب زکریا کے فرزند پیدا نہ ہوتا تو آپ کا تمام مال چچازاد بھائیوں کو ملنا آپ کو ڈر

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۳_

۲) سورہ مریم آیت ۴_

۲۷۷

تھا کہ میری میراث چچازاد بھائیوں کو مل گئی تو اس مال کو برائیوں اور گناہ پر خرچ کریں گے اسی لئے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ خدایا مجھے اپنے وارث چچازاد بھائیوں سے خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے، خداوندا مجھے ایک فرزند عطا فرما جو میرا وارث بنے، خداوند عالم نے آنجناب کی دعا قبول فرمائی اور خدا نے جناب یحیی کو انہیں عطا کیا_ اس آیت سے اچھی واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرف میراث چھوڑتے ہیں ورنہ حضرت زکریا کی دعا اور خواہش بے معنی ہوتی_

یہاں یہ کہا گیا ہے کہ شاید جناب زکریا کی وراثت علم و دانش ہو نہ مال و ثروت، اور انہوں نے اللہ تعالی سے خواہش کی ہو کہ انہیں فرزند عنایت فرمائے کہ جو ان کے علوم کا وارث ہو اور دین کی ترویج کی کوشش کرے، لیکن تھوڑاسا غور کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ احتمال درست نہیں ہے اس لئے کہ وراثت کا لفظ مال کی وراثت میں ظہور رکھتا ہے نہ علم کی وراثت میں اور جب تک اس کے خلاف کوئی قرینہ موجود نہ ہو اسے وراثت مال پر ہی محمول کیا جائے گا_ دوسرے اگر تو وراثت سے مراد مال کی وراثت ہو تو جناب زکریا کا خوف یا محل ہے اور اگر مراد وراثت سے علمی وراثت ہو تو پھر اس آیت کے معنی کسی طرح درست نہیں قرار پاتے کیوں کہ اگر مراد علمی وراثت سے علمی کتابیں ہیں تو یہ در حقیقت مالی وراثت ہوجائے گی اس لئے کہ کتابوں کا شمار اموال میں ہوتا ہے نہ علم میں اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت زکریا کو اس کا خوف تھا کہ علوم اور معارف اور قوانین شریعت ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھ میں چلے گئے تو وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائیں گے تو بھی جناب زکریا کا یہ خوف درست نہ تھا کیوں کہ جناب زکریا کا وظیفہ یہ تھا کہ

۲۷۸

قوانین اور احکام شریعت کو عام لوگوں کے سپرد کریں اور ان کے چچازاد بھائی بھی عموم ملّت میں شامل ہوں گے اور پھر اگر جناب زکریا کے فرزند بھی ہوجاتا تب بھی آپ کے چچازاد بھائی قوانین کے عالم ہونے کی وجہ سے غلط فائدہ ا ٹھا سکتے تھے اور اگر جناب زکریا کو اس کا خوف تھا کہ وہ مخصوص علوم جو انبیاء کے ہوتے ہیں وہ ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں تو بھی آنجناب کا یہ خوف بلا وجہ تھا کیون کہ وہ مخصوص علوم آپ ہی کے اختیار میں تھے اور بات آپ کی قدرت میں تھی کہ ان علوم کی اپنے چچازاد بھائیوں کو اطلاع ہی نہ کریں تا کہ وہ اسرار آپ ہی کے پاس محفوظ رہیں اور آپ جانتے تھے کہ خداوند عالم نبوت کے علوم کا مالک بدکار لوگوں کو نہیں بتاتا_ بہرحال وراثت سے علمی وراثت مراد ہو تو جناب زکریا کا خوف اور ڈر معقول نہ ہوتا اور بلاوجہ ہوتا_

ممکن ہے یہاں کوئی یہ کہے کہ جناب زکریا کو خوف اور ڈر اس وجہ سے تھا کہ آپ کے چچازاد بھائی برے آدمی اور خدا کے دین اور دیانت کے دشمن تھے آپ کے بعد اس کے دین کو بدلنے کے درپے ہوتے اور آپ کی زحمات کو ختم کر کے رکھ دیتے لہذا جناب زکریا نے خدا سے دعا کی کہ مجھے ایک ایسا فرزند عنایت فرما کہ جو مقام نبوت تک پہنچے اور خدا کے دین کے لئے کوشش کرے اور اسے باقی رکھے پس اس آیت میں وراثت سے مراد علم اورحکمت کی وراثت ہوگی نہ مال اور ثروت کی_

لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خدا کبھی بھی زمین کو پیغمبر یا امام کے وجود سے خالی نہیں رکھتا، لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جناب زکریا کو اس جہت سے خوف اور ڈر تھا کہ شاید خداوند عالم

۲۷۹

دین اور شریعت کو بغیر کسی حامی کے چھوڑ دے اور اگر جناب زکریا ایسا فرزند چاہتے تھے کہ جو پیغمبر اور دین کا حامی ہو تو آپ کو اس طرح نہ کہنا چاہیئے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عنایت فرما جو میری وراثت کے مالک ہو اور اسے صالح قرار دے_ بلکہ ان کو اس صورت میں اس طرح دعا کرنی چاہیئے تھی کہ خدایا مجھے خوف ہے کہ میرے بعد دین کی اساس کو ختم کردیا جائے گا میں تجھ سے تمنا کرتا ہوں کہ میرے بعد دین کی حمایت کے لئے ایک پیغمبر بھیجنا اور میں دوست رکھتا ہوں کہ وہ پیغمبر میری اولاد سے ہو اور مجھے ایک فرزند عنایت فرما جو پیغمبر ہو اور پھر اگر میراث سے مراد علم کی میراث ہو تو پھر دعا میں اس جملے کی کیا ضرورت تھی خدا اسے محبوب اور پسندیدہ قرار دے کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خداوند عالم غیر صالح اور غیر اہل افراد کو پیغمبری کے لئے منتخب نہیں کرے گا تو پھر اس جملے

''خدایا میرے فرزند کو پسندیدہ اور صالح قرار دے'' کی ضرورت ہی نہ تھی_ اس پوری گفتگو سے یہ مطلب واضح ہوگیا ہ کہ جناب یحیی کی میراث جناب زکریا سے مال کی میراث تھی نہ کہ علم کی اور یہی آیت اس مطلب پر کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح میراث لینے ہیں اور میراث چھوڑتے ہیں بہت اچھی طرح دلالت کر رہی ہے لہذا جو حدیث ابوبکر نے اپنے استدلال کے لئے بیان کی وہ قرآن کے مخالف ہوگی اور حدیث شناسی کے علم میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ جو حدیث قرآن مجید کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں ہوا کرتی اور اسے دیوار پر دے مارنا چاہیئے اسی لئے تو جناب زہراء (ع) نے ''جو قوانین اور احکام شریعت اور حدیث شناسی اور تفسیر قرآن کو اپنے والد اور شوہر سے حاصل کرچکی تھیں'' اس حدیث کے رد کرنے کے لئے اسی سابقہ آیت کو اس کے مقابلے میں پڑھا اور بتلایا کہ یہ حدیث اس آیت کی مخالف ہے کہ جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293