فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون20%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104308 / ڈاؤنلوڈ: 4815
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اور بہشت سے غذا لایا او رعرض کی آج رات اس بہشتی غذا کو تناول کیجئے_ رسول خدا(ص) نے اس روحانی اور بہشتی غذا سے ا فطار کیا جب آپ نماز اور عبادت کے لئے کھڑے ہوئے تو جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کی اے رسول اکرم (ص) آج رات مستحبی نماز کو رہنے دیجئے اور جناب خدیجہ کے پاس تشریف لے جایئےیونکہ اللہ تعالی نے ارادہ کر رکھا ہے کہ آپ صلب سے ایک پاکیزہ بچہ خلق فرمائے_

پیغمبر اکرم(ص) جلدی میں جناب خدیجہ کے گھر کی طرف روانہ ہوے_ جناب خدیجہ فرماتی ہیں کہ اس رات بھی میں حسب معمول دروازہ بند کر کے اپنے بستر پر آرام کر رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھٹکھٹائے ، پیغمبر علیہ السلام کی دلنشین آواز میرے کانوں میں آئی کہ آپ فرما رہے تھے کہ دروازہ کھولو، میں محمد(ص) ہوں، میں نے جلدی سے دروازہ کھولا آپ خندہ پیشانی کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نور باپ کے صلب سے ماں کے رحم میں منتقل ہوا _(۱)

حمل کا زمانہ

جناب خدیجہ میں آ ہستہ آہستہ حاملہ ہونے کے آثار نمودار ہونے لگے اور خدیجہ کو تنہائی کے درد و رنج سے نجات مل گئی اور آپ اس بچے سے جو آپ کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں_

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب سے جناب خدیجہ نے جناب رسولخدا(ص)

____________________

۱) بحارالانوار_ ج ۱۶ ص ۷۸_

۲۱

سے شادی کی تھی تب سے مکہ ک ی عورتوں نے آ پ سے روابط آمد و رفت اور سلام و دعا ختم کردیئے تھے اور ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ آپ کے گھر میں کوئی بھی عورت نہ آنے پائے مکہ ک ی بڑی شخصیت کی مالک خواتین نے جناب خدیجہ کو تنہا چھوڑ کر آپ سے الفت و محبت کو ختم کردی تھی اسی وجہ سے آپ اندوہناک اور غمناک رہتی تھیں اور آہستہ آہستہ آپ تنہائی کے غم سے نجات مل گئی تھی اور آپ اس بچے سے جو آپ کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں تھیں اور اسی سے راز و نیاز کر کے خوش وخرم رہتی تھیں_

جناب جبرئیل حضرت محمد(ص) اور جناب خدیجہ کو بشارت دینے کے لئے نازل ہوئے او رکہا یا رسول اللہ وہ بچہ کہ جو جناب خدیجہ کے شکم مبارک میں ہے وہ ایک با عظمت لڑکی ہے کہ جس سے تیری نسل قائم رہے گی اور وہ دین کے ان پیشواؤں اور اماموں کی کہ جو وحی کے خاتمے کے بعد تیرے جانشین ہوں گے ماں ہوگی_ جناب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالی کی اس بشارت کو جناب خدیجہ سے بیان کیا اور اس خبر سے جو دل کو خوش کرنے والی تھی آپ کو خشنود کیا_(۱)

جی ہاں وہ خدیجہ کہ جس نے توحید اور خداپرستی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا اور ہر قسم کی محرومی اور سختی کو برداشت کر نے پر تیار ہوگئی تھیں اور اپنی بے پناہ دولت کو اسی مقدس غرض کے لئے وق کر رکھا تھا اپنے دوست اور غمگسار چھوڑ چکی تھیں، جناب محمد(ص) اور ان کے بزرگ مقدس ہدف کو سوائے اللہ کے ہر چیز پر ترجیح دیتی تھیں، جب آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک زبان سے

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۸_

۲۲

اس قسم کی بشارت سنی کہ جس سے اللہ تعالی نے اسے قسم کی بڑی سعادت سے نوازا کہ جس سے دین کے معصوم پیشوا پیدا ہوں گے تو آپ کا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا_ اور آپ کی فداکاری کی حس کو اس سے زیادہ تحریک ملی اور اپنے خدا اور اس بچے سے جو ان کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں_

ولادت فاطمہ (ع)

جناب خدیجہ کی حاملگی کی مدت ختم ہوئی اور ولادت کا وقت آپہنچا، جناب خدیجہ دردز ہ میں تڑپ رہی تھیں اسی دوران کسی کو اپنی سابقہ سہیلیوں اور قریش کی عورتوں کے پاس روانہ کیا اور پیغام دیا کہ پرانے کینہ کو فراموشی کردو اور اس خطرناک موقع پر میری فریاد رسی کرو اور بچے کی ولادت میں میری مدد کو آو، تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص روتے ہوئے جناب خدیجہ کے پاس واپس آیا اور کہا کہ جس کے گھر کا دروازہ میں نے کھٹکھٹایا اس نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور تمہای خواہش کو رد کرتے ہوئے سب نے یک زبان کہا کہ خدیجہ سے کہہ دو کہ تم نے ہماری نصیحت قبول نہ کی تھی اور ہمای مرضی کے خلاف ایک فقیر یتیم سے شادی کرلی تھی اس لئے نہ ہم تمہارے گھر آسکتے ہیں اور نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں_

جب جناب خدیجہ نے کینہ پرور عورتوں کا یہ زبانی زخم لگانے والا پیغام سنا تو تمام سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے خالق دو جہان خدا کی طرف متوجہ ہوگئیں اس وقت اللہ کے فرشتے اور جنت کی حوریں اور آسمانی عورتوں آپ کی مدد کے لئے آئیں اور آپ اللہ تعالی کی غیبی مدد سے بہرہ ور ہوئیں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جو آسمانی نبوت کا چمکتا ہوا ستارہ تھا اس جہاں میں قدم رکھا اور اپنے نور ولایت سے مشرق و مغرب کو روشن

۲۳

اور منور کردیا _(۱)

پیدائشے کی تاریخ

جناب فاطمہ (ع) کی پیدائشے کی تاریخ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن علماء شیعہ کے درمیان مشہور ہے کہ آپ جمعہ کے د ن بیس جمادی الثانی بعثت کے بعد پانچویں سال میں پیدا ہوئیں_

اگر چہ اکثر سنی علماء نے آپ کی پیدائشے کو بعثت کے پہلے بتلایا ہے جنانچہ عبدالرحمن بن جوزی تذکرة الخواص کے ص ۳۰۶ پر رقمطراز ہے کہ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال قریش مسجدالحرام کی تعمیر میں مشغول تھے یعنی بعثت سے پانچ سال پہلے_

محمدبن یوسف حنفی نے اپنی کتاب درالسمطین کے ص ۱۷۵ پر لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے اور اس وقت پیغمبر علیہ السلام کا سن مبارک پنتیس سال کا تھا_

ابوالفرج مقاتل الطالبین کے ص ۳۰ پر لکھتے ہیں کہ فاطمہ (ع) بعثت سے پہلے اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال خانہ کعبہ تعمیر ہوا_

مجلسی نے بحارالانوار کی جلد ۴۳ کے ص ۲۱۳ پر لکھا ہے کہ ایک دن عبداللہ بن حسن خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے دربار میں گئے کہ جہاں پہلے سے اس دربار میں کلبی بھی موجود تھا ہشام نے عبداللہ سے کہا کہ فاطمہ (ع) کی کتنی عمر تھی؟ عبداللہ نے اس کے جواب میں کہا تیس سال، ہشام نے یہی سوال بعینہ کلبی سے کیا تو اس نے جواب میں کہا،

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۵_ بحارالانوار_ ج ۴۳ _ ص ۲ اور ج ۱۶_ ص ۸۰_

۲۴

پنتیس سال_ ہشام جناب عبداللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ آپ نے کلبی کی بات سنی؟ کلبی کی معلومات نسب کے بارے میں خاصی ہیں___ جناب عبداللہ نے جواب دیا اے امیرالمومنین میری ماں کا حال آپ مجھ سے پوچھیں اور کلبی کی ماں کے حالات اس سے لیکن شیعہ علماء کی اکثریت نے جیسے ابن شہر آشوب نے جلد ۳ کے ص ۳۹۷ پر کلینی نے کافی کی جلد ۱ کے ص ۱۴۹ پر، محدث قمی نے منتہی الامال کی جلد ۱ کے ص ۹۷پر، محمدتقی سپہر نے ناسخ التواریخ کے ص ۱۷ پر، علی ابن عیسی نے کشف الغمہ کی جلد ۲ کے ص ۷۵پر، طبری نے دلائل الامامة کے ص ۱۰ پر، فیض کاشانی نے وافی کے جلد۱ کے ص ۱۷۳ پر ان تمام علماء اور دوسرے دیگر علماء نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بعثت کے پانچ سال بعد متولدئیں ان علماء کا مدرک و دلیل وہ روایات ہیں جوانہوں نے آئمہ اطہار سے نقل کی ہیں_

ابوبصیر نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بیس جمادی الثانی کو جب کہ پیغمبر اکرم(ص) کی پنتالیس سلا کی عمر مبارک تھی اس دنیا میں تشریف لائیں، آٹھ سال تک باپ کے ساتھ مکہ میں رہیں، دس سال تک باپ کے ساتھ مدینہ میں زندگی گزاری باپ کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں اور تین جمادی الثانی گیارہ ہجری کو وفات پاگئیں_

لیکن قارئین پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ آپ کی وفات کا تین جمادی الثانی کو ہونا آپ کا پیغمبر(ص) کے بعد پچھتر دن زندہ رہنے کے ساتھ درست قرار نہیں پاتا بلکہ پیغمبر(ص) کے بعد ۹۵ دن زندہ رہنا معلوم ہوتا ہے لہذا ہوسکتا ہے کہ سبعین عربی میںکہ جس کے معنی ستر کے ہیں لفظ تسعین سے کہ جس کے معنی نوے کے ہیں اشتباہ میں نقل کیا گیا ہو_

حبیب سجستانی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) دختر پیغمبر اسلام(ص) ، رسول اللہ (ص) کی بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہوئیں اور

۲۵

آپ کی وفات کے وقت اٹھارہ سال پچہتر دن عمر مبارک کے گزرچکے تھے، یہ اصول کافی کی جلد ۱ ص ۴۵۷ پر موجود ہے_ ایک روایت کے مطابق آپ کی شادی نو سال کی عمر میں کی گئی_

سعید بن مسیب نے کہا ہے کہ میں نے زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ پیغمبر علیہ السلام نے جناب فاطمہ (ع) کی شادی حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کس سن میں کی تھی آپ(ع) نے فرمایا ہجرت کے ایک سال بعد، اس وقت ہجرت فاطمہ (ع) نو سال کی تھیں، یہ روضہ کافی طبع نجف اشرف ۱۳۸۵ ہجری کے ص ۲۸۱ پر موجود ہے_

اس قسم کی احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) کی بعثت کے بعد متولد ہوئیں_ صاحب کشف الغمہ___ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں دو متضاد چیزوں کو جمع کردیا ہے کیونکہ انہوں نے نقل کیا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) رسول اللہ(ص) کی بعثت کے پانچ سال بعد متولد اور وہ دہ سال تھا کہ جس میں قریش خانہ کعبہ تعمیر کرنے میں مشغول تھے اور آپ کی عمر وفات کے وقت اٹھارہ سال پچھتر دن تھی_ یہ کشف ا لغمہ کی جلد ۲ ص ۷۵ پر موجود ہے_

آپ خود ملاحظہ کر رہے ہیں کہ اس حدیث میں واضح تناقض موجود ہے کیوں کہ ایک طرف تو اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول کی بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہوئیں اور وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال و پچھتر دن تھی اور دوسری طرف اسی روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت قریش خانہ کعبہ تعمیر کر رہے تھے_ یہ دونوں مطلب جمع نہیں ہوسکتے کیونکہ خانہ کعبہ کی تعمیر اور تجدید پیغمبر علیہ السلام کی بعثت کے پانچ سال پہلے ہوئی تھی نہ بعثت کے بعد_

بہرحال اس حدیث میں اشتباہ ہوا ہے لفظ قبل البعثہ کو بعد البعثہ نقل کیا گیا ہے یا ''قریش تنبی البیت'' یعنی قریش خانہ کی تعمیر کر رہے تھے کہ جملہ راوی نے اپنی طرف

۲۶

سے اضافہ کردیا ہے کہ جسے امام علیہ السلام نے نہیں فرمایا ہوگا_ کعفمی نے مصباح میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) جمعہ کے دن بیس جمادی الثانی بعثت کے دوسرے سال دنیا میں تشریف لائیں یہ بحار الانوار جلد ۴۳ کے ص ۹ پر بھی موجود ہے_

ان اقوال کے نقل کرنے سے یہ واضح ہوگیا کہ علماء اسلام کے درمیان جناب فاطمہ (ع) کی ولادت کے سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن چونکہ اہلبیت کے افراد آپ کی ولادت بعثت کے پانچ سال بعد مانتے ہیں لہذا ان کا قول سنی تاریخ نویسوں پر مقدم ہوگا_ کیونکہ آئمہ اطہار اور پیغمبر کے اہلبیت اور حضرت زہرا(ع) کی اولاد دوسروں کی نسبت اپنی والدہ کے سن اور عمر مبارک سے زیادہ باخبر ہیں_

اگر کوئی یہاں یہ اعتراض اٹھائے کہ جناب خدیجہ نے بعثت کے دسویں سال میں وفات پائی ہے اور اس وقت آپ کی عمر پینسٹھ سال تھی لہذا جناب فاطمہ (ع) کی ولادت اگر بعثت کے پانچ سال بعد مانی جائے تو لازم آئے گا کہ جناب خدیجہ انسٹھ سال کی عمر میں جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہوئی ہوں جو قابل قبول نہیں ہے، کیا اس عمر میں حاملہ ہونا تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے، پہلے تو یہ کہ یہ قطعی ن ہیں کہ آپ کی عمر وفات کے وقت پینسٹھ سال کی تھی بلکہ ابن عباس کے قول کے مطابق آپ کی عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے کے وقت اڑتالیس سال کی بنتی ہے کیونکہ این عباس نے فرمایا ہے کہ جناب خدیجہ نے اٹھائیس سال کی عمر میں جناب رسول خدا(ص) کے ساتھ شادی کی تھی جیسے کشف الغمہ کی جلد۲ کے ص ۱۳۹ پر مرقوم ہے، ابن عباس کا قول دوسروں پر مقدم ہے کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے رشتہ دار ہیں اور آپ کے داخلی ا مور کو دوسروں کی بہ نسبت بہتر جانتے ہیں_

اس روایت کی روسے جناب خدیجہ جناب رسول خدا کی بعثت کے وقت

۲۷

تینتالیس سال کی عمر میں ہوں گی اور جب جناب فاطمہ (ع) کا تولد پانچویں بعثت میں ہو تو جناب خدیجہ کی عمر اس وقت اڑتالیس سال کی ہوگی کہ جس میں عورت کا حاملہ ہونا عا دی ہوا کرتا ہے_

اگر ہم ابن عباس کے قول کو تسلیم نہ کریں تب بھی جواب دیا جاسکتا ہے کہ اگر جناب خدیجہ نے جیسے کہ مشہور ہے چالیس سال کی عمر میں جناب رسول خدا(ص) کے ساتھ شادی کی تھی اور آپ کی عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے کے وقت انسٹھ سال کی ہو گی تو بھی یہ عمر قریش کی عورتوں کے لئے حاملہ ہونے کی عادت کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ تمام فقہاء نے لکھا ہے کہ قریش کی عورتوں ساٹھ سال تک صاحب عادت رہتی ہیں اور اس وقت تک حاملہ ہوسکتی ہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ جناب خدیجہ قریش خاندان کی ایک اعلی فرد تھیں_

اگر چہ یہ ٹھیک ہے کہ عورت کا اس سن میں حاملہ ہونا بہت نادر اور کم ہوا کرتا ہے لیکن___ محال نہیں ہے بلکہ اس کی مثال اس دنیا میں بھی موجود ہے، جیسے ایک عورت کہ جس کا نام اکرم موسوی تھا، بندر عباس کے سرخون نامی جگہ پر اس نے توام دو بچے جنے اور اس کی عمر اس وقت پینسٹھ سال کی تھی اور اس کے شوہر کی عمر چوہتر سال تھی_

روزنامہ اطلاعات کو ایک ڈاکٹر نے بتلایا کہ ہمیں پیدائشے کی عمر کی ڈاکٹری لحاظ سے جو کم سے کم عمر بتلائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت چار سال اور ساتھ مہینے کی حاملہ ہوئی ہے اور سب سے زیادہ عمر کی ماں اس دنیا میں سرسٹھ سال کی ہوچکی ہے_ یہ مطلب ایران کے اخبار اطلاعات کے ۲۸ بہمن ۱۳۵۱ شمسی میں موجود ہے_

ایک عورت جس کا نام شوشنا ہے جو اصفہان کی رہنے والی تھی چھیاسٹھ سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور ایک لڑکے کو جنم دیا اس کے شوہر یحیی نامی نے اخبار نویسوں کو بتلایا کہ میرے اس عورت سے آٹھ بچے ہیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں، سب سے چھوٹا

۲۸

پچیس سال کا ہے اور سب بڑا لڑکا پچاس سال کا ہے _ اسے اخبار اطلاعات نے ۲۰ اردیبہشت ۱۳۵۱، شمسی کے پرچے میں نقل کیا ہے_

اس کے بعد کیا مانع ہوسکتا ہے کہ جناب خدیجہ بھی انہیں کمیاب اور نادر افراد میں سے ایک ہوں کہ جو اس عمر میں حاملہ ہوگئی ہیں_

آخر میں ایک اور نکتہ طرف متوجہ ہونا بھی ضروری ہے کہ جو اختلاف جناب فاطمہ زہرا(ع) کی ولادت کے سال میں موجود ہے اس کا اثر آپ(ع) کی عمر پر بھی پڑے گا اور آپ کی عمر میں شادی اور وفات کے وقت میں بھی قہراً اختلاف ہوجائے گا اسی واسطے اگر آپ کی پیدائشے بعثت کے پانچ سال پہلے تسلیم کی جائے تو آپ کی عمر شادی کے وقت تقریباً اٹھارہ سال اور وفات کے وقت اٹھائیس سال ہوگی اور اگر آپ کی پیدائشے بعثت کے پانچ سال بعد مانی جائے تو پھر آپ کی عمر شادی کے وقت نو سال اور وفات کے و قت اٹھارہ سال کی ہوگی_

جناب رسول خدا(ص) اور جناب خدیجہ کی آرزو

خلقت کے اسرار میں سے ایک راز یہ ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اور لڑکا ہوتا تا کہ اسے اپنی حسب منشاء تربیت کرے اور اپنی یادگار چھوڑ جائے_ انسان فرزند کو اپنے وجود کا باقی رہنا شمار کرتا ہے اور مرنے کے وقت آپ کو فناء اور ختم ہوجانا نہیں جانتا، لیکن وہ آدمی جس کا کوئی فرزند نہ ہو تو وہ اپنی زندگی کو مختصر اور موت کے آپہنچنے سے اپنے آپ کو ختم سمجھتا ہے شاید پیدائشے کو یوں سلسلہ نسل انسانی کی بقاء کا وسیلہ قرار دیا گیا ہوتا کہ نسل انسانی نابودی اور منقرض ہوجانے سے محفوظ رہ جائے_

جی ہاں پیغمبر(ص) اور جناب خدیجہ بھی اس قسم کی تمنا رکھتے تھے، وہ خدیجہ جو خداپرستی

۲۹

اور بشریت کی نجات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرتی تھیں اور پیغمبر کے مقدس ہدف کو آگے بڑھانے میں مال اور دولت اور رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی قطع تعلقی سے گریز نہ کرتی تھی، بغیر کسی قید و شرط کے جناب رسول خدا(ص) کی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کرچکی تھیں یقینا ان کی بھی یہ خواہش ہوگی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صاحب فرزند ہوں تا کہ وہ دین اسلام کا حامی اور اس کی اشاعت اور ترویج میں اور اسے آنحضرت کے عالی ہدف تک پہنچانے میں کوشاں ہو_

پیغمبر اسلام(ص) جانتے تھے کہ انسان کے لئے موت یقینی ہے آپ تھوڑی اور مختصر مدت میں اتنے بڑے ہدف کو بطور کامل جاری نہیں کرسکتے اور تمام جہان کے بشر کو گمراہی کے گرداب سے نہیں نکال سکتے فطری بات ہے کہ آپ کا دل بھی چاہتا ہو گا کہ ایسے ایثار کرنے والے افراد جو ان کی اپنی نسل سے ہوں موجود ہو جائیں_

جناب محمد مصطفی (ص) اور جناب خدیجہ اس قسم کی ضرور تمنا اور خواہش رکھتے ہوں گے ، لیکن افسوس کہ جو لڑکے آپ کے پیدا ہوئے تھے کہ جنہیں عبداللہ اور قاسم کے نام سے موسوم کیا گیا تھا وہ بچپن ہی میں فوت ہوگئے جتنا دکھ جناب رسول خدا(ص) اور جناب خدیجہ کو ان کی وفات سے ہوا تھا اتنا ہی ان کے دشمن خوش اور شاد ہوئے تھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام (ص) کی نسل کو ختم ہوتا دیکھ رہے تھے، کبھی دشمن آپ کو ابتر یعنی لاولد کے نام سے پکارتے تھے_

جب آپ کے فرزند عبداللہ فوت ہوئے تو عاص بن وائل بجائے اس کے کہ آپ کو آپ کے فرزند کی موت پر تسلی دیتا مجمع عام میں آپ کو ابتر اور لاولد کہتا تھا اور کہتا تھا کہ جب محمد(ص) مرجائیں گے تو ان کا کوئی وارث نہ ہوگا_ وہ زبان کے زخم سے جناب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

۳۰

اور جناب خدیجہ کا دل زخمی کیا کرتا تھا_(۱)

کوثر

خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کو بشارت دی کہ ہم آپ کو خیر کثیر عطا کریں گے_ اللہ تعالی نے دشمنوں کے جواب میں سورہ کوثر کو نازل فرمایا اور اس میں فرمایا کہ اے محمد(ص) ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا پس تم خدا کے لئے نماز پڑھو اور قربانی دو، آپ کا دشمن ہی لاولد ہے نہ کہ آپ_(۲)

پیغمبر اسلام(ص) کو یقین تھا کہ اللہ کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہوتا مجھ سے پاکیزہ نسل اور اولاد وجود میں آئے گا جو تمام جہان کی نیکیوں کا سرچشمہ اور منبع ہوگی_ جب اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا اور جناب فاطمہ زہرا(ع) دنیا میں تشریف لائیں اور آپ کے نور ولایت سے جہان روشن ہوا تو جناب رسول خدا(ص) کو اطلاع دی گئی کہ خداوند عالم نے جناب خدیجہ کو ایک لڑکی عنایت فرمائی ہے، آپ کا دل اس بشارت سے خوشی اور شادمانی سے لبریز ہوگیا، آپ لڑکی___ ہونے سے نہ صرف غمگین نہ ہوئے بلکہ اس وسیلے سے آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور اللہ تعالی کی خوشخبری کے آثار کا مشاہدہ فرمانے لگے_

جی ہاں پیغمبر اکرم(ص) ان کوتاہ فکر اور جاہلیت کے زمانے کے ان نادانوں میں سے نہ تھے جو لڑکی کے وجود پر شرمندہ ہوتے تھے، او رغصے کو فرو کرنے کے لئے اس کی بے گناہ ماں کو گالیاں اور ظلم کا نشانہ بناتے تھے لوگوں

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام_ ج ۲ _ ص ۳۴_ تفسیر جوامع الجامع_ مولفہ طبرسی_ ص ۵۲۹_

۲) سورہ کوثر_

۳۱

سے منھ چھپانے تھے _(۱)

پیغمبر اسلام(ص) اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ لوگوں کے غلط رسم و رواج اور بیہودہ افکار ''کہ جس کی وجہ سے عورتوں کی قدر و قیمت کے قائل نہ تھے اور انہیں معاشرے کافر و حساب نہ کرتے تھے اور بے گناہ لڑکیوں کو زندہ در گور کردیتے تھے'' سے مقابلہ اور مبارزہ کریں اور لوگوں کو بتادیں کہ عورت بھی معاشرہ کی حساس فرد ہے اس پر بہت بڑا وظیفہ اور مسئولیت عائد ہوتی ہے وہ بھی معاشرہ کی عظمت اور ترقی کے لئے کوشش کرے اور ان وظائف کو جو اس کی خلقت کی مناسب سے اس پر عائد کئے گئے بجالائے_

جی ہاں اللہ تعالی نے عملی طور سے عالم کی عورت کی قدر و قیمت سمجھائی ہے_ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کی ذریت اور پاک نسل کو ایک لڑکی میں قرار دیا اور اس طرح مقدر فرمایا کہ امام اور دین اسلام کے رہبر اور پیشوا تمام کے تمام جناب فاطمہ اطہر کی نسل سے وجود میں آئیں اللہ تعالی نے اس طرح ان نادان لوگوں کے منھ پر جو لڑکی کو اپنی اولاد شمار نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے وجود کو موجب عار اور رننگ سمجھتے تھے مضبوط طمانچہ مارا_

ماں کا دودھ

جب جناب فاطمہ زہرا(ع) کو ایک پارچہ میں لیپٹ کر جناب خدیجہ کے دامن میں رکھا گیا تو آپ بہت خوش ہوئیں اور اپنے پستانوں کو اس تازہ مولود کے چھوٹے سے منھ میں دے کر اپنے عمدہ اور بہترین دودھ سے سیراب کیا اور یہ ایک

____________________

۱) سورہ نحل آیتہ ۵۸_

۳۲

ایسا رویہ تھا کہ جس سے جناب فاطمہ (ع) نے اچھی طرح نمو اور رشد پایا_(۱)

جی ہاں جناب خدیجہ ان خودپسند اور نادان عورتوں میں سے نہ تھیں کہ جو بغیر کسی عذر اور بہانے کے اپنے نو مولود کو ماں کے دودھ سے (کہ جسے اللہ تعالی نے مہیا کیا ہے) محروم کردیتی ہیں_ جناب خدیجہ کو خود علم تھا یا پیغمبر اسلام(ص) سے سن رکھا تھا کہ بچوں کی غذا اور صحت کے لئے کوئی غذا بھی ماں کے دودھ کے برابر نہیں ہوسکتی کیونکہ ماں کا دودھ ہی اس کے ہاضمہ کی مشیزی اور اس کے خاص مزاج کے لئے کاملاً مناسب اور سازگار ہوا کرتا ہے جو بچے میں اللہ نے ودیعت کر رکھی ہے، بچہ نو مہینے تک ماں کے رحم میں ماں کی غذا اور ہوا اور خون میں شریک رہتا ہے اور بلاواسطہ ماں سے رزق حاصل کرتا ہے اسی لئے ماں کے دودھ کے اجزائے ترکیبی بچے کے مزاج سے کاملاً مناسب ہوتے ہیں اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں کسی قسم کی ملاوٹ کا شائبہ نہیں ہوسکتا اور اس میں زچگی کے جراثیم جو بیماری کا موجب ہوسکتے ہیں نہیں ہوا کرتے _(۲)

جناب خدیجہ کو علم تھا کہ ماں کا پر محبت دامن او رمہر مادری اور بچے کا ماں کے پستانوں سے دودھ پینا کون سے نقوش بچے کی آئندہ زندگی پر چھوڑتے ہیں سعادت او رنیک بختی میں کتنے قابل توجہ اثرات نقش بناتے ہیں اسی لئے آپ نے یہ اختیار کیا کہ جناب فاطمہ زہرا(ع) کو اپنی آغوش محبت میں پرورش اور تربیت کرے اور اپنے پاک دودھ ''جو شرافت، نجابت، علم، فضیلت، بردباری، فداکاری، شجاعت کا منبع اور سرچشمہ ہے'' سے غذا دے_ سچ ہے مگر جناب خدیجہ کے دودھ کے علاوہ

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۹_

۲) وافی_ ج ۲_ ص ۲۰۷_

۳۳

کوئی اور دودھ اس قسم کا پاک عنصر اور شجاعت اور مزاج معرفت کی تربیت کرسکتا تھا کہ باغ نبوت کے پر برکت میوہ کو ثمردار بنادیا؟

دودھ پینے کا زمانہ

جناب فاطمہ زہرا(ع) کے دودھ پینے کا زمانہ اور آپ کا بچپن بہت خطرناک ماحول اور اسلام کے انقلابی زمانے میں گزرا کہ جس نے بلاشک آپ کی حساس روح پر بہت شاندار اثرات چھوڑے اس واسطے کہ دانشمندوں کے ایک گروہ کے نزدیک یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ بچے کی تربیت کا ماحول اور محیط اور اس کے ماں باپ کے افکار اس کی روح اور شخصیت پر کاملاً اثر انداز ہوتے ہیں اسی لئے ہم مجبور ہیں کہ ابتداء اسلام کے اوضاع او رحوادث کا بطور اجمال ذکر کریں تا کہ قارئین فوق العادہ اوضاع اور بحرانی دور کو ملاحظہ کرسکیں کہ جس میں پیغمبر اسلام(ص) کی دختر گرامی قدر نے نشو و نما اور تربیت حاصل کی ہے_

پیغمبر اسلام(ص) چالیس سال کی عمر میں پیغمبری کے لئے مبعوث بر رسالت ہوئے ابتدا دعوت میں آپ کو بہت مشکلات اور خطرناک اور سخت حوادث کا سامنا کرنا پڑا آپ نے یک و تنہا عالم کفر اور بت پرستی سے مقابلہ کیا آپ نے کئی سال تک خفیہ تبلیغ کی اور دشمنوں کے خوف سے اپنی دعوت اور تبلیغ کو علی الاعلان کرنے کی جرات نہ کرسکتے تھے بعد میں آپ کو خداوند عالم سے حکم ملاکہ لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کھلی دعوت دو اور مشرکین کی پرواہ مت کرو اور ان سے مت ڈرو _(۱)

پیغمبر اکرم(ص) نے اللہ تعالی کے اس حکم کے بعد اپنی دعوت کو عام کردیا اور اجتماع عام

____________________

۱) سورہ حجر آیت ۹۴_

۳۴

میں لوگوں کو اسلام کے مقدس آئین کی طرف دعوت دینی شروع کی دن بدن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا_

جب پیغمبر اکرم(ص) کی تبلیغ علی الاعلان ہونے لگی تو دشمنوں کے آزار و اذیت میں بھی شدت آگئی، وہ مسلمان کو شکنجے کرتے اور ان پر ظلم و ستم ڈھاتے بعض مسلمانوں کو حجاز کے سورج کی تپتی دھوپ میں ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بہت بھاری پتھر رکھ دیتے اور بعض مسلمانوں کو قتل کردیتے تھے_

مسلمانوں پر اتنا سخت عذاب اور سختی کی گئی کہ وہ بہت تنگ آچکے تھے اور مجبور ہوگئے تھے کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرجائیں چنانچہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے جناب رسول خدا سے اجازت لی اور حبشہ کی طرف روانہ ہوگیا_(۱)

جب کفار اپنی سختی اور ظلم اور آزار و اذیت سے اسلام کی پیشرفت اور وسعت کو نہ روک سکے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں تکالیف کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن اسلام کے عقیدے سے دست بردار نہیں ہوتے تو انہوں نے ایک مشاورتی اجتماع کیا اور تمام نے انفاق سے طے کیا کہ جناب محمد(ص) کو قتل کردیا جائے_

جب جناب ابوطالب(ع) کو ان کے خطرناک منصوبے کا علم ہوا تو آپ نے جناب رسول خدا(ص) کی جان کی حفاظت کی مختصر یہ کہ بنی ہاشم کے ایک گروہ کے ساتھ ایک درہ میں کہ جس کا نام شعب ابوطالب ہے منتقل ہوگئے_

جناب ابوطالب(ع) اور باقی تمام بنی ہاشم جناب رسول خدا(ص) کی جان کی حفاظت کرتے تھے_ جناب حمزہ جو رسول خدا(ص) کے چچا تھے رات بھر تلوار کھینچے آپ کی حفاظت

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام_ ج ۱ ص ۲۴۴_ تاریخ کامل ج ۲_ ص ۵۱_

۳۵

کیا کرتے تھے، آپ(ص) کے دشمن پیغمبر خدا(ص) کے قتل کرنے سے ناامید ہوگئے تو انہوں نے شعب ابوطالب میں نظر بند افراد پر اقتصادی باؤ ڈالنا شروع کردیا ا ور ان سے خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی_ مسلمانوں تین سال تک اس درہ میں قید رہے اس میں بھوک اور تکالیف اور سخت جلادینے والی گرمی برداشت کرتے رہے اور مختصر خوارک پر جو انہیں چوری چھپے حاصل ہوتی تھی گزر اوقات کرتے رہے اور بسا اوقات بچوں کی بھوک سے فریادیں بلند ہوجایا کرتی تھیں_

جناب فاطمہ زہرا(ع) اس قسم کے خطرناک ماحول اور وحشت ناک و محیط اور اس قسم کے بحرانی حالات میں دنیا میں آئیں اور اس قسم کے حالات میں تربیت پائی، جناب خدیجہ کبری نے اس قسم کے حالات اور شرائط میں اپنے پیارے نو مولود کو دودھ پلایا کافی مدت جناب زہرا(ع) کے دودھ پینے کی اسی درے میں گزری اور اسی جگہ آپ کا دودھ بھی چھڑایا گیا، آپ نے اسی جلانے والے ریگستان میں راہ چلنا سیکھا جب آپ نے بولنا سیکھا تو بچوں کا بھوک سے آہ و فغاں کرنا اسی جگہ سنا اسی گھٹے ہوئے ماحول میں غذا کے قحط کو دیکھا جب آپ آدھی رات کو جاگ اٹھتیں تو دیکھتیں کہ آپ کے رشتہ دار برہنہ شمشیر لئے ہوئے آپ کے باپ کی حفاظت کر رہے ہیں_

تین سال تک جناب زہرا(ع) نے اس جلادینے والی وادی کے سوا اور کچھ نہ دیکھا اور خارجی دنیا سے بے خبر رہیں_

جناب زہرا(ع) کی عمر پانچ سال کی تھی جب پیغمبر اکرم(ص) اور بنی ہاشم کو اس درے ''شعب ابوطالب'' سے نجات ملی اور یہ سب اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے، نئی زندگی کے نظارے اور آزادی کی نعمت اور کھانے پینے میں وسعت اور اپنے مکان میں رہنا جناب زہرا(ع) کے لئے نئے ماحول کی حیثیت رکھتا تھا اور آپ کے لئے باعث مسرت تھا_

۳۶

ماں کی وفات

افسوس صد افسوس کہ جناب فاطمہ (ع) کے خوشی کے دن زیادہ دیر تک نہ رہ سکے آپ نے آزاد ما حول میں سانس لینا چاہا تھا کہ آپ کی مہربان ماں جناب خدیجہ کا انتقال ہوگیا_

ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ پیغمبر(ص) اور آپ کے اصحاب شعب کی قید سے آزاد ہوئے تھے کہ جناب خدیجہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں _(۱)

اس جانگداز حادثہ نے کس قدر جناب فاطمہ (ع) کے دل پر اثر کیا اور آپ کے امید کے پودہ کو پمردہ کردیا اور آپ کی روح کو شدید صدمہ پہنچا، جناب فاطمہ ز ہرا(ع) ایسے ناقبل برداشت حادثہ کا ہرگز احتمال بھی نہ دیتی تھیں_

نتیجہ

بچپن کے غیر معمولی واقعات اور تلخ حوادث نے بغیر کسی شک و شبہ کے جناب زہرا(ع) کی حساس روح پر اثر چھوڑا اور آپ کی آئندہ زندگی اور نفسیات اور افعال کا ربط نہیں واقعات سے مرتبط ہے جو آپ کو بچپن میں پیش آئے اور آپ کی شخصیت نے اسی سرچشمہ سے آغاز کیا، مندرجہ ذیل اثرات انہیں واقعات سے بطور نتیجہ اخذ کئے جاسکتے ہیں_

۱_ جو شخص اس قسم کے پمردہ ماحول میں نشو و نما پائے اور زندگی کے آغاز میں ہی اتنے پڑے واقعات سے دوچار ہو تو لامحالہ وہ افسردہ خاطر اور غمگین ہی رہا کرتا ہوگا

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب_ ج۱_ ص ۱۷۴_

۳۷

اسی لئے جناب فاطمہ (ع) کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ محزون اور غمگین رہا کرتی تھیں_

۲_ جو شخص اس قسم کے بحرانی ماحول میں پروان چڑھا ہو، یہاں تک کہ دودھ پینے اور بچپن کی عمر قید خانے میں گزاری ہو اور جب سے آپ نے اپنے آپ کو پہچاننا شروع کیا ہو اپنے آپ کو قید خانے میں دیکھے اور یہ دیکھے کہ اس کے ماں باپ کس فداکاری اور ایثار سے اپنے ہدف اور مقصد کا دفاع کر رہے ہیں اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے ہر سختی اور تکلیف کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن اپنے مقصد کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے تو لامحالہ اس قسم کی شخصیت سخت جان، مبارز اور صاحب مقصد ہی ابھر کر سامنے آئے گی اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے قید اور تکالیف اور مظالم کی پرواہ نہیں کرے گی اور میدان نہیں چھوڑے گی_

۳_ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دیکھ رہی تھیں کہ اس کے ماں باپ دین کی اشاعت اور خداپرستی کے لئے کتنے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں، انسانیت کی نجات اور ہدایت کے لئے کتنی قربانیاں دے رہے ہیں آپ کو مسلمان سے یہی امید ہوگی کہ وہ اس کی وفات کے بعد ان کی قدر کریں اور آپ کے ہدف اور مقصد کو آگے بڑھانے میں سعی اور کوشش سے کام لیں اور جو راستہ آپ ان کے لئے معین کرگئے اس سے منحرف نہ ہوں_

ماں کی وفات کے بعد

بعثت کے دسویں سال بہت تھوڑے فاصلے پر جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی یکے بعد دیگرے وفات ہوجاتی ہے_(۱)

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۱_ ص ۱۷۴_

۳۸

ان دو غم انگیز واقعات نے جناب پیغمبر خدا(ص) کی روح کو صدمہ پہنچایا اور آپ نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا_(۱)

کیونکہ ایک طرف تو آپ کا ایک غم گسار اور داخلی و خارجی امور میں مشیر اور آپ کی اولاد کی ماں جناب خدیجہ کا انتقال ہوجاتا ہے اور دوسری طرف آپ کا ایک بہت بڑا حامی اور مددگار اور مدافع جناب ابوطالب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، جس سے آپ کی یکدم داخلی اور خارجی اوضاع دگرگوں ہوجاتی ہیں_

ان دو حامیوں کے فوت ہوجانے سے دشمنوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس طرح آپ کو تکالیف دینا شروع کردیں کبھی آپ کو پتھر مارتے اور کبھی آپ کے سر و صورت پر خاک ڈالتے اور کبھی برا بھلا کہتے او رکبھی آپ کے جسم مبارک کو زخمی کرتے اکثر اوقات آپ غمگین اور پمردہ گھر میں داخل ہوتے اور اپنی بیٹی سے ملاقات کرتے، جب کہ جناب فاطمہ (ع) اپنی ماں کے فراق میں مرجھائے ہوئے چہرے سے اشکبار ہوتیں، جناب فاطمہ (ع) جب کبھی گھر سے باہر جاتیں تو ناگوار حوادث سے دوچار ہوتیں کبھی دیکھتیں کہ لوگ آپ کے باپ کو اذیت دے رہے ہیں اور آپ کو برا بھلاکہہ رہے ہیں_ ایک دن دیکھا کہ دشمن مسجدالحرام میں بیٹھے آپ کے والد کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں_ روتے ہوئے گھر واپس آئیں اور دشمنوں کے منصوبے سے باپ کو آگاہ کیا_(۲)

ایک دن مشرکین میں سے ایک آدمی نے جناب رسول خدا (ص) کو گلی میں دیکھا تو کوڑا کرکٹ اٹھا کر آپ کے چہرے اور سر پر ڈال دیا_ پیغمبر(ص) نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر چلے

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج ۱_ ص ۱۷۴_

۲) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۱_ ص ۷۱_

۳۹

گئے_ آپ کی دختر جناب فاطمہ (ع) جلدی سے آئیں اور پانی لاکر اشک بار آنکھوں سے آپ کے سر مبارک کو دھویا_ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: بیٹی روو مت، مطمئن رہو خدا تیرے باپ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، اور کامیابی عطا فرمائے گا_(۱)

ایک دن پیغمبر خدا(ص) مسجد میں نماز میں مشغول تھے، مشرکین کا ایک گروہ آپ کا مذاق اڑا رہا تھا اور آپ کو اذیت دینا چاہتا تھا، ان مشرکین میں سے ایک نے اونٹ ذبح کیا تھا، اس کی اوجھڑی اٹھاکر ''جو کثافت اور خون سے پر تھی'' آپ کی پشت مبارک پر جب آپ سجدے میں تھے ڈال دیا_ جناب فاطمہ (ع) اس وقت مسجد میں موجود تھیں جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو بہت قلق ہوا اور آپ کی پشت مبارک سے اوجھڑی کو ہٹا کر دور پھینک دیا_ پیغمبر اسلام(ص) نے سجدہ سے سر اٹھایا اور نماز کے بعد اس گروہ پر نفرین کی_(۲)

جی ہاں جناب زہرا(ع) نے اپنے بچپن میں اس قسم کے ناگوار واقعات دیکھے اور اپنے باپ کی ان میں مدد کی، اور اپنے کے لئے مادری سلوک کیا کرتی تھیں_

جناب خدیجہ کے انتقال کے بعد بہت سے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری جناب فاطمہ (ع) کے کندھے پر آن پڑی تھی_ کیونکہ یہ توحید کا وہ پہلا گھر تھا جس کا سردار مرچکا تھا، اس گھر میں جناب فاطمہ (ع) کے علاوہ اور کوئی مددگار موجود نہ تھا، تاریخ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس زمانے میں پیغمبر خدا(ص) کے گھر کی حالت کیسی رہی اور ان کی زندگی کس طرح گزری_ لیکن بصیرت کی آنکھوں سے اس گھر کی رقت بار حالت کو دیکھا جاسکتا ہے_

____________________

۱) تاریخ طبری_ ج ۲_ ص ۳۴۴_

۲)مناقب شہر ابن آشوب_ ج۱_ ص ۶۰_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بات ناگوار ہی کیوں نہ ہو _ مہدی ایک زمانہ تک غیبت میں رہیں گے _ غیبت کے زمانہ میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن کچھ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور اس راہ میں مصیبتیں اٹھائیں گے سرزنش کے طور پر ان سے کہا جائے گا ، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو تمہارا امام موعود کب انقلاب برپا کرے گا؟ لیکن جان لو کہ جوان کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کے طعن و تشنیع کو برداشت کرے گا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جنگ کی(۱) اس سلسلے میں آپ کی تیرہ حدیثیں اورہیں _

امام زین العابدین (ع) نے مہدی (عج) کی خبردی

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں تک وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں اس وقت کسی کی بیعت میں نہ ہوں(۲) دس حدیثیں اورہیں _

حضرت امام باقر (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام محمد باقر (ع) نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا سے ہمیں ملا ہے _ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۳۳ ، ص ۳۹۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۶۱

کے اولاد سے ہوں گے _ مہدی بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا(۱) ۶۲ حدیثیں اور ہیں _

امام صادق (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسول (ص) خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے _ عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) مہدی کس کی اولاد سے ہوں گے ؟ فرمایا : ساتویں امام موسی بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے ، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے _۲_ ۱۲۳ حدیثیں اور ہیں _

امام موسی کاظم (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام موسی کاظم (ع) سے یونس بن عبدالرحمن نے سوال کیا : کیا آپ مہدی بر حق ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: میں قائم برحق ہوں لیکن جو قائم زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اس عدل و انصاف سے بھرے گا وہ میری پانچویں پشت میں ہے _ وہ دشمنوں کے خوف سے مدت دراز تک غیبت میں رہے گا _ زمانہ غیبت میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن ایک جماعت اپنے عقیدہ پر ثابت و قائم رہے _ اس کے بعد فرمایا : خوش نصیب

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص۵۵۹_

۲_ بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۴۳ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۰۴_

۶۲

ہیں وہ شیعہ جو امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت سے وابستہ اور ہمار ی محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری میں ثابت قدم رہیں گے وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں وہ ہماری امامت سے راضی اور ہم ا ن کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، خدا کی قسم وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(۱) پانچ حدیثیں اورہیں _

امام رضا(ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت اما م رضا (ع) سے ریان بن صلت نے دریافت کیا تھا : کیا آپ (ع) ہی صاحب الامر ہیں ؟ فرمایا : میں صاحب الامر ہوں لیکن میں وہ صاحب الامر نہیں ہوں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ میری اس ناتوانی کے باوجود جسے تم مشاہدہ کررہے ہو کیسے ممکن ہے کہ میں وہی صاحب الامر ہوں ؟ قائم وہ ہے جو بڑھاپے کی منزل میں ہے لیکن جوان کی صورت میں ظاہر ہوگا وہ اتنا طاقتور اور قوی ہے کہ اگر روئے زمین کے بڑے سے بڑے درخت کو ہاتھ لگا دے تو اکھڑجائے _ اور اگر پہاڑوں کے درمیان نعرہ بلند کرے تو بڑے بڑے پتھر چورچور ہوکر بکھر جائیں ، اس کے پاس موسی کا عصا اورجناب سلیمان کی انگوٹھی ہے ، وہ میری چوتھی پشت میں ہے ،جب تک خدا چاہے گا اسے غیبت میں رکھے گا _ اس کے بعد ظہور کا حکم دے گا اور اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی(۲) ۱۸ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۵۱ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۲۲ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۹_

۶۳

امام محمد تقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام محمد تقی (ع) نے عبدالعظیم حسنی سے فرمایا : قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں ہے _ قسم اس خدا کی جس نے محمد (ص) کو رسالت او رہمیں امامت سے سرفراز کیا ہے _ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گاجیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی _ خداوند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کریگا جیسا کہ اپنے کلیم موسی کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے_ موسی (ع) بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لیکر پلٹے _ اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے(۱) پانچ حدیثیں اور ہیں _

امام علی نقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام علی نقی نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا حسن (ع) امام ہے اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے(۲) پانچ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۶ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰ اثبات الہداة ج۶ ص ۴۲۷_

۶۴

اما م حسن عسکری (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام حسن عسکری نے موسی بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میںدیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یادرہے جو شخص پیغمبر کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے لیکن محمد (ص) کی رسالت کا منکرہے کیونکہ ہم سے آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اولی کی _ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کریگا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا _ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھے(۱) ۲۱ حدیثیں اورہیں _

کیا احادیث مہدی صحیح ہیں؟

انجینئر : ہم ان حدیثوں کو اسی وقت قبول کرسکتے ہیں جب وہ صحیح اور معتبر ہوں کیا مہدی کے متعلق یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں؟

ہوشیار: میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں صحیح اور ان کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں _ لیکن اچھی خاصی تعداد صحیح احادیث کی ہے _ البتہ تمام احادیث کی طرح ان میں بھی بعض صحیح ، کچھ حسن ، موثق اور چند ضعیف ہیں _ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق اور ان کے راویوں کے حالات کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۶۵

ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اور انصاف کیساتھ ان سے رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی اسلام کے ان مسلّم عقائد و موضوعات میں سے ہے کہ جن کا بیج خودسرور کائنات نے بویا اور ائمہ نے اس کی آبیاری کی ہے _ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وجود مہدی کے بارے میں اسلام میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور موضوع کے لئے وارد نہیں ہوئی ہوں گی _

واضح رہے کہ ابتدائے بعثت سے حجة الوداع تک پیغمبر اکرم (ص) نے سیکڑوں بارمہدی کے بارے میں گفتگو کی ہے _ علی بن ابی طالب نے ان کی خبر دی ، فاطمہ زہراء نے خبر دی ہے اور رسول کے اہل بیت اور نبوت کے رازداروں نے امام حسن (ع) ، اما م حسین (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) ، امام محمد تقی (ع) ، امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے ان کی خبر دی ہے _ عہد رسول (ص) کے لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی سمجھ بیٹھے تھے_ ان سے متعلق شیعہ اور اہل سنت نے احادیث نقل کی ہیں ۷اشعری اور معتزلیہ نے قلم بند کی ہیں _ ان کے راویوں میں عرب ، عجم ، مکی ،مدنی ، کوفی ، بغدادی ، بصری، قمی، کرخی ، خراسانی نیشاپوری و غیرہ شامل ہیں _ کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی منصف مزاج وجود مہدی کے بارے میں شک کرے گا اور یہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردی ہیں؟

رات کافی گز رچکی تھی اورمذاکرات کا وقت ختم ہوچکا تھا لہذا مزید گفتگو کو آئندہ ہفتہ کی شب میں ہونے والے جلسہ پر موقوف کردیا _

۶۶

تصوّر مہدی"

احباب یکے بعد دیگرے فہیمی صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسی نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرہ میں مہدویت اور غیبی مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کی نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پوری دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی آزادی سلب ہوگئی تھی ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبری دی کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہی زردشتیوں کو آزادی دلائے گا _

چونکہ مہدویت کی اصل یہود و زردشتیوں میں ملتی ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسری اقوام و ملل میں بھی یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے

۶۷

کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسی موضوع کی تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلی مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلی مدارک کی تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکی چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کی اصلی کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانی یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستی بھی ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھی مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھی مصلح غیبی اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اتنی بات سے اس کی صحت ثابت کی جا سکتی ہے _

رجحان مہدویت کی پیدائشے کے اسباب

فہیمی : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کی بہترین توجیہ کی ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمی : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کی ترقی

۶۸

اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبی نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادی فوائد کے حصول'' اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلی تھی اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اپنے عقائد کی اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہی میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کی نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ علی بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گی _ لیکن علی (ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنی امیہ کے سپردکردی _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام کی حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا

۶۹

فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اور بنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسری طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کی جگہ سختی سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسی کو جلا وطن کیا اور باقی قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑی مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا _ علی (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن علی (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن علی (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدی بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانی کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدی ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہی سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھی شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدی کے منتظر رہے _ کبھی غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسی نے قیام کیا _ لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی _

۷۰

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کی ترویج کی یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کی تسکین اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلی _(۱)

توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب ہمیں مہدویت کے اصلی سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائشے کی بشارت دی ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کی احادیث کو شیعوں ہی نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھی اپنی صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے _

اپنی تقریر کی ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھی صحیح ہے لیکن آ پ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام ص ۴۸_۶۸

۷۱

یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمی مصلح کی پیدائشے کی بشارت دینے والے خود نبی اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہو _

عبداللہ بن سبا

اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کی ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعی ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی صلاحیت و سیاست پیدا کرلی تھی کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھی کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادی اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دی اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودی نے ان کے عقیدہ کی بنیادیں اکھاڑدیں اور کسی شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں تو ممکن ہے _(۱)

____________________

۱_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر علی الوردی ترجمہ خلیلیان ص ۱۱۱_۱۳۷_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضی عسکری اور '' علی و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلی ص ۱۳۹ _۱۴۳ سے رجوع فرمائیں _

۷۲

مہدی تمام مذاہب میں

انجینئر مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یا یہ عقیدہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ؟

ہوشیار: مذکورہ عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں یہ عقیدہ موجود ہے _ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ تاریک و بحرانی زمانہ میں، جب ہرجگہ فساد و ظلم اور بے دینی پھیل جائے گی ، ایک دنیا کو نجات دلانے والا ظہور کرے گا اور بے پناہ غیبی طاقت کے ذریعہ دنیا کے آشفتہ حالات کی اصلاح کرے گا اور بے دینی و مادی رجحان کو ختم کرکے خداپرستی کو فروغ دے گا اور یہ بشارت ان تمام کتابوں میں موجود ہے جو کہ آسمانی کتاب کے عنوان سے باقی ہیں جیسے زردشتیوں کی مقدس کتاب '' زندوپازند'' ''جاماسنامہ'' یہودیوں کی مقدس کتاب توریت اور اس کے ملحقات میں عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں بھی اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے نیز برہمنوں اور بودھ مذہب کی کتاب میں بھی کم و بیش اس کا تذکرہ ہے _

یہ عقیدہ سارے مذاہب و ملتوں میں موجود ہے اور وہ ایسے طاقتور غیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں _ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں زردشتی سوشیانس _ دنیا کو نجات دلانے والا _ یہودی سرور میکائیلی _ عیسائی

۷۳

مسیح موعود اور مسلمان مہدی موعود کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا _ زردشتی کہتے ہیں وہ ایرانی اور مذہب زردشت کا پیروکار ہوگا یہودی کہتے ہیں وہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور موسی کا پیروہوگا ، عیسائی اپنے میں شمار کرتے ہیں اور مسلمان بنی ہاشم اور رسول (ص) کے اہل بیت میں شمار کرتے ہیں _ اسلام میں اس کی بھر پور طریقہ سے شناخت موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل معرفت نہیں کرائی ہے _

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگرمذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود یعنی امام حسن عسکری کے فرزند پر بھی منطبق ہوتے ہیں ، انھیں ایرانی ناد بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کے جد امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو ساسانی بادشاہ یزدجرکی بیٹی تھیں اور بنی اسرائیل جناب اسحق (ع) کی اولاد ہیں _ اس لحاظ سے بنی ہاشم و بنی اسرائیل کو ایک خاندان کہا جاتا ہے _ عیسائیوں سے بھی ایک نسبت ہے کیونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روم کی شہزادی جناب نرجس کے بطن سے ہوں گے _

اصولی طور پر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے نجات دلانے والے کو کسی ایک قوم سے مخصوص کردیںکہ جس سے قومی اختلاف پیدا ہو ، اس قوم سے ہیں اس سے نہیں ، اس ملک کا باشندہ ہے اس کا نہیں ہے، اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے دوسروں سے نہیں _ اس بناپر مہدی موعود کو عالمی کہنا چاہئے _ وہ ساری دنیا کے خداپرستوں کو نجات دلائیں گے _ ان کی کامیابی ، تمام انبیاء اور صالح انسانوں کی

۷۴

کامیابی ہے _ ترقی یافتہ دین ، دین اسلام ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور تمام آسمانی مذاہب کی حمایت کرتا ہے اور موسی و عیسی کے حقیقی دین و مذہب ، کہ جنہوں نے محمد (ص) کی آمد کی بشارت دی ہے کا حامی ہے _

واضح رہے مہدی موعود کی بشارتوں کے ثابت کرنے کے لئے ہم قدیم کتابوں سے استدلال نہیں کرتے ہیں _ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے _ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان و مذاہب کا مشترک عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اور تمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس کی مطابقت میں اختلاف ہے _

۷۵

قرآن اور مہدویت

فھیمی : اگر مہدویت کا عقیدہ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کا ذکر ہوتا جبکہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی بھی کہیں نظر نہیں آتا _

ھوشیار : اول تویہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قرآن میں بیان ہو _ ایسی بہت سی صحیح چیزیں ہیں کہ جن کا آسمانی کتاب میں نام و نشان بھی نہیں ملتا _ دوسرے اس مقدس کتاب میں چند آیتیں ہیں جو اجمالی طور پر ایک ایسے دن کی بشارت دیتی ہیں کہ جس میں حق پرست ، اللہ والے ، دین کے حامی اور نیک و شائستہ افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دین اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

سورہ انبیاء میں ارشاد ہے :

ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھد یا ہے کہ ہمار ے شائستہ اور شریف بند ے زمین کے وارث ہوں گے ۱_

سورہ ء نور میں ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے

____________________

۱ _ انبیاء / ۱۰۵

۷۶

وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین میں سی طرح خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا یا تھا ، تا کہ اپنے پسندیدہ دین کو استوار کردے اور خوف کے بعد انھیں مطمئن بنادے تا کہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں(۱)

سورہ ء قصص میں ارشاد ہے :

ہمارا ارادہ ہے کہ ان گوں پر احسان کریں ، جنھیں روئے زمین پر کمزور بناد یا گیا ہے اور ، انھین زمین کا وارث قرار دیں(۲)

سورہ ء صف میں ارشاد ہے :

خداوہی ہے جس نے اپنے رسول(ع) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ دین حق تمام ادیان و مذاہب ، پر غالت ہو جائے اگر چہ مشر کوں کو یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو(۳)

ان آیتوں سے اجمالی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں زمین کی حکومت کی زمام مومنوں اور صالح لوگوں کے ہا تھوں میں ہوگی اور وہی تمدن بشریت کے میر کارواں ہوں گے _ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے گا اور شرک کی جگہ خدا پرستی ہوگی _ یہی درخشاں زمانہ مصلح غیبی منجی بشریت مہدی موعود کے انقلاب کادن ہے اور یہ عالمی انقلاب صالح مسلمانوں کے ذریعہ آئے گا _

____________________

۱_ نور / ۵۵۰

۲_ قصص / ۴

۳ _صف / ۹

۷۷

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمی : میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسی امام کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کی جاتی ہے اور جس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالی طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنی جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

۱_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنی انسان مدنی الطبع خلق کیا گیا ہے _

۷۸

اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعی زندگی میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھی اسی مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدی کرنے والوں کی روک تھام کی جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے ہی کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

۲_ انسان کمال کا متلاشی ہے اور کمال و کامیابی کی طرف بڑھنا اس کی فطرت ہے _ وہ اپنی سعی مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں _

۳_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقی کمالات کی طرف بڑھنا اس کی سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

۴_ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادی ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتی ہے ، وہ

۷۹

ترقی یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

۵_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کی زندگی بھی لامحالہ دوقسم کی ہوگی : ایک دنیوی حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوی حیات کہ جس کا ربط ا س کی روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگی کے لئے سعادت و بدبختی بھی ہوگی _

۶_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہی دنیوی زندگی اور معنوی زندگی میں بھی ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنی دنیوی زندگی کی کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانی صفات و کمالات بھی ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

۷_ چونکہ انسان کمال کی راہ پر گامزن ہے اور کمال کی طرف راغب ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے ، خدا کی خلقت بھی عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانی کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

۸_ طبعی طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنی ہی مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھی ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کی جانفشانی کے نتیجہ کا بھی خودہی مالک بن جانا چاہتا ہے _

۹_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کی تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کی تشخیص سے معذور رہتا ہے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293