فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون26%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102053 / ڈاؤنلوڈ: 4601
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اور بہشت سے غذا لایا او رعرض کی آج رات اس بہشتی غذا کو تناول کیجئے_ رسول خدا(ص) نے اس روحانی اور بہشتی غذا سے ا فطار کیا جب آپ نماز اور عبادت کے لئے کھڑے ہوئے تو جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کی اے رسول اکرم (ص) آج رات مستحبی نماز کو رہنے دیجئے اور جناب خدیجہ کے پاس تشریف لے جایئےیونکہ اللہ تعالی نے ارادہ کر رکھا ہے کہ آپ صلب سے ایک پاکیزہ بچہ خلق فرمائے_

پیغمبر اکرم(ص) جلدی میں جناب خدیجہ کے گھر کی طرف روانہ ہوے_ جناب خدیجہ فرماتی ہیں کہ اس رات بھی میں حسب معمول دروازہ بند کر کے اپنے بستر پر آرام کر رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھٹکھٹائے ، پیغمبر علیہ السلام کی دلنشین آواز میرے کانوں میں آئی کہ آپ فرما رہے تھے کہ دروازہ کھولو، میں محمد(ص) ہوں، میں نے جلدی سے دروازہ کھولا آپ خندہ پیشانی کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نور باپ کے صلب سے ماں کے رحم میں منتقل ہوا _(۱)

حمل کا زمانہ

جناب خدیجہ میں آ ہستہ آہستہ حاملہ ہونے کے آثار نمودار ہونے لگے اور خدیجہ کو تنہائی کے درد و رنج سے نجات مل گئی اور آپ اس بچے سے جو آپ کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں_

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب سے جناب خدیجہ نے جناب رسولخدا(ص)

____________________

۱) بحارالانوار_ ج ۱۶ ص ۷۸_

۲۱

سے شادی کی تھی تب سے مکہ ک ی عورتوں نے آ پ سے روابط آمد و رفت اور سلام و دعا ختم کردیئے تھے اور ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ آپ کے گھر میں کوئی بھی عورت نہ آنے پائے مکہ ک ی بڑی شخصیت کی مالک خواتین نے جناب خدیجہ کو تنہا چھوڑ کر آپ سے الفت و محبت کو ختم کردی تھی اسی وجہ سے آپ اندوہناک اور غمناک رہتی تھیں اور آہستہ آہستہ آپ تنہائی کے غم سے نجات مل گئی تھی اور آپ اس بچے سے جو آپ کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں تھیں اور اسی سے راز و نیاز کر کے خوش وخرم رہتی تھیں_

جناب جبرئیل حضرت محمد(ص) اور جناب خدیجہ کو بشارت دینے کے لئے نازل ہوئے او رکہا یا رسول اللہ وہ بچہ کہ جو جناب خدیجہ کے شکم مبارک میں ہے وہ ایک با عظمت لڑکی ہے کہ جس سے تیری نسل قائم رہے گی اور وہ دین کے ان پیشواؤں اور اماموں کی کہ جو وحی کے خاتمے کے بعد تیرے جانشین ہوں گے ماں ہوگی_ جناب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالی کی اس بشارت کو جناب خدیجہ سے بیان کیا اور اس خبر سے جو دل کو خوش کرنے والی تھی آپ کو خشنود کیا_(۱)

جی ہاں وہ خدیجہ کہ جس نے توحید اور خداپرستی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا اور ہر قسم کی محرومی اور سختی کو برداشت کر نے پر تیار ہوگئی تھیں اور اپنی بے پناہ دولت کو اسی مقدس غرض کے لئے وق کر رکھا تھا اپنے دوست اور غمگسار چھوڑ چکی تھیں، جناب محمد(ص) اور ان کے بزرگ مقدس ہدف کو سوائے اللہ کے ہر چیز پر ترجیح دیتی تھیں، جب آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک زبان سے

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۸_

۲۲

اس قسم کی بشارت سنی کہ جس سے اللہ تعالی نے اسے قسم کی بڑی سعادت سے نوازا کہ جس سے دین کے معصوم پیشوا پیدا ہوں گے تو آپ کا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا_ اور آپ کی فداکاری کی حس کو اس سے زیادہ تحریک ملی اور اپنے خدا اور اس بچے سے جو ان کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں_

ولادت فاطمہ (ع)

جناب خدیجہ کی حاملگی کی مدت ختم ہوئی اور ولادت کا وقت آپہنچا، جناب خدیجہ دردز ہ میں تڑپ رہی تھیں اسی دوران کسی کو اپنی سابقہ سہیلیوں اور قریش کی عورتوں کے پاس روانہ کیا اور پیغام دیا کہ پرانے کینہ کو فراموشی کردو اور اس خطرناک موقع پر میری فریاد رسی کرو اور بچے کی ولادت میں میری مدد کو آو، تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص روتے ہوئے جناب خدیجہ کے پاس واپس آیا اور کہا کہ جس کے گھر کا دروازہ میں نے کھٹکھٹایا اس نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور تمہای خواہش کو رد کرتے ہوئے سب نے یک زبان کہا کہ خدیجہ سے کہہ دو کہ تم نے ہماری نصیحت قبول نہ کی تھی اور ہمای مرضی کے خلاف ایک فقیر یتیم سے شادی کرلی تھی اس لئے نہ ہم تمہارے گھر آسکتے ہیں اور نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں_

جب جناب خدیجہ نے کینہ پرور عورتوں کا یہ زبانی زخم لگانے والا پیغام سنا تو تمام سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے خالق دو جہان خدا کی طرف متوجہ ہوگئیں اس وقت اللہ کے فرشتے اور جنت کی حوریں اور آسمانی عورتوں آپ کی مدد کے لئے آئیں اور آپ اللہ تعالی کی غیبی مدد سے بہرہ ور ہوئیں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جو آسمانی نبوت کا چمکتا ہوا ستارہ تھا اس جہاں میں قدم رکھا اور اپنے نور ولایت سے مشرق و مغرب کو روشن

۲۳

اور منور کردیا _(۱)

پیدائشے کی تاریخ

جناب فاطمہ (ع) کی پیدائشے کی تاریخ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن علماء شیعہ کے درمیان مشہور ہے کہ آپ جمعہ کے د ن بیس جمادی الثانی بعثت کے بعد پانچویں سال میں پیدا ہوئیں_

اگر چہ اکثر سنی علماء نے آپ کی پیدائشے کو بعثت کے پہلے بتلایا ہے جنانچہ عبدالرحمن بن جوزی تذکرة الخواص کے ص ۳۰۶ پر رقمطراز ہے کہ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال قریش مسجدالحرام کی تعمیر میں مشغول تھے یعنی بعثت سے پانچ سال پہلے_

محمدبن یوسف حنفی نے اپنی کتاب درالسمطین کے ص ۱۷۵ پر لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے اور اس وقت پیغمبر علیہ السلام کا سن مبارک پنتیس سال کا تھا_

ابوالفرج مقاتل الطالبین کے ص ۳۰ پر لکھتے ہیں کہ فاطمہ (ع) بعثت سے پہلے اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال خانہ کعبہ تعمیر ہوا_

مجلسی نے بحارالانوار کی جلد ۴۳ کے ص ۲۱۳ پر لکھا ہے کہ ایک دن عبداللہ بن حسن خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے دربار میں گئے کہ جہاں پہلے سے اس دربار میں کلبی بھی موجود تھا ہشام نے عبداللہ سے کہا کہ فاطمہ (ع) کی کتنی عمر تھی؟ عبداللہ نے اس کے جواب میں کہا تیس سال، ہشام نے یہی سوال بعینہ کلبی سے کیا تو اس نے جواب میں کہا،

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۵_ بحارالانوار_ ج ۴۳ _ ص ۲ اور ج ۱۶_ ص ۸۰_

۲۴

پنتیس سال_ ہشام جناب عبداللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ آپ نے کلبی کی بات سنی؟ کلبی کی معلومات نسب کے بارے میں خاصی ہیں___ جناب عبداللہ نے جواب دیا اے امیرالمومنین میری ماں کا حال آپ مجھ سے پوچھیں اور کلبی کی ماں کے حالات اس سے لیکن شیعہ علماء کی اکثریت نے جیسے ابن شہر آشوب نے جلد ۳ کے ص ۳۹۷ پر کلینی نے کافی کی جلد ۱ کے ص ۱۴۹ پر، محدث قمی نے منتہی الامال کی جلد ۱ کے ص ۹۷پر، محمدتقی سپہر نے ناسخ التواریخ کے ص ۱۷ پر، علی ابن عیسی نے کشف الغمہ کی جلد ۲ کے ص ۷۵پر، طبری نے دلائل الامامة کے ص ۱۰ پر، فیض کاشانی نے وافی کے جلد۱ کے ص ۱۷۳ پر ان تمام علماء اور دوسرے دیگر علماء نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بعثت کے پانچ سال بعد متولدئیں ان علماء کا مدرک و دلیل وہ روایات ہیں جوانہوں نے آئمہ اطہار سے نقل کی ہیں_

ابوبصیر نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بیس جمادی الثانی کو جب کہ پیغمبر اکرم(ص) کی پنتالیس سلا کی عمر مبارک تھی اس دنیا میں تشریف لائیں، آٹھ سال تک باپ کے ساتھ مکہ میں رہیں، دس سال تک باپ کے ساتھ مدینہ میں زندگی گزاری باپ کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں اور تین جمادی الثانی گیارہ ہجری کو وفات پاگئیں_

لیکن قارئین پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ آپ کی وفات کا تین جمادی الثانی کو ہونا آپ کا پیغمبر(ص) کے بعد پچھتر دن زندہ رہنے کے ساتھ درست قرار نہیں پاتا بلکہ پیغمبر(ص) کے بعد ۹۵ دن زندہ رہنا معلوم ہوتا ہے لہذا ہوسکتا ہے کہ سبعین عربی میںکہ جس کے معنی ستر کے ہیں لفظ تسعین سے کہ جس کے معنی نوے کے ہیں اشتباہ میں نقل کیا گیا ہو_

حبیب سجستانی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) دختر پیغمبر اسلام(ص) ، رسول اللہ (ص) کی بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہوئیں اور

۲۵

آپ کی وفات کے وقت اٹھارہ سال پچہتر دن عمر مبارک کے گزرچکے تھے، یہ اصول کافی کی جلد ۱ ص ۴۵۷ پر موجود ہے_ ایک روایت کے مطابق آپ کی شادی نو سال کی عمر میں کی گئی_

سعید بن مسیب نے کہا ہے کہ میں نے زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ پیغمبر علیہ السلام نے جناب فاطمہ (ع) کی شادی حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کس سن میں کی تھی آپ(ع) نے فرمایا ہجرت کے ایک سال بعد، اس وقت ہجرت فاطمہ (ع) نو سال کی تھیں، یہ روضہ کافی طبع نجف اشرف ۱۳۸۵ ہجری کے ص ۲۸۱ پر موجود ہے_

اس قسم کی احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) کی بعثت کے بعد متولد ہوئیں_ صاحب کشف الغمہ___ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں دو متضاد چیزوں کو جمع کردیا ہے کیونکہ انہوں نے نقل کیا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) رسول اللہ(ص) کی بعثت کے پانچ سال بعد متولد اور وہ دہ سال تھا کہ جس میں قریش خانہ کعبہ تعمیر کرنے میں مشغول تھے اور آپ کی عمر وفات کے وقت اٹھارہ سال پچھتر دن تھی_ یہ کشف ا لغمہ کی جلد ۲ ص ۷۵ پر موجود ہے_

آپ خود ملاحظہ کر رہے ہیں کہ اس حدیث میں واضح تناقض موجود ہے کیوں کہ ایک طرف تو اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول کی بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہوئیں اور وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال و پچھتر دن تھی اور دوسری طرف اسی روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت قریش خانہ کعبہ تعمیر کر رہے تھے_ یہ دونوں مطلب جمع نہیں ہوسکتے کیونکہ خانہ کعبہ کی تعمیر اور تجدید پیغمبر علیہ السلام کی بعثت کے پانچ سال پہلے ہوئی تھی نہ بعثت کے بعد_

بہرحال اس حدیث میں اشتباہ ہوا ہے لفظ قبل البعثہ کو بعد البعثہ نقل کیا گیا ہے یا ''قریش تنبی البیت'' یعنی قریش خانہ کی تعمیر کر رہے تھے کہ جملہ راوی نے اپنی طرف

۲۶

سے اضافہ کردیا ہے کہ جسے امام علیہ السلام نے نہیں فرمایا ہوگا_ کعفمی نے مصباح میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) جمعہ کے دن بیس جمادی الثانی بعثت کے دوسرے سال دنیا میں تشریف لائیں یہ بحار الانوار جلد ۴۳ کے ص ۹ پر بھی موجود ہے_

ان اقوال کے نقل کرنے سے یہ واضح ہوگیا کہ علماء اسلام کے درمیان جناب فاطمہ (ع) کی ولادت کے سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن چونکہ اہلبیت کے افراد آپ کی ولادت بعثت کے پانچ سال بعد مانتے ہیں لہذا ان کا قول سنی تاریخ نویسوں پر مقدم ہوگا_ کیونکہ آئمہ اطہار اور پیغمبر کے اہلبیت اور حضرت زہرا(ع) کی اولاد دوسروں کی نسبت اپنی والدہ کے سن اور عمر مبارک سے زیادہ باخبر ہیں_

اگر کوئی یہاں یہ اعتراض اٹھائے کہ جناب خدیجہ نے بعثت کے دسویں سال میں وفات پائی ہے اور اس وقت آپ کی عمر پینسٹھ سال تھی لہذا جناب فاطمہ (ع) کی ولادت اگر بعثت کے پانچ سال بعد مانی جائے تو لازم آئے گا کہ جناب خدیجہ انسٹھ سال کی عمر میں جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہوئی ہوں جو قابل قبول نہیں ہے، کیا اس عمر میں حاملہ ہونا تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے، پہلے تو یہ کہ یہ قطعی ن ہیں کہ آپ کی عمر وفات کے وقت پینسٹھ سال کی تھی بلکہ ابن عباس کے قول کے مطابق آپ کی عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے کے وقت اڑتالیس سال کی بنتی ہے کیونکہ این عباس نے فرمایا ہے کہ جناب خدیجہ نے اٹھائیس سال کی عمر میں جناب رسول خدا(ص) کے ساتھ شادی کی تھی جیسے کشف الغمہ کی جلد۲ کے ص ۱۳۹ پر مرقوم ہے، ابن عباس کا قول دوسروں پر مقدم ہے کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے رشتہ دار ہیں اور آپ کے داخلی ا مور کو دوسروں کی بہ نسبت بہتر جانتے ہیں_

اس روایت کی روسے جناب خدیجہ جناب رسول خدا کی بعثت کے وقت

۲۷

تینتالیس سال کی عمر میں ہوں گی اور جب جناب فاطمہ (ع) کا تولد پانچویں بعثت میں ہو تو جناب خدیجہ کی عمر اس وقت اڑتالیس سال کی ہوگی کہ جس میں عورت کا حاملہ ہونا عا دی ہوا کرتا ہے_

اگر ہم ابن عباس کے قول کو تسلیم نہ کریں تب بھی جواب دیا جاسکتا ہے کہ اگر جناب خدیجہ نے جیسے کہ مشہور ہے چالیس سال کی عمر میں جناب رسول خدا(ص) کے ساتھ شادی کی تھی اور آپ کی عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے کے وقت انسٹھ سال کی ہو گی تو بھی یہ عمر قریش کی عورتوں کے لئے حاملہ ہونے کی عادت کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ تمام فقہاء نے لکھا ہے کہ قریش کی عورتوں ساٹھ سال تک صاحب عادت رہتی ہیں اور اس وقت تک حاملہ ہوسکتی ہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ جناب خدیجہ قریش خاندان کی ایک اعلی فرد تھیں_

اگر چہ یہ ٹھیک ہے کہ عورت کا اس سن میں حاملہ ہونا بہت نادر اور کم ہوا کرتا ہے لیکن___ محال نہیں ہے بلکہ اس کی مثال اس دنیا میں بھی موجود ہے، جیسے ایک عورت کہ جس کا نام اکرم موسوی تھا، بندر عباس کے سرخون نامی جگہ پر اس نے توام دو بچے جنے اور اس کی عمر اس وقت پینسٹھ سال کی تھی اور اس کے شوہر کی عمر چوہتر سال تھی_

روزنامہ اطلاعات کو ایک ڈاکٹر نے بتلایا کہ ہمیں پیدائشے کی عمر کی ڈاکٹری لحاظ سے جو کم سے کم عمر بتلائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت چار سال اور ساتھ مہینے کی حاملہ ہوئی ہے اور سب سے زیادہ عمر کی ماں اس دنیا میں سرسٹھ سال کی ہوچکی ہے_ یہ مطلب ایران کے اخبار اطلاعات کے ۲۸ بہمن ۱۳۵۱ شمسی میں موجود ہے_

ایک عورت جس کا نام شوشنا ہے جو اصفہان کی رہنے والی تھی چھیاسٹھ سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور ایک لڑکے کو جنم دیا اس کے شوہر یحیی نامی نے اخبار نویسوں کو بتلایا کہ میرے اس عورت سے آٹھ بچے ہیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں، سب سے چھوٹا

۲۸

پچیس سال کا ہے اور سب بڑا لڑکا پچاس سال کا ہے _ اسے اخبار اطلاعات نے ۲۰ اردیبہشت ۱۳۵۱، شمسی کے پرچے میں نقل کیا ہے_

اس کے بعد کیا مانع ہوسکتا ہے کہ جناب خدیجہ بھی انہیں کمیاب اور نادر افراد میں سے ایک ہوں کہ جو اس عمر میں حاملہ ہوگئی ہیں_

آخر میں ایک اور نکتہ طرف متوجہ ہونا بھی ضروری ہے کہ جو اختلاف جناب فاطمہ زہرا(ع) کی ولادت کے سال میں موجود ہے اس کا اثر آپ(ع) کی عمر پر بھی پڑے گا اور آپ کی عمر میں شادی اور وفات کے وقت میں بھی قہراً اختلاف ہوجائے گا اسی واسطے اگر آپ کی پیدائشے بعثت کے پانچ سال پہلے تسلیم کی جائے تو آپ کی عمر شادی کے وقت تقریباً اٹھارہ سال اور وفات کے وقت اٹھائیس سال ہوگی اور اگر آپ کی پیدائشے بعثت کے پانچ سال بعد مانی جائے تو پھر آپ کی عمر شادی کے وقت نو سال اور وفات کے و قت اٹھارہ سال کی ہوگی_

جناب رسول خدا(ص) اور جناب خدیجہ کی آرزو

خلقت کے اسرار میں سے ایک راز یہ ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اور لڑکا ہوتا تا کہ اسے اپنی حسب منشاء تربیت کرے اور اپنی یادگار چھوڑ جائے_ انسان فرزند کو اپنے وجود کا باقی رہنا شمار کرتا ہے اور مرنے کے وقت آپ کو فناء اور ختم ہوجانا نہیں جانتا، لیکن وہ آدمی جس کا کوئی فرزند نہ ہو تو وہ اپنی زندگی کو مختصر اور موت کے آپہنچنے سے اپنے آپ کو ختم سمجھتا ہے شاید پیدائشے کو یوں سلسلہ نسل انسانی کی بقاء کا وسیلہ قرار دیا گیا ہوتا کہ نسل انسانی نابودی اور منقرض ہوجانے سے محفوظ رہ جائے_

جی ہاں پیغمبر(ص) اور جناب خدیجہ بھی اس قسم کی تمنا رکھتے تھے، وہ خدیجہ جو خداپرستی

۲۹

اور بشریت کی نجات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرتی تھیں اور پیغمبر کے مقدس ہدف کو آگے بڑھانے میں مال اور دولت اور رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی قطع تعلقی سے گریز نہ کرتی تھی، بغیر کسی قید و شرط کے جناب رسول خدا(ص) کی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کرچکی تھیں یقینا ان کی بھی یہ خواہش ہوگی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صاحب فرزند ہوں تا کہ وہ دین اسلام کا حامی اور اس کی اشاعت اور ترویج میں اور اسے آنحضرت کے عالی ہدف تک پہنچانے میں کوشاں ہو_

پیغمبر اسلام(ص) جانتے تھے کہ انسان کے لئے موت یقینی ہے آپ تھوڑی اور مختصر مدت میں اتنے بڑے ہدف کو بطور کامل جاری نہیں کرسکتے اور تمام جہان کے بشر کو گمراہی کے گرداب سے نہیں نکال سکتے فطری بات ہے کہ آپ کا دل بھی چاہتا ہو گا کہ ایسے ایثار کرنے والے افراد جو ان کی اپنی نسل سے ہوں موجود ہو جائیں_

جناب محمد مصطفی (ص) اور جناب خدیجہ اس قسم کی ضرور تمنا اور خواہش رکھتے ہوں گے ، لیکن افسوس کہ جو لڑکے آپ کے پیدا ہوئے تھے کہ جنہیں عبداللہ اور قاسم کے نام سے موسوم کیا گیا تھا وہ بچپن ہی میں فوت ہوگئے جتنا دکھ جناب رسول خدا(ص) اور جناب خدیجہ کو ان کی وفات سے ہوا تھا اتنا ہی ان کے دشمن خوش اور شاد ہوئے تھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام (ص) کی نسل کو ختم ہوتا دیکھ رہے تھے، کبھی دشمن آپ کو ابتر یعنی لاولد کے نام سے پکارتے تھے_

جب آپ کے فرزند عبداللہ فوت ہوئے تو عاص بن وائل بجائے اس کے کہ آپ کو آپ کے فرزند کی موت پر تسلی دیتا مجمع عام میں آپ کو ابتر اور لاولد کہتا تھا اور کہتا تھا کہ جب محمد(ص) مرجائیں گے تو ان کا کوئی وارث نہ ہوگا_ وہ زبان کے زخم سے جناب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

۳۰

اور جناب خدیجہ کا دل زخمی کیا کرتا تھا_(۱)

کوثر

خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کو بشارت دی کہ ہم آپ کو خیر کثیر عطا کریں گے_ اللہ تعالی نے دشمنوں کے جواب میں سورہ کوثر کو نازل فرمایا اور اس میں فرمایا کہ اے محمد(ص) ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا پس تم خدا کے لئے نماز پڑھو اور قربانی دو، آپ کا دشمن ہی لاولد ہے نہ کہ آپ_(۲)

پیغمبر اسلام(ص) کو یقین تھا کہ اللہ کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہوتا مجھ سے پاکیزہ نسل اور اولاد وجود میں آئے گا جو تمام جہان کی نیکیوں کا سرچشمہ اور منبع ہوگی_ جب اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا اور جناب فاطمہ زہرا(ع) دنیا میں تشریف لائیں اور آپ کے نور ولایت سے جہان روشن ہوا تو جناب رسول خدا(ص) کو اطلاع دی گئی کہ خداوند عالم نے جناب خدیجہ کو ایک لڑکی عنایت فرمائی ہے، آپ کا دل اس بشارت سے خوشی اور شادمانی سے لبریز ہوگیا، آپ لڑکی___ ہونے سے نہ صرف غمگین نہ ہوئے بلکہ اس وسیلے سے آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور اللہ تعالی کی خوشخبری کے آثار کا مشاہدہ فرمانے لگے_

جی ہاں پیغمبر اکرم(ص) ان کوتاہ فکر اور جاہلیت کے زمانے کے ان نادانوں میں سے نہ تھے جو لڑکی کے وجود پر شرمندہ ہوتے تھے، او رغصے کو فرو کرنے کے لئے اس کی بے گناہ ماں کو گالیاں اور ظلم کا نشانہ بناتے تھے لوگوں

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام_ ج ۲ _ ص ۳۴_ تفسیر جوامع الجامع_ مولفہ طبرسی_ ص ۵۲۹_

۲) سورہ کوثر_

۳۱

سے منھ چھپانے تھے _(۱)

پیغمبر اسلام(ص) اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ لوگوں کے غلط رسم و رواج اور بیہودہ افکار ''کہ جس کی وجہ سے عورتوں کی قدر و قیمت کے قائل نہ تھے اور انہیں معاشرے کافر و حساب نہ کرتے تھے اور بے گناہ لڑکیوں کو زندہ در گور کردیتے تھے'' سے مقابلہ اور مبارزہ کریں اور لوگوں کو بتادیں کہ عورت بھی معاشرہ کی حساس فرد ہے اس پر بہت بڑا وظیفہ اور مسئولیت عائد ہوتی ہے وہ بھی معاشرہ کی عظمت اور ترقی کے لئے کوشش کرے اور ان وظائف کو جو اس کی خلقت کی مناسب سے اس پر عائد کئے گئے بجالائے_

جی ہاں اللہ تعالی نے عملی طور سے عالم کی عورت کی قدر و قیمت سمجھائی ہے_ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کی ذریت اور پاک نسل کو ایک لڑکی میں قرار دیا اور اس طرح مقدر فرمایا کہ امام اور دین اسلام کے رہبر اور پیشوا تمام کے تمام جناب فاطمہ اطہر کی نسل سے وجود میں آئیں اللہ تعالی نے اس طرح ان نادان لوگوں کے منھ پر جو لڑکی کو اپنی اولاد شمار نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے وجود کو موجب عار اور رننگ سمجھتے تھے مضبوط طمانچہ مارا_

ماں کا دودھ

جب جناب فاطمہ زہرا(ع) کو ایک پارچہ میں لیپٹ کر جناب خدیجہ کے دامن میں رکھا گیا تو آپ بہت خوش ہوئیں اور اپنے پستانوں کو اس تازہ مولود کے چھوٹے سے منھ میں دے کر اپنے عمدہ اور بہترین دودھ سے سیراب کیا اور یہ ایک

____________________

۱) سورہ نحل آیتہ ۵۸_

۳۲

ایسا رویہ تھا کہ جس سے جناب فاطمہ (ع) نے اچھی طرح نمو اور رشد پایا_(۱)

جی ہاں جناب خدیجہ ان خودپسند اور نادان عورتوں میں سے نہ تھیں کہ جو بغیر کسی عذر اور بہانے کے اپنے نو مولود کو ماں کے دودھ سے (کہ جسے اللہ تعالی نے مہیا کیا ہے) محروم کردیتی ہیں_ جناب خدیجہ کو خود علم تھا یا پیغمبر اسلام(ص) سے سن رکھا تھا کہ بچوں کی غذا اور صحت کے لئے کوئی غذا بھی ماں کے دودھ کے برابر نہیں ہوسکتی کیونکہ ماں کا دودھ ہی اس کے ہاضمہ کی مشیزی اور اس کے خاص مزاج کے لئے کاملاً مناسب اور سازگار ہوا کرتا ہے جو بچے میں اللہ نے ودیعت کر رکھی ہے، بچہ نو مہینے تک ماں کے رحم میں ماں کی غذا اور ہوا اور خون میں شریک رہتا ہے اور بلاواسطہ ماں سے رزق حاصل کرتا ہے اسی لئے ماں کے دودھ کے اجزائے ترکیبی بچے کے مزاج سے کاملاً مناسب ہوتے ہیں اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں کسی قسم کی ملاوٹ کا شائبہ نہیں ہوسکتا اور اس میں زچگی کے جراثیم جو بیماری کا موجب ہوسکتے ہیں نہیں ہوا کرتے _(۲)

جناب خدیجہ کو علم تھا کہ ماں کا پر محبت دامن او رمہر مادری اور بچے کا ماں کے پستانوں سے دودھ پینا کون سے نقوش بچے کی آئندہ زندگی پر چھوڑتے ہیں سعادت او رنیک بختی میں کتنے قابل توجہ اثرات نقش بناتے ہیں اسی لئے آپ نے یہ اختیار کیا کہ جناب فاطمہ زہرا(ع) کو اپنی آغوش محبت میں پرورش اور تربیت کرے اور اپنے پاک دودھ ''جو شرافت، نجابت، علم، فضیلت، بردباری، فداکاری، شجاعت کا منبع اور سرچشمہ ہے'' سے غذا دے_ سچ ہے مگر جناب خدیجہ کے دودھ کے علاوہ

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۹_

۲) وافی_ ج ۲_ ص ۲۰۷_

۳۳

کوئی اور دودھ اس قسم کا پاک عنصر اور شجاعت اور مزاج معرفت کی تربیت کرسکتا تھا کہ باغ نبوت کے پر برکت میوہ کو ثمردار بنادیا؟

دودھ پینے کا زمانہ

جناب فاطمہ زہرا(ع) کے دودھ پینے کا زمانہ اور آپ کا بچپن بہت خطرناک ماحول اور اسلام کے انقلابی زمانے میں گزرا کہ جس نے بلاشک آپ کی حساس روح پر بہت شاندار اثرات چھوڑے اس واسطے کہ دانشمندوں کے ایک گروہ کے نزدیک یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ بچے کی تربیت کا ماحول اور محیط اور اس کے ماں باپ کے افکار اس کی روح اور شخصیت پر کاملاً اثر انداز ہوتے ہیں اسی لئے ہم مجبور ہیں کہ ابتداء اسلام کے اوضاع او رحوادث کا بطور اجمال ذکر کریں تا کہ قارئین فوق العادہ اوضاع اور بحرانی دور کو ملاحظہ کرسکیں کہ جس میں پیغمبر اسلام(ص) کی دختر گرامی قدر نے نشو و نما اور تربیت حاصل کی ہے_

پیغمبر اسلام(ص) چالیس سال کی عمر میں پیغمبری کے لئے مبعوث بر رسالت ہوئے ابتدا دعوت میں آپ کو بہت مشکلات اور خطرناک اور سخت حوادث کا سامنا کرنا پڑا آپ نے یک و تنہا عالم کفر اور بت پرستی سے مقابلہ کیا آپ نے کئی سال تک خفیہ تبلیغ کی اور دشمنوں کے خوف سے اپنی دعوت اور تبلیغ کو علی الاعلان کرنے کی جرات نہ کرسکتے تھے بعد میں آپ کو خداوند عالم سے حکم ملاکہ لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کھلی دعوت دو اور مشرکین کی پرواہ مت کرو اور ان سے مت ڈرو _(۱)

پیغمبر اکرم(ص) نے اللہ تعالی کے اس حکم کے بعد اپنی دعوت کو عام کردیا اور اجتماع عام

____________________

۱) سورہ حجر آیت ۹۴_

۳۴

میں لوگوں کو اسلام کے مقدس آئین کی طرف دعوت دینی شروع کی دن بدن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا_

جب پیغمبر اکرم(ص) کی تبلیغ علی الاعلان ہونے لگی تو دشمنوں کے آزار و اذیت میں بھی شدت آگئی، وہ مسلمان کو شکنجے کرتے اور ان پر ظلم و ستم ڈھاتے بعض مسلمانوں کو حجاز کے سورج کی تپتی دھوپ میں ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بہت بھاری پتھر رکھ دیتے اور بعض مسلمانوں کو قتل کردیتے تھے_

مسلمانوں پر اتنا سخت عذاب اور سختی کی گئی کہ وہ بہت تنگ آچکے تھے اور مجبور ہوگئے تھے کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرجائیں چنانچہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے جناب رسول خدا سے اجازت لی اور حبشہ کی طرف روانہ ہوگیا_(۱)

جب کفار اپنی سختی اور ظلم اور آزار و اذیت سے اسلام کی پیشرفت اور وسعت کو نہ روک سکے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں تکالیف کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن اسلام کے عقیدے سے دست بردار نہیں ہوتے تو انہوں نے ایک مشاورتی اجتماع کیا اور تمام نے انفاق سے طے کیا کہ جناب محمد(ص) کو قتل کردیا جائے_

جب جناب ابوطالب(ع) کو ان کے خطرناک منصوبے کا علم ہوا تو آپ نے جناب رسول خدا(ص) کی جان کی حفاظت کی مختصر یہ کہ بنی ہاشم کے ایک گروہ کے ساتھ ایک درہ میں کہ جس کا نام شعب ابوطالب ہے منتقل ہوگئے_

جناب ابوطالب(ع) اور باقی تمام بنی ہاشم جناب رسول خدا(ص) کی جان کی حفاظت کرتے تھے_ جناب حمزہ جو رسول خدا(ص) کے چچا تھے رات بھر تلوار کھینچے آپ کی حفاظت

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام_ ج ۱ ص ۲۴۴_ تاریخ کامل ج ۲_ ص ۵۱_

۳۵

کیا کرتے تھے، آپ(ص) کے دشمن پیغمبر خدا(ص) کے قتل کرنے سے ناامید ہوگئے تو انہوں نے شعب ابوطالب میں نظر بند افراد پر اقتصادی باؤ ڈالنا شروع کردیا ا ور ان سے خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی_ مسلمانوں تین سال تک اس درہ میں قید رہے اس میں بھوک اور تکالیف اور سخت جلادینے والی گرمی برداشت کرتے رہے اور مختصر خوارک پر جو انہیں چوری چھپے حاصل ہوتی تھی گزر اوقات کرتے رہے اور بسا اوقات بچوں کی بھوک سے فریادیں بلند ہوجایا کرتی تھیں_

جناب فاطمہ زہرا(ع) اس قسم کے خطرناک ماحول اور وحشت ناک و محیط اور اس قسم کے بحرانی حالات میں دنیا میں آئیں اور اس قسم کے حالات میں تربیت پائی، جناب خدیجہ کبری نے اس قسم کے حالات اور شرائط میں اپنے پیارے نو مولود کو دودھ پلایا کافی مدت جناب زہرا(ع) کے دودھ پینے کی اسی درے میں گزری اور اسی جگہ آپ کا دودھ بھی چھڑایا گیا، آپ نے اسی جلانے والے ریگستان میں راہ چلنا سیکھا جب آپ نے بولنا سیکھا تو بچوں کا بھوک سے آہ و فغاں کرنا اسی جگہ سنا اسی گھٹے ہوئے ماحول میں غذا کے قحط کو دیکھا جب آپ آدھی رات کو جاگ اٹھتیں تو دیکھتیں کہ آپ کے رشتہ دار برہنہ شمشیر لئے ہوئے آپ کے باپ کی حفاظت کر رہے ہیں_

تین سال تک جناب زہرا(ع) نے اس جلادینے والی وادی کے سوا اور کچھ نہ دیکھا اور خارجی دنیا سے بے خبر رہیں_

جناب زہرا(ع) کی عمر پانچ سال کی تھی جب پیغمبر اکرم(ص) اور بنی ہاشم کو اس درے ''شعب ابوطالب'' سے نجات ملی اور یہ سب اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے، نئی زندگی کے نظارے اور آزادی کی نعمت اور کھانے پینے میں وسعت اور اپنے مکان میں رہنا جناب زہرا(ع) کے لئے نئے ماحول کی حیثیت رکھتا تھا اور آپ کے لئے باعث مسرت تھا_

۳۶

ماں کی وفات

افسوس صد افسوس کہ جناب فاطمہ (ع) کے خوشی کے دن زیادہ دیر تک نہ رہ سکے آپ نے آزاد ما حول میں سانس لینا چاہا تھا کہ آپ کی مہربان ماں جناب خدیجہ کا انتقال ہوگیا_

ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ پیغمبر(ص) اور آپ کے اصحاب شعب کی قید سے آزاد ہوئے تھے کہ جناب خدیجہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں _(۱)

اس جانگداز حادثہ نے کس قدر جناب فاطمہ (ع) کے دل پر اثر کیا اور آپ کے امید کے پودہ کو پمردہ کردیا اور آپ کی روح کو شدید صدمہ پہنچا، جناب فاطمہ ز ہرا(ع) ایسے ناقبل برداشت حادثہ کا ہرگز احتمال بھی نہ دیتی تھیں_

نتیجہ

بچپن کے غیر معمولی واقعات اور تلخ حوادث نے بغیر کسی شک و شبہ کے جناب زہرا(ع) کی حساس روح پر اثر چھوڑا اور آپ کی آئندہ زندگی اور نفسیات اور افعال کا ربط نہیں واقعات سے مرتبط ہے جو آپ کو بچپن میں پیش آئے اور آپ کی شخصیت نے اسی سرچشمہ سے آغاز کیا، مندرجہ ذیل اثرات انہیں واقعات سے بطور نتیجہ اخذ کئے جاسکتے ہیں_

۱_ جو شخص اس قسم کے پمردہ ماحول میں نشو و نما پائے اور زندگی کے آغاز میں ہی اتنے پڑے واقعات سے دوچار ہو تو لامحالہ وہ افسردہ خاطر اور غمگین ہی رہا کرتا ہوگا

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب_ ج۱_ ص ۱۷۴_

۳۷

اسی لئے جناب فاطمہ (ع) کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ محزون اور غمگین رہا کرتی تھیں_

۲_ جو شخص اس قسم کے بحرانی ماحول میں پروان چڑھا ہو، یہاں تک کہ دودھ پینے اور بچپن کی عمر قید خانے میں گزاری ہو اور جب سے آپ نے اپنے آپ کو پہچاننا شروع کیا ہو اپنے آپ کو قید خانے میں دیکھے اور یہ دیکھے کہ اس کے ماں باپ کس فداکاری اور ایثار سے اپنے ہدف اور مقصد کا دفاع کر رہے ہیں اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے ہر سختی اور تکلیف کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن اپنے مقصد کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے تو لامحالہ اس قسم کی شخصیت سخت جان، مبارز اور صاحب مقصد ہی ابھر کر سامنے آئے گی اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے قید اور تکالیف اور مظالم کی پرواہ نہیں کرے گی اور میدان نہیں چھوڑے گی_

۳_ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دیکھ رہی تھیں کہ اس کے ماں باپ دین کی اشاعت اور خداپرستی کے لئے کتنے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں، انسانیت کی نجات اور ہدایت کے لئے کتنی قربانیاں دے رہے ہیں آپ کو مسلمان سے یہی امید ہوگی کہ وہ اس کی وفات کے بعد ان کی قدر کریں اور آپ کے ہدف اور مقصد کو آگے بڑھانے میں سعی اور کوشش سے کام لیں اور جو راستہ آپ ان کے لئے معین کرگئے اس سے منحرف نہ ہوں_

ماں کی وفات کے بعد

بعثت کے دسویں سال بہت تھوڑے فاصلے پر جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی یکے بعد دیگرے وفات ہوجاتی ہے_(۱)

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۱_ ص ۱۷۴_

۳۸

ان دو غم انگیز واقعات نے جناب پیغمبر خدا(ص) کی روح کو صدمہ پہنچایا اور آپ نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا_(۱)

کیونکہ ایک طرف تو آپ کا ایک غم گسار اور داخلی و خارجی امور میں مشیر اور آپ کی اولاد کی ماں جناب خدیجہ کا انتقال ہوجاتا ہے اور دوسری طرف آپ کا ایک بہت بڑا حامی اور مددگار اور مدافع جناب ابوطالب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، جس سے آپ کی یکدم داخلی اور خارجی اوضاع دگرگوں ہوجاتی ہیں_

ان دو حامیوں کے فوت ہوجانے سے دشمنوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس طرح آپ کو تکالیف دینا شروع کردیں کبھی آپ کو پتھر مارتے اور کبھی آپ کے سر و صورت پر خاک ڈالتے اور کبھی برا بھلا کہتے او رکبھی آپ کے جسم مبارک کو زخمی کرتے اکثر اوقات آپ غمگین اور پمردہ گھر میں داخل ہوتے اور اپنی بیٹی سے ملاقات کرتے، جب کہ جناب فاطمہ (ع) اپنی ماں کے فراق میں مرجھائے ہوئے چہرے سے اشکبار ہوتیں، جناب فاطمہ (ع) جب کبھی گھر سے باہر جاتیں تو ناگوار حوادث سے دوچار ہوتیں کبھی دیکھتیں کہ لوگ آپ کے باپ کو اذیت دے رہے ہیں اور آپ کو برا بھلاکہہ رہے ہیں_ ایک دن دیکھا کہ دشمن مسجدالحرام میں بیٹھے آپ کے والد کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں_ روتے ہوئے گھر واپس آئیں اور دشمنوں کے منصوبے سے باپ کو آگاہ کیا_(۲)

ایک دن مشرکین میں سے ایک آدمی نے جناب رسول خدا (ص) کو گلی میں دیکھا تو کوڑا کرکٹ اٹھا کر آپ کے چہرے اور سر پر ڈال دیا_ پیغمبر(ص) نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر چلے

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج ۱_ ص ۱۷۴_

۲) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۱_ ص ۷۱_

۳۹

گئے_ آپ کی دختر جناب فاطمہ (ع) جلدی سے آئیں اور پانی لاکر اشک بار آنکھوں سے آپ کے سر مبارک کو دھویا_ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: بیٹی روو مت، مطمئن رہو خدا تیرے باپ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، اور کامیابی عطا فرمائے گا_(۱)

ایک دن پیغمبر خدا(ص) مسجد میں نماز میں مشغول تھے، مشرکین کا ایک گروہ آپ کا مذاق اڑا رہا تھا اور آپ کو اذیت دینا چاہتا تھا، ان مشرکین میں سے ایک نے اونٹ ذبح کیا تھا، اس کی اوجھڑی اٹھاکر ''جو کثافت اور خون سے پر تھی'' آپ کی پشت مبارک پر جب آپ سجدے میں تھے ڈال دیا_ جناب فاطمہ (ع) اس وقت مسجد میں موجود تھیں جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو بہت قلق ہوا اور آپ کی پشت مبارک سے اوجھڑی کو ہٹا کر دور پھینک دیا_ پیغمبر اسلام(ص) نے سجدہ سے سر اٹھایا اور نماز کے بعد اس گروہ پر نفرین کی_(۲)

جی ہاں جناب زہرا(ع) نے اپنے بچپن میں اس قسم کے ناگوار واقعات دیکھے اور اپنے باپ کی ان میں مدد کی، اور اپنے کے لئے مادری سلوک کیا کرتی تھیں_

جناب خدیجہ کے انتقال کے بعد بہت سے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری جناب فاطمہ (ع) کے کندھے پر آن پڑی تھی_ کیونکہ یہ توحید کا وہ پہلا گھر تھا جس کا سردار مرچکا تھا، اس گھر میں جناب فاطمہ (ع) کے علاوہ اور کوئی مددگار موجود نہ تھا، تاریخ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس زمانے میں پیغمبر خدا(ص) کے گھر کی حالت کیسی رہی اور ان کی زندگی کس طرح گزری_ لیکن بصیرت کی آنکھوں سے اس گھر کی رقت بار حالت کو دیکھا جاسکتا ہے_

____________________

۱) تاریخ طبری_ ج ۲_ ص ۳۴۴_

۲)مناقب شہر ابن آشوب_ ج۱_ ص ۶۰_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

پوری شیعہ تاریخ میں علماء حقہ نے جن زحمات و تکالیف کو برداشت کیا ،ان کی زحمات لوگوں کو بتائیں اور ان کے احترام کی کوشش کریں،ان کی بدگوئی اور استخفاف سے گریز کریں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' من اَفسَدَ بالعلَماء اَفسَدَدینَه''( 1 )

علماء کی اہانت کرنے والا اپنے دین کو فاسد کرتا ہے۔

یہ فرامین ان علماء کے بارے میں صادر ہوئے ہیں کہ جنہوں نے دین خدا کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کی۔ایسے علماء کی اہانت ،دین اور خدا کے دستورات کی اہانت ہے۔ کیونکہ ایسے علماء علم ودانش کو کسب کرنے کی جستجو و کوشش اور اسے معاشرے میں فروغ دینے کی وجہ سے خدا کی بارگاہ اوراہلبیت عصمت و طہارت علیہم  السلام  کے مقربین میں سے ہیں۔

اس بناء پر جو ان کی اہانت کرے،حقیقت میں  وہ دین کی اہانت کرتا ہے،اور جو خدا کے دستورات کی اہانت کرے وہ اپنے دین کو تباہ کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج23ص378

۲۰۱

نتیجۂ بحث

علم و دانش کے حصول کیلئے شوق اور ارادہ بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔لہٰذا اپنے اندر ان دونوں صفات کو ایجاد کریںاور انہیں تقویت دیں۔اس علم کو حاصل کرنے کی کوشش کہ جس کا سرچشمہ مکتب وحی ہو،اور اپنے وجود کو ان کے تابناک انوار سے منوّر کریں۔

ان علوم کو حاصل کرنے سے آپ کے نفس میںعظیم تحولات جنم لیںگے۔کیونکہ علم و دانش شعور پر اثرانداز ہوتے ہیں اور آپ کے افکار کو بلند مقام پر پہنچاتے ہیں۔

ان روحانی تحولات کا نتیجہ جاویدانی حیات اور اغیار سے پوشیدہ اسرار تک رسائی ہے۔اس صورت میں آپ کو بلند درجات کا وسیلہ فراہم ہوجائے گا۔

آپ ان عالی اور علمی مقامات کو کسب کرنے سے معاشرے اور امت کی ہدایت اور راہنمائی کریں اور انہیں ضلالت اور گمراہی نجات دے کر مکتب اہل بیت سے آشنا کروائیں۔

چو علمت ہست خدمت کن کہ زشت آید بردانا

گرفتہ چینیان احرام و مکّی خفتہ در بطحا

تمہارے پاس علم ہے تو خدمت کرو کیونکہ عالم کے لئے زشت ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے علم سے مستفید نہ کرے ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ اہل چین نے احرام بہی باندہ لیا اور ہم مدینہ میں بیٹہے سو  رہے ہیں۔

۲۰۲

بارہواں باب

توفیق

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' لَا ینفَع اجتهاد بغیر تَوفیق ''

توفیق کے بغیر کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

    انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

    سعادت کے چار بنیادی ارکان

    توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

    کامیاب اشخاص

    توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

   1 ۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

    ایک اہم نکتہ

   2 ۔ ماں باپ کی دعا توفیق کا سبب

   3 ۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

   4 ۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

    نتیجۂ بحث

۲۰۳

انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

نیک کام انجام دینے کے لئیانسان کو خداوند متعال کی جانب سے توفیق اور عنایت کی ضرورت ہوتی ہے،جب تک توفیق الٰہی شامل حال نہ ہو تب تک وہ کسی بہی خدا پسندانہ کام کو انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اپنے اہداف تک پہنچنے اور اپنے امور زندگی میں کامیابی کے لئے خداوندعالم سے دعا کرنا ضروری  ہے کہ اے پروردگار ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اہم اور عالی اہداف و مقاصد تک پہنچ سکیں اور ان کا حصول ہمارے لئے آسان فرما۔

حضرت جوادالائمہ امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں:

''اَلمؤمن يَحتاج الٰی تَوفیقٍ من اللّه وَ وَاعظٍ من نفسه وَ قَبول ممَّن يَنصَحَه''(1) مومن تین چیزوں کا محتاج ہے:

1 ۔ خدا کی طرف سے حاصل ہونے والی توفیق۔

2 ۔ اپنے نفس کے ذریعہ خود کو وعظ کرنے والا ہو۔

3 ۔ جو اسے نصیحت کرے اس کی نصیحت قبول کرے۔

اس فرمان کی رو سے توفیق الٰہی ہر مومن شخص کی ضرورتوں میں سے ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنائے،زیارت سے مشرف ہوتے وقت جس دعا کو پڑہنا مستحب ہے،اس دعا میں کہتے ہیں:

''اَلَّلهمَّ صل  نیَّتی باالتَوفیق ''(2) پروردگارا  میرے ارادہ کو  تو فیق  کے سات ھ متصل فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ تحف العقول مرحوم حرّانی:457

[2]۔ بحارالانوار:ج 102 ص162

۲۰۴

کیونکہ جس خدا پسندانہ اور نیک کام کی نیت و ارادہ میں توفیق الٰہی شامل نہ ہو ،وہ کام کبہی بہی مؤثر نہیں ہوتا۔

لہٰذا انسان کی نیت و ارادہ ،توفیق الٰہی کے ہمراہ ہونی چاہئے تاکہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔ لیکن اگر نیت کے ساتہ توفیق الٰہی شامل نہ ہو تو اس کام کا کوئی عملی اثر نہیں ہوگا،اگرچہ انسا ن وعدہ دیئے گئے ثواب سے بہرہ مند ہوجائے گا۔

اس بناء پر خدا کی توفیق ہر مؤمن کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔کیونکہ کسی نیک کام کو انجام دینے کی قدرت اور نیت ،اس کام کے وقوع پذیر ہونے کی علت تامّہ نہیںہے۔

کار خیر کو انجام دینے کے لئے نیت اور توانائی کے علاوہ توفیق الٰہی کی بہی ضرورت ہوتی ہے،اگر خدا کی توفیق آپ کے شامل حال نہ ہو تو نیک کام انجام دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔

خدا وند متعال قرآن میں حضرت شعیب کے قول کو یوں بیان فرماتا ہے ،جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تہا:

'' ان اریدَ الّا الاصلَاح مَا اَستَطَعت وَ مَا تَوفیقی الَّا باللّٰه ''( 1 )

میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے امکان میں ہو،میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک کام کو انجام دینے کے لئے فقط استطاعت اور قدرت کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی توفیق بہی مورد نیاز ہے۔

پروردگا ر کی توفیق اور لطف انسان کی قوت اور قدرت کی تکمیل کرتی ہے ورنہ صرف انسان کی توانائی مشکلات کو حل کرنے سے قاصر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ہود آیت:88

۲۰۵

اس بیان کی رو سے نہ صرف عام افراد بلکہ اولیاء خدا اور بزرگان دین بہی اسی صورت میں نیک کاموں کو انجام دینے میں کامیاب ہوسکتے  ہیں کہ جب خدا کی جانب سے توفیق شامل حال ہو۔

اس نکتہ کی جانب توجہ نہ صرف لازم اور ضروری ہے، بلکہ اس کے بہت اہم اثرات بہی ہیں۔

اس نکتہ پر اعتقاد اور توجہ کہ تمام افراد کے لئے خداپسندانہ امور کو انجام دینے میںتوفیق الٰہی کا حاصل ہونا نہ صرف لازم اور ضروری ہے بلکہ اس کے بہت مہم اثرات بہی ہیں اور وہ یہ کہ اس سے انسان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔اولیائ خدا اور بزرگان دین اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ان کے تمام نیک کاموں میں خدا کی توفیق شامل ہے، لہٰذا ان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔

وہ اس دنیا میں  خود کو کچہ بہی نہیں سمجہتے،اس اعتقاد سے ان کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔جو انہیں خود پسندی اور انانیّت سے باز رکہتا ہے۔

صبر بردرد، نہ از ہمت مردانہ ماست

درد  از او، صبر از او، ہمت مردانہ از اوست

دگری را بہ جز او،راہ بہ ویرانہ دل

نتوان داد،کہ این گوشہ ویرانہ از او  ست

شمع و پروانہ از او سوختن آموختہ اند

شعلہ شمع از او ،سوزش پروانہ از اوست

مصیبتوں پہ صبر ہماری مردانگی کی علامت نہیں ہے ، صبر درد اور ہمت مردانہ اسی کی عطا ہے لہذا اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی اور کو نہ بٹہائوکیونکہ یہ دل اسی کا گہر ہے، شمع اور پروانے نے جلنا اسی سے سیکہا شمع کا شعلہ اور پروانے کا جلنا بہی اسی سے ہی ہے۔

۲۰۶

سعادت کے چار بنیادی ارکان

نیت ، قدرت، توفیق، منزل تک پہنچنا۔

توفیق کے مطابق عمل کرنے والا انسان سعادتمند ہوتاہے ،یعنی جو نیت و ارادہ اور قدرت و توفیق کے علاوہ توفیق الٰہی کو عملی صورت میں لائے اور شیطان کے فریب و وسوسہ سے توفیق کو نہ کہودے۔ بہت سے لوگ کامیابی کی تمام شرائط کے با وجود منفی و شیطانی افکار کی وجہ سے کام کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں اور یوں توفیق کہودیتے ہیں۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' مَا کلّ مَن نَویٰ شَیئا قَدَرَ عَلَیه وَ لَا کلّ مَن قَدَرَ عَلیٰ شئی وفّقَ لَه وَلَا کلّ مَن وفّقَ لشَئی اَصَابَ لَه فَاذااجتَمَعَت النّيةوَالقدرَة وَالتَّوفیق وَالاصَابَةفَهنَالک تَمَّت السَّعَادَة''(1)

ایسا نہیں ہے کہ جو شخص کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر ے وہ اسے انجام دینے کی قدرت بہی رکہتا ہو اور جو قدرت بہی رکہتا ہو وہ اسے انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو،نیز ایسا بہی نہیں ہے کہ جو کسی کام انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو وہ اس تک پہنچ جائے ، پس جب نیت، قدرت، توفیق اور مقصد تک پہنچنا ایک ساتہ جمع ہوجائیں تو انسان کی سعادت مکمل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۵ ص۲۱۰

۲۰۷

توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

روایت سے لائے گئے نکتہ سے استفادہ کرتے ہیں کہ توفیق کے مسئلہ میں اجباری طور پر اجراء کی قدرت کا وجود نہیں ہے،کیونکہ سعادت تک پہنچنے کے لئے توفیق کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کی بہی ضرورت ہے۔توفیق،ایک ایسی قوت ہے کہ جو انسان کی خوبیوں اور پسندیدہ امور کی طرف ہدایت کرتی ہے۔حقیقت میں توفیق نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے راہنمائی کرتی ہے۔اس مسئلہ میں جبر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ کامیاب فرد اسے انجام دینے کے لئے مجبور نہیں ہے البتہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قوت سے استفادہ کرے اور اسے ضائع نہ کرے۔اس بناء پر توفیق نیک اعمال کے لئے فقط راہنمائی کرتی ہے۔اس میں کسی قسم کا اجبار اور اکراہ موجود نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''  لَا قَائدَ خَیر من التَّوفیق'' (1) توفیق سے بہتر کوئی راہنماموجود نہیں ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) توفیق کو بہترین راہنما کے عنوان سے متعارف کرواتے ہیں ۔ کیونکہ جس طرح ہم نے کہا کہ اعطائ توفیق میں کوئی اجباری قدرت پوشیدہ نہیں ہوتی، لہٰذا کبہی خدا ہمیں توفیق عنایت کرتا ہے لیکن ہم اسے ضائع کرتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) نے جو تعبیر فرمائی ہے وہ ان افراد کے لئے جواب ہے کہ جو نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں۔اگر ان سے اس بارے میں پوچہا جائے اور ان پر اعتراض کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا وند تعالی نے ہمیں توفیق عطا نہیں کی ۔اس بیان کی رو سے واضح ہوجاتا ہے کہ بہت سے موارد میں توفیق الٰہی ہماری مدد کرتی ہے۔لیکن ہم اسے ضائع کر دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اس بناء پر حتمی کامیابی اور ہدف تک رسائی کی شرائط میں سے ایک شرط توفیق الٰہی کے مطابق عمل کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج9ص41

۲۰۸

کامیاب اشخاص

مرحوم سید محمد باقر قزوینی بزرگ شخصیت کے مالک تہے ۔ وہ عظیم و بیکران توفیق سے بہرہ مند تہے۔یہ مرحوم بزرگ علماء شیعہ میں سے اور خلق خدا کے گزار تہے ،یہ سید بحرالعلوم کے بہانجے تہے۔

ان کے بہتیجے مرحوم سید مہدی قزوینی (جو خود بہی بزرگ علماء میں سے تہے) نقل کرتے ہیں کہ عراق میں طاعون کی وباء پہیلنے سے دو سال پہلے اس بزرگ نے اس کے آنے کی خبر دی تہی اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں میں سے ہر ایک کو دعا لکہ کر دی اور فرمایا حضرت امیرالمؤمنین(ع) نے خواب میں مجہ سے فرمایا ہے'' وَ بکَ ختم یا وَلَدی'' طاعون کی بیماری تم پر ختم ہوجائے گی۔اس سال انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت کہ جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔انہوں نے شہر اور شہر سے باہر ہر میت کی نماز پڑہی،وہ ہر بیس ،تیس یا اس سے کم یا زیادہ افراد پر ایک نماز پڑہتے۔طاعون کے مرض سے اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں کہ ایک دن ہزار افرادکے لئے  ایک نماز بجا لائی گئی۔وہ  1246 ہ کو عرفہ کی رات نمازمغرب کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔وہ طاعون کے مرض سے ہلاک ہونے والے آخری  شخص تہے۔

ایک بار وہ دسیوں علماء و صلحاء کے ہمراہ کشتی میں سوار تہے،طوفان کی وجہ سے وہ سب غرق ہونے کے قریب تہے ،لیکن اس بزرگوار نے اپنی غیر معمولی معنوی قوّت سے طوفان کو ٹال دیا اور کشتی کو غرق ہونے سے بچالیا۔ان کے بہتیجے کا کہنا ہے کہ علماء و صالحین کے ایک گروہ کے ساتہ کشتی میں سوار ہوکر کربلا سے آرہے تہے کہ اچانک بہت تیز ہوا چلنے لگی کہ جس سے کشتی کے الٹنے کا خطرہ لاحق ہوا،ہمارے ساتہ ایک شخص بہت خوفزدہ اور مضطرب ہوگیا اور اس کی حالت متغیر ہوگئی،وہ کبہی روتا تہا اور کبہی حضرت امیرالمؤمنین سے متوسّل ہوتا،لیکن اس دوران مرحوم سید اپنی عادی حالت میں بیٹہے رہے،

۲۰۹

جب وہ شخص خوف کے مارے بہت زیادہ رونے لگا تو اس سے فرمایا:تم کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ہوا،آندہی،اور رعد و برق یہ تمام خدا کے امر کے مطیع ہیں،پہر انہوں نے اپنی عباء کو اکٹہا کیا اور ہوا کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:آرام کرو اسی وقت طوفان تہم گیا اور کشتی بہی طوفان سے بچ گئی۔

یہ بزرگوار اس توفیق کی وجہ سے ایسے عظیم علوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ عام حالات اور شرائط میں جن کا حصول ممکن نہیں ہے۔

اس مرحوم کی شخصیت اور غیر معمولی عظمت کو بیان کرنے والے اس واقعہ کو مرحوم محدّث نوری یوں بیان کرتے ہیں۔امام زمان نے اس بزرگوار کو بشارت دی تہی کہ مستقبل میں تمہاری روزی علم توحید ہوگا۔مرحوم فرماتے ہیں کہ اس بشارت کے بعد ایک رات خواب میں دیکہا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے ،ان میں سے ایک کے ہاتہ میں کچہ لوح تہے جن پر کچہ لکہا تہا اور دوسرے کے ہاتہ میں ایک میزان تہا، ان فرشتوں کے دونوں لوح ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکہے اور انہیں تولنے لگے ،پہر انہوں نے وہ لوح مجہے دیئے اور میں نے ان پر لکہی ہوئی تحریر کو پڑہا ،پہر انہوں نے تمام لوح میرے سامنے رکہے اور میں نے انہیں پڑہا ،ان میں سے بعض لوح پر اصحاب پیغمبر (ص) اور اصحاب ائمہ اطہار (سلمان،ابوذر،سے نوّاب اربعہ تک)کے علوم و عقائد لکہے تہے اور بعض دیگر پر علماء شیعہ جیسے کلینی،صدوق،تا بحرالعلوم اور ان کے متاخرین علماء کے علوم و عقائد درج تہے،وہ دونوں فرشتے پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اطہار علیہم  السلام  کے اصحاب اور بزرگ شیعہ علماء کے علوم و عقائد کو ترازو میں رکہ کر تول رہے تہے۔اس خواب کی وجہ سے میں علوم کے بہت سے اسرار سے آگاہ ہوا کی اگرمجہے نوح کی عمر بہی مل جاتی اور میں جستجو کرتا تو اس کا ایک فیصد بہی حاصل نہ ہوتا۔

۲۱۰

توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

1۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

خدا وند متعال سے توفیق کی درخواست و دعا کریں تاکہ بزرگان دین کو حاصل ہونے والی توفیقات الٰہی سے ہم بہی بہرہ مند ہوسکیں ،اکثر دعائوں میں خدا وند بزرگ و برتر سے توفیق کا سوال کرتے ہیں۔

1 ۔ نماز جعفر طیار کے بعد دعا میں پڑہتے ہیں :

''اللّٰهمَّ انّی اَساَلکَ تَو فیقَ اَهل الهدیٰ وَ اَعمَالَ اَهل التَّقویٰ''(1)

پروردگار ا میں تجہ سے اہل ہدایت کی توفیق اور اہل تقویٰ کے اعمال و رفتار کا سوال کرتا ہوں۔

یہ جملہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ فقط توفیق کا حاصل ہوجانا نیک کام کو انجام دینے کی دلیل نہیں ہے ،اسی وجہ سے اس دعا میں اہل ہدایت کی توفیق طلب کرنے کے علاوہ خدا سے پرہیزگاروں کے اعمال و رفتار کا بہی سوال کرتے ہیں۔

2 ۔آیت قرآن''صرَاطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیہم'' کی تفسیر میں امام حسن عسکری  (ع) سے نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:

''قولوا اهدنَا الصّراطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیهم باالتَّوفیق لدینک وَ طَا عَتکَ''(2)

کہو کہ ہمیں ان کے راستے کی طرف ہدایت فرما جن پر تو نے اپنے دین کو قبول کرنے اور تیری اطاعت کرنے کی توفیق کے ذریعہ نعمتیں نازل کی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۹۱ص۱۹۸

[2]۔ معانی الاخبار: 15 ، بحارالانوار: 1024، تفسیر الامام العسکری:17

۲۱۱

اس بناء پر خدا کی اطاعت و فرمانبرداری اور دینداری کی توفیق ،خدا کی طرف سے بندوں کو عنایت ہونے والا لطف ہے۔ہم سب کو خدا سے دعا کرنی چاہیئے کہ پروردگار دنیا کے اس پر خطر سفر میں توفیق الٰہی کو ہمارا مونس و ہمسفر قرار دے تاکہ ہمارا سفر خیریت سے اختتام پذیر ہو۔

3 ۔ماہ مبارک رمضان کی تیرہویں دن کی دعا میں آیا ہے:

''اَلَّلهمَّ وَفّقنی فیه عَلی التّقیٰ وَ صحبَةالاَبرَار''( 1 )

پروردگارا! اس دن میں مجہے تقویٰ کی اور نیک و متقی افراد کی صحبت کی توفیق عطا فرما۔

4 ۔ماہ رمضان کی بائیسویں شب کی دعا میں وارد ہوا ہے :

''وَارزقنی فیها التَّوفیقَ لماوَفَّقتَ له شیعَةَ آل محمَّد ''( 2 )

پروردگارا! آج کی رات میں مجہے وہ توفیق عنایت فرما کہ جس سے تو نے پیروان  آل محمد کو کامیاب فرمایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۳۷

[2]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۵۳

۲۱۲

ایک اہم نکتہ

اگرچہ ممکن ہے کہ سائل مقربین آل محمد اور شیعوں کی توفیقات کو بہت بڑی حاجت سمجہے اور اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کے سامنے پست اور  نا اہل سمجہے ، لیکن چونکہ وہ خدا بزرگ و برتر کے حضور میں ہے اور خالق کائنات کی بارگاہ میں سوال کررہا ہے،لہٰذا وہ بہترین اور پر ثمر ترین حاجات طلب کرے ۔ کیونکہ خدا کے حضور اور خدا کی بارگاہ میں خدا کی عظمت و بزرگی کو مدّ نظر رکہیں نہ کہ فقط اپنی پستی و ذلت کو ملاحظہ کریں۔

بعض لوگ معتقد ہیں کہ انسان خدا وند متعال سے اپنی حد اور اوقات سے زیادہ طلب نہ کرے ، لہٰذا اپنی حیثیت و صلاحیت اور حدود کو مد نظر رکھ کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی دعا کریں۔اگر فرض کریں کہ   یہ عقیدہ صحیح بھی ہو تو یہ کلیّت نہیں رکھتا۔کیونکہ بعض مقامات پر اور بعض اوقات  انسان خدا کے نزدیک اس قدر عظیم و عالی مقام رکھتا ہے کہ انسان خدا سے ہر قسم کی عظیم حاجت طلب کرسکتا ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)  کی زیارت  وداع میں پڑھتے ہیں:''اَلَّلهمَّ وَفّقنا لکلّ مَقامٍ مَحمودٍوَ اَقلبنی من هذا الحَرَم بکلّ خَیرٍ مَوجودٍ'' (1)

پروردگارا، مجہے ہر قسم کے مقام محمود کے حصول کی توفیق عطا فرما اور مجہے اس حرم سے ہر موجود خیر کے ساتہ لوٹا۔

خدا کے نزدیک حضرت امیرالمؤمنین  کے حرم مطہر کی شرافت و محبوبیت کی وجہ سے زائر کو اجازت ہے کہ وہ خدا سے ہر قسم کی توفیق اور مقام محمود کو طلب کرسکتا ہے۔

اسی بناء پر اگرچہ سائل بعض مقامات کو طلب کرنے کی لیاقت و صلاحیت نہ رکہتا ہو لیکن زمان ومکان کی عظمت کی وجہ سے ایسی بزرگ حاجات کو طلب کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۱۰۰ص۳۸۲

۲۱۳

2۔ ماں باپ کی دعا  توفیق کا سبب

ماں باپ کی دعا توفیق کو ایجاد کرنے میں مؤثر کردار کی حامل ہے،بعض بزرگان اپنی تمام تر توفیقات کو اپنے والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،مرحوم مجلسی جو کہ کثرت تالیفات اور اہلبیت کی خدمت کے لحاظ سے شیعہ علماء میں کم نظیر بلکہ بے نظیر ہیں،وہ اپنی عظیم توفیقات کو اپنے والد بزرگوار کی دعائوں کے مرہون منت سمجہتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول فرماتے ہیں کہ ایک رات نماز شب سے فارغ ہونے کے بعد مجہ  پرایک ایسی حالت  طاری ہوئی کہ جس سے میں یہ سمجہا کہ اگر دعا کروں تو ضرور مستجاب ہوگی،میں ابہی اسی سوچ   میں مبتلا تہا کہ آخر خدا سے کس چیز کی دعا کروں؟اچانک جہولے سے سے محمد باقر کے رونے کی آواز بلند ہوئی،میں نے کہا :پروردگار بحق محمد و آل محمدعلیہم السلام اس بچے کو شریعت محمد(ص) اور دین کا خادم اور مروّج قرار دے اور اسے بے انتہا توفیقات سے بہرہ مند فرما۔صاحب مراةالاحوال کہتے ہیں علامہ مجلسی سے ظاہر ہونے والے غیر معمولی امور مسلما ًاسی دعا کے آثار ہیں(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:411

۲۱۴

3۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ توفیق حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک خدا سے دعا کرنا ہے ۔ دل سے دعا کے لئے ہاتہ اٹہائیںاور پروردگار بزرگ و مہربان سے نیک مقاصد کے حصول کی دعا کریں،دعا کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی و کوشش بہی کریں ورنہ آپ کی دعا استہزاء اور تمسخر شمار ہوگی۔

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں:

''مَن سَاَله التَّوفیق وَ لَم یَجتَهد فَقَد استَهزَئَ بنَفسه ''(1)

جو خدا سے توفیق کا سوال کرے لیکن اس کے لئے کوشش نہ رے وہ اپنے ساتہ مذاق کرتا ہے۔

کیونکہ توفیق کی دعا کے علاوہ ایک اور بنیاد بہی ہے کی جسے سعی و کوشش کہتے ہیں ،اس بناء پر عالی مقاصد اور خدا پسندانہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے توفیق کی دعا کے علاوہ کوشش اور جستجو بہی کریں، جب آپ دعا کے بعد کوشش بہی کریں گے تو خدا کی توفیق آپ کے لئے شامل حال ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۳۵6

۲۱۵

4۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

پروردگار کی بے شمار نعمتوں کے بارے میں تفکر کرنا توفیق حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔خدا کی مخلوقات میں تفکر سے آپ خدا کی توفیقات کو جلب کرسکتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''مَن تَفَکَّر فی آلائ اللّه وفّقَ '' (1) جو خدا کی نعمتوں میں تفکر کرے ،وہ کامیاب ہوگیا۔

کیونکہ انسان اس ذریعہ سے اپنے دل میں خدا کی محبت پیدا کرتا ہے۔جب دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجائے تو وہ خدا کی طرف جذب ہوجاتا ہے  اور خدا کی طرف مجذوب ہونے کے ثمرات میں سے ایک ہے۔اسی وجہ سے امیرالمؤمنین(ع) اپنے دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:''التَّوفیق من جَذَبات الرَّب '' (2) توفیق خداوند تعالیٰ کے جذبات میں سے ہے۔

مذکورہ بیان کے رو سے انسان خدا کی بے شمار نعمتوں میں تفکر کے ذریعہ توفیقات کو اپنی طرف جذب کرکے درگاہ الہٰی کے مقربین سے مخصوص جذبہ ربّانی سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔البتہ اس امر کی جانب متوجہ رہیں کہ اہلبیت اطہار کا وجود مبارک نہ صرف خدا کی مہم ترین نعمت ہے ۔بلکہ ہم پرنازل ہونے والی ہر نعمت ان ہی مقدس ہستیوں کے طفیل ہے،یہ بزرگ ہستیاں وجہ تخلیق کائنات ہیں،اسی بناء پر اہلبیت عصمت و طہارت بالخصوص اس خاندان کی آخری کڑی حضرت امام زمان کے فضائل و مناقب میں تفکر و تامّل کے ذریعہ اپنی توفیقات میں اضافہ کریں۔اس صورت میں جذبہ رحمانی شامل حال ہوگا، اس صراط مستقیم پر عمل پیرا رہنے اور ان ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے سے آپ بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ ص۳۰۸

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۱۴۴

۲۱۶

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد اور عالی معنوی اہدا ف تک پہنچنے کے لئے ارادہ و تصمیم کے علاوہ توفیق کی قوت سے بہی بہرہ مند ہوں،توفیق راہنما کی حیثیت رکہتی ہے اسی وجہ سے اگرچہ یہ کامیابی کی علت تامہ نہیں ہے لیکن اس کے متحقق ہونے سے مؤثر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آپ کی ذمہ داری ہے کہ توفیق کے حصول کے لئے دعا کریں اور پہر توفیقحاصل ہونے پر اکتفاء نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ یہ حاصل ہونے والی توفیق ضائع نہ ہوجائے۔

خدا کی نعمتوں اور بالخصوص وجود اہلبیت اطہارعلیہم  السلام کی عظیم نعمت کے فضائل ومناقب میں تفکر کرنا ، توفیق کے مہم ترین عوامل میں سے ہے ،اپنی توفیقات میں اضافہ کے لئے حضرت بقیةاللہ (ارواحنا فداہ) کی عظمت پر تفکر کریں اور امام عصر کی غیبی امداد کو اپنے ذہن میں پروان چڑہائیں اس سے آپ کی توفیقات میں اضافہ ہوگا ،ضعف، سستی و کاہلی اور گناہوں کے ارتکاب سے فراہم ہونے والی توفیقات کو ضائع نہ ہونے دیں۔

راہ  جستن  ز تو ہدایت از او        جہد کردن زتو عنایت ا ز او

جہد بر  تو  است  و  بر خدا  توفیق     زآن کہ  توفیق  و جہد ہست رفیق

یعنی تم کسی راہ کا انتخاب کرو اور وہ تمہاری ہدایت کرے گا۔تم کوشش کرو ،خدا عنایت کرے گا۔ جدوجہد کرنا تمہاری ذمہ داری ہے  جب تم کوشش کرو گے تو خدا تمہیں توفیق عطا فرمائے گا۔کیونکہ توفیق اور کوشش ہمیشہ سے دوست ہیں۔

۲۱۷

تیرہواں باب

یقین

حضرت امیر المو منین علی علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' باالیَقین تد رَک غَایَة القصویٰ ' 'یقین کے ذریعہ مقصد کی انتہا حاصل ہوتی ہے ۔    یقین کی اہمیت    یقین کے آثار

   1 ۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے

    مجلس مباہلہ میں حاضری

    ۲۔ یقین اعمال کی اہمیت میں اضافہ کا ذریعہ

   3 ۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے

    یقین کو متزلزل کرنے والے امور

   1 ۔ شک و شبہ

   2 ۔ گناہ

    یقین کہودینا

    تحصیل یقین کے ذرائع

   1 ۔ کسب معارف

   2 ۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز

   3 ۔ تہذیب و اصلاح نفس

    نتیجۂ بحث

۲۱۸

یقین کی اہمیت

یقین با عظمت عالم غیب کی طرف جانے کا آسان اور سیدہا راستہ ہے۔ یقین عالم ملکوت تک پہنچنے اور نا مرئی دنیا سے ارتباط کے لئے صراط مستقیم ہے۔ یقین تہذیب یافتہ اشخاص اور بزرگان کی اہم ترین صفات میں سے ہے، یقین اہلبیت اطہار کے اصحاب اور اللہ کے خاص بندوں کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔یقین ،انسان میں قوی ترین روحانی قوّت کو ایجاد کرتا ہے، یقین خاندان وحی سے ارتباط کا وسیلہ ہے، دل میں یقین کا وجود معنوی پیوند کے موانع کو برطرف کرتا ہے اور اہلبیت کے تقرب اور ان تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔یقین کی افزائش سے آپ اپنے دل کو ملائکہ کی قیامگاہ قرار دے کر اسے شیاطین کے شر اور وسوسوں سے نجات دے سکتے ہیں۔شیطان کے شر سے رہائی پانے کے بعد آپ کو بہت سے معنوی فیض حاصل ہوںگے۔اس صورت میں آپ کا دل نورانیت سے سرشار ہوجائیگا۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ (عج)  کے ظہور کے دن تمام لوگوں کے دل و جان میں یقین پیدا ہوجائیگا ، کیونکہ اس دن جب تاریخ کی قدیم ترین  عبات گاہ (خانہ کعبہ) سے حضرت قائم آل محمد (عج)  کی حیات بخش صدا لوگوں کی سماعتوں تک پہنچے گی توابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دلوںمیں خوف طاری ہوجائے گا ،حضرت بقیةاللہ اعظم  کے ظہور سے سب شیاطین ہلاک ہوجائیں گے۔ اس وقت لوگوں کے دل وسوسہ سے نجات پاجائیں گے اور ان کے دل و جان پر آرام و اطمینان کی حاکمیت ہوگی۔اس دن لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان میں اضافہ ہوگا۔اس دن یقین پیدا کرنے والے سب امور فراہم ہوجائیں  گے اور یقین کے ذریعہ سب کے باطن کی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ ظہور کے وقت سب اہل یقین بن جائیں گے، ہم مقدمہ کے طور پر کچہ مطالب ذکر کرتے ہیں:  خدا وند متعال قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بارے میں فرماتا ہے:

۲۱۹

'' وَ کَذٰلکَ نری َابرَاهیمَ مَلَکوت السمٰوات وَالاَرض وَ لیَکون من المؤمنین''(1)

او ر اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمان اور زمین کے اختیارات دکہاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

صفوان کہتا ہے کہ میں نے امام رضا(ع)  سے پوچہا کہ خدا نے حضرت ابراہیم  (ع) کے بارے فرمایاہے:

'' اَوَ لَم نؤمن قَال بلیٰ وَ لٰکن لیَطمَئنَّ قَلبی '' (2)

کیا ابراہیم کو یقین نہیں تہا اور کیا ان کے دل میں شک و شبہہ موجود تہا؟

'' قَالَ لَا،کَانَ عَلیٰ یَقینٍ وَ لٰکن اَرادَ منَ اللّٰه الزّیَا دَةَ فی یَقینه ''(3)

حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا : نہیں ، انہیں یقین تہا لیکن اس نے خدا سے چاہا کہ اس کا یقین زیادہ ہوجائے۔

اس بناء پر حضرت ابراہیم  نے ملکوت آسمانی اور زمین کو دیکہا اور ان کے یقین میں اضافہ ہوا ملکوت آسمان و زمین کو دیکہنے کی وجہ سے ان کا یقین زیادہ ہوا ، پہر ان میں دوسروں  کے دلوں میں بہی یقین ایجاد کرنے کی قدرت پیدا ہو گئی۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کی حالت اور امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت پر توجہ کریں کہ آنحضرت صاحب ملکوت ہیں وہ جلوہ ولایت و ملکوتی سے زمین و آسمان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کیا اس زمان کے لوگ یقین یقین حاصل نہیں کرسکتے؟پس عصر غیبت میں بہی ہر کوئی یقین حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔یقین حاصل کرنے سے انسان شیطان پر حاکم بنسکتا ہے اور معنویت کے صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ  آیت انعام:75

[2]۔ سورہ بقرہ  آیت:260

[3]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۱۷6

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293