فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون20%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104292 / ڈاؤنلوڈ: 4814
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پیغمبر اسلام(ص) نے جناب خدیجہ کے بعد سورہ سے شادی کرلی_ اس کے علاوہ اور کئی عورتیں تھیں_ جو تمام کی تمام جناب فاطمہ (ع) سے اظہار محبت کیا کرتی تھیں، لیکن پھر بھی ایک یتیم بچے کے لئے بہت سخت گزرتا ہے جب وہ اپنی ماں کی جگہ کو خالی دیکھے اور اس کی جگہ کسی اور عورت کو رہتا دیکھے_ سوکن خواہ کتنی ہی مہربان اور اچھی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ محبت اور خالص شفقت جو ماں کی طرف سے ہوتی ہے وہ اس بچے کو نہیں دے سکتی_ صرف ماں ہی ہے کہ جو ناز و نعمت، شفقت و محبت سے بچے کے دل کو تسکین دے سکتی ہے_

جناب فاطمہ (ع) کو جس شدت سے محرومی کا احساس ہو رہا تھا اسی شدت سے پیغمبر(ص) بھی آپ سے اظہار محبت فرماتے تھے، کیونکہ پیغمبر خدا(ص) جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کو ماں کی کمی کا احساس ہے اور اس کمی کو پورا ہوتا چاہیئے، اس وجہ سے اور دوسری کئی وجوہ کی بناء پر روایت میں وارد ہوا کہ پیغمبر(ص) جب تک اپنی بیٹی کو نہ چوم لیتے رات کو نہیں سوتے تھے_(۱)

یہ تھوڑے سے آٹھ سال کے واقعات ہیں جو پیغمبر(ص) کی بیٹی جناب فاطمہ (ع) پر مکہ معظمہ میں وارد ہوئے ہیں_

واضح رہے اگر چہ اس قسم کے واقعات اور حوادث جو کسی بچے کی روح پر وارد ہوں تو اس کے اعصاب کو مختل کردیتے ہیں اور اس کی فکر صلاحیت اور جسمی قوت کو کم کردینے کے لئے کافی ہوا کرتے ہیں لیکن اس قسم کا حکم ہر ایک انسان کے لئے کرنا صحیح نہیں ہے_

کیونکہ یہی ناگوار واقعات اور دائمی گرفتاریاں اور متصل مبارزہ ممتاز اور شائستہ انسانوں کی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اس کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج۲_ ص ۹۳_

۴۱

صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے مشکلات کے مقابلے کے لئے ثابت قدم بنا دیتے ہیں_ جب تک پتھر پر غیر معمولی حرارت معدن میں وارد نہ ہو وہ خالص اور بیش بہا قیمت سونا بن کر نہیں نکلتا_

جی ہاں جناب زہرہ(ع) کی زندگی کے دوران خطرناک حوادث اور بحرانی اوضاع نے آنجناب کی روح کو نہ صرف ضعیف نہیں کیا بلکہ الٹا اپنے وجود کے گوہر کو صیقل کر کے تابناک و درخشان بنادیا اور آپ کو ہر قسم کے حالات سے مبارزہ کرنے کے لئے آمادہ اور طاقتور بنادیا تھا_

فاطمہ (ع) مدینہ کی طرف

پیغمبر خدا(ص) بعثت کے تیرھویں سال جان کے خطرے کی وجہ سے مجبور ہوگئے کہ مکہ کو چھوڑ د یں اور مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں_ چنانچہ آپ نے جاتے وقت حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) کو خداحافظ کہا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے میری دختر فاطمہ (ع) اور اپنی ماں فاطمہ بنت اسد اور چچا حمزہ کی بیٹی فاطمہ کو اور دوسری مستورات کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جلد از جلد چلے آنا، میں تمہارا انتظار کروں گا آپ(ص) نے یہ فرمایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_

حضرت علی (ع) بھی پیغمبر کے دستور کے مطابق جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو سوار کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ راستہ میں ابو واقد اونٹوں کو چلانے والے_ اونٹوں کو تیزی کے ساتھ چلا رہے تھے_ حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ نرمی کرو اور اونٹوں کو آہستہ چلاؤ، کیونکہ عورتیں کمزور ہوا کرتی ہیں جو سختی کو برداشت نہیں کرسکتیں، ابو واقد نے عرض کی کہ میں دشمنوں سے ڈرتا ہوں کوئی ہمارا تعاقب نہ کر رہا ہو جو ہم تک آپہنچے حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا پیغمبر(ص) نے مجھ

۴۲

فرمایا کے تجھے دشمن کی طرف سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی_

جب آپ ''ضجنان'' کے قریب پہنچے تو آٹھ سوار پیچھے سے آئے حضرت علی علیہ السلام نے عورتوں کو محفوظ اور امن کی جگہ کردیا اور تلوار لے کر ان دشمنوں پر حملہ کردیا اور ان کو پراگندہ و متفق کردیا پھر عورتوں کو سوار کیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ پیغمبر اسلام(ص) جب ''قبا'' پہنچے تو وہاں بارہ دن تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو لے کر آنحضرت کی خدمت با برکت سورہ سے شادی کی اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے گھر لے گئے اس کے بعد آپ نے جناب ام سلمہ سے نکاح کیا اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے سپرد کیا تا کہ آپ ان کی سرپرستی اور نگاہ داری کریں جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو میرے سپرد کیا تا کہ میں ان کی تربیت میں کوشش کروں، میں بھی آپ کی تربیت اور راہنمائی میں کوتاہی نہیں کرتی تھی لیکن خدا کی قسم آپ مجھ سے زیادہ با ادب اور سمجھدار تھیں_(۲)

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج ۱_ ص۱۷۵، ۱۸۳_

۲) دلائل الامامہ_ ص ۱۱_

۴۳

حصّہ دوم

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی

۴۴

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر خدا(ص) کی لڑکی اور اپنے زمانے کی ممتاز خواتین سے تھیں قریش کے اصل اور شریف خاندان سے آپ کے والدین تھے_ جمال ظاہری اور روحانی کمالات اور اخلاق آپ نے اپنے ماں باپ سے ورثہ میں پایا تھا، آپ انسانی کمالات کے اعلی ترین کمالات سے مزین تھیں آپ کے والد کی شخصیت دن بدن لوگوں کی نگاہوں میں بلند ہو رہی تھی آپ کی قدرت اور عظمت بڑھ رہی تھی اس لئے آپ کی دختر نیک اختر کی ذات بزرگان قریش اور باعظمت شخصیات اور ثروت مند حضرات کی نگاہوں میں مورد توجہ قرار پاچکی تھی_ تاریخ میں ہے کہ اکثر اوقات بزرگان آپ کی خواستگاری کرتے رہتے تھے لیکن پیغمبر اسلام(ص) بالکل پسند نہیں فرماتے تھے، آنحضرت ان لوگوں سے اس طرح پیش آتے تھے کہ انہیں معلوم ہوجاتا تھا کہ پیغمبر اسلام نے ناراض ہیں_(۱)

جناب رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کو علی (ع) کے لئے مخصوص کردیا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے_(۲)

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج ۱_ ص ۲۵۳_

۲) کشف الغمہ_ ج۱_ ص ۳۵۴_

۴۵

پیغمبر اسلام(ص) خداوند عالم کی طرف سے مامور تھے کہ نور کا عقد نور سے کریں _(۱)

لکھا ہے کہ جناب ابوبکر بھی خواستگاروں میں سے ایک تھے، ایک دن وہ اسی غرض سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وصلت کروں، کیا ممکن ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد آپ مجھ سے کردیں؟ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) ابھی کمسن ہے اور اس کے لئے شوہر کی تعیین خدا کے ہاتھ میں ہے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں_ جناب ابوبکر مایوس ہوکر واپس لوٹے راستے میں ان کی ملاقات جناب عمر سے ہوگئی تو اپنے واقعہ کو ان سے بیان کیا جناب عمر نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے تمہارے مطالبے کو رد کردیا ہے_ اور آپ (ص) نہیں چاہتے تھے کہ اپنی دختر تجھے دیں_

جناب عمر بھی ایک دن جناب فاطمہ (ع) کی خواستگاری کی غرض سے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعیان بیان کیا_ پیغمبر خدا(ص) نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ فاطمہ (ع) کمسن ہے اور اس کے شوہر کا معین کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، کئی دفعہ ان دونوں صاحبان نے خواستگاری کی درخواست کی جو قبول نہیں کی گئی_

عبدالرحمن بن عوف او رجناب عثمان بن عفان جو دونوں بہت بڑے سرمایہ دار تھے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس خواستگاری کے لئے حاضر ہوئے، عبدالرحمن نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) اگر فاطمہ (ع) کی شادی مجھ سے کردیں تو میں سو سیاہ اونٹ آبی چشم کہ جن پر مصری کتان کے کپڑوں سے بارلادا گیا ہو اور دس ہزار دینار بھی حق مہر دینے کے لئے حاضر ہوں جناب عثمان نے عرض کیا کہ میں بھی حاضر ہوں کہ اتنا ہی مہر ادا کروں اور مجھے عبدالرحمن پر ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ میں اس سے پہلے ایمان لایا ہوں_

پیغمبر اسلام(ص) ان کی گفتگو سے سخت غضبناک ہوئے اور انہیں یہ سمجھانے کے لئے

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۱۹_

۴۶

کہ میںمال سے محبت نہیں رکھتا آپ نے ایک مٹھی سنگریزوں کی بھرلی اور عبدالرحمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا کہ تم خیال کرتے ہو کہ میں مال کا پرستار ہوں اور اپنی ثروت و دولت سے مجھ پر فخر و مباہات کرنا چاہتے ہو کو مال و دولت کے دباؤ سے میں فاطمہ (ع) کا عقد تجھ سے کردوں گا_(۱)

حضرت علی (ع) کی پیشکش

اصحاب پیغمبر(ص) نے اجمالاً محسوس کرلیا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) کا دل چاہتا ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد علی (ع) سے کردیں لیکن حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش نہیں ہو رہی تھی ایک دن جناب عمر اور ابوبکر اور سعدبن معاذ و ایک گروہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور مختلف موضوعات پر بحث کر رہے تھے اسی دوران جناب فاطمہ (ع) کا ذکر بھی آگیا، ابوبکر نے کہا کہ کافی عرصہ سے عرب کے اعیان اور اشراف فاطمہ (ع) کی خواستگاری کر رہے ہیں لیکن پیغمبر (ص) نے کسی بھی درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے_

ابھی تک علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے فاطمہ (ع) کی خواستگاری نہیں کی گئی میں گمان کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام کی طرف سے اس اقدام نے کرنے کی وجہ ان کی تہی دست ہونا ہے میرے سامنے یہ مطلب واضح ہے کہ خدا اور پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) کو حضرت علی (ع) کے لئے معین کر رکھا ہے_

اس کے بعد ابوبکر نے جناب عمر اور سعد سے کہا اگر تم آمادہ ہو تو ہم مل کر علی (ع) کے پاس چلیں اور ان کے سامنے اس موضوع کو پیش کریں اور اگر وہ شادی کرنے کی

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۳۴۵_ تذکرة الخواص_ ص۳۰۶_

۴۷

طرف مائل ہوں اور تہی دست ہونے کی بنیاد پر وہ شادی نہ کر رہے ہوں تو ہم ان کی مدد کریں سعد بن معاذ نے اس پیشکش کو بسر و چشم قبول کیا اور ابوبکر کو اس کام میں تشویق دلائی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ جناب عمر او رابوبکر اور سعد بن معاذ اسی غرض سے مسجد سے باہر آئے اور حضرات علی علیہ السلام کی جستجو میں چلے گئے لیکن آپ کو انہوں نے گھر پہ نہ پایا اور معلوم ہوا کہ آپ ایک انصاری کے باغ میں اونٹ کے ذریعے ڈول کھینچ کر خرمے کے درختوں کو پانی دے رہے ہیں یہ لوگ اس طرف گئے_ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور میرے پاس کس غرض سے آئے ہو؟ ابوبکر نے کہا اے علی (ع) تم کمالات کے لحاظ سے ہر ایک سے بالاتر ہو ہم سب آپ کے مقا اور وہ علاقہ جو رسول خدا(ص) کو تم سے ہے اس سے آگاہ ہیں، بزرگان اور اشراف قریش حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگاری کے لئے جاچکے ہیں، لیکن تمام لوگوں کی باتوں کو پیغمبر اکرم(ص) نے رد فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ہم گمان کرتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو آپ کے لئے مخصوص کیا ہے دوسرا اور کوئی بھی شخص اس سعادت پر افتخار کی صلاحیت نہیں رکھتا ہیں یہ خبر نہیں ہوسکی کہ آپ اس اقدام میں کیوں کوتاہی کر رہے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابوبکر کی یہ گفتگو سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے اور فرمایا اے ابوبکر تم نے میرے احساسات اور اندرونی خواہشات کو ابھارا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس سے میں غافل تھا_ خدا کی قسم تمام دنیا حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگار ہے اور میں بھی علاقہ مند ہوں جو چیز مجھے اس اقدام سے روکے ہوئے ہے وہ ہے فقط میرا خالی ہاتھ ہونا_ ابوبکر نے کہا یا علی (ع) آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) کی نگاہ میں دنیا اور مال دنیا کی کوئی قیمت نہیں ہے میری رائے ہے کہ جتنی جلدی

۴۸

ہوسکے آپ اس کام میں اقدام کریں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خواستگاری کی درخواست دیں_(۱)

اندرونی جذبہ بیدار ہوتا ہے

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے گھر ہی پلے اور جوان ہوئے تھے، آپ(ص) جناب فاطمہ (ع) کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور آپ کے اخلاق اور نفسیات سے پوری طرح آگاہ تھے، دونوں پیغمبر خدا(ص) اور جناب خدیجہ کے تربیت یافتہ تھے اور ایک ہی گھر میں جوان ہوئے تھے_(۲)

حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (ع) جیسی عورت اور نہیں مل سکے گی آپ تمام کمالات اور فضائل سے آراستہ ہیں اور آپ انہیں تہہ دل سے چاہتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ہمیشہ مناسب وقت ہاتھ نہیں آیا کرتا لیکن اسلام کی بحرانی کیفیت اور مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی نے علی کو اس دلی خواہش سے روک رکھا تھا اور آپ میں سوائے ازدواج کے تمام افکار موجود تھے_

حضرت علی (ع) نے ابوبکر کی پیش کش پر تھوڑا سا غور کیا اور اس معاملے کے تمام اطر اف اور جوانب پر غور کیا ایک طرف آپ کا خالی ہاتھ ہونا اور اپنی اور تمام مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور عمومی گرفتاری دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف یہ بھی جان چکے تھے کہ آپ کے ازدواج کا وقت آپہنچا ہے کیونکہ آپ کی عمر تقریباً اکیس سال یا اس سے زیادہ ہوچکی تھی_(۲)

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۱۸۰_

۳) ذخائر عقبی _ ص ۲۶_

۴۹

انہیں اس عمر میں ازدواج کرنا ہی چاہیئےور فاطمہ (ع) جیسا اور رشتہ بھی نہیں مل سکے گا اگر یہ سنہرا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا تدارک نہیں کیا جاسکے گا_

علی (ع) خواستگاری کے لئے جاتے ہیں

جناب ابوبکر کی پیشکش نے حضرت علی علیہ السلام کی روح کو اس طرح بیدار کردیا تھا کہ آپ کا اندرونی جذبہ محبت شعلہ ور ہو اور آپ سے پھر اس کام کو آخر تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا کہ جس میں آپ مشغول تھے، آپ نے اونٹ کو اس کام سے علیحدہ کیا اور گھر واپس آگئے آپ نے غسل کیا اور ایک صاف ستھری عبا پہنی اور جوتے پہن کر جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے_

پیغمبر اکرم(ص) اس وقت جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے_ حضرت علی علیہ السلام جناب ام سلمہ کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پیغمبر اکرم(ص) نے جناب ام سلمہ سے فرمایا کہ دروازہ کھولو دروازہ کھٹکھٹا نے والا وہ شخص ہے کہ جس کو خدا اور رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور اس کے رسول (ص) کو دوست رکھتا ہے_ ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ یہ کون ہے کہ جسے آپ نے بغیر دیکھے ہوئے اس قسم کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا ہے؟

آپ(ص) نے فرمای اے امّ سلمہ چپ رہو یہ ایک بہادر اور شجاع انسان ہے جو میرا چچازاد بھائی ہے اور سب لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے جناب ام سلمہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھول دیا، حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور پیغمبر خدا(ص) کے سامنے بیٹھ گئے اور شرم کی وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے کو ظاہر نہ کرسکے، تھوڑی دیر تک دونوں چپ رہے اور آخر الامر پیغمبر اسلام(ص) نے

۵۰

اس سکوت کو توڑا اور ___ فرمایا یا علی گو یا کسی کام کے لئے میرے پاس آئے ہو کہ جس کے اظہار کرنے سے شرم کر رہے ہو؟ بغیر کسی ہچکچا ہٹ کے اپنی حاجت کو بیان کرو اور مطمئن ہو جاؤ کہ تمہاری خواہش قبول کی جائے گی_

حضرت علی (ع) نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے گھر میں جو ان ہوا ہوں اور آپ کے لطف و کرم سے ہی مستفید رہا ہوں آپ نے میری تربیت میں ماں اور باپ سے بھی زیادہ کوشش فرمائی ہے اور آپ کے وجود مبارک کی برکت سے میں نے ہدایت پائی ہے یا رسول اللہ خدا کی قسم میری دنیا و آخرت کی پونجی آپ ہیں اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ اپنے لئے کسی رفیقہ حیات کا انتخاب کروں اور خانوادگی زندگی کو تشکیل دوں تا کہ اس سے مانوس رہوں اور اپنی تکالیف کو اس کی وجہ سے کم کرسکوں، اگر آپ مصلحت دیکھیں تو اپنی دختر جناب فاطمہ (ع) کو میرے عقد میں دے دیں کہ جس سے مجھے ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہوگی_

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قسم کی پیشکش کے منتظر تھے آپ کا چہرہ انور خوشی اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمایا کہ صبر کرو میں فاطمہ (ع) سے اس کی اجازت لے لوں_ پیغمبر اسلام(ص) جناب فاطمہ(ص) کے پاس تشریف لے گئے او فرمایا تم کو بہتر جانتی ہو وہ خواستگای کے لئے آپے ہیں آیا تم اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا ان سے عقد کردوں؟ جناب فاطمہ (ع) شرم کی وجہ سے ساکت رہیں اور کچھ نو بولیں_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنجناب کے سکوت کو رضایت کی علامت قرار دیا _(۱)

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۲۷_ ذخائر العقبی _ ص ۲۹_

۵۱

موافقت

پیغمبر خدا(ص) اجازت لینے کے بعد حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور مسکرات ہوئے فرمایا یا علی (ع) شادی کے لئے تمہارے پاس کچھ ہے؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا یا رسول اللہ (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ میری حالت سے پوری طرح آگاہ ہیں میری تمام دولت ایک تلوار اور ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے آپ نے فرمایا کہ تم ایک جنگجو سپاہی اور جہاد کرنے والے ہو بغیر تلوار کے خدا کی راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تلوار تمہاری پہلی کھینچ کر اپنی اور اپنے گھر کی اقتصادی اور مالی حالت سنوار سکو اور مسافرت میں اس پر سامان لاد سکو صرف ایک چیز ہے کہ جس سے صرف نظر کرسکتے ہو اور وہ ہے تمہاری زرہ میں بھی تم پر سختی نہیں کرتا اور اسی زرہ پر اکتفا کرتا ہوں، یا علی اب جب کہ معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کیا چاہتے ہو تمہیں ایک بشارت دوں اور ایک راز سے آگاہ کروں؟

حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ بر قربان ہوں آپ ہمیشہ خوش زبان اور نیک خواہ رہے ہیں_ آپ نے فرمایا کہ قبل اس کے کہ تم میرے پاس آؤ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) اللہ تعالی نے تجھے بندوں سے منتخب کیا ہے اور رسالت کے لئے چنا ہے_ علی (ع) کو منتخب کیا اور انہیں تمہارا بھائی اور وزیر قرار دیا ہے تمہیں اپنی دختر کا ا ن سے نکاح کردینا چاہیئے ان کے ازدواج کی محفل عالم بالا میں فرشتوں کے حضور ترتیب دی جاچکی ہے خداوند عالم دو پاکیزہ نجیب طیب و طاہر اور نیک فرزند انہیں عطا کرے گا_ اے علی (ع) ابھی جبرئیل واپس نہیں گئے تھے کہ تم نے میرے گھر کا دروازہ آن کھٹکھٹایا ہے_

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۷_

۵۲

خطبہ عقد

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی (ع) تم جلدی سے مسجد میں جاوں میں بھی تمہارے پیچھے آرہا ہوں تا کہ تمام لوگوں کے سامنے عقد کی تقریب اور خطبہ عقد بجالاؤ، علی (ع) خوش اور مسرورمسجد روانہ ہوگئے_ جناب ابوبکر او رعمر سے راستے میں ملاقات ہوگئی تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا اور کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنی دختر مجھ سے تزویج کردی ہے اور ابھی میرے پیچھے آرہے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کے مراسم انجام دیں_

پیغمبر خدا(ص) جب کہ آپ کا چہرہ خوشی اور شادمانی سے چمک رہا تھا مسجد میں تشریف لے گئے او رخدا کی حمد و ثناء کے بعدفرمایا: اے لوگو آگاہ رہو کہ جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے پیغام لائے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ (ع) کے ازدواج کے مراسم عالم بالا میں فرشتوں کے حضور منعقد کئے جاچکے ہیں اور حکم دیا ہے کہ زمین پر بھی یہ مراسم انجام دیئے جائیں میں تم کو گواہ قرار دیتا ہوں، آپ اس کے بعد بیٹھ گئے اور حضرت علی (ع) سے فرمایا اٹھو اور خطبہ پڑھو_

حضرت علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں خداوند عالم کا اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی گواہی دیتا ہوں جو اس ذات کو پسند ہو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور ایسا درود ہو جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جو آپ کے مقام اور درجہ کو بالاتر کردے_ لوگو میرے اور فاطمہ (ع) کے ازدواج سے اللہ راضی ہے اور اس کا حکم دیا ہے لوگو رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کا عقد مجھ سے کردیا ہے اور میری زرہ کو بطور مہر قبول فرمایا ہے آپ ان سے پوچھ لیں اور گواہ ہوجائیں_

۵۳

مسلمانوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ(ص) آپ نے فاطمہ (ع) کا عقد علی علیہ السلام سے کردیا ہے؟ رسول خدا(ص) نے جواب میں فرمایا ہاں_ تمام حاضرین نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ خدا اس ازدواج کو تمہارے لئے مبارک قرار دے اور تم دونوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کردے_

جلسہ عقد ختم ہوا تو پیغمبر (ص) گھر واپس لوٹ آئے اور عورتوں کو حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے لئے خوشی اور مسرت کا جشن برپا کریں(۱) عقد کے مراسم پہلی یا چھٹی ذی الحجہ(۲) دوسری یا تیسری ہجری(۳) کو انجام پایا_

داماد کا انتخاب

اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اگر کوئی جوان تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آئے تو تم اس کی تمام چیزوں سے پہلے دینی اور اخلاقی حالت کا جائزہ لو با ایمان اور پاک دامن اور خوش اخلاق ہو تو اس سے رشتہ کردو_ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ ازدواج کے لئے مال اور ثروت کو معیار نہیں بنانا چاہیئے_ اسلام کہتا ہے کہ مال و ثروت ہی انسان کو صرف خوش بخت نہیں بناتا، داماد کے فضائل اور کمالات نفسانی اور دینی جذبہ مال اور ثروت پر برتری رکھتا ہے، کیوں کہ باایمان اور خوش رفتار اگر چہ فقیر اور تہی دست

____________________

۱) اس قسمت کے مطالب اور مضامین کو ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے، کشف الغمہ_ ج۱ ص ۲۵۳ و ۷ ۲۵_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۲_ ذخائر العقبی _ تذکرة الخواص_ دلائل الامامہ مناقب خوارزمی ص ۲۴۷_ بحار الانوار_ ج ۴۳ ص ۹۲و ۱۴۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب ج ۳ ص ۳۴۹_

۳) بحار الانوار_ ج ۴۳ _ ص ۶ و ۷_

۵۴

ہی کیوں نہ ہو وہ اس عیاش اور ہوسباز اور لاابالی سرمایہ دار سے جو گھر کی آسائشے کے اسباب فراہم کرتا ہے کئی درجہ بہتر ہے_

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے جب کوئی تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آتے تو اگر تمہیں اس کا اخلاق اور دین _ پسند ہو تو اس سے رشتہ کردو اور اس کو منفی جواب نہ دو اور اگر تمہاری شادیوں کا معیار اس کے خلاف ہو تو نہ تمہارے لئے بہت زیادہ مصائب کا موجب ہوگا_(۱)

پیغمبر(ص) نے یہ مطلب صرف لوگوں کو بتلایا ہی نہیں بلکہ خود بھی اس پر عمل کیا_ آپ نے حضرت علی (ع) کے فضائل اور کمالات اور اخلاق کو دیکھ کر انہیں عبدالرحمن اور عثمان جیسے سرمایہ داروں پر ترجیح دی اور ان(ع) کے فقیر اور تہی دست ہونے کے نقض اور عیب شمار نہ کیا_

حضرت زہرا علیہا السلام کا مہر

۱_ ایک زرہ کہ جس کی قیمت چارسو یا چارسو اسی یا پانچ سو درہم تھی_

۲_ یمنی کتان کا ایک جوڑا_

۳_ ایک گوسفند کی کھال رنگی ہوئی _(۲)

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۲۵۱_

۲) وافی کتاب النکاح ص ۱۵_

۵۵

عملی سبق

اسلام زیادہ مہر کو ملت کے لئے مصلحت نہیں دیکھتا اور سفارش کرتا ہے کہ اگر داماد کے دین اور اخلاق کو تم نے پسند کرلیا ہے تو پھر مہر میں سختی سے کام نہ لو اور تھوڑے مہر پر قناعت کرلو_

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو خوبصورت اور کم مہر والی ہوں_(۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کی برائی اس میں ہے کہ اس کا مہر بہت زیادہ ہو_(۲)

اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ زیادہ مہر زندگی کو لوگوں پر سخت کردیتا ہے اور بہت زیادہ مشکلات کا ملت کے لئے موجب ہوتا ہے_ مہر میں آسانی کر کے جواوں کو ازدواج زندگی کی طرف مائل کرنا چاہیئےا کہ ہزاروں اجتماعی مفاسد اور روحی امراض سے روکا جاسکے_ زیادہ مہر داماد کی زندگی کو ابتدا ہی میں متزلزل کردیتا ہے اور میاں بیوی کی محبت پر بھی بر اثر ڈالتا ہے (میاں بیوی کی محبت میں خلوص پیدا نہیں ہونے دیتا) جوانوں کو شادی کی طرف سے بے رغبت کردیتا ہے_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں کو خود عمل کر کے سمجھا رہے ہیں کہ زیادہ مہر اسلامی معاشرے کے لئے واقعاً مصلحت نہیں رکھتا اسی لئے تو آپ نے اپنی عزیزترین بیٹی کا معمول مہر پر جیسا کہ بیان کیا گیا حضرت علی (ع) سے نکاح کردیا یہاں تک کہ کوئی چیز بطور قرض بھی علی (ع) کے ذمّہ نہیں سونپی_

____________________

۱) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۲) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۵۶

حضرت زہرا علیہا السلام کا جہیز

پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا ابھی اٹھو ارو اس زرہ کو جو تم نے حضرت زہرا (ع) کے لئے مہر قرار دی ہے، بازار میں جا کر فروخت کردو اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ تا کہ میں تمہارے لئے جہیز اور گھر کے اسباب مہیا کروں_

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے زرہ کو بازار میں لے جا کر فروخت کردیا، مختلف روایات میں اس کی قیمت چار سو سے لے کر پانچ سو درہم تک بتائی گئی ہے_ واضح رہے کہ بعض روایات کی بنا پر جناب عثمان نے آپ کی زرہ خریدی اور بعد میں حضرت علی (ع) کو ہدیہ کردی_(۱)

حضرت علی علیہ السلام زرہ کی قیمت لے کر پیغمبر خدا(ص) کی خدمت میں پیش کی، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب ابوبکر، سلمان فارسی اور بلال کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس مقدار سے جناب فاطمہ (ع) کے لوازمات اور اسباب زندگی خرید کر لاؤ اور اس سے کچھ درہم اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو او رجو درہم باقی بچے وہ جناب ام سلمہ کے پاس رکھ دیئے گئے_

ابوبکر کہتے ہیں کہ جب میں نے درہم کو گنا تو سترسٹھ درہم تھے اور اس سے میں نے یہ اسباب اور لوازمات خریدے_

۱_ ایک سفید قمیص_

۲_ ایک بڑی چادر سر ڈھانپنے کے لئے (یعنی برقعہ)_

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۳۰_

۵۷

۳_ ایک سیاہ خیبری حلہ_

۴_ ایک چار پائی جو کھجور کے لیف سے نبی ہوئی تھی_

۵_ دو عدد توشک ، گدے کہ ایک میں گوسفند کی پشم بھری گئی اور دوسری میں کجھور کے پتے بھرے گئے_

۶_ چار عدد تکیہ جو گوسفند کے چمڑے سے بنائے گئے تھے کہ جن کو اذخر نامی خوشبودار گھاس سے بھرا گیا تھا_

۷_ ایک عدد چٹائی ہجری نامی_

۸_ ایک عدد دستی چکی_

۹_ ایک تانبہ کا پیالہ_ _ پانی بھر نے کے لئے ایک عدد چمڑے کی مشک_ _ کپڑا دھونے کے لئے ایک عدد تھال_ _ دودھ کے لئے ایک عدد پیالہ_ _ پانی پینے کا ایک عدد برتن _ _ ایک پشمی پردہ_ _ ایک عدد لوٹا_ _ ایک عدد کٹی ا برتن جسے صراحی (سبو) کہا جاتا ہے_ _ فرش کرتے کے لئے ایک عدد چمڑا_ _ ایک عدد کوزے_ _ ایک عدد عبا_(۱)

جب جناب زہرا (ع) کا جہیز جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لے

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب _ ج ۲ ص ۳۵۳ و کشف الغمہ_ ج ۱ ص ۳۵۹_

۵۸

آئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا اے خدا اس شادی کو مبارک کر کہ جس کے اکثر برتن مٹی کے ہیں_

مسلمانوں کے لئے درس

جناب زہرا علیہا السلام اور حضرت علی علیہ السلام کی شادی اسلامی نمونہ کا سب سے اہم اور احساس ترین شادی ہوسکتی ہے کیونکہ جناب زہر ا علیہا السلام کے والد جزیزة العرب کی بہت بڑی شخصیت بلکہ جہان اسلام کی اہم شخصیت اور برگزیدہ پیغمبر تھے_لڑکی کی بھی بہترین او رعاقل ترین اور تربیت شدہ اور باکمال تھی اور نبائے بشریت کی چار عورتوں میں سے ایک ہیں اور داماد بھی حسب و نسب کے لحاظ سے عرب کے معزز خاندان سے تھے، علم اور کمال اور شجاعت کے لحاظ سے تمام مردوں پر برتری رکھتے ہیں آپ رسول خدا(ص) کے جانشین اور وزیر اور مشیر ہیں اور لشکر اسلام کے سپہ سالار ہیں، اس قسم کی شادی کو خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہونا چاہیئے تھا لیکن جیسا آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ تقریب بہت سادی سے انجام پذیر ہوئی اسلام کی مثالی خاتون کا جہیز جو مہیا کیا گیا وہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہی مختصر جہیز بھی خود حضرت زہرا علیہا السلام کے حق مہر سے خریدا گیا یوں نہیں کیا گیا کہ حق مہر کو محفوظ کرلیا گیا ہو اور لڑکی کے باپ نے ہزاروں مصائب اور دوسرے اپنی لڑکی کے لئے جہیز اپنی جیب سے مہیا کیا ہو_

پیغمبر خدا(ص) جیسے بھی ہوتا اگر چہ فرض ہی لے کر کیوں نہ ہوتا یوں کرسکتے تھے کہ بہت آبرومندانہ جہیز اس زمانے کے معمول کے مطابق اپنی اکلوتی عزیزترین بیٹی کے لئے مہیا کرتے اور یوں کہتے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں مجھے اپنی شان کا خیال رکھنا ضروری ہے میری بیٹی دنیا کہ بہترین عورتوں میں سے ایک عورت ہے اس کی عظمت اور عزت کا احترام

۵۹

کیا جانا چاہیئے اور اس کی خوشحالی کے اسباب فراہم کرنے چاہئیں میرے داماد کے خدمات او رجہاد کسی پر مخفی نہیں اس کا احترام اور اس کے زحمات کی قد ردانی اس کی آبرو کے لحاظ سے بہترین وسائل اور اسباب مہیا کر کے مجھے کرنی چاہیئے_

لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جہیز میں مقابلہ اور زیادتی کے ضرر اور مفاسد کا معاشرہ میں علم تھا اور آپ کو علم تھا کہ اگر مسلمان اس مصیبت میں گرفتار ہوگئے تو انہیں عمومی فقر اور اقتصادی دیو الیہ اور کثرت طلاق اور جوانوں کا شادی کرنے کا رجحان کم ہوجائے گا اور روز بروز بے زن جوانوں اور بے شوہر لڑکیوں کی زیادتی اور جرائم اور جنایات کی کثرت مختلف قسم کے فحشا اور اعصابی بیماریوں کا وجود میں آنا جیسے مصائب میں گرفتار ہونا پڑے گا اسی لئے اس مثالی شادی کہ جس کے منتظمین اسلام کی پہلی اور دوسری شخصیت تھیں کمال سادگی سے عمل میں لائی گئی، تا کہ یہ ملت اسلامیہ اور مسلمانوں کے زمام داروں کے لئے عمل درس واقع ہو_

حضرت علی علیہ السلام بھی ان کوتاہ فکر جوانوں میں سے نہ تھے کہ جو مال اور دولٹ کے اکٹھے کرنے کے لئے شادی کرتے ہیں کہ اگر جہیز میں کچھ کمی ہو تو ہر روز اپنی بیوی کے لئے درد سر بنے رہتے ہیں اور اسے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور اعتراضات سے ازدواجی زندگی کو متزلزل کردیتے ہیں اور زندگی باصفا اور گرم کو بے محل طفلانہ بہانوں سے انس ا ور محبت کے گھر کو اختیار قید خانے میں تبدیل کردیتے ہیں حضرت علی علیہ السلام ملت اسلامی کے امام و پیشوا تھے اور چاہتے تھے کہ اس قسم کے غلط افکار سے مبارزہ کیا جائے مال اور دولت آپ کی نگاہ میں کچھ قیمت نہ رکھتے تھے_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

آیت قرآن

''( و لنصبرنّ علی ما اذیتمونا و علی الله فلیتوكّل المتوكّلون' ) '

سورہ ابراہیم آیت ۱۴

پیغمبروں اور مومنین نے متکبرین سے یوں کہا کہ ہراس اذیت پر جو تم ہم پر روا رکھتے ہو صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو خدا ہی پر توکل کرنا چاہیئے_

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ متکبرین، اسلام کے آغاز میں مسلمانوں کو کیوں اذیت دیتے تھے؟ اور آج کل متکبرین مسلمانوں کو کس طرح تکلیف پہنچا رہے تھے؟

۲)___ عمار اور ان کے والدین متکبرین کے تازیانوں کے باوجود اللہ کے ذکر کے علاوہ اپنے صبر و استقامت کے متعلق کیا کہا کرتے تھے؟ اور اب ہمارا فریضہ متکبرین جہان کے بارے میں کیا ہے؟

۳)___ جب پیغمبر (ص) یاسر اور سميّہ کے گھرانے کو دیکھتے تھے توان سے کیا سفارش کیا کرتے تھے اور کیا خوشبخری دیتے

۱۴۱

تھے اور پیغمبر کی سفارش پوری امت اسلام کے لئے کیا ہے اس کے متعلق علم حاصل کرنے کے لئے مراجع دین کی طرف رجوع کریں

۴)___ سميّہ کس طرح شہید ہوئیں؟ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کیا کہتی تھیں؟

۵)___ سمیہ جب اپنے شوہر کو شہید ہوتے دیکھ رہی تھیں تو کفّار نے اس سے کیا مطالبہ کیا تھا؟ اور انہوں نے جواب میں کیا کہا مسلمانوں کا جواب ان مشکلات کے مقابل جو آج کل مشرق و مغرب والے امت اسلامی پر وارد کر رہے ہیں کیا ہونا چاہیئے_

۶)___ اسلام کے سبب متکبرین کو کیا نقصان پہنچتا تا ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں؟

۷)___ عمّار کے ماں باپ جیسے مومنین نے کس کی حکومت کو قبول کیا ہے؟ اور ظالم انہیں کس کی حکومت کی طرف بلاتے ہیں؟

۸)___ عمّار نے مكّہ سے کس طرف ہجرت کی ؟ پیغمبر خدا(ص) کی وفات کے بعد کن کے انصار میں داخل ہوئے؟ پھر کہاں شہید ہوئے کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے عمار کے قاتلوں کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۱۴۲

اقتصادی پابندی

بت پرستوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسلام مسلسل پھیل رہا تھا اور روز بروز مسلمانوں کی تعداد اور اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو رہا تھا بت پرست اور روڈیرے اپنے جاہ و جلال اور منافع کو خطرہ میں دیکھ رہے تھے وہ اسلام کی پیش رفت روکنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتے تھے اور کسی ظلم و خباثت کے ارتکاب سے نہیں روکتے تھے کمزور اور محروم مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے، ان کی توہین کرتے اور ان کا مذاق اڑاے تھے تا کہ مسلمانوں پیغمبر اسلام(ص) کی مدد سے دستبردار ہوجائیں اور اسلام کو چھوڑدیں_ لیکن ان مسلمانوں کا خدا اور اسلام پر ایمان اتنا قوی اور محکم تھا کہ وہ ہر قسم کے آزار اور تکلیف اور محرومیت کو برداشت کرتے_ لیکن پیغمبر اسلام (ص) کی مدد سے دستبردار نہ ہوتے تھے اور

۱۴۳

اسلام کو نہ چھوڑتے تھے_

جب اذیتیں اور تکلیفیں حد سے بڑھ گئیں تو پیغمبر اسلام(ص) نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو خفیہ طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجانے کی اجازت دے دی مسلمانوں نے گھر بار چھوڑا اور اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر حبشہ ہجرت کر گئے اور انہوں نے عیسائیوں کے ایک گروہ کو دین اسلام کی طرف راغب کیا اور اس طریقہ سے انہوں نے عیسائیوں سے اسلام کا تعارف کرایا اور قربانی دینے والے مسلمانوں نے اپنی گفتار و کردار سے اسلام کی حیات بخش تعلیمات کو حبشہ میں پھیلایا_

مشرکوں کا ارادہ اور حضرت ابوطالب (ع)

بت پرستوں اور وڈیروں نے یہ جان لیا تھا کہ اسلام کا پھیل جانا اب یقینی ہے اسی لئے انہوں نے خطرے کا احساس کرلیا تھا اور پھر وہ اس کے تدارک کے لئے صلاح و مشورہ کرنے ایک جگہ اکٹھا ہوئے اور مختلف تجاویز کے متعلق تبادلہ خیال اور بحث و مباحثہ کرنے لگے_

ان میں سے ایک گروہ کی تجویز تھی کہ رسول خدا(ص) کو قتل کردینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن دوسرے گروہ کے لوگوں کا اس سے مختلف نظریہ تھا لیکن بالآخر نتیجہ کے طور پر رسول خدا(ص) کے قتل کی تجویز کو اکثریت نے قبول کرلیا اور قتل کردینے کا مصمم ارادہ کرلیا یہ فیصلہ بہت ہی خطرناک تھا_

آنحضرت(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) کو اس سازش کا علم ہوگیا

۱۴۴

آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا:

کیا تم نے سنا ہے کہ قریش کے سرداروں نے محمد(ص) کے بارے میں کیا فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ کون سی تجویزان کے جلسے میں منظور کرلی گئی ہے؟ جانتے ہو کہ انہوں نے پکا ارادہ کرلیا ہے کہ محمد(ص) کو قتل کردیں؟ تم ان کے اس ارادے کے مقابلے میں کیا رائے رکھتے ہو؟ مجھ سے جہاں تک ہوسکا محمد(ص) کا دفاع کروں گا تم کیا اقدام کروگے؟ محمد(ص) تمہاری عزت و شرف کا سرمایہ ہے میں تم سے خواہش کرتا ہوں کہ پوری قوت سے اپنی عزت و شراقت کا دفاع کرو مجھے بتاؤ کہ محمد(ص) کے دفاع کے لئے کیا کروگے ؟

سب نے جواب دیا کہ ہم سب حاضر ہیں کہ محمد(ص) کا دفاع اور ان کی حمایت کریں لیکن ہم اپنی کم تعداد کے سبب کس طرح دشمن کی عظیم طاقت کا مقابلہ کرسکتے ہیں_

جناب ابوطالب(ص) نے کہا

ہماری ذمہ داری ہے کہ محمد(ص) کا دفاع کریں اور دشمن کی کثرت اور اپنی قلت سے نہ گھرائیں اور صبر و استقامت اور اتحاد سے ان پر غلبہ حاصل کریں بہتر ہوگا کہ ہم اپنی طاقت کو ایک جگہ جمع کریں پھر ہم سب کے سب مرد و عورت چھوٹے بڑے، محمد(ص) کے اردگرد جمع رہیں

۱۴۵

اور دشمن سے ان کی حفاظت اور نگہداشت کریں_

رسول خدا(ص) کی حفاظت اور نگہداری

جناب ابوطالب کی تجویز گو بہت سخت اور مشکل تھی لیکن پھر بھی تما افراد نے اسے قبول کرلیا تھوڑاسا مال و اسباب اٹھایا اور مكّہ میں پہاڑ کے ایک درّے میں منتقل ہوگئے تا کہ حضرت محمد(ص) کی بہتر طور پر حفاظت کرسکیں_

تقریباً چالیس جنگجو مردوں نے اس درّہ میں کہ جس کا نام شعب ابی طالب تھا، عہد و پیمان کیا کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک جناب محمد(ص) کی حمایت و حفاظت کریں گے اور عورتوں نے بھی اسی قسم کا معاہدہ کیا_

طاقتور جوان دن رات اس درّے کے چاروں طرف پہرا دیتے تھے دن میں پہاڑ کی گرم اور جھلسا دینے والی چوٹیوں پر گشت کرتے تھے اور رات میں پیغمبر خدا(ص) کے بہادر چچا جناب حمزہ اور علی ابن ابی طالب (ع) تلواریں نکالے پہرے داری کرتے تھے اور خود جناب ابوطالب (ع) بھی توجہ دیتے تھے اور رات کو کئی مرتبہ پیغمبر اسلام(ص) کی جگہ کو تبدیل کردیتے تھے اور کسی دوسرے کو ان کے بستر پر سلادیتے تھے کہ کہیں دشمن حملہ نہ کردیں اور ان کے سونے کی جگہ کو معلوم کرلیں اور آپ(ص) پر حملہ کر کے آپ کو قتل نہ کردیں_

مكّہ کے بت پرستوں نے جب پیغمبر(ص) کے مددگاروں کی اس بہادری و جانفشانی کو دیکھا تو انہوں نے کئی وجوہ کی بناپر پیغمبر(ص) کے قتل کا ارادہ ترک کردیا اور اپنی محفلوں میں بحث و مباحثہ اور مشورے سے ایک

۱۴۶

اور ارادہ کرلیا کہ شعب ابی طالب (ع) کے رہنے والوں سے روابط ختم کردیں اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کردیں تا کہ رسول خدا(ص) کے حامی و ناصر تھک جائیں، تنگ آجائیں اور آپ کی مدد سے دستبردار ہوجائیں اور آپ کو تنہا چھوڑدیں یا این کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں_

اقتصادی بائیکات کا معاہدہ

ان کی خاص انجمن میں جو ظالمانہ بائیکاٹ کا مضمون تیار کیا گیا اور اس پر سب نے دستخط کئے اس کا متن یہ تھا:

۱) ___ آج کے بعد کوئی حق نہیں رکھتا کہ محمد(ص) اور ان کے مددگاروں کے پاس آمد و رفت کرے اور ان کی مدد کرے_

۲)___ کوئی آدمی حق نہیں رکھتا کہ کوئی چیز ان کے پاس فروخت کرے یا کوئی چیز ان سے خریدے_

۳)___ کوئی بھی شخص ان سے شادی نہ کرے_

۴)___ اس معاہدہ پر دستخط کرنے والے افراد پابند ہوں گے کہ ان کو مورد اجراء قرار دیں اور ان کے پابند رہیں_

۵)___ دستخط کرنے والے پابندہوں گے کہ اس معاہدہ پر عمل کریں اور جستجو میں رہیں کہ کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرے یہ معاہدہ قطعی اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا اور کوئی بھی اس میں ردّ و بدل کا حق نہیں رکھتا یہ معاہدہ

۱۴۷

اس وقت تک معتبر رہے گا جب تک وہ لوگ محمد(ص) کو ہماری تحویل میں نہ دے دیں_

اس ترتیب سے اس ظالمانہ معاہدہ کو لکھا گیا اور اسے ایک مضبوط صندوق میں بند کر کے اندر رکھ دیا گیا اور اس کا دروازہ مضبوطی سے بند کردیا گیا اور اس معاہدہ کے تمام شقوں کی اطلاع تمام افراد کو دے دی گئی_

حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے رشتہ داورں کو شعب کے ایک گوشے میں اکٹھا کیا اور ان کو قریش کے سرداروں کے اس معاہدے کی اطلاع دی اور فرمایا

تم جانتے ہو کہ قریش کے سرداروں نے کیا ارادہ کیا ہے؟ انہوں نے ارادہ کرلیا ہے کہ ہمار ا پوری طرح بائیکاٹ کریں اور ہمیں اقتصادی طور پر محصور کریں وہ چاہتے ہیں کہ ہم پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ ہم محمد(ص) کی مدد سے دستبردار ہوجائیں تو اے میرے عزیزو اس ظالمانہ ارادے اور معاہدے کے مقابل کیا کروگے؟''

سب نے مل کر جواب دیا:

ہم یہ تمام سختیاں، رنج، بھوک، اور دباؤ برداشت کریں گے لیکن محمد(ص) کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑدیں گے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک ان کی حفاظت کریں گے_''

جناب ابوطالب (ع) نے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خود میں

۱۴۸

بھی جب تک میرے بدن میں جان ہے محمد(ص) کی حمایت کرتا رہوں گا_

اقتصادی بائیکاٹ

اقتصادی بائیکاٹ شروع ہوگیا اور لوگوں کا شعب ابی طالب سے ہر قسم کا رابطہ ختم ہوگیا کسی کو حق نہیں تھا کہ شعب میں رہنے والوں سے آمد و رفت اور خرید و فروخت کرے_

قریش کے سرداروں نے ایک گروہ لوگوں کی آمد و رفت پر نگاہ رکھنے کے لئے معین کردیا_ وہ نگرانی کرتے تھے کہ کوئی شخص شعب میں داخل نہ ہو، کوئی بھی چیز ان کے ہاتھ فروخت نہ کرے جو بھی اس بائیکاٹ کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا اس کامال ضبط کرلیتے تھے_

شعب میں محصور ہونے والے افراد نے بائیکاٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی زندگی کی ضرورت اور کھانے پینے میں پہلے کی نسبت میانہ روی برتنا_ شروع کردی تھوڑی غذا کھاتے اور کم سے کم غذا اور پانی پر قناعت کرتے اور ایک دوسرے سے ہمدردی اور تعاون کرتے تھے جو کچھ ان کے پاس تھا ایک دوسرے کے اختیار میں قرار دیتے تھے جوانوں میں طاقت اور صبر کا مادّہ زیادہ تھا وہ اپنی معمولی غذا بھی نہ کھاتے تھے بلکہ انہیں بچّوں اور سن رسیدہ افراد کو دے دیتے تھے_

شعب میں کسی قسم کی آمد و رفت نہ ہوتی تھی_ خوراک کا ذخیرہ آہستہ آہستہ خرچ ہو رہا تھا اور شعب میں رہنے والوںپر بالخصوص بچّوں پر بھوک

۱۴۹

زیادہ شدّت سے اثرانداز ہو رہی تھی صرف کبھی کبھار بعض جانباز اور دلیر افرد پوری طرج چھپ کر رات میں شہر جاتے اور ہزارہا مصیبتوں کے بعد کچھ خوراک حاصل کرتے اور واپس شعب میں لوٹ جاتے، کبھی بنی ہاشم کے ہمدرد رشتہ دار اپنے اونٹ پر خوراک لادتے اور آدھی رات کے وقت شعب کے نزدیک جا کر اسے چھوڑ آتے اور درّہ کی طرف بڑھا دیتے تھے_

شعب مین محبوس اور محصور لوگ سال میں فقط دو مرتبہ حرام مہینوں میں شعب سے باہر نکل سکتے تھے کیونکہ مشرک ان مہینوں میں اپنی پرانی رسم کے مطابق جنگ و جدال کو حرام جانتے تھے_

ان ایام میں پیغمبر(ص) ان لوگوں سے جو اطراف مكّہ سے حج و عمرہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے گفتگو فرماتے تھے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے اور انہیں خداوند عالم کی پرستش اور روز آخرت (قیامت) پر ایمان لانے کی دعوت دیتے_

لیکن مشرکین ہر وقت آپ کی تبلیغ کے کام میں مداخلت کرتے اور لوگوں کو آپ کے اردگرد سے دور کردیا کرتے تھے آپ کی باتوں کو قصّہ کہانی قرار دیتے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ محمد(ص) (معاذاللہ) جھوٹ بولتا ہے آخرت (قیامت) کچھ بھی نہیں ہے_

قرآن کریم، پیغمبر(ص) سے مشرکین کے سلوک اور اس کی سزا اور عاقبت کے متعلق یوں بیان کرتا ہے_

''مشرکین کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کی باتیں پہلے زمانے کے قصے اور افسانے ہیں لوگوں کو ان کی باتوں کو سننے سے

۱۵۰

روکتے ہیں اور ان سے لوگوں کو دور کردیتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور انہیں سمجھتے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھتے (تو تعجب کرتے) جب وہ جہنّم کے کنارے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم دنیا میں لوٹائے جاتے اور ہم اللہ کی آیات کو نہ جھٹلاتے اور مومنین کے گروہ میں داخل ہوجاتے اپنی جن برائیوں کو چھپاتے تھے وہ ان کے سامنے ظاہر ہوجائیں گی اور اگر یہ دنیا میں دوبارہ لوٹائے جائیں پھر بھی انہیں برے کاموں میں مشغول ہوجائیں گے کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں_ مشرکین کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے علاوہ کوئی اور دنیا نہیں ہے اور آخرت آنے والی نہیں ہے اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھو (تو تعجب کروگے) جب یہ لوگ خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ان سے سوال کیا جائے کا کیا اب بھی آخرت حق نہیں ہے؟ اس وقت جواب دیں گے_ کیوں نہیں پروردگار کی قسم یہ مکمل حق ہے ان سے کہا جائے گا کہ بس اب آخرت کی سزا کا مزا چکھو جو کفر و انکار کی سزا ہے_''

شعب کے محصورین ان مہینوں میں ہزار زحمت اور ارتباط کے ساتھ اپنے لئے غذا کی قلیل سی مقار حاصل کرپاتے تھے اور پیغمبر(ص) خدا اس

۱۵۱

مختصر سے وقت میں اسی طرح لوگوں سے خطاب فرماتے تھے _

ایام حرام اسی طرح تیزی سے گزر جاتے تھے شعب کے رہنے والے مجبور ہوتے تھے کہ پیغمبر(ص) کی حفاظت کی غرض سے پھر اس شدید گرم درّے میں لوٹ جائیں اور وہیں پناہ لیں ان تمام مصائب پر یہ لوگ، رسول(ص) اور حق کے دفاع کی خاطر صبر کرتے تھے اور اس کی حفاظت کرتے تھے _

آیت قرآن

''( انّ الّذین امنوا والّذین هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله اولئک یرجون رحمت الله و الله غفور رّحیم ) ''

سورہ بقرہ۲/ آیت ۲۱۸''

بہ تحقیق جو لوگ ایمان لائے او رجنہوں نے ہجرت کی ہے اور راہ خدا میں جہاد کیا ہے وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحیم ہے_

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ مستکبرین، اسلام کی ترقی سے کیوں ڈرتے تھے؟ اور اسلام

۱۵۲

کی دعوت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کیا کرتے تھے؟

۲)___ مسلمانوں کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کیوں کی یہ اسلام کے فروغ، اس کی تبلیغ اور اس کی وسعت کے لئے کیا اقدام کرتے تھے؟ اور اسلام کی پیش رفت کے لئے کس چیز سے استفادہ کرتے تھے؟

۳)___ کیا ان لوگوں کو پہچانتے ہیں کہ جنہوں نے انقلاب اسلامی کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت کی تھی، ان کی ہجرت کے سبب کو بیان کیجئے؟ اور ان کی خدمات کو بھی بیان کیجئے؟

۴)___ جب مشرکین نے اسلام کی وسعت سے خطرہ محسوس کیا تو اسکے تدارک کیلئے کیا سوچا؟ اور انہوں نے کیا ارادہ کیا؟

۵)___ جب ابوطالب(ع) کو مشرکین کے ارادے کی اطلاع ملی تو انہوں نے کیا کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں سے کیا کہا؟

۶)___ مشرکین کا دوسرا ارادہ کیا تھا اور اس ظالمانہ معاہدہ کا مضمون کیا تھا؟

۷)___ اقتصادی بائیکاٹ کے بعد پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ داروں کی شعب ابی طالب میں کیا حالت تھی؟

۸)___ کس وقت پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ دار شعب ابی طالب سے باہر نکل سکتے تھے؟

۹)___ قرآن مجید مشرکین کی رسول (ص) خدا کے ساتھ گفتگو کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۵۳

۱۰) ___ کفار مشرکین آخرت میں کیا آرزو کریں گے؟ کیا ان کی آرزو پوری ہوگی؟

۱۱)___ مشرکین کا آخرت کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ خدا قیامت کے دن دن سے کیا کہے گا؟ اور یہ کیا جواب دیں گے؟ اور کیا جواب سنیں گے؟

۱۵۴

استقامت اور کامیابی

پیغمبر اسلام(ص) اور ان کے وفادار ساتھیوں نے شعب ابی طالب(ع) میں تین سال بہت سختیوں اور تکلیفیں اٹھائیں یہ انتہائی سخت اور صبر آزما عرصہ تھا دن کو حجاز کی گرمی او رچلچلاتی ہوئی دھوپ اور رات کو دشمن کے اچانک جملہ کا خوف بچّوں کے دلوں کو لرزاتی تھی_ پانی اور غذا کی قلت اور بھوک پیاس کی تکلیفیں جان لیوا تھیں، بچّے بھوک پیاس کی شدّت سے تنگ آکر نالہ و فریاد کرتے اور اپنے ماں باپ سے خوراک طلب کرتے تھے_

گو ان تمام مصائب کا برداشت کرنا مشکل و دشوار تھا لیکن ان غیور اور بہادر جان نثاروں نے تمام مصائب کو برداشت کیا اور تیار نہ ہوئے کہ اپنی انسانی شرافت اور عزت سے دستبردار ہوجائیں اور رسول خدا(ص) کے دفاع سے ہاتھ اٹھائیں_ انہوں نے اتنے صبر و تحمّل کا مظاہرہ کیا کہ پیغمبر(ص)

۱۵۵

کے دشمن ظلم کرتے کرتے تھک گئے بچّوں کی آہ و بکا اور ان کی فریاد و فغان نے ان میں سے بعض کے دل پر آہستہ آہستہ اثر کرنا شروع کردیا اور وہ اس برے طرز عمل پر پشیمان ہونے لگے_

کبھی وہ ایک دوسرے سے پوچھتے کیا ہم انسان نہیں ہیں ؟ کیا ہم صلہ رحمی اور مروّت و ہمدردی کی ایک رمق بھی باقی نہیں رہی؟

ہم نے کیوں اس ظالمانہ معاہدہ پر دستخط کئے؟

ہمارے اہل و عیال تو بڑے آرام سے گھروں میں سو رہے ہیں لیکن بنی ہاشم کے بچّے بھوک و پیاس سے آہ و بکار کر رہے ہیں اور انہیں آرام و سکون سے سونا تک نصیب نہیں_

اس اقتصادی بائیکاٹ کا کیا فائدہ؟

کیا یہ اقتصادی بائیکاٹ اور دباؤ ان بہادر جانبازوں کو سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرسکے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ اگر وہ تمام کے تمام بھوک کی شدت کے سبب موت کے نزدیک بھی پہنچ جائیں تب بھی نہیں جھکیں گے _

مشرکین کا ایک گروہ جو نادم ہوچکا تھا کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تا کہ اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرسکے اور حضرت محمد(ص) اور ان کے اصحاب کو اقتصادی محاصرے سے نجات دلاسکے_

لیکن قریش کے سردار اب بھی مصر تھے کہ دباؤ اور بائیکاٹ کو جاری رکھا جائے_

۱۵۶

ابوطالب (ع) مشرکین کے مجمع میں

رسول اکرم (ص) نے حضرت ابوطالب(ع) سے کوئی بات کہی اور خواہش ظاہر کی کہ اس کو مشرکین تک پہنچادیں_ حضرت ابوطالب(ع) اپنے چند عزیزوں کے ساتھ مسجدالحرام کی طرف روانہ ہوئے اور سیدھے مجلس قریش میں آئے_

قریش کے سردار حضرت ابوطالب (ع) کو وہاں آتا دیکھ کر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ شاید ابوطالب (ع) اقتصادی بائیکاٹ اور اس کی سختیوں سے تنگ آگئے ہیں اور اس لئے آئے ہیں کہ محمد(ص) کو ہمارے حوالے کردیں_

سب کے سب بہت خوش ہوئے اور ابوطالب(ع) کو نہایت احترام سے صدر مجلس میں بٹھایا اور خوش آمدید کہا: اور کہنے لگے اے ابوطالب (ع) تم ہمارے قبیلے کے سردار تھے اور ہو، ہم نہیں چاہتے تھے کہ تمہاری تھوڑی سی بھی بے حرمتی ہو لیکن افسوس تمہارے بھتیجے کے رویے نے اس قسم کا ماحول پیدا کردیا_ کیا تم کو یاد ہے کہ ہم محمد(ص) کے سامنے درگزر کرنے اور صلح کرنے پر آمادہ تھے اور اس نے ہمیں کیا جواب دیا تھا؟ تم سے ہم نے خواہش کی تھی کہ محمد(ص) کی حمایت سے دستبردار ہوجاؤ تا کہ ہم محمد(ص) کو قتل کرسکیں لیکن تم نے اسے قبول نہ کیا اور اپنے رشتہ داروں اور قبیلے کو اپنی مدد کیلئے بلایا اور محمد(ص) کی حفاظت او رنگرانی کرنا شروع کردی_ کیا قطع رابطہ اور

۱۵۷

اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی صورت باقی رہی تھی؟ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ مدت تم پر اور تمہارے اہل و عیال پر بہت سخت گزری اور تمہیں سخت و دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب ہم خوش ہیں کہ تم اب ہمارے پاس آگئے ہو اگر تم اس سے پہلے آجاتے تو تمھیں اور تمہارے اہل و عیال اور شتہ داروں کو یہ تکالیف اور مصائب نہ دیکھنے پڑتے_

جناب ابوطالب (ع) اس وقت تک خاموش تھے اور حاضرین کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے تھے آپ (ع) نے فرمایا:

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اقتصادی بائیکاٹ کی سختی اور دباؤ سے تنگ آگیا ہوں؟ کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اپنے مقصد تک پہنچنے کے راستے پر چلنے سے تھک گیا ہوں اور اب مجھے دشواریاں برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے؟ اطمینان رکھو کہ معاملہ ایسا نہیں ہے اور جب تک میں زندہ ہوں محمد(ص) اور ان کی روش کی حمایت کرتا رہوں گا ان کے عظیم ہدف کے حصول کے لئے سعی و کوشش سے کبھی نہ تھکوں گا میں اور میرے جوان ایک مضبوط پہاڑ کی مانند ان تمام مشکلات کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور جان لو کہ ہم یقینا کامیاب ہوں گے کیونکہ صبر و استقامت کا نتیجہ کامیابی ہوا کرتا ہے

۱۵۸

میں نے محمد(ص) کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچا اور نہ اس اور نہ اس لئے تمہارے پاس آیا ہوں کہ محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں بلکہ میں محمد(ص) کا ایک پیغام تمہارے لئے لے کر آیا ہوں''

پیغمبر خدا(ص) کا پیغام

یہ پیغام تمہارے عہدنامہ سے متعلق ہے تم پہلے عہدنامہ والے صندوق کو لاؤ اور اس مجمع کے سامنے رکھو تا کہ میں محمد(ص) کا پیغام تم تک پہنچاؤں''

وہ صندوق لے آئے_

جناب ابوطالب (ع) نے گفتگو کو جاری رکھا اور فرمایا کہ: جو فرشتہ اللہ تعالی کا پیغام محمد(ص) کے پاس لے کر آیا کرتا ہے اب اس نے یہ پیغام دیا ہے کہ تمہارے عہد نامہ کی تحریر کو دیمک چاٹ گئی ہے اب صرف اس کا تھوڑا حصّہ باقی رہ گیا ہے صندوق کھولو اور عہدنامہ کو دیکھو اگر ان کا پیغام صحیح ہوگا تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر(ص) بنا کر بھیجے گئے ہیں اور محمد(ص) خدا کی طرف (جو تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے) پیغام حاصل کرتے ہیں اور واقعاً وحی کا فرشتہ ان کے لئے خبر لاتا ہے صندوق کھولو، اور محمد(ص) کی بات کی صداقت کو دیکھو اگر محمد(ص) کی بات

۱۵۹

صحیح ہوئی تو تم پانی سرکشی اور ظلم و ستم سے باز آجاؤ اور ان کی نبوت و خدا کی وحدانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ اور اگر ان کی بات صحیح نہ ہوئی تو میں بغیر کسی قید و شرط کے محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں گا، تا کہ جس طرح چاہو ان سے سلوک کرو''

بعض افراد نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد(ص) نے صندوق کے اندر دیکھ لیا ہو، یقینا یہ بات غلط ہے_ جلدی سے مہر توڑو اور اسے کھولو تا کہ ان کے دعوے کا غلط ہونا سب پر ظاہر ہوجائے انہوں نے صندوق کھولا او رعہد نامہ کو باہر نکالا بڑے تعجب سے دیکھا کہ عہد نامہ کی تحریر کو دیمک چاٹ چکی ہے اور صرف تھوڑا سا حصّہ باقی رہ گیا ہے_

جناب ابوطالب (ع) بہت خوش نظر آرہے تھے آپ نے ان لوگوں سے کہا:

اب جبکہ تم نے محمد(ص) کی صداقت کو جان لیا تو ان کی دشمنی اور سرکشی سے باز آجاؤ اور اللہ کی وحدانیت رسول (ص) کی پیغمبری اور روز جزا کی حقانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت کی فلاح پاؤ''

بعض افراد بہت غصّے میں آگئے اور ایک گروہ سوچ و بچار میں غرق ہوگیا اسی وقت کچھ لوگ اٹھے اور کہا:

تم پہلے دن سے ہی اس عہد نامہ کے مخالف تھے

انہوں نے عہدنامہ کا باقی حصہ جو دیمک کے کھانے سے بچ گیا تھا

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293