فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون20%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102052 / ڈاؤنلوڈ: 4601
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پیغمبر اسلام(ص) نے جناب خدیجہ کے بعد سورہ سے شادی کرلی_ اس کے علاوہ اور کئی عورتیں تھیں_ جو تمام کی تمام جناب فاطمہ (ع) سے اظہار محبت کیا کرتی تھیں، لیکن پھر بھی ایک یتیم بچے کے لئے بہت سخت گزرتا ہے جب وہ اپنی ماں کی جگہ کو خالی دیکھے اور اس کی جگہ کسی اور عورت کو رہتا دیکھے_ سوکن خواہ کتنی ہی مہربان اور اچھی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ محبت اور خالص شفقت جو ماں کی طرف سے ہوتی ہے وہ اس بچے کو نہیں دے سکتی_ صرف ماں ہی ہے کہ جو ناز و نعمت، شفقت و محبت سے بچے کے دل کو تسکین دے سکتی ہے_

جناب فاطمہ (ع) کو جس شدت سے محرومی کا احساس ہو رہا تھا اسی شدت سے پیغمبر(ص) بھی آپ سے اظہار محبت فرماتے تھے، کیونکہ پیغمبر خدا(ص) جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کو ماں کی کمی کا احساس ہے اور اس کمی کو پورا ہوتا چاہیئے، اس وجہ سے اور دوسری کئی وجوہ کی بناء پر روایت میں وارد ہوا کہ پیغمبر(ص) جب تک اپنی بیٹی کو نہ چوم لیتے رات کو نہیں سوتے تھے_(۱)

یہ تھوڑے سے آٹھ سال کے واقعات ہیں جو پیغمبر(ص) کی بیٹی جناب فاطمہ (ع) پر مکہ معظمہ میں وارد ہوئے ہیں_

واضح رہے اگر چہ اس قسم کے واقعات اور حوادث جو کسی بچے کی روح پر وارد ہوں تو اس کے اعصاب کو مختل کردیتے ہیں اور اس کی فکر صلاحیت اور جسمی قوت کو کم کردینے کے لئے کافی ہوا کرتے ہیں لیکن اس قسم کا حکم ہر ایک انسان کے لئے کرنا صحیح نہیں ہے_

کیونکہ یہی ناگوار واقعات اور دائمی گرفتاریاں اور متصل مبارزہ ممتاز اور شائستہ انسانوں کی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اس کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج۲_ ص ۹۳_

۴۱

صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے مشکلات کے مقابلے کے لئے ثابت قدم بنا دیتے ہیں_ جب تک پتھر پر غیر معمولی حرارت معدن میں وارد نہ ہو وہ خالص اور بیش بہا قیمت سونا بن کر نہیں نکلتا_

جی ہاں جناب زہرہ(ع) کی زندگی کے دوران خطرناک حوادث اور بحرانی اوضاع نے آنجناب کی روح کو نہ صرف ضعیف نہیں کیا بلکہ الٹا اپنے وجود کے گوہر کو صیقل کر کے تابناک و درخشان بنادیا اور آپ کو ہر قسم کے حالات سے مبارزہ کرنے کے لئے آمادہ اور طاقتور بنادیا تھا_

فاطمہ (ع) مدینہ کی طرف

پیغمبر خدا(ص) بعثت کے تیرھویں سال جان کے خطرے کی وجہ سے مجبور ہوگئے کہ مکہ کو چھوڑ د یں اور مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں_ چنانچہ آپ نے جاتے وقت حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) کو خداحافظ کہا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے میری دختر فاطمہ (ع) اور اپنی ماں فاطمہ بنت اسد اور چچا حمزہ کی بیٹی فاطمہ کو اور دوسری مستورات کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جلد از جلد چلے آنا، میں تمہارا انتظار کروں گا آپ(ص) نے یہ فرمایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_

حضرت علی (ع) بھی پیغمبر کے دستور کے مطابق جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو سوار کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ راستہ میں ابو واقد اونٹوں کو چلانے والے_ اونٹوں کو تیزی کے ساتھ چلا رہے تھے_ حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ نرمی کرو اور اونٹوں کو آہستہ چلاؤ، کیونکہ عورتیں کمزور ہوا کرتی ہیں جو سختی کو برداشت نہیں کرسکتیں، ابو واقد نے عرض کی کہ میں دشمنوں سے ڈرتا ہوں کوئی ہمارا تعاقب نہ کر رہا ہو جو ہم تک آپہنچے حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا پیغمبر(ص) نے مجھ

۴۲

فرمایا کے تجھے دشمن کی طرف سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی_

جب آپ ''ضجنان'' کے قریب پہنچے تو آٹھ سوار پیچھے سے آئے حضرت علی علیہ السلام نے عورتوں کو محفوظ اور امن کی جگہ کردیا اور تلوار لے کر ان دشمنوں پر حملہ کردیا اور ان کو پراگندہ و متفق کردیا پھر عورتوں کو سوار کیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ پیغمبر اسلام(ص) جب ''قبا'' پہنچے تو وہاں بارہ دن تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو لے کر آنحضرت کی خدمت با برکت سورہ سے شادی کی اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے گھر لے گئے اس کے بعد آپ نے جناب ام سلمہ سے نکاح کیا اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے سپرد کیا تا کہ آپ ان کی سرپرستی اور نگاہ داری کریں جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو میرے سپرد کیا تا کہ میں ان کی تربیت میں کوشش کروں، میں بھی آپ کی تربیت اور راہنمائی میں کوتاہی نہیں کرتی تھی لیکن خدا کی قسم آپ مجھ سے زیادہ با ادب اور سمجھدار تھیں_(۲)

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج ۱_ ص۱۷۵، ۱۸۳_

۲) دلائل الامامہ_ ص ۱۱_

۴۳

حصّہ دوم

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی

۴۴

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر خدا(ص) کی لڑکی اور اپنے زمانے کی ممتاز خواتین سے تھیں قریش کے اصل اور شریف خاندان سے آپ کے والدین تھے_ جمال ظاہری اور روحانی کمالات اور اخلاق آپ نے اپنے ماں باپ سے ورثہ میں پایا تھا، آپ انسانی کمالات کے اعلی ترین کمالات سے مزین تھیں آپ کے والد کی شخصیت دن بدن لوگوں کی نگاہوں میں بلند ہو رہی تھی آپ کی قدرت اور عظمت بڑھ رہی تھی اس لئے آپ کی دختر نیک اختر کی ذات بزرگان قریش اور باعظمت شخصیات اور ثروت مند حضرات کی نگاہوں میں مورد توجہ قرار پاچکی تھی_ تاریخ میں ہے کہ اکثر اوقات بزرگان آپ کی خواستگاری کرتے رہتے تھے لیکن پیغمبر اسلام(ص) بالکل پسند نہیں فرماتے تھے، آنحضرت ان لوگوں سے اس طرح پیش آتے تھے کہ انہیں معلوم ہوجاتا تھا کہ پیغمبر اسلام نے ناراض ہیں_(۱)

جناب رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کو علی (ع) کے لئے مخصوص کردیا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے_(۲)

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج ۱_ ص ۲۵۳_

۲) کشف الغمہ_ ج۱_ ص ۳۵۴_

۴۵

پیغمبر اسلام(ص) خداوند عالم کی طرف سے مامور تھے کہ نور کا عقد نور سے کریں _(۱)

لکھا ہے کہ جناب ابوبکر بھی خواستگاروں میں سے ایک تھے، ایک دن وہ اسی غرض سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وصلت کروں، کیا ممکن ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد آپ مجھ سے کردیں؟ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) ابھی کمسن ہے اور اس کے لئے شوہر کی تعیین خدا کے ہاتھ میں ہے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں_ جناب ابوبکر مایوس ہوکر واپس لوٹے راستے میں ان کی ملاقات جناب عمر سے ہوگئی تو اپنے واقعہ کو ان سے بیان کیا جناب عمر نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے تمہارے مطالبے کو رد کردیا ہے_ اور آپ (ص) نہیں چاہتے تھے کہ اپنی دختر تجھے دیں_

جناب عمر بھی ایک دن جناب فاطمہ (ع) کی خواستگاری کی غرض سے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعیان بیان کیا_ پیغمبر خدا(ص) نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ فاطمہ (ع) کمسن ہے اور اس کے شوہر کا معین کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، کئی دفعہ ان دونوں صاحبان نے خواستگاری کی درخواست کی جو قبول نہیں کی گئی_

عبدالرحمن بن عوف او رجناب عثمان بن عفان جو دونوں بہت بڑے سرمایہ دار تھے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس خواستگاری کے لئے حاضر ہوئے، عبدالرحمن نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) اگر فاطمہ (ع) کی شادی مجھ سے کردیں تو میں سو سیاہ اونٹ آبی چشم کہ جن پر مصری کتان کے کپڑوں سے بارلادا گیا ہو اور دس ہزار دینار بھی حق مہر دینے کے لئے حاضر ہوں جناب عثمان نے عرض کیا کہ میں بھی حاضر ہوں کہ اتنا ہی مہر ادا کروں اور مجھے عبدالرحمن پر ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ میں اس سے پہلے ایمان لایا ہوں_

پیغمبر اسلام(ص) ان کی گفتگو سے سخت غضبناک ہوئے اور انہیں یہ سمجھانے کے لئے

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۱۹_

۴۶

کہ میںمال سے محبت نہیں رکھتا آپ نے ایک مٹھی سنگریزوں کی بھرلی اور عبدالرحمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا کہ تم خیال کرتے ہو کہ میں مال کا پرستار ہوں اور اپنی ثروت و دولت سے مجھ پر فخر و مباہات کرنا چاہتے ہو کو مال و دولت کے دباؤ سے میں فاطمہ (ع) کا عقد تجھ سے کردوں گا_(۱)

حضرت علی (ع) کی پیشکش

اصحاب پیغمبر(ص) نے اجمالاً محسوس کرلیا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) کا دل چاہتا ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد علی (ع) سے کردیں لیکن حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش نہیں ہو رہی تھی ایک دن جناب عمر اور ابوبکر اور سعدبن معاذ و ایک گروہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور مختلف موضوعات پر بحث کر رہے تھے اسی دوران جناب فاطمہ (ع) کا ذکر بھی آگیا، ابوبکر نے کہا کہ کافی عرصہ سے عرب کے اعیان اور اشراف فاطمہ (ع) کی خواستگاری کر رہے ہیں لیکن پیغمبر (ص) نے کسی بھی درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے_

ابھی تک علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے فاطمہ (ع) کی خواستگاری نہیں کی گئی میں گمان کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام کی طرف سے اس اقدام نے کرنے کی وجہ ان کی تہی دست ہونا ہے میرے سامنے یہ مطلب واضح ہے کہ خدا اور پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) کو حضرت علی (ع) کے لئے معین کر رکھا ہے_

اس کے بعد ابوبکر نے جناب عمر اور سعد سے کہا اگر تم آمادہ ہو تو ہم مل کر علی (ع) کے پاس چلیں اور ان کے سامنے اس موضوع کو پیش کریں اور اگر وہ شادی کرنے کی

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۳۴۵_ تذکرة الخواص_ ص۳۰۶_

۴۷

طرف مائل ہوں اور تہی دست ہونے کی بنیاد پر وہ شادی نہ کر رہے ہوں تو ہم ان کی مدد کریں سعد بن معاذ نے اس پیشکش کو بسر و چشم قبول کیا اور ابوبکر کو اس کام میں تشویق دلائی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ جناب عمر او رابوبکر اور سعد بن معاذ اسی غرض سے مسجد سے باہر آئے اور حضرات علی علیہ السلام کی جستجو میں چلے گئے لیکن آپ کو انہوں نے گھر پہ نہ پایا اور معلوم ہوا کہ آپ ایک انصاری کے باغ میں اونٹ کے ذریعے ڈول کھینچ کر خرمے کے درختوں کو پانی دے رہے ہیں یہ لوگ اس طرف گئے_ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور میرے پاس کس غرض سے آئے ہو؟ ابوبکر نے کہا اے علی (ع) تم کمالات کے لحاظ سے ہر ایک سے بالاتر ہو ہم سب آپ کے مقا اور وہ علاقہ جو رسول خدا(ص) کو تم سے ہے اس سے آگاہ ہیں، بزرگان اور اشراف قریش حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگاری کے لئے جاچکے ہیں، لیکن تمام لوگوں کی باتوں کو پیغمبر اکرم(ص) نے رد فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ہم گمان کرتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو آپ کے لئے مخصوص کیا ہے دوسرا اور کوئی بھی شخص اس سعادت پر افتخار کی صلاحیت نہیں رکھتا ہیں یہ خبر نہیں ہوسکی کہ آپ اس اقدام میں کیوں کوتاہی کر رہے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابوبکر کی یہ گفتگو سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے اور فرمایا اے ابوبکر تم نے میرے احساسات اور اندرونی خواہشات کو ابھارا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس سے میں غافل تھا_ خدا کی قسم تمام دنیا حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگار ہے اور میں بھی علاقہ مند ہوں جو چیز مجھے اس اقدام سے روکے ہوئے ہے وہ ہے فقط میرا خالی ہاتھ ہونا_ ابوبکر نے کہا یا علی (ع) آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) کی نگاہ میں دنیا اور مال دنیا کی کوئی قیمت نہیں ہے میری رائے ہے کہ جتنی جلدی

۴۸

ہوسکے آپ اس کام میں اقدام کریں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خواستگاری کی درخواست دیں_(۱)

اندرونی جذبہ بیدار ہوتا ہے

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے گھر ہی پلے اور جوان ہوئے تھے، آپ(ص) جناب فاطمہ (ع) کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور آپ کے اخلاق اور نفسیات سے پوری طرح آگاہ تھے، دونوں پیغمبر خدا(ص) اور جناب خدیجہ کے تربیت یافتہ تھے اور ایک ہی گھر میں جوان ہوئے تھے_(۲)

حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (ع) جیسی عورت اور نہیں مل سکے گی آپ تمام کمالات اور فضائل سے آراستہ ہیں اور آپ انہیں تہہ دل سے چاہتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ہمیشہ مناسب وقت ہاتھ نہیں آیا کرتا لیکن اسلام کی بحرانی کیفیت اور مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی نے علی کو اس دلی خواہش سے روک رکھا تھا اور آپ میں سوائے ازدواج کے تمام افکار موجود تھے_

حضرت علی (ع) نے ابوبکر کی پیش کش پر تھوڑا سا غور کیا اور اس معاملے کے تمام اطر اف اور جوانب پر غور کیا ایک طرف آپ کا خالی ہاتھ ہونا اور اپنی اور تمام مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور عمومی گرفتاری دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف یہ بھی جان چکے تھے کہ آپ کے ازدواج کا وقت آپہنچا ہے کیونکہ آپ کی عمر تقریباً اکیس سال یا اس سے زیادہ ہوچکی تھی_(۲)

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۱۸۰_

۳) ذخائر عقبی _ ص ۲۶_

۴۹

انہیں اس عمر میں ازدواج کرنا ہی چاہیئےور فاطمہ (ع) جیسا اور رشتہ بھی نہیں مل سکے گا اگر یہ سنہرا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا تدارک نہیں کیا جاسکے گا_

علی (ع) خواستگاری کے لئے جاتے ہیں

جناب ابوبکر کی پیشکش نے حضرت علی علیہ السلام کی روح کو اس طرح بیدار کردیا تھا کہ آپ کا اندرونی جذبہ محبت شعلہ ور ہو اور آپ سے پھر اس کام کو آخر تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا کہ جس میں آپ مشغول تھے، آپ نے اونٹ کو اس کام سے علیحدہ کیا اور گھر واپس آگئے آپ نے غسل کیا اور ایک صاف ستھری عبا پہنی اور جوتے پہن کر جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے_

پیغمبر اکرم(ص) اس وقت جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے_ حضرت علی علیہ السلام جناب ام سلمہ کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پیغمبر اکرم(ص) نے جناب ام سلمہ سے فرمایا کہ دروازہ کھولو دروازہ کھٹکھٹا نے والا وہ شخص ہے کہ جس کو خدا اور رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور اس کے رسول (ص) کو دوست رکھتا ہے_ ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ یہ کون ہے کہ جسے آپ نے بغیر دیکھے ہوئے اس قسم کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا ہے؟

آپ(ص) نے فرمای اے امّ سلمہ چپ رہو یہ ایک بہادر اور شجاع انسان ہے جو میرا چچازاد بھائی ہے اور سب لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے جناب ام سلمہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھول دیا، حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور پیغمبر خدا(ص) کے سامنے بیٹھ گئے اور شرم کی وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے کو ظاہر نہ کرسکے، تھوڑی دیر تک دونوں چپ رہے اور آخر الامر پیغمبر اسلام(ص) نے

۵۰

اس سکوت کو توڑا اور ___ فرمایا یا علی گو یا کسی کام کے لئے میرے پاس آئے ہو کہ جس کے اظہار کرنے سے شرم کر رہے ہو؟ بغیر کسی ہچکچا ہٹ کے اپنی حاجت کو بیان کرو اور مطمئن ہو جاؤ کہ تمہاری خواہش قبول کی جائے گی_

حضرت علی (ع) نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے گھر میں جو ان ہوا ہوں اور آپ کے لطف و کرم سے ہی مستفید رہا ہوں آپ نے میری تربیت میں ماں اور باپ سے بھی زیادہ کوشش فرمائی ہے اور آپ کے وجود مبارک کی برکت سے میں نے ہدایت پائی ہے یا رسول اللہ خدا کی قسم میری دنیا و آخرت کی پونجی آپ ہیں اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ اپنے لئے کسی رفیقہ حیات کا انتخاب کروں اور خانوادگی زندگی کو تشکیل دوں تا کہ اس سے مانوس رہوں اور اپنی تکالیف کو اس کی وجہ سے کم کرسکوں، اگر آپ مصلحت دیکھیں تو اپنی دختر جناب فاطمہ (ع) کو میرے عقد میں دے دیں کہ جس سے مجھے ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہوگی_

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قسم کی پیشکش کے منتظر تھے آپ کا چہرہ انور خوشی اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمایا کہ صبر کرو میں فاطمہ (ع) سے اس کی اجازت لے لوں_ پیغمبر اسلام(ص) جناب فاطمہ(ص) کے پاس تشریف لے گئے او فرمایا تم کو بہتر جانتی ہو وہ خواستگای کے لئے آپے ہیں آیا تم اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا ان سے عقد کردوں؟ جناب فاطمہ (ع) شرم کی وجہ سے ساکت رہیں اور کچھ نو بولیں_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنجناب کے سکوت کو رضایت کی علامت قرار دیا _(۱)

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۲۷_ ذخائر العقبی _ ص ۲۹_

۵۱

موافقت

پیغمبر خدا(ص) اجازت لینے کے بعد حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور مسکرات ہوئے فرمایا یا علی (ع) شادی کے لئے تمہارے پاس کچھ ہے؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا یا رسول اللہ (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ میری حالت سے پوری طرح آگاہ ہیں میری تمام دولت ایک تلوار اور ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے آپ نے فرمایا کہ تم ایک جنگجو سپاہی اور جہاد کرنے والے ہو بغیر تلوار کے خدا کی راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تلوار تمہاری پہلی کھینچ کر اپنی اور اپنے گھر کی اقتصادی اور مالی حالت سنوار سکو اور مسافرت میں اس پر سامان لاد سکو صرف ایک چیز ہے کہ جس سے صرف نظر کرسکتے ہو اور وہ ہے تمہاری زرہ میں بھی تم پر سختی نہیں کرتا اور اسی زرہ پر اکتفا کرتا ہوں، یا علی اب جب کہ معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کیا چاہتے ہو تمہیں ایک بشارت دوں اور ایک راز سے آگاہ کروں؟

حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ بر قربان ہوں آپ ہمیشہ خوش زبان اور نیک خواہ رہے ہیں_ آپ نے فرمایا کہ قبل اس کے کہ تم میرے پاس آؤ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) اللہ تعالی نے تجھے بندوں سے منتخب کیا ہے اور رسالت کے لئے چنا ہے_ علی (ع) کو منتخب کیا اور انہیں تمہارا بھائی اور وزیر قرار دیا ہے تمہیں اپنی دختر کا ا ن سے نکاح کردینا چاہیئے ان کے ازدواج کی محفل عالم بالا میں فرشتوں کے حضور ترتیب دی جاچکی ہے خداوند عالم دو پاکیزہ نجیب طیب و طاہر اور نیک فرزند انہیں عطا کرے گا_ اے علی (ع) ابھی جبرئیل واپس نہیں گئے تھے کہ تم نے میرے گھر کا دروازہ آن کھٹکھٹایا ہے_

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۷_

۵۲

خطبہ عقد

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی (ع) تم جلدی سے مسجد میں جاوں میں بھی تمہارے پیچھے آرہا ہوں تا کہ تمام لوگوں کے سامنے عقد کی تقریب اور خطبہ عقد بجالاؤ، علی (ع) خوش اور مسرورمسجد روانہ ہوگئے_ جناب ابوبکر او رعمر سے راستے میں ملاقات ہوگئی تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا اور کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنی دختر مجھ سے تزویج کردی ہے اور ابھی میرے پیچھے آرہے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کے مراسم انجام دیں_

پیغمبر خدا(ص) جب کہ آپ کا چہرہ خوشی اور شادمانی سے چمک رہا تھا مسجد میں تشریف لے گئے او رخدا کی حمد و ثناء کے بعدفرمایا: اے لوگو آگاہ رہو کہ جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے پیغام لائے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ (ع) کے ازدواج کے مراسم عالم بالا میں فرشتوں کے حضور منعقد کئے جاچکے ہیں اور حکم دیا ہے کہ زمین پر بھی یہ مراسم انجام دیئے جائیں میں تم کو گواہ قرار دیتا ہوں، آپ اس کے بعد بیٹھ گئے اور حضرت علی (ع) سے فرمایا اٹھو اور خطبہ پڑھو_

حضرت علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں خداوند عالم کا اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی گواہی دیتا ہوں جو اس ذات کو پسند ہو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور ایسا درود ہو جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جو آپ کے مقام اور درجہ کو بالاتر کردے_ لوگو میرے اور فاطمہ (ع) کے ازدواج سے اللہ راضی ہے اور اس کا حکم دیا ہے لوگو رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کا عقد مجھ سے کردیا ہے اور میری زرہ کو بطور مہر قبول فرمایا ہے آپ ان سے پوچھ لیں اور گواہ ہوجائیں_

۵۳

مسلمانوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ(ص) آپ نے فاطمہ (ع) کا عقد علی علیہ السلام سے کردیا ہے؟ رسول خدا(ص) نے جواب میں فرمایا ہاں_ تمام حاضرین نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ خدا اس ازدواج کو تمہارے لئے مبارک قرار دے اور تم دونوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کردے_

جلسہ عقد ختم ہوا تو پیغمبر (ص) گھر واپس لوٹ آئے اور عورتوں کو حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے لئے خوشی اور مسرت کا جشن برپا کریں(۱) عقد کے مراسم پہلی یا چھٹی ذی الحجہ(۲) دوسری یا تیسری ہجری(۳) کو انجام پایا_

داماد کا انتخاب

اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اگر کوئی جوان تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آئے تو تم اس کی تمام چیزوں سے پہلے دینی اور اخلاقی حالت کا جائزہ لو با ایمان اور پاک دامن اور خوش اخلاق ہو تو اس سے رشتہ کردو_ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ ازدواج کے لئے مال اور ثروت کو معیار نہیں بنانا چاہیئے_ اسلام کہتا ہے کہ مال و ثروت ہی انسان کو صرف خوش بخت نہیں بناتا، داماد کے فضائل اور کمالات نفسانی اور دینی جذبہ مال اور ثروت پر برتری رکھتا ہے، کیوں کہ باایمان اور خوش رفتار اگر چہ فقیر اور تہی دست

____________________

۱) اس قسمت کے مطالب اور مضامین کو ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے، کشف الغمہ_ ج۱ ص ۲۵۳ و ۷ ۲۵_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۲_ ذخائر العقبی _ تذکرة الخواص_ دلائل الامامہ مناقب خوارزمی ص ۲۴۷_ بحار الانوار_ ج ۴۳ ص ۹۲و ۱۴۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب ج ۳ ص ۳۴۹_

۳) بحار الانوار_ ج ۴۳ _ ص ۶ و ۷_

۵۴

ہی کیوں نہ ہو وہ اس عیاش اور ہوسباز اور لاابالی سرمایہ دار سے جو گھر کی آسائشے کے اسباب فراہم کرتا ہے کئی درجہ بہتر ہے_

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے جب کوئی تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آتے تو اگر تمہیں اس کا اخلاق اور دین _ پسند ہو تو اس سے رشتہ کردو اور اس کو منفی جواب نہ دو اور اگر تمہاری شادیوں کا معیار اس کے خلاف ہو تو نہ تمہارے لئے بہت زیادہ مصائب کا موجب ہوگا_(۱)

پیغمبر(ص) نے یہ مطلب صرف لوگوں کو بتلایا ہی نہیں بلکہ خود بھی اس پر عمل کیا_ آپ نے حضرت علی (ع) کے فضائل اور کمالات اور اخلاق کو دیکھ کر انہیں عبدالرحمن اور عثمان جیسے سرمایہ داروں پر ترجیح دی اور ان(ع) کے فقیر اور تہی دست ہونے کے نقض اور عیب شمار نہ کیا_

حضرت زہرا علیہا السلام کا مہر

۱_ ایک زرہ کہ جس کی قیمت چارسو یا چارسو اسی یا پانچ سو درہم تھی_

۲_ یمنی کتان کا ایک جوڑا_

۳_ ایک گوسفند کی کھال رنگی ہوئی _(۲)

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۲۵۱_

۲) وافی کتاب النکاح ص ۱۵_

۵۵

عملی سبق

اسلام زیادہ مہر کو ملت کے لئے مصلحت نہیں دیکھتا اور سفارش کرتا ہے کہ اگر داماد کے دین اور اخلاق کو تم نے پسند کرلیا ہے تو پھر مہر میں سختی سے کام نہ لو اور تھوڑے مہر پر قناعت کرلو_

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو خوبصورت اور کم مہر والی ہوں_(۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کی برائی اس میں ہے کہ اس کا مہر بہت زیادہ ہو_(۲)

اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ زیادہ مہر زندگی کو لوگوں پر سخت کردیتا ہے اور بہت زیادہ مشکلات کا ملت کے لئے موجب ہوتا ہے_ مہر میں آسانی کر کے جواوں کو ازدواج زندگی کی طرف مائل کرنا چاہیئےا کہ ہزاروں اجتماعی مفاسد اور روحی امراض سے روکا جاسکے_ زیادہ مہر داماد کی زندگی کو ابتدا ہی میں متزلزل کردیتا ہے اور میاں بیوی کی محبت پر بھی بر اثر ڈالتا ہے (میاں بیوی کی محبت میں خلوص پیدا نہیں ہونے دیتا) جوانوں کو شادی کی طرف سے بے رغبت کردیتا ہے_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں کو خود عمل کر کے سمجھا رہے ہیں کہ زیادہ مہر اسلامی معاشرے کے لئے واقعاً مصلحت نہیں رکھتا اسی لئے تو آپ نے اپنی عزیزترین بیٹی کا معمول مہر پر جیسا کہ بیان کیا گیا حضرت علی (ع) سے نکاح کردیا یہاں تک کہ کوئی چیز بطور قرض بھی علی (ع) کے ذمّہ نہیں سونپی_

____________________

۱) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۲) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۵۶

حضرت زہرا علیہا السلام کا جہیز

پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا ابھی اٹھو ارو اس زرہ کو جو تم نے حضرت زہرا (ع) کے لئے مہر قرار دی ہے، بازار میں جا کر فروخت کردو اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ تا کہ میں تمہارے لئے جہیز اور گھر کے اسباب مہیا کروں_

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے زرہ کو بازار میں لے جا کر فروخت کردیا، مختلف روایات میں اس کی قیمت چار سو سے لے کر پانچ سو درہم تک بتائی گئی ہے_ واضح رہے کہ بعض روایات کی بنا پر جناب عثمان نے آپ کی زرہ خریدی اور بعد میں حضرت علی (ع) کو ہدیہ کردی_(۱)

حضرت علی علیہ السلام زرہ کی قیمت لے کر پیغمبر خدا(ص) کی خدمت میں پیش کی، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب ابوبکر، سلمان فارسی اور بلال کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس مقدار سے جناب فاطمہ (ع) کے لوازمات اور اسباب زندگی خرید کر لاؤ اور اس سے کچھ درہم اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو او رجو درہم باقی بچے وہ جناب ام سلمہ کے پاس رکھ دیئے گئے_

ابوبکر کہتے ہیں کہ جب میں نے درہم کو گنا تو سترسٹھ درہم تھے اور اس سے میں نے یہ اسباب اور لوازمات خریدے_

۱_ ایک سفید قمیص_

۲_ ایک بڑی چادر سر ڈھانپنے کے لئے (یعنی برقعہ)_

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۳۰_

۵۷

۳_ ایک سیاہ خیبری حلہ_

۴_ ایک چار پائی جو کھجور کے لیف سے نبی ہوئی تھی_

۵_ دو عدد توشک ، گدے کہ ایک میں گوسفند کی پشم بھری گئی اور دوسری میں کجھور کے پتے بھرے گئے_

۶_ چار عدد تکیہ جو گوسفند کے چمڑے سے بنائے گئے تھے کہ جن کو اذخر نامی خوشبودار گھاس سے بھرا گیا تھا_

۷_ ایک عدد چٹائی ہجری نامی_

۸_ ایک عدد دستی چکی_

۹_ ایک تانبہ کا پیالہ_ _ پانی بھر نے کے لئے ایک عدد چمڑے کی مشک_ _ کپڑا دھونے کے لئے ایک عدد تھال_ _ دودھ کے لئے ایک عدد پیالہ_ _ پانی پینے کا ایک عدد برتن _ _ ایک پشمی پردہ_ _ ایک عدد لوٹا_ _ ایک عدد کٹی ا برتن جسے صراحی (سبو) کہا جاتا ہے_ _ فرش کرتے کے لئے ایک عدد چمڑا_ _ ایک عدد کوزے_ _ ایک عدد عبا_(۱)

جب جناب زہرا (ع) کا جہیز جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لے

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب _ ج ۲ ص ۳۵۳ و کشف الغمہ_ ج ۱ ص ۳۵۹_

۵۸

آئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا اے خدا اس شادی کو مبارک کر کہ جس کے اکثر برتن مٹی کے ہیں_

مسلمانوں کے لئے درس

جناب زہرا علیہا السلام اور حضرت علی علیہ السلام کی شادی اسلامی نمونہ کا سب سے اہم اور احساس ترین شادی ہوسکتی ہے کیونکہ جناب زہر ا علیہا السلام کے والد جزیزة العرب کی بہت بڑی شخصیت بلکہ جہان اسلام کی اہم شخصیت اور برگزیدہ پیغمبر تھے_لڑکی کی بھی بہترین او رعاقل ترین اور تربیت شدہ اور باکمال تھی اور نبائے بشریت کی چار عورتوں میں سے ایک ہیں اور داماد بھی حسب و نسب کے لحاظ سے عرب کے معزز خاندان سے تھے، علم اور کمال اور شجاعت کے لحاظ سے تمام مردوں پر برتری رکھتے ہیں آپ رسول خدا(ص) کے جانشین اور وزیر اور مشیر ہیں اور لشکر اسلام کے سپہ سالار ہیں، اس قسم کی شادی کو خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہونا چاہیئے تھا لیکن جیسا آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ تقریب بہت سادی سے انجام پذیر ہوئی اسلام کی مثالی خاتون کا جہیز جو مہیا کیا گیا وہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہی مختصر جہیز بھی خود حضرت زہرا علیہا السلام کے حق مہر سے خریدا گیا یوں نہیں کیا گیا کہ حق مہر کو محفوظ کرلیا گیا ہو اور لڑکی کے باپ نے ہزاروں مصائب اور دوسرے اپنی لڑکی کے لئے جہیز اپنی جیب سے مہیا کیا ہو_

پیغمبر خدا(ص) جیسے بھی ہوتا اگر چہ فرض ہی لے کر کیوں نہ ہوتا یوں کرسکتے تھے کہ بہت آبرومندانہ جہیز اس زمانے کے معمول کے مطابق اپنی اکلوتی عزیزترین بیٹی کے لئے مہیا کرتے اور یوں کہتے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں مجھے اپنی شان کا خیال رکھنا ضروری ہے میری بیٹی دنیا کہ بہترین عورتوں میں سے ایک عورت ہے اس کی عظمت اور عزت کا احترام

۵۹

کیا جانا چاہیئے اور اس کی خوشحالی کے اسباب فراہم کرنے چاہئیں میرے داماد کے خدمات او رجہاد کسی پر مخفی نہیں اس کا احترام اور اس کے زحمات کی قد ردانی اس کی آبرو کے لحاظ سے بہترین وسائل اور اسباب مہیا کر کے مجھے کرنی چاہیئے_

لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جہیز میں مقابلہ اور زیادتی کے ضرر اور مفاسد کا معاشرہ میں علم تھا اور آپ کو علم تھا کہ اگر مسلمان اس مصیبت میں گرفتار ہوگئے تو انہیں عمومی فقر اور اقتصادی دیو الیہ اور کثرت طلاق اور جوانوں کا شادی کرنے کا رجحان کم ہوجائے گا اور روز بروز بے زن جوانوں اور بے شوہر لڑکیوں کی زیادتی اور جرائم اور جنایات کی کثرت مختلف قسم کے فحشا اور اعصابی بیماریوں کا وجود میں آنا جیسے مصائب میں گرفتار ہونا پڑے گا اسی لئے اس مثالی شادی کہ جس کے منتظمین اسلام کی پہلی اور دوسری شخصیت تھیں کمال سادگی سے عمل میں لائی گئی، تا کہ یہ ملت اسلامیہ اور مسلمانوں کے زمام داروں کے لئے عمل درس واقع ہو_

حضرت علی علیہ السلام بھی ان کوتاہ فکر جوانوں میں سے نہ تھے کہ جو مال اور دولٹ کے اکٹھے کرنے کے لئے شادی کرتے ہیں کہ اگر جہیز میں کچھ کمی ہو تو ہر روز اپنی بیوی کے لئے درد سر بنے رہتے ہیں اور اسے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور اعتراضات سے ازدواجی زندگی کو متزلزل کردیتے ہیں اور زندگی باصفا اور گرم کو بے محل طفلانہ بہانوں سے انس ا ور محبت کے گھر کو اختیار قید خانے میں تبدیل کردیتے ہیں حضرت علی علیہ السلام ملت اسلامی کے امام و پیشوا تھے اور چاہتے تھے کہ اس قسم کے غلط افکار سے مبارزہ کیا جائے مال اور دولت آپ کی نگاہ میں کچھ قیمت نہ رکھتے تھے_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

پوری شیعہ تاریخ میں علماء حقہ نے جن زحمات و تکالیف کو برداشت کیا ،ان کی زحمات لوگوں کو بتائیں اور ان کے احترام کی کوشش کریں،ان کی بدگوئی اور استخفاف سے گریز کریں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' من اَفسَدَ بالعلَماء اَفسَدَدینَه''( 1 )

علماء کی اہانت کرنے والا اپنے دین کو فاسد کرتا ہے۔

یہ فرامین ان علماء کے بارے میں صادر ہوئے ہیں کہ جنہوں نے دین خدا کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کی۔ایسے علماء کی اہانت ،دین اور خدا کے دستورات کی اہانت ہے۔ کیونکہ ایسے علماء علم ودانش کو کسب کرنے کی جستجو و کوشش اور اسے معاشرے میں فروغ دینے کی وجہ سے خدا کی بارگاہ اوراہلبیت عصمت و طہارت علیہم  السلام  کے مقربین میں سے ہیں۔

اس بناء پر جو ان کی اہانت کرے،حقیقت میں  وہ دین کی اہانت کرتا ہے،اور جو خدا کے دستورات کی اہانت کرے وہ اپنے دین کو تباہ کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج23ص378

۲۰۱

نتیجۂ بحث

علم و دانش کے حصول کیلئے شوق اور ارادہ بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔لہٰذا اپنے اندر ان دونوں صفات کو ایجاد کریںاور انہیں تقویت دیں۔اس علم کو حاصل کرنے کی کوشش کہ جس کا سرچشمہ مکتب وحی ہو،اور اپنے وجود کو ان کے تابناک انوار سے منوّر کریں۔

ان علوم کو حاصل کرنے سے آپ کے نفس میںعظیم تحولات جنم لیںگے۔کیونکہ علم و دانش شعور پر اثرانداز ہوتے ہیں اور آپ کے افکار کو بلند مقام پر پہنچاتے ہیں۔

ان روحانی تحولات کا نتیجہ جاویدانی حیات اور اغیار سے پوشیدہ اسرار تک رسائی ہے۔اس صورت میں آپ کو بلند درجات کا وسیلہ فراہم ہوجائے گا۔

آپ ان عالی اور علمی مقامات کو کسب کرنے سے معاشرے اور امت کی ہدایت اور راہنمائی کریں اور انہیں ضلالت اور گمراہی نجات دے کر مکتب اہل بیت سے آشنا کروائیں۔

چو علمت ہست خدمت کن کہ زشت آید بردانا

گرفتہ چینیان احرام و مکّی خفتہ در بطحا

تمہارے پاس علم ہے تو خدمت کرو کیونکہ عالم کے لئے زشت ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے علم سے مستفید نہ کرے ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ اہل چین نے احرام بہی باندہ لیا اور ہم مدینہ میں بیٹہے سو  رہے ہیں۔

۲۰۲

بارہواں باب

توفیق

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' لَا ینفَع اجتهاد بغیر تَوفیق ''

توفیق کے بغیر کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

    انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

    سعادت کے چار بنیادی ارکان

    توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

    کامیاب اشخاص

    توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

   1 ۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

    ایک اہم نکتہ

   2 ۔ ماں باپ کی دعا توفیق کا سبب

   3 ۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

   4 ۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

    نتیجۂ بحث

۲۰۳

انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

نیک کام انجام دینے کے لئیانسان کو خداوند متعال کی جانب سے توفیق اور عنایت کی ضرورت ہوتی ہے،جب تک توفیق الٰہی شامل حال نہ ہو تب تک وہ کسی بہی خدا پسندانہ کام کو انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اپنے اہداف تک پہنچنے اور اپنے امور زندگی میں کامیابی کے لئے خداوندعالم سے دعا کرنا ضروری  ہے کہ اے پروردگار ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اہم اور عالی اہداف و مقاصد تک پہنچ سکیں اور ان کا حصول ہمارے لئے آسان فرما۔

حضرت جوادالائمہ امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں:

''اَلمؤمن يَحتاج الٰی تَوفیقٍ من اللّه وَ وَاعظٍ من نفسه وَ قَبول ممَّن يَنصَحَه''(1) مومن تین چیزوں کا محتاج ہے:

1 ۔ خدا کی طرف سے حاصل ہونے والی توفیق۔

2 ۔ اپنے نفس کے ذریعہ خود کو وعظ کرنے والا ہو۔

3 ۔ جو اسے نصیحت کرے اس کی نصیحت قبول کرے۔

اس فرمان کی رو سے توفیق الٰہی ہر مومن شخص کی ضرورتوں میں سے ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنائے،زیارت سے مشرف ہوتے وقت جس دعا کو پڑہنا مستحب ہے،اس دعا میں کہتے ہیں:

''اَلَّلهمَّ صل  نیَّتی باالتَوفیق ''(2) پروردگارا  میرے ارادہ کو  تو فیق  کے سات ھ متصل فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ تحف العقول مرحوم حرّانی:457

[2]۔ بحارالانوار:ج 102 ص162

۲۰۴

کیونکہ جس خدا پسندانہ اور نیک کام کی نیت و ارادہ میں توفیق الٰہی شامل نہ ہو ،وہ کام کبہی بہی مؤثر نہیں ہوتا۔

لہٰذا انسان کی نیت و ارادہ ،توفیق الٰہی کے ہمراہ ہونی چاہئے تاکہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔ لیکن اگر نیت کے ساتہ توفیق الٰہی شامل نہ ہو تو اس کام کا کوئی عملی اثر نہیں ہوگا،اگرچہ انسا ن وعدہ دیئے گئے ثواب سے بہرہ مند ہوجائے گا۔

اس بناء پر خدا کی توفیق ہر مؤمن کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔کیونکہ کسی نیک کام کو انجام دینے کی قدرت اور نیت ،اس کام کے وقوع پذیر ہونے کی علت تامّہ نہیںہے۔

کار خیر کو انجام دینے کے لئے نیت اور توانائی کے علاوہ توفیق الٰہی کی بہی ضرورت ہوتی ہے،اگر خدا کی توفیق آپ کے شامل حال نہ ہو تو نیک کام انجام دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔

خدا وند متعال قرآن میں حضرت شعیب کے قول کو یوں بیان فرماتا ہے ،جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تہا:

'' ان اریدَ الّا الاصلَاح مَا اَستَطَعت وَ مَا تَوفیقی الَّا باللّٰه ''( 1 )

میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے امکان میں ہو،میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک کام کو انجام دینے کے لئے فقط استطاعت اور قدرت کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی توفیق بہی مورد نیاز ہے۔

پروردگا ر کی توفیق اور لطف انسان کی قوت اور قدرت کی تکمیل کرتی ہے ورنہ صرف انسان کی توانائی مشکلات کو حل کرنے سے قاصر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ہود آیت:88

۲۰۵

اس بیان کی رو سے نہ صرف عام افراد بلکہ اولیاء خدا اور بزرگان دین بہی اسی صورت میں نیک کاموں کو انجام دینے میں کامیاب ہوسکتے  ہیں کہ جب خدا کی جانب سے توفیق شامل حال ہو۔

اس نکتہ کی جانب توجہ نہ صرف لازم اور ضروری ہے، بلکہ اس کے بہت اہم اثرات بہی ہیں۔

اس نکتہ پر اعتقاد اور توجہ کہ تمام افراد کے لئے خداپسندانہ امور کو انجام دینے میںتوفیق الٰہی کا حاصل ہونا نہ صرف لازم اور ضروری ہے بلکہ اس کے بہت مہم اثرات بہی ہیں اور وہ یہ کہ اس سے انسان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔اولیائ خدا اور بزرگان دین اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ان کے تمام نیک کاموں میں خدا کی توفیق شامل ہے، لہٰذا ان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔

وہ اس دنیا میں  خود کو کچہ بہی نہیں سمجہتے،اس اعتقاد سے ان کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔جو انہیں خود پسندی اور انانیّت سے باز رکہتا ہے۔

صبر بردرد، نہ از ہمت مردانہ ماست

درد  از او، صبر از او، ہمت مردانہ از اوست

دگری را بہ جز او،راہ بہ ویرانہ دل

نتوان داد،کہ این گوشہ ویرانہ از او  ست

شمع و پروانہ از او سوختن آموختہ اند

شعلہ شمع از او ،سوزش پروانہ از اوست

مصیبتوں پہ صبر ہماری مردانگی کی علامت نہیں ہے ، صبر درد اور ہمت مردانہ اسی کی عطا ہے لہذا اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی اور کو نہ بٹہائوکیونکہ یہ دل اسی کا گہر ہے، شمع اور پروانے نے جلنا اسی سے سیکہا شمع کا شعلہ اور پروانے کا جلنا بہی اسی سے ہی ہے۔

۲۰۶

سعادت کے چار بنیادی ارکان

نیت ، قدرت، توفیق، منزل تک پہنچنا۔

توفیق کے مطابق عمل کرنے والا انسان سعادتمند ہوتاہے ،یعنی جو نیت و ارادہ اور قدرت و توفیق کے علاوہ توفیق الٰہی کو عملی صورت میں لائے اور شیطان کے فریب و وسوسہ سے توفیق کو نہ کہودے۔ بہت سے لوگ کامیابی کی تمام شرائط کے با وجود منفی و شیطانی افکار کی وجہ سے کام کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں اور یوں توفیق کہودیتے ہیں۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' مَا کلّ مَن نَویٰ شَیئا قَدَرَ عَلَیه وَ لَا کلّ مَن قَدَرَ عَلیٰ شئی وفّقَ لَه وَلَا کلّ مَن وفّقَ لشَئی اَصَابَ لَه فَاذااجتَمَعَت النّيةوَالقدرَة وَالتَّوفیق وَالاصَابَةفَهنَالک تَمَّت السَّعَادَة''(1)

ایسا نہیں ہے کہ جو شخص کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر ے وہ اسے انجام دینے کی قدرت بہی رکہتا ہو اور جو قدرت بہی رکہتا ہو وہ اسے انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو،نیز ایسا بہی نہیں ہے کہ جو کسی کام انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو وہ اس تک پہنچ جائے ، پس جب نیت، قدرت، توفیق اور مقصد تک پہنچنا ایک ساتہ جمع ہوجائیں تو انسان کی سعادت مکمل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۵ ص۲۱۰

۲۰۷

توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

روایت سے لائے گئے نکتہ سے استفادہ کرتے ہیں کہ توفیق کے مسئلہ میں اجباری طور پر اجراء کی قدرت کا وجود نہیں ہے،کیونکہ سعادت تک پہنچنے کے لئے توفیق کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کی بہی ضرورت ہے۔توفیق،ایک ایسی قوت ہے کہ جو انسان کی خوبیوں اور پسندیدہ امور کی طرف ہدایت کرتی ہے۔حقیقت میں توفیق نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے راہنمائی کرتی ہے۔اس مسئلہ میں جبر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ کامیاب فرد اسے انجام دینے کے لئے مجبور نہیں ہے البتہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قوت سے استفادہ کرے اور اسے ضائع نہ کرے۔اس بناء پر توفیق نیک اعمال کے لئے فقط راہنمائی کرتی ہے۔اس میں کسی قسم کا اجبار اور اکراہ موجود نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''  لَا قَائدَ خَیر من التَّوفیق'' (1) توفیق سے بہتر کوئی راہنماموجود نہیں ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) توفیق کو بہترین راہنما کے عنوان سے متعارف کرواتے ہیں ۔ کیونکہ جس طرح ہم نے کہا کہ اعطائ توفیق میں کوئی اجباری قدرت پوشیدہ نہیں ہوتی، لہٰذا کبہی خدا ہمیں توفیق عنایت کرتا ہے لیکن ہم اسے ضائع کرتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) نے جو تعبیر فرمائی ہے وہ ان افراد کے لئے جواب ہے کہ جو نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں۔اگر ان سے اس بارے میں پوچہا جائے اور ان پر اعتراض کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا وند تعالی نے ہمیں توفیق عطا نہیں کی ۔اس بیان کی رو سے واضح ہوجاتا ہے کہ بہت سے موارد میں توفیق الٰہی ہماری مدد کرتی ہے۔لیکن ہم اسے ضائع کر دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اس بناء پر حتمی کامیابی اور ہدف تک رسائی کی شرائط میں سے ایک شرط توفیق الٰہی کے مطابق عمل کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج9ص41

۲۰۸

کامیاب اشخاص

مرحوم سید محمد باقر قزوینی بزرگ شخصیت کے مالک تہے ۔ وہ عظیم و بیکران توفیق سے بہرہ مند تہے۔یہ مرحوم بزرگ علماء شیعہ میں سے اور خلق خدا کے گزار تہے ،یہ سید بحرالعلوم کے بہانجے تہے۔

ان کے بہتیجے مرحوم سید مہدی قزوینی (جو خود بہی بزرگ علماء میں سے تہے) نقل کرتے ہیں کہ عراق میں طاعون کی وباء پہیلنے سے دو سال پہلے اس بزرگ نے اس کے آنے کی خبر دی تہی اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں میں سے ہر ایک کو دعا لکہ کر دی اور فرمایا حضرت امیرالمؤمنین(ع) نے خواب میں مجہ سے فرمایا ہے'' وَ بکَ ختم یا وَلَدی'' طاعون کی بیماری تم پر ختم ہوجائے گی۔اس سال انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت کہ جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔انہوں نے شہر اور شہر سے باہر ہر میت کی نماز پڑہی،وہ ہر بیس ،تیس یا اس سے کم یا زیادہ افراد پر ایک نماز پڑہتے۔طاعون کے مرض سے اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں کہ ایک دن ہزار افرادکے لئے  ایک نماز بجا لائی گئی۔وہ  1246 ہ کو عرفہ کی رات نمازمغرب کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔وہ طاعون کے مرض سے ہلاک ہونے والے آخری  شخص تہے۔

ایک بار وہ دسیوں علماء و صلحاء کے ہمراہ کشتی میں سوار تہے،طوفان کی وجہ سے وہ سب غرق ہونے کے قریب تہے ،لیکن اس بزرگوار نے اپنی غیر معمولی معنوی قوّت سے طوفان کو ٹال دیا اور کشتی کو غرق ہونے سے بچالیا۔ان کے بہتیجے کا کہنا ہے کہ علماء و صالحین کے ایک گروہ کے ساتہ کشتی میں سوار ہوکر کربلا سے آرہے تہے کہ اچانک بہت تیز ہوا چلنے لگی کہ جس سے کشتی کے الٹنے کا خطرہ لاحق ہوا،ہمارے ساتہ ایک شخص بہت خوفزدہ اور مضطرب ہوگیا اور اس کی حالت متغیر ہوگئی،وہ کبہی روتا تہا اور کبہی حضرت امیرالمؤمنین سے متوسّل ہوتا،لیکن اس دوران مرحوم سید اپنی عادی حالت میں بیٹہے رہے،

۲۰۹

جب وہ شخص خوف کے مارے بہت زیادہ رونے لگا تو اس سے فرمایا:تم کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ہوا،آندہی،اور رعد و برق یہ تمام خدا کے امر کے مطیع ہیں،پہر انہوں نے اپنی عباء کو اکٹہا کیا اور ہوا کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:آرام کرو اسی وقت طوفان تہم گیا اور کشتی بہی طوفان سے بچ گئی۔

یہ بزرگوار اس توفیق کی وجہ سے ایسے عظیم علوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ عام حالات اور شرائط میں جن کا حصول ممکن نہیں ہے۔

اس مرحوم کی شخصیت اور غیر معمولی عظمت کو بیان کرنے والے اس واقعہ کو مرحوم محدّث نوری یوں بیان کرتے ہیں۔امام زمان نے اس بزرگوار کو بشارت دی تہی کہ مستقبل میں تمہاری روزی علم توحید ہوگا۔مرحوم فرماتے ہیں کہ اس بشارت کے بعد ایک رات خواب میں دیکہا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے ،ان میں سے ایک کے ہاتہ میں کچہ لوح تہے جن پر کچہ لکہا تہا اور دوسرے کے ہاتہ میں ایک میزان تہا، ان فرشتوں کے دونوں لوح ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکہے اور انہیں تولنے لگے ،پہر انہوں نے وہ لوح مجہے دیئے اور میں نے ان پر لکہی ہوئی تحریر کو پڑہا ،پہر انہوں نے تمام لوح میرے سامنے رکہے اور میں نے انہیں پڑہا ،ان میں سے بعض لوح پر اصحاب پیغمبر (ص) اور اصحاب ائمہ اطہار (سلمان،ابوذر،سے نوّاب اربعہ تک)کے علوم و عقائد لکہے تہے اور بعض دیگر پر علماء شیعہ جیسے کلینی،صدوق،تا بحرالعلوم اور ان کے متاخرین علماء کے علوم و عقائد درج تہے،وہ دونوں فرشتے پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اطہار علیہم  السلام  کے اصحاب اور بزرگ شیعہ علماء کے علوم و عقائد کو ترازو میں رکہ کر تول رہے تہے۔اس خواب کی وجہ سے میں علوم کے بہت سے اسرار سے آگاہ ہوا کی اگرمجہے نوح کی عمر بہی مل جاتی اور میں جستجو کرتا تو اس کا ایک فیصد بہی حاصل نہ ہوتا۔

۲۱۰

توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

1۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

خدا وند متعال سے توفیق کی درخواست و دعا کریں تاکہ بزرگان دین کو حاصل ہونے والی توفیقات الٰہی سے ہم بہی بہرہ مند ہوسکیں ،اکثر دعائوں میں خدا وند بزرگ و برتر سے توفیق کا سوال کرتے ہیں۔

1 ۔ نماز جعفر طیار کے بعد دعا میں پڑہتے ہیں :

''اللّٰهمَّ انّی اَساَلکَ تَو فیقَ اَهل الهدیٰ وَ اَعمَالَ اَهل التَّقویٰ''(1)

پروردگار ا میں تجہ سے اہل ہدایت کی توفیق اور اہل تقویٰ کے اعمال و رفتار کا سوال کرتا ہوں۔

یہ جملہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ فقط توفیق کا حاصل ہوجانا نیک کام کو انجام دینے کی دلیل نہیں ہے ،اسی وجہ سے اس دعا میں اہل ہدایت کی توفیق طلب کرنے کے علاوہ خدا سے پرہیزگاروں کے اعمال و رفتار کا بہی سوال کرتے ہیں۔

2 ۔آیت قرآن''صرَاطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیہم'' کی تفسیر میں امام حسن عسکری  (ع) سے نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:

''قولوا اهدنَا الصّراطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیهم باالتَّوفیق لدینک وَ طَا عَتکَ''(2)

کہو کہ ہمیں ان کے راستے کی طرف ہدایت فرما جن پر تو نے اپنے دین کو قبول کرنے اور تیری اطاعت کرنے کی توفیق کے ذریعہ نعمتیں نازل کی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۹۱ص۱۹۸

[2]۔ معانی الاخبار: 15 ، بحارالانوار: 1024، تفسیر الامام العسکری:17

۲۱۱

اس بناء پر خدا کی اطاعت و فرمانبرداری اور دینداری کی توفیق ،خدا کی طرف سے بندوں کو عنایت ہونے والا لطف ہے۔ہم سب کو خدا سے دعا کرنی چاہیئے کہ پروردگار دنیا کے اس پر خطر سفر میں توفیق الٰہی کو ہمارا مونس و ہمسفر قرار دے تاکہ ہمارا سفر خیریت سے اختتام پذیر ہو۔

3 ۔ماہ مبارک رمضان کی تیرہویں دن کی دعا میں آیا ہے:

''اَلَّلهمَّ وَفّقنی فیه عَلی التّقیٰ وَ صحبَةالاَبرَار''( 1 )

پروردگارا! اس دن میں مجہے تقویٰ کی اور نیک و متقی افراد کی صحبت کی توفیق عطا فرما۔

4 ۔ماہ رمضان کی بائیسویں شب کی دعا میں وارد ہوا ہے :

''وَارزقنی فیها التَّوفیقَ لماوَفَّقتَ له شیعَةَ آل محمَّد ''( 2 )

پروردگارا! آج کی رات میں مجہے وہ توفیق عنایت فرما کہ جس سے تو نے پیروان  آل محمد کو کامیاب فرمایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۳۷

[2]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۵۳

۲۱۲

ایک اہم نکتہ

اگرچہ ممکن ہے کہ سائل مقربین آل محمد اور شیعوں کی توفیقات کو بہت بڑی حاجت سمجہے اور اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کے سامنے پست اور  نا اہل سمجہے ، لیکن چونکہ وہ خدا بزرگ و برتر کے حضور میں ہے اور خالق کائنات کی بارگاہ میں سوال کررہا ہے،لہٰذا وہ بہترین اور پر ثمر ترین حاجات طلب کرے ۔ کیونکہ خدا کے حضور اور خدا کی بارگاہ میں خدا کی عظمت و بزرگی کو مدّ نظر رکہیں نہ کہ فقط اپنی پستی و ذلت کو ملاحظہ کریں۔

بعض لوگ معتقد ہیں کہ انسان خدا وند متعال سے اپنی حد اور اوقات سے زیادہ طلب نہ کرے ، لہٰذا اپنی حیثیت و صلاحیت اور حدود کو مد نظر رکھ کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی دعا کریں۔اگر فرض کریں کہ   یہ عقیدہ صحیح بھی ہو تو یہ کلیّت نہیں رکھتا۔کیونکہ بعض مقامات پر اور بعض اوقات  انسان خدا کے نزدیک اس قدر عظیم و عالی مقام رکھتا ہے کہ انسان خدا سے ہر قسم کی عظیم حاجت طلب کرسکتا ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)  کی زیارت  وداع میں پڑھتے ہیں:''اَلَّلهمَّ وَفّقنا لکلّ مَقامٍ مَحمودٍوَ اَقلبنی من هذا الحَرَم بکلّ خَیرٍ مَوجودٍ'' (1)

پروردگارا، مجہے ہر قسم کے مقام محمود کے حصول کی توفیق عطا فرما اور مجہے اس حرم سے ہر موجود خیر کے ساتہ لوٹا۔

خدا کے نزدیک حضرت امیرالمؤمنین  کے حرم مطہر کی شرافت و محبوبیت کی وجہ سے زائر کو اجازت ہے کہ وہ خدا سے ہر قسم کی توفیق اور مقام محمود کو طلب کرسکتا ہے۔

اسی بناء پر اگرچہ سائل بعض مقامات کو طلب کرنے کی لیاقت و صلاحیت نہ رکہتا ہو لیکن زمان ومکان کی عظمت کی وجہ سے ایسی بزرگ حاجات کو طلب کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۱۰۰ص۳۸۲

۲۱۳

2۔ ماں باپ کی دعا  توفیق کا سبب

ماں باپ کی دعا توفیق کو ایجاد کرنے میں مؤثر کردار کی حامل ہے،بعض بزرگان اپنی تمام تر توفیقات کو اپنے والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،مرحوم مجلسی جو کہ کثرت تالیفات اور اہلبیت کی خدمت کے لحاظ سے شیعہ علماء میں کم نظیر بلکہ بے نظیر ہیں،وہ اپنی عظیم توفیقات کو اپنے والد بزرگوار کی دعائوں کے مرہون منت سمجہتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول فرماتے ہیں کہ ایک رات نماز شب سے فارغ ہونے کے بعد مجہ  پرایک ایسی حالت  طاری ہوئی کہ جس سے میں یہ سمجہا کہ اگر دعا کروں تو ضرور مستجاب ہوگی،میں ابہی اسی سوچ   میں مبتلا تہا کہ آخر خدا سے کس چیز کی دعا کروں؟اچانک جہولے سے سے محمد باقر کے رونے کی آواز بلند ہوئی،میں نے کہا :پروردگار بحق محمد و آل محمدعلیہم السلام اس بچے کو شریعت محمد(ص) اور دین کا خادم اور مروّج قرار دے اور اسے بے انتہا توفیقات سے بہرہ مند فرما۔صاحب مراةالاحوال کہتے ہیں علامہ مجلسی سے ظاہر ہونے والے غیر معمولی امور مسلما ًاسی دعا کے آثار ہیں(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:411

۲۱۴

3۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ توفیق حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک خدا سے دعا کرنا ہے ۔ دل سے دعا کے لئے ہاتہ اٹہائیںاور پروردگار بزرگ و مہربان سے نیک مقاصد کے حصول کی دعا کریں،دعا کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی و کوشش بہی کریں ورنہ آپ کی دعا استہزاء اور تمسخر شمار ہوگی۔

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں:

''مَن سَاَله التَّوفیق وَ لَم یَجتَهد فَقَد استَهزَئَ بنَفسه ''(1)

جو خدا سے توفیق کا سوال کرے لیکن اس کے لئے کوشش نہ رے وہ اپنے ساتہ مذاق کرتا ہے۔

کیونکہ توفیق کی دعا کے علاوہ ایک اور بنیاد بہی ہے کی جسے سعی و کوشش کہتے ہیں ،اس بناء پر عالی مقاصد اور خدا پسندانہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے توفیق کی دعا کے علاوہ کوشش اور جستجو بہی کریں، جب آپ دعا کے بعد کوشش بہی کریں گے تو خدا کی توفیق آپ کے لئے شامل حال ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۳۵6

۲۱۵

4۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

پروردگار کی بے شمار نعمتوں کے بارے میں تفکر کرنا توفیق حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔خدا کی مخلوقات میں تفکر سے آپ خدا کی توفیقات کو جلب کرسکتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''مَن تَفَکَّر فی آلائ اللّه وفّقَ '' (1) جو خدا کی نعمتوں میں تفکر کرے ،وہ کامیاب ہوگیا۔

کیونکہ انسان اس ذریعہ سے اپنے دل میں خدا کی محبت پیدا کرتا ہے۔جب دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجائے تو وہ خدا کی طرف جذب ہوجاتا ہے  اور خدا کی طرف مجذوب ہونے کے ثمرات میں سے ایک ہے۔اسی وجہ سے امیرالمؤمنین(ع) اپنے دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:''التَّوفیق من جَذَبات الرَّب '' (2) توفیق خداوند تعالیٰ کے جذبات میں سے ہے۔

مذکورہ بیان کے رو سے انسان خدا کی بے شمار نعمتوں میں تفکر کے ذریعہ توفیقات کو اپنی طرف جذب کرکے درگاہ الہٰی کے مقربین سے مخصوص جذبہ ربّانی سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔البتہ اس امر کی جانب متوجہ رہیں کہ اہلبیت اطہار کا وجود مبارک نہ صرف خدا کی مہم ترین نعمت ہے ۔بلکہ ہم پرنازل ہونے والی ہر نعمت ان ہی مقدس ہستیوں کے طفیل ہے،یہ بزرگ ہستیاں وجہ تخلیق کائنات ہیں،اسی بناء پر اہلبیت عصمت و طہارت بالخصوص اس خاندان کی آخری کڑی حضرت امام زمان کے فضائل و مناقب میں تفکر و تامّل کے ذریعہ اپنی توفیقات میں اضافہ کریں۔اس صورت میں جذبہ رحمانی شامل حال ہوگا، اس صراط مستقیم پر عمل پیرا رہنے اور ان ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے سے آپ بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ ص۳۰۸

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۱۴۴

۲۱۶

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد اور عالی معنوی اہدا ف تک پہنچنے کے لئے ارادہ و تصمیم کے علاوہ توفیق کی قوت سے بہی بہرہ مند ہوں،توفیق راہنما کی حیثیت رکہتی ہے اسی وجہ سے اگرچہ یہ کامیابی کی علت تامہ نہیں ہے لیکن اس کے متحقق ہونے سے مؤثر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آپ کی ذمہ داری ہے کہ توفیق کے حصول کے لئے دعا کریں اور پہر توفیقحاصل ہونے پر اکتفاء نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ یہ حاصل ہونے والی توفیق ضائع نہ ہوجائے۔

خدا کی نعمتوں اور بالخصوص وجود اہلبیت اطہارعلیہم  السلام کی عظیم نعمت کے فضائل ومناقب میں تفکر کرنا ، توفیق کے مہم ترین عوامل میں سے ہے ،اپنی توفیقات میں اضافہ کے لئے حضرت بقیةاللہ (ارواحنا فداہ) کی عظمت پر تفکر کریں اور امام عصر کی غیبی امداد کو اپنے ذہن میں پروان چڑہائیں اس سے آپ کی توفیقات میں اضافہ ہوگا ،ضعف، سستی و کاہلی اور گناہوں کے ارتکاب سے فراہم ہونے والی توفیقات کو ضائع نہ ہونے دیں۔

راہ  جستن  ز تو ہدایت از او        جہد کردن زتو عنایت ا ز او

جہد بر  تو  است  و  بر خدا  توفیق     زآن کہ  توفیق  و جہد ہست رفیق

یعنی تم کسی راہ کا انتخاب کرو اور وہ تمہاری ہدایت کرے گا۔تم کوشش کرو ،خدا عنایت کرے گا۔ جدوجہد کرنا تمہاری ذمہ داری ہے  جب تم کوشش کرو گے تو خدا تمہیں توفیق عطا فرمائے گا۔کیونکہ توفیق اور کوشش ہمیشہ سے دوست ہیں۔

۲۱۷

تیرہواں باب

یقین

حضرت امیر المو منین علی علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' باالیَقین تد رَک غَایَة القصویٰ ' 'یقین کے ذریعہ مقصد کی انتہا حاصل ہوتی ہے ۔    یقین کی اہمیت    یقین کے آثار

   1 ۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے

    مجلس مباہلہ میں حاضری

    ۲۔ یقین اعمال کی اہمیت میں اضافہ کا ذریعہ

   3 ۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے

    یقین کو متزلزل کرنے والے امور

   1 ۔ شک و شبہ

   2 ۔ گناہ

    یقین کہودینا

    تحصیل یقین کے ذرائع

   1 ۔ کسب معارف

   2 ۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز

   3 ۔ تہذیب و اصلاح نفس

    نتیجۂ بحث

۲۱۸

یقین کی اہمیت

یقین با عظمت عالم غیب کی طرف جانے کا آسان اور سیدہا راستہ ہے۔ یقین عالم ملکوت تک پہنچنے اور نا مرئی دنیا سے ارتباط کے لئے صراط مستقیم ہے۔ یقین تہذیب یافتہ اشخاص اور بزرگان کی اہم ترین صفات میں سے ہے، یقین اہلبیت اطہار کے اصحاب اور اللہ کے خاص بندوں کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔یقین ،انسان میں قوی ترین روحانی قوّت کو ایجاد کرتا ہے، یقین خاندان وحی سے ارتباط کا وسیلہ ہے، دل میں یقین کا وجود معنوی پیوند کے موانع کو برطرف کرتا ہے اور اہلبیت کے تقرب اور ان تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔یقین کی افزائش سے آپ اپنے دل کو ملائکہ کی قیامگاہ قرار دے کر اسے شیاطین کے شر اور وسوسوں سے نجات دے سکتے ہیں۔شیطان کے شر سے رہائی پانے کے بعد آپ کو بہت سے معنوی فیض حاصل ہوںگے۔اس صورت میں آپ کا دل نورانیت سے سرشار ہوجائیگا۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ (عج)  کے ظہور کے دن تمام لوگوں کے دل و جان میں یقین پیدا ہوجائیگا ، کیونکہ اس دن جب تاریخ کی قدیم ترین  عبات گاہ (خانہ کعبہ) سے حضرت قائم آل محمد (عج)  کی حیات بخش صدا لوگوں کی سماعتوں تک پہنچے گی توابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دلوںمیں خوف طاری ہوجائے گا ،حضرت بقیةاللہ اعظم  کے ظہور سے سب شیاطین ہلاک ہوجائیں گے۔ اس وقت لوگوں کے دل وسوسہ سے نجات پاجائیں گے اور ان کے دل و جان پر آرام و اطمینان کی حاکمیت ہوگی۔اس دن لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان میں اضافہ ہوگا۔اس دن یقین پیدا کرنے والے سب امور فراہم ہوجائیں  گے اور یقین کے ذریعہ سب کے باطن کی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ ظہور کے وقت سب اہل یقین بن جائیں گے، ہم مقدمہ کے طور پر کچہ مطالب ذکر کرتے ہیں:  خدا وند متعال قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بارے میں فرماتا ہے:

۲۱۹

'' وَ کَذٰلکَ نری َابرَاهیمَ مَلَکوت السمٰوات وَالاَرض وَ لیَکون من المؤمنین''(1)

او ر اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمان اور زمین کے اختیارات دکہاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

صفوان کہتا ہے کہ میں نے امام رضا(ع)  سے پوچہا کہ خدا نے حضرت ابراہیم  (ع) کے بارے فرمایاہے:

'' اَوَ لَم نؤمن قَال بلیٰ وَ لٰکن لیَطمَئنَّ قَلبی '' (2)

کیا ابراہیم کو یقین نہیں تہا اور کیا ان کے دل میں شک و شبہہ موجود تہا؟

'' قَالَ لَا،کَانَ عَلیٰ یَقینٍ وَ لٰکن اَرادَ منَ اللّٰه الزّیَا دَةَ فی یَقینه ''(3)

حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا : نہیں ، انہیں یقین تہا لیکن اس نے خدا سے چاہا کہ اس کا یقین زیادہ ہوجائے۔

اس بناء پر حضرت ابراہیم  نے ملکوت آسمانی اور زمین کو دیکہا اور ان کے یقین میں اضافہ ہوا ملکوت آسمان و زمین کو دیکہنے کی وجہ سے ان کا یقین زیادہ ہوا ، پہر ان میں دوسروں  کے دلوں میں بہی یقین ایجاد کرنے کی قدرت پیدا ہو گئی۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کی حالت اور امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت پر توجہ کریں کہ آنحضرت صاحب ملکوت ہیں وہ جلوہ ولایت و ملکوتی سے زمین و آسمان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کیا اس زمان کے لوگ یقین یقین حاصل نہیں کرسکتے؟پس عصر غیبت میں بہی ہر کوئی یقین حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔یقین حاصل کرنے سے انسان شیطان پر حاکم بنسکتا ہے اور معنویت کے صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ  آیت انعام:75

[2]۔ سورہ بقرہ  آیت:260

[3]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۱۷6

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293