فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون26%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104293 / ڈاؤنلوڈ: 4814
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پیغمبر اسلام(ص) نے جناب خدیجہ کے بعد سورہ سے شادی کرلی_ اس کے علاوہ اور کئی عورتیں تھیں_ جو تمام کی تمام جناب فاطمہ (ع) سے اظہار محبت کیا کرتی تھیں، لیکن پھر بھی ایک یتیم بچے کے لئے بہت سخت گزرتا ہے جب وہ اپنی ماں کی جگہ کو خالی دیکھے اور اس کی جگہ کسی اور عورت کو رہتا دیکھے_ سوکن خواہ کتنی ہی مہربان اور اچھی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ محبت اور خالص شفقت جو ماں کی طرف سے ہوتی ہے وہ اس بچے کو نہیں دے سکتی_ صرف ماں ہی ہے کہ جو ناز و نعمت، شفقت و محبت سے بچے کے دل کو تسکین دے سکتی ہے_

جناب فاطمہ (ع) کو جس شدت سے محرومی کا احساس ہو رہا تھا اسی شدت سے پیغمبر(ص) بھی آپ سے اظہار محبت فرماتے تھے، کیونکہ پیغمبر خدا(ص) جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کو ماں کی کمی کا احساس ہے اور اس کمی کو پورا ہوتا چاہیئے، اس وجہ سے اور دوسری کئی وجوہ کی بناء پر روایت میں وارد ہوا کہ پیغمبر(ص) جب تک اپنی بیٹی کو نہ چوم لیتے رات کو نہیں سوتے تھے_(۱)

یہ تھوڑے سے آٹھ سال کے واقعات ہیں جو پیغمبر(ص) کی بیٹی جناب فاطمہ (ع) پر مکہ معظمہ میں وارد ہوئے ہیں_

واضح رہے اگر چہ اس قسم کے واقعات اور حوادث جو کسی بچے کی روح پر وارد ہوں تو اس کے اعصاب کو مختل کردیتے ہیں اور اس کی فکر صلاحیت اور جسمی قوت کو کم کردینے کے لئے کافی ہوا کرتے ہیں لیکن اس قسم کا حکم ہر ایک انسان کے لئے کرنا صحیح نہیں ہے_

کیونکہ یہی ناگوار واقعات اور دائمی گرفتاریاں اور متصل مبارزہ ممتاز اور شائستہ انسانوں کی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اس کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج۲_ ص ۹۳_

۴۱

صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے مشکلات کے مقابلے کے لئے ثابت قدم بنا دیتے ہیں_ جب تک پتھر پر غیر معمولی حرارت معدن میں وارد نہ ہو وہ خالص اور بیش بہا قیمت سونا بن کر نہیں نکلتا_

جی ہاں جناب زہرہ(ع) کی زندگی کے دوران خطرناک حوادث اور بحرانی اوضاع نے آنجناب کی روح کو نہ صرف ضعیف نہیں کیا بلکہ الٹا اپنے وجود کے گوہر کو صیقل کر کے تابناک و درخشان بنادیا اور آپ کو ہر قسم کے حالات سے مبارزہ کرنے کے لئے آمادہ اور طاقتور بنادیا تھا_

فاطمہ (ع) مدینہ کی طرف

پیغمبر خدا(ص) بعثت کے تیرھویں سال جان کے خطرے کی وجہ سے مجبور ہوگئے کہ مکہ کو چھوڑ د یں اور مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں_ چنانچہ آپ نے جاتے وقت حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) کو خداحافظ کہا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے میری دختر فاطمہ (ع) اور اپنی ماں فاطمہ بنت اسد اور چچا حمزہ کی بیٹی فاطمہ کو اور دوسری مستورات کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جلد از جلد چلے آنا، میں تمہارا انتظار کروں گا آپ(ص) نے یہ فرمایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_

حضرت علی (ع) بھی پیغمبر کے دستور کے مطابق جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو سوار کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ راستہ میں ابو واقد اونٹوں کو چلانے والے_ اونٹوں کو تیزی کے ساتھ چلا رہے تھے_ حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ نرمی کرو اور اونٹوں کو آہستہ چلاؤ، کیونکہ عورتیں کمزور ہوا کرتی ہیں جو سختی کو برداشت نہیں کرسکتیں، ابو واقد نے عرض کی کہ میں دشمنوں سے ڈرتا ہوں کوئی ہمارا تعاقب نہ کر رہا ہو جو ہم تک آپہنچے حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا پیغمبر(ص) نے مجھ

۴۲

فرمایا کے تجھے دشمن کی طرف سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی_

جب آپ ''ضجنان'' کے قریب پہنچے تو آٹھ سوار پیچھے سے آئے حضرت علی علیہ السلام نے عورتوں کو محفوظ اور امن کی جگہ کردیا اور تلوار لے کر ان دشمنوں پر حملہ کردیا اور ان کو پراگندہ و متفق کردیا پھر عورتوں کو سوار کیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ پیغمبر اسلام(ص) جب ''قبا'' پہنچے تو وہاں بارہ دن تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو لے کر آنحضرت کی خدمت با برکت سورہ سے شادی کی اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے گھر لے گئے اس کے بعد آپ نے جناب ام سلمہ سے نکاح کیا اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے سپرد کیا تا کہ آپ ان کی سرپرستی اور نگاہ داری کریں جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو میرے سپرد کیا تا کہ میں ان کی تربیت میں کوشش کروں، میں بھی آپ کی تربیت اور راہنمائی میں کوتاہی نہیں کرتی تھی لیکن خدا کی قسم آپ مجھ سے زیادہ با ادب اور سمجھدار تھیں_(۲)

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج ۱_ ص۱۷۵، ۱۸۳_

۲) دلائل الامامہ_ ص ۱۱_

۴۳

حصّہ دوم

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی

۴۴

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر خدا(ص) کی لڑکی اور اپنے زمانے کی ممتاز خواتین سے تھیں قریش کے اصل اور شریف خاندان سے آپ کے والدین تھے_ جمال ظاہری اور روحانی کمالات اور اخلاق آپ نے اپنے ماں باپ سے ورثہ میں پایا تھا، آپ انسانی کمالات کے اعلی ترین کمالات سے مزین تھیں آپ کے والد کی شخصیت دن بدن لوگوں کی نگاہوں میں بلند ہو رہی تھی آپ کی قدرت اور عظمت بڑھ رہی تھی اس لئے آپ کی دختر نیک اختر کی ذات بزرگان قریش اور باعظمت شخصیات اور ثروت مند حضرات کی نگاہوں میں مورد توجہ قرار پاچکی تھی_ تاریخ میں ہے کہ اکثر اوقات بزرگان آپ کی خواستگاری کرتے رہتے تھے لیکن پیغمبر اسلام(ص) بالکل پسند نہیں فرماتے تھے، آنحضرت ان لوگوں سے اس طرح پیش آتے تھے کہ انہیں معلوم ہوجاتا تھا کہ پیغمبر اسلام نے ناراض ہیں_(۱)

جناب رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کو علی (ع) کے لئے مخصوص کردیا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے_(۲)

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج ۱_ ص ۲۵۳_

۲) کشف الغمہ_ ج۱_ ص ۳۵۴_

۴۵

پیغمبر اسلام(ص) خداوند عالم کی طرف سے مامور تھے کہ نور کا عقد نور سے کریں _(۱)

لکھا ہے کہ جناب ابوبکر بھی خواستگاروں میں سے ایک تھے، ایک دن وہ اسی غرض سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وصلت کروں، کیا ممکن ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد آپ مجھ سے کردیں؟ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) ابھی کمسن ہے اور اس کے لئے شوہر کی تعیین خدا کے ہاتھ میں ہے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں_ جناب ابوبکر مایوس ہوکر واپس لوٹے راستے میں ان کی ملاقات جناب عمر سے ہوگئی تو اپنے واقعہ کو ان سے بیان کیا جناب عمر نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے تمہارے مطالبے کو رد کردیا ہے_ اور آپ (ص) نہیں چاہتے تھے کہ اپنی دختر تجھے دیں_

جناب عمر بھی ایک دن جناب فاطمہ (ع) کی خواستگاری کی غرض سے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعیان بیان کیا_ پیغمبر خدا(ص) نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ فاطمہ (ع) کمسن ہے اور اس کے شوہر کا معین کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، کئی دفعہ ان دونوں صاحبان نے خواستگاری کی درخواست کی جو قبول نہیں کی گئی_

عبدالرحمن بن عوف او رجناب عثمان بن عفان جو دونوں بہت بڑے سرمایہ دار تھے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس خواستگاری کے لئے حاضر ہوئے، عبدالرحمن نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) اگر فاطمہ (ع) کی شادی مجھ سے کردیں تو میں سو سیاہ اونٹ آبی چشم کہ جن پر مصری کتان کے کپڑوں سے بارلادا گیا ہو اور دس ہزار دینار بھی حق مہر دینے کے لئے حاضر ہوں جناب عثمان نے عرض کیا کہ میں بھی حاضر ہوں کہ اتنا ہی مہر ادا کروں اور مجھے عبدالرحمن پر ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ میں اس سے پہلے ایمان لایا ہوں_

پیغمبر اسلام(ص) ان کی گفتگو سے سخت غضبناک ہوئے اور انہیں یہ سمجھانے کے لئے

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۱۹_

۴۶

کہ میںمال سے محبت نہیں رکھتا آپ نے ایک مٹھی سنگریزوں کی بھرلی اور عبدالرحمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا کہ تم خیال کرتے ہو کہ میں مال کا پرستار ہوں اور اپنی ثروت و دولت سے مجھ پر فخر و مباہات کرنا چاہتے ہو کو مال و دولت کے دباؤ سے میں فاطمہ (ع) کا عقد تجھ سے کردوں گا_(۱)

حضرت علی (ع) کی پیشکش

اصحاب پیغمبر(ص) نے اجمالاً محسوس کرلیا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) کا دل چاہتا ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد علی (ع) سے کردیں لیکن حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش نہیں ہو رہی تھی ایک دن جناب عمر اور ابوبکر اور سعدبن معاذ و ایک گروہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور مختلف موضوعات پر بحث کر رہے تھے اسی دوران جناب فاطمہ (ع) کا ذکر بھی آگیا، ابوبکر نے کہا کہ کافی عرصہ سے عرب کے اعیان اور اشراف فاطمہ (ع) کی خواستگاری کر رہے ہیں لیکن پیغمبر (ص) نے کسی بھی درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے_

ابھی تک علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے فاطمہ (ع) کی خواستگاری نہیں کی گئی میں گمان کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام کی طرف سے اس اقدام نے کرنے کی وجہ ان کی تہی دست ہونا ہے میرے سامنے یہ مطلب واضح ہے کہ خدا اور پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) کو حضرت علی (ع) کے لئے معین کر رکھا ہے_

اس کے بعد ابوبکر نے جناب عمر اور سعد سے کہا اگر تم آمادہ ہو تو ہم مل کر علی (ع) کے پاس چلیں اور ان کے سامنے اس موضوع کو پیش کریں اور اگر وہ شادی کرنے کی

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۳۴۵_ تذکرة الخواص_ ص۳۰۶_

۴۷

طرف مائل ہوں اور تہی دست ہونے کی بنیاد پر وہ شادی نہ کر رہے ہوں تو ہم ان کی مدد کریں سعد بن معاذ نے اس پیشکش کو بسر و چشم قبول کیا اور ابوبکر کو اس کام میں تشویق دلائی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ جناب عمر او رابوبکر اور سعد بن معاذ اسی غرض سے مسجد سے باہر آئے اور حضرات علی علیہ السلام کی جستجو میں چلے گئے لیکن آپ کو انہوں نے گھر پہ نہ پایا اور معلوم ہوا کہ آپ ایک انصاری کے باغ میں اونٹ کے ذریعے ڈول کھینچ کر خرمے کے درختوں کو پانی دے رہے ہیں یہ لوگ اس طرف گئے_ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور میرے پاس کس غرض سے آئے ہو؟ ابوبکر نے کہا اے علی (ع) تم کمالات کے لحاظ سے ہر ایک سے بالاتر ہو ہم سب آپ کے مقا اور وہ علاقہ جو رسول خدا(ص) کو تم سے ہے اس سے آگاہ ہیں، بزرگان اور اشراف قریش حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگاری کے لئے جاچکے ہیں، لیکن تمام لوگوں کی باتوں کو پیغمبر اکرم(ص) نے رد فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ہم گمان کرتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو آپ کے لئے مخصوص کیا ہے دوسرا اور کوئی بھی شخص اس سعادت پر افتخار کی صلاحیت نہیں رکھتا ہیں یہ خبر نہیں ہوسکی کہ آپ اس اقدام میں کیوں کوتاہی کر رہے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابوبکر کی یہ گفتگو سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے اور فرمایا اے ابوبکر تم نے میرے احساسات اور اندرونی خواہشات کو ابھارا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس سے میں غافل تھا_ خدا کی قسم تمام دنیا حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگار ہے اور میں بھی علاقہ مند ہوں جو چیز مجھے اس اقدام سے روکے ہوئے ہے وہ ہے فقط میرا خالی ہاتھ ہونا_ ابوبکر نے کہا یا علی (ع) آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) کی نگاہ میں دنیا اور مال دنیا کی کوئی قیمت نہیں ہے میری رائے ہے کہ جتنی جلدی

۴۸

ہوسکے آپ اس کام میں اقدام کریں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خواستگاری کی درخواست دیں_(۱)

اندرونی جذبہ بیدار ہوتا ہے

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے گھر ہی پلے اور جوان ہوئے تھے، آپ(ص) جناب فاطمہ (ع) کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور آپ کے اخلاق اور نفسیات سے پوری طرح آگاہ تھے، دونوں پیغمبر خدا(ص) اور جناب خدیجہ کے تربیت یافتہ تھے اور ایک ہی گھر میں جوان ہوئے تھے_(۲)

حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (ع) جیسی عورت اور نہیں مل سکے گی آپ تمام کمالات اور فضائل سے آراستہ ہیں اور آپ انہیں تہہ دل سے چاہتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ہمیشہ مناسب وقت ہاتھ نہیں آیا کرتا لیکن اسلام کی بحرانی کیفیت اور مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی نے علی کو اس دلی خواہش سے روک رکھا تھا اور آپ میں سوائے ازدواج کے تمام افکار موجود تھے_

حضرت علی (ع) نے ابوبکر کی پیش کش پر تھوڑا سا غور کیا اور اس معاملے کے تمام اطر اف اور جوانب پر غور کیا ایک طرف آپ کا خالی ہاتھ ہونا اور اپنی اور تمام مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور عمومی گرفتاری دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف یہ بھی جان چکے تھے کہ آپ کے ازدواج کا وقت آپہنچا ہے کیونکہ آپ کی عمر تقریباً اکیس سال یا اس سے زیادہ ہوچکی تھی_(۲)

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۱۸۰_

۳) ذخائر عقبی _ ص ۲۶_

۴۹

انہیں اس عمر میں ازدواج کرنا ہی چاہیئےور فاطمہ (ع) جیسا اور رشتہ بھی نہیں مل سکے گا اگر یہ سنہرا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا تدارک نہیں کیا جاسکے گا_

علی (ع) خواستگاری کے لئے جاتے ہیں

جناب ابوبکر کی پیشکش نے حضرت علی علیہ السلام کی روح کو اس طرح بیدار کردیا تھا کہ آپ کا اندرونی جذبہ محبت شعلہ ور ہو اور آپ سے پھر اس کام کو آخر تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا کہ جس میں آپ مشغول تھے، آپ نے اونٹ کو اس کام سے علیحدہ کیا اور گھر واپس آگئے آپ نے غسل کیا اور ایک صاف ستھری عبا پہنی اور جوتے پہن کر جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے_

پیغمبر اکرم(ص) اس وقت جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے_ حضرت علی علیہ السلام جناب ام سلمہ کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پیغمبر اکرم(ص) نے جناب ام سلمہ سے فرمایا کہ دروازہ کھولو دروازہ کھٹکھٹا نے والا وہ شخص ہے کہ جس کو خدا اور رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور اس کے رسول (ص) کو دوست رکھتا ہے_ ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ یہ کون ہے کہ جسے آپ نے بغیر دیکھے ہوئے اس قسم کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا ہے؟

آپ(ص) نے فرمای اے امّ سلمہ چپ رہو یہ ایک بہادر اور شجاع انسان ہے جو میرا چچازاد بھائی ہے اور سب لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے جناب ام سلمہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھول دیا، حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور پیغمبر خدا(ص) کے سامنے بیٹھ گئے اور شرم کی وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے کو ظاہر نہ کرسکے، تھوڑی دیر تک دونوں چپ رہے اور آخر الامر پیغمبر اسلام(ص) نے

۵۰

اس سکوت کو توڑا اور ___ فرمایا یا علی گو یا کسی کام کے لئے میرے پاس آئے ہو کہ جس کے اظہار کرنے سے شرم کر رہے ہو؟ بغیر کسی ہچکچا ہٹ کے اپنی حاجت کو بیان کرو اور مطمئن ہو جاؤ کہ تمہاری خواہش قبول کی جائے گی_

حضرت علی (ع) نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے گھر میں جو ان ہوا ہوں اور آپ کے لطف و کرم سے ہی مستفید رہا ہوں آپ نے میری تربیت میں ماں اور باپ سے بھی زیادہ کوشش فرمائی ہے اور آپ کے وجود مبارک کی برکت سے میں نے ہدایت پائی ہے یا رسول اللہ خدا کی قسم میری دنیا و آخرت کی پونجی آپ ہیں اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ اپنے لئے کسی رفیقہ حیات کا انتخاب کروں اور خانوادگی زندگی کو تشکیل دوں تا کہ اس سے مانوس رہوں اور اپنی تکالیف کو اس کی وجہ سے کم کرسکوں، اگر آپ مصلحت دیکھیں تو اپنی دختر جناب فاطمہ (ع) کو میرے عقد میں دے دیں کہ جس سے مجھے ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہوگی_

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قسم کی پیشکش کے منتظر تھے آپ کا چہرہ انور خوشی اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمایا کہ صبر کرو میں فاطمہ (ع) سے اس کی اجازت لے لوں_ پیغمبر اسلام(ص) جناب فاطمہ(ص) کے پاس تشریف لے گئے او فرمایا تم کو بہتر جانتی ہو وہ خواستگای کے لئے آپے ہیں آیا تم اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا ان سے عقد کردوں؟ جناب فاطمہ (ع) شرم کی وجہ سے ساکت رہیں اور کچھ نو بولیں_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنجناب کے سکوت کو رضایت کی علامت قرار دیا _(۱)

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۲۷_ ذخائر العقبی _ ص ۲۹_

۵۱

موافقت

پیغمبر خدا(ص) اجازت لینے کے بعد حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور مسکرات ہوئے فرمایا یا علی (ع) شادی کے لئے تمہارے پاس کچھ ہے؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا یا رسول اللہ (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ میری حالت سے پوری طرح آگاہ ہیں میری تمام دولت ایک تلوار اور ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے آپ نے فرمایا کہ تم ایک جنگجو سپاہی اور جہاد کرنے والے ہو بغیر تلوار کے خدا کی راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تلوار تمہاری پہلی کھینچ کر اپنی اور اپنے گھر کی اقتصادی اور مالی حالت سنوار سکو اور مسافرت میں اس پر سامان لاد سکو صرف ایک چیز ہے کہ جس سے صرف نظر کرسکتے ہو اور وہ ہے تمہاری زرہ میں بھی تم پر سختی نہیں کرتا اور اسی زرہ پر اکتفا کرتا ہوں، یا علی اب جب کہ معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کیا چاہتے ہو تمہیں ایک بشارت دوں اور ایک راز سے آگاہ کروں؟

حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ بر قربان ہوں آپ ہمیشہ خوش زبان اور نیک خواہ رہے ہیں_ آپ نے فرمایا کہ قبل اس کے کہ تم میرے پاس آؤ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) اللہ تعالی نے تجھے بندوں سے منتخب کیا ہے اور رسالت کے لئے چنا ہے_ علی (ع) کو منتخب کیا اور انہیں تمہارا بھائی اور وزیر قرار دیا ہے تمہیں اپنی دختر کا ا ن سے نکاح کردینا چاہیئے ان کے ازدواج کی محفل عالم بالا میں فرشتوں کے حضور ترتیب دی جاچکی ہے خداوند عالم دو پاکیزہ نجیب طیب و طاہر اور نیک فرزند انہیں عطا کرے گا_ اے علی (ع) ابھی جبرئیل واپس نہیں گئے تھے کہ تم نے میرے گھر کا دروازہ آن کھٹکھٹایا ہے_

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۷_

۵۲

خطبہ عقد

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی (ع) تم جلدی سے مسجد میں جاوں میں بھی تمہارے پیچھے آرہا ہوں تا کہ تمام لوگوں کے سامنے عقد کی تقریب اور خطبہ عقد بجالاؤ، علی (ع) خوش اور مسرورمسجد روانہ ہوگئے_ جناب ابوبکر او رعمر سے راستے میں ملاقات ہوگئی تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا اور کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنی دختر مجھ سے تزویج کردی ہے اور ابھی میرے پیچھے آرہے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کے مراسم انجام دیں_

پیغمبر خدا(ص) جب کہ آپ کا چہرہ خوشی اور شادمانی سے چمک رہا تھا مسجد میں تشریف لے گئے او رخدا کی حمد و ثناء کے بعدفرمایا: اے لوگو آگاہ رہو کہ جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے پیغام لائے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ (ع) کے ازدواج کے مراسم عالم بالا میں فرشتوں کے حضور منعقد کئے جاچکے ہیں اور حکم دیا ہے کہ زمین پر بھی یہ مراسم انجام دیئے جائیں میں تم کو گواہ قرار دیتا ہوں، آپ اس کے بعد بیٹھ گئے اور حضرت علی (ع) سے فرمایا اٹھو اور خطبہ پڑھو_

حضرت علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں خداوند عالم کا اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی گواہی دیتا ہوں جو اس ذات کو پسند ہو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور ایسا درود ہو جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جو آپ کے مقام اور درجہ کو بالاتر کردے_ لوگو میرے اور فاطمہ (ع) کے ازدواج سے اللہ راضی ہے اور اس کا حکم دیا ہے لوگو رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کا عقد مجھ سے کردیا ہے اور میری زرہ کو بطور مہر قبول فرمایا ہے آپ ان سے پوچھ لیں اور گواہ ہوجائیں_

۵۳

مسلمانوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ(ص) آپ نے فاطمہ (ع) کا عقد علی علیہ السلام سے کردیا ہے؟ رسول خدا(ص) نے جواب میں فرمایا ہاں_ تمام حاضرین نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ خدا اس ازدواج کو تمہارے لئے مبارک قرار دے اور تم دونوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کردے_

جلسہ عقد ختم ہوا تو پیغمبر (ص) گھر واپس لوٹ آئے اور عورتوں کو حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے لئے خوشی اور مسرت کا جشن برپا کریں(۱) عقد کے مراسم پہلی یا چھٹی ذی الحجہ(۲) دوسری یا تیسری ہجری(۳) کو انجام پایا_

داماد کا انتخاب

اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اگر کوئی جوان تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آئے تو تم اس کی تمام چیزوں سے پہلے دینی اور اخلاقی حالت کا جائزہ لو با ایمان اور پاک دامن اور خوش اخلاق ہو تو اس سے رشتہ کردو_ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ ازدواج کے لئے مال اور ثروت کو معیار نہیں بنانا چاہیئے_ اسلام کہتا ہے کہ مال و ثروت ہی انسان کو صرف خوش بخت نہیں بناتا، داماد کے فضائل اور کمالات نفسانی اور دینی جذبہ مال اور ثروت پر برتری رکھتا ہے، کیوں کہ باایمان اور خوش رفتار اگر چہ فقیر اور تہی دست

____________________

۱) اس قسمت کے مطالب اور مضامین کو ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے، کشف الغمہ_ ج۱ ص ۲۵۳ و ۷ ۲۵_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۲_ ذخائر العقبی _ تذکرة الخواص_ دلائل الامامہ مناقب خوارزمی ص ۲۴۷_ بحار الانوار_ ج ۴۳ ص ۹۲و ۱۴۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب ج ۳ ص ۳۴۹_

۳) بحار الانوار_ ج ۴۳ _ ص ۶ و ۷_

۵۴

ہی کیوں نہ ہو وہ اس عیاش اور ہوسباز اور لاابالی سرمایہ دار سے جو گھر کی آسائشے کے اسباب فراہم کرتا ہے کئی درجہ بہتر ہے_

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے جب کوئی تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آتے تو اگر تمہیں اس کا اخلاق اور دین _ پسند ہو تو اس سے رشتہ کردو اور اس کو منفی جواب نہ دو اور اگر تمہاری شادیوں کا معیار اس کے خلاف ہو تو نہ تمہارے لئے بہت زیادہ مصائب کا موجب ہوگا_(۱)

پیغمبر(ص) نے یہ مطلب صرف لوگوں کو بتلایا ہی نہیں بلکہ خود بھی اس پر عمل کیا_ آپ نے حضرت علی (ع) کے فضائل اور کمالات اور اخلاق کو دیکھ کر انہیں عبدالرحمن اور عثمان جیسے سرمایہ داروں پر ترجیح دی اور ان(ع) کے فقیر اور تہی دست ہونے کے نقض اور عیب شمار نہ کیا_

حضرت زہرا علیہا السلام کا مہر

۱_ ایک زرہ کہ جس کی قیمت چارسو یا چارسو اسی یا پانچ سو درہم تھی_

۲_ یمنی کتان کا ایک جوڑا_

۳_ ایک گوسفند کی کھال رنگی ہوئی _(۲)

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۲۵۱_

۲) وافی کتاب النکاح ص ۱۵_

۵۵

عملی سبق

اسلام زیادہ مہر کو ملت کے لئے مصلحت نہیں دیکھتا اور سفارش کرتا ہے کہ اگر داماد کے دین اور اخلاق کو تم نے پسند کرلیا ہے تو پھر مہر میں سختی سے کام نہ لو اور تھوڑے مہر پر قناعت کرلو_

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو خوبصورت اور کم مہر والی ہوں_(۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کی برائی اس میں ہے کہ اس کا مہر بہت زیادہ ہو_(۲)

اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ زیادہ مہر زندگی کو لوگوں پر سخت کردیتا ہے اور بہت زیادہ مشکلات کا ملت کے لئے موجب ہوتا ہے_ مہر میں آسانی کر کے جواوں کو ازدواج زندگی کی طرف مائل کرنا چاہیئےا کہ ہزاروں اجتماعی مفاسد اور روحی امراض سے روکا جاسکے_ زیادہ مہر داماد کی زندگی کو ابتدا ہی میں متزلزل کردیتا ہے اور میاں بیوی کی محبت پر بھی بر اثر ڈالتا ہے (میاں بیوی کی محبت میں خلوص پیدا نہیں ہونے دیتا) جوانوں کو شادی کی طرف سے بے رغبت کردیتا ہے_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں کو خود عمل کر کے سمجھا رہے ہیں کہ زیادہ مہر اسلامی معاشرے کے لئے واقعاً مصلحت نہیں رکھتا اسی لئے تو آپ نے اپنی عزیزترین بیٹی کا معمول مہر پر جیسا کہ بیان کیا گیا حضرت علی (ع) سے نکاح کردیا یہاں تک کہ کوئی چیز بطور قرض بھی علی (ع) کے ذمّہ نہیں سونپی_

____________________

۱) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۲) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۵۶

حضرت زہرا علیہا السلام کا جہیز

پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا ابھی اٹھو ارو اس زرہ کو جو تم نے حضرت زہرا (ع) کے لئے مہر قرار دی ہے، بازار میں جا کر فروخت کردو اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ تا کہ میں تمہارے لئے جہیز اور گھر کے اسباب مہیا کروں_

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے زرہ کو بازار میں لے جا کر فروخت کردیا، مختلف روایات میں اس کی قیمت چار سو سے لے کر پانچ سو درہم تک بتائی گئی ہے_ واضح رہے کہ بعض روایات کی بنا پر جناب عثمان نے آپ کی زرہ خریدی اور بعد میں حضرت علی (ع) کو ہدیہ کردی_(۱)

حضرت علی علیہ السلام زرہ کی قیمت لے کر پیغمبر خدا(ص) کی خدمت میں پیش کی، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب ابوبکر، سلمان فارسی اور بلال کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس مقدار سے جناب فاطمہ (ع) کے لوازمات اور اسباب زندگی خرید کر لاؤ اور اس سے کچھ درہم اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو او رجو درہم باقی بچے وہ جناب ام سلمہ کے پاس رکھ دیئے گئے_

ابوبکر کہتے ہیں کہ جب میں نے درہم کو گنا تو سترسٹھ درہم تھے اور اس سے میں نے یہ اسباب اور لوازمات خریدے_

۱_ ایک سفید قمیص_

۲_ ایک بڑی چادر سر ڈھانپنے کے لئے (یعنی برقعہ)_

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۳۰_

۵۷

۳_ ایک سیاہ خیبری حلہ_

۴_ ایک چار پائی جو کھجور کے لیف سے نبی ہوئی تھی_

۵_ دو عدد توشک ، گدے کہ ایک میں گوسفند کی پشم بھری گئی اور دوسری میں کجھور کے پتے بھرے گئے_

۶_ چار عدد تکیہ جو گوسفند کے چمڑے سے بنائے گئے تھے کہ جن کو اذخر نامی خوشبودار گھاس سے بھرا گیا تھا_

۷_ ایک عدد چٹائی ہجری نامی_

۸_ ایک عدد دستی چکی_

۹_ ایک تانبہ کا پیالہ_ _ پانی بھر نے کے لئے ایک عدد چمڑے کی مشک_ _ کپڑا دھونے کے لئے ایک عدد تھال_ _ دودھ کے لئے ایک عدد پیالہ_ _ پانی پینے کا ایک عدد برتن _ _ ایک پشمی پردہ_ _ ایک عدد لوٹا_ _ ایک عدد کٹی ا برتن جسے صراحی (سبو) کہا جاتا ہے_ _ فرش کرتے کے لئے ایک عدد چمڑا_ _ ایک عدد کوزے_ _ ایک عدد عبا_(۱)

جب جناب زہرا (ع) کا جہیز جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لے

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب _ ج ۲ ص ۳۵۳ و کشف الغمہ_ ج ۱ ص ۳۵۹_

۵۸

آئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا اے خدا اس شادی کو مبارک کر کہ جس کے اکثر برتن مٹی کے ہیں_

مسلمانوں کے لئے درس

جناب زہرا علیہا السلام اور حضرت علی علیہ السلام کی شادی اسلامی نمونہ کا سب سے اہم اور احساس ترین شادی ہوسکتی ہے کیونکہ جناب زہر ا علیہا السلام کے والد جزیزة العرب کی بہت بڑی شخصیت بلکہ جہان اسلام کی اہم شخصیت اور برگزیدہ پیغمبر تھے_لڑکی کی بھی بہترین او رعاقل ترین اور تربیت شدہ اور باکمال تھی اور نبائے بشریت کی چار عورتوں میں سے ایک ہیں اور داماد بھی حسب و نسب کے لحاظ سے عرب کے معزز خاندان سے تھے، علم اور کمال اور شجاعت کے لحاظ سے تمام مردوں پر برتری رکھتے ہیں آپ رسول خدا(ص) کے جانشین اور وزیر اور مشیر ہیں اور لشکر اسلام کے سپہ سالار ہیں، اس قسم کی شادی کو خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہونا چاہیئے تھا لیکن جیسا آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ تقریب بہت سادی سے انجام پذیر ہوئی اسلام کی مثالی خاتون کا جہیز جو مہیا کیا گیا وہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہی مختصر جہیز بھی خود حضرت زہرا علیہا السلام کے حق مہر سے خریدا گیا یوں نہیں کیا گیا کہ حق مہر کو محفوظ کرلیا گیا ہو اور لڑکی کے باپ نے ہزاروں مصائب اور دوسرے اپنی لڑکی کے لئے جہیز اپنی جیب سے مہیا کیا ہو_

پیغمبر خدا(ص) جیسے بھی ہوتا اگر چہ فرض ہی لے کر کیوں نہ ہوتا یوں کرسکتے تھے کہ بہت آبرومندانہ جہیز اس زمانے کے معمول کے مطابق اپنی اکلوتی عزیزترین بیٹی کے لئے مہیا کرتے اور یوں کہتے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں مجھے اپنی شان کا خیال رکھنا ضروری ہے میری بیٹی دنیا کہ بہترین عورتوں میں سے ایک عورت ہے اس کی عظمت اور عزت کا احترام

۵۹

کیا جانا چاہیئے اور اس کی خوشحالی کے اسباب فراہم کرنے چاہئیں میرے داماد کے خدمات او رجہاد کسی پر مخفی نہیں اس کا احترام اور اس کے زحمات کی قد ردانی اس کی آبرو کے لحاظ سے بہترین وسائل اور اسباب مہیا کر کے مجھے کرنی چاہیئے_

لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جہیز میں مقابلہ اور زیادتی کے ضرر اور مفاسد کا معاشرہ میں علم تھا اور آپ کو علم تھا کہ اگر مسلمان اس مصیبت میں گرفتار ہوگئے تو انہیں عمومی فقر اور اقتصادی دیو الیہ اور کثرت طلاق اور جوانوں کا شادی کرنے کا رجحان کم ہوجائے گا اور روز بروز بے زن جوانوں اور بے شوہر لڑکیوں کی زیادتی اور جرائم اور جنایات کی کثرت مختلف قسم کے فحشا اور اعصابی بیماریوں کا وجود میں آنا جیسے مصائب میں گرفتار ہونا پڑے گا اسی لئے اس مثالی شادی کہ جس کے منتظمین اسلام کی پہلی اور دوسری شخصیت تھیں کمال سادگی سے عمل میں لائی گئی، تا کہ یہ ملت اسلامیہ اور مسلمانوں کے زمام داروں کے لئے عمل درس واقع ہو_

حضرت علی علیہ السلام بھی ان کوتاہ فکر جوانوں میں سے نہ تھے کہ جو مال اور دولٹ کے اکٹھے کرنے کے لئے شادی کرتے ہیں کہ اگر جہیز میں کچھ کمی ہو تو ہر روز اپنی بیوی کے لئے درد سر بنے رہتے ہیں اور اسے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور اعتراضات سے ازدواجی زندگی کو متزلزل کردیتے ہیں اور زندگی باصفا اور گرم کو بے محل طفلانہ بہانوں سے انس ا ور محبت کے گھر کو اختیار قید خانے میں تبدیل کردیتے ہیں حضرت علی علیہ السلام ملت اسلامی کے امام و پیشوا تھے اور چاہتے تھے کہ اس قسم کے غلط افکار سے مبارزہ کیا جائے مال اور دولت آپ کی نگاہ میں کچھ قیمت نہ رکھتے تھے_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

الف : عقلی دلیل اور ائمہ سے صادر ہونے والی بے پناہ احادیث کے مطابق نوع انسان کی بقا کے لئے امام اور حجت کا وجود ضروری ہے اور کوئی زمانہ اس مقدس وجود سے خالی نہ رہے گا _

ب : بہت سی احادیث کے مطابق امام صرف بارہ ہوں گے زیادہ نہیں _

ج : احادیث اور تاریخ کی گواہی کا متقتضایہ ہے کہ ان میں سے گیارہ دار فانی کو و داع کہہ چکے ہیں _

ان تین مطالب کے انضمام سے حضرت مہدی کی بقا یقینی طور پر ثابت ہوجاتی ہے اور چونکہ ظاہر نہیں ہیں ای لئے یہ کہنا چا ہئے کہ پردہ غیبت میں ہیں _

۱۶۱

غیبت صغری وکبری

جلالی : غیبت صغری و کبری کے کیا معنی ہیں ؟

ہوشیار : بارہویں امام دو مرتبہ لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوئے ہیں _پہلی مرتبہ اپنی پیدا ئشے کے سال ۲۵۵ یا ۲۵۶ یا اپنے والد کے انتقال کے سال سے ۳۲۹ ھ تک اس زمانہ ہیں آ پ اگر چہ عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے لیکن رابطہ با لکل منقظع نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کے نا ئب آپ کی خدمت میں پہنچتے اور لوگوں کی ضرور توں کو پورا کرتے تھے غیبت کے اس ۶۹ یا ۷۴ سالہ زمانہ کو غیبت صغری کہتے ہیں _

دوسری غیبت ۳۲۹ ھ سے شروع ہوئی اس میں نواب کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور ظہور تک جاری رہے گی _ اس کو غیبت کبری کہتے ہیں پیغمبر اکرم اور ائمہ پہلے ہی دونوں غیبتوں کی خبر دے چکے تھے ، مثلا :

اسحاق بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام جعفری صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

'' قائم کی دو غیبتیں ہوں گی ، ایک طولانی دوسری چھوٹی غیبت صغری میں خاص شیعوں کو ان کی قیام گاہ کا علم ہوگا _ لیکن دوسری میں آپکے مخصوص دینی دوستوں کے علاوہ آپ کی قیام گاہ کا کسی کو

۱۶۲

پتہ نہیں ہوگا(۱)

آپ ہی کا ارشاد ہے :

صاحب الامر کی دوغیبتیں ہیں : ایک ان میں سے اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ کہے گا : مر گئے ہیں ، دوسر ا کہے گا : قتل کرد یئےئے ،تیسرا کہے گا : چلے گئے _ معدود افراد ایسے ہوں گے جو آپ کے وجود کے معتقد رہیں گے اور انہی کا ایمان ثابت و استوار ہے _ اس زمانہ میں آپ کی قیام گاہ کا کسی کو پتہ نہ ہوگا ، ہاں ان کے مخصوص خدمت گار جانتے ہوں گے _(۲) آ ئھ حدیثیں اور ہیں

غیبت صغری اور شیعوں کا ارتباط

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ : غیبت صغری کے شروع ہونے کے بعد بعض فریب کاروں نے سادہ لوح لوگوں سے غلط فائدہ اٹھا یا اور یہ دعوی کر کے کہ ہم امام غائب کے نائب ہیں لوگوں کو فریب دیا اور اس طرح اپنی حیثیت بنالی اور لوگوں کے مال سے اپنے گھر بھر لئے _ جناب عالی اس بات کی وضاحت فرمائیں یہ نواب کون تھے ؟ اور امام زمانہ سے لوگوں کے زمانہ میں عام لوگ صاحب الامر کی ملاقات سے محروم تھے _ لیکن رابط با لکل منقطع نہیں ہوا تھا _ چنانچہ وہ ان افراد کے ذریعہ

____________________

۱_ اثبات الھداة ج ۷ ص ۶۹ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص۱۵۵

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۳

۱۶۳

جنھیں نائب ، وکیل اور باب کہا جاتا تھا امام سھ رابطہ قائم کرتے ، اپنی دینی مشکلوں کوحل کرتے اور دیگر ضرور توں کو پورا کرتے تھے ، اپنے اموال سے سہم امام نکال کرانھیں کے ذریعہ بھیج دتیے تھے _ کبھی آپ سے مادی مدد ما نگتے تھے _ کبھی حج اور دوسرے سفر کے لئے اجازت لیتے تھے کبھی مریض کی شفا اور بیٹے کی پیدائشے کیلئے دعا کراتے تھے امام ہی کی طرف سے بعض لوگوں کیلئے پیسہ ، لباس اور کفن بھیجا جاتا تھا_ ان امور میں مخصوص و معین افراد و اسطہ تھے _ حاجتیں خطوط کے ذریعہ ارسال کی جاتی تھیں چنانچہ آپ بھی خط ہی کی صورت میں جواب ارسال فرماتے تھے _ اصطلاح میں آپ کے خطوط کو تو قیع کہتے ہیں _

کیا توقیعات خود امام کی تحریر تھیں ؟

جلالی : توقیعات کو خود امام تحریر فرما تے تھے یا کوئی اور ؟

ہوشیار : ہم کہہ چکے ہیں کہ توقیعات کے کاتب خود امام ہیں _ یہاں تک خواص او رعلمائے وقت کے در میان آپ کا خط ( تحریر ) مشہور تھا چنانچہ وہ اسے اچھی طرح پہچا نتے تھے _ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں _

محمد بن عثمان عمری کہتے ہیں : امام کی طرف سے صادر ہونے والی توقیع کو میں ببخوبی پہچا نتا تھا(۱)

اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں : محمد بن عثمان کے ذریعہ میں نے اپنے مشکل مسائل امام کی خدمت میں ارسال کئے اور جواب امام زمانہ کے دستخط کے ساتھ موصول ہوا _(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳

۲ _ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹ ، اثبات الھداة ج ، ص ۴۶۰

۱۶۴

شیخ ابو عمرعامری کہتے ہیں : شیعوں کی ایک جماعت سے ابو غانم قزوینی نے ایک موضوع کے بارے میں اختلاف و نزاع کی _ شیعوں نے جھگڑا ختم کرنے کے لئے ایک خط میں صورت حال لکھ کر ارسال کردیا اور جواب امام کی دستخط کے ساتھ موصول ہوا ''(۱) صدوق فرماتے ہیں : '' جو توقیع امام زمانہ نے اپنے دست مبارک سے میرے والد کیلئے رقم کی تھی وہ میرے پاس ابھی تک موجود ہے ''(۲)

مذکورہ افرادنے اس بات کی تو گواہی دی ہے کہ وہ خطوط امام زمانہ کی تحریرہوتے تھے لیکن اس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس طریقہ سے امام زمانہ کا خط پہچانتے تھے کیونکہ غیبت کے زمانہ میں مشاہدہ کا امکان نہیں تھا اس کے علاوہ بعض اشخاص نے اس کے برخلاف کہا ہے _ مثلاً ابو نصر ہبة اللہ نے روایت کی ہے کہ صاحب الامر کی توقیعات وہ جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے ذریعہ شیعوں تک پہنچتی تھیں ان کا وہی خط ہے جو امام حسن عسکری کے زمانہ کی توقیعات کا تھا _(۳)

پھر ابو نصر ہی کہتے ہیں : ۳۰۴ ھ میں ابوجعفر عمری کا انتقال ہوا_ تقریباً وہ پچاس سال تک امام زمانہ کے وکیل رہے _ ان کے پاس لوگ اپنے اموال لاتے تھے اور وہ بھی شیعوں کو اسی خط میں امام کی توقیعات دیتے تھے جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں لکھی جاتی تھیں(۴) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۷۸_

۲_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۲ ص ۲۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۱۶۵

دوسری جگہ کہتے ہیں : امام زمانہ کی توقیعات محمد بن عثمان اسی خط میں لکھتے تھے جس میں امام حسن عسکری (ع) کے زمانہ میں ان کے باپ عثمان بن سعید لکھتے تھے _(۱)

عبداللہ بن جعفر حمیری کہتے ہیں : عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد صاحب الامر کی توقیعات اسی خط میں صادرہوتی تھیں جس میں ہم سے پہلے خط و کتابت ہوتی تھی _(۲)

ان روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو توقیعات عثمان بن سعید او ر ان کے بعد محمد بن عثمان کے توسط سے لوگوں تک پہنچی ہیں ان کا خط بالکل وہی تھا کہ جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں توقیعات صادر ہوتی تھیں _ یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توقیعات امام کے خط میں نہیں تھیں بلکہ یہ کہا جائے کہ امام حسن عسکری (ع) نے توقیعات اور خط و کتابت کیلئے ایک مخصوص محرّر مقرر کررکھا تھا جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے زمانہ تک زندہ رہا _ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض توقیعات خود امام نے اور کچھ دوسروں نے تحریر کی ہیں _ لیکن یادرہے کہ زمانہ غیبت صغری کے علماء اور شیعوں کے حالات اور توقیعات کے متن کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان خطوط کی عبارت شیعوں کے نزدیک موثق اور قابل اعتماد تھی اور وہ انھیں امام ہی کی طرف سے سمجھتے اور قبول کرتے تھے_

اختلافات کے سلسلے میں مکاتبہ کرتے اور جواب کے بعد سراپا تسلیم ہوجاتے تھے ، یہاں تک اگر کبھی کسی توقیع کے بارے میں شک ہوجاتاتھا تو بھی مکاتبہ ہی کے ذریعہ حل کرتے تھے _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۳_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۵۰_

۱۶۶

علی بن حسین بابویہ نے امام زمانہ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا اور بیٹے کی پیدائشے کے لئے دعا کا تقاضا کیا اور اس کا جواب بھی ملا _(۱)

جن علا نے غیبت صغری اور نواب کا زمانہ درک کیا ہے ان میں سے ایک محمد بن ابراہیم بن جعفر نعمانی ہیں _ انہون نے اپنی کتاب '' غیبت'' میں نوّاب کی نیابت اور سفارت کی تائید کی ہے چنانچہ غیبت سے متعلق احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : غیبت صغری کے زمانہ میں امام اور لوگوں کے درمیان معین و مشہور افراد واسطہ تھے ، ان کے توسط سے بیمار شفا پاتے اور شیعوں کی مشکلوں کے حل صادر ہوتے تھے لیکن اب غیبت صغری کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اور غیبت کبری کا زمانہ آگیا ہے _(۲)

معلوم ہوتا ہے کہ توقیعات کے ساتھ کچھ سچے قرائن و شواہد ہوتے تھے کہ جن کی بناپر علمائے وقت اور شیعہ انھیں تسلیم کرتے تھے _ شیخ حر عاملی لکھتے ہیں : ابن ابی غانم قزوینی شیعوں سے بحث کرتا اور کہتا تھا : امام حسن عسکری(ع) کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا _ شیعوں نے امام کی خدمت میں خط ارسال کیا ، وہ بغیر روشنائی کے قلم سے سفید کاغذ پر لکھا جاتا تھا تا کہ علامت و معجزہ بن جائے چنانچہ امام (ع) نے ان کے خط جواب دیا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۰۶_

۲_ کتاب ''غیبت'' /۹۱_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۶۰_

۱۶۷

نوّاب کی تعداد

نوّاب کی تعداد میں اختلاف ہے _ سید بن طاؤس نے اپنی کتاب '' ربیع الشیعہ '' میں جو نام ذکر کئے ہیں وہ یہ ہیں : ابو ہاشم داؤد بن القاسم ، محمد بن علی بن بلال ، عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان ، عمر اہوازی ، احمد بن اسحاق ، ابو محمد الو جنای ، ابراہیم بن مہزیار ، محمد بن ابراہیم(۱) _

شیخ طوسی نے وکلاء کے نام اسی طرح نقل کئے ہیں : بغداد سے عمری ، ان کا بیٹا ، حاجز ، بلالی اور عطار ، کوفہ سے عاصمی ، اہواز سے محمد بن ابراہیم بن مہزیار ، قم سے احمد بن اسحاق ، ہمدان سغ محمد بن صالح ، رَی سے شامی واسدی ، آذربائجان سے قاسم بن العلاء اور نیشاپور سے محمد بن شاذان _(۲)

لیکن شیعوں کے درمیان چار اشخاص کی وکالت مشہور ہے : ا_ عثمان بن سعید ۲_ محمد بن عثمان ۳_ حسین بن روح ۴_ علی بن محمد سمری _ ان میں سے ہر ایک نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کررکھے تھے _(۳)

عثمان بن سعید

عثمان بن سعید امام حسن عسکری (ع) کے موثق و بزرگ صحابہ میں سے تھے _ ان کے متعلق

____________________

۱_ رجال ابو علی طبع سنہ ۱۱۰۲ ھ ص ۳۱۲_

۲_ رجال مامقانی طبع نجف ج ۱ ص ۲۰۰ ، اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۹۴_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۲_

۱۶۸

بوعلی لکھتے ہیں : '' عثمان بن سعید موثق و جلیل القدر تھے ، ان کی توصیف کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے ''(۱) علامّہ بہبہانی لکھتے ہیں :'' عثمان بن سعید ثقہ اور جلیل القدر ہیں(۲) _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے آپ کی توثیق کی ہے _

احمد بن اسحاق کہتے ہیں :'' میں نے امام علی نقی کی خدمت میں عرض کی ہیں کس کے ساتھ معاشرت کروں اور احکام دین کس سے دریافت کروں اور کس کی بات قبول کروں ؟ فرمایا: سعید بن عثمان ہمارے معتمد ہیں _ اگر وہ تم سغ کوئی بات کہیں تو صحیح ہے _ انکی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے ''_

ابوعلی نقل کرتے ہیں کہ: امام حسن عسکری سے بھی ایسا ہی سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: عثمان بن سعید اور ان کے بیٹے پرمجھے اعتماد ہے _ تمہارے سامنے وہ جو روایت بھی بیان کریں وہ صحیح ہے _ ان کی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے _ اصحاب کے درمیان یہ حدیث اس قدر مشہور تھی کہ ابو العباس حمیری کہتے ہیں : ''ہم لوگوں کے درمیان بہت زیادہ مذاکرہ ہوتا تھا اور اس میں عثمان بن سعید کی ستائشے کرتے تھے ''(۳) _

محمد بن اسمعیل و علی بن عبداللہ کہتے ہیں :'' سامرہ میں ہم لوگ حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں شرف یاب ہوئے اس وقت شیعوں کی ایک جماعت بھی موجود تھی ناگہان

____________________

۱_ رجال بوعلی ص ۲۰۰_

۲_ منہج البلاغ مؤلف علامہ بہبہانی ص ۲۱۹_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۸_

۱۶۹

بدر خادم آیا اور عرض کی ایک پریشان بال جماعت آئی ہے ، داخل ہونے کی اجازت چاہتی ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : وہ یمن کے شیعہ ہیں اس کے بعد آپنے بدر خادم سے فرمایا: عثمان بن سعید کو بلاؤ_ عثمان آئے ، امام نے فرمایا : تم ہمارے موثق وکیل ہو یہ جماعت جو مال خدا لیکر آئی ہے _ اسے تحویل میں لے لو _ راوی کہتا ہے : میں نے عرض کی : ہم تو یہ جانتے تھی کہ عثمان بہترین شیعہ ہیں لیکن آپ(ع) نے اس عمل سے ان کا مرتبہ بڑھا دیا اور ان کے ثقہ اور وکیل ہونے کا اثبات کردیا ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : حقیقت یہی ہے جان لو کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا میرے بیٹے مہدی کا وکیل ہوگا _(۱)

امام حسن عسکر ی(ع) نے اپنے بیٹے کے بارے میں چالیس افراد ، منجملہ ان کے علی بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ اور حسن بن محبوب ، کے سامنے فرمایا: '' یہ میرا جانشین اور تمہارا امام ہے اس کی اطاعت کرو ،واضح رہے آج کے بعد مدتوں تک تم اسے نہیں دیکھ سکوگے ، عثمان بن سعید کی باتوں کو تسلیم کرو اور ان کے حکم کے مطابق چلو کیونکہ وہ تمہارے امام کا جانشین ہے اور شیعوں کے امور کے حل و فصل اسی کے ہاتھ میں ہیں _(۲)

ان کی کرامات

ان تمام باتوں کے علاوہ ان کی طرف کچھ کرامات بھی منسوب ہیں جس سے

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۱۷۰

ان کی صداقت ثابت ہوتی ہے _ ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں _

شیخ طوسی نے اپنی کتاب ، غیبت میں بنی نوبخت کیایک جماعت منجملہ اس کے ابوالحسن کثیری سے روایت کی ہے کہ : قم اور اس کے مضافات سے عثمان بن سعید کے پاس کچھ مال بھیجا گیا پہنچا نے والا جب واپس لوٹنے لگا تو عثمان بن سعید نے کہا : ایک اور امانت تمہارے سپردکی گئی تھی وہ تم نے تحویل میں کیوں نہیں دی ؟ اس نے عرض کی : میرے پاس اور کوئی چیز باقی نہیں ہے _ عثمان بن سعید نے کہا : واپس جاؤ اور اسے تلاش کرو _ چند دن تلاش کرنے کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کہا : مجھے تو کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی _ فلاں بن فلاں نے ہمارے لئے سردانی کے دوپارچے تمہارے سپردکئے تھے وہ کیا ہوئے ؟ عرض کی : خدا کی قسم آپ کی بات سچ ہے لیکن میں بھول گیا اب نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں _ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ آیا اور بہت تلاش کیا لیکن ناکام رہا _ پھر عثمان بن سعید کے پا گیا ، اور پورا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا : فلان بن فلاں روئی بیچنے والے کے پاس جاؤ_ روئی کی دو تھیلے تم اس کے پاس لے گئے تھے ، جس تھیلے پر یہ تحریر ہو اسے کھول کر دیکھو وہ امانت تمہیں اس میں ملے گی اس نے حکم کی تعمیل کی پارچہ اس میں ملا تو ان کی خدمت میں پہنچا دیا(۱) _

محمد بن علی اسود کہتے ہیں : ایک عورت نے مجھے ایک کپڑا دیا تھا کہ اسے عثمان بن سعید کے پاس پہنچا دینا _ دوسرے کپڑوں کے ساتھ اسے میں ان کی خدمت میں لے گیا _ انہوں نے کہا : محمد بن عباس قمی کی تحویل میں دیدو _ میں نے حکم کی تعمیل کی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۱۶_

۱۷۱

اس کے بعد عثمان بن سعید نے پیغام بھیجا کہ فلاںعورت کا کپڑا تم نے کیوں نہیں دیا ؟ پس اس عورت کے کپڑے کی بات مجھے یاد آگئی تلاش بسیار کے بعد وہ ملاتو میں تحویل میں دے دیا _(۱)

شیخ صدوق نے اپنی کتاب '' اکمال الدین'' میں لکھا ہے :'' ایک شخص عراق سے عثمان بن سعید کے پاس سہم امام لے کر گیا _ عثمان نے مال واپس کردیا اور کہا: اس میں سے چار سو درہم اپنے چچا زاد بھائیوں کا حق نکال دو _ عراقی کو بڑا تعجّب ہوا _ جب اس نے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک اس کے چچا زاد بھائیوں کی کاشتکاری کی کچھ زمیں اس کے پاس ہے _ جب صحیح طریقہ سے آنے پائی کا حساب کیا تو ان کے چار سو ہی درہم نکلے _ لہذا اس نے مبلغ مذکور کو اموال سے نکال دیا اور بقیہ کو عثمان بن سعید کے پاس لے گیا ، چنانچہ قبول کر لیا گیا _(۲)

اب احباب انصاف فرمائیں ، کیا عثمان بن سعید کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث ، امام حسن عسکری کے نزدیک ان کی قدرومنزلت اور امام حسن عسکری کے خاص اصحاب کا ان کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور ان کے عادل ہونے پر شیعوں کے اتفاق کے با وجود کیا ان کے وعد ے میں شک کیا جا سکتا ہے کیا یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو فریب دینے کی وجہ سے ایسا کیا؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۳۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۲۶، اثبات اہداةج۷ ص ۳۰۲

۱۷۲

محمّد بن عثمان

عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور امام کے وکیل منصوب ہوئے _

شیخ طوسی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : محمد بن عثمان اور ان کے والد دونوں صاحب الزمان کے وکیل تھے اور امام کی نظر میں معزز تھے _(۱)

مامقانی نے لکھا ہے : محمد بن عثمان کی عظمت و جلالت امامیہ کے نزدیک مسلم ہے _ کسی دلیل و بیان کی محتاج نہیں ہے _ شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے والد کی حیات میں امام حسن عسکری کے بھی وکیل تھے اور حضرت حجّت کے بھی سفیر تھے _(۲)

عثمان بن سعید نے تصریح کی ہے کہ : میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین اور نائب امام ہے _(۳)

یعقوب بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے محمد بن عثمان کے توسط سے امام زمانہ (ع) کی خدمت میں خط ارسال کیا اور کچھ دینی مسائل معلوم کئے _ امام کی تحریر میں جواب موصول ہوا آپ نے تحریر فرمایا تھا: محمد بن عثمان عمری موثق ہیں اور ان کے خطوط میرے ہی خط ہیں _(۴)

____________________

۱_ منہج المقال ص ۳۰۵ ، رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۲_ رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۳_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۱۷۳

انکی کرامات

محمد بن شاذان کہتے ہیں کہ : میرے پاس سہم امام کے چار سو اسی درہم جمع ہوگئے تھے _ چونکہ میں پانچ سو سے کم امام کی خدمت میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا اس لئے بیس اپنی طرف سے شامل کر کے محمد بن عثمان کے توسط امام کی خدمت میں ارسال کردیئےیکن اس اضافہ کی تفصیل نہ لکھی _ امام کی طرف سے اس کی وصول یابی کی رسید اس تحریر کے ساتھ موصول ہوئی : '' پانچ سو درہم تمہارے بیس درہم کے ساتھ موصول ہوئے ''(۱) _

جعفر بن متیل کہتے ہیں : محمد بن عثمان نے مجھے طلب کیا ، چند کپڑے اور ایک تھیلی میں کچھ درہم دیئےور فرمایا: '' واسطہ جاؤ اور وہاں پہلا جو شخص ملے یہ کپڑے اور درہم اس کے حوالہ کردو ''_ میں واسطہ کے لئے روانہ ہوا اور پہلے جس شخص سے میری ملاقات ہوئی وہ حسن بن محمد بن قطاة تھے _ میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا ، معانقہ کیا اور کہا :'' محمد بن عثمان نے آپ کو سلام کہلایا ہے اور آپ کے لئے یہ امانت ارسال کی ہے '' _ یہ بات سن کر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : محمد بن عبداللہ عامری کا انتقال ہوگیا ہے _ اب میں ان کا کفن لینے کے لئے نکلا ہوں _ جب ہم نے اس امانت کو کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں ایک مردہ کے دفن کی تمام چیزیں موجود ہیں _ جنازہ اٹھانے والوں اور گورکن کیلئے کچھ پیسے بھی تھے ، اس کے بعد تشییع جنازہ کے بعد انہیں دفن کردیا ''(۲) _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳۷_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۱_

۱۷۴

محمد بن علی بن الاسود قمی کہتے ہیں :'' محمد بن عثمان نے اپنی قبر تیار کرائی تو میں نے وجہ دریافت کی ، کہا ، مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ :'' اپنے امور کو سمیٹ لو'' چنانچہ اس واقعہ کے دو ماہ بعد ان کا انتقال ہوا _(۱)

محمد بن عثمان تقریباً پچاس سال تک نائب امام رہے اور ۳۰۴ ھ میں انتقال کیا _(۲)

حسین بن روح

امام زمانہ کے تیسرے نائب حسین بن روح ہیں _ وہ اپنے زمانہ کے عقلمند ترین انسان تھے _ محمد بن عثمان نے انھیں امام زمانہ کا نائب منصوب کیا تھا _

بحار میں مجلسی لکھتے ہیں : جب محمد بن عثمان کا مرض شدید ہو گیا تو شیعوں کے سر برآوردہ اور معروف افراد ، جیسے ابو علی بن ہمام ، ابو عبداللہ بن محمد کاتب ، ابو عبداللہ باقطانی ، ابو سہل اسماعیل بن علی نوبختی اور ابو عبداللہ بن وجنا ان کے پاس گئے اور ان کے جانشین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : '' حسین بن روح میرے جانشین اور صاحب الامر کے وکیل و معتمد ہیں _ اپنے امور میں ان سے رجوع کرنا _ مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ حسین بن روح کو اپنا نائب مقرر کردو ''(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۵_

۱۷۵

جعفر بن محمد مدائینی کہتے ہیں : امام زمانہ کے اموال کو میں محمد بن عثمان کے پاس لے جاتا تھا_ ایک روز چار سودرہم ان کی خدمت میں پیش کیئےو فرمایا : اس پیسہ کو حسین بن روح کے پاس لے جاؤ _ میں نے عرض کی میری خواہش ہے کہ آپ ہی قبول فرمائیں فرمایا: حسین بن روح کے پاس لے جاؤ، معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے انھیں اپنا جانشین قرار دیا ہے _ میں نے دریافت کیا ، کیا امام زمانہ کے حکم سے آپ نے یہ کام انجام دیا ہے ؟ فرمایا: '' بے شک '' _ پس میں اسے حسین بن روح کے پاس لے گیا _ اس کے بعد سہم امام کو ہمیشہ انہیں کے پاس لے جاتا تھا _(۱)

محمد بن عثمان کے اصحاب و خواص کے درمیان بہت سے افراد تھے جو کہ مراتب میں حسین بن روح سے بلند تھے _ مثلاً جعفر بن احمد متیل کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ منصب نیابت ان کے سپرد کیا جائے گا _ لیکن ان کی توقع کے خلاف اس منصب کیلئے حسین بن روح کو منتخب کیا گیا _ اور تمام اصحاب یہاں تک جعفر بن احمد بن متیل بھی ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے _(۲)

ابو سہل نوبختی سے لوگوں نے دریافت کیا : حسین بن روح کیسے نائب بن گئے جبکہ آپ اس منصب کے لئے زیادہ سزاوار تھے؟ انہوں نے کہا : امام بہتر جانتے ہیں کہ اس منصب کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے _ چونکہ میں ہمیشہ مخالفوں سے مناظرہ کرتا ہوں _ اگر مجھے وکیل بنایا جاتا تو ممکن تھا کہ بحث کے دوران اپنے مدعا کے اثبات

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۳_

۱۷۶

کیلئے امام کا پتہ بتا دیتا _ لیکن حسن بن روح مجھ جیسے نہیں ہیں ، یہاں تک کہ اگر امام اس کے لباس میں چھپے ہوں اور لوگ قیچی سے پارہ پارہ کریں تو بھی وہ اپنا دامن نہیں کھولیں گے کہ امام نظر آجائیں _(۱)

صدوق لکھتے ہیں : محمد بن علی اسود نے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین بن بابویہ نے میرے ذریعہ حسین بن روح کو پیغام دیا کہ صاحب الامر(ع) سے میرے لئے دعا کرادیں شاید خدا مجھے بیٹے عطا کرے _ میں نے ان کا پیغام حسین بن روح کی خدمت میں پہنچا دیا تین روز کے بعد انہوں نے اطلاع دی کہ امام نے ان کے لئے دعا کردی ہے عنقریب خدا انہیں ایسا بیٹا عطا کرے گا کہ جس سے لوگوں کو فیض پہنچے گا _ اسی سال ان کے یہاں محمد کی ولادت ہوئی _ اس کے اور بیٹے بھی پیدا ہوئے _ اس کے بعد صدوق لکھتے ہیں جب محمد بن علی جب بھی مجھے دیکھتے تھے کہ محمد بن حسن بن احمد کے درس میں آمدورفت رکھتا ہوں اور علمی کتابوں کے پڑھنے اور حفظ کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے ، تو کہتے تھے : اس سلسلے میں برابر بھی تعجب نہ کرو کہ تحصیل علم سے تمہیں اتنا شغف ہے کیونکہ تم امام زمانہ کی دعا سے پیدا ہوئے ہو _(۲)

ایک شخص کو حسین بن روح کی نیابت پر شک تھا _ پس اس نے موضوع کی تحقیق کے لئے بغیر روشنائی کے قلم سے ایک خط لکھا اور امام زمانہ کی خدمت میں ارسال کیا چند روز کے بعد امام نے حسین بن روح کے ذریعہ اس کا جواب ارسال فرمایا_(۳) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۹_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۱۸۰_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۴۰_

۱۷۷

۳۲۶ ھ ، ماہ شعبان میں حسین بن روح نے وفات پائی _(۱)

چوتھے نائب

امام زمانہ کو چوتھے نائب شیخ ابوالحسن علی بن محمد سمری تھے _ ان کے بارے میں ابن طاؤس لکھتے ہیں :'' انہوں نے امام علی نقی اور امام حسن عسکری کی خدمت کی اور ان دونوں امامو ں کا ان سے مکاتبہ تھا اور ان کے لئے بہت سی توقیعات مرقوم فرمائی ہیں _ وہ نمایان اور ثقہ شیعوں میں سے ایک تھے _(۲)

احمد بن محمد صفوانی کہتے ہیں : حسین بن روح نے علی بن محمد سمری کو اپنا جانشین مقرر کیا تا کہ وہ ان کے امور انجام دیں _ لیکن جب علی بن محمد سمری کا وقت قریب آیا تو لوگ ان کی خدمت میںآئے تا کہ ان کے جانشین کے بارے میں سوال کریں _ انہون نے فرمایا : مجھے اپنا نائب بنانے کا حکم نہیں ملا ہے _(۳)

احمد بن ابراہیم بن مخلد کہتے ہیں : ایک دن علی بن محمد سمری نے بغیر کسی تمہید کے فرمایا : خدا علی بن بابویہ قمی پر رحم کرے _ حاضرین نے اس جملہ کی تاریخ لکھ لی بعد میں معلوم ہوا کہ اسی دن علی بن بابویہ کا انتقال ہوا تھا _ سمری نے بھی ۳۲۹ ھ میں وفات پائی _(۴)

____________________

۱_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۲_ رجال مامقانی ج ۲ ص ۳۰۲_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۱۷۸

حسین بن احمد کہتے ہیں : علی بن محمد سمری کی وفات سے چند روز قبل میں ان کی خدمت میں تھا کہ امام زمانہ کی طرف سے صادر ہونے والے خط کو انہوں نے لوگوں کے سامنے پڑھا _ اس کا مضمون یہ تھا : '' علی بن محمد سمری، خدا تمہارے انتقال پر تمہارے بھائیوں کو صبر جمیل عطا کرے _ چھ روز کے بعد تمہارے اجل آجائے گی _ اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور اب کسی کو اپنا نائب مقرر نہ کرنا کیونکہ اس کے بعد غیبت کبری کا سلسلہ شروع ہوگا _ میں اس وقت تک ظاہر نہ ہونگا جب تک خدا کا حکم نہ ہوگا طویل مدت ، دلوں میں قساوت اور زمین ظلم و جور سے نہ بھر جائے گی _ تمہارے در میان ایسے افراد پیدا ہوں گے جو ظہور کا دعوی کریں گے _ لیکن یادر ہے ، سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے پہلے جو شخص ظہور کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہے _(۱)

شیعوں کا درمیان چار اشخاص کی نیابت مشہور ہے _ کچھ لوگوں نے انپے مہدی ہونے کا جھوٹا دعوی کیا ہے لیکن دلیل نہ ہونے کی بناپر ان کا جھوٹ آشکار ہوا اور ذلیل ہوئے _ جیسا کا حسن شرعی ، محمد بن نصیر نمیری ، احمد بن ہلال کرخی ، محمد بن علی بن ہلال ، محمد بن علی شلمغانی اورابوبکر بغدادی نے کیا تھا _ یہ تھی نوّاب کے بارے میں میری معلومات _ ان مدارک سے ان کے دعوے کے صحیح ہونے کا اطمینان حاصل ہوجاتاہے _

ڈاکٹر: اس سلسلے میں میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے لیکن آج کی رات ہماری بحث بہت طویل ہوگئی اسلئے آئندہ جلسہ میں پیش کرونگا _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۶۱_

۱۷۹

ابتداء ہی میں غیبت کبری کیوں واقع نہ ہوئی ؟

تمام احباب کی موجود گی میں ڈاکٹر صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

ڈاکٹر : غیبت صغری کا کیا فائدہ تھا؟ اگر یہی طے تھا کہ امام زمانہ غیبت اختیار کریں گے تو امام حسن عسگری (ع) کی وفات کے بعد ہی کیوں غیبت کبری کا آغاز اور مکمل انقطاع نہ ہو ا؟

ہوشیار: امام اور لوگوں کے رہبر کا غائب ہونا ، وہ بھی عرصہ دراز کیلئے عجیب و غیر مانوس بات ہے اور لوگوں کے لئے اس کاتسلیم کرنا مشکل ہے _ اس لئے رسول (ص) اور ائمہ نے یہ عزم کیا کہ : آہستہ آہستہ لوگوں کو اس امر سے مانوس کیا جائے اوراسے تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے ، لہذا گاہ بگاہ وہ ان کی غیبت اور اس زمانہ میں لوگوں کے مشکلوں میں گھر نے کی خبر دیتے تھے اور ان کا انتظار کرنے والوں کے لئے ثواب بیان کرتے اور انکار کرنے والوں کی سرزنش کرتے تھے _ کبھی اپنے عمل سے غیبت کی شبیہ پیش کرتے تھے _

اثبات الوصیت میں مسعودی لکھتے ہیں : امام علی نقی (ع) لوگوں کے ساتھ کم معاشرت کرتے تھے اور اپنے مخصوص اصحاب کے علاوہ کسی سے ربط و ضبط نہیں رکھتے تھے _ جب امام حسن عسکری (ع) ان کے جانشین ہوئے تو آپ بھی لوگوں سے اکثر پس پردہ سے گفتگو فرماتے تھے تا کہ ان کے شیعہ بارہویں امام کی غیبت سے مانوس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293