فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون13%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104348 / ڈاؤنلوڈ: 4817
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
ناشر: انصاریان پبلیشر
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پیغمبر اسلام(ص) نے جناب خدیجہ کے بعد سورہ سے شادی کرلی_ اس کے علاوہ اور کئی عورتیں تھیں_ جو تمام کی تمام جناب فاطمہ (ع) سے اظہار محبت کیا کرتی تھیں، لیکن پھر بھی ایک یتیم بچے کے لئے بہت سخت گزرتا ہے جب وہ اپنی ماں کی جگہ کو خالی دیکھے اور اس کی جگہ کسی اور عورت کو رہتا دیکھے_ سوکن خواہ کتنی ہی مہربان اور اچھی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ محبت اور خالص شفقت جو ماں کی طرف سے ہوتی ہے وہ اس بچے کو نہیں دے سکتی_ صرف ماں ہی ہے کہ جو ناز و نعمت، شفقت و محبت سے بچے کے دل کو تسکین دے سکتی ہے_

جناب فاطمہ (ع) کو جس شدت سے محرومی کا احساس ہو رہا تھا اسی شدت سے پیغمبر(ص) بھی آپ سے اظہار محبت فرماتے تھے، کیونکہ پیغمبر خدا(ص) جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کو ماں کی کمی کا احساس ہے اور اس کمی کو پورا ہوتا چاہیئے، اس وجہ سے اور دوسری کئی وجوہ کی بناء پر روایت میں وارد ہوا کہ پیغمبر(ص) جب تک اپنی بیٹی کو نہ چوم لیتے رات کو نہیں سوتے تھے_(۱)

یہ تھوڑے سے آٹھ سال کے واقعات ہیں جو پیغمبر(ص) کی بیٹی جناب فاطمہ (ع) پر مکہ معظمہ میں وارد ہوئے ہیں_

واضح رہے اگر چہ اس قسم کے واقعات اور حوادث جو کسی بچے کی روح پر وارد ہوں تو اس کے اعصاب کو مختل کردیتے ہیں اور اس کی فکر صلاحیت اور جسمی قوت کو کم کردینے کے لئے کافی ہوا کرتے ہیں لیکن اس قسم کا حکم ہر ایک انسان کے لئے کرنا صحیح نہیں ہے_

کیونکہ یہی ناگوار واقعات اور دائمی گرفتاریاں اور متصل مبارزہ ممتاز اور شائستہ انسانوں کی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اس کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج۲_ ص ۹۳_

۴۱

صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے مشکلات کے مقابلے کے لئے ثابت قدم بنا دیتے ہیں_ جب تک پتھر پر غیر معمولی حرارت معدن میں وارد نہ ہو وہ خالص اور بیش بہا قیمت سونا بن کر نہیں نکلتا_

جی ہاں جناب زہرہ(ع) کی زندگی کے دوران خطرناک حوادث اور بحرانی اوضاع نے آنجناب کی روح کو نہ صرف ضعیف نہیں کیا بلکہ الٹا اپنے وجود کے گوہر کو صیقل کر کے تابناک و درخشان بنادیا اور آپ کو ہر قسم کے حالات سے مبارزہ کرنے کے لئے آمادہ اور طاقتور بنادیا تھا_

فاطمہ (ع) مدینہ کی طرف

پیغمبر خدا(ص) بعثت کے تیرھویں سال جان کے خطرے کی وجہ سے مجبور ہوگئے کہ مکہ کو چھوڑ د یں اور مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں_ چنانچہ آپ نے جاتے وقت حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) کو خداحافظ کہا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے میری دختر فاطمہ (ع) اور اپنی ماں فاطمہ بنت اسد اور چچا حمزہ کی بیٹی فاطمہ کو اور دوسری مستورات کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جلد از جلد چلے آنا، میں تمہارا انتظار کروں گا آپ(ص) نے یہ فرمایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_

حضرت علی (ع) بھی پیغمبر کے دستور کے مطابق جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو سوار کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ راستہ میں ابو واقد اونٹوں کو چلانے والے_ اونٹوں کو تیزی کے ساتھ چلا رہے تھے_ حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ نرمی کرو اور اونٹوں کو آہستہ چلاؤ، کیونکہ عورتیں کمزور ہوا کرتی ہیں جو سختی کو برداشت نہیں کرسکتیں، ابو واقد نے عرض کی کہ میں دشمنوں سے ڈرتا ہوں کوئی ہمارا تعاقب نہ کر رہا ہو جو ہم تک آپہنچے حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا پیغمبر(ص) نے مجھ

۴۲

فرمایا کے تجھے دشمن کی طرف سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی_

جب آپ ''ضجنان'' کے قریب پہنچے تو آٹھ سوار پیچھے سے آئے حضرت علی علیہ السلام نے عورتوں کو محفوظ اور امن کی جگہ کردیا اور تلوار لے کر ان دشمنوں پر حملہ کردیا اور ان کو پراگندہ و متفق کردیا پھر عورتوں کو سوار کیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے_ پیغمبر اسلام(ص) جب ''قبا'' پہنچے تو وہاں بارہ دن تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) اور دوسری مستورات کو لے کر آنحضرت کی خدمت با برکت سورہ سے شادی کی اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے گھر لے گئے اس کے بعد آپ نے جناب ام سلمہ سے نکاح کیا اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے سپرد کیا تا کہ آپ ان کی سرپرستی اور نگاہ داری کریں جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو میرے سپرد کیا تا کہ میں ان کی تربیت میں کوشش کروں، میں بھی آپ کی تربیت اور راہنمائی میں کوتاہی نہیں کرتی تھی لیکن خدا کی قسم آپ مجھ سے زیادہ با ادب اور سمجھدار تھیں_(۲)

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج ۱_ ص۱۷۵، ۱۸۳_

۲) دلائل الامامہ_ ص ۱۱_

۴۳

حصّہ دوم

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی

۴۴

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر خدا(ص) کی لڑکی اور اپنے زمانے کی ممتاز خواتین سے تھیں قریش کے اصل اور شریف خاندان سے آپ کے والدین تھے_ جمال ظاہری اور روحانی کمالات اور اخلاق آپ نے اپنے ماں باپ سے ورثہ میں پایا تھا، آپ انسانی کمالات کے اعلی ترین کمالات سے مزین تھیں آپ کے والد کی شخصیت دن بدن لوگوں کی نگاہوں میں بلند ہو رہی تھی آپ کی قدرت اور عظمت بڑھ رہی تھی اس لئے آپ کی دختر نیک اختر کی ذات بزرگان قریش اور باعظمت شخصیات اور ثروت مند حضرات کی نگاہوں میں مورد توجہ قرار پاچکی تھی_ تاریخ میں ہے کہ اکثر اوقات بزرگان آپ کی خواستگاری کرتے رہتے تھے لیکن پیغمبر اسلام(ص) بالکل پسند نہیں فرماتے تھے، آنحضرت ان لوگوں سے اس طرح پیش آتے تھے کہ انہیں معلوم ہوجاتا تھا کہ پیغمبر اسلام نے ناراض ہیں_(۱)

جناب رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کو علی (ع) کے لئے مخصوص کردیا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے_(۲)

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج ۱_ ص ۲۵۳_

۲) کشف الغمہ_ ج۱_ ص ۳۵۴_

۴۵

پیغمبر اسلام(ص) خداوند عالم کی طرف سے مامور تھے کہ نور کا عقد نور سے کریں _(۱)

لکھا ہے کہ جناب ابوبکر بھی خواستگاروں میں سے ایک تھے، ایک دن وہ اسی غرض سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وصلت کروں، کیا ممکن ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد آپ مجھ سے کردیں؟ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) ابھی کمسن ہے اور اس کے لئے شوہر کی تعیین خدا کے ہاتھ میں ہے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں_ جناب ابوبکر مایوس ہوکر واپس لوٹے راستے میں ان کی ملاقات جناب عمر سے ہوگئی تو اپنے واقعہ کو ان سے بیان کیا جناب عمر نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے تمہارے مطالبے کو رد کردیا ہے_ اور آپ (ص) نہیں چاہتے تھے کہ اپنی دختر تجھے دیں_

جناب عمر بھی ایک دن جناب فاطمہ (ع) کی خواستگاری کی غرض سے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعیان بیان کیا_ پیغمبر خدا(ص) نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ فاطمہ (ع) کمسن ہے اور اس کے شوہر کا معین کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، کئی دفعہ ان دونوں صاحبان نے خواستگاری کی درخواست کی جو قبول نہیں کی گئی_

عبدالرحمن بن عوف او رجناب عثمان بن عفان جو دونوں بہت بڑے سرمایہ دار تھے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس خواستگاری کے لئے حاضر ہوئے، عبدالرحمن نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) اگر فاطمہ (ع) کی شادی مجھ سے کردیں تو میں سو سیاہ اونٹ آبی چشم کہ جن پر مصری کتان کے کپڑوں سے بارلادا گیا ہو اور دس ہزار دینار بھی حق مہر دینے کے لئے حاضر ہوں جناب عثمان نے عرض کیا کہ میں بھی حاضر ہوں کہ اتنا ہی مہر ادا کروں اور مجھے عبدالرحمن پر ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ میں اس سے پہلے ایمان لایا ہوں_

پیغمبر اسلام(ص) ان کی گفتگو سے سخت غضبناک ہوئے اور انہیں یہ سمجھانے کے لئے

____________________

۱) دلائل الامامہ_ ص ۱۹_

۴۶

کہ میںمال سے محبت نہیں رکھتا آپ نے ایک مٹھی سنگریزوں کی بھرلی اور عبدالرحمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا کہ تم خیال کرتے ہو کہ میں مال کا پرستار ہوں اور اپنی ثروت و دولت سے مجھ پر فخر و مباہات کرنا چاہتے ہو کو مال و دولت کے دباؤ سے میں فاطمہ (ع) کا عقد تجھ سے کردوں گا_(۱)

حضرت علی (ع) کی پیشکش

اصحاب پیغمبر(ص) نے اجمالاً محسوس کرلیا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) کا دل چاہتا ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد علی (ع) سے کردیں لیکن حضرت علی (ع) کی طرف سے اس کی پیشکش نہیں ہو رہی تھی ایک دن جناب عمر اور ابوبکر اور سعدبن معاذ و ایک گروہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور مختلف موضوعات پر بحث کر رہے تھے اسی دوران جناب فاطمہ (ع) کا ذکر بھی آگیا، ابوبکر نے کہا کہ کافی عرصہ سے عرب کے اعیان اور اشراف فاطمہ (ع) کی خواستگاری کر رہے ہیں لیکن پیغمبر (ص) نے کسی بھی درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے_

ابھی تک علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے فاطمہ (ع) کی خواستگاری نہیں کی گئی میں گمان کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام کی طرف سے اس اقدام نے کرنے کی وجہ ان کی تہی دست ہونا ہے میرے سامنے یہ مطلب واضح ہے کہ خدا اور پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) کو حضرت علی (ع) کے لئے معین کر رکھا ہے_

اس کے بعد ابوبکر نے جناب عمر اور سعد سے کہا اگر تم آمادہ ہو تو ہم مل کر علی (ع) کے پاس چلیں اور ان کے سامنے اس موضوع کو پیش کریں اور اگر وہ شادی کرنے کی

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۳۴۵_ تذکرة الخواص_ ص۳۰۶_

۴۷

طرف مائل ہوں اور تہی دست ہونے کی بنیاد پر وہ شادی نہ کر رہے ہوں تو ہم ان کی مدد کریں سعد بن معاذ نے اس پیشکش کو بسر و چشم قبول کیا اور ابوبکر کو اس کام میں تشویق دلائی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ جناب عمر او رابوبکر اور سعد بن معاذ اسی غرض سے مسجد سے باہر آئے اور حضرات علی علیہ السلام کی جستجو میں چلے گئے لیکن آپ کو انہوں نے گھر پہ نہ پایا اور معلوم ہوا کہ آپ ایک انصاری کے باغ میں اونٹ کے ذریعے ڈول کھینچ کر خرمے کے درختوں کو پانی دے رہے ہیں یہ لوگ اس طرف گئے_ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور میرے پاس کس غرض سے آئے ہو؟ ابوبکر نے کہا اے علی (ع) تم کمالات کے لحاظ سے ہر ایک سے بالاتر ہو ہم سب آپ کے مقا اور وہ علاقہ جو رسول خدا(ص) کو تم سے ہے اس سے آگاہ ہیں، بزرگان اور اشراف قریش حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگاری کے لئے جاچکے ہیں، لیکن تمام لوگوں کی باتوں کو پیغمبر اکرم(ص) نے رد فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ہم گمان کرتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو آپ کے لئے مخصوص کیا ہے دوسرا اور کوئی بھی شخص اس سعادت پر افتخار کی صلاحیت نہیں رکھتا ہیں یہ خبر نہیں ہوسکی کہ آپ اس اقدام میں کیوں کوتاہی کر رہے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابوبکر کی یہ گفتگو سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے اور فرمایا اے ابوبکر تم نے میرے احساسات اور اندرونی خواہشات کو ابھارا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس سے میں غافل تھا_ خدا کی قسم تمام دنیا حضرت فاطمہ (ع) کی خواستگار ہے اور میں بھی علاقہ مند ہوں جو چیز مجھے اس اقدام سے روکے ہوئے ہے وہ ہے فقط میرا خالی ہاتھ ہونا_ ابوبکر نے کہا یا علی (ع) آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) کی نگاہ میں دنیا اور مال دنیا کی کوئی قیمت نہیں ہے میری رائے ہے کہ جتنی جلدی

۴۸

ہوسکے آپ اس کام میں اقدام کریں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خواستگاری کی درخواست دیں_(۱)

اندرونی جذبہ بیدار ہوتا ہے

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے گھر ہی پلے اور جوان ہوئے تھے، آپ(ص) جناب فاطمہ (ع) کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور آپ کے اخلاق اور نفسیات سے پوری طرح آگاہ تھے، دونوں پیغمبر خدا(ص) اور جناب خدیجہ کے تربیت یافتہ تھے اور ایک ہی گھر میں جوان ہوئے تھے_(۲)

حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (ع) جیسی عورت اور نہیں مل سکے گی آپ تمام کمالات اور فضائل سے آراستہ ہیں اور آپ انہیں تہہ دل سے چاہتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ہمیشہ مناسب وقت ہاتھ نہیں آیا کرتا لیکن اسلام کی بحرانی کیفیت اور مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی نے علی کو اس دلی خواہش سے روک رکھا تھا اور آپ میں سوائے ازدواج کے تمام افکار موجود تھے_

حضرت علی (ع) نے ابوبکر کی پیش کش پر تھوڑا سا غور کیا اور اس معاملے کے تمام اطر اف اور جوانب پر غور کیا ایک طرف آپ کا خالی ہاتھ ہونا اور اپنی اور تمام مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور عمومی گرفتاری دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف یہ بھی جان چکے تھے کہ آپ کے ازدواج کا وقت آپہنچا ہے کیونکہ آپ کی عمر تقریباً اکیس سال یا اس سے زیادہ ہوچکی تھی_(۲)

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب_ ج۲_ ص ۱۸۰_

۳) ذخائر عقبی _ ص ۲۶_

۴۹

انہیں اس عمر میں ازدواج کرنا ہی چاہیئےور فاطمہ (ع) جیسا اور رشتہ بھی نہیں مل سکے گا اگر یہ سنہرا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا تدارک نہیں کیا جاسکے گا_

علی (ع) خواستگاری کے لئے جاتے ہیں

جناب ابوبکر کی پیشکش نے حضرت علی علیہ السلام کی روح کو اس طرح بیدار کردیا تھا کہ آپ کا اندرونی جذبہ محبت شعلہ ور ہو اور آپ سے پھر اس کام کو آخر تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا کہ جس میں آپ مشغول تھے، آپ نے اونٹ کو اس کام سے علیحدہ کیا اور گھر واپس آگئے آپ نے غسل کیا اور ایک صاف ستھری عبا پہنی اور جوتے پہن کر جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے_

پیغمبر اکرم(ص) اس وقت جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے_ حضرت علی علیہ السلام جناب ام سلمہ کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پیغمبر اکرم(ص) نے جناب ام سلمہ سے فرمایا کہ دروازہ کھولو دروازہ کھٹکھٹا نے والا وہ شخص ہے کہ جس کو خدا اور رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور اس کے رسول (ص) کو دوست رکھتا ہے_ ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ یہ کون ہے کہ جسے آپ نے بغیر دیکھے ہوئے اس قسم کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا ہے؟

آپ(ص) نے فرمای اے امّ سلمہ چپ رہو یہ ایک بہادر اور شجاع انسان ہے جو میرا چچازاد بھائی ہے اور سب لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے جناب ام سلمہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھول دیا، حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور پیغمبر خدا(ص) کے سامنے بیٹھ گئے اور شرم کی وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے کو ظاہر نہ کرسکے، تھوڑی دیر تک دونوں چپ رہے اور آخر الامر پیغمبر اسلام(ص) نے

۵۰

اس سکوت کو توڑا اور ___ فرمایا یا علی گو یا کسی کام کے لئے میرے پاس آئے ہو کہ جس کے اظہار کرنے سے شرم کر رہے ہو؟ بغیر کسی ہچکچا ہٹ کے اپنی حاجت کو بیان کرو اور مطمئن ہو جاؤ کہ تمہاری خواہش قبول کی جائے گی_

حضرت علی (ع) نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے گھر میں جو ان ہوا ہوں اور آپ کے لطف و کرم سے ہی مستفید رہا ہوں آپ نے میری تربیت میں ماں اور باپ سے بھی زیادہ کوشش فرمائی ہے اور آپ کے وجود مبارک کی برکت سے میں نے ہدایت پائی ہے یا رسول اللہ خدا کی قسم میری دنیا و آخرت کی پونجی آپ ہیں اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ اپنے لئے کسی رفیقہ حیات کا انتخاب کروں اور خانوادگی زندگی کو تشکیل دوں تا کہ اس سے مانوس رہوں اور اپنی تکالیف کو اس کی وجہ سے کم کرسکوں، اگر آپ مصلحت دیکھیں تو اپنی دختر جناب فاطمہ (ع) کو میرے عقد میں دے دیں کہ جس سے مجھے ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہوگی_

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قسم کی پیشکش کے منتظر تھے آپ کا چہرہ انور خوشی اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمایا کہ صبر کرو میں فاطمہ (ع) سے اس کی اجازت لے لوں_ پیغمبر اسلام(ص) جناب فاطمہ(ص) کے پاس تشریف لے گئے او فرمایا تم کو بہتر جانتی ہو وہ خواستگای کے لئے آپے ہیں آیا تم اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا ان سے عقد کردوں؟ جناب فاطمہ (ع) شرم کی وجہ سے ساکت رہیں اور کچھ نو بولیں_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنجناب کے سکوت کو رضایت کی علامت قرار دیا _(۱)

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۲۷_ ذخائر العقبی _ ص ۲۹_

۵۱

موافقت

پیغمبر خدا(ص) اجازت لینے کے بعد حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور مسکرات ہوئے فرمایا یا علی (ع) شادی کے لئے تمہارے پاس کچھ ہے؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا یا رسول اللہ (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ میری حالت سے پوری طرح آگاہ ہیں میری تمام دولت ایک تلوار اور ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے آپ نے فرمایا کہ تم ایک جنگجو سپاہی اور جہاد کرنے والے ہو بغیر تلوار کے خدا کی راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تلوار تمہاری پہلی کھینچ کر اپنی اور اپنے گھر کی اقتصادی اور مالی حالت سنوار سکو اور مسافرت میں اس پر سامان لاد سکو صرف ایک چیز ہے کہ جس سے صرف نظر کرسکتے ہو اور وہ ہے تمہاری زرہ میں بھی تم پر سختی نہیں کرتا اور اسی زرہ پر اکتفا کرتا ہوں، یا علی اب جب کہ معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کیا چاہتے ہو تمہیں ایک بشارت دوں اور ایک راز سے آگاہ کروں؟

حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ بر قربان ہوں آپ ہمیشہ خوش زبان اور نیک خواہ رہے ہیں_ آپ نے فرمایا کہ قبل اس کے کہ تم میرے پاس آؤ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) اللہ تعالی نے تجھے بندوں سے منتخب کیا ہے اور رسالت کے لئے چنا ہے_ علی (ع) کو منتخب کیا اور انہیں تمہارا بھائی اور وزیر قرار دیا ہے تمہیں اپنی دختر کا ا ن سے نکاح کردینا چاہیئے ان کے ازدواج کی محفل عالم بالا میں فرشتوں کے حضور ترتیب دی جاچکی ہے خداوند عالم دو پاکیزہ نجیب طیب و طاہر اور نیک فرزند انہیں عطا کرے گا_ اے علی (ع) ابھی جبرئیل واپس نہیں گئے تھے کہ تم نے میرے گھر کا دروازہ آن کھٹکھٹایا ہے_

____________________

۱) بحارالانوار_ ج۴۳_ ص ۱۲۷_

۵۲

خطبہ عقد

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی (ع) تم جلدی سے مسجد میں جاوں میں بھی تمہارے پیچھے آرہا ہوں تا کہ تمام لوگوں کے سامنے عقد کی تقریب اور خطبہ عقد بجالاؤ، علی (ع) خوش اور مسرورمسجد روانہ ہوگئے_ جناب ابوبکر او رعمر سے راستے میں ملاقات ہوگئی تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا اور کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنی دختر مجھ سے تزویج کردی ہے اور ابھی میرے پیچھے آرہے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کے مراسم انجام دیں_

پیغمبر خدا(ص) جب کہ آپ کا چہرہ خوشی اور شادمانی سے چمک رہا تھا مسجد میں تشریف لے گئے او رخدا کی حمد و ثناء کے بعدفرمایا: اے لوگو آگاہ رہو کہ جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے پیغام لائے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ (ع) کے ازدواج کے مراسم عالم بالا میں فرشتوں کے حضور منعقد کئے جاچکے ہیں اور حکم دیا ہے کہ زمین پر بھی یہ مراسم انجام دیئے جائیں میں تم کو گواہ قرار دیتا ہوں، آپ اس کے بعد بیٹھ گئے اور حضرت علی (ع) سے فرمایا اٹھو اور خطبہ پڑھو_

حضرت علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں خداوند عالم کا اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی گواہی دیتا ہوں جو اس ذات کو پسند ہو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور ایسا درود ہو جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جو آپ کے مقام اور درجہ کو بالاتر کردے_ لوگو میرے اور فاطمہ (ع) کے ازدواج سے اللہ راضی ہے اور اس کا حکم دیا ہے لوگو رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کا عقد مجھ سے کردیا ہے اور میری زرہ کو بطور مہر قبول فرمایا ہے آپ ان سے پوچھ لیں اور گواہ ہوجائیں_

۵۳

مسلمانوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ(ص) آپ نے فاطمہ (ع) کا عقد علی علیہ السلام سے کردیا ہے؟ رسول خدا(ص) نے جواب میں فرمایا ہاں_ تمام حاضرین نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ خدا اس ازدواج کو تمہارے لئے مبارک قرار دے اور تم دونوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کردے_

جلسہ عقد ختم ہوا تو پیغمبر (ص) گھر واپس لوٹ آئے اور عورتوں کو حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے لئے خوشی اور مسرت کا جشن برپا کریں(۱) عقد کے مراسم پہلی یا چھٹی ذی الحجہ(۲) دوسری یا تیسری ہجری(۳) کو انجام پایا_

داماد کا انتخاب

اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اگر کوئی جوان تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آئے تو تم اس کی تمام چیزوں سے پہلے دینی اور اخلاقی حالت کا جائزہ لو با ایمان اور پاک دامن اور خوش اخلاق ہو تو اس سے رشتہ کردو_ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ ازدواج کے لئے مال اور ثروت کو معیار نہیں بنانا چاہیئے_ اسلام کہتا ہے کہ مال و ثروت ہی انسان کو صرف خوش بخت نہیں بناتا، داماد کے فضائل اور کمالات نفسانی اور دینی جذبہ مال اور ثروت پر برتری رکھتا ہے، کیوں کہ باایمان اور خوش رفتار اگر چہ فقیر اور تہی دست

____________________

۱) اس قسمت کے مطالب اور مضامین کو ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے، کشف الغمہ_ ج۱ ص ۲۵۳ و ۷ ۲۵_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۲_ ذخائر العقبی _ تذکرة الخواص_ دلائل الامامہ مناقب خوارزمی ص ۲۴۷_ بحار الانوار_ ج ۴۳ ص ۹۲و ۱۴۵_

۲) مناقب شہر ابن آشوب ج ۳ ص ۳۴۹_

۳) بحار الانوار_ ج ۴۳ _ ص ۶ و ۷_

۵۴

ہی کیوں نہ ہو وہ اس عیاش اور ہوسباز اور لاابالی سرمایہ دار سے جو گھر کی آسائشے کے اسباب فراہم کرتا ہے کئی درجہ بہتر ہے_

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے جب کوئی تمہاری لڑکی کی خواستگاری کے لئے آتے تو اگر تمہیں اس کا اخلاق اور دین _ پسند ہو تو اس سے رشتہ کردو اور اس کو منفی جواب نہ دو اور اگر تمہاری شادیوں کا معیار اس کے خلاف ہو تو نہ تمہارے لئے بہت زیادہ مصائب کا موجب ہوگا_(۱)

پیغمبر(ص) نے یہ مطلب صرف لوگوں کو بتلایا ہی نہیں بلکہ خود بھی اس پر عمل کیا_ آپ نے حضرت علی (ع) کے فضائل اور کمالات اور اخلاق کو دیکھ کر انہیں عبدالرحمن اور عثمان جیسے سرمایہ داروں پر ترجیح دی اور ان(ع) کے فقیر اور تہی دست ہونے کے نقض اور عیب شمار نہ کیا_

حضرت زہرا علیہا السلام کا مہر

۱_ ایک زرہ کہ جس کی قیمت چارسو یا چارسو اسی یا پانچ سو درہم تھی_

۲_ یمنی کتان کا ایک جوڑا_

۳_ ایک گوسفند کی کھال رنگی ہوئی _(۲)

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۲۵۱_

۲) وافی کتاب النکاح ص ۱۵_

۵۵

عملی سبق

اسلام زیادہ مہر کو ملت کے لئے مصلحت نہیں دیکھتا اور سفارش کرتا ہے کہ اگر داماد کے دین اور اخلاق کو تم نے پسند کرلیا ہے تو پھر مہر میں سختی سے کام نہ لو اور تھوڑے مہر پر قناعت کرلو_

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو خوبصورت اور کم مہر والی ہوں_(۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کی برائی اس میں ہے کہ اس کا مہر بہت زیادہ ہو_(۲)

اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ زیادہ مہر زندگی کو لوگوں پر سخت کردیتا ہے اور بہت زیادہ مشکلات کا ملت کے لئے موجب ہوتا ہے_ مہر میں آسانی کر کے جواوں کو ازدواج زندگی کی طرف مائل کرنا چاہیئےا کہ ہزاروں اجتماعی مفاسد اور روحی امراض سے روکا جاسکے_ زیادہ مہر داماد کی زندگی کو ابتدا ہی میں متزلزل کردیتا ہے اور میاں بیوی کی محبت پر بھی بر اثر ڈالتا ہے (میاں بیوی کی محبت میں خلوص پیدا نہیں ہونے دیتا) جوانوں کو شادی کی طرف سے بے رغبت کردیتا ہے_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں کو خود عمل کر کے سمجھا رہے ہیں کہ زیادہ مہر اسلامی معاشرے کے لئے واقعاً مصلحت نہیں رکھتا اسی لئے تو آپ نے اپنی عزیزترین بیٹی کا معمول مہر پر جیسا کہ بیان کیا گیا حضرت علی (ع) سے نکاح کردیا یہاں تک کہ کوئی چیز بطور قرض بھی علی (ع) کے ذمّہ نہیں سونپی_

____________________

۱) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۲) وافی کتاب النکاح_ ص ۱۵_

۵۶

حضرت زہرا علیہا السلام کا جہیز

پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا ابھی اٹھو ارو اس زرہ کو جو تم نے حضرت زہرا (ع) کے لئے مہر قرار دی ہے، بازار میں جا کر فروخت کردو اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ تا کہ میں تمہارے لئے جہیز اور گھر کے اسباب مہیا کروں_

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے زرہ کو بازار میں لے جا کر فروخت کردیا، مختلف روایات میں اس کی قیمت چار سو سے لے کر پانچ سو درہم تک بتائی گئی ہے_ واضح رہے کہ بعض روایات کی بنا پر جناب عثمان نے آپ کی زرہ خریدی اور بعد میں حضرت علی (ع) کو ہدیہ کردی_(۱)

حضرت علی علیہ السلام زرہ کی قیمت لے کر پیغمبر خدا(ص) کی خدمت میں پیش کی، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب ابوبکر، سلمان فارسی اور بلال کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس مقدار سے جناب فاطمہ (ع) کے لوازمات اور اسباب زندگی خرید کر لاؤ اور اس سے کچھ درہم اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو او رجو درہم باقی بچے وہ جناب ام سلمہ کے پاس رکھ دیئے گئے_

ابوبکر کہتے ہیں کہ جب میں نے درہم کو گنا تو سترسٹھ درہم تھے اور اس سے میں نے یہ اسباب اور لوازمات خریدے_

۱_ ایک سفید قمیص_

۲_ ایک بڑی چادر سر ڈھانپنے کے لئے (یعنی برقعہ)_

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۳۰_

۵۷

۳_ ایک سیاہ خیبری حلہ_

۴_ ایک چار پائی جو کھجور کے لیف سے نبی ہوئی تھی_

۵_ دو عدد توشک ، گدے کہ ایک میں گوسفند کی پشم بھری گئی اور دوسری میں کجھور کے پتے بھرے گئے_

۶_ چار عدد تکیہ جو گوسفند کے چمڑے سے بنائے گئے تھے کہ جن کو اذخر نامی خوشبودار گھاس سے بھرا گیا تھا_

۷_ ایک عدد چٹائی ہجری نامی_

۸_ ایک عدد دستی چکی_

۹_ ایک تانبہ کا پیالہ_ _ پانی بھر نے کے لئے ایک عدد چمڑے کی مشک_ _ کپڑا دھونے کے لئے ایک عدد تھال_ _ دودھ کے لئے ایک عدد پیالہ_ _ پانی پینے کا ایک عدد برتن _ _ ایک پشمی پردہ_ _ ایک عدد لوٹا_ _ ایک عدد کٹی ا برتن جسے صراحی (سبو) کہا جاتا ہے_ _ فرش کرتے کے لئے ایک عدد چمڑا_ _ ایک عدد کوزے_ _ ایک عدد عبا_(۱)

جب جناب زہرا (ع) کا جہیز جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لے

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب _ ج ۲ ص ۳۵۳ و کشف الغمہ_ ج ۱ ص ۳۵۹_

۵۸

آئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا اے خدا اس شادی کو مبارک کر کہ جس کے اکثر برتن مٹی کے ہیں_

مسلمانوں کے لئے درس

جناب زہرا علیہا السلام اور حضرت علی علیہ السلام کی شادی اسلامی نمونہ کا سب سے اہم اور احساس ترین شادی ہوسکتی ہے کیونکہ جناب زہر ا علیہا السلام کے والد جزیزة العرب کی بہت بڑی شخصیت بلکہ جہان اسلام کی اہم شخصیت اور برگزیدہ پیغمبر تھے_لڑکی کی بھی بہترین او رعاقل ترین اور تربیت شدہ اور باکمال تھی اور نبائے بشریت کی چار عورتوں میں سے ایک ہیں اور داماد بھی حسب و نسب کے لحاظ سے عرب کے معزز خاندان سے تھے، علم اور کمال اور شجاعت کے لحاظ سے تمام مردوں پر برتری رکھتے ہیں آپ رسول خدا(ص) کے جانشین اور وزیر اور مشیر ہیں اور لشکر اسلام کے سپہ سالار ہیں، اس قسم کی شادی کو خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہونا چاہیئے تھا لیکن جیسا آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ تقریب بہت سادی سے انجام پذیر ہوئی اسلام کی مثالی خاتون کا جہیز جو مہیا کیا گیا وہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہی مختصر جہیز بھی خود حضرت زہرا علیہا السلام کے حق مہر سے خریدا گیا یوں نہیں کیا گیا کہ حق مہر کو محفوظ کرلیا گیا ہو اور لڑکی کے باپ نے ہزاروں مصائب اور دوسرے اپنی لڑکی کے لئے جہیز اپنی جیب سے مہیا کیا ہو_

پیغمبر خدا(ص) جیسے بھی ہوتا اگر چہ فرض ہی لے کر کیوں نہ ہوتا یوں کرسکتے تھے کہ بہت آبرومندانہ جہیز اس زمانے کے معمول کے مطابق اپنی اکلوتی عزیزترین بیٹی کے لئے مہیا کرتے اور یوں کہتے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں مجھے اپنی شان کا خیال رکھنا ضروری ہے میری بیٹی دنیا کہ بہترین عورتوں میں سے ایک عورت ہے اس کی عظمت اور عزت کا احترام

۵۹

کیا جانا چاہیئے اور اس کی خوشحالی کے اسباب فراہم کرنے چاہئیں میرے داماد کے خدمات او رجہاد کسی پر مخفی نہیں اس کا احترام اور اس کے زحمات کی قد ردانی اس کی آبرو کے لحاظ سے بہترین وسائل اور اسباب مہیا کر کے مجھے کرنی چاہیئے_

لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جہیز میں مقابلہ اور زیادتی کے ضرر اور مفاسد کا معاشرہ میں علم تھا اور آپ کو علم تھا کہ اگر مسلمان اس مصیبت میں گرفتار ہوگئے تو انہیں عمومی فقر اور اقتصادی دیو الیہ اور کثرت طلاق اور جوانوں کا شادی کرنے کا رجحان کم ہوجائے گا اور روز بروز بے زن جوانوں اور بے شوہر لڑکیوں کی زیادتی اور جرائم اور جنایات کی کثرت مختلف قسم کے فحشا اور اعصابی بیماریوں کا وجود میں آنا جیسے مصائب میں گرفتار ہونا پڑے گا اسی لئے اس مثالی شادی کہ جس کے منتظمین اسلام کی پہلی اور دوسری شخصیت تھیں کمال سادگی سے عمل میں لائی گئی، تا کہ یہ ملت اسلامیہ اور مسلمانوں کے زمام داروں کے لئے عمل درس واقع ہو_

حضرت علی علیہ السلام بھی ان کوتاہ فکر جوانوں میں سے نہ تھے کہ جو مال اور دولٹ کے اکٹھے کرنے کے لئے شادی کرتے ہیں کہ اگر جہیز میں کچھ کمی ہو تو ہر روز اپنی بیوی کے لئے درد سر بنے رہتے ہیں اور اسے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور اعتراضات سے ازدواجی زندگی کو متزلزل کردیتے ہیں اور زندگی باصفا اور گرم کو بے محل طفلانہ بہانوں سے انس ا ور محبت کے گھر کو اختیار قید خانے میں تبدیل کردیتے ہیں حضرت علی علیہ السلام ملت اسلامی کے امام و پیشوا تھے اور چاہتے تھے کہ اس قسم کے غلط افکار سے مبارزہ کیا جائے مال اور دولت آپ کی نگاہ میں کچھ قیمت نہ رکھتے تھے_

۶۰

حضرت علی (ع) کے گھر کا اثاثہ

حضرت علی علیہ السلام نے مندرجہ ذیل اسباب حجلہ عروسی کے لئے مہیا کر رکھے تھے_

۱_ ایک لکڑی کی جس پر کپڑے اور پانی کی مشک ٹانگی جاسکے_

۲_ گوسفند کی کھال_

۳_ ایک عدد تکیہ_

۴_ ایک عدد مشک_

۵_ ایک عدد آٹے کی چھلنی_(۱)

عروسی کے متعلق گفتگو

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مہینہ تقریباً گزر گیا اور میں حیا کرتا تھا کہ پیغمبر (ص) سے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں تذکرہ کروں لیکن جب بھی تنہائی ہوتی تو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ، یا علی کتنی نیک اور زیبا تم کو رفیقہ حیات نصیب ہوئی ہے، جو دنیا کی عورتوں سے افضل ہے ایک دن میرے بھائی عقیل میرے پاس آئے اور کہا:

بھائی جان ہم آپ کی شادی سے بہت خوش حال ہیں، کیوں رسول خدا(ص) سے خواہش کرتے کہ فاطمہ (ع) کو آپ کے گھر روانہ کریں؟ تا کہ آپ کی شادی کی خوشی سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، میں نے جواب دیا میں بہت چاہتا ہوں کہ رخصتی کرلاؤں لیکن پیغمبر اسلام(ص)

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۱۴_

۶۱

سے شر م کرتا ہوں عقیل نے کہا تمہیں خدا کی قسم ابھی میرے ساتھ آؤ تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میںچلیں

_

حضرت علی (ع) جناب عقیل کے ساتھ رسول خدا(ص) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے استے میں جناب ام ایمن سے ملاقات ہوگئی ان سے واقعہ کو بیان کیا تو جناب ام ایمن نے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے میں رسول خدا(ص) سے اس بارے میں گفتگو کروں گی، کیونکہ اس قسم کے معاملے میں عورتوں کی گفتگو زیادہ موثر ہوا کرتی ہے، جب ام ایمن اور دوسری عورتیں اصل معاملہ سے مطلع ہوئیں تو تمام کی تمام پیغمبر (ص) کی خدمت میں مشرف ہوئیں اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) ہمارے ماں باپ آپ پر قربان جائیں_ ہم ایک ایسے موضوع کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہیں کہ اگر جناب خدیجہ زندہ ہوتیں تو بہت زیادہ خوشحال ہوتیں_ جناب پیغمبر خدا(ص) نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آپ کے آنسو نکل آئے اور فرمایا کہ خدیجہ کہاں اور خدیجہ جیسا کون، جب لوگ مجھے جھٹلانے تھے تو خدیجہ میری تصدیق کرتی تھیں_ دین خدا کی ترویج کی خاطر اپنا تمام مال میرے اختیار دے رکھا تھا_ خدیجہ وہ عورت تھی کہ جن کے متعلق اللہ تعالی نے مجھ پر وحی نازل کی کہ خدیجہ کو بشارت دوں کہ خدا اس کو بہشت میں زمرد کا بنا ہوا گھر عطا فرمائے گا_

ام سلمہ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ جتنا بھی خدیجہ کے متعلق فرمائیں وہ درست ہے خدا ہم کو ان کے ساتھ محشور فرمائے، یا رسول اللہ(ص) آپ کے بھائی اور چچازاد بھائی چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اپنے گھر نے جائیں_ آپ(ص) نے فرمایا وہ خود اس بارے میں مجھ سے کیوں بات نہیں کرتے؟ عرض کہ وہ حیا کرتے ہیں، جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا کہ ابھی علی (ع) کو میرے پاس حاضر کرو_

۶۲

جب حضرت علی (ع) آپ کی خدمت میں مشرف ہوئے تو فرمایا اے علی چاہتے ہو کہ اپنی بیوی اپنے گھر لے جاؤ؟ آپ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ(ص) آپ نے فرمایا کہ خدا مبارکے کرے، آج رات یا کل رات رخصتی کے اسباب فراہم کردوں گا_

اس کے بعد آپ نے عورتوں سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) کو زینت کرو اور خوشبوں لگاؤ اور ایک کمرہ میں فرش بچھا دو تا کہ اس کی رخصتی کے آداب بجالاؤں _(۱)

رخصتی کا جشن

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ عروسی میں ولیمہ دیا جائے اور میں دوست رکھتا ہوں کہ میری امت شادیوں میں ولیمہ دیا کرے_ سعد اس مجلس میں موجود تھے، انہوں نے عرض کی کہ ایک گوسفند میں آپ کو اس جشن کے لئے دیتا ہوں، دوسرے اصحاب نے بھی حسب استطاعت اس میں مدد کی جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال سے فرمایا ایک گوسفند لے آو اور حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ اس حیوان کو ذبح کرو، آپ نے دس درہم بھی انہیں دیئے اور فرمایا اس سے کچھ گھی، خرما، کشک لے آو اور روٹی بھی مہیا کرو اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ جسے چاہتے ہو کھانا کھانے کی دعوت دے دو_ حضرت علی علیہ السلام نے اصحاب کے ایک بہت بڑے گروہ کو دعوت دی_ گوشت پکایا گیا اور گھی اور خرما اور کشک کے ذریعے غذا حاضر کی گئی_

چونکہ مہمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور پذیرائی کے اسباب تھوڑے تھے تو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ مہمان دس، دس ہو کر اندر آئیں اور کھانا

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۳۰ و ۱۳۲_

۶۳

کھائیں_ اس جشن میں جناب عباس اور حضرت حمزہ اور حضرت علی (ع) اور جناب عقیل مہمانوں کی پذیرائی کر رہے تھے، دسترخوان بچھایا گیا اور اصحاب دس، دس ہو کر اندر آتے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارک سے غذا نکالتے اور مہمانوں کے سامنے رکھتے، جب سیر ہو جاتے تو باہر چلے جاتے اور دوسرے دس آدمی اندر آجاتے اس طرح سے بہت زیادہ لوگوں نے کھانا کھایا اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک کی برکت سے تمام لوگ سیرہوگئے اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ جو غذا بچ رہی ہے وہ فقرا اور مساکین کے گھروں کو ''جو ولیمہ میں حاضر نہ ہوسکتے تھے'' پہنچائی جائے اور حکم دیا کہ ایک برتن میں حضرت زہرا(ع) اور حضرت علی علیہ السلام کے لئے غذا رکھی جائے _(۱)

حجلہ کی طر ف

پیغمبر خدا(ص) کی عورتوں نے جناب فاطمہ (ع) کو آراستہ کیا آپ کو عطر اور خوشبو لگائی، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) کو بلایا اور اپنے دائیں جانب بٹھایا اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے بائیں جانب بٹھایا، اس کے بعد دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور دونوں کی پیشانی کو بوسہ دیا دلہن کا ہاتھ پکڑا اور داماد کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) اچھی رفیقہ حیات ہے اور جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ علی (ع) بہترین شوہر ہیں_

اس کے بعد عورتوں کو حکم دیا کہ دولھا، دلھن کو خوشی اور جوش و خروش سے حجلہ کی طر ف لے جائیں لیکن اس قسم کا کوئی کلام نہ کریں کہ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو

____________________

۱) بحارالانوار_ ج ۴۳ ص ۱۳۲ و ۱۳۷ و ۱۱۴و ۱۰۶_

۶۴

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عورتوں نے جوش و خروش سے اللہ اکبر کہتے ہوئے فاطمہ (ع) اور علی (ع) کو حجلہ تک پہنچایا رسول خدا(ص) بھی اس کے پیچھے آپہنچے اور حجلہ میں وارد ہوگئے اور حکم دیا کہ پانی کا برتن حاضر کیا جائے تھوڑا سا پانی لے کر آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے جسم پر چھڑ کا اور حکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد ایک اور پانی کا برتن منگوایا اور اسے کچھ پانی حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر چھڑکا اورحکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد آپ نے دلھن اور داماد کا بوسہ لیا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا_ اے خدا_ اس شادی کو مبارک فرما اور ان سے پاک و پاکیزہ نسل وجود میں آئے_

جب آپ نے چاہا کہ حجلہ سے باہر جائیں تو جناب فاطمہ (ع) نے آپ کا دامن پکڑلیا اور رونا شروع کردیا، آپ نے فرمایا میری پیاری بیٹی، میں نے بردبار تریں اور دانشمندترین انسان سے تیری شادی کی ہے_

اس کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور حجلہ کے درواز پر آکر دروازے کے عتبے کو پکڑ کر فرمایا کہ خدا تمہیں اور تمہاری نسل کو پاک و پاکیزہ قرار دے، میں تمہارے دوستوں کا دوست ہوں اور تمہارے دشمنوں کا دشمن، اب رخصت ہوتا ہوں اور تمہیں خداوند عالم کے سپرد کرتا ہوں_ حجلے کے دروازے کو بند کیا اور عورتوں سے فرمایا کہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اور یہاں کوئی بھی نہ رہے_ تمام عورتیں چلی گئیں_

جب پیغمبر اسلام(ص) نے باہر جانا چاہا تو دیکھا کہ ایک عورت وہاں باقی ہے پوچھا تم کون ہو مگر میں نے نہیں کہا کہ سب چلی جاؤ_

اس نے عرض کی میں اسماء ہوں، آپ نے توفرمایا کہ سب چلی جاؤ لیکن میں جانے سے معذور ہوں کیونکہ جب جناب خدیجہ اس جہان سے کوچ فرما رہی تھیں تو میں نے دیکھا

۶۵

کہ وہ رور رہی ہیں، میں نے عرض کیا آپ بھی روتی ہیں؟ حالانکہ تم دنیا کہ عورتوں سے بہترین عورت ہو، اور رسول خدا(ص) کی بیوی ہو، اللہ تعالی نے تجھے بہشت کا وعدہ دیا ہے_ آپ نے کہا میں اس لئے رو رہی ہوں کہ جانتا ہوں لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ شب زفاف اس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو جو اس کی محرم راز ہو اور اس کی ضروریات کو پورا کرے، میں دنیا سے جارہی ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ فاطمہ (ع) شب زفاف کوئی محرم نہ رکھتی ہوگی اور اس کا کوئی مدد گار نہ ہوگا اس وقت میںنے خدیجہ سے عرض کیا گہ اگر کیا کہ اگر میں فاطمہ (ع) کے شب زفاف تک زندہ رہی تو تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اس کے پاس رہوں گی اور اس سے مادری سلوک آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا تجھے خدا کی قسم تم اسی غرض سے یہاں رہ گئی ہو؟ عرض کیا ہاں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا تم اپنے ودعدہ پر عمل کرو_(۱)

____________________

۱) بعض روایات کی بنا پر جب چو تھے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے تو آپ(ص) (ص) نے اسماء سے ملاقات کی، بہرحال یہ داستان اسماء بہت سے تاریخ نویسوں نے لکھی ہے اور اس میں نسبت بھی اسماء بنت عمیس کی طرف اس واقعہ کی دی ہے، لیکن اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو وہ عورت اسماء بنت عمیس نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس وقت اسماء جناب جعفر طیار کی زوجہ تھیں اور آپ کے ساتھ حبشہ میں موجود تھیں جناب فاطمہ (ع) کی شادی کے وقت مدینہ میں موجود نہ تھیں مدینہ میں آپ خیبر کے فتح ہونے کے بعد آئیں، لہذا وہ عورت جو جناب فاطمہ (ع) کے پاس شب زفاف میں رہیں وہ یا اسماء بنت یزید بن سکن انصاری یا سلمی جو اسماء بنت عمیس کی بہن تھیں ہوگی_ بہرحال صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں اس عورت کے نام میں مورخین کو اشتباہ ہوا ہے_

۶۶

فاطمہ کا دیدار

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زفاف کی رات کی صبح کو دودھ برتن میں لئے ہوئے جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں گئے اور وہ برتن جناب فاطمہ (ع) کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا تمہارا باپ تم پر قربان ہو اس کو پیئو، اس کے بعد حضرت علی (ع) سے فرمایا تمہارے چچا کہ بیٹا تم پر قربان ہو تم بھی پیئو_(۱)

حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا بیوی کیس تھی؟ عرض کیا اللہ کی بندگی میں بہترین مددگار_ جناب فاطمہ (ع) سے پوچھا کہ شوہر کیسے تھے؟ عرض کیا بہترین شوہر_(۲)

پیغمبر(ص) اس کے بعد چار دن تک جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف نہیں لے گئے اور جب چو تھے دن جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں تشریف لے گئے تو آپ سے خلوت میں پوچھا، تیرا شوہر کیسا ہے؟ عرض کی ا بّا جان مردوں میں سے بہترین شوہر اللہ نے مجھے عطا کیا، لیکن قریش کی عورتیں میرے دیدار کے لئے آئیں تو بجائے مبارک باد دینے کے میرے دل پر غم کی گرہ چھوڑ گئیں اور کہنے لگیں تمہارے باپ نے تمہارا نکاح ایک فقیر و تہی دست انسان سے کیا ہے، حالانکہ مال دار اور ثروت مندمرد تمہارے خواستگار تھے_ جناب رسول خدا(ص) نے اپنی بیٹی کی تسلی دی اور فرمایا اے نور چشم تمہارے باپ اور شوہر فقیر نہیں ہیں خدا کی قسم زمین کے خزانے کی چاہیاں میرے سامنے پیش کی گئیں لیکن میں نے اخروی نعمات کو دنیا کے مال اور ثروت پر ترجیح دی، عزیزم میں نے تیرے لئے ایک ایسا شوہر منتخب کیا ہے جس نے

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج ۷ ص ۹۹_

۲) بحارالانوار_ ج ۴۳ ص ۱۱۷_

۶۷

تمام لوگوں سے پہلے اسلام کا اظہار کیا اور جو علم و حلم اور عقل کے لحاظ سے تمام لوگوں پر برتری رکھتا ہے_ خداوند عالم نے تمام لوگوں سے مجھے اور تیرے شوہر کو چنا ہے_ بہت بہترین شوہر والی ہو اس کی قدر کو سمجھو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو_ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا کہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی اور مہربانی سے پیش آنا، تمہیں معلوم ہونا چاہیئےہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو شخص اسے اذیت دے گا وہ مجھے اذیت دے گا اور جو اسے خوشنود کرلے گا، وہ مجھے خوشنود کرے گا، میں تم سے رخصت ہوتا ہوں اور میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں_(۱)

علامہ مجلسی علیہ الرحمة نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا عقد ماہ مبارک میں ہوا، پہلی یا چھ ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی _(۲)

حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے تھوڑی مدت اپنے گھر میں جو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا زندگی بسر کی، لیکن یہ فاصلہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دشوار تھا ایک دن آپ جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اپنے

____________________

۱) جو مطالب حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی میں ذکر ہوئے ہیں انہیں ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے_ کشف الغمہ ج ۱_ مناقب شہر ابن آشوب ج۳_ تذکرة الخواص_ ذخائر العقبی _ دلائل الامامة_ سیرة ابن ہشام_ مناقب خوارزمی ینابیع المودة_ بحارالانوار، ج ۴۳_ ناسخ التواریخ جلد حضرت فاطمہ زہرا(ع) _ اعلام الوری مجمع الزوائر، ج ۹_

۲) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۱۳۶_

۶۸

نزدیک بلالوں، آپ نے عرض کی حادثہ بن نعمان سے بات کیجئے کہ وہ اپنا مکان ہمیں دے دے، آپ نے فرمایا حادثہ بن نعمان اپنی منازل ہماے لئے خالی کر کے خود بہت دور چلاگیا ہے، اب مجھے اس سے شرم آتی ہے_ جناب حارث کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ جناب رسول خدا کی خدمت میں مشرف ہوا اور عرض کی یا رسو ل اللہ(ص) میں اور میرا مال آپ کے اختیار میں ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ فاطمہ (ع) کو میرے گھر منتقل کردیں_ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو حارثہ کے مکان میں منتقل کردیا_(۱)

____________________

۱) طبقات ابن سعد، ج ۸ بخش ۱ ص ۱۴_

۶۹

حصّہ سوم

فاطمہ (ع) علی (ع) کے گھر میں

۷۰

جناب فاطمہ (ع) باپ کے گھر سے شوہر کے گھر منتقل ہوگئیں لیکن خیال نہ کیجئے کہ کسی اجنبی کے گھر گئی ہیں گرچہ آپ مرکز نبوت سے باہر چلی گئی ہیں لیکن مرکز ولایت میں پہنچ گئیں_ اسلام کے سپہ سالار فوج کے کمانڈر جنگ کے وزیر اور خصوصی مشیر اسلام کی پہلی شخصیت کے گھر وارد ہوئی ہیں اس مرکز میں آنے سے بہت سخت وظائف آپ کے کندھے پر آن پڑے ہیں، اب رسمی ذمہ داریاں بھی آپ پر عائد ہوگئیں_ یہاں رہ کر آپ کو اسلام کی خواتین کے لئے ازدواجی زندگی، امور خانہ داری، بچوں کی تربیت کا عملی طور پر درس دینا ہے، خواتین اسلام کو فداکاری، صداقت، محبت لازمی طور پر درس دینا ہوگا آپ کو اس طرح زندگی گزارنا ہے جو مسلمان عورتوں کے لئے ایک نمونہ بن جائے کہ عالم کی خواتین آپ کے وجود کے آئینے میں اسلام کی نورانیت اور حقیقت کو دیکھ سکیں_

امور خانہ داری

پہلا گھر کہ جس کے دونوں رکن میاں اور بیوی گناہوں سے پاک اور معصوم انسانیت کے فضائل اور کمالات سے مزین ہیں وہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کا گھر تھا_ حضرت علی (ع) ایک اسلامی مرد کا مل نمونہ تھے اور حضرت زہرا (ع)

۷۱

ایک مسلمان عورت کا کامل نمونہ تھیں_

علی ابن ابی طالب نے بچپن سے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دامن میں اور آپ کی زیر نگرانی تربیت پائی تھی_ کمالات اور فضائل اور بہترین اور اعلی ترین اسلامی اخلاق کے مالک تھے، جناب زہرا(ع) نے بھی اپنے باپ کے دامن میں تربیت پائی تھی اور آپ اسلامی اخلاق سے پوری طرح آگاہ تھیں_ آپ لوگوں کے کان بچپن سے قرآن سے مانوس تھے_ رات دن ا ور کبھی کبھار قرآن کی آواز خودپیغمبر (ص) کے دہن مبارک سے سنا کرتے تھے_ غیبی اخبار اور روحی سے آگاہ تھے اسلام کے حقائق اور معارف کو اس کے اصلی منبع اور سرچشمہ سے دریافت کرتے تھے اسلام کا عملی نمونہ پیغمبر اسلام(ص) کے وجودی آئینہ میں دیکھا کرتے تھے اسی بناء پر گھر یلو زندگی کا اعلی ترین نمونہ اس گھر سے دریافت کیا جاسکتا ہے_

علی (ع) اور فاطمہ (ع) کا گھر واقعاً محبت اور صمیمیت کا با صفا محور تھا_ میاں بیوی کمال صداقت سے ایک دوسرے کی مداد اور معاونت کر رہے تھے گھر یلوکاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے_ بیاہ کے ابتدائی دنوں میں پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ گھر کے کام کاج ہم میں تقسیم کردیں_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گھر کے اندرونی کام فاطمہ انجام دیں گی اور بیرونی کام علی (ع) کے ذمہ ہوں گے فاطمہ (ع) فرماتی ہیں کہ میں اس تقسیم سے بہت خوش ہوئی کہ گھر کے بیرونی کام میرے ذمہ نہیں گئے _(۱)

جی ہاں فاطمہ (ع) وحی کی تربیت یافتہ تھیں اور جانتی تھیں کہ گھر ایک اسلام کا بہت بڑا مورچہ ہے ، اگر عورت کے ہاتھ سے یہ مورچہ نکل گیا اور خرید و فروخت کے

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۱_

۷۲

لئے گھر سے باہر نکل پڑی تو پھر وہ امور خانہ داری کے وظائف اور اولاد کی تربیت اچھی طرح انجام نہیں دے سکے گی یہی وجہ تھی کہ آپ اس تقسیم سے خوش ہوگئیں کہ گھر کے مشکل اور سخت کام علی (ع) کے سپرد کئے گئے ہیں_

اسلام کی بے مثال پہلی شخصیت کی بیٹی کام کرنے کو عارنہ سمجھتی تھی اور گھر کے مشکل کاموں کی بجا آوری سے نہیں کتراتی تھیں، آپ نے اس حد تک گھر کے کاموں میں زحمت اٹھائی کہ خود حضرت علی علیہ السلام آپ کے بارے میں یاد کرتے تھے اور آپ کی خدمات کو سراہا کرتے تھے آپ نے اپنے ایک دوست سے فرمایا تھا کہ چاہتے ہو کہ میں اپنے او رفاطمہ (ع) کے متعلق تمہیں بتلاؤں_

اتنا میرے گھر پانی بھی کر لائی ہیں کہ آپ کے کندھے پر مشک کا نشان پڑ گیا تھا اور اتنی آپ نے چکی پیسی کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے تھے، اتنا آپ نے گھر کی صفائی اور پاکیزگی اور روٹی پکانے میں زحمت اٹھائی ہے کہ آپ کا بساس میلا ہوجانا تھا_ آپ پر کام کرنا بہت سخت ہوچکا تھا میں نے آپ سے کہا تھا کتنا بہتر ہوگا کہ اگر آپ پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات کاآپ(ص) سے تذکرہ کریں شادی کوئی کنیز آپ کے لئے مہیا کردیں_ تا کہ وہ آپ کی امور خانہ داری میں مدد کرسکے_

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی خدمت میں گئیں لیکن اصحاب کی ایک جماعت کو محو گفتگو دیکھ کر واپس لوٹ آئیں اور شرم کے مارے آپ سے کوئی بات نہ کی_ پیغمبر(ص) نے محسوس کرلیا تھا کہ فاطمہ (ع) کسی کام کی غرض سے آئی تھیں، لہذا آپ(ص) دوسرے دن ہمارے گھر خود تشریف لے آئے اور اسلام کیا ہم نے جواب سلام دیا آپ ہمارے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کس لئے میرے پاس آئی تھیں؟ جناب فاطمہ (ع) نے اپنی حاجت کے بیان کرنے میں شرم محسوس کی حضرت علی (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ، فاطمہ (ع) اس قدر پانی بھر کر لائیں ہیں کہ مشک کے بند کے داغ آپ کے سینے پر پڑچکے ہیں اتنی آپ نے

۷۳

چکی چلائی ہے کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے ہیں اتنا آپ نے اپنے گھر کی صفائی کے لئے جھاڑو دیئے ہیں کہ آپ کا لباس غبار آلود اور میلا ہوچکا ہے اور اتنا آپ ن خوراک اور غذا پکائی ہے کہ آپ کا لباس کثیف ہوگیا ہے_ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی خدمت میں جائیں شاید کوئی کنیز اور مددگار آپ انہیں عطا فرما دیں_

پیغمبر(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جو کنیز سے بہتر؟ جب سونا چاہو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد اللہ، چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو_ یہ ذکر ایک سو سے زیادہ نہیں_ لیکن اس نے نامہ عمل میں ایک ہزار حسنہ لکھا جاتا ہے_ فاطمہ (ع) ، اگر اس ذکر کو ہر روز صبح پڑھو تو خداوند تیرے دنیاا ور آخرت کے کاموں کی اصلاح کردے گا_ فاطمہ (ع) نے جواب میں کہا ابا جان میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوگئی _(۱)

ایک دوسری حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے اپنے حالات اپنے با با سے بیان کئے اور آپ(ص) سے ایک لونڈی کا تقاضا کیا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا_ فاطمہ (ع) خدا کی قسم چار سو آدمی فقیر اس وقت مسجد میں رہ رہے ہیں کہ جن کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ ہی لباس مجھے خوف ہے کہ اگر تمہارے پاس لونڈی ہوئی تو گھر میں خدمت کرنے کا جو اجر و ثواب ہے وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا_ مجھے خوف ہے کہ علی ابن ابی طالب قیامت کے دن تم سے اپنے حق کا مطالبہ کریں اس کے بعد آپ نے تسبیح زہرا(ع) آپ کو بتلائی_ امیرالمومنین نے فرمایا کہ دنیا کی طلب کے لئے پیغمبر(ص) کے پاس گئی تھیں لیکن آخرت کا ثواب ہمیں نصیب ہوگیا_(۲)

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۲_ ۱۳۴_

۲) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۵_

۷۴

ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ علی (ع) اور فاطمہ (ع) چکی چلانے میں مشغول ہیں آپ نے پوچھا تم میں سے کون تھک چکا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ، چنانچہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کی جگہ بیٹھ گئے اور حضرت علی کی چکی چلانے میں مدد کی_(۱)

جناب جابر کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) معمولی قیمت کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہیں اور بچوں کو گود میں لئے ہوئے دودھ پلاتی ہیں یہ منظر دیکھ کر آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا میری پیاری بیٹی دنیا کی سختی اور تلخی کو برداشت کرو تا کہ آخرت کی نعمتوں سے سرشار ہوسکو آپ نے عرض کیا، یا رسول اللہ(ص) میں اللہ تعالی کی ان نعمتوں پر شکر گزار ہوں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا قیامت کے دن اتنا تجھے عطا کرے گا کہ تو راضی ہوجائے _(۲)

اما م جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت علی (ع) لکڑیاں اور گھ کا پانی مہیا کرتے تھے اور گھر کی صفائی کرتے تھے اور جناب فاطمہ (ع) چکی پیستی تھیں اور آٹا گوندھتی اور روٹی پکاتی تھیں_(۳)

ایک دن جناب بلال خلاف معمول مسجد میں صبح کی نماز میں دیر سے پہنچے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی آپ نے عرض کیا_ جب میں مسجد آرہا تھا تو جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزرا میں نے دیکھا کہ آپ چکی پیس رہی ہیں اور

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۵۰_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۶_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۱_

۷۵

بچے رو رہے ہیں، میں نے عرض کی اے پیغمبر کی بیٹی ان دو کاموں میں سے ایک میرے سپرد کردیں تا کہ میں آپ کی مدد کروں، آپ نے فرمایا بچوں کو بہلانا مجھے اچھا آتا ہے اگر تم چاہتے ہو تو چکی چلا کر میری مدد کر و میں نے چکی کا چلانا اپنے ذمہ لے لیا اسی لئے مسجد میں دیر سے آیا ہوں_ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے فاطمہ (ع) پر رحم کیا ہے خدا تم پر رحم کرے_(۱)

شوہر کے ہمراہ

جناب فاطمہ (ع) کسی عام آدمی کے گھر زندگی نہیں گزار رہی تھیں بلکہ وہ اسلام کی دوسری شخصیت، جو اسلام کے سپہ سالار اور بہادر اور قوی اور پیغمبر(ص) کے خصوصی وزیر اور مشیر تھے ، کے گھر میں زندگی گزار رہی تھیں اسلام اور اپنے شوہر کے حساس مقام کو اچھی طرح سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اگر علی کی تلوار نہ ہو تو اسلام کی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکتی ، جناب فاطمہ (ع) اسلام کے بحرانی اور بہت حساس مواقع کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کے گھر زندگی گزار رہی تھیں اسلام کا لشکر ہر وقت تیار رہتا تھا، ہر سال میں کئی لڑائیاں ہو جاتی تھیں_ حضرت علی (ع) ان تمام یا اکثر جنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے_

جناب زہرا(ع) اپنی سخت اور حساس ذمہ داری سے باخبر تھیں اور اس سے بھی بطور کامل مطلع تھی کہ عورت کا مرد کے مزاج پر کیا اثر ہوتا ہے، جانتی تھیں کہ عورت اس قسم کا نفوذ اور قدرت رکھتی کے کہ جس طرف چاہے مرد کو پھیر سکتی ہے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ مرد کی ترقی یا تنزلی اور سعادت اور بدبختی کتنی عورت کی رفتار اور مزاج

____________________

۱) ذخائر العقبی ، ص ۵۱_

۷۶

سے وابستہ ہے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ گھر مرد کے لئے مورچہ اور آسائشے کا مرکز ہے مرد مبارز کے میدان اور حوادث زندگی اور ان کے مشکلات سے روبرو ہو کر تھکا ماندا گھر ہی آکر پناہ لیتا ہے تاکہ تازہ طاقت حاص کرے اور اپنے وظائف کی انجام دہی کے لئے اپنے آپ کو دوبارہ آمادہ کرسکے_ اس مہم آسائشےگاہ کی ذمہ دایاں عورت کو سونپی گئی ہیں_ اسی لئے اسلام نے ازدواجی زندگی کو جہاد کے برابر قرار دیا ہے_ امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھی طرح شوہر کی خدمت کرے _(۱)

جناب فاطمہ (ع) جانتی تھیں اسلام کا بہادر اور طاقتور سپہ سالار جنگ کے میدان میں اس وقت فاتح ہوسکتا ہے جب وہ گھر کے داخلی امور سے بے فکر اور اپنی رفیقہ حیات کی مہربانیوں اور تشویقات سے مطمئن ہو، اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اسلام کا فداکار سپہ سالار علی (ع) جب جنگ سے تھکا ماندا میدان سے گھر آتا تھا تو اپنی ہمسر کی مہربانیوں اور نوازشات اور پیار بھری باتوں سے کاملاً نوازا جاتا تھا_ آپ ان کے جسم کے زخموں پر مرہم پٹی کرتی تھیں ان کے خون آلود لباس کو دھوتی تھیں اور جنگ کے حالات ان سے سنانے کو کہتی تھیں_

جناب زہرا معظمہ ان تمام کاموں کو خود انجام دیتی تھیں یہاں تک کہ کبھی اپنے باپ کے خون آلود کپڑے بھی خود ہی دھویا کرتی تھیں، ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احد کی جنگ سے واپس آئے تو آپ نے اپنی تلوار جناب زہرا کو دی اور فرمایا کہ اس کا خون بھی دھودو_(۲)

____________________

۱) وافی کتاب نکاح ص ۱۱۴_

۲) سیرہ ابن ہشام، جلد ۳ ص ۱۰۶_

۷۷

جناب زہرا(ع) اپنے شوہر کو آفرین اور شاباش دے کر شوق دلایا کرتی تھیں آپ اور کی فداکاری و بہادری کی داد دیا کرتی تھی اس طرح آپ حضرت علی (ع) کی حوصلہ افزائی اور اپ کو اگلی جنگ کے لئے تیار کرتی تھیں_ اپنی بے ریا محبت سے تھکے ماندے علی (ع) کو سکون مہیا کرتی تھیں خود حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب میں گھر واپس آتا تھا اور جناب زہرا (ع) کو دیکھتا تھا تو میرے تمام غم و اندوہ ختم ہوجایا کرتے تھے _(۱)

جناب فاطمہ (ع) کبھی بھی حضرت علی (ع) کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں اور کبھی بھی حضرت علی علیہ السلام کو غضبناک نہیں کرتی تھیں کیونکہ جانتی تھیں کہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت شوہر کو غضب ناک کرے خداوند اس کی نماز اور روزے کو قبول نہیں کرتا جب تک اپنے شوہر کو راضی نہ کرے_(۲)

جناب فاطمہ (ع) نے حضرت علی (ع) کے گھر بھی جھوٹ نہیں بولا اور خیانت نہیں کی اور کبھی آپ کے حکم کی مخالفت نہیں کی حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے فاطمہ (ع) غضبناک ہوئی ہوں، اور فاطمہ (ع) نے بھی کبھی مجھے غضبناک نہیں کیا _(۳)

حضرت علی علیہ السلام نے جناب زہرا(ع) کے آخری وداع میں اس کا اعتراف کیا ہے، کیونکہ جناب زہرا(ع) نے اپنے آخری وقت میں علی (ع) سے کہا تھا اے ا بن عم آپ نے مجھے کبھی دروغ گو اور خائن نہیں پایا جب سے آپ نے میرے سامنے زندگی شروع کی ہے میں نے آپ کے احکام کی مخالفت نہیں کی، علی (ع) نے فرمایا اے رسول خدا(ص) کی دختر

____________________

۱) مناقب خوارزمی، ص ۲۵۶_

۲) وافی کتاب نکاح، ص ۱۱۴_

۳) مناقب خوارزمی، ص ۲۵۶_

۷۸

معاذاللہ تم نے گھر میں مجھ سے برا سلوک کیا ہو کیونکہ تیری اللہ کی معرفت اور پرہیز گاری اور نیکوکاری اور خدا ترسی اس حد تک تھی کہ اس پر ایراد اور اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا، میری محترم رفیقہ حیات مجھ پر تیری جدائی اور مفارقت بہت سخت ہے لیکن موت سے کسی کو مفر نہیں_(۱)

چونکہ حضرت علی (ع) کی فکر داخلی امو ر سے کاملا آزاد تھی اور اپنی بیوی کی تشویق سے بھی بہرہ مند تھے اسی لئے آپ کے لئے وہ تمام کامیا بیان ممکن ہوسکیں_

لیکن یہ خیال کبھی یہ کیجئے کہ حضرت علی (ع) ابن ابی طالب ان خود پسند اور خود خواہ مردون میں سے تھے کہ ہزاروں توقع اپنی سے تو رکھتے ہوں لیکن اپنے لئے کسی مسئولیت یا ذمہ داری کے قائل نہ ہوں اور اپنے آپ کو عورت کا حاکم مطلق سمجھتے ہوں اور عورت کو زر خرید غلام بلکہ اس سے بھی پست تر خیال کرتے ہوں ایسا بالکل نہ تھا حضرت علی (ع) اسی حالت میں جب میدان جنگ میں تلوار چلا ہے ہوتے تھے تو جانتے تھے کہ ان کی بیوی بھی اسلام کے داخلی مورچہ ''گھر'' میں جہاد میں مشغول ہے ان کی غیر حاضری میں تمام داخلی امور اور خارجی امور کی ذمہ داری جناب فاطمہ (ع) پر ہے کھانا پکاتی تھیں لباس دھوتی تھیں، بچوں کی نگاہ داری کرتی تھیں اور اولاد کی ترتیت میں سخت محنت کرتی تھیں_ جنگ کے زمانے میں سختی او رقحط کے دور میں غذا اور دیگر زندگی کے اسباب مہیا کرنے میں کوشش کرتی تھیں، جنگ او رحوادث کی ناراحت کنندہ خبر سن کر ناراحت ہوتیں اور انتظار کی سختی برداشت کرتی تھیں_

خلاصہ گھر کے نظم و ضبط کو برقرار رکھتیں جو کہ ایک مملک چلانے سے آسان نہیں ہوا کرتا، حضرت علی (ع) کو احساس تھا کہ داخلی سپاہی کو بھی دلجوئی اور محبت اور تشویق کی

____________________

۱) بحارالانوار ، ج ۴۳ص ۱۹۱_

۷۹

ضرورت ہوتی ہے اسی لئے جب بھی آپ گھر میں تشریف لاتے تو آپ گھر کے حالات او رجناب زہرا(ع) کی محنت او رمشقت کی احوال پرسی کرتے تھے اور اس تھکی ماندی شخصیت کو سرا ہتے اور اس کے پمردہ دل کو اپنی مہربانیوں اور دل نواز باتوں کے ذریعہ سکون مہیا کرتے، زندگی سختی اور فقر اور تہی دستی کے لئے ڈھارس بندھاتے اور زندگی کے کاموں کو بجالانے اور زندگی کے کاموں میں آپ کی ہمت افزائی کرتے تھے_ علی (ع) جانتے تھے کہ جتنا مرد عورت کے اظہار محبت اور خلوص اور قدردانی کا محتاج ہے اتنا عورت بھی اس کی محتاج ہے یہ دونوںاسلام کا نمونہ تھے اور اپنے وظائف پر عمل کرتے اور عالم اسلام کے لئے اپنے اخلاق کا نمونہ بنے رہے_

کیا جناب رسول خدا(ص) نے زفاف کی رات علی (ع) سے نہیں فرمایا تھا کہ تمہاری بیوی جہاں کی عورتوں سے بہتر ہے، اور جناب زہرا(ع) ، سے فرمایا تھا کہ تمہارا شوہر علی (ع) جہان کے مردوں سے بہتر ہے _(۱)

کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں فرمایا تھا کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی کفو اور لائق شوہر موجود نہیں تھا_(۲)

جناب فاطمہ (ع) نے اپنے والد بزگوار سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے محسن او رمہربان ہوں_(۳)

کیا خود حضرت علی علیہ السلام نے زفاف کی صبح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ص ۱۳۲_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۸_

۲) دلائل الامامہ، ص ۷_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293