فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون0%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيه الله ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 293
مشاہدے: 82258
ڈاؤنلوڈ: 3142

تبصرے:

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82258 / ڈاؤنلوڈ: 3142
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حضرت علی (ع) کے گھر کا اثاثہ

حضرت علی علیہ السلام نے مندرجہ ذیل اسباب حجلہ عروسی کے لئے مہیا کر رکھے تھے_

۱_ ایک لکڑی کی جس پر کپڑے اور پانی کی مشک ٹانگی جاسکے_

۲_ گوسفند کی کھال_

۳_ ایک عدد تکیہ_

۴_ ایک عدد مشک_

۵_ ایک عدد آٹے کی چھلنی_(۱)

عروسی کے متعلق گفتگو

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مہینہ تقریباً گزر گیا اور میں حیا کرتا تھا کہ پیغمبر (ص) سے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں تذکرہ کروں لیکن جب بھی تنہائی ہوتی تو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ، یا علی کتنی نیک اور زیبا تم کو رفیقہ حیات نصیب ہوئی ہے، جو دنیا کی عورتوں سے افضل ہے ایک دن میرے بھائی عقیل میرے پاس آئے اور کہا:

بھائی جان ہم آپ کی شادی سے بہت خوش حال ہیں، کیوں رسول خدا(ص) سے خواہش کرتے کہ فاطمہ (ع) کو آپ کے گھر روانہ کریں؟ تا کہ آپ کی شادی کی خوشی سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، میں نے جواب دیا میں بہت چاہتا ہوں کہ رخصتی کرلاؤں لیکن پیغمبر اسلام(ص)

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۱۴_

۶۱

سے شر م کرتا ہوں عقیل نے کہا تمہیں خدا کی قسم ابھی میرے ساتھ آؤ تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میںچلیں

_

حضرت علی (ع) جناب عقیل کے ساتھ رسول خدا(ص) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے استے میں جناب ام ایمن سے ملاقات ہوگئی ان سے واقعہ کو بیان کیا تو جناب ام ایمن نے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے میں رسول خدا(ص) سے اس بارے میں گفتگو کروں گی، کیونکہ اس قسم کے معاملے میں عورتوں کی گفتگو زیادہ موثر ہوا کرتی ہے، جب ام ایمن اور دوسری عورتیں اصل معاملہ سے مطلع ہوئیں تو تمام کی تمام پیغمبر (ص) کی خدمت میں مشرف ہوئیں اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) ہمارے ماں باپ آپ پر قربان جائیں_ ہم ایک ایسے موضوع کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہیں کہ اگر جناب خدیجہ زندہ ہوتیں تو بہت زیادہ خوشحال ہوتیں_ جناب پیغمبر خدا(ص) نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آپ کے آنسو نکل آئے اور فرمایا کہ خدیجہ کہاں اور خدیجہ جیسا کون، جب لوگ مجھے جھٹلانے تھے تو خدیجہ میری تصدیق کرتی تھیں_ دین خدا کی ترویج کی خاطر اپنا تمام مال میرے اختیار دے رکھا تھا_ خدیجہ وہ عورت تھی کہ جن کے متعلق اللہ تعالی نے مجھ پر وحی نازل کی کہ خدیجہ کو بشارت دوں کہ خدا اس کو بہشت میں زمرد کا بنا ہوا گھر عطا فرمائے گا_

ام سلمہ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ جتنا بھی خدیجہ کے متعلق فرمائیں وہ درست ہے خدا ہم کو ان کے ساتھ محشور فرمائے، یا رسول اللہ(ص) آپ کے بھائی اور چچازاد بھائی چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اپنے گھر نے جائیں_ آپ(ص) نے فرمایا وہ خود اس بارے میں مجھ سے کیوں بات نہیں کرتے؟ عرض کہ وہ حیا کرتے ہیں، جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا کہ ابھی علی (ع) کو میرے پاس حاضر کرو_

۶۲

جب حضرت علی (ع) آپ کی خدمت میں مشرف ہوئے تو فرمایا اے علی چاہتے ہو کہ اپنی بیوی اپنے گھر لے جاؤ؟ آپ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ(ص) آپ نے فرمایا کہ خدا مبارکے کرے، آج رات یا کل رات رخصتی کے اسباب فراہم کردوں گا_

اس کے بعد آپ نے عورتوں سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) کو زینت کرو اور خوشبوں لگاؤ اور ایک کمرہ میں فرش بچھا دو تا کہ اس کی رخصتی کے آداب بجالاؤں _(۱)

رخصتی کا جشن

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ عروسی میں ولیمہ دیا جائے اور میں دوست رکھتا ہوں کہ میری امت شادیوں میں ولیمہ دیا کرے_ سعد اس مجلس میں موجود تھے، انہوں نے عرض کی کہ ایک گوسفند میں آپ کو اس جشن کے لئے دیتا ہوں، دوسرے اصحاب نے بھی حسب استطاعت اس میں مدد کی جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال سے فرمایا ایک گوسفند لے آو اور حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ اس حیوان کو ذبح کرو، آپ نے دس درہم بھی انہیں دیئے اور فرمایا اس سے کچھ گھی، خرما، کشک لے آو اور روٹی بھی مہیا کرو اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ جسے چاہتے ہو کھانا کھانے کی دعوت دے دو_ حضرت علی علیہ السلام نے اصحاب کے ایک بہت بڑے گروہ کو دعوت دی_ گوشت پکایا گیا اور گھی اور خرما اور کشک کے ذریعے غذا حاضر کی گئی_

چونکہ مہمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور پذیرائی کے اسباب تھوڑے تھے تو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ مہمان دس، دس ہو کر اندر آئیں اور کھانا

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۳۰ و ۱۳۲_

۶۳

کھائیں_ اس جشن میں جناب عباس اور حضرت حمزہ اور حضرت علی (ع) اور جناب عقیل مہمانوں کی پذیرائی کر رہے تھے، دسترخوان بچھایا گیا اور اصحاب دس، دس ہو کر اندر آتے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارک سے غذا نکالتے اور مہمانوں کے سامنے رکھتے، جب سیر ہو جاتے تو باہر چلے جاتے اور دوسرے دس آدمی اندر آجاتے اس طرح سے بہت زیادہ لوگوں نے کھانا کھایا اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک کی برکت سے تمام لوگ سیرہوگئے اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ جو غذا بچ رہی ہے وہ فقرا اور مساکین کے گھروں کو ''جو ولیمہ میں حاضر نہ ہوسکتے تھے'' پہنچائی جائے اور حکم دیا کہ ایک برتن میں حضرت زہرا(ع) اور حضرت علی علیہ السلام کے لئے غذا رکھی جائے _(۱)

حجلہ کی طر ف

پیغمبر خدا(ص) کی عورتوں نے جناب فاطمہ (ع) کو آراستہ کیا آپ کو عطر اور خوشبو لگائی، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) کو بلایا اور اپنے دائیں جانب بٹھایا اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے بائیں جانب بٹھایا، اس کے بعد دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور دونوں کی پیشانی کو بوسہ دیا دلہن کا ہاتھ پکڑا اور داماد کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) اچھی رفیقہ حیات ہے اور جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ علی (ع) بہترین شوہر ہیں_

اس کے بعد عورتوں کو حکم دیا کہ دولھا، دلھن کو خوشی اور جوش و خروش سے حجلہ کی طر ف لے جائیں لیکن اس قسم کا کوئی کلام نہ کریں کہ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو

____________________

۱) بحارالانوار_ ج ۴۳ ص ۱۳۲ و ۱۳۷ و ۱۱۴و ۱۰۶_

۶۴

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عورتوں نے جوش و خروش سے اللہ اکبر کہتے ہوئے فاطمہ (ع) اور علی (ع) کو حجلہ تک پہنچایا رسول خدا(ص) بھی اس کے پیچھے آپہنچے اور حجلہ میں وارد ہوگئے اور حکم دیا کہ پانی کا برتن حاضر کیا جائے تھوڑا سا پانی لے کر آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے جسم پر چھڑ کا اور حکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد ایک اور پانی کا برتن منگوایا اور اسے کچھ پانی حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر چھڑکا اورحکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد آپ نے دلھن اور داماد کا بوسہ لیا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا_ اے خدا_ اس شادی کو مبارک فرما اور ان سے پاک و پاکیزہ نسل وجود میں آئے_

جب آپ نے چاہا کہ حجلہ سے باہر جائیں تو جناب فاطمہ (ع) نے آپ کا دامن پکڑلیا اور رونا شروع کردیا، آپ نے فرمایا میری پیاری بیٹی، میں نے بردبار تریں اور دانشمندترین انسان سے تیری شادی کی ہے_

اس کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور حجلہ کے درواز پر آکر دروازے کے عتبے کو پکڑ کر فرمایا کہ خدا تمہیں اور تمہاری نسل کو پاک و پاکیزہ قرار دے، میں تمہارے دوستوں کا دوست ہوں اور تمہارے دشمنوں کا دشمن، اب رخصت ہوتا ہوں اور تمہیں خداوند عالم کے سپرد کرتا ہوں_ حجلے کے دروازے کو بند کیا اور عورتوں سے فرمایا کہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اور یہاں کوئی بھی نہ رہے_ تمام عورتیں چلی گئیں_

جب پیغمبر اسلام(ص) نے باہر جانا چاہا تو دیکھا کہ ایک عورت وہاں باقی ہے پوچھا تم کون ہو مگر میں نے نہیں کہا کہ سب چلی جاؤ_

اس نے عرض کی میں اسماء ہوں، آپ نے توفرمایا کہ سب چلی جاؤ لیکن میں جانے سے معذور ہوں کیونکہ جب جناب خدیجہ اس جہان سے کوچ فرما رہی تھیں تو میں نے دیکھا

۶۵

کہ وہ رور رہی ہیں، میں نے عرض کیا آپ بھی روتی ہیں؟ حالانکہ تم دنیا کہ عورتوں سے بہترین عورت ہو، اور رسول خدا(ص) کی بیوی ہو، اللہ تعالی نے تجھے بہشت کا وعدہ دیا ہے_ آپ نے کہا میں اس لئے رو رہی ہوں کہ جانتا ہوں لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ شب زفاف اس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو جو اس کی محرم راز ہو اور اس کی ضروریات کو پورا کرے، میں دنیا سے جارہی ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ فاطمہ (ع) شب زفاف کوئی محرم نہ رکھتی ہوگی اور اس کا کوئی مدد گار نہ ہوگا اس وقت میںنے خدیجہ سے عرض کیا گہ اگر کیا کہ اگر میں فاطمہ (ع) کے شب زفاف تک زندہ رہی تو تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اس کے پاس رہوں گی اور اس سے مادری سلوک آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا تجھے خدا کی قسم تم اسی غرض سے یہاں رہ گئی ہو؟ عرض کیا ہاں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا تم اپنے ودعدہ پر عمل کرو_(۱)

____________________

۱) بعض روایات کی بنا پر جب چو تھے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے تو آپ(ص) (ص) نے اسماء سے ملاقات کی، بہرحال یہ داستان اسماء بہت سے تاریخ نویسوں نے لکھی ہے اور اس میں نسبت بھی اسماء بنت عمیس کی طرف اس واقعہ کی دی ہے، لیکن اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو وہ عورت اسماء بنت عمیس نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس وقت اسماء جناب جعفر طیار کی زوجہ تھیں اور آپ کے ساتھ حبشہ میں موجود تھیں جناب فاطمہ (ع) کی شادی کے وقت مدینہ میں موجود نہ تھیں مدینہ میں آپ خیبر کے فتح ہونے کے بعد آئیں، لہذا وہ عورت جو جناب فاطمہ (ع) کے پاس شب زفاف میں رہیں وہ یا اسماء بنت یزید بن سکن انصاری یا سلمی جو اسماء بنت عمیس کی بہن تھیں ہوگی_ بہرحال صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں اس عورت کے نام میں مورخین کو اشتباہ ہوا ہے_

۶۶

فاطمہ کا دیدار

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زفاف کی رات کی صبح کو دودھ برتن میں لئے ہوئے جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں گئے اور وہ برتن جناب فاطمہ (ع) کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا تمہارا باپ تم پر قربان ہو اس کو پیئو، اس کے بعد حضرت علی (ع) سے فرمایا تمہارے چچا کہ بیٹا تم پر قربان ہو تم بھی پیئو_(۱)

حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا بیوی کیس تھی؟ عرض کیا اللہ کی بندگی میں بہترین مددگار_ جناب فاطمہ (ع) سے پوچھا کہ شوہر کیسے تھے؟ عرض کیا بہترین شوہر_(۲)

پیغمبر(ص) اس کے بعد چار دن تک جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف نہیں لے گئے اور جب چو تھے دن جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں تشریف لے گئے تو آپ سے خلوت میں پوچھا، تیرا شوہر کیسا ہے؟ عرض کی ا بّا جان مردوں میں سے بہترین شوہر اللہ نے مجھے عطا کیا، لیکن قریش کی عورتیں میرے دیدار کے لئے آئیں تو بجائے مبارک باد دینے کے میرے دل پر غم کی گرہ چھوڑ گئیں اور کہنے لگیں تمہارے باپ نے تمہارا نکاح ایک فقیر و تہی دست انسان سے کیا ہے، حالانکہ مال دار اور ثروت مندمرد تمہارے خواستگار تھے_ جناب رسول خدا(ص) نے اپنی بیٹی کی تسلی دی اور فرمایا اے نور چشم تمہارے باپ اور شوہر فقیر نہیں ہیں خدا کی قسم زمین کے خزانے کی چاہیاں میرے سامنے پیش کی گئیں لیکن میں نے اخروی نعمات کو دنیا کے مال اور ثروت پر ترجیح دی، عزیزم میں نے تیرے لئے ایک ایسا شوہر منتخب کیا ہے جس نے

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج ۷ ص ۹۹_

۲) بحارالانوار_ ج ۴۳ ص ۱۱۷_

۶۷

تمام لوگوں سے پہلے اسلام کا اظہار کیا اور جو علم و حلم اور عقل کے لحاظ سے تمام لوگوں پر برتری رکھتا ہے_ خداوند عالم نے تمام لوگوں سے مجھے اور تیرے شوہر کو چنا ہے_ بہت بہترین شوہر والی ہو اس کی قدر کو سمجھو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو_ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا کہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی اور مہربانی سے پیش آنا، تمہیں معلوم ہونا چاہیئےہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو شخص اسے اذیت دے گا وہ مجھے اذیت دے گا اور جو اسے خوشنود کرلے گا، وہ مجھے خوشنود کرے گا، میں تم سے رخصت ہوتا ہوں اور میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں_(۱)

علامہ مجلسی علیہ الرحمة نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا عقد ماہ مبارک میں ہوا، پہلی یا چھ ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی _(۲)

حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے تھوڑی مدت اپنے گھر میں جو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا زندگی بسر کی، لیکن یہ فاصلہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دشوار تھا ایک دن آپ جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اپنے

____________________

۱) جو مطالب حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی میں ذکر ہوئے ہیں انہیں ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے_ کشف الغمہ ج ۱_ مناقب شہر ابن آشوب ج۳_ تذکرة الخواص_ ذخائر العقبی _ دلائل الامامة_ سیرة ابن ہشام_ مناقب خوارزمی ینابیع المودة_ بحارالانوار، ج ۴۳_ ناسخ التواریخ جلد حضرت فاطمہ زہرا(ع) _ اعلام الوری مجمع الزوائر، ج ۹_

۲) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۱۳۶_

۶۸

نزدیک بلالوں، آپ نے عرض کی حادثہ بن نعمان سے بات کیجئے کہ وہ اپنا مکان ہمیں دے دے، آپ نے فرمایا حادثہ بن نعمان اپنی منازل ہماے لئے خالی کر کے خود بہت دور چلاگیا ہے، اب مجھے اس سے شرم آتی ہے_ جناب حارث کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ جناب رسول خدا کی خدمت میں مشرف ہوا اور عرض کی یا رسو ل اللہ(ص) میں اور میرا مال آپ کے اختیار میں ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ فاطمہ (ع) کو میرے گھر منتقل کردیں_ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو حارثہ کے مکان میں منتقل کردیا_(۱)

____________________

۱) طبقات ابن سعد، ج ۸ بخش ۱ ص ۱۴_

۶۹

حصّہ سوم

فاطمہ (ع) علی (ع) کے گھر میں

۷۰

جناب فاطمہ (ع) باپ کے گھر سے شوہر کے گھر منتقل ہوگئیں لیکن خیال نہ کیجئے کہ کسی اجنبی کے گھر گئی ہیں گرچہ آپ مرکز نبوت سے باہر چلی گئی ہیں لیکن مرکز ولایت میں پہنچ گئیں_ اسلام کے سپہ سالار فوج کے کمانڈر جنگ کے وزیر اور خصوصی مشیر اسلام کی پہلی شخصیت کے گھر وارد ہوئی ہیں اس مرکز میں آنے سے بہت سخت وظائف آپ کے کندھے پر آن پڑے ہیں، اب رسمی ذمہ داریاں بھی آپ پر عائد ہوگئیں_ یہاں رہ کر آپ کو اسلام کی خواتین کے لئے ازدواجی زندگی، امور خانہ داری، بچوں کی تربیت کا عملی طور پر درس دینا ہے، خواتین اسلام کو فداکاری، صداقت، محبت لازمی طور پر درس دینا ہوگا آپ کو اس طرح زندگی گزارنا ہے جو مسلمان عورتوں کے لئے ایک نمونہ بن جائے کہ عالم کی خواتین آپ کے وجود کے آئینے میں اسلام کی نورانیت اور حقیقت کو دیکھ سکیں_

امور خانہ داری

پہلا گھر کہ جس کے دونوں رکن میاں اور بیوی گناہوں سے پاک اور معصوم انسانیت کے فضائل اور کمالات سے مزین ہیں وہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کا گھر تھا_ حضرت علی (ع) ایک اسلامی مرد کا مل نمونہ تھے اور حضرت زہرا (ع)

۷۱

ایک مسلمان عورت کا کامل نمونہ تھیں_

علی ابن ابی طالب نے بچپن سے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دامن میں اور آپ کی زیر نگرانی تربیت پائی تھی_ کمالات اور فضائل اور بہترین اور اعلی ترین اسلامی اخلاق کے مالک تھے، جناب زہرا(ع) نے بھی اپنے باپ کے دامن میں تربیت پائی تھی اور آپ اسلامی اخلاق سے پوری طرح آگاہ تھیں_ آپ لوگوں کے کان بچپن سے قرآن سے مانوس تھے_ رات دن ا ور کبھی کبھار قرآن کی آواز خودپیغمبر (ص) کے دہن مبارک سے سنا کرتے تھے_ غیبی اخبار اور روحی سے آگاہ تھے اسلام کے حقائق اور معارف کو اس کے اصلی منبع اور سرچشمہ سے دریافت کرتے تھے اسلام کا عملی نمونہ پیغمبر اسلام(ص) کے وجودی آئینہ میں دیکھا کرتے تھے اسی بناء پر گھر یلو زندگی کا اعلی ترین نمونہ اس گھر سے دریافت کیا جاسکتا ہے_

علی (ع) اور فاطمہ (ع) کا گھر واقعاً محبت اور صمیمیت کا با صفا محور تھا_ میاں بیوی کمال صداقت سے ایک دوسرے کی مداد اور معاونت کر رہے تھے گھر یلوکاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے_ بیاہ کے ابتدائی دنوں میں پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ گھر کے کام کاج ہم میں تقسیم کردیں_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گھر کے اندرونی کام فاطمہ انجام دیں گی اور بیرونی کام علی (ع) کے ذمہ ہوں گے فاطمہ (ع) فرماتی ہیں کہ میں اس تقسیم سے بہت خوش ہوئی کہ گھر کے بیرونی کام میرے ذمہ نہیں گئے _(۱)

جی ہاں فاطمہ (ع) وحی کی تربیت یافتہ تھیں اور جانتی تھیں کہ گھر ایک اسلام کا بہت بڑا مورچہ ہے ، اگر عورت کے ہاتھ سے یہ مورچہ نکل گیا اور خرید و فروخت کے

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۱_

۷۲

لئے گھر سے باہر نکل پڑی تو پھر وہ امور خانہ داری کے وظائف اور اولاد کی تربیت اچھی طرح انجام نہیں دے سکے گی یہی وجہ تھی کہ آپ اس تقسیم سے خوش ہوگئیں کہ گھر کے مشکل اور سخت کام علی (ع) کے سپرد کئے گئے ہیں_

اسلام کی بے مثال پہلی شخصیت کی بیٹی کام کرنے کو عارنہ سمجھتی تھی اور گھر کے مشکل کاموں کی بجا آوری سے نہیں کتراتی تھیں، آپ نے اس حد تک گھر کے کاموں میں زحمت اٹھائی کہ خود حضرت علی علیہ السلام آپ کے بارے میں یاد کرتے تھے اور آپ کی خدمات کو سراہا کرتے تھے آپ نے اپنے ایک دوست سے فرمایا تھا کہ چاہتے ہو کہ میں اپنے او رفاطمہ (ع) کے متعلق تمہیں بتلاؤں_

اتنا میرے گھر پانی بھی کر لائی ہیں کہ آپ کے کندھے پر مشک کا نشان پڑ گیا تھا اور اتنی آپ نے چکی پیسی کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے تھے، اتنا آپ نے گھر کی صفائی اور پاکیزگی اور روٹی پکانے میں زحمت اٹھائی ہے کہ آپ کا بساس میلا ہوجانا تھا_ آپ پر کام کرنا بہت سخت ہوچکا تھا میں نے آپ سے کہا تھا کتنا بہتر ہوگا کہ اگر آپ پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات کاآپ(ص) سے تذکرہ کریں شادی کوئی کنیز آپ کے لئے مہیا کردیں_ تا کہ وہ آپ کی امور خانہ داری میں مدد کرسکے_

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی خدمت میں گئیں لیکن اصحاب کی ایک جماعت کو محو گفتگو دیکھ کر واپس لوٹ آئیں اور شرم کے مارے آپ سے کوئی بات نہ کی_ پیغمبر(ص) نے محسوس کرلیا تھا کہ فاطمہ (ع) کسی کام کی غرض سے آئی تھیں، لہذا آپ(ص) دوسرے دن ہمارے گھر خود تشریف لے آئے اور اسلام کیا ہم نے جواب سلام دیا آپ ہمارے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کس لئے میرے پاس آئی تھیں؟ جناب فاطمہ (ع) نے اپنی حاجت کے بیان کرنے میں شرم محسوس کی حضرت علی (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ، فاطمہ (ع) اس قدر پانی بھر کر لائیں ہیں کہ مشک کے بند کے داغ آپ کے سینے پر پڑچکے ہیں اتنی آپ نے

۷۳

چکی چلائی ہے کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے ہیں اتنا آپ نے اپنے گھر کی صفائی کے لئے جھاڑو دیئے ہیں کہ آپ کا لباس غبار آلود اور میلا ہوچکا ہے اور اتنا آپ ن خوراک اور غذا پکائی ہے کہ آپ کا لباس کثیف ہوگیا ہے_ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی خدمت میں جائیں شاید کوئی کنیز اور مددگار آپ انہیں عطا فرما دیں_

پیغمبر(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جو کنیز سے بہتر؟ جب سونا چاہو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد اللہ، چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو_ یہ ذکر ایک سو سے زیادہ نہیں_ لیکن اس نے نامہ عمل میں ایک ہزار حسنہ لکھا جاتا ہے_ فاطمہ (ع) ، اگر اس ذکر کو ہر روز صبح پڑھو تو خداوند تیرے دنیاا ور آخرت کے کاموں کی اصلاح کردے گا_ فاطمہ (ع) نے جواب میں کہا ابا جان میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوگئی _(۱)

ایک دوسری حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے اپنے حالات اپنے با با سے بیان کئے اور آپ(ص) سے ایک لونڈی کا تقاضا کیا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا_ فاطمہ (ع) خدا کی قسم چار سو آدمی فقیر اس وقت مسجد میں رہ رہے ہیں کہ جن کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ ہی لباس مجھے خوف ہے کہ اگر تمہارے پاس لونڈی ہوئی تو گھر میں خدمت کرنے کا جو اجر و ثواب ہے وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا_ مجھے خوف ہے کہ علی ابن ابی طالب قیامت کے دن تم سے اپنے حق کا مطالبہ کریں اس کے بعد آپ نے تسبیح زہرا(ع) آپ کو بتلائی_ امیرالمومنین نے فرمایا کہ دنیا کی طلب کے لئے پیغمبر(ص) کے پاس گئی تھیں لیکن آخرت کا ثواب ہمیں نصیب ہوگیا_(۲)

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۲_ ۱۳۴_

۲) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۵_

۷۴

ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ علی (ع) اور فاطمہ (ع) چکی چلانے میں مشغول ہیں آپ نے پوچھا تم میں سے کون تھک چکا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ، چنانچہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کی جگہ بیٹھ گئے اور حضرت علی کی چکی چلانے میں مدد کی_(۱)

جناب جابر کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) معمولی قیمت کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہیں اور بچوں کو گود میں لئے ہوئے دودھ پلاتی ہیں یہ منظر دیکھ کر آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا میری پیاری بیٹی دنیا کی سختی اور تلخی کو برداشت کرو تا کہ آخرت کی نعمتوں سے سرشار ہوسکو آپ نے عرض کیا، یا رسول اللہ(ص) میں اللہ تعالی کی ان نعمتوں پر شکر گزار ہوں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا قیامت کے دن اتنا تجھے عطا کرے گا کہ تو راضی ہوجائے _(۲)

اما م جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت علی (ع) لکڑیاں اور گھ کا پانی مہیا کرتے تھے اور گھر کی صفائی کرتے تھے اور جناب فاطمہ (ع) چکی پیستی تھیں اور آٹا گوندھتی اور روٹی پکاتی تھیں_(۳)

ایک دن جناب بلال خلاف معمول مسجد میں صبح کی نماز میں دیر سے پہنچے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی آپ نے عرض کیا_ جب میں مسجد آرہا تھا تو جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزرا میں نے دیکھا کہ آپ چکی پیس رہی ہیں اور

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۵۰_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۶_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۱_

۷۵

بچے رو رہے ہیں، میں نے عرض کی اے پیغمبر کی بیٹی ان دو کاموں میں سے ایک میرے سپرد کردیں تا کہ میں آپ کی مدد کروں، آپ نے فرمایا بچوں کو بہلانا مجھے اچھا آتا ہے اگر تم چاہتے ہو تو چکی چلا کر میری مدد کر و میں نے چکی کا چلانا اپنے ذمہ لے لیا اسی لئے مسجد میں دیر سے آیا ہوں_ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے فاطمہ (ع) پر رحم کیا ہے خدا تم پر رحم کرے_(۱)

شوہر کے ہمراہ

جناب فاطمہ (ع) کسی عام آدمی کے گھر زندگی نہیں گزار رہی تھیں بلکہ وہ اسلام کی دوسری شخصیت، جو اسلام کے سپہ سالار اور بہادر اور قوی اور پیغمبر(ص) کے خصوصی وزیر اور مشیر تھے ، کے گھر میں زندگی گزار رہی تھیں اسلام اور اپنے شوہر کے حساس مقام کو اچھی طرح سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اگر علی کی تلوار نہ ہو تو اسلام کی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکتی ، جناب فاطمہ (ع) اسلام کے بحرانی اور بہت حساس مواقع کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کے گھر زندگی گزار رہی تھیں اسلام کا لشکر ہر وقت تیار رہتا تھا، ہر سال میں کئی لڑائیاں ہو جاتی تھیں_ حضرت علی (ع) ان تمام یا اکثر جنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے_

جناب زہرا(ع) اپنی سخت اور حساس ذمہ داری سے باخبر تھیں اور اس سے بھی بطور کامل مطلع تھی کہ عورت کا مرد کے مزاج پر کیا اثر ہوتا ہے، جانتی تھیں کہ عورت اس قسم کا نفوذ اور قدرت رکھتی کے کہ جس طرف چاہے مرد کو پھیر سکتی ہے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ مرد کی ترقی یا تنزلی اور سعادت اور بدبختی کتنی عورت کی رفتار اور مزاج

____________________

۱) ذخائر العقبی ، ص ۵۱_

۷۶

سے وابستہ ہے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ گھر مرد کے لئے مورچہ اور آسائشے کا مرکز ہے مرد مبارز کے میدان اور حوادث زندگی اور ان کے مشکلات سے روبرو ہو کر تھکا ماندا گھر ہی آکر پناہ لیتا ہے تاکہ تازہ طاقت حاص کرے اور اپنے وظائف کی انجام دہی کے لئے اپنے آپ کو دوبارہ آمادہ کرسکے_ اس مہم آسائشےگاہ کی ذمہ دایاں عورت کو سونپی گئی ہیں_ اسی لئے اسلام نے ازدواجی زندگی کو جہاد کے برابر قرار دیا ہے_ امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھی طرح شوہر کی خدمت کرے _(۱)

جناب فاطمہ (ع) جانتی تھیں اسلام کا بہادر اور طاقتور سپہ سالار جنگ کے میدان میں اس وقت فاتح ہوسکتا ہے جب وہ گھر کے داخلی امور سے بے فکر اور اپنی رفیقہ حیات کی مہربانیوں اور تشویقات سے مطمئن ہو، اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اسلام کا فداکار سپہ سالار علی (ع) جب جنگ سے تھکا ماندا میدان سے گھر آتا تھا تو اپنی ہمسر کی مہربانیوں اور نوازشات اور پیار بھری باتوں سے کاملاً نوازا جاتا تھا_ آپ ان کے جسم کے زخموں پر مرہم پٹی کرتی تھیں ان کے خون آلود لباس کو دھوتی تھیں اور جنگ کے حالات ان سے سنانے کو کہتی تھیں_

جناب زہرا معظمہ ان تمام کاموں کو خود انجام دیتی تھیں یہاں تک کہ کبھی اپنے باپ کے خون آلود کپڑے بھی خود ہی دھویا کرتی تھیں، ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احد کی جنگ سے واپس آئے تو آپ نے اپنی تلوار جناب زہرا کو دی اور فرمایا کہ اس کا خون بھی دھودو_(۲)

____________________

۱) وافی کتاب نکاح ص ۱۱۴_

۲) سیرہ ابن ہشام، جلد ۳ ص ۱۰۶_

۷۷

جناب زہرا(ع) اپنے شوہر کو آفرین اور شاباش دے کر شوق دلایا کرتی تھیں آپ اور کی فداکاری و بہادری کی داد دیا کرتی تھی اس طرح آپ حضرت علی (ع) کی حوصلہ افزائی اور اپ کو اگلی جنگ کے لئے تیار کرتی تھیں_ اپنی بے ریا محبت سے تھکے ماندے علی (ع) کو سکون مہیا کرتی تھیں خود حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب میں گھر واپس آتا تھا اور جناب زہرا (ع) کو دیکھتا تھا تو میرے تمام غم و اندوہ ختم ہوجایا کرتے تھے _(۱)

جناب فاطمہ (ع) کبھی بھی حضرت علی (ع) کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں اور کبھی بھی حضرت علی علیہ السلام کو غضبناک نہیں کرتی تھیں کیونکہ جانتی تھیں کہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت شوہر کو غضب ناک کرے خداوند اس کی نماز اور روزے کو قبول نہیں کرتا جب تک اپنے شوہر کو راضی نہ کرے_(۲)

جناب فاطمہ (ع) نے حضرت علی (ع) کے گھر بھی جھوٹ نہیں بولا اور خیانت نہیں کی اور کبھی آپ کے حکم کی مخالفت نہیں کی حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے فاطمہ (ع) غضبناک ہوئی ہوں، اور فاطمہ (ع) نے بھی کبھی مجھے غضبناک نہیں کیا _(۳)

حضرت علی علیہ السلام نے جناب زہرا(ع) کے آخری وداع میں اس کا اعتراف کیا ہے، کیونکہ جناب زہرا(ع) نے اپنے آخری وقت میں علی (ع) سے کہا تھا اے ا بن عم آپ نے مجھے کبھی دروغ گو اور خائن نہیں پایا جب سے آپ نے میرے سامنے زندگی شروع کی ہے میں نے آپ کے احکام کی مخالفت نہیں کی، علی (ع) نے فرمایا اے رسول خدا(ص) کی دختر

____________________

۱) مناقب خوارزمی، ص ۲۵۶_

۲) وافی کتاب نکاح، ص ۱۱۴_

۳) مناقب خوارزمی، ص ۲۵۶_

۷۸

معاذاللہ تم نے گھر میں مجھ سے برا سلوک کیا ہو کیونکہ تیری اللہ کی معرفت اور پرہیز گاری اور نیکوکاری اور خدا ترسی اس حد تک تھی کہ اس پر ایراد اور اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا، میری محترم رفیقہ حیات مجھ پر تیری جدائی اور مفارقت بہت سخت ہے لیکن موت سے کسی کو مفر نہیں_(۱)

چونکہ حضرت علی (ع) کی فکر داخلی امو ر سے کاملا آزاد تھی اور اپنی بیوی کی تشویق سے بھی بہرہ مند تھے اسی لئے آپ کے لئے وہ تمام کامیا بیان ممکن ہوسکیں_

لیکن یہ خیال کبھی یہ کیجئے کہ حضرت علی (ع) ابن ابی طالب ان خود پسند اور خود خواہ مردون میں سے تھے کہ ہزاروں توقع اپنی سے تو رکھتے ہوں لیکن اپنے لئے کسی مسئولیت یا ذمہ داری کے قائل نہ ہوں اور اپنے آپ کو عورت کا حاکم مطلق سمجھتے ہوں اور عورت کو زر خرید غلام بلکہ اس سے بھی پست تر خیال کرتے ہوں ایسا بالکل نہ تھا حضرت علی (ع) اسی حالت میں جب میدان جنگ میں تلوار چلا ہے ہوتے تھے تو جانتے تھے کہ ان کی بیوی بھی اسلام کے داخلی مورچہ ''گھر'' میں جہاد میں مشغول ہے ان کی غیر حاضری میں تمام داخلی امور اور خارجی امور کی ذمہ داری جناب فاطمہ (ع) پر ہے کھانا پکاتی تھیں لباس دھوتی تھیں، بچوں کی نگاہ داری کرتی تھیں اور اولاد کی ترتیت میں سخت محنت کرتی تھیں_ جنگ کے زمانے میں سختی او رقحط کے دور میں غذا اور دیگر زندگی کے اسباب مہیا کرنے میں کوشش کرتی تھیں، جنگ او رحوادث کی ناراحت کنندہ خبر سن کر ناراحت ہوتیں اور انتظار کی سختی برداشت کرتی تھیں_

خلاصہ گھر کے نظم و ضبط کو برقرار رکھتیں جو کہ ایک مملک چلانے سے آسان نہیں ہوا کرتا، حضرت علی (ع) کو احساس تھا کہ داخلی سپاہی کو بھی دلجوئی اور محبت اور تشویق کی

____________________

۱) بحارالانوار ، ج ۴۳ص ۱۹۱_

۷۹

ضرورت ہوتی ہے اسی لئے جب بھی آپ گھر میں تشریف لاتے تو آپ گھر کے حالات او رجناب زہرا(ع) کی محنت او رمشقت کی احوال پرسی کرتے تھے اور اس تھکی ماندی شخصیت کو سرا ہتے اور اس کے پمردہ دل کو اپنی مہربانیوں اور دل نواز باتوں کے ذریعہ سکون مہیا کرتے، زندگی سختی اور فقر اور تہی دستی کے لئے ڈھارس بندھاتے اور زندگی کے کاموں کو بجالانے اور زندگی کے کاموں میں آپ کی ہمت افزائی کرتے تھے_ علی (ع) جانتے تھے کہ جتنا مرد عورت کے اظہار محبت اور خلوص اور قدردانی کا محتاج ہے اتنا عورت بھی اس کی محتاج ہے یہ دونوںاسلام کا نمونہ تھے اور اپنے وظائف پر عمل کرتے اور عالم اسلام کے لئے اپنے اخلاق کا نمونہ بنے رہے_

کیا جناب رسول خدا(ص) نے زفاف کی رات علی (ع) سے نہیں فرمایا تھا کہ تمہاری بیوی جہاں کی عورتوں سے بہتر ہے، اور جناب زہرا(ع) ، سے فرمایا تھا کہ تمہارا شوہر علی (ع) جہان کے مردوں سے بہتر ہے _(۱)

کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں فرمایا تھا کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی کفو اور لائق شوہر موجود نہیں تھا_(۲)

جناب فاطمہ (ع) نے اپنے والد بزگوار سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے محسن او رمہربان ہوں_(۳)

کیا خود حضرت علی علیہ السلام نے زفاف کی صبح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ص ۱۳۲_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۸_

۲) دلائل الامامہ، ص ۷_

۸۰