بہترین عشق

بہترین عشق40%

بہترین عشق مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 94

بہترین عشق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 94 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42997 / ڈاؤنلوڈ: 5322
سائز سائز سائز
بہترین عشق

بہترین عشق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بہترین عشق

تالیف : حجت الاسلام جواد محدثی

ترجمہ: سید سعید حیدر زیدی

۱

پیش گفتار

بسم الله الرحمن الرحیم

تجربہ گواہ ہے اور تاریخ بھی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ وہ لوگ جو دینی ومذہبی رسوم وآداب سے جذباتی اور قلبی تعلق رکھتے ہیں، جو اہلِ بیتِ اطہار ؑ سے محبت و عقیدت کے جذبات کے مالک ہیں اور جو مذہبی احکام اور دینی شعائر کے پابند ہیں، وہ (دوسروں کی نسبت) بہت کم گمراہی، گناہ اور اخلاقی خرابیوں میں مبتلا ہوتے ہیں یا بہت دیر میں خرابیوں اور برائیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

اہلِ بیتِ رسول ؑ اور معصومین ؑ کے لئے پاک اور مقدس جذبات، دینداری کی راہ میں زیادہ سے زیادہ ثابت قدمی کا سبب اور اہلِ بیت ؑ سے عشق و محبت لوگوں کو بڑی حد تک گناہ اور گمراہی سے دور رکھنے کا ضامن ہےبشرطیکہ یہ محبت اور دوستی گہری ہو، اسکی جڑیں مضبوط ہوں، بصیرت و معرفت کی بنیاد پر ہو اور درست رہنمائی کے ذریعے انسان کو عمل پر آمادہ کرتی ہو۔

دوسری طرف اگرجوانوں اور نوجوانوں میں عقیدے کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں اور اُن کی صحیح دینی تربیت نہ ہوئی ہو، تومعاشرے کا یہ طبقہ گناہ اور اجتماعی و اخلاقی گمراہیوں کی لہروں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

اسلام اور اسلامی انقلاب کے دشمنوں نے بھی ”ثقافتی یلغار“ کے منصوبے بنائے اوراُن کے لئے خطیر رقوم مختص کی ہیں اور وہ نوجوانوں کو اسلام کی مقدس تحریک اور انقلاب سے دور کرنے کی خاطر خود ہمارے ملک سمیت عالمی سطح پر بھرپور وسائل اور ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔

۲

آج جو لوگ دینی ثقافت اور ہماری اخلاقی وانقلابی اقدارکے خلاف دشمن کی منظم کوششوں کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں، یہ ان لوگوں کی بے خبری، غفلت اور سادگی کی علامت ہےجوانوں کے سامنے نا مناسب آئیڈیلز پیش کرنا، انہیں بازاری اورگھٹیا عشق ومحبت کی وادی میں دھکیلنا اور اس روحانی ضرورت اور خلا کی گناہ آلود انحرافی تسکین اسلام دشمن طاقتوں کے ہتھکنڈوں اور پروگراموں کا حصہ ہے۔

لہٰذا ہمیں اپنے پیارے بچوں اور جوانوں کو ان لغزشوں اور سازشوں سے بچانے کی خاطر ان کے بچپنے اور نوجوانی کی عمر ہی سے ان کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور انہیں فکری، روحانی اور جذباتی غذا فراہم کرنے اور قرآن و عترت کی بنیاد پر صراطِ مستقیم کی جانب ان کی رہنمائی کے لئے منظم اور جچی تلی کوششوں کی ضرورت ہے۔

بچوں اور نوجوانوں کے دل میں اہلِ بیت ؑ کی محبت پیدا کرنا اور اس پاک اور مثالی گھرانے سے ان کی فکر، جذبات اور محبت کو وابستہ کرنامذکورہ منصوبوں اور طریقوں کا ایک حصہ ہونا چاہئےوہ لوگ جو کسی سے اظہارِ محبت، کسی کو دل دینے، کسی کو محبوب بنانے کے خواہشمند ہیں اُن کے لئے اہلِ بیتِ رسول ؑ بہترین اور افضل ترین محبوب ہو ں گے اور اس خاندان سے عشق قیمتی ترین اور دیرپا ترین عشقوں میں سے ہےصاحبِ دل شاعر سعدی شیرازی کے بقول:

سعدی، اگر عاشقی کنی و جوانی

عشقِ محمدؐ بس است و آلِ محمدؑ

۳

اب سوال یہ ابھرتاہے کہ وہ کونسے طریقے ہیں جن کے ذریعے آج کی نسل کو اہلِ بیت ؑ کا محب اور ان کا چاہنے والا بنایا جا سکتا ہے اور ان کی روح میں اس مقدس اور برتر عشق کا بیج بویا جا سکتا ہے؟

والدین، اساتذہ، مصنفین، فنکار، فلم و ٹیلی ویژن کے اربابِ اختیار، ثقافتی ادارے، تبلیغی اور تربیتی مراکز کے پالیسی ساز حضرات، الغرض وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت کی تعمیر میں موثر اور حصہ دار ہیں، وہ محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنے کے طریقوں اور راستوں کو تلاش کرنے کے سلسلے میں بھی اور معاصر نسل کی فکروقلب میں دین کی نشو ونماکے سلسلے میں بھی ذمے دار ہیں۔

راقم الحروف نے بغیرکسی بلند بانگ دعوے کے ایک انتہائی چھوٹے اور ابتدائی قدم کے طور پر یہ مختصر کتابچہ ترتیب دیا ہے اور اس بارے میں کچھ نکات پیش کئے ہیں امیدہے اس موضوع پرصاحبِ نظر حضرات کی توجہ و کوشش اور زیادہ علمی و حقیقی طریقوں کے ذریعے بہت کچھ کام کیا جائے گا اور اہلِ مطالعہ اور محققین کے لئے استفادے کا باعث ہو گا۔

جواد محدثی

حوزہ علمیہ قم

۴

دین میں محبت کا مقام

اگرچہ طاقت اور قوت سے کام لے کر ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے محبت اور عشق سے استفادہ اور دل میں جاذبہ اور کشش پیدا کرنا ایک زیادہ موثر عامل ہے، جو زیادہ دیر پا محرکات پیدا کرتا ہےروایات میں بھی آیا ہے کہ:الحُبُّ افضَلُ مِنَ الخوف (محبت خوف سے بہتر ہےبحار الانوارج ۷۵ص ۲۲۶) 

اہلِ بیت ؑ سے ہمارے تعلق کی بنیاد کیا ہے اور اس تعلق کو کس بنیاد پر قائم ہونا چاہئے؟

کیا یہ حاکم ومحکوم اور حکمراں ور عیت کا سا تعلق ہے؟

یا استاد اور شاگرد کے درمیان قائم تعلیم و تعلم کے تعلق کی مانند ہے؟

یا یہ تعلق محبت و مودت اور قلبی اور باطنی رشتہ ہے؟ جو کارآمد بھی ہوتا ہے، دیرپا بھی اور گہرا بھی۔

قرآنِ کریم اس تعلق کی تاکید کرتا ہے اور مودتِ اہلِ بیت ؑ کو اجرِ رسالت قرار دیتا ہے:

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغِ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کروسورہ شوریٰ ۴۲آیت ۲۳

۵

متعدد روایات میں ”مودۃ فی القربیٰ“ کی تفسیر کرتے ہوئے اسے اہلِ بیت ؑ اور خاندانِ رسول ؑ سے محبت و الفت قرار دیا گیا ہےافضل ترین محبت بھی وہی محبت ہے جس کی تاکید خداوند عالم کرتا ہے اور جو لوگ یہ محبت رکھتے ہیں اُنہیں بھی محبوب رکھتا ہے۔

 روایات میں مودت اور ولایت کو خدا کی طرف سے عائد کیا جانے والا ایک فریضہ اور اعمال و عبادات کی قبولیت کا پیمانہ قرار دیا گیا ہے(۱) اپنی احادیث کی رو سے اہلِ سنت بھی اس نکتے کو قبول کرتے ہیں امام شافعی کاشعر ہے کہ:

یا اهلَ بیتِ رسولِ اﷲ حُبُّکُمُ

فرضٌ من اﷲ فی القرآنِ اَنزَلهُ

کَفاکُمُ مِن عظیم القدراَنّکُمُ

مَن لم یُصَلِّ علیکمْ لاصَلاة له

اے خاندانِ رسول اﷲ! آپ کی محبت وہ الٰہی فریضہ ہے جس کا ذکر اس نے قرآن میں کیا ہےآپ کے عظیم افتخار کے لئے یہی کافی ہے کہ جو بھی (نماز میں) آپ پر درود نہ بھیجے اسکی نماز درست نہیں(الغدیرج ۲ص ۳۰۳)

--------------

۱:-پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے:لوانّ عبداًجاء یوم القیامةِبعمل سبعینَ نبیّاً ما قَبِلَ اﷲ ذلک منه حتی یلقاهُ بولا یتی وولایةِ اهل بیتی (کشف الغمہ ج ۲ص ۱۰)

۶

کیونکہ اس باطنی تعلق کے نتیجے میں محبانِ اہلِ بیت ؑ گمراہیوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اوریہ دین کے اصل اور خالص سر چشمے کی جانب امت کی رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے، اسلئے رسولِ کریم ؐنے فرمایا ہے کہ لوگوں میں اہلِ بیت ؑ کی محبت کو فروغ دو اور اس محبت کی بنیاد پر ان کی تربیت کرو:

اَدِّبُوااَولادَکُمْ عَلیٰ حُبّی وَحبِّ اهل بیتی وَالقرآنِ

اپنے بچوں کی تربیت میری، میرے خاندان کی اور قرآن کی محبت پر کرو(احقاق الحق ج ۱۸ص ۴۹۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے:

رَحِمَ اﷲُ عبداً حبَّبَنا اِلَی النّاس وَلَم یُبَغَّضْنااِلَیهم

خدا اس شخص پر رحمت کرے جولوگوں میں ہمیں محبوب بنائے، ان کی نظر میں ہمیں مبغوض اورمنفور نہ بنائے(بحار الانوارج ۷۵ص ۳۴۸)

نیز آپ ؑ ہی نے شیعوں پر زور دیا ہے کہ:

اَحِبّونااِلیَ النّاس وَلا تُبَغِّضونااِلَیهِم، جُرُّوااِلَیْنا کُلَّ مَوَدَّةٍ وَادفَعُواعنّا کُلَّ قبیحٍ

لوگوں کی نظر میں ہمیں محبوب بناؤ، ان کی نظر میں ہمیں منفور (قابلِ نفرت) نہ بناؤہر مودت اور الفت کو ہماری طرف کھینچو اور ہر برائی کو ہم سے دور کرو(بشارۃ المصطفیٰ ص ۲۲۲)

۷

جس قدر محبت اور قلبی تعلق زیادہ ہو گا اتنی ہی پیروی، ہم آہنگی، ہمراہی اور ہمدلی زیادہ ہو جائے گی ہمفکری، ہمراہی اور یکجہتی کے سلسلے میں عشق اور محبت عظیم اثرات مرتب کرتے ہیںلوگ جن ہستیوں سے محبت کرتے ہیں اُنہی کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔

اپنے قائد و رہنماسے جذباتی عقیدت سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں اسکی اطاعت پر اثر انداز ہوتی ہے اور صرف رسماً اور تنظیمی ضوابط کی پابندی کے لئے ہی نہیں بلکہ عشق وعقیدت کی بنیاد پر پیروی کا باعث بنتی ہے۔

لہٰذا اہلِ بیت ؑ کے ساتھ شیعہ کا تعلق دینی مصادر (قرآن و حدیث) کی بنیاد پر صرف اعتقادی پہلوکا حامل ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ جذباتی، معنوی اور احساسی بھی ہونا چاہئےہمیں چاہئے کہ فکر وشعور کوجذبات واحساسات کے ساتھ مخلوط کریں اور عقل اورعشق کو ایک دوسرے سے جوڑ دیںبالکل اسی طرح جیسے دورانِ تعلیم ہوتا ہے کہ اگر استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق علمی سے زیادہ جذباتی اور محبت و مودت کی بنیاد پر قائم ہو، توشاگرد شوق کے ساتھ علم حاصل کرتا ہے۔

ائمہ ؑ کے ساتھ محبت کے تعلق میں بھی دراصل ہونا یہ چاہئے کہ دل پر اُن کی حکمرانی ہواس صورت میں معرفت، عشق اور اطاعت کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہو جاتا ہےمعرفت، محبت پیدا کرتی ہے اور محبت ولایت واتباع کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ان تین عناصر اور انسان کی سعادت و کامیابی میں ان کے کردار کی جانب اشارہ کیا گیا ہے:

مَعْرِفَةُ آلِ محمّدٍ بَراءَةٌ مِنَ النّاروَحُبُّ آلِ محمّدٍ جَوازٌ عَلَی الصِّراطِ وَالولایةُ لآل محمّدٍ امانٌ من العذاب

آلِ محمد کی معرفت دوزخ سے برائت اور نجات کا پروانہ ہےآلِ محمد کی محبت پلِ صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ (passport) ہے اور آلِ محمد کی ولایت عذاب سے امان ہے(ینابیع المودۃج ۱ص ۸۷)

اس رابطے کی تصویر کشی اس طرح کی جا سکتی ہے کہ:

معرفت  >  محبت  >  اطاعت

۸

امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ:

الحُبُّ فرعُ المَعرفة

محبت معرفت کی شاخ ہے(بحار الانوارج ۶۸ص ۲۲)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مطالعے سے بھی پتاچلتا ہے کہ جو کوئی معرفت اور شناخت کی بنیاد پر آپ کی رفاقت اور صحبت اختیار کرتا تھا اُس کے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو جاتی تھی(بحار الانوارج ۱۶ص ۱۹۰) یہ بات محبت ایجاد کرنے کے سلسلے میں معرفت کے اثر کی نشاندہی کرتی ہے۔

عشق و محبت پیدا کرنے کے لئے سادہ مراحل سے آغاز کرنا چاہئے اور بعد کے مراحل میں مزید بصیرت اور زیادہ معرفت کے ذریعے اسے گہرا کرنا چاہئےیہاں تک کہ

”حب“ انسانی سرشت کا حصہ بن جائے اور ”محبتِ اہلِ بیت“ ایک مسلمان اور شیعہ کے دین کا جزہو جائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

هل الدّینُ الاّ الحُبّ

کیا دین محبت کے سوا کچھ اور ہے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۱۵)

امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلدّینُ هوالحُبُّ وَالحُبُّ هُوالدّین

دین ہی محبت ہے اور محبت ہی دین ہے(بحارالانوارج ۶۶ص ۲۳۸)

واضح ہے کہ سچی محبت عمل اور پیروی کا باعث بنتی ہے اور نافرمانی اورمخالفت سے باز رکھتی ہے(۱)

--------------

۱:- اس بارے میں مزید جاننے کے لئے بحارالانوارکی جلد ۶۶  میں صفحہ نمبر ۲۳۶ تا ۲۵۳پر ”راہِ خدا میں حب اور بغض“ سے متعلق احادیث کا مطالعہ کیجئے۔

۹

یہ محبت پیدا کرنے کے لئے لوگوں کی نفسیاتی حالت اور قلبی آمادگی کوپیش نظر رکھنا چاہئےکیونکہ محبتِ اہلِ بیت ؑ غیر مستعد (نالائق) اور غیر آمادہ دلوں میں جگہ نہیں بناتیجیسے سخت چکنے پتھر پر پانی نہیں ٹھہرتا اور پتھریلی زمین قابلِ کاشت نہیں ہوتی۔

اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں

متعدد روایات میں مودتِ اہلِ بیت ؑ کے علاوہ، ہم پر عائد ہونے والے اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور خاندانِ پیغمبر ؑ کے مقابل ہماری ذمے داریوں کو بھی بیان کیا گیا ہےاہلِ بیت ؑ کی ولایت، محبت، مودت اور نصرت کے بارے میں احادیث کے کئی ابواب موجود ہیں ان حقوق اور ذمے داریوں کی فہرست کچھ یوں ہے:

۱:- مودت و محبت

زیارتِ جامعہ میں ہے کہ:

بِمُوالاتِکم تُقْبَلُ الطّاعةُ المُفتَرضة ولکم المودّةُ الواجبة

آپ کی ولایت کے سبب سے (بارگاہِ الٰہی میں) واجب اطاعتیں قبول ہوتی ہیں اورآپ کی مودت واجب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک مفصل حدیث میں سلمانؓ، ابوذرؓ اور مقدادؓ کو خطاب کر کے یہ بھی فرمایا ہے کہ :

اِنَّ مودّة اهلِ بیتی مفروضَةٌ واجِبَةٌ عَلیٰ کُلِّ مؤمِنٍ ومؤ منةٍ

میرے اہلِ بیت کی مودت ہر با ایمان مرد اور عورت پرفرض اور واجب ہے(بحار الانوارج ۲۲ص ۳۱۵)

۱۰

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

علیکم بِحُبِّ آلِ نبیّکم فانّه حقّ اﷲ علیکم

تمہیں چاہئے کہ اپنے نبی کی آل سے محبت کرو، کیونکہ یہ تم پر عائد ہونے والا خدا کا حق ہے(غرر الحکم حدیث ۶۱۶۹)

۲:- ان سے وابستہ رہنا

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

مَن تَمسّکَ بِعِترتی مِن بَعدی کان من الفائزین

جو کوئی میرے بعد میرے اہلِ بیت سے وابستگی اختیار کرے گا وہ کامیاب لوگوں میں سے ہو گا(اهل البیت فی الکتاب والسنةص ۳۶۹)

۳:- ان کی ولایت و رہبری قبول کرنا

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لنا عَلَی الناسِ حَقُ الطّاعۃ والوِلایۃ۔

لوگوں پر ہماری اطاعت و ولایت کا حق عائد ہوتا ہے(غرر الحکم)

۱۱

۴:- انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

اهلُ بَیتی نُجومٌلِأ هلِ الارضِ، فلا تَتَقَدَّمُوهم وَقَدِّموهم فَهُمُ الوُلاةُبعدی

میرے اہلِ بیت اہلِ زمین کے لئے ستارے ہیںپس ان سے آگے نہ بڑھنا بلکہ انہیں آگے رکھنا کہ یہ میرے بعد والی ہیں  (احتجاج طبرسی ج ۱ص ۱۹۸)

۵:- دینی و دنیاوی امور میں ان کی اقتدا

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:

اَهلُ بیتی یُفرِّقون بین الحقِّ والباطلِ وَهُمُ الائمةُ الّذینَ یُقتدیٰ بهم

میرے اہلِ بیت حق اور باطل کو جدا کرتے ہیں اور وہ ایسے پیشوا ہیں جن کی اقتدا کی جانی چاہئے(احتجاج طبرسی ج ۱ص ۱۹۷)

۶:- ان کی تکریم و احترام

ایّها الناس!عَظِّموااهلَ بیتی فی حیاتی ومِنْ بعدی وَ اَکرِمُوهم وفَضِّلُوهم

اے لوگو! میرےاہلِ بیت کی تعظیم کرو، میری زندگی میں بھی اورمیرے بعد بھیاُن کااحترام و تکریم کرو اور انہیں دوسروں پر فوقیت دو  (احقاق الحق۔ ج۵۔ ص۴۲)

۱۲

۷:- اپنے اموال اورآمد نیات میں سے خمس ادا کرو

سورہ انفال کی آیت ۴۱ میں خمس کو خدا، رسول اور ذوی القربیٰ کے لئے قراردیا گیا ہے۔

۸:- ان سے اوران کی ذرّیت سے حسن سلوک اوران سے وابستہ رہنا

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ لَمْ یَقدِرْ عَلیٰ صِلَتِنا فَلْیَصِل صالِحی مَوالینا یُکْتَبْ له ثوابُ صِلَتِنا

جو کوئی ہمارے ساتھ نیکی پر قادر نہ ہو، اُسے چاہئے کہ ہمارے دیندار محبوں سے نیکی کرے، تاکہ اسکے لئے ہم سے تعلق اور ہمارے ساتھ نیکی کا ثواب لکھا جائے(ثواب الاعمال ص ۱۲۴)

۹:- ان پر درود و سلام بھیجنا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ صَلّیٰ صَلوةً لَمْ یُصَلِّ فیها عَلَیَّ وَلا عَلیٰ اهلِ بیتی لَمْ یُقْبَلْ مِنه

جو کوئی نماز پڑھے اور اُس میں مجھ پراور میرے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجے، تو ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کی جائے گی(احقاق الحق ج ۱۸ص ۳۱۰)

۱۳

۱۰:- ان کا اور ان کے فضائل کا تذکرہ کرنا

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

خیرُالناس مِن بعدِنا مَن ذاکراَمرَناودعاالی ذِکرِنا

ہمارے بعد لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو ہمارے کام اور ہماری تعلیمات کا ذکر کرے اور لوگوں کو ہمارے ذکر کی دعوت دے  (امالئ طوسیص ۲۲۹)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے :

اِنّ ذِکرَنا مِنْ ذِکراﷲوذِکرُعدوّنامِن ذِکر الشیطان

ہمارا ذکر خدا کا ذکر ہے اور ہمارے دشمن کا ذکر شیطان کا ذکر ہے  (کافی ج  ۲ص ۴۹۶)

۱۱:- ان کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کرنا

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجالسِ عزائے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں فرمایا ہے:

اِنَّ تِلکَ المَجالسَ اُحِبُّهافَاَحْیُوااَمرَنا، اِنّه مَن ذَکَرَنا اوذُکِرْنا عِندَه فَخَرجَ مِن عَینَیهِ مثلُ جَناحِ الذّبابِ غَفراﷲ له ذُنوبَه

ہم اِن مجالس کو پسند کرتے ہیںپس ہمارے امر اور ہماری فکر کو زندہ رکھوبے شک جو کوئی ہمارا ذکر کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھ سے پرِ مگس کے برابر بھی آنسون کل آئے، تو ایسے شخص کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں(ثواب الاعمال ص ۲۲۳)

۱۴

۱۲:- ان کی قبور مطہر کی زیارت کو جانا

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنَّ لِکُلٍ اِمامٍ عهداً فی عُنُقِ اولیا وشیعتِهِ، وانّ مِن تمامِ الوفاءِ بالعهدِ زیارةُ قبورهم

ہر امام کی طرف سے اس کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے ذمے ایک عہد و پیمان ہے اور اس عہد و پیمان سے مکمل وفاداری کی علامت قبورِائمہ کی زیارت ہے(من لا یحضر الفقیہ ج ۲ص ۵۷۷)

قبورِ ائمہ ؑ کی زیارت اس قدر زیادہ اجتماعی اور تربیتی اثرات کی حامل ہے کہ اسے حج اور خانہ خدا کی زیارت کے کمال کی علامت شمار کیا گیا ہےبکثرت احادیث میں اہلِ بیت ؑ اور ائمہ معصومین ؑ کی حیات اور ان کی وفات کے بعد بھی اُن کی زیارت کی تاکید کی گئی ہے(۱) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے: لوگوں کو اِن پتھروں (خانہ کعبہ) کی طرف آنے، ان کا طواف کرنے، اس کے بعد ہمارے پاس آنے، ہم سے اپنی ولایت اور وابستگی کی اطلاع دینے اور ہمارے لئے اپنی نصرت کے اعلان کا حکم دیا گیا ہے(وسائل الشیعہج ۱۰میزان الحکمۃج ۴وغیرہ)حج کایہ اجتماعی اور سیاسی پہلو، ائمہ حق کی نصرت اوراُن سے محبت کے تعلق کی نشاندہی کرتا ہےزیارت کا وہ عظیم ثواب جس کا ذکر روایات میں کیا گیا ہے، بالخصوص کربلااور خراسان کی زیارت، زیارتِ اربعین و عاشورا اور دور و نزدیک سے زیارت، وہ اس مسئلے کی اہمیت کی علامت ہےقبورِ ائمہ ؑ کی زیارت، ائمہ ؑ کے حوالے سے ہماری ذمےداری ہونے کے ساتھ ساتھ، ہمارے دلوں میں اُن کی محبت پیدا ہونے کا باعث بھی بنتی ہے(اس بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے)رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے:

الزّیارةُ تُنْبِتُ المَوَدَّةَ

زیارت و دیدار، مودت اور دوستی پیدا کرتا ہے  (بحارالانوارج ۷۱ص ۳۵۵)

--------------

۱:- زیارت سے متعلق روایات کے لئے اِن کتب سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہےبحار الانوارج ۹۷ تا ۹۹، من لا یحضر الفقیہ ج ۲، کامل الزیارات، عیون اخبار الرضا۔

۱۵

محبت پیدا کرنے کے طریقے

۱:-بچپنے سے پہلے کا دور

۲:-آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق

۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ

۴:-شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا

۵:-حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا

۶:-اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا

۷:-محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا

۸:-تعظیم و تکریم اور تعریف

۹:-مراسم کا انعقاد اور شعائر کی تعظیم

۱۰:-طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ

۱۱:-ولئ نعمت کا تعارف

۱۲:-اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر

۱۳:-اپنی روزمرہ کی خوشیوں کو حیاتِ ائمہؑ سے منسلک کرنا

۱۴:-محبت کم کرنے والی چیزوں سے پرہیز

۱۵:-روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا

۱۶:-کتابوں کا تعارف اور مقالات و اشعارتحریر کرنا

۱۷:-محبانِ اہلِ بیت ؑ کے قصے

۱۸:- انجمن سازی

۱۶

۱:- بچپنے سے پہلے کا دور

و ہ عوامل جو ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل میں موثر ہوتے ہیں، اُن کا آغاز اسکول میں اس کے داخل ہونے اورمعاشرے میں اس کے قدم رکھنے سے بہت پہلے ہو چکا ہوتا ہےان عوامل کا تعلق بچے کی خوراک، ماں کے دودھ، والدین کی شخصیت، ایامِ حمل کے حالات اور نطفے کے قرار پانے وغیرہ جیسے مسائل سے ہوتا ہےہاں، اس سلسلے میں وراثت کا پہلو بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔

اہلِ دانش، سنجیدہ اورمہذب انسان ایک پاک، شریف، با ایمان، صالح اورکامیاب نسل وجود میں لانے کی خاطرمذکورہ نکات اور باریکیوں کوبھی پیش نظر رکھتے ہیں۔

ہم بہت سے بزرگانِ دین اور شہدائے اسلام کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں، یاہم ان کے متعلق سنتے ہیں کہ ان کی مائیں انہیں با وضو ہو کر دودھ پلاتی تھیںجن دنوں یہ افراد اپنی ماؤں کے شکم میں ہوتے تھے، یا وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں، اُن دنوں میں وہ اپنے روحانی حالات، غذاؤں، تقریبات میں شرکت اور مطالعے کے لئے کتب کے انتخاب کی جانب خاص دھیان رکھتی تھیںاس دوران ماؤں کا یہ احتیاط اور دھیان بچوں کی شخصیت اور ان کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ایامِ حمل اور دودھ پلاتے وقت ماں کونسی آوازیں (ترانوں یا تلاوتِ قرآن، یا نوحوں اور قصیدوں کے کیسٹ) سنتی ہے، کونسی تصاویر اور فلمیں دیکھتی ہے، کیسی تقریبات میں شرکت کرتی ہے، کن لوگوں سے میل جول رکھتی ہے، یہ سب باتیں بچے کی روحانی اور معنوی شخصیت کی تشکیل پراثر انداز ہوتی ہیںبعض مائیں امام حسین علیہ السلام کے دسترخوان، مجالس کے حصوں اور نذر و نیازمیں دیئے گئے کھانو ں کو تبرک کی نیت سے استعمال کرتی ہیںیہ عقیدے اور ایمان بچے میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔

۱۷

خداوند عالم سے صالح فرزند کی دعا کرنا، ولادت کے وقت اس کے کان میں اذان و اقامت کہنا، اس کے لئے اچھانام منتخب کرنا، (اس بات کے پیش نظر کہ دایہ کا اخلاق بچے میں منتقل ہوتا ہے) اسے دودھ پلانے کے لئے پاک سیرت دایہ کا انتخاب کرنا، بچے کو دریائے فرات کاپانی اور خاکِ شفا چٹانا، اسے قرآنی آیات اور احادیثِ معصومین ؑ یاد کرانا، اسے نماز روزے کی تلقین کرنا اورایسے ہی دوسرے اسلامی آداب و رسوم کا خیال رکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ اموربچوں کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

میں نے خدا سے خوبصورت اور خوش قامت بچے طلب نہیں کئے، بلکہ میں نے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایسے فرزند عطا فرما جو خدا کے اطاعت گزار اور اس سے خوف کھانے والے ہوں تاکہ جب بھی میں انہیں اطاعتِ الٰہی میں مشغول دیکھوں تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے

(بحار الانوارج ۱۰۱ص ۹۸)

امام زین العابدینؑ نے بھی بچوں کے لئے اپنی مخصوص دعا میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ تردینی، روحانی اور اخلاقی خوبیاں اور تقویٰ، بصیرت، اطاعتِ الٰہی، اولیا اﷲ سے محبت اور دشمنانِ خدا سے دشمنی جیسی خصوصیات طلب کی ہیں۔

وَاجعلهم اَبراراً اَتْقیاءَ بُصَراءَ سامعینَ مُطیعینَ لک

وَلِاَ ولیا ئک مُحبّینَ مُناصِحینَ و لجمیعِ اَعْداءِ ک مُعٰاندینَ و مُبغِضینَ

اور انہیں نیکو کار، پرہیز گار، روشن دل، حق بات سننے والا، اپنا مطیع و فرمانبردار، اپنے دوستوں کا دوست اور خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن اوربد خواہ قرار دے(صحیفہ سجادیہدعا نمبر ۲۵)

۱۸

پس بچپنے کا زمانہ بچوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا اور اُس کے محبوب بندوں سے انس و الفت پیدا کرنے کا دور ہے اور اُن میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنا بھی اس دینی تربیت کا حصہ ہےہمارا مجالسِ عزائے حسین ؑ میں شرکت کرنا اور وہاں ابا عبداﷲ الحسین ؑ کے سوگ میں اشک بہانا، ائمہؑ اور اہلِ بیت ؑ کے اقوال و احادیث سننا، ہمارے اُن بچوں پر گہرے اثرات مرتب کرتاہے جو ہماری آغوش میں ہوتے ہیں یا شکمِ مادر میں پرورش پا رہے ہوتے ہیںمحبتِ اہلِ بیت ؑ کی جڑیں بچپنے اور شیر خوارگی کے زمانے ہی سے مضبوط ہونے لگتی ہیں اور جوانی اور بزرگسالی میں اس سے کلیاں، پھول اور پھل ظاہر ہونے لگتے ہیں اس نتیجے کا حصول بچوں کی شیر خوارگی اور نوزائیدگی کے زمانے ہی سے اس جانب والدین کی توجہ اوران کے طرزِ عمل سے تعلق رکھتا ہےلہٰذا ہمیں معاشرے میں قدم رکھنے والے اپنے بچوں اور جوانوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا کے محبوب بندوں سے محبت و الفت کی نشو ونماکی اہمیت اور ضرورت کی جانب متوجہ رہنا چاہئے۔

ہمارے پاس اپنے بچوں اور جوانوں کو محب آلِ محمد ؑ اور دوستدارِ اہلِ بیت ؑ بنا نے کے مختلف طریقے موجود ہیں ان میں سے کچھ طریقے ذہنی اور نظری (theoretical) پہلو کے حامل ہیںیعنی ایسے موضوعات پر گفتگو کرناجن کے نتیجے میں خاندانِ پیغمبر ؑ کی جانب کشش اور میلان پیدا ہواس حوالے سے نمایاں طریقوں میں ان ہستیوں کے فضائل و مناقب، بارگاہِ الٰہی میں ان کے بلند مقام، ان اولیائے الٰہی کی سیرت و سوانح کا بیان اور حتیٰ ان کی شکل وصورت اور ظاہری اوصاف کا تذکرہ شامل ہےانبیاؑ اور ائمہؑ سے منسوب تصاویر کے ذریعے بھی بعض لوگوں میں اُن سے محبت و عقیدت پیدا ہوتی ہے۔

دوسرا پہلو عملی طریقوں پر مشتمل ہےیعنی ایسے پروگراموں کا انعقاد اور مفید نکات پر توجہ جن کے نتیجے میں بچوں اور جوانوں کے دلوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا ہویہ کام والدین، اساتذہ، تربیتی امور کے ذمے دار علما و دانشور اور نسلِ جواں کے پسندیدہ افراد اچھے طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

اب ہم ان میں سے کچھ راستے اور طریقے پیش کرتے ہیں

۱۹

۲:- آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق

اہلِ بیت ؑ سے تعلق رکھنے والی اشیا اور علامات سے استفادہ ان سے محبت اور دوستی کے رشتے کو مضبوط کرتا ہے ”عاشورا“ اس گھرانے سے رشتہ عقیدت کی برقراری کا نمایاں ترین مظہر ہے ”شہادت“ اور ”تشنگی“ عاشورا کے دو اہم ترین مظہر ہیں ”آبِ فرات“ امام حسینؑ اور ان کے انصار واقربا کی تشنگی اور حضرت عباس ؑ کی وفا یاد دلاتا ہےجبکہ خاکِ شفا ”ثار اﷲ“ کے خون سے گندھی ہوئی مٹی ہےاوران دونوں میں عاشورا کی ثقافت اور حبِ اہلِ بیت ؑ پائی جاتی ہے۔

شیعہ تعلیمات میں جن مذہبی رسوم کو اہمیت دی گئی ہے، اُن میں سے ایک رسم ولادت کے موقع پربچے کو آبِ فرات اور خاکِ شفا چٹانا ہے۔

یہ عمل بچوں کی ولادت کے وقت ہی سے اہلِ بیتِ رسول ؑ اور عاشورا سے ان کا رشتہ جوڑنے کا باعث بنتا ہےاسی طرح یہ عمل یہ رشتہ جوڑنے اور یہ تعلق قائم کرنے کے لئے ان بچوں کے والدین کے لگاؤ کی علامت بھی ہےیہ آب اورخاک قدرتی طور پر بچے کی سرشت و طینت اور اسکی عادات و اطوار پر اثرمرتب کرتی ہےبہت سی احادیث کے مطابق، خداوند عالم نے حسین ابن علی ؑ کی قبرمطہر کی خاک میں شفا اور علاج کی خاصیت رکھی ہے (وسائل الشیعہج ۳ص ۴۱۱، بحار الانوارج ۹۸ص ۱۱۸) اس خاک اور اس پانی میں محبت ایجاد کرنے کا اثر بھی رکھا گیا ہے۔

پس اپنے بچوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ ایجاد کرنے کے عملی طریقوں میں سے ایک طریقہ اس رسم پر عمل کرنا ہےروایات میں بھی اسکی جانب متوجہ کیا گیا ہےامام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:

حَنّکوااولادَکم بماء الفراتِ

اپنے نومولود کا دَہَن آبِ فرات سے تر کرو  (بحار الانوارج ۹۷ص ۲۳۰)

۲۰

امام جعفر صادق علیہ السلام ہی نے سلیمان بن ہارون بجلی سے فرمایا:

ما اَظُنُّ احداً یُحَنِّکُ بماء الفراتِ الاَّ احبَّنٰا اهلَ البیت

میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے آبِ فرات سے اپنے نومولود کا دَہَن تر کیا ہو اور وہ (بچہ) ہم اہلِ بیت کا محب نہ ہو  (بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)

امام جعفر صادقؑ نہرِ فرات کو جنت کی ایک نہر قرار دیتے تھے، جو خدا پر ایمان لائی ہے اور ایک روز اس میں جنت سے ایک قطرہ آ کر گرا تھانیز آپ ؑ نے فرمایاہے:

مَن شَرِبَ مِن ماء الفراتِ وَحنَّکَ به فهومحبّنااَهلَ البیت

جو کوئی آبِ فرات نوش کرے یا اس سے بچے کے دَہَن کو تر کرے، تو یقیناًوہ ہمارے خاندان کا محب ہو گا(بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اِنَّ اهلَ الکوفةِ لَوْحَنَّکوااولادَ هم بماء الفراتِ لکانواشیعةً لنا

اگر اہلِ کوفہ نے اپنے بچوں کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہوتا، تو وہ ہمارے شیعہ ہو جاتے(ایضاًج ۶۳ص ۴۴۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مااحدٌ یَشربُ من ماء الفراتِ وَ یُحنِّکُ به اذااولَدَ الّااَحبَّنٰا، لِأنَّ الفراتَ نهرٌمؤمِنٌ

کوئی ایسا نہیں جس نے آبِ فرات پیا ہو، یا اپنے بچے کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہو اور وہ ہمارا محب نہ ہوا ہوکیونکہ فرات مومن نہر ہے  (ایضاًج ۱۰۱ص ۱۱۴)

۲۱

امام ؑ نے بچوں کی ولادت کے موقع پر ان کو خاکِ شفا چٹانے کی بابت حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:

حَنِّکوااولادَ کم بِتُربةِ الحسینِ، فانّهااَمانٌ

اپنے بچوں کو خاکِ شفا چٹاؤ کیونکہ یہ ان کے حفظ و امان کا باعث ہے

(وسائل الشیعہج ۱۰ص ۴۱۰بحارالانوارج ۹۸ص ۱۲۴ اور ۱۳۶)

البتہ روایات میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ خاکِ شفا سے علاج کی غرض سے یہ استفادہ اس وقت سود مند ثابت ہو گا جب انسان اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خداوند عالم نے خاکِ شفا میں یہ منفعت اور خیر کا پہلورکھا ہے(بحارالانوارج ۹۸ص۱۲۳)

پانی یا شربت میں خاکِ شفا کو حل کر کے علاج کی غرض سے اسے پینے یا دوسروں کو پلانے کی یہ رسم، ائمہؑ کے زمانے میں بھی رائج تھی (ایضاًص ۱۲۱) اور آج بھی مکتبِ اہل بیتؑ کے ماننے والوں میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔

۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ

ہر انسان چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں اور اس پر توجہ دیںلوگوں کو جذب اور مائل کرنے کے لئے ان سے محبت و عقیدت کا اظہارانتہائی موثرواقع ہوتا ہےہر انسان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ کوئی اہم، معروف اور معتبر ہستی اس سے محبت اورچاہت کا اظہارکرےاور اگر یہ اظہارِ محبت و پسندیدگی خدا، رسول ؐاور ائمہ اطہار ؑ کی طرف سے کیا جارہا ہو، توکیا کہنے!!

اس بنیاد پر ہمیں لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا چاہئے کہ اہلِ بیت ؑ سے محبت اور ان سے ولایت رکھنے کی وجہ سے انسان خدا اور اس کے رسول کی محبت کا مستحق ہو جاتا ہےکیا کوئی نعمت اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتی ہے؟

اس بات کا اظہار کہ ائمہ ؑ اپنے محبوں سے محبت کرتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں ائمہ ؑ کی محبت پیدا کرنے کا باعث بنتا ہےاس بارے میں بکثرت روایات ہیں، ان ہی میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ :

۲۲

ایک شخص امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:

السلام علیکَ یا امیرالمؤمنین ورحمة اﷲوبرکاته، کیفَ اصبَحْتَ؟

اے امیر المومنین! آپ پر سلام (اور خدا کی رحمت و برکت) ہوآپ نے کس حال میں صبح کی؟

امام ؑ نے سر اٹھا کے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:

اصبحتُ مُحِبّاً لِمُحِبِّنا ومُبغِضاً لِمَن یُبغِضُنا

میں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے محب سے محبت کرتا ہوں اور اس کا دشمن ہوں جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے(سفینۃالبحارج ۲ص ۱۷)

باہمی محبت اور خدااور بندے یا پیغمبر اور امت کے ایک دوسرے سے خوش ہونے کا ذکرایک سود مند عمل ہےاس بارے میں قرآنِ مجید میں بھی مثالیں پائی جاتی ہیں، جیسے :

رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْه

خدا اُن سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے

(سورہ مائدہ ۵آیت ۱۱۹، سورہ توبہ ۹آیت ۱۰۰، سورہ مجادلہ ۵۸آیت ۲۲، سورہ بینہ ۹۸آیت ۸)

فَسَوْفاَا یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَه

تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اسکی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی ہے(سورہ مائدہ ۵آیت ۵۴)

یہ آیات صاحبانِ ایمان، صاحبانِ عملِ صالح، دینداراور راہِ خدا میں ثابت قدم رہنے والے افراد کے بارے میں ہیں

۲۳

اسی طرح یہ سوال کرنا کہ خدا کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟ اوراس کا یہ جواب دینا کہ محبانِ اہلِ بیت ؑ سےاور پھر یہ نتیجہ دینا کہ اہلِ بیت ؑ سے مودت کے نتیجے میں انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے خاندانِ پیغمبر ؑ سے محبت میں اضافے کا باعث ہے

خدا کے منتخب بندوں سے محبت کرنا بھی باعثِ افتخار ہے، اور ان کا محبوب ہونا بھی فضیلت کی بات ہےہم ائمہ ؑ کے حرم میں پڑھی جانے والی زیارتِ امین اﷲ میں خدا کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ :

مُحِبَّةً لِصَفْوَةِ اولیاء ک، مَحبوبةً فی أَرضِک و سماء ک

بارِالٰہا ! ہمیں اپنے برگزیدہ اولیا سے محبت کرنے والا بنا دے اور اپنی زمین اور اپنے آسمان پر محبوب قرار دے

(مفاتیح الجنان، زیارتِ امیر المومنین، زیارتِ امین اﷲ)

اہلِ بیت ؑ سے محبت، انسان کو اس گھرانے کا ہم دل و ہم ساز بنا دیتی ہے اور وہ اس خاندان کا ایک رکن بن جاتا ہےجیساکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلمانِ فارسیؓ کو اپنے خاندان کا ایک فرد قرار دیا اور فرمایا کہ: سلمانُ مِنّااھلَ البیت (سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہےمناقب ابن شہر آشوبج ۱ص ۸۵)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جملہ حضرت ابوذر غفاریؓ کے بارے میں بھی فرمایا ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فضیل بن یسار (رجال کشیج ۲ص ۴۷۳ اور ۳۸۱) اور یونس بن یعقوب (ایضاًص ۶۸۵) کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ہم اہلِ بیت ؑ میں سے ہیں

کسی انسان کا خاندانِ پیغمبر میں شمار کیا جانا اسکے لئے ایک عظیم نعمت ہےمحبتِ اہلِ بیت ؑ وہ اعزا زہے جس کے ذریعے ان کا محب یہ امتیاز حاصل کرتا ہےاس سلسلے میں درجِ ذیل دو احادیث پر توجہ فرمایئے، جن میں سے ایک محبت کو اور دوسری تقویٰ اور عملِ صالح کو گروہِ اہلِ بیت کی رکنیت کاذریعہ قرار دیتی ہے

۲۴

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:

مَنْ اَحَبَّنا فهومِنّااَهل البیتِ

جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے

(تفسیر عیاشیج ۲ص ۲۳۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنِ اتّقیٰ مِنکم وَاَصْلَحَ فهومنّا اهلَ البیت

تم میں سے جو کوئی تقویٰ اختیار کرے، اور صلاح و اصلاح کے لئے کوشاں ہو، وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے(ایضاً)

اِس نکتے کی جانب توجہ اہمیت کی حامل ہے کہ تقویٰ اور نیکوکاری کے بغیرصرف محبتِ ہلِ بیت ؑ کام نہیں آئے گی اور حقیقی محبت انسان کواپنے محبوب کا ہمدم وہم ساز اور ہمرنگ بنا دیتی ہے

۴:- شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا

اہلِ بیت ؑ کے پیروکار اوراُن کے محبین خاندانِ پیغمبر کی توجہ، عنایات اور قدردانی کا مرکز ہوتے ہیںخاندانِ نبوت کی اس محبت، تکریم اور عنایت کی جانب متوجہ رہنا اوراس کی طرف دوسروں کی توجہ مبذول کرانا، دلوں میں ان کی محبت ایجاد کرتا ہے اور پہلے سے موجود محبت میں اضافہ کرتا ہے۔

اہلِ بیت ؑ اپنے محبوں کو پسند کرتے ہیں، انہیں پہچانتے ہیں اور انہیں اپنے آپ سے تعلق رکھنے والے درخت کی شاخیں قرار دیتے ہیںدنیا میں ان کی مشکلات حل کرتے ہیں، آخرت میں ان کی شفاعت کرتے ہیں اور اپنے محبوں کو کبھی نہیں بھولتے۔

۲۵

اس بارے میں بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں، ہم یہاں چند احادیث بطورِ مثال پیش کرتے ہیں:

حُذیفہ بن اُسَید غفاری کہتے ہیں: جب امام حسن علیہ السلام معاویہ سے صلح کے بعد مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے، تو میں اُن کے ہمراہ تھااُن کے پاس مال و اسباب سے لدا ہوا ایک اونٹ تھا، جو ہمیشہ اُن کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، کبھی جدا نہیں ہوتا تھاایک روز میں نے عرض کیا: اس اونٹ پر کیا لدا ہے جو آپ سے جدا نہیں ہوتا؟

امام نے فرمایا:تمہیں نہیں معلوم کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیںامام نے فرمایا: دیوان ہےمیں نے عرض کیاکس چیزکا دیوان (رجسٹر) ہے؟ فرمایا:

دیوانُ شیعتِنافیه اَسماؤ هُم

ہمارے شیعوں کا دیوان ہے، اس میں ان کے نام درج ہیں

(بحار الانوارج ۲۶ص ۱۲۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا:

  وَعَرفْنا شیعتناکَعِرفانِ الرّجُلِ اهلَ بیته

ہم اپنے شیعوں کواُسی طرح پہچانتے ہیں جیسے ایک انسان اپنے اہلِ خانہ کو پہچانتا ہے(بحار الانوارج ۲۶ص ۱۴۶)

۲۶

امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم جس کسی کو دیکھتے ہیں پہچان لیتے ہیں کہ وہ مومنِ حقیقی ہے یا منافقہمارے شیعہ لکھ دیئے گئے ہیں ان کے نام اور ان کے اجداد کے نام جانے پہچانے ہیںخدا نے ہم سے اور ان سے عہد لیا ہے کہ جہاں ہم جائیں گے وہاں وہ بھی داخل ہوں گے۔

اِنَّ شیعتَنا لمکتوبُونَ مَعْرُوفون بِأسماءِهِم واسماء آباءهم، اَخَذَاﷲ المیثاقَ علیناوعَلَیهم، یَرِدونَ مَوارِدَناوَیَدخُلون مَداخِلَنا(بحار الانوارج۲۳ص۳۱۳)

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آیتِ قرآن:وَمِمَّنْ هَدَیْنَاوَاجْتَبَیْنَا (جنہیں ہم نے ہدایت دی اور منتخب کیاسورہ مریم ۱۹آیت ۵۸) کے بارے میں فرمایا:

فَهُم وَاﷲِ شیعَتُناالّذین هَدٰاهُمُ اﷲُ لِمَوَدَّتِنٰاوَاجْتَباهُمْ لِدینِنا

خدا کی قسم، یہ ہمارے شیعہ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہماری مودت اور محبت کی جانب رہنمائی کی ہے اور انہیں ہمارے دین کے لئے منتخب کیا ہے(بحار الانوارج ۲۶ص ۲۲۴)

خاندانِ رسول ؑ سے محبت اور اُن کی پیروی ایک ایسی گرانقدر توفیق ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور ہمیں چاہئے کہ اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کریں۔

ائمہ ؑ کی اپنے شیعہ پر دوسری عنایت روزِ قیامت شفاعت کی صورت میں ظاہر ہو گی، جس کی جانب وہ احادیث اشارہ کر رہی ہیں جو ہم بعد میں بیان کریں گے۔

۲۷

امام جعفر صادق علیہ السلام نے قرآن کی آیت:اِنَّ اِلَیْنَآاِیَابَهُمْ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ (یقیناً انہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہےپھر یقیناً ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہےسورہ غاشیہ ۸۸آیت ۲۵، ۲۶) کے ذیل میں فرمایا ہے:

اِذٰا کٰانَ یَومَ القِیٰامَةِ جَعَلَ اﷲُ حسابَ شیعَتِناعَلَینا

جب روزِ قیامت آئے گا، تو خداوند عالم ہمارے شیعوں کا حساب ہمارے ذمے کر دے گا(بحار الانوارج ۷ص ۲۰۳)

آپ ؑ ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:

نَشْفَعُ لِشیعَتِنٰافَلاٰ یَرُدُّنٰارَبُّنٰا

ہم اپنے شیعوں کی شفاعت کرتے ہیں اور خداوند عالم بھی ہماری شفاعت کو مسترد نہیں کرتا(بحارالانوارج ۸ص ۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اَیْنَمانَکُونُ فَشیعتُنٰامَعَنا

جہاں کہیں ہم ہوں گے، ہمارے پیروکار بھی ہمارے ساتھ ہوں گے

(بحارالانوارج ۸ص ۴۱)

حتیٰ یہ ساتھ جنت میں داخلے کے وقت بھی پایا جائے ہو گاحضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 وخمسةُ ابوابٍ یَدخُل مِنها شیعتُنٰاوَمُحبّونا

جنت کے آٹھ دروازوں میں سے پانچ دروازوں سے ہمارے شیعہ اور محب داخل ہوں گے(بحارالانوارج ۲ص ۲۰۶)

۲۸

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مسجد میں شیعوں کے ایک گروہ کو دیکھا، آپ ؑ اُن کے نزدیک گئے، انہیں سلام کیا اور فرمایا:

وَاﷲِ اِنی لَاُحبُّ ریحَکُم وَارواحَکم  اَنتمُ السّابِقونَ الی الجنّة، قدضَمِنّا لکم الجنانَ بِضَمانِ اﷲِ وَرَسُولِه  اَلاوَاِنّ لِکُلِّ شَیءٍ شَرَفَاًوَشرفُ الدینِ الشیعةُ، اَلاٰ اِنّ لِکُلِّ شی ءٍ عِماداً وَعِمادُ الدّینِ الشیعةُ، اَلاوانّ لکُل شیءٍ سَیّداً وَ سیّدُ المجالسِ مجالسُ شیعَتِنٰا

خدا کی قسم! میں تمہاری بو اور تمہاری روح کو پسندکرتا ہوںتقویٰ اور جد و جہد کے ذریعے ہماری مدد کروتم خدا کے دین کے مددگار ہوتم وہ لوگ ہو جو سب سے پہلے جنت کی طرف جاؤ گےہم نے تمہارے لئے جنت کی ضمانت لی ہےہر چیز کی بزرگی ہوتی ہے اور دین کی بزرگی شیعہ ہیںہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون شیعہ ہیںہر چیز کا سردار و رئیس ہوتا ہے اور بہترین مجالس اور ان کی سرورو سردار ہمارے شیعوں کی مجالس ہیں

(بحارالانوارج ۶۵ص ۴۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے قرآنِ کریم میں ذکر ہونے والے شجرہ طیبہ کے بارے میں فرمایا: یہ درخت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہیں اسکا تَنا علی ہیں اس کی شاخ فاطمہ ہیں اس کے پھل اولادِفاطمہ ہیں اور اس درخت کے پتّے ہمارے شیعہ ہیںجب بھی ہمارے شیعوں میں سے کوئی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو اس درخت کا ایک پتّا گر جاتا ہے اور جب بھی شیعوں کے یہاں کسی کی ولادت ہوتی ہے، تو اس پتّے کی جگہ ایک دوسرا پتّا اُگ آتاہے(بحارالانوارج ۹ص ۱۱۲)

۲۹

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اِنَّ اﷲ تعالی اِطّلَعَ اِلَی الأرضِ فاختارَنٰاوَاختارلناشیعةً یَنصرونَناو یَفْرَحُونَ بِفَرَحِناوَیَحزَنُون لِحُزْنِناوَیَبْذِلُونَ اَنْفُسَهم وَاموالَهُم فینا، فاولئک مِنّاوَاِلَیناوَهُم مَعَنافِی الجِنَان

خداوندِ عالم نے زمین کی طرف نگاہ ڈالی اور ہمیں چن لیا، اور ہمارے لئے پیروکار منتخب کئے، جو ہماری مدد کرتے ہیں، ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں، ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں اور ہماری راہ میں اپنی جانوں اور اموال کو خرچ کرتے ہیںپس وہ ہم سے اور ہماری طرف سے ہیں اور وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(میزان الحکمۃج ۵ص ۲۳۳)

مذکورہ روایات اس گھرانے کے پیروکاروں پر خدا اور اہلِ بیت ؑ کی عنایات اور اس محبت اور ولایت کے حامل لوگوں کے ممتاز مقام کو ظاہر کرتی ہیںیہ خاص عنایات جو دو کرم کے حامل اس گھرانے سے انسان کی محبت میں اضافہ کرتی ہیں اور ان سے الفت و عقیدت پیدا کرتی ہیں۔

ائمہ اطہار ؑ کی نگاہ میں اپنے شیعہ کی قدر ومنزلت، اُن کی اپنے محبوں پر خاص توجہ اور محبتِ اہلِ بیت ؑ کے چشمے سے سیراب ہونے والوں اور آل اللہ سے ولا رکھنے والوں کے لئے خدا کے مقرر کردہ مقام کے بارے میں اس قدر احادیث موجود ہیں جن کا شمار ممکن نہیں اور جنہیں نقل کرنے کے لئے ایک انتہائی ضخیم کتاب درکار ہو گیلیکن ان احادیث کے ایک حصے کے مضامین سے آگہی کے لئے، ہم ذیل میں ان فضیلتوں اور خصوصیات میں سے بعض کے عناوین پیش کرتے ہیں(۱)

--------------

1:- ان کثیر احادیث کے متن کے مطالعے کے لئے بحارالانوار کے معجم المفہرس میں لفظ شیعہ کے ذیل میں آنے والی احادیث کو ملاحظہ کیجئے۔

۳۰

شیعیانِ علی روزِ قیامت سیراب، رستگار اور کامیاب ہیں شیطان شیعیانِ علی پر مسلط نہیں ہوسکتاشیعیانِ علی شیعیانِ خدا ہیںشیعیانِ علی مغفرت شدہ ہیںشیعہ روزِ قیامت حضرت علی ؑ کے ہاتھوں جامِ کوثرسے سیراب ہوں گےان کے پیروکار دنیا اور آخرت میں فتحیاب ہیں اگر شیعہ نہ ہوتے تو خدا کا دین مضبوط نہ ہو پاتایہ بہترین بندگانِ خدا اور صراطِ حق پر ہیں انہوں نے دین اہلِ بیت ؑ اپنایا ہےہمارے شیعہ دوسروں کی نسبت خدا کے عرش اور ہم سے نزدیک تر ہیںہمارے شیعہ دوسروں پر گواہ ہیںہم اور ہمارے شیعہ اصحاب الیمین ہیںہمارے شیعہ ہدایت یافتہ، گرانقدر، صادق اور شیطان کے تسلط سے نجات یافتہ ہیںقیامت کے دن ہمارے شیعہ اپنی قبروں سے نورانی چہروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے اور میدانِ حشر میں سوار پر آئیں گےشیعہ نورِ خدا کے ذریعے دیکھتے ہیںہماری طینت سے پیدا کئے گئے ہیںہم بھی منتخب شدہ ہیں اور ہمارے شیعہ بھییہ ہمارے نور کی شعاع سے پیدا کئے گئے ہیںخداوند عالم ہمارے شیعہ کو دنیاہی میں اسکے گناہوں سے پاک کردیتا ہےخدا نے ہمارے شیعوں سے میثاقِ ولایت لیا ہوا ہےہم اپنے شیعوں پر گواہ ہیں اور ہمارے شیعہ دوسروں پر گواہہمارے شیعہ اپنے گھرانے کی شفاعت بھی کرسکتے ہیںشیعہ شہید دوسرے شہدا سے برتر ہےہمارے با ایمان پیروکار پیغمبر کے اقربا ہیں۔ ۔ احادیث میں شیعوں کے اور اسی طرح کے سینکڑوں بلند مراتب اور فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔

البتہ یہ اوصاف و فضائل اور اعلیٰ مقامات و مرتبے جس قدر گراں قیمت اور پسندیدہ ہیں اسی قدروہ زیادہ ذمے داری، فرض شناسی اور دینداری کا تقاضا کرتے ہیںتاکہ انسان اس مقام ومرتبے کااہل بن سکے(اس کتاب کے اختتامی نکات پر غور فرمایئے گا)

۳۱

5:- حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا

وہ افراد اور ادارے جومحبتِ اہلِ بیت ؑ کی تبلیغ کرتے ہیں اُن کی سرگرمیاں دوسروں کو اس محبت کی جانب مائل کرنے میں موثرہوتی ہیں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ محبتِ اہلِ بیت ؑ کی فضیلت، اس کی برکات اور اس کے آثار کو مسلسل بیان کرنا چاہئےیہ چیزیں بہر صورت کچھ لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان تبلیغات کے نتیجے میں لوگ اس جانب مائل ہوتے ہیں اس بارے میں بہت سی احادیث ہیںمثال کے طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ شهیداً

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ مغفوراًله

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ مؤمناًمُستکمِلَ الأیمان

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ بَشَّرهُ ملکُ الموتِ بالجَنَّة

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ فُتِخَ له فی قبره بابان اِلَی الجنَّة

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍجَعلَ اﷲُ قَبَرهُ مَزارَ ملائکةِ الرّحمة

جو کوئی حبِ آلِ محمد کے ساتھ مرے وہ شہادت کی موت مرا ہےوہ بخش دیا گیا ہےوہ تائب مرا ہےوہ ایمانِ کامل کے ساتھ مرا ہےملک الموت اسے جنت کی بشارت دیتا ہےاس کی قبر میں دو کھڑکیاں بہشت کی جانب کھلتی ہیں اس کی قبر خدا کی رحمت کے فرشتوں کی زیارت گاہ بن جاتی ہے۔

۳۲

اس قسم کی بکثرت روایات موجود ہیں جن کا ذکر دلوں کو ہلا کے رکھ دیتا ہے اور لوگوں کو اہلِ بیت ؑ کا شیفتہ بنا دیتا ہےروایات میں اس محبت کی فضیلت کے بارے میں کثرت کے ساتھ درجِ ذیل نکات کا ذکر ہوا ہے:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

اساس الاسلام حبّی وحبّ اهل بیتی

میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت اسلام کی اساس ہے

(کنز العمالج ۱۲ص ۱۰۵)

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

حبّنااهل البیت نظامُ الدّین

ہم اہلِ بیت کی محبت نظامِ دین ہے(امالئ طوسیص ۲۹۶)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

مَنْ احبّنا فقد احبّ اﷲ ومن ابغضنا فقدابغض اﷲ

جس کسی نے ہم سے محبت کی، اُس نے خدا سے محبت کی اور جس نے ہم سے بغض رکھا، اُس نے خدا سے بغض رکھا(امالئ صدوقص ۳۸۶)

زیارتِ جامعہ کبیرہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ:

مَنْ اَحَبَّکُمْ فَقَدْاَحَبَّ اﷲَ

جس نے آپ سے محبت کی، اُس نے خدا سے محبت کی۔

۳۳

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

من احبّ هولاء فقداحبّنی ومن ابغضهم فقد ابغضنی

جس نے اہلِ بیت سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا

(تاریخِ دمشقترجمۃ الامام الحسینص ۹۱)

امام محمد باقر علیہ السلا م فرماتے ہیں:

انّی ئا عَلَم انّ هذاالحبَّ الّذی تحبّونا لیسَ بشی ء صَنعْتُموه ولکنّ اﷲ صنعه

میں جانتا ہوں کہ یہ محبت جو تم ہم سے کرتے ہوایسی شئے نہیں ہے جسے خود تم نے وجوددیا ہو، بلکہ اس سے اللہ نے تمہیں نوازا ہے

(المحاسنج ۱ص ۲۴۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے :

حبّنا اهل البیت افضلُ عبادة

حبِ اہلِ بیت بہترین عبادت ہے(المحاسنج ۱ص ۲۴۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

لا تستصغروامودَتنا، فانّها من الباقیات الصّالحات

ہماری محبت کو معمولی نہ سمجھنا، یہ باقیاتِ صالحات میں سے ہے

(مناقبِ ابن شہر آشوبج۴ص ۲۱۵)

۳۴

پس جب محبتِ اہلِ بیت ؑ کو اس قدر فضیلت حاصل ہے، تو ہمیں چاہئے کہ اپنے دل کو ان کی محبت سے بھر لیں اور ان سے عشق اور عقیدت کا اظہار کریںکیونکہ یہ محبت اور عشق کرنے کے لئے لائق ترین افراد ہیں اگرہم دل کو ایک ظرف سمجھیں تو اس ظرف کی قدر و قیمت اس محبت سے وابستہ ہے جو اس کے اندر موجود ہےانسان کی قیمت اس عشق سے ہے جو اس کے دل میں بسا ہوجس قدر و ہ معشوق اور محبوب گراں قیمت اوربیش بہا ہو گا اتنا ہی انسان بھی قیمتی اور گراں قدر ہو گا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: اے لوگو! ہمیشہ میرے گھرانے سے محبت رکھو اور اس سے جدا نہ ہوجو کوئی خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس (کے دل) میں ہماری محبت ہو، تو ایسا شخص ہماری شفاعت کے ذریعے جنت میں داخل ہو گا(بحارالانوارج ۲۷ص ۱۹۳)

6:- اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا

انسان عموماً اس شخص یا ہستی کو پسند کرتا ہے اوراس سے محبت رکھتا ہے جو اس کی مشکلات حل کرے اور اسے فائدہ پہنچائےلوگوں کے باہمی تعلقات میں یہ مسئلہ انتہائی واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے۔

ہماری مسلسل زندگی جو آخرت تک جاری رہے گی اس میں ہم کہاں پھنستے ہیں اور کہاں کہاں ہمیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے؟

موت کے وقت، برزخ میں، قیامت کے دن اورپلِ صراط عبور کرتے ہوئے ہمیں شدت کے ساتھ کسی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس وقت ہم مشکل کا شکار ہوتے ہیں، ہمیں ایسے مواقع پر محبتِ اہلِ بیت ؑ کے کارآمد ہونے سے واقف ہونا چاہئےاس بارے میں بھی بہت زیادہ احادیث موجود ہیں، ان ہی میں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند مشہور احادیث درجِ ذیل ہیں:

۳۵

حُبّی وحُبُّ اهلِ بیتی نافعٌ فی سَبعةِ مَواطِنَ اَهوالُهُنَّ عظیمةٌ:

عندَ الوفاةِوفی القبر وعندَ النُّشورِ، وعندَ الکتابِ وعندَ الحسابِ وعندَ المیزانِ و عندالصِّراط

میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت سات مقامات پر فائدہ پہنچاتی ہے، وہ سات مقامات جن کی ہولناکی اور ہراس عظیم ہےموت کے وقت، قبر میں، قبر سے اٹھائے جانے کے موقع پر، نامہ اعمال سپرد کرتے وقت، اعمال کے حساب اور جائزے کے وقت، اعمال کا وزن کرتے وقت اور صراط عبور کرتے ہوئے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۳۷)

سَأل رَجُلٌ رسولَ اﷲِ عَنِ السّاعة، فقال: مااَعْدَدْتَ لها؟ قال: مااعدَدْتُ لها کبیراً، اِلّا انّی اُحِبُّ اﷲَ ورسولَهقال: فَاَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ (المرءُ مَعَ مَن اَحَبّ) قال انسٌ: فمارأیتُ المسلمینَ فَرِحُوابعدَ الأسلام بِشی ءٍ اَشَدَّ مِن فَرَحِهِم بِهذا

ایک شخص نے رسول اﷲ سے سوال کیا کہ قیامت کیا ہے اور کس طرح واقع ہو گی؟ آنحضرت نے اس سے پوچھا: تم نے قیامت کے لئے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی خاص اہم چیز تیار نہیں کی ہے، سوائے یہ کہ خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں آنحضرت نے فرمایا: تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو (انسان اس ہستی کے ساتھ محشور ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے)

انس کہتے ہیں :میں نے نہیں دیکھا کہ مسلمان اسلام کے بعد اس کلام سے زیادہ کسی اور کلام سے خوش ہوئے ہوں

(بحارالانوارج ۱۷ص ۱۳، میزان الحکمۃج ۲ص ۲۴۲)

۳۶

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَن اَحَبَّنا کانَ مَعَنا یومَ القیامة، ولواَنَّ رَجُلا اَحَبَّ حَجَراً لَحَشَرَهُ اﷲُ مَعَهُ

جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، وہ روزِ قیامت ہمارے ساتھ ہو گااگر کوئی ایک پتھر سے (بھی) محبت کرتا ہو گا، تو خداوند عالم اسے اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا(بحارالانوارج ۳۷ص ۳۳۵)

اہلِ بیت ؑ سے محبت و عقیدت رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ ایک عظیم خوشخبری ہے کہ وہ آخرت میں بھی اہلِ بیت ؑ کے ساتھ محشور ہوں گے۔

جب محبت اس حد تک مفید اور کارآمد ہے تو آخر کیوں ہم اس دولت سے محروم رہیں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

موت کے وقت جب تمہاری جان گلے میں پہنچتی ہے، اس وقت تمہیں ہماری محبت کی زیادہ ضرورت ہو گیاگر تمہارے دل میں ہماری محبت ہوئی توخوشخبری دینے والا فرشتہ آئے گا اور کہے گا کہ بالکل خوف نہ کھاؤ، تم امان میں ہو۔

(بحارالانوارج ۶ص ۱۸۷)

روایات میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کے بہت سارے آثار کا ذکر ہوا ہےخاص کر آخرت کے مرحلے میں یہ آثار و منافع درج ذیل عنوانات کے تحت جمع کئے جا سکتے ہیں:(۱)

--------------

1:- یہ آثار وعناوین محمد محمدی ری شہری کی کتاب ”اھل البیت فی الکتاب والسنۃ“ سے ماخوذ ہیں۔

۳۷

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

حبّنا اهل البیت یکفرالذنوب ویُضاعف الحسنات

محبتِ اہلِ بیت گناہوں کے جھڑ جانے اور نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے۔

(ارشاد القلوبص ۲۵۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لا یحبّناعبدًحتی یطهَر اﷲُ قلبَه

جس کسی نے ہم سے محبت کی خدا نے اس کے دل کو پاک و پاکیزہ کیا ہے(دعائم الاسلامج۱ص ۷۳)

آپ ؑ ہی نے فرمایا ہے:

من احبّنااهل البیت وحقّق حبَنا فی قلبه جَرَتْ ینابیع الحکمة علی لسانه

جس کسی نے ہم اہلِ بیت سے محبت کی اور اس محبت کو اپنے دل میں رچا بسالیا، اسکی زبان سے حکمت و دانائی کے چشمے جاری ہو کے رہیں گے(المحاسنج ۱ص ۱۳۴)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

حبّ اهل بیتی وذرّیتی استکمالُ الدّین

میرے اہلِ بیت اور عترت سے محبت کمالِ دین (کی باعث) ہے۔

(امالئ صدوقص ۱۶۱)

۳۸

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

شفاعتی لأ متی مَن احبّ اهلَ بیتی وهم شیعتی

میری شفاعت میری اُمت کے اُن افراد کے لئے ہے جو میرے اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں، اور یہی میرے شیعہ ہیں(تاریخ بغدادج ۲ص ۱۴۶)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فرمان ہے:

اکثرکم نوراً یومَ القیامة اکثرکم حُبّأ لاَل محمّد

روزِ قیامت ان ہی لوگوں کا نور زیادہ ہوگا جو آلِ محمد سے زیادہ محبت کرتے ہوں گے(بشارۃ المصطفیٰ ص ۱۰۰)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:

من احبّنا اهل البیت حشره اﷲ تعالیٰ اَمنأیومَ القیٰمة

جو ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے، روزِ قیامت خداوند عالم اسے (اس دن کے خوف سے) امان کے ساتھ محشور کرے گا(عیون اخبار الرضاج ۲ص ۲۲۰)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:

اَثْبَتُکم قَدَمَاً عَلی الصّراط اشدّ کم حُبّاًلأ هل بیتی

پلِ صراط پر تم میں زیادہ ثابت قدم وہی ہوگا جو میرے اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرتا ہے(فضائل الشیعہص ۴۸)

۳۹

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

واﷲ لا یموتُ عبدیحبّ اﷲ ورسولَه و یتولّی الأئمة (ع) فَتمسَّهُ النار

خدا کی قسم! جو بھی خدا اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور ائمہ کی پیروی کرتا ہے اُسے آتش جہنم نہیں چھو سکتی(رجالِ نجاشیج۱ص ۱۳۸)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

مَن احبّنا اهل البیت فی اﷲ حُشرمعناواَدْخَلْنٰاهُ مَعَناالجَنّة

جو خدا کی خاطر ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ محشور کیا جائے گا اور ہم اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے(کفایۃ الاثرص ۲۹۶)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اعلیٰ درجات الجنَة لِمَنْ اَحَبّنابِقلبه ونَصرنابلسانه ویَده

جنت کے اعلیٰ درجات اُسکے لئے ہیں جو ہم سے دلی محبت کرتا ہے اور اپنی زبان اور عمل سے ہماری مدد کرتا ہے(المحاسنج ۱ص ۲۵۱)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94