بہترین عشق

بہترین عشق60%

بہترین عشق مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 94

بہترین عشق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 94 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43016 / ڈاؤنلوڈ: 5329
سائز سائز سائز
بہترین عشق

بہترین عشق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بہترین عشق

تالیف : حجت الاسلام جواد محدثی

ترجمہ: سید سعید حیدر زیدی

۱

پیش گفتار

بسم الله الرحمن الرحیم

تجربہ گواہ ہے اور تاریخ بھی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ وہ لوگ جو دینی ومذہبی رسوم وآداب سے جذباتی اور قلبی تعلق رکھتے ہیں، جو اہلِ بیتِ اطہار ؑ سے محبت و عقیدت کے جذبات کے مالک ہیں اور جو مذہبی احکام اور دینی شعائر کے پابند ہیں، وہ (دوسروں کی نسبت) بہت کم گمراہی، گناہ اور اخلاقی خرابیوں میں مبتلا ہوتے ہیں یا بہت دیر میں خرابیوں اور برائیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

اہلِ بیتِ رسول ؑ اور معصومین ؑ کے لئے پاک اور مقدس جذبات، دینداری کی راہ میں زیادہ سے زیادہ ثابت قدمی کا سبب اور اہلِ بیت ؑ سے عشق و محبت لوگوں کو بڑی حد تک گناہ اور گمراہی سے دور رکھنے کا ضامن ہےبشرطیکہ یہ محبت اور دوستی گہری ہو، اسکی جڑیں مضبوط ہوں، بصیرت و معرفت کی بنیاد پر ہو اور درست رہنمائی کے ذریعے انسان کو عمل پر آمادہ کرتی ہو۔

دوسری طرف اگرجوانوں اور نوجوانوں میں عقیدے کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں اور اُن کی صحیح دینی تربیت نہ ہوئی ہو، تومعاشرے کا یہ طبقہ گناہ اور اجتماعی و اخلاقی گمراہیوں کی لہروں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

اسلام اور اسلامی انقلاب کے دشمنوں نے بھی ”ثقافتی یلغار“ کے منصوبے بنائے اوراُن کے لئے خطیر رقوم مختص کی ہیں اور وہ نوجوانوں کو اسلام کی مقدس تحریک اور انقلاب سے دور کرنے کی خاطر خود ہمارے ملک سمیت عالمی سطح پر بھرپور وسائل اور ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔

۲

آج جو لوگ دینی ثقافت اور ہماری اخلاقی وانقلابی اقدارکے خلاف دشمن کی منظم کوششوں کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں، یہ ان لوگوں کی بے خبری، غفلت اور سادگی کی علامت ہےجوانوں کے سامنے نا مناسب آئیڈیلز پیش کرنا، انہیں بازاری اورگھٹیا عشق ومحبت کی وادی میں دھکیلنا اور اس روحانی ضرورت اور خلا کی گناہ آلود انحرافی تسکین اسلام دشمن طاقتوں کے ہتھکنڈوں اور پروگراموں کا حصہ ہے۔

لہٰذا ہمیں اپنے پیارے بچوں اور جوانوں کو ان لغزشوں اور سازشوں سے بچانے کی خاطر ان کے بچپنے اور نوجوانی کی عمر ہی سے ان کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور انہیں فکری، روحانی اور جذباتی غذا فراہم کرنے اور قرآن و عترت کی بنیاد پر صراطِ مستقیم کی جانب ان کی رہنمائی کے لئے منظم اور جچی تلی کوششوں کی ضرورت ہے۔

بچوں اور نوجوانوں کے دل میں اہلِ بیت ؑ کی محبت پیدا کرنا اور اس پاک اور مثالی گھرانے سے ان کی فکر، جذبات اور محبت کو وابستہ کرنامذکورہ منصوبوں اور طریقوں کا ایک حصہ ہونا چاہئےوہ لوگ جو کسی سے اظہارِ محبت، کسی کو دل دینے، کسی کو محبوب بنانے کے خواہشمند ہیں اُن کے لئے اہلِ بیتِ رسول ؑ بہترین اور افضل ترین محبوب ہو ں گے اور اس خاندان سے عشق قیمتی ترین اور دیرپا ترین عشقوں میں سے ہےصاحبِ دل شاعر سعدی شیرازی کے بقول:

سعدی، اگر عاشقی کنی و جوانی

عشقِ محمدؐ بس است و آلِ محمدؑ

۳

اب سوال یہ ابھرتاہے کہ وہ کونسے طریقے ہیں جن کے ذریعے آج کی نسل کو اہلِ بیت ؑ کا محب اور ان کا چاہنے والا بنایا جا سکتا ہے اور ان کی روح میں اس مقدس اور برتر عشق کا بیج بویا جا سکتا ہے؟

والدین، اساتذہ، مصنفین، فنکار، فلم و ٹیلی ویژن کے اربابِ اختیار، ثقافتی ادارے، تبلیغی اور تربیتی مراکز کے پالیسی ساز حضرات، الغرض وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت کی تعمیر میں موثر اور حصہ دار ہیں، وہ محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنے کے طریقوں اور راستوں کو تلاش کرنے کے سلسلے میں بھی اور معاصر نسل کی فکروقلب میں دین کی نشو ونماکے سلسلے میں بھی ذمے دار ہیں۔

راقم الحروف نے بغیرکسی بلند بانگ دعوے کے ایک انتہائی چھوٹے اور ابتدائی قدم کے طور پر یہ مختصر کتابچہ ترتیب دیا ہے اور اس بارے میں کچھ نکات پیش کئے ہیں امیدہے اس موضوع پرصاحبِ نظر حضرات کی توجہ و کوشش اور زیادہ علمی و حقیقی طریقوں کے ذریعے بہت کچھ کام کیا جائے گا اور اہلِ مطالعہ اور محققین کے لئے استفادے کا باعث ہو گا۔

جواد محدثی

حوزہ علمیہ قم

۴

دین میں محبت کا مقام

اگرچہ طاقت اور قوت سے کام لے کر ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے محبت اور عشق سے استفادہ اور دل میں جاذبہ اور کشش پیدا کرنا ایک زیادہ موثر عامل ہے، جو زیادہ دیر پا محرکات پیدا کرتا ہےروایات میں بھی آیا ہے کہ:الحُبُّ افضَلُ مِنَ الخوف (محبت خوف سے بہتر ہےبحار الانوارج ۷۵ص ۲۲۶) 

اہلِ بیت ؑ سے ہمارے تعلق کی بنیاد کیا ہے اور اس تعلق کو کس بنیاد پر قائم ہونا چاہئے؟

کیا یہ حاکم ومحکوم اور حکمراں ور عیت کا سا تعلق ہے؟

یا استاد اور شاگرد کے درمیان قائم تعلیم و تعلم کے تعلق کی مانند ہے؟

یا یہ تعلق محبت و مودت اور قلبی اور باطنی رشتہ ہے؟ جو کارآمد بھی ہوتا ہے، دیرپا بھی اور گہرا بھی۔

قرآنِ کریم اس تعلق کی تاکید کرتا ہے اور مودتِ اہلِ بیت ؑ کو اجرِ رسالت قرار دیتا ہے:

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغِ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کروسورہ شوریٰ ۴۲آیت ۲۳

۵

متعدد روایات میں ”مودۃ فی القربیٰ“ کی تفسیر کرتے ہوئے اسے اہلِ بیت ؑ اور خاندانِ رسول ؑ سے محبت و الفت قرار دیا گیا ہےافضل ترین محبت بھی وہی محبت ہے جس کی تاکید خداوند عالم کرتا ہے اور جو لوگ یہ محبت رکھتے ہیں اُنہیں بھی محبوب رکھتا ہے۔

 روایات میں مودت اور ولایت کو خدا کی طرف سے عائد کیا جانے والا ایک فریضہ اور اعمال و عبادات کی قبولیت کا پیمانہ قرار دیا گیا ہے(۱) اپنی احادیث کی رو سے اہلِ سنت بھی اس نکتے کو قبول کرتے ہیں امام شافعی کاشعر ہے کہ:

یا اهلَ بیتِ رسولِ اﷲ حُبُّکُمُ

فرضٌ من اﷲ فی القرآنِ اَنزَلهُ

کَفاکُمُ مِن عظیم القدراَنّکُمُ

مَن لم یُصَلِّ علیکمْ لاصَلاة له

اے خاندانِ رسول اﷲ! آپ کی محبت وہ الٰہی فریضہ ہے جس کا ذکر اس نے قرآن میں کیا ہےآپ کے عظیم افتخار کے لئے یہی کافی ہے کہ جو بھی (نماز میں) آپ پر درود نہ بھیجے اسکی نماز درست نہیں(الغدیرج ۲ص ۳۰۳)

--------------

۱:-پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے:لوانّ عبداًجاء یوم القیامةِبعمل سبعینَ نبیّاً ما قَبِلَ اﷲ ذلک منه حتی یلقاهُ بولا یتی وولایةِ اهل بیتی (کشف الغمہ ج ۲ص ۱۰)

۶

کیونکہ اس باطنی تعلق کے نتیجے میں محبانِ اہلِ بیت ؑ گمراہیوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اوریہ دین کے اصل اور خالص سر چشمے کی جانب امت کی رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے، اسلئے رسولِ کریم ؐنے فرمایا ہے کہ لوگوں میں اہلِ بیت ؑ کی محبت کو فروغ دو اور اس محبت کی بنیاد پر ان کی تربیت کرو:

اَدِّبُوااَولادَکُمْ عَلیٰ حُبّی وَحبِّ اهل بیتی وَالقرآنِ

اپنے بچوں کی تربیت میری، میرے خاندان کی اور قرآن کی محبت پر کرو(احقاق الحق ج ۱۸ص ۴۹۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے:

رَحِمَ اﷲُ عبداً حبَّبَنا اِلَی النّاس وَلَم یُبَغَّضْنااِلَیهم

خدا اس شخص پر رحمت کرے جولوگوں میں ہمیں محبوب بنائے، ان کی نظر میں ہمیں مبغوض اورمنفور نہ بنائے(بحار الانوارج ۷۵ص ۳۴۸)

نیز آپ ؑ ہی نے شیعوں پر زور دیا ہے کہ:

اَحِبّونااِلیَ النّاس وَلا تُبَغِّضونااِلَیهِم، جُرُّوااِلَیْنا کُلَّ مَوَدَّةٍ وَادفَعُواعنّا کُلَّ قبیحٍ

لوگوں کی نظر میں ہمیں محبوب بناؤ، ان کی نظر میں ہمیں منفور (قابلِ نفرت) نہ بناؤہر مودت اور الفت کو ہماری طرف کھینچو اور ہر برائی کو ہم سے دور کرو(بشارۃ المصطفیٰ ص ۲۲۲)

۷

جس قدر محبت اور قلبی تعلق زیادہ ہو گا اتنی ہی پیروی، ہم آہنگی، ہمراہی اور ہمدلی زیادہ ہو جائے گی ہمفکری، ہمراہی اور یکجہتی کے سلسلے میں عشق اور محبت عظیم اثرات مرتب کرتے ہیںلوگ جن ہستیوں سے محبت کرتے ہیں اُنہی کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔

اپنے قائد و رہنماسے جذباتی عقیدت سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں اسکی اطاعت پر اثر انداز ہوتی ہے اور صرف رسماً اور تنظیمی ضوابط کی پابندی کے لئے ہی نہیں بلکہ عشق وعقیدت کی بنیاد پر پیروی کا باعث بنتی ہے۔

لہٰذا اہلِ بیت ؑ کے ساتھ شیعہ کا تعلق دینی مصادر (قرآن و حدیث) کی بنیاد پر صرف اعتقادی پہلوکا حامل ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ جذباتی، معنوی اور احساسی بھی ہونا چاہئےہمیں چاہئے کہ فکر وشعور کوجذبات واحساسات کے ساتھ مخلوط کریں اور عقل اورعشق کو ایک دوسرے سے جوڑ دیںبالکل اسی طرح جیسے دورانِ تعلیم ہوتا ہے کہ اگر استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق علمی سے زیادہ جذباتی اور محبت و مودت کی بنیاد پر قائم ہو، توشاگرد شوق کے ساتھ علم حاصل کرتا ہے۔

ائمہ ؑ کے ساتھ محبت کے تعلق میں بھی دراصل ہونا یہ چاہئے کہ دل پر اُن کی حکمرانی ہواس صورت میں معرفت، عشق اور اطاعت کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہو جاتا ہےمعرفت، محبت پیدا کرتی ہے اور محبت ولایت واتباع کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ان تین عناصر اور انسان کی سعادت و کامیابی میں ان کے کردار کی جانب اشارہ کیا گیا ہے:

مَعْرِفَةُ آلِ محمّدٍ بَراءَةٌ مِنَ النّاروَحُبُّ آلِ محمّدٍ جَوازٌ عَلَی الصِّراطِ وَالولایةُ لآل محمّدٍ امانٌ من العذاب

آلِ محمد کی معرفت دوزخ سے برائت اور نجات کا پروانہ ہےآلِ محمد کی محبت پلِ صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ (passport) ہے اور آلِ محمد کی ولایت عذاب سے امان ہے(ینابیع المودۃج ۱ص ۸۷)

اس رابطے کی تصویر کشی اس طرح کی جا سکتی ہے کہ:

معرفت  >  محبت  >  اطاعت

۸

امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ:

الحُبُّ فرعُ المَعرفة

محبت معرفت کی شاخ ہے(بحار الانوارج ۶۸ص ۲۲)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مطالعے سے بھی پتاچلتا ہے کہ جو کوئی معرفت اور شناخت کی بنیاد پر آپ کی رفاقت اور صحبت اختیار کرتا تھا اُس کے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو جاتی تھی(بحار الانوارج ۱۶ص ۱۹۰) یہ بات محبت ایجاد کرنے کے سلسلے میں معرفت کے اثر کی نشاندہی کرتی ہے۔

عشق و محبت پیدا کرنے کے لئے سادہ مراحل سے آغاز کرنا چاہئے اور بعد کے مراحل میں مزید بصیرت اور زیادہ معرفت کے ذریعے اسے گہرا کرنا چاہئےیہاں تک کہ

”حب“ انسانی سرشت کا حصہ بن جائے اور ”محبتِ اہلِ بیت“ ایک مسلمان اور شیعہ کے دین کا جزہو جائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

هل الدّینُ الاّ الحُبّ

کیا دین محبت کے سوا کچھ اور ہے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۱۵)

امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلدّینُ هوالحُبُّ وَالحُبُّ هُوالدّین

دین ہی محبت ہے اور محبت ہی دین ہے(بحارالانوارج ۶۶ص ۲۳۸)

واضح ہے کہ سچی محبت عمل اور پیروی کا باعث بنتی ہے اور نافرمانی اورمخالفت سے باز رکھتی ہے(۱)

--------------

۱:- اس بارے میں مزید جاننے کے لئے بحارالانوارکی جلد ۶۶  میں صفحہ نمبر ۲۳۶ تا ۲۵۳پر ”راہِ خدا میں حب اور بغض“ سے متعلق احادیث کا مطالعہ کیجئے۔

۹

یہ محبت پیدا کرنے کے لئے لوگوں کی نفسیاتی حالت اور قلبی آمادگی کوپیش نظر رکھنا چاہئےکیونکہ محبتِ اہلِ بیت ؑ غیر مستعد (نالائق) اور غیر آمادہ دلوں میں جگہ نہیں بناتیجیسے سخت چکنے پتھر پر پانی نہیں ٹھہرتا اور پتھریلی زمین قابلِ کاشت نہیں ہوتی۔

اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں

متعدد روایات میں مودتِ اہلِ بیت ؑ کے علاوہ، ہم پر عائد ہونے والے اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور خاندانِ پیغمبر ؑ کے مقابل ہماری ذمے داریوں کو بھی بیان کیا گیا ہےاہلِ بیت ؑ کی ولایت، محبت، مودت اور نصرت کے بارے میں احادیث کے کئی ابواب موجود ہیں ان حقوق اور ذمے داریوں کی فہرست کچھ یوں ہے:

۱:- مودت و محبت

زیارتِ جامعہ میں ہے کہ:

بِمُوالاتِکم تُقْبَلُ الطّاعةُ المُفتَرضة ولکم المودّةُ الواجبة

آپ کی ولایت کے سبب سے (بارگاہِ الٰہی میں) واجب اطاعتیں قبول ہوتی ہیں اورآپ کی مودت واجب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک مفصل حدیث میں سلمانؓ، ابوذرؓ اور مقدادؓ کو خطاب کر کے یہ بھی فرمایا ہے کہ :

اِنَّ مودّة اهلِ بیتی مفروضَةٌ واجِبَةٌ عَلیٰ کُلِّ مؤمِنٍ ومؤ منةٍ

میرے اہلِ بیت کی مودت ہر با ایمان مرد اور عورت پرفرض اور واجب ہے(بحار الانوارج ۲۲ص ۳۱۵)

۱۰

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

علیکم بِحُبِّ آلِ نبیّکم فانّه حقّ اﷲ علیکم

تمہیں چاہئے کہ اپنے نبی کی آل سے محبت کرو، کیونکہ یہ تم پر عائد ہونے والا خدا کا حق ہے(غرر الحکم حدیث ۶۱۶۹)

۲:- ان سے وابستہ رہنا

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

مَن تَمسّکَ بِعِترتی مِن بَعدی کان من الفائزین

جو کوئی میرے بعد میرے اہلِ بیت سے وابستگی اختیار کرے گا وہ کامیاب لوگوں میں سے ہو گا(اهل البیت فی الکتاب والسنةص ۳۶۹)

۳:- ان کی ولایت و رہبری قبول کرنا

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لنا عَلَی الناسِ حَقُ الطّاعۃ والوِلایۃ۔

لوگوں پر ہماری اطاعت و ولایت کا حق عائد ہوتا ہے(غرر الحکم)

۱۱

۴:- انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

اهلُ بَیتی نُجومٌلِأ هلِ الارضِ، فلا تَتَقَدَّمُوهم وَقَدِّموهم فَهُمُ الوُلاةُبعدی

میرے اہلِ بیت اہلِ زمین کے لئے ستارے ہیںپس ان سے آگے نہ بڑھنا بلکہ انہیں آگے رکھنا کہ یہ میرے بعد والی ہیں  (احتجاج طبرسی ج ۱ص ۱۹۸)

۵:- دینی و دنیاوی امور میں ان کی اقتدا

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:

اَهلُ بیتی یُفرِّقون بین الحقِّ والباطلِ وَهُمُ الائمةُ الّذینَ یُقتدیٰ بهم

میرے اہلِ بیت حق اور باطل کو جدا کرتے ہیں اور وہ ایسے پیشوا ہیں جن کی اقتدا کی جانی چاہئے(احتجاج طبرسی ج ۱ص ۱۹۷)

۶:- ان کی تکریم و احترام

ایّها الناس!عَظِّموااهلَ بیتی فی حیاتی ومِنْ بعدی وَ اَکرِمُوهم وفَضِّلُوهم

اے لوگو! میرےاہلِ بیت کی تعظیم کرو، میری زندگی میں بھی اورمیرے بعد بھیاُن کااحترام و تکریم کرو اور انہیں دوسروں پر فوقیت دو  (احقاق الحق۔ ج۵۔ ص۴۲)

۱۲

۷:- اپنے اموال اورآمد نیات میں سے خمس ادا کرو

سورہ انفال کی آیت ۴۱ میں خمس کو خدا، رسول اور ذوی القربیٰ کے لئے قراردیا گیا ہے۔

۸:- ان سے اوران کی ذرّیت سے حسن سلوک اوران سے وابستہ رہنا

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ لَمْ یَقدِرْ عَلیٰ صِلَتِنا فَلْیَصِل صالِحی مَوالینا یُکْتَبْ له ثوابُ صِلَتِنا

جو کوئی ہمارے ساتھ نیکی پر قادر نہ ہو، اُسے چاہئے کہ ہمارے دیندار محبوں سے نیکی کرے، تاکہ اسکے لئے ہم سے تعلق اور ہمارے ساتھ نیکی کا ثواب لکھا جائے(ثواب الاعمال ص ۱۲۴)

۹:- ان پر درود و سلام بھیجنا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ صَلّیٰ صَلوةً لَمْ یُصَلِّ فیها عَلَیَّ وَلا عَلیٰ اهلِ بیتی لَمْ یُقْبَلْ مِنه

جو کوئی نماز پڑھے اور اُس میں مجھ پراور میرے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجے، تو ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کی جائے گی(احقاق الحق ج ۱۸ص ۳۱۰)

۱۳

۱۰:- ان کا اور ان کے فضائل کا تذکرہ کرنا

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

خیرُالناس مِن بعدِنا مَن ذاکراَمرَناودعاالی ذِکرِنا

ہمارے بعد لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو ہمارے کام اور ہماری تعلیمات کا ذکر کرے اور لوگوں کو ہمارے ذکر کی دعوت دے  (امالئ طوسیص ۲۲۹)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے :

اِنّ ذِکرَنا مِنْ ذِکراﷲوذِکرُعدوّنامِن ذِکر الشیطان

ہمارا ذکر خدا کا ذکر ہے اور ہمارے دشمن کا ذکر شیطان کا ذکر ہے  (کافی ج  ۲ص ۴۹۶)

۱۱:- ان کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کرنا

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجالسِ عزائے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں فرمایا ہے:

اِنَّ تِلکَ المَجالسَ اُحِبُّهافَاَحْیُوااَمرَنا، اِنّه مَن ذَکَرَنا اوذُکِرْنا عِندَه فَخَرجَ مِن عَینَیهِ مثلُ جَناحِ الذّبابِ غَفراﷲ له ذُنوبَه

ہم اِن مجالس کو پسند کرتے ہیںپس ہمارے امر اور ہماری فکر کو زندہ رکھوبے شک جو کوئی ہمارا ذکر کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھ سے پرِ مگس کے برابر بھی آنسون کل آئے، تو ایسے شخص کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں(ثواب الاعمال ص ۲۲۳)

۱۴

۱۲:- ان کی قبور مطہر کی زیارت کو جانا

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنَّ لِکُلٍ اِمامٍ عهداً فی عُنُقِ اولیا وشیعتِهِ، وانّ مِن تمامِ الوفاءِ بالعهدِ زیارةُ قبورهم

ہر امام کی طرف سے اس کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے ذمے ایک عہد و پیمان ہے اور اس عہد و پیمان سے مکمل وفاداری کی علامت قبورِائمہ کی زیارت ہے(من لا یحضر الفقیہ ج ۲ص ۵۷۷)

قبورِ ائمہ ؑ کی زیارت اس قدر زیادہ اجتماعی اور تربیتی اثرات کی حامل ہے کہ اسے حج اور خانہ خدا کی زیارت کے کمال کی علامت شمار کیا گیا ہےبکثرت احادیث میں اہلِ بیت ؑ اور ائمہ معصومین ؑ کی حیات اور ان کی وفات کے بعد بھی اُن کی زیارت کی تاکید کی گئی ہے(۱) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے: لوگوں کو اِن پتھروں (خانہ کعبہ) کی طرف آنے، ان کا طواف کرنے، اس کے بعد ہمارے پاس آنے، ہم سے اپنی ولایت اور وابستگی کی اطلاع دینے اور ہمارے لئے اپنی نصرت کے اعلان کا حکم دیا گیا ہے(وسائل الشیعہج ۱۰میزان الحکمۃج ۴وغیرہ)حج کایہ اجتماعی اور سیاسی پہلو، ائمہ حق کی نصرت اوراُن سے محبت کے تعلق کی نشاندہی کرتا ہےزیارت کا وہ عظیم ثواب جس کا ذکر روایات میں کیا گیا ہے، بالخصوص کربلااور خراسان کی زیارت، زیارتِ اربعین و عاشورا اور دور و نزدیک سے زیارت، وہ اس مسئلے کی اہمیت کی علامت ہےقبورِ ائمہ ؑ کی زیارت، ائمہ ؑ کے حوالے سے ہماری ذمےداری ہونے کے ساتھ ساتھ، ہمارے دلوں میں اُن کی محبت پیدا ہونے کا باعث بھی بنتی ہے(اس بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے)رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے:

الزّیارةُ تُنْبِتُ المَوَدَّةَ

زیارت و دیدار، مودت اور دوستی پیدا کرتا ہے  (بحارالانوارج ۷۱ص ۳۵۵)

--------------

۱:- زیارت سے متعلق روایات کے لئے اِن کتب سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہےبحار الانوارج ۹۷ تا ۹۹، من لا یحضر الفقیہ ج ۲، کامل الزیارات، عیون اخبار الرضا۔

۱۵

محبت پیدا کرنے کے طریقے

۱:-بچپنے سے پہلے کا دور

۲:-آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق

۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ

۴:-شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا

۵:-حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا

۶:-اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا

۷:-محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا

۸:-تعظیم و تکریم اور تعریف

۹:-مراسم کا انعقاد اور شعائر کی تعظیم

۱۰:-طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ

۱۱:-ولئ نعمت کا تعارف

۱۲:-اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر

۱۳:-اپنی روزمرہ کی خوشیوں کو حیاتِ ائمہؑ سے منسلک کرنا

۱۴:-محبت کم کرنے والی چیزوں سے پرہیز

۱۵:-روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا

۱۶:-کتابوں کا تعارف اور مقالات و اشعارتحریر کرنا

۱۷:-محبانِ اہلِ بیت ؑ کے قصے

۱۸:- انجمن سازی

۱۶

۱:- بچپنے سے پہلے کا دور

و ہ عوامل جو ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل میں موثر ہوتے ہیں، اُن کا آغاز اسکول میں اس کے داخل ہونے اورمعاشرے میں اس کے قدم رکھنے سے بہت پہلے ہو چکا ہوتا ہےان عوامل کا تعلق بچے کی خوراک، ماں کے دودھ، والدین کی شخصیت، ایامِ حمل کے حالات اور نطفے کے قرار پانے وغیرہ جیسے مسائل سے ہوتا ہےہاں، اس سلسلے میں وراثت کا پہلو بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔

اہلِ دانش، سنجیدہ اورمہذب انسان ایک پاک، شریف، با ایمان، صالح اورکامیاب نسل وجود میں لانے کی خاطرمذکورہ نکات اور باریکیوں کوبھی پیش نظر رکھتے ہیں۔

ہم بہت سے بزرگانِ دین اور شہدائے اسلام کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں، یاہم ان کے متعلق سنتے ہیں کہ ان کی مائیں انہیں با وضو ہو کر دودھ پلاتی تھیںجن دنوں یہ افراد اپنی ماؤں کے شکم میں ہوتے تھے، یا وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں، اُن دنوں میں وہ اپنے روحانی حالات، غذاؤں، تقریبات میں شرکت اور مطالعے کے لئے کتب کے انتخاب کی جانب خاص دھیان رکھتی تھیںاس دوران ماؤں کا یہ احتیاط اور دھیان بچوں کی شخصیت اور ان کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ایامِ حمل اور دودھ پلاتے وقت ماں کونسی آوازیں (ترانوں یا تلاوتِ قرآن، یا نوحوں اور قصیدوں کے کیسٹ) سنتی ہے، کونسی تصاویر اور فلمیں دیکھتی ہے، کیسی تقریبات میں شرکت کرتی ہے، کن لوگوں سے میل جول رکھتی ہے، یہ سب باتیں بچے کی روحانی اور معنوی شخصیت کی تشکیل پراثر انداز ہوتی ہیںبعض مائیں امام حسین علیہ السلام کے دسترخوان، مجالس کے حصوں اور نذر و نیازمیں دیئے گئے کھانو ں کو تبرک کی نیت سے استعمال کرتی ہیںیہ عقیدے اور ایمان بچے میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔

۱۷

خداوند عالم سے صالح فرزند کی دعا کرنا، ولادت کے وقت اس کے کان میں اذان و اقامت کہنا، اس کے لئے اچھانام منتخب کرنا، (اس بات کے پیش نظر کہ دایہ کا اخلاق بچے میں منتقل ہوتا ہے) اسے دودھ پلانے کے لئے پاک سیرت دایہ کا انتخاب کرنا، بچے کو دریائے فرات کاپانی اور خاکِ شفا چٹانا، اسے قرآنی آیات اور احادیثِ معصومین ؑ یاد کرانا، اسے نماز روزے کی تلقین کرنا اورایسے ہی دوسرے اسلامی آداب و رسوم کا خیال رکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ اموربچوں کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

میں نے خدا سے خوبصورت اور خوش قامت بچے طلب نہیں کئے، بلکہ میں نے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایسے فرزند عطا فرما جو خدا کے اطاعت گزار اور اس سے خوف کھانے والے ہوں تاکہ جب بھی میں انہیں اطاعتِ الٰہی میں مشغول دیکھوں تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے

(بحار الانوارج ۱۰۱ص ۹۸)

امام زین العابدینؑ نے بھی بچوں کے لئے اپنی مخصوص دعا میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ تردینی، روحانی اور اخلاقی خوبیاں اور تقویٰ، بصیرت، اطاعتِ الٰہی، اولیا اﷲ سے محبت اور دشمنانِ خدا سے دشمنی جیسی خصوصیات طلب کی ہیں۔

وَاجعلهم اَبراراً اَتْقیاءَ بُصَراءَ سامعینَ مُطیعینَ لک

وَلِاَ ولیا ئک مُحبّینَ مُناصِحینَ و لجمیعِ اَعْداءِ ک مُعٰاندینَ و مُبغِضینَ

اور انہیں نیکو کار، پرہیز گار، روشن دل، حق بات سننے والا، اپنا مطیع و فرمانبردار، اپنے دوستوں کا دوست اور خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن اوربد خواہ قرار دے(صحیفہ سجادیہدعا نمبر ۲۵)

۱۸

پس بچپنے کا زمانہ بچوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا اور اُس کے محبوب بندوں سے انس و الفت پیدا کرنے کا دور ہے اور اُن میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنا بھی اس دینی تربیت کا حصہ ہےہمارا مجالسِ عزائے حسین ؑ میں شرکت کرنا اور وہاں ابا عبداﷲ الحسین ؑ کے سوگ میں اشک بہانا، ائمہؑ اور اہلِ بیت ؑ کے اقوال و احادیث سننا، ہمارے اُن بچوں پر گہرے اثرات مرتب کرتاہے جو ہماری آغوش میں ہوتے ہیں یا شکمِ مادر میں پرورش پا رہے ہوتے ہیںمحبتِ اہلِ بیت ؑ کی جڑیں بچپنے اور شیر خوارگی کے زمانے ہی سے مضبوط ہونے لگتی ہیں اور جوانی اور بزرگسالی میں اس سے کلیاں، پھول اور پھل ظاہر ہونے لگتے ہیں اس نتیجے کا حصول بچوں کی شیر خوارگی اور نوزائیدگی کے زمانے ہی سے اس جانب والدین کی توجہ اوران کے طرزِ عمل سے تعلق رکھتا ہےلہٰذا ہمیں معاشرے میں قدم رکھنے والے اپنے بچوں اور جوانوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا کے محبوب بندوں سے محبت و الفت کی نشو ونماکی اہمیت اور ضرورت کی جانب متوجہ رہنا چاہئے۔

ہمارے پاس اپنے بچوں اور جوانوں کو محب آلِ محمد ؑ اور دوستدارِ اہلِ بیت ؑ بنا نے کے مختلف طریقے موجود ہیں ان میں سے کچھ طریقے ذہنی اور نظری (theoretical) پہلو کے حامل ہیںیعنی ایسے موضوعات پر گفتگو کرناجن کے نتیجے میں خاندانِ پیغمبر ؑ کی جانب کشش اور میلان پیدا ہواس حوالے سے نمایاں طریقوں میں ان ہستیوں کے فضائل و مناقب، بارگاہِ الٰہی میں ان کے بلند مقام، ان اولیائے الٰہی کی سیرت و سوانح کا بیان اور حتیٰ ان کی شکل وصورت اور ظاہری اوصاف کا تذکرہ شامل ہےانبیاؑ اور ائمہؑ سے منسوب تصاویر کے ذریعے بھی بعض لوگوں میں اُن سے محبت و عقیدت پیدا ہوتی ہے۔

دوسرا پہلو عملی طریقوں پر مشتمل ہےیعنی ایسے پروگراموں کا انعقاد اور مفید نکات پر توجہ جن کے نتیجے میں بچوں اور جوانوں کے دلوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا ہویہ کام والدین، اساتذہ، تربیتی امور کے ذمے دار علما و دانشور اور نسلِ جواں کے پسندیدہ افراد اچھے طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

اب ہم ان میں سے کچھ راستے اور طریقے پیش کرتے ہیں

۱۹

۲:- آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق

اہلِ بیت ؑ سے تعلق رکھنے والی اشیا اور علامات سے استفادہ ان سے محبت اور دوستی کے رشتے کو مضبوط کرتا ہے ”عاشورا“ اس گھرانے سے رشتہ عقیدت کی برقراری کا نمایاں ترین مظہر ہے ”شہادت“ اور ”تشنگی“ عاشورا کے دو اہم ترین مظہر ہیں ”آبِ فرات“ امام حسینؑ اور ان کے انصار واقربا کی تشنگی اور حضرت عباس ؑ کی وفا یاد دلاتا ہےجبکہ خاکِ شفا ”ثار اﷲ“ کے خون سے گندھی ہوئی مٹی ہےاوران دونوں میں عاشورا کی ثقافت اور حبِ اہلِ بیت ؑ پائی جاتی ہے۔

شیعہ تعلیمات میں جن مذہبی رسوم کو اہمیت دی گئی ہے، اُن میں سے ایک رسم ولادت کے موقع پربچے کو آبِ فرات اور خاکِ شفا چٹانا ہے۔

یہ عمل بچوں کی ولادت کے وقت ہی سے اہلِ بیتِ رسول ؑ اور عاشورا سے ان کا رشتہ جوڑنے کا باعث بنتا ہےاسی طرح یہ عمل یہ رشتہ جوڑنے اور یہ تعلق قائم کرنے کے لئے ان بچوں کے والدین کے لگاؤ کی علامت بھی ہےیہ آب اورخاک قدرتی طور پر بچے کی سرشت و طینت اور اسکی عادات و اطوار پر اثرمرتب کرتی ہےبہت سی احادیث کے مطابق، خداوند عالم نے حسین ابن علی ؑ کی قبرمطہر کی خاک میں شفا اور علاج کی خاصیت رکھی ہے (وسائل الشیعہج ۳ص ۴۱۱، بحار الانوارج ۹۸ص ۱۱۸) اس خاک اور اس پانی میں محبت ایجاد کرنے کا اثر بھی رکھا گیا ہے۔

پس اپنے بچوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ ایجاد کرنے کے عملی طریقوں میں سے ایک طریقہ اس رسم پر عمل کرنا ہےروایات میں بھی اسکی جانب متوجہ کیا گیا ہےامام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:

حَنّکوااولادَکم بماء الفراتِ

اپنے نومولود کا دَہَن آبِ فرات سے تر کرو  (بحار الانوارج ۹۷ص ۲۳۰)

۲۰

تشریح:

شیعہ اور سنی روایات کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی جہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی امامت اور جانشینی کا اعلان کیا۔

اس دن کی چار خاص باتیں یہ ہیں۔

1۔ کفار کی ناامیدی - 2۔ کمال دین-3۔ اتمام نعمت-4۔ خدا کی خوشنودی

(3) ولایت

اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللّٰهُ وَ رَسُولُه وَالَّذِیْنَ أَمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلوٰةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَهُمْ رٰاکِعُونَ-(مائده ٥٥)

ترجمہ:

تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔

تشریح:

ایک دن ایک فقیر نے مسجد نبوی میں داخل ہونے کے بعد لوگوں سے مدد مانگی مگر کسی نے اس کی کچھ مدد نہ کی ایسے میں حضرت علی (ع) نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی اُسے بخش دی اس وقت یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان کرم کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی۔

اس واقعہ کو ابن عباس، عمار یاسراور ابوذر جیسے دس صحابہ کرام نے نقل کیا ہے ، اور یہ آیت باتفاق مفسرین شیعہ و سنی حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

۲۱

(4) تکمیل رسالت

یَا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لم تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَه-(مائده ٦٧)

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادین جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا توگویااس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔

تشریح:

تمام شیعہ اور بعض سنی مفسرین اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی جانشینی سے متعلق ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام(ص) نے 18 ذی الحجہ سن دس ہجری کو حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر کیا۔

اہل سنت کی معتبر کتابوں ، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث''مَنْ کُنْتُ مِوْلاه' فهذا عَلِی مَولَاه' '' کو نقل کیا ہے۔

۲۲

(5) صادقین

فَقُلْ تَعٰالَوْا نَدْعُ أَبْنٰآء نَا وَ أَبْنٰآئَ کُمْْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآ ئَ کُم وَ أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُم-( آل عمران ٦١)

ترجمہ:

ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں۔

تشریح:

یہ آیت آیہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے۔

مباہلہ کے معنی دو مخالف گروہ کا خدا کے سامنے گڑگڑا کر ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہے نجران کے عیسائیوں نے اپنی طرف سے کچھ لوگوں کو بھیجا جبکہ پیغمبر اسلام اپنے ساتھ علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کے لے گئے، عیسائیوں کا گروہ ان ذوات مقدسہ کو دیکھتے ہی مباہلہ سے دستبردار ہو کر جزیہ دینے پر راضی ہوگیا۔

آیت میں ''انفسنا'' کے مصداق مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ہیں جو پیغمبر کی جان ہیں ۔مباہلہ کا واقعہ 25 ذی الحجہ کو پیش آیا۔

۲۳

(6) ایثار کا نمونہ

اِنَّمٰا نُطعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَلَا شُکُوْرًا-( دهر ٩)

ترجمہ:

ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ زہرا(س) نے حضرت امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی بیماری سے صحت یابی کے لیے تین دن روزے رکھنے کی نذر کی ان کے صحت یاب ہونے کے بعد نذر پورا کرنے کیلئے تین دن روزے رکھے پہلے دن افطار کے وقت اپنا کھانا فقیر، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے کر خود پانی سے افطار کرلیا، خداوند عالم نے سورہ دہر کو ان کی شان میں نازل کیا ہے اور 17 آیتوں میں ان کے بلند و بالا مقام کی مدح سرائی کی ہے۔

(7) برائی سے دوری

أَلَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوآ اِیْمٰانَهُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهتَدُونَ-( انعام ٨٢)

ترجمہ:

جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا انہی لوگوں کے لئے امن و امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

۲۴

تشریح:

حضرت امام محمد باقر (ع) سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک لمحے کے لیے بھی شرک نہیں برتا۔

(8) خوشنودی خدا

وَمِنَ النّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ رَئُ وفم بِالْعِبٰادِ-( بقره ٢٠٧)

ترجمہ:

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تشریح:

اہل سنت کے جید عالم دین ابن ابی الحدید (وفات سن 7 ھ ق ) کا کہنا کہ مفسرین عظام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں شب ہجرت اس وقت نازل ہوئی جب عرب کے قبائل پیغمبر اسلام کو قتل کرنے کی سازش کیے ہوئے تھے ایسے میں حضرت علی(ع) آنحضرت کے بستر پر لیٹ گئے تاکہ آپ(ص) آرام و اطمینان کے ساتھ مکہ سے نکل جائیں۔

۲۵

(9) انفاق

أَلَّذِیْنَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرَّاً وعَلَانِیَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ-(بقره ٢٧٤)

ترجمہ:

جو لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں رات میں، دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے، اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ آذردہ ہوں گے۔

تشریح:

تفسیر صافی ، تفسیر مجمع البیان، تفسیر قرطبی اور تفسیر فخر رازی میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درہم تھے، جن میں سے ایک دن میں ، ایک رات میں ایک خاموشی سے اور ایک علی الاعلان خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔

۲۶

(10) پیغمبر(ص) کے مددگار

هُوَ الّذِیْ أَیَّدَکَ یَنصُرِهِ وَ بِالْمُومِنِیْنَ-(انفال ٦٢)

ترجمہ:

اس (خدا) نے آپ(ص) کی تائید اپنی نصرت اور صاحبان ایمان کے ذریعے کی ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ عرش الٰہی پر یہ جملہ لکھاہے ''لا الہ اِلا اللّٰہ أنا وحدی محمد عبدی و رسولی ایدتہ بعلیٍ '' میرے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی میرا کوئی شریک ہے اور محمد میرے بندے اور رسول ہیں، اور میں نے علی کے ذریعہ ان کی مدد کی ہے۔

(11) اطاعت

یَآیُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ-( نساء ٥٩)

ترجمہ:

ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ہیں۔

۲۷

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور فرمایا: '' یاعلی أنت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ '' اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی، اس کے بعد سور نساء کی آیت نمبر 59 نازل ہوئی۔

(12) مودَّت اہل بیت

قُلْ لَا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ -(شوریٰ ٢٣)

ترجمہ :

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوا اسکے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔

تشریح:

سورہ سباء کی آیت نمبر 47 کی روشنی میں (جس میں کہا گیا ہے کہ میں تم سے اجر رسالت چاہتا ہوں اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے) یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اہل بیت کی محبت و مودت رسالت محمد(ص) کا ایسا اجر ہے جس میں اُمت اسلامیہ ہی کا فائدہ ہے۔

شیعہ اور سنی کی اکثر روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں۔

۲۸

(13) بہترین خلائق

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحٰاتِ أُوْلٰئِکَ خَیْرُ البَرِیَّةِ (بیّنه ٧)

ترجمہ :

یشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خیر البریّہ ہیں، خدا بھی آپ لوگوں سے راضی ہے اور آپ لوگ بھی خدا سے راضی ہیں۔

(14) محبوب خدا

یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مَنْ یَّرتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهِ فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَه-(مائده ٥٤)

ترجمہ :

اے ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اُس سے محبت کرنے والی ہوگی۔

۲۹

تشریح:

اسعد بن وقاص سے روایت ہے ، پیغمبر نے جنگ خیبر میں فرمایا: میں علم اُسے دوں گا جو خدا اور رسول کا دوستدار ہوگا اور خدا اس کے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ کہ کر آپ جناب علی مرتضیٰ کی طرف بڑھے اور علم ان کے ہاتھ میں دے دیا۔

(15) علم و حکمت کے پیکر اتم

یُؤتِی الحِکْمَةُ مَنْ یَشَآئُ وَمِنْ یُّوْتَ الحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیراً ، وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُوالْأَلْبٰابِ-(بقره ٢٦٩)

ترجمہ :

اور وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اُسے خیر کثیر عطا کردیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ جو ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں نوح(ع) کو ان کی حکمت میں اور یوسف(ع) کو ان کی خوبصورتی اور زیبائی میں دیکھنا چاہے، اُسے علی(ع) کی زیارت کرنی چاہیے۔

۳۰

(16) خیر کثیر

اِنَّا أَعْطُیْنَاکَ الْکَوْثَر - فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ-(کوثر ١،٢)

ترجمہ :

اے رسول ہم نے تم کو کوثر عطا کیا تو تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔

تشریح:

پیغمبر اسلام کے دو بیٹوں کا انتقال بچپنے میں ہی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے کفار مکہ آپ کو ابتر ہونے کا طعنہ دیتے تھے لہٰذا خداوند عالم نے پیغمبر کو فاطمہ زہرا جیسی بیٹی عنایت کرکے اُسے کوثر کے نام سے یاد کیا اور ان کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی نسل کو قیامت تک کے لیے باقی اور دائمی بنادیا، تاکہ پیغمبر اسلام کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے۔

(17) ھادی

اِنَّمٰا أَنْتَ مُنْذِر وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ-(رعد ٧)

ترجمہ :

(اے رسول) تم تو صرف (خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ھادی اور رھبر ہے۔

۳۱

تشریح:

ابن عباس سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں اور میرے بعد علی ہدایت اور رہبری کرنے والے ہیں، اس کے بعد علی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا اے علی تم میرے بعد ان لوگوں کی ہدایت کرنے والے ہو جو ہدایت کے طلب گار ہیں۔

کتاب شواہد التنزیل میں 19 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

(18) صراط مستقیم

وَاللَّهُ یَدْعُوْآ اِلی دَارِالسَّلٰمِ - وَیَهدِی مَنْ یَّشَآء اِلیٰ صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ o (یونس ٢٥)

ترجمہ :

اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتاہے۔

تشریح:

ابن عباس سے مروی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

۳۲

(19) حقِ طہارت

اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرُکُمْ تَطْهِیرًا-(احزاب ٣٣)

ترجمہ :

اے اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح) کی برای سے دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

تشریح:

انس بن مالک سے مروی ہے کہ پیغمبر اسلام جب نماز صبح کے لیے مسجد تشریف لاتے تو جناب فاطمہ زہرا(س) کے گھر کے سامنے سے گذرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کرتے اور یہ عمل چھ مہینے تک جاری رہا۔

جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت گھر میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام )کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور پیغمبر(ص) نے فرمایا: یہ ہیں میرے اہل بیت۔

کتاب شواہد التنزیل میں 137 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

۳۳

(20) نور الھی

أَللّٰهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ-مَثَلُ نُورِهِ کَمِشْکَوٰةٍ فِیْهٰا مِصْبٰاح-الْمِصْبٰاحُ فِیْ زُجٰاجَةٍ أَالزُّجَاجَةُ کَأَنَّهٰا کَوْکَب، دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبٰارَکَةٍ زَیْتُونَةٍ لَّا شَرْ قِیَّةٍ وَّلَا غَرْبِیِّةٍ یَّکَادُ زَیْتُهَا یُضِی ئُ وَلَوْلم تَمْسَسْهُ نَار، نور عَلٰی نُوْرٍ یَهدِی اللّٰهُ لِنُورِهِ مَنْ یَشٰائُ- (نور ٣٥)

ترجمہ:

خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو، اور چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہو، قندیل گویا ایک روشن ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جائے، جو نہ پورپ کی طرف ہو اور نہ پچھم کی طرف (بلکہ بیچ وبیچ) میدان میں اسکا تیل (ایسا شفاف ہو کہ) اگرچہ آگ اُسے چھوئے بھی نہیں تاہم ایسا معلوم ہو کہ خود ہی روشن ہوجائے گا ، (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نور علی نور ہے خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔

تشریح:

جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں ایک دن جب مسجد میں داخل ہوا اور حضرت علی(ع) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو اس آیت کی تلاوت کرتا ہے مگر اس کے معانی پر غور نہیں کرتا ہے میں نے عرض کی کون سی آیت تو آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا:

۳۴

مشکاة سے مراد محمد (ص) ہیں ،مصباح سے مراد میں ہوں، زجاجہ سے مراد حسن ، حسین ہیں، کوکب دری سے مراد علی ابن الحسین، شجرہ مبارکہ سے مراد محمد بن علی، زیتونہ سے مراد جعفر بن محمد ، لاشرقیہ سے مراد موسیٰ بن جعفر، لاغربیہ سے مراد علی بن موسیٰ الرضا ، یکاد زیتھا سے مراد محمد بن علی ، لم تمسہ النار سے مراد علی بن محمد، نور علی نور سے مراد حسن بن علی اور یھدی اللہ لنورہ من یشاء سے مراد حضرت مہدی ہیں۔

(21)جناب ابراہیم امیر المومنین کے شیعہ

وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِهِ لَاِبْرَاهِیْم- ( صافّات ٨٣)

ترجمہ :

اور یقینا ان ہی (نوح) کے پیروکار میں سے ابراہیم بھی تھے۔

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جب جناب ابراہیم کی خلقت ہوئی تو انھوں نے عرش الٰہی کے پاس ایک نور دیکھا ، پوچھا خدایا یہ کس کا نور ہے جواب ملا یہ نور محمد ہے پھر نور محمد کے ساتھ ایک اور نور دیکھا پوچھا یہ کس کا نور ہے، جواب ملا یہ علی کا نور ہے پھر تین نور ااور دیکھے اور اس کے بعد نو(9) نور اور دیکھے پوچھا یہ کس کے نور ہیں ؟ جواب ملا یہ تین نور فاطمہ زہرا اور حسن ، حسین کے ہیں اور نو (9) نور نو اماموں کے ہیں جو سب کے سب حسین کی نسل سے ہوں گے، تب جناب ابراہیم نے فرمایا: خدایا! مجھے امیر المومنین کے شیعوں میں سے قرار دے اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ ''ان من شیعتہ لابراھیم''

۳۵

تیسری فصل(امام زمان عج)

۳۶

(1) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن

---یَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ المُومِنُونَ بِنَصْرِ اللّٰه---(روم ٤،٥)

ترجمہ:

اس دن صاحبان ایمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ آخری امام کے ظہور کا دن وہ دن ہے جب مؤمنین اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے خوشی منائیں گے۔

(2) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی

وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسَیٰ أُمةً یَهدُوْنَ بِالْحَقّ وَ بِهِ یَعْدِلُونَ-(اعراف ١٥٩)

ترجمہ:

اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور معاملات میں حق و انصاف کے ساتھ کام کرتی ہے۔

۳۷

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق ـسے منقول ہے کہ جب قائم آل محمد ـ کعبہ سے ظہور کریں گے تو 27 افراد ان کے ساتھ ہوں گے جن میں سے 15 کا تعلق قوم حضرت موسیٰ ـ ، 7 افراد اصحاب کھف، یوشع جناب موسیٰ کے جانشین سلمان، مقداد ومالک اشتر وغیرہ یہ سب کے سب حضرت کے ساتھی ، اور آپ کی جانب سے فوج پر حُکّام ہوں گے۔

(3) آئمہ کی معرفت

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الاٰخِرَة نَزِد لَه' فِی حَرْثِه وَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الدُّنْیَا ---(شوریٰ ٢٠)

ترجمہ:

جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہے اسے اسی میں سے عطا کر دیتے ہیں۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے روایت ہے کہ ''حرث الاخرة''سے مراد علی ـ اور باقی آئمہ علیہم السلام کی معرفت ہے۔ اور ''حرث الدنیا'' سے مراد اُن لوگوں کی تلاش اور کوشش جن کا حضرت بقیة اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

۳۸

(4) حق کی کامیابی کا دن

--- وَ یَمحُ اللّٰهُ البٰاطِلَ وَ یَحِقُ الحَقَّ بِکَلِمٰاتِهِ -(شوریٰ ٢٤)

ترجمہ:

اور خدا باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے۔

تشریح:

امام صادق ـ سے منقول ہے کہ اس آیت میں کلمات سے مراد آئمہ علیہم السلام اور قائم آل محمد ـ ہیں کہ جن کے ذریعہ خدا حق کو غلبہ عطا کرے گا۔

(5) دین حق

هو الذی أَرسَلَ رَسُولَه' بِالْهُدیٰ وَ دِیْنَ الحَقّ لِیُظْهِرَه عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّهِ ---(فتح ٢٨)

ترجمہ:

وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب بنائے۔

تشریح:

امام صادق ـسے روایت ہے کہ غلبہ سے مراد امام زمانہ ـ کا ظہور ہے جو تمام ادیان پر غالب آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔

۳۹

(6) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا

اِعْلَمُوا انَّ اللّٰه یُحْیِ الارض بعَدَ مَوتِهٰا --- (حدید ١٧)

ترجمہ:

یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ زمین کے مردہ ہونے سے مراد اہل زمین کا کفر اختیار کرنا ہے۔ خداوند عالم حضرت حجة ابن الحسن ـ کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر کر زمین کو زندگی عطا کریگا۔

(7) نورِ الٰہی

یُرِیدُوْنَ لِیُطْفِؤا نورَ اللّٰهِ بِأفواهِهِمْ وَاللّٰه مُثمُّ نُوْرِهِ و نَوکَرِهَ الْکٰافِرُونَ - (صف ٨)

ترجمہ:

یہ لوگو چاہتے ہیں کہ نور خدا کو پنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94