بہترین عشق

بہترین عشق0%

بہترین عشق مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 94

بہترین عشق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام جواد محدثی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 94
مشاہدے: 37509
ڈاؤنلوڈ: 3389

تبصرے:

بہترین عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 94 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37509 / ڈاؤنلوڈ: 3389
سائز سائز سائز
بہترین عشق

بہترین عشق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں فرمایاہے :

لَولاهُم ماعُرِفَ اﷲُ عزّوجلّ

اگر وہ نہ ہوتے، تو خدا وند عالم کی شناخت نہ ہوتی۔

امام خمینی علیہ الرحمہ نے زور دے کر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ: ہمارا دین، ہمارا انقلاب، ہماری کامیابی اور ہماری قوم سب کے سب اباعبداﷲ الحسین ؑ اور عاشورا کے مقروض ہیں۔

امام خمینیؒ کے ایسے جملے کہ: یہ سید الشہداء کا لہو ہے جو تمام مسلمان اقوام کے لہو کو جوش میں لاتا ہے، محرم اور صفر نے اسلام کو محفوظ رکھا ہے، سید الشہداء کی جانثاری نے ہمارے لئے اسلام کو باقی رکھا ہے، اگر سید الشہداء کا قیام نہ ہوتا تو آج ہم بھی کامیابی حاصل نہ کر پاتے، سید الشہداء کی شہادت نے مکتب کو زندہ کیا، ایران کا اسلامی انقلاب عاشورااور عظیم الٰہی انقلاب کا ایک پرتو ہےان تمام جملوں کا مقصد قوم کو اہلِ بیت ؑ کی معنوی عنایات کی جانب متوجہ کرناہےاور یہ اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان احسانات کا ممنون اور مقروض سمجھتے ہیں اور ہمارے دلوں میں اولیائے دین کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ولایت و محبت کی نعمت عظیم ترین نعمتوں میں شمار ہوتی ہےنعمتوں کو یاد دلاتے اور ان کا تذکرہ کرتے وقت صرف مادّی نعمتوں کے ذکرپر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ معنوی نعمتوں کا ذکر بھی ہونا چاہئے جن میں سے بیشتر ہمیں سر کی آنکھوں سے نظر نہیں آتیں اورہم اُن سے غافل رہتے ہیں اس طرح ان نعمتوں کی قدر و قیمت بھی پتا چلے گی۔

ہمارا اس گھرانے کی معرفت رکھنا اور ہمارے دلوں کا ان کی محبت سے معمورہونا خود ایک عظیم بے مثل نعمت ہےخود ائمہؑ نے بھی مختلف مواقع پراپنے دوستوں کو اس معنوی نعمت کی عظمت اور قدر و قیمت کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسے ایک عظیم ترین دولت قرار دیا ہے۔

۶۱

۱۲:- اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر

لوگ آئیڈیل پرست اور عظیم شخصیات کے دلدادہ ہوتے ہیںلہٰذا مغرب میں اپنی قومی اور علمی شخصیات کے بارے میں کتابیں اور مقالے تحریر کئے جاتے ہیں، اُن کے بارے میں فلمیں اور اُن کے مجسمے بنائے جاتے ہیں اوراُن کے حوالے سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، تاکہ اِن شخصیات کو ایک آئیڈیل اور ہیرو کے طورپر اپنی قوم کے قلب وذہن میں جگہ دی جائے۔

لہٰذا اپنے بزرگانِ دین کے بارے میں ہم بھی ایساہی کیوں نہ کریں، جو انتہائی صاحبِ فضیلت اور ایسی تکریم کے بہت زیادہ حقدار ہیں؟ اگر لوگ ائمہ اہلِ بیت ؑ کی شخصیت، اُن کے فضائل، اُن کے افکار اور اُن کی تعلیمات سے واقف ہوں اور اُن کے اعلیٰ پائے کے کلمات و فرمودات سے آشنا ہوں، تو ان کے دلوں میں اُن کی محبت پیدا ہو گی اور یہ محبت وعقیدت اُن کی پیروی اور اُن کے ساتھ یکجہتی کا باعث بنے گیامام رضا علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ :

اِنّ الناسَ لوعَلِمُوامَحاسِنَ کلامِنالَا تّبعُونا

اگرلوگ ہمارے کلام کی خوبیوں سے آشنا ہوں گے، تو ہماری پیروی کریں گے۔

اہلِ بیت ؑ کی احادیث کی ترویج اور حفظِ حدیث کے مقابلوں کا انعقاد اس سلسلے میں انتہائی مفید اقدام ہو گابعض ناشرانِ کتب کی جانب سے مختلف موضوعات پر ”چہل حدیث“ کے عنوان سے شائع کی گئی کتب اس مقصد کے لئے تجویز کی جاتی ہیں اِن چہل حدیث یا اسی طرح اور احادیث کو حفظ کرنے کا پروگرام بھی اس حوالے سے مفید ہے۔

۶۲

بچوں اور جوانوں سے گفتگو کے لئے مفاہیم اور موضوعات کا انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہےائمہ ؑ کی احادیث میں بہت سے نکات اور معارف موجود ہیں لیکن یہ سب کے سب ایسے نہیں ہوتے جوہر کس و ناکس کے سامنے بیان کئے جاسکیںکیونکہ کبھی کبھی یہ سننے والوں کے لئے قابلِ ہضم نہیں ہوتے، بجائے کشش رکھنے کے دفع رکھتے ہیں، اہلِ بیت ؑ کے مکتب کی جانب رغبت کا سبب بننے کی بجائے ا س سے دوری کا باعث ہوجاتے ہیں اور اذہان کوصاف کرنے کی بجائے ان میں شبہ پیدا کرتے ہیںلہٰذاان کے انتخاب کے لئے بھی ذوق اور عقل و خرد کی ضرورت ہے اور ماحول اور سننے والوں کی صلاحیت کو مد نظر رکھنا ضرورییہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے جن کا نام ”مُدرِک بن ہزہاز“ تھا، فرمایا: اے مُدرِک! ہمارے دوستوں کو ہماراسلام پہنچانا اوران سے کہنا کہ اس شخص پر خدا کی رحمت ہو جو لوگوں کے دلوں کو ہماری جانب مائل کرے، ہمارے وہ کلمات انہیں سنائے جنہیں وہ جانتے اورقبول کرتے ہیں اور جن کلمات کا وہ انکار کرتے اورجو ان کے لئے ناقابلِ قبول ہوں، انہیں ان کے سامنے بیان نہ کرے(۱)

کوشش ہونی چاہئے کہ جوان اور نو جوان اہلِ بیت ؑ کے کلام کی مٹھاس محسوس کریں اور ان کے حکیمانہ کلمات کی گہرائیوں کو سمجھیں، تاکہ ان فرامین کے ذریعے ان کے دلوں میں ان شخصیات سے محبت اور عقیدت پیدا ہواس حوالے سے قابلِ فہم کلمات، ان کا خوبصورت اور دلنشیں ترجمہ، مفید موضوعات کا انتخاب اور خوبصورت اور جاذب نظر طباعت موثرثابت ہوتی ہے۔

--------------

۱:-رَحِم اﷲُ امرء اًاِجَتَرَّ مودَّة الناس اِلینا، فَحدَّثَهم بما یَعرِفُون وتَرَکَ مایُنکرون (بحارالانوارج ۲ص ۶۸)

۶۳

افرادِ معاشرہ، جوانوں اور انسانیت تک اہلِ بیت ؑ کی تعلیمات کس طرح پہنچائی جائیں؟ یہ ایک قابلِ غور سوال ہے اور اس سلسلے میں فن وہنر سے استفادہ کیا جانا چاہئے اور نئی نسل کے سامنے ائمہ ؑ کی تعلیمات پیش کرنے کے لئے جدید طریقوں، فنکارانہ کشش اور موثر اسلوب سے کام لینا چاہئےاس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہےافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم (اس جانب متوجہ ہی نہیں، بلکہ) اکثر ان تقاضوں کے برخلاف عمل کرتے ہیں۔

اہلِ بیت ؑ کے فضائل کودو پہلوؤں سے پیش کیا جا سکتا ہے۔

۱:- ان کے بلند درجات، ان کی خلقت، ان کی طینت، ان کی عالی سرشت اور ان کے نورِ الٰہی ہونے وغیرہ کے پہلو سے

اہلِ بیت ؑ کے فضائل کی یہ قسم، اگرچہ قابلِ قدر ہے اور خدا کے یہاں اُن کے مقام و منزلت کو واضح کرتی ہے لیکن کیونکہ عملی پہلو کی حامل نہیں اور اس میں تاسی کاعنصر نہیں پایا جاتا، اسلئے بہت کم تربیتی اثر اور عملی کشش کی حامل ہے اور بعض اوقات نوجوانوں کے لئے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ ہضم ہوجاتی ہے۔

۲:- اسوہ عمل بنائے جانے کے قابل اور اہلِ بیت ؑ کے کردار کی عملی پیروی کے پہلوؤں سے، نوجوانوں اور جوانوں کو سیرتِ معصومین ؑ اور ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے آگاہ کرنا انتہائی ضروری اور مفید ہےاس مقصد کے لئے تاریخ سے آگہی سود مند ثابت ہوتی ہے اور اندازِ تحریر کے پرکشش ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

۶۴

ائمہ ؑ کے صبر، ایثار، انکساری، عبادت، شجاعت، اخلاص، جوانمردی، حلم، علم، حسنِ خلق، عفو ودر گزر، سخاوت و فیاضی، ان کی نماز اور روزے کی کیفیت، ان کی تہجد گزاری اور حج اور اسکے مناسک کے دوران ان کی کیفیت کا تذکرہ انتہائی سود مند ہےبالخصوص اہلِ بیت ؑ کے ایسے قصوں کا بیان جن میں وہ نوجوانوں کے ساتھ انتہائی احترام آمیز طرزِ عمل اختیار کرتے نظر آتے ہیں انتہائی متاثر کن ہوتا ہےمثلاً پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچوں سے حسنِ سلوک اور انہیں سلام کرنا، یا مومنین کے بچوں کوگود میں لے کر اُن کے بوسے لینا، یا مثلاً امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کا ایک بوڑھے کو وضو سکھانا وغیرہ۔۔۔

اہلِ بیت ؑ کے بچوں کا تعارف اور ان کا پرکشش طرزِ عمل ہمارے بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اپنے ہی ہم عمر بچوں کا یہ کردار ان میں ان کی جانب اور زیادہ کشش پیدا کرتا ہے۔

نوجوانوں کے دلوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کابیج بو کر، عمدہ اخلاقی مثالوں اور سیرتِ اہل بیت ؑ کے ذریعے اس بیج کی آبیاری کرنی چاہئے تاکہ وہ خشک نہ ہو جائے بلکہ پھلے پھولے اوراس سے مزید پھل حاصل ہوںیہ عمل محبت کو مزید گہراکرتا ہےمعتبر اور بنیادی کتب میں اس سلسلے میں جو باتیں نقل ہوئی ہیں انہیں سامنے لانا چاہئے تاکہ ہماری آج کی نوجوان نسل بھی ان ذخائرسے مستفیض ہوسکے۔

ائمہ معصومین ؑ اور اہلِ بیت ؑ کے بارے میں خوبصورت، رواں اور عام فہم اشعار کا انتخاب اور اِن اشعار کو دلنشین اور شیریں انداز میں پڑھنا ان ہستیوں سے محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہےاس انتخاب میں معلومات اور ذوقِ لطیف انتہائی اہم کردارادا کرتے ہیں اس مسئلے میں بھی دوسرے ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں کی طرح بچوں کے سن و سال اور ان کی تعلیمی سطح کی خاص نفسیات اور مزاج جیسے نکات پر توجہ ضروری ہے۔

۶۵

۱۳:- اپنی روزمرہ کی خوشیوں کو حیاتِ ائمہؑ سے منسلک کرنا

کسی چیز سے خوش ہونا، اس چیز سے محبت پیدا کرتا ہےکوشش کرنی چاہئے کہ اہلِ بیت کی شخصیت، ان کا ذکر، ان کی محافل اور مجالس بچوں کے دلوں میں ایک خوش کن یادگار کی صورت میں محفوظ رہیںلہٰذا ہمیں اس انداز سے عمل کرنا چاہئے کہ اگر ہمارے بچے کسی چیز یا کسی یادگارکو دیکھیں، تو فوراً ہی اُس کا اہلِ بیت ؑ سے تعلق اُن کے ذہن میں آئے۔

معصومین ؑ کے یومِ ولادت پرجشن کا انعقاد کرنا، خوشی منانا، بچوں میں مٹھائی تقسیم کرنا، انہیں عیدی، تحفے تحائف اور اعزازات دینا بالواسطہ (indirect) اپنے اثرات مرتب کرتا ہےاسی طرح اہلِ بیت ؑ سے منسوب کسی دن گھریا اسکول میں ایک خوبصورت اور بچوں کا دل پسند پروگرام ترتیب دینامثلاً اہلِ بیت ؑ سے تعلق رکھنے والی کسی مناسبت پر گھر میں مٹھائی لے آنایا اسکول میں مٹھائی تقسیم کر دینایا اسی مناسبت سے گھر، مسجد یا محلے اور مدرسے میں جشنِ میلاد کا انعقاد کرناان مناسبتوں کو ذہن سے اترنے نہیں دیتااور یہ خوشیاں ان ایام اور اہلِ بیت ؑ کے نام اور یاد کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہیں۔

ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ایک روزمیں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ نمازِ جماعت کے لئے مسجد میں گیادو نمازوں کے درمیان لوگوں میں مٹھائی تقسیم کی گئیاگلی رات میرا بچہ مجھ سے کہنے لگا: ابو! آج مسجد نہیں چلیں گے؟ اس دن کے بعد جب کبھی میں اسے مسجد لیجاتا ہوں، اگر وہاں سے مٹھائی وغیرہ نہ ملے، تو باہر نکل کر لازماًمیں اس کے لئے چاکلیٹ خریدتا ہوں، تاکہ مسجد آنے اور ایک پسندیدہ چیز حاصل کرنے کا باہمی تعلق اس کے ذہن سے مٹ نہ پائے اور مسجد اور نماز کے ساتھ اس کی محبت باقی رہے۔

۶۶

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:الهدیّة تُورِثُ المودّة (تحفہ محبت پیداکرتا ہےبحارالانوارج ۷۴ص ۱۶۶) اگر یہ تحفہ اہلِ بیتِ عصمت و طہارت ؑ سے تعلق رکھتا ہو، تو قدرتی بات ہے کہ اس کے نتیجے میں اُن سے محبت پیدا ہو گی۔

ہر دینی اور مذہبی پروگرام کو بچوں کے لئے پسندیدہ اورپرکشش بنانے کے لئے اس طریقے سے استفادہ کیا جا سکتا ہےجیسے نمازِ جمعہ، دعا یا درس کے اجتماع، مذہبی مراسم اور مجالسِ عزا میں شرکت، یا مسجد اور نمازِ جماعت میں شرکت کے لئے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہےاگر ائمہ ؑ سے مخصوص مناسبتوں میں بھی اس طریقے سے استفادہ کیا جائے، تویہ طریقہ بچوں کے لئے ان پروگراموں کوپر کشش بنانے میں موثر ثابت ہوگا۔

۱۴:- محبت کم کرنے والی چیزوں سے پرہیز

محبت پیدا کرنے والے امور سے استفادے کے ساتھ ساتھ نفرت انگیز کاموں سے پرہیزکرنا بھی ضروری ہےبعض اوقات کچھ حرکات وسکنات، الفاظ، پروگرام اورانداز محبت کا بندھن قائم نہیں ہونے دیتے، تخریبی اثر مرتب کرتے ہیں اور لوگوں کو دور کرنے کا باعث بن جاتے ہیںمثلاً اگر مجالسِ عزاشرکا میں اُکتاھٹ یابے دلی پیدا کر دیں، یا ان کی آوازیں دوسروں کے لئے باعثِ آزار بن جائیں، ان کاسکھ چین چھین لیں، یا اہلِ بیت ؑ سے منسوب محافل اور مجالس میں بچوں سے بد سلوکی کی جائے، اُن کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اختیار کیا جائے، ان سے بے توجہی برتی جائے، انہیں وہاں سے بھگا دیا جائے، یا ایسی مذہبی رسومات زبردستی اور جبری شکل اختیار کر لیں، یا بد اخلاق، بدقیافہ، بد صدا، بد سابقہ، بد کردار اور گندے، میلے کچیلے لوگ ایسے پروگراموں کاانعقاد کریں، تو یہ چیزیں محبت پیدا کرنے میں رکاوٹ، بد گمانی اور تنفر کا باعث اور لوگوں کے دور ہونے اور بھاگ جانے کا سبب ہو جاتی ہیں۔

۶۷

ایک شخص جو انتہائی بھدی اور گوش خراش آواز میں تلاوتِ قرآنِ مجید کیاکرتا تھا، اس کے متعلق سعدی شیرازی نے کہا ہے:

گر تو قرآن بدین نمط خوانی

ببری رونقِ مسلمانی

لہٰذا اہلِ بیت ؑ سے محبت پیدا کرنے کی غرض سے، یا اس محبت کو قائم و دائم رکھنے کی خاطر منفی اثر مرتب کرنے والی اوررکاوٹ بننے والی چیزوں کا خاتمہ کرنا چاہئے، تاکہ ایسا جاذبہ اور کشش فراہم ہو جو محبت و عقیدت پیدا کرےجذب کرنے کا طریقہ انتہائی اہم اور حساس ہوا کرتاہے۔

ایامِ عزا کی راتوں میں، آدھی رات کے بعدمسجد یا امام بارگاہ کے لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے بعض لوگوں کی نیند خراب ہوتی ہےیہ صورتحال اس وقت اور ناگوار ہوجاتی ہے جب کوئی بیمار ہو، یاکسی کے امتحان ہورہے ہوںاس صورت میں یہ انداز الٹا اثرمرتب کرتا ہے اورایسے لوگ عزاداری سے بے زار ہو جاتے ہیں۔

امام خمینیؒ اور رہبرِمعظم آیت اللہ علی خامنہ ای نے دوسروں کے اذہان میں قمہ زنی کے منفی اثرات کی وجہ سے فتویٰ دیا ہے کہ اسلام اور تشیع کے مفاد میں اس عمل سے اجتناب کیا جائےکیونکہ یہ عمل بعض لوگوں کے لئے تنفرکا باعث ہوتا ہے، اِسے دیکھ کر وہ عزاداری کی جانب مائل نہیں ہوتے اور یہ چیزیں ہمارے خلاف دشمن کے پروپیگنڈے کا ایک ہتھیاربن جاتی ہیں۔

۶۸

۱۵:- روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا

بچوں اور جوانوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنے کاایک طریقہ، ایسا ماحول اور فضاایجاد کرنا ہے جس میں بچے خاص روحانی حالت محسوس کرنے لگیں اور بتدریج ان کی روحانی حس بیدار ہو اور وہ اس طرف جذب ہو جائیںکیونکہ اگر بچوں (حتیٰ بڑوں کو بھی) ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس طرف مائل نہیں ہوتے اور دعا اور توسل کی محفلوں میں شرکت سے گریز کرتے ہیںلیکن اگر ہم ان کے لئے اس فضا میں قدم رکھنے کا اہتمام کریں، تو وہ اس جانب مائل ہو جائیں گےمثلاً تعلیمی و تربیتی کیمپس کا انعقاد، زیارتی دوروں کا اہتمام، دینی مجالس، دعااور توسل کی محفلوں میں شرکت اوردینی شخصیات سے ملاقاتیں اس رشتے اور تعلق کو پیدا کرنے یااسے تقویت پہنچانے والی چیزیں ہیں۔

سال کے مختلف حصوں، بالخصوص تعطیلات کے دنوں میں جن سیاحتی اور زیارتی کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے، اور طلبا کومثلاً قم، شیراز، مشہد، جمکران، مرقدِ امام خمینیؒ اور اسی طرح کے دوسرے مقامات پر لے جایا جاتا ہے، تو انہیں صرف ان عمارتوں اور در و دیوار کا تماشائی نہیں بنانا چاہئے بلکہ اس دیدار کے ساتھ ساتھ انہیں فکری اور روحانی غذا بھی فراہم کی جانی چاہئےوہ وہاں سے کچھ باتیں سیکھیں، کچھ سبق لیں اور اس گھرانے کے ساتھ عشق اور عقیدت کا رشتہ قائم کریںاگر ممکن ہو تواس قسم کے سفر اور کیمپس میں متاثر کن شخصیات سے ملاقاتیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔

روح پرور محفلوں میں شرکت بھی اسی قسم کی چیز ہےجس طرح ہر اجتماع کا اثر ہوتا ہے اور وہاں موجود افراد کے جذبات و احساسات اور وہاں کی فضا ان اجتماعات میں شریک ہونے والوں پر اثر انداز ہوتی ہے، بالکل اسی طرح محبانِ اہلِ بیت ؑ کے اجتما ع میں شرکت بھی یہ حس اور حالت ایجاد کرتی ہے۔

۶۹

مجالسِ عزا اور دعائیہ اجتماعات میں شرکت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہےمجالسِ عزااور نوحہ خوانی میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کے مرکز پر جذبات جوش میں آتے ہیں، دل گداز ہوتے ہیں، آنکھوں سے اشک جاری ہوتے ہیں اور گریہ و زاری لوگوں کو خاندانِ پیغمبر ؐسے جوڑتی ہے اور ان سے ان کا تعلق قائم کرتی ہے۔

مجالسِ عزا میں گریہ و زاری دلوں اور جذبات کو لطیف بھی بناتی ہے اورانہیں تقویت بھی پہنچاتی ہےعام حالت یا انفرادی طور ممکن ہے نہ دل غم و اندوہ سے بھرے، نہ آنسو آنکھوں سے بہیں اورنہ روح میں حرکت وانقلاب پیدا ہولیکن جذباتی اور روحانی فضا کے اثرات وہاں موجود افراد کی انفرادی اور اجتماعی حس کو ہم آواز کردیتے ہیں اور دل کے دروازوں کو کھولتے ہیں۔

اس قسم کی مجالس اگر گھروں، اسکولوں اور محلّوں میں منعقد ہوں اور نوجوان ان کے انعقاد اور ان کے انتظامات میں شریک ہوں، تواس طرح بھی ان کے اندر محبتِ اہلِ بیت ؑ میں اضافہ ہو گا۔

زیارت بھی ایسی ہی چیز ہےجس طرح ایک اعلیٰ صفات، پاک و پاکیزہ انسان سے بالمشافہ ملاقات اس سے ملنے والے لوگوں پر اثر ڈالتی ہے، اسی طرح معصومین ؑ کی تربت اور ان کے مقدس مزارات پر حاضری بھی روح کی پاکیزگی کا ذریعہ ہےاگر محبت اور معرفت ہو، تو ”زیارت کاشوق“ اس کا نتیجہ ہےاور اگر زیارت پر جائیں، تو خود زیارت محبت پیدا کرتی ہے اور زیارت اور محبت ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیںمحبت کا نتیجہ زیارت ہے اور زیارت محبت پیدا کرتی ہےمادّی اورجسمانی قربت، روحانی قرابت کا باعث بھی بنتی ہےاور اس کے برعکس اس قسم کے مراکز سے دوری اور گریز روح کو بھی بیگانہ، نا آشنا اور گریزاں بناتا ہےکبھی کبھی حرم اور مزارِ مقدس پر نگاہ پڑتے ہی دل میں محبت امڈ پڑتی ہےپس حرم اور نگاہ کی اس ملاقات سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔

۷۰

زیارت میں انسان اولیا اﷲ کو سلام کرتا ہےاگر زائر اس بات سے باخبر ہو کہ پیغمبرؐ یا امام ؑ یا حرم میں مدفون اہلِ بیت ؑ زائر کو دیکھتے ہیں، اُسے پہچانتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں، تو یہ بات بھی ان ہستیوں کے لئے محبت پیدا کرتی ہےاہم بات یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو یہ بات سمجھائی جائے، اُن کے سامنے ان نکات کی وضاحت کی جائے۔

فضول، لا ابالی اور غیر ذمے دار افراد کے ساتھ میل جول انسان کی روح میں بھی ایسی ہی صفات پیدا کردیتا ہےاس کے برعکس معنویت رکھنے والے حضرات، مقدس مراکز اور دینی مراسم میں شرکت انسان کے اندر معنویت کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہے۔

اگر ہمیں بعض لوگ ان چیزوں سے گریزاں نظر آتے ہیں، تو شاید اس کی وجہ ان کی فرومائیگی، احساسِ بیگانگی یا ان کے دل میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کی تڑپ نہ پایا جانا ہواور اگر وہ اس محبت کا ذائقہ چکھیں، تو ممکن ہے اس کے مشتاق ہو جائیںبالکل ان لوگوں کی طرح جو ایک مزیدار کھانا اس لئے نہیں کھاتے کہ انہوں نے تاحال اس کا ذائقہ چکھا ہی نہیں ہوتا لیکن جوں ہی وہ اس کھانے کا ایک لقمہ چکھتے ہیں اور انہیں اس کی لذت پتا چلتی ہے، تو پھران کا ہاتھ ہی نہیں رُکتااہلِ بیت ؑ کے ساتھ تعلق کے سلسلے میں بچوں کے لئے معنوی فضا تیار کرنا اسی طرح کی چیز ہےماحول اپنا بھرپور اثر ڈالتا ہے، خواہ ایک گھر یا اسکول کا ماحول ہو، خواہ ایک ملک اور معاشرے کالہٰذا کیا حرج ہے اگر ہم ان کیلئے توفیقِ اجباری پیدا کریں جو جذبِ اختیاری کا باعث بن جائے۔

کبھی کبھی ایک گنبد، حرم، یا مسجد پر نظر پڑنا انسان میں اس کے لئے کشش پیدا کر دیتا ہےکیا ہم نہیں سمجھتے کہ مسجدوں اورامام بارگاہوں میں عوام کے لئے پھلوں کے درخت وقف کر نااور لوگوں کے لئے ان کے پھلوں سے مفت استفادے کا بندوبست اس تاثیر کا حامل ہوگا؟ یا یہ کہ قدیم زمانے میں بعض مساجد کے احاطے وسیع رکھے جاتے تھے، جنہیں لوگ راہ گزر کے طور پر استعمال کرتے تھے اورکبھی کبھی اسی راہ گزرپر چلتے ہوئے اور نگاہ پڑنے سے لوگ مسجد کی روحانی اور معنوی فضا میں جذب ہو جاتے تھے۔

۷۱

حتیٰ کسی فلم یا ڈرامے میں ایک مقدس شخصیت، اہلِ بیت ؑ کے کسی فرد، یا ان سے وابستگی رکھنے والی کسی شخصیت کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے انسان میں خود بخود ان سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کردار ادا کرنے والا فنکار ان ہستیوں سے محبت کرنے لگتاہےاہلِ بیت ؑ کے بارے میں روحانی اور معنوی فضاپیدا کرنے کایہ بھی ایک طریقہ ہے۔

۱۶:- کتابوں کا تعارف اور مقالات و اشعارتحریر کرنا

بچوں میں پائے جانے والے مطالعے کے شوق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اہلِ بیت ؑ کے بارے میں تحریر کی گئی اچھی، پرکشش اور تعمیری کتب سے روشناس کرایا جائےجن کتابوں سے مقابلوں کا انعقاد کریں، یا جنہیں تلخیص کے لئے تجویز کریں، یا مضمون نویسی، شعر، قصوں، حتیٰ مصوری اور خطاطی کے لئے جو موضوع دیں، اگر وہ اہلِ بیت ؑ کے بارے میں قلبی جذبات ابھارنے والے ہوں، تو اس سلسلے میں مفید ثابت ہوں گےبچوں کو اس قسم کے کاموں کی طرف لانا یا انہیں عاشورا، ۱۵ شعبان، شبِ قدر، مجالسِ عزا وغیرہ کے حوالے سے یادگار واقعات تحریر کرنے کی ترغیب دینا، اہلِ بیت ؑ سے اُن کی محبت اور عقیدت میں اضافے اور تقویت میں مددگار ہو سکتا ہے۔

بچوں میں اِن کتب کے مطالعے کا شوق پیدا کرنے کی خاطر مفید اور پرکشش کتابوں سے انہیں متعارف کرانے کے لئے خاص ذوق اور موضوع پر مہارت درکار ہے۔

۷۲

۱۷:- محبانِ اہلِ بیت ؑ کے قصے

اہلِ بیت ؑ کی زندگی سے ماخوذ داستانیں، جو جذبات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور محبت آفرین بھی ہیں، ان کے علاوہ اہلِ بیت ؑ کے عقیدت مندایسے محبوں کے قصے بھی خاندانِ رسول سے محبت پیدا کرنے میں مفید ہیں جن کی زندگی، جانثاری، ایثار و قربانی، خدمات، حالات اور ان کی زیارات اور توسل میں اس محبت کو محسوس کیا جا سکتا ہو۔

حضرت ابوذر غفاریؓ کی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت کی داستان، آنحضرتؐ سے اویس قرنی کے عشق، حضرت علی ؑ سے ان کے دوستوں اور اصحاب کی گہری محبت، سید الشہداء کے انصار کی آپ ؑ سے والہانہ محبت، ایسے لوگ جنہوں نے حیاتِ ائمہ ؑ یا ان کی وفات کے بعد ان کی زیارت کے سلسلے میں عشق و اخلاص کا مظاہرہ کیا اور اس راہ میں مصائب و تکالیف برداشت کیں، اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے محبانِ اہلِ بیت ؑ کے خلاف بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم کے باوجود ان کی محبت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ہمیشہ اہلِ بیت ؑ کے وفادار رہے، وہ لوگ جنہوں نے کربلا کی زیارت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، امام مہدی ؑ کے دیدار کے شیفتہ افراد، ان سے وصال کے مشتاق لوگ، اور وہ لوگ جنہوں نے اہلِ بیت ؑ کے عشق میں عظیم خدمات اورکار ہائے خیر انجام دیئے، اسی طرح ائمہ ؑ کے مخصوص اصحاب اور ہمراہیوں کے واقعات اور ایسے ہی بہت سے قصے حیرت انگیز اثرات کے حامل ہیںبالخصوص ایسے بچوں اور نوجوانوں کے لئے جوقصے کہانیاں سننے کے شوقین اور داستانوں میں آئیڈیل تلاش کرتے ہیں، کہانیوں کے ہیروز کو پسند کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں البتہ اس قسم کے قصوں کی زبان جس قدر میٹھی، سادہ اور فنی ہو گی اسی قدر یہ زیادہ پر اثر ہوں گے۔

۷۳

۱۸:- انجمن سازی

جو پروگرام نوجوان خود سے منعقد کرتے ہیںمثلاً مختلف مناسبتوں سے جشنِ میلاد کا انعقاد، ماتمی دستوں کی تشکیل، مساجد یا عزاخانوں کی صفائی ستھرائی اورسبیلوں کا اہتمام وغیرہیہ تمام چیزیں اہلِ بیت ؑ سے ان کے تعلق کو مضبوط کرنے میں موثرہیںبچوں میں روحانی آمادگی پائی جاتی ہےان کے ذریعے محلّوں میں خود ان کی انجمنیں بنانی چاہئیں، تاکہ وہ خود ان کی ذمے داری سنبھالیں اور ان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو

لڑکپن کی سرحدوں میں قدم رکھنے والے بچوں کو اس قسم کے کاموں میں سرگرم کرنے کے لئے ماہِ محرم ایک مناسب ترین موقع ہےکیونکہ عمومی طور پر ماہِ محرم، شعبان اور رمضان میں لوگوں کا رجحان مذہب کی جانب ہوتا ہےلہٰذا بچے بھی دینی مراسم کی جانب راغب ہوتے ہیں ان دنوں میں بچوں کے اندرازخودپیداہونے والی اس حس اوردوسرے دنوں کے لئے بھی اس حس کوباقی رکھنے کے سلسلے میں سنجیدہ عملی کوششوں کی ضرورت ہے

ائمہ ؑ سے منسوب ایام میں پرچم اٹھا کر، نوحہ خوانی کر کے اور اپنی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے بچوں میں اپنی شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ احساس ان میں ذمے داری اور فرض شناسی کے جذبات ابھارتا ہے اور اہلِ بیت ؑ سے ان کا تعلق قائم کرتا ہےکیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سرگرمیوں کے ذریعے انہیں ایک مستقل شخصیت اورعلیحدہ حیثیت ملی ہے، وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہیں اور لوگ انہیں اہمیت دینے لگے ہیںپرچم ایک گروہ کے تشخص کی علامت ہے اور وحدت، یکجہتی اور تعلق پیدا کرتا ہے

۷۴

ایک شہید کے بقول: ”آدھا میٹر لکڑی اور آدھا میٹر سیاہ کپڑے کے ذریعے سید الشہداء کے بارے میں بے دریغ احساسات کے ایک طوفان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، جس کی مثال کسی اور جگہ دیکھی ہی نہیں جاسکتیجبکہ لوگوں کو ایک چھوٹے سے اجتماع کی تشکیل کے لئے بھی بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔“

عزاداری کے دستے اور روایتی ماتمی انجمنیں نہ صرف اہلِ بیت ؑ اور عاشورا کے پیغام اور اسکی تعلیمات کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہیں بلکہ امام حسین ؑ کے محور پر مقدس مقاصد اور مخلصانہ اور عاشقانہ آداب کے ساتھ تنظیم سازی کی ایک مشق ہیں

چند تکمیلی نکات

ہم محبتِ اہلِ بیت ؑ کی تمام تر اہمیت کے قائل ہیں، لیکن اگر یہ محبت درست اندازمیں، فکروشعور اور صحیح تعلیمات کے ساتھ نہ ہو، تو ممکن ہے لوگوں میں ایک طرح کی غفلت، بے توجہی اور افراط پیدا ہو جائے اور اس محبت کے اُلٹے نتائج برآمد ہوںلہٰذااس حوالے سے چند نکات کی جانب توجہ ضروری ہے، تاکہ یہ مقدس محبت موثرثابت ہو اور نقصانات سے محفوظ رہے

۱:-محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا

بچوں اور نوجوانوں کے دل میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرتے ہوئے یک طرفہ پن سے بھی اجتناب کرنا چاہئے اور اُنہیں بھی اس سے پرہیز کی تلقین کرنی چاہئےہمارا اصل کام محبت کو عمل کے ساتھ مخلوط کرناہےتاکہ (عمل، تقویٰ اور پیروی کے بغیر) صرف محبت اور عشقِ اہلِ بیت ؑ ان کے محبوں کی گمراہی اور غفلت کا باعث نہ بن جائےاگر محبت اور عمل ساتھ ساتھ نہ ہو ں تو یا تو محبت سچی نہیں ہے، یا اس میں عشق اور عقیدت کی تاثیر کو ختم کر دینے والے عوامل کی ملاوٹ ہے۔

۷۵

اگر محبت سچی اور صدقِ دل کے ساتھ ہو، تو محبوب اور محب کو ہم رنگ اور ہمراہ بنا دیتی ہےمحبت چاہے خدا کے ساتھ ہو، پیغمبرؐ کے ساتھ ہو، ائمہ ؑ کے ساتھ ہویا کسی بھی دوسرے شخص کے ساتھ، اگرسچی اورحقیقی ہو، تومحب کو محبوب کی مخالفت، اسکی ناراضگی اور اسکی خواہش، رضا اور رغبت کے منافی عمل سے باز رکھتی ہےاگر ہم کسی سے عشق اور محبت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے عمل انجام دیں جوہمارے محبوب کے لئے تکلیف اور دکھ کا باعث ہوں، توہم عاشق اور محب نہیں بلکہ اس عشق اور محبت کے جھوٹے دعویدارہیں۔

امام جعفرصادق علیہ السلام نے (اپنے ایک صحابی) مفضل سے گفتگو کے دوران محبتِ اہلِ بیت ؑ کے حوالے سے شیعوں کی گروہ بندی کرتے ہوئے اور یہ بتاتے ہوئے کہ محبتِ اہلِ بیت ؑ کے سلسلے میں لوگوں کے محرکات بھی مختلف ہوتے ہیں، اہلِ بیت ؑ کے حقیقی محب گروہ کا تعارف کرایا ہے، فرماتے ہیں:

 وَفِرقَةٌ اَحَبُّوناوحَفِظُواقولَنٰا وَاطاعُوااَمْرَناوَلَمْ یُخالِفوا فِعْلَنا، فَاولئک منّاونَحْنُ منهم

۔ ۔ ایک گروہ ہم سے محبت کرتا ہے، ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے، ہمارے فرمان کی پیروی کرتا ہے، اپنے عمل سے ہماری مخالفت نہیں کرتایہی لوگ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں(تحف العقولص ۵۱۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے محبتِ خدا کے دعوے کے بارے میں فرمایاہے:

تَعْصِی الالٰهَ وَاَنْتَ تُظهِرُحُبَّهُ هذا مَحالٌ فی الفِعالِ بَدیعٌ

لَوْکانَ حُبُّکَ صادِقاً لَأَ طَعْتَهُ اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطیعٌ

خدا کی نافرمانی کرتے ہواور اس سے اظہارِ محبت بھی کرتے ہویہ محال ہے اورایک نئی بات ہےاگر تمہاری محبت سچی ہوتی، تو اُس کی اطاعت کرتےکیونکہ عاشق اپنے معشوق کا اطاعت گزار ہوتا ہے(بحارالانوارج ۷۰ص ۱۵)

۷۶

خدا سے اظہارِ محبت اسکی اطاعت اور اسکے احکام کی پیروی کے ساتھ ہونا چاہئے نہ کہ اس کی نافرمانی اور اس کے فرامین کی مخالفت کے ساتھکیونکہ سچی محبت کا نتیجہ محبوب کی اطاعت ہوا کرتا ہےاہلِ بیت ؑ سے محبت کا دعویٰ اور گناہوں اور نا فرمانیوں کا ارتکاب ایک دوسرے سے متضاد باتیں ہیںلہٰذایہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ ہمارا دین حب اور محبت کا دین ہے لیکن سچی محبت ہمرنگی اور ہم آہنگی کا باعث ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے جب دو افراد میں محبت ہوتی ہے، تو اس محبت کی بنیاد پر وہ دونوں ایک دوسرے کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں، ایک دوسرے کو رنجیدہ کرنے اور ایک دوسرے کی مخالفت سے پرہیز کرتے ہیں تا کہ ان کے درمیان قائم محبت اور دوستی کا رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔

امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث، اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ محبتِ اہلِ بیت ؑ کے بھروسے پر عملِ صالح کو ترک نہیں کرنا چاہئےایسا نہ ہو کہ ہم ”جب علی ہیں تو کیا غم“جیسے الفاظ منھ سے نکالنے لگیں۔

لا تَدَعُواالعَمَلَ الصّالحَ والأجتهادَ فی العبادةِ اِتّکالاً عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ولا تَدَعُواحُبَّ آلِ محمّدٍ والتسلیمَ لِأ مرِهِمْ اِتّکالاً عَلَی العبادة، فاِنّهُ لایُقْبَلُ أحَدُ هُمادونَ الآخَرِ

عملِ صالح اور بندگئ رب میں کوشش کو اہلِ بیت کی محبت کے بھروسے پر ترک نہ کرنا اور اہلِ بیت کی محبت اور ان کی اطاعت کو عبادت کے بھروسے پر نہ چھوڑناکیونکہ ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں کیا جائے گا(بحارالانوارج ۷۵ص ۳۴۷)

۷۷

جی ہاں، محبتِ اہلِ بیت ؑ کے موثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عملِ صالح اور خدا کی بندگی کے ہمراہ ہو(۱)

اہلِ بیت ؑ سے عشق نیکیوں اور نیکوکار افراد، عملِ صالح اور صالحین کے ساتھ محبت کے ہمراہ ہونا چاہئےیہ سچی محبت کی نشانی ہےامام علی ابن الحسین زین العابدین علیہ السلام، مناجاتِ محبین میں خداوند عالم سے خدا کی محبت، خدا کے محبوں کی محبت اور ہر اس عمل سے محبت کی درخواست کرتے ہیں جو بندے کے لئے قربِ الٰہی کا باعث ہو۔

اَسْءَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ کلّ عَمَلٍ یُوصِلُنی اِلیٰ قُرْبِکَ (مناجاتِ خمس عشرہمفاتیح الجنان)

میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری محبت کا اورجو تجھ سے محبت کرتا ہے اُسکی محبت کا اور ہر اُس عمل سے محبت کاجو مجھے تیرے قرب سے ملادے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَنْ اَحَبّنافَلْیَعْمَلْ بِعَمَلِناوَلْیَتَجَلْبَبِ الوَرَع

جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، اُسے چاہئے کہ ہماری طرح عمل کرے اور پرہیز گاری کواپنا لباس قرار دے(تنبیہ الخواطرج ۲ص ۱۷۶)

محبت اور شیعیت کے ثبوت کے لئے عملی اتباع اور پیروی ضروری ہے اور شیعہ کے تو معنی ہی ہیں پیروکار اور نقشِ قدم پر چلنے والا۔

--------------

۱:-محبتِ اہلِ بیت ؑ سے متعلق احادیث کے مطالعے کے لئے کتاب میزان الحکمۃج ۳ص ۲۳۵ ملاحظہ فرمائیںاسکے علاوہ محمد محمدی ری شہری ہی کی تالیف ”اہل البیت فی الکتاب والسنۃ“بھی اس سلسلے میں ایک عمدہ ماخذ ہے۔

۷۸

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ:

اِنَّ شیعَتَنامَنْ شَیَّعَناوتَبِعَنٰا فی اَعْمالِنا

یقیناًہمارے شیعہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے اعمال میں ہماری اتبا ع اور پیروی کرتے ہیں(میزان الحکمۃج ۵ص ۲۳۲)

امامِ زمانہ علیہ السلام سے بھی روایت ہے کہ :

فَلْیَعْمَلْ کُلُّ امْرِءٍ مِنکم مایَقْرُبُ به مِنْ مَحبّتِناوَلْیَتَجَنَّبْ مٰا یُدْنیه مِنْ کَراهَتِناوسَخَطِنا

تم میں سے ہر ایک وہ عمل انجام دے جو اسے ہماری محبت سے نزدیک کرے، اور ہر اس چیز سے گریز کرے جو ہماری ناراضگی اور غضب کا موجب ہو۔ ۔ (احتجاجِ طبرسی ج۲ص ۵۹۹)

پس یہ ہمارے اچھے یا برے اعمال ہوتے ہیں جو ہمیں اہلِ بیت ؑ سے نزدیک یا اُن سے دور کرتے ہیں اورہم اُن کی نظروں میں محبوب یا قابلِ نفرت بنتے ہیںمحبت دل میں بھی ہوتی ہے اور زبان پر بھی جاری ہوتی ہے اور انسان کے عمل سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہےوہ حدیث جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ: بعض لوگ تمہیں صرف دل سے چاہتے ہیں، بعض تمہارے قلبی اور زبانی محب ہیں اور بعض دل سے بھی تم سے محبت کرتے ہیں اور زبان سے بھی تمہاری مدد کرتے ہیں اور اپنی تلواروں سے بھی تمہاری نصرت کو بڑھتے ہیں ایسے لوگوں کی جزااس (پوری) امت کی جزا کے برابر ہے(بحار الانوارج ۳۹ص ۲۸۸) یہ حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ محبت عملی پہلو بھی رکھتی ہے اور یہی محبت کی سچائی جاننے کا پیمانہ ہے۔

ائمہ معصومین علیہم السلام کااس بات پر زور دینا کہ شیعوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اچھے عمل اور کردار کے ذریعے ان کے لئے زیب و زینت کا سبب بنیں، اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے لئے شرمندگی کا باعث اور ان کے نام پر دھبہ نہ بنیں خاندانِ عصمت و طہارت سے اسی عملی محبت کی جانب اشارہ ہےاس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

۷۹

معاشرالشیعه! کونوالنازَ یناًوَلاٰ تکُونواعلینا شیناً

اے گروہِ شیعہ ! ہمارے لئے زینت بنو، بدنامی اورشرمندگی کا باعث نہ بنو(بحارالانوارج ۶۵ص ۱۵۱)

اس سے پتا چلتا ہے کہ شیعوں کا نیک عمل اوراُن کااچھا کردارلوگوں کو اہلِ بیت ؑ کی جانب مائل کرتا ہے۔

۲:-محبت کی نشانیاں

کبھی کبھی انسان خود بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہےوہ اپنے آپ کو شیعہ اور محبِ اہلِ بیت ؑ تصور کرتا ہے، جبکہ اس کا یہ خیال ایک بے بنیاد نعرے اورکھوکھلے دعوے سے زیادہ نہیں ہوتاجو شخص محبتِ اہلِ بیت ؑ کادعویدار ہواس میں محبت کی نشانیاں اور علامات تلاش کرنی چاہئیںاہلِ بیت ؑ سے سچے عشق کی علامات درجِ ذیل ہیں:

عمل اور تقویٰ

پہلے نکتے (محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا) کے ذیل میں، اس بارے میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جا چکی ہے۔

محبانِ اہلِ بیت سے محبت

اگر ہم اہلِ بیت ؑ سے عقیدت رکھتے ہیں، ان کے محب اور شیدائی ہیں، تو ہمیں اُن کے محبوں اور دوستوں سے بھی محبت کرنی چاہئےاگر ہم کسی کو پسند کرتے ہیں، تو قدرتی بات ہے کہ وہ جن امور اور جن افراد کو پسند کرتا اور ان سے محبت کرتا ہے، وہ ہمیں بھی پسند ہوں، ہم بھی ان سے خوش ہوتے ہوںعشق و محبت کے اس سلسلے کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے:

۸۰