بہترین عشق

بہترین عشق0%

بہترین عشق مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 94

بہترین عشق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام جواد محدثی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 94
مشاہدے: 37508
ڈاؤنلوڈ: 3389

تبصرے:

بہترین عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 94 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37508 / ڈاؤنلوڈ: 3389
سائز سائز سائز
بہترین عشق

بہترین عشق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خدا سے محبت

>

رسول اﷲ سے محبت

>

اہلِ بیتِ رسول سے محبت

>

شیعیانِ اہلِ بیت سے محبت۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے

مَنْ اَحَبَّ اﷲَ اَحَبَّ النَّبیَّ، وَمَنْ اَحبَّ النّبیَّ اَحَبَّنٰاوَمَنْ اَحَبَّنا اَحَبَّ شیعَتَنا (اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۴۳۱)

جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے، وہ پیغمبر سے بھی محبت کرتا ہےجو پیغمبر سے محبت کرتا ہے، وہ ہم (اہلِ بیت) سے بھی محبت کرتا ہے اور جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، وہ ہمارے شیعوں سے بھی محبت کرے گا۔

امام علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے :

مَنْ سَرَّهُ اَنْ یَعْلَمَ اَمُحِبٌّ لَنااَم مُبْغِضٌ فَلْیَمْتَحِنْ قَلبَه، فاِنْ کانَ یُحِبُّ وَلیّاً لَنا فَلَیْسَ بِمُبْغِضٍ لَناوَاِنْ کانَ یُبْغِضُ وَلیَّنٰافَلَیْسَ بِمُحِبٍّ لَنا

جو کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن، اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان لے (اور اپنے قلب سے معلوم کرے) اگر وہ ہمارے محب سے محبت کرتا ہے، تو ہمارا دشمن نہیں اور اگر ہمارے محب سے دشمنی رکھتا ہے، تو پھر ہمارا دوست نہیں(حوالہ سابق)

۸۱

امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے:

مَنْ تَوَلّیٰ مُحِبَّنافَقَداَحَبَّنا

جو کوئی ہمارے محب سے محبت کرتا ہے، وہ ہم سے محبت کرتا ہے

(بحارالانوارج۱۰۰ص ۱۲۴، ج ۳۵ص ۱۹۹)

دشمنوں سے بیزاری

جو شخص اہلِ بیت ؑ سے محبت کرتاہے، اُسکے دل میں اُن کے دشمنوں سے محبت نہیں ہو سکتیایک دل میں دو محبتیں اکھٹی نہیں ہوتیںمحبتِ اہلِ بیت ؑ کے ساتھ اُن کے دشمنوں کی محبت نہیں چل سکتیتولیٰ اورتبریٰ کی اہم بحث اسی مقام پر پیش آتی ہےشیعہ اور اہلِ بیت ؑ کا محب کسی نظریئے اورموقف کے بغیر نہیں رہتاوہ اہلِ بیت ؑ کے مخالفین سے محبت اور دوستی کا تعلق قائم نہیں کرتا۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے آیتِ قرآن:مَاجَعَلَ اﷲُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْ فِه (خدا نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیںسورہ احزاب ۳۳آیت ۴) کے ذیل میں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

۸۲

لایَجْتَمِعُ حُبُّناوحُبُّ عَدُوَّنافی جَوْفِ انسانٍ  

ایک انسان کے دل میں ہماری اور ہمارے دشمن کی محبت یکجا نہیں ہو سکتی

کیونکہ خداوند عالم نے انسان کے دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک میں اس سے دوستی ہو اور ایک میں اس سے دشمنیہمارے دوست کو چاہئے کہ اپنی محبت کو ہمارے لئے خالص کرے، اسی طرح جیسے سونا آگ میں پڑ کرخالص اور بے آلائش ہو جاتا ہےپس جو کوئی (اپنے دل میں) ہماری محبت کو جاننا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان کرےاگر اس کے دل میں ہماری محبت کے ساتھ ہمارے دشمن کی محبت بھی ہو، تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں اور ہم بھی اس سے نہیں(نہ اس کا ہم سے تعلق ہے اور نہ ہمارا اس سے تعلق) (اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۴۲۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک شخص کے جواب میں، جو یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص آپ ؑ کی ولایت و محبت رکھتا ہے لیکن آپ ؑ کے دشمنوں سے بیزاری کے معاملے میں سست ہے، فرمایا:

هَیهات! کَذِبَ مَنِ ادّعیٰ مَحَبَّتناوَلَمْ یَتَبرَّءْ مِن عَدُوِّنا

افسوس !ایسا شخص جھوٹ بولتا ہے جو ہماری محبت اور ولایت کا دعویدار ہے لیکن ہمارے دشمن سے بیزارنہیں(حوالہسابق)

۸۳

مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا

محبانِ اہلِ بیت ؑ کو مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا چاہئےیہ اس بات کی ایک اوردلیل ہے کہ محبت اور ولایت اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک اس کا دعویدار مشکلات اٹھانے اور صعوبتیں جھیلنے کے لئے تیار نہ ہوحضرت علی علیہ السلام کے بقول:

مَنْ اَحَبَّنااهلَ البیتِ فَلْیَسْتَعِدَّ عُدّةً لِلبَلاءِ

جو شخص ہم سے محبت کرتا ہے، اُسے چاہئے کہ مشکلات جھیلنے کے لئے تیار رہے(حوالہسابق ص ۴۳۵)

عشق و محبت کا راستہ دشوار، پر خطر اور بلاؤں سے بھراراستہ ہےسچا عاشق کبھی ان مشکلات، دشواریوں اور بلاؤں سے راہِ فراراختیار نہیں کرتا، بلکہ بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کرتا ہے اور راہِ محبت میں تکلیف اُسکے لئے لذت و سرور بخش ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خونِ دل پینا اور مصیبتیں جھیلنا عشق کی ایک علامت ہےہمیشہ ولااور بَلا، عشق اور سختی ساتھ ساتھ رہتے ہیں البلاء للوِلاء۔

۳:- غلو سے پرہیز

محبت کے راستے کی ضرر رساں چیزوں میں سے ایک چیز عقیدے کے بارے میں اور اہلِ بیت ؑ سے اظہارِ محبت میں غلو (حد سے زیادہ بڑھ جانا) اور افراط ہےخود ائمہؑ اپنے زمانے میں غلو کی مشکل سے دوچار رہے تھے اور ان لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے جو ان کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور ایسے افراد سے بیزاری کا اظہار کرتے تھےاس حوالے سے بکثرت احادیث موجود ہیں، جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ حدیث کہ :

۸۴

اِحْذَرُواعَلیٰ شَبابِکُم الغُلاةَ لا یُفسِدونَهم، فاِنَّ الغُلاةَ شرُّخلقِ اﷲ، یُصَغِّرونَ عَظَمَةَ اﷲِ ویَدَّعُونَ الرّبُوبیّة لِعبادِاﷲ

اپنے جوانوں کو غالیوں سے بچا کے رکھوکہیں وہ انہیں خراب نہ کر دیںغالی لوگ خدا کی بد ترین مخلوق ہیں، وہ خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے مقامِ ربوبیت کادعویٰ کرتے ہیں

(طوسی ص ۶۵۰ (امالئ

مدح و ستائش میں افراط اور پیغمبرؐ اور ائمہؑ کو مقامِ الوہیت اور ربوبیت تک پہنچا دینا ”غلو“ ہےمحبت کو غلو سے آلودہ نہیں ہو نا چاہئےکیونکہ غلو باعثِ ہلاکت ہےامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

هَلَکَ فِیَّ رَجُلانِ :مُحِبٌّغالٍ ومُبغِضٌ قالٍ

میرے بارے میں دوطرح کے لوگ برباد ہوئے ہیں: غلو کرنے والے دوست اور کینہ رکھنے والے دشمن(نہج البلاغہکلماتِ قصار۱۱۷)

پیغمبر اور ائمہ، نبی اور امام ہونے سے پہلے ”عبداﷲ“یعنی خدا کے بندے ہیں، جو پروردگار پر ایمان رکھتے ہیںخود انہوں نے فرمایا ہے کہ ہمیں حدِ ربوبیت سے نیچے رکھو، پھر ہمارے بارے میں جو چاہو کہوحضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

ایّاکُمْ وَالغُلُوَّفینا، قُولوا: اِنّاعَبیدٌمَربُوبُونَ وقولوافی فَضْلِنٰامٰا شِءْتُم

ہمارے بارے میں غلو سے پرہیز کرویہ عقیدہ رکھو کہ: ہم پروردگارِ عالم کے تحتِ اختیاربندے ہیںپھر اس کے بعد ہماری فضیلت میں جو چاہو کہو(اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۵۳۱)

۸۵

اسلامی تاریخ میں غلو کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوئے ہیں اس غلو کا اظہار اکثر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کیا گیا ہےامیرالمومنین علیہ السلام نے اس گمراہی اور فکری انحراف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

مَثَلی فی هٰذِهِ الأُمَّةِ مَثَلُ عیسَی بنِ مریمَ، اَحَبَّهُ قَوْمٌ فَغٰالُوافی حُبِّهِ فَهَلکواوَاَبْغَضَهُ قومٌ فَهَلکوا

اس امت میں میری مثال عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی سی ہےایک گروہ نے ان سے محبت کی اور اس محبت میں غلو اور افراط کی وجہ سے ہلاکت سے دوچار ہواجبکہ دوسرا گروہ ان سے بغض و عداوت کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوا(بحارالانوارج ۳۵ص ۳۱۵)

محبت میں افراط، حق سے دوری کا باعث ہےحضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک کلام میں نہروان کے خوارج کو خطاب کر کے فرمایاہے:

میرے حوالے سے دو گروہ ہلاکت کا شکارہوں گے: ایک مجھ سے محبت میں حد سے بڑھ جانے والے، جنہیں ”محبت“ ناحق راہ کی طرف لے جائے گیاوردوسرے مجھ سے دشمنی میں حد سے گزر جانے والے(بحارالانوارج ۳۳ص ۳۷۳)

محبت میں غلو اور ائمہؑ کوخدا سے نسبت دینا، ایک قسم کی بدعت اور شرک ہے، جس کا ارتکاب تاریخِ اسلام میں نادان دوستوں یا کٹّر دشمنوں نے کیا ہے اور جو شیعوں اور ائمہؑ کے لئے دردِ سر بنے ہیں اورآج بھی ایسے عقائد و رجحانات شیعیت پر حملے اور اعتراض کے لئے دشمنوں کا ہتھیار ثابت ہوتے ہیںدشمنانِ اہلِ بیت خود اس قسم کے افکار و خیالات کی نشر و اشاعت میں مددگار رہے ہیں

۸۶

 اور آج بھی اس سلسلے میں تعاون کرتے نظر آتے ہیںکیونکہ وہ اس طرح شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے سامنے لاتے ہیں(۱)

البتہ ایک دوسری جانب سے ایک اور خطرہ بھی موجود ہےبعض علاقوں اور محافل میں، غلو کے خطرے کے خوف سے اہلِ بیت ؑ کے اُن فضائل اور مناقب کا بیان بھی ترک کیا جا رہا ہے جو یقینی اور معتبر روایات کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں اور ہر اس فضیلت کو غلو کے نام سے مسترد کیا جارہا ہے جو عقلِ بشر سے معمولی سی بھی ہم آہنگ نہیںیہ طرزِ عمل بھی درست نہیں اور دشمن ہم سے یہی چاہتاہے۔

شیعیت کے مخالفین ہم پر غلو کا الزام لگاتے ہیںلہٰذا ہمیں چاہئے کہ غلو سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ اور عقیدے میں انحراف کا شکار ہوئے بغیراپنے مخالفین کے الزامات کی رد میں جواب بھی ہمارے پاس موجودہو اور ہم ”غلو“ اور ”فضائل“ کے بیان کے درمیان حد کوبھی جانتے ہوں، تاکہ ان کے شبہات کو دور کر سکیں۔

بہرحال ہمیں چاہئے کہ نوجوانوں اور بچوں کی فکری سطح اور ان کی ذہنی صلاحیت کوپیش نظر رکھیں اور ان کے سامنے ایسی احادیث اور فضائل بیان کریں، جو ان کے لئے قابلِ فہم اور قابلِ ہضم ہوںصرف اس بنیاد پرکسی بات کو عام افراد کے سامنے بیان کرنے کا جواز فراہم نہیں ہوتا کہ یہ بات حدیث میں موجود ہےکبھی کبھی سننے اور پڑھنے والوں کے لئے فکری کشش نہ رکھنے کی وجہ سے کوئی بات ان کے ذہن میں شک و شبہ پیدا کر دیتی ہے اور وہ اصلِ دین اور عقائد کے منکر ہو جاتے ہیں۔

--------------

۱:- اس بارے میں تحقیق کے خواہشمند حضرات علامہ اسد حیدر کی تالیف ”امام جعفر الصادق والمذاھب الاربعہجلد۴صفحہ ۳۶۹“ پر مشکلۃ الغُلاۃ کے عنوان سے گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔

۸۷

ایک میدان دو حملے

کیونکہ محبتِ اہلِ بیت پیدا کرنا ایک فکری عمل اور اغیار کی فکری و ثقافتی یلغار کے مقابل دفاعی بند باندھنا ہےلہٰذا اس گفتگو کی تکمیل کی خاطر یہ تحریر بھی کتاب میں شامل کی جا رہی ہے، جس میں فوجی اور ثقافتی حملوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔

نہ تو سرحد صرف بحری اور برّی ہوتی ہے، نہ حملہ صرف زمینی اور فضائی

نہ یلغار صرف فوجی ہوتی ہے، نہ شکست اور نقصان فقط مادّی

ثقافتی یلغار، فوجی حملے سے زیادہ خطرناک چیز ہے

فوجی حملے کا مقصد زمین پر قبضہ کرنا ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار دین اور اخلاق کو نقصان پہنچانے کے لئے ہوتی ہے

فوجی یلغارانتہائی تیز ی اور شور و غل کے ساتھ ہوتی ہے، جبکہ ثقافتی یلغار نہایت خاموشی اورآہستگی کے ساتھ

فوجی حملہ خوفزدہ کردینے والا اور نفرت انگیز ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار فریب دینے والی اور پرکشش ہوتی ہے

فوجی حملے کے مقابل لوگ اپنادفاع کرتے اوراس سے مقابلہ کرتے ہیں، جبکہ ثقافتی یلغار کا استقبال کرتے اوراسے خوش آمدید کہتے ہیں

فوجی حملے کے دوران مارا جانے والا شہید ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار کے نتیجے میں مرنے والا پلید

شہادت لوگوں کے لئے محبوب ہوتی ہے، لیکن گمراہی نفرت انگیز

فوجی یلغار میں دشمن اپنی دشمنی اور جنگ کا اعلان کرتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار میں دشمن اعلانِ دوستی کیا کرتا ہے

فوجی حملے میں پہلافائر ہوتے ہی لوگ خطرے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیںلیکن ثقافتی یلغار میں جب تک دشمن اپنا آخری ہتھیار استعمال نہیں کرلیتا، اُس وقت تک بہت سے لوگ یہ ماننے ہی کو تیار نہیں ہوتے کہ اُن پر حملہ ہوا ہے

فوجی حملہ ظاہروآشکارا ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغارپوشیدہ و پنہاں

۸۸

فوجی حملے کے نتیجے میں زمین چھنتی ہے، اور ثقافتی یلغارمیں دین اورعزت وآبرو ہاتھ سے جاتی ہے

فوجی حملے میں محاذوں پر دشمن کے ساتھ نبرد آزمائی ہوتی ہے، ثقافتی یلغار میں دشمن گھروں کے اندر حملہ آورہوتا ہے

فوجی حملے میں بم برستے ہیں، ثقافتی یلغار میں شکوک و شبہات کی بارش ہوتی ہے

فوجی حملے کا اسلحہ میزائل اور بم ہوتے ہیں، ثقافتی یلغار میں مصنوعی سیارے اور مواصلاتی موجیں کام کرتی ہیں

فوجی حملے میں چھاؤنیاں، ہوائی اڈے، سڑکیں اور مورچے نشانے پر ہوتے ہیں، جبکہ ثقافتی یلغار میں تعلیمی اداروں، مطبوعات، افکار اور عقائد کونشانہ بنایا جاتا ہے

فوجی حملے کے دوران پہاڑوں، میدانوں اور سمندروں میں مقابلہ ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار میں رسائل، جرائد، فلموں، ڈراموں اور ناولوں میں جنگ آزمائی ہوتی ہے

فوجی میدانِ جنگ محدود ہوتاہے، ثقافتی جنگ کا میدان انتہائی وسیع وعریض

عسکری میدان میں ہونے والا نقصان ظاہر اورنظر آنے والا ہوتاہے، ثقافتی میدان میں ہونے والی بربادی اکثر لوگوں کو نظرہی نہیں آتی

عسکری میدان کے اسیر جنگی قیدی بنتے ہیں، جبکہ ثقافتی میدان کے گرفتار شدگان غافل اورگمراہ

عسکری میدان میں شہادت ملتی ہے، جوپسماندگان کے سر بلند کر دیتی ہے، جبکہ ثقافتی میدان کے متاثرین کا غافل اور گمراہ ہوجانااُن کے اہلِ خانہ کے لئے شرمناک ہوجاتا ہے

شہید کے باپ کاسر بلند ہوتا ہے، جبکہ گمراہ شخص کاباپ نادم و شرمندہ

فوجی میدان میں زخمی ہونے والے کوعلاج معالجے کے لئے پچھلے مورچوں میں بھیج دیا جاتا ہے، جبکہ ثقافتی میدان میں پہلا زخم کھاتے ہی انسان اگلی صفوں میں چلا جاتا ہے

۸۹

عسکری میدان میں برسنے والی گولیاں اور گولے جسموں کو زخمی اور معذور کرتے ہیں، جبکہ غلیظ ثقافت کا مہلک وائرس ایمان اور افکار کو نقصان پہنچاتا ہے

فوجی حملے میں دشمن بَرّی اور بحری سرحدوں سے داخل ہوتا ہے، ثقافتی یلغار میں فکری اور روحانی سرحد وں سے

عسکری میدان میں جسے چوٹ لگتی ہے اُس میں مقابلے اور دشمنی کے جذبات بھڑکتے ہیں، جبکہ ثقافتی یلغار میں زخمی ہونے والا اپنے ہتھیار چھوڑ کر گھٹنے ٹیک دیتا ہے

ایک شہید کی تشیعِ جنازہ پورے شہرے میں ولولہ پیدا کر دیتی ہے، اور ایک نسل کی گمراہی معاشرے کی روح کوافسردہ کر دیتی ہے

فوجی یلغار قوم میں مقابلے کا جذبہ پیدا کرتی ہے، جبکہ ثقافتی یلغار اسے مزید سست بنا

دیتی ہے

عسکری میدان گولوں کی گھن گھرج سے گونج رہا ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی میدان پردلکش آوازوں کا سرور چھایاہوا ہوتا ہے

میدانِ جنگ میں انسان خدا تک پہنچنے کے لئے خودکو فدا کردیتا ہے، جبکہ ثقافتی میدان میں اپنے نفس کی تشفی کے لئے خداکو قربان کردیتا ہے

میدانِ جنگ میں قربان ہونے والے بھلائی کی راہ کے شہید ہیں، جبکہ ثقافتی میدان کے مارے جانے والے برائیوں اور گمراہیوں کی راہ کے مردار۔

ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ثقافتی محاذ کے زخمی نہ ہوں

اور اگر خدانخواستہ ہمیں کوئی زخم لگے بھی، توبلاتاخیر توبہ کی علاج گاہ میں آجائیں، تاکہ جلد از اس کی تلافی ہوجائے

کیا ہم اپنی روح اور فکرکی سلامتی کوجسم کی سلامتی کے برابربھی اہمیت دیتے ہیں؟

۹۰

فہرست

پیش گفتار 2

دین میں محبت کا مقام 5

اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں. 10

1:- مودت و محبت. 10

2:- ان سے وابستہ رہنا 11

3:- ان کی ولایت و رہبری قبول کرنا 11

4:- انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا 12

5:- دینی و دنیاوی امور میں ان کی اقتدا 12

6:- ان کی تکریم و احترام 12

7:- اپنے اموال اورآمد نیات میں سے خمس ادا کرو 13

۹۱

8:- ان سے اوران کی ذرّیت سے حسن سلوک اوران سے وابستہ رہنا 13

9:- ان پر درود و سلام بھیجنا 13

۱۰:- ان کا اور ان کے فضائل کا تذکرہ کرنا 14

۱1:- ان کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کرنا 14

12:- ان کی قبور مطہر کی زیارت کو جانا 15

محبت پیدا کرنے کے طریقے 16

۱:- بچپنے سے پہلے کا دور 17

۲:- آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق. 20

۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ 22

۴:- شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا 25

5:- حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا 32

6:- اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا 35

۹۲

۷:- محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا 42

8:-تعظیم و تکریم اور تعریف.. 47

9:- مراسم کا انعقاد اور شعائر کی تعظیم 53

۱۰:- طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ 55

۱۱:- ولئ نعمت کا تعارف.. 59

۱۲:- اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر 62

۱۳:- اپنی روزمرہ کی خوشیوں کو حیاتِ ائمہؑ سے منسلک کرنا 66

۱۴:- محبت کم کرنے والی چیزوں سے پرہیز 67

۱۵:- روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا 69

۱۶:- کتابوں کا تعارف اور مقالات و اشعارتحریر کرنا 72

۱۷:- محبانِ اہلِ بیت ؑ کے قصے 73

۱۸:- انجمن سازی. 74

۹۳

چند تکمیلی نکات. 75

۱:-محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا 75

۲:-محبت کی نشانیاں. 80

عمل اور تقویٰ. 80

دشمنوں سے بیزاری. 82

مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا 84

۳:- غلو سے پرہیز 84

ایک میدان دو حملے 88

۹۴