عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف0%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمدمحمدی اشتہاردی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 177
مشاہدے: 81552
ڈاؤنلوڈ: 4125

تبصرے:

عباد الرحمٰن کے اوصاف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81552 / ڈاؤنلوڈ: 4125
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عباد الرحمٰن کے اوصاف

تالیف: محمدمحمدی اشتہاردی

ترجمہ: سید سعیدحیدر زیدی

۱

عرض ناشر

قرآن کریم انسانوں کی ہدایت اور ان کی رہنمائی کے لیے نازل ہونے والی کتاب ہےاس کا مخاطب عالمِ انسانیت ہےاس میں انسان کی خلقت، اسکی خصوصیات، اسکی منزلت، اس کے مقصد ِتخلیق اور اسکی ہدایت و رہنمائی سے تعلق رکھنے والے تمام امور کا تذکرہ ہوا ہےاسی کتاب ِ ہدایت میں ان پسندیدہ صفات و خصوصیات کو بھی بیان کیا گیا ہے جو خداوند ِعالم انسان میں دیکھنا چاہتا ہے، اور پرودگارِ عالم کی نظر میں ناپسندیدہ صفات بھی اس میں بیان کی گئی ہیںوہ امور بھی بیان ہوئے ہیں جن کی جانب ربُ العالمین نے انسانوں کو شوق و رغبت دلائی ہے، اور ایسے امور سے اجتناب کی تاکید بھی کی گئی ہے جو دنیا اور آخرت میں انسان کی تباہی و بربادی کی وجہ بنتے ہیں۔

زیر نظر تالیف قرآنِ مجید کے پچیسویں سورے، سورئہ فرقان کی آخری چند آیات کی تشریح و تفسیر پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہےان آیات میں خداوند ِعالم نے اپنے خاص اور ممتاز بندوں کو عبادالرحمن قرار دیتے ہوئے ان کی بارہ خصوصیات کا ذکر کیا ہے، اور ان کے انفرادی واجتماعی کردار کی تصویر کشی کی ہے۔

حوزئہ علمیہ قم کے ممتاز اساتید میں شمار ہونے والے حجۃ الاسلام محمد محمدی اشتہاردی نے یہ مضامین حوزئہ علمیہ قم سے شائع ہونے والے ماہنامے ” پاسدار اسلام“ کے لیے تحریر کیے جن کا اردو ترجمہ ” دوماہی رسالت کراچی“ میں قسط وار شائع کیا گیااب ان مضامین کو کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے امید ہے دارالثقلین  کی دوسری کتب کی طرح یہ کتاب بھی قارئین میں پسند کی جائے گی۔

۲

تواضع و انکسا ری

قرآنِ مجید کی سورئہ فرقان میں خداوند ِعالم نے عبادالرحمٰن (خدا کے خاص بندوں) کی تعریف و ستائش کی ہے اور اس سورے کی آیات نمبر ۶۳سے۷۴ تک میں اپنے ان بندوں کی بارہ خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ دیا ہے کہ:اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا (یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے صبرو استقامت کی وجہ سے (جزائے الٰہی کے طور پر) بہشت کے بلند محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم و سلام پیش کیے جائیں گےسورئہ فرقان۲۵آیت ۷۵)

عباد الرحمٰن کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ ان بارہ خصوصیات و امتیازات کا ذکر کریں، اور بارہ علیحدہ علیحدہ مضامین کی صورت میں ان میںسے ہر خصوصیت کو مختصراً بیان کریں، اس امید کے ساتھ کہ ان اعلیٰ اقدار و صفات سے متصف ہوکر ہم بھی کمال کے مدارج طے کرسکیں اور عبادالرحمٰن یعنی خداوند ِسبحان کے خاص اور ممتاز بندوں کی صف میں شامل ہوسکیں۔

۳

پہلی خصوصیت: تواضع و انکساری

قرآنِ مجید خداوند ِعالم کے خاص بندوں کی پہلی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا ( وہ جو زمین پر آہستہ آہستہ چلتے ہیںسورہ فرقان ۲۵آیت ۶۳) یعنی عبادالرحمٰن وہ لوگ ہیں جو آہستہ قدموں اور کسی قسم کے غرور تکبر کے بغیر زمین پر چلتے ہیں۔

تواضع کے معنی ہیں، عاجزی و انکساریجبکہ اس کی ضد تکبر اور خود پسندی ہے جو غرور، غفلت اور سرکشی کی وجہ بنتی ہے، جس کی بنا پر انسان گمراہ، بے راہ رو اور تباہ ہوجاتا ہے۔

تواضع و انکساری دو طرح کی ہوتی ہے:

۱:- خدا کے سامنے عاجزی و انکساری، جو عبودیت و بندگی کے بنیادی خواص میں سے ہے، اور جس کے بغیر بندگی کا جوہر پیدا نہیں ہوتا۔

۲:- با ایمان انسانوں کے ساتھ انکساری اور فروتنی سے پیش آنایا اُن انسانوں کے سامنے تواضع و فروتنی جن کے مقابل عاجزی و انکساری کا اظہار مثبت اثرات کا حامل ہوتا ہے اور ان میں اعلیٰ اقدار و صفات کی جانب رغبت کا سبب بنتا ہے۔

۴

خدا کے مقابل تواضع و انکساری

خدا کے سامنے عاجزی اور انکساری کی علامت یہ ہے کہ انسان اسکے فرامین تسلیم کرے، اسکی اطاعت بجالائے اور اسکی عظمت کے سامنے انتہائی خضوع و خشوع کا اظہار کرےاس پر یہ کیفیت اس حد تک طاری ہوکہ اسے جو کچھ حاصل ہے اُس سب کو خدا کی طرف سے سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اسکی مخلوقات میںسے ایک ناچیز ذرّہ سمجھےبے چوں و چرا اسکا شاکروسپاس گزار رہے اور خدا کی مرضی کے سامنے اپنی کسی بھی قسم کی مرضی چلانے سے پرہیز کرے۔

خداوند ِعالم کے سامنے عاجزی و انکساری، ایمان و معرفت کی کنجی اور درگاہِ حق اور تقرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہےاس کے برعکس خدا کے سامنے تکبر اور گھمنڈ اس سے سرکشی اور بغاوت کا موجب اور ہر قسم کی بدبختی اور گمراہی کا سبب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ پروردگارِ عالم کی عظمت و بزرگی کے مقابل انتہائی تواضع و عاجزی کے حامل تھے، یہاں تک کہ جب خدا نے انہیں اختیار دیا کہ رسول اور بندہ بن کر رہیں یا رسول اور بادشاہ بن کر ہر صورت میں خدا کے نزدیک ان کے مقام میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، تب بھی آنحضرتؐ نے بندگی اور رسالت کا انتخاب کیا اور خدا کا عاجزبندہ اور رسول بننا پسند کیا، رسول اور بادشاہ بننا قبول نہ کیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:مااکل رسول الله(ص) متّکناً منذبعثه الله عزّوجلّ نبیّاً حتّی قبضه الله الیه، متو اضعاًلله عزّوجلّ (جب سے رسول اللہ رسالت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، اس وقت سے اپنی عمر کے اختتام تک خداوند ِ عالم کے مقابل عاجزی و انکساری کی بناپر کبھی آپ نے کسی چیز پر ٹیک لگا کر غذا تناول نہیں فرمائیکحل البصرص ۱۰۰، ۱۰۱از محدث قمی)

۵

ایک دن آنحضرتؐ چند غلاموں کے ساتھ زمین پر تشریف فرما، کھانا کھانے میںمشغول تھے کہ وہاں سے ایک گستاخ عورت کا گزرہواآنحضرتؐ کو اس طرح تشریف فرمادیکھ کر اس عورت نے کہا :اے محمد! خدا کی قسم آپ بندوں (غلاموں) کی مانند کھانا کھارہے ہیں اور انہی کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں (آپ کی روش اور انداز بادشاہوں اور حکمرانوں کا سانہیں ہے) پیغمبر اسلام ؐ نے اسے جواب دیا :ویحک ایّ عبداعبدمنّی (وائے ہوتجھ پر، کونسا بندہ مجھ سے بڑھ کر بندہ (غلام) ہوگاحوالہ سابق ص ۱۰۱)

خداوند ِعالم کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی تواضع و انکساری کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ آپ کثرت کے ساتھ غربا اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھےایک دن ایک شخص نے تنقید کے طور پر آپ سے عرض کیا :آپ اس قدر افراط کے ساتھ صدقہ کیوں دیا کرتے ہیں، اپنے لیے کوئی چیز کیوں نہیں بچاتے؟ آپ نے جواب دیا:ہاں!خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ خداوند ِعالم میرے انجام دیئے ہوئے کسی عمل یا فریضے کو قبول کررہا ہے، تو میں اس افراط کے ساتھ خرچ کرنے سے پرہیز کرتالیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرے اعمال بارگاہِ الٰہی میں قبول ہورہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ مجھے اس بارے میں اطلاع نہیں اس لیے (راہ خدا میں) اس قد ر خرچ کرتا ہوں، تاکہ ان میں سے کوئی ایک قبول ہوجائے ( الغاراتج ۱۔ ص۔ ۹۱۔ از ابراہیم بن محمد ثقفی)

یہ واقعہ خداو ند ِبزرگ و برتر کے مقابل حضرت علی علیہ السلام کی انتہائی تواضع و انکساری اور آپ کےخضوع و خشوع کو ظاہر کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ آپ توحید ِافعالی کی عظیم بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے انتہائی ناچیز سمجھتے تھے۔

پاک و پاکیزہ عارف ” ورام ابن ابی فراس“ بیان کرتے ہیں کہ ایک شہر میں اولیااللہ میں سے ایک عمر رسیدہ بزرگ رہا کرتے تھےاس شہر میں زلزلہ اور طوفان آیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے اور بہت سے بے گھر ہوکر مصائب و ابتلا کا شکار ہوگئےان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور مشکلات کے حل کے لیے ان سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

۶

یہ لوگ جمع ہوکر ان پارسابزرگ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور اپنی بدحالی اور ابتر صورتحال کا ذکر کیا، اور ان سے دعا کی درخواست کییہ بزرگ خدا کے سامنے انتہائی فروتنی اور عاجزی کا اظہار کرنے لگے اور روتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:کہیں ایسا نہ ہوکہ میں خود ہی اس ہلاکت اور تمہارے مصائب کا ذمے دار ہوںلہٰذا اس فقیر ناچیز او رگناہ گار سے دعا اور اسکی استجابت کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ (تنبیہ الخواطر۔ ص ۳۰۳ازورام بن ابی فراس)

جی ہاں! پاک و پاکیزہ عرفا اور اولیاء اللہ پروردگارِ عالم کی عظمت کے سامنے اس انداز سے خاضع و متواضع ہوتے ہیںکیا خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ:يٰاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَى اللهِ (اے انسانوں! تم سب اللہ کے محتاج ہوسورہ فاطر۳۵۔ آیت ۱۵)

امام زین العابدین علیہ السلام اپنی ایک دعا کے ایک حصے میں خداوند ِمتعال سے عرض کرتے ہیں کہ :یا غنی الاغنیاء ها، نحن عبادک بین یدیک، وانا افقر الفقرائ الیک، فاجبر فاقتنا بوسعک (اے بے نیازوں میں سب سے زیادہ بے نیاز! اب ہم تیرے بندے، تیری بارگاہ میںحاضر ہیں اور تیرے فقیروں میں سب سے زیادہ فقیر میں ہوں پس ہماری تہی دستی کا اپنی تونگری کے ذریعے ازالہ فرماصحیفہ سجادیہ۔ دعا۱۰)

۷

لوگوں کا آپس میں انکساری سے پیش آنا

تواضع و انکساری کی ایک قسم دوسرے انسانوں کے ساتھ، والدین کے ساتھ، ہمسایوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ اور عام لوگوں کے ساتھ انکساری اور عاجزی سے پیش آنا ہے۔

عاجزی و انکساری کا طرزِ عمل انسانوں کے باہمی تعلقات میں استحکام اور ان کے درمیان محبت و الفت میں اضافے کا موجب ہوتا ہےجس کے نتیجے میں ان کے مابین خلوص و صفامیں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشرے سے ہر قسم کی کدورت، بدگمانی اور دوسرے مذموم اثرات مثلاً غرور و تکبر اور خود پسندی ختم ہوجاتے ہیں۔

عاجزی و انکساری، معاشرے میں انسان کے احترام اور اس کے وقار کی بلندی کا سبب بن کر باہمی اعتماد اور سکون وراحت کا باعث بنتی ہے۔ یہ صفت انسان کے اخلاق کو زینت بخشتی ہے اور اچھے تعلقات اور مخلصانہ روابط کو مضبوط کرتی ہے، انسانوں کو حق کے سامنے تسلیم کرکے ہر قسم کی جارحیت اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے سے روکتی ہےمختصر یہ کہ عاجزی، انکساری اور فروتنی بہت سی انفرادی و اجتماعی، معنوی و اخلاقی برکات کا سرچشمہ ہے۔

قرآن کریم نے، زیر بحث آیت میں اس اخلاقی صفت کو خدا کے ممتاز بندوں کی اوّلین خصوصیت قرار دیا ہے اور اس کی علامت ” انکساری اور آہستگی سے چلنا“ ہے جو دوسروں کے دل میں محبت اور پسندیدگی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :علما کی ہمنشینی تمہیں تین چیزوں سے دوسری تین چیزوں کی جانب لے جاتی ہے: (۱) تکبر سے تواضع و انکساری کی طرف(۲) بے تعلقی سے احساس ذمے داری اور نصیحت کرنے کی طرف(۳) جہل و نادانی سے علم و دانش کی طرف (مجموعہ ورام۔ ص۲۳۳)

۸

البتہ تواضع و انکساری کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں، ان میں سے ایک واضح ترین صورت راستہ چلنے کا انداز ہےبعض افراد غرور اور تکبر کی بنا پر اس انداز سے چلتے ہیں جیسے زمین کا سینہ چاک کردینا چاہتے ہوںیہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں حضرت لقمان کی اپنے فرزند کو کی جانے والی نصیحتوں میں آیا ہے کہ آپ نے اس سے فرمایا:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ

اور خبردار لوگوں کے سامنے اکڑ کر ان سے منھ نہ پھیر لینا اور زمین پر غرور کے ساتھ نہ چلنا کہ خدا اکڑنے والے اور مغرور کوپسند نہیں کرتاسورئہ لقمان ۳۱۔ آیت ۱۸

خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلامؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا

اور روئے زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کہ نہ تم زمین کو شق کرسکتے ہو اور نہ سراٹھا کر پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہوسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۷

سچ ہے، اگر انسان خود اپنے آپ اور کائنات کے بارے میں معمولی سی معرفت وشناسائی بھی رکھتا ہو تو جان لیتا ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات کے مقابل وہ کس قدر معمولی او ر حقیر ہے، خواہ اگر وہ اپنی گردن لمبی کرتے ہوئے پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی چھولےجبکہ حال یہ ہے کہ زمین پر موجو بلند ترین پہاڑ بھی زمین کی عظمت کے سامنے کچھ نہیں اور خود زمین عظیم کہکشائوں کے سامنے ایک ناچیز ذرہ ہے۔

یہ سب جاننے کے باوجود انسان کا کبروغرور میں مبتلا ہونا کیا اس کے مطلق جہل و نادانی کی دلیل نہیں؟

۹

مختصر یہ کہ تواضع و انکساری اور عاجزی وخاکساری کا اظہار متقین کے خاص امتیازات میں سے ہےامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے متقین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

ومشیهم التّواضع

اور ان کی چال منکسرانہ ہوتی ہےنہج البلاغہ خطبہ۱۹۲

رسولِ کریم ؐکی انکساری کی ایک جھلک

سیرت نویسوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِطیبہ میں لکھا ہے کہ: ایک دن آنحضرتؐ ایک گروہ کے پاس گئے (وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے)آنجناب کو اپنے درمیان دیکھ کر وہ لوگ احتراماً ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئےرسول کریمؐ نے اُن کے اِس عمل کو پسند نہ کیا اور فرمایا: اِس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح اہلِ عجم ایک دوسرے کی تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

انس بن مالک کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعدلوگ رسول ؐاللہ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرؐت کو یہ بات پسند نہیں آنحضرتؐ جب کسی مجلس میں آتے تو اس مجلس میں کمتر درجے کی جگہ پر تشریف فرماہوتے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام کی انکساری اور عاجزی میں سے یہ بھی ہے کہ آپؐ برہنہ پشت گدھے پر سوار ہونا اور خاک پر بیٹھنا پسند فرماتے تھےآپؐ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر غذا تناول فرماتے اور سائلوں کوخود اپنے ہاتھوں سے کھانا پہنچاتے آپؐ گدھے پر سوار ہوتے اور اپنے غلام یا کسی دوسرے شخص کو اپنے پیچھے بٹھاتے۔

۱۰

آنحضرتؐ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ انتہائی انکساری کے ساتھ دسترخوان پر تشریف فرما ہوتے، اور کھانا کھاتے ہوئے اپنی انگلیوں کو چاٹتے جاتے۔ اپنے مویشیوں کا دودھ خود دوہتے اور اپنے پھٹے کپڑوں اور جوتوں کی سلائی خود کرتےگھر میں جھاڑو لگاتے اور اپنے اونٹ کوخود اپنے ہاتھوں سے اصطبل میں باندھتے، اپنے گھریلو ملازم کے ساتھ مل کر گندم اور جو پیستے، اس کے آٹے کو خمیر کرتے، گھریلو ضروریات کی اشیا بازار سے خرید فرماتے اور انہیں اٹھا کر گھر تک لاتےفقرا کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ غذا تناول فرماتے، اور خود اپنے ہاتھوں سے انہیں کھانا دیتے۔ (کحل البصر۔ ص ۱۷۷از محدث قمی)

ایک روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک گلی سے گزررہے تھےآپ ؐنے دیکھا کہ کچھ لوگ ہجوم لگائے کھڑے ہیںنزدیک تشریف لے گئے اور فرمایا: کیا بات ہے، کیا ہورہا ہے؟ لوگوں نے ایک شخص کی جانب اشارہ کیا اور کہا :یہ ایک دیوانہ ہے، جو اپنی مضحکہ خیز حرکات اور باتوں سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیےہوئے ہےلوگ اس کا تماشا دیکھنے کے لیے یہاں جمع ہیں۔

پیغمبر اسلامؐ نے ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ان سے فرمایا:یہ شخص بیماری میں مبتلا ہےکیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمھیں حقیقی دیوانے سے متعارف کرائوں؟ ان لوگوں نے کہا: جی ہاں آپؐ نے فرمایا: المتبختر فی مشیہ، النّاظر فی عطفیہ، المحّرک جنبیہ بمنکبیہ الّذی لایر جی خیرہ، ولا یومن شرّہ (حقیقی دیوانہ وہ شخص ہے جو تکبر اور غرور کے ساتھ راستہ چلتا ہے، مسلسل اپنے دائیں بائیں دیکھتا جاتا ہے اور اپنے پہلوئوں کو اپنے شانوں سے ہلاتا جاتا ہے(صرف اپنے آپ میں مگن رہتا ہے) لوگوں کو اُس سے خیر کی کوئی امید نہیں ہوتی اور اُسکے شر سے امان میں نہیں ہوتےالمواعظ العددیہ۔ ص ۱۷۵۔ ازشیخ حرعاملی)

۱۱

حضرت علیؑ کی تواضع اور انکساری کی ایک جھلک

حضرت علی علیہ السلام بھی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں انتہائی حد تک تواضع و انکساری کو ملحوظ رکھتے تھےآپؑ اِس قدر فروتن اور خاکسار تھے کہ پیغمبر اسلامؐ نے آپ ؑکو ابو تراب کہا اور آپ ؑکو پسند تھا کہ لوگ آپ ؑکو اِس نام سے پکاریں۔

تاریخ میں آیا ہے کہ ” غزوہ عُشَیرہ“ کے موقع پر جب اسلامی سپاہ محاذ پر پہنچیں اور دشمنوں اور شرپسندوں کو اِس علاقے سے نکال دیا تو حضرت عماریاسر کے بقول:ہم اس محاذ پر ایک بیابان میں تھےحضرت علی ؑنے مجھ سے فرمایا:کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان کسانوں کے پاس چلیں جو (اس علاقے کے نزدیک) اس چشمے کے کنارے کام میں مشغول ہیں اور ان کے کام کرنے کا طریقہ دیکھیں؟ میں نے رضا مندی کا اظہار کیا اور ہم اکھٹے اُس جگہ گئے اور قریب سے اُن کے کام کرنے کا انداز دیکھاپھر ان کے نزدیک ہی کھجور کے درختوں کے ایک جھنڈ تلے آرام کی غرض سے زمین پر لیٹ کے سوگئےپیغمبر اسلامؐ نے آکر ہمیں بیدار کیا اور حضرت علیؑ سے فرمایا:اے ابو تراب اٹھ بیٹھئے۔ علی ؑاٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے لباس پر لگی ہوئی گردوغبار کوجھاڑااِس طرح علی ؑاِس لقب سے معروف ہوگئے۔ (کحل البصر۔ ص۱۹۳۔ ازمحدث قمی)

حضرت علی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ وہ ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے، فرماتے ہیں: ایک باپ اور اسکا بیٹا حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے (یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ زمانہ آپؑ کا دورِ خلافت تھا) حضرتؑ نے انہیں اپنا مہمان بنایا۔ انہیں صدرِ مجلس میں جگہ دیخود انتہائی انکساری کے ساتھ ان کے سامنے تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کو کہاکھانا لایا گیا اور مہمانوں نے اسے تناول کیااس کے بعد قنبر لوٹا اور لگن لے کر حاضر ہوئے تاکہ ان کے ہاتھ دھلا دیںحضرت علیؑ، باپ کے ہاتھ دھلانے کے لیے خود کھڑے ہوئےاس نے جب یہ دیکھا تو اس بات پر تیار نہ ہوا اور شدید اصرار کیا کہ آپؑ اس کے ہاتھ نہ دھلائیںلیکن حضرت علیؑ راضی نہ ہوئے اور بالآخر پانی ڈال کر اسکے ہاتھ دھلوائے۔

۱۲

اس شخص نے حضرتؑ سے عرض کیا:میرے لیے انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ خداوند ِ عالم مجھے اس حال میں دیکھے کہ آپ ؑمیرے ہاتھ دھلارہے ہوں۔

حضرتؑ نے اسے جواب دیا:نہیں، یہ تو بہترین حالت ہے، کیونکہ خداوند ِعالم دیکھ رہا ہے کہ تمھارا بھائی کسی قسم کے امتیاز کے بغیر تمہاری خدمت کررہا ہے اور اس خدمت سے اس کا مقصد بہشت کے کئی گنا اجروثواب کا حصول ہے۔

اس کے بعد حضرت علیؑ نے لوٹا اپنے فرزند محمد بن حنیفہ کو دیا اور فرمایا:اب بیٹے کے ہاتھ تم دھلائوبیٹا! اگر یہ تنہا یہاں آیا ہوتا تو اس کے ہاتھ میں دھلاتا لیکن خدا وند ِعالم کو یہ بات پسند نہیں کہ کسی جگہ باپ اور بیٹا ایک ساتھ ہوں اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائےلہٰذا تمھارے باپ نے اس کے باپ کے ہاتھ دھلائے ہیں اور اب تم بیٹے کے ہاتھ دھلائو۔ محمد بن حنیفہ نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔

اس کے بعد امام حسن عسکریؑ نے فرمایا :فمن اتبع علیّاً علی ذالک فهو الشّیعّی حقّا (جو اس بات میں علی ؑکی پیروی کرے وہ ان کا حقیقی شیعہ ہےمناقب ابن شہر آشوب ج ۲۔ ص ۱۰۵، بحارالانوار۔ ج۴۱۔ ص۵۶)

حضرت علیؑ کی تواضع و انکساری کے بارے ہی میں ” زید بن علی“ نقل کرتے ہیں:آپؑ پانچ مقامات پر، اپنی جوتیاں ہاتھ میں اٹھا کر برہنہ پاچلاکرتے تھے(۱)عید ِفطر کے دن نماز کے لیے جاتے وقت (۲) عید قرباں کے دن نماز کے مقام پر جاتے وقت (۳) جمعہ کے دن، نمازجمعہ کے لیے جاتےوقت (۴) کسی بیمار کے گھر اس کی عیادت کے لیے جاتے ہوئے (۵) اور تشیع جنازہ کے وقتاور فرمایا کرتے تھے کہ یہ مواقع خدا سے منسوب ہیں اور مجھے اس قسم کے مواقع پر (انکساری اور تواضع کے اظہار کے لیے ) برہنہ پا چلنا پسند ہے۔

۱۳

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن حضرت علی علیہ السلام سواری پر سوار کہیں سے گزررہے تھےآپؑ کے چند اصحاب آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگےآپؑ نے ان اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: کیا تم لوگوں کی کوئی حاجت ہے؟ ان لوگوں نے عرض کیا: نہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپؑ کے ہمراہ اسی طرح چلیں آپؑ نے فرمایا:انصرفواوار جعو ا، النعال خلف اعقاب الرّجال مفسدة للقلوب (جائو، واپس چلے جائو، اس طرح لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنا(ان کے) قلوب کی تباہی کی وجہ بن جاتا ہےمناقب ابن شہر آشوب ج۲۔ ص۱۰۴)

یعنی ممکن ہے یہ عمل اس شخص کو خود پسندی میں مبتلا کردے جس کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار کیا جارہا ہے اور اس سے عاجزی وانکساری کی خصلت چھین لے اور نتیجے میں معنوی لحاظ سے اسکی روح اور قلب تباہ اور بیمار ہوجائے۔

جی ہاں! پیغمبر اسلاؐم، حضرت علیؑ اور دیگر اولیا اللہ اسی قدر منکسرالمزاج تھے، عمدہ اخلاق اور نیک خصائل کا احترام کیا کرتے تھے اور عبادالرحمٰن کی اس اوّلین خصلت کو اہمیت دیتے تھے۔

مثبت اور منفی انکساری

البتہ حدود کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ ذلت اور انکساری کے درمیان بہت باریک فرق ہےلہٰذا بہت سے افراد غلط فہمی کی بنا پر تواضع و انکساری کے نام پر ذلت کا گناہ کربیٹھتے ہیں، جسے ہم منفی تواضع و انکساری کا نام دے سکتے ہیں اس قسم کی منفی تواضع و انکساری سے اسلام شدت کے ساتھ روکتا ہےقرآنِ کریم ممتاز بزرگ ہستیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرماتا ہے:اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ (یہ لوگ مومنین سے نرمی برتتے ہیں اور کفار کے مقابل سخت ہوتے ہیں۔ سورہ مائدہ ۵۔ آیت ۵۴)

۱۴

اس آیت میں واضح ہدایت موجود ہے کہ کفار اور سرکش و نافرمان افراد کے مقابل عاجزی و انکساری کا اظہار درست نہیں۔

اسی بنیاد پر امیر المومنینؑ نے فرمایا ہے:من اتی غنیاءً فتضعضع له لشیٔ یصیبه منه ذهب ثلثا دینه (ایسا شخص جو مالِ دنیا میں سے کسی چیز کے حصول کی غرض سے کسی دولت مندکے پاس آئے اور اس کے آگے خود کو حقارت سے پیش کرے، تو اس کا دو تہائی دین ختم ہوجاتاہےبحارالانوار۔ ج۷۷ص۴۳۔ ازعلامہ مجلسی)

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے:مااحسن تواضع الاغنیاء للفقراء طلباً لما عندالله، واحسن منه تیه الفقراء علی الاغنیاء اتکا لاًعلی الله (کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقرا کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئیں، لیکن اس سے بھی اچھی بات فقرا کا خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دولت مندوں کے ساتھ وقار اور بے اعتنائی سے پیش آنا ہےنہج البلاغہ کلمات قصار ۴۰۶)

ہم انکساری اور عاجزی کے موضوع پر اپنی گفتگو کو اس دلچسپ اور سبق آموزداستان پر ختم کرتے ہیں:جنگ ِاحد میں پیغمبر اسلامؐ کے ایک صحابی ” ابودجانہ انصاری“ نے اپنے سرپر ایک شاندار عمامہ باندھا، اس کے کپڑے کا ایک ٹکڑا اپنے کاندھے پر ڈالا اور انتہائی فخر وناز کے ساتھ ایک عجیب پرشکوہ انداز میں چلتے ہوئے دشمن کے سامنے گئے(عام حالات میں اس طرح چلنا ایک طرح کا غرور اور تکبر ہوتا) پیغمبر اسلامؐ نے جب انہیں اس انداز سے چلتے دیکھا تو فرمایا:انّ هذه لمشیة یبغضها الله عزّوجلّ، الاّ عندالقتال فی سبیل الله (اس طرح چلنے پر خدا ناراض اور غضبناک ہوتا ہے، مگر راہِ خدا میں معرکہ آرائی کے دوران یہ عمل (اسلامی قدرت و ہیبت کے اظہار اور دشمن کو خوفزدہ کرنے کی خاطر) پسندیدہ عمل ہے۔“ (وسائل الشیعہ ج۱۱ص۹)

ان روایات سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ تواضع اور عاجزی و انکساری دو طرح کی ہوتی ہےایک مثبت اور دوسری منفیاسی طرح اس کی ضد تکبر بھی کبھی کبھی مثبت اور پسند یدہ ہوجاتا ہے۔

۱۵

حلم اور ضبط ِنفس

قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے ممتاز بندوں کی دوسری خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (اور جب جاہل ان سے (نامناسب انداز سے) خطاب کرتے ہیں تو یہ لوگ ان کے جواب میں انہیں سلامتی کا پیغام دیتے ہیںسورئہ فرقان۲۵۔ آیت۶۳) یعنی ان کے سامنے سے، بے اعتنائی اور بزرگواری کے ساتھ گزرجاتے ہیںمراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تحمل وبردباری کی صفت پائی جاتی ہے اور انہیں اپنے اعصاب اور جذبات و احساسات پر قابو ہوتا ہے۔

ان لوگوں کا وصف یہ ہے کہ نامعقول افراد کے رویے کے مقابل بردباری اور ضبط ِ نفس سے کام لیتے ہوئے، اسلامی اخلاق کی حدوں سے باہر نہیں نکلتےعظمت ِکردار اور بزرگواری کی بدولت غیظ وغضب سے مغلوب نہیں ہوجاتےان کے مضبوط ارادے، ان کے صبرو تحمل اور سکون و اطمینان کی بنا پر انہیں پہاڑ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

یہ کہنا کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں نے مجھ پر اعتراض کیا، مجھے برابھلا کہا، تو اس کے جواب میں، میں نے اسے دس گنازیادہ سنا ڈالیںبلکہ قرآنِ کریم کی رو سے فخر و افتخار کی بات یہ ہے کہ ہم نامعقول لوگوں کے نامناسب رویے کے جواب میں ان کی اس حرکت کو نظر انداز کردیں۔ یعنی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ا ن کی طرف سے منھ پھیر لیں۔

البتہ جس سلام کا یہاں (آیت میں) ذکر ہورہا ہے وہ دوستی والاسلام نہیں، بلکہ بے اعتنائی والا سلام ہے، ایک طرح کے اعتراض اور ناراضگی کا اظہار ہے جس میں تعلق برقرار رکھتے ہوئے صلح و صفائی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیغام موجود ہے۔

ممکن ہے اس مقام پر یہ سوال پیش آئے کہ قرآنِ کریم اور روایات ِمعصومینؑ میں متعدد مقامات پر مخالفین کو برابری سے جواب دینے کی تاکید کی گئی ہےتاکہ ان ناشائستہ لوگوں کی گستاخی کا سدباب ہوسکےمثلاً قرآنِ مجید فرماتا ہے:فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ (لہٰذا جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسی زیادتی اس نے تمھارے ساتھ کی ہے۔ سورئہ بقرہ ۲آیت۱۹۴)

۱۶

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ، نامناسب طرزِ عمل اپنانے والے ناشائستہ لوگوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں: پہلی قسم کے لوگ وہ بدخواہ دشمن ہوتے ہیں جو جانتے بوجھتے، بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ، نامناسب طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اسی انداز سے جواب دینا چاہیےجبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو لاعلمی میں ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں اور ان سے ایسی گفتار و حرکات جہل اور نادانی کی بناپر سرزد ہوتی ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ حلم و بردباری اور نرمی و ملائمت کا سلوک کرنا چاہیے۔

زیر بحث آیت میں اسی ثانی الذکرگروہ کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی گئی ہےلہٰذا حلم و بردباری کا اظہار اپنے صحیح مقام پر، یعنی جہاں اسے ملحوظ رکھنا چاہیے، نہ صرف تخریبی اور نقصاندہ نہیں بلکہ تعمیری اور موثر بھی ہے۔

مذکورہ آیت میں جن لوگوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے ان کے بارے میں رسول کریم نے فرمایا ہے کہ:اَحَلمُ الناس مَن فرَّ مِن جُهّال الناس (لوگوں میں سب سے زیادہ بردبارشخص وہ ہے جو جاہل انسانوں سے دور بھاگےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۱۲)

۱۷

قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم

قرآ نِ مجید میں حلم اورکظم غیظ (یعنی غصہ پی جانے) کا ذکر دوعمدہ اور عالی صفات کے طور پر کیا گیا ہےان دونوں صفات کی بازگشت ایک ہی مفہوم کی جانب ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے اعصاب پر کنٹرو ل ہونا، جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنا، ضبط ِنفس کا مالک ہونا۔

کہاجاسکتا ہے کہ حلم اس حالت کو کہتے ہیں جو کظم غیظ یعنی غیظ و غضب کو ضبط کرلینے کا موجب بنتی ہےبالفاظِ دیگر حلم کی واضح بلکہ بہترین مثال کظم غیظ ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

خیر الحلم التّحلّم

بہترین حلم غصہ پی جانا ہےغررالحکم ، نقل از میزان الحکم تہ۔ ج ۲ص۵۱۳

قرآنِ مجید میں حلم کا لفظ ” حلیم“ کی تعبیر کے ساتھ پندرہ مرتبہ آیا ہےان میں سے گیارہ مرتبہ خداوند ِعالم کی ایک صفت کے طور پر اسکا ذکر ہوا ہے۔(۱) جبکہ چار مرتبہ اسکا ذکر حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب کی ایک صفت کےعنوان سے ہوا ہے۔(۲)

--------------

۱:- سورئہ بقرہ۲آیات ۲۲۵، ۲۳۵، ۲۶۳، سورئہ آل عمران ۳آیت ۵۵، سورئہ نساء۴آیت ۱۲، سورئہ مائدہ ۵آیت ۱۰۱، سورئہ حج ۲۲۔ آیت ۵۹، سورئہ تغابن ۶۴آیت ۱۷، سورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۴۴، سورئہ احزاب ۳۳آیت ۵۱، سورئہ فاطر ۳۵آیت ۴۱)

۲:- سورئہ توبہ ۹۔ آیت ۱۱۴، سورئہ ہود ۱۱آیت ۸۷، سورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۷۔

۱۸

قرآن مجید میں کظم غیظ کو پرہیز گار بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےارشادِ رب العزت ہے:وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ (وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں سورہ آلِ عمران ۳آیت ۱۳۴)

حلم کے معنی اپنے شدید غیظ وغضب پر قابو پالینا ہےلغت ِقرآن کے معروف عالم

” راغب اصفہانی“ اپنی کتاب ” مفردات القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ:

الحلم ضبط النفس عن هیجان الغضب

غیظ وغضب کے ہیجان کے موقع پر ضبط ِنفس کو حلم کہا جاتا ہے

مزید کہتے ہیں کہ: کیونکہ یہ حالت عقل اور خرد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اسی لیے کبھی کبھی حلم کے معنی عقل اور خرد بھی لیے جاتے ہیں(مفردات راغب، لفظ حلم کے ذیل میں)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

العقل خلیل المرء، والحلم وزیره

عقل انسان کی مخلص دوست ہے اور حلم عقل کا وزیر ہے

آپ ؑہی کا ارشاد ہے:

الحلم نور جو هره العقل

حلم ایک ایسا نور ہے جس کی حقیقت عقل و خرد ہےغرر الحکم ، نقل ازمیزان الحکم تہ۔ ج۳۔ ص۵۱۳، ۵۱۴

دوسری احادیث میں بھی حلم کی صفت کا ذکر انہی معنی میں ہوا ہےمثلاً ایک شخص نے امام حسن علیہ السلام سے پوچھا: حلم کیا ہے؟ آپؑ نے جواب دیا:کظم الغیظ وملِک النفس (غصہ پی جانا اور نفس پر قابو ہونابحارالانوار ج ۷۸۔ ص ۱۰۲)

۱۹

نیزامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

لا حلم کانصیرت والصّمت

کوئی حلم صبرواستقامت اور زبان کی حفاظت کی مانند نہیں

لفظ حلم کا استعمال امورو معاملات میں ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں بھی کیا گیا ہے(بحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص ۷۸، سفینۃ الیحارلفظ ” حلم“ کے ضمن میں)

ان لغوی معنی اور ائمہ معصومین کی تشریحات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حلم سے مراوضبط ِنفس، انقلابی صبر اور امور و معاملات کے دوران ثابت قدمی ہے۔

اس مفہوم کوپیش نظر رکھا جائے تو ضبط ِنفس میں زبان پر کنٹرول، اعصاب اور تمام اعضا و جوارح پر تسلط شامل ہےلہٰذا لفظ ” حلم“ کا ترجمہ ” برداشت“ جو ہمارے یہاں معروف ہوگیا ہے، درست نہیں ہےکیونکہ ” سختی برداشت کرنا“ حلم کے مطلق معنی نہیں ہیں ا س لیے کہ بسا اوقات اسکا مفہوم ظلم کے سامنے خاموشی سے گھٹنے ٹیک دینا اور اسے قبول کرنا ہوتے ہیں اور یہ عمل کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔

اسی بنیاد پر حلم اور ظلم سہنے کے درمیان انتہائی کم فاصلہ پایا جاتا ہےلہٰذا ان دونوں کے مقامات کی اچھی طرح شناخت لازم ہے تاکہ ظلم سہنے کو حلم نہ کہا جانے لگے اور انسان بافضیلت عمل کی انجامدہی کی بجائے فضائل و اقدار کے مخالف کسی عمل کا مرتکب نہ ہو۔

۲۰