عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف0%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمدمحمدی اشتہاردی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 177
مشاہدے: 82495
ڈاؤنلوڈ: 4268

تبصرے:

عباد الرحمٰن کے اوصاف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82495 / ڈاؤنلوڈ: 4268
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایک موقع پر پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

یٰا مَعشر الشَّبابِ انْ اِستَطاع مِنْکُم الباءَ ةُ فَلْیَتَزَوَّجُ فانَّهُ اَغَضُّ للْبَصَرِ واَحْصَنُ للْفَرْج، وَ مَنْ لَمْ یَستَطعُ فَعَلَیْهِ بِالصَّوْمِ

اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کرسکتا ہے اسے چاہیے کہ شادی کرے، کیونکہ شادی کی وجہ سے انسان (دوسروں کی ناموس کی طرف سے) نگاہیں نیچی کرلیتا ہے اور اپنے دامن کو بے عفتی کی آلودگی سے بچا لیتا ہےاور جو کوئی شادی نہیں کرسکتا، اسے چاہیے کہ روزہ رکھےاصولِ کافی ج۲ص۷۹

اپنے اندر حیا، عفت، حمیت اور اپنے ناموس کے بارے میں غیرت جیسی صفات پیدا کرنا بھی انسان کو جنسی گمراہیوں اور زنا سے باز رکھنے والے طاقتور عوامل میں سے ہےاس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:مازَنیٰ غَیُورٌ قَطُُّّ (غیرت مند انسان کسی صورت زنا نہیں کرتانہج البلاغہ کلمات قصار۳۰۵)

نیز آپ ہی نے فرمایا ہے:عِفّةُ الرّجُلِ عَلی قَدْرِ غَیْرتِةِ (انسان اتنا ہی پاکدامن ہوتا ہے جتنی اس میں غیرت ہوتی ہےغرر الحکم )

۱۰۱

بے عفتی کے خلاف پیغمبر اسلام کا شدید موقف

پیغمبر اسلام معاشرے کی عفت وناموس کی حفاظت کے سلسلے میں انتہائی حساس تھےآپ ؐنے بارہا فرمایا کہ: کانَ ابراھیمُ اَبیغَیوراً وانا اَغْیَرُ مِنْهُ، وارْغَمَ اللّٰهُ انْفَ مَنْ لا یُغارُ (میرے باپ! ابراہیم بہت غیرت مند تھے اور میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوںخداوند ِعالم بے غیرت انسان کی ناک خاک پر رگڑ دیتا ہےبحار الانوارج۱۰۳ص۲۹۳)

اس حوالے سے درجِ ذیل دو قصے ملاحظہ فرمائیں:

۱مروان بن حکم کا باپ اور حضرت عثمان کا چچا حکم بن ابی العاص مہاجر مسلمان ہونے کے باوجود دوسروں کی عزت وناموس پر بری نظر رکھتا تھاایک روز اس نے مدینہ میں پیغمبر اکرم ؐکے گھر کے دروازے سے آنحضرت ؐکے گھر میں جھانکاآنحضرؐت کو اس کے اس گھناؤنے عمل کی خبر ہوگئی اور آپ ؐاس قدر ناراض ہوئے کہ آپ نے ایک کمان اٹھالی تاکہ اس کے ذریعے اسے تیر کا نشانہ قرار دیںلیکن وہ بھاگ کھڑا ہوا اور چھپ گیا(سفینتہ البحارج۱ص۲۹۳)

ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے خمیدہ سر کی ایک لاٹھی، جس کی نوک تیز تھی اٹھائی اور اسکے پیچھے دوڑے، وہ سر پٹ دوڑا اور آنحضرؐت کی پہنچ سے نکل گیاآنحضورؐ نے فرمایا: اگر وہ میرے ہاتھ آجاتا تو اس کی آنکھیں نکال لیتااس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ حکم اور اسکے بیٹے مروان کو جلا وطن کرکے طائف بھیج دیا جائے۔

یہ دونوں پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں اور پھر اسکے بعد حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کے ادوارِ خلافت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہےلیکن حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں حضرت عثمان کی وساطت سے مدینہ لوٹ آئےحضرت عثمان پر مسلمانوں نے جو اعتراضات کیے ان میں سے ایک شدید اعتراض یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کو واپس کیوں بلایا جنہیں پیغمبر اسلامؐ نے جلا وطن کیا تھا(الغدیرج۸ص۲۴۳، اسد الغابہ ج۲ص۳۳)

۱۰۲

۲امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ ” ہیت“ اور ” ماتع“ نامی دو افراد مدینہ میں فضول اور بیہودہ باتیں کرتے پھرتے ہیں اور عورتوں کی خوبصورتی کے تذکرے کرکے اور لوگوں کو بیہودہ لطیفے سنا کر معاشرے میں عفت وپاکدامنی کے ماحول کو نقصان پہنچانے کی وجہ بن رہے ہیں آنحضرتؐ نے انہیں بلایا اور انہیں سرزنش کرنے کے بعد مدینہ سے (چند فرسخ کے فاصلے پر) ” العرایا“ نامی مقام پر جلا وطن کردیاانہیں کھانے پینے کی اشیا اور ضروریات ِزندگی کی خریداری کے لیے صرف جمعے کے دن مدینہ آنے کی اجازت تھیاس کے بعد وہ پھر ” العرایا“ واپس چلے جاتے تھے(بحار الانوارج۲۲ص۸۸ سے اختصار کے ساتھ)

اس طرح آنحضرتؐ نے انہیں تنبیہ کی اور آپؐ کے اس سخت موقف سے دوسروں کو یہ سبق ملا کہ وہ عفت وپاکدامنی کی حفاظت کرکے افرادِ معاشرہ کو جنسی گمراہی سے محفوظ رکھیں۔

گناہ کی محفلوں میں شرکت سے پرہیز

قرآنِ کریم، سورئہ فرقان میں بیان کی گئی خدا کے خاص بندوں کی بارہ صفات میں سے نویں صفت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ (یہ لوگ جھوٹی گواہی (اور گناہ کی محفلوں میں شرکت) سے پرہیز کرتے ہیںسورئہ فرقان۲۵آیت۷۲)

یہ خدا کے خاص بندوں کی ایک ممتاز صفت ہے، جو دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھنے اور ہر قسم کے فضول، بیہودہ اور باطل امور کی آلودگی سے بچنے کا باعث ہوتی ہے، نیز اپنی اصلاح کے لیے وقت سے مفید استفادے کے سلسلے میں بہترین کردار ادا کرتی ہے۔

۱۰۳

” زُوْرَ“ کے معنی ہیں حق سے انحرافیہ معنی متعدد امور مثلاً باطل، دروغ، حرام موسیقی اور ظلم وستم پر صادق آتے ہیں، لیکن روایات کی بنیاد پر یہ لفظ اکثر جھوٹ، تہمت، بیہودہ موسیقی کی محفلوں اور باطل محافل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

” شہادتِ زُور“ جس کی مذکورہ بالا آیت میں ممانعت کی گئی ہے اور جسے ترک کرنا خدا کے ممتاز بندوں کی امتیازی خصوصیت قرار دیا گیا ہے، مفسرین نے اس کے دو معانی بیان کیے ہیںممکن ہے مذکورہ آیت میں یہ دونوں ہی معنی مراد ہوں۔

۱:- یہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتےجس چیز کو حق نہیں سمجھتے اسکی تصدیق نہیں کرتےباطل امور کی تائید نہیں کرتے۔

۲:- یہ لوگ عیاشی اور باطل ساز وآواز کی محفلوں میں شرکت نہیں کرتےاور اپنی شرکت کے ذریعے ان فضول اور بیہودہ محفلوں اور ان کا انعقاد کرنے والوں کی تائید نہیں کرتے۔

ان معنی کو پیش نظر رکھیں تو اس آیت میں دو بڑی تباہ کن اور ناپسندیدہ دینی اور سماجی آفات سے پرہیز کی تلقین کی گئی ہےاگر کوئی معاشرہ ان آفات میں مبتلا ہوجائے، تو یہ اس معاشرے کی سلامتی، اسکے اچھے روابط وتعلقات اور اس میں عدل وانصاف کے لیے سنگین نقصان کا باعث ہوں گی اور اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کو گمراہی کی خطرناک راہوں پر لے جائیں گی۔

لہٰذا ان دونوں معانی کی تشریح ضروری ہے، تاکہ ان دونوں گناہوں اور بڑی آفات کی خرابی ہمارے سامنے واضح ہوجائے۔

۱۰۴

جھوٹی گواہی سے پرہیز

جھوٹی گواہی یا کسی ناحق بات کی تائید تہمت کہلاتی ہے جو ایک گناہِ کبیرہ اور حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے اور جسے آیات وروایات کی زبان میں بہتان کہا گیا ہے، جو گناہ پر گناہ کا اضافہ ہےکیونکہ یہ جھوٹ بھی ہے اور اس کی گواہی دینا حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرنا ہےاس طرـح یہ عمل دوسروں کے حقوق کی پامالی کا باعث بنتا ہے۔

جھوٹی گواہی اس قدر ناپسندیدہ اور فتنہ وفساد انگیز عمل ہے کہ قرآنِ کریم نے اسکا ذکر بت پرستی کے ساتھ کیا ہے اور شدت کے ساتھ اسکی ممانعت کی ہے، فرمانِ الٰہی ہے:فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (لہٰذا تم ناپاک بتوں سے پرہیز کرتے رہو اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کرتے رہوسورئہ حج۲۲آیت۳۰)

تہمت اور بہتان جو جھوٹی گواہی بھی ہے، ایمان پر اس قدر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے کہ بقول امام جعفر صادق علیہ السلام:اذا اتّهَمَ المؤْمِنُ اَخَاهُ، انمات الایمانُ فی قلبِهِ، کما یَنماتُ الملحُ فی الماء (اپنے برادرِ ایمانی پر تہمت لگانے والے شخص کے دل سے ایمان اس طرح گم ہوجاتا ہے جیسے پانی میں نمک غائب ہوجاتا ہےوسائل الشیعہ ج۸ص۶۱۳)

یہی وجہ ہے کہ کسی کے لیے نقصاندہ ثابت ہونے والی تہمت پر خدا کی طرف سے انتہائی سخت سزا اور شدید عذاب ِآخرت ہےابن یعفور نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایسا شخص جو کسی مومن مرد یا عورت پر تہمت لگائے اور اُسکی طرف کوئی ایسی صفت منسوب کرے جو اُس میں نہ پائی جاتی ہو، تو خداوند ِعالم اسے روز ِقیامت بدبودار پانی سے نکالے گا(وسائل الشیعہ ج۸ص۶۰۳)

۱۰۵

ظاہر ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن انتہائی کریہہ چہرے اور غلیظ ونفرت انگیز بدبو کے ساتھ لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔

رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:مَنْ شَهِدَ شَهَادَةَ زور عَلی رجُلٍ مسلمٍ اوذِمّیٍ اوْمَن کان مِن النّاس غُلّق بلسانهِ یوْمَ القیامةِ وهُوَ مع المُنافقین فی الدّرکِ الاسْفَلٍ مِنَ النّارِ (ایسا شخص جو کسی مسلمان یا ذمی کافر یا کسی بھی انسان کے بارے میں جھوٹی گواہی دے گا روزِ قیامت اُسکی زبان باندھ دی جائے گی اور وہ منافقین کے ساتھ دوزخ کے نچلے ترین طبقے میں ہوگابحار الانوارج۷۶ص ۳۶۴)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا ہے:مَنْ بَهَتَ موْمناً اوْ موْمنةً اوقالَ فیهِ ما لَیْسَ فیه، اقامَهُ الله یَومَ القیامَةِ عَلی تلٍّ مِنْ نارٍ حتّی یخْرُجَ ممّا قالَ فیه (ایسا شخص جو کسی مومن مرد یا مومنہ عورت پر تہمت لگائے، یا اُن سے کوئی ایسی چیز منسوب کرے جو اُن میں نہ پائی جاتی ہو تو خداوند ِعالم ایسے شخص کو روزِ قیامت اُس وقت تک آگ کے ایک ڈھیر پر ٹھہرائے رکھے گا جب تک وہ اِس تہمت سے (جس پر تہمت لگائی گئی ہے اسکے راضی ہونے کی وجہ سے) بری نہ ہوجائےوسائل الشیعہ ج۸ص۶۰۳، ۶۰۴)

ایک روز رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے کفار کی جانکنی کی سخت کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: عزرائیل، کافر کے سامنے آگ کی ایک سیخ لائیں گے اور اس کے ذریعے اسکے جسم سے اسکی روح نکالیں گے اور اس موقع پر جہنم ایک چیخ بلند کرے گاحضرت علی ؑنے دریافت کیا: اے اﷲ کے رسولؐ! کیا آپ کی امت میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی روح اس قدر اذیت ناک طریقے سے قبض کی جائے گی؟ آنحضرتؐ نے جواب دیا:نَعَمْ، حاکِمُ جابر، وآکِلُ مالِ الیَتیمِ ظُلماً، وَشاهدُ زُورٍ (ہاں، (میری امت کے تین قسم کے لوگوں کی روح اس طرح قبض کی جائے گی) ظالم حکمراں کی، یتیم کا مال ناحق کھانے والے کی اور جھوٹی گواہی دینے والے کیتحف العقولج۱ص۷۰)

۱۰۶

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جھوٹی گواہی کئی قسم کی ہوتی ہے، مثلاً سیاسی الزام تراشی، عزت وناموس پر بہتان باندھنا، مالی اور اقتصادی معاملات میں بدعنوانی کی تہمت لگانا وغیرہ وغیرہان تہمتوں اور جھوٹی گواہیوں میں سیاسی تہمت اور کسی کی عزت پامال کرنا ناقابل معافی اور انتہائی بڑا گناہ ہےکیونکہ یہ عمل انتہائی برے اور تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے، اور محترم ومعزز افراد کی عزت ووقار کو نقصان پہنچانے کا موجب ہو کر افراد اور معاشرے کے لیے انتہائی ناپسندیدہ نتائج کا باعث بنتا ہے۔

بعض خاص مواقع، مثلاً انتخابات کے موقع پر اِس قسم کی الزام تراشیوں کا رواج عام ہےاِس عمل کا کم از کم ازالہ یہ ہے کہ تہمت لگانے والا انسان ان تمام لوگوں کے اذہان صاف کرے جنہوں نے اُسکی لگائی ہوئی تہمت سنی ہے اور کھلم کھلا اپنے جھوٹ کا اعتراف کرے اور اس بات کا اعلان کرے کہ جس پر اُس نے یہ الزام لگایا تھا وہ اس سے بری اور منزہ ہے۔

قارون نے ایک عورت کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تہمت لگانا چاہیلیکن اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اس تہمت سے محفوظ رکھا اور قارون پر اِس قدر غضبناک ہوا کہ زمین کو حکم دیا کہ وہ قارون اور اسکے مال ودولت کو نگل جائے اور زمین نے خدا کے اس حکم کی تعمیل کی(ان نکات کا مطالعہ سورئہ قصص کی آیت نمبر اکیاسی میں کیا جاسکتا ہے)

اسی طرح کسی کی عزت وناموس پر الزام لگانا بھی ایک بڑا گناہ اور سنگین عَقاب کا باعث ہےیہاں تک کہ یہ عمل آخرت کے شدید عذاب کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سخت سزا کا موجب ہےجیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ فراہم نہیں کرتے، انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرنا اور یہ لوگ سراسر فاسق ہیںسورئہ نور۲۴آیت۴

۱۰۷

اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی انسان کسی پاکدامن عورت کی عزت وناموس کے بارے میں کوئی ناروا بات کہے، چاہے اس نے سچ ہی کہا ہو، اُسے چاہیے کہ اسکے لیے چار گواہ بھی لائے، وگرنہ مجرم کے طور پر اَسّی کوڑے کھانے کو تیار رہےیہ وہی ” حد“ ہے جو اسلامی فقہ میں ” حدِ قذف“ کے نام سے معروف ہے اور جو زنا یا لواط کا الزام لگانے والے پر جاری کی جاتی ہےاگر یہ الزام چار مرتبہ لگایا جائے اور ہر مرتبہ کے بعد اس کے لگانے والے پر حد جاری ہو، تو چار مرتبہ کے بعد ایسے شخص کو موت کی سزا دینے کا حکم ہے(تحریر الوسیلہج۲ص۴۷۶۴۷۹)

جھوٹی گواہی کی کچھ اور صورتیں بھی ہیںمثلاً بعض فحش کلامی، گالم گلوچ، جیسے ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ تو زنا زادہ یا حرام زادہ یا ایامِ حیض کی پیدائش ہےیہ تہمتیں گناہانِ کبیرہ میں سے ہیں اور اگر قاضی کے سامنے ثابت ہوجائیں تو ایسی تہمت لگانے والے شخص کو قاضی کے حکم سے سزا دی جائے گی۔

اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ نذرِ قارئین ہے:

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک دوست تھا، جو ہمیشہ آپ کے ہمراہ ہوا کرتا تھاایک روز اُس دوست نے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے امام جعفر صادق کے ایک غلام سے کہا: اے زنازادے! تو کہاں تھا؟ امام جعفر صادق اپنے دوست کی اس بد زبانی پر اس قدر ناراض ہوئے کہ اُسکی پشت پر ایک زور دار ہاتھ مارا اور فرمایا: سبحان اﷲ! کیا تم اسکی ماں کو زانیہ قرار دے رہے ہو؟ میں تو سمجھتا تھا کہ تم متقی اور پرہیز گار شخص ہوآج مجھے پتا چلا کہ تم بے تقویٰ ہواُس نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤ! اِس غلام کی ماں کا تعلق سندھ سے ہےوہ مشرک تھی اور اِسی مشرکانہ زندگی میں اُس کے بطن سے اِس غلام نے جنم لیا ہے، لہٰذا یہ غلام زنازادہ ہےامام ؑنے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہر قوم میں شادی بیاہ کا ایک قانون ہوتا ہے؟ تم میری نظروں سے دور ہوجاؤ، اب مجھے کبھی نظر نہ آنا۔

 وہ بدزبان شخص امام ؑکے پاس سے چلا گیا اور پھر آپؑ عمر بھر اس سے نہ ملے(اصولِ کافی ج۲ص۳۲۴)

۱۰۸

بیہودہ محفلوں میں شرکت سے پرہیز

جن چیزوں پر جھوٹی گواہی کا عنوان صادق آتا ہے، اُن میں سے ایک ناشائستہ اور بیہودہ محفلوں میں شرکت اور ان میں حاضری ہےزیرِ بحث آیت میں اِس عمل کا ترک کرنا خدا کے ممتاز اور خاص بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےکیونکہ ایسی محفلوں میں شرکت اور موجودگی ایک طرح سے باطل کی تائید اور لہو لعب کی ان محافل کو رونق بخشنا ہے۔

اسی طرح، عام طور پر گناہ کے کاموں میں مشغول رہنے والے غیر صالح افراد کی ہم نشینی بھی جھوٹی گواہی کی ایک قسم ہےکیونکہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا اُن کے عمل کی تائید اور گناہ کے کاموں میں اُن کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے، ماسوا اسکے کہ جب نہی عن المنکر کا فریضہ اس بات کا تقاضا کرے کہ انسان ان مجالس میں شرکت کرے اور ان محفلوں کا ماحول بدل دینے کا ذریعہ بنے۔

قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر لہو ولعب کی محافل میں شرکت سے منع کیا گیا ہےمثلاً اِس آیت میں ہے کہ:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِه اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ

اور اس نے کتاب میں یہ بات نازل کردی ہے کہ جب کچھ لوگوں کے بارے میں یہ سنو کہ وہ آیات ِالٰہی کا انکار کررہے ہیں اور اُن کا مذاق اڑا رہے ہیں، تو خبردار ان کے ساتھ ہر گز نہ بیٹھنا، جب تک وہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں، وگرنہ تم انہی کی مانند ہوجاؤ گےسورئہ نساء۴آیت۱۴۰

۱۰۹

اسی طرح کی گفتگو سورئہ انعام کی آیت نمبر ۶۸ میں بھی کی گئی ہے۔

ایک روز امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:مَنْ کانَ یؤمِنُ باللّٰهِ والیَومِ الآخِر فلا یَجْلِسُ فی مَجْلسٍ یُسَبً فِیهِ امامُ اوْیُغْتَابُ فیهِ مُسْلمُ (جو شخص خدا اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ ایسی مجلس میں نہیں بیٹھتا جس میں امامِ حق کو برا بھلا کہا جاتا ہے، یا وہاں کسی مسلمان کی غیبت کی جاتی ہےاسکے بعد امام نے اس آیت (سورئہ انعام۶آیت۶۸) کی تلاوت فرمائی کہ:

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِه وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ

اور جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری نشانیوں کے بارے میں بے ربط بحث کررہے ہیں، تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ، یہاں تک کہ وہ دوسری بات میں مصروف ہوجائیں اور اگر شیطان غافل کردے تو یا دآنے کے بعد پھر ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھنا)(بحار الانوارج۷۵ص۲۴۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لا یَنبغی للمؤمن ان یَجْلسَ مجلِساً یُعْصَی ﷲ فیهِ، ولا یَقْدِرُ عَلیٰ تَغْییره

مومن کے لیے کسی ایسی محفل میں شرکت مناسب نہیں جس میں خدا کی نافرمانی ہوتی ہو اور وہ مومن اِس محفل میں تغیر لانے کی قدرت نہ رکھتا ہواصولِ کافی ج۲ص۳۷۴

۱۱۰

تاریخ میں ہے کہ دوسرے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے اپنے ایک بیٹے کی ختنہ کے موقع پر ایک پُرشکوہ شاہانہ محفل کا انعقادکیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو بھی اس میں مدعو کیا، یہاں تک کہ آپ اس محفل میں شرکت پر مجبور ہوگئےجب کھانے کا دستر خوان لگایا گیا تو اچانک امام ؑکی نظر پڑی کہ دستر خوان پر شراب کے برتن بھی رکھے جارہے ہیں آپ ؑیکلخت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور انتہائی غیظ وغضب کے عالم میں ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اس دستر خوان اور اس کے گرد بیٹھنے والوں کے بارے میں فرمایا:مَلْعُونٌ مَنْ جَلَس عَلی مائدهٍ یُشْربُ علیهَا الْخَمْر (ایسا شخص ملعون ہے جو کسی ایسے دسترخوان پر بیٹھے جس پر شراب پی جارہی ہوفروع کافی ج۶ص۲۶۷)

نتیجہ اور خلاصہ

قرآن کریم، پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکی تعلیمات و فرامین کی رو سے ہر مسلمان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ حق کی تائید اور اسکی حفاظت ودفاع کے لیے کوشاں رہے اور معاشرے کو خدا اور دینی باتوں کی طرف دعوت دےاس فریضے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ کسی صورت جھوٹا گواہ نہ بنےیعنی نہ تو جھوٹی گواہی دے اور نہ گناہ کی تائید اور حوصلہ افزائی کا باعث بنےجیسا کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کروسورئہ مائدہ۵آیت۲)

۱۱۱

اس بات کی جانب متوجہ رہنا بھی ضروری ہے کہ جھوٹی گواہی کی صورتوں میں سے ایک صورت ساز وآواز اورگانے بجانے کی محفلوں میں شرکت ہےجیسا کہ خوشی کی بعض محافل بالخصوص شادی بیاہ کی محفلوں میں معمول ہےایسی محفلوں میں حاضری اور ان میں شرکت حرام ہے اور فسق وفجور کی تائید اور حرام اعمال کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہےخدا کی نظرمیں پسندیدہ بندے اس قسم کی محفلوں میں شرکت سے لازماً گریز کرتے ہیںیہاں تک کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا:وَمَن لم یَحْکُم بما انزَل ﷲ کان کمَنْ شَهِدَ شهادةَ زورٍ، ویَقْذِفُ بِهِ فی النّار ویُعَذِّبُ بعَذابِ شاهِدِ زُورٍ (وہ شخص جو خدا کے نازل کیے ہوئے (قرآنِ مجید) کے مطابق فیصلہ نہ کرے جھوٹی گواہی دینے والے شخص کی مانند ہےایسے شخص کو دوزخ میں پھینکا جائے گا اور اُسے جھوٹی گواہی دینے والے کا عذاب دیا جائے گابحار الانوارج۷۶ص۳۶۷)

ایک حدیث میں ہے کہ عبد الاعلیٰ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: یہ آیت جس میں فرمایا گیا ہے کہ:وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (سورئہ حج۲۲آیت۳۰) اس سے کیا مراد ہے؟ امام ؑنے فرمایا: الغنا (یعنی حرام موسیقی مراد ہے)(بحار الانوارج۷۹ص۲۴۵)

نیز امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہونے والی بہت سی روایات کے مطابق، زیرِ بحث آیت ”وَالَّذِیْنَ لَا یَشُهَدُوْنَ الزُّوْر “ میں لفظ” زُوْر“ سے مراد، غنا (یعنی حرام موسیقی) ہےاور اِن حضرات نے اِس آیت کے ضمن میں فرمایا ہے کہ: خدا کے ممتاز بندے فاسقوں کی محافل میں شرکت اور باطل اور بیہودہ محفلوں میں حاضری سے پرہیز کرتے ہیں(نور الثقلین ج۴ص۴۱)

۱۱۲

فضول کاموں اور وقت کے زیاں کی مخالفت

قرآنِ مجید (سورئہ فرقان میں) عباد الرحمٰن کی دسویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا (اور جب فضول کاموں کے قریب سے گزرتے ہیں، تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں سورئہ فرقان۲۵آیت۷۲)

یہ خصوصیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے خاص اور ممتاز بندے نہ صرف ہر قسم کی لغویات، فضول کاموں اور باطل امور کے خلاف ہوتے ہیں، ان چیزوں کے خاتمے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں، بلکہ اسکے ساتھ ساتھ لغویات اور باطل امور سے اپنی ناخوشی اور ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور سہل پسندی اور سستی وغیرہ کی وجہ سے کبھی بھی باطل کو قبول کرنے اور اسکی تائید وحمایت پر تیار نہیں ہوتےایک معقول ہدف ان کے پیش نظر ہوتا ہے، ان کی تمام حرکات وسکنات، اعمال ورفتار منطقی اور سنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کے فکر وعمل میں کسی قسم کی فضولیات اور لغویات جگہ نہیں بنا پاتیںکلی طور پر ان کا یہ عمل نہی عن المنکر کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔

نہی عن المنکر جو ایک اہم دینی فریضہ ہے شدید مقابلے اور جدوجہد کا تقاضا کرتا ہےلیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو بدو جنگ کا کوئی بھی راستہ کارگر ثابت نہیں ہوپاتاایسی صورت میں غیظ وغضب اور ناراضگی کے اظہار کے ذریعے سلبی جنگ کی راہ اپنانی پڑتی ہےیہ طرزِ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا کے ممتاز بندے باطل اور بدی کے ماحول سے کسی طرح کی خوشی اور رضا مندی کا اظہار نہیں کرتےبلکہ اس کے خلاف ایک دو ٹوک اور سنجیدہ قطعی موقف کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

لغو کے معنی ہیں بیہودہ، کھوکھلی اور فضول گفتگونیز یہ کتے کے بھونکنے، قسم کے توڑنے اور بے وجہ اور جھوٹی قسم کھانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (المنجدلفظ لغو کے ذیل میں)اس بنیاد پر لغو سے مراد ہر قسم کے ایسے بے ہودہ، کھوکھلے اور بے اساس اعمال اور نقصاندہ اور بے مقصد سرگرمیاں ہیں، جو انسان کے وقت، اس کی تعمیری قوتوں اور اس کی عمر کے زیاں کا باعث ہوںلہٰذا اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو وقت کے ضائع ہونے اور مواقع ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ بنتی ہے۔

۱۱۳

قرآن وحدیث کی نگاہ میں لغو سے اجتناب

مذکورہ آیت کے علاوہ، قرآنِ مجید میں دو اور مقامات پر لغو سے اجتناب اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور اِس اجتناب اور دوری کو مومنین اور حق طلب افراد کی خصوصیات اور خصائل میں سے قرار دیا گیا ہے۔

مومنین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ

اور وہ لغو باتوں سے اجتناب کرنے والے ہیںسورئہ مومنون۲۳آیت۳

اور حق کے متلاشی افراد کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہے:

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ

اور جب لغو بات سنتے ہیں، تو اجتناب کرتے ہیںسورئہ قصص۲۸آیت۵۵

قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں آیا ہے کہ بہشت ہر قسم کی لغویات اور بیہودگیوں سے پاک ہے اور وہاں سلامتی، شادمانی اور بہشتی نعمتوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا(۱) ۔

-------------

۱:- سورئہ طور ۵۲آیت ۲۳، سورئہ مریم ۱۹آیت ۶۲، سورئہ واقعہ ۵۶آیت ۲۵، سورئہ نبا ۷۸آیت ۳۵، سورئہ غاشیہ ۸۸آیت ۱۱۔

۱۱۴

یہ آیات اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر انسان اسی دنیا میں ایک جنت نظیر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، تو اِس معاشرے کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے محفوظ اور پاک ہو۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَعْظَمُ النّٰاسِ قَدْراً مَنْ تَرَکَ مَالاً یَعْنیه

لوگوں میں بافضلیت ترین انسان وہ ہے جو بے معنی کاموں کو چھوڑ دے۔

بحار الانوارج۷۱ص۲۷۶

نیز آپؐ نے فرمایا ہے:

تَرْکُ مٰالاٰ یَعْنی زینةُ الْوَرَعِ

لغو وبیہودہ کاموں کو چھوڑنا، پرہیز گاری کی زینت وزیبائی ہے۔

بحار الانوارج۷۷ص۱۳۱

امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:

اِیّٰاکَ وَالدُّخُولُ فیمٰا لاٰ یَعْنیک فَتَذِلَّ

بے مقصد اور فضول کاموں میں پڑنے سے پرہیز کرو کیونکہ ایسے کاموں میں مشغول ہونا تمہاری ذلت ورسوائی کا موجب ہوگا۔

بحار الانوارج۷۸ص۲۰۴

۱۱۵

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

رُبَّ لَغْوٍ یَجلبُ شَرّاً

بسا اوقات فضول کام بدی اور برائی کا موجب ہوجاتے ہیں۔

غرر الحکم نقل از میزان الحکم ۃج۸ص۵۱۴

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

مَن اشتَغَلَ بالفُضُول، فٰانَهُ مِنْ مُهِمّةِ المامولِ

ایسا شخص جو اپنے آپ کو فضول اور بے مقصد کاموں میں مشغول کرلے، وہ قابلِ توجہ اہم کاموں کی انجام دہی سے محروم رہے گاحوالہ سابق

امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں میں ہے کہ:

وَعَمِّرْنی مٰا کٰانَ عُمْری بِذْلَةً فی طٰاعَتِکَ، فَاِذٰا کٰانَ عْمری مَرْتَعاً لِشّیْطانِ فَاقْبِضْی اِلَیْکَ

بارِ الٰہا! جب تک میری زندگی تیرے فرامین کی بجا آوری میں بسر ہورہی ہے، اُس وقت تک اُسے باقی رکھنا اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے، تو میری روح قبض کرلینا۔

صحیفہ سجادیہدعا۲۰

۱۱۶

روایت کی گئی ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے میں، مدینہ میں ایک مسخرہ رہا کرتا تھا، جو اپنی بے سروپا حرکات سے لوگوں کو ہنساتا تھابعض اوقات اُس نے اشارتاً کہا تھا کہ اِس شخص (یعنی امام زین العابدینؑ) نے مجھے زچ کرکے رکھ دیا ہے، میں نے ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی، مگر انہیں نہیں ہنسا سکاایک روز یہی مسخرہ امام زین العابدین ؑکے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آیا اور آپ ؑکے دوشِ مبارک سے آپ ؑکی عبا اچک کر لے گیاامام ؑنے اُس کی اِس حرکت پر بھی کوئی توجہ نہ دیلیکن امام ؑکی معیت میں چلنے والے لوگ دوڑے اور اُس کے ہاتھ سے عبا چھین کر امام ؑ کی خدمت میں واپس لے آئےامام ؑنے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ عرض کیا گیا: یہ مدینہ کا رہنے والا ایک مسخرہ ہے، جو اپنی اِس قسم کی حرکتوں سے لوگوں کو ہنساتا ہے۔

امام ؑنے فرمایا: اِس سے کہو کہ:اِنَّ ﷲ یَوْمَاً یخسِرُ فیهِ المُبْطِلُونَ (۲) (خدا کے پاس ایک دن ایسا ہے (قیامت) جس دن فضول کام کرنے والے لوگ نقصان اٹھائیں گےمناقبِ آلِ ابی طالب ج۴ص۱۵۸)

لغویات اور فضولیات سے دور رہنے کے بارے میں موجود بے شمار روایات میں سے ہم نے جن چند منتخب روایات کو پیش کیا وہ اِس موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہیں اِن روایات کے ذریعے پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑنے بیہودگی اور ہر قسم کے غیر مفید کاموں اور بے فائدہ سرگرمیوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہےاسکے ساتھ ساتھ یہ روایات اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ وقت اور مواقع انتہائی قدر وقیمت کی حامل شئے ہیں، انہیں باطل امور اور بے فائدہ کاموں میں تلف نہیں کرنا چاہیے۔

--------------

۲:- جملہوَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ، سورئہ غافر ۴۰ کی آیت ۷۸ میں آیا ہے۔

۱۱۷

وقت کی پہچان اور اسکی قدر

فضولیت کی جانب رجحان اور بے معنی اور بے مقصد زندگی انتہائی نقصان دہ چیز ہے، جو انسان کی شخصیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر برباد کردیتی ہے، انسان کو نہ صرف ترقی وتکامل سے روکتی ہے، اُسے اُس کی حقیقت سے دور کردیتی ہے بلکہ اس کے زوال، انحطاط اور ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

اس ضرر رساں چیز کا ایک انتہائی نمایاں اثر یہ ہے کہ یہ انسان کے قیمتی وقت کے زیاں کا سبب بن کر اسے اس کے اصل سرمائے یعنی وقت کے گوہر گراں قیمت سے محروم کردیتی ہےلہٰذا بے مقصدیت کی مخالفت اور ہر قسم کے لغو امور سے پرہیز، وقت کے قیمتی سرمائے کی حفاظت اور اس سے بہترین نتائج کے حصول کا باعث ہے۔

اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اسلام اور عقل ودانش، دونوں ہی ” وقت“ کی انتہائی قدر وقیمت کے قائل ہیں، وقت کا صحیح اور بہترین استعمال زندگی کے مختلف میدانوں میں ترقی اور کمال کی وجہ بنتا ہے۔

اسلام میں وقت کی قدر جاننے، اس کو اہمیت دینے اور اس سے صحیح صحیح اور بجا استفادے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، اور اسے خدا کی عظیم نعمت شمار کیا گیا ہے، جس کا روزِ قیامت حساب لیا جائے گاجیسا کہ رسولِ کریم ؐنے فرمایا ہے:

روزِ قیامت انسان ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے گا، جب تک اس سے ان چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: اُس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کس راہ میں بسر کیااُس کے جسم (یاجوانی) کے بارے میں کہ اُسے کن امور میں صرف کیااُس کے مال ودولت کے بارے میں کہ اُسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور میری اور میرے اہل بیت کی محبت کے بارے میں(بحار الانوارج۳۶ص۷۹)

۱۱۸

اس روایت کی روح سے قیامت کے دن خدا کا سب سے پہلا سوال عمر، یعنی انسان کی زندگی کے اوقات کے بارے میں ہوگا، کہ ُانہیں کس راہ میں صرف کیا اور اُن کے عوض کیا حاصل کیا؟ فضول اور باطل امور میں خرچ کیا؟ یا حصولِ علم وکمال، تقویٰ اور مثبت کاموں کے لیے اُن سے کام لیا؟

انسانی زندگی کی گزرتی ساعتوں کو وقت کہتے ہیںمعروف عالم ” فخر الدین رازی“ کے بقول وقت برف کی مانند ہے، جو پگھل کر ختم ہوجاتا ہے(تفسیر کبیرج۱۰سورئہ عصر کی تفسیر کے ذیل میں)لہٰذا ضروری ہے کہ اِس سے بہترین استفادہ کیا جائے، اس سے خوشگوار مشروبات کو ٹھنڈا کیا جائے، پیاسوں کو سیراب کیا جائے اور اِس کے ذریعے کھانے پینے کی اشیاء کو خراب ہونے سے بچایا جائے۔

لیکن اگر برف کو سخت گرمی میں پتھریلی زمین پر رکھ دیا جائے، تو وہ بغیر کوئی فائدہ پہنچائے پگھل کر ختم ہوجائے گااور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اِسے نشہ آور مشروبات ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرے جو انسان کے فہم وادراک، عقل وخرد کی تباہی کا باعث بنیں۔

لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ منظم پروگرام کے ذریعے فضول کاموں اور کھوکھلے اور بے فائدہ امور سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں، تاکہ اپنی زندگی کے ایک ایک سیکنڈ، ایک ایک منٹ اور ایک ایک گھنٹے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیںاس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

مومن اپنے شب وروز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہےایک حصے کو اپنی زندگی کے امور کی اصلاح اور تلاشِ معاش میں صرف کرتا ہےدوسرے حصے کو آرام واستراحت، حلال لذتوں سے استفادے اور قوت جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا ہےاور تیسرے حصے کو خدا سے راز ونیاز اور اپنے اور خدا کے درمیان معاملات کی اصلاح (خود سازی اور مختلف شعبوں میں تعمیر) کے لیے کام میں لاتا ہے(اقتباس ازنہج البلاغہ کلمات قصار۳۹۰)

۱۱۹

وقت کی قدر اور اہمیت کے بارے میں یہ کہنا ہی کافی  ہوگا کہ بعض مفسرین نے آیہ والعصر کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں عصر (جس کی خدا نے قسم کھائی ہے) سے مراد وقت ہےیعنی وقت کی قسم!!!! کیونکہ اگر اِس سے بہتر استفادہ کیا جائے، تو یہ انسان کے لیے بے مثل سرمایہ ہےاور اِس سے بہترین استفادے کے لیے ضروری ہے کہ انسان فضولیات اور بے کار اور منفی کاموں سے دور رہے۔

اگر ہم وقت کو لغو کاموں اور منفی امور میں برباد کرنے کی بجائے اس سے صحیح اور درست استفادہ کریں، تو اِس طرح ہم اپنے قیمتی وقت کو تباہ اور ضائع نہیں کریں گےاور اگر ایسا نہ کر سکیں، تو ہمیں آخر عمر میں اور روزِ قیامت غم واندوہ کے سوا کوئی اور نتیجہ حاصل نہ ہوگاجیسا کہ اِس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:

وَاتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْبِ اللهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ

اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین قانون نازل کیا گیا ہے اُس کا اتباع کرو، قبل اسکے کہ تم تک اچانک عذاب آپہنچے اور تمہیں اِس کا شعور بھی نہ ہوپھر تم میں سے کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ ہائے افسوس میں نے خدا کے حق میں بڑی کوتاہی کی ہے اور میں (آیات ِالٰہی کا) مذاق اڑانے والوں میں سے تھاسورئہ زمر۳۹آیت۵۵، ۵۶

۱۲۰