عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف22%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92318 / ڈاؤنلوڈ: 6194
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عباد الرحمٰن کے اوصاف

تالیف: محمدمحمدی اشتہاردی

ترجمہ: سید سعیدحیدر زیدی

۱

عرض ناشر

قرآن کریم انسانوں کی ہدایت اور ان کی رہنمائی کے لیے نازل ہونے والی کتاب ہےاس کا مخاطب عالمِ انسانیت ہےاس میں انسان کی خلقت، اسکی خصوصیات، اسکی منزلت، اس کے مقصد ِتخلیق اور اسکی ہدایت و رہنمائی سے تعلق رکھنے والے تمام امور کا تذکرہ ہوا ہےاسی کتاب ِ ہدایت میں ان پسندیدہ صفات و خصوصیات کو بھی بیان کیا گیا ہے جو خداوند ِعالم انسان میں دیکھنا چاہتا ہے، اور پرودگارِ عالم کی نظر میں ناپسندیدہ صفات بھی اس میں بیان کی گئی ہیںوہ امور بھی بیان ہوئے ہیں جن کی جانب ربُ العالمین نے انسانوں کو شوق و رغبت دلائی ہے، اور ایسے امور سے اجتناب کی تاکید بھی کی گئی ہے جو دنیا اور آخرت میں انسان کی تباہی و بربادی کی وجہ بنتے ہیں۔

زیر نظر تالیف قرآنِ مجید کے پچیسویں سورے، سورئہ فرقان کی آخری چند آیات کی تشریح و تفسیر پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہےان آیات میں خداوند ِعالم نے اپنے خاص اور ممتاز بندوں کو عبادالرحمن قرار دیتے ہوئے ان کی بارہ خصوصیات کا ذکر کیا ہے، اور ان کے انفرادی واجتماعی کردار کی تصویر کشی کی ہے۔

حوزئہ علمیہ قم کے ممتاز اساتید میں شمار ہونے والے حجۃ الاسلام محمد محمدی اشتہاردی نے یہ مضامین حوزئہ علمیہ قم سے شائع ہونے والے ماہنامے ” پاسدار اسلام“ کے لیے تحریر کیے جن کا اردو ترجمہ ” دوماہی رسالت کراچی“ میں قسط وار شائع کیا گیااب ان مضامین کو کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے امید ہے دارالثقلین  کی دوسری کتب کی طرح یہ کتاب بھی قارئین میں پسند کی جائے گی۔

۲

تواضع و انکسا ری

قرآنِ مجید کی سورئہ فرقان میں خداوند ِعالم نے عبادالرحمٰن (خدا کے خاص بندوں) کی تعریف و ستائش کی ہے اور اس سورے کی آیات نمبر ۶۳سے۷۴ تک میں اپنے ان بندوں کی بارہ خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ دیا ہے کہ:اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا (یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے صبرو استقامت کی وجہ سے (جزائے الٰہی کے طور پر) بہشت کے بلند محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم و سلام پیش کیے جائیں گےسورئہ فرقان۲۵آیت ۷۵)

عباد الرحمٰن کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ ان بارہ خصوصیات و امتیازات کا ذکر کریں، اور بارہ علیحدہ علیحدہ مضامین کی صورت میں ان میںسے ہر خصوصیت کو مختصراً بیان کریں، اس امید کے ساتھ کہ ان اعلیٰ اقدار و صفات سے متصف ہوکر ہم بھی کمال کے مدارج طے کرسکیں اور عبادالرحمٰن یعنی خداوند ِسبحان کے خاص اور ممتاز بندوں کی صف میں شامل ہوسکیں۔

۳

پہلی خصوصیت: تواضع و انکساری

قرآنِ مجید خداوند ِعالم کے خاص بندوں کی پہلی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا ( وہ جو زمین پر آہستہ آہستہ چلتے ہیںسورہ فرقان ۲۵آیت ۶۳) یعنی عبادالرحمٰن وہ لوگ ہیں جو آہستہ قدموں اور کسی قسم کے غرور تکبر کے بغیر زمین پر چلتے ہیں۔

تواضع کے معنی ہیں، عاجزی و انکساریجبکہ اس کی ضد تکبر اور خود پسندی ہے جو غرور، غفلت اور سرکشی کی وجہ بنتی ہے، جس کی بنا پر انسان گمراہ، بے راہ رو اور تباہ ہوجاتا ہے۔

تواضع و انکساری دو طرح کی ہوتی ہے:

۱:- خدا کے سامنے عاجزی و انکساری، جو عبودیت و بندگی کے بنیادی خواص میں سے ہے، اور جس کے بغیر بندگی کا جوہر پیدا نہیں ہوتا۔

۲:- با ایمان انسانوں کے ساتھ انکساری اور فروتنی سے پیش آنایا اُن انسانوں کے سامنے تواضع و فروتنی جن کے مقابل عاجزی و انکساری کا اظہار مثبت اثرات کا حامل ہوتا ہے اور ان میں اعلیٰ اقدار و صفات کی جانب رغبت کا سبب بنتا ہے۔

۴

خدا کے مقابل تواضع و انکساری

خدا کے سامنے عاجزی اور انکساری کی علامت یہ ہے کہ انسان اسکے فرامین تسلیم کرے، اسکی اطاعت بجالائے اور اسکی عظمت کے سامنے انتہائی خضوع و خشوع کا اظہار کرےاس پر یہ کیفیت اس حد تک طاری ہوکہ اسے جو کچھ حاصل ہے اُس سب کو خدا کی طرف سے سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اسکی مخلوقات میںسے ایک ناچیز ذرّہ سمجھےبے چوں و چرا اسکا شاکروسپاس گزار رہے اور خدا کی مرضی کے سامنے اپنی کسی بھی قسم کی مرضی چلانے سے پرہیز کرے۔

خداوند ِعالم کے سامنے عاجزی و انکساری، ایمان و معرفت کی کنجی اور درگاہِ حق اور تقرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہےاس کے برعکس خدا کے سامنے تکبر اور گھمنڈ اس سے سرکشی اور بغاوت کا موجب اور ہر قسم کی بدبختی اور گمراہی کا سبب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ پروردگارِ عالم کی عظمت و بزرگی کے مقابل انتہائی تواضع و عاجزی کے حامل تھے، یہاں تک کہ جب خدا نے انہیں اختیار دیا کہ رسول اور بندہ بن کر رہیں یا رسول اور بادشاہ بن کر ہر صورت میں خدا کے نزدیک ان کے مقام میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، تب بھی آنحضرتؐ نے بندگی اور رسالت کا انتخاب کیا اور خدا کا عاجزبندہ اور رسول بننا پسند کیا، رسول اور بادشاہ بننا قبول نہ کیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:مااکل رسول الله(ص) متّکناً منذبعثه الله عزّوجلّ نبیّاً حتّی قبضه الله الیه، متو اضعاًلله عزّوجلّ (جب سے رسول اللہ رسالت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، اس وقت سے اپنی عمر کے اختتام تک خداوند ِ عالم کے مقابل عاجزی و انکساری کی بناپر کبھی آپ نے کسی چیز پر ٹیک لگا کر غذا تناول نہیں فرمائیکحل البصرص ۱۰۰، ۱۰۱از محدث قمی)

۵

ایک دن آنحضرتؐ چند غلاموں کے ساتھ زمین پر تشریف فرما، کھانا کھانے میںمشغول تھے کہ وہاں سے ایک گستاخ عورت کا گزرہواآنحضرتؐ کو اس طرح تشریف فرمادیکھ کر اس عورت نے کہا :اے محمد! خدا کی قسم آپ بندوں (غلاموں) کی مانند کھانا کھارہے ہیں اور انہی کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں (آپ کی روش اور انداز بادشاہوں اور حکمرانوں کا سانہیں ہے) پیغمبر اسلام ؐ نے اسے جواب دیا :ویحک ایّ عبداعبدمنّی (وائے ہوتجھ پر، کونسا بندہ مجھ سے بڑھ کر بندہ (غلام) ہوگاحوالہ سابق ص ۱۰۱)

خداوند ِعالم کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی تواضع و انکساری کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ آپ کثرت کے ساتھ غربا اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھےایک دن ایک شخص نے تنقید کے طور پر آپ سے عرض کیا :آپ اس قدر افراط کے ساتھ صدقہ کیوں دیا کرتے ہیں، اپنے لیے کوئی چیز کیوں نہیں بچاتے؟ آپ نے جواب دیا:ہاں!خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ خداوند ِعالم میرے انجام دیئے ہوئے کسی عمل یا فریضے کو قبول کررہا ہے، تو میں اس افراط کے ساتھ خرچ کرنے سے پرہیز کرتالیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرے اعمال بارگاہِ الٰہی میں قبول ہورہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ مجھے اس بارے میں اطلاع نہیں اس لیے (راہ خدا میں) اس قد ر خرچ کرتا ہوں، تاکہ ان میں سے کوئی ایک قبول ہوجائے ( الغاراتج ۱۔ ص۔ ۹۱۔ از ابراہیم بن محمد ثقفی)

یہ واقعہ خداو ند ِبزرگ و برتر کے مقابل حضرت علی علیہ السلام کی انتہائی تواضع و انکساری اور آپ کےخضوع و خشوع کو ظاہر کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ آپ توحید ِافعالی کی عظیم بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے انتہائی ناچیز سمجھتے تھے۔

پاک و پاکیزہ عارف ” ورام ابن ابی فراس“ بیان کرتے ہیں کہ ایک شہر میں اولیااللہ میں سے ایک عمر رسیدہ بزرگ رہا کرتے تھےاس شہر میں زلزلہ اور طوفان آیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے اور بہت سے بے گھر ہوکر مصائب و ابتلا کا شکار ہوگئےان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور مشکلات کے حل کے لیے ان سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

۶

یہ لوگ جمع ہوکر ان پارسابزرگ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور اپنی بدحالی اور ابتر صورتحال کا ذکر کیا، اور ان سے دعا کی درخواست کییہ بزرگ خدا کے سامنے انتہائی فروتنی اور عاجزی کا اظہار کرنے لگے اور روتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:کہیں ایسا نہ ہوکہ میں خود ہی اس ہلاکت اور تمہارے مصائب کا ذمے دار ہوںلہٰذا اس فقیر ناچیز او رگناہ گار سے دعا اور اسکی استجابت کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ (تنبیہ الخواطر۔ ص ۳۰۳ازورام بن ابی فراس)

جی ہاں! پاک و پاکیزہ عرفا اور اولیاء اللہ پروردگارِ عالم کی عظمت کے سامنے اس انداز سے خاضع و متواضع ہوتے ہیںکیا خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ:يٰاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَى اللهِ (اے انسانوں! تم سب اللہ کے محتاج ہوسورہ فاطر۳۵۔ آیت ۱۵)

امام زین العابدین علیہ السلام اپنی ایک دعا کے ایک حصے میں خداوند ِمتعال سے عرض کرتے ہیں کہ :یا غنی الاغنیاء ها، نحن عبادک بین یدیک، وانا افقر الفقرائ الیک، فاجبر فاقتنا بوسعک (اے بے نیازوں میں سب سے زیادہ بے نیاز! اب ہم تیرے بندے، تیری بارگاہ میںحاضر ہیں اور تیرے فقیروں میں سب سے زیادہ فقیر میں ہوں پس ہماری تہی دستی کا اپنی تونگری کے ذریعے ازالہ فرماصحیفہ سجادیہ۔ دعا۱۰)

۷

لوگوں کا آپس میں انکساری سے پیش آنا

تواضع و انکساری کی ایک قسم دوسرے انسانوں کے ساتھ، والدین کے ساتھ، ہمسایوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ اور عام لوگوں کے ساتھ انکساری اور عاجزی سے پیش آنا ہے۔

عاجزی و انکساری کا طرزِ عمل انسانوں کے باہمی تعلقات میں استحکام اور ان کے درمیان محبت و الفت میں اضافے کا موجب ہوتا ہےجس کے نتیجے میں ان کے مابین خلوص و صفامیں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشرے سے ہر قسم کی کدورت، بدگمانی اور دوسرے مذموم اثرات مثلاً غرور و تکبر اور خود پسندی ختم ہوجاتے ہیں۔

عاجزی و انکساری، معاشرے میں انسان کے احترام اور اس کے وقار کی بلندی کا سبب بن کر باہمی اعتماد اور سکون وراحت کا باعث بنتی ہے۔ یہ صفت انسان کے اخلاق کو زینت بخشتی ہے اور اچھے تعلقات اور مخلصانہ روابط کو مضبوط کرتی ہے، انسانوں کو حق کے سامنے تسلیم کرکے ہر قسم کی جارحیت اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے سے روکتی ہےمختصر یہ کہ عاجزی، انکساری اور فروتنی بہت سی انفرادی و اجتماعی، معنوی و اخلاقی برکات کا سرچشمہ ہے۔

قرآن کریم نے، زیر بحث آیت میں اس اخلاقی صفت کو خدا کے ممتاز بندوں کی اوّلین خصوصیت قرار دیا ہے اور اس کی علامت ” انکساری اور آہستگی سے چلنا“ ہے جو دوسروں کے دل میں محبت اور پسندیدگی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :علما کی ہمنشینی تمہیں تین چیزوں سے دوسری تین چیزوں کی جانب لے جاتی ہے: (۱) تکبر سے تواضع و انکساری کی طرف(۲) بے تعلقی سے احساس ذمے داری اور نصیحت کرنے کی طرف(۳) جہل و نادانی سے علم و دانش کی طرف (مجموعہ ورام۔ ص۲۳۳)

۸

البتہ تواضع و انکساری کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں، ان میں سے ایک واضح ترین صورت راستہ چلنے کا انداز ہےبعض افراد غرور اور تکبر کی بنا پر اس انداز سے چلتے ہیں جیسے زمین کا سینہ چاک کردینا چاہتے ہوںیہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں حضرت لقمان کی اپنے فرزند کو کی جانے والی نصیحتوں میں آیا ہے کہ آپ نے اس سے فرمایا:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ

اور خبردار لوگوں کے سامنے اکڑ کر ان سے منھ نہ پھیر لینا اور زمین پر غرور کے ساتھ نہ چلنا کہ خدا اکڑنے والے اور مغرور کوپسند نہیں کرتاسورئہ لقمان ۳۱۔ آیت ۱۸

خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلامؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا

اور روئے زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کہ نہ تم زمین کو شق کرسکتے ہو اور نہ سراٹھا کر پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہوسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۷

سچ ہے، اگر انسان خود اپنے آپ اور کائنات کے بارے میں معمولی سی معرفت وشناسائی بھی رکھتا ہو تو جان لیتا ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات کے مقابل وہ کس قدر معمولی او ر حقیر ہے، خواہ اگر وہ اپنی گردن لمبی کرتے ہوئے پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی چھولےجبکہ حال یہ ہے کہ زمین پر موجو بلند ترین پہاڑ بھی زمین کی عظمت کے سامنے کچھ نہیں اور خود زمین عظیم کہکشائوں کے سامنے ایک ناچیز ذرہ ہے۔

یہ سب جاننے کے باوجود انسان کا کبروغرور میں مبتلا ہونا کیا اس کے مطلق جہل و نادانی کی دلیل نہیں؟

۹

مختصر یہ کہ تواضع و انکساری اور عاجزی وخاکساری کا اظہار متقین کے خاص امتیازات میں سے ہےامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے متقین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

ومشیهم التّواضع

اور ان کی چال منکسرانہ ہوتی ہےنہج البلاغہ خطبہ۱۹۲

رسولِ کریم ؐکی انکساری کی ایک جھلک

سیرت نویسوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِطیبہ میں لکھا ہے کہ: ایک دن آنحضرتؐ ایک گروہ کے پاس گئے (وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے)آنجناب کو اپنے درمیان دیکھ کر وہ لوگ احتراماً ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئےرسول کریمؐ نے اُن کے اِس عمل کو پسند نہ کیا اور فرمایا: اِس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح اہلِ عجم ایک دوسرے کی تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

انس بن مالک کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعدلوگ رسول ؐاللہ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرؐت کو یہ بات پسند نہیں آنحضرتؐ جب کسی مجلس میں آتے تو اس مجلس میں کمتر درجے کی جگہ پر تشریف فرماہوتے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام کی انکساری اور عاجزی میں سے یہ بھی ہے کہ آپؐ برہنہ پشت گدھے پر سوار ہونا اور خاک پر بیٹھنا پسند فرماتے تھےآپؐ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر غذا تناول فرماتے اور سائلوں کوخود اپنے ہاتھوں سے کھانا پہنچاتے آپؐ گدھے پر سوار ہوتے اور اپنے غلام یا کسی دوسرے شخص کو اپنے پیچھے بٹھاتے۔

۱۰

آنحضرتؐ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ انتہائی انکساری کے ساتھ دسترخوان پر تشریف فرما ہوتے، اور کھانا کھاتے ہوئے اپنی انگلیوں کو چاٹتے جاتے۔ اپنے مویشیوں کا دودھ خود دوہتے اور اپنے پھٹے کپڑوں اور جوتوں کی سلائی خود کرتےگھر میں جھاڑو لگاتے اور اپنے اونٹ کوخود اپنے ہاتھوں سے اصطبل میں باندھتے، اپنے گھریلو ملازم کے ساتھ مل کر گندم اور جو پیستے، اس کے آٹے کو خمیر کرتے، گھریلو ضروریات کی اشیا بازار سے خرید فرماتے اور انہیں اٹھا کر گھر تک لاتےفقرا کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ غذا تناول فرماتے، اور خود اپنے ہاتھوں سے انہیں کھانا دیتے۔ (کحل البصر۔ ص ۱۷۷از محدث قمی)

ایک روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک گلی سے گزررہے تھےآپ ؐنے دیکھا کہ کچھ لوگ ہجوم لگائے کھڑے ہیںنزدیک تشریف لے گئے اور فرمایا: کیا بات ہے، کیا ہورہا ہے؟ لوگوں نے ایک شخص کی جانب اشارہ کیا اور کہا :یہ ایک دیوانہ ہے، جو اپنی مضحکہ خیز حرکات اور باتوں سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیےہوئے ہےلوگ اس کا تماشا دیکھنے کے لیے یہاں جمع ہیں۔

پیغمبر اسلامؐ نے ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ان سے فرمایا:یہ شخص بیماری میں مبتلا ہےکیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمھیں حقیقی دیوانے سے متعارف کرائوں؟ ان لوگوں نے کہا: جی ہاں آپؐ نے فرمایا: المتبختر فی مشیہ، النّاظر فی عطفیہ، المحّرک جنبیہ بمنکبیہ الّذی لایر جی خیرہ، ولا یومن شرّہ (حقیقی دیوانہ وہ شخص ہے جو تکبر اور غرور کے ساتھ راستہ چلتا ہے، مسلسل اپنے دائیں بائیں دیکھتا جاتا ہے اور اپنے پہلوئوں کو اپنے شانوں سے ہلاتا جاتا ہے(صرف اپنے آپ میں مگن رہتا ہے) لوگوں کو اُس سے خیر کی کوئی امید نہیں ہوتی اور اُسکے شر سے امان میں نہیں ہوتےالمواعظ العددیہ۔ ص ۱۷۵۔ ازشیخ حرعاملی)

۱۱

حضرت علیؑ کی تواضع اور انکساری کی ایک جھلک

حضرت علی علیہ السلام بھی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں انتہائی حد تک تواضع و انکساری کو ملحوظ رکھتے تھےآپؑ اِس قدر فروتن اور خاکسار تھے کہ پیغمبر اسلامؐ نے آپ ؑکو ابو تراب کہا اور آپ ؑکو پسند تھا کہ لوگ آپ ؑکو اِس نام سے پکاریں۔

تاریخ میں آیا ہے کہ ” غزوہ عُشَیرہ“ کے موقع پر جب اسلامی سپاہ محاذ پر پہنچیں اور دشمنوں اور شرپسندوں کو اِس علاقے سے نکال دیا تو حضرت عماریاسر کے بقول:ہم اس محاذ پر ایک بیابان میں تھےحضرت علی ؑنے مجھ سے فرمایا:کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان کسانوں کے پاس چلیں جو (اس علاقے کے نزدیک) اس چشمے کے کنارے کام میں مشغول ہیں اور ان کے کام کرنے کا طریقہ دیکھیں؟ میں نے رضا مندی کا اظہار کیا اور ہم اکھٹے اُس جگہ گئے اور قریب سے اُن کے کام کرنے کا انداز دیکھاپھر ان کے نزدیک ہی کھجور کے درختوں کے ایک جھنڈ تلے آرام کی غرض سے زمین پر لیٹ کے سوگئےپیغمبر اسلامؐ نے آکر ہمیں بیدار کیا اور حضرت علیؑ سے فرمایا:اے ابو تراب اٹھ بیٹھئے۔ علی ؑاٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے لباس پر لگی ہوئی گردوغبار کوجھاڑااِس طرح علی ؑاِس لقب سے معروف ہوگئے۔ (کحل البصر۔ ص۱۹۳۔ ازمحدث قمی)

حضرت علی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ وہ ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے، فرماتے ہیں: ایک باپ اور اسکا بیٹا حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے (یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ زمانہ آپؑ کا دورِ خلافت تھا) حضرتؑ نے انہیں اپنا مہمان بنایا۔ انہیں صدرِ مجلس میں جگہ دیخود انتہائی انکساری کے ساتھ ان کے سامنے تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کو کہاکھانا لایا گیا اور مہمانوں نے اسے تناول کیااس کے بعد قنبر لوٹا اور لگن لے کر حاضر ہوئے تاکہ ان کے ہاتھ دھلا دیںحضرت علیؑ، باپ کے ہاتھ دھلانے کے لیے خود کھڑے ہوئےاس نے جب یہ دیکھا تو اس بات پر تیار نہ ہوا اور شدید اصرار کیا کہ آپؑ اس کے ہاتھ نہ دھلائیںلیکن حضرت علیؑ راضی نہ ہوئے اور بالآخر پانی ڈال کر اسکے ہاتھ دھلوائے۔

۱۲

اس شخص نے حضرتؑ سے عرض کیا:میرے لیے انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ خداوند ِ عالم مجھے اس حال میں دیکھے کہ آپ ؑمیرے ہاتھ دھلارہے ہوں۔

حضرتؑ نے اسے جواب دیا:نہیں، یہ تو بہترین حالت ہے، کیونکہ خداوند ِعالم دیکھ رہا ہے کہ تمھارا بھائی کسی قسم کے امتیاز کے بغیر تمہاری خدمت کررہا ہے اور اس خدمت سے اس کا مقصد بہشت کے کئی گنا اجروثواب کا حصول ہے۔

اس کے بعد حضرت علیؑ نے لوٹا اپنے فرزند محمد بن حنیفہ کو دیا اور فرمایا:اب بیٹے کے ہاتھ تم دھلائوبیٹا! اگر یہ تنہا یہاں آیا ہوتا تو اس کے ہاتھ میں دھلاتا لیکن خدا وند ِعالم کو یہ بات پسند نہیں کہ کسی جگہ باپ اور بیٹا ایک ساتھ ہوں اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائےلہٰذا تمھارے باپ نے اس کے باپ کے ہاتھ دھلائے ہیں اور اب تم بیٹے کے ہاتھ دھلائو۔ محمد بن حنیفہ نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔

اس کے بعد امام حسن عسکریؑ نے فرمایا :فمن اتبع علیّاً علی ذالک فهو الشّیعّی حقّا (جو اس بات میں علی ؑکی پیروی کرے وہ ان کا حقیقی شیعہ ہےمناقب ابن شہر آشوب ج ۲۔ ص ۱۰۵، بحارالانوار۔ ج۴۱۔ ص۵۶)

حضرت علیؑ کی تواضع و انکساری کے بارے ہی میں ” زید بن علی“ نقل کرتے ہیں:آپؑ پانچ مقامات پر، اپنی جوتیاں ہاتھ میں اٹھا کر برہنہ پاچلاکرتے تھے(۱)عید ِفطر کے دن نماز کے لیے جاتے وقت (۲) عید قرباں کے دن نماز کے مقام پر جاتے وقت (۳) جمعہ کے دن، نمازجمعہ کے لیے جاتےوقت (۴) کسی بیمار کے گھر اس کی عیادت کے لیے جاتے ہوئے (۵) اور تشیع جنازہ کے وقتاور فرمایا کرتے تھے کہ یہ مواقع خدا سے منسوب ہیں اور مجھے اس قسم کے مواقع پر (انکساری اور تواضع کے اظہار کے لیے ) برہنہ پا چلنا پسند ہے۔

۱۳

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن حضرت علی علیہ السلام سواری پر سوار کہیں سے گزررہے تھےآپؑ کے چند اصحاب آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگےآپؑ نے ان اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: کیا تم لوگوں کی کوئی حاجت ہے؟ ان لوگوں نے عرض کیا: نہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپؑ کے ہمراہ اسی طرح چلیں آپؑ نے فرمایا:انصرفواوار جعو ا، النعال خلف اعقاب الرّجال مفسدة للقلوب (جائو، واپس چلے جائو، اس طرح لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنا(ان کے) قلوب کی تباہی کی وجہ بن جاتا ہےمناقب ابن شہر آشوب ج۲۔ ص۱۰۴)

یعنی ممکن ہے یہ عمل اس شخص کو خود پسندی میں مبتلا کردے جس کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار کیا جارہا ہے اور اس سے عاجزی وانکساری کی خصلت چھین لے اور نتیجے میں معنوی لحاظ سے اسکی روح اور قلب تباہ اور بیمار ہوجائے۔

جی ہاں! پیغمبر اسلاؐم، حضرت علیؑ اور دیگر اولیا اللہ اسی قدر منکسرالمزاج تھے، عمدہ اخلاق اور نیک خصائل کا احترام کیا کرتے تھے اور عبادالرحمٰن کی اس اوّلین خصلت کو اہمیت دیتے تھے۔

مثبت اور منفی انکساری

البتہ حدود کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ ذلت اور انکساری کے درمیان بہت باریک فرق ہےلہٰذا بہت سے افراد غلط فہمی کی بنا پر تواضع و انکساری کے نام پر ذلت کا گناہ کربیٹھتے ہیں، جسے ہم منفی تواضع و انکساری کا نام دے سکتے ہیں اس قسم کی منفی تواضع و انکساری سے اسلام شدت کے ساتھ روکتا ہےقرآنِ کریم ممتاز بزرگ ہستیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرماتا ہے:اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ (یہ لوگ مومنین سے نرمی برتتے ہیں اور کفار کے مقابل سخت ہوتے ہیں۔ سورہ مائدہ ۵۔ آیت ۵۴)

۱۴

اس آیت میں واضح ہدایت موجود ہے کہ کفار اور سرکش و نافرمان افراد کے مقابل عاجزی و انکساری کا اظہار درست نہیں۔

اسی بنیاد پر امیر المومنینؑ نے فرمایا ہے:من اتی غنیاءً فتضعضع له لشیٔ یصیبه منه ذهب ثلثا دینه (ایسا شخص جو مالِ دنیا میں سے کسی چیز کے حصول کی غرض سے کسی دولت مندکے پاس آئے اور اس کے آگے خود کو حقارت سے پیش کرے، تو اس کا دو تہائی دین ختم ہوجاتاہےبحارالانوار۔ ج۷۷ص۴۳۔ ازعلامہ مجلسی)

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے:مااحسن تواضع الاغنیاء للفقراء طلباً لما عندالله، واحسن منه تیه الفقراء علی الاغنیاء اتکا لاًعلی الله (کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقرا کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئیں، لیکن اس سے بھی اچھی بات فقرا کا خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دولت مندوں کے ساتھ وقار اور بے اعتنائی سے پیش آنا ہےنہج البلاغہ کلمات قصار ۴۰۶)

ہم انکساری اور عاجزی کے موضوع پر اپنی گفتگو کو اس دلچسپ اور سبق آموزداستان پر ختم کرتے ہیں:جنگ ِاحد میں پیغمبر اسلامؐ کے ایک صحابی ” ابودجانہ انصاری“ نے اپنے سرپر ایک شاندار عمامہ باندھا، اس کے کپڑے کا ایک ٹکڑا اپنے کاندھے پر ڈالا اور انتہائی فخر وناز کے ساتھ ایک عجیب پرشکوہ انداز میں چلتے ہوئے دشمن کے سامنے گئے(عام حالات میں اس طرح چلنا ایک طرح کا غرور اور تکبر ہوتا) پیغمبر اسلامؐ نے جب انہیں اس انداز سے چلتے دیکھا تو فرمایا:انّ هذه لمشیة یبغضها الله عزّوجلّ، الاّ عندالقتال فی سبیل الله (اس طرح چلنے پر خدا ناراض اور غضبناک ہوتا ہے، مگر راہِ خدا میں معرکہ آرائی کے دوران یہ عمل (اسلامی قدرت و ہیبت کے اظہار اور دشمن کو خوفزدہ کرنے کی خاطر) پسندیدہ عمل ہے۔“ (وسائل الشیعہ ج۱۱ص۹)

ان روایات سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ تواضع اور عاجزی و انکساری دو طرح کی ہوتی ہےایک مثبت اور دوسری منفیاسی طرح اس کی ضد تکبر بھی کبھی کبھی مثبت اور پسند یدہ ہوجاتا ہے۔

۱۵

حلم اور ضبط ِنفس

قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے ممتاز بندوں کی دوسری خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (اور جب جاہل ان سے (نامناسب انداز سے) خطاب کرتے ہیں تو یہ لوگ ان کے جواب میں انہیں سلامتی کا پیغام دیتے ہیںسورئہ فرقان۲۵۔ آیت۶۳) یعنی ان کے سامنے سے، بے اعتنائی اور بزرگواری کے ساتھ گزرجاتے ہیںمراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تحمل وبردباری کی صفت پائی جاتی ہے اور انہیں اپنے اعصاب اور جذبات و احساسات پر قابو ہوتا ہے۔

ان لوگوں کا وصف یہ ہے کہ نامعقول افراد کے رویے کے مقابل بردباری اور ضبط ِ نفس سے کام لیتے ہوئے، اسلامی اخلاق کی حدوں سے باہر نہیں نکلتےعظمت ِکردار اور بزرگواری کی بدولت غیظ وغضب سے مغلوب نہیں ہوجاتےان کے مضبوط ارادے، ان کے صبرو تحمل اور سکون و اطمینان کی بنا پر انہیں پہاڑ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

یہ کہنا کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں نے مجھ پر اعتراض کیا، مجھے برابھلا کہا، تو اس کے جواب میں، میں نے اسے دس گنازیادہ سنا ڈالیںبلکہ قرآنِ کریم کی رو سے فخر و افتخار کی بات یہ ہے کہ ہم نامعقول لوگوں کے نامناسب رویے کے جواب میں ان کی اس حرکت کو نظر انداز کردیں۔ یعنی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ا ن کی طرف سے منھ پھیر لیں۔

البتہ جس سلام کا یہاں (آیت میں) ذکر ہورہا ہے وہ دوستی والاسلام نہیں، بلکہ بے اعتنائی والا سلام ہے، ایک طرح کے اعتراض اور ناراضگی کا اظہار ہے جس میں تعلق برقرار رکھتے ہوئے صلح و صفائی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیغام موجود ہے۔

ممکن ہے اس مقام پر یہ سوال پیش آئے کہ قرآنِ کریم اور روایات ِمعصومینؑ میں متعدد مقامات پر مخالفین کو برابری سے جواب دینے کی تاکید کی گئی ہےتاکہ ان ناشائستہ لوگوں کی گستاخی کا سدباب ہوسکےمثلاً قرآنِ مجید فرماتا ہے:فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ (لہٰذا جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسی زیادتی اس نے تمھارے ساتھ کی ہے۔ سورئہ بقرہ ۲آیت۱۹۴)

۱۶

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ، نامناسب طرزِ عمل اپنانے والے ناشائستہ لوگوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں: پہلی قسم کے لوگ وہ بدخواہ دشمن ہوتے ہیں جو جانتے بوجھتے، بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ، نامناسب طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اسی انداز سے جواب دینا چاہیےجبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو لاعلمی میں ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں اور ان سے ایسی گفتار و حرکات جہل اور نادانی کی بناپر سرزد ہوتی ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ حلم و بردباری اور نرمی و ملائمت کا سلوک کرنا چاہیے۔

زیر بحث آیت میں اسی ثانی الذکرگروہ کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی گئی ہےلہٰذا حلم و بردباری کا اظہار اپنے صحیح مقام پر، یعنی جہاں اسے ملحوظ رکھنا چاہیے، نہ صرف تخریبی اور نقصاندہ نہیں بلکہ تعمیری اور موثر بھی ہے۔

مذکورہ آیت میں جن لوگوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے ان کے بارے میں رسول کریم نے فرمایا ہے کہ:اَحَلمُ الناس مَن فرَّ مِن جُهّال الناس (لوگوں میں سب سے زیادہ بردبارشخص وہ ہے جو جاہل انسانوں سے دور بھاگےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۱۲)

۱۷

قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم

قرآ نِ مجید میں حلم اورکظم غیظ (یعنی غصہ پی جانے) کا ذکر دوعمدہ اور عالی صفات کے طور پر کیا گیا ہےان دونوں صفات کی بازگشت ایک ہی مفہوم کی جانب ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے اعصاب پر کنٹرو ل ہونا، جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنا، ضبط ِنفس کا مالک ہونا۔

کہاجاسکتا ہے کہ حلم اس حالت کو کہتے ہیں جو کظم غیظ یعنی غیظ و غضب کو ضبط کرلینے کا موجب بنتی ہےبالفاظِ دیگر حلم کی واضح بلکہ بہترین مثال کظم غیظ ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

خیر الحلم التّحلّم

بہترین حلم غصہ پی جانا ہےغررالحکم ، نقل از میزان الحکم تہ۔ ج ۲ص۵۱۳

قرآنِ مجید میں حلم کا لفظ ” حلیم“ کی تعبیر کے ساتھ پندرہ مرتبہ آیا ہےان میں سے گیارہ مرتبہ خداوند ِعالم کی ایک صفت کے طور پر اسکا ذکر ہوا ہے۔(۱) جبکہ چار مرتبہ اسکا ذکر حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب کی ایک صفت کےعنوان سے ہوا ہے۔(۲)

--------------

۱:- سورئہ بقرہ۲آیات ۲۲۵، ۲۳۵، ۲۶۳، سورئہ آل عمران ۳آیت ۵۵، سورئہ نساء۴آیت ۱۲، سورئہ مائدہ ۵آیت ۱۰۱، سورئہ حج ۲۲۔ آیت ۵۹، سورئہ تغابن ۶۴آیت ۱۷، سورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۴۴، سورئہ احزاب ۳۳آیت ۵۱، سورئہ فاطر ۳۵آیت ۴۱)

۲:- سورئہ توبہ ۹۔ آیت ۱۱۴، سورئہ ہود ۱۱آیت ۸۷، سورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۷۔

۱۸

قرآن مجید میں کظم غیظ کو پرہیز گار بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےارشادِ رب العزت ہے:وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ (وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں سورہ آلِ عمران ۳آیت ۱۳۴)

حلم کے معنی اپنے شدید غیظ وغضب پر قابو پالینا ہےلغت ِقرآن کے معروف عالم

” راغب اصفہانی“ اپنی کتاب ” مفردات القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ:

الحلم ضبط النفس عن هیجان الغضب

غیظ وغضب کے ہیجان کے موقع پر ضبط ِنفس کو حلم کہا جاتا ہے

مزید کہتے ہیں کہ: کیونکہ یہ حالت عقل اور خرد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اسی لیے کبھی کبھی حلم کے معنی عقل اور خرد بھی لیے جاتے ہیں(مفردات راغب، لفظ حلم کے ذیل میں)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

العقل خلیل المرء، والحلم وزیره

عقل انسان کی مخلص دوست ہے اور حلم عقل کا وزیر ہے

آپ ؑہی کا ارشاد ہے:

الحلم نور جو هره العقل

حلم ایک ایسا نور ہے جس کی حقیقت عقل و خرد ہےغرر الحکم ، نقل ازمیزان الحکم تہ۔ ج۳۔ ص۵۱۳، ۵۱۴

دوسری احادیث میں بھی حلم کی صفت کا ذکر انہی معنی میں ہوا ہےمثلاً ایک شخص نے امام حسن علیہ السلام سے پوچھا: حلم کیا ہے؟ آپؑ نے جواب دیا:کظم الغیظ وملِک النفس (غصہ پی جانا اور نفس پر قابو ہونابحارالانوار ج ۷۸۔ ص ۱۰۲)

۱۹

نیزامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

لا حلم کانصیرت والصّمت

کوئی حلم صبرواستقامت اور زبان کی حفاظت کی مانند نہیں

لفظ حلم کا استعمال امورو معاملات میں ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں بھی کیا گیا ہے(بحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص ۷۸، سفینۃ الیحارلفظ ” حلم“ کے ضمن میں)

ان لغوی معنی اور ائمہ معصومین کی تشریحات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حلم سے مراوضبط ِنفس، انقلابی صبر اور امور و معاملات کے دوران ثابت قدمی ہے۔

اس مفہوم کوپیش نظر رکھا جائے تو ضبط ِنفس میں زبان پر کنٹرول، اعصاب اور تمام اعضا و جوارح پر تسلط شامل ہےلہٰذا لفظ ” حلم“ کا ترجمہ ” برداشت“ جو ہمارے یہاں معروف ہوگیا ہے، درست نہیں ہےکیونکہ ” سختی برداشت کرنا“ حلم کے مطلق معنی نہیں ہیں ا س لیے کہ بسا اوقات اسکا مفہوم ظلم کے سامنے خاموشی سے گھٹنے ٹیک دینا اور اسے قبول کرنا ہوتے ہیں اور یہ عمل کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔

اسی بنیاد پر حلم اور ظلم سہنے کے درمیان انتہائی کم فاصلہ پایا جاتا ہےلہٰذا ان دونوں کے مقامات کی اچھی طرح شناخت لازم ہے تاکہ ظلم سہنے کو حلم نہ کہا جانے لگے اور انسان بافضیلت عمل کی انجامدہی کی بجائے فضائل و اقدار کے مخالف کسی عمل کا مرتکب نہ ہو۔

۲۰

کظم اور غیظ کے الفاظ میں لفظ ” غیظ“ کے لغوی معنی شدید غصہ، اور غیر معمولی روحی ہیجان اور اشتعال ہیں اور اسکی وجہ روحانی اذیت یا گزند پہنچنا ہوتی ہے۔

لغت میں ” کظم“ کے معنی ہیں پانی سے بھری ہوئی مشک کا منھ بند کرناکنایتاً یہ لفظ ایسے افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو شدید غیظ و غضب سے بھرے ہوئے اور غصے کی شدت سے پھٹ پڑنے کے نزدیک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی شدید ردِعمل ظاہر ہواچاہتا ہےلیکن ان میں پایا جانے والا ضبط ِنفس مضبوط تسمے کی مانند غصے سے بھری ان کی مشک کا منھ بند کردیتا ہے اور انہیں پھٹ پڑنے سے باز رکھتا ہےلہٰذا کظم غیظ اور غصے کا ضبط کرلینا، حلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ہے، جو غصے سے پھٹ پڑنے اور بے جاتندی کے سدباب کا موجب ہے اور انسان کو نامعقول تندی اور ضرررساں اور کبھی کبھی خطرناک ثابت ہونے والے جوش وخروش سے نجات دیتا ہے۔

البتہ اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر حلم اور کظم غیظ گناہگار اور مجرم شخص کی جرات و جسارت کی وجہ بنے یا دوسرے مذموم نتائج کا سبب بن جائے تو بے جا اور منفی ہوجاتا ہے۔ مثلاً پیشہ ورمجرموں کے مقابل حلم کا اظہار اور غصے کو پی جانا، یا ایسے منافقین، کفار اور بے دین افراد سے رعایت اور ان سے چشم پوشی درست نہیں جو اسلام و مسلمین کونقصان پہنچانے یا معاشرے میں فساد برپا کرنے میں مشغول ہوں۔

۲۱

قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت

زیر بحث آیت کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں اور کئی آیات ہیں جن میں حلم، ضبط ِنفس، متانت اور بردباری کی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً:

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ

تم برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو، اس طرح وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے تمہارا مخلص دوست ہو۔ سورئہ فصلت۴۱۔ آیت ۳۴

یہ آیت حلم اور ضبط ِنفس کے ایک خوبصورت اثر کی جانب اشارہ کررہی ہے اور اس بات کی تلقین پر مشتمل ہے کہ دوسروں کی ناگوار اور رنجیدہ کردینے والی باتوں کے جواب میں حسنِ سلوک، اظہارِ محبت اور اچھے ردِ عمل کے ذریعے اپنی زندگی کو آرام دہ اور آسودہ رکھیےکیونکہ جب آپ اس انداز سے جواب دیں گے تو دشمنیاں اورعداوتیں، دوستی اور محبت میں بدل جائیں گی، فتنہ و فساد کی آگ کے بھڑکتے شعلے سرد پڑجائیں گے اور معاشرے میں یکجہتی، مہرومحبت اور برادری کا چلن عام ہوگا۔

علی ابن ابراہیم نے اپنی تفسیر میںاس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ: خداوند ِعالم نے اسی آیت پر اپنے پیغمبر کی تربیت فرمائی اور لوگوں کے ساتھ پیغمبر اسلام کے طرزِ عمل اور سلوک و برتائو کی بنیاد یہی حکم تھا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شاگرد ” حفض“ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ تمام امور میں صبروتحمل اور متانت و بردباری کا مظاہرہ کرویہ بات ذہن نشین رکھو کہ خداوند ِعالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت کے لیے منتخب کیا اور انہیں صبرو تحمل کی ہدایت کی (اسکے بعد حضرت نے مذکورہ آیت کی تلاوت کی) اور فرمایا:پیغمبرؐ نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اس کے ذریعے بلند اور عظیم الشان مقاصد و نتائج حاصل کیے۔

۲۲

شیخ صدو ق علیہ الرحمہ کی ” امالی“ میں روایت ہے کہ: ایک شخص رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیںمیں صلہ رحم کرتا ہوں لیکن وہ قطع رحم کا مظاہرہ کرتے ہیںپیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت پڑھی اور اسے ہدایت کی کہ وہ بردباری، صبر اور تحمل کے ساتھ (ان کی) بدسلوکی کا نیکی سے جواب دے۔

اس شخص نے صبروتحمل اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، پیغمبر اسلام نے اس کے اشعار کی تعریف کی اور فرمایا:بعض اشعار حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض اپنے بیانات میں جادوئی اثررکھتے ہیں۔ (اقتباس از تفسیر نور الثقلین ج ۴ص ۵۴۹، ۵۵۰)

جیسا کہ ذکر ہوا، قرآنِ کریم میں پندرہ مقامات پر اللہ رب العزت کو ” حلیم“ کی صفت سے یاد کیا گیا ہےپس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ (صحیح اور کامل طور پر) اس صفت کے حامل ہیں وہ خدا کی اس صفت کے مظہر ہیں اور یہ بات حلم اور ضبط ِنفس کی انتہائی اہمیت کی علامت ہے۔

خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں اپنے عظیم المرتبت پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس وجہ سے تعریف و تمجید کی کہ وہ ” حلم“ جیسی عالی صفت کے حامل تھے اور فرمایا ہے کہ:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ

بے شک ابراہیم بہت ہی حلیم اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھےسورئہ ہود۱۱آیت ۷۵

۲۳

اور حضرت ابراہیم کو ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ

پھر ہم نے انہیں ایک حلیم فرزند کی بشارت دیسورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۱

یہاں سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ اور بھی دوسرے عالی فضائل اور انسانی خصائل کے مالک تھے، لیکن اس کے باوجود ان دونوں آیات میں صرف ان کی صفت ” حلم“ کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیت میں پیغمبر اسلاؐم کو حلم اور ملائمت کی ہدایت کی گئی ہےارشادِ رب العزت ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ

یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سےبھاگ کھڑے ہوتےسورئہ آل عمران۳آیت ۱۵۹

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت

پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ نے جابجا اپنے کردار اور اقوال کے ذریعے تلخ و ناگوار حوادث کے مقابل حلم اور ضبط ِنفس کی تاکید اور تلقین کی ہےاس بارے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:کمال العلم الحلم، وکمال الحلم کثرة الاحتمال والکظم (حلم کمالِ علم ہے اور کمالِ حلم، کثرت سے تحمل اور بکثرت غصے کو ضبط کرنا ہےغرالحکم ، نقل از میزان الحکم ۃ۔ ج ۲۔ ص۵۱۶)

۲۴

آپؑ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:جمال الرجل حلمه، انک مقوم بادبک فزیّنه بالحلم (انسان کی زیبائی، اس کا حلم ہےاے انسان! تو اپنے مودب ہونے سے پرکھاجاتا ہے، تیری زینت حلم کے ذریعے فراہم ہوتی ہےحوالہ سابق۔ ص ۵۱۳)

آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

الحلم یطفیٔ نارالغضب والحدّة تو جّج احراقه

حلم، غصے کی آگ کو بجھاتا ہے لیکن تندی اور گرم مزاجی، اس آگ کے شعلوں کو بھڑکاتی ہےحوالہ سابق۔ ص۵۱۸

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الحلم سراج الله

حلم و ضبط ِنفس خداوند ِعالم کا روشن چراغ ہے بحارالانوار ج۷۱ص۴۲۲

یہاں ہم نے اس موضوع پر موجود سیکڑوں احادیث میں سے صرف چند احادیث بطورِ مثال پیش کی ہیں ان میں سے ہر حدیث میں مختلف تعبیروں کے ذریعے ” حلم“ کی صفت کو سراہا گیا ہے اور تحمل اور ضبط ِنفس کی خصوصیت کے حامل انسان کی تعریف کی گئی ہے۔

پیغمبر اسلام، ائمہ معصومین، اولیائے الٰہی اور علمائے ربانی کی زندگیوں میں یہ بات کثرت کے ساتھ نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مہر و محبت آمیز طرزِ عمل کے ذریعے صفت ِحلم کا مظاہرہ کرتے تھے۔

۲۵

انس بن مالک کہتے ہیں: میں پیغمبر اسلامؐ کی خدمت ِاقدس میں موجود تھاآپؐ کے کاندھوں پر ایک ایسی عباپڑی ہوئی تھی جس کے کنارے سخت تھےاسی اثنا میں ایک بدوعرب آنحضرتؐ کے نزدیک آیا اور آپؐ کی اس عبا کو پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں نے آنحضرتؐ کی گردن زخمی کردیپھر اسکے بعد گستاخی سے بولا: اے محمد! تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اسے میرے ان اونٹوں پر لاد دو، تاکہ میں اسے لے جائوں کیونکہ یہ نہ تو تمہارا مال ہے نہ تمہارے والد کا۔

آنحضرت ؐنے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: یہ مال، خدا کامال ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔

پھر مزید فرمایا: اے اعرابی! جو زخم تم نے مجھے لگایا ہے، کیا ویسا ہی زخم میں تمہیں لگائوں؟

اس بدونے جواب دیا:نہیں۔

آنحضرت ؐنے فرمایا کیوں؟

اس نے کہا؟ کیونکہ آپ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتےبلکہ اسے اچھے انداز سے دور کرتے ہیںپیغمبر اسلامؐ اسکی یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجوروں سے لاد کر اسکے حوالے کردینے کا حکم دیا۔ (کحل البصرص۱۴۵)

فتح مکہ کے موقع پر، بہت سے مشرکین کو سپاہِ اسلام نے قیدی بنالیاان لوگوں کو یقین تھا کہ آنحضرت ؐانہیں قتل کردیں گے اور ان کے مال و اسباب کوتباہ و برباد کردیں گےاسی اثنا میں لشکر اسلام کے ایک پرچمدار ” سعد“ کی صدابلند ہوئی:الیوم یوم الملحمة، الیوم تسبی الحرمة، الیوم اذّل الله فریشا (آج انتقام کا دن ہے، آج دشمنوں کے مال و اسباب عزت و آبرو کی بربادی کا دن ہے، آج قریش کی ذلت و خواری کا دن ہے)

۲۶

آنحضرت ؐنے جب یہ نعرہ سناتو اسے ایک محبت آمیز نعرے سے بدل دیا اور فرمایا:الیوم یوم المرحمة، الیوم اعزّفریشاً (آج رحمت کا دن ہے، آج قریش کی عزت کا دن ہے ) اور پھر آپؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا:پرچم ہاتھ میں لو اور مکہ میں داخل ہوجائو۔

اسکے بعد پیغمبر اسلام نے قریش کو مخاطب کرکے فرمایا:اذهبوا فانتم الطّفاء (جائو، تم سب آزاد ہواقتباس از بحارالانوار۔ ج ۲۱ص۱۰۹اور۱۰۵)

ایک دوسری روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ؐنے ان لوگوں سے فرمایا: تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم آپ ؐسے اچھے طرزِ عمل کی توقع رکھتے ہیں، آپؐ ہمارے کرم پرور بھائی اور ہمارے کریم النفس بھائی کے فرزند ہیںپیغمبر اسلام نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ:لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (آج تم پر کوئی عتاب نہ ہوگا سورہ یوسف۱۲آیت۹۲)جائو تم آزاد ہو(کحل البصر۔ ص۱۴۶)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حیات کے تذکرے میں آیا ہے:آپؑ نے اپنے عہد ِخلافت میں ایک روز لوگوں سے فرمایا:جو سوال تمھارے ذہن میں ہو مجھ سے پوچھ لو۔ زیر آسمان چیزوں کے متعلق ہر سوال کا جواب میں تمہیں دوں گا اور میرے بعد یہ دعوی سوائے جھوٹے اور دروغ گوکے کوئی اور نہیں کرے گا۔

اس موقع پر مجلس کے ایک گوشے سے ایک بلند قامت شخص اٹھااس کی گردن میں ایک کتاب لٹک رہی تھییوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی یہودی عرب ہےوہ بلند آواز میں انتہائی گستاخی کے ساتھ حضرت علی ؑکو مخاطب کرکے بولا: اے اس چیز کے دعوے دار جسے تم نہیں جانتے اور بے جاحد سے تجاوز کرنے والے انسان! میں تم سے ایسے سوالات کروں گا جن کے جواب تم نہ دے سکو گے۔

۲۷

اس شخص کی یہ گستاخی دیکھ کر حضرت علی ؑکے اصحاب اورشیعوں میں سے کچھ لوگ اسے سبق سکھانے کے لیے اٹھےیہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے سختی کے ساتھ ان لوگوں کو اس عمل سے روکا اور فرمایا:اسے کہنے دو، جلد بازی، تیز مزاجی اور غصے کو خود سے دور رکھو، ان اعمال سے بندگانِ خدا پر خدا کی حجتیں تمام نہیں ہوتیں اور براہین الٰہی آشکار انہیں ہوتے۔

اس کے بعد آپ ؑنے انتہائی تحمل اور بزرگواری کے ساتھ اس شخص کی طرف رخ کیا اور فرمایا: جو سوال تمھارے ذہن میں ہے اسے پوچھواس شخص نے اپنے سوال پیش کیے اور حضرت ؑ نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیئے۔

یہ طرزِ عمل دیکھ کر اور سوالات کے تسلی بخش جواب پاکر وہ شخص حضرت علیؑ کے حلم اور علم کا شیفتہ ہوگیا اور آپؑ کی مدح میں چند اشعار پڑھے اور امیر المومنینؑ کو صاحب ِعلم، گمراہوں کے راہبر، اور کمال و انسانی فضائل میں جوانمردقرار دیا(بحارالانوارج۷۱ص۴۲۴)

اسی طرح ایک اور موقع پر آپؑ کی حیات ِمبارکہ میں تحریر ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آپؑ کی موجودگی میں آپؑ کے غلام قنبر کو سخت وسست کہاجب قنبر نے بھی اسے دوبدو جواب دینا چاہا تو امیر المومنینؑ نے انہیں صدادی اور فرمایا: مھلاً یا قنبر، دع شاتمک۔۔۔ (اے قنبر آرام سے رہو، دشنام دینے والے کو اپنی بے اعتنائی سے بخش دو، تاکہ اپنے پروردگار کو خوش، شیطان کو غضبناک اور اپنے دشمن کو عذاب میں مبتلا کرو (کیونکہ بے اعتنائی سے بڑھ کر اسکے لیے کوئی عذاب نہیں) اس خدا کی قسم، جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسان کو خلق کیا ہے، مومن اپنے پروردگارکو جس قدر ” حلم“ سے خوش کرتا ہے کسی اور چیز سے خوش نہیںکرتا اور جتنا حلم اور ضبط ِنفس سے شیطان کو غضبناک کرتا ہے اتنا کسی اور چیز سے اسے غضبناک نہیںکرتااحمق اور نادان کو جتنا عذاب سکوت اور خاموشی سے پہنچتا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں پہنچتا(بحار الانوارج۔ ۷۱ص۴۲۴)

۲۸

اس بیان میں حضرت علیؑ کا قسم کھانا، حلم کی غیر معمولی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسرے تمام ائمہؑ کی زندگیوں میں بھی کثرت کے ساتھ اس قسم کا بزرگوارانہ طرزِ عمل نظر آتا ہےاسی طرح ان کے اصحاب، شاگردوں اورعلمائے ربانی کے یہاں بھی یہ روش بکثرت دکھائی دیتی ہے یہاں اختصار کے پیش نظر ہم اسکی مثالوں کے ذکر سے گریز کررہے ہیں۔

امیر المومنینؑ پرہیزگاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں:فحلماء علماء ( یہ لوگ حلیم اور دانا ہوتے ہیں)

نیز فرماتے ہیں:یمزج الحلم بالعلم (ان کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حلم کو علم کے ساتھ ملا دیا ہےنہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۳)

حضرت علی ؑکے ایک بہترین شاگرد اور آپ کی سپاہ کے بے مثل سردار، مالک اشتر، ایک دن بازارِ کوفہ سے گزررہے تھےایک شخص جوان سے واقف نہ تھا اس نے کچھ کچرا اٹھا کر ان پر پھینک دیا اور اپنی اس حرکت پر ہنسنے لگامالک اشتراس سے کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گئےایک دکانداریہ سب کچھ دیکھ رہا تھامالک اشتر کے چلے جانے کے بعد اس نے اس احمق شخص سے کہا: تجھے معلوم ہے یہ محترم ہستی کون تھی؟ یہ حضرت علیؑ کی سپاہ کے جری سردار مالک اشتر تھےیہ سن کر وہ شخص معذرت کی غرض سے ڈرتا کانپتا مالک اشتر کے پیچھے دوڑا اور اس نے دیکھا کہ مالک اشتر مسجد میں نماز میں مشغول ہیںجب انہوں نے نماز تمام کرلی تو وہ شخص ان کے پاس گیا اور معذرت طلب کرنے لگامالک اشتر نے کہا:بخدا میں اِس وقت خدا وند ِعالم سے تیرے لیے بخشش طلب کرنے کی غرض سے ہی مسجد آیا ہوںتاکہ خدا تیرے اخلاق کی اصلاح فرمائے اور تجھے بخش دے۔ (بحارالانوار ج ۴۲۔ ص۱۵۷)

۲۹

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات

حلم کی ایک برکت اور اثر عفوودرگزرہےعفوودرگزر جوانمردوں کی صفات میں سے ہے جس کے ذریعے دوستی کے تعلقات اور باہمی روابط میں استحکام اور مہرومحبت پیدا ہوتی ہے۔

ایسا انسان جس میں حلم کی صفت نہ ہو، اس میں عفوودرگزر کی خصوصیت نہیں ہوسکتییہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم کا حلیم ہونا، اس کی جانب سے عفووبخشش کا موجب ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک خطبے کے آغاز میں فرماتے ہیں:الحمد لله  الذی عظم حلمه فعفا (اس خدا کی حمدوسپاس جس کے حلم کی عظمت اسکے عفوودرگزر کا موجب ہے۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱)

حلم کی ایک اور تاثیر یعنی اس کی وجہ سے دوستوں میں اضافہ ہونے کے بارے میں امیر المومنین فرماتے ہیں:وبالحلم عن السّفبه تکثر الانصار (احمق لوگوں کے مقابل حلم و بردباری کا اظہار انسان کے ساتھیوں میں اضافہ کرتا ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار ۲۲۴)

اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ:الحلم عشیره (حلم خود ایک قبیلے کی مانند ہے(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۔ ۴۱۸)

حلم سے ہمت پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا موجب ہوتا ہےحلم کی اس تاثیر کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:والحلم والا ناة توامان ینتجها علوّ الهمّة (حلم اور بے اعتنائی دو جڑواں مولود ہیں جن سے بلند ہمتی پیدا ہوتی ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۴۶۰)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا: الحلم غطاء ساتر (حلم ڈھانکنے والا پردہ ہے)

۳۰

حلم کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ عزت و شرف کا باعث ہےلہٰذا حضرت علیؑ نے فرمایا ہے: ولاعز کالحلم (کوئی شرف حلم کی مانند نہیں۔ نہج البلاغہ۔ کلمات ِقصار۱۱۳) یعنی حلم اور ضبط نفس خداوند ِعالم کی بارگاہ اور لوگوں کی نظروں میں عزت وشرف کا باعث ہے۔

حلم ہی کے اثرات اور برکات میں سے ایک یہ ہے کہ کاموں میں تقصیر اور کوتاہی کا موجب نہیں ہوتا اور لوگوں کے سامنے ایک پسندیدہ اور خوشگوار زندگی کا باعث بن جاتا ہےبقول امام علی علیہ السلام: ومن حلم لم یفرط فی امرہ، وعاش فی الناس حمیداً (حلیم شخص، اپنے کاموں میں تفریط و کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا اور لوگوں کے درمیان پسندیدہ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔ نہج البلاغہ کلمات ِقصار۳۱)

خداوند ِعالم سے دعا گوہیں کہ ہم ان فرامین اور بزرگانِ دین کے اس طرزِ عمل سے حلم اور ضبط ِنفس کا درس لیں اور اس خصلت کے ذریعے دنیا اور آخرت میں امتیازی مقام حاصل کریں۔

۳۱

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت

قرآنِ مجید میں، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی تیسری خصوصیت اور امتیاز کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا

خدائے رحمان کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو اپنی راتیں پروردگار کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں بسر کرتے ہیں۔ سورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۴

یعنی یہ لوگ خدا سے انتہائی قریبی اور مضبوط عبادی تعلق رکھتے ہیں اسی گہرے تعلق کا نتیجہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے نرم اور گرم بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے رازونیاز میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور سجودوقیام کے ذریعے، اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کے سامنے عاجزی اور انتہائی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بندگانِ خالص خالقِ کائنات کی مخلصانہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کو جلا اور صفا بخشتے ہیں، تعلق باللہ سے پھوٹنے والے صاف و شفاف چشمے کے پانی سے اپنا قلب دھوتے، چمکاتے اور نورانی کرتے ہیں۔

جس وقت غفلت شعار لوگ گہری، میٹھی نیند سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، اور ایک ایسے وقت جب ریا اور خودنمائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس وقت خدا کے یہ مخلص بندے اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر اس سے بھی زیادہ لذت آور شئے، یعنی خدا کے ذکر اور اس کی عظیم بارگاہ میں قیام وسجود میں مشغول ہوجاتے ہیں، خدا کے ساتھ اپنے روحانی اور عرفانی بندھن کو مضبوط ومستحکم کرتے ہیں، توحید کے بے کنار سمندر میںغوطہ ورہوکے، یکتاپرستی کے جام سے مست ہوکر اپنے قلب کو عشقِ حقیقی سے آشنا کرتے ہیں اور اپنی روح کی تشنگی اور پاکیزہ اور تشنہ توحید فطرت کو چشمہ توحید سے سیراب کرتے ہیں۔

۳۲

عبادت اور اس کا فلسفہ

قرآنِ مجید میں خدا کی عبادت اور عبادی رسومات، جیسے نماز، روزے، حج اور دعا وغیرہ کے بارے میں خصوصیت اور اہمیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور دوسری ہر چیز سے پہلے عبادت کو خدا کے خاص بندوں اور ممتاز انسانوں کی اصل اور بنیادی خصوصیات میں سے قرار دیا گیا ہےیہ پاکیزہ صفات افراد عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعمال کو بھی بندگی ٔرب کے طور پر انجام دیتے ہیں اور اپنی تمام سرگرمیوں کو خالص نیت اور ہر قسم کی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کرکے الٰہی رنگ دیتے اور عبادت کے صاف و شفاف پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔

عبادت کا لفظ دراصل لفظ ” عبد“ سے لیا گیا ہے اور عبد ِکامل اس انسان کو کہا جاتا ہے جو اپنے مولا اور مالک کا سراپا اطاعت گزار اور تابعدار ہو، اس کا ارادہ اپنے آقا و مالک کا تابع ہو، اس کی خواہشات اپنے حاکم اور مولا کی تابع ہوں(وہ انسان جو خدا کی بندگی اور عبودیت کا دعویدار ہوتا ہے) خدا کے سامنے اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا، اور اس کی اطاعت میں سستی اور کاہلی کو کسی صورت اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔

واضح الفاظ میں عرض کریں کہ اپنے بندے کو نہایت انعام واکرام سے نوازنے والے معبود، یعنی خدائے یکتا اور بے ہمتا کے سامنے زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں حددرجہ خضوع اور انکساری کا اظہار ” عبادت اور بندگی“ کہلاتا ہے۔

عبودیت، ذات ِخدا کے سامنے انتہائی تسلیم اور تابعداری کا نام ہےعبودیت، ہر میدان میں خداوند ِعالم کی بے قید و شرط، بلاچوں وچرا اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے۔

۳۳

عبودیت ِکامل کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس حقیقی معبود، اس کمالِ مطلق کے سوا کسی اور کو خاطر میں نہ لائے، اسکی دکھائی ہوئی راہ کے سوا کسی اور راستے پر قدم نہ رکھے، سوائے اسکے کسی اور کے ساتھ دل وابستہ نہ کرے، اور سب سے کٹ کر صرف اسی کا ہورہےخدا کے ساتھ اس کی یہ وابستگی اس حد تک پہنچی ہوئی ہونی چاہیے جس کا ذکر مناجات ِشعبانیہ میں آیا ہے، جسے حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے تمام ائمہ تلاوت کیا کرتے تھےاس مناجات کے ایک حصے میں ہے کہ:

لَهِی هَبْ لیِ کَمَال الانِقِطَاعِ اِلیْکَ وَاَنِرْ اَبْصَارَقُلُوبِنَا بِضِیاءِ نَظَرِ هَا اِلَیْکَ، حَتّٰی تَخْرِقَ اَبْصَارَ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ، فَتَصِیلَ اِلیٰ مَعْدِنِ اَلْعَظَمَةِ، وَ تَصِیرَ اَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةُ بِعِزً قُدْسِکَ

بار ِالٰہا! مجھے اپنی مخلوقات سے کٹ جانے اور(تو) اپنی ذات ِپاک سے جڑ جانے کا کمال بخش دے، (خدایا مجھ کو اپنی جانب مکمل انقطاع عطا کر) اور میرے دل کی آنکھ کو اس نور سے روشن فرماجو تیرا مشاہدہ کرسکے تاکہ میری دیدہ بصیرت نور کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی عظمت کے معدن تک جاپہنچے، اور ہماری روحیں تیرے مقامِ قدس کی عزت سے وابستہ ہوجائیں(مناجات شعبانیہ از مفاتیح الجنان)

قرآنِ کریم میں خدا کی عبادت و بندگی کو ہدف ِخلقت اور انسانی کمال کی انتہائی بلندی قرار دیا گیا ہےارشادِ باری ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

ہم نے جن و انس کو صرف اس لیے خلق کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔ سورہ ذاریات ۵۱آیت ۵۶

اس آیت کے مطابق انسان کی خلقت کا مقصد یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں اس طرح خدا کی عبادت کرے جیسا اس کی عبادت کا حق ہے۔

۳۴

اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ خدا وند ِعالم انسانوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہےکیونکہ اگر تمام کائنات کافر ہوجائے، اللہ سبحانہ تعالیٰ سے منھ موڑ لے، تب بھی اللہ رب العزت کے دامنِ کبریائی پر کوئی معمولی سی بھی آنچ نہ آئے گی۔

بلکہ عبادت، دراصل خود انسان کی تعمیر ذات، بہبود اور تکمیل کے لیے ہےانسان صحیح صحیح اور شرائط کے ساتھ انجام دی گئی عبادت کے ذریعے تربیت پاتا ہے، اس کی شخصیت جلاِپاتی اور پاکیزہ ہوتی ہےوہ خدا کی بندگی کے برخلاف ہر قسم کے گناہ اور گمراہی سے دور رہتا ہے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اعلیٰ و ارفع روحانی فضیلتیں حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے کمال کی چوٹی پر جاپہنچتا ہے۔

فلسفہ عبادت کے بارے میں یہ آیت ِقرآن اسی جانب اشارہ کررہی ہے کہ:

يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے آنے والے لوگوں کو خلق کیا ہے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (سورہ بقرہ۲آیت ۲۱)

اس آیت میں فلسفہ عبادت کی وضاحت کی گئی ہے جو پرہیز گاری، پاکیزگی اور روح سے ہرقسم کی آلودگیوں کو دھوڈالنا ہے۔

لہٰذا عبادت کا ایک مقصد انسان کے گناہوں کو دھوڈالنا اور اسے پاک کرنا ہے۔ اس مرحلے کے بعد عبادت کے دوسرے مرحلے یعنی مرحلہ تکامل کی نوبت آتی ہے، جس میں انسان تکامل کے درجات ومراحل طے کرتا ہے۔

۳۵

قرآنِ کریم میں جس مقام پر خدا وند ِعالم نے پیغمبر اسلام کی معراج کو بیان کیا ہے (معراج جو آنحضرت کی عظمت کی انتہائی بلندیوں کی علامت ہے) اسی مقام پر پیغمبر کی عبودیت کے معاملے پر بھی گفتگو فرمائی ہے اور وضاحت کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے تکامل اور ان کی عظمت کی بلندیوں کی بنیاد، آنحضرت کی بندگی ہےارشاد ہوتا ہے:

 سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَه لِنُرِيَه مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّه هُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ

پاک و پاکیزہ ہے وہ (معبود) جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بے شک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورہ بنی اسرائیل ۱۷ آیت ۱)

شب ِمعراج پیغمبر اسلام کے سدرۃ المنتہیٰ پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے قرآنِ کریم کہتا ہے:فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِه مَآ اَوْحٰى ( پھر خدا نے اپنے بندے (پیغمبر) پر جو وحی کرنی چاہی وہ وحی کردیسورہ نجم ۵۳ آیت ۱۰)

یہ دو آیات، پیغمبر اسلام کی معراج اور آپ کی بندگی کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو واضح کرتی ہیںیعنی رسولِ کریم کا خدا کی عبودیت اور اس کی بندگی کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہونا معراج کی بلندیوں تک آپ کی رسائی اور تکامل کا موجب بنا۔

خود پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے کلمات میں بھی مختلف طریقوں سے اس نکتے کو بیان کیا گیا ہےمثال کے طور پر روایت کی گئی ہے کہ معراج کے دوران ایک فرشتہ پیغمبر اسلام کے پاس آیا اور عرض کیا: خدا وند ِعالم نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں آپ کے حوالے کرنے کی غرض سے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو پیغمبر اور عبدرہیں اور اگرچاہیں تو پیغمبر اور بادشاہ بنیں۔

۳۶

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جواب دیا:بَلْ اَکُونُ نَبِیّاً عَبْداً (میں پیغمبری اور عبودیت کو چنتا ہوںبحارالانوار۔ ج ۱۸ ص ۳۸۲)

ائمہ معصومین کے فرامین میں ملتا ہے:اِنَّ الصَّلَا ةَ مِعْراجُ الْمُومِنِ (بے شک نماز، مومن کی معراج اور اسکے عروج و بلندی کا وسیلہ ہےبحارالانوارج ۸۲۔ ص ۳۰۳)

احادیث قدسی میں ایک مقام پر ہے: شب ِمعراج خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

عَبْدی اَطِعْنِی اَجْعَلَکَ مَثَلِی اِذَا قُلْتَ لِشَی ءٍ کُنْ فَیَکُونْ

اے میرے بندے! میری اطاعت کر، تاکہ میں تجھے اپنا ایک ایسا مظہربنادوں کہ جب تو کسی چیز کو کہے کہ ہوجاتو وہ چیزواقع ہوجائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلْعُبُودِیَّةُ جَوْهَرَةُ کُنْهُهَا الرَّبُو بِیَّهْ

عبودیت اور بندگی وہ جوہر ہے جس میں ربوبیت پوشیدہ ہےمصباح الشریعہباب۱۰۰

مراد یہ کہ عبودیت اور بندگی، انسان کو خدا سے انتہائی قریب کرکے اسے مقامِ ربوبیت پر پہنچادیتی ہے، اسے خدا کی صفات کا مظہر بنادیتی ہے اور وہ اذنِ الٰہی سے عالمِ تکوین میں تدبیرو تصرف کرنے لگتا ہے، اس کے ہاتھوں کرامات اور غیر معمولی امور سرزدہونے لگتے ہیں۔

۳۷

اس بات کی وضاحت اس مثال کے ذریعے کی جاسکتی ہے کہ اگر ٹھنڈے اور سیاہ لوہے کو، لوہار کی بھٹی میں ڈال دیا جائے تو وہ پگھل کر سرخ انگارا بن جاتا ہےیہ لوہا، لوہا ہونے کے ساتھ ساتھ، آگ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے چمکتا ہوا انگارہ سا محسوس ہوتا ہےلوہے کی یہ حدت اور چمک اُس آگ کا معمولی سا اثر ہے جس میں وہ پڑا ہوتا ہے اور جو اسے اس رنگ میں لے آتی ہے۔ انسان بھی عبودیت کے اثر سے خدا کی طرح بن سکتا ہےاستاد شہید مرتضیٰ مطہری علیہ الرحمہ کے بقول بندے کو یہ سیرومقام پانچ مراحل میں حاصل ہوتا ہے:

۱:- بندگی کے سائے میں انسان اپنے نفس پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔

۲:- اس مرحلے کے بعد انسان اس قدر قوی بن جاتا ہے کہ اس کا نفس طاقتور ہوکر گناہوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کی قوت پالیتا ہے۔

۳:- اس مرحلے کے بعد، بہت سے امور میں روح بدن سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔

۴:- اس مرحلے کے بعد روح بدن کو چھوڑ دیتی ہے اور بدن ہر لحاظ سے روح کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔

۵:- پانچویں مرحلے میں، انسان اس قدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ حتیٰ اپنے بدن سے باہر کی اشیاء پر بھی اثر انداز ہونے لگتا ہےاولیائے الٰہی جن سے معجزے، کرامات اور عالمِ تکوین میں تصرف جو خداوند ِعالم سے مخصوص کاموں میں سے ہے، اس شخص سے بھی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ (ولا هاو ولایتها ۔ ص۷۲تا۸۲، بطور افتباس)

۳۸

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت

عبادت میں پایا جانے والا خلوص اور معرفت، اس میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور اسی کے سائے میں انسان کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔

اگر عبادت معرفت سے خالی ہوتو ایک بے جان جسم کی مانند ہے، بے سوچے سمجھے انجام دی جانے والی حرکات و سکنات اور ایک کھوکھلا عمل ہےاسی طرح اگر عبادت شرک آلود ہو، دکھاوے کے لیے انجام دی جائے تو شرک ِخفی کا موجب بن کر خدا سے تقرب کی بجائے اس سے مزید دوری کا سبب بن جائے گی اور نتیجے کے طور پر بے سود رہے گیاس کھوکھلے پھل کی مانند جس میں نہ صرف کوئی مفید خاصیت نہیں پائی جاتی بلکہ نقصان دہ بھی ہوجاتا ہے۔

عارفانہ عبادت ایسی عبادت کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کی معرفت اور شناخت کے ساتھ انجام دیتا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے خدا کی عبادت کرتا ہے کہ وہی لائق عبادت ہے اور اسکی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا تقاضا ہے کہ اسی کی پرستش کی جائےایسا ہی شخص عبادت کے مغز اور اس کے فلسفے کو جانتا ہے اور اس کی روح اور فکر میں عبادت کی حقیقت جڑ پکڑ چکی ہوتی ہے، رچ بس گئی ہوتی ہے، اور وہ اس بلند اور رفیع الشان سوچ کے ساتھ رہوارِ عبادت پر سوار ہوکر ملٰکوت کی جانب پرواز کرتا ہے۔

اس جانب متوجہ کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

بے شک ایک گروہ بہشت کی رغبت میں خدا کی عبادت کرتا ہے، یہ تاجروں کی عبادت ہےایک دوسرا گروہ آتشِ جہنم کے خوف سے خدا کی پرستش کرتا ہے، یہ غلاموں کی عبادت ہےجبکہ ایک اور گروہ خدا کی نعمتوں کے شکر میں اس کی عبادت بجالاتا ہے، یہ آزاد منش افراد کی عبادت ہے(نہج البلاغہ کلمات قصار ۲۳۷)

۳۹

امام ؑکے اس قول سے ظاہر ہے کہ کامل اور عارفانہ عبادت، ایسی عبادت ہے جو صرف خدا کے لیے اور اس کی نعمتوں پر شکر کی غرض سے ہو۔

مخلصانہ عبادت، وہ عبادت ہے جو حضور قلب، اخلاص و صفا اور ہر قسم کے ریا اور خودنمائی سے پاک ہوصرف اور صرف خدا کے لیے ہومثال کے طور پر پانی مایہ حیات ہےیہ خصوصیت صرف اسی پانی میں پائی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہو جبکہ آلودہ پانی جس میں مختلف جراثیم کی آمیزش ہو، نہ صرف مایہ حیات نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

ریا سے آلودہ اور غیر خالص عبادت، ایسے ہی آلودہ اور جراثیم بھرے پانی کی مانند ہے جبکہ مخلصانہ اور بے ریا عبادت، مثبت اور تعمیری آثار کی حامل اور انسان سازی اور انسانی کمال کا موجب ہوتی ہے۔

عبادالرحمن کی تیسری خصوصیت کو بیان کرنے والی زیر بحث آیت (یعنی سورہ فرقان کی آیت نمبر۶۴) دو نکات پر مشتمل ہے:

۱:- خدا کے یہ مخلص بندے ہمیشہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیںعبادت ِالٰہی کے خوگر ہو کر مسلسل اسی میں مشغول رہتے ہیں اور متواتر قیام و سجود کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

۲:- یہ لوگ رات ڈھلے آرام دہ بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے راز و نیاز میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

آیت میں ان بندگان خدا کے راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرنے کی جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کے اخلاص کو ظاہر کرنے کے لیے ہےیعنی یہ لوگ تاریکی ٔ شب میں، جب کسی بھی قسم کے دکھاوے اور ریا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی (یہ صورت ِحال عام طور پر رات کی تاریکی ہی میں پیدا ہوتی ہے) خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177