عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف22%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92518 / ڈاؤنلوڈ: 6243
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

قابل توجہ بات ہے کہ قرآنِ کریم میں دو الفاظ ” لہو“ اور ” لعب“ بار بار استعمال ہوئے ہیں اور ان سے پرہیز کی تلقین کی گئی ہےلہو ولعب (جن کے معنی عیاشی، غافل کردینے والے اور منفی اثرات کے حامل کھیل کود ہیں) اُن عوامل میں سے ہیں جو انسان کو لغو اور فضول کاموں میں مصروف کردینے کا باعث ہوتے ہیں۔

ہم لہو ولعب سے پرہیز کے بارے میں قرآنِ کریم کی ہدایت سے یہ نکتہ بھی حاصل کرسکتے ہیں کہ اِن سے پرہیز، وقت کی قدر کرنے اور اس سے مفید استفادے کا بہترین ذریعہ ہےلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ فضولیت کی جانب رجحان سے جو نقصانات بشریت کو اٹھانا پڑے ہیں (جن کی ایک شکل لوگوں کا منشیات کا عادی ہونا ہے) وہ خطرناک اور انتہائی بڑی خسارتیں ہیں۔

وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج

وقت کی قدر کرنے والا انسان نہ صرف اپنی آخرت کی کامیابی کا بندوبست کرسکتا ہے اور معنویت کے بلند درجات پر پہنچ سکتا ہے بلکہ اِس دنیا میں بھی علم وعمل کے میدانوں میں کمال کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے اور ایک عالمی شخصیت بن کر بشریت کو اپنی قیمتی خدمات سے فیضیاب کرسکتا ہےاگر ایڈیسن نے بجلی دریافت کی اور بہت سی دوسری مفید دریافتوں کا سبب بنا، اگر بو علی سینا نے علمِ طب اور فلسفے اور عرفان کو وسعت اور گہرائی دی اور اگر آئن اسٹائن نے فزکس کو رونق بخشی اور اس کے تجزیئے اور تحلیل کی وسعت میں اضافہ کیا اور بہت سے دوسرے لوگ جو مختلف میدانوں میں علوم کی وسعت وترویج اور صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنے، تو یہ سب کچھ وقت سے صحیح استفادے کی بدولت ممکن ہوا ہےکیونکہ اگر یہ لوگ اپنے بہترین وقت کو لغو اور فضول کاموں میں گزار دیتے تو اِس سے خود اُن کی اور اُن کے معاشروں کی تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ برآمد نہ ہوتا۔

۱۲۱

ہم خود اپنے ارد گرد اپنے بزرگ علما کو دیکھتے ہیں، جنہوں نے اپنے وقت سے استفادے اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عالی ترین درجات حاصل کیے اور معاشرے کے لیے عظیم الشان علمی اور عملی خدمات انجام دیں اور اس کے لیے برکات وثمرات کا باعث ہوئےاس سلسلے میں ہم آپ کی توجہ کے لیے اختصار کے ساتھ چار علما کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

۱:- آیت اﷲ العظمیٰ شیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ، المعروف صاحب ِجواہر (وفات ۱۲۶۶ھ) جنہوں نے اپنی یادگار کے طور پر استد لالی فقہی کتاب“ جواہر الکلام“ چھوڑی ہے، جو چالیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں تمام ابواب ِفقہ شامل ہیں اِن بزرگوار نے اپنے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور اِس میں ممتاز شاگردوں کی تربیت کی اور گراں قدر کتاب جواہر الکلام تالیف کی جو اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے شیعہ استدلالی فقہ میں بے نظیر حیثیت کی حامل ہےیہ کتاب بجا طور پر فقہ شیعہ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی کتاب ” بحار الانوار“ احادیث ِمعصومین کا دائرۃ المعارف اور خاندانِ رسالت کے علوم ومعارف پر مبنی ایک چھوٹا سا کتب خانہ ہے۔

مرحوم صاحب الجواہر کی ولادت تقریباً ۱۱۹۲ء میں ہوئی۲۵ برس کی عمر میں آپ نے ” جواہر الکلام“ کی تالیف کا آغاز کیا اور ۱۲۵۷ء میں اِسے مکمل کیایعنی آپ نے بغیر کسی وقفے کے اِس کتاب کو ۴۰ سال میں تحریر کیا اور یہ عظیم توفیق حاصل کیآپ نے ۱۲۶۶ء میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائیاِس کتاب کے علاوہ بھی آپ نے دوسری کتب تالیف کیں، جن میں نجاۃ العباد، ہدایۃالناسکین اور علم اصول پر ایک کتاب بھی شامل ہےبعض علما کے بقول اگر صاحب ِجواہر کے دور کا کوئی تاریخ نویس اُس دور کے حیرت انگیز واقعات قلمبند کرتا، تو اُسے کتاب جواہر الکلام کی تالیف سے زیادہ حیرت انگیز کوئی اور واقعہ نہ مل پاتا(جواہر الکلامطبع بیروتج۱ص۱۲، ۱۴، ۱۷ اور ۲۴ مقدمہ)

۱۲۲

غور سے پڑھیےشیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ کا ایک بہت پیارا فرزند، جس کا نام حمید تھا، اُس کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا تھایہ بات پیش نظر رہے کہ شیخ کو اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل اور زندگی کے امور میں بہتری کے لیے اِس بیٹے کی بہت زیادہ ضرورت تھیشیخ اپنے اِس فرزند کے جنازے پر آئے اور چند آیات ِقرآنی کی تلاوت کیابھی جنازے کو تدفین کے لیے تیار ہونے میں کچھ وقت تھایہ دیکھ کر شیخ وہیں بیٹھ گئے، اپنا بستہ کھول کر اس میں سے قلم وکاغذ نکالا اور کتاب جواہر الکلام (جسے اُس زمانے میں وہ تحریر کررہے تھے) لکھنے میں مصروف ہوگئے۔

وقت کی اہمیت اور اِس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے سلسلے میں شیخ کا یہی طرز عمل تھا جس کے ذریعے آپ نے فقہ وفقاہت کے میدان میں ایسی گرانقدر کتاب پیش کیامام خمینی نے اپنے ایک بیان میں اِس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔

۲:- مرجع اعظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ اپنی جوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان میں تحصیل علم میں مشغول تھےکبھی کبھی آپ رات کے وقت مطالعے میں ایسے غرق ہوجاتے کہ صبح موذن کی اذان ہی آپ کو وقت گزرنے کا احساس دلاتییہ ترقی اور کمال کے لیے وقت سے استفادے کی ایک اور مثال تھی۔

۳:- ابو ریحان البیرونی (متوفی ۴۳۰ھ) کا شمار ممتاز علما میں ہوتا ہےیہ بو علی سینا کے ہم عصر تھے اور علمِ طب اور ریاضی وغیرہ میں اپنے زمانے کے چوٹی کے علما میں اِن کا شمار ہوتا تھاانہوں نے مختلف علوم کے حصول کے لیے اُس دور میں دور دراز علاقوں کے سفر کیے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، کثیر علمی سرمایہ اکٹھا کیا اور علم کے اعلیٰ درجات تک پہنچےوقت کی قدر کے سلسلے میں کم ہی لوگ اُن کی مثل ہوں گےوہ اپنی عمر کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھتے تھے، دیکھا کرتے تھے

۱۲۳

 کہ کہیں وہ فضول اور باطل امور میں برباد تو نہیں ہورہااِن کے حالات ِزندگی میں تحریر کیا گیا ہے کہ: ہمیشہ قلم ان کے ہاتھ میں رہتا تھا، مسلسل غور وفکر میں غرق رہتے تھے، عید ِنو روز اور عید ِ مہرگان (ایرانی سال کے مہینے مہرکے پہلے دن) کے سوا پورے سال کام اور تحقیق میں مصروف رہا کرتے تھے۔

تعجب انگیز قصہ ہے کہ جب وہ بسترِ مرگ پر تھے تو اُن کا ایک شاگرد احوال پرسی کے لیے اُن کے یہاں آیااِس موقع پر بھی انہوں نے ریاضی کے ایک مسئلے ” حساب جدّات“ کے بارے میں اس سے گفتگو کیاس شاگرد نے ان سے کہا کہ آپ اس حال میں بھی ریاضی کے مسائل پر گفتگو کررہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میری نظر میں اس مسئلے سے آگاہی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا، اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے گزر جانے سے بہتر ہےشاگرد کہتا ہے کہ میں نے اس مسئلے کی وضاحت کی، اِس کے بعد ان سے رخصت چاہی، ابھی میں اپنے گھر بھی نہیں پہنچ پایا تھا کہ منادیوں نے خبر دی کہ ابو ریحان کا انتقال ہوگیا ہے(سفینتہ الیحاررج۱ص۵۳۸)

۴:- عظیم فلسفی ملّا ہادی سبزواری، جو تیرہویں صدی ہجری کے بڑے فلاسفہ اور حکما میں شمار کیے جاتے ہیں اور جو ایران اور اسلام کے لیے باعث ِافتخار لوگوں میں سے ہیں، انہوں نے اپنی جوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان سے تعلیم حاصل کیآپ وقت کو اِس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط تک کو کھول کر نہیں پڑھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن میں سے کوئی ایسی ناگوار خبر ہو جو ان کے ذہن کو اپنی طرف مشغول کرلے اور اِس کی وجہ سے اُن کی پڑھائی کا نقصان ہوجائےتعلیم ختم کرنے کے بعد، جب انہوں نے وطن واپسی کا ارادہ کیا تو ان خطوط کو کھول کر پڑھااِن میں سے ایک خط میں اُن کے ایک قریبی رشتہ دار کی موت کی خبر تھییہ دیکھ کر علامہ سبزواری نے کہا کہ: خدا کا شکر ہے کہ جب مجھے یہ خط ملا تھا اُس وقت میں اِس ناگوار خبر سے مطلع نہ ہواکیونکہ یہ میری تعلیم کے لیے نقصان کا باعث ہوتا(تاریخ فلاسفہ اسلامج۲ص۱۵۳)

۱۲۴

حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ بھی اِن عظیم افراد میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں تنظیم اور نظم وضبط کے ذریعے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عظیم دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل کیےانہوں نے اپنے ایک کلام میں فرمایا ہے: ہمیشہ قلیل منظم گروہ نے کثیر غیر منظم گروہ پر غلبہ حاصل کیا ہے(صحیفہ نورج۱۴ص۱۷۸)

مقالے کی اختتامی سطور کو ہم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اِس پُر معنی کلام سے زینت بخشتے ہیں امام ؑنے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا: سخت ترین غم واندوہ، فرصت اور مواقع کا ہاتھ سے نکل جانا ہے(غرر الحکم ج۲ص۴۴۱)

۱۲۵

قرآنِ کریم سے درست استفادہ

قرآنِ کریم خداوند ِعالم کے خاص اور ممتاز بندوں کی گیارہویں امتیازی خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا

اور جب ان لوگوں کو آیات ِالٰہی کی یاد دلائی جاتی ہے تو بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتے ہیںسورئہ فرقان۲۵آیت ۷۳

یہ خصوصیت، خدا کے ممتاز بندوں کی اہم ترین خصوصیت اور سب سے بڑی نشانی ہےوہ قرآنِ کریم سے، اس عظیم ترین آسمانی کتاب اور پیغمبر اسلام کے یگانہ دائمی معجزے سے گہرا اور مضبوط نظری اور عملی تعلق رکھتے ہیں اور اُن کا یہ تعلق اِس قدر موثر ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیمات اُن کے طرزِ عمل میں نمایاں نظر آتی ہیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے اِسی اور اِسی طرح کی دوسری آیات ِقرآنی کی بنیاد پر فرمایا ہے کہ: قرآن کے قاری تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اسے مادّی امور کے حصول کا وسیلہ اور بادشاہوں سے تعلقات کے قیام کا ذریعہ بناتے ہیں، اور اس کے ذریعے لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی جتاتے اور خودنمائی کرتے ہیںدوسری قسم کے قاری وہ ہوتے ہیں جو تلاوت کے دوران حروف (اور تجوید) کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن اسکے حدود و قوانین کو قدموں تلے روندتے ہیںخداوند ِعالم ایسے لوگوں میں اضافہ نہ کرےتیسری قسم کے قاریانِ قرآن وہ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن کی دوا سے اپنے بیمار دل کا علاج کرتے ہیں (اور قرآن کو اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کا ذریعہ بناتے ہیں) اسکے ساتھ شب بیداری کرتے ہیں اور دن کو تشنگی (روزے کی حالت) میں بسر کرتے ہیںقوﷲ لهو لاء فی قُرّاء القرآنِ اعزُّ مِنَ الکبریتِ الاحمرِ (اور خدا کی قسم قرآن کے قاریوں کے درمیان اس قسم کے لوگ سرخ گندھک سے بھی زیادہ کمیاب ہیں اصولِ کافی ج۲ص۶۲۷)

۱۲۶

جب ہم قرآنِ مجید سے تعلق کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو (نادر مقامات کے سوا) مجموعی طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کے مقابل ہماری دو ذمے داریاں ہیں ایک، قرآنی تعلیمات سے آگہی اور دوسرے، ان تعلیمات پر عمل۔

اس نکتے کی وضاحت میں عرض ہے کہ قرآنِ مجید میں لفظ ” قرآن“ اسی صورت میں ۶۵ مرتبہ استعمال ہوا ہے، جبکہ ” کتاب“ کے عنوان سے دسیوں مرتبہ اس کا ذکر ہوا ہےوہ آیات جن میں قرآن کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، انہیں دیکھیں تو اُن میں سے اکثر میں قرآن سے شناسائی، اسکی تعلیمات جاننے اور پھر قرآنی احکام پر عمل کی تاکید موجود ہےجیسے کے زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۳) میں انتباہی انداز میں اس نکتے کی جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ قرآنِ مجید سے آپ کا تعلق اندھوں بہروں کا سا تعلق نہیں ہونا چاہیے بلکہ کھلی آنکھوں اور سنتے کانوں کے ساتھ قرآن پر توجہ دیں، اس سے اچھی طرح شناسائی حاصل کریں اور اپنی روح کو قرآنِ مجید کے صاف شفاف پانی سے پاک کریں۔

روایت میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد ابو بصیر نے امام سے مذکورہ آیت کی وضاحت چاہی تو امام ؑنے فرمایا:مستبصرینَ لَیْسُوا بِشَکّاکِ (بصیرت اور معرفت کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرو، اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ کروروضۃ الکافی ص۱۷۸حدیث۱۹۹)

لہٰذا نظری اعتبار سے قرآن کو پہچاننا اور اسکے احکام وتعلیمات پر یقین رکھنا خدا کے ممتاز بندوں کی ایک خصوصیت ہے۔

قرآنِ مجید کی اور دوسری آیات میں بھی مذکورہ بالا دو ذمے داریوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےمزید وضاحت کے لیے چند آیات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

۱۲۷

٭پہلی ذمہ داری (قرآن سے شناسائی) کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا

تو کیا یہ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں(سورئہ محمد۴۷آیت۲۴)

یہ آیت زور دے کر ہمیں قرآنی احکام وتعلیمات سے آگہی اور اُن میں غوروفکر کی دعوت دے رہی ہے۔

نیز ارشادِ الٰہی ہے:

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ

اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟ (سورئہ قمر۵۴آیت۱۷)

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید کو آسان اور رواں زبان میں نازل کیا ہےتاکہ سب لوگ اس سے شناسائی حاصل کرسکیں اور اس شناسائی کا مقصد نصیحت حاصل کرنا، متنبہ ہونا، سیکھنا اور عمل کرنا ہے۔

ارشادِ پروردگار ہے:

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ

اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے، تو خاموش ہوکر غور سے سنو، شاید اس طرح خدا کی رحمت تمہارے شاملِ حال ہوجائے۔

(سورئہ اعراف۷آیت۲۰۴)

یہ آیت بتاتی ہے کہ آیات ِقرآنی کی تلاوت کے موقع پر خاموشی اور ان کی جانب توجہ فہم قرآن کی کنجی ہےاور قرآن کے بارے میں بہترین ادب یہ ہے کہ جب اس کی تلاوت کی جائے تو مکمل یکسوئی کے ساتھ اسے سنا جائے اور اپنی روح کو قرآن کریم کی ظاہری اور باطنی خوشبو سے معطر کیا جائے۔

۱۲۸

٭قرآن کریم کے حوالے سے دوسری ذمہ داری (اس پر عمل) کے بارے میں قرآن کی چند آیات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

قرآن فرماتا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُه زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ

صاحبانِ ایمان درحقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے خدا کا ذکر کیا جائے تو ان کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا ہواور اس کی آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ اور وہ لوگ صرف اﷲ ہی پر توکل کرتے ہیں۔

(سورئہ انفال۸آیت۲)

جی ہاں، مومنین کا دل قرآنِ مجید کے سامنے ایسے ہی خاشع اور خوفزدہ ہوتا ہےآیات ِ قرآنی سننے سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ خدا سے ان کے تعلق کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے۔

ارشادِ الٰہی ہے:

يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ

اے لوگو! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبانِ ایمان کے لیے رحمت، قرآن آچکا ہے۔

(سورئہ یونس۱۰آیت۵۷)

۱۲۹

نیز فرمانِ الٰہی ہے:

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ

یہ کتاب ہے، جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو خدا کے حکم سے (شرک اور جہل) کی تاریکیوں سے نکال کر (ایمان اور علم وآگہی کے) نور کی طرف لے آئیں(سورئہ ابراہیم۱۴آیت۱)

قرآن مجید میں غوروفکر اور اس پر عمل حضرت علی ؑکی نظر میں

نہج البلاغہ میں بہت سی جگہوں پر قرآنِ مجید سے شناسائی اور اس کے احکام پر عمل اور ان کے اجراء ونفاذ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےبطور مثال چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

امام ؑفرماتے ہیں:

وَتَعَلّمُوا القُرآنَ فانَّهُ أحسنُ الحدیث، و تَفَقّهوا فیهِ فانَّهُ رَبیعُ الْقُلوبِ وَاستشْفُوا بنورِهِ فانَّهُ شِفاءُ الصّدورِ

قرآن کی تعلیم حاصل کرو، کہ یہ بہترین کلام ہے۔ اور اس میں غوروفکر کرو، کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔ اور اسکے نور سے شفا طلب کرو، کہ یہ دلوں کی شفا ہےنہج البلاغہ خطبہ۱۱۰

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

۱۳۰

تالینَ الا جزاء القرآن یُرتلوا ترتیلاً یحزنونَ بِهِ أنفسهمْ، ویستشیرونَ بِهِ دواءَ دائهم، فَاذامَرّوابآیَةِ تَشویق رَکَنُوا الیْها طمَعاً و تَطَلّتْ نفوسُهُمْ الیها شَوْقاً وظنّوا أنّها نُصْبَ اعیُنِهمْ، واِذا مَرّوا بآیةٍ فیها تَخْویفٌ أصغَوْا الَیها مَسامِعَ قُلُوبِهمْ، وَظنُّواأنَّ زَفیرَ جَهَنَّمَ وشَهیقها فی أصُولِ آذا نِهِمْ

پرہیز گار وہ لوگ ہیں جو ٹھہر ٹھہرکر اور غور وفکر کے ہمراہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اسکے ساتھ اپنی روح کو محزون کرتے ہیں اور اس سے اپنے درد کی دوا حاصل کرتے ہیںجب بھی کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں شوق دلایا گیا ہو، تو اشتیاق کے ساتھ اس کا سامنا کرتے ہیں اور ان کی روح انتہائی شوق کے ساتھ خیرہ ہوجاتی ہے اور اسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں اور جب کبھی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں خوف دلایا گیا ہو، تو اسے سننے کے لیے اپنے دل کے کانوں کو کھول دیتے ہیں اور نالہ وفغاں کی آوازیں اور دوزخ کے لپکتے شعلے اپنی ہولناکی کے ساتھ ان کے کانوں میں گونجنے لگتے ہیںنہج البلاغہ خطبہ۱۹۳

یہ عبارتیں انتہائی واضح الفاظ میں ہمیں اپنی دو ذمہ داریوں (یعنی قرآنِ مجید سے شناسائی اور اس کے احکام پر عمل)کی دعوت دیتی ہیں اور یہ بیان کرتی ہیں کہ آیات ِقرآنی کو ہمیشہ مومنین کے دل پر اثر انداز ہونا چاہیے اور ان میں فکری اور عملی تبدیلیوں کا باعث بن کر ان کی ترقی اور ارتقا کا ذریعہ بننا چاہیےبصورت ِدیگر قرآن ہمارے لیے ایک غیر موثر کتاب ہو کر رہ جائے گی بلکہ بعض اوقات (خدا نہ کرے) ہمارے لیے نقصان کا باعث ہوجائے گیجیسا کہ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ:وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِـمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا (اور ظالمین کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کچھ اور نہیںسورئہ بنی اسرائیل۱۷آیت۸۲) بالکل اسی طرح جیسے بارش کے قطرات باغ کو تروتازہ کردیتے ہیں، جبکہ کیچڑ میں پڑ کر اسکی گندگی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔

۱۳۱

قرآنِ کریم سے ایسا ہی شخص استفادہ کرسکتا ہے جس نے تقویٰ اور پرہیز گاری کا پختہ عزم کر رکھا ہو اور جس کا وجود جہل، شرک، ظلم اور نفاق سے آلودہ نہ ہوکیونکہ یہ رذیلہ صفات اس بات کا باعث ہوجاتی ہیں کہ ان کا حامل شخص نہ صرف نورِ قرآن کی جانب مائل نہیں ہوتا، بلکہ چمگادڑ کی طرح اس نور سے لڑنے لگتا ہےمثلاً اگر ایک عالم مجاہد اور مبارز دانشور کو ایک قوت بخش غذا دی جائے تو وہ تعلیم وتربیت اور راہِ حق میں جہاد کی خاطر اس سے قوت حاصل کرے گالیکن اگر یہی مقوی غذا کسی ظالم وجابر کو دیں، تو وہ اس سے حاصل ہونے والی قوت کو مزید ظلم وستم کے لیے استعمال کرے گافرق غذا کا نہیں ہے بلکہ شخصیتوں اور طرزِ تفکر کا فرق ہے۔

نتیجہ یہ کہ قرآن اپنی تعلیمات قبول کرنے پر آمادہ وتیار لوگوں کے لیے نہ صرف ایک دائمی شفا بخش نسخہ ہے، بلکہ تمام انفرادی واجتماعی اور اخلاقی اور دوسرے امراض کے لیے ایک موثر دوا بھی ہےایک ایسی شفا بخش دوا ہے، جو تمام بیماریوں کا علاج کرکے، زیبائی، اعتدال اور سلامتی پیدا کرتی ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک روز قرآنِ کریم سے صحیح صحیح استفادہ کرنے والے اپنے شہید اصحاب عمار یاسر، ابن تیھان اور ذوالشھادتین وغیرہ کا ذکر اپنے بھائیوں کے عنوان سے کیا اسکے بعد ان کی جدائی کے غم میں اپنی ریش مبارک کو ہاتھ میں لے کر بہت دیر تک جاں سوز انداز میں گریہ کیا اور پھر فرمایا:

أوّهِ عَلیٰ اِخْوانِیَ الّذینَ تَلَوُا الْقُرآنَ فَاَحْکَمُوُهُ

ان بھائیوں کے دیدار پر حسرت وآہ کہ جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی، اس (کی تعلیمات) پر کاربند ہوئے اور اس (کے احکام) پر اپنی زندگیوں کو استوار کیانہج البلاغہ خطبہ۱۸۲

۱۳۲

امام ؑنے اس گفتگو میں اپنے ان اصحاب کی چھے خصوصیات کی جانب اشارہ کیا اور ان کی پہلی خصوصیت کے طور پر قرآنِ مجید سے ان کے گہرے فکری اور عملی تعلق کا ذکر کیالہٰذا امیر المومنین ؑکی نگاہ میں ممتاز اور بہترین مسلمان ایسا شخص ہے جس کا قرآن کے ساتھ عمدہ اور گہرا رابطہ ہو۔

قرآن کریم سے صحیح استفادے کی چند مثالیں

جب سے قرآن نازل ہوا ہے، اُس وقت سے اب تک ایسی ہزار ہا مثالیں ملیں گی جن میں لوگوں میں قرآن کریم کی گہری تاثیر کے تحت اور اس سے شعوری اور عملی استفادے کے ذریعے فکری اور عملی انقلاب پیدا ہونے، ان کے ایک نیا جنم لینے اور نورِ قرآن کے زیر سایہ ان کی اپنی روح سے ہر قسم کی تاریکیوں کو دور کرنے کا ذکر ہےیہاں ایسی ہی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں:

۱:- حضرت ابو ذر غفاریؓکہتے ہیں کہ ایک رات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم عبادت کے لیے اٹھے اور آپ ؐنے وہ پوری رات یہ آیت دھراتے اور اس کے بارے میں غوروفکر کرتے بسر کی کہ:اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (اگر تو ان پر عذاب کرے گا، تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر معاف کردے گا، تو تو صاحب ِعزت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھیسورئہ مائدہ۵آیت۱۱۸) (یعنی نہ تیرا عذاب دینا بے حکمتی کی علامت ہے اور نہ تیرا بخش دینا تیرے ضعف کی نشاندہی)۔ آنحضرتؐ اس رات صبح ہونے تک مسلسل یہی آیت دھراتے رہے(المحجۃ البیضاءج۲ص۲۳۷)

۱۳۳

۲:- امِ عقیل ایک بادیہ نشین مسلمان خاتون تھیں، جو قرآنِ کریم سے انتہائی بہترین تعلق رکھتی تھیںایک دن وہ اپنے گھر میں کھانا پکانے اور دوسرے گھریلو کاموں میں مشغول تھیں کہ انہیں مطلع کیا گیا کہ ان کا ایک بیٹا گھر کے باہر اونٹ سے گر کر مرگیا ہےاس دن ان کے یہاں دو مہمان آئے ہوئے تھےامِ عقیل نے یہ سوچ کر کہ کہیں مہمانوں کو تکلیف نہ ہو، انہیں اس خبر سے مطلع نہیں کیا، ان کی خاطر مدارت میں لگی رہیں اور انہیں کھانا پکا کے دیاجب کھانے کے بعد ان مہمانوں کو یہ بات پتا چلی تو وہ ام عقیل کی عالی ہمتی پر متعجب ہوئےمہمانوں کے جانے کے بعد کچھ لوگ تسلیت کے لیے امِ عقیل کے پاس آئے، تو امِ عقیل نے اُن سے کہا: کیا تم میں سے کوئی شخص آیات قرآنی کے ذریعے مجھے تسلیت کرسکتا ہے، اور میرے دل کو قرار دے سکتا ہے؟ یہ سن کر حاضرین میں سے ایک نے ان آیات ِقرآنی کی تلاوت فرمائی:

وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْا اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ

وَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ

اور اُن صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اﷲ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں، کہ ان کے لیے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے، اور وہی ہدایت یافتہ ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۵۵ تا ۱۵۷

یہ آیات سننے کے بعد امِ عقیل کے دل کو قرار آگیا، اُن کا اضطراب سکون واطمینان میں بدل گیا، وہ یکلخت اٹھیں، وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور نماز کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور انتہائی عاجزی اور خاص تسلیم کے ساتھ عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! مجھ تک تیرا فرمان پہنچا، میں نے اسے قبول کیا، اب میں صبر کررہی ہوں، تو بھی مجھے وہ جزا عنایت فرما جس کا تو نے صابروں سے وعدہ کیا ہے(سفینۃ البحارج۲ص۷لفظ صبر کے ذیل میں)

۱۳۴

جی ہاں! یہ ہوتی ہے قرآنِ مجید سے اُنسیت اور یہ ہے اس کی تعلیمات پر عمل، جس کے ذریعے انسان کی شخصیت میں تغیر اور اسکی فکر میں انقلاب پیدا ہوتا ہے اور جو انسان کو ناگوار حوادث کے سامنے صابر اور ثابت قدم رکھتی ہیں۔

۳:- ایک دن پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے:

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَآ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَه وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍرَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِرَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ

بے شک زمین اور آسمانوں کی خلقت، لیل ونہار کی آمدورفت میں صاحبانِ عقل کے لئے قدرتِ خدا کی نشانیاں ہیںجو لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں، کہ خدایا! یہ سب تو نے بیکار نہیں پیدا کیا ہے، تو پاک وبے نیاز ہے، ہمیں عذاب ِجہنم سے محفوظ فرماپروردگار، تو جسے جہنم میں ڈال دے گا، گویا اسے ذلیل ورسوا کردیا اور ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہےپروردگار، ہم نے اس منادی کو سنا جو ایمان کی آواز لگا رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ، تو ہم ایمان لے آئےپروردگار، اب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما، اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرماپروردگار، جو تو نے اپنے رسولوں سے وعدہ کیا ہے اسے عطا فرما، اور روزِ قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا کہ تو وعدے کے خلاف نہیں کرتاسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۹۰ تا ۱۹۴

۱۳۵

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا:ویْلٌ لِمَنْ کَهٰا بَیْنَ فکّیهِ ولَمْ یَتَامَّلْ فیها (وائے ہو اس پر جو ان آیات کو اپنے دہان میں گردش دے اور پھرائے لیکن ان پر غوروفکر نہ کرےمجمع البیانج۲ص۵۵۴)

۴:- اسلام کے عظیم مفسر، شہید راہِ خدا سعید بن جُبیر ایک رات، ابتدائے شب سے صبح دم تک اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے، اس پر غوروفکر کرتے اور گریہ کرتے رہےیہ آیت جس میں قیامت کے دن ندائے الٰہی کا ذکر ہے:وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ (اور اے مجرمو! آج تم ذرا ان سے الگ تو ہوجاؤسورئہ یٰسین۳۶آیت۵۹)

۵:- فضیل بن عیاض کا تعلق دوسری صدی ہجری سے ہےاُن کا شمار اوّل درجے کے چوروں اور ڈاکوؤں میں ہوتا تھاایک رات وہ اپنا خنجر لیے بُرے ارادے سے ایک گھر کی جانب روانہ ہوئےگھر کی دیوار پھاند کر اس کے احاطے میں داخل ہوگئےاسی اثناء میں اُنہیں اس گھر کے پڑوس سے تلاوتِ قرآن کی دل نشین آواز سنائی دیتلاوت کرنے والا اُس وقت اِس آیت کی تلاوت کررہا تھا:اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ (کیا صاحبانِ ایمان کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اُن کے دل ذکرِ خدا اور اُسکی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لیے نرم ہوجائیںسورئہ حدید۵۷آیت۱۶)

فضیل پر یہ آیت اس قدر اثر انداز ہوئی کہ اُن میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوگیا، اُن کی روح میں ایک ہلچل مچ گئی، یہاں تک کہ وہ یکسر بدل گئےاسی لمحے انہوں نے خلوصِ دل کے ساتھ توبہ کی اور ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرکے روتے ہوئے عرض کیا: یاربّ قدآنَ (پروردگار! ہاں، تیرے سامنے خضوع وتسلیم کا وقت آن پہنچا ہے)

۱۳۶

وہ اسی وقت اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئےانہوں نے راستے میں ایک قافلے کے بعض افراد کو دیکھا جو آپس میں کہہ رہے تھے کہ: ہمیں جلد از جلد صبح ہونے سے پہلے اس جگہ سے گزر جانا جانا چاہیے تاکہ فضیل کے راہزن ہمیں لوٹ نہ سکیںفضیل نے ان لوگوں سے اپنا تعارف کرایا اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ اب امان میں ہیں۔

جی ہاں، فضیل نے قرآن کا ایسا احترام کیا!! قرآن کی صدا کو گوشِ جاں سے سنا اور اسے اپنے دل میں اتار کر پارسا، پرہیز گار اور خدا کے ممتاز بندوں میں شامل ہوگئےاس کے بعد وہ مکہ آئے اور خانہ خدا کے جوار میں سکونت اختیار کرلی اور اس جگہ سے سیروسلوک اور لوگوں کی تربیت کا کام جاری رکھا، یہاں تک کہ ۱۸۷ ہجری میں عاشور کے دن دنیا سے رخصت ہوئے(سفینۃ الیحارج۲ص۳۶۹وفیات الاعیانج۲ص۳۱۵)

یہ تھے عباد الرحمن کے چند نمونے جنہوں نے حقیقی معنوں میں قرآن کو پہچانا اور اسکے احکام پر عمل کیا اور اپنے قلب اور روح کو آیات ِقرآنی سے جلا بخشیان لوگوں کے برعکس، دل کے ایسے اندھے بھی ہیں جو آیاتِ قرآنی کو پڑھتے ہیں لیکن اِن سے نور کی بجائے اپنے قلب کی سیاہی میں اضافہ کرتے ہیںجیسے نہروان کے خوارج۔

ایک مرتبہ کمیل ابن زیاد، آدھی رات کے وقت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ کوفہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھےاچانک انہوں نے ایک آواز سنی جو قرآنِ کریم کی (سورئہ زمر کی آیت۹ کی) تلاوت کررہی تھیکمیل جو تلاوت کرنے والےاس شخص سے واقف نہ تھے، اُس کی پرحزیں آواز کے اثرمیں آگئے اور بے ساختہ ان کے لبوں سے نکلا کہ اے کاش! میں اس شخص کے بدن کا ایک بال ہوتا اور ہمیشہ اس سے قرآن کی تلاوت سنا کرتاحضرت علی ؑنے کمیل کی یہ بات نہیں سنی تھی لیکن آپ یہ جان گئے تھے کہ وہ اس آواز کے فریب میں آگئے ہیںلہٰذا آپ نے اُن سے فرمایا: قرآن کے اس قاری کی پر درد آواز پر حیرت زدہ نہ ہو، تعجب نہ کرو، کیونکہ یہ شخص اہلِ جہنم میں سے ہےکچھ عرصے بعد میں اپنی اس بات کا سبب تمہیں بتاؤں گا۔

۱۳۷

تھوڑے عرصے بعد جنگ ِنہروان واقع ہوئیوہی قاری جس کی قرات نے کمیل کو متاثر کردیا تھا حضرت علی ؑکے خلاف میدان میں اترا، اور اس جنگ میں مارا گیاکمیل حضرت علی ؑکی رکاب میں لڑرہے تھےامام ؑکمیل کو اس خارجی کے لاشے کے پاس لائے، اپنی تلوار کی نوک اس کے سر پر رکھی اور فرمایا: اے کمیل! جو شخص اس دن اس قدر سوزوگداز کے ساتھ آیاتِ قرآن پڑھ رہا تھا، وہ یہی شخص تھا۔

کمیل کو ایک جھٹکا سا لگا، اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور بے قرار ہوکر اپنے آپ کو حضرت علی ؑکے قدموں پر گرالیا اور انہیں چومنے لگے اور خدا سے مغفرت طلب کی(سفینۃ الیحارج۲ص۴۹۷)

ایسے افراد (خوارج) وہ اندھے اور بہرے ہیں جو بند آنکھوں اور کانوں کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہیںجبکہ اُن کے برعکس عباد الرحمٰن آگہی، شعور اور اپنے دل کی آنکھوں اور کانوں کے ذریعے انوارِ قرآن سے اپنے دل کو منور کرتے ہیں۔

آئیے حقیقتاً قرآن سے آشنائی حاصل کریں، تاکہ اسے دنیا میں اپنا معلم اور آخرت میں اپنا شفیع قرار دیں اور اس عمل کے ذریعے عباد الرحمٰن (خدا کے ممتاز بندوں) کی صف میں کھڑے ہوںتاکہ جن لوگوں کے خلاف روزِ قیامت رسول اﷲ ؐشکایت کریں گے، ان میں ہمارا شمار نہ ہوآپ روزِ قیامت عرض کریں گے کہ:يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (اے پروردگار! میری قوم اس قرآن کو چھوڑ بیٹھی تھیسورئہ فرقان۲۵آیت۳۰)

۱۳۸

گفتگو کے آخری حصے کو، اس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ایک دل نشیں کلام سے زینت بخشتے ہیں، جس میں آپ ؑنے فرمایا: تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات) تصدیق شدہ ہےقیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا وہ اسکے حق میں مانی جائے گی اور اس روز جس کے عیب بتائے گا اس کے بارے میں بھی اسکے قول کی تصدیق کی جائے گیقیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا کہ دیکھو! قرآن کی کھیتی بونے والوں کے علاوہ ہر کاشتکار اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجے میں مبتلا ہےفکونُوا مِنْ حَرَثتهِ واتباعِهِ، واستدِلّوهُ عَلٰی ربّکُمْ واستنصحوهُ عَلی انفسِکُمْ، واتّهِمُواعَلیهِ آرائکُمْ، و سْتَغِشّوا فیهِ أهْوائکُمْ (لہٰذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اسکے پیروکار بنو، اپنے پروردگار تک پہنچنے کے لیے اسے دلیل راہ بناؤ اور اپنے نفسوں کے لیے اس سےپندونصیحت چاہو اور (جب کبھی تمہاری رائے قرآن کے خلاف ہو تو) خود کو الزام دو اور اس کے مقابلے میں اپنی خواہشوں کو غلط اور فریب خوردہ سمجھونہج البلاغہ خطبہ۱۷۴)

دعا اور اُس کے مضامین پر توجہ

قرآنِ کریم، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی بارہویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا

اور وہ لوگ برابر دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدایا ہمیں، ہماری ازواج اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں صاحبانِ تقویٰ کا پیشوا بنا دےسورئہ فرقان۲۵۔ آیت۷۴

۱۳۹

خدائے رحمان کے خاص بندوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی دعا میں خداوند ِعالم سے عرض کرتے ہیں کہ: بارِ الٰہا! ہمارے بیوی بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور ہمیں متقین کا پیشوا قرار دے۔

یہ خصوصیت اس بات کا اظہار ہے کہ خدا کے یہ ممتاز بندے دعا ومناجات سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیںلیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں کہ دعا کے ذریعے کیا طلب کرنا چاہیےخدا سے ایسی چیزوں کا سوال کرتے ہیں جو انتہائی اہم اور موثر ہوتی ہیںجیسے نیک بیوی کی خواہش، نیک اولاد کی خواہش اور اس سے بھی بڑھ کر خدا سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں ایسے مقام پر پہنچا دے کہ معاشرے کے پیشوا اور اسکے لیے ماڈل بن جائیں۔

لہٰذا ہمیں یہاں دو موضوعات پر گفتگو کی ضرورت ہے:

۱دعا کی اہمیت۔

۲دعا کیا ہونی چاہیے۔

اسلام میں دعا کی اہمیت

قرآنِ کریم کی متعدد آیات سے دعا کی غیر معمولی اہمیت کا اظہار ہوتا ہےیہاں تک کہ ان آیات میں دعا کو اہم ترین عبادت شمار کیاگیا ہے اور اس سے بے توجہی کو استکبار (گھمنڈ) اور عذابِ جہنم کا موجب قرار دیا گیا ہے۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ

اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں، وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گےسورئہ غافر۴۰آیت۶۰

۱۴۰

نیز خداوند ِعالم کا ارشاد ہے:

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پرواہ بھی نہ کرتاسورئہ فرقان۲۵آیت۷۷

قرآنِ کریم میں مختلف شکلوں میں ۲۵ مرتبہ دعا کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور سو سے زیادہ مرتبہ انبیا وغیرہ کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے جو رب اور ربنا جیسے کلمات سے شروع ہوتی ہیں اور یہ چیز قرآنِ کریم کی نظر میں دعا کی امتیازی اہمیت کی علامت ہے۔

انبیا اور معصومین کے کلمات میں بھی بہت کم چیزوں پر اتنی توجہ دی گئی ہے جتنی توجہ دعا کے موضوع پر دی گئی ہےیہ ہستیاں ہمیشہ، مختلف اوقات میں دعاؤں، مناجات اور خدا سے راز ونیاز میں مشغول رہا کرتی تھیںاس حوالے سے چند مثالوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الدُّعاء سِلاحُ المؤمِن وعَمُو دُالدّینِ ونُورُ السّماواتِ اوالارض

دعا مومن کا اسلحہ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

آنحضرتؐ ہی کا ارشاد ہے:

الدُّعاءُ مُخُّ العبادَةِ ولا یَهْلِکُ مَعَ الدُّعاء احَدٌ

دعا عبادت کا مغز ہےکوئی دعا کرنے والا ہلاکت کا شکار نہیں ہوتابحار الانوارج۹۳ص۳۰۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

احبُّ الاعمالِ اِلی ﷲ عزّو جلّ فی الارضِ الدُّعاءُ

اﷲ رب العزت کی نگاہ میں زمین پر سب سے پسندیدہ عمل دعا ہے

۱۴۱

اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:

وَکانَ امیرُ المؤمنینَ رجلاً دَعّاءٌ

اور امیر المومنین بہت زیادہ دعا کرنے والے شخص تھےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۷، ۴۶۸

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

الدُّعاءُ مفاتیحُ النّجاحِ ومقالیدُ الفَلاحِ

دعا کامیابی کی کنجیاں اور فلاح کے خزانے ہیں

الدُّعاءُ تُرْسُ المؤمِنِ

دعا مومن کی سپر ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

اَعْجَزُ الناسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعا

جو شخص دعا کرنے سے عاجز ہو، وہ عاجز ترین انسان ہےبحار الانوارج۷۸ص۹

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق

دعا ومناجات مثبت وتعمیری اثرات (بالخصوص قلب کی پاکیزگی اور تہذیب ِنفس) کی حامل ہوتی ہے اور اس سے بکثرت سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں ان اسباق میں دعا کے تین اہم درس، بالفاظ دیگر دعا کے تین پہلو بھی شامل ہیںدعا کے فیوضات حاصل کرنے کے لیے، ان اسباق اور ان پہلوؤں کی جانب متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔

۱۴۲

۱:- دعا، بلاؤں کے دور ہونے اور حاجتوں کے پورا ہونے کے سلسلے میں موثر کردار کی حامل ہےاسی بنیاد پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

ادفَعوا امواجَ البَلاء عَنْکُم بالدّعاء قَبْلَ ورودِالبَلاء

بلاؤں کی امواج کو ان کے آنے سے پہلے دعا کے ذریعے اپنے سے دور کروبحار الانوارج۹۳ص۲۸۹

۲:- دعا کرتے ہوئے بندہ خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا، سر جھکاتا اور اس کے ساتھ راز ونیاز کرتا ہے اور یہ کیفیات انسان کے غرور کو توڑتی ہیں اور دل کو معنوی امور کی قبولیت کے لیے آمادہ کرتی ہیں اس کے نتیجے میں انسان اطمینانِ نفس، قوتِ قلب اور بلند جذبات واحساسات کا حامل ہوجاتا ہےاس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً

تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکاروسورئہ اعراف۷آیت۵۵

۳:- دعا کے مشمولات ومضمون اور دعا میں موجود بلند پایہ معارف پر توجہمثال کے طور پر صحیفہ ٔ سجادیہ کی پہلی دعا اور نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ بلند پایہ معارف اور علمی نکات کے اعتبار سے یکساں ہیں ان معارف پر توجہ، انسان کی معلومات کی سطح اور معرفت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلام کی عالی تعلیمات ومفاہیم سے بہتر آشنائی کا ذریعہ ہیں ان اعلیٰ مفاہیم اور تعلیمات میں سرِ فہرست توحیدوخدا شناسی ہے، جو استجابت ِ دعا کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہےجیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک گروہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ امام ؑنے انہیں جواب دیا:

۱۴۳

لانّکم تدعُونَ مَنْ لا تَعرِفُونَه

اس لیے کہ تم اسے پکارتے ہو، جسے پہچانتے نہیںبحار الانوارج۹۳ص۳۶۸ (یعنی بغیر معرفت ِالٰہی کے دعا کرتے ہومترجم)

مجموعی طور پر دعا ایک ایسی عبادت ہے جسے روح کی پاکیزگی اور اسکی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ کردار کا حامل ہونا چاہئےاس کرادر کے حصول کے لیے واجب، مستحب اور کمالِ دعا کی شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

دعا کی قبولیت بعض شرائط سے وابستہ ہے اور ان شرائط کے حصول کا تہذیب ِنفس اور تکاملِ انسان سے قریبی تعلق ہے، اور کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر انسان میں دعا کا مثبت اثر ظاہر ہوگا اسی قدر دعا درجہ قبولیت پائے گیاس نکتے کی وضاحت کے لیے آپ کی توجہ درجِ ذیل فرامینِ معصومین ؑکی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں:

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایسا شخص، جو چاہتا ہے کہ اسکی دعا قبول ہو، اسے چاہیے کہ اپنی خوراک اور ذریعہ آمدنی کو پاک کرے۔

نیز آپؐ ہی نے فرمایا ہے:

تمہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے، وگرنہ خداوند ِ عالم تمہارے نیک لوگوں پر برے لوگوں کو مسلط کردے گا اور تم کتنی ہی دعا مانگو لیکن وہ قبول نہیں ہوگی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۸، ۴۴۹)

دعائے کمیل میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

اللهمَّ اغْفِرْلِیَ الذَنوبَ الَتی تَحْبِسُ الدّعاء

بار الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں

۱۴۴

ایک شخص نے امیر المومنین ؑسے سوال کیا: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ امام ؑنے اسے جواب دیا: تم نے خدا کو پہچانا ہے، لیکن اس کا حق ادا نہیں کیارسول پر ایمان لائے ہو، لیکن اُن کے فرامین واحکام کی پیروی نہیں کیآیات ِالٰہی کی تلاوت کی ہے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیازبان سے کہا ہے کہ آتشِ جہنم سے ڈرتے ہو، لیکن تمہارا کردار آتشِ جہنم میں داخلے کا موجب ہوتا ہےزبان سے کہتے ہو کہ تمہیں جنت پسند ہے، لیکن اپنے عمل سے جنت سے دور ہو گئے ہوخدا کی نعمتوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان کا شکر ادا نہیں کیاخدا فرماتا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو، تم نے اپنی زبان سے تو اس سے دشمنی کا اظہار کیا ہے، لیکن عمل سے اس سے دوستی کی ہےتم نے دوسرے لوگوں کے عیب تو دیکھے ہیں، لیکن اپنے عیبوں کو نظر انداز کیا ہےاگر تمہاری نیت خالص ہو اور تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرو، تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۹)

ایسی بکثرت روایات موجود ہیں، جن میں دعا کی قبولیت کے لیے اس کی شرائط فراہم کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہےلہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں بے سوچے سمجھے اور صرف بظاہر دعا کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیےبلکہ دعا کے مضمون ومشمولات اور شرائط پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس عمل سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا جاسکے۔

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب

زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۴) میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے ممتاز اور خاص بندے وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں اور دعا کے ذریعے خدا کے سامنے اپنی ان تین خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۱اچھی بیوی۲: صالح اولاد۳: لوگوں کے پیشوا، رہنما اور ان کے لیے نمونہ عمل کامقام۔

۱۴۵

یعنی یہ لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ انہیں دعا کے ذریعے اپنے رب سے کیا مانگنا چاہیے، لہٰذا خدا سے اہم چیزیں طلب کرتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ بارِ الٰہا! ہماری بیوی اور بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادےآنکھوں کی ٹھنڈک یا نورِ چشم کی اصطلاح کمال وسعادت کا رمز ہےکیونکہ اچھی بیوی اور صالح اولاد انسان کے اطمینان اور اسکی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور انسان کی روح کو فرحت بخشتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا نور حاصل ہوتا ہےواضح الفاظ میں عرض ہے کہ صالح اولاد اور اچھی بیوی، انسان کی زندگی کو نورانیت اور پاکیزگی دیتے ہیں اور دنیا وآخرت میں اس کی عزت وآبرو، سرخروئی اور سربلندی کا باعث بنتے ہیں اس قسم کی دعائیں سودمند اور مفید آثار کی حامل ہیں، برخلاف اُن بیہودہ اور کم فائدہ دعاؤں کے جن کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔

انسان کو تمام ہی امور میں، حتیٰ اپنی دعاؤں میں بھی بلند عزائم اور بلند تمناؤں کا مالک ہونا چاہیے اور دعا کی نورانیت کے سائے میں بلند مقامات تک رسائی حاصل کرنا چاہیےیہاں تک کہ اس کی دعا ہو کہ وہ لوگوں کا پیشوا، رہبر اور ان کے لئے نمونہ عمل بنے۔

دعاؤں کو صرف مادّی امور تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، نہ ہی بارگاہِ الٰہی میں حقیر چیزوں کی درخواست کرنی چاہیےاسی بنا پر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: چار قسم کے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں

۱۴۶

(۱) ایسے شخص کی دعا جو اپنے گھر میں بیٹھا یہ دعا مانگتا ہے کہ بارِ الٰہا! مجھے روزی عنایت فرمااس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے کوشش اور جدوجہد کا حکم نہیں دیا تھا؟

(۲) ایسے شخص کی دعا جس کی (بری اور مسلسل تکلیف پہنچانے والی) بیوی ہو، اور وہ اس سے نجات کی دعا کرتا ہواس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے طلاق کا حق نہیں دیا تھا

(۳) ایسا شخص جس کے پاس کوئی مال ہو اور اسے اس نے بغیر کسی کو گواہ بنائے کسی دوسرے کو قرض دے دیا ہو (اور قرض لینے والا مکر گیا ہو اور قرض دینے والا یہ دعا کرتا ہو کہ خدایا اسکے دل میں نیکی ڈال تاکہ وہ میرا قرض ادا کردے) ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ قرض دیتے وقت گواہ رکھنا(اصولِ کافی ج۲ص۵۱۱)

جب ہم انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی دعاؤں کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ دعا کے دوران اکثر ان کی خواہشات کا محور بلند پایہ معنوی، اجتماعی اور سیاسی امور ہوتے ہیںمثلاً حضرت ابراہیم ؑکی دعا یہ تھی کہ:

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

پروردگار! مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلےسورئہ ابراہیم۱۴آیت۴۰

ائمہ معصومینؑ جوراسخون فی العلم ہیں، یوں دعا کیا کرتے تھے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ

پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے، تو اب ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) پیدا نہ ہونے پائے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۸

۱۴۷

اصحاب کہف کی دعا یہ تھی کہ:

رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا

پروردگار! ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہدایت اور نجات کی راہ فراہم فرماسورئہ کہف۱۸آیت۱۰

صحیفہ ٔسجادیہ اور مفاتیح الجنان میں نقل ہونے والی ائمہ کی دعاؤں پر توجہ ہمیں دعا کرنے کے انداز سے آشنا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح اپنے رب سے دعا مانگیں۔

مثلاً امام حسین علیہ السلام اپنی دعائے عرفہ کے ایک حصے میں خدا سے یوں عرض کرتے ہیں کہ:

اللهمّ اجعَلنی اَخشاکَ کانّی اراک، واَسْعِدْنی بِتَقواک، ولاٰ تُشْقِنی مِنْ مَعْصِیَتِکَ

بارِ الٰہا! مجھے اپنی درگاہ میں ایسے خوف وخشیت کے ساتھ کھڑا کردے، گویا میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوںاور تقویٰ کے سائے میں مجھے سعادت مند فرما، اور گناہ کی بنا پر سیاہ بخت نہ بنا دینامفاتیح الجناندعائے عرفہ

اس نکتے اور مفہوم کی وضاحت کے لیے ایک دلچسپ داستان نقل کرتے ہیں:

بیان کیا گیا ہے خداوند ِعالم نے بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی پر وحی کی کہ فلاں عابد سے کہیں کہ اس کی تین دعائیں ہماری بارگاہ میں قبول کی جائیں گینبی نے خدا کی یہ وحی اس عابد تک پہنچا دیاس عابد نے معاملہ اپنی بیوی کے سامنے رکھا(۱) اس کی بیوی نے اس پر زور دیا کہ ان تین میں سے ایک دعا میرے لیے طلب کرےعابد نے اس کی یہ تجویز مان لیاس کی بیوی نے اس سے کہا کہ میرے لیے دعا مانگو کہ خدا مجھے اپنے زمانے کی حسین ترین عورتوں میں سے بنادےعابد نے یہ دعا مانگی اور اس کی بیوی دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے ہوگئی۔

--------------

۱:- کتاب سیاستنامہ کے صفحہ ۳۲۳ پر اس شوہر کا نام یوسف اور اس کی بیوی کا نام کُرٰسُف بیان ہوا ہے۔

۱۴۸

اس کی خوبصورتی کا چرچا ہوا تو بادشاہ وقت اور خواہشات ِنفسانی کے غلام امیر زادے اس کی زلف کے اسیر ہوگئے اور اسے پیغام بھیجنے لگے کہ اپنے مفلوک الحال، بوڑھے اور زاہد شوہر کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجاؤ تاکہ دنیا کی ہر لذت سے لطف اندوز ہوسکووہ عورت ان کے فریب میں آگئی اور اپنے شوہر سے بدسلوکی کرنے لگیاس طرح ان میاں بیوی کے باہمی تعلقات خراب ہو گئےآخر کار اس عابد شخص نے اپنی بیوی سے ناراض ہوکر اپنی دوسری دعا مانگی اور وہ یہ تھی کہ: بارِالٰہا! میری بیوی کو کتا بنا دے۔

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔

اس عورت کے بھائی اور دوسرے رشتے دار عابد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں میں ہماری رسوائی ہورہی ہے، ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ اپنی تیسری دعا طلب کیجئے تاکہ آپ کی بیوی اپنی پہلی والی صورت میں واپس آجائےان لوگوں کے شدید اصرار پر عابد نے اپنی تیسری دعا بھی طلب کی اور عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! میری بیوی کو اس کی پہلی حالت پر واپس پلٹا دےعابد کی دعا قبول ہوئی اور اس کی بیوی اپنی پہلی صورت پر واپس آگئی۔

اس طرح عابد کی تینوں مقبول دعائیں رائیگاں گئیں(بحارالانوارج۱۴ص ۴۸۵) اگر وہ عابد سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تو اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا اور اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرسکتا تھا۔

۱۴۹

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں

ایک مرتبہ پھر زیر بحث آیت کی تفسیر کی جانب آتے ہیں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ خداکے ممتاز بندے اپنی دعا میں خدا سےعرض کرتے ہیں کہ: ہمیں اچھی بیوی اور صالح اولاد عنایت فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا اور قائد بنا۔

یہ تین تمنائیں، ایک کامیاب اور سعادت مند زندگی کی بہترین خواہشات ہیں ان تین تمناؤں کی اہمیت جانے کے لیے، ان کی مختصر وضاحت کرتے ہیں۔

اچھی بیوی اور اس کے اثرات

اچھی بیوی، اپنے شوہر کے لیے بہترین معاون ومددگار ہوتی ہےزندگی کی خوبصورتی ودوام اور اسکی کامیابی وشادابی کا موجب ہوتی ہے اور گھرانے کی عمدہ نگہداشت اور اسکی تعمیر میں انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہےلہٰذا ان خصوصیات کی حامل بیوی کے چناؤ اور اس کی تربیت کے لیے گہری توجہ ضروری ہے۔

بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی شریک ِحیات کے انتخاب کے سلسلے میں رسولِ مقبول سے مشورہ کیاآنحضرتؐ نے اس سے فرمایا:

انکِحْ وعلیکَ بِذاتِ الدّینَ

شادی کرو لیکن تمہیں چاہیے کہ دیندار عورت سے شادی کروفروعِ کافی ج۵ص۳۳۲)

۱۵۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابراہیم کرخی سے فرمایا:

ایسی لڑکی سے شادی کرو جس کا گھرانہ اصیل اور نیک ہو، جو اچھے اخلاق کی حامل ہو، جس میں صاحب ِاولاد ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو، جو دنیا اور آخرت کے امور میں اپنے شوہر کی مددگار ہو(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۳)

اس بارے میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جن کا مہر کم ہو اور جو خوبرو ہوں(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۴)

اس حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ درجِ ذیل بارہ خصوصیات اچھی بیوی کی علامات ہیں(۱) دینداری(۲) اچھا اخلاق(۳) خوبصورتی(۴) مہر کا کم ہونا(۵) بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت(۶) محبت کرنے والی(۷) پاکدامن(۸) شوہر کی اطاعت گزار اور اس کے لیے سنورنے والی(۹) اچھے اور اصیل گھرانے سے تعلق رکھنے والی(۱۰) سچی اور امانتدار(۱۱) صاف ستھری اور معطر رہنے والی(۱۲) سمجھ بوجھ کی حامل اور خوش اسلوبی کے ساتھ امور زندگی کی تنظیم کرنے والی۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

ایّاکُم و تزویجَ الحَمقاء، فانَّ صُحْبَتَها بَلاءٌ وولَدَها ضِیاعُ

کم عقل عورتوں کے ساتھ شادی سے پرہیز کرو، کیونکہ ان کی ہم نشینی بلا ہے اور ان کے بچے برباد ہیںوسائل الشیعہ ج۱۴ص۵۶

متعدد روایات میں کہا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت تمہارے پیش نظر مال ودولت کا حصول اور شریک ِحیات کی خوبصورتی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے شریک ِحیات کے ایمان اور اس کی پاکدامنی کو پیش نظر رکھو۔

۱۵۱

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کبھی کوئی شخص کسی خاتون سے اس کے مال ودولت کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے اسی مال ودولت کے حوالے کردیتا ہے (اور دوسرے فوائد سے محروم رکھتا ہے) اور جو کوئی کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کے لیے شادی کرتا ہے، تو اس سے ناگوار امور سامنے آتے ہیں اور جو کوئی کسی خاتون سے اس کے دین کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۳۱)

لہٰذا اچھی بیوی کا شمار زندگی کے اہم ترین عناصر میں ہوتا ہےخداوند ِعالم کا ممتاز بندہ اپنی دعا میں بھی اور اپنے انتخاب میں بھی اس موضوع کو اچھی طرح پیش نظر رکھتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنی سعادت اور کامرانی کا ایک اہم عامل فراہم کرسکے۔

صالح اولاد

جو عناصر کسی انسان کی سعادت وکامرانی میں شمار کیے جاتے ہیں اُن میں سے ایک اہم ترین عنصر اسکا صالح اولاد کا مالک ہونا ہے، جو واقعا ً ایک بیش بہا الٰہی نعمت ہوتی ہے۔

اسکے برخلاف غیر صالح اولاد بڑی اور تباہ کن بلا ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں کی ناکامی اور مصیبت کا باعث ہےانبیا اور اولیائے الٰہی، اپنی دعاؤں اور مناجات میں بھی اور اپنے عمل کے ذریعے بھی صالح اولاد کے حصول کے طالب ہوتے ہیں اور اپنے بچے کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے سلسلے میں کسی تعمیری عامل کو نظر انداز نہیں کرتے۔

اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:

جب تم شادی کا ارادہ کرو، تو دو رکعت نماز پڑھو اور حمدوسپاس الٰہی کے بعد دعا کرو اور دعا میں کہو کہ:۔ ۔ اور میرے لیے اس بیوی سے ایسا طیب اور پاک فرزند نصیب فرما جو میری زندگی میں اور میری موت کے بعد میرا صالح جانشین ثابت ہو(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۷۹)

۱۵۲

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا:

خدا کی قسم! میں نے بارگاہِ الٰہی میں خوبصورت اور خوش اندام اولاد کی درخواست نہیں کی تھیبلکہ پروردگار سے التماس کی تھی کہ مجھے اﷲ کی مطیع وفرمانبردار اور خوفِ خدا رکھنے والی اولاد عطا فرمااور جب کبھی میں اسے دیکھوں، اور اسے خدا کا اطاعت گزار پاؤں، تو یہ دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو(مناقب ِابن شہر آشوبج۳ص۳۸۰)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انّ الولدَ الصّالح ریْحانةٌ مِنْ ریاحینِ الجَنَّةِ

بے شک صالح اولاد جنت کے خوشبودار پھولوں میں سے ایک پھول ہےفروعِ کافی ج۶ص۳

بحار الانوار کے مولف علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کے والد ِگرامی، عالمِ بزرگوار مرحوم ملّا محمد تقی مجلسی کے حالات ِزندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک رات نمازِ شب کے بعد مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اگر میں اس موقع پر خدا سے کوئی دعا مانگوں تو وہ دعا قبول ہوگیمیں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا درخواست کروں کہ اچانک میرے بیٹے محمد باقر کی آواز بلند ہوئی، جو اس وقت اپنے جھولے میں تھامیں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ: بار الٰہا! بحقِ محمد وآلِ محمد! اس بچے کو مروجِ دین اور سید الانبیا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والا قرار دےاور اسے بھرپور توفیقات عنایت فرما(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

یہی دعا اس بات کا باعث ہوئی کہ خداوند ِعالم نے ملّا باقر مجلسی کو توفیق کے تمام اسباب فراہم کیےیہاں تک کہ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کا کمال روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا اور انہوں نے اپنے بیان اور قلم کے ذریعے اسلام اور دینی احکام کی نشر واشاعت کی بھرپور توفیقات حاصل کیں اور بکثرت گرانقدر آثار اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے، جن میں سے ایک اثر، ایک سو دس جلدوں پر مشتمل بحار الانوار ہے۔

۱۵۳

معروف محدث حاجی نوری علیہ الرحمہ کے بقول، علامہ مجلسی کا مقام اور ترویجِ اسلام میں ان کی توفیق اس درجے پر پہنچی کہ عبد العزیز دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ میں لکھا ہے کہ: اگر مذہب ِ شیعہ کا نام مذہب ِمجلسی رکھا جائے تو بجا ہےکیونکہ اس مذہب کو رونق اور فروغ علامہ مجلسی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

نتیجہ یہ کہ بڑے لوگ صالح اولاد کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اسے اپنی زندگی کے سر فہرست مسئلے کے طور پر توجہ کا مرکز قرار دیتے تھے۔

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا

بے شک مقامِ امامت اعلیٰ ترین مقام ہے، جسے اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہےزیر بحث آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عباد الرحمٰن (یعنی خدا کے ممتاز بندے) وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ تقویٰ اور جہد ِ مسلسل کے ذریعے محترم ترین مقام تک رسائی حاصل کریں اور لوگوں کے پیشوا اور قائد بن جائیں۔

واضح ہے کہ اس مقام کا حصول تہذیب ِنفس کے مراحل طے کرنے اور معنوی کمالات کسب کرنے سے وابستہ ہےجیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کڑی آزمائشوں اور عالی درجات طے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے اور خداوند ِعالم نے ان سے فرمایا:…اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۲۴)

یہ دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خدا کے ممتاز بندوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ایسا بنائیں اور ایسے بلند عزائم رکھیں کہ لوگوں کے رہبر اور رہنما بن سکیں اور لوگ ان کے وجود سے پھوٹنے والی روشنی سے استفادہ کریں اور ان کے فیوضات لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر صراطِ مستقیم اور روشنی کی جانب لے آئیںاور وہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اگر وہ کوشش کریں تو تقویٰ اور عملِ صالح کے سائے میں عالی درجات حاصل کرسکتے ہیں۔

۱۵۴

یہ دعا، تمنا اور خواہش وہی ہے جو تمام انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی رکھتے تھےجیسے کہ اسی جیسی بات امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق میں آئی ہے، جہاں آپ نے خداوند عزوجل سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ:وَاجْعَلْنِی مِن اَهْلِ السِّدادِ وَمِنْ اَدِلَّةِ الرَّشادِ (اور مجھے درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں میں سے قرار دےمفاتیح الجناندعائے مکارم الاخلاق)

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا

قرآنِ مجید، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد روزِ قیامت ان بندوں کی ظاہری اور باطنی جزااور اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:

اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا خٰلِدِيْنَ فِيْهَاحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے اونچے اونچے محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام پیش کیے جائیں گےوہ انہی مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین جائے قیام ہےسورئہ فرقان۲۵آیات ۷۵ تا۷۶

ان آیات میں عبا دالرحمن کو ملنے والی جزا وپاداش کو بیان کیا گیا ہے، جو انتہائی عظیم الشان اور خصوصی امتیازات کے ہمراہ ہوگیان آیات کا تقاضا ہے کہ اس گفتگو میں، ان چار موضوعات، یعنی جزا وپاداش، عباد الرحمٰن کی مخصوص جزا، تعمیر کردار میں صبر واستقامت کی اہمیت اور خلود اور ہمیشگی وجاویدانی کے موضوع کا جائزہ لیا جائے۔

صبر کی اہمیت پر گفتگو کو ہم آئندہ نشست کے لیے چھوڑتے ہیںیہاں آپ کی توجہ دوسرے تین موضوعات کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

۱۵۵

جزاو پاداش

جزاو پاداش، بالفاظِ دیگر جزا اور مکافات ِعمل کا مسئلہ خداوند ِعالم کے قطعی تکوینی اور تشریعی قوانین میں سے ہے، جو اچھے یا برے عمل کی مناسبت سے ان اعمال کو انجام دینے والے پر دنیا اور آخرت میں مختلف شکلوں میں اثر انداز ہوتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اس بارے میں بکثرت آیات موجودہیں، یہ یقینی امور میں سے ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں۔

اگر ہم قرآنِ مجید میں مختلف انداز سے سیکڑوں بار استعمال ہونے والے لفظ ” جزا“ کا جائزہ لیں، تو بخوبی اس بات کا علم حاصل کریں گے کہ دنیاوی اور اُخروی جزا کا مسئلہ قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے مسلمہ امور میں سے ہے اور خداوند ِعالم نے انتہائی زور دے کر اس کا تذکرہ کیا ہے، تاکہ پیروانِ قرآن اس قطعی قانون کو کسی صورت فراموش نہ کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں۔

مثال کے طور پر اگر ہم قرآنِ کریم کی سورئہ نبا کا مطالعہ کریں، تو وہاں دیکھیں گے کہ اس سورے کی آیت ۲۱ سے لے کر ۳۰ تک میں، نہایت واضح الفاظ کے ساتھ اہلِ جہنم کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےاور آیت نمبر ۳۱ سے ۳۶ تک میں اہلِ جنت کی جزا وپاداش کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اسی سورے کی آیت ۲۶ میں فرمان الٰہی ہے:جَزَاءً وِّفَاقًا (یہ اُن کے اعمال کے موافق ومناسب بدلہ ہے)اسی سورے کی آیت ۳۶ میں خدا فرماتا ہے:جَزَاءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حساب کی ہوئی عطا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا ہے) لہٰذا انسان جو کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ خداوند ِعالم کے دقیق اور ٹھیک ٹھیک حساب میں ثبت اور درج ہوجاتا ہے اور تمام اچھے برے اعمال کے مقابل مناسب جزا یا سزا مقرر ہے۔

۱۵۶

جزا وسزاکا مسئلہ صرف آخرت سے مخصوص نہیں ہےبلکہ اس کا کچھ حصہ اسی دنیا میں بھی وجود رکھتا ہے اور انسان کے اعمال کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انسان کو اسی دنیا میں نصیب ہوجاتا ہے۔(۱)

اس بارے میں روایات بھی بے حساب ہیں، مثال کے طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:کُلٌّ امْرءٍ یُلْقیٰ مٰا عَمِلَ وَیُجْزیٰ بِمٰاصَنَعَ (ہر انسان اپنے عمل کا سامنا کرتا ہے، اور جو کچھ وہ انجام دیتا ہے، اسکی بنیاد پر اسے جزا وسزا دی جاتی ہے) نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے:کَما تدینُ تدان (جیسا کرو گے ویسا بھرو گےغرر الحکم ج۳ص۵۷۱)

لِکُلّ حسنةٍ ثوابٌ (ہر نیکی کا ثواب ہے)لِکُلّ سیّئةٍ عقاب (ہر بدی کا عقاب ہےغرر الحکم ج۳ص۵۷۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَما انّه لیسَ مِنْ عرْقٍ یضربُ، ولانکبةٍ، ولاصُداعٍ، ولا مرضٍ الاّبذنبٍ

جو بھی رگ (اور کوئی نبض) زخمی ہوتی ہے، پاؤں پتھر سے ٹکراتا ہے، دردِ سر اور مرض لاحق ہوتا ہے، اسکی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان نے کوئی گناہ کیا ہوتا ہے۔(۲)

--------------

۱:- سورئہ نجم ۵۳ کی آیت ۳۱، سورئہ طہ ۲۰ کی آیت ۱۵ اس بارے میں واضح دلالت کرتی ہیں۔

۲:- اصول کافی ج۲ص ۲۶۹، اسی کتاب کے صفحہ ۲۶۸ سے ۲۷۶ تک ” باب الذنوب“ کے عنوان کے تحت تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں، جو مکافات عمل کو بیان کرتی ہیں۔

۱۵۷

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب

کیونکہ عباد الرحمٰن، خدا کے ممتاز اور خاص بندے، اپنی بارہ خصوصیات کی وجہ سے مومنین کی صف ِاوّل میںہوتے ہیں، لہٰذا خداوند ِعالم ان کی جزا اور ثواب کی مناسبت سے انہیں جنت کے بلند اور عالی ترین درجے میں جگہ دیتا ہےیہ وہ درجہ ہے جو اہم ترین امتیازات کا حامل ہے۔

پہلے خداوند ِعالم فرماتا ہے کہ: غرفہ بہشت ان کے اختیار میں ہوگاغرفہ کے معنی گھروں کا بلند ترین طبقہ ہے اور یہاں بے مثل اور انتہائی گراں قیمت محل کا کنایہ ہے، جو جنت کے دوسرے حصوں سے انتہائی بلند مقام کا حامل ہےجیساکہ مذکورہ آیت سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ یہ عظیم الشان محل تین انتہائی اہم خصوصیات رکھتا ہے۔

۱:- عباد الرحمٰن کا وہاں ہمیشہ خاص احترام کیا جائے گا، اور وہ خدا، فرشتوں اور اہلِ جنت کے تحیت وسلام سے بہرہ مند ہوں گےہمیشہ بلند مقامات انہیں سلامتی اور ہر قسم کی ظاہری وباطنی رفاہ وآسائش کے ساتھ پاک وپاکیزہ زندگی کی بشارت دیں گے۔

۲:- وہ ایک ایسے ٹھکانے میں ہوں گے جو انتہائی خوبصورت، ہرا بھرا، پاک وپاکیزہ اور ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور غموں سے دور ہوگا۔

۳:- یہ لوگ ہمیشہ وہاں رہیں گےوہاں فنا، موت اور نابودی کا سوال ہی نہ ہوگا اور انہیں اس عالی شان جگہ سے نکالے جانے کا کوئی دھڑکا اور اندیشہ نہیں ہوگا۔

۱۵۸

سچی بات ہے، اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی کہ انسان ایک ایسے محل میں رہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور وہ اس محل میں زندگی کی تمام نعمتوں، خوبصورتیوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اسے وہاں فنا اور دوسری غم انگیز باتوں کی طرف سے کوئی تشویش نہ ہو۔

ان جزائوںمیںسب سے بڑی جزا، ان پر خدااور اسکے فرشتوںکا مسلسل تحیت و سلام ہےجس کی لذت ولطف قابلِ بیان اورقابلِ ادراک نہیں۔ امتیازی مقام کے حا مل اہلِ جنت پر خدا اور فرشتوں کے سلام کے بارے میں قرآن کی ایک اور آیت میںذکر ہواہے کہ:

سَلٰمٌ، قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ

ان کے حق میں ان کے مہربان پروردگارکا قول صرف سلامتی ہوگا۔ سورہ یٰسین۳۶۔ آیت۵۸

اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ:

وَالْمَلٰىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ

اور ملائکہ ہر دروازے سے ان کے پاس حا ضری دیں گےکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔ سورہ رعد ۱۳آیت۲۳، ۲۴

۱۵۹

خلودوجاویدانگی کی اہمیت

معاد اور جنت و دوزخ کی گفتگو میں ایک مسئلہ خلود اور جاویدانگی کا مسئلہ ہےیعنی دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لیے اور نا قابلِ زوال ہےاسی طرح جیسے بہشت کی نعمتیں بھی دائمی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔

قرآنِ کریم کی متعددآیات میں خلود کے مسئلے پربات ہوئی ہے، اور اس کی وضاحت اس قدر قطعی ہے کہ اسکی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔

خلود کے معنی ایسی بقا اور دوام ہے جس میں زوال اور نا بودی کی گنجائش نہ ہو۔ ــ ” لسانِ العرب“ نامی عربی لعنت میں ” خلد“ کے معنی ایسے ٹھکانے اور سرائے میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا بیان ہوئے ہیں جس سے انسان کو باہر نہیںنکالا جائے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر آخرت کو ” دارالخلد“ کہتےہیںکہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی معنی دوسری عربی لغتوں ” مقاییس اللغۃ“ اور ” صحاح اللغۃ“ میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔

اگرچہ بعض مفسرین نے خلود کے معنی کی تو جیہات کی ہیں، مثلاً اسے طولانی وغیرہ کہاہے اور اسکے بارے میں مختلف احتمالات کا اظہار کیا ہے لیکن قرآنی آیات کی وضاحت وصراحت کے سامنے یہ توجیہات واحتمالات قابلِ قبول نہیں، اور علمائے اسلام اور چوٹی کے مفسرین نے انہیں مسترد کیا ہے۔

خلود کے معنی جاویدانگی ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اور دوسری تعبیریں بھی موجود ہیں، جواس قسم کی توجیہات واحتمالات کے قابل نہیں، اور جاویدانگی پرصراحت کی حامل ہیں، مثلاًایک مقام پر ہے:وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَه فَاِنَّ لَه نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا (اور جو اﷲاور رسول کی نافرمانی کرے گااسکے لیے جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والا ہے۔ سورئہ جن ۷۲۔ آیت۲۳)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177