عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف22%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92311 / ڈاؤنلوڈ: 6194
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نے ایک رکعت نماز پڑھی ہو اس کو خلیفہنے حکومت و ولایت پر منصوب کیا۔

اصفہانی نے داستان کی تفصیل کو مذکورہ خبر کے بعد 'عوف بن خارجہ مّری'' سے نقل کر کے اپنی کتاب اغانی میں یوں لکھا ہے:

عمر ابن "ابن " خطاب کی خلافت کے دوران ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھا ۔کہ ایک شخص داخل ہوا ، اس کے سر کے دونوں طرف تھوڑے سے بال دکھائی دیتے تھے ۔اس کے پیر ٹیڑھے تھے، پاؤں کے انگلیا ں ایک دوسرے کے اوپر اور ایڑیاں اس کے شانوں کے موازی تھیں ۔

وہ لوگوں کو دھکا دیتے ہوئے اور ان کے سروں پر سے گزر کر آگے بڑھ رہا تھا اور اس طرح اس نے اپنے آپ کو عمر کے روبروپہنچا دیا اور خلافت کی رسم کے مطابق آداب بجالائے:

عمر نے اس سے پوچھا :

تم کون ہو؟

اس شخص نے جواب دیا:

میں ایک عیسائی ہوں اور میرا نام ''امرئو القیس بن عدی کلبی'' ہے۔

عمر نے اسے پہچان لیا ،اور اس سے پوچھا ۔

اچھا ! کیا چاہتے ہو؟

امرئو القیس نے جواب دیا:

مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔

عمر نے اسے اسلام کی تعلیم دی اور اس نے قبول کیا ۔ اسی اثنا ء میں خلیفہ نے حکم دیاکہ ایک نیزہ لایا جا ئے ، اس کے بعد اس پر ایک پر چم نصب کر کے ''امرؤالقیس ''کے ہاتھ میں دیدیا اور اسے شام کے علاقہ قضایئہ کے مسلمانوں پر حاکم مقر ر کر دیا۔

۲۱

''امرئوالقیس '' پرچم مضبوطی سے ہاتھ میں لئے ہوئے اس حالت میں خلیفہ سے رخصت ہوا کہ پرچم اس کے سر پر لہرا رہا تھا ....(داستان آخر تک '' اغانی ''میں )

''علقمہ بن علاثۂ کلبی '' کی ارتداد کے بعد حکومت کی داستان بھی سیف کی روایتوں سے تناقض رکھتی ہے ۔ یہ روایت اصفہانی کی ''اغانی'' اور ابن "ابن " حجر کی ''اصابہ '' میں اس کے حالات کی تشریح کے ضمن میں درج ہوئی ہے جو حسب ذیل ہے :

علقمہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اسلام لایا اور اسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ لیکن اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے دوران اسلام سے منہ موڑ لیا اور مرتد ہوگیا ۔ ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجبور ہو کر ، اس کے پیچھے خالدبن ولید کو بھیج دیا ۔ جب علقمہ اس موضوع سے باخبر ہوا تو چھپ گیا ۔ کہتے ہیں کہ بعد میں علقمہ معافی مانگ کر خلیفہ کی خدمت میں پہنچا اور دوبارسلام لایا۔

ابن "ابن " حجر نے علقمہ کے بارے میں اپنی کتاب ''اصابہ '' میں مندرجہ ذیل مطالب بھی درج کئے ہیں ؛

عمر نے اپنی حکومت کے دوران علقمہ پر شراب پینے کے جرم میں حد شرعی جاری کی۔ علقمہ اس کی وجہ سے خفا ہو کر مرتد ہوگیا اور روم کی طرف چلا گیا اس نے روم بادشاہ کے پاس جاکر اپنا تعارف کرایا۔ پادشاہ نے اس کا استقبال کیا اور اس کی پہچان کے سلسلے میں اس سے سوال کیا ۔

کیا تم ''عامر بن طفیل '' کے چچیرے بھائی ہو ؟

پادشاہ کے اس طرح سوال کرنے سے علقمہ کی شخصیت مجروح ہوئی ، اس لئے وہ خفا ہو کرغصہ کی حالت میں بولا:

ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھے عامر کی نسبت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے نہیں پہچانتے؟ اس کے بعد اٹھ کے باہر نکلا اور مدینہ واپس لوٹ کر دوبارہ اسلام لایا۔ لیکن علقمہ کے عمر کی طرف سے حکومت حاصل کرنے کی داستان ابن "ابن " حجر کی '' اصابہ '' اور ابو الفرج اصفہانی کی ''اغانی'' میں درج ہوئی ہے ۔ ہم یہاں پر اسے ''اغانی '' سے نقل کرتے ہیں ؛ علقمہ اسلام سے منہ موڑنے کے بعد ایک مدت تک مدینہ ے دوری اور دربدری تحمل کرنے کے بعد سرانجام دوبارہ مدینہ واپس آیا اور لوگوں کی نظروں سے چھپ کیراہی مسجد ہوا اور ایک کونے میں مخفی ہوگیا ۔

۲۲

رات کے وقت عمر مسجد میں داخل ہوئے،لیکن علقمہ نے اندھیرے کی وجہ سے صحیح طور پر انھیں نہیں پہچاناکہ یہ داخل ہونے والا کون تھا ۔ عمر کی خالد بن ولید جو علقمہ کا دوست تھا سے شباہت کی وجہ سے علقمہ نے گمان کیا مسجد میں داخل ہونے والا خالد بن ولید ہے ۔ لہذا اس کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہوئے پوچھا:

بالاخر اس نےتمہیں کام سے برطرف کر دیا ؟

گویا عمر نے علقمہ کو پہچان لیا تھا اور اس کی غلط فہمی سے آگاہ ہو چکا تھا ، لہذا اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے چالاکی کے ساتھ خالد کے انداز میں جواب دیا۔

ہاں ! ایسا ہی ہے !

علقمہ نے متاثر انداز میں کہا!

معلوم ہے ، یہ نظر بد اور حسد کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، تمہارے ساتھ یہ ظلمحسد کے وجہ سے ہوا ہے !

عمر نے فرصت کوغنیمت سمجھ کر عیّارانہ انداز میں علقمہ سے پوچھا :

کیا تم مدد کر و گے تاکہ عمر سے اپناا نتقا م لے لوں ؟

علقمہ نے بلافاصلہ جواب دیا۔

خدا کی پناہ ، عمر ہم پر فرمانبرداری و اطاعت کا حق رکھتے ہیں ، ہمیں حق نہیں ہے ان کے خلاف کوئی کام کریں اور ان کے مخالفت کریں !

سرانجام عمر ، یا علقمہ کے خیال میں خالد ۔ اٹھ کر مسجد سے چلے گئے ۔

دوسرے دن عمر لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اسی اثنا ء میں خالد علقمہ کے ہمراہ داخل ہوا اور دونو ں ایک ساتھ ایک جگہ پر بیٹھ گئے ۔

۲۳

تھوڑی دیر کے بعد ایک مناسب فرصت پر عمر نے علقمہ کی طرف رخ کر کے سوال کیا:

اچھا علقمہ ! کیا تم نے وہ باتیں خالد سے کیں ؟

علقمہ ، عمر کا سوال سنکر الجھن میں پڑگیا ، چند لمحہ خاموشی کے بعد اسے کل رات کی وہ ساری باتیں یاد آئیں جو اس نے خالد سے کی تھیں ۔ لہذا فوری طور پر خالد سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں پوچھا :

ابو سلیمان ! کیا تو نے اس سے کوئی بات کہی ہے ؟

خالد نے جواب دیا :

وائے ہو ہم تم پر ، خدا کی قسم اس ملاقات سے پہلے میں نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔ اس وقت خالد نے فراست سے مطلب کو سمجھ لیا اور بولا:

ایساتو نہیں ہے تو نے ان کو خلیفہ کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پہلے کہیں دیکھا ہواور غلط فہمی سے میری جگہ پر انھیں لے لیا ہوگا؟

علقمہ نے جواب دیا۔

ہاں خدا کی قسم ، صحیح ہے میں نے تیرے بجائے انھیں دیکھا تھا۔

اس کے بعد خلیفہ سے مخاطب ہو کر بولا :

اے امیرالمؤمنین !آپ نے توخیر و خوبی کے علاوہ کوئی چیز مجھ سے نہیں سنی ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟

عمر نے جواب دیا : صحیح ہے ۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ ''حوران '' ١کی گورنری تمہیں دیدوں ؟

علقمہ نے جواب دیا :

جی ہاں

اس کے بعد عمر نے ''حوران '' کی حکومت کا فران علقمہ کے ہاتھ میں دیدیا اور وہ زندگی کے آخری دن تک اس حکومت پر پرقرار رہا اور وہیں پر وفات پائی ۔''حطیئہ'' نے اس کے سوگ میں یوں کہا ہے:.....( آخر تک )

ابن حجر نے اس داستان کے ضمنمیں یوں اضافہ کیا ہے:

عمر ''حوران ''کی حکومت کا فرما ن علقمہ کے ہاتھ میں دینے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر بولے:

اگر میرے پاس اس قسم کے باوفا اشخاص ہوتے ، تو وہ میرے لئے تمام دنیا کی دولت سے قمیتی تھے

۲۴

بحث کا نتیجہ :

ہم نے مشاہدہ کیا کہ مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے '' ابن "ابن " ابی شیبہ ''سے نقل کیا ہے کہ اس نے ''ایک قابل اعتبار منبع و مصدر '' سے روایت کی ہے کہ ''اسلاف کی رسم یہ تھی کہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا جاتا تھا.''

ان علماء نے اس قسم کی روایت کے مصدر کے بارے میں ''صحیح ''یا '' حسن'' کی اصطلاحات سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ صرف اتنا کہا ہے کہ'' ایک ایسے منبع سے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہے''۔ اور اس طرح اس مآخذ کی قدر وقیمت اور اعتبار کو کافی حد تک گھٹا کے رکھدیا ہے۔

ہم نے سیف بن عمر کو بھی یہ کہتے ہوئے پایا:

فوج کے سپہ سالار سب صحابی تھے ۔

ابو بکر جنگوں میں مرتد وں سے مدد حاصل نہیں کرتے تھے اور حکم دیدیا تھا کہ ان سے مدد طلب نہ کریں ۔ اس لئے ان جنگوں میں کسی مرتدنے شرکت نہیں کی ہے !

عمر مرتدوں کو سپاہ کے طور پر قبول کرتے تھے ، لیکن ان میں سے انگشت شمار افراد کے علاوہ ، جن کی تعداد مشکل سے دس افراد تک پہنچی تھی ، کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا خود آپ صحابی کو فوج کا سپہ سالار بنانے سے کبھی غفلت نہیں کرتے تھے۔

یہ وہ مطالب تھے جنہیں مکتب خلفاء کے دانشمندوں نے اصحاب کی شناخت اور پہچان کے طور پر ذکر کیا ہے۔

لیکن ہم نے ان سب ادعاو'ں کے باوجود دیکھا کہ خلیفۂ عمر نے اس کے برخلاف'' علقمہ'' کو جو مرتدہوگیاتھا ، ''حوران '' کے حاکم کے طور پر منصوب کیا جبکہ شامی امراء اور حکام اس زمانے میں فوج کی کمانڈ بھی سنبھالتے تھے ، اس مفہوم میں کہ شام کاحاکم اور گورنر وہاں کی فوج پر ، فلسطین کا حاکم وہاں کی فوج پر اور قنسرین کا فرمان روا علاقہ قنسرین کی فوج کا کمانڈر بھی تھا ۔

خلاصہ یہ کہ ہر علاقہ کا حاکم و فرماں روا صلح کے زمانے میں مطلق حاکم اور جنگ کے زمانے میں افسر اور سپہ سالار بھی ہوتا تھا۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ خلیفۂ دوم نے ایک نو مسلم عیسائی کے ہاتھوں میں حکمرانی کا پرچماس وقت دیدیا جب کہ اسلام لانے کے بعد اس نے ابھی تک ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی ، جبکہ اس زمانے کے رسم کے مطابق ایسا پرچم ایسے شخص کو دیا جاتا تھا جو ایک قبیلہ کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے آمادہ کرتا تھا۔کیونکہ ان دنوں فوج منظمکرنے کا کام قبیلوں کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا اور یہ رسم جنگ صفین اور ، حادثۂ کربلا بلکہ اس کے بعد بھی رائج تھی ۔

۲۵

اس بنا پر خلیفۂ عمر نے ''امرئو القیس کلبی '' کو جو قبیلہ کلب سے تھا اور قضاء نام کے ایک بڑے قبیلہ کا ایک جزتھا ، تمام قبائل قضاعہ پر حاکم مقرر کیا اور اس طرح سپاہ قضاعہ کی سپہ سالاری بھی اسے سونپ دی تا کہ وہ ان کی مدد سے رومیوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کر ے اور اسلام کی طرف سے کفر و الحاد سے جنگ کرے !

اس حساب سے مکتب خلفاء کے علماء نے صحابی کی پہچان کے لئے جو قاعدہ وضع کیاہے وہ باطل اور بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ اس کا مآ خذ بھی ضعیف ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے تاریخی واقعات اور روداد سے بھی فرق بھی رکھتا ہے۔

اس کے باوجود انہی علماء نے اس خیالی اور جھو ٹے قاعدہ کی خوش فہمی پر دسیوں بلکہ سینکڑوں جعلی چہروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر ان کے حالات لکھے ہیں ۔

ہم آنے والی بحث میں سیف کے چند ایسے جعلی اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالیں گے جن کو اس نے خاص طور پر سپہ سالار کے عہدوں پر فائز کیا ہے اور مختلف و متعدد روایتوں کے ذریعہ ان کے نام پر اخبار جعل کئے ہیں تاکہ اس طرح اپنے جھوٹ کو علما ء کی نظروں سے چھپا سکے اور اس کے علاوہ اسلام کی احادیث کر شہبہ میں ڈال کر ہمارے مصادر و مآخذ کو ہے اعتبار اور مجروح کر دے۔

سیف کے اس خطرناک مقصد کے بارے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ بعض علماء نے سیف کی اس سلسلے میں قرار واقعی مدد کی ہے اور اس طرح اس کو اپنے مقاصد تک پہنچے کی خوش فہمی کو اس پر اور اس کی احادیث پر اعتماد کر کے شرمندہ تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے اسلام کے خلاف ظلم و خیانت پر مبنی کئے گئے افسانوی اصحاب و سورمائوں کو اسلام کے مصادر و مآ خذ میں قرار دے کر انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں ثبت کیا ہے۔ کیا پتا ہے شاید سیف نے اپنی اتنی کامیابیوں کو خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گ

۲۶

مصادر و مآ خذ

صحابی کی پہچان کے سلسلہ میں '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت کے بارے میں ابن حجر کا بیان :

١۔'' ابن "ابن " حجر ''کی کتاب '' اصابہ '' (١/١٣) اور (١/١٦)

ابن ابی "ابن " شیبہ کی روایت کے بارے میں خبری منابع و مآخذ :

١ ۔ تاریخ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں (١/٢١٥١)

٢۔ تاریخ ابن "ابن " عساکر (١/٥١٤)

مرتدوں کے ساتھ عمر و ابو بکر کی روش پر سیف کی روایت :

١۔ تاریخ طبری (١/٢٠٢٠تا٢٠٢١)اور (١/٢٤٥٧ تا٢٤٥٨)اور (١/٢٢٢٥)

''امرئو القیس'' کی حکوت کی داستان:

١۔ابوافرج اصفہائی کی ''اغانی '' طبع ساسی (٤ا/١٥٧۔١٥٨)

٢۔ابن حزم کی ''جمھرہ '' (ص٤٥٧) بطور خلاصہ

''علقمہ بن علاثہ ، کلبی ''کی داستان :

١۔ابن حجر کی ''اصابہ'' (٢/٤٩٦۔۔٤٩٨)

٢۔اصفہانی کی ''اغانی'' (١٥/٥٦)

علقمہ و عامر کے اختلاف کی داستان:

١۔ ''اغانی '' (١٥/٥٠تا٥٥)

٢۔ ابن حزم کی ''جمھرہ'' (ص٢٨٤)

قضاعہ کا نسب:

ابن حزم کی '' جمہرہ انساب '' (٤٤٠۔٤٦٢)

۲۷

ا س کتاب میں درج سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد سے تیسری جلد تک سیف کے ٥٣ جعلی اصحاب کا تعارف کرایا

اب اس جلد میں اس کے مزید چالیس جعلی اصحاب کا حسب ذیل تعارف کراتے ہیں ۔

پہلا حصہ :

عراق کی جنگوں میں سیف خلق کردہ افسراور سپہ سالار: (١)

٥٤۔بشر بن عبداﷲ

٥٥۔ مالک بن ربیعہ تیمی

٥٦۔مزھاز بن عمر و عجلی

٥٧۔حمیضہ بن نعمان بارقی

٥٨۔جابر اسدی

٥٩۔عثمان بن ربیعہ ثقفی

٦٠۔سواد بن مالک تمیمی

دوسرا حصہ:

عراق کی جنگوں میں افسر اور سپہ سالار (٢)

٦١۔ عمرو بن وبرہ

٦٢۔حمّال بن مالک بن حماّل

٦٣۔ ربّیل بن عمروبن عبدری

٦٤۔ طلیحہ بن بلال قرشی

٦٥۔ خلید بن منذربن ساوی عبدی

٦٦۔حارث بن یزید عامری (دوسرا!)

۲۸

تیسرا حصہ :

مختلف قبائل سے چند اصحاب

٦٧۔ عبداﷲ بن حفص قرشی

٦٨ ۔ ابوحبیش عامر کلابی

٦٩۔ حارث بن مرّہ جہنی

چو تھا حصہ:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عصر ہونے کے سبب بنے اصحاب

٧٠ ۔ قرقرہ یا قرفہبن زاہر تیمی

٧١۔ نائل بن جعشم

٧٢۔ سعد بن عمیلہ فزاری

٧٣ ۔ قریب بن ظفر

٧٤ ۔ عامر بن عبدالا سد

پانچواں حصہ:

ارتداد کی جنگوں کے افسر اور سپہ سالار

٧٥ ۔ عبدالرحمان ابوالعاص

٧٦۔ عبیدة بن سعد

٧٧ ۔ خصفہ تیمی

٧٨۔ یزید بن قینان

٧٩۔صیحان بن صو حان

٨٠ ۔عباد ناجی

٨١۔شخریت

۲۹

چھٹا حصہ :

ابو بکر کی خدمت میں پہنچنے کے سبب بننے والے اصحاب

٨٢۔ شریک فزاری

٨٣۔ مسور بن عمرو

٨٤۔معاویہ عذری

٨٥۔ذو یناق و شہر ذو یناف

٨٦۔معاویۂ ثقفی

ساتواں حصہ:

ابوبکر کی جنگوں میں شرکت کرنے کے سبب بننے والے اصحاب

٨٧۔ سیف بن نعمان لخمی

٨٨۔ ثمامہ بن اوس بن ثابت

٨٩۔مہلہل بن یزید ۔

٩٠۔ غزال ھمدانی

٩١۔معاویہ بن انس

٩٢۔جراد بن مالک نویرہ

٩٣۔عبد بن غوث حمیری ، جو ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سپاہ کی مدد کرنے کے سبب بعنوان صحابی پہچانا گیا ہے :

۳۰

پہلا حصہ

عراق جنگوں میں سعد وقاص کے ہمراہ جنگی افسر اور سپہ سالار (١)

٥٤۔ بشر بن عبداﷲ

٥٥۔ مالک بن ربعیہ تیمی ( تیم رباب)

٥٦۔ہزھاز بن عمرو عجلی

٥٧۔ حمیضہ بن نعمان بارقی

٥٨۔ جابر اسدی

٥٩۔عثمان بن ربیعۂ تقفی

٦٠۔ سواد بن مالک تمیمی

۳۱

٥٤ واں جعلی صحابی بُشر بن عبداﷲ

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایاگیا ہے :

بشربن عبداﷲ :سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر بن خطاب نے ١٤ھ کو اسے '' سعد وقاص'' کے ہمراہ بھیجا۔

سعد نے اس ماموریت کے دوران ''بشر '' کو'' قیس'' کے ایک ہزار جنگجوؤں کی سرپرستی پر منتخب کیا ہے ۔

طبری نے بھی انہی مطالب کو اپنی ''تاریخ '' میں درج کیا ہے ۔ اور ابن ابی "ابن " شبیہ نے اپنے مصادر سے روایت کی ہے کہ قدما میں رسم تھی کہ جنگجوؤں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کیا جا تا تھا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر نے حرف ''ز'' کو اپنی بات کے اختتام پر اس لئے کیا کر تا ہے تاکہ یہ بتائے کہ اس نے اس صحابی کے نام کو دوسرے تذکرہ نویسوں پر استدر اک کر کے اسے اضافہ کیا ہے ۔

بُشر کے بارے میں ابن "ابن " حجر کے مطالب تاریخ طبری میں یوں ذکر ہوئے ہیں :

... اور'' قیس عیلان '' کے ایک ہزار جنگجو اس سعد وقاص کے ہمراہ عراق کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی کمانڈ بُشر بن عبداﷲھلالی، کر رہا تھا۔

یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ طبری نے ''بشر'' کو ''ہلالی '' کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور یہ تعارف اس کی طرف سے نہیں ہے بلکہ سیف کی طرف سے ہے ۔ اس بنا پر سیف نے اپنی اس خیالی تخلیق کو قبیلۂ ''ہلال بن عامر صعصعة بن..... عیلان بن مضر''سے خلق کیا ہے ۔

اس داستان کے راوی:

سیف نے ''بشر بن عبداﷲ ''کے افسانہ میں درج ذیل ناموں کو راویوں کے طور پر ذکر کیاہے۔

١۔''محمد و مستینر'' کہ دونوں اس کے خیالی راوی ہیں ۔

٢۔''طلحہ و حنش'' دونوں افراد مجہول اور نامعلوم ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ سیف نے ان سے کن کو مراد لیا ہے !

۳۲

اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما:

درج ذیل علماء نے افسانہ ''بشر ''کی اشاعت میں سیف کی نمایا ں مدد کی ہے:

١۔امام المورخین ،محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کے نام کے ساتھ ۔

٢۔ ابن "ابن " اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے ۔

٣۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں تاریخ طبری سے نقل کر کے ۔

٤۔ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ، سیف کی کتاب ''فتوح ''اور تاریخ طبری سے نقل کرکے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابن "ابن " حجر نے ''بشر '' کو اس لئے اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں ذکر کیا ہے کہ سیف کے کہنے کے مطابق قدمانے ''بشر '' کو مدینہ کو ترک کر کے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کرنے کیلئے عراق کی طرف روانہ ہوتے وقت ''قیس عیلان ''کے ایک ہزار جنگجوؤں کی کمانڈ سونپی تھی۔

اس کے علاوہ ابن "ابن " حجر نے ''ابن ابی شیبہ'' کی بات پر اعتماد اور توجہ بھی کی ہے ۔ جہا ں اس نے ایک مجہول ماخذسے یہ کہتے ہوئے کہ ''اس (ماخذ)پر کوئی اعتراض نہیں ہے '' بیان کیا ہے کہ قدیم جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے عنوان سے منتحب نہیں کر تے تھے !!

اورہم نے یہ بھی دیکھا کہ یہ روایت تاریخی حقائق اورموجودہ ما خذ و مصادر سے کتنا تناقص رکھتی ہے !!

اس کے علاوہ ''بشر''کی ''عبدالقیس''کے ایک ہزار جنگجوؤں کی سپہ سالاری کی روایت صرف سیف کی زبانی نقل ہوئی ہے اور کسی دوسرے مصدر و منبع میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے۔

سرانجام ہم نے بنیادی طور پر اس صحابی بشر بن عبدا للہ ہلالی اور اس داستان کے راویوں کو سیف بن عمر تمیمی افسانہ ساز کے علاوہ کسی اور منبع خبریمیں نہیں پایا !

۳۳

ان مقدماتی باتوں کے مدنظر معلوم ہوا کہ داستان ''بشر بن عبداﷲ''کا ''موضوع ،وجود ،اخبار اور راوی '' سب سرا پا جھوٹ اور جعلی تھے ، یہ ایک افسانہ ہے جسے سیف نے گڈھ لیا ہے ۔تاکہ علماء کو اسلام کے اصلی راستہ سے منحرف کرے ۔ ستم ظریفی ہے کہ'' محمدبن جریرطبری اور ابن حجر'' جیسے نامور علماء نے اس افسانہ اور سیف کے دیگر افسانوں کو اپنی معتبر و گراں قدر کتابوں میں درج کر کے سیف کے منحوس مقاصد کی خدمت اور اسلام کے ساتھ....

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر چہ ابن "ابن " حجر نے اس خبر کے مصدر (قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ ....)کو ابن ابی شیبہ پہنچایا ہے ۔ لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ انہوں نے روایت کو ''ابن ابی شیبہ ''کی کس کتاب سے نقل کیا ہے !

ہم بعد میں یہ بھی دیکھیں گے کہ ابن "ابن " حجر اپنے دیگر اصحاب کا تعارف کراتے وقت صرف '' ابن ابی شیبہ '' کی مذکورہ روایت کو نقل کرنے پرہی اکتفا کی ہے اور اس کے مصدر کا بھی نام نہیں لیتا ہے ۔

مصادر و مآ خذ

بشر بن عبداﷲ ،کے حالات:

١۔ ابن "ابن " حجر کی '' اصابہ '' (١/١٥٧) حصہ اول حرف ''ب '' حالات کی تشریح٦٦٥- سعد وقاص کی عراق کی طرف عزمیت اور بشر کی سپہ سالاری:

١۔ تاریخ طبری ١٧ ھ کی روداد (١/ ٢٢١٩)

٢۔ تاریخ ابن "ابن " اثیر (٢/٣٤٧)

٣۔ تاریخ ابن "ابن " خلدون (١/٣١٦)

سیف کے جعلی صحابی کا شجرہ نسب:

١۔ ''اللباب'' (٣/٢٩٦)

٢۔ ابن "ابن " حزم کی ''جمھرہ'' (٢٦٩۔٢٧٣)

۳۴

٥٥ واں جعلی صحابی مالک بن ربیعہ

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

مالک بن ربیعہ بنی تیم ربا ب ١سے تعلق رکھتاتھا ۔ وہ سعد بن ابی وقاص کا ایک کرنیل تھا ، جس نے خلافت عمر کے اوائل میں اس کے ساتھ عراق کی طرف عزیمت کی تھی ۔

قادسیہ کی جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے مالک بن ربیعہ کو اپنی سپاہ کے ایک دستہ کی کمانڈ سونپی تھی ۔

ابو جعفر محمدبن جریر طبری نے بھی مالک بن ربیعہ کے بارے میں ان ہی مطلب کو درج کیا ہے اورہم اسے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ قدما کی یہ رسمتھی کہ وہ جنگ میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار معین نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مالک بن ربیعہ کے بارے میں ابن "ابن " حجر کی تشریح کے تین حصے ہیں ، پہلا حصہ شجرہ ٔنسب پر مشتمل ہے ۔ہم

____________________

١۔ ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں '' بنی تیم مرة رباب '' آیا ہے ،ہم نے انساب عرب میں اس قسم کے نسب کو نہیں پایا ہے یہ وہی ''بنی تیم رباب ''ہونا چاہئے ، جس کا ہم نے متن میں ذکر کیاہے ۔

۳۵

حسب ذیل اس پر بحث کرتے ہیں ۔

١ ۔ عراق کی ''جنگ ِ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص کی طرف سے قبیلۂ تیم رباب کے ''مالک بن ربیعہ''کو ایک فوجی دستہ کے سپہ سالار کے عنوان سے انتصاب کی روایت صرف تاریخ طبری میں وہ بھی سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے درج کی گئی ہے کہیں اورنہیں ہے!!

٢۔ اس انتصاب اور اس سے مربوط دیگر و قائع کے بارے میں طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کانام لے کر اپنی کتاب کے چھ صفحات پر مفصل روشنی ڈالی ہے ۔ شاید خبر کا طولانی ہونا سبب بن گیا ہوکہ علامہ ابن "ابن " حجر کی نظر اس روایت کے اصلی منبع یعنی سیف بن عمر پر نہ پڑی ہو اور اس طرح اس نے مالک بن ربیعہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ ''تاریخ طبری ''کو اس کا منبع بیان کیاہے۔

قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک دستہ کے لئے''مالک بن ربیعہ کے سپہ سالار بننے کے سلسلہ میں جس نکتہ سے استفادہ کیا گیا ہے ، اور جسے تاریخ طبری نے درج کیاہے ، حسب ِ ذیل ہے؛

سیف نے ''طلحہ '' سے اس نے '' کیسان صنبیہ کی بیٹی '' سے اور اس نے قا دسیہ کی جنگ کے ایک اسیر سے روایت کی ہے ....(یہاں تک کہ وہ کہتاہے:)

اسی طرح اسلامی فوجی کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے '' مالک بن ربیعہ تیمی تیم رباب وائلی'' کو''مساور بن نعمان تیمی ربیعی '' کے ہمراہ ایک اور فوجی دستہ کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔

ان دو کمانڈرو ں نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ علاقہ''قیوم '' پر حملہ کیا۔ قبائل '' تغلب ونمر'' کے اونٹ ہنکالے گئے، اور اس علاقہ کے لوگوں کا قتل عام کیا اور فاتحانہ طور پر صبح سویرے سعد کی خدمت میں حاضر ہوگئے (طبری کی بات کا خاتمہ )

٣۔ ہم نے ابن "ابن " حجر کی بیان کردہ روایت کہ '' قدما صحابی کے علاوہ کسی دوسرے کو سپہ سالار ی کے عہدہ پرمنتخب نہیں کرتے تھے ''پر پہلے ہی مفصل بحث کی ہے ۔

۳۶

اور ہمیں یاد ہے کہ ابن حجر نے مذکورہ خبر کو ''بشر بن عبداﷲ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''ابن ابی شیبہ '' سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اور ہم یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ ابن "ابن " حجر نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں تاکید کی ہے کہ کتاب ''اصابہ '' کو تین حصوں میں تقسیم کرنے اور اس کے پہلے حصہ کو سپہ سالار ی کے عہدہ فائز اصحاب کے لئے مخصوص کرنے کا سبب وہی '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت تھی ۔

٤۔اب رہا ، سیف کے اس جعلی صحابی کا نسب ،ابن حجر نے اپنی کتاب اصابہ میں اسے ''تیمی اور بنی تیم مرّہ رباب ''کے نام سے پہچنوایا ہے اور ہم نے کہا ہے کہ یہ نسب ظاہراً غلط ہے ، اور صحیح ''تیم رباب '' ہے ''مرة '' نہیں ہے ۔

قبائل '' بنی منات '' کے ایک مجموعہ کو ''رباب'' کہاجاتاہے۔ انہوں نے اپنے چچیرے بھائیوں ''یعنی بنی سعد منات ''کے خلاف قبیلۂ ''ضبّہ ''کے ساتھ پیمان باندھا تھا ۔ انہوں نے اس پیمان کے عقد کے وقت یکجہتی کے طور پر اپنے ہاتھوں کو ''رُب ''سے پرایک برتن میں ڈبویاتھا۔

اوراسی مناسبت سے ''تیم بن عبد منات ''کے فرزندوں نے ''تیم رباب ''کی شہرت پائی ہے۔

لیکن یہ کہ تاریخ طبری میں مالک بن ربیعہ کی نسبت ''بنی تیم رباب وائلی ''سے دی گئی ہے ہم نہ سمجھ سکے کہ ''وائلی ''سے سیف کی مراد کیا تھی۔ اگر وائلی سے مراد ''عوف بن عبد منات ادّ ''کے نواسہ ''وائل بن قیس '' کی طرف نسبت ہے جو'' تیم رباب'' کے رشتہ دار تھے تو وہ ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہیں ۔

اگر ''وائلی ''سے سیف کا مقصد قبائل سیاء سے جذام کے نواسہ ''وائل بن مالک '' سے قرابت داری ہو تو یہ قبیلہ ''تیم رباب '' قبائل عدنان میں سے ہے اور یہ آپس میں جمع نہیں ہوسکتے اور نسب کے لحاظ سے آپس میں کافی اختلاف و فاصلہ رکھتے ہیں ۔

ہم نہیں جانتے کہ سیف اس مسئلہ اور ان دو نسب کی دوری سے آگاہ تھا یا اپنے شیوہ کے مطابق اس نے عمداً ''بنی تیم رباب وائلی ''لکھا ہے اور اس کا مقصد دانشمندوں کو حقا ئق سے گمراہ اور شبہ سے دو چار کرنا اور تحقیق سے سلسلے میں اختلاف ایجاد کرنا تھا؟

۳۷

یایہ کہ خوش فہمی کے عالم میں یہ قبول کریں کہ سیف میں کسی قسم کا چھل کپٹ نہیں تھا بلکہ وہ ایک غلط فہمی سے دوچار ہوا ہے ، تو یہ بعید نظر آتا ہے کیونکہ سیف کی تحریروں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ انساب عرب کے بارے وسیع علم رکھتا تھا۔

تیسری صورت یہ ہے کہ انساب عرب کے بارے میں سیف دوسرے صاحب تالیف نسب شناسوں کی نسبت کافی اطلاعات رکھتاتھا اور وہ ایسے قبیلوں کو بھی جانتاتھا کہ دوسرے ان سے لا علم تھے اسلئے اس نے اپنے مالک بن ربیعہ کو ایسے ہی قبیلوں سے نسبت دی ہے !!

بہرحال بعید نہیں ہے کہ ابن "ابن " حجر نے سیف کے مالک بن ربیعہ کے نسب میں اس نقص کو پاکر مالک بن ربیعہ کے حالات پر شرح لکھتے وقت اس کا شجرہ نسب لکھنے سے پرہیز کیا ہے۔

افسانہ مالک کے مآخذ کی پڑتال

سیف نے اپنے مالک بن ربیعہ کی قادسیہ کی جنگ میں فوجیوں کے ایک دستہ کی سپہ سالار ی کی خبر کو بقول :

طلحہ نے کیسان ضبیہ کی بیٹی سے '' اس نے جنگ قادسیہ کے ایک اسیر سے نقل کیا ہے!! اور نہ ہم جانتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ستارہ شناس کہ سیف کا یہ طلحہ کون ہے !

کیسان ضبیّہ کی بیٹی کا کیا نام تھا اور خود کیسان ضبیہ کون ہے ؟!

بالآخر قادسیہ کی جنگ کے اس بدقسمت اسیر کا نام کیاتھا؟!

ہم نے بیکار اپنا قمیتی وقت صرف کر کے مختلف کتابوں ، روائی مناطع اور اسلامی مصادر ومآ خذ میں جستجوں کی تاکہ شائد کیسان ضبیہ کی بیٹی کا کہیں سراغ ملے۔ لیکن ہماری یہ ساری تلاش بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔

۳۸

گذشتہ بحث کا خلاصہ اور نتیجہ :

ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے سعد وقاص کے حکم سے ''مالک بن ربیعہ ''اور ''مساور '' کی ایک فوجی دستے کی سپہ سالاری ، اور ان کے علاقہ ''قیوم '' پر حملہ کرنے کی روایت بیانں کی ہے ۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف نے ''مالک بن ربیعہ ''کے لئے ایک حیرت انگیز شجرہ نسب گھڑلیا ہے اور اسے کسی پروا کے بغیر اپنی کتا ب میں میں درج کیاہے ، نامعلوم اور مجہول راویوں کو کسی لحاظ کے بغیر سند اور مأخذکے طور پر پہچنوایا ہے!

اور آخر ہم میں نے محترم عالم ابن "ابن " حجر کو دیکھا کہ اس نے سیف کے افسانہ کے دو خیالی اشخاص مالک و مساور کورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مسلح اور حقیقی اصحاب کے طور پر پہچنوا کر ان کے حالات کی شرح لکھی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیف کے افسانہ میں ''مالک اور مساور '' کے ''فیوم '' نامی ایک جگہ پر چڑھائی کا ذکر آیا ہے ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ ''فیوم'' کہاں پر واقع ہے ۔

جہاں تک معلوم ہے ''فیوم '' مصر میں ایک معروف جگہ ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سیف اس سے پورے طور پر مطلع تھا اور لہذا اس نے اسی کی ہم نام جگہ کو عراق میں خلق کیا ہے!

یہ اسلامی جغرافیہ شناس اور محترم عالم یاقوت حموی ہے جس نے سیف کی باتوں پر اعتماد کر کے اس کے ''فیوم '' کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں خصوصی طور پر جگہ معین کر کے لکھاہے :

''فیوم '' دوجگہوں کانام ہے ۔ ایک مصر میں ہے اور دوسری عراق میں شہر ''ھیت ''کے نزدیک۔

اس کے بعد یاقوت حموی نے اپنی کتاب میں مصر کے ''فیوم '' کے بارے میں تین صفحوں پر مفصل تشریح کی ہے ۔آخر میں چونکہ عراق کی ''فیوم '' نامی جگہ کے بارے میں کچھ تھا ہی نہیں جسے وہ لکھتا ،اس لئے صرف اتنا لکھنے پر اکتفاکرتاہے:

یہ فیوم عراق میں شہر ''ھیت '' کے نزدیک ہے ۔

۳۹

ایسا لگتا ہے حموی کے شہر ''ھیت '' کو انتخاب کرنے کا سبب یہ تھا کہ سیف کے افسانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ''فیوم '' نامی جگہ قادسیہ کے اطراف میں واقع تھی ۔چونکہ ھیت قادسیہ کے نزدیک ہے ۔لہذا یاقوت حموی نے بھی اندھا دھند ایک اندازہ سے کہہ دیا کہ ''فیوم ''عراق کے شہر ھیت کے نزدیک واقع ہے ۔ جبکہ یہ خبر بنیادی طور پر جھوٹ اور من گڑھت ہے اور ''فیوم '' نامی یہ جگہ بھی سیف کے دوسرے مطالب کی طرح اس کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ہے ۔

یاقوت نے اس غلط فہمی کو اپنی دوسری کتاب '' المشترک ''جو ہم نام مقامات کے لئیمخصوص ہے میں تکرار کرتے ہوئے لکھاہے :

''فیوم '' دو جگہوں کا نام ہے ''

اس کے بعد جو کچھ اس سلسلے میں اپنی ''معجم'' میں درج کیا ہے اسے یہاں پر''المشترک''میں بھی ذکر کرتا ہے۔

یہاں پر یہ گمان تقویت پاتا ہے شاید سیف بن عمر نے اپنے افسانہ کے خیالی اداکار مالک بن ربیعہ تیمی کے نام کو بھی ''مالک بن ربیعہ ،ابو اسید ساعدی انصاری ''یا '' ابن "ابن " وھب قرشی '' یا ان کے علاوہ کسی اور کے نام سے لیا ہوگا تاکہ علماء و محققین کو گمراہ کرکے حیران و پریشان کر ے کیونکہ اصحاب میں اسی ہم نامی کے مسئلہ نے کتنے محققین اور علماء کو پریشان اور تشویش سے دو چار کر کے گمراہی اور غلطی کا مرتکب بنایا ہے۔

مصادر و مآخذ

مالک بن ربیعہ کے حالات:

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/٣٢٤) پہلا حصہ

٢۔ تاریخ طبری (ا/٢٢٤٤۔٢٢٤٥) قادسیہ کے وقائع کے ضمن میں ۔

''رباب ''کے نسب کے بارے میں :

١۔''جمہرہ انساب العرب '' ابن "ابن " حزم (١٩٨)

٢۔ لباب الانساب'' لفظ ''رباب '' (١٢٠)

٣۔ ''عجالہ ھمدانی'' لفظ ''وائلی '' (١٢٠) اور جذامی (٣٨)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

نیز خداوند ِعالم کا ارشاد ہے:

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پرواہ بھی نہ کرتاسورئہ فرقان۲۵آیت۷۷

قرآنِ کریم میں مختلف شکلوں میں ۲۵ مرتبہ دعا کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور سو سے زیادہ مرتبہ انبیا وغیرہ کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے جو رب اور ربنا جیسے کلمات سے شروع ہوتی ہیں اور یہ چیز قرآنِ کریم کی نظر میں دعا کی امتیازی اہمیت کی علامت ہے۔

انبیا اور معصومین کے کلمات میں بھی بہت کم چیزوں پر اتنی توجہ دی گئی ہے جتنی توجہ دعا کے موضوع پر دی گئی ہےیہ ہستیاں ہمیشہ، مختلف اوقات میں دعاؤں، مناجات اور خدا سے راز ونیاز میں مشغول رہا کرتی تھیںاس حوالے سے چند مثالوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الدُّعاء سِلاحُ المؤمِن وعَمُو دُالدّینِ ونُورُ السّماواتِ اوالارض

دعا مومن کا اسلحہ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

آنحضرتؐ ہی کا ارشاد ہے:

الدُّعاءُ مُخُّ العبادَةِ ولا یَهْلِکُ مَعَ الدُّعاء احَدٌ

دعا عبادت کا مغز ہےکوئی دعا کرنے والا ہلاکت کا شکار نہیں ہوتابحار الانوارج۹۳ص۳۰۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

احبُّ الاعمالِ اِلی ﷲ عزّو جلّ فی الارضِ الدُّعاءُ

اﷲ رب العزت کی نگاہ میں زمین پر سب سے پسندیدہ عمل دعا ہے

۱۴۱

اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:

وَکانَ امیرُ المؤمنینَ رجلاً دَعّاءٌ

اور امیر المومنین بہت زیادہ دعا کرنے والے شخص تھےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۷، ۴۶۸

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

الدُّعاءُ مفاتیحُ النّجاحِ ومقالیدُ الفَلاحِ

دعا کامیابی کی کنجیاں اور فلاح کے خزانے ہیں

الدُّعاءُ تُرْسُ المؤمِنِ

دعا مومن کی سپر ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

اَعْجَزُ الناسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعا

جو شخص دعا کرنے سے عاجز ہو، وہ عاجز ترین انسان ہےبحار الانوارج۷۸ص۹

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق

دعا ومناجات مثبت وتعمیری اثرات (بالخصوص قلب کی پاکیزگی اور تہذیب ِنفس) کی حامل ہوتی ہے اور اس سے بکثرت سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں ان اسباق میں دعا کے تین اہم درس، بالفاظ دیگر دعا کے تین پہلو بھی شامل ہیںدعا کے فیوضات حاصل کرنے کے لیے، ان اسباق اور ان پہلوؤں کی جانب متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔

۱۴۲

۱:- دعا، بلاؤں کے دور ہونے اور حاجتوں کے پورا ہونے کے سلسلے میں موثر کردار کی حامل ہےاسی بنیاد پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

ادفَعوا امواجَ البَلاء عَنْکُم بالدّعاء قَبْلَ ورودِالبَلاء

بلاؤں کی امواج کو ان کے آنے سے پہلے دعا کے ذریعے اپنے سے دور کروبحار الانوارج۹۳ص۲۸۹

۲:- دعا کرتے ہوئے بندہ خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا، سر جھکاتا اور اس کے ساتھ راز ونیاز کرتا ہے اور یہ کیفیات انسان کے غرور کو توڑتی ہیں اور دل کو معنوی امور کی قبولیت کے لیے آمادہ کرتی ہیں اس کے نتیجے میں انسان اطمینانِ نفس، قوتِ قلب اور بلند جذبات واحساسات کا حامل ہوجاتا ہےاس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً

تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکاروسورئہ اعراف۷آیت۵۵

۳:- دعا کے مشمولات ومضمون اور دعا میں موجود بلند پایہ معارف پر توجہمثال کے طور پر صحیفہ ٔ سجادیہ کی پہلی دعا اور نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ بلند پایہ معارف اور علمی نکات کے اعتبار سے یکساں ہیں ان معارف پر توجہ، انسان کی معلومات کی سطح اور معرفت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلام کی عالی تعلیمات ومفاہیم سے بہتر آشنائی کا ذریعہ ہیں ان اعلیٰ مفاہیم اور تعلیمات میں سرِ فہرست توحیدوخدا شناسی ہے، جو استجابت ِ دعا کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہےجیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک گروہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ امام ؑنے انہیں جواب دیا:

۱۴۳

لانّکم تدعُونَ مَنْ لا تَعرِفُونَه

اس لیے کہ تم اسے پکارتے ہو، جسے پہچانتے نہیںبحار الانوارج۹۳ص۳۶۸ (یعنی بغیر معرفت ِالٰہی کے دعا کرتے ہومترجم)

مجموعی طور پر دعا ایک ایسی عبادت ہے جسے روح کی پاکیزگی اور اسکی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ کردار کا حامل ہونا چاہئےاس کرادر کے حصول کے لیے واجب، مستحب اور کمالِ دعا کی شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

دعا کی قبولیت بعض شرائط سے وابستہ ہے اور ان شرائط کے حصول کا تہذیب ِنفس اور تکاملِ انسان سے قریبی تعلق ہے، اور کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر انسان میں دعا کا مثبت اثر ظاہر ہوگا اسی قدر دعا درجہ قبولیت پائے گیاس نکتے کی وضاحت کے لیے آپ کی توجہ درجِ ذیل فرامینِ معصومین ؑکی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں:

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایسا شخص، جو چاہتا ہے کہ اسکی دعا قبول ہو، اسے چاہیے کہ اپنی خوراک اور ذریعہ آمدنی کو پاک کرے۔

نیز آپؐ ہی نے فرمایا ہے:

تمہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے، وگرنہ خداوند ِ عالم تمہارے نیک لوگوں پر برے لوگوں کو مسلط کردے گا اور تم کتنی ہی دعا مانگو لیکن وہ قبول نہیں ہوگی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۸، ۴۴۹)

دعائے کمیل میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

اللهمَّ اغْفِرْلِیَ الذَنوبَ الَتی تَحْبِسُ الدّعاء

بار الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں

۱۴۴

ایک شخص نے امیر المومنین ؑسے سوال کیا: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ امام ؑنے اسے جواب دیا: تم نے خدا کو پہچانا ہے، لیکن اس کا حق ادا نہیں کیارسول پر ایمان لائے ہو، لیکن اُن کے فرامین واحکام کی پیروی نہیں کیآیات ِالٰہی کی تلاوت کی ہے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیازبان سے کہا ہے کہ آتشِ جہنم سے ڈرتے ہو، لیکن تمہارا کردار آتشِ جہنم میں داخلے کا موجب ہوتا ہےزبان سے کہتے ہو کہ تمہیں جنت پسند ہے، لیکن اپنے عمل سے جنت سے دور ہو گئے ہوخدا کی نعمتوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان کا شکر ادا نہیں کیاخدا فرماتا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو، تم نے اپنی زبان سے تو اس سے دشمنی کا اظہار کیا ہے، لیکن عمل سے اس سے دوستی کی ہےتم نے دوسرے لوگوں کے عیب تو دیکھے ہیں، لیکن اپنے عیبوں کو نظر انداز کیا ہےاگر تمہاری نیت خالص ہو اور تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرو، تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۹)

ایسی بکثرت روایات موجود ہیں، جن میں دعا کی قبولیت کے لیے اس کی شرائط فراہم کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہےلہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں بے سوچے سمجھے اور صرف بظاہر دعا کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیےبلکہ دعا کے مضمون ومشمولات اور شرائط پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس عمل سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا جاسکے۔

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب

زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۴) میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے ممتاز اور خاص بندے وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں اور دعا کے ذریعے خدا کے سامنے اپنی ان تین خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۱اچھی بیوی۲: صالح اولاد۳: لوگوں کے پیشوا، رہنما اور ان کے لیے نمونہ عمل کامقام۔

۱۴۵

یعنی یہ لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ انہیں دعا کے ذریعے اپنے رب سے کیا مانگنا چاہیے، لہٰذا خدا سے اہم چیزیں طلب کرتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ بارِ الٰہا! ہماری بیوی اور بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادےآنکھوں کی ٹھنڈک یا نورِ چشم کی اصطلاح کمال وسعادت کا رمز ہےکیونکہ اچھی بیوی اور صالح اولاد انسان کے اطمینان اور اسکی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور انسان کی روح کو فرحت بخشتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا نور حاصل ہوتا ہےواضح الفاظ میں عرض ہے کہ صالح اولاد اور اچھی بیوی، انسان کی زندگی کو نورانیت اور پاکیزگی دیتے ہیں اور دنیا وآخرت میں اس کی عزت وآبرو، سرخروئی اور سربلندی کا باعث بنتے ہیں اس قسم کی دعائیں سودمند اور مفید آثار کی حامل ہیں، برخلاف اُن بیہودہ اور کم فائدہ دعاؤں کے جن کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔

انسان کو تمام ہی امور میں، حتیٰ اپنی دعاؤں میں بھی بلند عزائم اور بلند تمناؤں کا مالک ہونا چاہیے اور دعا کی نورانیت کے سائے میں بلند مقامات تک رسائی حاصل کرنا چاہیےیہاں تک کہ اس کی دعا ہو کہ وہ لوگوں کا پیشوا، رہبر اور ان کے لئے نمونہ عمل بنے۔

دعاؤں کو صرف مادّی امور تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، نہ ہی بارگاہِ الٰہی میں حقیر چیزوں کی درخواست کرنی چاہیےاسی بنا پر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: چار قسم کے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں

۱۴۶

(۱) ایسے شخص کی دعا جو اپنے گھر میں بیٹھا یہ دعا مانگتا ہے کہ بارِ الٰہا! مجھے روزی عنایت فرمااس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے کوشش اور جدوجہد کا حکم نہیں دیا تھا؟

(۲) ایسے شخص کی دعا جس کی (بری اور مسلسل تکلیف پہنچانے والی) بیوی ہو، اور وہ اس سے نجات کی دعا کرتا ہواس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے طلاق کا حق نہیں دیا تھا

(۳) ایسا شخص جس کے پاس کوئی مال ہو اور اسے اس نے بغیر کسی کو گواہ بنائے کسی دوسرے کو قرض دے دیا ہو (اور قرض لینے والا مکر گیا ہو اور قرض دینے والا یہ دعا کرتا ہو کہ خدایا اسکے دل میں نیکی ڈال تاکہ وہ میرا قرض ادا کردے) ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ قرض دیتے وقت گواہ رکھنا(اصولِ کافی ج۲ص۵۱۱)

جب ہم انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی دعاؤں کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ دعا کے دوران اکثر ان کی خواہشات کا محور بلند پایہ معنوی، اجتماعی اور سیاسی امور ہوتے ہیںمثلاً حضرت ابراہیم ؑکی دعا یہ تھی کہ:

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

پروردگار! مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلےسورئہ ابراہیم۱۴آیت۴۰

ائمہ معصومینؑ جوراسخون فی العلم ہیں، یوں دعا کیا کرتے تھے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ

پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے، تو اب ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) پیدا نہ ہونے پائے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۸

۱۴۷

اصحاب کہف کی دعا یہ تھی کہ:

رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا

پروردگار! ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہدایت اور نجات کی راہ فراہم فرماسورئہ کہف۱۸آیت۱۰

صحیفہ ٔسجادیہ اور مفاتیح الجنان میں نقل ہونے والی ائمہ کی دعاؤں پر توجہ ہمیں دعا کرنے کے انداز سے آشنا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح اپنے رب سے دعا مانگیں۔

مثلاً امام حسین علیہ السلام اپنی دعائے عرفہ کے ایک حصے میں خدا سے یوں عرض کرتے ہیں کہ:

اللهمّ اجعَلنی اَخشاکَ کانّی اراک، واَسْعِدْنی بِتَقواک، ولاٰ تُشْقِنی مِنْ مَعْصِیَتِکَ

بارِ الٰہا! مجھے اپنی درگاہ میں ایسے خوف وخشیت کے ساتھ کھڑا کردے، گویا میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوںاور تقویٰ کے سائے میں مجھے سعادت مند فرما، اور گناہ کی بنا پر سیاہ بخت نہ بنا دینامفاتیح الجناندعائے عرفہ

اس نکتے اور مفہوم کی وضاحت کے لیے ایک دلچسپ داستان نقل کرتے ہیں:

بیان کیا گیا ہے خداوند ِعالم نے بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی پر وحی کی کہ فلاں عابد سے کہیں کہ اس کی تین دعائیں ہماری بارگاہ میں قبول کی جائیں گینبی نے خدا کی یہ وحی اس عابد تک پہنچا دیاس عابد نے معاملہ اپنی بیوی کے سامنے رکھا(۱) اس کی بیوی نے اس پر زور دیا کہ ان تین میں سے ایک دعا میرے لیے طلب کرےعابد نے اس کی یہ تجویز مان لیاس کی بیوی نے اس سے کہا کہ میرے لیے دعا مانگو کہ خدا مجھے اپنے زمانے کی حسین ترین عورتوں میں سے بنادےعابد نے یہ دعا مانگی اور اس کی بیوی دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے ہوگئی۔

--------------

۱:- کتاب سیاستنامہ کے صفحہ ۳۲۳ پر اس شوہر کا نام یوسف اور اس کی بیوی کا نام کُرٰسُف بیان ہوا ہے۔

۱۴۸

اس کی خوبصورتی کا چرچا ہوا تو بادشاہ وقت اور خواہشات ِنفسانی کے غلام امیر زادے اس کی زلف کے اسیر ہوگئے اور اسے پیغام بھیجنے لگے کہ اپنے مفلوک الحال، بوڑھے اور زاہد شوہر کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجاؤ تاکہ دنیا کی ہر لذت سے لطف اندوز ہوسکووہ عورت ان کے فریب میں آگئی اور اپنے شوہر سے بدسلوکی کرنے لگیاس طرح ان میاں بیوی کے باہمی تعلقات خراب ہو گئےآخر کار اس عابد شخص نے اپنی بیوی سے ناراض ہوکر اپنی دوسری دعا مانگی اور وہ یہ تھی کہ: بارِالٰہا! میری بیوی کو کتا بنا دے۔

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔

اس عورت کے بھائی اور دوسرے رشتے دار عابد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں میں ہماری رسوائی ہورہی ہے، ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ اپنی تیسری دعا طلب کیجئے تاکہ آپ کی بیوی اپنی پہلی والی صورت میں واپس آجائےان لوگوں کے شدید اصرار پر عابد نے اپنی تیسری دعا بھی طلب کی اور عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! میری بیوی کو اس کی پہلی حالت پر واپس پلٹا دےعابد کی دعا قبول ہوئی اور اس کی بیوی اپنی پہلی صورت پر واپس آگئی۔

اس طرح عابد کی تینوں مقبول دعائیں رائیگاں گئیں(بحارالانوارج۱۴ص ۴۸۵) اگر وہ عابد سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تو اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا اور اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرسکتا تھا۔

۱۴۹

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں

ایک مرتبہ پھر زیر بحث آیت کی تفسیر کی جانب آتے ہیں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ خداکے ممتاز بندے اپنی دعا میں خدا سےعرض کرتے ہیں کہ: ہمیں اچھی بیوی اور صالح اولاد عنایت فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا اور قائد بنا۔

یہ تین تمنائیں، ایک کامیاب اور سعادت مند زندگی کی بہترین خواہشات ہیں ان تین تمناؤں کی اہمیت جانے کے لیے، ان کی مختصر وضاحت کرتے ہیں۔

اچھی بیوی اور اس کے اثرات

اچھی بیوی، اپنے شوہر کے لیے بہترین معاون ومددگار ہوتی ہےزندگی کی خوبصورتی ودوام اور اسکی کامیابی وشادابی کا موجب ہوتی ہے اور گھرانے کی عمدہ نگہداشت اور اسکی تعمیر میں انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہےلہٰذا ان خصوصیات کی حامل بیوی کے چناؤ اور اس کی تربیت کے لیے گہری توجہ ضروری ہے۔

بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی شریک ِحیات کے انتخاب کے سلسلے میں رسولِ مقبول سے مشورہ کیاآنحضرتؐ نے اس سے فرمایا:

انکِحْ وعلیکَ بِذاتِ الدّینَ

شادی کرو لیکن تمہیں چاہیے کہ دیندار عورت سے شادی کروفروعِ کافی ج۵ص۳۳۲)

۱۵۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابراہیم کرخی سے فرمایا:

ایسی لڑکی سے شادی کرو جس کا گھرانہ اصیل اور نیک ہو، جو اچھے اخلاق کی حامل ہو، جس میں صاحب ِاولاد ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو، جو دنیا اور آخرت کے امور میں اپنے شوہر کی مددگار ہو(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۳)

اس بارے میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جن کا مہر کم ہو اور جو خوبرو ہوں(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۴)

اس حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ درجِ ذیل بارہ خصوصیات اچھی بیوی کی علامات ہیں(۱) دینداری(۲) اچھا اخلاق(۳) خوبصورتی(۴) مہر کا کم ہونا(۵) بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت(۶) محبت کرنے والی(۷) پاکدامن(۸) شوہر کی اطاعت گزار اور اس کے لیے سنورنے والی(۹) اچھے اور اصیل گھرانے سے تعلق رکھنے والی(۱۰) سچی اور امانتدار(۱۱) صاف ستھری اور معطر رہنے والی(۱۲) سمجھ بوجھ کی حامل اور خوش اسلوبی کے ساتھ امور زندگی کی تنظیم کرنے والی۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

ایّاکُم و تزویجَ الحَمقاء، فانَّ صُحْبَتَها بَلاءٌ وولَدَها ضِیاعُ

کم عقل عورتوں کے ساتھ شادی سے پرہیز کرو، کیونکہ ان کی ہم نشینی بلا ہے اور ان کے بچے برباد ہیںوسائل الشیعہ ج۱۴ص۵۶

متعدد روایات میں کہا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت تمہارے پیش نظر مال ودولت کا حصول اور شریک ِحیات کی خوبصورتی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے شریک ِحیات کے ایمان اور اس کی پاکدامنی کو پیش نظر رکھو۔

۱۵۱

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کبھی کوئی شخص کسی خاتون سے اس کے مال ودولت کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے اسی مال ودولت کے حوالے کردیتا ہے (اور دوسرے فوائد سے محروم رکھتا ہے) اور جو کوئی کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کے لیے شادی کرتا ہے، تو اس سے ناگوار امور سامنے آتے ہیں اور جو کوئی کسی خاتون سے اس کے دین کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۳۱)

لہٰذا اچھی بیوی کا شمار زندگی کے اہم ترین عناصر میں ہوتا ہےخداوند ِعالم کا ممتاز بندہ اپنی دعا میں بھی اور اپنے انتخاب میں بھی اس موضوع کو اچھی طرح پیش نظر رکھتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنی سعادت اور کامرانی کا ایک اہم عامل فراہم کرسکے۔

صالح اولاد

جو عناصر کسی انسان کی سعادت وکامرانی میں شمار کیے جاتے ہیں اُن میں سے ایک اہم ترین عنصر اسکا صالح اولاد کا مالک ہونا ہے، جو واقعا ً ایک بیش بہا الٰہی نعمت ہوتی ہے۔

اسکے برخلاف غیر صالح اولاد بڑی اور تباہ کن بلا ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں کی ناکامی اور مصیبت کا باعث ہےانبیا اور اولیائے الٰہی، اپنی دعاؤں اور مناجات میں بھی اور اپنے عمل کے ذریعے بھی صالح اولاد کے حصول کے طالب ہوتے ہیں اور اپنے بچے کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے سلسلے میں کسی تعمیری عامل کو نظر انداز نہیں کرتے۔

اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:

جب تم شادی کا ارادہ کرو، تو دو رکعت نماز پڑھو اور حمدوسپاس الٰہی کے بعد دعا کرو اور دعا میں کہو کہ:۔ ۔ اور میرے لیے اس بیوی سے ایسا طیب اور پاک فرزند نصیب فرما جو میری زندگی میں اور میری موت کے بعد میرا صالح جانشین ثابت ہو(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۷۹)

۱۵۲

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا:

خدا کی قسم! میں نے بارگاہِ الٰہی میں خوبصورت اور خوش اندام اولاد کی درخواست نہیں کی تھیبلکہ پروردگار سے التماس کی تھی کہ مجھے اﷲ کی مطیع وفرمانبردار اور خوفِ خدا رکھنے والی اولاد عطا فرمااور جب کبھی میں اسے دیکھوں، اور اسے خدا کا اطاعت گزار پاؤں، تو یہ دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو(مناقب ِابن شہر آشوبج۳ص۳۸۰)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انّ الولدَ الصّالح ریْحانةٌ مِنْ ریاحینِ الجَنَّةِ

بے شک صالح اولاد جنت کے خوشبودار پھولوں میں سے ایک پھول ہےفروعِ کافی ج۶ص۳

بحار الانوار کے مولف علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کے والد ِگرامی، عالمِ بزرگوار مرحوم ملّا محمد تقی مجلسی کے حالات ِزندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک رات نمازِ شب کے بعد مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اگر میں اس موقع پر خدا سے کوئی دعا مانگوں تو وہ دعا قبول ہوگیمیں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا درخواست کروں کہ اچانک میرے بیٹے محمد باقر کی آواز بلند ہوئی، جو اس وقت اپنے جھولے میں تھامیں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ: بار الٰہا! بحقِ محمد وآلِ محمد! اس بچے کو مروجِ دین اور سید الانبیا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والا قرار دےاور اسے بھرپور توفیقات عنایت فرما(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

یہی دعا اس بات کا باعث ہوئی کہ خداوند ِعالم نے ملّا باقر مجلسی کو توفیق کے تمام اسباب فراہم کیےیہاں تک کہ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کا کمال روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا اور انہوں نے اپنے بیان اور قلم کے ذریعے اسلام اور دینی احکام کی نشر واشاعت کی بھرپور توفیقات حاصل کیں اور بکثرت گرانقدر آثار اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے، جن میں سے ایک اثر، ایک سو دس جلدوں پر مشتمل بحار الانوار ہے۔

۱۵۳

معروف محدث حاجی نوری علیہ الرحمہ کے بقول، علامہ مجلسی کا مقام اور ترویجِ اسلام میں ان کی توفیق اس درجے پر پہنچی کہ عبد العزیز دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ میں لکھا ہے کہ: اگر مذہب ِ شیعہ کا نام مذہب ِمجلسی رکھا جائے تو بجا ہےکیونکہ اس مذہب کو رونق اور فروغ علامہ مجلسی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

نتیجہ یہ کہ بڑے لوگ صالح اولاد کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اسے اپنی زندگی کے سر فہرست مسئلے کے طور پر توجہ کا مرکز قرار دیتے تھے۔

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا

بے شک مقامِ امامت اعلیٰ ترین مقام ہے، جسے اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہےزیر بحث آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عباد الرحمٰن (یعنی خدا کے ممتاز بندے) وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ تقویٰ اور جہد ِ مسلسل کے ذریعے محترم ترین مقام تک رسائی حاصل کریں اور لوگوں کے پیشوا اور قائد بن جائیں۔

واضح ہے کہ اس مقام کا حصول تہذیب ِنفس کے مراحل طے کرنے اور معنوی کمالات کسب کرنے سے وابستہ ہےجیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کڑی آزمائشوں اور عالی درجات طے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے اور خداوند ِعالم نے ان سے فرمایا:…اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۲۴)

یہ دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خدا کے ممتاز بندوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ایسا بنائیں اور ایسے بلند عزائم رکھیں کہ لوگوں کے رہبر اور رہنما بن سکیں اور لوگ ان کے وجود سے پھوٹنے والی روشنی سے استفادہ کریں اور ان کے فیوضات لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر صراطِ مستقیم اور روشنی کی جانب لے آئیںاور وہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اگر وہ کوشش کریں تو تقویٰ اور عملِ صالح کے سائے میں عالی درجات حاصل کرسکتے ہیں۔

۱۵۴

یہ دعا، تمنا اور خواہش وہی ہے جو تمام انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی رکھتے تھےجیسے کہ اسی جیسی بات امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق میں آئی ہے، جہاں آپ نے خداوند عزوجل سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ:وَاجْعَلْنِی مِن اَهْلِ السِّدادِ وَمِنْ اَدِلَّةِ الرَّشادِ (اور مجھے درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں میں سے قرار دےمفاتیح الجناندعائے مکارم الاخلاق)

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا

قرآنِ مجید، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد روزِ قیامت ان بندوں کی ظاہری اور باطنی جزااور اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:

اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا خٰلِدِيْنَ فِيْهَاحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے اونچے اونچے محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام پیش کیے جائیں گےوہ انہی مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین جائے قیام ہےسورئہ فرقان۲۵آیات ۷۵ تا۷۶

ان آیات میں عبا دالرحمن کو ملنے والی جزا وپاداش کو بیان کیا گیا ہے، جو انتہائی عظیم الشان اور خصوصی امتیازات کے ہمراہ ہوگیان آیات کا تقاضا ہے کہ اس گفتگو میں، ان چار موضوعات، یعنی جزا وپاداش، عباد الرحمٰن کی مخصوص جزا، تعمیر کردار میں صبر واستقامت کی اہمیت اور خلود اور ہمیشگی وجاویدانی کے موضوع کا جائزہ لیا جائے۔

صبر کی اہمیت پر گفتگو کو ہم آئندہ نشست کے لیے چھوڑتے ہیںیہاں آپ کی توجہ دوسرے تین موضوعات کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

۱۵۵

جزاو پاداش

جزاو پاداش، بالفاظِ دیگر جزا اور مکافات ِعمل کا مسئلہ خداوند ِعالم کے قطعی تکوینی اور تشریعی قوانین میں سے ہے، جو اچھے یا برے عمل کی مناسبت سے ان اعمال کو انجام دینے والے پر دنیا اور آخرت میں مختلف شکلوں میں اثر انداز ہوتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اس بارے میں بکثرت آیات موجودہیں، یہ یقینی امور میں سے ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں۔

اگر ہم قرآنِ مجید میں مختلف انداز سے سیکڑوں بار استعمال ہونے والے لفظ ” جزا“ کا جائزہ لیں، تو بخوبی اس بات کا علم حاصل کریں گے کہ دنیاوی اور اُخروی جزا کا مسئلہ قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے مسلمہ امور میں سے ہے اور خداوند ِعالم نے انتہائی زور دے کر اس کا تذکرہ کیا ہے، تاکہ پیروانِ قرآن اس قطعی قانون کو کسی صورت فراموش نہ کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں۔

مثال کے طور پر اگر ہم قرآنِ کریم کی سورئہ نبا کا مطالعہ کریں، تو وہاں دیکھیں گے کہ اس سورے کی آیت ۲۱ سے لے کر ۳۰ تک میں، نہایت واضح الفاظ کے ساتھ اہلِ جہنم کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےاور آیت نمبر ۳۱ سے ۳۶ تک میں اہلِ جنت کی جزا وپاداش کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اسی سورے کی آیت ۲۶ میں فرمان الٰہی ہے:جَزَاءً وِّفَاقًا (یہ اُن کے اعمال کے موافق ومناسب بدلہ ہے)اسی سورے کی آیت ۳۶ میں خدا فرماتا ہے:جَزَاءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حساب کی ہوئی عطا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا ہے) لہٰذا انسان جو کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ خداوند ِعالم کے دقیق اور ٹھیک ٹھیک حساب میں ثبت اور درج ہوجاتا ہے اور تمام اچھے برے اعمال کے مقابل مناسب جزا یا سزا مقرر ہے۔

۱۵۶

جزا وسزاکا مسئلہ صرف آخرت سے مخصوص نہیں ہےبلکہ اس کا کچھ حصہ اسی دنیا میں بھی وجود رکھتا ہے اور انسان کے اعمال کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انسان کو اسی دنیا میں نصیب ہوجاتا ہے۔(۱)

اس بارے میں روایات بھی بے حساب ہیں، مثال کے طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:کُلٌّ امْرءٍ یُلْقیٰ مٰا عَمِلَ وَیُجْزیٰ بِمٰاصَنَعَ (ہر انسان اپنے عمل کا سامنا کرتا ہے، اور جو کچھ وہ انجام دیتا ہے، اسکی بنیاد پر اسے جزا وسزا دی جاتی ہے) نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے:کَما تدینُ تدان (جیسا کرو گے ویسا بھرو گےغرر الحکم ج۳ص۵۷۱)

لِکُلّ حسنةٍ ثوابٌ (ہر نیکی کا ثواب ہے)لِکُلّ سیّئةٍ عقاب (ہر بدی کا عقاب ہےغرر الحکم ج۳ص۵۷۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَما انّه لیسَ مِنْ عرْقٍ یضربُ، ولانکبةٍ، ولاصُداعٍ، ولا مرضٍ الاّبذنبٍ

جو بھی رگ (اور کوئی نبض) زخمی ہوتی ہے، پاؤں پتھر سے ٹکراتا ہے، دردِ سر اور مرض لاحق ہوتا ہے، اسکی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان نے کوئی گناہ کیا ہوتا ہے۔(۲)

--------------

۱:- سورئہ نجم ۵۳ کی آیت ۳۱، سورئہ طہ ۲۰ کی آیت ۱۵ اس بارے میں واضح دلالت کرتی ہیں۔

۲:- اصول کافی ج۲ص ۲۶۹، اسی کتاب کے صفحہ ۲۶۸ سے ۲۷۶ تک ” باب الذنوب“ کے عنوان کے تحت تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں، جو مکافات عمل کو بیان کرتی ہیں۔

۱۵۷

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب

کیونکہ عباد الرحمٰن، خدا کے ممتاز اور خاص بندے، اپنی بارہ خصوصیات کی وجہ سے مومنین کی صف ِاوّل میںہوتے ہیں، لہٰذا خداوند ِعالم ان کی جزا اور ثواب کی مناسبت سے انہیں جنت کے بلند اور عالی ترین درجے میں جگہ دیتا ہےیہ وہ درجہ ہے جو اہم ترین امتیازات کا حامل ہے۔

پہلے خداوند ِعالم فرماتا ہے کہ: غرفہ بہشت ان کے اختیار میں ہوگاغرفہ کے معنی گھروں کا بلند ترین طبقہ ہے اور یہاں بے مثل اور انتہائی گراں قیمت محل کا کنایہ ہے، جو جنت کے دوسرے حصوں سے انتہائی بلند مقام کا حامل ہےجیساکہ مذکورہ آیت سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ یہ عظیم الشان محل تین انتہائی اہم خصوصیات رکھتا ہے۔

۱:- عباد الرحمٰن کا وہاں ہمیشہ خاص احترام کیا جائے گا، اور وہ خدا، فرشتوں اور اہلِ جنت کے تحیت وسلام سے بہرہ مند ہوں گےہمیشہ بلند مقامات انہیں سلامتی اور ہر قسم کی ظاہری وباطنی رفاہ وآسائش کے ساتھ پاک وپاکیزہ زندگی کی بشارت دیں گے۔

۲:- وہ ایک ایسے ٹھکانے میں ہوں گے جو انتہائی خوبصورت، ہرا بھرا، پاک وپاکیزہ اور ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور غموں سے دور ہوگا۔

۳:- یہ لوگ ہمیشہ وہاں رہیں گےوہاں فنا، موت اور نابودی کا سوال ہی نہ ہوگا اور انہیں اس عالی شان جگہ سے نکالے جانے کا کوئی دھڑکا اور اندیشہ نہیں ہوگا۔

۱۵۸

سچی بات ہے، اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی کہ انسان ایک ایسے محل میں رہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور وہ اس محل میں زندگی کی تمام نعمتوں، خوبصورتیوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اسے وہاں فنا اور دوسری غم انگیز باتوں کی طرف سے کوئی تشویش نہ ہو۔

ان جزائوںمیںسب سے بڑی جزا، ان پر خدااور اسکے فرشتوںکا مسلسل تحیت و سلام ہےجس کی لذت ولطف قابلِ بیان اورقابلِ ادراک نہیں۔ امتیازی مقام کے حا مل اہلِ جنت پر خدا اور فرشتوں کے سلام کے بارے میں قرآن کی ایک اور آیت میںذکر ہواہے کہ:

سَلٰمٌ، قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ

ان کے حق میں ان کے مہربان پروردگارکا قول صرف سلامتی ہوگا۔ سورہ یٰسین۳۶۔ آیت۵۸

اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ:

وَالْمَلٰىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ

اور ملائکہ ہر دروازے سے ان کے پاس حا ضری دیں گےکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔ سورہ رعد ۱۳آیت۲۳، ۲۴

۱۵۹

خلودوجاویدانگی کی اہمیت

معاد اور جنت و دوزخ کی گفتگو میں ایک مسئلہ خلود اور جاویدانگی کا مسئلہ ہےیعنی دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لیے اور نا قابلِ زوال ہےاسی طرح جیسے بہشت کی نعمتیں بھی دائمی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔

قرآنِ کریم کی متعددآیات میں خلود کے مسئلے پربات ہوئی ہے، اور اس کی وضاحت اس قدر قطعی ہے کہ اسکی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔

خلود کے معنی ایسی بقا اور دوام ہے جس میں زوال اور نا بودی کی گنجائش نہ ہو۔ ــ ” لسانِ العرب“ نامی عربی لعنت میں ” خلد“ کے معنی ایسے ٹھکانے اور سرائے میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا بیان ہوئے ہیں جس سے انسان کو باہر نہیںنکالا جائے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر آخرت کو ” دارالخلد“ کہتےہیںکہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی معنی دوسری عربی لغتوں ” مقاییس اللغۃ“ اور ” صحاح اللغۃ“ میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔

اگرچہ بعض مفسرین نے خلود کے معنی کی تو جیہات کی ہیں، مثلاً اسے طولانی وغیرہ کہاہے اور اسکے بارے میں مختلف احتمالات کا اظہار کیا ہے لیکن قرآنی آیات کی وضاحت وصراحت کے سامنے یہ توجیہات واحتمالات قابلِ قبول نہیں، اور علمائے اسلام اور چوٹی کے مفسرین نے انہیں مسترد کیا ہے۔

خلود کے معنی جاویدانگی ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اور دوسری تعبیریں بھی موجود ہیں، جواس قسم کی توجیہات واحتمالات کے قابل نہیں، اور جاویدانگی پرصراحت کی حامل ہیں، مثلاًایک مقام پر ہے:وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَه فَاِنَّ لَه نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا (اور جو اﷲاور رسول کی نافرمانی کرے گااسکے لیے جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والا ہے۔ سورئہ جن ۷۲۔ آیت۲۳)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177