عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف22%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92402 / ڈاؤنلوڈ: 6202
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

نیز خداوند ِعالم کا ارشاد ہے:

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پرواہ بھی نہ کرتاسورئہ فرقان۲۵آیت۷۷

قرآنِ کریم میں مختلف شکلوں میں ۲۵ مرتبہ دعا کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور سو سے زیادہ مرتبہ انبیا وغیرہ کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے جو رب اور ربنا جیسے کلمات سے شروع ہوتی ہیں اور یہ چیز قرآنِ کریم کی نظر میں دعا کی امتیازی اہمیت کی علامت ہے۔

انبیا اور معصومین کے کلمات میں بھی بہت کم چیزوں پر اتنی توجہ دی گئی ہے جتنی توجہ دعا کے موضوع پر دی گئی ہےیہ ہستیاں ہمیشہ، مختلف اوقات میں دعاؤں، مناجات اور خدا سے راز ونیاز میں مشغول رہا کرتی تھیںاس حوالے سے چند مثالوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الدُّعاء سِلاحُ المؤمِن وعَمُو دُالدّینِ ونُورُ السّماواتِ اوالارض

دعا مومن کا اسلحہ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

آنحضرتؐ ہی کا ارشاد ہے:

الدُّعاءُ مُخُّ العبادَةِ ولا یَهْلِکُ مَعَ الدُّعاء احَدٌ

دعا عبادت کا مغز ہےکوئی دعا کرنے والا ہلاکت کا شکار نہیں ہوتابحار الانوارج۹۳ص۳۰۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

احبُّ الاعمالِ اِلی ﷲ عزّو جلّ فی الارضِ الدُّعاءُ

اﷲ رب العزت کی نگاہ میں زمین پر سب سے پسندیدہ عمل دعا ہے

۱۴۱

اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:

وَکانَ امیرُ المؤمنینَ رجلاً دَعّاءٌ

اور امیر المومنین بہت زیادہ دعا کرنے والے شخص تھےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۷، ۴۶۸

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

الدُّعاءُ مفاتیحُ النّجاحِ ومقالیدُ الفَلاحِ

دعا کامیابی کی کنجیاں اور فلاح کے خزانے ہیں

الدُّعاءُ تُرْسُ المؤمِنِ

دعا مومن کی سپر ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

اَعْجَزُ الناسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعا

جو شخص دعا کرنے سے عاجز ہو، وہ عاجز ترین انسان ہےبحار الانوارج۷۸ص۹

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق

دعا ومناجات مثبت وتعمیری اثرات (بالخصوص قلب کی پاکیزگی اور تہذیب ِنفس) کی حامل ہوتی ہے اور اس سے بکثرت سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں ان اسباق میں دعا کے تین اہم درس، بالفاظ دیگر دعا کے تین پہلو بھی شامل ہیںدعا کے فیوضات حاصل کرنے کے لیے، ان اسباق اور ان پہلوؤں کی جانب متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔

۱۴۲

۱:- دعا، بلاؤں کے دور ہونے اور حاجتوں کے پورا ہونے کے سلسلے میں موثر کردار کی حامل ہےاسی بنیاد پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

ادفَعوا امواجَ البَلاء عَنْکُم بالدّعاء قَبْلَ ورودِالبَلاء

بلاؤں کی امواج کو ان کے آنے سے پہلے دعا کے ذریعے اپنے سے دور کروبحار الانوارج۹۳ص۲۸۹

۲:- دعا کرتے ہوئے بندہ خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا، سر جھکاتا اور اس کے ساتھ راز ونیاز کرتا ہے اور یہ کیفیات انسان کے غرور کو توڑتی ہیں اور دل کو معنوی امور کی قبولیت کے لیے آمادہ کرتی ہیں اس کے نتیجے میں انسان اطمینانِ نفس، قوتِ قلب اور بلند جذبات واحساسات کا حامل ہوجاتا ہےاس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً

تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکاروسورئہ اعراف۷آیت۵۵

۳:- دعا کے مشمولات ومضمون اور دعا میں موجود بلند پایہ معارف پر توجہمثال کے طور پر صحیفہ ٔ سجادیہ کی پہلی دعا اور نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ بلند پایہ معارف اور علمی نکات کے اعتبار سے یکساں ہیں ان معارف پر توجہ، انسان کی معلومات کی سطح اور معرفت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلام کی عالی تعلیمات ومفاہیم سے بہتر آشنائی کا ذریعہ ہیں ان اعلیٰ مفاہیم اور تعلیمات میں سرِ فہرست توحیدوخدا شناسی ہے، جو استجابت ِ دعا کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہےجیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک گروہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ امام ؑنے انہیں جواب دیا:

۱۴۳

لانّکم تدعُونَ مَنْ لا تَعرِفُونَه

اس لیے کہ تم اسے پکارتے ہو، جسے پہچانتے نہیںبحار الانوارج۹۳ص۳۶۸ (یعنی بغیر معرفت ِالٰہی کے دعا کرتے ہومترجم)

مجموعی طور پر دعا ایک ایسی عبادت ہے جسے روح کی پاکیزگی اور اسکی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ کردار کا حامل ہونا چاہئےاس کرادر کے حصول کے لیے واجب، مستحب اور کمالِ دعا کی شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

دعا کی قبولیت بعض شرائط سے وابستہ ہے اور ان شرائط کے حصول کا تہذیب ِنفس اور تکاملِ انسان سے قریبی تعلق ہے، اور کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر انسان میں دعا کا مثبت اثر ظاہر ہوگا اسی قدر دعا درجہ قبولیت پائے گیاس نکتے کی وضاحت کے لیے آپ کی توجہ درجِ ذیل فرامینِ معصومین ؑکی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں:

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایسا شخص، جو چاہتا ہے کہ اسکی دعا قبول ہو، اسے چاہیے کہ اپنی خوراک اور ذریعہ آمدنی کو پاک کرے۔

نیز آپؐ ہی نے فرمایا ہے:

تمہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے، وگرنہ خداوند ِ عالم تمہارے نیک لوگوں پر برے لوگوں کو مسلط کردے گا اور تم کتنی ہی دعا مانگو لیکن وہ قبول نہیں ہوگی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۸، ۴۴۹)

دعائے کمیل میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

اللهمَّ اغْفِرْلِیَ الذَنوبَ الَتی تَحْبِسُ الدّعاء

بار الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں

۱۴۴

ایک شخص نے امیر المومنین ؑسے سوال کیا: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ امام ؑنے اسے جواب دیا: تم نے خدا کو پہچانا ہے، لیکن اس کا حق ادا نہیں کیارسول پر ایمان لائے ہو، لیکن اُن کے فرامین واحکام کی پیروی نہیں کیآیات ِالٰہی کی تلاوت کی ہے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیازبان سے کہا ہے کہ آتشِ جہنم سے ڈرتے ہو، لیکن تمہارا کردار آتشِ جہنم میں داخلے کا موجب ہوتا ہےزبان سے کہتے ہو کہ تمہیں جنت پسند ہے، لیکن اپنے عمل سے جنت سے دور ہو گئے ہوخدا کی نعمتوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان کا شکر ادا نہیں کیاخدا فرماتا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو، تم نے اپنی زبان سے تو اس سے دشمنی کا اظہار کیا ہے، لیکن عمل سے اس سے دوستی کی ہےتم نے دوسرے لوگوں کے عیب تو دیکھے ہیں، لیکن اپنے عیبوں کو نظر انداز کیا ہےاگر تمہاری نیت خالص ہو اور تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرو، تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۹)

ایسی بکثرت روایات موجود ہیں، جن میں دعا کی قبولیت کے لیے اس کی شرائط فراہم کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہےلہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں بے سوچے سمجھے اور صرف بظاہر دعا کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیےبلکہ دعا کے مضمون ومشمولات اور شرائط پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس عمل سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا جاسکے۔

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب

زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۴) میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے ممتاز اور خاص بندے وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں اور دعا کے ذریعے خدا کے سامنے اپنی ان تین خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۱اچھی بیوی۲: صالح اولاد۳: لوگوں کے پیشوا، رہنما اور ان کے لیے نمونہ عمل کامقام۔

۱۴۵

یعنی یہ لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ انہیں دعا کے ذریعے اپنے رب سے کیا مانگنا چاہیے، لہٰذا خدا سے اہم چیزیں طلب کرتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ بارِ الٰہا! ہماری بیوی اور بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادےآنکھوں کی ٹھنڈک یا نورِ چشم کی اصطلاح کمال وسعادت کا رمز ہےکیونکہ اچھی بیوی اور صالح اولاد انسان کے اطمینان اور اسکی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور انسان کی روح کو فرحت بخشتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا نور حاصل ہوتا ہےواضح الفاظ میں عرض ہے کہ صالح اولاد اور اچھی بیوی، انسان کی زندگی کو نورانیت اور پاکیزگی دیتے ہیں اور دنیا وآخرت میں اس کی عزت وآبرو، سرخروئی اور سربلندی کا باعث بنتے ہیں اس قسم کی دعائیں سودمند اور مفید آثار کی حامل ہیں، برخلاف اُن بیہودہ اور کم فائدہ دعاؤں کے جن کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔

انسان کو تمام ہی امور میں، حتیٰ اپنی دعاؤں میں بھی بلند عزائم اور بلند تمناؤں کا مالک ہونا چاہیے اور دعا کی نورانیت کے سائے میں بلند مقامات تک رسائی حاصل کرنا چاہیےیہاں تک کہ اس کی دعا ہو کہ وہ لوگوں کا پیشوا، رہبر اور ان کے لئے نمونہ عمل بنے۔

دعاؤں کو صرف مادّی امور تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، نہ ہی بارگاہِ الٰہی میں حقیر چیزوں کی درخواست کرنی چاہیےاسی بنا پر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: چار قسم کے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں

۱۴۶

(۱) ایسے شخص کی دعا جو اپنے گھر میں بیٹھا یہ دعا مانگتا ہے کہ بارِ الٰہا! مجھے روزی عنایت فرمااس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے کوشش اور جدوجہد کا حکم نہیں دیا تھا؟

(۲) ایسے شخص کی دعا جس کی (بری اور مسلسل تکلیف پہنچانے والی) بیوی ہو، اور وہ اس سے نجات کی دعا کرتا ہواس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے طلاق کا حق نہیں دیا تھا

(۳) ایسا شخص جس کے پاس کوئی مال ہو اور اسے اس نے بغیر کسی کو گواہ بنائے کسی دوسرے کو قرض دے دیا ہو (اور قرض لینے والا مکر گیا ہو اور قرض دینے والا یہ دعا کرتا ہو کہ خدایا اسکے دل میں نیکی ڈال تاکہ وہ میرا قرض ادا کردے) ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ قرض دیتے وقت گواہ رکھنا(اصولِ کافی ج۲ص۵۱۱)

جب ہم انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی دعاؤں کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ دعا کے دوران اکثر ان کی خواہشات کا محور بلند پایہ معنوی، اجتماعی اور سیاسی امور ہوتے ہیںمثلاً حضرت ابراہیم ؑکی دعا یہ تھی کہ:

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

پروردگار! مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلےسورئہ ابراہیم۱۴آیت۴۰

ائمہ معصومینؑ جوراسخون فی العلم ہیں، یوں دعا کیا کرتے تھے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ

پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے، تو اب ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) پیدا نہ ہونے پائے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۸

۱۴۷

اصحاب کہف کی دعا یہ تھی کہ:

رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا

پروردگار! ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہدایت اور نجات کی راہ فراہم فرماسورئہ کہف۱۸آیت۱۰

صحیفہ ٔسجادیہ اور مفاتیح الجنان میں نقل ہونے والی ائمہ کی دعاؤں پر توجہ ہمیں دعا کرنے کے انداز سے آشنا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح اپنے رب سے دعا مانگیں۔

مثلاً امام حسین علیہ السلام اپنی دعائے عرفہ کے ایک حصے میں خدا سے یوں عرض کرتے ہیں کہ:

اللهمّ اجعَلنی اَخشاکَ کانّی اراک، واَسْعِدْنی بِتَقواک، ولاٰ تُشْقِنی مِنْ مَعْصِیَتِکَ

بارِ الٰہا! مجھے اپنی درگاہ میں ایسے خوف وخشیت کے ساتھ کھڑا کردے، گویا میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوںاور تقویٰ کے سائے میں مجھے سعادت مند فرما، اور گناہ کی بنا پر سیاہ بخت نہ بنا دینامفاتیح الجناندعائے عرفہ

اس نکتے اور مفہوم کی وضاحت کے لیے ایک دلچسپ داستان نقل کرتے ہیں:

بیان کیا گیا ہے خداوند ِعالم نے بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی پر وحی کی کہ فلاں عابد سے کہیں کہ اس کی تین دعائیں ہماری بارگاہ میں قبول کی جائیں گینبی نے خدا کی یہ وحی اس عابد تک پہنچا دیاس عابد نے معاملہ اپنی بیوی کے سامنے رکھا(۱) اس کی بیوی نے اس پر زور دیا کہ ان تین میں سے ایک دعا میرے لیے طلب کرےعابد نے اس کی یہ تجویز مان لیاس کی بیوی نے اس سے کہا کہ میرے لیے دعا مانگو کہ خدا مجھے اپنے زمانے کی حسین ترین عورتوں میں سے بنادےعابد نے یہ دعا مانگی اور اس کی بیوی دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے ہوگئی۔

--------------

۱:- کتاب سیاستنامہ کے صفحہ ۳۲۳ پر اس شوہر کا نام یوسف اور اس کی بیوی کا نام کُرٰسُف بیان ہوا ہے۔

۱۴۸

اس کی خوبصورتی کا چرچا ہوا تو بادشاہ وقت اور خواہشات ِنفسانی کے غلام امیر زادے اس کی زلف کے اسیر ہوگئے اور اسے پیغام بھیجنے لگے کہ اپنے مفلوک الحال، بوڑھے اور زاہد شوہر کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجاؤ تاکہ دنیا کی ہر لذت سے لطف اندوز ہوسکووہ عورت ان کے فریب میں آگئی اور اپنے شوہر سے بدسلوکی کرنے لگیاس طرح ان میاں بیوی کے باہمی تعلقات خراب ہو گئےآخر کار اس عابد شخص نے اپنی بیوی سے ناراض ہوکر اپنی دوسری دعا مانگی اور وہ یہ تھی کہ: بارِالٰہا! میری بیوی کو کتا بنا دے۔

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔

اس عورت کے بھائی اور دوسرے رشتے دار عابد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں میں ہماری رسوائی ہورہی ہے، ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ اپنی تیسری دعا طلب کیجئے تاکہ آپ کی بیوی اپنی پہلی والی صورت میں واپس آجائےان لوگوں کے شدید اصرار پر عابد نے اپنی تیسری دعا بھی طلب کی اور عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! میری بیوی کو اس کی پہلی حالت پر واپس پلٹا دےعابد کی دعا قبول ہوئی اور اس کی بیوی اپنی پہلی صورت پر واپس آگئی۔

اس طرح عابد کی تینوں مقبول دعائیں رائیگاں گئیں(بحارالانوارج۱۴ص ۴۸۵) اگر وہ عابد سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تو اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا اور اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرسکتا تھا۔

۱۴۹

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں

ایک مرتبہ پھر زیر بحث آیت کی تفسیر کی جانب آتے ہیں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ خداکے ممتاز بندے اپنی دعا میں خدا سےعرض کرتے ہیں کہ: ہمیں اچھی بیوی اور صالح اولاد عنایت فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا اور قائد بنا۔

یہ تین تمنائیں، ایک کامیاب اور سعادت مند زندگی کی بہترین خواہشات ہیں ان تین تمناؤں کی اہمیت جانے کے لیے، ان کی مختصر وضاحت کرتے ہیں۔

اچھی بیوی اور اس کے اثرات

اچھی بیوی، اپنے شوہر کے لیے بہترین معاون ومددگار ہوتی ہےزندگی کی خوبصورتی ودوام اور اسکی کامیابی وشادابی کا موجب ہوتی ہے اور گھرانے کی عمدہ نگہداشت اور اسکی تعمیر میں انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہےلہٰذا ان خصوصیات کی حامل بیوی کے چناؤ اور اس کی تربیت کے لیے گہری توجہ ضروری ہے۔

بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی شریک ِحیات کے انتخاب کے سلسلے میں رسولِ مقبول سے مشورہ کیاآنحضرتؐ نے اس سے فرمایا:

انکِحْ وعلیکَ بِذاتِ الدّینَ

شادی کرو لیکن تمہیں چاہیے کہ دیندار عورت سے شادی کروفروعِ کافی ج۵ص۳۳۲)

۱۵۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابراہیم کرخی سے فرمایا:

ایسی لڑکی سے شادی کرو جس کا گھرانہ اصیل اور نیک ہو، جو اچھے اخلاق کی حامل ہو، جس میں صاحب ِاولاد ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو، جو دنیا اور آخرت کے امور میں اپنے شوہر کی مددگار ہو(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۳)

اس بارے میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جن کا مہر کم ہو اور جو خوبرو ہوں(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۴)

اس حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ درجِ ذیل بارہ خصوصیات اچھی بیوی کی علامات ہیں(۱) دینداری(۲) اچھا اخلاق(۳) خوبصورتی(۴) مہر کا کم ہونا(۵) بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت(۶) محبت کرنے والی(۷) پاکدامن(۸) شوہر کی اطاعت گزار اور اس کے لیے سنورنے والی(۹) اچھے اور اصیل گھرانے سے تعلق رکھنے والی(۱۰) سچی اور امانتدار(۱۱) صاف ستھری اور معطر رہنے والی(۱۲) سمجھ بوجھ کی حامل اور خوش اسلوبی کے ساتھ امور زندگی کی تنظیم کرنے والی۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

ایّاکُم و تزویجَ الحَمقاء، فانَّ صُحْبَتَها بَلاءٌ وولَدَها ضِیاعُ

کم عقل عورتوں کے ساتھ شادی سے پرہیز کرو، کیونکہ ان کی ہم نشینی بلا ہے اور ان کے بچے برباد ہیںوسائل الشیعہ ج۱۴ص۵۶

متعدد روایات میں کہا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت تمہارے پیش نظر مال ودولت کا حصول اور شریک ِحیات کی خوبصورتی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے شریک ِحیات کے ایمان اور اس کی پاکدامنی کو پیش نظر رکھو۔

۱۵۱

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کبھی کوئی شخص کسی خاتون سے اس کے مال ودولت کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے اسی مال ودولت کے حوالے کردیتا ہے (اور دوسرے فوائد سے محروم رکھتا ہے) اور جو کوئی کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کے لیے شادی کرتا ہے، تو اس سے ناگوار امور سامنے آتے ہیں اور جو کوئی کسی خاتون سے اس کے دین کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۳۱)

لہٰذا اچھی بیوی کا شمار زندگی کے اہم ترین عناصر میں ہوتا ہےخداوند ِعالم کا ممتاز بندہ اپنی دعا میں بھی اور اپنے انتخاب میں بھی اس موضوع کو اچھی طرح پیش نظر رکھتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنی سعادت اور کامرانی کا ایک اہم عامل فراہم کرسکے۔

صالح اولاد

جو عناصر کسی انسان کی سعادت وکامرانی میں شمار کیے جاتے ہیں اُن میں سے ایک اہم ترین عنصر اسکا صالح اولاد کا مالک ہونا ہے، جو واقعا ً ایک بیش بہا الٰہی نعمت ہوتی ہے۔

اسکے برخلاف غیر صالح اولاد بڑی اور تباہ کن بلا ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں کی ناکامی اور مصیبت کا باعث ہےانبیا اور اولیائے الٰہی، اپنی دعاؤں اور مناجات میں بھی اور اپنے عمل کے ذریعے بھی صالح اولاد کے حصول کے طالب ہوتے ہیں اور اپنے بچے کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے سلسلے میں کسی تعمیری عامل کو نظر انداز نہیں کرتے۔

اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:

جب تم شادی کا ارادہ کرو، تو دو رکعت نماز پڑھو اور حمدوسپاس الٰہی کے بعد دعا کرو اور دعا میں کہو کہ:۔ ۔ اور میرے لیے اس بیوی سے ایسا طیب اور پاک فرزند نصیب فرما جو میری زندگی میں اور میری موت کے بعد میرا صالح جانشین ثابت ہو(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۷۹)

۱۵۲

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا:

خدا کی قسم! میں نے بارگاہِ الٰہی میں خوبصورت اور خوش اندام اولاد کی درخواست نہیں کی تھیبلکہ پروردگار سے التماس کی تھی کہ مجھے اﷲ کی مطیع وفرمانبردار اور خوفِ خدا رکھنے والی اولاد عطا فرمااور جب کبھی میں اسے دیکھوں، اور اسے خدا کا اطاعت گزار پاؤں، تو یہ دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو(مناقب ِابن شہر آشوبج۳ص۳۸۰)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انّ الولدَ الصّالح ریْحانةٌ مِنْ ریاحینِ الجَنَّةِ

بے شک صالح اولاد جنت کے خوشبودار پھولوں میں سے ایک پھول ہےفروعِ کافی ج۶ص۳

بحار الانوار کے مولف علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کے والد ِگرامی، عالمِ بزرگوار مرحوم ملّا محمد تقی مجلسی کے حالات ِزندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک رات نمازِ شب کے بعد مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اگر میں اس موقع پر خدا سے کوئی دعا مانگوں تو وہ دعا قبول ہوگیمیں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا درخواست کروں کہ اچانک میرے بیٹے محمد باقر کی آواز بلند ہوئی، جو اس وقت اپنے جھولے میں تھامیں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ: بار الٰہا! بحقِ محمد وآلِ محمد! اس بچے کو مروجِ دین اور سید الانبیا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والا قرار دےاور اسے بھرپور توفیقات عنایت فرما(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

یہی دعا اس بات کا باعث ہوئی کہ خداوند ِعالم نے ملّا باقر مجلسی کو توفیق کے تمام اسباب فراہم کیےیہاں تک کہ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کا کمال روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا اور انہوں نے اپنے بیان اور قلم کے ذریعے اسلام اور دینی احکام کی نشر واشاعت کی بھرپور توفیقات حاصل کیں اور بکثرت گرانقدر آثار اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے، جن میں سے ایک اثر، ایک سو دس جلدوں پر مشتمل بحار الانوار ہے۔

۱۵۳

معروف محدث حاجی نوری علیہ الرحمہ کے بقول، علامہ مجلسی کا مقام اور ترویجِ اسلام میں ان کی توفیق اس درجے پر پہنچی کہ عبد العزیز دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ میں لکھا ہے کہ: اگر مذہب ِ شیعہ کا نام مذہب ِمجلسی رکھا جائے تو بجا ہےکیونکہ اس مذہب کو رونق اور فروغ علامہ مجلسی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

نتیجہ یہ کہ بڑے لوگ صالح اولاد کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اسے اپنی زندگی کے سر فہرست مسئلے کے طور پر توجہ کا مرکز قرار دیتے تھے۔

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا

بے شک مقامِ امامت اعلیٰ ترین مقام ہے، جسے اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہےزیر بحث آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عباد الرحمٰن (یعنی خدا کے ممتاز بندے) وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ تقویٰ اور جہد ِ مسلسل کے ذریعے محترم ترین مقام تک رسائی حاصل کریں اور لوگوں کے پیشوا اور قائد بن جائیں۔

واضح ہے کہ اس مقام کا حصول تہذیب ِنفس کے مراحل طے کرنے اور معنوی کمالات کسب کرنے سے وابستہ ہےجیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کڑی آزمائشوں اور عالی درجات طے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے اور خداوند ِعالم نے ان سے فرمایا:…اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۲۴)

یہ دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خدا کے ممتاز بندوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ایسا بنائیں اور ایسے بلند عزائم رکھیں کہ لوگوں کے رہبر اور رہنما بن سکیں اور لوگ ان کے وجود سے پھوٹنے والی روشنی سے استفادہ کریں اور ان کے فیوضات لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر صراطِ مستقیم اور روشنی کی جانب لے آئیںاور وہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اگر وہ کوشش کریں تو تقویٰ اور عملِ صالح کے سائے میں عالی درجات حاصل کرسکتے ہیں۔

۱۵۴

یہ دعا، تمنا اور خواہش وہی ہے جو تمام انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی رکھتے تھےجیسے کہ اسی جیسی بات امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق میں آئی ہے، جہاں آپ نے خداوند عزوجل سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ:وَاجْعَلْنِی مِن اَهْلِ السِّدادِ وَمِنْ اَدِلَّةِ الرَّشادِ (اور مجھے درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں میں سے قرار دےمفاتیح الجناندعائے مکارم الاخلاق)

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا

قرآنِ مجید، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد روزِ قیامت ان بندوں کی ظاہری اور باطنی جزااور اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:

اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا خٰلِدِيْنَ فِيْهَاحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے اونچے اونچے محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام پیش کیے جائیں گےوہ انہی مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین جائے قیام ہےسورئہ فرقان۲۵آیات ۷۵ تا۷۶

ان آیات میں عبا دالرحمن کو ملنے والی جزا وپاداش کو بیان کیا گیا ہے، جو انتہائی عظیم الشان اور خصوصی امتیازات کے ہمراہ ہوگیان آیات کا تقاضا ہے کہ اس گفتگو میں، ان چار موضوعات، یعنی جزا وپاداش، عباد الرحمٰن کی مخصوص جزا، تعمیر کردار میں صبر واستقامت کی اہمیت اور خلود اور ہمیشگی وجاویدانی کے موضوع کا جائزہ لیا جائے۔

صبر کی اہمیت پر گفتگو کو ہم آئندہ نشست کے لیے چھوڑتے ہیںیہاں آپ کی توجہ دوسرے تین موضوعات کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

۱۵۵

جزاو پاداش

جزاو پاداش، بالفاظِ دیگر جزا اور مکافات ِعمل کا مسئلہ خداوند ِعالم کے قطعی تکوینی اور تشریعی قوانین میں سے ہے، جو اچھے یا برے عمل کی مناسبت سے ان اعمال کو انجام دینے والے پر دنیا اور آخرت میں مختلف شکلوں میں اثر انداز ہوتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اس بارے میں بکثرت آیات موجودہیں، یہ یقینی امور میں سے ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں۔

اگر ہم قرآنِ مجید میں مختلف انداز سے سیکڑوں بار استعمال ہونے والے لفظ ” جزا“ کا جائزہ لیں، تو بخوبی اس بات کا علم حاصل کریں گے کہ دنیاوی اور اُخروی جزا کا مسئلہ قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے مسلمہ امور میں سے ہے اور خداوند ِعالم نے انتہائی زور دے کر اس کا تذکرہ کیا ہے، تاکہ پیروانِ قرآن اس قطعی قانون کو کسی صورت فراموش نہ کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں۔

مثال کے طور پر اگر ہم قرآنِ کریم کی سورئہ نبا کا مطالعہ کریں، تو وہاں دیکھیں گے کہ اس سورے کی آیت ۲۱ سے لے کر ۳۰ تک میں، نہایت واضح الفاظ کے ساتھ اہلِ جہنم کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےاور آیت نمبر ۳۱ سے ۳۶ تک میں اہلِ جنت کی جزا وپاداش کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اسی سورے کی آیت ۲۶ میں فرمان الٰہی ہے:جَزَاءً وِّفَاقًا (یہ اُن کے اعمال کے موافق ومناسب بدلہ ہے)اسی سورے کی آیت ۳۶ میں خدا فرماتا ہے:جَزَاءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حساب کی ہوئی عطا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا ہے) لہٰذا انسان جو کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ خداوند ِعالم کے دقیق اور ٹھیک ٹھیک حساب میں ثبت اور درج ہوجاتا ہے اور تمام اچھے برے اعمال کے مقابل مناسب جزا یا سزا مقرر ہے۔

۱۵۶

جزا وسزاکا مسئلہ صرف آخرت سے مخصوص نہیں ہےبلکہ اس کا کچھ حصہ اسی دنیا میں بھی وجود رکھتا ہے اور انسان کے اعمال کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انسان کو اسی دنیا میں نصیب ہوجاتا ہے۔(۱)

اس بارے میں روایات بھی بے حساب ہیں، مثال کے طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:کُلٌّ امْرءٍ یُلْقیٰ مٰا عَمِلَ وَیُجْزیٰ بِمٰاصَنَعَ (ہر انسان اپنے عمل کا سامنا کرتا ہے، اور جو کچھ وہ انجام دیتا ہے، اسکی بنیاد پر اسے جزا وسزا دی جاتی ہے) نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے:کَما تدینُ تدان (جیسا کرو گے ویسا بھرو گےغرر الحکم ج۳ص۵۷۱)

لِکُلّ حسنةٍ ثوابٌ (ہر نیکی کا ثواب ہے)لِکُلّ سیّئةٍ عقاب (ہر بدی کا عقاب ہےغرر الحکم ج۳ص۵۷۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَما انّه لیسَ مِنْ عرْقٍ یضربُ، ولانکبةٍ، ولاصُداعٍ، ولا مرضٍ الاّبذنبٍ

جو بھی رگ (اور کوئی نبض) زخمی ہوتی ہے، پاؤں پتھر سے ٹکراتا ہے، دردِ سر اور مرض لاحق ہوتا ہے، اسکی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان نے کوئی گناہ کیا ہوتا ہے۔(۲)

--------------

۱:- سورئہ نجم ۵۳ کی آیت ۳۱، سورئہ طہ ۲۰ کی آیت ۱۵ اس بارے میں واضح دلالت کرتی ہیں۔

۲:- اصول کافی ج۲ص ۲۶۹، اسی کتاب کے صفحہ ۲۶۸ سے ۲۷۶ تک ” باب الذنوب“ کے عنوان کے تحت تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں، جو مکافات عمل کو بیان کرتی ہیں۔

۱۵۷

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب

کیونکہ عباد الرحمٰن، خدا کے ممتاز اور خاص بندے، اپنی بارہ خصوصیات کی وجہ سے مومنین کی صف ِاوّل میںہوتے ہیں، لہٰذا خداوند ِعالم ان کی جزا اور ثواب کی مناسبت سے انہیں جنت کے بلند اور عالی ترین درجے میں جگہ دیتا ہےیہ وہ درجہ ہے جو اہم ترین امتیازات کا حامل ہے۔

پہلے خداوند ِعالم فرماتا ہے کہ: غرفہ بہشت ان کے اختیار میں ہوگاغرفہ کے معنی گھروں کا بلند ترین طبقہ ہے اور یہاں بے مثل اور انتہائی گراں قیمت محل کا کنایہ ہے، جو جنت کے دوسرے حصوں سے انتہائی بلند مقام کا حامل ہےجیساکہ مذکورہ آیت سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ یہ عظیم الشان محل تین انتہائی اہم خصوصیات رکھتا ہے۔

۱:- عباد الرحمٰن کا وہاں ہمیشہ خاص احترام کیا جائے گا، اور وہ خدا، فرشتوں اور اہلِ جنت کے تحیت وسلام سے بہرہ مند ہوں گےہمیشہ بلند مقامات انہیں سلامتی اور ہر قسم کی ظاہری وباطنی رفاہ وآسائش کے ساتھ پاک وپاکیزہ زندگی کی بشارت دیں گے۔

۲:- وہ ایک ایسے ٹھکانے میں ہوں گے جو انتہائی خوبصورت، ہرا بھرا، پاک وپاکیزہ اور ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور غموں سے دور ہوگا۔

۳:- یہ لوگ ہمیشہ وہاں رہیں گےوہاں فنا، موت اور نابودی کا سوال ہی نہ ہوگا اور انہیں اس عالی شان جگہ سے نکالے جانے کا کوئی دھڑکا اور اندیشہ نہیں ہوگا۔

۱۵۸

سچی بات ہے، اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی کہ انسان ایک ایسے محل میں رہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور وہ اس محل میں زندگی کی تمام نعمتوں، خوبصورتیوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اسے وہاں فنا اور دوسری غم انگیز باتوں کی طرف سے کوئی تشویش نہ ہو۔

ان جزائوںمیںسب سے بڑی جزا، ان پر خدااور اسکے فرشتوںکا مسلسل تحیت و سلام ہےجس کی لذت ولطف قابلِ بیان اورقابلِ ادراک نہیں۔ امتیازی مقام کے حا مل اہلِ جنت پر خدا اور فرشتوں کے سلام کے بارے میں قرآن کی ایک اور آیت میںذکر ہواہے کہ:

سَلٰمٌ، قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ

ان کے حق میں ان کے مہربان پروردگارکا قول صرف سلامتی ہوگا۔ سورہ یٰسین۳۶۔ آیت۵۸

اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ:

وَالْمَلٰىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ

اور ملائکہ ہر دروازے سے ان کے پاس حا ضری دیں گےکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔ سورہ رعد ۱۳آیت۲۳، ۲۴

۱۵۹

خلودوجاویدانگی کی اہمیت

معاد اور جنت و دوزخ کی گفتگو میں ایک مسئلہ خلود اور جاویدانگی کا مسئلہ ہےیعنی دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لیے اور نا قابلِ زوال ہےاسی طرح جیسے بہشت کی نعمتیں بھی دائمی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔

قرآنِ کریم کی متعددآیات میں خلود کے مسئلے پربات ہوئی ہے، اور اس کی وضاحت اس قدر قطعی ہے کہ اسکی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔

خلود کے معنی ایسی بقا اور دوام ہے جس میں زوال اور نا بودی کی گنجائش نہ ہو۔ ــ ” لسانِ العرب“ نامی عربی لعنت میں ” خلد“ کے معنی ایسے ٹھکانے اور سرائے میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا بیان ہوئے ہیں جس سے انسان کو باہر نہیںنکالا جائے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر آخرت کو ” دارالخلد“ کہتےہیںکہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی معنی دوسری عربی لغتوں ” مقاییس اللغۃ“ اور ” صحاح اللغۃ“ میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔

اگرچہ بعض مفسرین نے خلود کے معنی کی تو جیہات کی ہیں، مثلاً اسے طولانی وغیرہ کہاہے اور اسکے بارے میں مختلف احتمالات کا اظہار کیا ہے لیکن قرآنی آیات کی وضاحت وصراحت کے سامنے یہ توجیہات واحتمالات قابلِ قبول نہیں، اور علمائے اسلام اور چوٹی کے مفسرین نے انہیں مسترد کیا ہے۔

خلود کے معنی جاویدانگی ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اور دوسری تعبیریں بھی موجود ہیں، جواس قسم کی توجیہات واحتمالات کے قابل نہیں، اور جاویدانگی پرصراحت کی حامل ہیں، مثلاًایک مقام پر ہے:وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَه فَاِنَّ لَه نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا (اور جو اﷲاور رسول کی نافرمانی کرے گااسکے لیے جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والا ہے۔ سورئہ جن ۷۲۔ آیت۲۳)

۱۶۰

 یا ایک اور جگہ پر ہے کہ:وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (اور ان میں سے کوئی آتشِ دوزخ سے نہیں نکلے گا۔ سورہ بقرہ۲آیت۱۶۷)ایک اور مقام پر ہے:اُكُلُهَا دَاىِٕمٌ وَّظِلُّهَا (اور جنت کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا۔ سورئہ رعد۱۳۔ آیت۳۵)

اہلِ دوزخ کے خلود کے بارے میں ایک اہم اعتراض اٹھایاگیا ہےلہٰذا یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ دائمی عذاب عدالت کے بر خلاف ہو سکتا ہے اور چند سال کے گناہوں سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ اپنے مقام پر اس اعتراض کا جواب دیا جا چکا ہے۔(۱)

لیکن بہشت اور ہمیشہ جاری خدا کی نعمتوں کے بارے میں خداوند ِعالم کے بے پایاں فضل و کرم کی بنا پر کسی قسم کااعتراض و اشکال نہیں اٹھایا جاسکتا، وہ خداجس کی رحمت پورے عالم پر چھائی ہوئی ہے بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے، اس کا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنا اور بے پایاں لطف وکرم کا برتائو کرنا کسی صورت باعث ِ تعجب نہیں۔

لہٰذا اپنے ممتاز اور پیارے بندوں پر خدا کے مسلسل اور دائمی فضل وکرم کے حوالے سے کوئی عقلی رکاوٹ حائل نہیں، یہ شرع کے لحاظ سے ثابت ہے، اور آیاتِ قرآنی(جن میں زیر بحث آیت بھی شامل ہے )کی رو سے مسلمات میں سے ہے۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ بعض آیت ِقرآنی میں دنیا اورآخرت کی جزاوپاداش کے مابین فرق رکھا گیا ہےمثلاً ایک جگہ ہے کہ:فَاٰتٰىهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ (تو خدا نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی عطا کیاسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۸)

--------------

۱:- اس بارے میں تفسیر موضوعی قرآن ” پیامِ قرآن“ کی۔ ج۶۔ ص ۵۰۰، ۵۰۱ کا مطالعہ فرمایئے۔

۱۶۱

جزا و ثواب اچھی چیزہے، خواہ وہ دنیاکی ہوخواہ آخرت کی لیکن اسکے باوجود مذکورہ آیت میں صرف آخرت کی جزا کو نیک اور احسن بتایا گیا ہے، اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی جزا میں فرق ہے۔ کیونکہ دنیا کی جزا جو کچھ بھی اور کتنی ہی کیوں نہ ہو، آخرکا ر اُسے فنااور زوال کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ نیز دوسری مشکلات جو دنیا کی زندگی کی خاصیت ہیں، اسکے ہمراہ

ہوں گی، جبکہ آخرت کی جزا، اور وہاں ملنے والا بدلا، دائمی، ہمیشہ رہنے والا اور مشکلات سے خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ اسلام نے اپنے کلمات میں بار ہا اس نکتے کاذکر کیا ہےایک خطبے میں فرمایا ہے:

فامّا اهلُ الطاعةِ، فاتابَهُم بجوارهِ، وخلّدَ همْ فی داره، حیثُ لا یظعنُ النزال، ولا تتغیّرُ بهمُ الحالُ، ولا تنوبُهُم الافزاعُ، ولا تنالُهُم الا سقام، ولا تعرِضُ لهم الاخطار، ولا تشخصهم الاسفار

جوفرما نبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اسکے جو ارِرحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہرادے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اورنہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اورنہ انہیںسفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتے ہیں نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۰۷

وضاحت کے طورپر عرض ہے کہ خلود اور جاوید انگی کا مسئلہ کوئی سادہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، جو انسانوں کے لیے ایک عظیم انتباہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی جگہ ایک کا عدد تحریرکریں اوراسکے پہلو میں بے انتہا دور تک صفر لگاتے چلے جائیں اور ان اَن گنت اعداد کے زریعے خلود کی انتہامعلوم کرنا چاہیں، تب بھی معلوم نہ کر سکیںگے۔

لہٰذا وہ مجرمین جن سے خدا نے دائمی آتشِ جہنم کا وعدہ کیا ہے انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں رہنا ہےاور ان کے مقابل ممتاز پاکیزہ بندگانِ خدا، جیسے ” عباد الرحمٰن“ جنہیں خدا عظیم دائمی جزا سے نوازے گا، انہیں یہ بات ذہن سے نکالنی چاہیے کہ انہیں ایسی دائمی جزا سے نوازا جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی۔

۱۶۲

لہٰذا کیا یہ بات مناسب ہوگی کہ انسان دنیا کی چار روزہ زندگی سے دل لگا کر دائمی عذاب کا مستحق ہوجائے اور دائمی جزا وپاداش سے محروم رہے؟

کیا اس صورت میں ” نقد کو پکڑو، ادھار کو چھوڑو“ والی بات کوئی اہمیت رکھتی ہے جب انسان سستی چیز کو اس کے نقد ہونے کی وجہ سے منتخب کرکے اس کے مقابل بعد میں ملنے والے کروڑوں ٹن سونے کو چھوڑ دے؟

ایک دانشور کے بقول، بالفرضِ محال اگر آخرت کے امور احتمالی ہوں، اور دنیا کے امور یقینی، تب بھی عقلمند انسان احتمال کی کروڑوں صدیوں کو یقین کے چند سال پر فدا نہیں کرے گاجبکہ ہم مسلمان معاد اور آخرت پر عقیدہ رکھتے ہیںلہٰذا ہمیں فنا ہوجانے والے اور چند روزہ نقد کے مقابل ہمیشہ اور جاویداں ادھار کا انتخاب کرنا چاہیےاسی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تھا:

والعَجبُ کلّ العَجب للمصدّقِ بدارِا لخلُود، وهوَ یعملُ لدارِ الغُرور

انتہائی تعجب ہے ایسے شخص پر جو آخرت کے ہمیشہ رہنے والے ٹھکانے کی تصدیق کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس فریب اور فانی دنیا سے وابستگی اختیار کرتا ہےبحار الانوارج۷۸۔ ص۱۸۴

نیز فرمایا:

فَلا تعدّن عیشاً منصرفاً، مالَکَ منهُ الاّ لذَّةُ تزدلف بکَ الیٰ حمامِکَ

فانی اور ناپائیدار زندگی کو زندگی نہ سمجھوتم نے کیوں دنیائے فانی سے (جو مجازی ہے اور) جس میں معمولی سی لذت کے سوا کچھ نہیں دل لگایا ہے، جبکہ یہ دنیا تمہیں موت سے نزدیک کررہی ہےبحار الانوارج۷۸ص۱۷۹

یعنی اس سو سالہ دنیا کی لذت وعیش ونشاط میں غرق ہونا اس وقت کیا فائدہ دے گا جبکہ اس کے نتیجے میں خدا کے دائمی عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گاکیا اس طرح کے نقد کی لذت اس قدر اہم ہے کہ اس کی خاطر آخرت کی ہمیشگی اور دائمی لذت کو قربان کردیا جائے؟

۱۶۳

تجزیہ اور تحلیل

بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ” صبر“ کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اور ہر قسم کے دباؤ اور سختی کو برداشت کرنا نہیں ہےاس قسم کے معنی سے عاجزی اور تظلم (یعنی ظلم کو قبول کرنا) جھلکتا ہے، جس سے اسلام سختی کے ساتھ روکتا ہےبلکہ صبر کے اصل معنی امور کی انجام دہی کے لیے مضبوط عزم وارادے اور مسلسل اور لازوال ثابت قدمی کے ساتھ کام کو جاری رکھنا ہے۔

” مجمع بحرین“ نامی لغت میں صبر کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:الصَّبْرُ کَفُّ النَّفس عَنْ هَواها (صبر یعنی نفس کا نفسانی خواہشات سے پرہیز کرنا، یعنی نفسِ امارہ کے طاغوت کے خلاف جنگ کرنااور ” المنجد“ نامی لغت میں ہے کہ:صَبراً عَلَی الامْر: جَرءَ وشَجَعَ وتَجلّدَ (کسی چیز پر صبر کے معنی ہیں اس کے بارے میں جرات، شجاعت، ثابت قدمی اور شکست کو قبول نہ کرنا)

یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے آیات ِقرآنی میں صبرو استقامت کو مجاہدین راہِ خدا کے لیے ایک بڑی شرط قرار دیا ہے:

اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اگر اُن میں سے بیس افراد صابر ہوئے، تو وہ دو سو افراد پر غالب آجائیں گے اور اگر سو افراد ہوئے، تو وہ ایک ہزار افراد پر غلبہ حاصل کرلیں گےسورئہ انفال۸آیت۶۵

یعنی ایک صابر انسان دشمن کے دس افراد کو زیر کرسکتا ہےاگر صبر کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہوں تو ایسا صبر کبھی انسان کو یہ قوت فراہم نہیں کرتا کہ وہ دس افراد کے مقابل کھڑا ہوکر انہیں شکست دیدے۔

۱۶۴

اسی طرح قرآنِ کریم میں صبر کو ضعف وکمزوری کے مقابل قرار دیا گیا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ صبر کے معنی استقامت اور پیہم جدوجہد ہے، جو ضعف وسستی کی ضد ہےلہٰذا خداوند ِعالم فرماتا ہے:

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ مَعَه رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا وَاللهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ

اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ہم رکاب ہوکر مردانِ الٰہی کے جمع کثیر نے اس انداز سے جنگ کی ہے کہ یہ لوگ راہِ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا اظہار کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاہرہ کیا اور اﷲ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے والوں ہی کو پسند کرتا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۶

قرآن کریم میں دو سو سے زائد مرتبہ مسئلہ صبر کو مختلف الفاظ اور بعض اوقات لفظ ” استقامت“ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے(۱) اور اس کے نتائج کا ذکر کیاگیا ہےاس نکتے سے صبر واستقامت کی انتہائی بلند اہمیت کا اظہار ہوتا ہےان آیات کے ذریعے مجموعی طور پر یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ صبر واستقامت کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں اس کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی  ہے کہ خداوند ِعالم فرماتا ہے:اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (بس صبر کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہیں بے حساب اجر دیا جاتا ہےسورئہ زمر۳۹آیت۱۰)

--------------

1:-معجم المفہرس لالفظ القرآن الکریم، لفظ ” صبر“ اور ’قوم“ کے ضمن میں ملاحظہ فرمایئے۔

۱۶۵

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الصَّبْرُ خَیْرُ مَرْ کَبٍ مٰا رَزَقَ اللّٰهُ عبْداً خَیْراً لَهُ وَلٰا أَ وْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ

صبر بہترین سواری ہےخداوند ِعالم نے اپنے کسی بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر روزی عطا نہیں کی ہےبحار الانوارج۸۲ص۱۳۹

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو کے ضمن میں فرمایا ہے:

عَلَیْکُمْ بِالصَّبْرِ، فانَّ الصَّبْرَ مِنَ الایمانِ کَالرّاسِ مِن الْجَسَدِ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لو، کیونکہ صبر کو ایمان سے ویسی ہی نسبت حاصل ہے جیسی نسبت سر کو بدن سے ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۸۲

ان عبارتوں سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی تعمیر، تکمیل اور اسے پاک وپاکیزہ بنانے میں صبر واستقامت انتہائی اہم کردار کا حامل ہےاور اسکے بغیر انسان ہر گز کمال حاصل نہیں کرسکتا اور آلودگیوں سے نجات نہیں پاسکتامولانا جلال الدین رومی کے بقول:

صد ہزار کیمیا حق آفرید

کمیائی ہمچو صبر آدم نہ دید

(خدا نے لاکھوں کیمیا پیدا کیے ہیں، لیکن صبر کی طرح کا کوئی کیمیا انسان نے نہیں دیکھا)

۱۶۶

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق

متعدد روایات میں ہے، اور خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:

صَبْرٌ عندَ المُصیبَةِ، وَصَبْرٌ الطّاعةِ، وَصَبْرٌ عَلَی الْمَعصیةِ

صبر کی تین قسمیں ہیں: مصیبت کے موقع پر صبر، اطاعت کی راہ میں صبر اور گناہ کے مقابل صبر

یہی حدیث حضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے، اور اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ:

گناہ کے مقابل صبر، ان دو پہلی قسموں کی نسبت زیادہ بلند درجہ رکھتا ہے(اصولِ کافی ج۲ص۱۹۱، میزان الحکم ۃج۵ص۲۶۷)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے کہ:

الصَّبْرُ صَبْرانِ، صَبْرٌ عِنْدَالْمُصیبَةِ، حَسَنٌ جَمیلٌ، وأَحْسنُ مِنْ ذلکَ الصَّبرُ عِنْدَ ماحَرَّمَ اللّٰهُ عَزَّوجلّ عَلَیکَ

صبر دو طرح کا ہے: مصائب ومشکلات کے سامنے صبر، کہ یہ صبر خوبصورت اور عمدہ ہے اور اس صبر سے زیادہ عمدہ ان امور کے مقابل صبر ہے جنہیں خداوند ِعالم نے حرام قرار دیا ہےاصولِ کافی ج۲ص۹۰

ان دو احادیث کی رو سے صبر واستقامت کی وہی تین جڑیں اور بنیادیں ہیں۔

جب ہم خدا کے نزدیک امتیازی مقام رکھنے والے بندوں کی ان بارہ خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان پر گہرا غور وفکر کرتے ہیں، تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خصوصیت صبر واستقامت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، اور ان بارہ خصوصیات کے حصول کے لیے صبرو استقامت کی مدد لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کیونکہ جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے، ان میں سے چار خصوصیات منفی پہلو کی حامل ہیں

۱۶۷

 اور ان کے خلاف جنگ کی ضرورت ہوتی ہےیہ خصوصیات صرف گناہ کے مقابل صبر کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہیںجبکہ چھے خصوصیات مثبت پہلو رکھتی ہیں، جو راہِ اطاعت میں صبر کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ تمام پہلوؤں میں، بالخصوص گناہ سے مقابلے اور اطاعت کی راہ میں صبر کو اپنی روح ورواں میں جگہ دیں تاکہ یہ بارہ خصوصیات حاصل کرسکیں۔

جی ہاں، صبر واستقامت بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے اور اسکے بغیر انسان کسی صورت اعلیٰ انسانی اقدار تک نہیں پہنچ سکتااسی وجہ سے (جیساکہ ہم نے کہا) قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کے ذریعے دو سو سے زائد مرتبہ مسلمانوں کو صبر واستقامت کی دعوت دی ہے اور انہیں صبر کی عظیم طاقت سے مدد لینے کی تلقین کی ہےقرآنِ کریم ایک مقام پر واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ:

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ

صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگوبیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےسورئہ بقرہ۲آیت۱۵۳

فرامینِ معصومین میں صبر کے اثرات اور اس کا کردار

صبر اور اس کے بہترین اثرات کی زیادہ سے زیادہ اہمیت جاننے کے لیے اور اس بات سے واقف ہونے کے لیے فضائل سے آراستہ ہونے، رذائل سے پیراستہ ہونے اور زندگی کے مختلف مسائل میں سدھار اور سنوار پیدا کرنے کے سلسلے میں صبر ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے، آئیے آپ کو پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کچھ فرامین کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الصّبرُ کَنْزٌ مِنْ کُنوزِ الجنّةِ

صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہےالمحجۃ البیضاج۷ص۱۰۷

۱۶۸

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

الصَّبرُ مَطیَّةٌ لٰا تَکْبو

صبر ایسی سواری ہے جو کسی صورت زمین پر نہیں گرتی بحار الانوارج۶۸ص۹۶

حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

الصّبرُ عَوْنٌ عَلٰی کُلّ المْرً

صبر تمام امور میں انسان کا یاورومددگار ہوتا ہےغرر الحکم

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

عَلیکُم بالصَّبْرِ فانَّهُ لا دینَ لِمَنْ لٰا صَبْرَلَهُ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لوایسا شخص جس میں صبر واستقامت نہ ہو، اس کا دین نہیں بحار الانوارج۷۱ص۹۲

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

کَمْ مِنْ صَبْرِ ساعةٍ قَدْ اوْرَ ثَتْ فَرَحاً طَویلاً

بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ساعت کا صبر طویل خوشیوں کا باعث بن جاتا ہےبحار الانوارج۷۱ص۹۱

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے پرہیز گاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

صَبَرواایّاماً قَصیرَةً اعْققَبَهُمْ راحَةً طَویلةً

ان لوگوں نے دنیا کے چند دنوں میں صبر کیا اور اسکے نتیجے میں آخرت میں طولانی آسائشیں حاصل کیں نہج البلاغہ خطبہ۱۹۳

۱۶۹

امام علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے:

عَلامةُ الصّابرِ فی ثلاثٍ: اوّلُها ان لا یَکسِلَ، والثانیةُ انْ لا یَضْجِرَ، والثّالَثَةُ انْ لا یشْکُر مِنْ رَبّهِ عَزَّوجَلّ

صبر کرنے والوں کی تین نشانیاں ہیں: (۱) اپنے آپ سے بے حوصلگی کو دور کرنا(۲) بے قراری اور دل تنگی سے دوری(۳) خداوند ِعالم سے گلہ نہ کرنا بحار الانوارج۷۱ص۸۶

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے کہ:

مِفتاحُ الظَّفرِ لُزُومُ الصَّبْر

صبر وشکیبائی کامیابی کی کنجی ہے غرر الحکم  حدیث ۹۸۰۹

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

قِلَّةُ الصَّبْرِ فَضیحَةٌ

صبر کی کمی رسوائی کا باعث بنتی ہےبحار الانوارج۷۸ص۶۶۹

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: جب انسان کو قبر میں رکھتے ہیں تو اس کے دائیں طرف نماز، اسکے بائیں طرف زکات اور اسکے سر کی جانب نیکیاں کھڑی ہوجاتی ہیں اور ایک طرف ان سے ذرا دور صبر کھڑا ہوجاتا ہےاس موقع پر جب سوال کرنے والے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو صبر (جو نورانی صورت لیے ہوتا ہے) نماز، زکات اور نیکیوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ:دُونَکُمْ صَاحبَکُمْ فانْ عَجَزتُم عَنْهُ فَاَنادوُنَهُ (اپنے صاحب کی طرف سے ہوشیار رہو، اگر اسے عذاب سے محفوظ رکھنے میں ناکام ہو، تو میں اسکی حفاظت کے لیے حاضر ہوں(اصولِ کافی  ج۲ص۹۰)

۱۷۰

یہ احادیث انسان کی مادّی، معنوی، دنیاوی اور اُخروی کامیابیوں میں صبرو استقامت کے کردار کی نشاندہی کرتی ہیں اور زبانِ قال وحال سے کہتی ہیں کہ:

صبر و ظفر ہر دو دوستانِ قدیمیند

بر اثر صبر نو بتِ ظفر آید

(صبر وظفر دونوں قدیمی دوست ہیں، صبر کے اثر سے ظفر کی نوبت آتی ہے)۔

۱۷۱

فہرست

عرض ناشر 2

تواضع و انکسا ری. 3

پہلی خصوصیت: تواضع و انکساری. 4

خدا کے مقابل تواضع و انکساری. 5

لوگوں کا آپس میں انکساری سے پیش آنا 8

رسولِ کریم ؐکی انکساری کی ایک جھلک. 10

حضرت علیؑ کی تواضع اور انکساری کی ایک جھلک. 12

مثبت اور منفی انکساری. 14

حلم اور ضبط ِنفس. 16

قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم 18

۱۷۲

قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت. 22

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت. 24

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات. 30

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت. 32

عبادت اور اس کا فلسفہ 33

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت. 39

خوف وخشیت ِالٰہی 44

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب. 47

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت. 50

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی. 52

انفاق اور خرچ میں اعتدال. 56

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت. 57

۱۷۳

امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا 62

گھرانے کی معاشی ضروریات میں سخت گیری سے پرہیز 64

ہر طرح کے شرک سے پرہیز 67

قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں. 69

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو 74

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی 78

انسانی قتل اور ایذارسانی سے اجتناب. 80

انسان کے قاتلوں کے لیے قصاص اوردیت کی شدید سزائیں. 82

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ ؑکے اقوال میں انسانی قتل کا گناہ 88

انسانی قتل میں تعاون کا گناہ 91

ناجائز صنفی تعلقات سے سخت اجتناب. 94

جنسی آلودگی سے پرہیز اور محفوظ رہنے کے راستے 97

۱۷۴

بے عفتی کے خلاف پیغمبر اسلام کا شدید موقف.. 102

گناہ کی محفلوں میں شرکت سے پرہیز 103

جھوٹی گواہی سے پرہیز 105

بیہودہ محفلوں میں شرکت سے پرہیز 109

نتیجہ اور خلاصہ 111

فضول کاموں اور وقت کے زیاں کی مخالفت. 113

قرآن وحدیث کی نگاہ میں لغو سے اجتناب. 114

وقت کی پہچان اور اسکی قدر 118

وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج 121

قرآنِ کریم سے درست استفادہ 126

قرآن مجید میں غوروفکر اور اس پر عمل حضرت علی ؑکی نظر میں. 130

قرآن کریم سے صحیح استفادے کی چند مثالیں. 133

۱۷۵

دعا اور اُس کے مضامین پر توجہ 139

اسلام میں دعا کی اہمیت. 140

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق. 142

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب. 145

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔ 149

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں. 150

اچھی بیوی اور اس کے اثرات. 150

صالح اولاد 152

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا 154

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا 155

جزاو پاداش. 156

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب. 158

۱۷۶

خلودوجاویدانگی کی اہمیت. 160

تجزیہ اور تحلیل. 164

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق. 167

فرامینِ معصومین میں صبر کے اثرات اور اس کا کردار 168

۱۷۷