عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف0%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمدمحمدی اشتہاردی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 177
مشاہدے: 82486
ڈاؤنلوڈ: 4268

تبصرے:

عباد الرحمٰن کے اوصاف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82486 / ڈاؤنلوڈ: 4268
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 یا ایک اور جگہ پر ہے کہ:وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (اور ان میں سے کوئی آتشِ دوزخ سے نہیں نکلے گا۔ سورہ بقرہ۲آیت۱۶۷)ایک اور مقام پر ہے:اُكُلُهَا دَاىِٕمٌ وَّظِلُّهَا (اور جنت کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا۔ سورئہ رعد۱۳۔ آیت۳۵)

اہلِ دوزخ کے خلود کے بارے میں ایک اہم اعتراض اٹھایاگیا ہےلہٰذا یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ دائمی عذاب عدالت کے بر خلاف ہو سکتا ہے اور چند سال کے گناہوں سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ اپنے مقام پر اس اعتراض کا جواب دیا جا چکا ہے۔(۱)

لیکن بہشت اور ہمیشہ جاری خدا کی نعمتوں کے بارے میں خداوند ِعالم کے بے پایاں فضل و کرم کی بنا پر کسی قسم کااعتراض و اشکال نہیں اٹھایا جاسکتا، وہ خداجس کی رحمت پورے عالم پر چھائی ہوئی ہے بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے، اس کا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنا اور بے پایاں لطف وکرم کا برتائو کرنا کسی صورت باعث ِ تعجب نہیں۔

لہٰذا اپنے ممتاز اور پیارے بندوں پر خدا کے مسلسل اور دائمی فضل وکرم کے حوالے سے کوئی عقلی رکاوٹ حائل نہیں، یہ شرع کے لحاظ سے ثابت ہے، اور آیاتِ قرآنی(جن میں زیر بحث آیت بھی شامل ہے )کی رو سے مسلمات میں سے ہے۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ بعض آیت ِقرآنی میں دنیا اورآخرت کی جزاوپاداش کے مابین فرق رکھا گیا ہےمثلاً ایک جگہ ہے کہ:فَاٰتٰىهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ (تو خدا نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی عطا کیاسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۸)

--------------

۱:- اس بارے میں تفسیر موضوعی قرآن ” پیامِ قرآن“ کی۔ ج۶۔ ص ۵۰۰، ۵۰۱ کا مطالعہ فرمایئے۔

۱۶۱

جزا و ثواب اچھی چیزہے، خواہ وہ دنیاکی ہوخواہ آخرت کی لیکن اسکے باوجود مذکورہ آیت میں صرف آخرت کی جزا کو نیک اور احسن بتایا گیا ہے، اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی جزا میں فرق ہے۔ کیونکہ دنیا کی جزا جو کچھ بھی اور کتنی ہی کیوں نہ ہو، آخرکا ر اُسے فنااور زوال کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ نیز دوسری مشکلات جو دنیا کی زندگی کی خاصیت ہیں، اسکے ہمراہ

ہوں گی، جبکہ آخرت کی جزا، اور وہاں ملنے والا بدلا، دائمی، ہمیشہ رہنے والا اور مشکلات سے خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ اسلام نے اپنے کلمات میں بار ہا اس نکتے کاذکر کیا ہےایک خطبے میں فرمایا ہے:

فامّا اهلُ الطاعةِ، فاتابَهُم بجوارهِ، وخلّدَ همْ فی داره، حیثُ لا یظعنُ النزال، ولا تتغیّرُ بهمُ الحالُ، ولا تنوبُهُم الافزاعُ، ولا تنالُهُم الا سقام، ولا تعرِضُ لهم الاخطار، ولا تشخصهم الاسفار

جوفرما نبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اسکے جو ارِرحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہرادے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اورنہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اورنہ انہیںسفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتے ہیں نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۰۷

وضاحت کے طورپر عرض ہے کہ خلود اور جاوید انگی کا مسئلہ کوئی سادہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، جو انسانوں کے لیے ایک عظیم انتباہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی جگہ ایک کا عدد تحریرکریں اوراسکے پہلو میں بے انتہا دور تک صفر لگاتے چلے جائیں اور ان اَن گنت اعداد کے زریعے خلود کی انتہامعلوم کرنا چاہیں، تب بھی معلوم نہ کر سکیںگے۔

لہٰذا وہ مجرمین جن سے خدا نے دائمی آتشِ جہنم کا وعدہ کیا ہے انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں رہنا ہےاور ان کے مقابل ممتاز پاکیزہ بندگانِ خدا، جیسے ” عباد الرحمٰن“ جنہیں خدا عظیم دائمی جزا سے نوازے گا، انہیں یہ بات ذہن سے نکالنی چاہیے کہ انہیں ایسی دائمی جزا سے نوازا جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی۔

۱۶۲

لہٰذا کیا یہ بات مناسب ہوگی کہ انسان دنیا کی چار روزہ زندگی سے دل لگا کر دائمی عذاب کا مستحق ہوجائے اور دائمی جزا وپاداش سے محروم رہے؟

کیا اس صورت میں ” نقد کو پکڑو، ادھار کو چھوڑو“ والی بات کوئی اہمیت رکھتی ہے جب انسان سستی چیز کو اس کے نقد ہونے کی وجہ سے منتخب کرکے اس کے مقابل بعد میں ملنے والے کروڑوں ٹن سونے کو چھوڑ دے؟

ایک دانشور کے بقول، بالفرضِ محال اگر آخرت کے امور احتمالی ہوں، اور دنیا کے امور یقینی، تب بھی عقلمند انسان احتمال کی کروڑوں صدیوں کو یقین کے چند سال پر فدا نہیں کرے گاجبکہ ہم مسلمان معاد اور آخرت پر عقیدہ رکھتے ہیںلہٰذا ہمیں فنا ہوجانے والے اور چند روزہ نقد کے مقابل ہمیشہ اور جاویداں ادھار کا انتخاب کرنا چاہیےاسی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تھا:

والعَجبُ کلّ العَجب للمصدّقِ بدارِا لخلُود، وهوَ یعملُ لدارِ الغُرور

انتہائی تعجب ہے ایسے شخص پر جو آخرت کے ہمیشہ رہنے والے ٹھکانے کی تصدیق کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس فریب اور فانی دنیا سے وابستگی اختیار کرتا ہےبحار الانوارج۷۸۔ ص۱۸۴

نیز فرمایا:

فَلا تعدّن عیشاً منصرفاً، مالَکَ منهُ الاّ لذَّةُ تزدلف بکَ الیٰ حمامِکَ

فانی اور ناپائیدار زندگی کو زندگی نہ سمجھوتم نے کیوں دنیائے فانی سے (جو مجازی ہے اور) جس میں معمولی سی لذت کے سوا کچھ نہیں دل لگایا ہے، جبکہ یہ دنیا تمہیں موت سے نزدیک کررہی ہےبحار الانوارج۷۸ص۱۷۹

یعنی اس سو سالہ دنیا کی لذت وعیش ونشاط میں غرق ہونا اس وقت کیا فائدہ دے گا جبکہ اس کے نتیجے میں خدا کے دائمی عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گاکیا اس طرح کے نقد کی لذت اس قدر اہم ہے کہ اس کی خاطر آخرت کی ہمیشگی اور دائمی لذت کو قربان کردیا جائے؟

۱۶۳

تجزیہ اور تحلیل

بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ” صبر“ کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اور ہر قسم کے دباؤ اور سختی کو برداشت کرنا نہیں ہےاس قسم کے معنی سے عاجزی اور تظلم (یعنی ظلم کو قبول کرنا) جھلکتا ہے، جس سے اسلام سختی کے ساتھ روکتا ہےبلکہ صبر کے اصل معنی امور کی انجام دہی کے لیے مضبوط عزم وارادے اور مسلسل اور لازوال ثابت قدمی کے ساتھ کام کو جاری رکھنا ہے۔

” مجمع بحرین“ نامی لغت میں صبر کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:الصَّبْرُ کَفُّ النَّفس عَنْ هَواها (صبر یعنی نفس کا نفسانی خواہشات سے پرہیز کرنا، یعنی نفسِ امارہ کے طاغوت کے خلاف جنگ کرنااور ” المنجد“ نامی لغت میں ہے کہ:صَبراً عَلَی الامْر: جَرءَ وشَجَعَ وتَجلّدَ (کسی چیز پر صبر کے معنی ہیں اس کے بارے میں جرات، شجاعت، ثابت قدمی اور شکست کو قبول نہ کرنا)

یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے آیات ِقرآنی میں صبرو استقامت کو مجاہدین راہِ خدا کے لیے ایک بڑی شرط قرار دیا ہے:

اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اگر اُن میں سے بیس افراد صابر ہوئے، تو وہ دو سو افراد پر غالب آجائیں گے اور اگر سو افراد ہوئے، تو وہ ایک ہزار افراد پر غلبہ حاصل کرلیں گےسورئہ انفال۸آیت۶۵

یعنی ایک صابر انسان دشمن کے دس افراد کو زیر کرسکتا ہےاگر صبر کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہوں تو ایسا صبر کبھی انسان کو یہ قوت فراہم نہیں کرتا کہ وہ دس افراد کے مقابل کھڑا ہوکر انہیں شکست دیدے۔

۱۶۴

اسی طرح قرآنِ کریم میں صبر کو ضعف وکمزوری کے مقابل قرار دیا گیا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ صبر کے معنی استقامت اور پیہم جدوجہد ہے، جو ضعف وسستی کی ضد ہےلہٰذا خداوند ِعالم فرماتا ہے:

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ مَعَه رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا وَاللهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ

اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ہم رکاب ہوکر مردانِ الٰہی کے جمع کثیر نے اس انداز سے جنگ کی ہے کہ یہ لوگ راہِ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا اظہار کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاہرہ کیا اور اﷲ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے والوں ہی کو پسند کرتا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۶

قرآن کریم میں دو سو سے زائد مرتبہ مسئلہ صبر کو مختلف الفاظ اور بعض اوقات لفظ ” استقامت“ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے(۱) اور اس کے نتائج کا ذکر کیاگیا ہےاس نکتے سے صبر واستقامت کی انتہائی بلند اہمیت کا اظہار ہوتا ہےان آیات کے ذریعے مجموعی طور پر یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ صبر واستقامت کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں اس کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی  ہے کہ خداوند ِعالم فرماتا ہے:اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (بس صبر کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہیں بے حساب اجر دیا جاتا ہےسورئہ زمر۳۹آیت۱۰)

--------------

1:-معجم المفہرس لالفظ القرآن الکریم، لفظ ” صبر“ اور ’قوم“ کے ضمن میں ملاحظہ فرمایئے۔

۱۶۵

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الصَّبْرُ خَیْرُ مَرْ کَبٍ مٰا رَزَقَ اللّٰهُ عبْداً خَیْراً لَهُ وَلٰا أَ وْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ

صبر بہترین سواری ہےخداوند ِعالم نے اپنے کسی بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر روزی عطا نہیں کی ہےبحار الانوارج۸۲ص۱۳۹

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو کے ضمن میں فرمایا ہے:

عَلَیْکُمْ بِالصَّبْرِ، فانَّ الصَّبْرَ مِنَ الایمانِ کَالرّاسِ مِن الْجَسَدِ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لو، کیونکہ صبر کو ایمان سے ویسی ہی نسبت حاصل ہے جیسی نسبت سر کو بدن سے ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۸۲

ان عبارتوں سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی تعمیر، تکمیل اور اسے پاک وپاکیزہ بنانے میں صبر واستقامت انتہائی اہم کردار کا حامل ہےاور اسکے بغیر انسان ہر گز کمال حاصل نہیں کرسکتا اور آلودگیوں سے نجات نہیں پاسکتامولانا جلال الدین رومی کے بقول:

صد ہزار کیمیا حق آفرید

کمیائی ہمچو صبر آدم نہ دید

(خدا نے لاکھوں کیمیا پیدا کیے ہیں، لیکن صبر کی طرح کا کوئی کیمیا انسان نے نہیں دیکھا)

۱۶۶

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق

متعدد روایات میں ہے، اور خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:

صَبْرٌ عندَ المُصیبَةِ، وَصَبْرٌ الطّاعةِ، وَصَبْرٌ عَلَی الْمَعصیةِ

صبر کی تین قسمیں ہیں: مصیبت کے موقع پر صبر، اطاعت کی راہ میں صبر اور گناہ کے مقابل صبر

یہی حدیث حضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے، اور اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ:

گناہ کے مقابل صبر، ان دو پہلی قسموں کی نسبت زیادہ بلند درجہ رکھتا ہے(اصولِ کافی ج۲ص۱۹۱، میزان الحکم ۃج۵ص۲۶۷)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے کہ:

الصَّبْرُ صَبْرانِ، صَبْرٌ عِنْدَالْمُصیبَةِ، حَسَنٌ جَمیلٌ، وأَحْسنُ مِنْ ذلکَ الصَّبرُ عِنْدَ ماحَرَّمَ اللّٰهُ عَزَّوجلّ عَلَیکَ

صبر دو طرح کا ہے: مصائب ومشکلات کے سامنے صبر، کہ یہ صبر خوبصورت اور عمدہ ہے اور اس صبر سے زیادہ عمدہ ان امور کے مقابل صبر ہے جنہیں خداوند ِعالم نے حرام قرار دیا ہےاصولِ کافی ج۲ص۹۰

ان دو احادیث کی رو سے صبر واستقامت کی وہی تین جڑیں اور بنیادیں ہیں۔

جب ہم خدا کے نزدیک امتیازی مقام رکھنے والے بندوں کی ان بارہ خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان پر گہرا غور وفکر کرتے ہیں، تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خصوصیت صبر واستقامت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، اور ان بارہ خصوصیات کے حصول کے لیے صبرو استقامت کی مدد لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کیونکہ جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے، ان میں سے چار خصوصیات منفی پہلو کی حامل ہیں

۱۶۷

 اور ان کے خلاف جنگ کی ضرورت ہوتی ہےیہ خصوصیات صرف گناہ کے مقابل صبر کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہیںجبکہ چھے خصوصیات مثبت پہلو رکھتی ہیں، جو راہِ اطاعت میں صبر کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ تمام پہلوؤں میں، بالخصوص گناہ سے مقابلے اور اطاعت کی راہ میں صبر کو اپنی روح ورواں میں جگہ دیں تاکہ یہ بارہ خصوصیات حاصل کرسکیں۔

جی ہاں، صبر واستقامت بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے اور اسکے بغیر انسان کسی صورت اعلیٰ انسانی اقدار تک نہیں پہنچ سکتااسی وجہ سے (جیساکہ ہم نے کہا) قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کے ذریعے دو سو سے زائد مرتبہ مسلمانوں کو صبر واستقامت کی دعوت دی ہے اور انہیں صبر کی عظیم طاقت سے مدد لینے کی تلقین کی ہےقرآنِ کریم ایک مقام پر واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ:

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ

صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگوبیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےسورئہ بقرہ۲آیت۱۵۳

فرامینِ معصومین میں صبر کے اثرات اور اس کا کردار

صبر اور اس کے بہترین اثرات کی زیادہ سے زیادہ اہمیت جاننے کے لیے اور اس بات سے واقف ہونے کے لیے فضائل سے آراستہ ہونے، رذائل سے پیراستہ ہونے اور زندگی کے مختلف مسائل میں سدھار اور سنوار پیدا کرنے کے سلسلے میں صبر ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے، آئیے آپ کو پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کچھ فرامین کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الصّبرُ کَنْزٌ مِنْ کُنوزِ الجنّةِ

صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہےالمحجۃ البیضاج۷ص۱۰۷

۱۶۸

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

الصَّبرُ مَطیَّةٌ لٰا تَکْبو

صبر ایسی سواری ہے جو کسی صورت زمین پر نہیں گرتی بحار الانوارج۶۸ص۹۶

حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

الصّبرُ عَوْنٌ عَلٰی کُلّ المْرً

صبر تمام امور میں انسان کا یاورومددگار ہوتا ہےغرر الحکم

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

عَلیکُم بالصَّبْرِ فانَّهُ لا دینَ لِمَنْ لٰا صَبْرَلَهُ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لوایسا شخص جس میں صبر واستقامت نہ ہو، اس کا دین نہیں بحار الانوارج۷۱ص۹۲

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

کَمْ مِنْ صَبْرِ ساعةٍ قَدْ اوْرَ ثَتْ فَرَحاً طَویلاً

بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ساعت کا صبر طویل خوشیوں کا باعث بن جاتا ہےبحار الانوارج۷۱ص۹۱

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے پرہیز گاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

صَبَرواایّاماً قَصیرَةً اعْققَبَهُمْ راحَةً طَویلةً

ان لوگوں نے دنیا کے چند دنوں میں صبر کیا اور اسکے نتیجے میں آخرت میں طولانی آسائشیں حاصل کیں نہج البلاغہ خطبہ۱۹۳

۱۶۹

امام علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے:

عَلامةُ الصّابرِ فی ثلاثٍ: اوّلُها ان لا یَکسِلَ، والثانیةُ انْ لا یَضْجِرَ، والثّالَثَةُ انْ لا یشْکُر مِنْ رَبّهِ عَزَّوجَلّ

صبر کرنے والوں کی تین نشانیاں ہیں: (۱) اپنے آپ سے بے حوصلگی کو دور کرنا(۲) بے قراری اور دل تنگی سے دوری(۳) خداوند ِعالم سے گلہ نہ کرنا بحار الانوارج۷۱ص۸۶

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے کہ:

مِفتاحُ الظَّفرِ لُزُومُ الصَّبْر

صبر وشکیبائی کامیابی کی کنجی ہے غرر الحکم  حدیث ۹۸۰۹

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

قِلَّةُ الصَّبْرِ فَضیحَةٌ

صبر کی کمی رسوائی کا باعث بنتی ہےبحار الانوارج۷۸ص۶۶۹

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: جب انسان کو قبر میں رکھتے ہیں تو اس کے دائیں طرف نماز، اسکے بائیں طرف زکات اور اسکے سر کی جانب نیکیاں کھڑی ہوجاتی ہیں اور ایک طرف ان سے ذرا دور صبر کھڑا ہوجاتا ہےاس موقع پر جب سوال کرنے والے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو صبر (جو نورانی صورت لیے ہوتا ہے) نماز، زکات اور نیکیوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ:دُونَکُمْ صَاحبَکُمْ فانْ عَجَزتُم عَنْهُ فَاَنادوُنَهُ (اپنے صاحب کی طرف سے ہوشیار رہو، اگر اسے عذاب سے محفوظ رکھنے میں ناکام ہو، تو میں اسکی حفاظت کے لیے حاضر ہوں(اصولِ کافی  ج۲ص۹۰)

۱۷۰

یہ احادیث انسان کی مادّی، معنوی، دنیاوی اور اُخروی کامیابیوں میں صبرو استقامت کے کردار کی نشاندہی کرتی ہیں اور زبانِ قال وحال سے کہتی ہیں کہ:

صبر و ظفر ہر دو دوستانِ قدیمیند

بر اثر صبر نو بتِ ظفر آید

(صبر وظفر دونوں قدیمی دوست ہیں، صبر کے اثر سے ظفر کی نوبت آتی ہے)۔

۱۷۱

فہرست

عرض ناشر 2

تواضع و انکسا ری. 3

پہلی خصوصیت: تواضع و انکساری. 4

خدا کے مقابل تواضع و انکساری. 5

لوگوں کا آپس میں انکساری سے پیش آنا 8

رسولِ کریم ؐکی انکساری کی ایک جھلک. 10

حضرت علیؑ کی تواضع اور انکساری کی ایک جھلک. 12

مثبت اور منفی انکساری. 14

حلم اور ضبط ِنفس. 16

قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم 18

۱۷۲

قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت. 22

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت. 24

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات. 30

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت. 32

عبادت اور اس کا فلسفہ 33

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت. 39

خوف وخشیت ِالٰہی 44

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب. 47

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت. 50

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی. 52

انفاق اور خرچ میں اعتدال. 56

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت. 57

۱۷۳

امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا 62

گھرانے کی معاشی ضروریات میں سخت گیری سے پرہیز 64

ہر طرح کے شرک سے پرہیز 67

قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں. 69

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو 74

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی 78

انسانی قتل اور ایذارسانی سے اجتناب. 80

انسان کے قاتلوں کے لیے قصاص اوردیت کی شدید سزائیں. 82

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ ؑکے اقوال میں انسانی قتل کا گناہ 88

انسانی قتل میں تعاون کا گناہ 91

ناجائز صنفی تعلقات سے سخت اجتناب. 94

جنسی آلودگی سے پرہیز اور محفوظ رہنے کے راستے 97

۱۷۴

بے عفتی کے خلاف پیغمبر اسلام کا شدید موقف.. 102

گناہ کی محفلوں میں شرکت سے پرہیز 103

جھوٹی گواہی سے پرہیز 105

بیہودہ محفلوں میں شرکت سے پرہیز 109

نتیجہ اور خلاصہ 111

فضول کاموں اور وقت کے زیاں کی مخالفت. 113

قرآن وحدیث کی نگاہ میں لغو سے اجتناب. 114

وقت کی پہچان اور اسکی قدر 118

وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج 121

قرآنِ کریم سے درست استفادہ 126

قرآن مجید میں غوروفکر اور اس پر عمل حضرت علی ؑکی نظر میں. 130

قرآن کریم سے صحیح استفادے کی چند مثالیں. 133

۱۷۵

دعا اور اُس کے مضامین پر توجہ 139

اسلام میں دعا کی اہمیت. 140

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق. 142

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب. 145

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔ 149

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں. 150

اچھی بیوی اور اس کے اثرات. 150

صالح اولاد 152

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا 154

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا 155

جزاو پاداش. 156

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب. 158

۱۷۶

خلودوجاویدانگی کی اہمیت. 160

تجزیہ اور تحلیل. 164

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق. 167

فرامینِ معصومین میں صبر کے اثرات اور اس کا کردار 168

۱۷۷