عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف33%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92447 / ڈاؤنلوڈ: 6218
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

کظم اور غیظ کے الفاظ میں لفظ ” غیظ“ کے لغوی معنی شدید غصہ، اور غیر معمولی روحی ہیجان اور اشتعال ہیں اور اسکی وجہ روحانی اذیت یا گزند پہنچنا ہوتی ہے۔

لغت میں ” کظم“ کے معنی ہیں پانی سے بھری ہوئی مشک کا منھ بند کرناکنایتاً یہ لفظ ایسے افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو شدید غیظ و غضب سے بھرے ہوئے اور غصے کی شدت سے پھٹ پڑنے کے نزدیک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی شدید ردِعمل ظاہر ہواچاہتا ہےلیکن ان میں پایا جانے والا ضبط ِنفس مضبوط تسمے کی مانند غصے سے بھری ان کی مشک کا منھ بند کردیتا ہے اور انہیں پھٹ پڑنے سے باز رکھتا ہےلہٰذا کظم غیظ اور غصے کا ضبط کرلینا، حلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ہے، جو غصے سے پھٹ پڑنے اور بے جاتندی کے سدباب کا موجب ہے اور انسان کو نامعقول تندی اور ضرررساں اور کبھی کبھی خطرناک ثابت ہونے والے جوش وخروش سے نجات دیتا ہے۔

البتہ اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر حلم اور کظم غیظ گناہگار اور مجرم شخص کی جرات و جسارت کی وجہ بنے یا دوسرے مذموم نتائج کا سبب بن جائے تو بے جا اور منفی ہوجاتا ہے۔ مثلاً پیشہ ورمجرموں کے مقابل حلم کا اظہار اور غصے کو پی جانا، یا ایسے منافقین، کفار اور بے دین افراد سے رعایت اور ان سے چشم پوشی درست نہیں جو اسلام و مسلمین کونقصان پہنچانے یا معاشرے میں فساد برپا کرنے میں مشغول ہوں۔

۲۱

قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت

زیر بحث آیت کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں اور کئی آیات ہیں جن میں حلم، ضبط ِنفس، متانت اور بردباری کی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً:

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ

تم برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو، اس طرح وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے تمہارا مخلص دوست ہو۔ سورئہ فصلت۴۱۔ آیت ۳۴

یہ آیت حلم اور ضبط ِنفس کے ایک خوبصورت اثر کی جانب اشارہ کررہی ہے اور اس بات کی تلقین پر مشتمل ہے کہ دوسروں کی ناگوار اور رنجیدہ کردینے والی باتوں کے جواب میں حسنِ سلوک، اظہارِ محبت اور اچھے ردِ عمل کے ذریعے اپنی زندگی کو آرام دہ اور آسودہ رکھیےکیونکہ جب آپ اس انداز سے جواب دیں گے تو دشمنیاں اورعداوتیں، دوستی اور محبت میں بدل جائیں گی، فتنہ و فساد کی آگ کے بھڑکتے شعلے سرد پڑجائیں گے اور معاشرے میں یکجہتی، مہرومحبت اور برادری کا چلن عام ہوگا۔

علی ابن ابراہیم نے اپنی تفسیر میںاس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ: خداوند ِعالم نے اسی آیت پر اپنے پیغمبر کی تربیت فرمائی اور لوگوں کے ساتھ پیغمبر اسلام کے طرزِ عمل اور سلوک و برتائو کی بنیاد یہی حکم تھا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شاگرد ” حفض“ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ تمام امور میں صبروتحمل اور متانت و بردباری کا مظاہرہ کرویہ بات ذہن نشین رکھو کہ خداوند ِعالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت کے لیے منتخب کیا اور انہیں صبرو تحمل کی ہدایت کی (اسکے بعد حضرت نے مذکورہ آیت کی تلاوت کی) اور فرمایا:پیغمبرؐ نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اس کے ذریعے بلند اور عظیم الشان مقاصد و نتائج حاصل کیے۔

۲۲

شیخ صدو ق علیہ الرحمہ کی ” امالی“ میں روایت ہے کہ: ایک شخص رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیںمیں صلہ رحم کرتا ہوں لیکن وہ قطع رحم کا مظاہرہ کرتے ہیںپیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت پڑھی اور اسے ہدایت کی کہ وہ بردباری، صبر اور تحمل کے ساتھ (ان کی) بدسلوکی کا نیکی سے جواب دے۔

اس شخص نے صبروتحمل اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، پیغمبر اسلام نے اس کے اشعار کی تعریف کی اور فرمایا:بعض اشعار حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض اپنے بیانات میں جادوئی اثررکھتے ہیں۔ (اقتباس از تفسیر نور الثقلین ج ۴ص ۵۴۹، ۵۵۰)

جیسا کہ ذکر ہوا، قرآنِ کریم میں پندرہ مقامات پر اللہ رب العزت کو ” حلیم“ کی صفت سے یاد کیا گیا ہےپس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ (صحیح اور کامل طور پر) اس صفت کے حامل ہیں وہ خدا کی اس صفت کے مظہر ہیں اور یہ بات حلم اور ضبط ِنفس کی انتہائی اہمیت کی علامت ہے۔

خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں اپنے عظیم المرتبت پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس وجہ سے تعریف و تمجید کی کہ وہ ” حلم“ جیسی عالی صفت کے حامل تھے اور فرمایا ہے کہ:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ

بے شک ابراہیم بہت ہی حلیم اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھےسورئہ ہود۱۱آیت ۷۵

۲۳

اور حضرت ابراہیم کو ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ

پھر ہم نے انہیں ایک حلیم فرزند کی بشارت دیسورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۱

یہاں سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ اور بھی دوسرے عالی فضائل اور انسانی خصائل کے مالک تھے، لیکن اس کے باوجود ان دونوں آیات میں صرف ان کی صفت ” حلم“ کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیت میں پیغمبر اسلاؐم کو حلم اور ملائمت کی ہدایت کی گئی ہےارشادِ رب العزت ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ

یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سےبھاگ کھڑے ہوتےسورئہ آل عمران۳آیت ۱۵۹

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت

پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ نے جابجا اپنے کردار اور اقوال کے ذریعے تلخ و ناگوار حوادث کے مقابل حلم اور ضبط ِنفس کی تاکید اور تلقین کی ہےاس بارے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:کمال العلم الحلم، وکمال الحلم کثرة الاحتمال والکظم (حلم کمالِ علم ہے اور کمالِ حلم، کثرت سے تحمل اور بکثرت غصے کو ضبط کرنا ہےغرالحکم ، نقل از میزان الحکم ۃ۔ ج ۲۔ ص۵۱۶)

۲۴

آپؑ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:جمال الرجل حلمه، انک مقوم بادبک فزیّنه بالحلم (انسان کی زیبائی، اس کا حلم ہےاے انسان! تو اپنے مودب ہونے سے پرکھاجاتا ہے، تیری زینت حلم کے ذریعے فراہم ہوتی ہےحوالہ سابق۔ ص ۵۱۳)

آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

الحلم یطفیٔ نارالغضب والحدّة تو جّج احراقه

حلم، غصے کی آگ کو بجھاتا ہے لیکن تندی اور گرم مزاجی، اس آگ کے شعلوں کو بھڑکاتی ہےحوالہ سابق۔ ص۵۱۸

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الحلم سراج الله

حلم و ضبط ِنفس خداوند ِعالم کا روشن چراغ ہے بحارالانوار ج۷۱ص۴۲۲

یہاں ہم نے اس موضوع پر موجود سیکڑوں احادیث میں سے صرف چند احادیث بطورِ مثال پیش کی ہیں ان میں سے ہر حدیث میں مختلف تعبیروں کے ذریعے ” حلم“ کی صفت کو سراہا گیا ہے اور تحمل اور ضبط ِنفس کی خصوصیت کے حامل انسان کی تعریف کی گئی ہے۔

پیغمبر اسلام، ائمہ معصومین، اولیائے الٰہی اور علمائے ربانی کی زندگیوں میں یہ بات کثرت کے ساتھ نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مہر و محبت آمیز طرزِ عمل کے ذریعے صفت ِحلم کا مظاہرہ کرتے تھے۔

۲۵

انس بن مالک کہتے ہیں: میں پیغمبر اسلامؐ کی خدمت ِاقدس میں موجود تھاآپؐ کے کاندھوں پر ایک ایسی عباپڑی ہوئی تھی جس کے کنارے سخت تھےاسی اثنا میں ایک بدوعرب آنحضرتؐ کے نزدیک آیا اور آپؐ کی اس عبا کو پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں نے آنحضرتؐ کی گردن زخمی کردیپھر اسکے بعد گستاخی سے بولا: اے محمد! تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اسے میرے ان اونٹوں پر لاد دو، تاکہ میں اسے لے جائوں کیونکہ یہ نہ تو تمہارا مال ہے نہ تمہارے والد کا۔

آنحضرت ؐنے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: یہ مال، خدا کامال ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔

پھر مزید فرمایا: اے اعرابی! جو زخم تم نے مجھے لگایا ہے، کیا ویسا ہی زخم میں تمہیں لگائوں؟

اس بدونے جواب دیا:نہیں۔

آنحضرت ؐنے فرمایا کیوں؟

اس نے کہا؟ کیونکہ آپ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتےبلکہ اسے اچھے انداز سے دور کرتے ہیںپیغمبر اسلامؐ اسکی یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجوروں سے لاد کر اسکے حوالے کردینے کا حکم دیا۔ (کحل البصرص۱۴۵)

فتح مکہ کے موقع پر، بہت سے مشرکین کو سپاہِ اسلام نے قیدی بنالیاان لوگوں کو یقین تھا کہ آنحضرت ؐانہیں قتل کردیں گے اور ان کے مال و اسباب کوتباہ و برباد کردیں گےاسی اثنا میں لشکر اسلام کے ایک پرچمدار ” سعد“ کی صدابلند ہوئی:الیوم یوم الملحمة، الیوم تسبی الحرمة، الیوم اذّل الله فریشا (آج انتقام کا دن ہے، آج دشمنوں کے مال و اسباب عزت و آبرو کی بربادی کا دن ہے، آج قریش کی ذلت و خواری کا دن ہے)

۲۶

آنحضرت ؐنے جب یہ نعرہ سناتو اسے ایک محبت آمیز نعرے سے بدل دیا اور فرمایا:الیوم یوم المرحمة، الیوم اعزّفریشاً (آج رحمت کا دن ہے، آج قریش کی عزت کا دن ہے ) اور پھر آپؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا:پرچم ہاتھ میں لو اور مکہ میں داخل ہوجائو۔

اسکے بعد پیغمبر اسلام نے قریش کو مخاطب کرکے فرمایا:اذهبوا فانتم الطّفاء (جائو، تم سب آزاد ہواقتباس از بحارالانوار۔ ج ۲۱ص۱۰۹اور۱۰۵)

ایک دوسری روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ؐنے ان لوگوں سے فرمایا: تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم آپ ؐسے اچھے طرزِ عمل کی توقع رکھتے ہیں، آپؐ ہمارے کرم پرور بھائی اور ہمارے کریم النفس بھائی کے فرزند ہیںپیغمبر اسلام نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ:لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (آج تم پر کوئی عتاب نہ ہوگا سورہ یوسف۱۲آیت۹۲)جائو تم آزاد ہو(کحل البصر۔ ص۱۴۶)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حیات کے تذکرے میں آیا ہے:آپؑ نے اپنے عہد ِخلافت میں ایک روز لوگوں سے فرمایا:جو سوال تمھارے ذہن میں ہو مجھ سے پوچھ لو۔ زیر آسمان چیزوں کے متعلق ہر سوال کا جواب میں تمہیں دوں گا اور میرے بعد یہ دعوی سوائے جھوٹے اور دروغ گوکے کوئی اور نہیں کرے گا۔

اس موقع پر مجلس کے ایک گوشے سے ایک بلند قامت شخص اٹھااس کی گردن میں ایک کتاب لٹک رہی تھییوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی یہودی عرب ہےوہ بلند آواز میں انتہائی گستاخی کے ساتھ حضرت علی ؑکو مخاطب کرکے بولا: اے اس چیز کے دعوے دار جسے تم نہیں جانتے اور بے جاحد سے تجاوز کرنے والے انسان! میں تم سے ایسے سوالات کروں گا جن کے جواب تم نہ دے سکو گے۔

۲۷

اس شخص کی یہ گستاخی دیکھ کر حضرت علی ؑکے اصحاب اورشیعوں میں سے کچھ لوگ اسے سبق سکھانے کے لیے اٹھےیہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے سختی کے ساتھ ان لوگوں کو اس عمل سے روکا اور فرمایا:اسے کہنے دو، جلد بازی، تیز مزاجی اور غصے کو خود سے دور رکھو، ان اعمال سے بندگانِ خدا پر خدا کی حجتیں تمام نہیں ہوتیں اور براہین الٰہی آشکار انہیں ہوتے۔

اس کے بعد آپ ؑنے انتہائی تحمل اور بزرگواری کے ساتھ اس شخص کی طرف رخ کیا اور فرمایا: جو سوال تمھارے ذہن میں ہے اسے پوچھواس شخص نے اپنے سوال پیش کیے اور حضرت ؑ نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیئے۔

یہ طرزِ عمل دیکھ کر اور سوالات کے تسلی بخش جواب پاکر وہ شخص حضرت علیؑ کے حلم اور علم کا شیفتہ ہوگیا اور آپؑ کی مدح میں چند اشعار پڑھے اور امیر المومنینؑ کو صاحب ِعلم، گمراہوں کے راہبر، اور کمال و انسانی فضائل میں جوانمردقرار دیا(بحارالانوارج۷۱ص۴۲۴)

اسی طرح ایک اور موقع پر آپؑ کی حیات ِمبارکہ میں تحریر ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آپؑ کی موجودگی میں آپؑ کے غلام قنبر کو سخت وسست کہاجب قنبر نے بھی اسے دوبدو جواب دینا چاہا تو امیر المومنینؑ نے انہیں صدادی اور فرمایا: مھلاً یا قنبر، دع شاتمک۔۔۔ (اے قنبر آرام سے رہو، دشنام دینے والے کو اپنی بے اعتنائی سے بخش دو، تاکہ اپنے پروردگار کو خوش، شیطان کو غضبناک اور اپنے دشمن کو عذاب میں مبتلا کرو (کیونکہ بے اعتنائی سے بڑھ کر اسکے لیے کوئی عذاب نہیں) اس خدا کی قسم، جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسان کو خلق کیا ہے، مومن اپنے پروردگارکو جس قدر ” حلم“ سے خوش کرتا ہے کسی اور چیز سے خوش نہیںکرتا اور جتنا حلم اور ضبط ِنفس سے شیطان کو غضبناک کرتا ہے اتنا کسی اور چیز سے اسے غضبناک نہیںکرتااحمق اور نادان کو جتنا عذاب سکوت اور خاموشی سے پہنچتا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں پہنچتا(بحار الانوارج۔ ۷۱ص۴۲۴)

۲۸

اس بیان میں حضرت علیؑ کا قسم کھانا، حلم کی غیر معمولی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسرے تمام ائمہؑ کی زندگیوں میں بھی کثرت کے ساتھ اس قسم کا بزرگوارانہ طرزِ عمل نظر آتا ہےاسی طرح ان کے اصحاب، شاگردوں اورعلمائے ربانی کے یہاں بھی یہ روش بکثرت دکھائی دیتی ہے یہاں اختصار کے پیش نظر ہم اسکی مثالوں کے ذکر سے گریز کررہے ہیں۔

امیر المومنینؑ پرہیزگاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں:فحلماء علماء ( یہ لوگ حلیم اور دانا ہوتے ہیں)

نیز فرماتے ہیں:یمزج الحلم بالعلم (ان کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حلم کو علم کے ساتھ ملا دیا ہےنہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۳)

حضرت علی ؑکے ایک بہترین شاگرد اور آپ کی سپاہ کے بے مثل سردار، مالک اشتر، ایک دن بازارِ کوفہ سے گزررہے تھےایک شخص جوان سے واقف نہ تھا اس نے کچھ کچرا اٹھا کر ان پر پھینک دیا اور اپنی اس حرکت پر ہنسنے لگامالک اشتراس سے کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گئےایک دکانداریہ سب کچھ دیکھ رہا تھامالک اشتر کے چلے جانے کے بعد اس نے اس احمق شخص سے کہا: تجھے معلوم ہے یہ محترم ہستی کون تھی؟ یہ حضرت علیؑ کی سپاہ کے جری سردار مالک اشتر تھےیہ سن کر وہ شخص معذرت کی غرض سے ڈرتا کانپتا مالک اشتر کے پیچھے دوڑا اور اس نے دیکھا کہ مالک اشتر مسجد میں نماز میں مشغول ہیںجب انہوں نے نماز تمام کرلی تو وہ شخص ان کے پاس گیا اور معذرت طلب کرنے لگامالک اشتر نے کہا:بخدا میں اِس وقت خدا وند ِعالم سے تیرے لیے بخشش طلب کرنے کی غرض سے ہی مسجد آیا ہوںتاکہ خدا تیرے اخلاق کی اصلاح فرمائے اور تجھے بخش دے۔ (بحارالانوار ج ۴۲۔ ص۱۵۷)

۲۹

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات

حلم کی ایک برکت اور اثر عفوودرگزرہےعفوودرگزر جوانمردوں کی صفات میں سے ہے جس کے ذریعے دوستی کے تعلقات اور باہمی روابط میں استحکام اور مہرومحبت پیدا ہوتی ہے۔

ایسا انسان جس میں حلم کی صفت نہ ہو، اس میں عفوودرگزر کی خصوصیت نہیں ہوسکتییہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم کا حلیم ہونا، اس کی جانب سے عفووبخشش کا موجب ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک خطبے کے آغاز میں فرماتے ہیں:الحمد لله  الذی عظم حلمه فعفا (اس خدا کی حمدوسپاس جس کے حلم کی عظمت اسکے عفوودرگزر کا موجب ہے۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱)

حلم کی ایک اور تاثیر یعنی اس کی وجہ سے دوستوں میں اضافہ ہونے کے بارے میں امیر المومنین فرماتے ہیں:وبالحلم عن السّفبه تکثر الانصار (احمق لوگوں کے مقابل حلم و بردباری کا اظہار انسان کے ساتھیوں میں اضافہ کرتا ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار ۲۲۴)

اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ:الحلم عشیره (حلم خود ایک قبیلے کی مانند ہے(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۔ ۴۱۸)

حلم سے ہمت پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا موجب ہوتا ہےحلم کی اس تاثیر کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:والحلم والا ناة توامان ینتجها علوّ الهمّة (حلم اور بے اعتنائی دو جڑواں مولود ہیں جن سے بلند ہمتی پیدا ہوتی ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۴۶۰)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا: الحلم غطاء ساتر (حلم ڈھانکنے والا پردہ ہے)

۳۰

حلم کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ عزت و شرف کا باعث ہےلہٰذا حضرت علیؑ نے فرمایا ہے: ولاعز کالحلم (کوئی شرف حلم کی مانند نہیں۔ نہج البلاغہ۔ کلمات ِقصار۱۱۳) یعنی حلم اور ضبط نفس خداوند ِعالم کی بارگاہ اور لوگوں کی نظروں میں عزت وشرف کا باعث ہے۔

حلم ہی کے اثرات اور برکات میں سے ایک یہ ہے کہ کاموں میں تقصیر اور کوتاہی کا موجب نہیں ہوتا اور لوگوں کے سامنے ایک پسندیدہ اور خوشگوار زندگی کا باعث بن جاتا ہےبقول امام علی علیہ السلام: ومن حلم لم یفرط فی امرہ، وعاش فی الناس حمیداً (حلیم شخص، اپنے کاموں میں تفریط و کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا اور لوگوں کے درمیان پسندیدہ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔ نہج البلاغہ کلمات ِقصار۳۱)

خداوند ِعالم سے دعا گوہیں کہ ہم ان فرامین اور بزرگانِ دین کے اس طرزِ عمل سے حلم اور ضبط ِنفس کا درس لیں اور اس خصلت کے ذریعے دنیا اور آخرت میں امتیازی مقام حاصل کریں۔

۳۱

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت

قرآنِ مجید میں، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی تیسری خصوصیت اور امتیاز کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا

خدائے رحمان کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو اپنی راتیں پروردگار کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں بسر کرتے ہیں۔ سورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۴

یعنی یہ لوگ خدا سے انتہائی قریبی اور مضبوط عبادی تعلق رکھتے ہیں اسی گہرے تعلق کا نتیجہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے نرم اور گرم بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے رازونیاز میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور سجودوقیام کے ذریعے، اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کے سامنے عاجزی اور انتہائی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بندگانِ خالص خالقِ کائنات کی مخلصانہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کو جلا اور صفا بخشتے ہیں، تعلق باللہ سے پھوٹنے والے صاف و شفاف چشمے کے پانی سے اپنا قلب دھوتے، چمکاتے اور نورانی کرتے ہیں۔

جس وقت غفلت شعار لوگ گہری، میٹھی نیند سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، اور ایک ایسے وقت جب ریا اور خودنمائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس وقت خدا کے یہ مخلص بندے اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر اس سے بھی زیادہ لذت آور شئے، یعنی خدا کے ذکر اور اس کی عظیم بارگاہ میں قیام وسجود میں مشغول ہوجاتے ہیں، خدا کے ساتھ اپنے روحانی اور عرفانی بندھن کو مضبوط ومستحکم کرتے ہیں، توحید کے بے کنار سمندر میںغوطہ ورہوکے، یکتاپرستی کے جام سے مست ہوکر اپنے قلب کو عشقِ حقیقی سے آشنا کرتے ہیں اور اپنی روح کی تشنگی اور پاکیزہ اور تشنہ توحید فطرت کو چشمہ توحید سے سیراب کرتے ہیں۔

۳۲

عبادت اور اس کا فلسفہ

قرآنِ مجید میں خدا کی عبادت اور عبادی رسومات، جیسے نماز، روزے، حج اور دعا وغیرہ کے بارے میں خصوصیت اور اہمیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور دوسری ہر چیز سے پہلے عبادت کو خدا کے خاص بندوں اور ممتاز انسانوں کی اصل اور بنیادی خصوصیات میں سے قرار دیا گیا ہےیہ پاکیزہ صفات افراد عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعمال کو بھی بندگی ٔرب کے طور پر انجام دیتے ہیں اور اپنی تمام سرگرمیوں کو خالص نیت اور ہر قسم کی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کرکے الٰہی رنگ دیتے اور عبادت کے صاف و شفاف پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔

عبادت کا لفظ دراصل لفظ ” عبد“ سے لیا گیا ہے اور عبد ِکامل اس انسان کو کہا جاتا ہے جو اپنے مولا اور مالک کا سراپا اطاعت گزار اور تابعدار ہو، اس کا ارادہ اپنے آقا و مالک کا تابع ہو، اس کی خواہشات اپنے حاکم اور مولا کی تابع ہوں(وہ انسان جو خدا کی بندگی اور عبودیت کا دعویدار ہوتا ہے) خدا کے سامنے اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا، اور اس کی اطاعت میں سستی اور کاہلی کو کسی صورت اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔

واضح الفاظ میں عرض کریں کہ اپنے بندے کو نہایت انعام واکرام سے نوازنے والے معبود، یعنی خدائے یکتا اور بے ہمتا کے سامنے زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں حددرجہ خضوع اور انکساری کا اظہار ” عبادت اور بندگی“ کہلاتا ہے۔

عبودیت، ذات ِخدا کے سامنے انتہائی تسلیم اور تابعداری کا نام ہےعبودیت، ہر میدان میں خداوند ِعالم کی بے قید و شرط، بلاچوں وچرا اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے۔

۳۳

عبودیت ِکامل کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس حقیقی معبود، اس کمالِ مطلق کے سوا کسی اور کو خاطر میں نہ لائے، اسکی دکھائی ہوئی راہ کے سوا کسی اور راستے پر قدم نہ رکھے، سوائے اسکے کسی اور کے ساتھ دل وابستہ نہ کرے، اور سب سے کٹ کر صرف اسی کا ہورہےخدا کے ساتھ اس کی یہ وابستگی اس حد تک پہنچی ہوئی ہونی چاہیے جس کا ذکر مناجات ِشعبانیہ میں آیا ہے، جسے حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے تمام ائمہ تلاوت کیا کرتے تھےاس مناجات کے ایک حصے میں ہے کہ:

لَهِی هَبْ لیِ کَمَال الانِقِطَاعِ اِلیْکَ وَاَنِرْ اَبْصَارَقُلُوبِنَا بِضِیاءِ نَظَرِ هَا اِلَیْکَ، حَتّٰی تَخْرِقَ اَبْصَارَ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ، فَتَصِیلَ اِلیٰ مَعْدِنِ اَلْعَظَمَةِ، وَ تَصِیرَ اَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةُ بِعِزً قُدْسِکَ

بار ِالٰہا! مجھے اپنی مخلوقات سے کٹ جانے اور(تو) اپنی ذات ِپاک سے جڑ جانے کا کمال بخش دے، (خدایا مجھ کو اپنی جانب مکمل انقطاع عطا کر) اور میرے دل کی آنکھ کو اس نور سے روشن فرماجو تیرا مشاہدہ کرسکے تاکہ میری دیدہ بصیرت نور کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی عظمت کے معدن تک جاپہنچے، اور ہماری روحیں تیرے مقامِ قدس کی عزت سے وابستہ ہوجائیں(مناجات شعبانیہ از مفاتیح الجنان)

قرآنِ کریم میں خدا کی عبادت و بندگی کو ہدف ِخلقت اور انسانی کمال کی انتہائی بلندی قرار دیا گیا ہےارشادِ باری ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

ہم نے جن و انس کو صرف اس لیے خلق کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔ سورہ ذاریات ۵۱آیت ۵۶

اس آیت کے مطابق انسان کی خلقت کا مقصد یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں اس طرح خدا کی عبادت کرے جیسا اس کی عبادت کا حق ہے۔

۳۴

اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ خدا وند ِعالم انسانوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہےکیونکہ اگر تمام کائنات کافر ہوجائے، اللہ سبحانہ تعالیٰ سے منھ موڑ لے، تب بھی اللہ رب العزت کے دامنِ کبریائی پر کوئی معمولی سی بھی آنچ نہ آئے گی۔

بلکہ عبادت، دراصل خود انسان کی تعمیر ذات، بہبود اور تکمیل کے لیے ہےانسان صحیح صحیح اور شرائط کے ساتھ انجام دی گئی عبادت کے ذریعے تربیت پاتا ہے، اس کی شخصیت جلاِپاتی اور پاکیزہ ہوتی ہےوہ خدا کی بندگی کے برخلاف ہر قسم کے گناہ اور گمراہی سے دور رہتا ہے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اعلیٰ و ارفع روحانی فضیلتیں حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے کمال کی چوٹی پر جاپہنچتا ہے۔

فلسفہ عبادت کے بارے میں یہ آیت ِقرآن اسی جانب اشارہ کررہی ہے کہ:

يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے آنے والے لوگوں کو خلق کیا ہے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (سورہ بقرہ۲آیت ۲۱)

اس آیت میں فلسفہ عبادت کی وضاحت کی گئی ہے جو پرہیز گاری، پاکیزگی اور روح سے ہرقسم کی آلودگیوں کو دھوڈالنا ہے۔

لہٰذا عبادت کا ایک مقصد انسان کے گناہوں کو دھوڈالنا اور اسے پاک کرنا ہے۔ اس مرحلے کے بعد عبادت کے دوسرے مرحلے یعنی مرحلہ تکامل کی نوبت آتی ہے، جس میں انسان تکامل کے درجات ومراحل طے کرتا ہے۔

۳۵

قرآنِ کریم میں جس مقام پر خدا وند ِعالم نے پیغمبر اسلام کی معراج کو بیان کیا ہے (معراج جو آنحضرت کی عظمت کی انتہائی بلندیوں کی علامت ہے) اسی مقام پر پیغمبر کی عبودیت کے معاملے پر بھی گفتگو فرمائی ہے اور وضاحت کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے تکامل اور ان کی عظمت کی بلندیوں کی بنیاد، آنحضرت کی بندگی ہےارشاد ہوتا ہے:

 سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَه لِنُرِيَه مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّه هُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ

پاک و پاکیزہ ہے وہ (معبود) جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بے شک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورہ بنی اسرائیل ۱۷ آیت ۱)

شب ِمعراج پیغمبر اسلام کے سدرۃ المنتہیٰ پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے قرآنِ کریم کہتا ہے:فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِه مَآ اَوْحٰى ( پھر خدا نے اپنے بندے (پیغمبر) پر جو وحی کرنی چاہی وہ وحی کردیسورہ نجم ۵۳ آیت ۱۰)

یہ دو آیات، پیغمبر اسلام کی معراج اور آپ کی بندگی کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو واضح کرتی ہیںیعنی رسولِ کریم کا خدا کی عبودیت اور اس کی بندگی کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہونا معراج کی بلندیوں تک آپ کی رسائی اور تکامل کا موجب بنا۔

خود پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے کلمات میں بھی مختلف طریقوں سے اس نکتے کو بیان کیا گیا ہےمثال کے طور پر روایت کی گئی ہے کہ معراج کے دوران ایک فرشتہ پیغمبر اسلام کے پاس آیا اور عرض کیا: خدا وند ِعالم نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں آپ کے حوالے کرنے کی غرض سے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو پیغمبر اور عبدرہیں اور اگرچاہیں تو پیغمبر اور بادشاہ بنیں۔

۳۶

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جواب دیا:بَلْ اَکُونُ نَبِیّاً عَبْداً (میں پیغمبری اور عبودیت کو چنتا ہوںبحارالانوار۔ ج ۱۸ ص ۳۸۲)

ائمہ معصومین کے فرامین میں ملتا ہے:اِنَّ الصَّلَا ةَ مِعْراجُ الْمُومِنِ (بے شک نماز، مومن کی معراج اور اسکے عروج و بلندی کا وسیلہ ہےبحارالانوارج ۸۲۔ ص ۳۰۳)

احادیث قدسی میں ایک مقام پر ہے: شب ِمعراج خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

عَبْدی اَطِعْنِی اَجْعَلَکَ مَثَلِی اِذَا قُلْتَ لِشَی ءٍ کُنْ فَیَکُونْ

اے میرے بندے! میری اطاعت کر، تاکہ میں تجھے اپنا ایک ایسا مظہربنادوں کہ جب تو کسی چیز کو کہے کہ ہوجاتو وہ چیزواقع ہوجائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلْعُبُودِیَّةُ جَوْهَرَةُ کُنْهُهَا الرَّبُو بِیَّهْ

عبودیت اور بندگی وہ جوہر ہے جس میں ربوبیت پوشیدہ ہےمصباح الشریعہباب۱۰۰

مراد یہ کہ عبودیت اور بندگی، انسان کو خدا سے انتہائی قریب کرکے اسے مقامِ ربوبیت پر پہنچادیتی ہے، اسے خدا کی صفات کا مظہر بنادیتی ہے اور وہ اذنِ الٰہی سے عالمِ تکوین میں تدبیرو تصرف کرنے لگتا ہے، اس کے ہاتھوں کرامات اور غیر معمولی امور سرزدہونے لگتے ہیں۔

۳۷

اس بات کی وضاحت اس مثال کے ذریعے کی جاسکتی ہے کہ اگر ٹھنڈے اور سیاہ لوہے کو، لوہار کی بھٹی میں ڈال دیا جائے تو وہ پگھل کر سرخ انگارا بن جاتا ہےیہ لوہا، لوہا ہونے کے ساتھ ساتھ، آگ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے چمکتا ہوا انگارہ سا محسوس ہوتا ہےلوہے کی یہ حدت اور چمک اُس آگ کا معمولی سا اثر ہے جس میں وہ پڑا ہوتا ہے اور جو اسے اس رنگ میں لے آتی ہے۔ انسان بھی عبودیت کے اثر سے خدا کی طرح بن سکتا ہےاستاد شہید مرتضیٰ مطہری علیہ الرحمہ کے بقول بندے کو یہ سیرومقام پانچ مراحل میں حاصل ہوتا ہے:

۱:- بندگی کے سائے میں انسان اپنے نفس پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔

۲:- اس مرحلے کے بعد انسان اس قدر قوی بن جاتا ہے کہ اس کا نفس طاقتور ہوکر گناہوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کی قوت پالیتا ہے۔

۳:- اس مرحلے کے بعد، بہت سے امور میں روح بدن سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔

۴:- اس مرحلے کے بعد روح بدن کو چھوڑ دیتی ہے اور بدن ہر لحاظ سے روح کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔

۵:- پانچویں مرحلے میں، انسان اس قدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ حتیٰ اپنے بدن سے باہر کی اشیاء پر بھی اثر انداز ہونے لگتا ہےاولیائے الٰہی جن سے معجزے، کرامات اور عالمِ تکوین میں تصرف جو خداوند ِعالم سے مخصوص کاموں میں سے ہے، اس شخص سے بھی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ (ولا هاو ولایتها ۔ ص۷۲تا۸۲، بطور افتباس)

۳۸

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت

عبادت میں پایا جانے والا خلوص اور معرفت، اس میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور اسی کے سائے میں انسان کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔

اگر عبادت معرفت سے خالی ہوتو ایک بے جان جسم کی مانند ہے، بے سوچے سمجھے انجام دی جانے والی حرکات و سکنات اور ایک کھوکھلا عمل ہےاسی طرح اگر عبادت شرک آلود ہو، دکھاوے کے لیے انجام دی جائے تو شرک ِخفی کا موجب بن کر خدا سے تقرب کی بجائے اس سے مزید دوری کا سبب بن جائے گی اور نتیجے کے طور پر بے سود رہے گیاس کھوکھلے پھل کی مانند جس میں نہ صرف کوئی مفید خاصیت نہیں پائی جاتی بلکہ نقصان دہ بھی ہوجاتا ہے۔

عارفانہ عبادت ایسی عبادت کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کی معرفت اور شناخت کے ساتھ انجام دیتا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے خدا کی عبادت کرتا ہے کہ وہی لائق عبادت ہے اور اسکی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا تقاضا ہے کہ اسی کی پرستش کی جائےایسا ہی شخص عبادت کے مغز اور اس کے فلسفے کو جانتا ہے اور اس کی روح اور فکر میں عبادت کی حقیقت جڑ پکڑ چکی ہوتی ہے، رچ بس گئی ہوتی ہے، اور وہ اس بلند اور رفیع الشان سوچ کے ساتھ رہوارِ عبادت پر سوار ہوکر ملٰکوت کی جانب پرواز کرتا ہے۔

اس جانب متوجہ کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

بے شک ایک گروہ بہشت کی رغبت میں خدا کی عبادت کرتا ہے، یہ تاجروں کی عبادت ہےایک دوسرا گروہ آتشِ جہنم کے خوف سے خدا کی پرستش کرتا ہے، یہ غلاموں کی عبادت ہےجبکہ ایک اور گروہ خدا کی نعمتوں کے شکر میں اس کی عبادت بجالاتا ہے، یہ آزاد منش افراد کی عبادت ہے(نہج البلاغہ کلمات قصار ۲۳۷)

۳۹

امام ؑکے اس قول سے ظاہر ہے کہ کامل اور عارفانہ عبادت، ایسی عبادت ہے جو صرف خدا کے لیے اور اس کی نعمتوں پر شکر کی غرض سے ہو۔

مخلصانہ عبادت، وہ عبادت ہے جو حضور قلب، اخلاص و صفا اور ہر قسم کے ریا اور خودنمائی سے پاک ہوصرف اور صرف خدا کے لیے ہومثال کے طور پر پانی مایہ حیات ہےیہ خصوصیت صرف اسی پانی میں پائی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہو جبکہ آلودہ پانی جس میں مختلف جراثیم کی آمیزش ہو، نہ صرف مایہ حیات نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

ریا سے آلودہ اور غیر خالص عبادت، ایسے ہی آلودہ اور جراثیم بھرے پانی کی مانند ہے جبکہ مخلصانہ اور بے ریا عبادت، مثبت اور تعمیری آثار کی حامل اور انسان سازی اور انسانی کمال کا موجب ہوتی ہے۔

عبادالرحمن کی تیسری خصوصیت کو بیان کرنے والی زیر بحث آیت (یعنی سورہ فرقان کی آیت نمبر۶۴) دو نکات پر مشتمل ہے:

۱:- خدا کے یہ مخلص بندے ہمیشہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیںعبادت ِالٰہی کے خوگر ہو کر مسلسل اسی میں مشغول رہتے ہیں اور متواتر قیام و سجود کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

۲:- یہ لوگ رات ڈھلے آرام دہ بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے راز و نیاز میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

آیت میں ان بندگان خدا کے راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرنے کی جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کے اخلاص کو ظاہر کرنے کے لیے ہےیعنی یہ لوگ تاریکی ٔ شب میں، جب کسی بھی قسم کے دکھاوے اور ریا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی (یہ صورت ِحال عام طور پر رات کی تاریکی ہی میں پیدا ہوتی ہے) خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی : پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں کہ جن پر لوگ چڑھتے ہیں، گھر بنائے، پھر اس کے تمام ثمرات کو کھائے اور نرمی کے ساتھ اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرلے۔ اس کے شکم سے رنگا رنگ قسم کا شربت نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس چیز میں روشن علامت اور نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو غور و فکر کرتا ہے۔( ۱ )

۴۔( و الله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ أَربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیئٍ قدیر )

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق فرمایا: ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض اپنے دو پیروںپراور کچھ چار پیروں سے چلتے ہیں۔ خدا جو چاہے پیدا کرسکتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

۵۔( وما من دابة فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه الا اُمَم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیئٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

اورکوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں اور کوئی اپنے دو پروں کے سہارے اڑنے والا پرندہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بھی تمہاری جیسی ایک امت ہے۔ اس کتاب میں کوئی چیز فروگز اشت نہیںہوئی ہے ۔ پھر سارے کے سارے اپنے پروردگار کی طرف محشور کئے جائیں گے۔( ۳ )

کلمات کی تشریح

۱۔ فرث :جو چیز معدہ کے اندر ہوتی ہے ۔

۲۔ حیوانات کو خدا کا وحی کرنا: جس سے ان کی زندگی اور امور کی درستگی وابستہ ہے اس کے انجام کے لئے الہام اور ہدایت غریزی کرنا اور کبھی زیادہ دقت اور ہوشمندی کے ساتھ ہوتی ہے، حیوانات کا فعل تقریبا ویسا ہی ہے جیسے کہ ایک تسخیر شدہ صنف انجام دیتی ہے ۔

۳۔ یعرشون:عرش کے ''مادہ'' سے ہے جس کے معنی چھت اور چھپر کے ہیںیعنی چھتوں کی بلندی کے اوپر بھی جہاں لوگ جاتے ہیں نیزگھر بنائو۔

۴۔ ذللاً: استوار اور ہموار

____________________

(۱)نحل۶۸۔۶۹(۲)نور۴۵(۳)انعام۳۸.

۱۶۱

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے ان موجودات کے لئے جنہیں آسمان کے نیچے محدود فضا میں زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے ایسی موجودات جو موت، زندگی اور حیوانی نفس کی مالک ہیں لیکن عقل سے بے بہرہ ہیں فضا میں ہوںیا زمین میں ؛ اس کے اندر ہوںیا دریائوں کی تہوںمیں ؛ خدا وند عالم نے ان کی ہر ایک صنف اور نوع کے لئے ایک نظام بنایا ہے جو ان کی فطری تخلیق اور حیوانی زندگی سے تناسب رکھتا ہے؛ اور ہر نوع کو ایک ایسے غریزہ کے ذریعہ جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے الہام فرمایا ہے کہ زندگی میں اس نظام کے تحت حرکت کریں؛ وہ خود ہی اس طرح کی مخلوقات کی ہدایت کا طریقہ اور کیفیت جیسے شہد کی مکھی کی زندگی کے متعلق حکایت کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے : تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ: پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں جہاں لوگ بلندی پر جاتے ہیں، گھربنائے، پھرہر طرح کے پھلوںسے کھائیاور اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرے اس کے شکم سے رنگ برنگ کا شربت نکلتاہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں روشن نشانیاں ہیں صاحبان عقل و ہوش کیلئے۔

معلو م ہو اکہ شہد کی مکھی اپنی مہارت اور چالاکی سے جو کام انجام دیتی ہے اور اسے حکیمانہ انداز اورصحیح طور سے بجالاتی ہے وہ ہمارے رب کے الہام کی وجہ سے ہے، یہ بیان اس طرح کے جانداروں کی ہدایت کا ایک نمونہ ہے جو اسی سورہ کی : ۸۔۵ آیات میں چوپایوں کی صنف ، ان کی حکمت آفرینش اور نظام زندگی اور وہ نفع جو ان میں پایا جاتا ہے ان سب کے بارے میں آیا ہے ؛ اور اوحیٰ ربک کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جس پروردگار نے شہد کی مکھی کو ہدایت کی کہ معین شدہ نظام کے تحت جو اس کی فطرت کے موافق ہے زندگی گز ارے وہی ہمارا خدا ہے جس نے ہمارے لئے بھی ہماری فطرت سے ہم آہنگ نظام بنایا ہے ایسی فطرت کہ ہمیں حکیمانہ اور متقن انداز میں جس پر پیدا کیا۔

چوتھے۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان اور جن کی تعلیم.

سورہ ٔ اعلی کی آیات( خلق فسوی و قدر فهدی ) میں انسان اور جن خدا وند عالم کے کلام کے مصداق ہیں۔

پہلے ۔ انسان: خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا اور اس کے لئے نظام حیات معین فرمایا: نیز اس کی ذات میں نفسانی خواہشات ودیعت فرمائیں کہ دل کی خواہشکے اعتبار سے رفتار کرے نیز اسے امتیاز اور تمیز دینے والی عقل عطا کی تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنا نفع اور نقصان پہچانے اور اسے ہدایت پذیری کے لئے دو طرح سے آمادہ کرے ۔

۱۶۲

۱۔ زبان سے گفتگو کے ذریعہ، اس لئے کہ بات کرنے اور ایک دوسرے سے تفاہم کا طریقہ خود خدا نے انسان کو الہام فرمایا ہے :( خلق الانسان، علمه البیان ) انسان کو خلق کیا اور اسے بات کرنے کا طریقہ سکھایا۔( ۱ )

۲۔ پڑھنے ، لکھنے اور افکار منتقل کرنے کے ذریعہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک اور ایک نسل سے دوسری نسل تک جیسا کہ ارشاد ہوا:

( اقرأ و ربّک الأکرم٭ الذی علّم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم )

پڑھو کہ تمہار ارب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا، جو کچھ انسان نہیں جانتا تھا اسے سکھایا۔( ۲ )

خداوند متعال نے اسی کے بعد انسان کے لئے اس کی انسانی فطرت کے مطابق نظام زندگی اور قانون حیات معین فرمایا ہے :

جیسا کہ ارشاد ہوا:

( فَأَقِم وجهک للدین حنیفاً فطرة َالله التی فطر الناس علیها )

اپنے رخ کو پروردگار کے محکم اور ثابت آئین(دین اسلام ) کی طرف رکھو اور باطل سے کنارہ کش رہو کہ یہ دین خدا کی وہ فطرت جس پر خدا نے لوگوں کو خلق کیاہے ۔( ۳ )

خدا وند عالم نے پیغمبروں پر وحی نازل کر کے انسانوںکو اس دین کی طرف جو اس کی فطرت سے سازگار اور تناسب رکھتا ہے ہدایت کی؛ جیسا کہ فرمایا:

۱۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبین من بعده... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیاء کی طرف وحی کی ہے( ۴ )

۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی به نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین )

____________________

(۱)رحمن۳۔۴

(۲)علق۳۔۴

(۳)روم۳۰

(۴)نسائ۱۶۳

۱۶۳

تمہارے لئے اس دین کی تشریع کی کہ جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو تم پر وحی نازل کی اورہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو جس کی وصیت کی یہ ہے کہ دین قائم کرو...۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس دین کو جسے پیغمبروں پر نازل کیا ہے اس کا اسلام نام رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( ان الدین عند الله الاسلام ) خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔( ۲ )

دوسرے ۔ جن: خدا نے جن کو پیدا کیا اور انسان ہی کی طرح ان کی زندگی بھی بنائی کیونکہ ان کی سرشت میں بھی نفسانی خواہشات کا وجود ہے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق رفتار کرتے ہیںاور عقل کے ذریعہ اپنے نفع اور نقصان کو درک کرتے ہیں ، مانندابلیس جو کہ جنوں میں سے تھا، اس کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا ہے اور فرمایاہے:

( و اِذ قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه... )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ،وہ جنوں میں سے تھا اورحکم پروردگار سے خارج ہو گیا؛ خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں ابلیس کی داستان بسط و تفصیل سے بیان کی ہے ۔( ۳ )

( ولقد خلقناکم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک قال انا خیر منه خلقتنی من نار و خلقته من طین٭ قال فاهبط منها فما یکون لک ان تتکبر فیها فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭ قال فبما أغویتنی لأقعدن لهم صراطک المستقیم٭ ثم لآتینهم من بین ایدیهم و من خلفهم و عن أیمانهم و عن شمائلهم و لا تجد اکثرهم شاکرین٭ قال اخرج منها مذئوما مدحورا لمن تبعک منهم لأملئن جهنم منکم اجمعین )

اورہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر شکل و صورت بنائی، اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو ان سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوںمیں سے نہیں تھا؛ خدا وند عالم نے اس سے فرمایا: جب میں نے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے روک دیا؟ کہا: میں اس سے بہتر ہوں ؛ تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے خلق کیا ہے فرمایا: تو اس جگہ سے نیچے اتر جاتجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے نکل جا ؛اس لئے کہ تو پست اور فرومایہ شخص ہے ! ابلیس نے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت

____________________

(۱)شوری۱۳(۲)ال عمران۱۹(۳)کہف۵۰

۱۶۴

دیدے، فرمایا مہلت دی گئی! تو بولا:اب جو تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے میں تیرے راستہ میں ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر آگے سے ، پیچھے سے ،دائیں سے، بائیں سے، ان کا پیچھا کروں گااور تو ان میں سے اکثر کوشکر گز ار نہیں پائے گا۔

فرمایا:اس منزل سے ننگ و خواری کے ساتھ نکل جا، قسم ہے کہ جو بھی ان میں سے تیری پیروی کرے گا جہنم کو تم لوگوں سے بھردوں گا۔( ۱ )

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا وند عزیز و جبار کی سرکش اور طاغی جنیمخلوق میں دیگر موجودات سے کہیں زیادہ قوی ہوائے نفس پائی جاتی ہے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں تمام جنات میں ہوای نفس کے وجود کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے : کہ جنات ہوائے نفس کی پیروی میں اس درجہ آگے بڑھ گئے کہ فرشتوں کی باتیں چرانے کے لئے گھات میں لگ گئے۔ اور اس رویہ سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء مبعوث ہوئے اور خدا وند عالم نے جلادینے والے شہاب کا انہیں نشانہ بنایا، روایت ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کی باتیں سنکر کاہنوں کے پاس آکر بتاتے تھے اور بربنائے ظلم و ستم اور انحراف و گمراہی آدمیوں کی اذیت اور آزار کے لئے جھوٹ کا بھی اضافہ کردیتے تھے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں اس رفتار کی بھی خبر دی ہے اور فرمایا ہے:( فزادوهم رهقاً ) یعنی جناتوں نے آدمیوں کی گمراہی میں اضافہ کر دیا. اور یہ کہ جنات خواہشات نفس کی پیروی کرنے میں آدمیوںکی طرح ہیں اور ان کے درمیان مسلمان اور غیر مسلمان سبھی پائے جاتے ہیں اس کی بھی خبر دی ہے ۔

سورۂ احقاف میں مذکور ہے : جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن کی تلاوت کررہے تھے توجنات کے ایک گروہ نے حاضر ہوکراسے سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس آکر انہیں ڈرایا اور کہا: خدا وند عالم نے موسیٰ کے بعد قرآن نامی کتاب بھیجی ہے اور ان سے ایمان لانے کی درخواست کی ،اسی طرح سورۂ جن میں معاد کے سلسلے میں بعض جنات کا بعض آدمیوں سے نظریہ یکساںملتا ہے کہ ان کا خدا کے بارے میں یہ خیا ل ہے کہ : خدا کبھی کسی کو قیامت کے دن مبعوث نہیں کرے گا۔

گز شتہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنوں میں بھی انسانوں کی طرح عقلی سوجھ بوجھ اور کامل ادراک پایا جاتا ہے اور وہ لوگ انسانوں کی باتیں سمجھتے ہیں اور اسے سیکھنے میں گفتگو کرنے میں بھی انسان کے ساتھ

____________________

(۱)اعراف۱۱۔۱۸

۱۶۵

شریک ہیں، یہ موضوع سورۂ نمل کی ۱۷ میں اور ۳۹ویں آیت میں سلیمان کی ان سے گفتگو کے سلسلہ میں محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح یہ دونوں صنف نفسانی حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہیںجس طرح رفتار وعمل کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں؛ خدا وند عالم نے سورۂ سبا میں فرمایا:

( یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیات )

جنات جناب سلیمان کے لئے جو چاہتے تھے انجام دیتے تھے اور محراب، مجسمے، بڑے بڑے کھانے کے برتن اور دیگیںبناتے تھے۔( ۱ )

اور سورہ ٔ انبیاء میں فرماتا ہے :

( ومن الشیاطین من یغوصون له و یعملون عملا دون ذلک )

بعض شیاطین ( جنات )جناب سلیمان کے لئے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کام کرتے تھے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے ان دو گروہ جن و انس کی اسلام کی طرف ہدایت اوررہنمائی کے لئے انبیاء بھیجے بشارت، انذار اور تعلیم دینے میں دونوں کومساوی رکھاتاکہ خدائے واحد و یکتا پر ایمان لائیں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اس کے اور پیغمبروں، فرشتوں، قیامت، مشاہد اور مواقف پر ایمان لائیں۔

اسلامی احکام ، جو کچھ اجتماعی آداب سے متعلق ہیں جیسے : ناتواںکی مدد کرنا ، ضرورتمندوں اور مومنین کی نصرت کرنا اور دوسروں کو اذیت دینا اور ان کے مانند دوسری باتیں ،ان میں دونوں گروہ مشترک ہیں ،لیکن عبادات جیسے : نماز،روزہ، حج اور ان کے مانند جنوں سے مربوط دیگر احکام ضروری ہے کہ وہ جنوں کے حالات سے موافقت اور تناسب رکھتے ہوںجس طرح آدمی ایک دوسرے کی نسبت احکام میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے مرد و عورت کے مخصوص احکام یا مریض و سالم ، مسافر اور غیر مسافر وغیرہ کے احکام۔

مباحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے فرشتوںکو خلق کیا تاکہ اس کی ''ربوبیت'' اور ''الوہیت'' کے محافظ و پاسدارہوں جیسا کہ

____________________

(۱)سبا۱۳

(۲)انبیائ۸۲

۱۶۶

خود ہی گز شتہ آیات میں نیز ان آیات میں جس میں فرشتوں( ۱ ) کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں خبر دی ہے اسی غرض کے پیش نظر انہیں تمام لوگوں سے پہلے زیور تخلیق سے آراستہ کیا؛ وہ اس وقت حاملان عرش( ۲ ) تھے جب عرش الٰہی پانی پرتھا، جیسا کہ سورۂ ہود میں فرمایا ہے:

( وهوالذی خلق السمٰوات والارض فی ستة ایام وکان عرشه علٰی المائ... ) ( ۳ )

اوروہ خدا وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں خلق کیاجب کہ اس کاعرش پانی پر ٹھہرا ہوا تھا۔

اور نیز خدا وند عالم نے آسمان کو اس کے داخلی اور خارجی اشیاء سمیت خلق کیا: جن فرشتوں کو ہم جانتے ہیں اورجن کو ہم نہیں جانتے اور جو کچھ آسمانوںکے نیچے ہے جیسے کہکشائیں ،ستارے ، چاند اور سورج وغیرہ کہ جن کو ہم جانتے ہیں اور ان میں سے بہت سی چیزوں کو ہم نہیں جانتے اور زمین جو کچھ اس کے اوپر اور جو کچھ اس کے اندر ہے جیسے پانی ، نباتات ، جمادات ، ( معادن ) وغیرہ جو کہ زندگی کیلئے مفید ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے جیسے گیس وغیرہ جو ہم پہچانتے ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو نہیں پہچانتے یہ تمام چیزیںوہی ہیںجوان تینوں انسان، حیوان اور جن کی ضروریات زندگی میں شامل ہیں حیوانوں کو جن و انس سے پہلے اس لئے پیداکیا کہ انسان اور جن اس کی احتیاج رکھتے ہیں اور جنات کو انسان سے پہلے پیدا کیا جیسا کہ خود ہی حضرت آدم کی خلقت سے متعلق داستان میں ارشاد فرماتا ہے :

حضرت آدم کی خلقت کے بعدتمام ملائکہ کو ''کہ ابلیس بھی انہیں میں سے تھا ''حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کریں پھر انسان کو تمام اصناف مخلوقات کے بعد پیدا کیا۔

یہ خدا وند عالم کی چہار گانہ اصناف مخلوقات کی داستان تھی کہ جس کا قرآن کریم کی آیات اور روایات سے بمقتضائے ترتیب ہم نے استنباط کیا، لیکن ان کی ہدایت کی قسمیں اس ترتیب سے ہیں:

جب خدا ''رب العالمین'' نے فرشتوں، جن و انس کو عقل و ادراک بخشا تو ان کی ہدایت بھی دو

طرح سے قرار دی، تعلیم بالواسطہ، تعلیم بلا واسطہ جیسا کہ فرشتوں کی زبانی حضرت آدم کی تخلیق کے بارے میں حکایت کرتا ہے( سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا ) تو پاک و پاکیزہ ہے ہم تو تیرے دئے ہوئے علم کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ہیں؛ اور صنف انسان کے بارے میں فرمایا: ( علم آدم الاسمائ

____________________

(۱)معجم المفہرس قرآن، میں مادہ''ملک''ملاحظہ ہو۔(۲)عرش سے مراد وہ جگہ و مقام ہے جہاں پر الوہیت اور ربوبیت سے مربوط امور پر مامور خدا کے فرشتہ رہا کرتے تھے کہ جو، پانی کے اوپر زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے رہتے تھے ۔(۳)ھود۷

۱۶۷

کلہا).خدا نے تمام اسماء ( اسرارخلقت ) آدم کو تعلیم دئے اور فرمایا:( علم الانسان ما لم یعلم ) جو انسان نہیں جانتا تھا اسے تعلیم دی۔ اور جنوںکی داستان میں جو کہ خود انہیں کی بیان کردہ ہے اس طرح ہے کہ ان لوگوں نے قرآن سیکھا اور اس سے ہدایت یافتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب رسول خدا سے قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔

چونکہ خدا وند سبحان نے صنف حیوان اور زمین پر چلنے والوں کو تھوڑا سا شعور و ادراک بخشا ہے لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہے اور چونکہ ان کے علاوہ تمام مخلوقات جیسے ستارے، سیارے، جمادات، حتی کہ ایٹم ( e Atom ) وغیرہ کہ ان کوشمہ بھربھی حیات اور ادراک نہیں دیا ہے لہٰذاان کی ہدایت ، ہدایت تسخیری ہے، جیسا کہ تفصیل سے قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔

انسان کی ہدایت کے لئے جو نظام خدا نے بنایا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے اور ہم انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں اس کی تحقیق کریں گے۔

۱۶۸

۵

دین اور اسلام

الف۔ دین کے معنی

ب۔ اسلام اور مسلمان

ج۔ مومن اور منافق

د۔ اسلام تمام آسمانی شریعتوں کا نام ہے

ھ۔ شرائع میں تحریف اور تبدیلی اور ان کے اسماء میں تغیر:

۱۔یہود و نصاریٰ نے کتاب خدا اور اس کے دین میں تحریف کی

۲۔ یہود و نصاریٰ نے دین کانام بھی بدل ڈالا

۳۔ تحریف کا سر چشمہ

و۔ انسان کی فطرت سے احکام اسلامی کا سازگار ہونا

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوء ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

ح۔ شریعت اسلام میں جن و انس شریک ہیں

الف۔ دین

لفظ''دین'' اسلامی شریعت میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے :

۱ ۔جزا، کیونکہ ، یوم الدین قرآن میں جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد روز جزا ہے ، اسی طرح سورۂ فاتحہ( الحمد) میں مالک یوم الدین( ۱ ) آیا ہے یعنی روز جزا کا مالک۔

۲۔ شریعت جس میں اطاعت و تسلیم پائی جاتی ہو، شریعت اسلامی میں زیادہ تر دین کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے ، جیسے خدا وند عالم کا یوسف اور ان کے بھائیوں کے بارے میں قول:( ماکان لیأخذ أخاه فی دین الملک ) ( یوسف) بادشاہی قانون و شریعت کے مطابق اپنے بھائی کو گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔( ۲ ) اور سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین)

خدا وند سبحان نے اطاعت اور تسلیم کے ساتھ تمہارے لئے شریعت کا انتخاب کیا ہے ۔( ۳ )

____________________

(۱) فاتحہ۴(۲)یوسف۷۶(۳)بقرہ۱۳۲

۱۶۹

ب۔ اسلام اور مسلمان

اسلام ؛ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کے احکام ا و رشریعتوں کے سامنے سر جھکانا۔

خدا وند سبحان نے فرمایا:

( ان الدین عند الله الاسلام ) ( ۱ )

یعنی خدا کے نزدیک دین اسلام ہے ۔ اور مسلمان وہ شخص ہے جو خد اور اس کے دین کے سامنے سراپاسر تسلیم خم کر دے۔

اس اعتبارسے حضرت آدم کے زمانے میں اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کی شریعت کے مطابق رفتار کرنا ہے اور اس زمانے میں مسلمان وہ تھا جو خدا اور آدم پر نازل شدہ شریعت کے سامنیسراپا تسلیم تھا؛ یہ سراپا تسلیم ہونا حضرت آدم کے سامنے تسلیم ہونے کو بھی شامل ہے جو کہ خدا کے برگزیدہ اور اپنے زمانے کی شریعت کے بھی حامل تھے۔

اسلام؛ نوح کے زمانے میں بھی خد ا کے سامنے تسلیم ہونا ، ان کی شریعت کا پاس رکھنا ، حضرت نوح کی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی کے عنوان سے پیروی کرنا اور گز شتہ شریعت آدم پر ایمان لانا تھا۔ اور مسلمان وہ تھا جو تمام بتائی گئی باتوں پر ایمان رکھتا تھا، حضرت ابراہیم کے زمانے میں بھی اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونے ہی کے معنی میں تھا اور حضرت نوح کی شریعت پر عمل کرنے اور حضرت ابراہیم کی بعنوان بنی مرسل پیروی کرنے نیز آدم تک گز شتہ انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا ہی تھا۔

اور حضرت موسی اور حضرت عیسیٰ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔

نیز حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی وہی اسلام کا گزشتہ مفہوم ہے اور

____________________

(۱)آل عمران۱۹

۱۷۰

اس کی حد زبان سے اقرار شہادتین ''اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ'' تھا۔

اس زبانی اقرار کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ضروریات دین خواہ عقائد ہوںیا احکام یا گز شتہ انبیاء کی نبوتیں کہ جن کا ذکرقرآن کریم میں ہوا ہے ان میں سے کسی کاا نکار نہ ہو، یعنی جو چیز تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اور اسے اسلام میں شمار کرتے ہیںاس کا انکارنہیں کرنا چاہئے جیسے نماز، روزہ اور حج کا وجوب یا شراب نوشی، سود کھانا،محرموں سے شادی بیاہ کرنا وغیرہ کی حرمت یا اس جیسی اور چیزیں کہ جن کے حکم سے تمام مسلمان واقف ہیں،ان کا کبھی انکار نہیں کرنا چاہئے۔

ج۔ مومن اور منافق

اول : مومن

مومن وہ ہے جو شہادتین زبان پر جاری کرے نیز اسلام کے عقائد پر قلبی ایمان بھی رکھتا ہو۔

اور اس کے احکام پر عمل کرے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو جائے تو اسے گناہ سمجھے اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و انابت اور تضرع و زاری کرتے ہوئے اپنے اوپر طلب بخشش و مغفرت کو واجب سمجھے۔

مومن اور مسلم کے درمیان فرق قیامت کے دن واضح ہوگا لیکن دنیا میں دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے احکام میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا وند منان نے سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا:

( قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا و لما یدخل الاِیْمان فی قلوبکم... )

صحرا نشینوں نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں ، تو ان سے کہو: تم لوگ ایمان نہیں لائے ہو بلکہ کہو اسلام لائے ہیں اور ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے( ۱ )

دوسرے ۔ منافق

الف۔ نفاق لغت میں : نفاق لغت میں باہر جانے کو کہتے ہیں، نافق الیربوع، یعنی چوہا

اپنے ٹھکانے یعنی بل کے مخفی دروازہ پر سرمار کر سوراخ سے باہر نکل گیا، یہ اس لئے ہے کہ ایک قسم کاچوہا جس کے دونوں ہاتھ چھوٹے اور پائوں لمبے ہوتے ہیں وہ اپنے بل میں ہمیشہ دودروازے رکھتا ہے ایک داخل ہونے کا آشکار دروازہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہوتا؛ایک نکلنے کا مخفی اور پوشیدہ دروازہ ،وہ باہر نکلنے والے دروازہ کو اس طرح مہارت اور چالاکی سے پوشیدہ رکھتا ہے کہ جیسے ہی داخل ہونے والے دروازہ سے دشمن آئے؛

____________________

(۱)حجرات۱۴

۱۷۱

آہٹ ملتے ہی مخفی دروازے پر سرمار کر اس سے نکل کر فرار کر جائے تواس وقت کہتے ہیں: ''نافق الیربوع''۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں نفاق: اسلامی اصطلاح میں نفاق، ظاہر ی عمل اور باطنی کفر ہے ۔ نافق الرجل نفاقاًیعنی اسلام کا اظہار کرکے اس پر عمل کیا اور اپنے کفر کو پنہاں اور پوشیدہ رکھا، لہٰذا وہ منافق ہے خدا وند عالم سورۂ منافقون میں فرماتا ہے :

( اذا جاء ک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله و الله یعلم انک لرسوله و الله یشهد ان المنافقین لکاٰذبون٭ اتخذوا أَیمانهم جنة... )

جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم شہادت و گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں،خدا وند عالم جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافقین ( اپنے دعوے میں ) جھوٹے ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے۔

یعنی ان لوگوں نے اپنی قسموں کو اس طرح اپنے چھپانے کا پردہ بنا رکھا ہے اور اپنے نفاق کو اپنی جھوٹی قسموں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور خدا وند عالم ان کے گفتار کی نادرستگی (جھوٹے دعوے )کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ظاہر کرتا ہے ۔( ۱ )

سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:

( ان المنافقین یخادعون الله و هو خادعهم و اذا قاموا الیٰ الصلٰوة قاموا کسالیٰ یرآء ون الناس... )

منافقین خدا سے دھوکہ بازی کرتے ہیں، جبکہ وہ خود ہی ان کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کسالت سے اٹھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ریا کرتے ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)منافقون۱۔۲

(۲)نسائ۱۴۲

۱۷۲

د۔ اسلام تمام شریعتوںکا نام ہے

اسلام کا نام قرآن کریم میں گز شتہ امتوں کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے ، خدا وند عالم سورۂ یونس میں فرماتا ہے:

نوح نے اپنی قوم سے کہا:

( فأِن تولیتم فما سئلتکم من اجر ان اجری اِ لَّاعلیٰ الله و أمرت ان اکون من المسلمین )

اگر میری دعوت سے روگردانی کروگے تومیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا؛ میرا اجر تو خدا پر ہے ، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان رہوں۔( ۱ )

ابراہیم کے بارے میں فرمایا:

( ماکان ابراهیم یهودیاً ولا نصرانیاً ولکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین )

ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ خالص موحد ( توحید پرست) اور مسلمان تھے وہ کبھی مشرکوں میں سے نہیں تھے۔( ۲ )

۲۔( ووصیٰ بها ابراهیم بنیه و یعقوب یا بنیَّ ان الله اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون )

ابرہیم و یعقوب نے اپنے فرزندوںکو اسلام کی وصیت کی اور کہا: اے میرے بیٹو! خدا وند عالم نے تمہارے لئے دین کا انتخاب کیا ہے اور تم دنیا سے جائو تو اسلام کے آئین کے ساتھ۔( ۳ )

۳۔( ما جعل علیکم فی الدین من حرجٍ ملة ابیکم ابراهیم هو سما کم المسلمین من قبل )

____________________

(۱) بقرہ۱۳۲

(۲) حج۷۸

(۳) ذاریات۳۵۔۳۶

۱۷۳

خدا وند عالم نے اس دین میں جو کہ تمہارے باپ کا دین ہے کسی قسم کی سختی اور حرج نہیں قرار دیا ہے اس نے تمہیں پہلے بھی مسلمان کے نام سے یاد کیا ہے۔( ۱ )

سورۂ ذاریات میں قوم لوط کے بارے میں فرمایا:

( فأَخرجنا من کان فیها من المؤمنین ٭ فما وجدنا فیها غیر بیت من المسلمین )

ہم نے اس شہر میں موجود مومنین کو باہر کیا،لیکن اس میں ایک مسلمان گھرانے کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔( ۲ )

جناب موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے : انہوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم ان کنتم آمنتم بالله فعلیه توکلوا ان کنتم مسلمین ) ( ۳ )

اے میری قوم! اگر تم لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر توکل اور بھرو سہ کرو اگر مسلمان ہو۔

اورسورۂ اعراف میں فرعونی ساحروں کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

خدا وندا! ہمیں صبرو استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔( ۴ )

فرعون کی داستان سے متعلق سورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( حتی اذا ادرکه الغرق قال آمنت انه لا الٰه الا الذی آمنت به بنو اسرائیل ٭ و انا من المسلمین )

جب ڈوبنے لگا توکہا: میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔( ۵ )

سلیمان نبی کا ملکہ ٔسبا کے نام خطلکھنے کے بارے میں سورۂ نمل میں ذکر ہوا ۔

( انه من سلیمان و انه بسم الله الرحمن الرحیم٭ الا تعلو علی و أْتونی مسلمین )

یہ سلیمان کا خط ہے جو اس طرح ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے، میری یہ نسبت فوقیت اور برتری کا تصور نہ کرو اور میری طرف مسلمان ہو کر آجائو۔( ۶ )

نیز اس سورہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱) حج۷۸(۲) ذاریات۳۵۔۳۶(۳) یونس۸۴(۴) اعراف۱۲۶(۵)یونس۹۰.(۶)نمل۳۰۔۳۱.

۱۷۴

( یا ایها الملاء ایکم یأ تینی بعرشها قبل ان یأتونی مسلمین )

اے گروہ!(اشراف سلطنت) تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس حاضرکرے گا ان کے میرے پاس مسلمان ہو کر آنے سے پہلے۔( ۱ )

سورۂ مائدہ میں عیسیٰ کے حواریوں کے بارے میں فرماتا ہے :

( واذا اوحیت الیٰ الحواریین ان آمنوا بی و برسولی قالوا آمنا و اشهد بأَِنا مسلمون )

جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے لہٰذا تو گواہی دے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۲ )

سورۂ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے :

( فلمّا احس عیسیٰ منهم الکفرقال من انصاری الیٰ الله قال الحواریون نحن انصار الله آمنا بالله واشهد بأِنا مسلمون )

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان میں کفر محسوس کیا تو کہا: خدا کے واسطے میرے انصار کون لوگ ہیں؟

حواریوں نے کہا: ہم خدا کے انصار ہیں؛ ہم خدا پر ایمان لائے، آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۳ )

یہ اصطلاح گز شتہ امتوں سے متعلق قرآن کریم میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسرے اسلامی مدارک میں بھی ان کے واقعات کے ذکر کے وقت آئی ہے مثال کے طور پر ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نوح کے کشتی سے باہر آنے کاذکر کرنے کے بعد کہا : '' نوح کے آباء و اجداد حضرت آدم تک سب کے سب دین اسلام کے پابند تھے اس کے بعد روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جناب آدم ونوح کے درمیان دس قرن کا فاصلہ تھا اس طولانی فاصلے میں سب کے سب اسلام پر تھے؛ اور اس نے ابن عباس کی روایت کے ذیل میں ذکرکیاہے کہ آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کشتی سے باہر آئے اور ایک شہر میں سکونت اختیار کی کہا ہے: ان کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ افراد تک پہنچ گئی تھی اور سارے کے سارے دین اسلام کے پابند تھے۔( ۴ )

____________________

(۱)نمل۳۸.(۲)مائدہ۱۱۱.(۳)ال عمران۵۲.(۴)طبقات ابن سعد طبع یورپ، ج۱،ص۱۸، ابن کثیر نے اپنی تاریخ ج۱، ص ۱۰۱ پر یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ عشرہ قرون کلھم علیٰ الاسلام.

۱۷۵

ھ۔ گز شتہ شریعتوں اور ان کے اسماء میں تحریف

گز شتہ امتوں نے جس طرح رب العالمین کی اصل شریعت میں تحریف کر دی اسی طرح ان کے اسماء بھی تبدیل کر دئے ہیں ، اس لئے کہ بعض ادیان کا اسلام کے علاوہ نام پر نام رکھنا جیسے یہودیت و نصرانیت و غیرہ بھی ایک تحریف ہے جو دین کے نام میں ایک تحریف شمار کی جاتی ہے جس کی وضاحت اس طرح ہے:

الف۔ یہود کی نام گز اری

یہود یروشلم کے مغربی جنوب میں واقع صہیون نامی پہاڑ کے دامن میں شہر یہوداسے منسوب نام ہے کہ جو جناب داؤد کی حکومت کا پایۂ تخت تھا، انہوں نے اس تابوت کیلئے ایک خاص عمارت تعمیر کی، جس میں توریت اور بنی اسرائیل کی تمام میراث تھی بنی اسرائیل کے بادشاہ وہیں دفن ہوئے ہیں۔( ۱ )

ب۔ نصاریٰ کی وجہ تسمیہ

جلیل نامی علاقے میں جہاں حضرت عیسیٰ نے اپنا عہد طفولیت گز ارا ہے ایک ناصرہ نامی شہر ہے اسی سے نصرانی منسوب ہیں، حضرت عیسی اپنے زمانے میں ''عیسائے ناصری'' سے مشہور تھے ان کے شاگرد بھی اسی وجہ سے ناصری مشہور ہوگئے۔( ۲ )

مسیحیت بھی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے منسوب ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو ۱ ۴ ء سے مسیحی کہا جانے لگا اور اس لقب سے ان کی اہانت اور مذمت کا ارادہ کرتے تھے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس مادہ ''یہود'' یہودا'' صیہون۔

(۲)قاموس کتاب مقدس، مادہ ناصرہ و ناصری

۱۷۶

ج۔ شریعت کی تحریف

ہم اس وجہ سے کہ ''الوہیت'' اور ''ربوبیت'' کی معرفت اور شناخت؛ دین کے احکام اور عقائد کی شناخت اور معرفت کی بنیادواساس ہے لہٰذایہود و نصاریٰ کے ذریعہ شریعت حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ کی تحریف کی کیفیت کے بیان میں ہوا ہے یہاں پرہم صرف ان کے ذریعہ عقیدۂ ''الوہیت''اور ''ربوبیت''میں تحریف کے ذکرپر اکتفا کر تے ہیں۔

الف۔ شریعت موسیٰ میں یہود کے ذریعہ تحریف

جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ توریت کے رسالہ ٔ پیدائش ( سفر تکوین ) سے دوسرے باب کا خلاصہ ہے اور تیسرا باب پورا جوکہ اصل عبرانی ، کلدانی اور یونانی زبان سے فارسی زبان میں ۱۹۳۲ئ میں ترجمہ ہو کر دار السلطنت لندن میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔

پروردگار خالق نے عدن میں ایک باغ خلق کیا اور اس کے اندر چار نہریں جاری کیں فرات اور جیحون بھی انہیں میں سے ہیں اور اس باغ میں درخت لگائے؛ اور ان کے درمیان زندگی کا درخت اور اچھے برے میں تمیز کرنے والا درخت لگایا اور آدم کو وہان جگہ دی، پروردگار خالق نے آدم سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ان درختوں میں سے جو چاہو کھائو، لیکن خوب و بد کے درمیان فرق کرنے والے درخت سے کچھ نہیں کھانا، ا س لئے کہ جس دن اس سے کھا لوگے سختی کے ساتھ مر جا ؤ گے اس کے بعد آدم پرنیندکا غلبہ ہوااور ان کی ایک پسلی سے ان کی بیوی حوا کو پیدا کیا،آدم و حوا دونوں ہی عریان و برہنہ تھے اس سے شرمسار نہیں ہوئے ۔

تیسرا باب

سانپ تمام جنگلی جانوروںمیں جسے خدا نے بنایا تھا سب سے زیادہ ہوشیار اور چالاک تھااس نے عورت سے کہا: کیا حقیقت میں خدا نے کہا ہے کہ باغ کے سارے درختوں سے نہ کھائو ، عورت نے سانپ سے کہا: ہم باغ کے درختوں کے میوے کھاتے ہیں لیکن اس درخت کے میوہ سے استفادہ نہیں کرتے جو باغ کے وسط میں واقع ہے خدا نے کہا ہے اس سے نہ کھانا اور اسے لمس نہ کرنا کہیں مر نہ جائو، سانپ نے عورت سے کہا یقینا نہیں مروگے بلکہ خدا یہ جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی؛ اور خدا کی طرح نیک و بد کے عارف بن جائو گے جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ درخت کھانے کے اعتبار سے بہت اچھا اور دیکھنے کے لحاظ سے دلچسپ؛ اور جاذب نظر اور دانش افزا ہے تواس نے اس کا پھل توڑ کر خود بھی کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلا دیا اس وقت ان دونوں کی نگاہیںکھل گئیں تو خود کو برہنہ دیکھا تو انجیر کے پتوں کو سل کراپنے لئے لباس بنایا اس وقت خدا کی آواز سنی جو اس وقت باغ میں نسیم نہار کے جھونکے کے وقت ٹہل رہا تھا آدم اور ان کی بیوی نے اپنے آپ کوباغ کے درمیان خداسے پوشیدہ کر لیا،خدا نے آدم کو آواز دی اور کہا کہاں ہو؟

۱۷۷