عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف33%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92437 / ڈاؤنلوڈ: 6217
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

کظم اور غیظ کے الفاظ میں لفظ ” غیظ“ کے لغوی معنی شدید غصہ، اور غیر معمولی روحی ہیجان اور اشتعال ہیں اور اسکی وجہ روحانی اذیت یا گزند پہنچنا ہوتی ہے۔

لغت میں ” کظم“ کے معنی ہیں پانی سے بھری ہوئی مشک کا منھ بند کرناکنایتاً یہ لفظ ایسے افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو شدید غیظ و غضب سے بھرے ہوئے اور غصے کی شدت سے پھٹ پڑنے کے نزدیک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی شدید ردِعمل ظاہر ہواچاہتا ہےلیکن ان میں پایا جانے والا ضبط ِنفس مضبوط تسمے کی مانند غصے سے بھری ان کی مشک کا منھ بند کردیتا ہے اور انہیں پھٹ پڑنے سے باز رکھتا ہےلہٰذا کظم غیظ اور غصے کا ضبط کرلینا، حلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ہے، جو غصے سے پھٹ پڑنے اور بے جاتندی کے سدباب کا موجب ہے اور انسان کو نامعقول تندی اور ضرررساں اور کبھی کبھی خطرناک ثابت ہونے والے جوش وخروش سے نجات دیتا ہے۔

البتہ اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر حلم اور کظم غیظ گناہگار اور مجرم شخص کی جرات و جسارت کی وجہ بنے یا دوسرے مذموم نتائج کا سبب بن جائے تو بے جا اور منفی ہوجاتا ہے۔ مثلاً پیشہ ورمجرموں کے مقابل حلم کا اظہار اور غصے کو پی جانا، یا ایسے منافقین، کفار اور بے دین افراد سے رعایت اور ان سے چشم پوشی درست نہیں جو اسلام و مسلمین کونقصان پہنچانے یا معاشرے میں فساد برپا کرنے میں مشغول ہوں۔

۲۱

قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت

زیر بحث آیت کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں اور کئی آیات ہیں جن میں حلم، ضبط ِنفس، متانت اور بردباری کی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً:

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ

تم برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو، اس طرح وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے تمہارا مخلص دوست ہو۔ سورئہ فصلت۴۱۔ آیت ۳۴

یہ آیت حلم اور ضبط ِنفس کے ایک خوبصورت اثر کی جانب اشارہ کررہی ہے اور اس بات کی تلقین پر مشتمل ہے کہ دوسروں کی ناگوار اور رنجیدہ کردینے والی باتوں کے جواب میں حسنِ سلوک، اظہارِ محبت اور اچھے ردِ عمل کے ذریعے اپنی زندگی کو آرام دہ اور آسودہ رکھیےکیونکہ جب آپ اس انداز سے جواب دیں گے تو دشمنیاں اورعداوتیں، دوستی اور محبت میں بدل جائیں گی، فتنہ و فساد کی آگ کے بھڑکتے شعلے سرد پڑجائیں گے اور معاشرے میں یکجہتی، مہرومحبت اور برادری کا چلن عام ہوگا۔

علی ابن ابراہیم نے اپنی تفسیر میںاس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ: خداوند ِعالم نے اسی آیت پر اپنے پیغمبر کی تربیت فرمائی اور لوگوں کے ساتھ پیغمبر اسلام کے طرزِ عمل اور سلوک و برتائو کی بنیاد یہی حکم تھا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شاگرد ” حفض“ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ تمام امور میں صبروتحمل اور متانت و بردباری کا مظاہرہ کرویہ بات ذہن نشین رکھو کہ خداوند ِعالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت کے لیے منتخب کیا اور انہیں صبرو تحمل کی ہدایت کی (اسکے بعد حضرت نے مذکورہ آیت کی تلاوت کی) اور فرمایا:پیغمبرؐ نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اس کے ذریعے بلند اور عظیم الشان مقاصد و نتائج حاصل کیے۔

۲۲

شیخ صدو ق علیہ الرحمہ کی ” امالی“ میں روایت ہے کہ: ایک شخص رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیںمیں صلہ رحم کرتا ہوں لیکن وہ قطع رحم کا مظاہرہ کرتے ہیںپیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت پڑھی اور اسے ہدایت کی کہ وہ بردباری، صبر اور تحمل کے ساتھ (ان کی) بدسلوکی کا نیکی سے جواب دے۔

اس شخص نے صبروتحمل اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، پیغمبر اسلام نے اس کے اشعار کی تعریف کی اور فرمایا:بعض اشعار حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض اپنے بیانات میں جادوئی اثررکھتے ہیں۔ (اقتباس از تفسیر نور الثقلین ج ۴ص ۵۴۹، ۵۵۰)

جیسا کہ ذکر ہوا، قرآنِ کریم میں پندرہ مقامات پر اللہ رب العزت کو ” حلیم“ کی صفت سے یاد کیا گیا ہےپس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ (صحیح اور کامل طور پر) اس صفت کے حامل ہیں وہ خدا کی اس صفت کے مظہر ہیں اور یہ بات حلم اور ضبط ِنفس کی انتہائی اہمیت کی علامت ہے۔

خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں اپنے عظیم المرتبت پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس وجہ سے تعریف و تمجید کی کہ وہ ” حلم“ جیسی عالی صفت کے حامل تھے اور فرمایا ہے کہ:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ

بے شک ابراہیم بہت ہی حلیم اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھےسورئہ ہود۱۱آیت ۷۵

۲۳

اور حضرت ابراہیم کو ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ

پھر ہم نے انہیں ایک حلیم فرزند کی بشارت دیسورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۱

یہاں سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ اور بھی دوسرے عالی فضائل اور انسانی خصائل کے مالک تھے، لیکن اس کے باوجود ان دونوں آیات میں صرف ان کی صفت ” حلم“ کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیت میں پیغمبر اسلاؐم کو حلم اور ملائمت کی ہدایت کی گئی ہےارشادِ رب العزت ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ

یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سےبھاگ کھڑے ہوتےسورئہ آل عمران۳آیت ۱۵۹

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت

پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ نے جابجا اپنے کردار اور اقوال کے ذریعے تلخ و ناگوار حوادث کے مقابل حلم اور ضبط ِنفس کی تاکید اور تلقین کی ہےاس بارے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:کمال العلم الحلم، وکمال الحلم کثرة الاحتمال والکظم (حلم کمالِ علم ہے اور کمالِ حلم، کثرت سے تحمل اور بکثرت غصے کو ضبط کرنا ہےغرالحکم ، نقل از میزان الحکم ۃ۔ ج ۲۔ ص۵۱۶)

۲۴

آپؑ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:جمال الرجل حلمه، انک مقوم بادبک فزیّنه بالحلم (انسان کی زیبائی، اس کا حلم ہےاے انسان! تو اپنے مودب ہونے سے پرکھاجاتا ہے، تیری زینت حلم کے ذریعے فراہم ہوتی ہےحوالہ سابق۔ ص ۵۱۳)

آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

الحلم یطفیٔ نارالغضب والحدّة تو جّج احراقه

حلم، غصے کی آگ کو بجھاتا ہے لیکن تندی اور گرم مزاجی، اس آگ کے شعلوں کو بھڑکاتی ہےحوالہ سابق۔ ص۵۱۸

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الحلم سراج الله

حلم و ضبط ِنفس خداوند ِعالم کا روشن چراغ ہے بحارالانوار ج۷۱ص۴۲۲

یہاں ہم نے اس موضوع پر موجود سیکڑوں احادیث میں سے صرف چند احادیث بطورِ مثال پیش کی ہیں ان میں سے ہر حدیث میں مختلف تعبیروں کے ذریعے ” حلم“ کی صفت کو سراہا گیا ہے اور تحمل اور ضبط ِنفس کی خصوصیت کے حامل انسان کی تعریف کی گئی ہے۔

پیغمبر اسلام، ائمہ معصومین، اولیائے الٰہی اور علمائے ربانی کی زندگیوں میں یہ بات کثرت کے ساتھ نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مہر و محبت آمیز طرزِ عمل کے ذریعے صفت ِحلم کا مظاہرہ کرتے تھے۔

۲۵

انس بن مالک کہتے ہیں: میں پیغمبر اسلامؐ کی خدمت ِاقدس میں موجود تھاآپؐ کے کاندھوں پر ایک ایسی عباپڑی ہوئی تھی جس کے کنارے سخت تھےاسی اثنا میں ایک بدوعرب آنحضرتؐ کے نزدیک آیا اور آپؐ کی اس عبا کو پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں نے آنحضرتؐ کی گردن زخمی کردیپھر اسکے بعد گستاخی سے بولا: اے محمد! تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اسے میرے ان اونٹوں پر لاد دو، تاکہ میں اسے لے جائوں کیونکہ یہ نہ تو تمہارا مال ہے نہ تمہارے والد کا۔

آنحضرت ؐنے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: یہ مال، خدا کامال ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔

پھر مزید فرمایا: اے اعرابی! جو زخم تم نے مجھے لگایا ہے، کیا ویسا ہی زخم میں تمہیں لگائوں؟

اس بدونے جواب دیا:نہیں۔

آنحضرت ؐنے فرمایا کیوں؟

اس نے کہا؟ کیونکہ آپ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتےبلکہ اسے اچھے انداز سے دور کرتے ہیںپیغمبر اسلامؐ اسکی یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجوروں سے لاد کر اسکے حوالے کردینے کا حکم دیا۔ (کحل البصرص۱۴۵)

فتح مکہ کے موقع پر، بہت سے مشرکین کو سپاہِ اسلام نے قیدی بنالیاان لوگوں کو یقین تھا کہ آنحضرت ؐانہیں قتل کردیں گے اور ان کے مال و اسباب کوتباہ و برباد کردیں گےاسی اثنا میں لشکر اسلام کے ایک پرچمدار ” سعد“ کی صدابلند ہوئی:الیوم یوم الملحمة، الیوم تسبی الحرمة، الیوم اذّل الله فریشا (آج انتقام کا دن ہے، آج دشمنوں کے مال و اسباب عزت و آبرو کی بربادی کا دن ہے، آج قریش کی ذلت و خواری کا دن ہے)

۲۶

آنحضرت ؐنے جب یہ نعرہ سناتو اسے ایک محبت آمیز نعرے سے بدل دیا اور فرمایا:الیوم یوم المرحمة، الیوم اعزّفریشاً (آج رحمت کا دن ہے، آج قریش کی عزت کا دن ہے ) اور پھر آپؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا:پرچم ہاتھ میں لو اور مکہ میں داخل ہوجائو۔

اسکے بعد پیغمبر اسلام نے قریش کو مخاطب کرکے فرمایا:اذهبوا فانتم الطّفاء (جائو، تم سب آزاد ہواقتباس از بحارالانوار۔ ج ۲۱ص۱۰۹اور۱۰۵)

ایک دوسری روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ؐنے ان لوگوں سے فرمایا: تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم آپ ؐسے اچھے طرزِ عمل کی توقع رکھتے ہیں، آپؐ ہمارے کرم پرور بھائی اور ہمارے کریم النفس بھائی کے فرزند ہیںپیغمبر اسلام نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ:لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (آج تم پر کوئی عتاب نہ ہوگا سورہ یوسف۱۲آیت۹۲)جائو تم آزاد ہو(کحل البصر۔ ص۱۴۶)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حیات کے تذکرے میں آیا ہے:آپؑ نے اپنے عہد ِخلافت میں ایک روز لوگوں سے فرمایا:جو سوال تمھارے ذہن میں ہو مجھ سے پوچھ لو۔ زیر آسمان چیزوں کے متعلق ہر سوال کا جواب میں تمہیں دوں گا اور میرے بعد یہ دعوی سوائے جھوٹے اور دروغ گوکے کوئی اور نہیں کرے گا۔

اس موقع پر مجلس کے ایک گوشے سے ایک بلند قامت شخص اٹھااس کی گردن میں ایک کتاب لٹک رہی تھییوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی یہودی عرب ہےوہ بلند آواز میں انتہائی گستاخی کے ساتھ حضرت علی ؑکو مخاطب کرکے بولا: اے اس چیز کے دعوے دار جسے تم نہیں جانتے اور بے جاحد سے تجاوز کرنے والے انسان! میں تم سے ایسے سوالات کروں گا جن کے جواب تم نہ دے سکو گے۔

۲۷

اس شخص کی یہ گستاخی دیکھ کر حضرت علی ؑکے اصحاب اورشیعوں میں سے کچھ لوگ اسے سبق سکھانے کے لیے اٹھےیہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے سختی کے ساتھ ان لوگوں کو اس عمل سے روکا اور فرمایا:اسے کہنے دو، جلد بازی، تیز مزاجی اور غصے کو خود سے دور رکھو، ان اعمال سے بندگانِ خدا پر خدا کی حجتیں تمام نہیں ہوتیں اور براہین الٰہی آشکار انہیں ہوتے۔

اس کے بعد آپ ؑنے انتہائی تحمل اور بزرگواری کے ساتھ اس شخص کی طرف رخ کیا اور فرمایا: جو سوال تمھارے ذہن میں ہے اسے پوچھواس شخص نے اپنے سوال پیش کیے اور حضرت ؑ نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیئے۔

یہ طرزِ عمل دیکھ کر اور سوالات کے تسلی بخش جواب پاکر وہ شخص حضرت علیؑ کے حلم اور علم کا شیفتہ ہوگیا اور آپؑ کی مدح میں چند اشعار پڑھے اور امیر المومنینؑ کو صاحب ِعلم، گمراہوں کے راہبر، اور کمال و انسانی فضائل میں جوانمردقرار دیا(بحارالانوارج۷۱ص۴۲۴)

اسی طرح ایک اور موقع پر آپؑ کی حیات ِمبارکہ میں تحریر ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آپؑ کی موجودگی میں آپؑ کے غلام قنبر کو سخت وسست کہاجب قنبر نے بھی اسے دوبدو جواب دینا چاہا تو امیر المومنینؑ نے انہیں صدادی اور فرمایا: مھلاً یا قنبر، دع شاتمک۔۔۔ (اے قنبر آرام سے رہو، دشنام دینے والے کو اپنی بے اعتنائی سے بخش دو، تاکہ اپنے پروردگار کو خوش، شیطان کو غضبناک اور اپنے دشمن کو عذاب میں مبتلا کرو (کیونکہ بے اعتنائی سے بڑھ کر اسکے لیے کوئی عذاب نہیں) اس خدا کی قسم، جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسان کو خلق کیا ہے، مومن اپنے پروردگارکو جس قدر ” حلم“ سے خوش کرتا ہے کسی اور چیز سے خوش نہیںکرتا اور جتنا حلم اور ضبط ِنفس سے شیطان کو غضبناک کرتا ہے اتنا کسی اور چیز سے اسے غضبناک نہیںکرتااحمق اور نادان کو جتنا عذاب سکوت اور خاموشی سے پہنچتا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں پہنچتا(بحار الانوارج۔ ۷۱ص۴۲۴)

۲۸

اس بیان میں حضرت علیؑ کا قسم کھانا، حلم کی غیر معمولی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسرے تمام ائمہؑ کی زندگیوں میں بھی کثرت کے ساتھ اس قسم کا بزرگوارانہ طرزِ عمل نظر آتا ہےاسی طرح ان کے اصحاب، شاگردوں اورعلمائے ربانی کے یہاں بھی یہ روش بکثرت دکھائی دیتی ہے یہاں اختصار کے پیش نظر ہم اسکی مثالوں کے ذکر سے گریز کررہے ہیں۔

امیر المومنینؑ پرہیزگاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں:فحلماء علماء ( یہ لوگ حلیم اور دانا ہوتے ہیں)

نیز فرماتے ہیں:یمزج الحلم بالعلم (ان کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حلم کو علم کے ساتھ ملا دیا ہےنہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۳)

حضرت علی ؑکے ایک بہترین شاگرد اور آپ کی سپاہ کے بے مثل سردار، مالک اشتر، ایک دن بازارِ کوفہ سے گزررہے تھےایک شخص جوان سے واقف نہ تھا اس نے کچھ کچرا اٹھا کر ان پر پھینک دیا اور اپنی اس حرکت پر ہنسنے لگامالک اشتراس سے کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گئےایک دکانداریہ سب کچھ دیکھ رہا تھامالک اشتر کے چلے جانے کے بعد اس نے اس احمق شخص سے کہا: تجھے معلوم ہے یہ محترم ہستی کون تھی؟ یہ حضرت علیؑ کی سپاہ کے جری سردار مالک اشتر تھےیہ سن کر وہ شخص معذرت کی غرض سے ڈرتا کانپتا مالک اشتر کے پیچھے دوڑا اور اس نے دیکھا کہ مالک اشتر مسجد میں نماز میں مشغول ہیںجب انہوں نے نماز تمام کرلی تو وہ شخص ان کے پاس گیا اور معذرت طلب کرنے لگامالک اشتر نے کہا:بخدا میں اِس وقت خدا وند ِعالم سے تیرے لیے بخشش طلب کرنے کی غرض سے ہی مسجد آیا ہوںتاکہ خدا تیرے اخلاق کی اصلاح فرمائے اور تجھے بخش دے۔ (بحارالانوار ج ۴۲۔ ص۱۵۷)

۲۹

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات

حلم کی ایک برکت اور اثر عفوودرگزرہےعفوودرگزر جوانمردوں کی صفات میں سے ہے جس کے ذریعے دوستی کے تعلقات اور باہمی روابط میں استحکام اور مہرومحبت پیدا ہوتی ہے۔

ایسا انسان جس میں حلم کی صفت نہ ہو، اس میں عفوودرگزر کی خصوصیت نہیں ہوسکتییہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم کا حلیم ہونا، اس کی جانب سے عفووبخشش کا موجب ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک خطبے کے آغاز میں فرماتے ہیں:الحمد لله  الذی عظم حلمه فعفا (اس خدا کی حمدوسپاس جس کے حلم کی عظمت اسکے عفوودرگزر کا موجب ہے۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱)

حلم کی ایک اور تاثیر یعنی اس کی وجہ سے دوستوں میں اضافہ ہونے کے بارے میں امیر المومنین فرماتے ہیں:وبالحلم عن السّفبه تکثر الانصار (احمق لوگوں کے مقابل حلم و بردباری کا اظہار انسان کے ساتھیوں میں اضافہ کرتا ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار ۲۲۴)

اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ:الحلم عشیره (حلم خود ایک قبیلے کی مانند ہے(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۔ ۴۱۸)

حلم سے ہمت پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا موجب ہوتا ہےحلم کی اس تاثیر کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:والحلم والا ناة توامان ینتجها علوّ الهمّة (حلم اور بے اعتنائی دو جڑواں مولود ہیں جن سے بلند ہمتی پیدا ہوتی ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۴۶۰)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا: الحلم غطاء ساتر (حلم ڈھانکنے والا پردہ ہے)

۳۰

حلم کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ عزت و شرف کا باعث ہےلہٰذا حضرت علیؑ نے فرمایا ہے: ولاعز کالحلم (کوئی شرف حلم کی مانند نہیں۔ نہج البلاغہ۔ کلمات ِقصار۱۱۳) یعنی حلم اور ضبط نفس خداوند ِعالم کی بارگاہ اور لوگوں کی نظروں میں عزت وشرف کا باعث ہے۔

حلم ہی کے اثرات اور برکات میں سے ایک یہ ہے کہ کاموں میں تقصیر اور کوتاہی کا موجب نہیں ہوتا اور لوگوں کے سامنے ایک پسندیدہ اور خوشگوار زندگی کا باعث بن جاتا ہےبقول امام علی علیہ السلام: ومن حلم لم یفرط فی امرہ، وعاش فی الناس حمیداً (حلیم شخص، اپنے کاموں میں تفریط و کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا اور لوگوں کے درمیان پسندیدہ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔ نہج البلاغہ کلمات ِقصار۳۱)

خداوند ِعالم سے دعا گوہیں کہ ہم ان فرامین اور بزرگانِ دین کے اس طرزِ عمل سے حلم اور ضبط ِنفس کا درس لیں اور اس خصلت کے ذریعے دنیا اور آخرت میں امتیازی مقام حاصل کریں۔

۳۱

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت

قرآنِ مجید میں، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی تیسری خصوصیت اور امتیاز کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا

خدائے رحمان کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو اپنی راتیں پروردگار کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں بسر کرتے ہیں۔ سورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۴

یعنی یہ لوگ خدا سے انتہائی قریبی اور مضبوط عبادی تعلق رکھتے ہیں اسی گہرے تعلق کا نتیجہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے نرم اور گرم بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے رازونیاز میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور سجودوقیام کے ذریعے، اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کے سامنے عاجزی اور انتہائی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بندگانِ خالص خالقِ کائنات کی مخلصانہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کو جلا اور صفا بخشتے ہیں، تعلق باللہ سے پھوٹنے والے صاف و شفاف چشمے کے پانی سے اپنا قلب دھوتے، چمکاتے اور نورانی کرتے ہیں۔

جس وقت غفلت شعار لوگ گہری، میٹھی نیند سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، اور ایک ایسے وقت جب ریا اور خودنمائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس وقت خدا کے یہ مخلص بندے اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر اس سے بھی زیادہ لذت آور شئے، یعنی خدا کے ذکر اور اس کی عظیم بارگاہ میں قیام وسجود میں مشغول ہوجاتے ہیں، خدا کے ساتھ اپنے روحانی اور عرفانی بندھن کو مضبوط ومستحکم کرتے ہیں، توحید کے بے کنار سمندر میںغوطہ ورہوکے، یکتاپرستی کے جام سے مست ہوکر اپنے قلب کو عشقِ حقیقی سے آشنا کرتے ہیں اور اپنی روح کی تشنگی اور پاکیزہ اور تشنہ توحید فطرت کو چشمہ توحید سے سیراب کرتے ہیں۔

۳۲

عبادت اور اس کا فلسفہ

قرآنِ مجید میں خدا کی عبادت اور عبادی رسومات، جیسے نماز، روزے، حج اور دعا وغیرہ کے بارے میں خصوصیت اور اہمیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور دوسری ہر چیز سے پہلے عبادت کو خدا کے خاص بندوں اور ممتاز انسانوں کی اصل اور بنیادی خصوصیات میں سے قرار دیا گیا ہےیہ پاکیزہ صفات افراد عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعمال کو بھی بندگی ٔرب کے طور پر انجام دیتے ہیں اور اپنی تمام سرگرمیوں کو خالص نیت اور ہر قسم کی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کرکے الٰہی رنگ دیتے اور عبادت کے صاف و شفاف پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔

عبادت کا لفظ دراصل لفظ ” عبد“ سے لیا گیا ہے اور عبد ِکامل اس انسان کو کہا جاتا ہے جو اپنے مولا اور مالک کا سراپا اطاعت گزار اور تابعدار ہو، اس کا ارادہ اپنے آقا و مالک کا تابع ہو، اس کی خواہشات اپنے حاکم اور مولا کی تابع ہوں(وہ انسان جو خدا کی بندگی اور عبودیت کا دعویدار ہوتا ہے) خدا کے سامنے اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا، اور اس کی اطاعت میں سستی اور کاہلی کو کسی صورت اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔

واضح الفاظ میں عرض کریں کہ اپنے بندے کو نہایت انعام واکرام سے نوازنے والے معبود، یعنی خدائے یکتا اور بے ہمتا کے سامنے زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں حددرجہ خضوع اور انکساری کا اظہار ” عبادت اور بندگی“ کہلاتا ہے۔

عبودیت، ذات ِخدا کے سامنے انتہائی تسلیم اور تابعداری کا نام ہےعبودیت، ہر میدان میں خداوند ِعالم کی بے قید و شرط، بلاچوں وچرا اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے۔

۳۳

عبودیت ِکامل کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس حقیقی معبود، اس کمالِ مطلق کے سوا کسی اور کو خاطر میں نہ لائے، اسکی دکھائی ہوئی راہ کے سوا کسی اور راستے پر قدم نہ رکھے، سوائے اسکے کسی اور کے ساتھ دل وابستہ نہ کرے، اور سب سے کٹ کر صرف اسی کا ہورہےخدا کے ساتھ اس کی یہ وابستگی اس حد تک پہنچی ہوئی ہونی چاہیے جس کا ذکر مناجات ِشعبانیہ میں آیا ہے، جسے حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے تمام ائمہ تلاوت کیا کرتے تھےاس مناجات کے ایک حصے میں ہے کہ:

لَهِی هَبْ لیِ کَمَال الانِقِطَاعِ اِلیْکَ وَاَنِرْ اَبْصَارَقُلُوبِنَا بِضِیاءِ نَظَرِ هَا اِلَیْکَ، حَتّٰی تَخْرِقَ اَبْصَارَ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ، فَتَصِیلَ اِلیٰ مَعْدِنِ اَلْعَظَمَةِ، وَ تَصِیرَ اَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةُ بِعِزً قُدْسِکَ

بار ِالٰہا! مجھے اپنی مخلوقات سے کٹ جانے اور(تو) اپنی ذات ِپاک سے جڑ جانے کا کمال بخش دے، (خدایا مجھ کو اپنی جانب مکمل انقطاع عطا کر) اور میرے دل کی آنکھ کو اس نور سے روشن فرماجو تیرا مشاہدہ کرسکے تاکہ میری دیدہ بصیرت نور کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی عظمت کے معدن تک جاپہنچے، اور ہماری روحیں تیرے مقامِ قدس کی عزت سے وابستہ ہوجائیں(مناجات شعبانیہ از مفاتیح الجنان)

قرآنِ کریم میں خدا کی عبادت و بندگی کو ہدف ِخلقت اور انسانی کمال کی انتہائی بلندی قرار دیا گیا ہےارشادِ باری ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

ہم نے جن و انس کو صرف اس لیے خلق کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔ سورہ ذاریات ۵۱آیت ۵۶

اس آیت کے مطابق انسان کی خلقت کا مقصد یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں اس طرح خدا کی عبادت کرے جیسا اس کی عبادت کا حق ہے۔

۳۴

اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ خدا وند ِعالم انسانوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہےکیونکہ اگر تمام کائنات کافر ہوجائے، اللہ سبحانہ تعالیٰ سے منھ موڑ لے، تب بھی اللہ رب العزت کے دامنِ کبریائی پر کوئی معمولی سی بھی آنچ نہ آئے گی۔

بلکہ عبادت، دراصل خود انسان کی تعمیر ذات، بہبود اور تکمیل کے لیے ہےانسان صحیح صحیح اور شرائط کے ساتھ انجام دی گئی عبادت کے ذریعے تربیت پاتا ہے، اس کی شخصیت جلاِپاتی اور پاکیزہ ہوتی ہےوہ خدا کی بندگی کے برخلاف ہر قسم کے گناہ اور گمراہی سے دور رہتا ہے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اعلیٰ و ارفع روحانی فضیلتیں حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے کمال کی چوٹی پر جاپہنچتا ہے۔

فلسفہ عبادت کے بارے میں یہ آیت ِقرآن اسی جانب اشارہ کررہی ہے کہ:

يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے آنے والے لوگوں کو خلق کیا ہے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (سورہ بقرہ۲آیت ۲۱)

اس آیت میں فلسفہ عبادت کی وضاحت کی گئی ہے جو پرہیز گاری، پاکیزگی اور روح سے ہرقسم کی آلودگیوں کو دھوڈالنا ہے۔

لہٰذا عبادت کا ایک مقصد انسان کے گناہوں کو دھوڈالنا اور اسے پاک کرنا ہے۔ اس مرحلے کے بعد عبادت کے دوسرے مرحلے یعنی مرحلہ تکامل کی نوبت آتی ہے، جس میں انسان تکامل کے درجات ومراحل طے کرتا ہے۔

۳۵

قرآنِ کریم میں جس مقام پر خدا وند ِعالم نے پیغمبر اسلام کی معراج کو بیان کیا ہے (معراج جو آنحضرت کی عظمت کی انتہائی بلندیوں کی علامت ہے) اسی مقام پر پیغمبر کی عبودیت کے معاملے پر بھی گفتگو فرمائی ہے اور وضاحت کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے تکامل اور ان کی عظمت کی بلندیوں کی بنیاد، آنحضرت کی بندگی ہےارشاد ہوتا ہے:

 سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَه لِنُرِيَه مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّه هُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ

پاک و پاکیزہ ہے وہ (معبود) جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بے شک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورہ بنی اسرائیل ۱۷ آیت ۱)

شب ِمعراج پیغمبر اسلام کے سدرۃ المنتہیٰ پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے قرآنِ کریم کہتا ہے:فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِه مَآ اَوْحٰى ( پھر خدا نے اپنے بندے (پیغمبر) پر جو وحی کرنی چاہی وہ وحی کردیسورہ نجم ۵۳ آیت ۱۰)

یہ دو آیات، پیغمبر اسلام کی معراج اور آپ کی بندگی کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو واضح کرتی ہیںیعنی رسولِ کریم کا خدا کی عبودیت اور اس کی بندگی کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہونا معراج کی بلندیوں تک آپ کی رسائی اور تکامل کا موجب بنا۔

خود پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے کلمات میں بھی مختلف طریقوں سے اس نکتے کو بیان کیا گیا ہےمثال کے طور پر روایت کی گئی ہے کہ معراج کے دوران ایک فرشتہ پیغمبر اسلام کے پاس آیا اور عرض کیا: خدا وند ِعالم نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں آپ کے حوالے کرنے کی غرض سے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو پیغمبر اور عبدرہیں اور اگرچاہیں تو پیغمبر اور بادشاہ بنیں۔

۳۶

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جواب دیا:بَلْ اَکُونُ نَبِیّاً عَبْداً (میں پیغمبری اور عبودیت کو چنتا ہوںبحارالانوار۔ ج ۱۸ ص ۳۸۲)

ائمہ معصومین کے فرامین میں ملتا ہے:اِنَّ الصَّلَا ةَ مِعْراجُ الْمُومِنِ (بے شک نماز، مومن کی معراج اور اسکے عروج و بلندی کا وسیلہ ہےبحارالانوارج ۸۲۔ ص ۳۰۳)

احادیث قدسی میں ایک مقام پر ہے: شب ِمعراج خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

عَبْدی اَطِعْنِی اَجْعَلَکَ مَثَلِی اِذَا قُلْتَ لِشَی ءٍ کُنْ فَیَکُونْ

اے میرے بندے! میری اطاعت کر، تاکہ میں تجھے اپنا ایک ایسا مظہربنادوں کہ جب تو کسی چیز کو کہے کہ ہوجاتو وہ چیزواقع ہوجائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلْعُبُودِیَّةُ جَوْهَرَةُ کُنْهُهَا الرَّبُو بِیَّهْ

عبودیت اور بندگی وہ جوہر ہے جس میں ربوبیت پوشیدہ ہےمصباح الشریعہباب۱۰۰

مراد یہ کہ عبودیت اور بندگی، انسان کو خدا سے انتہائی قریب کرکے اسے مقامِ ربوبیت پر پہنچادیتی ہے، اسے خدا کی صفات کا مظہر بنادیتی ہے اور وہ اذنِ الٰہی سے عالمِ تکوین میں تدبیرو تصرف کرنے لگتا ہے، اس کے ہاتھوں کرامات اور غیر معمولی امور سرزدہونے لگتے ہیں۔

۳۷

اس بات کی وضاحت اس مثال کے ذریعے کی جاسکتی ہے کہ اگر ٹھنڈے اور سیاہ لوہے کو، لوہار کی بھٹی میں ڈال دیا جائے تو وہ پگھل کر سرخ انگارا بن جاتا ہےیہ لوہا، لوہا ہونے کے ساتھ ساتھ، آگ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے چمکتا ہوا انگارہ سا محسوس ہوتا ہےلوہے کی یہ حدت اور چمک اُس آگ کا معمولی سا اثر ہے جس میں وہ پڑا ہوتا ہے اور جو اسے اس رنگ میں لے آتی ہے۔ انسان بھی عبودیت کے اثر سے خدا کی طرح بن سکتا ہےاستاد شہید مرتضیٰ مطہری علیہ الرحمہ کے بقول بندے کو یہ سیرومقام پانچ مراحل میں حاصل ہوتا ہے:

۱:- بندگی کے سائے میں انسان اپنے نفس پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔

۲:- اس مرحلے کے بعد انسان اس قدر قوی بن جاتا ہے کہ اس کا نفس طاقتور ہوکر گناہوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کی قوت پالیتا ہے۔

۳:- اس مرحلے کے بعد، بہت سے امور میں روح بدن سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔

۴:- اس مرحلے کے بعد روح بدن کو چھوڑ دیتی ہے اور بدن ہر لحاظ سے روح کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔

۵:- پانچویں مرحلے میں، انسان اس قدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ حتیٰ اپنے بدن سے باہر کی اشیاء پر بھی اثر انداز ہونے لگتا ہےاولیائے الٰہی جن سے معجزے، کرامات اور عالمِ تکوین میں تصرف جو خداوند ِعالم سے مخصوص کاموں میں سے ہے، اس شخص سے بھی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ (ولا هاو ولایتها ۔ ص۷۲تا۸۲، بطور افتباس)

۳۸

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت

عبادت میں پایا جانے والا خلوص اور معرفت، اس میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور اسی کے سائے میں انسان کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔

اگر عبادت معرفت سے خالی ہوتو ایک بے جان جسم کی مانند ہے، بے سوچے سمجھے انجام دی جانے والی حرکات و سکنات اور ایک کھوکھلا عمل ہےاسی طرح اگر عبادت شرک آلود ہو، دکھاوے کے لیے انجام دی جائے تو شرک ِخفی کا موجب بن کر خدا سے تقرب کی بجائے اس سے مزید دوری کا سبب بن جائے گی اور نتیجے کے طور پر بے سود رہے گیاس کھوکھلے پھل کی مانند جس میں نہ صرف کوئی مفید خاصیت نہیں پائی جاتی بلکہ نقصان دہ بھی ہوجاتا ہے۔

عارفانہ عبادت ایسی عبادت کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کی معرفت اور شناخت کے ساتھ انجام دیتا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے خدا کی عبادت کرتا ہے کہ وہی لائق عبادت ہے اور اسکی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا تقاضا ہے کہ اسی کی پرستش کی جائےایسا ہی شخص عبادت کے مغز اور اس کے فلسفے کو جانتا ہے اور اس کی روح اور فکر میں عبادت کی حقیقت جڑ پکڑ چکی ہوتی ہے، رچ بس گئی ہوتی ہے، اور وہ اس بلند اور رفیع الشان سوچ کے ساتھ رہوارِ عبادت پر سوار ہوکر ملٰکوت کی جانب پرواز کرتا ہے۔

اس جانب متوجہ کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

بے شک ایک گروہ بہشت کی رغبت میں خدا کی عبادت کرتا ہے، یہ تاجروں کی عبادت ہےایک دوسرا گروہ آتشِ جہنم کے خوف سے خدا کی پرستش کرتا ہے، یہ غلاموں کی عبادت ہےجبکہ ایک اور گروہ خدا کی نعمتوں کے شکر میں اس کی عبادت بجالاتا ہے، یہ آزاد منش افراد کی عبادت ہے(نہج البلاغہ کلمات قصار ۲۳۷)

۳۹

امام ؑکے اس قول سے ظاہر ہے کہ کامل اور عارفانہ عبادت، ایسی عبادت ہے جو صرف خدا کے لیے اور اس کی نعمتوں پر شکر کی غرض سے ہو۔

مخلصانہ عبادت، وہ عبادت ہے جو حضور قلب، اخلاص و صفا اور ہر قسم کے ریا اور خودنمائی سے پاک ہوصرف اور صرف خدا کے لیے ہومثال کے طور پر پانی مایہ حیات ہےیہ خصوصیت صرف اسی پانی میں پائی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہو جبکہ آلودہ پانی جس میں مختلف جراثیم کی آمیزش ہو، نہ صرف مایہ حیات نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

ریا سے آلودہ اور غیر خالص عبادت، ایسے ہی آلودہ اور جراثیم بھرے پانی کی مانند ہے جبکہ مخلصانہ اور بے ریا عبادت، مثبت اور تعمیری آثار کی حامل اور انسان سازی اور انسانی کمال کا موجب ہوتی ہے۔

عبادالرحمن کی تیسری خصوصیت کو بیان کرنے والی زیر بحث آیت (یعنی سورہ فرقان کی آیت نمبر۶۴) دو نکات پر مشتمل ہے:

۱:- خدا کے یہ مخلص بندے ہمیشہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیںعبادت ِالٰہی کے خوگر ہو کر مسلسل اسی میں مشغول رہتے ہیں اور متواتر قیام و سجود کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

۲:- یہ لوگ رات ڈھلے آرام دہ بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے راز و نیاز میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

آیت میں ان بندگان خدا کے راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرنے کی جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کے اخلاص کو ظاہر کرنے کے لیے ہےیعنی یہ لوگ تاریکی ٔ شب میں، جب کسی بھی قسم کے دکھاوے اور ریا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی (یہ صورت ِحال عام طور پر رات کی تاریکی ہی میں پیدا ہوتی ہے) خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

استحبوا الكفر على الايمان

۲_ كفر ،مسلمانوں اور كفار كے درميان قطع دوستى كا سبب ہے_يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا اولياء ان استحبوا الكفر على الايمان

۳_ كافر رشتہ داروں كے ساتھ دوستى اگر چہ وہ باپ يا بھائي ہى ہوں حرا م ہے_

يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا آباء كم و اخوانكم اولياء ان استحبوا الكفر على الايمان

۴_ كفار اور دشمنان اسلام كے ساتھ دوستى اور محبت قائم كرنا ستمگر سرشت كى نشانى ہے _

ان استحبوا الكفر على الايمان و من يتولهم منكم فاولئك هم الظالمون

۵_ كفار اور دشمنان اسلام كے ساتھ دوستى اور محبت كے رشتے قائم كرنے والے مسلمان ظالم ہيں _

ان استحبوا الكفر على الايمان و من يتولهم منكم فاولئك هم الظلمون

۶_ امام باقر(ع) سے اللہ تعالى كے اس فرمان ( اے ايمان والو اگر تمہارے باب اور بھائي كفر كو ايمان پر ترجيح ديں تو انہيں اپنا دوست نہ بنا و) كے بارے ميں روايت كى گئي ہے :''فان الا يمان ولاية على بن ابى طالب (ع) '' بيشك ايمان ، على ابن ابى طالب (ع) كى ولايت ہے_(۱)

احكام ،ا،۳

امام على (ع) :انكى ولايت ۶

ايمان:اسكى حقيقت۶

دوستى :حرام دوستى ۳;دشمنان اسلام كے ساتھ دوستي۴; دشمنان دين كے ساتھ دوستي۱; دشمنان دين كے ساتھ دوستى كے احكام ا; كافر باپ كے ساتھ دوستي۳; كافر بھائي كے ساتھ دوستى ۳; كافر رشتہ داروں كے ساتھ دوستى ۳; كفار كے ساتھ دوستي۲ ، ۴ ;كفار كے ساتھ دوستى كى حرمت ا،۳ كفار كے ساتھ دوستى كے اثرات۵ ; كفار كے ساتھ دوستى كے احكام ا،۳

روايت :۶

ظالم لوگ:۵ظلم :اسكى نشانياں ۴

كفار:ان كے ساتھ قطع تعلقي۲/كفر:

____________________

۱)بحار الانوار ج ۳۵ ص ۳۴۰ ح اا_

۶۱

آیت ۲۴

( قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ )

پيغمبر آپ كہہ ديجئے كہ اگر تمہارے باپ دادا ، اولاد ، برادران ،ازواج ، عشيرہ وقبيلہ اور وہ اموال جنھيں تم نے جمع كى ہے اور وہ تجارت جس كے خسارہ كى طرف سے فكرمند رہتے ہو اور وہ مكانات جنھيں پسند كرتے ہو تمہارى نگاہ ميں اللہ ، اس كے رسول اور راہ خدا ميں جہاد سے زيادہ محبوب ہيں تو وقت كا انتظارى كرو يہاں تك كہ امر الہى آجائے او راللہ فاسق قوم كى ہدايت نہيں كرتا ہے_

اسكے اثرات ۲

محرما ت :ا،۳

مسلمان :ظالم مسلمان ۵

ا_ خاندانى جذبات( باپ، بيٹے ، بھائي ، بيوى اور ديگر رشتہ داروں كے ساتھ محبت) اور مادى وسائل (مال، كام اور گھر) انسان كے خدا و رسول كے فرمان سے انحراف اور جہاد سے روگردانى كرنے كا پيش خيمہ ہيں _

قل ان كا ن آباء كم و اموال اقترفتموها احب اليكم من الله و رسوله و جهاد فى سبيله

۲_ باپ ، بيٹے ، بيوى ، اور ديگررشتہ داروں كى محبت ، خدا و رسول كى محبت اور راہ خدا ميں جہاد پر غالب نہ آئے_

۶۲

قل ان كان آباء كم و ابناء كم احب اليكم من الله و رسوله و جهاد فى سبيله

۳_ خدا تعالى كى طرف سے رشتہ داروں اور مال و متاع كى محبت اور تجارت و گھر كے ساتھ دل لگانے كى مذمت ،اگر يہ خدا و رسول اور راہ خدا ميں جہاد سے غفلت كا سبب بنيں _

قل ان كان آباؤ كم و اموال اقترفتموها و تجارة تخشون كسادها و مسكن احب اليكم من الله رسوله و جهاد فى سبيله

۴_ قلبى و جذباتى تعلقات ( باپ، بيٹا ، بھائي ، بيوى اور ديگر رشتہ داروں كى محبت) اور مادى وسائل( مال ، كام اور گھر) كے ساتھ دل لگانے كى وجہ سے جہاد سے روگردانى كرنے والوں كو خدا تعالى كى دھمگي_

قل ان كان آباؤ كم و اموال اقترفتموها و احب اليكم و جهاد فى سبيله فتربصوا حتى يأتى الله بامره

۵_ رشتہ داروں اور مادى و سائل كى محبت كو خدا و رسول كى محبت اور جہاد پر ترجيح دينا فسق و فجور اور انحراف ہے_

قل ان كان آباؤ كم احب اليكم و الله لا يهدى القوم الفاسقين

۶_ خدا و رسول كى گہرى محبت انسان كو انكى اطاعت پر برانگيختہ كرتى ہے_قل ان كان آباؤكم احب اليكم من الله و رسوله

۷_ صدر اسلام كے بعض مسلمانوں كو كفار كے ساتھ رابطہ قائم كرنے كے ممنوع ہونے كى صورت ميں خاندانى تعلقات كے منقطع ہونے، تجارت ميں نقصان اور اپنے دلپسندگھروں كے ہا تھ سے نكل جانے كى پريشاني_

يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا قل ان كان آباؤكم و ابناؤكم

۸_ خدا و رسول اور جہاد كى محبت كو خاندانى اور مادى تعلقات پر ترجيح دينا سچے مومنوں كى علامت ہے_

يا ايها الذين آمنوا قل ان كان آباؤكم و جهاد فى سبيله

۹_ جہاد كى قدر و قيمت اس وقت ہے جب راہ خدا ميں ہو _و جهاد فى سبيله

۰ا_ فسق، انسان كے ہدايت الہى سے محروم ہونے كا سبب ہے_و الله لا يهدى القوم الفاسقين

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۷

اطاعت: پيغمبر (ص) كى اطاعت كے عوامل ۶;خدا كى اطاعت كے عوامل ۶

اقدار:انكا معيار۹

۶۳

انحراف:اس كا سبب ۱; اسكے موارد۵

تحريك:اسكے عوامل ۶

جذبات :خاندانى جذبات ۲;خاندانى جذبات كے آثار ا،۴

جہاد:اس سے روگردانى كا پيش خيمہ ا; اس سے روگردانى كرنے والوں كو دھمكى ۴;اسكى اہميت ۲،۵،۸;اسكى قدر وقيمت ۹; اسے ترك كرنے كى مذمت ۳

خدا تعالى :خدا تعالى كى دھمكياں ۴; خدا تعالى كى طرف سے مذمت ۳; خدا تعالى كى طرف سے ہدايت ۰

دنيا طلب لوگ:انكو دھمكى ۴

دنيا طلبى :اس كا فسق ہونا ۵;اسكى مذمت ۳; اسكے آثار۴،۵

راہ خدا :اسكى قدر و قيمت ۹

رشتہ دار:كافر رشتہ داروں كے ساتھ رابطہ ۷

غفلت :حضرت محمد (ص) سے غفلت كى مذمت ۳;خدا سے غفلت كى مذمت ۳

فسق :اسكے آثار ۰ا; اسكے موارد۵

كفار :ان كے ساتھ قطع تعلقي۷

مادى وسائل :ان كا كردا ر

مال سے دوستى :اسكى مذمت ۳;اسكے آثار ا،۴

محبت:باپ كى محبت ۲،۴; باپ كى محبت كے آثار ا; بھائي كى محبت ۴;بھائي كى محبت كے آثار ا; بيٹے كى محبت ۲،۴; بيٹے كى محبت كے آثار ا;بيوى كى محبت ۲،۴; تجارت كى محبت كى مذمت ۳;حضرت محمد (ص) كى محبت كى اہميت ۲ ، ۵، ۸;حضرت محمد(ص) كى محبت كے آثار۶;خاندان كى محبت ۵،۸;خدا كى محبت كى اہميت۲; خدا كى محبت كے آثار۶; رشتہ داروں كى محبت ۲،۳،۴; كام اور كارو باركى محبت ۴;كام اور كار باركى محبت كے آثارا;گھر كى محبت ۴; گھر كى محبت كى مذمت ۳; گھر كى محبت كے آثار ا; ۵،۸

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں كى پريشاني;۷

۶۴

مومنين :انكى نشانياں ۸

نافرمانى :حضرت محمد (ص) كى نافرمانى كا پيش خيمہ ۱;خدا تعالى كى نافرمانى كا پيش خيمہ

ہدايت:اس سے محروم رہنے كے عوامل;۰

آیت ۲۵

( لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئاً وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ )

بيشك اللہ نے كثير مقامات پر تمھارى مدد كى ہے او ر چنين كےدن بھى جب تمھيں اپنى كثرت پر ناز تھا ليكن اس نے تمھيں كوئي فائدہ نہيں پہنچايا اور تمھار ے لئے زمين اپنى وسعتوں سميت تنگ ہوگئي اور اس كے بعد تم پيتھ پھير كر بھاگ نكلے _

ا_ بہت سارے معر كوں ميں صدر اسلام كے مسلمانوں كى كاميابى كا اصلى راز خدا تعالى كى غيبى امداد تھى _

لقد نصركم الله فى مواطن كثيرة

۲_جنگ حنين ان مواقع ميں سے ہے كہ جن ميں سپاہ اسلام كى تقويت اور دشمن كى استقامت توڑنے كيلئے خدا تعالى كى نصرت اور غيبى امداد ہميشہ ياد رہے گي_لقد نصركم الله فى مواطن كثيرة و يوم حنين

با وجود اس كے كہ ''مواطن كثيرة'' ميں جنگ حنين بھى شامل ہے پھر اسے '' يوم حنين '' كي تعبيركے ساتھ دوبارہ ذكر كرنا مندرجہ بالا مطلب پر دلالت كرتا ہے_

۳_ خدا تعالى كا مومنين كو اس خاطر احسان جتلانا كہ اس نے جنگ حنين سميت بہت سارے موارد ميں ان كى نصرت كى _لقد نصركم الله فى مواطن كثيرة و يوم حنين

۴_ جنگ حنين ميں مسلمان بڑى تعداد ميں شريك تھے_و يوم حنين اذ ا عجبتكم كثرتكم

۶۵

۵_ جنگ حنين ميں مسلمان اپنى كثرت كى وجہ سے غرور كا شكار ہوگئے تھے _و يوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم

۶_جنگ حنين ميں مسلمانوں كى كثرت كار ساز نہ تھى _ويوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم فلم تغن عنكم شيئ

۷_ مسلمانوں كے غرور اور كثرت كے با وجود جنگ حنين ميں ان كيلئے عرصہ حيات كاتنگ ہونا _

اذ اعجبتكم كثرتكم ...و ضاقت عليكم الارض بما رحبت

۸_ جنگجو افواج كى كثرت ،خدا كى مدد كے بغير كاميابى كى ضمانت نہيں دے سكتي_

اذ اعجبتكم كثرتكم فلم تغن عنكم شيئ

۹_ غرور، جنگى افواج پر اعتماد اور الہى امداد سے غفلت شكست كا موجب ہے _اذ اعجبتكم كثرتكم ...ثم وليتم مدبرين

۱۰_ غرور آور كثرت كے با وجود جنگ حنين ميں مسلمانوں كا مشكل ميں پھنسنے كے بعد ميدان سے فرار _

و ضاقت عليكم الارض بما رحبت ثم وليتم مدبريں

۱۱_ امام ہادى (ع) سے روايت ہے :'' ان الله عزوجل يقول : ''لقد نصر كم الله فى مواطن كثيرة '' فعددنا تلك المواطن فكانت ثمانين'' الله تعالى كا ارشاد ہے ''بيشك الله تعالى نے بہت سارے مقامات پر تمہارى مدد كى ''ہم نے شمار كئے تو وہ اسّى مقامات ہيں _(۱)

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱،۲،۴،۶،۷،۱۰

جنگ:جنگ سے فرار ۱۰;جنگ ميں كثرت كا كردار ۶،۸

خدا تعالى :اس كا احسان جتلانا ۳; اسكى امداد ۱۱; اسكى امداد كے آثار ۸;اسكى غيبى امداد ۲;اسكى غيبى امداد كے آثار ۱;اسكى نصرت كى اہميت ۳; اسكى نصرت كے آثار ۱

خود پسندى :اسكے آثار ۹;اسكے عوامل ۵

ذكر:تاريخ كا ذكر۲;غزوہ حنين كا ذكر ۲

روايت :۱۱

شكست :

____________________

۱) كافى جلد ۷ ص ۴۶۴ ح ۲۱_نورالثقلين ج ۲ص ۱۹۷ح ۹۰

۶۶

اسكے عوامل ۹

غزوہ حنين :اس سے فرار ۱۰،اس كى سختى ۷; اس ميں خدا كى امداد ۳;اس ميں غيبى امداد ۲; اس ميں مجاہدين كى كثرت ۴،۵،۶;اس ميں مسلمان ۷،۱۰;قصہ حنين ۲،۴ ، ۶ ، ۷

غفلت :خدا كى امداد سے غفلت ۹

كاميابي:اسكے عوامل ۱،۸

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں كا غرور ۵;صدر اسلام كے مسلمانوں كى كاميابى كا سر چشمہ ۱

مومنين:انكو احسان جتلانا ۳

آیت ۲۶

( ثُمَّ أَنَزلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُوداً لَّمْ تَرَوْهَا وَعذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَذَلِكَ جَزَاء الْكَافِرِينَ )

پھر اس كے بعد خدا نے اپنے رسول اور صاحبان ايمان پر سكون نازل كيا اور وہ لشكر بھيجے جنھيں تم نے نہيں ديكھا اور كفر اختيار كرنے والوں پر عذاب نازل كيا كہ يہى كافرين كى جزا اور ان كا انجام ہے_

۱_جنگ حنين ميں مسلمانوں كے فرار كے بعد الله تعالى كى طرف سے پيغمبر اكرم(ص) اور مومنين پر قلبى سكون كا نزول _

ثم وليتم مدبرين ثم انزل الله سكينته على رسوله و على المؤمنين

۲_ جنگ حنين ميں مسلمانوں كے فرار اور لشكر اسلام كى شكست كى وجہ سے پيغمبر اكرم(ص) كو پريشانى كا سامنا_

ثم وليتم مدبرين_ ثم انزل الله سكينته على رسوله

۶۷

۳_قلبى آرام و سكون جنگ ميں كاميابى كے اہم عوامل ميں سے ہے _ثم انزل الله سكينته على رسوله و على المؤمنين

۴_جنگ حنين ميں خدا تعالى كى جانب سے مومنين پر قلبى سكون كا نزول اور منافقين كى اس سے محرومى _

ثم انزل الله سكينته على رسوله و على المؤمنين

چونكہ گذشتہ آيت ميں ضمير '' كم '' كے ذريعے مومنين كو مخاطب كيا گيا ہے اور اس آيت ميں ضمير كى جگہ كلمہ مومنين آيا ہے اس سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل كيا جاسكتا ہے_

۵_ جنگ حنين ميں الله تعالى كى طرف سے غيبى گروہوں كے ذريعے مومنين كى امداد _و انزل جنوداً لم تروه

۶_ ميدان جنگ ميں جہاد كرنے والے مومنين كى لغزش ان كے الہى امداد سے محروم ہونے كا موجب نہيں ہوگي_

و يوم حنين ثم وليتم مدبرين ثم انزل الله سكينته ...و انزل جنوداً لم تروه

۷_ سپاہ اسلام كى پشت پر ہميشہ خدا تعالى كى نصرت و مدد_لقد نصركم الله فى مواطن كثيرة و انزل جنوداً لم تروه

۸_ جنگ حنين ميں مسلمانوں كى كاميابى كا اصلى عامل خداتعالى كى امداد_

ثم وليتم مدبرين_ ثم انزل الله سكينته ...و انزل جنوداً لم تروها و عذب الذين كفرو

۹_ جنگ حنين ميں غيبى طاقتوں كے آنے اور خداتعالى كى طرف سے مومنين پر قلبى سكون كے نزول كے بعد لشكر كفر كو سخت اور عذاب آور شكست كا سامنا _ثم انزل الله سكينته و انزل جنوداً لم تروها و عذب الذين كفرو

۱۰_ ہزيمت و شكست ، دين الہى كا مقابلہ كرنے والے تمام كفار اور دشمنوں كا برا انجام اور قطعى سزا _

و عذب الذين كفروا و ذلك جزاء الكفرين

۱۱_ على ابن اسباط كہتے ہيں :''سئلت الرضا(ع) فقلت : جعلت فداك ما السكينة؟ قال: ريح من الجنة لها وجه كوجه الانسان اطيب رائحة من المسك وهى التى انزلها الله على رسول الله (ص) بحنين فهزم المشركين'' ميں نے امام رضا (ع) سے عرض كيا آپ پر قربان ہو جاؤں ''سكينة ''سے كيا مراد ہے تو آپ نے فرمايا يہ ايك نسيم بہشت ہے جس كى صورت انسان جيسى ہے اور يہ كستورى سے زيادہ خوشبو ركھتى ہے اور اس كو الله تعالى نے جنگ حنين والے دن پيغمبر (ص) پر نازل فرمايا اور مشركين كو شكست دى(۱)

____________________

۱)كافى ج ۵ ص ۲۵۷ ح ۳_ نورالثقلين ج ۲ص ۲۰۱ ح ۹۴_

۶۸

آنحضرت:آپ (ص) پر سكون كا نزول ۱

اسلام :سپاہ اسلام ۷;صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵،۹

انجام :برا انجام ۱۰

جنگ :اس ميں قلبى سكون ۳;اس ميں لغزش كے آثار ۶

خداتعالى :اسكى امداد ۷; اسكى امداد سے محروميت كے عوامل ۶; اسكى امداد كے آثار ۸;اسكى غيبى امداد ۵; اسكى نصرت ۷;اسكے عطايا ۹

دين :دشمنان دين كا انجام ۱۰; دشمنان دين كى سزا ۰ ۱;دشمنان دين كى شكست ۱۰

روايت ۱۱، ۱۲

سپاہ :غيبى سپاہ ۵، ۹

سكون :قلبى سكون سے محروم لوگ ۴; قلبى سكون كانزول ۱ ، ۴، ۹;قلبى سكون كے آثار ۳

سكينہ :اس سے مراد ۱۱

غزوہ حنين:اس سے فرار ۱،۲; اس كا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۸; اس ميں پيغمبر (ص) اكرم كى پريشانى ۲;اس ميں خدا كى امداد ۱;اس ميں سكون كا نزول ۱، ۴;اس ميں شكست ۲; اس ميں غيبى امداد ۵، ۹;اس ميں كافروں كا عذاب ۹; اس ميں كافروں كى شكست ۹ ;اس ميں كاميابى كے عوامل ۸;اس ميں مسلمان ۸; اس ميں منافقين ۴; اس ميں مومنوں كا سكون ۴،۹

كاميابى :اسكے عوامل ۳

كفار :انكا انجام ۱۰; انكى سزا ۱۰;انكى شكست ۱۰

مجاہدين :ان پر سكون كانزول ۱

مومنين :ان پر سكون كا نزول ۱;انكى امداد ۵;انكى لغزش كے آثار ۶

۶۹

آیت ۲۷

( ثُمَّ يَتُوبُ اللّهُ مِن بَعْدِ ذَلِكَ عَلَى مَن يَشَاءُ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اس كے بعد خد ا جس كى چاہے گا توبہ قبول كرلے گاہ كہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے _

۱_ خداتعالى جنگ حنين ميں ميدان سے فرار كرنے والوں كو توبہ اور استغفار كى دعوت ديتا ہے_

ثم و ليتم مدبرين ثم يتوب الله من بعد ذلك على من يشائ

'' من بعد ذلك '' ميں ''ذلك'' ميدان حنين سے مسلمانوں كے فرار كى طرف اشارہ ہے پھر يہ اعلان كہ خدا تعالى فرار كرنے والوں كى توبہ قبول كرتا ہے انہيں توبہ اور خطا سے استغفاركى دعوت ہے_

۲_ ميدان جنگ سے فرار گناہ ہے اور اس كيلئے بارگاہ خدا وندى ميں توبہ و استغفار كرنے كى ضرورت ہے_

ثم و ليتم مدبرين _ ثم يتوب الله من بعد ذلك على من يشائ

۳_ جنگ حنين ميں باقى بچ جانے والے كفار كيلئے خداتعالى كى طرف سے توبہ كا دروازہ كھلا ہونے كا اعلان_

و ذلك جزاء الكفرين_ ثم يتوب الله من بعد ذلك على من يشائ

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پرہے كہ '' على من يشائ'' ميں '' من '' گذشتہ آيت ميں مذكور كفار كى طرف بھى ناظر ہو_

۴_ توبہ كا قبول ہونا خداتعالى كى مشيت پر منحصر ہے نہ كہ توبہ كرنے والوں كے استحقاق پر _

ثم يتوب الله من بعد ذلك على من يشائ

۵_ خدا تعالى كى جانب سے خطا كار مومنين اور كفار كے اندر توبہ اور حق كى طرف پلٹنے كيلئے محرك اور اميد كا پيدا كرنا _

ثم يتوب الله و الله غفور رحيم

۶_ گناہكاروں كى توبہ كا قبول كرلينا خداتعالى كى مہربانى

۷۰

اور خطا پوشى كا جلوہ ہے _ثم يتوب الله و الله غفور رحيم

۷_ خداتعالى غفور ( بہت بخشنے والا) اور رحيم ( بہت مہربان ) ہے_و الله غفور رحيم

اسما و صفات :غفور ۷; رحيم ۷

برانگيختہ كرنا :اسكے عوامل ۵

توبہ :اسكى اہميت ۵; اسكى تشويق ۵; اسكى دعوت ۱; اس كے قبول ہونے كے شرائط ۴

جنگ :جنگ سے فرار كرنے كا جرم ۲; جنگ سے فرار كرنے كا گناہ ۲;جنگ سے فرار كى توبہ ۲

خداتعالى :اسكى مشيت ۴;اسكى مہربانى كى نشانياں ۶;اس كے افعال ۵; اسكے بخشنے كى علامات ۶

غزوہ حنين :اس سے فرار كرنے والوں كو دعوت ۱; غزوہ حنين كے كفار ۳

كفار :انكو تشويق ۵; انكى توبہ ۳

گناہ كار لوگ :انكى توبہ كا قبول ہونا ۶

مومنين :انكى تشويق ۵

۷۱

آیت ۲۸

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاء إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

ايمان والو مشركين صرف نجاست ہيں لہذا خبردار اس كے بعد مسجد الحرام ميں داخل نہ ہونے پائيں اور اگر تمہيں غربت كا خوف ہے تو عنقريب خدا چاہے گا تو اپنے فضل و كرم سے تمہيں غنى بنادے گا كہ وہ صاحب علم بھى ہے اور صاحب حكمت بھى ہے_

۱_ شرك پليدگى كا سبب ہے اور مشركين نجس ہيں _يا ايها الذين آمنوا انما المشركون نجس

۲_ مسجد الحرام مقدس جگہ ہے اور اس سے ہر قسم كى پليدگى كا دور ركھنا ضرورى ہے _

انما المشركون نجس فلايقربوا المسجد الحرام

۳_ مشركين كو مسجد الحرام كے نزديك جانے سے روكنا اہل ايمان پر واجب ہے_

يا ايها الذين آمنوا انما المشركون نجس فلايقربوا المسجد الحرام

۴_ مشركين پر مسجد الحرام ميں داخل ہونے كى پابندى كااعلان ۹ھ ميں ہوا_فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذ

مفسرين كے قول كے مطابق سورہ برائت كى آيات ۹ھ ميں حج كے موقع پر مشركين كے سامنے پڑھى گئيں _

۵_ ۹ ہجرى مسلمانوں كے مسجد الحرام كے امور چلانے اور ان پر مسلط ہونے كا سال _

فلايقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذ

با وجود اس كے كہ مشركين كى پليدگى گذشتہ زمانے ميں بھى تھى ليكن مسلمانوں كو يہ حكم ۹ ہجرى ميں ديا گيا ہے، اس سے پتا چلتا ہے كہ گذشتہ زمانے ميں اس كا اجرا ممكن نہ تھا _

۶_ احكام و قوانين كے بيان كرنے ميں ان كے اجرا كى ضمانت اور حالات كا خيال ركھنا ضرورى ہے_

فلايقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذ

باوجود اس كے كہ مشركين پہلے بھى نجس تھے اور انہيں مسجد الحرام ميں داخل ہونے كى ہرگز اجازت نہيں ہونى چاہيے تھى ليكن خداتعالى نے مشركين پر مسجد الحرام ميں وارد ہونے كى پابندى كا حكم اس وقت صادر فرمايا جب مسلمان اس حكم كے اجرا پر قدرت ركھتے تھے _

۷۲

۷_ مشركين كے مسجد الحرام ميں آنے كا سالانہ موسم تھا_فلايقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذ

'' عامہم '' كى تعبير كہ جس ميں ''عام ''كو مشركين كى طرف نسبت دى گئي ہے مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ كرتى ہے_

۸_ بعض مسلمانوں كو مشركين كى مكہ ميں آمد و رفت ختم ہو جانے كى صورت ميں اپنے اقتصادى نظام كے تباہ ہو جانے كى پريشانى _فلايقربوا المسجد الحرام و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

۹_ ہر سال حج كے موقع پر مشركين كا مكہ آنا اہل مكہ (جن ميں مسلمان بھى شامل ہيں ) كيلئے اقتصادى ثمرات ركھتا تھا _

و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

۱۰_ دينى اقدار كو معرض وجود ميں لانے كيلئے مادى مفادات كو قربان كرنا ضرورى ہے _

يا ايها الذين آمنوا انما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

۱۱_ فقر و تنگدستى كا خطرہ انسان كے خدا كى نافرمانى ميں مبتلا ہونے كا پيش خيمہ ہے _

يا ايها الذين آمنوا و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

۱۲_ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے مومنين كوان كے مشركين كے ساتھ رابطہ منقطع كرلينے كى صورت ميں پہنچنے والے مادى نقصانات كى تلافى كا وعدہ _انما المشركون نجس فلايقربوا المسجد الحرام و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

۱۳_ دشمنان اسلام كا مقابلہ كرنے كى صورت ميں مومنين كو پہنچنے والے نقصانات كى تلافى كرنا خداتعالى كا ان كے ساتھ وعدہ _انما المشركون نجس فلايقربوا المسجد الحرام و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

۱۴_اسلامى معاشرے كى اقتصادى مشكلات كى طرف توجہ كرنا اہميت كا حامل ہے_و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

۷۳

۱۵_ كسى حكم كے نتائج كى طرف توجہ اور اسكى اجتماعى اور اقتصادى مشكلات كا تدارك ضرورى ہے _

انما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام و ان خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضله

خدا تعالى نے مشركين پر مسجد الحرام ميں داخل ہونے كى پابندى كا حكم بيان كرنے كے بعد بلافاصلہ مسلمانوں كيلئے اسكے اقتصادى رد عمل كى طرف اشارہ فرمايا ہے اور پھر اس نقصان كے تدارك كا وعدہ دے كر اس مشكل كو حل فرماديا ہے_

۱۶_ مومنين كى غنا اور بے نيازى ان پر خداتعالى كے فضل كا ايك پرتو ہے_فسوف يغنيكم الله من فضله

۱۷_ خداتعالى كامومنين پر فضل كرنا اسكى مشيت اور ارادے پر منحصر ہے _

فسوف يغنيكم الله من فضله ان شائ

۱۸_ مومنين كيلئے خداتعالى كے فضل و كرم كے ساتھ اميد لگانا اور غير خدا سے قلبى لگاؤ كو ختم كر لينا ضرورى ہے_

فسوف يغنيكم الله من فضله ان شائ

۱۹_ مشركين كے مسجد الحرام كے نزديك ہونے كى ممانعت كے حكم كى بنياد خداتعالى كا وسيع علم و حكمت ہے_

يا ايهاالذين آمنوا انما المشركون نجس فلايقربوا المسجد الحرام ان الله عليم حكيم

۲۰_ خداتعالى كے احكام ، عالمانہ اور حكيمانہ فلسفہ كے حامل ہيں _فلا يقربوا المسجد الحرام ان الله عليم حكيم

۲۱_ خداتعالى كا وسيع علم و حكمت، اسكى مشيت اور ارادے كى بنياد ہے_ان شآء ان الله عليم حكيم

۲۲_ خداتعالى عليم ( جاننے والا ) اور حكيم ( حكمت والا) ہےان الله عليم حكيم

۲۳_ پيغمبر اكرم-(ص) سے روايت كى گئي ہے :'' لا يدخل المسجد الحرام مشرك بعد عامى ہذا ابداً الا اہل العہد وخدمكم'' اس سال كے بعد كوئي مشرك مسجد الحرام ميں داخل نہيں ہوسكتا مگر جنكا مسلمانوں كے ساتھ معاہدہ ہے يا مسلمانوں كے خادم ہيں _(۱)

احكام :۳ ، ۱۹

انكا فلسفہ ۲۰; انكى تشريع كا سرچشمہ ۱۹;ان كے صادر كرنے كى شرائط ۶، ۱۵

____________________

۱)الدرالمنثور ج۴ ص۲۶۴_

۷۴

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۴، ۵،۸،۹،۱۲،۲۳

اسماو صفات:عليم ۲۲; حكيم ۲۲

اقتصاد :اقتصادى نظام كى اہميت ۱۵

اميدوارى :فضل الہى كى اميدوارى ۱۸

پليد لوگ :۱پليدي:اسكے عوامل ۱

تاريخ :۹ ہجرى كے واقعات ۴

حج:اسكے اقتصادى آثار۹

خداتعالى :اس كا علم ۱۹، ۲۱; اس كا فضل ۱۷; اس كا وعدہ ۱۲، ۱۳;اسكى حكمت ۱۹ ، ۲۱; اسكى صفات ۲۱ ;اسكى مشيت ۱۷; اسكى مشيت كا سرچشمہ ۲۱; اس كے فضل كى نشانياں ۱۶

خوف:فقر سے خوف كے اثرات ۱۱

دشمن :ان سے مقابلے كے اثرات ۱۳

دين :اسكى اہميت ۱۰

ذكر :اقتصادى مشكلات كو ذكر كرنے كى اہميت ۱۴

روايت ۲۳

شرك :اسكے آثار ۱

مسجد الحرام :اس كا تقدس ۲; اسكى اہميت ۲; اسكى توليت ۵; اسكى طہارت ۲; اس كے احكام ۲، ۳، ۱۹; اس ميں مشركين كے داخلے پر پابندى ۳،۴،۱۹،۲۳

مسلمان:انكى قدرت ۵;صدر اسلام كے مسلمانوں كى پريشانى ۸;مسلمان ۹ ہجرى ميں ۵

مشركين :ان سے قطع رابطہ ۸;ان سے قطع رابطہ كے آثار ۱۲; انكى پليدگى ۱;صدر اسلام كے مشركين كى رسوم ۷;مشركين اور مسجدالحرام ۷;معاہدہ كرنے والے مشركين ۲۳; مكہ ميں مشركين كے وجود كے اقتصادى فوائد۹

معاشرہ :

۷۵

اسكے اجتماعى نظام كى حفاظت كى اہميت ۱۵

مقدس مقامات ۲

مومنين :ان پر فضل ۱۶،۱۷;ان سے وعدہ ۱۳; انكى بے نيازى ۱۶; انكى ذمہ دارى ۱۸ ; انكى شرعى ذمہ داري۳;ان كے مادى نقصانات كا تدارك ۱۲، ۱۳; صدر اسلام ميں ان سے وعدہ ۱۲

نافرمانى :خدا كى نافرمانى كا پيش خيمہ۱۱

واجبات،۳

آیت ۲۹

( قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ )

ان لوگوں سے جہاد كرو جو خدا اور روز آخرت پر ايمان نہيں ركھتے اور جس چيز كو خدا و رسول نے حرام قرار ديا ہے اسے حرام نہيں سمجھتے اور اہل كتاب ہوتے ہوئے بھى دين حق كا التزام نہيں كرنے _ يہاں تك كہ اپنے ہاتھوں سے ذلت كے ساتھ تمھارے سامنے جز يہ پيش كرنے پر آمادہ ہوجائيں _

۱_ خدا تعالى كى طرف سے اہل كتاب كے ساتھ نبرد آزما ہونے كا حكم اس لئے كہ وہ خدا اور آخرت پر ايمان نہيں ركھتے ، محرمات الہى سے پر ہيز نہيں كرتے اور دين حق كے پابند نہيں ہيں _قاتلوا الذين لا يؤمنون ...من الذين اوتواالكتاب

۲_ اہل كتاب كا خدا اور قيامت پر ايمان الله تعالى كے نزديك غير واقعى اور بے قدر و قيمت ہے _

الذين لا يؤمنون بالله و لا باليوم الآخر من الذين اوتوا الكتاب

با وجود اس كے كہ اہل كتاب (يہودى اور عيسائي ) شرائع الہى كے پيرو كا ر ہيں اور خدا و قيامت

۷۶

پرايمان ركھتے ہيں خدا تعالى كا انہيں بے ايمان كہنا مندرجہ بالا مطلب پر دلالت كرتا ہے _

۳_ ( حكومت اسلامى ميں ) اہل كتاب كيلئے جزيہ دينا ضرورى ہے_الذين اوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون

۴_ اگر اہل كتاب جزيہ ادا كريں اور حكومت اسلامى كے سامنے سر تسليم خم كريں تو ان كے ساتھ جنگ نہ كرنا ضرورى ہے_قاتلوا الذين لا يؤمنون من الذين اوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون

۵_ اہل كتاب كا حكومت اسلامى كو جزيہ دينا انكى جان كے محفوظ ہونے كے بدلے ايك ٹيكس ہے_

قاتلوا الذين لا يؤمنون من الذين اوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية

۶_ صرف شريعت اسلام ہى دين حق ہے اور اللہ تعالى كوقابل قبول ہے_و لا يدينون دين الحق

(لايدينون دين الحق ) ميں ''دين حق ''سے مراد دين اسلام ہے_

۷_ ضرورى ہے كہ اہل كتاب كا حكومت اسلامى كو جزيہ ادا كرنا خود انہيں كے تواضع اور سر تسليم خم كرنے كے ساتھ انجام پائے نہ يہ كہ اسے وصول كرنے كيلئے حكومت سختى كے استعمال پر مجبورہو_

من الذين اوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون

۸_ زرارہ كہتے ہيں : ميں نے امام صادق (ع) سے عرض كيا :''ما حدالجزية على اهل الكتاب ...؟ فقال :ذاك الى الامام ان يا خذ من كل انسان منهم ماشاء تؤخذ منهم على قدر ما يطيقون فان الله تبارك و تعالى قال : ''حتى يعطوا الجزية عن يدوهم صاغرون'' و كيف يكون صاغر اً و هؤلاء يكثرت لما يؤخذ منه ...' 'اہل كتاب پر جو جزيہ عائد كيا جائيگا اسكى مقدار كتنى ہے تو آپ نے فرمايا يہ امام كى مرضى ہے كہ وہ ہر ايك سے جتنا چاہے وصول كرے جزيہ انكى طاقت كے مطابق ان سے ليا جائيگا كيونكہ خدا تعالى نے فرمايا ہے ''يہاں تك كہ وہ اپنے ہاتھوں اور ذلت و خوارى كے ساتھ جزيہ ادا كريں '' اور وہ شخص كس طرح خوارہوگا كہ جسے اسكى كوئي پر وا نہيں جو اس سے لياجارہا ہے_(۱)

۹_ پيغمبر (ص) سے جزيہ كے بارے ميں سوال كيا گيا تو فرمايا:''جزية الارض والرقبة ...'' جزيہ زمين كے حساب سے بھى لياجا سكتا ہے اور ہر فرد كے حساب سے بھى ليا جاسكتا ہے_(۲)

____________________

۱)كافى ج ۳ ص ۵۶۶ ح ۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۰۳ ح ۱۰۱_

۲)الدرالمنثور ج ۴ص ۱۶۷_

۷۷

۱۰_ پيغمبر (ص) سے روايت كى گئي ہے :''... انى لست آخذ الجزي الا من اهل الكتاب انّ المجوس كان لهم نبى فقتلوه و كتاب احرقوه .''ميں صرف اہل كتاب سے جزيہ ليتا ہوں مجوسيوں كا نبى بھى تھا اور كتاب بھى ليكن انہوں نے اپنے نبى كو قتل كرديا اور اپنى كتاب كو جلاڈالا(۱)

احكام : ۳، ۴، ۷، ۸

اسلام :اسكى حقانيت ۶; اسكى خصوصيات ۶

اہل كتاب:ان كى نافرمانى ۱;اہل كتاب حكومت اسلامى ميں ۳; اہل كتاب سے جزيہ لينا ۳،۸،۱۰; اہل كتاب كا كفر۱;اہل كتاب كى ذمہ دارياں ۳; اہل كتاب كے ايمان كا بے قدر و قيمت ہونا ۲

جزيہ:اسكا فلسفہ ۵; اسكى مقدار ۸;اسكے آثار ۴; اسكے احكام ۳،۴،۷،۸،۹ ; اس كے ادا كرنے كے شرائط ۷; اسكے موارد ۹

جہاد :اہل كتاب كے ساتھ جہاد ،۱;اہل كتاب كے ساتھ جہاد كا ترك كرنا ،۴; اہل كتاب كے ساتھ جہا دكى وجوہات۱

خدا تعالى :خدا كے اوامر،۱

دين :دين حق ۶

روايت:۸،۹،۱۰

رہبر :اسكے اختيارات ۸

فلسفہ احكام :۵

كفر:آخرت كے بارے ميں كفر ۱; خدا تعالى كے بارے ميں كفر ۱

مجوسي:انكا جزيہ ۱۰; اہل كتاب كا جزيہ ۱۰

____________________

۱)كافى ج ۳ ص ۵۶۷ ح ۴ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۰۲ ح۹۸ _

۷۸

آیت ۳۰

( وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ )

اور يہوديوں كا كہنا ہے كہ عزير الله كے بيٹے ہيں اور نصارى كہتے ہيں كہ مسيح الله كے بيٹے ہيں يہ سب ان كى زبانى باتيں ہيں _ ان باتوں ميں يہ بالكل ان كے مثل ہيں جو ان كے پہلے كفار كہا كرتے تھے ، الله ان سب كو قتل كرے يہ كہاں بہكے چلے جارہے ہيں _

۱_ يہوديوں نے حضرت عزير كو خدا تعالى كا بيٹا كہا_و قالت اليهود عزير ابن الله

۲_ عيسائيوں نے حضرت مسيح (ع) كو خدا كا بيٹا كہا_و قالت النصارى المسيح ابن الله

۳_ حضرت عزير اور مسيح كو خداكا بيٹا كہنا ايك غير سنجيدہ اور بيہودہ بات تھى كہ جسے يہودى اور نصرانى اپنى زبان پر لائے _

و قالت ذلك قولهم بافواههم

۴_ حضرت عزير اور مسيح كو خدا كا بيٹا سمجھنا يہود و نصارى كى پرانى تاريخ ہے_يضاهئون قول الذين كفروا من قبل

۵_ يہود و نصارى كى دينى ثقافت كا گذشتہ كفار كے عقائد سے متا ثر ہونا _*يضاهئون قول الذين كفروا من قبل

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كے '' الذين كفروا من قبل'' سے مراد دين يہود و نصارى كے وجود ميں آنے سے پہلے كاكافر معاشرہ ہو_

۶_ خدا كا فرزند قرار دينے والى فكر يہود و نصارى كے

۷۹

دين كے وجود ميں آنے سے پہلے كى ہے _يضاهئون قول الذين كفروا من قبل

۷_ خدا كا بيٹا قرار دينے والى فكر كفر آميز اور اس كا عقيدہ ركھنے والے كافر ہيں _يضاهئون قول الذين كفروا من قبل

۸_ يہود و نصارى ، حضرت عزير اور مسيح كو خدا كا بيٹا كہنے كى وجہ سے كافر ہيں _يضاهئون قول الذين كفروا من قبل

۹_ يہود و نصارى كى كفر آميز بات كى وجہ سے خدا تعالى كى ان پر نفرين _قتلهم الله انى يؤفكون

۱۰_ يہود و نصارى كے حضرت عزير اور مسيح كو خدا كا بيٹا قرار دينے كا جھوٹا دعوى كرنے كى وجہ سے خدا تعالى كى انكو توبيخ_

و قالت اليهود عزير ابن الله انى يؤفكون

۱۱_ خدا تعالى كے صاحب فرزند ہونے والى فكر راہ حق سے انحراف اور اس كا عقيدہ ركھنے والے خدا كى لعنت و نفرين كا شكار ہوں گے_و لا يدينون دين الحق و قالت اليهود عزير ابن الله قتلهم الله انى يؤفكون

۱۲_ يہود و نصارى اپنے مشركانہ عقيدے ( حضرت عزير و مسيح كو خدا كا بيٹا قرار دينا) كى وجہ سے سزائے موت كے مستحق ہيں _و قالت اليهود عزير ابن الله قتلهم الله انى يؤفكون

انحراف :اسكے موارد ۱۱

بہتان :خدا پر بہتان ۱۰

جن پر نفرين ہوئي :۱۱

خدا تعالى :خداتعالى كى طرف بيٹے كى نسبت دينا ۱،۲، ۳، ۴، ۷، ۸،۱۰،۱۱،۱۲;خدا تعالى كى طرف بيٹے كى نسبت دينے كى تاريخ ۱۶; خدا تعالى كى طرف سے مذمت ۱۰; خدا تعالى كى نفرين ۹

سزا:سزا كے مستحق ۱۲;سزائے موت ۱۲

شرك:شرك كى تاريخ ۶

عقيدہ :باطل عقيدہ ۱،۲،۳،۴; باطل عقيدہ كى سزا ۱۲

عيسائي:ان پر نفرين ۹;انكا عقيدہ ۲، ۳، ۴; انكا كفر ۸;

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177