عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف33%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92503 / ڈاؤنلوڈ: 6236
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حقیقی اخلاص یہ ہے کہ عمل کے ارادے اور اس کی انجامدہی کا سبب صرف اور صرف اللہ رب العزت ہومرحوم فیض کاشانی کے بقول:اخلاص یہ ہے کہ انسان کی نیت ہر قسم کے شرک ِخفی اور شرک ِجلی سے پاک ہواس کے بعد سورہ نحل کی چھیاسٹھویں آیت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ:خالص دودھ وہ ہوتا ہے جس میں نہ ہی خون کے ذرات ہوں اور نہ ہی شکم کے اندر کی کسی غلاظت وغیرہ کا کوئی اثر اس میں پایا جاتا ہو، بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف ہوخالص نیت اور عمل بھی اسی طرح ہوتے ہیں، سوائے رضائے الٰہی کے کوئی اور محرک ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ (المحجتہ البیضا۔ ج ۸۔ ص۱۲۸)

قرآنِ کریم میں بارہا اخلاص، مخلصین، اورمخلّصین کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً ارشادِ باری ہے:

فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ

اللہ کو پکارو اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروسورہ غافر ۴۰آیت ۱۴

ایک دوسرے مقام پرپیغمبر اسلام کو خطاب کیا گیا ہے کہ

قُلْ اِنِّىْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ

کہہ دیجئے کہ میں اس بات پر مامور ہوں کہ خدا کی عبادت کروں، اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروںسورہ زمر۳۹۔ آیت ۱۱

قرآنِ مجید میں شیطان کی زبانی نقل ہوا ہے کہ وہ ضداور ہٹ دھرمی کے ساتھ خدا سے کہتا ہے کہ:

فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ

تیری عزت کی قسم، میں تمام انسانوں کو گمراہ کردوں گا علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہوں نے خود کو خالص کرلیا ہوگا۔ سورہ ص ۳۸۔ آیت۸۲، ۸۳

۴۱

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لاٰیَکُونُ الْعَبْدُ عَابِداً لِلهِ حَقَّ عِبَادتِهِ حَتّٰی یَنْقَطَعَ عَنِ الْخَلْقِ کُلَّهِ اِلَیْهِ، فِحینَئذٍ یَقُولُ هَذَا خَالِصٌ لیِ فیَتَقَبَّلَهُ بَکرَمِهِ

کوئی عبادت گزار خدا کاحقِ عبادت ادا نہیں کرسکتا علاو ہ اس کے جو مخلوقات (پر بھروسہ کرنے) سے منھ موڑ کر صرف اسی (خدا) کی طرف متوجہ ہوتا ہےاس موقع پر خدا وند ِعالم فرماتا ہے: یہ شخص میرے لیے خالص ہوا ہےپس وہ اپنے کرم سے اسےقبول کرتا ہےمستدرک الوسائل ج۱۔ ص ۱۰۱

مختصر یہ کہ خدا وند ِرحمٰن کے منتخب اور پسندیدہ بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ عبادت کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور ہمیشہ، شب و روز خالص نیت اور محکم ارادے کے ہمراہ خدا کے راستے پر قدم بڑھاتے ہیں اور بندگی کے اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو دوسرے تمام مقامات کی بنیاد کا پتھر ہے۔

انبیاء، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی سب سے اوّلین خصوصیت یہ تھی کہ وہ خدا کے خالص اور مخلص بندے تھے اور اپنی اس صفت پر فخر کا اظہار کرتے اور اس میدان میں انتہائی سعی و کوشش میں مشغول رہتے تھےیہاں تک کہ مثلاً حضرت علی ؑاور امام سجاؑد کبھی ایک ایک رات میں ہزار ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور دوسری تمام عبادات کے دوران بھی اپنی انتہائی توانائیوں کے ساتھ کوشاں رہتے تھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر تم خدا کی عبادت کی مٹھاس اور لذت کو جان لواور اس کی برکات کو دیکھ لو، اور اس کے نور کے سائے سے بہرہ مند ہوتو ایک لمحے کے لیے بھی اس سے دور نہ ہوہر چند تم عبادت کی مشقت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائوایسا شخص جو عبادت ِ الٰہی سے گریزاں ہے اس (صورتحال) کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ عصمت و توفیق کے ممتاز آثار و فوائد سے محروم ہے۔

(مصباح الشریعتہص ۵۵، بحارالانوار۔ ج ۷۰ص ۶۹)

۴۲

اسی بنا پر آپ اپنے محترم اجداد کی مانند، اور پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علیؑ کی پیروی میں خدا کی عبادت، اس سے رازونیاز اور مناجات کے ہر موقع سے استفادہ کرتے تھے۔

حسنِ اختتام کے طور پر قارئین کی توجہ درج ذیل قصے کی جانب مبذول کراتے ہیں:

ابن ابی یعفور کہتے ہیں:میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے فرمارہے ہیں:رَبِّ لَاتَکِلْنی إِلیَ نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَداً، لَااَقَلَّ مِنْ ذَالِکَ وَلَااَکْثَرَ (بارِ الٰہا ! مجھے کسی صورت پلک جھپکنے کے لیے بھی میرے اپنے حال پر نہ چھوڑدینا اور نہ ہی اس سے کم وقت کے لیے اور نہ اس سےزیادہ وقت کے لیے)

اس موقع پر میں نے دیکھا کہ آپؑ کی ریشِ مبارک کے دونوں اطراف سے آنسوئوں کے قطرے بہہ رہے ہیں۔

پھر آپؑ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:اے ابن ابی یعفور! خدا وند ِعالم نے پلک جھپکنے کے وقت سے بھی کم عرصے کے لیے (حضرت) یونس پیغمبر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور ان کے لیے وہ ماجرا (ترکِ اولیٰ اور مچھلی کے شکم میں چلے جانا۔۔۔ ۔ )پیش آیا تھا۔

ابن ابی یعفور نے کہا: کیا حضرت یونس کا معاملہ (نعوذ باللہ) کفر کی حد تک پہنچ گیا تھا؟

امام نے فرمایا:نہیں لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کیے اس حال میں مرجائے تو ایسا شخص ہلاکت کی موت مرا ہے(اصولِ کافی ج۲۔ ص۵۸۱)

۴۳

خوف وخشیت ِالٰہی

قرآنِ مجید میں خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کے بارے میں آیا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا اِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا

اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب ِجہنم کو پھیر دے کہ اسکا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہےوہ بدترین منزل اور محلِ اقامت ہےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۵، ۶۶

خداوند ِعالم نے اس آیہ شریفہ میں اپنے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کی جانب اشارہ کیا ہے جو ” خوف وخشیت ِالٰہی“ کی صفت ہےیعنی یہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بُرے انجام سے شدت کے ساتھ خوفزدہ رہتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی نافرمانی کے معنی شیطان کے حکم کی تعمیل ہے اور یہ عمل عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ میں ڈالے جانے کا باعث ہوگا۔

یہ لوگ گناہ کے انجام اور دوزخ کے عذاب سے اس قدر خائف اور ہراساں رہتے ہیں کہ ان کی یہ باطنی کیفیت اپنا اظہار کرتی ہے اور وہ انتہائی عاجزی کے ساتھ درگاہِ الٰہی میں دست ِدعا بلند کرتے ہوئے التماس کرتے ہیں کہ: بار الٰہا! ہمیں مجرموں کے لیے تیار کیے گئےدوزخ کے سخت عذاب سے دوررکھنا۔

اس طرح یہ لوگ قدرتی طور پر عذاب ِالٰہی کی وجہ بننے والے عوامل سے پرہیز کرنے لگتے ہیں اور فرامینِ الٰہی کی تعمیل اور احکامِ الٰہی کی انجامدہی کے ذریعے خداوند ِعالم کی بے پایاں رحمت کو اپنی جانب جلب اور جذب کرتے ہیں۔

۴۴

ان لوگوں پر یہ حالت ہمیشہ طاری رہتی ہے، اور ایک لمحے کے لیے بھی خوف ِخداان سے دور نہیں ہوتایہ لوگ غرور و غفلت میں مست، مدہوش اور بے پروا زندگی بسرکرنے والے لوگوں کی طرح خدا کی اس وعید کو ہنسی مذاق نہیں سمجھتے۔

خوف کے معنی، باطنی ڈراور وحشت ہے۔ لہٰذا اسے ترک ِگناہ اور ہر قسم کے جرم سے دوری کے لیے ایک باطنی ہتھیار شمار کیا جاتا ہے۔ مثلاً قانون، عدالت، جرمانے، قید اور سزائوں کے خوف کی وجہ سے انسان جرائم کا مرتکب نہیں ہوتا اور یہ سوچ کرلا قانونیت سے گریز کرتا ہے کہ کہیں اسے سزاکا سامنا نہ کرنا پڑےلہٰذا خوف ِخداکے معنی اللہ رب العزت کی ذات ِپاک سے ڈر اور وحشت نہیں، بلکہ اسکے معنی اسکے قانون اور اس کی عدالت سے ڈرنا ہیں۔

خوف ِخدا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان عدلِ الٰہی کے پیمانے پر اپنے اعمال کا وزن کرےلہٰذا خوف کے معنی ان سزائوں کو ناگوار سمجھنا ہے جو گناہ اور خدا کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

قرآنِ مجید انبیائے الٰہی کا تعارف بشیر ونذیر کی حیثیت سے کراتا ہےیعنی یہ ہستیاں انسانوں کو رحمت ِالٰہی، بہشت اور بے پایاں جزاو ثواب کی نوید بھی دیتی ہیں، او رانہیں خبردار کرتے ہوئے گناہ کے خطرناک انجام سے متنبہ بھی کرتی ہیں۔

انبیا کی یہ دو صفات، اس بات کی ترجمان ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ وہ خوف اور امید کے بین بین زندگی بسر کرےخدا کی رحمت کی امید بھی رکھے اور اس سے خوف بھی کھائےیہی اعتدال کا راستہ ہےاگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو اپنا لے اور دوسرے کو چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے باعث ِخطر ہےکیونکہ اگر وہ صرف(رحمت ِالٰہی) کا امید وار رہا، تو دھوکے میں پڑجائے گا اور خدا کی رحمت واسعہ کی امید پر ہر گناہ میں ہاتھ رنگنے لگے گااس کے برخلاف اگر وہ صرف خوفزدہ رہا، تو یاس و ناامیدی میں مبتلا ہوجائے گا اور یہ حالت انسان کو افسردگی اور خستگی میں مبتلا کردے گی، اس کے اندر سے ولولہ، نشاط اور آگے بڑھنے کی امنگ ختم کرکے اسکی پیشرفت کو روک دے گی۔

۴۵

اسی بنیاد پر بہت سی روایات کے مطابق پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار نے فرمایا ہے کہ:مومن خوف اور رجا (امید) کے درمیان زندگی بسرکرتا ہے اور اس میں یہ دونوں خصوصیات مساوی طور پر پائی جاتی ہیںلہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے تھے کہ:

اِنَّهُ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍمُؤْمِنٍ اِلّا وَفِی قَلْبِهِ نُورٰانِ، نُورُخِیَفةٍ وَنُورُ رَجٰاءٍ، لَوْوُزِنَ هٰذٰالَمْ یَزِدْعَلٰی هٰذٰا، وَلَوْ وُزِنَ هٰذٰا لَمْ یَزِدْ عَلٰی هٰذٰا

کوئی شخص مومن نہیں، سوائے اس کے جس کے دل میں دو نور پائے جاتے ہوںنورِ خوف اور نورِ امیداگر اس میں ان دونوں کا باہم وزن کیا جائے تو دونوں کا وزن برابر ہو گااصول کافی  ج ۲۔ ص۷۱از محدث کلینی

یہ نکتہ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہےسورہ زمر کی آٹھویں اور نویں آیت میں غیر مومن اور مومن انسان کا مواز نہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ پہلا گروہ (یعنی غیر مومن گروہ) بلا اور مصیبت کے موقع پر خوفزدہ ہوجاتا ہے اور نعمت و آسائش کے موقع پر مغرور اور خدا سے بے خبر، جبکہ دوسرا گروہ (مومنوں کا گروہ) ہمیشہ خائف اور امیدوار رہتا ہےیہ دونوں گروہ کسی صورت برابر نہیں ہوسکتےبلکہ پہلا گروہ گمراہ اور دوسرا گروہ راہِ راست پر گامزن ہےدوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو:

يَحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّه

عذاب ِآخرت سے ڈرتے ہیں اور رحمت ِپروردگار سے امید رکھتے ہیں۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۹)

۴۶

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں خوف وخشیت ِالٰہی کی اہمیت او رمختلف ابعاد میں اسکے درجات کا تذکرہ ہوا ہےمثال کے طور پر سورہ سجدہ کی آیت سولہ میں، سچے اور حقیقی مومنین کی شان میں فرمایا گیا ہے:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا

ان کے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں اور( قیام کی حالت میں خدا کی طرف رخ کرکے) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔ سورہ سجدہ ۳۲آیت ۱۶

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوف اور امید، خدا کے ان مخلص بندوں کی شب بیداریوں اور ان کے خدا سے مضبوط تعلق کا سبب اور وجہ ہیں اور یہ لوگ خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔

سورہ ناز عات کی آیات نمبر چالیس اور اکتالیس میں ہے کہ:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے، تو جنت اس کا ٹھکانہ اور مرکز ہےسورہ نازعات ۷۹ آیت ۴۰، ۴۱

اس آیت کی بنیاد پر، خوفِ خدا ترک ِگناہ کا مقدمہ ہے اور اسکا نتیجہ خدا کا اجرِ عظیم یعنی جنت ہے۔

اسی بات کو سورئہ رحمٰن کی چھیالیسویں آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه جَنَّتٰنِ

اور جو شخص بھی اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، اسکے لیے جنت میں دو باغات ہیںسورئہ رحمٰن ۵۵آیت ۴۶

۴۷

جب ہم عظمت ِالٰہی کے سامنے خوف و ہراس سے متعلق آیات ِقرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس خصلت کے بارے میں ایسے مختلف الفاظ اور تعبیرات کے ذریعے گفتگو کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف انسانوں کے خوف و ہراس کے درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

مرحوم شیخ صدوؒق نے کتاب ” خصال“ میں قرآنِ کریم کی روشنی میں خوف کو پانچ اقسام میں قرار دیا ہے اور ان میں سے ہر قسم کے لیے ایک آیت کا ذکر کیا ہےیہ پانچ اقسام درج ذیل ہیں: ۱خوف ۲خشیت۳وجل۴رہبت ۵ہیبتاسکے بعد ان کے بار ے میں ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

خوف، گناہگاروں کے لیے ہے۔

خشیت، علما کے لیے ہے۔

وجل(دل کا خوفزدہ ہونا)، انکساری کے ساتھ تسلیم ہونے والوں کے لیے ہے۔

رہبت، عابدوں کے لیے ہے اور ہیبت کا تعلق عارفوں سے ہے۔

پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:خوف، گناہوں کی وجہ سے ہےخشیت، وظائف و فرائض کی انجامدہی میں کوتاہی کے احساس کی وجہ سے طاری ہونے والا خوف و ہراس ہےوجل اور قلبی خوف و ہراس، خدمت ترک کرنے کی وجہ سے ہے رہبت، عبادت میں تقصیر اور کوتاہی کے احساس کی وجہ سے ہےاور ہیبت، اسرار کے انکشاف کے وقت شہودِ حق کی وجہ سے خدا کے لامتنا ہی شکوہ وعظمت سے خوف و ہراس کا نام ہے(خصال۔ ج۱۔ ص۲۸۳)

۴۸

خوف کے مراتب کے بارے میں ایک دوسرا موضوع یہ ہے کہ خوف شدت اور ضعف رکھتا ہےجوشخص خوف کے جس مرتبے کا حامل ہو۔ اسی کی مناسبت سے مقامات حاصل کرتا ہےوہ ہستیاں جو خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں، مثلاً انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی، ان میں خدا کا شدید ترین خوف پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ رات کے درمیانی حصے میں اپنی نمازوں اور مناجات کے دوران خوف ِخدا سے گریہ ونالہ وفغاں کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے بہنے والے شفاف آنسوئوں سے اپنی روح کو دھوتے ہیں، اور اپنے شوق و خوف کے آنسوئوں کے ذریعے اپنے پرزور احساسات کے ساتھ اپنی انتہائی تواضع اور کمالِ بندگی کا اظہار کرتے ہیں اس قسم کا گریہ وزاری اس قدر پسندیدہ اور قدر و قیمت کا حامل ہے کہ بقول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

مَنْ دَرَفَتْ عَیْنٰاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، کٰانَ لَهُ بِکُلِّ قَطْرَةٍ مِنْ دُمُوعِهِ مِثْلَ جَبَلِ اُحُدٍیَکُون فِی مِیزانِهِ فِی الأَجْرِ

جس کی آنکھ خوف ِخدا سے بہنے والے آنسوئوں سے تر ہوجائے، اسکے آنسوئوں کا ہر قطرہ روزِ قیامت اس کے میزانِ عمل میں احد کے پہاڑ کی مانند وزن رکھے گابحارالانوار۔ ج ۹۳ص ۳۳۴

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَلْبُکٰاءُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ مِفْتٰاحُ رَحْمَةِ اللهِ

خوفِ خدا سے رونا، رحمت ِالٰہی کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے۔ غررالحکم

۴۹

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت

اس بات کے پیش نظر کہ عظمت ِالٰہی کے مقابل خوفزدہ ہونا تہذیب و تکامل کا ایک قوی عامل ہے اور اگر کسی میں یہ خصلت قوی اور راسخ ہوجائے تو وہ اس انسان کے راستے سے راہِ کمال کی ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہےپیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کلام میں اس خصلت کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور خوف ِخدا نہ رکھنے کی مذمت کی گئی ہےمحترم قارئین کی توجہ اس سلسلے میں رسولِ مقبول ؐاور ائمہ اطہارؑ کے چند اقوال کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اَعْلَی النّٰاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَاللهِ اخْوَفُهُمْ مِنْهُ

خدا کے نزدیک لوگوں میں اعلیٰ وارفع مقام کے حامل افراد وہ لوگ ہیں جو ان میں سے زیادہ خوف ِخدا رکھتے ہیں بحارالانوارج ۷۷۔ ص۱۸۰

امیر المومنین حضرت علی علیہ اسلام نے فرمایا:جب قیامت برپا ہوگی تو منادیٔ حق ندا دے گا کہ:

ایُّهَاالنّٰاسُ اِنَّ اَقْرَبَکُمُ الْیُوْمُ مِنَ اللهِ اَشَدُکُمْ مِنْهُ خَوْفاً

اے لوگو! آج بارگاہِ خدا میں تم سب سے مقرب ترین شخص وہ ہے جو دنیا میں دوسروں سے زیادہ خدا کی عظمت سے خوفزدہ تھابحارالانوارج ۷۸۔ ص۴۱

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لٰایَکُونُ الْعُبُدُ مُؤْمِنًا حَتّیٰ یَکُونَ خٰائفاً رٰاجِیاً

کوئی بندہ خدا اس وقت تک ایمان کے درجہ کمال تک نہیں پہنچتا، جب تک اس میں خوف اور امید کی خصلتیں نہ پائی جاتی ہوں بحارالانوارج ۷۰۔ ص ۳۹۲

۵۰

البتہ یہ بات واضح ہے کہ سچا خوف وہ ہوتا ہے جو اطاعت اور ترک ِمعصیت کا موجب بنے اور اسکی علامات عمل سے ظاہر ہوں، جبکہ جھوٹا خوف کھوکھلا اور غیر موثر ہوتا ہے۔

اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ عَرَفَ اللهَ خَافَ اللهَ، وَمَنْ خٰافَ اللهَ سَخَتْ نَفْسُهُ عَنِ الدُّنْیٰا

جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے، وہ اس سے خوف کھاتا ہے، اور جوشخص خوف ِ خدا رکھتا ہے، وہ دنیا کا شیفتہ نہیں ہوتااصول کافی ج ۲ص ۶۸

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی کا کہنا ہے کہ میں نے امام سے عرض کیا: بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کی رحمت سے (مغفرت کی) امید رکھتے ہیں ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی خیال رہتا ہے، یہاں تک کہ موت ان کے سرپر آپہنچتی ہے (اور وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیںکیا انہیں اُن کی اِس امید کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا؟ )

امام ؑنے فرمایا: اس قسم کے لوگ، ایسے افراد جو اپنی آرزئوں ہی میں مگن رہتے ہیں، یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیںیہ لوگ (دراصل) امید وار نہیں ہوتےجوشخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے؟ اس کا طلبگار ہوتا ہے، اور جو شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے، اس سے گریز کرتا ہے (اس خصلت سے عاری یہ لوگ درحقیقت خدا سے روگرداں ہیں اور عذاب کے موجبات، جوگناہ ہیں، کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں)(اصولِ کافی  ج۲۔ ص۶۸)

امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لاٰخَوْفَ کَخَوْفِ حٰاجِزٍ، وَلاٰ رَجٰاءَ کَرَجٰاء مُعِینٍ

کوئی خوف، اس خوف کی مانند گراں قیمت نہیں جو گناہ سے باز رکھتا ہےاور کوئی امید اس امید سےگراں قدر نہیں جو (توبہ اور عواملِ نجات کے سلسلے میں) مدد گار ہوتی ہےبحارالانوارج ۷۰۔ ص۱۶۴

۵۱

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْعَجَبْ مِمَّنْ یَخَافُ الْعِقٰابَ فَلَمْ یَکِفَّ، وَرَجَا الثَّوابَ فَلَمْ یَتُبْ

باعث ِتعجب ہے وہ شخص جو عذاب ِالٰہی سے ڈرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گناہوں سے باز نہیں رکھتا اور ثواب وپاداشِ الٰہی کی امید رکھتا ہے لیکن توبہ نہیں کرتابحارالانوارج ۷۷۔ ص ۲۳۷

امام حسین علیہ السلام ” دعائے عرفہ“ میں ایک مقام پر خدا سے عرض کرتے ہیںکہ:

اَللَّهُمَّ اجْعَلْنی اَخْشاکَ کَاَنِّی اَرَاکَ

بارِالٰہا! مجھے اپنی بارگاہ میں ایسا خائف بنادے کہ گویا میںتجھے دیکھ رہا ہوں۔

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی

مذکورہ بالا گفتگو سے استفادہ ہوتا ہے کہ خوف کی خصلت، خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی خصوصیت اور ایک اعلیٰ اور تعمیری انسانی فضیلت ہےخوف صرف زبان اور حالت کے ذریعے اظہار کا نام نہیں بلکہ کامل خوف وہ ہے جس کے آثار عمل میں دکھائی دیں اور جو گناہوں سے دوری کا قومی عامل بنے۔

خوف کے اعلی مراحل وہ ہیں کہ انسان رات کی تنہائی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس سے مناجات کے دوران گریہ وزاری کرے اور انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنا دل خدا سے وابستہ رکھے اور اپنے آپ کو خدا کی عظمت کے سامنے ایک ناچیز ذرّہ سمجھے۔

۵۲

مومن، خائف بھی ہوتا ہے اور امیدوار بھی، وہ اپنے اندر یہ دونوں خصلتیں مساوی طور پر پروان چڑھاتا ہے اور ان دوپروں کے ذریعے دنیائے سماوی کی بلندیوں میںپرواز کرتا ہے اور ان دوانوار کے ذریعے اپنے قلب کو پرنور اور روح کو پاکیزگی اور صفا سے سرشار کرتاہے۔

خوف ورجا کا مسئلہ، تربیتی مسائل میں تعلیم کے بنیادی ارکان و اصول میں سے ہےاسی بناپر انبیا علیہم السلام نذیر بھی تھے اور بشیر بھیمثال کے طور پر اگر جماعت کا استاد اپنے طالب علموں سے کہے کہ اس سال تمام طلبا پاس ہوجائیں گے، اس طرح انہیں صرف امید دے، خوف نہ دے، تو طلبا مطمئن ہوکے، دھوکے میں آکے تصور کرنے لگیں گے کہ وہ سب پاس ہوجائیں گے اور اس طرح پڑھائی لکھائی سے غفلت اور سستی برتنے لگیں گےاس کے برعکس اگر استاد کہے کہ اس سال تم سب فیل ہوجائوگے، تو ان الفاظ سے استاد اپنے تمام طالب علموں کو مایوس اور ناامید کردے گا، اور ان میں پڑھنے کی امنگ اور جوش وخروش کو ٹھنڈا کردے گااور اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا کہ طالب علموں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجائے گا اور ان میں پڑھنے کی تمنا اور جوش وخروش ختم ہوجائے گا۔

سمجھدار اور لائق معلم وہ ہے جو نذیر (خوف دلانے والا) بھی ہو اور بشیر (خوش خبری اور امید دلانے والا) بھی، جو امید بھی دلائے اور خوف بھی اور اپنے طالب علموں کو ان دو خصلتوں کے درمیان رکھےکیونکہ یہ اعتدال اور دونوں خصائل کی آمیزش شوق ورغبت، حرکت و عمل اور نورانیت و پاکیزگی کا موجب ہے۔

۵۳

خوف و رجا کے درمیان اعتدال کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اسلامی روایات میں ناامیدی (جو رجا کی ضد ہے) اور عذاب ِالٰہی سے امان و حفاظت (جوخوف کی ضد ہے) کودو گناہان کبیرہ شمار کیا گیا ہےیہاں تک کہ صحیح روایت میں نقل ہوا ہے کہ: عمروبن عبید امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے ان گناہانِ کبیرہ سے آگاہ فرمائیے جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں انیس گناہ گنوائےاور ان میں سے ہر گناہ کے بارے میں ایک آیت ِقرآن بطور دلیل پیش کیامام ؑنے انیس گناہوں میں عذاب ِالٰہی سے محفوظ ہونے اور ناامیدی کو بھی شمار کیا اور فرمایا:خدا کے ساتھ شرک کے بعد (دوسرے نمبر کا گناہِ کبیرہ) رحمت ِالٰہی سے یاس و ناامیدی ہےجیسا کہ خدا وند ِعالم کا ارشاد ہے:

اِنَّه لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ

کفار کے سوا کوئی رحمت ِخدا سے ناامید نہیں ہوتاسورہ یوسف۱۲۔ آیت ۸۷

پھر امام ؑنے فرمایا: اس کے بعد (یعنی تیسرے نمبر کا گناہ ِکبیرہ) خدا کے مکرو عذاب سے تحفظ کا احساس (یعنی خدا سے خوف نہ کھانا) ہےجیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللهِ۰ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (کیا یہ لوگ خدائی تدبیر کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں، جب کہ ایسا اطمینان صرف گھاٹے میں رہنے والوں کو ہوتا ہےسورہ اعراف ۷۔ آیت ۹۹)(اصولِ کافی ۔ ج ۲۔ ص ۲۸۵)

۵۴

اس گفتگو کو ہم اس معروف قصے پر ختم کرتے ہیں جو قیامت کے وحشتناک حوادث سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے خوف کی نشاندہی کرتا ہے:امام حسن علیہ السلام اپنی حیات کے آخری لمحات میں خوف ِخدا سے گریہ کررہے تھےوہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے سوال کیا: اے فرزند ِرسول! آپؑ جو بارگاہ الٰہی میں انتہائی بلند درجے اور مقام کی حامل ہیں، آپؑ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ؐنے بکثرت فرمایا ہےآپؑ جو بیس مرتبہ پیدل حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے ہیں، تین مرتبہ آپؑ نے اپنا تمام مال و دولت راہِ خدا میں ضرورت مندوں کو بخشا ہے(لہٰذا موت کا یہ سفرتو آپؑ کے لیے مبارک و مسعود سفر ہے) اسکے باوجود آپؑ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟

امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا:اِنَّما اَبْکِی لِخِصْلَتَیْنِ لَهِوْلِ الْمُطَّلَعِ وَفِراقِ الاَحِبَّهِ (جان لو کہ میں دو وجوہات کی بنا پر رورہا ہوں، ایک روزِ قیامت کی وحشت کی وجہ سے، کہ اس روز ہر کوئی حالات سے آگاہی اور نجات کی کوئی راہ تلاش کرنے کی غرض سے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہا ہوگا اور دوسری وجہ دوستوں کی جدائی ہے(امالی ٔشیخ صدوقمجلس ۳۹حدیث ۹)

۵۵

انفاق اور خرچ میں اعتدال

قرآنِ کریم خداوند ِرحمان کے خاص اور ممتاز بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا

یہ لوگ وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف (فضول خرچی) کرتے ہیں اور نہ بخل (کنجوسی) سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کے درمیان، اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپناتے ہیںسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷

اس آیت میں زندگی کے ایک اہم ترین مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے، جسے ملحوظ او رپیش نظر رکھنا فرد اور معاشرے کی آسائش، فلاح اور اطمینان کا باعث ہے اور بہت سی سماجی اور اقتصادی مشکلات کے حل اور خرابیوں کی اصلاح کا ذریعہ ہےیہ اہم ترین مسئلہ خرچ میں اعتدال اور میانہ روی ہے۔

اعتدال، یعنی میانہ روی، یعنی حد سے زیادہ بڑھنے اور حد سے کم ہونے کی درمیانی لکیراسلام تمام امورومعاملات میں اس طرزِ عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اسلام کی پیروی کی وجہ سے مسلمانوں کو امت ِوسط، یعنی معتدل امت کہا گیا ہےارشادِ قدرت ہے:وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا (اور اس طرح ہم نے تمہیں امت ِوسطہ قرار دیا ہےسورئہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۴۳)

حضرت علی علیہ السلام نے ان لوگوں کو جاہل قرار دیا ہے جو اعتدال سے نکل کر افراط یا تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں آپ ؑفرماتے ہیں:لَاتَرَی الجاهلَ اِلَّا مُفرطاً اُو مفرّ طا (جاہل کوہمیشہ افراط یا تفریط کا شکار دیکھو گےنہج البلاغہ۔ کلمات قصار۷۰)

۵۶

زیر ِبحث آیت جو (سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی) خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بیان پرمشتمل ہے، اس میںاعتدال کے ایک اہم ترین شعبے پر گفتگو کی گئی ہے، جس کا تعلق اقتصادی امور اور اجتماعی و سماجی زندگی سے ہے اور جو زندگی کی اصلاح و بہتری اور خوشگوار اجتماعی اور عائلی حیات کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہے اور وہ خصوصیت ” خرچ میں میانہ روی“ کی خصوصیت ہےیعنی مردِ مسلمان کو چاہیے کہ خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف اور فضول خرچی کرے، اور نہ کنجوسی اور بخل سے کام لے، بلکہ ان دونوں کی درمیانی راہ اپنائے۔

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت

کسی بھی عمل میں حد ِاعتدال سے کسی بھی قسم کی افراط، تجاوز اور زیادتی اسراف کہلاتی ہےمثلاً ایک وقت کے کھانے کے لیے چھ سوگرام غذا کافی  ہےاب اگر کوئی اپنے لیے ایک کلو گرام غذا بنائے، اس میں سے آٹھ سو گرام کھائے، اور باقی بچ جانے والی دو سو گرام غذا کو پھینک دے، تو اس نے ایک وقت کے کھانے میں دو طرح کا اسراف اور فضول خرچی کی ہےایک یہ کہ اس نے دو سوگرام غذا زیادہ کھائی ہے اور دوسرے یہ کہ آٹھ سو گرام سے زیادہ جو دو سو گرام غذا تیار کی تھی، اسے کوڑے دان میں پھینک دیا ہےاس طرح اس نے ایک وقت کے کھانے میں چار سو گرام غذا فضول خرچ کی ہے۔

اس مثال کو سامنے رکھ کر اور اس کی روشنی میں زندگی کے دوسرے مختلف پہلوئوں اور شعبوں کا جائزہ لے کر ہم بآسانی جان سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف صورتوں میں کس قدر اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے۔

۵۷

اسراف کی مختلف شکلیں ہیں، اس کی ایک شکل جس سے زیر ِبحث آیت میں روکا گیا ہے، خرچ میں اسراف ہےجیسے کھانے پینے میں اسراف، کھانے کو پھینک کر ضائع کرنے میں اسراف، فضول تکلفات اور بے جاتزین وآرائش وغیرہ میں اسرافحتیٰ اگر عبادات کے دوران بھی افراط ہونے لگےمثلاً کوئی وضو اور غسل میں عقلی اور فطری حد سے زیادہ پانی خرچ کرے، تو یہ بھی اسراف ہےاسی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا: فی الوضوء اسرافٌ وفی کلِّ شی ءاسرافٌ (وضو اور ہر چیز میں اسراف ہوسکتا ہےکنزالعمال حدیث ۲۶۲۴۸)

عباسی، نامی ایک شخص امام رضا علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور گھر میں بیوی بچوں کی ضروریات اور دوسرے امور کے بارے میں اخراجات کے سلسلے میں امام سے رہنمائی طلب کیامام رضا علیہ اسلام نے اس سے فرمایا: تمہارے خرچ کو دو ناپسندیدہ کاموں (فضول خرچی اور کنجوسی) کے درمیان ہوناچاہیے۔

عباسی نے پوچھا:اِس سے آپ ؑکی کیا مراد ہے؟

فرمایا: کیا تم نے قرآنِ کریم میںخدا وند ِعالم کا وہ کلام نہیں پڑھا، جس میںاس نے فضول خرچی اور کنجوسی دونوں کو ناپسند قرار دیا ہے اور (خدا کے ممتاز بندوں کے اوصاف میں) فرمایا ہے کہ:وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا (اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں، تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ اپناتے ہیںسورئہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷) لہٰذا اپنے افرادِ خانہ کے اخراجات اور ان کی ضروریات ِ زندگی کی خریداری اور ان چیزوں کو خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لو(سفینتہ البحار از محدث قمیج ۱ص ۶۱۵ اور بحار الانوار از علامہ مجلسی ج ۷۱ص ۳۴۷)

۵۸

ایک دوسری روایت کے مطابق، ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کے سامنے اسی (مذکورہ بالا) آیت کی تلاوت فرمائی اور پھر زمین سے مٹھی بھر سنگریزے اٹھا کے انہیں سختی کے ساتھ ہاتھ میں بھینچا اور فرمایا: یہ بخل اور سخت گیری ہے (جس کی آیت میں ممانعت کی گئی ہے)پھر آپ نے سنگریزوں کی ایک اور مٹھی اٹھائی اور اس طرح اپنے ہاتھ کو کھولا کہ وہ سب سنگریزے زمین پر گرگئے، اور فرمایا:یہ اسراف ہےپھر تیسری مرتبہ مٹھی بھر سنگریزے اٹھائے اور اپنا ہاتھ تھوڑا سا کھولا، اتنا کہ کچھ سنگریزے گرگئے، اور کچھ آپ کے ہاتھ ہی میں رہے، اور فرمایا:یہ اسراف اور کنجوسی کے درمیان پایا جانے والا اعتدال ہے(تفسیر نورالثقلین ۔ ج۴ص ۲۹ از محدث خبیر عبدعلی بن جمعہ حویزی)

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت کی گئی ہےمثال کے طور پر چند آیات ملا حظہ فرمایئے:

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا

کھائو اور پیو مگر فضول خرچی نہ کرو (سورہ اعراف۷آیت ۳۱)

وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّه لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ

فضول خرچی نہ کرنا، کہ خدا فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

(سورہ انعام۶آیت ۱۴۱)

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا

اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دو کہ آخر میں خالی ہاتھ اور قابل ِ ملامت ہوجائو(سورئہ بنی اسرائیل ۱۷۔ آیت ۲۹)

۵۹

اسی آیت اور حکمِ الٰہی کو سامنے رکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

ما مِنْ نَفَقَةٍ احبَّ اِلَی الله مِنْ نفقةِ قَصْدٍ ویبْغُضُ الاسراف

خدا کے نزدیک کوئی بھی انفاق (خرچ)، اعتدال پر مبنی انفاق سے بڑھ کر پسندیدہ نہیںخدا انفاق میں اسراف کو پسند نہیں کرتاقصار الجمل ازآیت اللہ علی مشکینی۔ ص ۳۰۵

یہی وجہ تھی کہ رسولِ مقبول، امیر المومنین اور تمام ائمہ اطہار انتہائی سادہ زندگی بسرکرتے تھے اور ہر قسم کی شان وشوکت کے اظہار اور بے جا تکلفات سے سختی کے ساتھ گریزاں رہتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اہل کاروں کے نام ایک خط میں لکھا کہ:

آدِقّوا ا قلٰامَکُمْ، وقارِ بُو بَیْنَ سُطُورکُمْ، واَحذِ فُو عَنْ فُضُو لِکُمْ، وَاقُصُدُ والمعانیَ، وایَاکُمْ والا کْثٰارَ، فَاِنَّ اموالَ الْمُسْلِمینَ لاتَحْتَمِلْ الضَّرَر

اپنے قلموں کی نوک کو باریک تراشو، سطروں کے درمیان فاصلہ کم رکھو، زیادہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرو، معانی کے بیان کو مطمع نظر قرار دو، فضول اور زیادہ باتوں سے دور رہو، تاکہ مسلمانوں کے مال کو نقصان نہ پہنچےبحارالانوار ازعلامہ مجلسیج ۴۱۔ ص ۱۰۵

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے:

یاد رکھو کہ مال کا ناحق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہےاگر یہ عمل انسان کی دنیا میں بلندی کا باعث بنے بھی، تو آخرت میں اسے پست کردیتا ہے، اور اگر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام بنابھی دے، تو خدا کی نگاہ میں ذلیل کردیتا ہےجب کوئی شخص مال کو ناحق یا نااہل پر خرچ کرتا ہے تو پروردگار اسے اسکے شکرانے سے بھی محروم کردیتا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۴)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

( تابش آفتاب )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو سورج کی تابانی پر کہ کیسی تدبیر اس میں کار فرما ہے کہ اگر وہ آسمان کے ایک نقطہ پر ظاہر ہوتا اور وہیں رک جاتا، اور ذرہ برابر اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتا تو ہرگز اس کی شعاعیں اور اس کے دوسرے فوائد تمام نقاط پر ظاہر نہ ہوتے، اس لئے کہ پہاڑ اور دیواریں اس کے درمیان حائل ہوجاتی۔

( چاند میں نمایاں دلیلیں خداوندتعالیٰ پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل۔ ذرا چاند پر غور کرو اُس میں ایسی نمایاں دلیلیں موجود ہیں جو خداوند متعال پر دلالت کرتی ہیں ، چاند میں لوگوں کے لئے ایک بہت عظیم رہنمائی پوشیدہ ہے جس کے وسیلے سے لوگ سال کے قمری مہینوں کو پہچانتے ہیں ، چاند کے وسیلے سے سال شمسی کو نہیں پہچانا جاسکتا اس لئے کہ اس کی گردش چار گانہ فصلوں سے مطابقت نہیں رکھتی، اور نہ ہی پھلوںں کی نشوونما، انہیں کاٹنے یا اتارنے کی مدت تکمیل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سال قمری ، سال شمسی سے مختلف ہوتا ہے، اور سال قمری کے مہینے آگے پیچھے ہوجاتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمیوں میں دوسری دفعہ سردیوں میں ، اب ذرا رات کے وقت اس کی روشنی اور اس کے فوائد پر غور کرو کہ انسان و حیوان کے آرام اور ہوا کے سرد ہوجانے کے باوجود ان کے لئے ہرگز یہ بات سود مند نہ ہوتی کہ رات بالکل تاریک اور اندھیری ہو، اور روشنی کا کہیں نام و نشان نہ ہو، کیونکہ ایسے میں وہ کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے جب کہ بہت سے لوگ رات کو کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، کیونکہ وہ ان کاموں کو دن کی تنگی یا شدت گرمی کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتے، لہٰذا وہ رات میں چاند کی روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کاموں ،مثلاً،

۱۲۱

ذراعت، اینٹوں کا قالب میں رکھنا، درخت کاٹنا، وغیرہ کو انجام دیتے ہیں گویا چاند کی روشنی لوگوں کے لئے اُس وقت مددگار ثابت ہوتی ہے کہ جب وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، اور چاند کی روشنی سے رات کے مسافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور چاند میں اس طرح کی تدبیر رکھی کہ وہ بعض راتوں میں ظاہر اور بعض میں غائب ہو، اس کی روشنی کو سورج کی روشنی سے کم رکھا گیا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام لوگ اس کی روشنی سے استفادہ کرنے کے لئے کام کاج میں مشغول ہوجاتے اور بالکل آرام و سکون نہ کرتے کہ یہ عمل ان کی ہلاکت کا سبب بنتا، چاند کے اندر مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ کبھی وہ کمان کی شکل اور کبھی لکیر نما دکھائی دیتا ہے ، کبھی اس میں زیادتی اور کبھی اس میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح چاندگہن بھی ہوتا ہے کہ جو خالق دوجہاں کی قدرت پر دلالت کرتا ہے ، چاند کا گہن ہونا اور اس قسم کی دوسری تبدیلیاں بھی عالم کی بھلائی کے لئے ہیں جو خالق عالم کی قدرت کا منھ بولتا ثبوت ہیں جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔

( ستاروں کی حرکت )

اے مفضل۔ ستاروں اور ان کی حرکت پر غور کرو،اُن میں سے بعض اپنے مرکز سے انفرادی حرکت نہیں کرتے ، بلکہ وہ اجتماعی حرکت کرتے ہیں ، جبکہ ان میں بعض آزادانہ طور پر ایک بُرج سے دوسرے بُرج کی طرف حرکت کرتے ہیں ، یہ اپنی حرکت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،ان ستاروں کی حرکت دو طرح کی ہے ایک حرکت عمومی ہے جو فلک سے مغرب کی طرف ہے اور ایک حرکت خود ان سے متعلق ہے کہ جو وہ مشرق سے مغرب کی طرف کرتے ہیں ، ان کی مثال اس چیونٹی کی سی ہے، جو چکّی کے پتھر پر چکر لگارہی ہے کہ آسیاب کا پتھر اُسے سیدھی طرف حرکت دیتا ہے اور چیونٹی خود اُلٹی طرف حرکت کرتی ہے ، تو ایسی حالت میں دراصل چیونٹی دو طرح کی حرکت میں مصروف ہے ایک خصوصی

۱۲۲

جس کے تحت آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور دوسری حرکت آسیاب کے پتھر کے تحت انجام پا رہی ہے جو اسے پیچھے کی طرف کھینچتا ہے پس اب سوال کیا جائے اُن لوگوں سے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ستارے اور ان کی یہ گردش حالت میں اتفاق اور بغیر قصد و ارادہ کے ہے اور ان کا کوئی بنانے والا نہیں۔ پس اگر ایسا ہے تو یہ سب ساکن کیوں نہیں یا یہ کہ سب کیوں برج سے برج کی طرف منتقل نہیں ہوتے اس لئے کہ اتفاق کا نتیجہ یہی ہی ہوتا ہے پھر کس طرح ان میں دو حرکتوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ستاروں کی حرکت حکمت، تدبیر اور قصد و ارادہ کا نتیجہ ہے اور ہرگز اتفاق کا نتیجہ نہیں کہ جس طرح فرقہ معطّلہ کے لوگ یہ گمان کرتے ہیں اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ آخر کیوں بعض ستارے ساکن اور بعض متحرک ہیں؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اگر تمام ستارے ایک ہی طرح ہوتے اور ان میں اختلاف نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تو کس چیز کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا، اور دوسری بات یہ کہ ان کی حرکت ہی کی وجہ سے عالم میں پیش آنے والے حادثات کی پیشن گوئی کی جاتی ہے اور اگر وہ سب کے سب متحرک ہوتے تو ایسی صورت میں ان کی طرف سیر کرنا مشکل ہوجاتا، اس لئے کہ ان کی کوئی خاص جگہ نہ ہوتی کہ جس کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی اثر باقی رہتا کہ جس کے وسیلے سے ان تک رسائی ممکن ہوتی بلکہ ستاروں کے ساکن اور اور ثابت ہونے ہی کی وجہ سے ان کے مکان اور ان تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس طرح جس طرح سے کوئی مسافر ایک منزل تک مختلف راستوں اور منزلوں کو طے کرتا ہوا پہنچتا ہے تو بس اگر تمام ستارے ایک ہی قسم کی حرکت رکھتے تو تمام نظام خراب ہوجاتا اور پھر کہنے والے کے لئے یہ بات کہنا صحیح ہوتی کہ ان سب کا ایک اندازہ پر ہونا اس چیز پر دلالت ہے کہ یہ سب محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں، لہٰذا جو کچھ ہم نے ستاروں کی اختلاف سیر ان کے عمل اور جو کچھ ان کے فوائد و نتیجہ کے بارے میں بیان کیا، یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ قصد وا رادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں اور ان کے وجود میں تدبیر استعمال کی گئی ہے۔

۱۲۳

( ثریا، جوزہ ، شعریین، اور سہل میں حکمت )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان ستاروں پر کہ جو سال میں کچھ وقت ظاہر اور کچھ وقت پوشیدہ رہتے ہیں، مثلاً ثریا، جوزہ، شعریین ،اور سہل اگر یہ سب ستارے ایک ہی ساتھ اورایک ہی وقت میں ظاہر و نمودار ہوتے تو ان کی پہچان مشکل ہوجاتی اور بہت سے کام انجام نہ دیئے جاتے ، مثلاً ثریا کے طلوع و غروب ہونے کا علم، جس سے لوگ مختلف فائدے حاصل کرتے ہیں ان ستاروں کا طلوع و غروب ہونا ایک دوسرے سے مختلف ہے تاکہ لوگ انہیں پہچان کر ان سے بہرہ مند ہوسکیں، یہی وجہ ہے کہ ثریا، جوزا وغیرہ کبھی غائب ہوتے ہیں اور کبھی ظاہر ہوتے ہیں۔

( بنات النعش ستارہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے )

بنات النعش ستارہ کو خداوند متعال نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے اور غائب نہیں ہوتا، کیونکہ بنات النعش ایک ایسی علامت ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ صحراء و بیابان اور دریا میں اپنی کھوئی ہوئی راہ کو پاتے ہیں اسی لئے یہ ہمیشہ ظاہر ہے اور غائب نہیں ہوتا، تاکہ لوگ جب چاہیں اُسے دیکھیں اور اپنی سمت کو معین کریں، درحقیقت یہ امور جو آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لوگوں کی احتیاج و ضرورت کو پورا کرنے اور ان کے فائدے کے لئے ہے،اس قسم کے ستاروں میں اور بہت سے فوائد ہیں وہ یہ کہ بہت سے کاموں کے اوقات ان کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں مثلاً زراعت، درختکاری، سفر دریا، وصحراء اور مختلف حوادث مثلاً ہوا، بارش ، گرمی ، سردی کا ظاہر ہونا بھی انہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور ان کی روشنی سے رات میں سفر کرنے والے افراد فائدہ اُٹھاتے ہیں، اوراس

۱۲۴

کے ذریعہ سے رہنمائی پاتے ہوئے خوفناک قسم کے بیابان اور دریاؤں میں سفر کو جاری رکھتے ہیں، ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ان ستاروں کا آسمان کے درمیان پستی و بلندی اور طلوع و غروب کی حالت میں حرکت کرنا عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہے کہ تیزی سے یہ ستارے اپنے مدار میں حرکت میں مصروف ہیں ۔

( چاند، سورج اور ستارے ہم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ )

اے مفضل۔ ہم کس طرح سے چاند ، سورج اور ستاروں کو ان کی تیز ترین حرکت کے باوجود قریب سے دیکھ سکتے تھے ؟ کیا ہماری آنکھیں ان کی تیز روشنی سے اپنی بصیرت و بینائی نہ کھو بیٹھیں، جس طرح سے کبھی اگر آنکھوں پر تیز روشنی پڑجائے تو آنکھیں اپنی بینائی کھو بیٹھتی ہیں اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر کچھ لوگ ایک ایسے قُبّہ کے درمیان ہوں جو چراغوں سے پر ہو اور وہ قبہ تیزی سے ان کے ارد گرد چکر لگانے لگے تو مسلماً وہ ان کی آنکھوں کو اس طرح حیراں کردے گا کہ وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیں گی۔ پس ذرا غور کرو اُس تدبیر پر کہ ان کی سیر و حرکت کو انسانوں سے دور رکھا گیا، تاکہ ان کی آنکھیں ان کے ضرر سے محفوظ رہیں، اور ان میں کسی قسم کا خلل ایجاد نہ ہونے پائے۔

ستاروں کو تھوڑی سی روشنی عطا کی گئی تاکہ ان کی روشنی چاند کی غیر موجودگی میں اس کی نیابت کرے، اور لوگوں کے لئے رات کا سفر کرنا ممکن ہوسکے ، اس لئے کہ انسان کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ رات ہی کے وقت اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے، پس اب اگر اس آدھی رات میں کوئی چیز ایسی نہ ہو کہ جس کی روشنی میں وہ راہ دیکھ سکیں تو کبھی بھی وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے۔

اب ذرا غور کرو ، اس لطیف تدبیر و حکمت پر کہ خداوند متعال نے رات کے لئے ضرورت کے مطابق

۱۲۵

وقت مقرر کیا اور اس کی تاریکی میں اتنی روشنی رکھی جس سے لوگ اپنی وہ تمام ضرورتیں پوری کرسکیں کہ جس کے بارے میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ اے مفضل۔ فکر کرو اس نظام پر جو سورج، چاند، ستاروں اور برجوں کے ساتھ مل کر عالم کے گرد محو گردش ہے اور اس گردش میں ایک صحیح اندازاہ و میزان ہے جس کے نتیجے میں شب ور وز منظم اور چار فصلیں وجود میں آتی ہیں اور جو حیوانات و نباتات پر بھی اثر انداز رہے ہیں اور یہ اس پورے نظام میں ان کی مصلحت ہے، جیسا کہ تمہارے لئے بیان کرچکا ہوں ، تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ و مخفی رہ جاتی ہے کہ یہ سب کام ایک ذات کی حکمت اور اس کی تدبیر کے سبب ہیں اور یہ کہ اس نظام کا صحیح اور ایک معین اندازہ پر ہونا ایک ہی ذات حکیم کی طرف سے ہے، اب اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو اتفاق سے اسی طرح وجود میں آئی ہیں، تو پھر وہ کیوں یہی کلام اس چرخے کے بارے میں نہیں کہتے جو گھومتا ہے اور پانی کو کنویں سے باہر لانے کا کام انجام دیتا ہے جس سے باغ وغیرہ سیراب ہوتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ تمام آلات کو ایک خاص اندازہ کے تحت بنایا جاتا ہے کہ جن میں بعض ، بعض سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سب باغ اور اس میں موجود اشیاء کے لئے بے انتہاء مفید ہیں، تو پھر کس طرح یہ کلام حقیقت پر مبنی ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آئی ہے؟ اور لوگوں کی اس وقت کیا رائے ہوتی ہے جب یہ کلام ان کے سامنے کہا جاتا ہے ، وہ اُس کا انکار کرتے ہیں یا نہیں؟ اے مفضل۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ جب اگر کوئی یہ کلام ایک ایسے تختے کے بارے میں کہتا ہے کہ جسے عام انسان نے ایک خاص کام کے لئے بنایا ہے، کہ یہ تختہ خودبخود وجود میں آیا ہے تو سب مل کر اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور اس سے اس کلام کو ہرگز قبول نہیں کرتے ، مگر صد افسوس کہ جب یہ کلام اس عجیب و غریب دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے جو ایک حیرت انگیز حکمت کے تحت وجود میں آئی ہے، کہ جس تک ذہنِ بشری کی رسائی ممکن نہیں اور جسے زمین اور اس میں موجود اشیاء کی بھلائی کے لئے بنایا ہے، تو اسے سب قبول کرلیتے ہیں کہ یہ دنیا

۱۲۶

اتفاق اور بغیر کسی صانع کی صنعت کے وجود میں آئی ہے۔

اے مفضل۔ ذرا سوچو کہ اگر ان افلاک (نظام) میں کوئی خلل پیدا ہوجائے کہ جس طرح ان آلات میں پیدا ہوجاتا ہے کہ جنہیں صنعت کے کام میں استعمال کیا جاتا ہے تو کس صانع کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے بارے میں چارہ اندیشی کرے۔

( رات اور دن پندرہ گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتے )

اے مفضل۔غور کرو شب و روز کے اندازہ پر،ان کے واقع ہونے،اور ُس تدبیر پر جس میں اس کے بندوں کی بھلائی ہے جب دن اور رات بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو '' 5ا پندرہ'' گھنٹے سے کسی بھی صورت میں تجاوز نہیں کرتے ، کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ اگردن ''100 '' گھنٹے یا ''200 '' گھنٹے کا ہوتا تو زمین پر زندگی پسر کرنے والے تمام حیوانات و نباتات ہلاک ہوجاتے ، حیوان اس لئے ہلاک ہوتے کہ انہیں آرام وسکون نہ ملتا، چوپائے چرنے سے فارغ نہ ہوتے، اور انسان اپنے کام کاج سے فارغ نہ ہوتا ،اور نباتات اِس لئے ہلاک ہو جاتے کہ سورج کی روشنی اور حرارت ان پر طویل مدت تک پڑتی ، جس کی وجہ سے وہ خشک ہوجاتے اور جل کر خاک بن جاتے اور اسی طرح رات معین شدہ مدت سے زیادہ طولانی ہوتی تو حیوانات اپنی حرکت نہ کر پاتے اور بھوک کے مارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ، اور اس طولانی مدت میں نباتات سے حرارت طبیعی ختم ہوجاتی ، اور وہ فاسد ہوجاتے بالکل اس پودے کی طرح کہ جسے اس جگہ یا مکان پر رکھ دیا جائے کہ جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔

۱۲۷

( سردی اور گرمی کے فوائد )

سردی اور گرمی سے جو چار فصلوں کی تکمیل کا باعث ہیں عبرت حاصل کرو۔ کہ یہ خاص نظم و ضبط اور اعتدال کے ساتھ جہان کو اپنے فائدوں سے بہرہ مند کرتی ہے۔ سردی اور گرمی دو ایسے وسیلے ہیں کہ جن کے ذریعے مال اور بدن کی اصلاح ہوتی ہے اور یہ عمل بدن کی بقاء اور اس کی بھلائی کے لئے ہے، اس لئے کہ اگر سردی وگرمی نہ ہوتیں اور اُن کا بدن پر کوئی اثر نہ ہوتا تو بدن فاسد ، سست اور کمزور پڑجاتا۔ اے مفضل ان میں سے ہر ایک کے دوسرے میں داخلے کی تدریجی حالت پر غور کرو ایک ہلکے ہلکے کم ہوتی ہے اور دوسری پہلی کی طرح ہلکے ہلکے بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ پہلی اپنی انتہاء تک پہنچ جاتی ہے اور اگر ان میں سے ایک کا دوسرے کے اندر داخل ہونا غیر تدریجی ہوتا تو مسلماً یہ عمل جسم کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ، بیمار ہونے کا سبب بن جاتا جس طرح سے اگر تم میں سے کوئی ایک گرم حمام سے نکل کر سرد جگہ پر چلا جائے تو قطعاً وہ مریض ہوجائے گا، پس پھر کیوں خداوند متعال نے سردی اور گرمی کے اندر اس تدریج کو رکھا، سوائے اس کے کہ انسان ان کے ضرر سے محفوظ رہ سکے، اگر یہ عمل تدبیر سے ہٹ کر ہوتا تو کیوں کر انسان سردی اور گرمی کے ناگہاں ضرر سے محفوظ رہتا اب اگر کوئی یہ گمان کرے کہ سردی اور گرمی کا تدریجی طور پر ہونا سورج کی سست رفتار اس کی پستی اور بلندی کی وجہ سے ہے تو اس سے سوال کیا جائے گا کہ سورج کے سست رفتار ہونے کی علت کیا ہے؟اور اگر وہ کہے کہ سورج کی سست رفتار ہونے کی علت مشرق ومغرب کا طویل فاصلہ ہے تو پھر اس سے اس دوری اور اس فاصلہ کی علت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی طرح یہ مسئلہ اوپر تک چلا جائے گا،یہاں تک کہ بات یہاں ختم ہوگی کہ یہ تمام کام مقصد و ارادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں کہ اگر گرمی نہ ہوتی تو پھل کسی بھی صورت میں سخت ونرم، پکے اور میٹھے نہ ہوتے، کہ لوگ ان کے تر اور خشک ہونے سے فائدہ

۱۲۸

اُٹھا سکیں اگر سردی نہ ہوتی تو ذراعت کسی بھی صورت میں اس مقدار میں نہیں ہوسکتی تھی جو تمام حیوانات کی غذا کے لئے کافی ہو اور نہ اس قدر کہ اس کے بیج سے دوبارہ ذراعت کی جاسکے، تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ سردی اور گرمی اس قدر فوائد کے باوجود انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ سب چیزیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام چیزیں خداوند حکیم و مدبر کی تدبیر کے سبب ہیں۔

( ہوا میں تدبیر )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ہوا اور اس میں استعمال شدہ عظیم تدبیر پر ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب ہوا رک جاتی ہے تو فضا میں اس طرح حبس ہوجاتا ہے کہ سانس اکھڑنے لگتے ہیں، ہوا کا رکنا صحیح و سالم کو مریض اور مریض کو مریض تر ، پھلوں کو فاسد، اور سبزیوں کو خراب کر دیتا ہے، ایسی حالت میں بدن کے اندر مختلف قسم کے امراض جنم لیتے ہیں اور غلّہ برباد ہوجاتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کا رونما ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہوا کے چلنے ہی میں مخلوق کی بھلائی ہے کہ جو خالق حکیم کی تدبیر کے سبب ہے۔

( ہوا کے فوائد )

اے مفضل۔ میں تمہیں ہوا میں پائے جانے والے فوائد کے بارے میں بتاتا ہوں۔آواز ، وہ اثر ہے کہ جو ہوا میں اجسام کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے یہ ہوا ہے کہ جو اس آواز کو کان تک پہنچاتی ہے ، اگر وہ تمام گفتگو وکلام جو لوگ دن رات اپنے معاملات اور دوسرے امور کے بارے میں کرتے ہیں ہوا میں باقی رہ جاتا کہ جس طرح کاغذ کا لکھا اُس پر باقی رہ جاتا ہے ، تو عالم کلام سے پُر ہوجاتا اور یہ عمل

۱۲۹

لوگوں کو تنگی اور سختی سے دوچار کرتا، اور ان کے لئے مشکلات ایجاد کردیتا اور وہ جو ضرورت ہوا کی تبدیلی اور اُسے تازہ کرنے کے لئے محسوس کرتے ، وہ کاغذ کی تبدیلی اور اس کی تجدید کی احتیاج و ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی۔ اس لئے کہ جو کچھ کلام کیا جاتا ہے وہ لکھنے سے کئی گناہ زیادہ ہے، لہٰذا خلاق عالم نے ہوا کو ایسا مخفی کاغذ قرار دیا کہ کلام چاہے جتناہو اُسے بغیر کسی وقفہ کے اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر محو کرتا ہے اور پھر دوبارہ صاف ہوجاتا ہے۔

اے مفضل۔ اس نسیم سے کہ جسے ہوا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے فوائد سے عبرت حاصل کرو، اس لئے کہ ہوا بدن کے اندر داخل ہوکر اسے زندگی بخشتی ہے اور اس کا خارج ہونا روح کے لئے باعث آرام و سکون ہے ، ہوا کے اندر ایک بہاؤ ہے کہ جو آواز کو دور ،دور تک پہنچاتا ہے اور یہ ہوا ہے کہ جس کے ذریعہ بوئیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں۔ کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ کس طرح سے اس جگہ سے بو آتی ہے ، جہاں سے ہوا آرہی ہو، اور بالکل اسی طرح آواز بھی اور یہ ہوا ہے کہ جو سردی اور گرمی کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جن میں عالم کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے اور یہ ہوا جب اجسام پر چلتی ہے تو ان کے لئے باعث پاکیزگی و رونق ہوتی ہے ، ہوا ہی بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت دیتی ہے ، تاکہ تمام لوگ ان کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکیں اور جب بادل غلیظ ہوکر برستے ہیں تو انہیں جدا کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے، تاکہ یہ باریک ہو کر بکھر جائیں ، ہوا ہی سے درخت پھل دار ہوتے ہیں ،ہوا ہی کشتی کو پانی میں حرکت دیتی ہے، کھانے کو لطیف ، پانی کو ٹھنڈا ، آگ کو شعلہ آور، تر چیزوں کو خشک کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے مختصر یہ کہ زمین پر تمام موجود اشیاء کو ہوا زندگی بخشتی ہے، کہ اگر ہوا نہ ہوتی تو نباتات خشک ہوجاتے ، حیوانات ہلاک ہوجاتے اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہوکر رہ جائیں۔

۱۳۰

( زمین کی وسعت )

اے مفضّل ۔ذرا غور کرو کہ چار فصلوں کی ایک وسیع مدت معےّن کی گئی ہے تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاسکیںان کی یہ وسعت زمین کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہے ، اگر زمین کا پھیلاؤ اور اس کی وسعت زیادہ نہ ہوتی تو کس طرح لوگوں کے رہنے، ان کے ذراعت کرنے اور جانوروں کے چرانے کے لئے جگہ ہوتی اور اسی طرح لکڑی ، تختہ ، سوکھی لکڑیاں ، ضروری دوائیں اور قیمتی معدنیات کے لئے کہاں سے جگہ فراہم ہوتی؟ شاید کوئی ان خالی و وحشت زدہ بیابان اور خشک زمینوں کا منکر ہو اورکہے کہ ان میں کیا فائدے ہیں؟ تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ وحشی جانوروں کے رہنے کی جگہ، اور ان کی چراگائیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ان لوگوں کے لئے پناہ گاہیں ہیں کہ جو پریشانی کے باعث اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اسی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ بیابان و صحراء شہر اور محل سکونت میں تبدیل ہوگئے، اگر زمین کی وسعت اتنی نہ ہوتی تو لوگ ایسا محسوس کرتے کہ جیسے وہ کسی حصار میں گھرگئے ہیں اور وہ درپیش مصیبت و پریشانی سے بچنے کے لئے اپنے وطن کو چھوڑنے کی مجبوری کے باوجود کسی دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔

( زمین ثابت کیوں؟ )

اے مفضل۔ اب ذرا زمین پر غور کرو کہ وہ جس دن سے بنی ہے اُسی روز سے ثابت و ساکن ہے تاکہ اسے اشیاء کے لئے وطن قرار دیا جاسکے، اور لوگ اپنے کام کاج کے سلسلے میں کوشش اورجدوجہد کرسکیں اور آرام و سکون کے لئے اس پر بیٹھ سکیں، جسم کی تھکاوٹ و آرام کے لئے اس پر سو سکیں اور

۱۳۱

اپنے امور میں استحکام پیدا کرسکیں، اگر زمین چیزوں کو حرکت دیتی تو اُس پر کبھی بھی محکم عمارتیں نہیں بنائی جاسکتی تھیں، اور تجارت و صنعت جیسے کاروبار کو اس پر انجام نہیں دیا سکتا تھا ، گویا لوگوں کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا کیونکہ ان کے پاؤں کے نیچے وہ زمین ہوتی کہ جو لرزتی رہتی، اس حالت کو تم ان لوگوں میں دیکھ سکتے ہو جو زلزلہ کی کیفیت کو محسوس کرچکے ہوں۔

( زلزلہ اور مختلف بلائیں نازل ہونے کا سبب )

اے مفضل۔ تم دیکھتے ہو کہ ذرا سی دیر کا زلزلہ لوگوں کو گھر چھوڑنے اور وہاں سے فرار کرنے پر مجبور کردیتا ہے اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ آخر یہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟ تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا کہ زلزلہ اور ایسے دوسرے واقعات لوگوں کے لئے نصیحت ہیں، جن کے ذریعہ لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے، تاکہ برائیوں سے بچیں اور اُن سے منھ موڑ لیں اوروہ بلائیں جو انسان کے بدن میں بیماریوں کی صورت اور ان کے اموال پر نازل ہوتی ہیں وہ بھی ایک عظیم تدبیر کے تحت انسانوں کی اصلاح ، بھلائی اور ان کی استقامت کے لئے ہیں اور اگر بندے ان پر استقامت و صبر کا مظاہرہ کریں تو ان کے اس عمل کا اجر وثواب آخرت کے لئے اس قدر لکھا جاتا ہے کہ دنیا کہ کوئی بھی چیز اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اور جس اجر وثواب کے عطا کرنے میں ان کی دنیاوی بھلائی ہو تو وہ انہیں دنیا ہی میں عطا کردیا جاتا ہے۔

( زمین اور پتھر کا فرق )

اے مفضل ، خداوند متعال نے طبیعی طور پر زمین اور پتھر کو سخت اور خشک پیدا کیا ہے۔ فقط زمین اور پتھر کے درمیان جو فرق ہے ، وہ پتھر کا زیادہ خشک ہونا ہے ، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ اگر

۱۳۲

زمین بھی پتھر کی طرح خشک اور سخت ہوتی تو کیا نباتات و حیوانات اس پر اپنی زندگی گزار سکتے تھے اور کیا اس پر ذراعت کی جاسکتی تھی کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کی خشکی کو پتھر کی خشکی سے کم رکھا گیا ہے اور اُسے اس لئے نرم خلق کیا گیا ہے تاکہ مختلف کاموں کو بآسانی اس پر انجام دیا جاسکے۔ اور زمین اپنے ساکنین کے لئے تکیہ گاہ ثابت ہوسکے۔

( شمالی اور جنوبی ہوائیں )

اے مفضل۔ خالق دوجہاں کی تدابیر میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ اس نے شمالی ہواؤں کے مکان کو جنوبی ہواؤں کے مکان سے کافی بلند رکھا ہے، جانتے ہو خداوند متعال نے ایسا کیوں کیا؟ سوائے اس کے کہ ہوائیں زمین پر چلتی رہیں اور زمین کی تمام ضروریات پوری ہوسکیں بالکل اسی طرح سے جس طرح پانی کے مسلسل جریان کے لئے اس نے زمین کو ایک طرف سے بلند اور دوسری طرف سے نیچے رکھا تاکہ پانی کا بہائو رکنے نہ پائے (جیساکہ تم شمالی ہواؤںاور جنوبی ہواؤں کے بارے میں سن چکے ہو) اگر ایسا نہ ہوتا تو پانی زمین پر پھیل جاتا اور لوگ کام کاج سے مجبور ہوجاتے، اور پھر یہ پانی گلیوں اور سڑکوں کے خراب کردیتا۔

( پانی کی ضرورت )

اے مفضل۔ اگر پانی فراوانی سے نہ ہوتا تو لوگوں کی ضروریات کے باوجود چشموں، بیابانوں اور نہروں میں پانی کی کمی ہوجاتی ، یہ پانی پینے، گلے کے سیراب کرنے، انکی ذراعت، درختوں ، مختلف قسم کے دانوں ، وحشی درندوں ، پرندوں اور مچھلیوں اور ان حیوانات کے پینے کے لئے ہے جو بہت بڑی

۱۳۳

تعداد میں زندگی بسر کرتے ہیں، پانی کے اندر اور بھی دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں تم اچھی طرح جانتے ہو، مگر تم اس کے بڑے اور عظیم فائدوں سے بے خبر ہو، اس لئے کہ وہ فائدے ان فائدوں کے علاوہ ہیں کہ جو روئے زمین پر حیوانات و نباتات کو پانی کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں جنہیں ہر ایک جانتا ہے ، اس کے علاوہ پانی کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ اسے بہت سی چیزوں میں مخلوط کیا جاتا ہے جو پینے والے کے لئے خوشمزہ اور زود ہضم ثابت ہوتا ہے ، پانی ہی کے ذریعہ بدن اور لباس کی کثافت کو دور کیا جاتا ہے، پانی ہی سے مٹی کو گیلا کیا جاتا ہے ، تاکہ وہ تعمیراتی کام کے قابل ہوجائے، پانی ہی کے وسیلے سے آگ کے اُن دھکتے ہوئے شعلوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ جو لوگوں کے لئے باعث زحمت و مشقت بن چکے ہوں ، پانی خود بھی خوشمزہ اور خوش ذائقہ ہے، اور دوسری چیزوں کو بھی خوش ذائقہ بناتا ہے۔ اس کے وسیلے سے لوگ حمام میں جاکر اپنی تھکاوٹ کو دور کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی پانی کے بہت سے فائدے ہیں کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں اور اگر تم یہ خیال کرو کہ پانی کی اتنی کثرت و زیادتی کا کیا فائدہ ہے جو دریاؤں میں تہہ بہ تہہ ایک دوسرے پر تکیہ کئے ہوئے ہے، تو اس بات کو جان لو کہ دریاؤں میں پانی جمع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر وہ چیزیں موجود ہیں کہ جنہیں گنا نہیں جاسکتا ، جیسے مختلف مچھلیاں ، آبی حیوانات، معادن، لؤلؤ، یاقوت، عنبر اور اس قسم کی دوسری چیزیں ، دریاؤں ہی کے کنارے پر عور (درخت کا نام) معطر پودے مختلف قسم کے عطریات اور دوائیں اُگتی ہیں، اور اسکے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ دریا لوگوں کے سفر اور تجارت کے سازو سامان کے حمل کی جگہ ہے کہ جس کے وسیلے سے چیزیں ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائی جاتی ہیں،جیسا کہ مختلف چیزیں ، چین سے عراق اور عراق سے چین لے جائی جاتی ہیں اس لئے کہ اگر حیوانات کے علاوہ کوئی اور دوسری چیزنہ ہوتی جو انہیں حمل کرتی تو یہ سب چیزیں اپنے ہی شہر میں باقی رہ جاتیں اور فاسد و ضائع ہوجاتیں اس لئے کہ انہیں حمل کرنے کی مزدوری ان کی اپنی قیمت سے کہیں

۱۳۴

زیادہ بڑھ جاتی اور ان چیزوں کو کوئی حمل کرنے کی فکر میں نہ ہوتا، اور انہیں حمل کرنے کی صورت میں دو حالتیں سامنے آتیں ۔

اول: یہ کہ ان چیزوں کی ضرورت کے باوجود ان کی بہت زیادہ کمی ہوتی۔

دوم: یہ کہ معیشت اور تجارت کے سامان کو اس ہی وسیلے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل کیا جاتا ہے کہ جس کے نفع سے زندگی آرام و سکون سے گزاری جاتی ہے، وہ سب منقطع ہوکر رہ جاتا اور یہی حال ہوا کا ہے کہ اگر ہوا بھی اس وسعت و فراوانی کے ساتھ نہ ہوتی تو اُس فضا میں منتشر دھووؤںاور بخارات کی وجہ سے لوگوں کے دم گھٹ کر رہ جاتے ، اور ہوا کو اس أمر پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ انہیں بادلوں کی صورت میں تبدیل کرے اور ہوا کے مختلف قسم کے فوائد میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔

( آگ کے فوائد )

اے مفضل۔اب ذرا آگ پر غور کرو کہ اگر وہ بھی پانی اور ہوا کی مانند ہر جگہ پھیلی ہوئی ہوتی تو دنیا اور اس کی تمام اشیاء کو جلا کر خاک کردیتی اور کیوں کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور اس میں ان کے لئے بہت سے فائدے ہیں لہٰذا اسے خزانہ کی مانند کام درخت میں جگہ عطا کی تاکہ اُس کی ضرورت کے وقت اُس سے استفادہ کیا جاسکے، اور تیل اورلکڑی کے وسیلہ سے اُسے اُس وقت تک باقی رکھا جاسکے جب تک اِسکی ضرورت ہے یہ بات بجا اور صحیح ہے کہ تیل اور لکڑی کی مدد سے آگ کو بجھنے نہ دیا جائے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ دھکتی رہے، اور جو چیز بھی ہو اُسے جلا کر خاک کردے، بلکہ وہ ایک ایسی چیز کی طرح ہے کہ جو ہر وقت آمادہ ہے ، مگر پوشیدہ کہ اسی عمل میں اس کے منافع اور مصالح سے استفادہ اور اس کے ضرر سے محفوظ رکھا گیا ہے، اور آگ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لئے بنائی گئی ہے ، اس لئے کہ انسانوںکے لئے آگ میں بے انتہا فائدے ہیں انسان کی زندگی میں

۱۳۵

اگر آگ جیسی نعمت نہ ہوتی تو اُس کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچتا ، لیکن چوپائے آگ کو استعمال نہیں کرتے اور اس کے فائدے سے محروم ہیں ایسا اس لئے ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسے ہاتھ سے نوازا ہے جو ہتھیلی اور انگلیوں کر مرکب ہے جس کے وسیلے سے وہ آگ کو روشن اور دوسرے کام انجام دے سکتا ہے، جبکہ حیوانات اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں ، لیکن اس کے بدلے انہیں صبر وتحمل جیسی قوت عطا کی گئی تاکہ آگ کا نہ ہونا ان کے لئے نقصان دہ ثابت نہ ہو جیسا کہ انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ اے مفضل، میں تمہیں آگ کے بڑے فائدوں میں سے چھوٹا سا فائدہ بتاتا ہوں ، جس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے ، اور وہ یہ چراغ ہے کہ جسے لوگ جلاتے ہیں ، اور اس کی روشنی میں وہ اپنے تمام کام انجام دیتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتا تو لوگوں کی زندگی اُن مردوں کی طرح گذرتی جو قبر میں ہیں ایسی صورت میں کون لکھنے ، حفظ کرنے یا بننے کے کام کو انجام دے سکتا تھا، یا پھر کوئی کس طرح سے پیش آنے والے حادثہ یا کسی درد والم کے دور کرنے کے لئے مرہم یا دوا فراہم کرسکتا تھا، اور آگ کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ وہ کھانا پکانے، بدن گرم کرنے، چیزوں کو خشک کرنے، اجناس کو حل کرنے کے استعمال میں لائی جاتی ہے ، اور آگ کے دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو ظاہر و آشکار ہیں۔

( صاف اور بارانی ہوا )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو صاف اور بارانی ہوا پر کہ کس طرح وہ عالم پر سے یکے بعد دیگرے اپنا سفر طے کرتی ہیں کہ جس میں اس دنیا کی بھلائی ہے ، کہ اگر اُن میں سے ایک بھی دائمی ہوتی تو عالم میں فساد ہوجاتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب مسلسل بارش ہوتی ہے تو سبزیاں سڑ جاتی ہیں پودے فاسد ہوجاتے ہیں ، حیوانات کے بدن سست اور ہوا سرد ہوجاتی ہے کہ جس سے مختلف قسم کے مرض ایجاد

۱۳۶

ہوتے ہیں ، گلی اور سڑک وغیرہ بھی خراب ہوجاتے ہیں اور اسی طرح اگر ہوا صاف رہے تو زمین خشک ہوجائے، تمام اُگنے والی چیزیں جل جائیں، تمام چشموں، ندیوں ، اور نہروں کا پانی خشک ہوجائے، یہ صورت بھی لوگوں کے لئے بے انتہا نقصان دہ ثابت ہوتی ، اور خشکی ہوا پر مسلط ہوجاتی کہ جس سے مختلف امراض وجود میں آتے ، لیکن ان کے معتدل ہونے کی وجہ سے عالم ان کے ضرر سے محفوظ رہتا ہے ، اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں اب اگر کوئی سوال کرے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ان دونوں میں سے ایک مضر نہ ہوتی تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ دونوں کا مضر ہونا اس لئے ہے تاکہ انسان کو کچھ درد والم و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے ، اور وہ گناہ سے دوری اختیار کرے، جیسا کہ جب انسان کا بدن مریض ہوجاتا ہے تو وہ تلخ اور کڑوی دواؤں کا محتاج ہوتا ہے ، تاکہ اُسکا جسم صحیح و سالم ہوجائے بالکل ایسے ہی کہ جب انسان طغیان و شرارت میں مبتلاء ہوجائے تو کوئی چیز تو ہونی چاہیے کہ جو ایسے وقت میں اُسے درد والم اور پریشانی میں مبتلا کرے ، تاکہ وہ طغیان اور شرارت کرنے سے رکا رہے، اور ہرگز برے کام انجام نہ دے کہ جس میں اسکی دنیا او ر آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔

اے مفضل۔ بادشاہوں میں سے اگرکوئی ایک بادشاہ اپنی رعایا کو ہزاروں سونے و چاندی کے درہم و دینار عطا کردے ، تو کیا یہ بادشاہ کا عطا کرنا اُس رعایا کو عظیم نہیں معلوم ہوتا؟ اور کیا وہ اُس کے کرم و سخاوت کے گن نہیں گاتے؟ جبکہ وہ بادشاہ کہاں اور ایک بارش کا نازل کرنے والا کہاں جس بارش کے وسیلے سے شہر آباد اور نباتات نشوونما پاتے ہیں جسکے فوائد تمام ملکوں اور قوموں کے نزدیک سونے، چاندی کے سکّوں کے وزن سے کہیں زیادہ ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس بارش ہی کے اندر کتنے فائدے اور اسکی قدروقیمت کس قدر عظیم ہے، اسکے باوجود لوگ اس سے غافل ہیں۔ صد افسوس ایسے لوگوں پر جو کم قدر و قیمت کی چیزوں کی حاجت پورا نہ ہونے پر اپنی تندوتیز زبان کو خداوند متعال کے بارے میں دراز کرتے ہیں ، جبکہ اس چیز کا نہ ہونا ہی انکے لئے سودمندہے اور یہ لوگ کم قیمت چیز کو اس

۱۳۷

چیز پر ترجیح دیتے ہیں کہ جس کی قدر وقیمت بہت زیادہ ہے اور یہ ان کے بارش اور اس کے فوائد سے جاہل ہونے کی وجہ سے ہے۔

( بارش کے فائدے )

اے مفضل۔ فکر کرو بارش کے برسنے اور اس میں استعمال شدہ تدبیر پر کہ کس طرح بارش اوپر سے نیچے کی طرف برستی ہے، تاکہ وہ ہرچیز تک پہنچ کر اُسے سیراب کردے کہ اگر بارش اطراف سے برستی تو کبھی بھی تمام چیزوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس کے نتیجے میں ذراعت کم ہوتی کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ذراعت جو رواں دواں پانی اور چشموں کے ذریعہ ہوتی ہے، اُس ذراعت سے کہیں کمتر ہے جو بارش سے ہوتی ہے اور کیوں کہ بارش تمام زمین ، بیابان، پہاڑ، ٹیلے اور دوسری تمام چیزوں پر برستی ہے اس لئے کہ غلہ زیادہ ہوتاہے، بارش ہی کے وسیلے سے آب پاشی اور آب رسانی کا سلسلہ کم ہوجاتا ہے،اور بارش لوگوں کے درمیان ظلم و ستم اور فساد کا خاتمہ کردیتی ہے کہ قدرت مند لوگ پانی لے جاتے ہیں اور ضعیف و کمزور محروم رہ جاتے ہیں، اور کیوں کہ بارش کے مقدر میں اس بات کو رکھا کہ وہ اوپر سے نیچے کی طرف برسے، لہٰذا اس طرح تدبیر ہوئی کہ وہ قطرہ قطرہ کی صورت میں زمین پر آئے، اور اس میں داخل ہوکر اُسے سیراب کرے، اس لئے کہ اگر وہ ایک ہی مرتبہ میں تمام کی تمام برستی تو فقط زمین پر جاری ہوتی اور ہرگز اس کے اندر داخل نہ ہوتی ، اور اس کے علاوہ اگر وہ ذراعت پر پڑتی تو اُسے تباہ کر دیتی ، ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی تدبیر رکھی گئی کہ وہ آرام اور نرمی کے ساتھ برسے تاکہ وہ دانے کہ جو کاشت کئے جاچکے ہیں ، اُگیں اور زمین ذراعت کے لئے زندہ ہوجائے بارش میں دوسرے بھی بہت سے فائدے ہیں ، وہ یہ کہ بارش بدن کو نرم ، ہوا کو کدورت سے پاک اور اُن بلاؤں کو جو درختوں اور ذراعت پر نازل ہوتی ہیں کہ جن میں سے ایک یرقان ہے دور کرتی ہے،

۱۳۸

اور اس قسم کے دوسرے بے انتہاء فوائد۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ بعض دفعہ اس بارش میں بہت بڑا نقصان دیکھنے میں آتا ہے، چاہے وہ تیز بارش یا اولوں کی صورت میں ہو کہ جو ذراعت کو تباہ کر دیتی ہے ، یا پھر ان بخارات کی وجہ سے جو ہوا میں پیدا ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہت سے بیماریاں وجود میں آتی ہیں اور وہ آفات کی صورت میں غلات پر نازل ہوتی ہیں، تو اسکا جواب یہ ہے کہ یقینا بعض دفعہ ایسے حادثات رونما ہوتے ہیںجسکی وجہ لوگوں کی اصلاح ہے، انہیں معصیت سے دور اور اسے مسلسل انجام دینے سے روکتا ہے، لہٰذا ان کے مال کے نقصان کے ذریعہ ان کے دین کے نقصان کو دور کیا جاتا ہے جو مال کے ضرر و نقصان سے کئی گناہ ہے۔

( پہاڑ خداوند عالم کی عظیم نشانی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان بلند پہاڑوں پر کہ کس طرح مٹی و پتھر ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں، غافل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پہاڑ ایک زائد چیز ہے کہ جسکی ضرورت نہیں جبکہ ان میں بہت سے فائدے ہیں ، یہ ان لوگوں کے لئے کہ جو اسکی ضرورت رکھتے ہیں برف پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی رہتی ہے تاکہ جو لوگ اس کے ضرورت مند ہوں وہ اُس سے فائدہ اٹھائیں۔ اور پھر یہ برف پانی کی صورت اختیار کرلیتی ہے کہ جس سے بڑی بڑی نہریں وجود میں آتی ہیں ، اور ان نہروں میں اس قسم کے نباتات اور دوائیں اُگتی ہیں کہ جو بیابان اور صحراء میں نہیں اُگتیں اور پہاڑوں ہی کے اندر وحشی درندوں کے رہنے کے لئے غار ہوتے ہیں اور پہاڑ ہی دشمن سے حفاظت کے لئے محکم قلعہ کے حصار کا کام انجام دیتا ہے۔ پہاڑوں ہی سے قیمتی پتھر حاصل کئے جاتے ہیں کہ جو عمارتوں اور چکی وغیرہ کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں ، اور اسی سے ہمیں مختلف معدنیات حاصل ہوتی ہیں اور پہاڑ میں دوسرے ایسے بھی بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں فقط خداوند متعال ہی جانتا ہے کہ جس نے انہیں اپنی عظیم تدبیر کے تحت خلق کیا ہے۔

۱۳۹

( معدنیات )

اے مفضل۔ معدنیات مثلاً مختلف اقسام کے جواہرات ، چونا کا پتھر، سیمنٹ، قلعی، چوہے مار پوڈر، معدنی دوائ، توتیا، سرمہ، پیتل ، سیسہ، چاندی، سونا، زبرجد، یاقوت، زمرد اور مختلف اقسام کے قیمتی پتھروں پر غور فکر کرو اور ذرا سوچو کہ کس طرح ان سے تارکول، مومیا، ماچس کا مصالحہ، مٹی کا تیل اور دوسری ایسی چیزیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن سے لوگ اپنی مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی ہے کہ پہاڑ کیوں بنائے گئے ہیں؟پہاڑ وںمیںخداوند متعال نے بے انتہاء خزانوں کو رکھا، تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے وقت انہیں نکالیں اور ان سے استفادہ کریں، اب ذرا دیکھو کہ خداوندمتعال نے انسان کو ہر چیز کے بنانے کا علم عطا نہ کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو انسان ان تمام چیزوں کو بناڈالتا، اور وہ دنیا میں بکھر کر رہ جاتیں، سونا اور چاندی وغیرہ عام ہوجاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے درمیان ان کی قدر وقیمت کم ہوجاتی ، اور کیونکہ وہ خرید وفروخت میں اپنی کوئی قدروقیمت نہ رکھتے، لہٰذا لوگوں کے درمیان معاملات انکے ذریعہ طے نہ پاتے ، اور کبھی بھی بادشاہ أموال کی طرف نہ کھنچتا، اور کوئی بھی انہیں اپنی اولاد کے لئے ذخیرہ نہ کرتا لہٰذا خداوند متعال نے انسان کو اُس صنعت کا علم عطا کیا، جس میں اس کے لئے ضرر نہیں۔مثلاً پیتل سے مجسمے اور برتن وغیرہ، ریت سے جست،جست سے چاندی اور چاندی سے سونا ، (اے مفضل) ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خداوند متعال نے انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بندوبست کیا کہ جس میں اس کے لئے ذرا بھی نقصان نہیں ، اور ان تمام چیزوں کو انسان سے دور رکھا کہ جس میں اس کے لئے نقصان و ضرر ہے، اب اگر کوئی یہ کوشش کرے کہ وہ اس معدن تک پہنچ جائے کہ جو ایک ایسی بڑی وادی کی انتہا میں ہے کہ جو ایک ایسے پانی سے متصل ہے کہ جو اپنی شدت کے ساتھ جاری ہے، اور اس پانی میں ذرہ برابر چیز بھی

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177