عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف22%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92416 / ڈاؤنلوڈ: 6205
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حقیقی اخلاص یہ ہے کہ عمل کے ارادے اور اس کی انجامدہی کا سبب صرف اور صرف اللہ رب العزت ہومرحوم فیض کاشانی کے بقول:اخلاص یہ ہے کہ انسان کی نیت ہر قسم کے شرک ِخفی اور شرک ِجلی سے پاک ہواس کے بعد سورہ نحل کی چھیاسٹھویں آیت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ:خالص دودھ وہ ہوتا ہے جس میں نہ ہی خون کے ذرات ہوں اور نہ ہی شکم کے اندر کی کسی غلاظت وغیرہ کا کوئی اثر اس میں پایا جاتا ہو، بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف ہوخالص نیت اور عمل بھی اسی طرح ہوتے ہیں، سوائے رضائے الٰہی کے کوئی اور محرک ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ (المحجتہ البیضا۔ ج ۸۔ ص۱۲۸)

قرآنِ کریم میں بارہا اخلاص، مخلصین، اورمخلّصین کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً ارشادِ باری ہے:

فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ

اللہ کو پکارو اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروسورہ غافر ۴۰آیت ۱۴

ایک دوسرے مقام پرپیغمبر اسلام کو خطاب کیا گیا ہے کہ

قُلْ اِنِّىْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ

کہہ دیجئے کہ میں اس بات پر مامور ہوں کہ خدا کی عبادت کروں، اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروںسورہ زمر۳۹۔ آیت ۱۱

قرآنِ مجید میں شیطان کی زبانی نقل ہوا ہے کہ وہ ضداور ہٹ دھرمی کے ساتھ خدا سے کہتا ہے کہ:

فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ

تیری عزت کی قسم، میں تمام انسانوں کو گمراہ کردوں گا علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہوں نے خود کو خالص کرلیا ہوگا۔ سورہ ص ۳۸۔ آیت۸۲، ۸۳

۴۱

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لاٰیَکُونُ الْعَبْدُ عَابِداً لِلهِ حَقَّ عِبَادتِهِ حَتّٰی یَنْقَطَعَ عَنِ الْخَلْقِ کُلَّهِ اِلَیْهِ، فِحینَئذٍ یَقُولُ هَذَا خَالِصٌ لیِ فیَتَقَبَّلَهُ بَکرَمِهِ

کوئی عبادت گزار خدا کاحقِ عبادت ادا نہیں کرسکتا علاو ہ اس کے جو مخلوقات (پر بھروسہ کرنے) سے منھ موڑ کر صرف اسی (خدا) کی طرف متوجہ ہوتا ہےاس موقع پر خدا وند ِعالم فرماتا ہے: یہ شخص میرے لیے خالص ہوا ہےپس وہ اپنے کرم سے اسےقبول کرتا ہےمستدرک الوسائل ج۱۔ ص ۱۰۱

مختصر یہ کہ خدا وند ِرحمٰن کے منتخب اور پسندیدہ بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ عبادت کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور ہمیشہ، شب و روز خالص نیت اور محکم ارادے کے ہمراہ خدا کے راستے پر قدم بڑھاتے ہیں اور بندگی کے اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو دوسرے تمام مقامات کی بنیاد کا پتھر ہے۔

انبیاء، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی سب سے اوّلین خصوصیت یہ تھی کہ وہ خدا کے خالص اور مخلص بندے تھے اور اپنی اس صفت پر فخر کا اظہار کرتے اور اس میدان میں انتہائی سعی و کوشش میں مشغول رہتے تھےیہاں تک کہ مثلاً حضرت علی ؑاور امام سجاؑد کبھی ایک ایک رات میں ہزار ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور دوسری تمام عبادات کے دوران بھی اپنی انتہائی توانائیوں کے ساتھ کوشاں رہتے تھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر تم خدا کی عبادت کی مٹھاس اور لذت کو جان لواور اس کی برکات کو دیکھ لو، اور اس کے نور کے سائے سے بہرہ مند ہوتو ایک لمحے کے لیے بھی اس سے دور نہ ہوہر چند تم عبادت کی مشقت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائوایسا شخص جو عبادت ِ الٰہی سے گریزاں ہے اس (صورتحال) کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ عصمت و توفیق کے ممتاز آثار و فوائد سے محروم ہے۔

(مصباح الشریعتہص ۵۵، بحارالانوار۔ ج ۷۰ص ۶۹)

۴۲

اسی بنا پر آپ اپنے محترم اجداد کی مانند، اور پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علیؑ کی پیروی میں خدا کی عبادت، اس سے رازونیاز اور مناجات کے ہر موقع سے استفادہ کرتے تھے۔

حسنِ اختتام کے طور پر قارئین کی توجہ درج ذیل قصے کی جانب مبذول کراتے ہیں:

ابن ابی یعفور کہتے ہیں:میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے فرمارہے ہیں:رَبِّ لَاتَکِلْنی إِلیَ نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَداً، لَااَقَلَّ مِنْ ذَالِکَ وَلَااَکْثَرَ (بارِ الٰہا ! مجھے کسی صورت پلک جھپکنے کے لیے بھی میرے اپنے حال پر نہ چھوڑدینا اور نہ ہی اس سے کم وقت کے لیے اور نہ اس سےزیادہ وقت کے لیے)

اس موقع پر میں نے دیکھا کہ آپؑ کی ریشِ مبارک کے دونوں اطراف سے آنسوئوں کے قطرے بہہ رہے ہیں۔

پھر آپؑ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:اے ابن ابی یعفور! خدا وند ِعالم نے پلک جھپکنے کے وقت سے بھی کم عرصے کے لیے (حضرت) یونس پیغمبر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور ان کے لیے وہ ماجرا (ترکِ اولیٰ اور مچھلی کے شکم میں چلے جانا۔۔۔ ۔ )پیش آیا تھا۔

ابن ابی یعفور نے کہا: کیا حضرت یونس کا معاملہ (نعوذ باللہ) کفر کی حد تک پہنچ گیا تھا؟

امام نے فرمایا:نہیں لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کیے اس حال میں مرجائے تو ایسا شخص ہلاکت کی موت مرا ہے(اصولِ کافی ج۲۔ ص۵۸۱)

۴۳

خوف وخشیت ِالٰہی

قرآنِ مجید میں خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کے بارے میں آیا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا اِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا

اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب ِجہنم کو پھیر دے کہ اسکا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہےوہ بدترین منزل اور محلِ اقامت ہےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۵، ۶۶

خداوند ِعالم نے اس آیہ شریفہ میں اپنے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کی جانب اشارہ کیا ہے جو ” خوف وخشیت ِالٰہی“ کی صفت ہےیعنی یہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بُرے انجام سے شدت کے ساتھ خوفزدہ رہتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی نافرمانی کے معنی شیطان کے حکم کی تعمیل ہے اور یہ عمل عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ میں ڈالے جانے کا باعث ہوگا۔

یہ لوگ گناہ کے انجام اور دوزخ کے عذاب سے اس قدر خائف اور ہراساں رہتے ہیں کہ ان کی یہ باطنی کیفیت اپنا اظہار کرتی ہے اور وہ انتہائی عاجزی کے ساتھ درگاہِ الٰہی میں دست ِدعا بلند کرتے ہوئے التماس کرتے ہیں کہ: بار الٰہا! ہمیں مجرموں کے لیے تیار کیے گئےدوزخ کے سخت عذاب سے دوررکھنا۔

اس طرح یہ لوگ قدرتی طور پر عذاب ِالٰہی کی وجہ بننے والے عوامل سے پرہیز کرنے لگتے ہیں اور فرامینِ الٰہی کی تعمیل اور احکامِ الٰہی کی انجامدہی کے ذریعے خداوند ِعالم کی بے پایاں رحمت کو اپنی جانب جلب اور جذب کرتے ہیں۔

۴۴

ان لوگوں پر یہ حالت ہمیشہ طاری رہتی ہے، اور ایک لمحے کے لیے بھی خوف ِخداان سے دور نہیں ہوتایہ لوگ غرور و غفلت میں مست، مدہوش اور بے پروا زندگی بسرکرنے والے لوگوں کی طرح خدا کی اس وعید کو ہنسی مذاق نہیں سمجھتے۔

خوف کے معنی، باطنی ڈراور وحشت ہے۔ لہٰذا اسے ترک ِگناہ اور ہر قسم کے جرم سے دوری کے لیے ایک باطنی ہتھیار شمار کیا جاتا ہے۔ مثلاً قانون، عدالت، جرمانے، قید اور سزائوں کے خوف کی وجہ سے انسان جرائم کا مرتکب نہیں ہوتا اور یہ سوچ کرلا قانونیت سے گریز کرتا ہے کہ کہیں اسے سزاکا سامنا نہ کرنا پڑےلہٰذا خوف ِخداکے معنی اللہ رب العزت کی ذات ِپاک سے ڈر اور وحشت نہیں، بلکہ اسکے معنی اسکے قانون اور اس کی عدالت سے ڈرنا ہیں۔

خوف ِخدا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان عدلِ الٰہی کے پیمانے پر اپنے اعمال کا وزن کرےلہٰذا خوف کے معنی ان سزائوں کو ناگوار سمجھنا ہے جو گناہ اور خدا کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

قرآنِ مجید انبیائے الٰہی کا تعارف بشیر ونذیر کی حیثیت سے کراتا ہےیعنی یہ ہستیاں انسانوں کو رحمت ِالٰہی، بہشت اور بے پایاں جزاو ثواب کی نوید بھی دیتی ہیں، او رانہیں خبردار کرتے ہوئے گناہ کے خطرناک انجام سے متنبہ بھی کرتی ہیں۔

انبیا کی یہ دو صفات، اس بات کی ترجمان ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ وہ خوف اور امید کے بین بین زندگی بسر کرےخدا کی رحمت کی امید بھی رکھے اور اس سے خوف بھی کھائےیہی اعتدال کا راستہ ہےاگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو اپنا لے اور دوسرے کو چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے باعث ِخطر ہےکیونکہ اگر وہ صرف(رحمت ِالٰہی) کا امید وار رہا، تو دھوکے میں پڑجائے گا اور خدا کی رحمت واسعہ کی امید پر ہر گناہ میں ہاتھ رنگنے لگے گااس کے برخلاف اگر وہ صرف خوفزدہ رہا، تو یاس و ناامیدی میں مبتلا ہوجائے گا اور یہ حالت انسان کو افسردگی اور خستگی میں مبتلا کردے گی، اس کے اندر سے ولولہ، نشاط اور آگے بڑھنے کی امنگ ختم کرکے اسکی پیشرفت کو روک دے گی۔

۴۵

اسی بنیاد پر بہت سی روایات کے مطابق پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار نے فرمایا ہے کہ:مومن خوف اور رجا (امید) کے درمیان زندگی بسرکرتا ہے اور اس میں یہ دونوں خصوصیات مساوی طور پر پائی جاتی ہیںلہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے تھے کہ:

اِنَّهُ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍمُؤْمِنٍ اِلّا وَفِی قَلْبِهِ نُورٰانِ، نُورُخِیَفةٍ وَنُورُ رَجٰاءٍ، لَوْوُزِنَ هٰذٰالَمْ یَزِدْعَلٰی هٰذٰا، وَلَوْ وُزِنَ هٰذٰا لَمْ یَزِدْ عَلٰی هٰذٰا

کوئی شخص مومن نہیں، سوائے اس کے جس کے دل میں دو نور پائے جاتے ہوںنورِ خوف اور نورِ امیداگر اس میں ان دونوں کا باہم وزن کیا جائے تو دونوں کا وزن برابر ہو گااصول کافی  ج ۲۔ ص۷۱از محدث کلینی

یہ نکتہ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہےسورہ زمر کی آٹھویں اور نویں آیت میں غیر مومن اور مومن انسان کا مواز نہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ پہلا گروہ (یعنی غیر مومن گروہ) بلا اور مصیبت کے موقع پر خوفزدہ ہوجاتا ہے اور نعمت و آسائش کے موقع پر مغرور اور خدا سے بے خبر، جبکہ دوسرا گروہ (مومنوں کا گروہ) ہمیشہ خائف اور امیدوار رہتا ہےیہ دونوں گروہ کسی صورت برابر نہیں ہوسکتےبلکہ پہلا گروہ گمراہ اور دوسرا گروہ راہِ راست پر گامزن ہےدوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو:

يَحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّه

عذاب ِآخرت سے ڈرتے ہیں اور رحمت ِپروردگار سے امید رکھتے ہیں۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۹)

۴۶

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں خوف وخشیت ِالٰہی کی اہمیت او رمختلف ابعاد میں اسکے درجات کا تذکرہ ہوا ہےمثال کے طور پر سورہ سجدہ کی آیت سولہ میں، سچے اور حقیقی مومنین کی شان میں فرمایا گیا ہے:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا

ان کے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں اور( قیام کی حالت میں خدا کی طرف رخ کرکے) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔ سورہ سجدہ ۳۲آیت ۱۶

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوف اور امید، خدا کے ان مخلص بندوں کی شب بیداریوں اور ان کے خدا سے مضبوط تعلق کا سبب اور وجہ ہیں اور یہ لوگ خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔

سورہ ناز عات کی آیات نمبر چالیس اور اکتالیس میں ہے کہ:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے، تو جنت اس کا ٹھکانہ اور مرکز ہےسورہ نازعات ۷۹ آیت ۴۰، ۴۱

اس آیت کی بنیاد پر، خوفِ خدا ترک ِگناہ کا مقدمہ ہے اور اسکا نتیجہ خدا کا اجرِ عظیم یعنی جنت ہے۔

اسی بات کو سورئہ رحمٰن کی چھیالیسویں آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه جَنَّتٰنِ

اور جو شخص بھی اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، اسکے لیے جنت میں دو باغات ہیںسورئہ رحمٰن ۵۵آیت ۴۶

۴۷

جب ہم عظمت ِالٰہی کے سامنے خوف و ہراس سے متعلق آیات ِقرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس خصلت کے بارے میں ایسے مختلف الفاظ اور تعبیرات کے ذریعے گفتگو کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف انسانوں کے خوف و ہراس کے درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

مرحوم شیخ صدوؒق نے کتاب ” خصال“ میں قرآنِ کریم کی روشنی میں خوف کو پانچ اقسام میں قرار دیا ہے اور ان میں سے ہر قسم کے لیے ایک آیت کا ذکر کیا ہےیہ پانچ اقسام درج ذیل ہیں: ۱خوف ۲خشیت۳وجل۴رہبت ۵ہیبتاسکے بعد ان کے بار ے میں ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

خوف، گناہگاروں کے لیے ہے۔

خشیت، علما کے لیے ہے۔

وجل(دل کا خوفزدہ ہونا)، انکساری کے ساتھ تسلیم ہونے والوں کے لیے ہے۔

رہبت، عابدوں کے لیے ہے اور ہیبت کا تعلق عارفوں سے ہے۔

پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:خوف، گناہوں کی وجہ سے ہےخشیت، وظائف و فرائض کی انجامدہی میں کوتاہی کے احساس کی وجہ سے طاری ہونے والا خوف و ہراس ہےوجل اور قلبی خوف و ہراس، خدمت ترک کرنے کی وجہ سے ہے رہبت، عبادت میں تقصیر اور کوتاہی کے احساس کی وجہ سے ہےاور ہیبت، اسرار کے انکشاف کے وقت شہودِ حق کی وجہ سے خدا کے لامتنا ہی شکوہ وعظمت سے خوف و ہراس کا نام ہے(خصال۔ ج۱۔ ص۲۸۳)

۴۸

خوف کے مراتب کے بارے میں ایک دوسرا موضوع یہ ہے کہ خوف شدت اور ضعف رکھتا ہےجوشخص خوف کے جس مرتبے کا حامل ہو۔ اسی کی مناسبت سے مقامات حاصل کرتا ہےوہ ہستیاں جو خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں، مثلاً انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی، ان میں خدا کا شدید ترین خوف پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ رات کے درمیانی حصے میں اپنی نمازوں اور مناجات کے دوران خوف ِخدا سے گریہ ونالہ وفغاں کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے بہنے والے شفاف آنسوئوں سے اپنی روح کو دھوتے ہیں، اور اپنے شوق و خوف کے آنسوئوں کے ذریعے اپنے پرزور احساسات کے ساتھ اپنی انتہائی تواضع اور کمالِ بندگی کا اظہار کرتے ہیں اس قسم کا گریہ وزاری اس قدر پسندیدہ اور قدر و قیمت کا حامل ہے کہ بقول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

مَنْ دَرَفَتْ عَیْنٰاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، کٰانَ لَهُ بِکُلِّ قَطْرَةٍ مِنْ دُمُوعِهِ مِثْلَ جَبَلِ اُحُدٍیَکُون فِی مِیزانِهِ فِی الأَجْرِ

جس کی آنکھ خوف ِخدا سے بہنے والے آنسوئوں سے تر ہوجائے، اسکے آنسوئوں کا ہر قطرہ روزِ قیامت اس کے میزانِ عمل میں احد کے پہاڑ کی مانند وزن رکھے گابحارالانوار۔ ج ۹۳ص ۳۳۴

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَلْبُکٰاءُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ مِفْتٰاحُ رَحْمَةِ اللهِ

خوفِ خدا سے رونا، رحمت ِالٰہی کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے۔ غررالحکم

۴۹

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت

اس بات کے پیش نظر کہ عظمت ِالٰہی کے مقابل خوفزدہ ہونا تہذیب و تکامل کا ایک قوی عامل ہے اور اگر کسی میں یہ خصلت قوی اور راسخ ہوجائے تو وہ اس انسان کے راستے سے راہِ کمال کی ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہےپیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کلام میں اس خصلت کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور خوف ِخدا نہ رکھنے کی مذمت کی گئی ہےمحترم قارئین کی توجہ اس سلسلے میں رسولِ مقبول ؐاور ائمہ اطہارؑ کے چند اقوال کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اَعْلَی النّٰاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَاللهِ اخْوَفُهُمْ مِنْهُ

خدا کے نزدیک لوگوں میں اعلیٰ وارفع مقام کے حامل افراد وہ لوگ ہیں جو ان میں سے زیادہ خوف ِخدا رکھتے ہیں بحارالانوارج ۷۷۔ ص۱۸۰

امیر المومنین حضرت علی علیہ اسلام نے فرمایا:جب قیامت برپا ہوگی تو منادیٔ حق ندا دے گا کہ:

ایُّهَاالنّٰاسُ اِنَّ اَقْرَبَکُمُ الْیُوْمُ مِنَ اللهِ اَشَدُکُمْ مِنْهُ خَوْفاً

اے لوگو! آج بارگاہِ خدا میں تم سب سے مقرب ترین شخص وہ ہے جو دنیا میں دوسروں سے زیادہ خدا کی عظمت سے خوفزدہ تھابحارالانوارج ۷۸۔ ص۴۱

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لٰایَکُونُ الْعُبُدُ مُؤْمِنًا حَتّیٰ یَکُونَ خٰائفاً رٰاجِیاً

کوئی بندہ خدا اس وقت تک ایمان کے درجہ کمال تک نہیں پہنچتا، جب تک اس میں خوف اور امید کی خصلتیں نہ پائی جاتی ہوں بحارالانوارج ۷۰۔ ص ۳۹۲

۵۰

البتہ یہ بات واضح ہے کہ سچا خوف وہ ہوتا ہے جو اطاعت اور ترک ِمعصیت کا موجب بنے اور اسکی علامات عمل سے ظاہر ہوں، جبکہ جھوٹا خوف کھوکھلا اور غیر موثر ہوتا ہے۔

اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ عَرَفَ اللهَ خَافَ اللهَ، وَمَنْ خٰافَ اللهَ سَخَتْ نَفْسُهُ عَنِ الدُّنْیٰا

جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے، وہ اس سے خوف کھاتا ہے، اور جوشخص خوف ِ خدا رکھتا ہے، وہ دنیا کا شیفتہ نہیں ہوتااصول کافی ج ۲ص ۶۸

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی کا کہنا ہے کہ میں نے امام سے عرض کیا: بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کی رحمت سے (مغفرت کی) امید رکھتے ہیں ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی خیال رہتا ہے، یہاں تک کہ موت ان کے سرپر آپہنچتی ہے (اور وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیںکیا انہیں اُن کی اِس امید کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا؟ )

امام ؑنے فرمایا: اس قسم کے لوگ، ایسے افراد جو اپنی آرزئوں ہی میں مگن رہتے ہیں، یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیںیہ لوگ (دراصل) امید وار نہیں ہوتےجوشخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے؟ اس کا طلبگار ہوتا ہے، اور جو شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے، اس سے گریز کرتا ہے (اس خصلت سے عاری یہ لوگ درحقیقت خدا سے روگرداں ہیں اور عذاب کے موجبات، جوگناہ ہیں، کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں)(اصولِ کافی  ج۲۔ ص۶۸)

امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لاٰخَوْفَ کَخَوْفِ حٰاجِزٍ، وَلاٰ رَجٰاءَ کَرَجٰاء مُعِینٍ

کوئی خوف، اس خوف کی مانند گراں قیمت نہیں جو گناہ سے باز رکھتا ہےاور کوئی امید اس امید سےگراں قدر نہیں جو (توبہ اور عواملِ نجات کے سلسلے میں) مدد گار ہوتی ہےبحارالانوارج ۷۰۔ ص۱۶۴

۵۱

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْعَجَبْ مِمَّنْ یَخَافُ الْعِقٰابَ فَلَمْ یَکِفَّ، وَرَجَا الثَّوابَ فَلَمْ یَتُبْ

باعث ِتعجب ہے وہ شخص جو عذاب ِالٰہی سے ڈرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گناہوں سے باز نہیں رکھتا اور ثواب وپاداشِ الٰہی کی امید رکھتا ہے لیکن توبہ نہیں کرتابحارالانوارج ۷۷۔ ص ۲۳۷

امام حسین علیہ السلام ” دعائے عرفہ“ میں ایک مقام پر خدا سے عرض کرتے ہیںکہ:

اَللَّهُمَّ اجْعَلْنی اَخْشاکَ کَاَنِّی اَرَاکَ

بارِالٰہا! مجھے اپنی بارگاہ میں ایسا خائف بنادے کہ گویا میںتجھے دیکھ رہا ہوں۔

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی

مذکورہ بالا گفتگو سے استفادہ ہوتا ہے کہ خوف کی خصلت، خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی خصوصیت اور ایک اعلیٰ اور تعمیری انسانی فضیلت ہےخوف صرف زبان اور حالت کے ذریعے اظہار کا نام نہیں بلکہ کامل خوف وہ ہے جس کے آثار عمل میں دکھائی دیں اور جو گناہوں سے دوری کا قومی عامل بنے۔

خوف کے اعلی مراحل وہ ہیں کہ انسان رات کی تنہائی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس سے مناجات کے دوران گریہ وزاری کرے اور انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنا دل خدا سے وابستہ رکھے اور اپنے آپ کو خدا کی عظمت کے سامنے ایک ناچیز ذرّہ سمجھے۔

۵۲

مومن، خائف بھی ہوتا ہے اور امیدوار بھی، وہ اپنے اندر یہ دونوں خصلتیں مساوی طور پر پروان چڑھاتا ہے اور ان دوپروں کے ذریعے دنیائے سماوی کی بلندیوں میںپرواز کرتا ہے اور ان دوانوار کے ذریعے اپنے قلب کو پرنور اور روح کو پاکیزگی اور صفا سے سرشار کرتاہے۔

خوف ورجا کا مسئلہ، تربیتی مسائل میں تعلیم کے بنیادی ارکان و اصول میں سے ہےاسی بناپر انبیا علیہم السلام نذیر بھی تھے اور بشیر بھیمثال کے طور پر اگر جماعت کا استاد اپنے طالب علموں سے کہے کہ اس سال تمام طلبا پاس ہوجائیں گے، اس طرح انہیں صرف امید دے، خوف نہ دے، تو طلبا مطمئن ہوکے، دھوکے میں آکے تصور کرنے لگیں گے کہ وہ سب پاس ہوجائیں گے اور اس طرح پڑھائی لکھائی سے غفلت اور سستی برتنے لگیں گےاس کے برعکس اگر استاد کہے کہ اس سال تم سب فیل ہوجائوگے، تو ان الفاظ سے استاد اپنے تمام طالب علموں کو مایوس اور ناامید کردے گا، اور ان میں پڑھنے کی امنگ اور جوش وخروش کو ٹھنڈا کردے گااور اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا کہ طالب علموں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجائے گا اور ان میں پڑھنے کی تمنا اور جوش وخروش ختم ہوجائے گا۔

سمجھدار اور لائق معلم وہ ہے جو نذیر (خوف دلانے والا) بھی ہو اور بشیر (خوش خبری اور امید دلانے والا) بھی، جو امید بھی دلائے اور خوف بھی اور اپنے طالب علموں کو ان دو خصلتوں کے درمیان رکھےکیونکہ یہ اعتدال اور دونوں خصائل کی آمیزش شوق ورغبت، حرکت و عمل اور نورانیت و پاکیزگی کا موجب ہے۔

۵۳

خوف و رجا کے درمیان اعتدال کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اسلامی روایات میں ناامیدی (جو رجا کی ضد ہے) اور عذاب ِالٰہی سے امان و حفاظت (جوخوف کی ضد ہے) کودو گناہان کبیرہ شمار کیا گیا ہےیہاں تک کہ صحیح روایت میں نقل ہوا ہے کہ: عمروبن عبید امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے ان گناہانِ کبیرہ سے آگاہ فرمائیے جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں انیس گناہ گنوائےاور ان میں سے ہر گناہ کے بارے میں ایک آیت ِقرآن بطور دلیل پیش کیامام ؑنے انیس گناہوں میں عذاب ِالٰہی سے محفوظ ہونے اور ناامیدی کو بھی شمار کیا اور فرمایا:خدا کے ساتھ شرک کے بعد (دوسرے نمبر کا گناہِ کبیرہ) رحمت ِالٰہی سے یاس و ناامیدی ہےجیسا کہ خدا وند ِعالم کا ارشاد ہے:

اِنَّه لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ

کفار کے سوا کوئی رحمت ِخدا سے ناامید نہیں ہوتاسورہ یوسف۱۲۔ آیت ۸۷

پھر امام ؑنے فرمایا: اس کے بعد (یعنی تیسرے نمبر کا گناہ ِکبیرہ) خدا کے مکرو عذاب سے تحفظ کا احساس (یعنی خدا سے خوف نہ کھانا) ہےجیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللهِ۰ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (کیا یہ لوگ خدائی تدبیر کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں، جب کہ ایسا اطمینان صرف گھاٹے میں رہنے والوں کو ہوتا ہےسورہ اعراف ۷۔ آیت ۹۹)(اصولِ کافی ۔ ج ۲۔ ص ۲۸۵)

۵۴

اس گفتگو کو ہم اس معروف قصے پر ختم کرتے ہیں جو قیامت کے وحشتناک حوادث سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے خوف کی نشاندہی کرتا ہے:امام حسن علیہ السلام اپنی حیات کے آخری لمحات میں خوف ِخدا سے گریہ کررہے تھےوہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے سوال کیا: اے فرزند ِرسول! آپؑ جو بارگاہ الٰہی میں انتہائی بلند درجے اور مقام کی حامل ہیں، آپؑ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ؐنے بکثرت فرمایا ہےآپؑ جو بیس مرتبہ پیدل حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے ہیں، تین مرتبہ آپؑ نے اپنا تمام مال و دولت راہِ خدا میں ضرورت مندوں کو بخشا ہے(لہٰذا موت کا یہ سفرتو آپؑ کے لیے مبارک و مسعود سفر ہے) اسکے باوجود آپؑ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟

امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا:اِنَّما اَبْکِی لِخِصْلَتَیْنِ لَهِوْلِ الْمُطَّلَعِ وَفِراقِ الاَحِبَّهِ (جان لو کہ میں دو وجوہات کی بنا پر رورہا ہوں، ایک روزِ قیامت کی وحشت کی وجہ سے، کہ اس روز ہر کوئی حالات سے آگاہی اور نجات کی کوئی راہ تلاش کرنے کی غرض سے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہا ہوگا اور دوسری وجہ دوستوں کی جدائی ہے(امالی ٔشیخ صدوقمجلس ۳۹حدیث ۹)

۵۵

انفاق اور خرچ میں اعتدال

قرآنِ کریم خداوند ِرحمان کے خاص اور ممتاز بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا

یہ لوگ وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف (فضول خرچی) کرتے ہیں اور نہ بخل (کنجوسی) سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کے درمیان، اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپناتے ہیںسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷

اس آیت میں زندگی کے ایک اہم ترین مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے، جسے ملحوظ او رپیش نظر رکھنا فرد اور معاشرے کی آسائش، فلاح اور اطمینان کا باعث ہے اور بہت سی سماجی اور اقتصادی مشکلات کے حل اور خرابیوں کی اصلاح کا ذریعہ ہےیہ اہم ترین مسئلہ خرچ میں اعتدال اور میانہ روی ہے۔

اعتدال، یعنی میانہ روی، یعنی حد سے زیادہ بڑھنے اور حد سے کم ہونے کی درمیانی لکیراسلام تمام امورومعاملات میں اس طرزِ عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اسلام کی پیروی کی وجہ سے مسلمانوں کو امت ِوسط، یعنی معتدل امت کہا گیا ہےارشادِ قدرت ہے:وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا (اور اس طرح ہم نے تمہیں امت ِوسطہ قرار دیا ہےسورئہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۴۳)

حضرت علی علیہ السلام نے ان لوگوں کو جاہل قرار دیا ہے جو اعتدال سے نکل کر افراط یا تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں آپ ؑفرماتے ہیں:لَاتَرَی الجاهلَ اِلَّا مُفرطاً اُو مفرّ طا (جاہل کوہمیشہ افراط یا تفریط کا شکار دیکھو گےنہج البلاغہ۔ کلمات قصار۷۰)

۵۶

زیر ِبحث آیت جو (سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی) خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بیان پرمشتمل ہے، اس میںاعتدال کے ایک اہم ترین شعبے پر گفتگو کی گئی ہے، جس کا تعلق اقتصادی امور اور اجتماعی و سماجی زندگی سے ہے اور جو زندگی کی اصلاح و بہتری اور خوشگوار اجتماعی اور عائلی حیات کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہے اور وہ خصوصیت ” خرچ میں میانہ روی“ کی خصوصیت ہےیعنی مردِ مسلمان کو چاہیے کہ خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف اور فضول خرچی کرے، اور نہ کنجوسی اور بخل سے کام لے، بلکہ ان دونوں کی درمیانی راہ اپنائے۔

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت

کسی بھی عمل میں حد ِاعتدال سے کسی بھی قسم کی افراط، تجاوز اور زیادتی اسراف کہلاتی ہےمثلاً ایک وقت کے کھانے کے لیے چھ سوگرام غذا کافی  ہےاب اگر کوئی اپنے لیے ایک کلو گرام غذا بنائے، اس میں سے آٹھ سو گرام کھائے، اور باقی بچ جانے والی دو سو گرام غذا کو پھینک دے، تو اس نے ایک وقت کے کھانے میں دو طرح کا اسراف اور فضول خرچی کی ہےایک یہ کہ اس نے دو سوگرام غذا زیادہ کھائی ہے اور دوسرے یہ کہ آٹھ سو گرام سے زیادہ جو دو سو گرام غذا تیار کی تھی، اسے کوڑے دان میں پھینک دیا ہےاس طرح اس نے ایک وقت کے کھانے میں چار سو گرام غذا فضول خرچ کی ہے۔

اس مثال کو سامنے رکھ کر اور اس کی روشنی میں زندگی کے دوسرے مختلف پہلوئوں اور شعبوں کا جائزہ لے کر ہم بآسانی جان سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف صورتوں میں کس قدر اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے۔

۵۷

اسراف کی مختلف شکلیں ہیں، اس کی ایک شکل جس سے زیر ِبحث آیت میں روکا گیا ہے، خرچ میں اسراف ہےجیسے کھانے پینے میں اسراف، کھانے کو پھینک کر ضائع کرنے میں اسراف، فضول تکلفات اور بے جاتزین وآرائش وغیرہ میں اسرافحتیٰ اگر عبادات کے دوران بھی افراط ہونے لگےمثلاً کوئی وضو اور غسل میں عقلی اور فطری حد سے زیادہ پانی خرچ کرے، تو یہ بھی اسراف ہےاسی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا: فی الوضوء اسرافٌ وفی کلِّ شی ءاسرافٌ (وضو اور ہر چیز میں اسراف ہوسکتا ہےکنزالعمال حدیث ۲۶۲۴۸)

عباسی، نامی ایک شخص امام رضا علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور گھر میں بیوی بچوں کی ضروریات اور دوسرے امور کے بارے میں اخراجات کے سلسلے میں امام سے رہنمائی طلب کیامام رضا علیہ اسلام نے اس سے فرمایا: تمہارے خرچ کو دو ناپسندیدہ کاموں (فضول خرچی اور کنجوسی) کے درمیان ہوناچاہیے۔

عباسی نے پوچھا:اِس سے آپ ؑکی کیا مراد ہے؟

فرمایا: کیا تم نے قرآنِ کریم میںخدا وند ِعالم کا وہ کلام نہیں پڑھا، جس میںاس نے فضول خرچی اور کنجوسی دونوں کو ناپسند قرار دیا ہے اور (خدا کے ممتاز بندوں کے اوصاف میں) فرمایا ہے کہ:وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا (اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں، تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ اپناتے ہیںسورئہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷) لہٰذا اپنے افرادِ خانہ کے اخراجات اور ان کی ضروریات ِ زندگی کی خریداری اور ان چیزوں کو خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لو(سفینتہ البحار از محدث قمیج ۱ص ۶۱۵ اور بحار الانوار از علامہ مجلسی ج ۷۱ص ۳۴۷)

۵۸

ایک دوسری روایت کے مطابق، ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کے سامنے اسی (مذکورہ بالا) آیت کی تلاوت فرمائی اور پھر زمین سے مٹھی بھر سنگریزے اٹھا کے انہیں سختی کے ساتھ ہاتھ میں بھینچا اور فرمایا: یہ بخل اور سخت گیری ہے (جس کی آیت میں ممانعت کی گئی ہے)پھر آپ نے سنگریزوں کی ایک اور مٹھی اٹھائی اور اس طرح اپنے ہاتھ کو کھولا کہ وہ سب سنگریزے زمین پر گرگئے، اور فرمایا:یہ اسراف ہےپھر تیسری مرتبہ مٹھی بھر سنگریزے اٹھائے اور اپنا ہاتھ تھوڑا سا کھولا، اتنا کہ کچھ سنگریزے گرگئے، اور کچھ آپ کے ہاتھ ہی میں رہے، اور فرمایا:یہ اسراف اور کنجوسی کے درمیان پایا جانے والا اعتدال ہے(تفسیر نورالثقلین ۔ ج۴ص ۲۹ از محدث خبیر عبدعلی بن جمعہ حویزی)

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت کی گئی ہےمثال کے طور پر چند آیات ملا حظہ فرمایئے:

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا

کھائو اور پیو مگر فضول خرچی نہ کرو (سورہ اعراف۷آیت ۳۱)

وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّه لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ

فضول خرچی نہ کرنا، کہ خدا فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

(سورہ انعام۶آیت ۱۴۱)

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا

اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دو کہ آخر میں خالی ہاتھ اور قابل ِ ملامت ہوجائو(سورئہ بنی اسرائیل ۱۷۔ آیت ۲۹)

۵۹

اسی آیت اور حکمِ الٰہی کو سامنے رکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

ما مِنْ نَفَقَةٍ احبَّ اِلَی الله مِنْ نفقةِ قَصْدٍ ویبْغُضُ الاسراف

خدا کے نزدیک کوئی بھی انفاق (خرچ)، اعتدال پر مبنی انفاق سے بڑھ کر پسندیدہ نہیںخدا انفاق میں اسراف کو پسند نہیں کرتاقصار الجمل ازآیت اللہ علی مشکینی۔ ص ۳۰۵

یہی وجہ تھی کہ رسولِ مقبول، امیر المومنین اور تمام ائمہ اطہار انتہائی سادہ زندگی بسرکرتے تھے اور ہر قسم کی شان وشوکت کے اظہار اور بے جا تکلفات سے سختی کے ساتھ گریزاں رہتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اہل کاروں کے نام ایک خط میں لکھا کہ:

آدِقّوا ا قلٰامَکُمْ، وقارِ بُو بَیْنَ سُطُورکُمْ، واَحذِ فُو عَنْ فُضُو لِکُمْ، وَاقُصُدُ والمعانیَ، وایَاکُمْ والا کْثٰارَ، فَاِنَّ اموالَ الْمُسْلِمینَ لاتَحْتَمِلْ الضَّرَر

اپنے قلموں کی نوک کو باریک تراشو، سطروں کے درمیان فاصلہ کم رکھو، زیادہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرو، معانی کے بیان کو مطمع نظر قرار دو، فضول اور زیادہ باتوں سے دور رہو، تاکہ مسلمانوں کے مال کو نقصان نہ پہنچےبحارالانوار ازعلامہ مجلسیج ۴۱۔ ص ۱۰۵

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے:

یاد رکھو کہ مال کا ناحق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہےاگر یہ عمل انسان کی دنیا میں بلندی کا باعث بنے بھی، تو آخرت میں اسے پست کردیتا ہے، اور اگر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام بنابھی دے، تو خدا کی نگاہ میں ذلیل کردیتا ہےجب کوئی شخص مال کو ناحق یا نااہل پر خرچ کرتا ہے تو پروردگار اسے اسکے شکرانے سے بھی محروم کردیتا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۴)

۶۰

مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فی غَیْرِ طاعَةِ اﷲِ فَهُوَ مُبَذِّر

جوشخص اپنی کسی چیز کو اطاعت ِخدا کے سوا کسی اور مقصد میں صرف کرے، وہ مسرف (فضول خرچ) ہےبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۲۔ ص ۳۰۲

یاسر خادم کہتے ہیں: ایک روز امام رضا علیہ السلام کے کچھ غلام پھل کھارہے تھے اور انہیں پوری طرح کھائے بغیر ایک کونے میں پھینکتے جاتے تھےامام ؑنے جب ان کا یہ مسرفانہ عمل دیکھا تو ناراض ہوکر ان سے فرمایا: سبحان اللہ! اگر تمھیں ان پھلوں کی ضرورت نہیں، تو دوسرے انسان ہیں جنہیں ان کی ضرورت ہےتم (آدھے کھائے ہوئے) یہ پھل کیوں دور پھینک رہے ہو؟ انہیں اٹھائو اور ضرورت مندوں کو دے دو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے کھجور کی گٹھلیوں کو پھینکنے سے منع کرتے ہوئے اور مسرفوں (فضول خرچ کرنے والوں) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

برتن کی تہہ میں بچے ہوئے پانی کو بھی نہ پھینکو کہ یہ بھی اسراف (فضول خرچی) ہے۔

(انوار البھیتہ از محدث قمیص ۳۲۹، بحار الانوار ج ۷۱۔ ص۳۴۶)

۶۱

امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا

حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ، جو اسلامی احکام و فرامین پر عمل کے معاملے میں انتہائی سخت گیر تھے اور اس سلسلے میں مثالی حیثیت کے حامل ہیں، آپ تمام باتوں اور خصوصاً اخراجات میں فضول خرچی کے حوالے سے بھی بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے تھےنمونے کے طور پر درج ذیل مثالیں ملاحظہ ہوں:

امام خمینی کے دفتر کے ایک اہل کار نے لکھا ہے: ایک بار مالی امور کے انچارج نے ایک لفافے کی پشت پر کچھ تحریر کرکے امام خمینی کی خدمت میں بھیجاامام نے ایک چھوٹے کاغذ پر اس کا جواب لکھا اور اس کے نیچے تحریر کیا کہ: آپ چاہتے تو اس چھوٹے سے کاغذ پر بھی لکھ سکتے تھےاس واقعے کے بعد وہ صاحب اپنے کاغذوں کو جمع کرکے ایک تھیلی میں رکھ لیتے اور جب امام خمینی کے لیے کوئی چیز لکھنا ہوتی، تو کاغذ کے ان ٹکڑوں پر لکھتے اور امام خمینی بھی اسی کاغذ کے نیچے اس کا جواب تحریر فرما دیتے۔

امام خمینی کی صاحبزادی، خانم زہرا مصطفوی، اپنے بچپنے کی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:امام خمینی کا درس ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوتا تھا، اس موقع پر آپ بیس منٹ میر ے ساتھ کھیلا کرتےپھر ظہر سے دس منٹ پہلے نماز کی تیاری کے لیے آتےامام خمینی کھیل کود کے سامان کی خریداری کے سخت مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ فضول خرچی ہےہم مٹی وغیرہ سے گولیاں بنا کر ان سے کھیلتے، جو کوئی ان گولیوں کا نشانہ لگاتا وہ جیت جاتا تھا۔ بیس منٹ ہم یہی سادہ سا کھیل کھیلتے تھے۔

۶۲

امام خمینی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ:ہر مہینے کے آخرمیں (جماران کے) ماہانہ اخراجات کی تفصیل امام خمینی کی خدمت میں پیش کرنا میری ذمے داری تھیایک روز حسب ِمعمول میں نے اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں ارسال کیاس تفصیل میں امام کے گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع، امام کی رفت وآمد اور بجلی کے اخراجات بھی تحریر تھےحساب بھیجنے کے آدھے گھنٹے بعد، امام خمینی کے فرزند، احمد خمینی نے مجھے فون کرکے بتایاکہ:جب سے آپ نے حساب ارسال کیا ہے، امام مسلسل باغ میں ٹہل رہے ہیں اور سخت ناراض ہیں کیونکہ امام کے گھریلو اخراجات اس ماہ (اس زمانے کے) دس ہزار تومان سے بڑھ گئے ہیں لہٰذا امام فرماتے ہیں کہ اگر میرے گھریلو اخراجات دس ہزار تومان ہوگئے ہیں تو میں یہ جگہ چھوڑ دوں گا۔

احمد خمینی نے مجھ سے کہا:آپ دیکھیے کہ اس مہینے کون سا اضافی خرچہ ہوا ہے، تاکہ میں امام کو بتاکر انہیں اطمینان دلائوں۔

میں نے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تو مجھے تین اضافی خرچے نظر آئے، جو کسی صورت امام کے گھریلو اخراجات میں سے نہ تھے۔

۱جلانے کا تیل، جو امام کے گھر میں زیادہ آگیا تھا اور جسے میں نے حسینیہ جماران کے اسٹور میں ڈلوا دیا تھا۔

۲امام کے گھرانے کی آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی، ڈرائیور کی غفلت سے خراب ہوگئی تھی، جس کی مرمت پر اخراجات آئے تھے۔

۳امام کے گھر پر فائبر کی چھت ڈلوائی گئی تھی تاکہ اوپر سے امام کے گھر کا اندرونی حصہ دکھائی نہ دے کیوں کہ وہاں پاسدار پہرہ دیا کرتے تھے۔

میں نے ان اضافی اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں بھجوائی جس کے بعد وہ مطمئن ہوئے۔

اسی ایک مثال سے ہم یہ بات جان سکتے ہیں کہ امام خمینی گھریلو اخراجات میں فضول خرچی سے کس قدر سخت پرہیز کیا کرتے تھے۔

۶۳

گھرانے کی معاشی ضروریات میں سخت گیری سے پرہیز

خرچ میں اعتدال، جوخدا کے ممتاز اور پسندیدہ بندوں کی ایک خصوصیت ہے، دو حدوں کے درمیان واقع ہےایک حدافراط ہے، جو اسراف اور فضول خرچی کہلاتی ہے، جس کے متعلق ہم نے ابھی گفتگو کی ہےجبکہ اس کی دوسری حد تفریط ہے، جسے سخت گیری یا کنجوسی کہا جاتا ہے۔

اسلام آسان دین ہے، یہ دین ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان اقتصادی طور پر سختی اور دبائو میں زندگی بسر کریںبلکہ وہ چاہتا ہے کہ مرد مسلمان محنت مشقت اور تدبیر کے ذریعے ایک خوشحال اور پرآسائش زندگی کی ضروریات فراہم کرے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح اسراف اور فضول خرچی سے لوگوں کو روکتے تھے، اسی طرح کنجوسی اور اہل و عیال کے لیے نان و نفقے میں تنگی کی بھی ممانعت فرماتے تھےآپؐ کا ارشاد ہے: ان من سعادۃ المراء المسلم ان یشبھہ ولدہ، والمرۃ الجملاء ذات دین، والمرکب الھنی والمسکن الواسع (مسلمان آدمی کی سعادت اور خوش بختی میں سے یہ بھی ہے کہ اسکا ایسا بیٹا ہو جو نیک کاموں میں اس کی شبیہ ہو، اس کی بیوی دیندار اور خوبصورت ہو اوروہ سبک رفتار سواری اور کشادہ گھر کا مالک ہوبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۶۔ ص ۱۴۹) بعض روایات میں پہلے فقرے کی بجائے صالح فرزند کا ذکر ہوا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۶۔ ص۱۵۵)

ابولبابہ، جو یہودیوں کے سامنے حکومت ِاسلامی کا ایک فوجی راز افشا کرکے گناہ میں مبتلا ہوئے تھےجب انہیں اپنے گناہ کا علم ہواتو انہوں نے صدقِ دل سے توبہ کیکچھ مدت بعد ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۲ نازل ہوئیپیغمبر اسلام نے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے، انہیں بشارت دی تو ابولبابہ نے پیغمبر سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ اپنی توبہ قبول ہونے کے شکرانے کے طور پر، میں اپنا آدھا مال راہِ خدا میں خرچ کردوںپیغمبر نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دیانہوں نے عرض کیا: ایک تہائی مال بخشنے کی اجازت دیجئےپیغمبر نے انہیں اس کی اجازت دے دی(بحارالانوار ج ۲۲۔ ص۹۴)

۶۴

آنحضرت نے انہیں راہِ خدا میں آدھا مال خرچ کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ کہیں اس کے نتیجے میں وہ اور ان کا گھرانہ معاشی طور پر تنگی اور سختی میں مبتلا نہ ہوجائے۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ:مدینے کا ایک مسلمان بسترِ مرگ پر تھا، اس کے چند بچے اور چھ غلام تھےاس شخص نے خدا سے اجرو ثواب کے حصول کے لیے، اپنی موت سے پہلے اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کردیئےموت کے بعد مسلمانوں نے اسے غسل و کفن دے کر سپردِ خاک کردیا اور اسکے بعد اسکے غلاموں کو آزاد کرنے کا قصہ اور اب اسکے بچوں کے فقر و تنگدستی کے متعلق آنحضرت کے گوش گزار کیاآنحضرت نے فرمایا: لو علمت مادفنتہ مع اھل الاسلام، ترک ولدہ یتکففون الناس (اگر مجھے پتا ہوتا تو میں اسکا جنازہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیتاکیونکہ اس نے اپنے بچوں کو مال ودولت سے محروم کرکے، انہیں دوسروں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے کے لیے فقیر اور بے آسرا چھوڑ دیا ہےعلل الشرائع ازشیخ صدوق۔ ص ۵۵۸، بحارالانوار۔ ج۱۰۳۔ ص ۱۹۷، ۱۹۸)

یہ قصہ اخراجات میں فضول خرچی کی مذمت کے ساتھ ساتھ، اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ یہ عمل اہلِ خانہ کے سختی اور دبائو میں مبتلا ہوجانے کا موجب نہیںہونا چاہئے۔ بلکہ ہر پہلو میںخرچ میں اعتدال اور میانہ روی کا لحاظ رکھا جائے۔

بصرہ سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ ” عاصم“ پر حضرت علی علیہ السلام کی شدید تنقید کا قصہ بھی، ضروریات زندگی میں سخت گیری اور اقتصادی تنگی کی مذمت پر واضح دلیل ہےعاصم نے معاشرے سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے

۶۵

اہلِ خانہ معاشی تنگی کا شکار ہوگئے تھےیہ قصہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۲۰۷ میں آیا ہے۔(۱)

اس گفتگو کو ہم درجِ ذیل دلچسپ قصے پر ختم کرتے ہیں: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نےاپنے آزاد کردہ ایک غلام کے لیے گھر خریدا، اور اس سے فرمایا کہ: اس گھر میں جائو اور وہاں زندگی بسرکروکیونکہ تمھارا (موجودہ) گھر تنگ اور چھوٹا ہے۔

غلام نے کہا: مولا ! تنگ اور مختصر ہونے کے باوجود میرے لیے یہی گھر کافی  اور اچھا ہے کیونکہ یہ میرے والد کی یادگار ہےلہٰذا میں اسی گھر میں رہوں گا۔

امام ؑنے اس سے فرمایا: ان کان ابوک احمق ینبغی ان تکون مثلہ (اگر تمھارے والد نے غلطی کی تھی تو کیا درست ہوگا کہ تم بھی انہی کی مانند کرو؟ محاسن برقی۔ ص ۶۱۱بحار الانوار۔ ج ۷۶۔ ص ۱۵۳)

--------------

۱:- قصہ کچھ یوں ہے کہ: حضرت علی ؑکے ایک صحابی ” علاء ابن زیادحارثی“ نےامام ؑ سے کہا کہ مجھے اپنے بھائی ” عاصم ابن زیاد“ کی آپ سے شکایت کرنی ہےامام ؑنے فرمایا:کیوں اسے کیا ہوا ہے؟ علاء نے کہا: اس نے ایک چادر اوڑھ لی ہے، اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہےامام ؑنے فرمایا کہ اسے میرے پاس لائوجب عاصم کو لایا گیا تو امام ؑنے اس سے فرمایا:اے اپنی جان کے دشمن! شیطانِ خبیث نے تمھیں بھٹکادیا ہےتمھیں اپنی آل اولاد پر رحم نہیں آتا؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لیے حلال کیاہے اگر تم انہیں کھائو پیو اور استعمال کرو گے تو اسے ناگوار گزرے گاتم اللہ کی نظروں میں اس سے کہیں زیادہ پست ہوکہ وہ تمھارے لیے یہ چاہے۔ اس نے کہا کہ یا امیر المومنینؑ! آپ بھی تو معمولی لباس اور روکھے پھیکے کھانے پرگزارا کرتے ہیں؟ اس پر آپؑ نے فرمایا:تم پر حیف ہے کہ تم اپنا موازنہ میرے ساتھ کررہے ہو، خدا نے ائمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔

۶۶

ہر طرح کے شرک سے پرہیز

سورہ فرقان میںخدا وند رحمٰن کے خاص اور ممتاز بندوں کی چھٹی خصوصیت، ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ:وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ (اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ سورہ فرقان ۲۵آیت ۶۸) یعنی یہ لوگ خالص توحید کی صراطِ مستقیم پر ہیں اور ہر قسم کے شرک اور شرک آلود عبادات سے پرہیز کرتے ہیں۔

تمام انبیائے کرام نے اپنی دعوت کا آغاز، لوگوں کو توحید کی طرف بلانے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیاہےتوحید، آسمانی ادیان کی عظیم الشان عمارت کا سنگ ِبنیاد ہےانبیا کی زیادہ ترجد و جہد مشرکین کے خلاف اور ان کی سرنگونی کے لیے رہی، اور ان مقدس حضرات نے اس راہ میں کٹھن مشکلات کا سامنا کیاانہوں نے اپنی آخری سانس تک شرک اور مشرکین کے خلاف جنگ لڑی، اور ان کا اصل اور حقیقی مقصد توحید کی بنیاد پر ایک انسانی معاشرے کی تشکیل تھا۔

توحید کی مختلف اقسام کی مانند، شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں انبیا، آسمانی کتب اور ائمہ ٔ معصومین نے لوگوں کے سامنے توحید کی تمام اقسام کو واضح کیا ہےاسی طرح انہوں نے شرک کی مختلف شاخوں کی بھی وضاحت کی ہے اور لوگوں سے تقاضا اور مطالبہ کیاہے کہ وہ توحید کے سیدھے راستے پر چلیں، ایک ایسا راستہ جوہر قسم کے شرک سے پاک اور دور ہے۔

اگر چہ انبیا کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگ شرک کی مختلف اقسام سے آلودہ تھے، لیکن اکثر لوگ ” عبادت میںشرک“ کے شکار تھے اور خدائے واحد کی پرستش و عبادت کی بجائے، دوسری اشیا، جیسے طرح طرح کے بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش میں مصروف تھےیہی وجہ ہے کہ انبیا کی اکثر جدوجہد اس قسم کے شرک کے خلاف رہی۔

۶۷

زیر بحث آیت (سورہ فرقان کی آیت ۶۸) میں اگر چہ ہر قسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے لیکن اس میں بھی زیادہ تر ” عبادت میں توحید“ کا مسئلہ پیش نظر ہےکیونکہ عبادت میں خالص اور کامل توحید ہر قسم کے شرک سے پرہیز کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیلہٰذا آیت کہہ رہی ہے کہ: خداوند ِرحمٰن کے خاص بندوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ خالص توحید پرست ہیںکسی بھی صورت میں، بالخصوص عبادت میں، کسی کو خدا کا شریک اور ہمسر نہیں سمجھتےہر قسم کے جلی و خفی شرک اور شرک آلود امور سے اجتناب کرتے ہیںنورِ توحید کی کرنوں سے ان کا قلب منور ہے، اور چشمہ توحید کے خالص اور شفاف پانی نے ان کی روح کو شرک کی غلاظتوں سے پاک کیا ہوا ہےبالفاظِ دیگر، یہ لوگ توحید میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان میںذرّہ برابر بھی شرک نہیں پایاجاتا۔

قرآنِ مجید میں دو سو سے زیادہ مرتبہ، شرک اوربت پرستی کی ممانعت اور غیر توحیدی رجحانات کی نفی اور انکار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےچھتیس مرتبہ” مُشْرِكِيْنَ“ کے لفظ کے ساتھ، مشرکوں کو سرزنش کی گئی ہے اور اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ خداوند ِعالم کا شدید اور سخت عذاب ان کا منتظر ہےمثال کے طور پر سورہ توبہ کے آغاز میں ارشادِ الٰہی ہے:بَرَاءَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ (جن مشرکین سے تم نے عہدوپیمان کیا تھا، اب ان سے خدا اور رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہےسورہ توبہ ۹آیت ۱)

اسی سورے میں ارشاد ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (مشرکین نجس اور ناپاک ہیں، پس مسجد الحرام کے نزدیک نہ آئیںسورہ توبہ۹آیت۲۸)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرٰى اِثْمًا عَظِيْمًا (اور جو بھی اللہ کا شریک بنائے گا، وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہےسورہ نساء ۴آیت ۴۸)

۶۸

نیز فرمانِ الٰہی ہے:وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِيْدًا (اور جوخدا کا شریک قرار دے گا، وہ گمراہی میں بہت دور تک چلاگیا ہےسورہ نساء ۴۔ آیت ۱۱۶)

اسی طرح حضرت لقمان کی زبانی ان کے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (اے بیٹا! خبردار کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہےسورہ لقمان ۳۱آیت ۱۳)

قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مفاہیم و نکات کی وضاحت کے لیے مثالوں سے کام لیا گیا ہےکیونکہ مثال حسی اور قابلِ محسوس امور کے ذریعے عقلی حقائق کی تشبیہ کا نام ہے، جس کے ذریعے بلند عقلی مفاہیم کو سننے والے آسانی اور گہرائی کے ساتھ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس بناپر قرآنِ کریم میں اہم ترین مفاہیم کو (پچاس سے زیادہ) مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہےانہی میں وہ مثالیں بھی شامل ہیں جو شرک اور مشرکین کے بارے میں قرآنِ کریم میں ذکر ہوئی ہیں اور جو شرک کے گناہ اور مشرکین کی نجاست اور آلودگی کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں اس حوالے سے قرآنِ کریم میںذکر ہونے والی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا، ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے طوفان کے دن کی تیزہوا اڑا لے جائے، کہ وہ اپنے حاصل کیے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہ رکھ سکیں گے(سورہ ابراہیم ۱۴۔ آیت ۱۸)

۶۹

بے شک مشرکین کفار ہی میں سے ہیں، لہٰذا ان کے اعمال، حتیٰ ان کے نیک اعمال ایسے کھوکھلے اور بے مغز ہیں جو راکھ کی حیثیت رکھتے ہیں، جسے شدید طوفانی ہوائیں اڑالے جاتی ہیں۔

نتیجے کے طور پر، مشرکین اپنے اعمال اور ان کے نتائج سے محروم رہتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ اور بہت کم اعمال اور ان کے نتائج کو بھی اپنے لیے ذخیرہ آخرت نہیں بناسکتےشرک اور کفر کاشدید طوفان کفار اور مشرکین کے نیک اعمال کو اس طرح بہالے جاتا ہے، جیسے شدید طوفانی ہوائیں، خاک کے ذرّوں کو اڑالے جاتی ہے۔

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَكَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىهُ اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَعَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ

اور اللہ نے ایک اور مثال ان دو (مومن اور مشرک) انسانوں کی بیان کی ہے جن میں سے ایک پیدائشی گونگا ہے اور کسی کام کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آقا کے سرپر ایک بوجھ ہے کہ وہ اسے جس کام کے لیے بھی بھیجتا ہے اسے اچھی طرح انجام نہیں دیتاتو کیا ایسا انسان اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستے پر گامزن ہے(سورہ نحل ۱۶۔ آیت ۷۶)

اس مثال میں خداوند ِعالم مشرکین کو درجِ ذیل پانچ خصلتوں کے حامل افراد قرار دیتا ہے:

۱۔ یہ غلام اور بے اختیار ہیں۔

۲۔ یہ گونگے اور بہرے ہیں۔

۳۔ یہ کسی کام کے قابل نہیں۔

۴۔ یہ اپنے آقا اور مالک کے سرپربوجھ ہیں۔

۵۔ یہ ہر کام میں شکست خوردہ اور ناکام ونامراد رہتے ہیں۔

۷۰

لیکن مومنین، جو ہر طرح کے شرک سے دور رہتے ہیں، ان میں نہ صرف مذکورہ ناپسندیدہ صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔

لہٰذا کیا مومن اور مشرک برابر ہوسکتے ہیں؟

بے شک یہ برابر نہیں ہوسکتے۔

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ

اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کرو، کہ جو کسی کوخدا کا شریک بناتاہے وہ گویا آسمان سے گرپڑتا ہے اور اسے پرندہ اچک لیتا ہے، یا اسے ہوا کسی دور دراز مقام پر لے جاکے پھینک دیتی ہے(سورہ حج ۲۲آیت ۳۱)

اس مثال میں انتہائی وضاحت کے ساتھ مشرکین کی بے چارگی اور ان کے وحشت ناک زوال و نابودی کا ذکر کیا گیا ہےمشرکین اس قدر بے چارے ہیں کہ پہلے تو انہیں ان کے شرک کی وجہ سے آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جاتا ہے اور پھر وہ درمیان میں لاش خور پرندوںکی غذا بنتے ہیں اور اس کے بعد اگر ان پرندوں کے ہاتھوں سے بچ جاتے ہیں تو ہولناک طوفان کا شکار بنتے ہیں اور آخر کار یہ طوفان انہیں ایک ایسی جگہ زمین پر پٹخ دیتاہے جہاں کوئی ان کا مونس و مدد گار اور نجات دہندہ نہیں ہوتااس موقع پر ان کا بدن چورہ چورہ ہوجاتا ہے اور اس کا ذرّہ ذرّہ بکھرکے رہ جاتا ہے۔

ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ آسمانِ توحید سے جدا ہوکر شرک کی ہولناک گھاٹی میں جاپڑے ہیں، اور بے رحم شیطان کے طوفان نے انہیں اچک کر دور دراز مقام پر اٹھا پھینکا ہے اور انہیں بکھیر کے رکھ دیا ہے۔

۷۱

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

اور جن لوگوں نے خدا کوچھوڑ کردوسرے سرپرست بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا ہے، لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے، اگر ان لوگوں کے پاس علم و ادراک ہو۔  (سورہ عنکبوت۲۹۔ آیت۴۱)

سب جانتے ہیں کہ مکڑی کا گھر انتہائی نازک اور کمزور ہوتاہے۔ نہ اس میں درودیوار ہوتے ہیں، نہ کھڑکی اور چھتاسے انتہائی نازک اور باریک تاروں سے بنایا گیا ہوتاہےلہٰذا جوں ہی ہلکی سی بھی ہوا چلے، اس کے تاروپود بکھرکے رہ جاتے ہیں۔

اسے ملیا میٹ کردینے کے لیے بارش کے چند قطرے ہی کافی  ہوتے ہیں۔

آگ کا معمولی سا شعلہ بھی اسے نابود کردینے کے لیے بہت ہوتاہے۔

جھاڑو کا ہلکا سا اشارہ ہی اسے زیرو زبر کردیتا ہے، اس میں بقا کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی، اپنی بقا کے لیے سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔

خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں مشرکین کے مسکن کو مکڑی کے کمزور گھر سے تشبیہ دی ہے، جس کی کمزوری اور بے وقعتی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

مذکورہ بالا چار مثالوں میں، انتہائی وضاحت کے ساتھ، شرک کے بد صورت باطن اور مشرکین کی کمزوری اور ضعف کو ہمارے لیے بیان کیا گیا ہےیہ مثالیں صاف وصریح الفاظ میں ہم سے کہتی ہیں کہ طاغوت اور باطل معبود خواہ ظاہراً دلکش اور دلربا نظر آتے ہوں لیکن اندر سے خالی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔

۷۲

یہ نہ صرف کسی بھی طرح نجات دہندہ نہیں ہوسکتے بلکہ کمال و ارتقاکی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال کر اسے بے سہارا چھوڑدیتے ہیںمکڑی کے گھر کے کمزور تار انسانوں کو کبھی بھی گمراہی کے ہولناک گڑھے سے نہیں نکال سکتے، صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مشرکین کی زندگی ایسی ہی ہوگی بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہو گیقرآنِ کریم کہتا ہے:

لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد کردیئے جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوجائے گا۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۶۵

۷۳

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو

اگر کوئی انسان شرک سے بچنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شرک کی تمام اقسام سے واقف ہولہٰذا ہمار ے لیے ضروری ہے کہ ہم شرک اور توحید کی تمام علامات اور اقسام سے باخبر ہوں، تاکہ ہر قسم کے شرک سے مکمل طورپر دور رہ سکیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ:اِنَّ بَنی اُمَیَّةَ اَطلقُوا اللنّاسِ تعلیمَ الایمانِ وَلَم یُطلقوا تَعلیمَ الشِّرکِ، لکَنی اِذَاحَمَلو هُم عَلَیهِ لَمْ یَعْرِ فُوه (بنی امیہ نے لوگوں کو ایمان کی تعلیم کے لیے آزاد چھوڑا لیکن انہیں(وسیع معنی میں)شرک کے متعلق جاننے کی آزادی نہیں دی۔ تاکہ جب وہ انہیں شرک کی طرف لے جانا چاہیں تو لوگ جان نہ سکیںاصولِ کافی ۔ ج۔ ۲۔ ص۴۱۵، ۴۱۶)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی امیہ لوگوں کو شرک کے وسیع معنی جاننے کی آزادی فراہم کرتے، تو لوگ جان لیتے کہ خداوند ِعالم کے فرمان کو چھوڑ کر غاصب حکمرانوں کی اطاعت و پیروی بھی شرک کی ایک قسم ہےاس طرح نتیجے کے طور پر یہ علم انہیں ظالم خلفا کی اطاعت سے باز رکھتا۔

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا: وہ کم سے کم چیز کیا ہے جس کے ارتکاب سے انسان مشرک ہوجاتا ہے؟ امام ؑنے جواب دیا:مَنْ قَالَ للنَّواةِ اِنّها حَصاةً وَلِلْحَصاةِ اِنّها نَواةٌ ثُمَّ دانَ بِهِ (جوکوئی گٹھلی کو کہے کہ کنکر ہے اور کنکر کو کہے کہ گٹھلی ہے اور پھر اسی کو اپنا دین اور عقیدہ بنالےاصولِ کافی  ج ۲۔ ص ۴۱۵، ۴۱۶)

۷۴

عارف اور محقق عالم ” فیض کاشانی“ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: اگر کوئی اپنے دل سے اس بات کا معتقد ہوجائے اور اسی کو اپنا دین بنالے، تو وہ مشرک ہےاس کا سبب یہ ہے کہ اس شخص کا یہ عمل اس کی نفسانی خواہش کا نتیجہ ہےاور یہ عقیدہ رکھنے والا شخص اگر چہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی نفسانی خواہش کی اطاعت بھی کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر اس نے (اپنی خواہش کو) اطاعت میں خدا کا شریک قرار دیا ہوا ہے۔

اصولِ کافی (مترجمہ فارسی)۔ ج ۴۔ ص ۱۱۳)

دوسری طرف رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:مَن اصغی الی ناطق فَقد عبدهُ، فانْ کانَ النّاطِقُ عنِ الله عزّو جلَ فَقَدْ عَبَدالله، واِن کانَ النّاطقُ عَنْ ابلیسَ، فَقَدْ عبدَابلیسَ (ایسا شخص جو کسی خطیب کی بات (اس کی گفتگو کی سچائی پر عقیدے کے ساتھ) سنے، اس نے اس خطیب کی عبادت کی ہےپس اگر وہ خطیب خدا کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے خدا کی عبادت کی ہے، اور اگر وہ شیطان کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے شیطان کی پرستش کی ہےبحارالانوار۔ ج۲۶۔ ص ۲۳۹)

اس قسم کی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شرک انتہائی وسیع معنی کا حامل مفہوم ہےمومنِ کامل اور خالص توحید پرست شخص وہ ہے جو شرک کے تمام پہلوئوں سے باخبر ہو، اور ان سے اجتناب کرتا ہو، وگرنہ وہ بھی غیر شعوری طور پر شرک کی وادی میں اتر جائے گا۔

اس حوالے سے ایک دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ معصومین کی روایت کے مطابق شرک کی دو قسمیں ہیں: ایک شرک ِجلی (یعنی آشکار، کھلا اور ظاہر شرک) اور دوسری شرک ِخفی (یعنی چھپا ہوا اور نہاں شرک)

بت پرستی اور ایک سے زیادہ معبودوں کی پرستش وغیرہ شرک ِجلی میں سے ہیں جبکہ عبادت و اطاعت ِالٰہی میں خودنمائی اور ریاکاری شرک ِخفی میں سے ہیں۔

۷۵

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشادہے:شرک، اون سے بنے سیاہ لباس پر، تاریک رات میں چیونٹی کے رینگنے سے زیادہ خفیہ اور پوشیدہ ہوتاہےاسکی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان خدا سے طلب ِحاجت کے لیے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو گھمائے۔

نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے: شرک، سیاہ رات میں، سیاہ ٹاٹ پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے، جیسے یہ کہ انسان خدا کے علاوہ کسی اور کے لیے نماز پڑھے، یا قربانی دے یا اس سے دعا مانگے۔ (بحارالانوار۔ ج۷۲۔ ص۹۶)

لہٰذا عبادت اور اطاعت ِالٰہی میں ہر قسم کی ریاکاری اور خود نمائی، شرک کی ایک قسم ہے۔

کیونکہ توحید اور صحیح عبادت و پرستش کی شرائط میں سے ایک شرط اخلاص ہےاسی بنیاد پر اولیا اللہ اور خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے اس بات کی طرف سے انتہائی ہوشیار، محتاط اور چوکس رہا کرتے تھے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں میں اخلاص کی حدوں سے باہر نہ نکلنے پائیں اور خدانخواستہ کہیں شرک کے کسی غیر محسوس پہلو کا شکار نہ ہوجائیں۔

نقل کرتے ہیں کہ جب امام خمینی علیہ الرحمہ نجف ِاشرف میں ہواکرتے تھے، تو بعض طلبا نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ آپ کا عمامہ اور داڑھی چھوٹی ہے، ایک مرجع تقلید کے شایانِ شان نہیں۔  امام خمینی نے ان کے جواب میں فرمایا: ان سے کہو کہ میں ابھی مشرک نہیں ہوا ہوں۔

یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خودنمائی کی غرض سے عمامہ اور داڑھی کا بڑا کرنا بھی، شرک کی ایک قسم ہے۔ (برداشتھائی از سیرت ِامام خمینی۔ ج۱ص ۳۲۴، پابہ پائے آفتاب۔ ج ۴۔ ص۴۸)

شرک کا دامن اس قدر وسیع و عریض ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بقول: اگر کوئی مومن تمام عبادات انجام دے لیکن ایک چیز جسے خدایا اسکے رسول نے معین کیا ہے اس کے بارے میں کہے کہ: کیوں (خدا نے) اس کے برخلاف چیز معین نہیں کی، یا اس کے باطن میں ایسی حالت پیدا ہوجائے تو ایسا شخص بغیر زبانی اظہار کے شرک میں گرفتار ہوگیا ہے(اصولِ کافی ۔ ج۲۔ ص۳۹۸)

۷۶

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے: اگر کوئی کہے کہ: اگر فلاں (شخص) نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا مجھے نقصان اٹھانا پڑتا، یا میں اپنی مراد حاصل نہ کرپاتا اور اسی طرح کی دوسری باتیں کرے، تو ایسے شخص نے مالکیت اور رازقیت میں (اس فلاں شخص کو) خدا کا شریک قرار دیا ہےپس اگر ایسے مواقع پروہ یہ کہے کہ: اگر خداوند ِعالم فلاں شخص کو میری مدد کے لیے نہ بھیجتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا اپنا مقصود حاصل نہ کرپاتا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے(بحارالانوار ج ۷۲۔ ص ۱۰۰)

نیز روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایسا مومن جو ایک مالدار کے یہاں جائے، اور اس کی دولت کی خاطر اسے سلام کرے، اور اسکے سامنے انکساری اور عاجزی کا مظاہرہ کرے، تو وہ اپنے دو تہائی دین سے محروم ہوجاتا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۳۔ ص۱۶۹)

ہم اس موضوع پر گفتگو کومختصر کرتے ہوئے اسے توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں کے ذکر پر ختم کررہے ہیں۔

اسلامی فلاسفہ اور علمائےعلمِ کلام کہتے ہیں کہ: توحید کی متعدد شاخیں ہیںجیسے توحید ِذات، توحید ِصفات، توحید ِعبادی، توحید ِافعالی جومختلف اقسام پر مشتمل ہے، جیسے خالقیت میں توحید، ربوبیت میں توحید، مالکیت میں توحید، تکوینی وتشریعی حاکمیت میں توحیداسی طرح توحید کی ضد یعنی شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں اور ان میں سے کسی ایک قسم میں بھی کسی کا گرفتار ہوجانا، اس انسان کو مشرک بنانے کے لیے کافی  ہےلہٰذا شرک بھی وسیع معنی رکھتا ہے۔

خدا اپنے ممتاز اور خاص بندوں میں ایک صفت یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ شرک کے تمام پہلوئوں اور اس کی تمام اقسام سے باخبر ہوں اور ہر قسم کے شرک سے دور رہیں تاکہ وہ فکر، عقیدے اور عمل میں توحید کی پاک وپاکیزہ راہ پر گامزن ہوسکیں۔ یقیناً اگر تمام پہلوئوں میں ان کی توحید درست ہوجائے تو وہ ہر میدان میں اسکے خوبصورت معنوی آثار کا مشاہدہ کریں گے اور مطلوبہ نتائج حاصل کریں گے۔

۷۷

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی

اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی کے بارے میں چند احادیث کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

شریح بن ہانی سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا:جنگ ِجمل کے دوران، ایک عرب امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور کہا: اے امیر الومنین! کیا آپ خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں؟ وہاں موجود جو لوگ اس شخص کی یہ بات سن رہے تھے انہوں نے اس پر چڑھائی کردی اور کہا: اے بدو! کیا تجھے نظر نہیں آرہا کہ اس وقت امیر المومنین کا ذہن دوسرے مسائل کی جانب متوجہ ہے (ہر بات کا ایک وقت ہواکرتا ہے کیا یہ اس قسم کے سوالات کا موقع ہے؟ )

یہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے ان لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا:دَعوُهُ فَانَّ الّذی یُریدهُ الاعرابیّ هُوَالّذی نُریدُهُ مِنَ القوم (اسے کچھ نہ کہو، یہ بدو جس چیز کے بارے میں ہم سے سوال کررہا ہے وہ وہی چیز ہے جو ہم اس دشمن جماعت سے چاہتے ہیں (اور اسکی خاطر ان کے خلاف مصروف ِجنگ ہیں)۔

پھر آپ ؑنے فرمایا: اےاعرابی! ہم جو یہ کہتے ہیں کہ خداواحد ہے، تو اس کے چار معنی ہیں، ان میں سے دو معنی خدا کے بارے میں روانہیں ہیں اور دو معنی (اسکے بارے میں) ثابت و مسلم ہیں۔ جو دو معنی روانہیں(وہ درجِ ذیل ہیں)

۷۸

۱:- کوئی شخص کہے کہ خدا واحد ہے اور اسکا مقصد ” واحد ِعددی“ ہوکیونکہ جس چیز کا دوسرا نہیں ہوتا وہ اعداد کی فہرست میں نہیں آتی اور اسکے بارے میں ایک اور دو نہیں کہا جاسکتا۔

۲:- اور اسی طرح اگر کوئی کہے کہ خدا واحد ہے اور اس کی مراد جنس میں سے واحد ِنوعی ہوتو یہ بھی درست نہیںکیونکہ اسکا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا کی شبیہ موجودہے۔

اب رہے توحید کے وہ دو معنی جو خدا کے لیے روا اور ثابت ہیں، تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ یکتا ہےلہٰذا اسکی کوئی شبیہ اور مثل موجود نہیں۔ دوسرے یہ کہ: وہ” احدی المعنی“ ہے۔ یعنی اسکی ذات ناقابلِ تقسیم ہے، نہ خارجی وجود میں، نہ ہی عقل میں اور نہ وہم و تصور میں (بلکہ اسکی ذات بسیط ِمعنی ہے)۔ (بحارالانوار۔ ج۳۔ ص۲۶)

رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی ابن مسعود سے فرمایا:ایّاکَ اَنْ تُشْرِکَ بِاللهِ طَرفَةَ عَیْنٍ، واِنْ نُشِرْتَ بِالمِنشارِ اَوْ قُطِّعْتَ اَوْصُلِبْتَ اَوْاُحْرِقْتَ بالنّارِ (پلک جھپکنے کے عرصے کے لیے بھی خدا کا شریک قرار دینے سے پرہیز کرو۔ چاہے تمہیں آرے سے چیر کے رکھ دیا جائے، یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا آگ میں جلادیا جائےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۰۷)

۷۹

انسانی قتل اور ایذارسانی سے اجتناب

قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے خاص اور ممتاز بندوں کی ساتویں صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ (اور وہ کسی بھی نفس کو، جسے خدا نے محترم قرار دیا ہے، ناحق قتل نہیں کرتےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۸)

کسی انسان کا ناحق خون بہانا بڑے اور خطرناک گناہوں میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ قدیم زمانے ہی سے انسان اس گناہ میں مبتلا رہا ہے، اور اس نے بکثرت انسانوں کو برباد کیا ہےحضرت آدم علیہ السلام کا ایک بیٹا ” قابیل“ تاقیامِ قیامت لعنت ملامت کا مستحق رہے گا کیونکہ اس نے اپنے بھائی ” ہابیل“ کو قتل کرکے اس گناہ کی ابتدا کی۔

انسانی قتل اس قدر گھنائو نا اور ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے کہ جب خداوند ِعالم نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت اور اپنے خلیفہ اور نمائندے کی حیثیت سے فرشتوں کے سامنے ان کے تعارف کا فیصلہ کیا، تو ملائکہ نے عرض کیا: پروردگار! کیا زمین پر اسے بھیجے گا جووہاں فساد اور خونریزی برپا کرے گا؟ اس پر خدا وند ِعالم نے فرشتوں کو حضرت آدم کے مثبت پہلوئوں (یعنی علم ومعرفت) سے روشناس کرایایہ جاننے کے بعد فرشتوں نے اللہ سے معذرت طلب کی۔ (سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۳۰ تا۳۲کا خلاصہ)

انسانی قتل انتہائی بڑا گناہ ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیںخداوند ِعالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ:

وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُه جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَه وَاَعَدَّ لَه عَذَابًا عَظِيْمًا

اور جو بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اسکی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اُس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا اُس پر لعنت بھی کرتا ہے، اور اُس کے لیے سخت عذاب بھی تیار کررکھاہےسورہ نساء ۴۔ آیت۹۳)

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177