عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف33%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92507 / ڈاؤنلوڈ: 6239
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

کتاب کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :

جب شیعہ اس قوم کو کہا جاتا ہے جو عترت نبی(ص) کی عاشق و محب ہے تو مسلمانوں میں ایسا کون ہے جو شیعہ ہونے سے انکار کرے گا؟

نسلی تعصب وعداوت  کا درد واپس لوٹ چکا ہے، روشنی اور آزادی فکر کا زمانہ آگیا ہے ذہین وجدت پسند جوان آنکھیں کھولیں اور شیعوں کی کتابوں کا مطالعہ کریں ان سے ملیں اور ان کے علماء سے گفتگو کریں اور اس طرح حق کو پہچان لیں ۔ کتنی شیرین زبانوں کے ذریعہ ہمیں دھوکہ دیا گیا اور کتنی بے بنیاد باتیں سنائی گئیں۔

آج جنکہ دنیا ہر ایک انسان کے ہاتھ میں ہے اور شیعہ بھی اس زمین کے چپہ چپہ پر آباد ہیں پھر کسی محقق کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ شیعوں کے بارے میں شیعوں کے دشمنوں سے سوال کرے ان لوگوں سے پوچھے جو کہ عقیدہ کے لحاظ سے ان کی مخالفت   کرتے ہیں اور ان سے سائل کیا توقع رکھتا ہے جو کہ ابتدا ہی سے شیعوں کے دشمن ہیں؟ شہعی کوئی خفیہ مذہب  نہیں ہے کہ جس کے عقائد سے کوئی واقف نہ ہوسکے بلکہ اس کی کتانیں اور منشورات دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر طالب علم کے لئے ان کے مدارس اور خوزات علمیہ کھلے ہوئے ہیں، ان کے علماء کی طرف سے کانفرنس، سیمنار منعقد ہوتے رہتے ہیں وہ امت اسلامیہ کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اور انھیں ایک مشترک کلمہ پر جمع ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ملتِ اسلامیہ کے منصف مزاج افراد سنجیدگی اور جانفشانی سے اس مسئلہ کی تحقیق کریں گے تو وہ حق سے قریب ہوجائیں گے اور حق کے سوا تو ضلالت و گمراہی ہے اور جو چیز ان کے حق تک پہونچنے میں رکاوٹ بنتی ہے وہ دشمنان شیعہ کا جھوٹا پروپگنڈہ ہے یا شیعہ عوام میں سے  کسی کی غلطی ہے۔(کتاب کے آخر میں یہ بات واضح ہوجائے گا کہ شیعہ عوام میں بعض کے افعال سے اہل سنت کے ذہین و روشن خیال جوان بد ظن  ہوجاتے ہیں اور پھر ان میں حقیقت تک رسائی کے لئے بحث و تحقیق کی بھی ہمت نہیں رہتی ہے۔)

۲۱

کیونکہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ( سی انسان کے قلب سے) شبہ زائل ہوجاتا ہے اور باطل افسانہ محو ہوجاتا ہے پھر آپ دیکھیں گے کہ شیعہ دشمن خود شیعہ ہوگیا ہے۔

یہاں مجھے اس شامی کا قصہ یاد آگیا جس کو اس زمانہ کے ذرائع ابلاغ نے گمراہ کردیا تھا۔ جب وہ قبر رسول اعظم کی زیارت کی غرض سے مدینہ میںداخل ہوا تو اہاں گھوڑے پر سوار ایک باوقار شخص کو دیکھا کہ جس کے چاروں طرف اس کے اصحاب کھڑے ہوئے ہیں اور اس کے اشارے کے منتظر ہیں۔

شامی یہ کیفیت دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا کیونکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا میں معاویہ سے زیادہ بھی کسی کی تعظیم کی جاتی ہے اس نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا توجواب دیا گیا یہ حسن بن علی ابی طالب(ع)  ہیں۔ اس نے کہا : یہی خارجی ابن ابی تراب ؟ اس کے بعد اس نے امام حسن(ع)  اور  آپ  کے پدر اور اہل بیت پر سب و شتم کرنا شروع کردیا۔

امام حسن(ع) کے اصحاب نے اسے قتل کرنے کے لئے تلواریں کھینچ لیں لیکن امامِ حسن(ع) نے انہیں منع کردیا اور گھوڑے سے اتر پڑے اور اسے خوش آمدید کہا اور محبت آمیز لہجہ میں فرمایا:

کیا ا س شہر میں تم مسافر و غریب ہو؟ شامی نے کہا ہاں ، میں شام سے آیا ہوں اور میں امیر المؤمنین سید المرسلین معاویہ بن ابی سفیان کا چاہنے والا ہوں ،امام(ع) نے دوبارہ اسے  خوش آمدید کہا اور فرمایا : تم میرے مہمان ہو ، شامی نے انکار کیا لیکن امام حسن(ع) نے اسے مہمان ہونے پر راضی کرلیا اور بنفس نفیس کئی روز تک اس کی ضیافت کرتے رہے چوتھے روز شامی شرمندہ ہوگیا اور امام حسن(ع) کی شان میں جو گستاخی کی تھی اس کی معافی طلب کرنے لگا، امام حسن(ع) نے اس کے سب و شتم کے مقابلہ میں احسان و درگذشت اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا جس سے شامی پشیمان ہوا۔ امام حسن(ع) اور شامی کے درمیان اصحاب امام حسن(ع)  کے سامنے کچھ اور گفتگو بھی ہوئی تھی جسے ہم ذیل میں نقل کررہے ہیں۔

۲۲

امام حسن(ع) : میرے عرب بھائی کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟

شامی: مجھے پورا قرآن حفظ ہے۔

امام حسن(ع) کیا تم جانتے ہو کہ اہل بیت (ع) کون ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور ایسے پاک رکھا جو حق ہے؟

شامی: معاویہ اور آل ابی سفیان ہیں۔

حاضر ین کو اس کی با ت پر بڑا تعجب ہوا، اور امام حسن(ع) نے مسکراتے ہوئے فرمایا: میں علی بن ابی طالب(ع) کا فرزند حسن (ع) ہوں جو کہ رسول اللہ (ص) کے ابن عم اور بھائی ہیں۔میری مادر گرامی فاطمہ زہرا سیدہ نساء العالمین، میرے جد رسول اللہ سید الانبیاء والمرسلین(ص)، میرے چچا سید الشہداء جناب حمزہ اور جعفر طیار(ع) ہیں خدا نے ہمیں پاک و پاکیزہ رکھا ہے اور تمام مسلمانوں ہماری محبت واجب کی ہے۔ خدا اور اس کے ملائکہ ہم پر صلوات بھیجتے ہیں اور مسلمانوں کو ہم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے ، میں اور میرے بھائی حسین(ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اس کے علاوہ امام حسن(ع) نے اہل بیت(ع) کے کچھ اور فضائل شمار کرائے اور اس حقیقت سے آگاہ کیا تو شامی آپ کا محب ہوگیا اور رونے لگا اور امام حسن(ع) کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور  اپنی باتوں پشیمان ہوا اور کہا:

قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ جب میں مدینہ میں داخل ہوا تھا اس وقت روئے زمین پر آپ میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے اور اب میں آپ(ع) کی محبت و مودت اور آپ (ع)کے دشمنوں سے برءت کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کروںگا۔

امام حسن(ع) اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

"تم اسے قتل کرنا چاہتے تھے اور اب وہ ذبح گیا کیوں کہ اس نے

۲۳

حق کو پہچان لیا اور جو حق کو پہچان لیتا ہے اس سے عناد نہیں رکھا جاتا اور شام میں لوگ ایسے ہی ہیں اگر وہ حق کو پہچان لیتے تو ضرور اس کی اتباع کرتے۔"

اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:

إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (سوره یس آیت11)

آپ(ص)  تو صرف ذکرِ (قرآن) کا اتباع کرنے والے اور غیب کے خدا سے ڈرنے والے کو ڈرا سکتے ہیں۔ پس اسی کو بخشش اور اجرِ عظیم کی خوشخبری دے دو ۔

جی ہاں اسحقیقت سے اکثر لوگ نا واقف ہیں، افسوس کہ بہت سے لوگ ایک عمر تک حق سے عداوت و معاندت رکھتے ہیں لیکن جب انھیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم خطا پر ہیں تو فورا توبہ و استغفار میں مشغول ہو جاتے ہیںاور یہ تو ہر انسان پر واجب ہے جیسا کہ مقولہ بھی ہے،حق کی طرف بڑھنے  میں فضیلت ہے۔

مصیبت ان کی ہے جو اپنی آنکھوں سے حق دیکھتے  ہیں۔ محسوس کرتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی دنیوی اغراض اور پوشیدہ کینہ کی بنا پر حق سے برسر پیکار رہتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے متعلق رب العزَت کا ارشاد ہے:

تم انھیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان لانے والے نہیں ۔" (یس آیت 10)

ان کےساتھ وقت خراب کرنے اور انکے حال پر افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہارے اوپر صرف یہ واجب ہے کہ ہم ان منصف مزاج افراد کے لئے ہر شئی کو واضح کردیں جو حق کے متلاشی ہیں اور حق تک پہنچنے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے  ربَ العزَت کا ارشاد ہے:

تم تو صرف اس شخص کو ڈراسکتے ہو جو نصیحت قبول کرے اور ان دیکھےخد ا کا خوف

۲۴

رکھے لہذا تم بھی اسے مغفرت کی اور عظیم اجر کی بشارت دیدو۔

دنیا کے تمام روشن خیال شیعوں پر واجب ہے کہ وہ ملت کے نونہالوں کو حق سے متعارف کرانے کے سلسلے میں اپنا وقت اور اموال خرچ کریں کیونکہ ائمہ اہل بیت(ع) صرف شیعوں کا ذخیرہ نہیں ہیں بلکہ وہ سارے مسلماںوں کے لئے ائمہ ھدی اور تاریکی کو چھاٹنے والے چراغ ہیں۔

جب تک عام مسالمان ہی ائمہ کو نہیں پہچانیں گے خصوصا اہل سنت کے روشن خیال جوان بھی ان سے بے خبر رہیں گے تو اس وقت تک شیعہ عند اللہ جواب دہ ہیں۔

اسی طرح جب تک لوگ کافر وملحد ہیں اور اس دین خدا سے بے خبر ہیں جسے محمد سید المرسلین(ص) لائے تھے اس تک سارے مسلمان عند اللہ جواب دہ ہیں۔

۲۵

اہلِ سنت کا تعارف

مسلمان کا وہ بڑا فرقہ جو پوری دنیا میں مسلمانوں کا ۳/1حصَہ ہے اور ائمہ اربعہ ابو حنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد ابن حنبل کی تقلید کرتا ہے ۔ اور انہی کے فتووں کے مطابق عمل کرتا ہے۔

اس فرقہ کی بعد میں ایک اور شاخ نکلی جس کو سلفیہ کہا جاتا ہے اس کے خطوط ابن تیمیہ نے مقرر کئے اسی لئے یہ لوگ ابن تیمیہ کو  مجدد السنہ کہتے ہیں۔ پھر فرقہ وہابیت وجود میں آیا اس کے بانی محمد بن عبد الوہاب ہیں اور سعودی عرب کا یہی مذہب ہے۔

اور جب سب ہی اپنے کو اہل سنت کہتے ہیں اور کبھی "والجماعت" کا بھی اضافہ کرلیتے ہیں۔ اور اہل سنت والجماعت کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔

تاریخی بحث سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ جس کو اہل سنت خلافتِ راشدہ یا خلفائے راشدین کہتے ہیں۔وہ "ابوبکر، عمر، عثمان" اور علی(ع) سے عبارت ہے( آنے والی بحثوں سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اہل سنت والجماعت حضرت علی (ع) کو خلفائے راشدین

۲۶

 میں شمار نہیں کرتے تھے۔ بلکہ عرصہ دراز کے بعد شمار کرنا شروع کیا ہے) اہل سنت ان کی امامت کا اعتراف کرتے ہیں خود ان کے زمانہ میں بھی انھیں امام تسلیم کرتے تھے اور اس زمانہ میں بھی انھیں امام مانتے ہیں۔

اور جو شخص خلافتِ راشدہ کا منکر اور اس کو غیرِ شرعی قرار دیتا ہے اور نص سے حضرت علی(ع) کی خلافت ثابت کرتا ہے وہ شیعہ ہے۔

یہ بھی واضح ہے کہ ابوبکر سے لے کر خلفاء بنی عباس تک تمام حکام ایل سنت سے راضی تھے اور تمام باتوں میں ان سے متفق تھے۔ لیکن شیعیان علی(ع) پر غضب ناک رہتے تھے اور ان سے انتقام لینے کے درپے رہتے تھے۔

اس بنیاد پر وہ علی (ع) اور ان کے شیعوں کو اہل سنت والجماعت میں شمار نہیں کرتے تھے۔ گویا اہل سنت والجماعت والی اصطلاح شیعوں کی ضد گھڑی گئی تھی۔ اور رسول خدا(ص)  کی وفات کے بعد ملتِ اسلامیہ کے شیعہ و سنی میں تقسیم ہونے کا سبب بنی تھی۔

اور جب ہم تاریخی موثق مصادر کےذریعہ اسباب کا تجزیہ کرینگے اور حقائق سے پردہ ہٹائیں گے تو معلوم ہوگا کہ فرقوں کی تقسیم رسولِ خدا کی وفات کے فورا ہی بعد ہوگئی تھی۔ جبکہ ابوبکر تختِ خلافت پر بیٹھ چکے تھے اور صحابہ کی اکثریت نے ان کی بیعت کرلی تھی۔ جبکہ علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اور صحابہ میں سے وہ چند افراد جن میں اکثر غلام تھے۔ س خلافت کے مخالف تھے۔ واضح ہے کہ بر سرِ اقتدار حکومت نے ان لوگوں کو مدینہ سے دور رہنے پر مجبور کردیا۔ اور بعض کو جلاوطن  کردیا اور انھیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھنے لگے اور ان سے مقابلہ کے لئے وہی سلوک روا رکھا جو کہ کوفروں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا اور ان پر وہی اقتصادی ، اجتماعی اور سیاسی پابندیاں عائد کیں جو کافروں پر عائد کی جاتی تھیں۔

۲۷

ظاہر ہے کہ آج کے اہل سنت والجماعت اس زمانہ میں کھیلی جانے والی سیاست کے پہلوؤں کا ادراک نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس دور کے اس بغض و عداوت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو کہ رسول(ص) کے بعد تاریخِ بشریت کی عظیم شخصیت کے معزول کرنے کا سبب بنا تھا، آج کے اہل سنت والجماعت کا یہی عقدیدہ ہے کہ خلافائے راشدین کے زمانی میں تمام امور کتابِ خدا کے مطابق انجام پاتے تھے۔ لہذا وہ خلفائے راشدین کو ملائکہ صفت سمجھتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی حسد و کینہ نہیں ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ان میں پست خصلت کا شائبہ ہوتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اہل سنت تمام صحابہ کے بارے میں بالعموم اور خلفائے راشدین کے بارے میں بالخصوص شیعوں کے نظریات کی تردید کرتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت نے اپنے علماء کی لکھی ہوئی تاریخ بھی نہیں پڑھی ہے بلکہ انھوں نے اسلاف سے عام صحابہ کی خصوصا خلفائے راشدین کی مدح سرائی کو سنکر کافی سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ چشم بینا اور فراخ دلی سے کام لیتے اور اپنی تاریخ اور حدیثوں کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے اور ان میں حق جوئی کا جذبہ ہوتا تو یقینا ان کا عقیدہ بدل جاتا۔ اور یہ چیز صرف صحابہ کے عقیدہ ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ اور بھی بہت سے احکام کو صحیح سمجھتے ہیں جبکہ وہ صحیح نہیں ہیں۔

میں اپنے سنی بھائیوں کے لئے کچھ ایسے حقائق پیش کرتا ہوں جن سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور اختصار کے ساتھ ایسے روشن و آشکار نصوص کی نشادہی کرتا ہوں جو باطل کو مٹاتی اور حق کو ظاہر کرتی ہیں۔ امید ہے کہ یہ مسلمانوں کے اختلاف و تشتت کے لئے مفید دواء ثابت ہوں گی اور انھیں سلکِ اتحاد میں پیرونے کا باعث قرار پائیں گی۔

لاریب آج کے اہل سنت والجماعت متعصب نہیں ہیں اور نہ ہی وہ امام علی(ع) اور اہل بیت (ع) کے مخالف ہیں لیکن ان سے محبت و احترام کے ساتھ ساتھ ان کے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اور اس اعتبار سے ان کی اقتداء کرتے ہیں کہ ان سب نے رسول(ص) کو دیکھا

۲۸

ہے۔

اہل سنت والجماعت اولیاء اللہ سے محبت اور ان کے دشمنوں سے برائت والے قاعدے پر عمل نہیں کرتے بلکہ وہ سب  سے محبت رکھنے کے قائل ہیں وہ معاویہ بن ابی سفیان کو بھی دوست رکھتے ہیں اور حضرت علی(ع) کو بھی۔

انھیں اہل سنت والجماعت کا چمکتا ہوا نام بہت ہی پسند ہے۔ لیکن اسکی آڑ میں کھیلی جانے والی سازش سے وہ بے خبر ہیں اگر انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ سنت محمدی(ص)  محض علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔ اور یہی وہ باب ہیں جس سے سنتِ محمدی(ص) تک پہونچا جاتا ہے۔ جبکہ اہل سنت ہر چیز میں انکی مخالفت کرتے ہیں اور وہ بھی ہر چیز میں ان کے مخاف ہیں۔ تو وہ اپنا موقف بدک دیتے اور سنجیدگی سے اس موضوع پر بحث کرتے اور پھر شیعیانِ علی(ع) و شیعیانِ رسول(ص) کے علاوہ اہل سنت کا کہیں  نشان نہ ملتا۔ لیکن ان تمام چیزوں کے لئے ان بڑی سازشوں سے پردہ ہٹانا ضروری ہے۔ جنھوں نے سنتِ محمدی(ص) سے لوگوں کو دور رکنھے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور اسے جاہلیت والی بدعتوں سے بدل دیا ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے مصیبت اور صراط مستقیم سے ہٹانے کا سبب قرار پائیں اور ان میں تفرقہ و اختلاف کاباعث بنیں اور بعض نے بعض کو کافر کہا  اور ایک نے دوسرے سے جنگ کی یہی چیزیں ان کے علم اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کا باعث بنیں اور اس طرح ان پر غیروں کی جرائت بڑھ گئی اور وہ انھیں حقیر و پست شمار کرنے لگےاور ہمہ وقت جنگ کی دعوت دینے لگے۔

شیعہ و سنی کے اس مختصر تعارف کو پیش کرنے کے بعد اس بات کو بیان کردینا ضروری ہے کہ شیعہ، سنت کی ضد نہیں ہے۔ جیسا کہ عامۃ الناس کا خیال ہے جبکہ وہ خود کو فخر سے اہل سنت کہتے ہیں اور دوسروں کو سنت کا مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ صرف ہم ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحیح سنت سے متمسک ہیں کیونکہ شیعوں نے اسے اس  کے باب علی ابن ابی طالب(ع) سے حاصل کیا

۲۹

ہے اور ان (شیعوں ) کا عقیدہ ہے۔ رسول (ص) تک اسی کی رسائی ہوسکتی ہے۔ جو علی (ع) کے واسطہ سے جاتا ہے۔

ہم عادت کے مطابق حق تک رسائی کے لئے غیر جانب دار ، راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ اور اس سلسلہ میں قارئین محترم کے لئے ہم تاریخی واقعات پیش کریں گے۔ اور اس سلسلہ میں بھی دلیل و برہان پیش کریں گے کہ شیعہ ہی اہل سنت ہیں جیسا کہ ہم نے کتاب کا نام بھی یہی رکھا ہے۔

اس  کے بعد قارئین کو حاشیے اور رائے کی آزادی کا اختیار ہے۔

۳۰

شیعہ اور سنی کی تقسیم

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب رسول(ص) مسلمانوں کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے لئے لکھ دینا چاہتے تھے۔ لیکن عمر ابن خطاب اور دیگر صحابہ نے رسول(ص) کو قلم دوات دینے سے انکار کردیا تھا۔(بخاری و مسلم میں رزیہ یوم الخمیس مشہور ہے)

اور آپ کی عظمت و عزَت کا کوئی احترام نہیں کیا تھا اور نہایت ہی سنگ دلی سے پیش آئے تھے یہاں یک کہ آپ(ص) پر ہذیان کا اتہام لگادیا تھا اور صاف کہدیا تھا ہمیں رسول(ص)  کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔

اس حادثہ سے کہ جس کو ابن عباس مصیبت کا دن کہا کرتے تھے، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکثر صحابہ سنتِ نبوی(ص) کے مخالف تھے اور انھیں اس ی ضرورت نہیں تھی ان کا یہی کہنا تھا ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔

لیکن علی(ع) اور دیگر چند صحابہ جن کو رسول (ص) نے علی(ع) کا شیعہ کہا تھا وہ رسول (ص) کے

۳۱

احکام کی اطاعت کررہے تھے اور وہ آپ کے کل اقوال وافعال کو واجب الاتباع سمجھتے تھے بالکل ایسے ہی جیسے کتابِ خدا کو واجب الاتباع سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

ـاالّا الذن آمنوا اطعوا الل واطعوا الرسول ـ

"ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرو۔"(نساء)

عمر بن خطاب کی عادت کو تو سارے مسلمان جانتے ہی ہیں کہ وہ ہمیشہ رسول(ص) سے ٹکراتے رہے ( اہل ذکر میں ہم نے نبی(ص) سے عمر کی مخالفت کو تفصیل سے بیان کیا ہے) زبان حال کہتی ہے کہ عمر بن خطاب سنت نبوی(ص) کی قید کو برداشت نہیں کرتے تھے اور۴ یہ بات قارئین ان کی خلافت کے زمانہ میں صادر ہونے والے احکام سے بخوبی سمجھ لیں گے وہ نص نبوی(ص) کے مقابلہ میں اجتہاد کرتے تھے( صرف یہی نہیں ہے) بلکہ خدا کی روشن نص کے مقابلہ میں بھی اجتہاد کر لیتے تھے اور حلالِ خد ا کو حرام اور حرام خدا کو حلالِ خدا قرار دیتے تھے۔ ( مولفۃ القلوب کا حصہ اور متعہ حج و متعہ نساء کو حرام قرار دیا۔ جبکہ خدا نے انھیں حلال کیا تھا۔ تین طلاقوں کو ایک طلاق کے ذریعہ حلال کردیا جبکہ خدا نے اسے حرام قرار دیا تھا۔)

اور زبان حال یہ بھی بتارہی ہے کہ صحابہ میں سے عمر کی تائید کرنے والوں کا بھی وہی مسلک تھا اور ان کے چاہنے والوں میں سلف و خلف نے بدعت حسنہ میں ان کی اقتداء کی ہے جیسا کہ انھوں نے خاد اسے (مثلا تراویح کو)  بدعت حسنہ کہا۔ آیندہ بحثوں میں اس بات کو واضح کیا جائے گا کہ صحابہ نے سنتِ نبی(ص) کو چھوڑدیا تھا۔ اور عمر بن خطاب کی سنت کا اتباع کرنے لگے تھے۔

۳۲

مخالفت نبی(ص) کا دوسرا واقعہ

رسول (ص) نے اپنی وفات سے دو روز قبل ایک لشکر تشکیل دیا اور اسامہ کو اسکا کمانڈر مقرر کیا اور تمام صحابہ کو اس لشکر میں شریک ہونے کا حکم دیا لیکن صحابہ اس میں شریک نہ ہوئے۔

یہاں تک کہ رسول (ص) کو صحابہ نے مطعون کیا کہ آپ(ص) نے ہمارا سردار 17 سال کے بے ریش نوجوان کو مقرر کردیا ہے۔

ابوبکر و عمر اور دوسرے بعض نے خلافت کے چکر میں اس لشکر میں شرکت نہیں کی باوجود اس کے کہ رسول(ص) نے لشکر اسامہ میں شریک نہ ہونے والوں پر لعنت کی تھی ۔ (جیش اسامہ سے تخلف کرنے والوں پر خدا لعنت کرے ۔ملل والنحل  شہرستانی، ج۱، ص29)

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی(ع) اور ان کے پیروکاروں کو جیش اسامہ میں شریک ہونے کا حکم نہیں دیا تھا اور یہ کام آپ(ص) نے اختلاف کو  ختم کرنے کے لئے کیا تھا تاکہ حکمِ خدا سے ٹکرانے والوں کو مدینہ سے باہر بھیج دیا جائے ظاہر ہے کہ وہاں سے یہ

۳۳

 لوگ اسی وقت لوٹ پائیں گے جب حضرت علی(ع) کی خلافت مستحکم ہوچکی ہوگی، خلافت کے بارے میں یہ تھا خدا اور رسول(ص) کا ارادہ، لیکن قریش کے زیرک و چالباز افراد اس بات کو سمجھ گئے اور انھوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ ہم مدینہ سے باہر نہ جائیں گے چنانچہ انھوں نے اتنی سستی کی کہ رسول (ص) کا انتقال ہوگیا اور وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے اور رسول(ص) کی خواہش کو ٹھکرادیا یادوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ انھوں نے سنتِ رسول(ص) کا انکار کردیا۔

اس واقعہ سے یہ بات بھی ہم پر عیاں ہوجاتی ہے  کہ ابوبکر، عمر، عثمان، عبدالرحمن بن عوف، ابوعبیدہ،عامر بن جراح سنتِ نبی(ص) کے منکر تھے۔ وہ دنیوی اور خلافت کی مصلحت کی خاطر بے دھڑک اجتہاد کرلیا کرتے تھے۔ اور اس سلسلہ میںخدا اور رسول(ص) کی معصیت سے بھی نہیں ڈرتے تھے۔

لیکن علی(ع) اور ان کا اتباع کرنے والے سنتِ نبی(ص) کے پابند تھے اور جہاں تک ممکن ہوتا تھا وہ سنت پر عمل کرتے تھے۔ چنانچہ ان سنگین حالات میں بھی علی(ع) کو وصیت رسول(ص) پر عمل پیرادیکھتے ہیں۔ جبکہ تمام صحابہ رسول(ص) کو بے غسل و کفن چھور کر امر خلافت طے کرنے کے لئے سقیفہ پہونچ گئے تھے۔ علی(ع) رسول(ص) کے  غسل اور تجہیز و تکفین اور تدفین کے کاموں میں مصروف تھے۔ علی(ع) رسول(ص)  کے ہر حکم پر عمل کرتے رہے اور اس سے انھیں کوئی باز نہیں رکھ سکتی تھی اگرچہ آپ(ع) بھی سقیفہ میں جاسکتے تھے۔ اور صحابہ کے منصوبے کو خاک میں ملاسکتے تھے لیکن آپ کے پیشِ نظر سنتِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام اور اس کے مطابق عمل کرنا تھا۔

لہذا آپ(ع) اپنے ابن عم کے جنازہ کے پاس رہے۔ہرچند کہ خلافت سے دست بردار ہونا پڑا۔

۳۴

یہاں مختصر وقفہ کے لئے سہی لیکن اس خلقِ عظیم کا جائزہ لیان ضروری ہے جو کہ علی(ع)  کو مصطفی(ص) سے ورثہ میں ملا تھا۔

علی علیہ السلام سنتِ بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کے لئے خلافت کو ٹھکرادیتے ہیں اور دوسرے خلافت کی طمع میں سنتِ نبی(ص) کو ٹھکرادیتے ہیں۔

۳۵

شیعہ اہل سنت کے مقابلہ میں

وہ اہم ترین موقف ہے جو کہ اکثر صحابہ نے سقیفہ میں اس لئے اختیار کیا تھا تاکہ خلافت علی(ع) کے سلسلہ میں نبی(ص) کی اس صریح نص کی مخالفت کریں۔ جس کے ذریعہ آپ نے حجۃ الوداع کے بعد روزِ غدیر علی(ع) کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور یہ تمام صحابہ اس روزموجود تھے۔

باوجود یکہ  خلافت کے سلسلہ میں انصار و مہاجرین میں اختلاف تھا لیکن آخر میں سنتِ نبی(ص) کو چھوڑ دینے اور ابوبکر کو خلافت کے لئے پیش کر دینے پر سب متفق ہوگئے تھے۔ اور یہ طے کر لیا تھا کہ خلیفہ ابوبکر ہی رہیں گے ۔ اگر چہ اس سلسلے میں بہت سے لوگوں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے اور ابوبکر کی خلافت سے اختلاف کرے اسے قتل کردیا جائے خواہ وہ نبی(ص) کا قریب ترین ہی کیوں نہ ہو۔ ( اس کی دلیل فاطمہ زہرا(س) کے گھر کو جلادینے کی دھمکی ہے)۔

اس حادثہ میں بھی صحابہ کی اکثریت نے سنتِ نبی(ص) سے انکار کرنے اور اسے اپنے اجتہاد سے بدلنے میں ابوبکر و عمر کی مدد کی۔ ظاہر ہے یہ سب اجتہاد کے حامی تھے۔

اسی طرح مسلمانوں کی اس اقلیت نے ایک شکل اختیار کی جو کہ سنتِ نبی(ص) سے

۳۶

متمسک تھی اور ابوبکر کی بیعت سے انکار کرچکی تھی۔ یعنی علی(ع) اور ان کے شیعہ۔

جی ہاں مذکورہ تین حوادث کے بعد اسلامی معاشرہ میں دو فریق یا دو مخصوص پارٹیاں وجود میں آگئیں، ایک ان میں سے سنتِ نبی(ص) کا سالک اور اس کے نفاذ کا قائل تھا۔ دوسرا سنتِ نبی(ص) کو اپنے اجتہاد سے بدل دیتا تھا ۔ یہ اکثریت والے اس گروہ کا کام تھا جو حکومت تک رسائی چاہتا تھا یا اس میں شرکت کے خواہاں تھے۔ اب ایک پارٹی یعنی علی(ع) اور ان کے شیعہ سنی قرار پائے ۔ اور دوسری پارٹی یعنی ابوبکر و عمر اور دوسرے صحابہ اجتہادی قرار  پائے۔

دوسری پارٹی نے ابوبکر کی قیادت میں پہلی پارٹی کی عظمت و شوکت ختم کرنے میں مہم شروع کی اور اپنے مخالف کو زیر کرنے لے لئے متعدد تدبیریں سوچیں۔

اقتصادی حملہ

برسر اقتدار پارٹی اپنے مخالف گروہ کے رزق و اموال پر حملہ آور ہوتی ہے۔ چنانچہ ابوبکر نے جنابِ فاطمہ زہرا(س) سے فدک چھین لیا۔ ( کتب تواریخ میں فدک کا قصہ اور جناب فاطمہ (س) کا ابوبکر سے ناراض ہونا اور اسی حالت میں دارِ فانی سے کوچ کرنا مشہور ہے۔) اور اسے تمام مسلمانوں کی ملکیت قرار دے دیا۔ اور کہا یہ فدک ٖصرف فاطمہ(س) سے مخصوص نہیں ہے جیسا کہ ان کے والد نے فرمایا ہے۔ ابوبکر نے فاطمہ(س) کو ان والد کی میراث سے محروم کردیا اور کہا ، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا خمس بھی بند کردیا جبکہ رسول(ص) نے خمس اپنے اور اپنے اہل بیت(ع) سے مخصوص کیا تھا کیوں کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔

اس طرح علی(ع) کو اقتصادی لحاظ سے کمزور بنادیا وہ فدک غصب کرلیا کہ جس سے خاصا نفع ہوتا تھا۔ ان کے ابن عم کی میراث سے محروم کردیا۔ خمس بھی بند کردیا۔ چنانچہ علی(ع) ان

۳۷

کی بیوی اور بچے پیٹ بھرنے کو محتاج ہوگئے اور یہ ٹھیک وہی بات ہے جو ابوبکر نے جناب زہرا(س) سے کہی تھی: ہاں خمس میں آپ کا حق ہے لیکن میں اس سلسلہ میں وہی عمل کروںگا، جو رسول(ص) کیا کرتے تھے۔ ہاں آپ(ع) کے روٹی کپڑے کا انظام کیا جائے گا۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ حضرت علی(ع) کا اتباع کرنے والے اور ان کے پیروکار وں میں اکثر غلام تھے جن کے پاس دولت وثروت نام کے کوئی چیز نہ تھی اور حکمران  پارٹی کو بھی ان سے خوف نہیں تھا۔ اور لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ مالدار کی طرف جھکتے ہیں فقیر کو حقیر شمار کرتے ہیں۔

معاشرہ کی نظر وں میں گرانا

حکمران پارٹی نے اپنے حریف علی ابن ابی طالب (ع) کی پارٹی کو کمزور بنانے  کے لئے معاشرہ میں ان کی عظمت کو مخدوش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ابوبکر و عمر نے پہلا اقدام یہ کیا کہ لوگوں کو رسول (ص) کے قرابت داروں کے احترام و تعظیم سے منع کردیا۔

چنانچہ عترت طاہرہ کے سردار و رئیس نبی(ص) کے ابنِ عم علی(ع) کو جو فضیلت خدا نے عطا کی تھی صحابہ بھی اس سے حسد کرتے تھے۔ چہ جائیکہ منافقین ! وہ تو موقع کی تلاش میں تھے ہی۔

نبی(ص) کی امت میں تنہا فاطمہ(س)  آپ(ص) کی یادگار تھیں جن کو خود نبی (ص) نے ام ابیہا اور عالمین کی عورتوں کی سردار کہا تھا۔ لہذا  سارے مسلمان فاطمہ(س) کا احترام کرتے تھے اس لحاظ سےبھی مسلمان انھیں معزز سمجھتے تھے کہ رسول(ص) ان کی تعظیم کرتے تھے اور ان احادیث کے لحاظ سے

۳۸

بھی جو رسول(ص) نے فاطمہ(س) کی فضیلت و شرافت اور طہارت کے بارے میں فرمائی تھیں۔

 لیکن ابوبکر و عمر نے لوگوں کے دلوں سے یہ احترام نکال کر پھینک دیا۔ اب عمر ابن خطاب بے دھڑک خانہ فاطمہ(س) پر آگ اور لکڑیاں لے کر پہونچ گئے اور قسم کھا کر کہا اگر ابوبکر کی بیعت نہیں کروگے تومیں گھر کو رہنے والوں سمیت پھونک دوں گا۔ علی(ع) و عباس اور زبیر جنابِ فاطمہ(س) کے گھر میں تھے کہ ابوبکر نے عمر بن خطاب کو بھیجا کہ ان کو فاطمہ(س) کے گھر سے نکال لاؤ، اگر وہ آنے سے انکار کریں توان سے جھنگ کرو، عمر حکم سنتے ہی آگ لے کر پہونچ گئے، تاکہ گھر  کو اس کے رہنے والوں سمیت جلادیں، فاطمہ زہرا(س) پسِ در آئیں اور کہا خطاب کے بیٹے کیا ہمارے گھر کو آگ  لگانے آئے ہو؟

عمر نے جواب دیا۔ ہاں یا تم بھی وہی کرو جو امت نے کیا ہے (یعنی ابوبکر کی بیعت کرو)(العقد الفرید، ابن المبدربہ ، ج۴)

جب فاطمہ زہرا (س) عالمین کی عورتوں کی سردار، جیسا کہ صحاح اہل سنت میں منقول ہے اور ان کی فرزند حسن(ع) و حسین(ع)   سید ا شباب اہلِ الجنۃ، ریحانہ نبی(ص)  کو بھی وہ حقیر و پست تصور کرتے تھے۔ یہاں تک کہ عمر ابن خطاب  نے لوگوں کے سامنے قسم کھا کر کہا اگر یہ لوگ ابوبکر کی بیعت سے انکار کردیں گے تو میں گھر کے ساتھ ان کو بھی پھونک دوںگا۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کے قلوب میں ان معزز افراد( فاطمہ، حسن، حسین ) کے احترام کا باقی رہنا یا حضرت علی(ع) کی عظمت کا  سمجھنا مشکل تھا۔ پھر یہ کہ لوگ علی(ع) سے پہلے ہی سے بغض رکھتے تھے۔ مزید برآں وہ حزبِ مخالف کے رئیس بھی تھے اور پھر آپ کے پاس مالِ دنیا میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس سے لوگ آپ کی طرف مائل ہوتے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نقل کی ہے کہ:

فاطمہ (س) نے ابوبکر سے  اپنے والد  رسول اللہ (ص) کی اس میراث کا مطالبہ کیا جو خدا نے رسول(ص) کو مدینہ ، فدک اور خیبر کے خمس کی فئ عطا کی تھی، ابوبکر نے میراث دینے سے منع

۳۹

کردیا ، تو فاطمہ(س) ابوبکر سے نارض ہوگئیں اور ان (ابوبکر) سے قطع تعلقی کر لی اور مرتے دم تک کلام نہ کیا، نبی(ص) کے بعد فقط چھ ماہ زندہ رہیں، جب انتقال فرمایا تو آپ(ع) کے شوہر علی(ع) نے رات کی تاریکی میں غٖسل دیا، کفن پہنایا اور دفن کردیا اور ابوبکر کو اس کی اطلاع نہ دی۔

حیاتِ فاطمہ(س) میں تو علی (ع) کی عزت و عظمت تھی۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد لوگوں کے رخ بدل گئے تو علی (ع) نے ابوبکر سے مصالحت کر لی۔ ہاں حیاتِ فاطمہ (س) میں مصالحت نہ کی تھی۔(صحیح بخاری، جلد۵، ص84، باب غزوہ خیبر صحیح مسلم، کتاب الجہاد)حزبِ مخالف علی (ع) کی اقتصادی ناکہ بندی اور مالی حالت بگاڑ کر اور سوشل بائیکاٹ کر کے کامیاب ہوگیا۔ علی (ع) کی حیثیت لوگوں کی نظروں سے ختم ہوگئی۔ اب کوئی قدر ومنزلت نہ تھی۔ خصوصا جنابِ زہرا (س) کی وفات کے بعد تو لوگوں کے رخ بدل گئے تھے۔ چنانچہ آپ (ع) ابوبکر سے مصالحت کرنے پر مجبور ہوگئے جیسا کہ بخاری و مسلم دونوں نے روایت کی ہے۔

بخاری کی عبارت " کہ لوگوں کے رخ بدل گئے تھے" سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول(ص) اور فاطمہ (س) کی وفات کے لوگوں کو علی (ع) سے کتنی دشمنی ہوگئی تھی اور آپ (ع) کتنے سخت ترین حالات سے دوچار تھے۔ شاید بعض صحابہ تو آپ پر سب و شتم بھی کرتے تھے اور مضحکہ اڑاتے تھے۔ کیوں کہ چہرہ پر نفرت کے آثار اسی شخص کو دیکھنے سے نمودار ہوتے ہیں۔ جس سے انسان خوش نہیں ہوتا۔

اس فصل میں ہم بالترتیب علی(ع) کی تاریخ اور مظلومیت کو جیسا پاہتے تھے بیان نہیں کرسکتے ۔ اگر چہ وہ تلخ حقیقت کا اظہار ہے۔ اس علی (ع) کو لوگوں نے نظر انداز کردیا جو سنّتِ نبی(ص) کا علم بردار اور باب علم رسول اللّہ(ص) تھے اور ان کے مدِ مقابل اجتہادی گروہ کو جو کہ سنت نبی(ص) کا انکار کرتا تھا حکومت مل گئ اور اکثر صحابہ نے اسکی تائید کردی۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فی غَیْرِ طاعَةِ اﷲِ فَهُوَ مُبَذِّر

جوشخص اپنی کسی چیز کو اطاعت ِخدا کے سوا کسی اور مقصد میں صرف کرے، وہ مسرف (فضول خرچ) ہےبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۲۔ ص ۳۰۲

یاسر خادم کہتے ہیں: ایک روز امام رضا علیہ السلام کے کچھ غلام پھل کھارہے تھے اور انہیں پوری طرح کھائے بغیر ایک کونے میں پھینکتے جاتے تھےامام ؑنے جب ان کا یہ مسرفانہ عمل دیکھا تو ناراض ہوکر ان سے فرمایا: سبحان اللہ! اگر تمھیں ان پھلوں کی ضرورت نہیں، تو دوسرے انسان ہیں جنہیں ان کی ضرورت ہےتم (آدھے کھائے ہوئے) یہ پھل کیوں دور پھینک رہے ہو؟ انہیں اٹھائو اور ضرورت مندوں کو دے دو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے کھجور کی گٹھلیوں کو پھینکنے سے منع کرتے ہوئے اور مسرفوں (فضول خرچ کرنے والوں) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

برتن کی تہہ میں بچے ہوئے پانی کو بھی نہ پھینکو کہ یہ بھی اسراف (فضول خرچی) ہے۔

(انوار البھیتہ از محدث قمیص ۳۲۹، بحار الانوار ج ۷۱۔ ص۳۴۶)

۶۱

امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا

حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ، جو اسلامی احکام و فرامین پر عمل کے معاملے میں انتہائی سخت گیر تھے اور اس سلسلے میں مثالی حیثیت کے حامل ہیں، آپ تمام باتوں اور خصوصاً اخراجات میں فضول خرچی کے حوالے سے بھی بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے تھےنمونے کے طور پر درج ذیل مثالیں ملاحظہ ہوں:

امام خمینی کے دفتر کے ایک اہل کار نے لکھا ہے: ایک بار مالی امور کے انچارج نے ایک لفافے کی پشت پر کچھ تحریر کرکے امام خمینی کی خدمت میں بھیجاامام نے ایک چھوٹے کاغذ پر اس کا جواب لکھا اور اس کے نیچے تحریر کیا کہ: آپ چاہتے تو اس چھوٹے سے کاغذ پر بھی لکھ سکتے تھےاس واقعے کے بعد وہ صاحب اپنے کاغذوں کو جمع کرکے ایک تھیلی میں رکھ لیتے اور جب امام خمینی کے لیے کوئی چیز لکھنا ہوتی، تو کاغذ کے ان ٹکڑوں پر لکھتے اور امام خمینی بھی اسی کاغذ کے نیچے اس کا جواب تحریر فرما دیتے۔

امام خمینی کی صاحبزادی، خانم زہرا مصطفوی، اپنے بچپنے کی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:امام خمینی کا درس ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوتا تھا، اس موقع پر آپ بیس منٹ میر ے ساتھ کھیلا کرتےپھر ظہر سے دس منٹ پہلے نماز کی تیاری کے لیے آتےامام خمینی کھیل کود کے سامان کی خریداری کے سخت مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ فضول خرچی ہےہم مٹی وغیرہ سے گولیاں بنا کر ان سے کھیلتے، جو کوئی ان گولیوں کا نشانہ لگاتا وہ جیت جاتا تھا۔ بیس منٹ ہم یہی سادہ سا کھیل کھیلتے تھے۔

۶۲

امام خمینی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ:ہر مہینے کے آخرمیں (جماران کے) ماہانہ اخراجات کی تفصیل امام خمینی کی خدمت میں پیش کرنا میری ذمے داری تھیایک روز حسب ِمعمول میں نے اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں ارسال کیاس تفصیل میں امام کے گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع، امام کی رفت وآمد اور بجلی کے اخراجات بھی تحریر تھےحساب بھیجنے کے آدھے گھنٹے بعد، امام خمینی کے فرزند، احمد خمینی نے مجھے فون کرکے بتایاکہ:جب سے آپ نے حساب ارسال کیا ہے، امام مسلسل باغ میں ٹہل رہے ہیں اور سخت ناراض ہیں کیونکہ امام کے گھریلو اخراجات اس ماہ (اس زمانے کے) دس ہزار تومان سے بڑھ گئے ہیں لہٰذا امام فرماتے ہیں کہ اگر میرے گھریلو اخراجات دس ہزار تومان ہوگئے ہیں تو میں یہ جگہ چھوڑ دوں گا۔

احمد خمینی نے مجھ سے کہا:آپ دیکھیے کہ اس مہینے کون سا اضافی خرچہ ہوا ہے، تاکہ میں امام کو بتاکر انہیں اطمینان دلائوں۔

میں نے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تو مجھے تین اضافی خرچے نظر آئے، جو کسی صورت امام کے گھریلو اخراجات میں سے نہ تھے۔

۱جلانے کا تیل، جو امام کے گھر میں زیادہ آگیا تھا اور جسے میں نے حسینیہ جماران کے اسٹور میں ڈلوا دیا تھا۔

۲امام کے گھرانے کی آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی، ڈرائیور کی غفلت سے خراب ہوگئی تھی، جس کی مرمت پر اخراجات آئے تھے۔

۳امام کے گھر پر فائبر کی چھت ڈلوائی گئی تھی تاکہ اوپر سے امام کے گھر کا اندرونی حصہ دکھائی نہ دے کیوں کہ وہاں پاسدار پہرہ دیا کرتے تھے۔

میں نے ان اضافی اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں بھجوائی جس کے بعد وہ مطمئن ہوئے۔

اسی ایک مثال سے ہم یہ بات جان سکتے ہیں کہ امام خمینی گھریلو اخراجات میں فضول خرچی سے کس قدر سخت پرہیز کیا کرتے تھے۔

۶۳

گھرانے کی معاشی ضروریات میں سخت گیری سے پرہیز

خرچ میں اعتدال، جوخدا کے ممتاز اور پسندیدہ بندوں کی ایک خصوصیت ہے، دو حدوں کے درمیان واقع ہےایک حدافراط ہے، جو اسراف اور فضول خرچی کہلاتی ہے، جس کے متعلق ہم نے ابھی گفتگو کی ہےجبکہ اس کی دوسری حد تفریط ہے، جسے سخت گیری یا کنجوسی کہا جاتا ہے۔

اسلام آسان دین ہے، یہ دین ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان اقتصادی طور پر سختی اور دبائو میں زندگی بسر کریںبلکہ وہ چاہتا ہے کہ مرد مسلمان محنت مشقت اور تدبیر کے ذریعے ایک خوشحال اور پرآسائش زندگی کی ضروریات فراہم کرے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح اسراف اور فضول خرچی سے لوگوں کو روکتے تھے، اسی طرح کنجوسی اور اہل و عیال کے لیے نان و نفقے میں تنگی کی بھی ممانعت فرماتے تھےآپؐ کا ارشاد ہے: ان من سعادۃ المراء المسلم ان یشبھہ ولدہ، والمرۃ الجملاء ذات دین، والمرکب الھنی والمسکن الواسع (مسلمان آدمی کی سعادت اور خوش بختی میں سے یہ بھی ہے کہ اسکا ایسا بیٹا ہو جو نیک کاموں میں اس کی شبیہ ہو، اس کی بیوی دیندار اور خوبصورت ہو اوروہ سبک رفتار سواری اور کشادہ گھر کا مالک ہوبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۶۔ ص ۱۴۹) بعض روایات میں پہلے فقرے کی بجائے صالح فرزند کا ذکر ہوا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۶۔ ص۱۵۵)

ابولبابہ، جو یہودیوں کے سامنے حکومت ِاسلامی کا ایک فوجی راز افشا کرکے گناہ میں مبتلا ہوئے تھےجب انہیں اپنے گناہ کا علم ہواتو انہوں نے صدقِ دل سے توبہ کیکچھ مدت بعد ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۲ نازل ہوئیپیغمبر اسلام نے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے، انہیں بشارت دی تو ابولبابہ نے پیغمبر سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ اپنی توبہ قبول ہونے کے شکرانے کے طور پر، میں اپنا آدھا مال راہِ خدا میں خرچ کردوںپیغمبر نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دیانہوں نے عرض کیا: ایک تہائی مال بخشنے کی اجازت دیجئےپیغمبر نے انہیں اس کی اجازت دے دی(بحارالانوار ج ۲۲۔ ص۹۴)

۶۴

آنحضرت نے انہیں راہِ خدا میں آدھا مال خرچ کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ کہیں اس کے نتیجے میں وہ اور ان کا گھرانہ معاشی طور پر تنگی اور سختی میں مبتلا نہ ہوجائے۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ:مدینے کا ایک مسلمان بسترِ مرگ پر تھا، اس کے چند بچے اور چھ غلام تھےاس شخص نے خدا سے اجرو ثواب کے حصول کے لیے، اپنی موت سے پہلے اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کردیئےموت کے بعد مسلمانوں نے اسے غسل و کفن دے کر سپردِ خاک کردیا اور اسکے بعد اسکے غلاموں کو آزاد کرنے کا قصہ اور اب اسکے بچوں کے فقر و تنگدستی کے متعلق آنحضرت کے گوش گزار کیاآنحضرت نے فرمایا: لو علمت مادفنتہ مع اھل الاسلام، ترک ولدہ یتکففون الناس (اگر مجھے پتا ہوتا تو میں اسکا جنازہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیتاکیونکہ اس نے اپنے بچوں کو مال ودولت سے محروم کرکے، انہیں دوسروں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے کے لیے فقیر اور بے آسرا چھوڑ دیا ہےعلل الشرائع ازشیخ صدوق۔ ص ۵۵۸، بحارالانوار۔ ج۱۰۳۔ ص ۱۹۷، ۱۹۸)

یہ قصہ اخراجات میں فضول خرچی کی مذمت کے ساتھ ساتھ، اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ یہ عمل اہلِ خانہ کے سختی اور دبائو میں مبتلا ہوجانے کا موجب نہیںہونا چاہئے۔ بلکہ ہر پہلو میںخرچ میں اعتدال اور میانہ روی کا لحاظ رکھا جائے۔

بصرہ سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ ” عاصم“ پر حضرت علی علیہ السلام کی شدید تنقید کا قصہ بھی، ضروریات زندگی میں سخت گیری اور اقتصادی تنگی کی مذمت پر واضح دلیل ہےعاصم نے معاشرے سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے

۶۵

اہلِ خانہ معاشی تنگی کا شکار ہوگئے تھےیہ قصہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۲۰۷ میں آیا ہے۔(۱)

اس گفتگو کو ہم درجِ ذیل دلچسپ قصے پر ختم کرتے ہیں: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نےاپنے آزاد کردہ ایک غلام کے لیے گھر خریدا، اور اس سے فرمایا کہ: اس گھر میں جائو اور وہاں زندگی بسرکروکیونکہ تمھارا (موجودہ) گھر تنگ اور چھوٹا ہے۔

غلام نے کہا: مولا ! تنگ اور مختصر ہونے کے باوجود میرے لیے یہی گھر کافی  اور اچھا ہے کیونکہ یہ میرے والد کی یادگار ہےلہٰذا میں اسی گھر میں رہوں گا۔

امام ؑنے اس سے فرمایا: ان کان ابوک احمق ینبغی ان تکون مثلہ (اگر تمھارے والد نے غلطی کی تھی تو کیا درست ہوگا کہ تم بھی انہی کی مانند کرو؟ محاسن برقی۔ ص ۶۱۱بحار الانوار۔ ج ۷۶۔ ص ۱۵۳)

--------------

۱:- قصہ کچھ یوں ہے کہ: حضرت علی ؑکے ایک صحابی ” علاء ابن زیادحارثی“ نےامام ؑ سے کہا کہ مجھے اپنے بھائی ” عاصم ابن زیاد“ کی آپ سے شکایت کرنی ہےامام ؑنے فرمایا:کیوں اسے کیا ہوا ہے؟ علاء نے کہا: اس نے ایک چادر اوڑھ لی ہے، اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہےامام ؑنے فرمایا کہ اسے میرے پاس لائوجب عاصم کو لایا گیا تو امام ؑنے اس سے فرمایا:اے اپنی جان کے دشمن! شیطانِ خبیث نے تمھیں بھٹکادیا ہےتمھیں اپنی آل اولاد پر رحم نہیں آتا؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لیے حلال کیاہے اگر تم انہیں کھائو پیو اور استعمال کرو گے تو اسے ناگوار گزرے گاتم اللہ کی نظروں میں اس سے کہیں زیادہ پست ہوکہ وہ تمھارے لیے یہ چاہے۔ اس نے کہا کہ یا امیر المومنینؑ! آپ بھی تو معمولی لباس اور روکھے پھیکے کھانے پرگزارا کرتے ہیں؟ اس پر آپؑ نے فرمایا:تم پر حیف ہے کہ تم اپنا موازنہ میرے ساتھ کررہے ہو، خدا نے ائمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔

۶۶

ہر طرح کے شرک سے پرہیز

سورہ فرقان میںخدا وند رحمٰن کے خاص اور ممتاز بندوں کی چھٹی خصوصیت، ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ:وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ (اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ سورہ فرقان ۲۵آیت ۶۸) یعنی یہ لوگ خالص توحید کی صراطِ مستقیم پر ہیں اور ہر قسم کے شرک اور شرک آلود عبادات سے پرہیز کرتے ہیں۔

تمام انبیائے کرام نے اپنی دعوت کا آغاز، لوگوں کو توحید کی طرف بلانے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیاہےتوحید، آسمانی ادیان کی عظیم الشان عمارت کا سنگ ِبنیاد ہےانبیا کی زیادہ ترجد و جہد مشرکین کے خلاف اور ان کی سرنگونی کے لیے رہی، اور ان مقدس حضرات نے اس راہ میں کٹھن مشکلات کا سامنا کیاانہوں نے اپنی آخری سانس تک شرک اور مشرکین کے خلاف جنگ لڑی، اور ان کا اصل اور حقیقی مقصد توحید کی بنیاد پر ایک انسانی معاشرے کی تشکیل تھا۔

توحید کی مختلف اقسام کی مانند، شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں انبیا، آسمانی کتب اور ائمہ ٔ معصومین نے لوگوں کے سامنے توحید کی تمام اقسام کو واضح کیا ہےاسی طرح انہوں نے شرک کی مختلف شاخوں کی بھی وضاحت کی ہے اور لوگوں سے تقاضا اور مطالبہ کیاہے کہ وہ توحید کے سیدھے راستے پر چلیں، ایک ایسا راستہ جوہر قسم کے شرک سے پاک اور دور ہے۔

اگر چہ انبیا کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگ شرک کی مختلف اقسام سے آلودہ تھے، لیکن اکثر لوگ ” عبادت میںشرک“ کے شکار تھے اور خدائے واحد کی پرستش و عبادت کی بجائے، دوسری اشیا، جیسے طرح طرح کے بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش میں مصروف تھےیہی وجہ ہے کہ انبیا کی اکثر جدوجہد اس قسم کے شرک کے خلاف رہی۔

۶۷

زیر بحث آیت (سورہ فرقان کی آیت ۶۸) میں اگر چہ ہر قسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے لیکن اس میں بھی زیادہ تر ” عبادت میں توحید“ کا مسئلہ پیش نظر ہےکیونکہ عبادت میں خالص اور کامل توحید ہر قسم کے شرک سے پرہیز کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیلہٰذا آیت کہہ رہی ہے کہ: خداوند ِرحمٰن کے خاص بندوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ خالص توحید پرست ہیںکسی بھی صورت میں، بالخصوص عبادت میں، کسی کو خدا کا شریک اور ہمسر نہیں سمجھتےہر قسم کے جلی و خفی شرک اور شرک آلود امور سے اجتناب کرتے ہیںنورِ توحید کی کرنوں سے ان کا قلب منور ہے، اور چشمہ توحید کے خالص اور شفاف پانی نے ان کی روح کو شرک کی غلاظتوں سے پاک کیا ہوا ہےبالفاظِ دیگر، یہ لوگ توحید میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان میںذرّہ برابر بھی شرک نہیں پایاجاتا۔

قرآنِ مجید میں دو سو سے زیادہ مرتبہ، شرک اوربت پرستی کی ممانعت اور غیر توحیدی رجحانات کی نفی اور انکار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےچھتیس مرتبہ” مُشْرِكِيْنَ“ کے لفظ کے ساتھ، مشرکوں کو سرزنش کی گئی ہے اور اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ خداوند ِعالم کا شدید اور سخت عذاب ان کا منتظر ہےمثال کے طور پر سورہ توبہ کے آغاز میں ارشادِ الٰہی ہے:بَرَاءَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ (جن مشرکین سے تم نے عہدوپیمان کیا تھا، اب ان سے خدا اور رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہےسورہ توبہ ۹آیت ۱)

اسی سورے میں ارشاد ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (مشرکین نجس اور ناپاک ہیں، پس مسجد الحرام کے نزدیک نہ آئیںسورہ توبہ۹آیت۲۸)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرٰى اِثْمًا عَظِيْمًا (اور جو بھی اللہ کا شریک بنائے گا، وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہےسورہ نساء ۴آیت ۴۸)

۶۸

نیز فرمانِ الٰہی ہے:وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِيْدًا (اور جوخدا کا شریک قرار دے گا، وہ گمراہی میں بہت دور تک چلاگیا ہےسورہ نساء ۴۔ آیت ۱۱۶)

اسی طرح حضرت لقمان کی زبانی ان کے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (اے بیٹا! خبردار کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہےسورہ لقمان ۳۱آیت ۱۳)

قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مفاہیم و نکات کی وضاحت کے لیے مثالوں سے کام لیا گیا ہےکیونکہ مثال حسی اور قابلِ محسوس امور کے ذریعے عقلی حقائق کی تشبیہ کا نام ہے، جس کے ذریعے بلند عقلی مفاہیم کو سننے والے آسانی اور گہرائی کے ساتھ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس بناپر قرآنِ کریم میں اہم ترین مفاہیم کو (پچاس سے زیادہ) مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہےانہی میں وہ مثالیں بھی شامل ہیں جو شرک اور مشرکین کے بارے میں قرآنِ کریم میں ذکر ہوئی ہیں اور جو شرک کے گناہ اور مشرکین کی نجاست اور آلودگی کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں اس حوالے سے قرآنِ کریم میںذکر ہونے والی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا، ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے طوفان کے دن کی تیزہوا اڑا لے جائے، کہ وہ اپنے حاصل کیے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہ رکھ سکیں گے(سورہ ابراہیم ۱۴۔ آیت ۱۸)

۶۹

بے شک مشرکین کفار ہی میں سے ہیں، لہٰذا ان کے اعمال، حتیٰ ان کے نیک اعمال ایسے کھوکھلے اور بے مغز ہیں جو راکھ کی حیثیت رکھتے ہیں، جسے شدید طوفانی ہوائیں اڑالے جاتی ہیں۔

نتیجے کے طور پر، مشرکین اپنے اعمال اور ان کے نتائج سے محروم رہتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ اور بہت کم اعمال اور ان کے نتائج کو بھی اپنے لیے ذخیرہ آخرت نہیں بناسکتےشرک اور کفر کاشدید طوفان کفار اور مشرکین کے نیک اعمال کو اس طرح بہالے جاتا ہے، جیسے شدید طوفانی ہوائیں، خاک کے ذرّوں کو اڑالے جاتی ہے۔

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَكَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىهُ اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَعَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ

اور اللہ نے ایک اور مثال ان دو (مومن اور مشرک) انسانوں کی بیان کی ہے جن میں سے ایک پیدائشی گونگا ہے اور کسی کام کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آقا کے سرپر ایک بوجھ ہے کہ وہ اسے جس کام کے لیے بھی بھیجتا ہے اسے اچھی طرح انجام نہیں دیتاتو کیا ایسا انسان اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستے پر گامزن ہے(سورہ نحل ۱۶۔ آیت ۷۶)

اس مثال میں خداوند ِعالم مشرکین کو درجِ ذیل پانچ خصلتوں کے حامل افراد قرار دیتا ہے:

۱۔ یہ غلام اور بے اختیار ہیں۔

۲۔ یہ گونگے اور بہرے ہیں۔

۳۔ یہ کسی کام کے قابل نہیں۔

۴۔ یہ اپنے آقا اور مالک کے سرپربوجھ ہیں۔

۵۔ یہ ہر کام میں شکست خوردہ اور ناکام ونامراد رہتے ہیں۔

۷۰

لیکن مومنین، جو ہر طرح کے شرک سے دور رہتے ہیں، ان میں نہ صرف مذکورہ ناپسندیدہ صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔

لہٰذا کیا مومن اور مشرک برابر ہوسکتے ہیں؟

بے شک یہ برابر نہیں ہوسکتے۔

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ

اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کرو، کہ جو کسی کوخدا کا شریک بناتاہے وہ گویا آسمان سے گرپڑتا ہے اور اسے پرندہ اچک لیتا ہے، یا اسے ہوا کسی دور دراز مقام پر لے جاکے پھینک دیتی ہے(سورہ حج ۲۲آیت ۳۱)

اس مثال میں انتہائی وضاحت کے ساتھ مشرکین کی بے چارگی اور ان کے وحشت ناک زوال و نابودی کا ذکر کیا گیا ہےمشرکین اس قدر بے چارے ہیں کہ پہلے تو انہیں ان کے شرک کی وجہ سے آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جاتا ہے اور پھر وہ درمیان میں لاش خور پرندوںکی غذا بنتے ہیں اور اس کے بعد اگر ان پرندوں کے ہاتھوں سے بچ جاتے ہیں تو ہولناک طوفان کا شکار بنتے ہیں اور آخر کار یہ طوفان انہیں ایک ایسی جگہ زمین پر پٹخ دیتاہے جہاں کوئی ان کا مونس و مدد گار اور نجات دہندہ نہیں ہوتااس موقع پر ان کا بدن چورہ چورہ ہوجاتا ہے اور اس کا ذرّہ ذرّہ بکھرکے رہ جاتا ہے۔

ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ آسمانِ توحید سے جدا ہوکر شرک کی ہولناک گھاٹی میں جاپڑے ہیں، اور بے رحم شیطان کے طوفان نے انہیں اچک کر دور دراز مقام پر اٹھا پھینکا ہے اور انہیں بکھیر کے رکھ دیا ہے۔

۷۱

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

اور جن لوگوں نے خدا کوچھوڑ کردوسرے سرپرست بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا ہے، لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے، اگر ان لوگوں کے پاس علم و ادراک ہو۔  (سورہ عنکبوت۲۹۔ آیت۴۱)

سب جانتے ہیں کہ مکڑی کا گھر انتہائی نازک اور کمزور ہوتاہے۔ نہ اس میں درودیوار ہوتے ہیں، نہ کھڑکی اور چھتاسے انتہائی نازک اور باریک تاروں سے بنایا گیا ہوتاہےلہٰذا جوں ہی ہلکی سی بھی ہوا چلے، اس کے تاروپود بکھرکے رہ جاتے ہیں۔

اسے ملیا میٹ کردینے کے لیے بارش کے چند قطرے ہی کافی  ہوتے ہیں۔

آگ کا معمولی سا شعلہ بھی اسے نابود کردینے کے لیے بہت ہوتاہے۔

جھاڑو کا ہلکا سا اشارہ ہی اسے زیرو زبر کردیتا ہے، اس میں بقا کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی، اپنی بقا کے لیے سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔

خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں مشرکین کے مسکن کو مکڑی کے کمزور گھر سے تشبیہ دی ہے، جس کی کمزوری اور بے وقعتی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

مذکورہ بالا چار مثالوں میں، انتہائی وضاحت کے ساتھ، شرک کے بد صورت باطن اور مشرکین کی کمزوری اور ضعف کو ہمارے لیے بیان کیا گیا ہےیہ مثالیں صاف وصریح الفاظ میں ہم سے کہتی ہیں کہ طاغوت اور باطل معبود خواہ ظاہراً دلکش اور دلربا نظر آتے ہوں لیکن اندر سے خالی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔

۷۲

یہ نہ صرف کسی بھی طرح نجات دہندہ نہیں ہوسکتے بلکہ کمال و ارتقاکی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال کر اسے بے سہارا چھوڑدیتے ہیںمکڑی کے گھر کے کمزور تار انسانوں کو کبھی بھی گمراہی کے ہولناک گڑھے سے نہیں نکال سکتے، صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مشرکین کی زندگی ایسی ہی ہوگی بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہو گیقرآنِ کریم کہتا ہے:

لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد کردیئے جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوجائے گا۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۶۵

۷۳

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو

اگر کوئی انسان شرک سے بچنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شرک کی تمام اقسام سے واقف ہولہٰذا ہمار ے لیے ضروری ہے کہ ہم شرک اور توحید کی تمام علامات اور اقسام سے باخبر ہوں، تاکہ ہر قسم کے شرک سے مکمل طورپر دور رہ سکیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ:اِنَّ بَنی اُمَیَّةَ اَطلقُوا اللنّاسِ تعلیمَ الایمانِ وَلَم یُطلقوا تَعلیمَ الشِّرکِ، لکَنی اِذَاحَمَلو هُم عَلَیهِ لَمْ یَعْرِ فُوه (بنی امیہ نے لوگوں کو ایمان کی تعلیم کے لیے آزاد چھوڑا لیکن انہیں(وسیع معنی میں)شرک کے متعلق جاننے کی آزادی نہیں دی۔ تاکہ جب وہ انہیں شرک کی طرف لے جانا چاہیں تو لوگ جان نہ سکیںاصولِ کافی ۔ ج۔ ۲۔ ص۴۱۵، ۴۱۶)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی امیہ لوگوں کو شرک کے وسیع معنی جاننے کی آزادی فراہم کرتے، تو لوگ جان لیتے کہ خداوند ِعالم کے فرمان کو چھوڑ کر غاصب حکمرانوں کی اطاعت و پیروی بھی شرک کی ایک قسم ہےاس طرح نتیجے کے طور پر یہ علم انہیں ظالم خلفا کی اطاعت سے باز رکھتا۔

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا: وہ کم سے کم چیز کیا ہے جس کے ارتکاب سے انسان مشرک ہوجاتا ہے؟ امام ؑنے جواب دیا:مَنْ قَالَ للنَّواةِ اِنّها حَصاةً وَلِلْحَصاةِ اِنّها نَواةٌ ثُمَّ دانَ بِهِ (جوکوئی گٹھلی کو کہے کہ کنکر ہے اور کنکر کو کہے کہ گٹھلی ہے اور پھر اسی کو اپنا دین اور عقیدہ بنالےاصولِ کافی  ج ۲۔ ص ۴۱۵، ۴۱۶)

۷۴

عارف اور محقق عالم ” فیض کاشانی“ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: اگر کوئی اپنے دل سے اس بات کا معتقد ہوجائے اور اسی کو اپنا دین بنالے، تو وہ مشرک ہےاس کا سبب یہ ہے کہ اس شخص کا یہ عمل اس کی نفسانی خواہش کا نتیجہ ہےاور یہ عقیدہ رکھنے والا شخص اگر چہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی نفسانی خواہش کی اطاعت بھی کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر اس نے (اپنی خواہش کو) اطاعت میں خدا کا شریک قرار دیا ہوا ہے۔

اصولِ کافی (مترجمہ فارسی)۔ ج ۴۔ ص ۱۱۳)

دوسری طرف رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:مَن اصغی الی ناطق فَقد عبدهُ، فانْ کانَ النّاطِقُ عنِ الله عزّو جلَ فَقَدْ عَبَدالله، واِن کانَ النّاطقُ عَنْ ابلیسَ، فَقَدْ عبدَابلیسَ (ایسا شخص جو کسی خطیب کی بات (اس کی گفتگو کی سچائی پر عقیدے کے ساتھ) سنے، اس نے اس خطیب کی عبادت کی ہےپس اگر وہ خطیب خدا کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے خدا کی عبادت کی ہے، اور اگر وہ شیطان کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے شیطان کی پرستش کی ہےبحارالانوار۔ ج۲۶۔ ص ۲۳۹)

اس قسم کی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شرک انتہائی وسیع معنی کا حامل مفہوم ہےمومنِ کامل اور خالص توحید پرست شخص وہ ہے جو شرک کے تمام پہلوئوں سے باخبر ہو، اور ان سے اجتناب کرتا ہو، وگرنہ وہ بھی غیر شعوری طور پر شرک کی وادی میں اتر جائے گا۔

اس حوالے سے ایک دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ معصومین کی روایت کے مطابق شرک کی دو قسمیں ہیں: ایک شرک ِجلی (یعنی آشکار، کھلا اور ظاہر شرک) اور دوسری شرک ِخفی (یعنی چھپا ہوا اور نہاں شرک)

بت پرستی اور ایک سے زیادہ معبودوں کی پرستش وغیرہ شرک ِجلی میں سے ہیں جبکہ عبادت و اطاعت ِالٰہی میں خودنمائی اور ریاکاری شرک ِخفی میں سے ہیں۔

۷۵

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشادہے:شرک، اون سے بنے سیاہ لباس پر، تاریک رات میں چیونٹی کے رینگنے سے زیادہ خفیہ اور پوشیدہ ہوتاہےاسکی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان خدا سے طلب ِحاجت کے لیے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو گھمائے۔

نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے: شرک، سیاہ رات میں، سیاہ ٹاٹ پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے، جیسے یہ کہ انسان خدا کے علاوہ کسی اور کے لیے نماز پڑھے، یا قربانی دے یا اس سے دعا مانگے۔ (بحارالانوار۔ ج۷۲۔ ص۹۶)

لہٰذا عبادت اور اطاعت ِالٰہی میں ہر قسم کی ریاکاری اور خود نمائی، شرک کی ایک قسم ہے۔

کیونکہ توحید اور صحیح عبادت و پرستش کی شرائط میں سے ایک شرط اخلاص ہےاسی بنیاد پر اولیا اللہ اور خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے اس بات کی طرف سے انتہائی ہوشیار، محتاط اور چوکس رہا کرتے تھے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں میں اخلاص کی حدوں سے باہر نہ نکلنے پائیں اور خدانخواستہ کہیں شرک کے کسی غیر محسوس پہلو کا شکار نہ ہوجائیں۔

نقل کرتے ہیں کہ جب امام خمینی علیہ الرحمہ نجف ِاشرف میں ہواکرتے تھے، تو بعض طلبا نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ آپ کا عمامہ اور داڑھی چھوٹی ہے، ایک مرجع تقلید کے شایانِ شان نہیں۔  امام خمینی نے ان کے جواب میں فرمایا: ان سے کہو کہ میں ابھی مشرک نہیں ہوا ہوں۔

یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خودنمائی کی غرض سے عمامہ اور داڑھی کا بڑا کرنا بھی، شرک کی ایک قسم ہے۔ (برداشتھائی از سیرت ِامام خمینی۔ ج۱ص ۳۲۴، پابہ پائے آفتاب۔ ج ۴۔ ص۴۸)

شرک کا دامن اس قدر وسیع و عریض ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بقول: اگر کوئی مومن تمام عبادات انجام دے لیکن ایک چیز جسے خدایا اسکے رسول نے معین کیا ہے اس کے بارے میں کہے کہ: کیوں (خدا نے) اس کے برخلاف چیز معین نہیں کی، یا اس کے باطن میں ایسی حالت پیدا ہوجائے تو ایسا شخص بغیر زبانی اظہار کے شرک میں گرفتار ہوگیا ہے(اصولِ کافی ۔ ج۲۔ ص۳۹۸)

۷۶

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے: اگر کوئی کہے کہ: اگر فلاں (شخص) نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا مجھے نقصان اٹھانا پڑتا، یا میں اپنی مراد حاصل نہ کرپاتا اور اسی طرح کی دوسری باتیں کرے، تو ایسے شخص نے مالکیت اور رازقیت میں (اس فلاں شخص کو) خدا کا شریک قرار دیا ہےپس اگر ایسے مواقع پروہ یہ کہے کہ: اگر خداوند ِعالم فلاں شخص کو میری مدد کے لیے نہ بھیجتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا اپنا مقصود حاصل نہ کرپاتا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے(بحارالانوار ج ۷۲۔ ص ۱۰۰)

نیز روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایسا مومن جو ایک مالدار کے یہاں جائے، اور اس کی دولت کی خاطر اسے سلام کرے، اور اسکے سامنے انکساری اور عاجزی کا مظاہرہ کرے، تو وہ اپنے دو تہائی دین سے محروم ہوجاتا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۳۔ ص۱۶۹)

ہم اس موضوع پر گفتگو کومختصر کرتے ہوئے اسے توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں کے ذکر پر ختم کررہے ہیں۔

اسلامی فلاسفہ اور علمائےعلمِ کلام کہتے ہیں کہ: توحید کی متعدد شاخیں ہیںجیسے توحید ِذات، توحید ِصفات، توحید ِعبادی، توحید ِافعالی جومختلف اقسام پر مشتمل ہے، جیسے خالقیت میں توحید، ربوبیت میں توحید، مالکیت میں توحید، تکوینی وتشریعی حاکمیت میں توحیداسی طرح توحید کی ضد یعنی شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں اور ان میں سے کسی ایک قسم میں بھی کسی کا گرفتار ہوجانا، اس انسان کو مشرک بنانے کے لیے کافی  ہےلہٰذا شرک بھی وسیع معنی رکھتا ہے۔

خدا اپنے ممتاز اور خاص بندوں میں ایک صفت یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ شرک کے تمام پہلوئوں اور اس کی تمام اقسام سے باخبر ہوں اور ہر قسم کے شرک سے دور رہیں تاکہ وہ فکر، عقیدے اور عمل میں توحید کی پاک وپاکیزہ راہ پر گامزن ہوسکیں۔ یقیناً اگر تمام پہلوئوں میں ان کی توحید درست ہوجائے تو وہ ہر میدان میں اسکے خوبصورت معنوی آثار کا مشاہدہ کریں گے اور مطلوبہ نتائج حاصل کریں گے۔

۷۷

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی

اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی کے بارے میں چند احادیث کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

شریح بن ہانی سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا:جنگ ِجمل کے دوران، ایک عرب امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور کہا: اے امیر الومنین! کیا آپ خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں؟ وہاں موجود جو لوگ اس شخص کی یہ بات سن رہے تھے انہوں نے اس پر چڑھائی کردی اور کہا: اے بدو! کیا تجھے نظر نہیں آرہا کہ اس وقت امیر المومنین کا ذہن دوسرے مسائل کی جانب متوجہ ہے (ہر بات کا ایک وقت ہواکرتا ہے کیا یہ اس قسم کے سوالات کا موقع ہے؟ )

یہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے ان لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا:دَعوُهُ فَانَّ الّذی یُریدهُ الاعرابیّ هُوَالّذی نُریدُهُ مِنَ القوم (اسے کچھ نہ کہو، یہ بدو جس چیز کے بارے میں ہم سے سوال کررہا ہے وہ وہی چیز ہے جو ہم اس دشمن جماعت سے چاہتے ہیں (اور اسکی خاطر ان کے خلاف مصروف ِجنگ ہیں)۔

پھر آپ ؑنے فرمایا: اےاعرابی! ہم جو یہ کہتے ہیں کہ خداواحد ہے، تو اس کے چار معنی ہیں، ان میں سے دو معنی خدا کے بارے میں روانہیں ہیں اور دو معنی (اسکے بارے میں) ثابت و مسلم ہیں۔ جو دو معنی روانہیں(وہ درجِ ذیل ہیں)

۷۸

۱:- کوئی شخص کہے کہ خدا واحد ہے اور اسکا مقصد ” واحد ِعددی“ ہوکیونکہ جس چیز کا دوسرا نہیں ہوتا وہ اعداد کی فہرست میں نہیں آتی اور اسکے بارے میں ایک اور دو نہیں کہا جاسکتا۔

۲:- اور اسی طرح اگر کوئی کہے کہ خدا واحد ہے اور اس کی مراد جنس میں سے واحد ِنوعی ہوتو یہ بھی درست نہیںکیونکہ اسکا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا کی شبیہ موجودہے۔

اب رہے توحید کے وہ دو معنی جو خدا کے لیے روا اور ثابت ہیں، تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ یکتا ہےلہٰذا اسکی کوئی شبیہ اور مثل موجود نہیں۔ دوسرے یہ کہ: وہ” احدی المعنی“ ہے۔ یعنی اسکی ذات ناقابلِ تقسیم ہے، نہ خارجی وجود میں، نہ ہی عقل میں اور نہ وہم و تصور میں (بلکہ اسکی ذات بسیط ِمعنی ہے)۔ (بحارالانوار۔ ج۳۔ ص۲۶)

رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی ابن مسعود سے فرمایا:ایّاکَ اَنْ تُشْرِکَ بِاللهِ طَرفَةَ عَیْنٍ، واِنْ نُشِرْتَ بِالمِنشارِ اَوْ قُطِّعْتَ اَوْصُلِبْتَ اَوْاُحْرِقْتَ بالنّارِ (پلک جھپکنے کے عرصے کے لیے بھی خدا کا شریک قرار دینے سے پرہیز کرو۔ چاہے تمہیں آرے سے چیر کے رکھ دیا جائے، یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا آگ میں جلادیا جائےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۰۷)

۷۹

انسانی قتل اور ایذارسانی سے اجتناب

قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے خاص اور ممتاز بندوں کی ساتویں صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ (اور وہ کسی بھی نفس کو، جسے خدا نے محترم قرار دیا ہے، ناحق قتل نہیں کرتےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۸)

کسی انسان کا ناحق خون بہانا بڑے اور خطرناک گناہوں میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ قدیم زمانے ہی سے انسان اس گناہ میں مبتلا رہا ہے، اور اس نے بکثرت انسانوں کو برباد کیا ہےحضرت آدم علیہ السلام کا ایک بیٹا ” قابیل“ تاقیامِ قیامت لعنت ملامت کا مستحق رہے گا کیونکہ اس نے اپنے بھائی ” ہابیل“ کو قتل کرکے اس گناہ کی ابتدا کی۔

انسانی قتل اس قدر گھنائو نا اور ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے کہ جب خداوند ِعالم نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت اور اپنے خلیفہ اور نمائندے کی حیثیت سے فرشتوں کے سامنے ان کے تعارف کا فیصلہ کیا، تو ملائکہ نے عرض کیا: پروردگار! کیا زمین پر اسے بھیجے گا جووہاں فساد اور خونریزی برپا کرے گا؟ اس پر خدا وند ِعالم نے فرشتوں کو حضرت آدم کے مثبت پہلوئوں (یعنی علم ومعرفت) سے روشناس کرایایہ جاننے کے بعد فرشتوں نے اللہ سے معذرت طلب کی۔ (سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۳۰ تا۳۲کا خلاصہ)

انسانی قتل انتہائی بڑا گناہ ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیںخداوند ِعالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ:

وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُه جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَه وَاَعَدَّ لَه عَذَابًا عَظِيْمًا

اور جو بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اسکی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اُس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا اُس پر لعنت بھی کرتا ہے، اور اُس کے لیے سخت عذاب بھی تیار کررکھاہےسورہ نساء ۴۔ آیت۹۳)

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177