عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف22%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92438 / ڈاؤنلوڈ: 6218
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فی غَیْرِ طاعَةِ اﷲِ فَهُوَ مُبَذِّر

جوشخص اپنی کسی چیز کو اطاعت ِخدا کے سوا کسی اور مقصد میں صرف کرے، وہ مسرف (فضول خرچ) ہےبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۲۔ ص ۳۰۲

یاسر خادم کہتے ہیں: ایک روز امام رضا علیہ السلام کے کچھ غلام پھل کھارہے تھے اور انہیں پوری طرح کھائے بغیر ایک کونے میں پھینکتے جاتے تھےامام ؑنے جب ان کا یہ مسرفانہ عمل دیکھا تو ناراض ہوکر ان سے فرمایا: سبحان اللہ! اگر تمھیں ان پھلوں کی ضرورت نہیں، تو دوسرے انسان ہیں جنہیں ان کی ضرورت ہےتم (آدھے کھائے ہوئے) یہ پھل کیوں دور پھینک رہے ہو؟ انہیں اٹھائو اور ضرورت مندوں کو دے دو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے کھجور کی گٹھلیوں کو پھینکنے سے منع کرتے ہوئے اور مسرفوں (فضول خرچ کرنے والوں) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

برتن کی تہہ میں بچے ہوئے پانی کو بھی نہ پھینکو کہ یہ بھی اسراف (فضول خرچی) ہے۔

(انوار البھیتہ از محدث قمیص ۳۲۹، بحار الانوار ج ۷۱۔ ص۳۴۶)

۶۱

امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا

حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ، جو اسلامی احکام و فرامین پر عمل کے معاملے میں انتہائی سخت گیر تھے اور اس سلسلے میں مثالی حیثیت کے حامل ہیں، آپ تمام باتوں اور خصوصاً اخراجات میں فضول خرچی کے حوالے سے بھی بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے تھےنمونے کے طور پر درج ذیل مثالیں ملاحظہ ہوں:

امام خمینی کے دفتر کے ایک اہل کار نے لکھا ہے: ایک بار مالی امور کے انچارج نے ایک لفافے کی پشت پر کچھ تحریر کرکے امام خمینی کی خدمت میں بھیجاامام نے ایک چھوٹے کاغذ پر اس کا جواب لکھا اور اس کے نیچے تحریر کیا کہ: آپ چاہتے تو اس چھوٹے سے کاغذ پر بھی لکھ سکتے تھےاس واقعے کے بعد وہ صاحب اپنے کاغذوں کو جمع کرکے ایک تھیلی میں رکھ لیتے اور جب امام خمینی کے لیے کوئی چیز لکھنا ہوتی، تو کاغذ کے ان ٹکڑوں پر لکھتے اور امام خمینی بھی اسی کاغذ کے نیچے اس کا جواب تحریر فرما دیتے۔

امام خمینی کی صاحبزادی، خانم زہرا مصطفوی، اپنے بچپنے کی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:امام خمینی کا درس ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوتا تھا، اس موقع پر آپ بیس منٹ میر ے ساتھ کھیلا کرتےپھر ظہر سے دس منٹ پہلے نماز کی تیاری کے لیے آتےامام خمینی کھیل کود کے سامان کی خریداری کے سخت مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ فضول خرچی ہےہم مٹی وغیرہ سے گولیاں بنا کر ان سے کھیلتے، جو کوئی ان گولیوں کا نشانہ لگاتا وہ جیت جاتا تھا۔ بیس منٹ ہم یہی سادہ سا کھیل کھیلتے تھے۔

۶۲

امام خمینی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ:ہر مہینے کے آخرمیں (جماران کے) ماہانہ اخراجات کی تفصیل امام خمینی کی خدمت میں پیش کرنا میری ذمے داری تھیایک روز حسب ِمعمول میں نے اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں ارسال کیاس تفصیل میں امام کے گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع، امام کی رفت وآمد اور بجلی کے اخراجات بھی تحریر تھےحساب بھیجنے کے آدھے گھنٹے بعد، امام خمینی کے فرزند، احمد خمینی نے مجھے فون کرکے بتایاکہ:جب سے آپ نے حساب ارسال کیا ہے، امام مسلسل باغ میں ٹہل رہے ہیں اور سخت ناراض ہیں کیونکہ امام کے گھریلو اخراجات اس ماہ (اس زمانے کے) دس ہزار تومان سے بڑھ گئے ہیں لہٰذا امام فرماتے ہیں کہ اگر میرے گھریلو اخراجات دس ہزار تومان ہوگئے ہیں تو میں یہ جگہ چھوڑ دوں گا۔

احمد خمینی نے مجھ سے کہا:آپ دیکھیے کہ اس مہینے کون سا اضافی خرچہ ہوا ہے، تاکہ میں امام کو بتاکر انہیں اطمینان دلائوں۔

میں نے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تو مجھے تین اضافی خرچے نظر آئے، جو کسی صورت امام کے گھریلو اخراجات میں سے نہ تھے۔

۱جلانے کا تیل، جو امام کے گھر میں زیادہ آگیا تھا اور جسے میں نے حسینیہ جماران کے اسٹور میں ڈلوا دیا تھا۔

۲امام کے گھرانے کی آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی، ڈرائیور کی غفلت سے خراب ہوگئی تھی، جس کی مرمت پر اخراجات آئے تھے۔

۳امام کے گھر پر فائبر کی چھت ڈلوائی گئی تھی تاکہ اوپر سے امام کے گھر کا اندرونی حصہ دکھائی نہ دے کیوں کہ وہاں پاسدار پہرہ دیا کرتے تھے۔

میں نے ان اضافی اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں بھجوائی جس کے بعد وہ مطمئن ہوئے۔

اسی ایک مثال سے ہم یہ بات جان سکتے ہیں کہ امام خمینی گھریلو اخراجات میں فضول خرچی سے کس قدر سخت پرہیز کیا کرتے تھے۔

۶۳

گھرانے کی معاشی ضروریات میں سخت گیری سے پرہیز

خرچ میں اعتدال، جوخدا کے ممتاز اور پسندیدہ بندوں کی ایک خصوصیت ہے، دو حدوں کے درمیان واقع ہےایک حدافراط ہے، جو اسراف اور فضول خرچی کہلاتی ہے، جس کے متعلق ہم نے ابھی گفتگو کی ہےجبکہ اس کی دوسری حد تفریط ہے، جسے سخت گیری یا کنجوسی کہا جاتا ہے۔

اسلام آسان دین ہے، یہ دین ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان اقتصادی طور پر سختی اور دبائو میں زندگی بسر کریںبلکہ وہ چاہتا ہے کہ مرد مسلمان محنت مشقت اور تدبیر کے ذریعے ایک خوشحال اور پرآسائش زندگی کی ضروریات فراہم کرے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح اسراف اور فضول خرچی سے لوگوں کو روکتے تھے، اسی طرح کنجوسی اور اہل و عیال کے لیے نان و نفقے میں تنگی کی بھی ممانعت فرماتے تھےآپؐ کا ارشاد ہے: ان من سعادۃ المراء المسلم ان یشبھہ ولدہ، والمرۃ الجملاء ذات دین، والمرکب الھنی والمسکن الواسع (مسلمان آدمی کی سعادت اور خوش بختی میں سے یہ بھی ہے کہ اسکا ایسا بیٹا ہو جو نیک کاموں میں اس کی شبیہ ہو، اس کی بیوی دیندار اور خوبصورت ہو اوروہ سبک رفتار سواری اور کشادہ گھر کا مالک ہوبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۶۔ ص ۱۴۹) بعض روایات میں پہلے فقرے کی بجائے صالح فرزند کا ذکر ہوا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۶۔ ص۱۵۵)

ابولبابہ، جو یہودیوں کے سامنے حکومت ِاسلامی کا ایک فوجی راز افشا کرکے گناہ میں مبتلا ہوئے تھےجب انہیں اپنے گناہ کا علم ہواتو انہوں نے صدقِ دل سے توبہ کیکچھ مدت بعد ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۲ نازل ہوئیپیغمبر اسلام نے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے، انہیں بشارت دی تو ابولبابہ نے پیغمبر سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ اپنی توبہ قبول ہونے کے شکرانے کے طور پر، میں اپنا آدھا مال راہِ خدا میں خرچ کردوںپیغمبر نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دیانہوں نے عرض کیا: ایک تہائی مال بخشنے کی اجازت دیجئےپیغمبر نے انہیں اس کی اجازت دے دی(بحارالانوار ج ۲۲۔ ص۹۴)

۶۴

آنحضرت نے انہیں راہِ خدا میں آدھا مال خرچ کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ کہیں اس کے نتیجے میں وہ اور ان کا گھرانہ معاشی طور پر تنگی اور سختی میں مبتلا نہ ہوجائے۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ:مدینے کا ایک مسلمان بسترِ مرگ پر تھا، اس کے چند بچے اور چھ غلام تھےاس شخص نے خدا سے اجرو ثواب کے حصول کے لیے، اپنی موت سے پہلے اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کردیئےموت کے بعد مسلمانوں نے اسے غسل و کفن دے کر سپردِ خاک کردیا اور اسکے بعد اسکے غلاموں کو آزاد کرنے کا قصہ اور اب اسکے بچوں کے فقر و تنگدستی کے متعلق آنحضرت کے گوش گزار کیاآنحضرت نے فرمایا: لو علمت مادفنتہ مع اھل الاسلام، ترک ولدہ یتکففون الناس (اگر مجھے پتا ہوتا تو میں اسکا جنازہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیتاکیونکہ اس نے اپنے بچوں کو مال ودولت سے محروم کرکے، انہیں دوسروں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے کے لیے فقیر اور بے آسرا چھوڑ دیا ہےعلل الشرائع ازشیخ صدوق۔ ص ۵۵۸، بحارالانوار۔ ج۱۰۳۔ ص ۱۹۷، ۱۹۸)

یہ قصہ اخراجات میں فضول خرچی کی مذمت کے ساتھ ساتھ، اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ یہ عمل اہلِ خانہ کے سختی اور دبائو میں مبتلا ہوجانے کا موجب نہیںہونا چاہئے۔ بلکہ ہر پہلو میںخرچ میں اعتدال اور میانہ روی کا لحاظ رکھا جائے۔

بصرہ سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ ” عاصم“ پر حضرت علی علیہ السلام کی شدید تنقید کا قصہ بھی، ضروریات زندگی میں سخت گیری اور اقتصادی تنگی کی مذمت پر واضح دلیل ہےعاصم نے معاشرے سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے

۶۵

اہلِ خانہ معاشی تنگی کا شکار ہوگئے تھےیہ قصہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۲۰۷ میں آیا ہے۔(۱)

اس گفتگو کو ہم درجِ ذیل دلچسپ قصے پر ختم کرتے ہیں: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نےاپنے آزاد کردہ ایک غلام کے لیے گھر خریدا، اور اس سے فرمایا کہ: اس گھر میں جائو اور وہاں زندگی بسرکروکیونکہ تمھارا (موجودہ) گھر تنگ اور چھوٹا ہے۔

غلام نے کہا: مولا ! تنگ اور مختصر ہونے کے باوجود میرے لیے یہی گھر کافی  اور اچھا ہے کیونکہ یہ میرے والد کی یادگار ہےلہٰذا میں اسی گھر میں رہوں گا۔

امام ؑنے اس سے فرمایا: ان کان ابوک احمق ینبغی ان تکون مثلہ (اگر تمھارے والد نے غلطی کی تھی تو کیا درست ہوگا کہ تم بھی انہی کی مانند کرو؟ محاسن برقی۔ ص ۶۱۱بحار الانوار۔ ج ۷۶۔ ص ۱۵۳)

--------------

۱:- قصہ کچھ یوں ہے کہ: حضرت علی ؑکے ایک صحابی ” علاء ابن زیادحارثی“ نےامام ؑ سے کہا کہ مجھے اپنے بھائی ” عاصم ابن زیاد“ کی آپ سے شکایت کرنی ہےامام ؑنے فرمایا:کیوں اسے کیا ہوا ہے؟ علاء نے کہا: اس نے ایک چادر اوڑھ لی ہے، اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہےامام ؑنے فرمایا کہ اسے میرے پاس لائوجب عاصم کو لایا گیا تو امام ؑنے اس سے فرمایا:اے اپنی جان کے دشمن! شیطانِ خبیث نے تمھیں بھٹکادیا ہےتمھیں اپنی آل اولاد پر رحم نہیں آتا؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لیے حلال کیاہے اگر تم انہیں کھائو پیو اور استعمال کرو گے تو اسے ناگوار گزرے گاتم اللہ کی نظروں میں اس سے کہیں زیادہ پست ہوکہ وہ تمھارے لیے یہ چاہے۔ اس نے کہا کہ یا امیر المومنینؑ! آپ بھی تو معمولی لباس اور روکھے پھیکے کھانے پرگزارا کرتے ہیں؟ اس پر آپؑ نے فرمایا:تم پر حیف ہے کہ تم اپنا موازنہ میرے ساتھ کررہے ہو، خدا نے ائمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔

۶۶

ہر طرح کے شرک سے پرہیز

سورہ فرقان میںخدا وند رحمٰن کے خاص اور ممتاز بندوں کی چھٹی خصوصیت، ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ:وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ (اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ سورہ فرقان ۲۵آیت ۶۸) یعنی یہ لوگ خالص توحید کی صراطِ مستقیم پر ہیں اور ہر قسم کے شرک اور شرک آلود عبادات سے پرہیز کرتے ہیں۔

تمام انبیائے کرام نے اپنی دعوت کا آغاز، لوگوں کو توحید کی طرف بلانے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیاہےتوحید، آسمانی ادیان کی عظیم الشان عمارت کا سنگ ِبنیاد ہےانبیا کی زیادہ ترجد و جہد مشرکین کے خلاف اور ان کی سرنگونی کے لیے رہی، اور ان مقدس حضرات نے اس راہ میں کٹھن مشکلات کا سامنا کیاانہوں نے اپنی آخری سانس تک شرک اور مشرکین کے خلاف جنگ لڑی، اور ان کا اصل اور حقیقی مقصد توحید کی بنیاد پر ایک انسانی معاشرے کی تشکیل تھا۔

توحید کی مختلف اقسام کی مانند، شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں انبیا، آسمانی کتب اور ائمہ ٔ معصومین نے لوگوں کے سامنے توحید کی تمام اقسام کو واضح کیا ہےاسی طرح انہوں نے شرک کی مختلف شاخوں کی بھی وضاحت کی ہے اور لوگوں سے تقاضا اور مطالبہ کیاہے کہ وہ توحید کے سیدھے راستے پر چلیں، ایک ایسا راستہ جوہر قسم کے شرک سے پاک اور دور ہے۔

اگر چہ انبیا کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگ شرک کی مختلف اقسام سے آلودہ تھے، لیکن اکثر لوگ ” عبادت میںشرک“ کے شکار تھے اور خدائے واحد کی پرستش و عبادت کی بجائے، دوسری اشیا، جیسے طرح طرح کے بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش میں مصروف تھےیہی وجہ ہے کہ انبیا کی اکثر جدوجہد اس قسم کے شرک کے خلاف رہی۔

۶۷

زیر بحث آیت (سورہ فرقان کی آیت ۶۸) میں اگر چہ ہر قسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے لیکن اس میں بھی زیادہ تر ” عبادت میں توحید“ کا مسئلہ پیش نظر ہےکیونکہ عبادت میں خالص اور کامل توحید ہر قسم کے شرک سے پرہیز کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیلہٰذا آیت کہہ رہی ہے کہ: خداوند ِرحمٰن کے خاص بندوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ خالص توحید پرست ہیںکسی بھی صورت میں، بالخصوص عبادت میں، کسی کو خدا کا شریک اور ہمسر نہیں سمجھتےہر قسم کے جلی و خفی شرک اور شرک آلود امور سے اجتناب کرتے ہیںنورِ توحید کی کرنوں سے ان کا قلب منور ہے، اور چشمہ توحید کے خالص اور شفاف پانی نے ان کی روح کو شرک کی غلاظتوں سے پاک کیا ہوا ہےبالفاظِ دیگر، یہ لوگ توحید میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان میںذرّہ برابر بھی شرک نہیں پایاجاتا۔

قرآنِ مجید میں دو سو سے زیادہ مرتبہ، شرک اوربت پرستی کی ممانعت اور غیر توحیدی رجحانات کی نفی اور انکار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےچھتیس مرتبہ” مُشْرِكِيْنَ“ کے لفظ کے ساتھ، مشرکوں کو سرزنش کی گئی ہے اور اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ خداوند ِعالم کا شدید اور سخت عذاب ان کا منتظر ہےمثال کے طور پر سورہ توبہ کے آغاز میں ارشادِ الٰہی ہے:بَرَاءَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ (جن مشرکین سے تم نے عہدوپیمان کیا تھا، اب ان سے خدا اور رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہےسورہ توبہ ۹آیت ۱)

اسی سورے میں ارشاد ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (مشرکین نجس اور ناپاک ہیں، پس مسجد الحرام کے نزدیک نہ آئیںسورہ توبہ۹آیت۲۸)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرٰى اِثْمًا عَظِيْمًا (اور جو بھی اللہ کا شریک بنائے گا، وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہےسورہ نساء ۴آیت ۴۸)

۶۸

نیز فرمانِ الٰہی ہے:وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِيْدًا (اور جوخدا کا شریک قرار دے گا، وہ گمراہی میں بہت دور تک چلاگیا ہےسورہ نساء ۴۔ آیت ۱۱۶)

اسی طرح حضرت لقمان کی زبانی ان کے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (اے بیٹا! خبردار کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہےسورہ لقمان ۳۱آیت ۱۳)

قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مفاہیم و نکات کی وضاحت کے لیے مثالوں سے کام لیا گیا ہےکیونکہ مثال حسی اور قابلِ محسوس امور کے ذریعے عقلی حقائق کی تشبیہ کا نام ہے، جس کے ذریعے بلند عقلی مفاہیم کو سننے والے آسانی اور گہرائی کے ساتھ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس بناپر قرآنِ کریم میں اہم ترین مفاہیم کو (پچاس سے زیادہ) مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہےانہی میں وہ مثالیں بھی شامل ہیں جو شرک اور مشرکین کے بارے میں قرآنِ کریم میں ذکر ہوئی ہیں اور جو شرک کے گناہ اور مشرکین کی نجاست اور آلودگی کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں اس حوالے سے قرآنِ کریم میںذکر ہونے والی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا، ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے طوفان کے دن کی تیزہوا اڑا لے جائے، کہ وہ اپنے حاصل کیے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہ رکھ سکیں گے(سورہ ابراہیم ۱۴۔ آیت ۱۸)

۶۹

بے شک مشرکین کفار ہی میں سے ہیں، لہٰذا ان کے اعمال، حتیٰ ان کے نیک اعمال ایسے کھوکھلے اور بے مغز ہیں جو راکھ کی حیثیت رکھتے ہیں، جسے شدید طوفانی ہوائیں اڑالے جاتی ہیں۔

نتیجے کے طور پر، مشرکین اپنے اعمال اور ان کے نتائج سے محروم رہتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ اور بہت کم اعمال اور ان کے نتائج کو بھی اپنے لیے ذخیرہ آخرت نہیں بناسکتےشرک اور کفر کاشدید طوفان کفار اور مشرکین کے نیک اعمال کو اس طرح بہالے جاتا ہے، جیسے شدید طوفانی ہوائیں، خاک کے ذرّوں کو اڑالے جاتی ہے۔

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَكَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىهُ اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَعَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ

اور اللہ نے ایک اور مثال ان دو (مومن اور مشرک) انسانوں کی بیان کی ہے جن میں سے ایک پیدائشی گونگا ہے اور کسی کام کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آقا کے سرپر ایک بوجھ ہے کہ وہ اسے جس کام کے لیے بھی بھیجتا ہے اسے اچھی طرح انجام نہیں دیتاتو کیا ایسا انسان اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستے پر گامزن ہے(سورہ نحل ۱۶۔ آیت ۷۶)

اس مثال میں خداوند ِعالم مشرکین کو درجِ ذیل پانچ خصلتوں کے حامل افراد قرار دیتا ہے:

۱۔ یہ غلام اور بے اختیار ہیں۔

۲۔ یہ گونگے اور بہرے ہیں۔

۳۔ یہ کسی کام کے قابل نہیں۔

۴۔ یہ اپنے آقا اور مالک کے سرپربوجھ ہیں۔

۵۔ یہ ہر کام میں شکست خوردہ اور ناکام ونامراد رہتے ہیں۔

۷۰

لیکن مومنین، جو ہر طرح کے شرک سے دور رہتے ہیں، ان میں نہ صرف مذکورہ ناپسندیدہ صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔

لہٰذا کیا مومن اور مشرک برابر ہوسکتے ہیں؟

بے شک یہ برابر نہیں ہوسکتے۔

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ

اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کرو، کہ جو کسی کوخدا کا شریک بناتاہے وہ گویا آسمان سے گرپڑتا ہے اور اسے پرندہ اچک لیتا ہے، یا اسے ہوا کسی دور دراز مقام پر لے جاکے پھینک دیتی ہے(سورہ حج ۲۲آیت ۳۱)

اس مثال میں انتہائی وضاحت کے ساتھ مشرکین کی بے چارگی اور ان کے وحشت ناک زوال و نابودی کا ذکر کیا گیا ہےمشرکین اس قدر بے چارے ہیں کہ پہلے تو انہیں ان کے شرک کی وجہ سے آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جاتا ہے اور پھر وہ درمیان میں لاش خور پرندوںکی غذا بنتے ہیں اور اس کے بعد اگر ان پرندوں کے ہاتھوں سے بچ جاتے ہیں تو ہولناک طوفان کا شکار بنتے ہیں اور آخر کار یہ طوفان انہیں ایک ایسی جگہ زمین پر پٹخ دیتاہے جہاں کوئی ان کا مونس و مدد گار اور نجات دہندہ نہیں ہوتااس موقع پر ان کا بدن چورہ چورہ ہوجاتا ہے اور اس کا ذرّہ ذرّہ بکھرکے رہ جاتا ہے۔

ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ آسمانِ توحید سے جدا ہوکر شرک کی ہولناک گھاٹی میں جاپڑے ہیں، اور بے رحم شیطان کے طوفان نے انہیں اچک کر دور دراز مقام پر اٹھا پھینکا ہے اور انہیں بکھیر کے رکھ دیا ہے۔

۷۱

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

اور جن لوگوں نے خدا کوچھوڑ کردوسرے سرپرست بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا ہے، لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے، اگر ان لوگوں کے پاس علم و ادراک ہو۔  (سورہ عنکبوت۲۹۔ آیت۴۱)

سب جانتے ہیں کہ مکڑی کا گھر انتہائی نازک اور کمزور ہوتاہے۔ نہ اس میں درودیوار ہوتے ہیں، نہ کھڑکی اور چھتاسے انتہائی نازک اور باریک تاروں سے بنایا گیا ہوتاہےلہٰذا جوں ہی ہلکی سی بھی ہوا چلے، اس کے تاروپود بکھرکے رہ جاتے ہیں۔

اسے ملیا میٹ کردینے کے لیے بارش کے چند قطرے ہی کافی  ہوتے ہیں۔

آگ کا معمولی سا شعلہ بھی اسے نابود کردینے کے لیے بہت ہوتاہے۔

جھاڑو کا ہلکا سا اشارہ ہی اسے زیرو زبر کردیتا ہے، اس میں بقا کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی، اپنی بقا کے لیے سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔

خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں مشرکین کے مسکن کو مکڑی کے کمزور گھر سے تشبیہ دی ہے، جس کی کمزوری اور بے وقعتی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

مذکورہ بالا چار مثالوں میں، انتہائی وضاحت کے ساتھ، شرک کے بد صورت باطن اور مشرکین کی کمزوری اور ضعف کو ہمارے لیے بیان کیا گیا ہےیہ مثالیں صاف وصریح الفاظ میں ہم سے کہتی ہیں کہ طاغوت اور باطل معبود خواہ ظاہراً دلکش اور دلربا نظر آتے ہوں لیکن اندر سے خالی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔

۷۲

یہ نہ صرف کسی بھی طرح نجات دہندہ نہیں ہوسکتے بلکہ کمال و ارتقاکی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال کر اسے بے سہارا چھوڑدیتے ہیںمکڑی کے گھر کے کمزور تار انسانوں کو کبھی بھی گمراہی کے ہولناک گڑھے سے نہیں نکال سکتے، صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مشرکین کی زندگی ایسی ہی ہوگی بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہو گیقرآنِ کریم کہتا ہے:

لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد کردیئے جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوجائے گا۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۶۵

۷۳

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو

اگر کوئی انسان شرک سے بچنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شرک کی تمام اقسام سے واقف ہولہٰذا ہمار ے لیے ضروری ہے کہ ہم شرک اور توحید کی تمام علامات اور اقسام سے باخبر ہوں، تاکہ ہر قسم کے شرک سے مکمل طورپر دور رہ سکیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ:اِنَّ بَنی اُمَیَّةَ اَطلقُوا اللنّاسِ تعلیمَ الایمانِ وَلَم یُطلقوا تَعلیمَ الشِّرکِ، لکَنی اِذَاحَمَلو هُم عَلَیهِ لَمْ یَعْرِ فُوه (بنی امیہ نے لوگوں کو ایمان کی تعلیم کے لیے آزاد چھوڑا لیکن انہیں(وسیع معنی میں)شرک کے متعلق جاننے کی آزادی نہیں دی۔ تاکہ جب وہ انہیں شرک کی طرف لے جانا چاہیں تو لوگ جان نہ سکیںاصولِ کافی ۔ ج۔ ۲۔ ص۴۱۵، ۴۱۶)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی امیہ لوگوں کو شرک کے وسیع معنی جاننے کی آزادی فراہم کرتے، تو لوگ جان لیتے کہ خداوند ِعالم کے فرمان کو چھوڑ کر غاصب حکمرانوں کی اطاعت و پیروی بھی شرک کی ایک قسم ہےاس طرح نتیجے کے طور پر یہ علم انہیں ظالم خلفا کی اطاعت سے باز رکھتا۔

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا: وہ کم سے کم چیز کیا ہے جس کے ارتکاب سے انسان مشرک ہوجاتا ہے؟ امام ؑنے جواب دیا:مَنْ قَالَ للنَّواةِ اِنّها حَصاةً وَلِلْحَصاةِ اِنّها نَواةٌ ثُمَّ دانَ بِهِ (جوکوئی گٹھلی کو کہے کہ کنکر ہے اور کنکر کو کہے کہ گٹھلی ہے اور پھر اسی کو اپنا دین اور عقیدہ بنالےاصولِ کافی  ج ۲۔ ص ۴۱۵، ۴۱۶)

۷۴

عارف اور محقق عالم ” فیض کاشانی“ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: اگر کوئی اپنے دل سے اس بات کا معتقد ہوجائے اور اسی کو اپنا دین بنالے، تو وہ مشرک ہےاس کا سبب یہ ہے کہ اس شخص کا یہ عمل اس کی نفسانی خواہش کا نتیجہ ہےاور یہ عقیدہ رکھنے والا شخص اگر چہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی نفسانی خواہش کی اطاعت بھی کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر اس نے (اپنی خواہش کو) اطاعت میں خدا کا شریک قرار دیا ہوا ہے۔

اصولِ کافی (مترجمہ فارسی)۔ ج ۴۔ ص ۱۱۳)

دوسری طرف رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:مَن اصغی الی ناطق فَقد عبدهُ، فانْ کانَ النّاطِقُ عنِ الله عزّو جلَ فَقَدْ عَبَدالله، واِن کانَ النّاطقُ عَنْ ابلیسَ، فَقَدْ عبدَابلیسَ (ایسا شخص جو کسی خطیب کی بات (اس کی گفتگو کی سچائی پر عقیدے کے ساتھ) سنے، اس نے اس خطیب کی عبادت کی ہےپس اگر وہ خطیب خدا کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے خدا کی عبادت کی ہے، اور اگر وہ شیطان کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے شیطان کی پرستش کی ہےبحارالانوار۔ ج۲۶۔ ص ۲۳۹)

اس قسم کی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شرک انتہائی وسیع معنی کا حامل مفہوم ہےمومنِ کامل اور خالص توحید پرست شخص وہ ہے جو شرک کے تمام پہلوئوں سے باخبر ہو، اور ان سے اجتناب کرتا ہو، وگرنہ وہ بھی غیر شعوری طور پر شرک کی وادی میں اتر جائے گا۔

اس حوالے سے ایک دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ معصومین کی روایت کے مطابق شرک کی دو قسمیں ہیں: ایک شرک ِجلی (یعنی آشکار، کھلا اور ظاہر شرک) اور دوسری شرک ِخفی (یعنی چھپا ہوا اور نہاں شرک)

بت پرستی اور ایک سے زیادہ معبودوں کی پرستش وغیرہ شرک ِجلی میں سے ہیں جبکہ عبادت و اطاعت ِالٰہی میں خودنمائی اور ریاکاری شرک ِخفی میں سے ہیں۔

۷۵

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشادہے:شرک، اون سے بنے سیاہ لباس پر، تاریک رات میں چیونٹی کے رینگنے سے زیادہ خفیہ اور پوشیدہ ہوتاہےاسکی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان خدا سے طلب ِحاجت کے لیے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو گھمائے۔

نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے: شرک، سیاہ رات میں، سیاہ ٹاٹ پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے، جیسے یہ کہ انسان خدا کے علاوہ کسی اور کے لیے نماز پڑھے، یا قربانی دے یا اس سے دعا مانگے۔ (بحارالانوار۔ ج۷۲۔ ص۹۶)

لہٰذا عبادت اور اطاعت ِالٰہی میں ہر قسم کی ریاکاری اور خود نمائی، شرک کی ایک قسم ہے۔

کیونکہ توحید اور صحیح عبادت و پرستش کی شرائط میں سے ایک شرط اخلاص ہےاسی بنیاد پر اولیا اللہ اور خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے اس بات کی طرف سے انتہائی ہوشیار، محتاط اور چوکس رہا کرتے تھے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں میں اخلاص کی حدوں سے باہر نہ نکلنے پائیں اور خدانخواستہ کہیں شرک کے کسی غیر محسوس پہلو کا شکار نہ ہوجائیں۔

نقل کرتے ہیں کہ جب امام خمینی علیہ الرحمہ نجف ِاشرف میں ہواکرتے تھے، تو بعض طلبا نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ آپ کا عمامہ اور داڑھی چھوٹی ہے، ایک مرجع تقلید کے شایانِ شان نہیں۔  امام خمینی نے ان کے جواب میں فرمایا: ان سے کہو کہ میں ابھی مشرک نہیں ہوا ہوں۔

یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خودنمائی کی غرض سے عمامہ اور داڑھی کا بڑا کرنا بھی، شرک کی ایک قسم ہے۔ (برداشتھائی از سیرت ِامام خمینی۔ ج۱ص ۳۲۴، پابہ پائے آفتاب۔ ج ۴۔ ص۴۸)

شرک کا دامن اس قدر وسیع و عریض ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بقول: اگر کوئی مومن تمام عبادات انجام دے لیکن ایک چیز جسے خدایا اسکے رسول نے معین کیا ہے اس کے بارے میں کہے کہ: کیوں (خدا نے) اس کے برخلاف چیز معین نہیں کی، یا اس کے باطن میں ایسی حالت پیدا ہوجائے تو ایسا شخص بغیر زبانی اظہار کے شرک میں گرفتار ہوگیا ہے(اصولِ کافی ۔ ج۲۔ ص۳۹۸)

۷۶

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے: اگر کوئی کہے کہ: اگر فلاں (شخص) نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا مجھے نقصان اٹھانا پڑتا، یا میں اپنی مراد حاصل نہ کرپاتا اور اسی طرح کی دوسری باتیں کرے، تو ایسے شخص نے مالکیت اور رازقیت میں (اس فلاں شخص کو) خدا کا شریک قرار دیا ہےپس اگر ایسے مواقع پروہ یہ کہے کہ: اگر خداوند ِعالم فلاں شخص کو میری مدد کے لیے نہ بھیجتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا اپنا مقصود حاصل نہ کرپاتا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے(بحارالانوار ج ۷۲۔ ص ۱۰۰)

نیز روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایسا مومن جو ایک مالدار کے یہاں جائے، اور اس کی دولت کی خاطر اسے سلام کرے، اور اسکے سامنے انکساری اور عاجزی کا مظاہرہ کرے، تو وہ اپنے دو تہائی دین سے محروم ہوجاتا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۳۔ ص۱۶۹)

ہم اس موضوع پر گفتگو کومختصر کرتے ہوئے اسے توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں کے ذکر پر ختم کررہے ہیں۔

اسلامی فلاسفہ اور علمائےعلمِ کلام کہتے ہیں کہ: توحید کی متعدد شاخیں ہیںجیسے توحید ِذات، توحید ِصفات، توحید ِعبادی، توحید ِافعالی جومختلف اقسام پر مشتمل ہے، جیسے خالقیت میں توحید، ربوبیت میں توحید، مالکیت میں توحید، تکوینی وتشریعی حاکمیت میں توحیداسی طرح توحید کی ضد یعنی شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں اور ان میں سے کسی ایک قسم میں بھی کسی کا گرفتار ہوجانا، اس انسان کو مشرک بنانے کے لیے کافی  ہےلہٰذا شرک بھی وسیع معنی رکھتا ہے۔

خدا اپنے ممتاز اور خاص بندوں میں ایک صفت یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ شرک کے تمام پہلوئوں اور اس کی تمام اقسام سے باخبر ہوں اور ہر قسم کے شرک سے دور رہیں تاکہ وہ فکر، عقیدے اور عمل میں توحید کی پاک وپاکیزہ راہ پر گامزن ہوسکیں۔ یقیناً اگر تمام پہلوئوں میں ان کی توحید درست ہوجائے تو وہ ہر میدان میں اسکے خوبصورت معنوی آثار کا مشاہدہ کریں گے اور مطلوبہ نتائج حاصل کریں گے۔

۷۷

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی

اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی کے بارے میں چند احادیث کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

شریح بن ہانی سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا:جنگ ِجمل کے دوران، ایک عرب امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور کہا: اے امیر الومنین! کیا آپ خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں؟ وہاں موجود جو لوگ اس شخص کی یہ بات سن رہے تھے انہوں نے اس پر چڑھائی کردی اور کہا: اے بدو! کیا تجھے نظر نہیں آرہا کہ اس وقت امیر المومنین کا ذہن دوسرے مسائل کی جانب متوجہ ہے (ہر بات کا ایک وقت ہواکرتا ہے کیا یہ اس قسم کے سوالات کا موقع ہے؟ )

یہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے ان لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا:دَعوُهُ فَانَّ الّذی یُریدهُ الاعرابیّ هُوَالّذی نُریدُهُ مِنَ القوم (اسے کچھ نہ کہو، یہ بدو جس چیز کے بارے میں ہم سے سوال کررہا ہے وہ وہی چیز ہے جو ہم اس دشمن جماعت سے چاہتے ہیں (اور اسکی خاطر ان کے خلاف مصروف ِجنگ ہیں)۔

پھر آپ ؑنے فرمایا: اےاعرابی! ہم جو یہ کہتے ہیں کہ خداواحد ہے، تو اس کے چار معنی ہیں، ان میں سے دو معنی خدا کے بارے میں روانہیں ہیں اور دو معنی (اسکے بارے میں) ثابت و مسلم ہیں۔ جو دو معنی روانہیں(وہ درجِ ذیل ہیں)

۷۸

۱:- کوئی شخص کہے کہ خدا واحد ہے اور اسکا مقصد ” واحد ِعددی“ ہوکیونکہ جس چیز کا دوسرا نہیں ہوتا وہ اعداد کی فہرست میں نہیں آتی اور اسکے بارے میں ایک اور دو نہیں کہا جاسکتا۔

۲:- اور اسی طرح اگر کوئی کہے کہ خدا واحد ہے اور اس کی مراد جنس میں سے واحد ِنوعی ہوتو یہ بھی درست نہیںکیونکہ اسکا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا کی شبیہ موجودہے۔

اب رہے توحید کے وہ دو معنی جو خدا کے لیے روا اور ثابت ہیں، تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ یکتا ہےلہٰذا اسکی کوئی شبیہ اور مثل موجود نہیں۔ دوسرے یہ کہ: وہ” احدی المعنی“ ہے۔ یعنی اسکی ذات ناقابلِ تقسیم ہے، نہ خارجی وجود میں، نہ ہی عقل میں اور نہ وہم و تصور میں (بلکہ اسکی ذات بسیط ِمعنی ہے)۔ (بحارالانوار۔ ج۳۔ ص۲۶)

رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی ابن مسعود سے فرمایا:ایّاکَ اَنْ تُشْرِکَ بِاللهِ طَرفَةَ عَیْنٍ، واِنْ نُشِرْتَ بِالمِنشارِ اَوْ قُطِّعْتَ اَوْصُلِبْتَ اَوْاُحْرِقْتَ بالنّارِ (پلک جھپکنے کے عرصے کے لیے بھی خدا کا شریک قرار دینے سے پرہیز کرو۔ چاہے تمہیں آرے سے چیر کے رکھ دیا جائے، یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا آگ میں جلادیا جائےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۰۷)

۷۹

انسانی قتل اور ایذارسانی سے اجتناب

قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے خاص اور ممتاز بندوں کی ساتویں صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ (اور وہ کسی بھی نفس کو، جسے خدا نے محترم قرار دیا ہے، ناحق قتل نہیں کرتےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۸)

کسی انسان کا ناحق خون بہانا بڑے اور خطرناک گناہوں میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ قدیم زمانے ہی سے انسان اس گناہ میں مبتلا رہا ہے، اور اس نے بکثرت انسانوں کو برباد کیا ہےحضرت آدم علیہ السلام کا ایک بیٹا ” قابیل“ تاقیامِ قیامت لعنت ملامت کا مستحق رہے گا کیونکہ اس نے اپنے بھائی ” ہابیل“ کو قتل کرکے اس گناہ کی ابتدا کی۔

انسانی قتل اس قدر گھنائو نا اور ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے کہ جب خداوند ِعالم نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت اور اپنے خلیفہ اور نمائندے کی حیثیت سے فرشتوں کے سامنے ان کے تعارف کا فیصلہ کیا، تو ملائکہ نے عرض کیا: پروردگار! کیا زمین پر اسے بھیجے گا جووہاں فساد اور خونریزی برپا کرے گا؟ اس پر خدا وند ِعالم نے فرشتوں کو حضرت آدم کے مثبت پہلوئوں (یعنی علم ومعرفت) سے روشناس کرایایہ جاننے کے بعد فرشتوں نے اللہ سے معذرت طلب کی۔ (سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۳۰ تا۳۲کا خلاصہ)

انسانی قتل انتہائی بڑا گناہ ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیںخداوند ِعالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ:

وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُه جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَه وَاَعَدَّ لَه عَذَابًا عَظِيْمًا

اور جو بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اسکی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اُس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا اُس پر لعنت بھی کرتا ہے، اور اُس کے لیے سخت عذاب بھی تیار کررکھاہےسورہ نساء ۴۔ آیت۹۳)

۸۰

اس آیت میں قاتل کے لیے چار سخت سزائوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کاٹھکانہ دوزخ رہے گا، دوسرا یہ کہ وہ خدا کے غضب اور ناراضگی کا نشانہ بنے گا، تیسرا یہ کہ اس پر خدا کی لعنت پڑے گی اور چوتھا یہ کہ اسے خدا کے سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا

جس شخص نے کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے، یاروئے زمین پر فساد کی سزا کے علاوہ قتل کیا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا ہےسورہ مائدہ۵آیت ۳۲

اسلام نے قاتل کی دنیاوی سزایہ مقرر کی ہے کہ قصاص کے طور پر خود اسے بھی سولی پر چڑھا دیا جائےالبتہ اگر مقتول کے ورثاء اسے معاف کردیں، اور اسکے عوض دِیَت وصول کرلیں، یادیت بھی معاف کردیں تو وہ اس سزا سے بچ سکتا ہےلیکن اس کے باوجود قتل کے سخت گناہ سے اسے چھٹکارا نہیں مل سکے گا۔

کبھی کبھی ورثاء کا معاف کردینا بھی بے سود رہتا ہے اور قاتل کو لازماً سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہےایسا اس وقت ہوتا ہے جب وہ شخص شرپسندوں میں سے ہو اور سرد یا گرم اسلحہ کے زور پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا اور معاشرے کے امن و امان کو خطرے میں ڈالتا ہوایسے فرد کو ” محارب اور مفسدفی الارض“ کہا گیا ہے اور حکومت ِاسلامی اسے موت کی سزادیتی ہےاس بارے میں قرآنِ کریم میں ہے کہ:

۸۱

اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْ يُصَلَّبُوْا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ

بس خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کی یہی سزا ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھادیا جائے، یاان کے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں ارضِ وطن سے نکال باہر کیاجائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں سخت عذاب ہےسورہ مائدہ ۵۔ آیت۳۳

اس آیت کے ذریعے بھی انسانی قتل کے گناہ کی شدت واضح ہوتی ہے، جوسخت سزائوں کا موجب اور دنیا و آخرت کی ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔

انسان کے قاتلوں کے لیے قصاص اوردیت کی شدید سزائیں

معاشرے میںامن و امان ایک اہم ترین نعمت ہے جس کے زیر سایہ ایک صحت مند اور آئیڈیل معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہےاس کے برعکس امن وامان کا فقدان فتنہ و فساد، برائیوں اور طرح طرح کی آفات کا باعث ہےلہٰذا اسلام نے محکم اور سخت قوانین بناکر معاشرے کے مختلف شعبوں میں امن وامان کے تحفظ کی کوشش کی ہےپہلے مرحلے میں اسلام نے جان کی سلامتی پرزور دیا ہے اور امن وامان درہم برہم کرنے والوں کے لیے (اُخروی عذاب کے علاوہ) دنیوی سزائیں بھی تجویز کی ہیں۔ مثلاً قصاص کا قانون مقرر کیا ہے، جس پر اگر واقعی عمل ہو، تو انسانی قتل اور اُنہیں ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی روک تھام کی جاسکتی ہےقصاص اور حدودو دیات کا نفاذ معاشرے میں ایک پُرسکون اور سالم و صحت مند زندگی کی ضمانت فراہم کرے گاجیسا کہ قرآنِ مجید کہتا ہے کہ:

۸۲

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

صاحبانِ عقل تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، شاید تم اس طرح متقی بن جائو۔ سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۷۹

یعنی قصاص، انفرادی طور پر کسی سے انتقام لینے کانام نہیں، بلکہ یہ قانون آسودہ زندگی اور معاشرتی امن و سکون کا ضامن ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانوں کے قاتل سے قصاص نہ لیا جائے ایک مردہ معاشرہ ہےجس طرح علمِ طب، ذراعت اور ڈیری فارمنگ میں مویشیوں کی نگہداشت کے دوران خطرناک جراثیم کوختم کرنا ایک علمی اصول ہے، اسی طرح معاشرتی و سماجی علم میں جرائم پیشہ اور انسانوں کو قتل اور انہیں نقصان پہنچانے والے افراد کا قلع قمع کرنا ایک عقلی اور منطقی امر ہے۔

قصاص کا قانون عدل و انصاف کا ضامن اور زندگی وسکون کا باعث ہےاور معاشرے سے اضطراب، کشیدگی اور بے چینی کے خاتمے میں ایک موثر کردار کا حامل ہےیہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں قصاص کو تقویٰ کا موجب قرار دیا ہےیعنی قصاص، قتل وغارت گری کی روک تھام اور انسانوں کی جان و مال، عزت وآبرو کو نقصان سے بچانے کا باعث ہوتا ہےاس مقام پر یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ فرد اور معاشرے کا تقابل کیا جائے، تو معاشرے کو فرد پر تقدم اور فوقیت حاصل ہے۔

قتل کے علاوہ، انسانی بدن کو نقصان پہنچانے کا بھی قصاص ہےاگر کوئی کسی انسان کے ناک، کان، آنکھ، دانت، مختصر یہ ہے کہ اسکے بدن کے کسی بھی عضو کو نقصان پہنچائے، تو جسے نقصان پہنچاہے، اسے قانونی طور پر حق حاصل ہے کہ جس قدر اسے نقصان پہنچا ہے، اسی قدر نقصان پہنچانے والے سے اس کا قصاص لےاس بارے میں سورہ مائدہ کی ایک آیت ہے کہ:

۸۳

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ

اور ہم نے اس میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کابدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گاسورہ مائدہ ۵۔ آیت ۴۵

قانونِ قصاص، جسے اسلام نے انتہائی تفصیل اور جزیات کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ قانون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانی جان کو بہت زیادہ احترام حاصل ہے اور اس نے قانونِ قصاص مقرر کرکے چاہاہے کہ انسانی جان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ سکے۔

پس قانونِ قصاص، قانون حدودو دیات ہے جو خود اپنی جگہ سہواًاور بھول چوک سے بھی انسانوں کی جان اور معاشرتی امن و سکوں کی حفاظت کا ایک طاقت ور عامل ہے۔

سہواً اور غلطی سے سرزدہونے والا ہر گناہ، توبہ کے ذریعے معاف ہوجاتا ہےلیکن اگر کوئی بھولے سے اورنادانستگی میں کسی انسان کو قتل کردے، یا انسانی بدن کے کسی عضو کو نقصان پہنچابیٹھے، تو اسکی دیت ہے اور یہ حقوق العباد میں سے ہے جنہیں ادا کیے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔

دیت کے مسائل نہایت تفصیلی ہیں، جنہیں بیان کرنے کی اس مختصر مقالے میں گنجائش نہیں لیکن ہم یہاں مثال کے طور پر چند مسائل کا ذکر کرکے اسلام کی نظر میں انسانی جان کے احترام کی اہمیت جان سکتے ہیں۔ مثلاً چند چیزیں ایسی ہیں جن کی دیت اتنی ہی ہے جتنی ایک انسان کو قتل کرنے کی دیت ہوتی ہے۔

۸۴

مکمل دیت ایک ہزار مثقال سونا، یا سواونٹ یا دوسوگائیں ہےاگر کوئی کسی مسلمان کے کان پر مارے اور اسکی وجہ سے وہ شخص بہرا ہوجائے، تو مارنے والے کو مکمل دیت کی آدھی دیت ادا کرنی چاہیے اور اگر کسی کے دونوں کانوں پر مارے اور دونوں کو بہرا کردے، تو اسے مکمل دیت ادا کرنی چاہیے۔

حدیہ ہے کہ اگر والدین یا اساتذہ اپنے بچے یا شاگرد کو اس قدر زدوکوب کریںکہ ان پر اسکی دیت واجب ہوجائے، تو یہ سخت گناہ ہے۔

اگر کوئی کسی دوسرے کے منھ پر تمانچہ مارے، اور اس کے نتیجے میں تمانچہ کھانے والے کا چہرہ سرخ ہوجائے، تو مارنے والے پر ڈیڑھ مثقال سونا، یااسکی قیمت کے برابردیت کی ادائیگی واجب ہوگیاگر اس کا چہرہ نیلا پڑ جائے، تو تین مثقال اور اگر سیاہ پڑ جائے، تو چھ مثقال یا اسکی برابر قیمت اسکی دیت ہےاور اگر چہرے کے سوا جسم کے کسی اور حصے پر مارے، جس کی وجہ سے وہ حصہ سرخ، نیلا یا سیاہ پڑجائے، توچہرے کے بارے میں جس دیت کو بیان کیا گیا ہے مارنے والے پر اس کی نصف دیت ادا کرنا اور اس شخص کو راضی کرنا ضروری ہوگا۔

اسلام، انسان کو اس قدر احترام دیتا ہے کہ اگر انسان منعقدشدہ نطفے کی صورت میں بھی ہو، تو اسے ساقط کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

بچہ جس مرحلے میں بھی سقط کیا جائے، اسلام نے اسکی مناسبت سے دیت کا تعین کیا ہےفقہائے عظام فرماتے ہیں کہ: اگر انسان کوئی ایسا عمل انجام دے، جس کی وجہ سے حاملہ عورت کا بچہ ساقطہ (ضائع) ہوجائے، تو اگر سقط ہونے والا بچہ ابھی صرف نطفہ تھا، تو اس کی دیت بیس مثقال سکہ دار سونا ہے اور اگر علقہ (یعنی منجمد خون) ہو، تو اسکی دیت چالیس مثقال اور اگر مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں) ہو، تواسکی دیت ساٹھ مثقال اور اگر وہ ہڈیاں بننے کے مرحلے تک پہنچ گیا ہو، تو اسکی دیت اسّی مثقال اور اگر اس پر گوشت چڑھ گیا ہو، تو سو مثقال اور اگر اس میں روح آ چکی ہو، تو اگر وہ لڑکا ہو، تو اسکی دیت ہزار مثقال اور اگر لڑکی ہو، تو اسکی دیت پانچ سو مثقال ہوگی۔

۸۵

فقہایہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی حاملہ عورت کو قتل کردے، تو اسے عورت اور اس بچے کی دیت بھی دینا پڑے گی جو اس عورت کے شکم میں تھااگر اس عورت کے شکم میں دویادو سے زیادہ بچے ہوں، تو اسی مناسبت سے ساقط کرنے والے پر ان کی دیت واجب ہوگیلیکن اگر حاملہ عورت خود ہی بچے کو سقط کرے، تو اسے بچے کے ورثاء کو اسکی دیت ادا کرنی چاہیے اور اس دیت میں خود اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر دیت کے ساتھ ساتھ کفارہ جمع بھی واجب ہےیعنی اسے چاہیے کہ ایک غلام آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل دو ماہ روزے بھی رکھے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا بھی کھلائےاور اگر چند لوگوں نے مل کر کسی ایک شخص کو قتل کیا ہو، تو ان سب پر کفارہ واجب ہے(تحریر الوسیلہ۔ ج۲۔ ص۵۹۷، ۵۹۸اور۶۰۶)

ان سخت احکام میں سے ہر حکم، انسانی قتل اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے کے گناہ کی سنگینی کو واضح کرتا ہےلہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس عمل سے شدت کے ساتھ پرہیز کریںکیونکہ ان ظاہری سزائوں کا مستوجب بننے اور دنیوی رسوائی کا مستحق قرار پانے کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں معنوی رسوائی بھی ان کا مقدر بنے گی۔ مکافات ِعمل میں قتل کی مکافات بھی شامل ہے، جو بہت جلد قاتل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہےمناسب ہوگا کہ اس حوالے سے موجود سیکڑوں مثالوں میں سے، یہاں صرف دو مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔

۱علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ:اصفہان کے نواحی جنگل میں ایک شخص نے ایک مسلمان کو قتل کردیاپھر اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے مقتول کی لاش ایک کنویں میں پھینک دیمقتول کا کتا اس کنویں کے پاس آتا اور اس کے اطراف کی مٹی کنویں میں ڈالنے لگتا اور جوں ہی قاتل کودیکھتا اس کی جانب لپکتا اور زور زور سے بھونکنے لگتاکتے کے باربار یہ عمل دھرانے سے مقتول کے ورثاء کوتشویش ہوئیان لوگوں نے اس کنویں میں تلاش کیا، تو انہیں وہاں مقتول کی لاش مل گئیاسکے بعد انہیں اس شخص کے بارے میں شک ہوا جس کی جانب کتاباربار لپکتا تھا۔

۸۶

 اس شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا اور بالآخر اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا(بحارالانوار ج۶۲۔ ص۶۰) وہ شخص رسوا ہوا اور اسے اسکے جرم کی سزادی گئی۔

۲ایک ظالم اور بے رحم سردار، ایک دن ایک نیک دل شہزادے کے یہاں دعوت پر اس کے دسترخوان پر بیٹھا تھا۔ اتفاق سے اس دسترخوان پر دو بھنے ہوئے تیتر رکھے گئےجوں ہی اس سردار کی نگاہ ان تیتروں پر پڑی، یہ انہیں دیکھ کر ہنسنے لگاشہزادے نے جب اس سے اس بے موقع قہقہے کی وجہ پوچھی تو سردار نے جواب دیاکہ ایک روز جنگل میں مجھے ایک تاجر ملا، میں نے اسے پکڑا، اسکا مال و اسباب لوٹا اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیاوہ تاجر میرا ارادہ بھانپ گیا، اسی اثنا میں اس تاجر کی نگاہ ایک پہاڑی پتھر پر بیٹھے ہوئے دو تیتروں پر پڑی، تاجر نے ان تیتروں کو مخاطب کرکے کہا :اے تیترو! گواہ رہنا کہ یہ شخص میرا قاتل ہے۔

آج جب دسترخوان پر مجھے یہ دو تیتر بھنے ہوئے نظر آئے تو مجھے اس تاجر کی بے وقوفی یاد آگئی کہ وہ جن تیتروں کو اپنے قتل کا گواہ بنا رہا تھا وہ خود ذبح ہوکر ہماری خوراک بن رہے ہیں اور اب گواہی دینے کے لیے زندہ نہیں رہے ہیں۔

نیک دل شہزادے نے اس ظالم سردار سے کہا:اتفاقاً تیتروں نے گواہی دے دی ہےپھر اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اس سردار کی گردن اڑادی جائےاور یوں آخر کار اس ظالم کو اپنے جرم کی سزا بھگتنی پڑی۔ (حیات الحیوان)

۸۷

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ ؑکے اقوال میں انسانی قتل کا گناہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے کہ:جب کبھی مسلمانوں میں سے دو افراد ناحق ایک دوسرے کے خلاف تلوار نکال لیں، اور اس مڈبھیڑ کے دوران ان میں سے کوئی ایک مارا جائے، تو یہ دونوں افراد جہنمی ہوںگے۔

اس موقع پر موجود افراد میں سے ایک نے سوال کیا:اے اللہ کے رسولؐ! مقتول کیوں جہنمی ہوگا؟ آنحضرت ؐنے جواب دیا: لانّہ اراد قتلاً (کیونکہ وہ بھی قتل کا ارادہ رکھتا تھاوسائل الشیعہ ۔ ج۱۱۔ ص۱۱۳) لیکن اس کاارادہ پورا نہ ہوسکا اور وہ خود مارا گیا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:مَنْ اَعٰانَ عَلٰی قَتْلِ مُؤمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ لَقَی اللهُ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ مَکْتُوباًبَیْنَ عَیْنَیُهِ آیِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ (جو شخص کسی مومن کو قتل کرنے میں کسی قاتل کی مدد کرے (چاہے یہ مدد ایک لفظ کہہ کر ہی کیوں نہ کی گئی ہو) تو ایسا شخص روزِ قیامت خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکی پیشانی پر تحریر ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہےکنزالعمال۔ حدیث۳۹۸۹۵)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:قَتْلُ الْمُؤْمِنِ اَعْظَمُ عِنْدَاللهِ مِنْ زَواٰلِ الدُّنْیٰا (خدا کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کی بربادی سے زیادہ بڑی (بری) بات ہے۔ کنزالعمال حدیث۳۹۸۸۰)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے:مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّداً اَثْبَتَ اللهُ عَلٰی قٰاتِله جَمیعَ الذُّنُوبِ (جوشخص کسی مومن کو عمداًقتل کرتا ہے، تو خدا وند ِعالم مقتول کے تمام گناہ اس (قاتل) کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہےوسائل الشیعہ ج۔ ۱۹۔ ص۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے:جس شخص نے کسی مومن کو قتل کیاہو، جب اس شخص کی موت کا وقت آتا ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اسلام کے سوا جس دین پر چاہو مرو، چاہوتو یہودی، چاہو تو عیسائی اور چاہو تو مجوسی مرو۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال (مترجمہ فارسی) ص۲۳۵)

۸۸

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: قیامت کے روز سب سے پہلے اس شخص کا محاکمہ ہوگا جس نے کسی انسان کا خون بہایا ہوگاآدم کے بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کو لایا جائے گا اور ان کے بارے میں فیصلہ ہوگا (اور ہابیل کو قتل کرنے کے جرم میں قابیل کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا)اسکے بعد زمانے کی ترتیب کے لحاظ سے دوسرے افراد کو لایا جائے گا اور ان کا محاکمہ ہوگا، یہاں تک کے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے گاہر مقتول اپنے قاتل کو میدان میں لائے گااس موقع پر مقتول کا چہرہ اپنے خون سے رنگین ہوگا اور وہ لوگوں سے کہہ رہا ہوگا کہ: اس شخص نے مجھے قتل کیا ہےاور خدا وند ِعالم قاتل سے کہے گا کہ:کیا تو نے اس شخص کو قتل کیا ہے؟ اور (اس وقت) قاتل میں اتنی طاقت نہ ہوگی کہ وہ اپنا معاملہ خدا سے پوشیدہ رکھ سکے۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال(مترجمہ فارسی)۔ ص۲۳۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:واٰدٍفِی جَهَنَمَ لَوْ قَتَلَ النّٰاسَ جَمیعاً کٰان فِیهِ، وَلَوْ قَتَلَ نَفْساًواٰجدَةٌ کٰانَ فِیهِ (دوزخ میں ایک وادی ہے، اگر کوئی شخص تمام انسانوں کو قتل کردے تو یہ وادی اس کا ٹھکانہ ہوگی اور اگر کسی نے ایک انسان کو بھی قتل کیا ہوگا، تو اسے بھی اسی وادی میں ڈالا جائے گامیزان الحکم تہ۔ ج۸۔ ص۳۹)

نیز آپ ؑہی کا ارشاد ہے: خدا وند ِعالم نے حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو وحی کی کہ بنی اسرائیل سے کہو کہ انسانوں کو قتل کرنے سے پرہیز کریںکیونکہ جوشخص کسی مومن کو ناحق قتل کرے گا، تو خدا وند ِعالم اسے آتش دوزخ میں سو مرتبہ اس طرح قتل کرے گا جس طرح اس نے (اس انسان کو) قتل کیا ہوگا(اختصاص ازشیخ مفید۔ ص۲۳۵)

۸۹

ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ:رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا ایک مسلمان کا قتل ہوا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اسکا قاتل کون ہےرسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیظ میں آگئے اور اسی وقت لوگوں کو مسجد میں طلب کیا، منبر پر تشریف لے گئے اور حمدوثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:مسلمان کا قتل ہوتا ہے اور کسی کواسکے قاتل کا پتا نہیں !اُس خدا کی قسم، جس کے اختیار میں میری جان ہے، جب بھی آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں نے کسی مومن کے قتل پر اتفاق کیاہے، یا اس پر اظہارِ رضا مندی کیا ہے، تو خداوند ِعالم نے ان سب کو آتشِ جہنم میں ڈالا ہےخدا کی قسم، جوکوئی بھی ظلم کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک تازیانہ مارے گا، تو روز ِقیامت آتشِ جہنم کے درمیان ویسے ہی تازیانے سے اسے پیٹا جائے گا۔۔۔ ۔ (بحارالانوارج ۱۰۴۔ ص۳۸۴)

انسانی قتل کے گناہ کی سنگینی کو بیان کرنے والی سیکڑوں روایات میں سے منتخب کردہ مذکورہ روایات میں سے ہر روایت انسانی قتل کو سخت اور درد ناک سزائوں کی وجہ بننے والا گناہ قرار دیتی ہے اور مسلمانوں کو اس خطرناک عمل کے ارتکاب سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

۹۰

انسانی قتل میں تعاون کا گناہ

جس طرح انسان کو قتل کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہےاسی طرح کسی انسان کے قتل میں تعاون کرنا بھی سخت اور بڑے گناہوں میں سے ہےچاہے یہ تعاون براہِ راست نہ بھی کیا گیا ہو، انتہائی معمولی اور خفی ہی کیوں نہ ہو، چاہے مدد کرنے والے نے صرف ایک لفظ کے ذریعے ہی مدد کی ہو، تب بھی ایسا شخص شریک ِجرم اور ” اعوان الظّلمۃ“ سمجھا جائے گا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی متعدد روایات اس مسئلے پر تاکید کرتی ہیں، آیات ِقرآنی بھی اس نکتے پر گواہی دیتی ہےمثلاً ارشادِ الٰہی ہے:وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور گناہ اور ظلم وستم میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرناسورہ مائدہ۵۔ آیت۲)

اس حوالے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہلِ بیت علیہم السلام کے چند اقوال قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:

رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لَوْ اَنَّ رَجُلًا قُتِلَ بِالْمَشْرِقِ وَآخَرُ رَضِیَ بِهِ بِالْمَغْرِبِ کانَ کَمَنْ قَتَلَهُ وَشَرَکَ فِی دَمِهِ (اگر مشرق میں کسی شخص کا قتل ہو، اور مغرب میں رہنے والا کوئی شخص اس قتل پر راضی ہو، تو (یہ شخص بھی) قاتل کی مانند ہے اور مقتول کے خون میں شریک ہےبحارالانوار۔ ج۱۰۴۔ ص۳۸۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:قیامت کے دن ایک شخص کو ایک دوسرے شخص کے پاس لائیں گےپہلا شخص دوسرے شخص کو خون سے رنگین کرے گاجب دوسرا شخص اس سے خون آلود کرنے کی وجہ پوچھے گا، تو وہ جواب دے گا کہ: تم نے فلاں دن میرے بارے میں فلاں کلمہ کہا تھا جس کی وجہ سے میرا خون بہایاگیا تھا، آج تم اس کا جواب دو۔ (ثواب الاعمال ازشیخ صدوق(مترجمہ فارسی)ص ۶۳۴)

۹۱

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ مسجد ” جھینہ“ میں ایک مقتول کا جنازہ رکھا ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور پیدل اس مسجد کی جانب تشریف لے گئےلوگوں کو پتا چلا تو سب اس مسجد میں جمع ہوگئےرسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ اس شخص کو کس نے قتل کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا:اے اللہ کے رسول ؐ! ہمیں پتا نہیں آنحضرت ؐنے فرمایا:کیا یہ مناسب بات ہے کہ کسی مسلمان مقتول کا جنازہ مسلمانوں کے درمیان موجود ہو اوروہ اس بات سے بے خبر ہوں کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟ اس خدا کی قسم جس نے مجھے اپنی نبوت کے لیے برحق معبوث کیا ہے، اگر آسمانوں اور زمین کے رہنے والے تمام لوگ کسی مسلمان کا خون بہانے میںشریک ہوں، یا اس عمل پر راضی ہوں، تو خداوند ِعالم ان سب کو منھ کے بل آتشِ جہنم میں پھینک دے گا(ثواب الاعمال ازشیخ صدوق (مترجمہ فارسی)۔ ص۶۳۷)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے: قیامت کے دن ایک انسان کو لے کے آئیں گے جس نے دنیا میں کسی کا خون نہیں بہایا ہوگاپھر اسے خون سے بھرا ہوا ایک چھوٹا سا برتن دیں گے اور اس سے کہیں گے کہ یہ فلاں مقتول کے خون میں تمہارا حصہ ہےوہ عرض کرے گا: بارِ الٰہا! تو جانتا ہے کہ میں نے پوری زندگی کسی کا خون نہیں بہایاخداوند ِعالم فرمائے گا: ہاں (درست ہے لیکن) تو نے فلاں شخص کی ایک بات سنی اور اسے دوسروں سے نقل کیایہ بات دوسروں تک پہنچی، یہاں تک کہ وہ بات اس زمانے کے ظالم حکمراں کو بتائی گئی اور اس ظالم حکمراں نے اس شخص کو قتل کردیالہٰذا تو نے اس مقتول کا خون بہانے میں اتنا حصہ لیا ہے(محاسنِ برقیص ۱۰۴، بحار الانوارج ۱۰۴ص ۳۸۳)

۹۲

ہم اس امید کے ساتھ اس موضوع پر اپنی گفتگو تمام کرتے ہیں کہ یہ آیات وروایات اور دل ہلادینے والے کلمات ہم سب کے لئے باعث ِانتباہ ہوں گے اور ہم سختی کے ساتھ اس بات کا خیال رکھیں گے کہ کبھی کہیں کسی بے گناہ کا خون بہانے میں شریک نہ ہوں جس کی سزا انتہائی شدید ہے اور خدائے رحمٰن کے خاص بندے ہر قسم کی خونریزی سے شدت کے ساتھ پرہیز کرتے ہیں۔

اس گفتگو کو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ایک انتباہی حدیث پر ختم کرتے ہیں۔

مولا کی خدمت میں تین افراد کو لایا گیا اور بتایا گیا کہ ان میں سے ایک نے ایک شخص کو پکڑا اور اس کی نگرانی کرتا رہا، دوسرا آیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور تیسرا یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور انہیں روکنے کی کوشش نہیں کیحضرت علی ؑنے فیصلہ سنایا کہ: جس شخص نے مقتول کی نگرانی کی اسے قید کر دیا جائے، یہاں تک کہ قید ہی میں اس کی موت واقع ہوقتل کرنے والے شخص کو سولی پر چڑھادیا جائے اور جس شخص نے اس پورے واقعے کو دیکھا، اس کا تماشائی رہا اور اس کا سد ِباب نہیں کیا، سلائی پھیر کر اس کی آنکھیں اندھی کردی جائیں(بحار الانوارج۱۴ص ۳۸۶)

۹۳

ناجائز صنفی تعلقات سے سخت اجتناب

قرآنِ مجید سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی خدا کے ممتاز اور خاص بندوں کی بارہ خصوصیات میں سے آٹھویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

وَلَا يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا

اور (وہ) زنا بھی نہیں کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا عمل انجام دے گا وہ اسکی بہت سخت سزا پائے گاسورئہ فرقان ۲۵آیت ۶۸

اس آیت میں خدا کے صالح اور نیکو کار بندوں کی ایک انتہائی اہم فضیلت بیان کی گئی ہےیہ اہم فضیلت عفت وپاکدامنی کی حفاظت، اور ہر قسم کے ناجائز صنفی تعلقات سے شدت کے ساتھ اجتناب ہےکیونکہ عفت کے منافی عمل ” زنا“ بے عفتی کی ایک انتہائی گھناؤنی صورت ہے۔

یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ صحت مند اور سالم معاشرے کا ایک عامل عفت وپاکدامنی اور عزت وناموس کے بارے میں ” غیرت“ کا اصول ہے، جس کی غیر معمولی اہمیت کے تمام انبیاء، ائمہ اور صاحبانِ عقل ودانش قائل ہیں، یہ اصول انسانی برادری اور مردوں اور عورتوں کے درمیان جائز اور معقول تعلقات کو تقویت پہنچاتا ہے اور بہت سی معاشرتی اور گھریلو خرابیوں، گمراہیوں اور بدبختیوں سے تحفظ کے لیے ایک مضبوط ڈھال ہے۔

زنا جو گھناؤنا ترین جنسی گناہ ہے اسکے بہت سے شرمناک اور تباہ کن اثرات ہیں اور جو خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ، فتنہ وفساد، خود کشی، منشیات کا عادی ہوجانا، قساوتِ قلبی اور بہت سے بڑے بڑے جرائم کی بنیاد بنتا ہےیہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے اس برے عمل کے قریب جانے تک سے منع کیا ہے اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:

۹۴

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى اِنَّه كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيْلًا

اور دیکھو زنا کے قریب بھی نہ جانا کہ یہ بدکاری اور بہت برا راستہ ہےسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۲

اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ زنا نہ کرنا، بلکہ کہتی ہے کہ اس شرمناک اور قبیح عمل کے قریب بھی نہ جانا، اس تعبیر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اکثر اوقات انسان ایسے مقدمات کے نتیجے میں زنا میں مبتلا ہوتا ہے جو اسے تدریجا ً اس عمل کے قریب لیجاتے ہیںلہٰذا انسان کو چاہیے کہ ان مقدمات سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کرےنظر بازی، عریانی، پردے کی طرف سے بے توجہی، ہیجان انگیز فلمیں دیکھنا، گمراہ کن لٹریچر کا مطالعہ اور بے راہ روی کا باعث بننے والی موسیقی اور گانوں کا سننا وہ باتیں ہیں جن میں سے ہر ایک جنسی گمراہی اور زنا کے ارتکاب کی وجہ بن سکتی ہے اور انسان کو بے راہ روی کی جانب لے جاسکتی ہے۔

زنا، اسلام کی نظر میں بہت بڑا گناہ ہے لہٰذا اُس میں اسے انجام دینے والے کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی ہےاگر محرم عورتوں کے ساتھ زنا کیا جائےیا زنائے محصنہ (یعنی شادی شدہ مرد یا شادی شدہ عورت زنا کا ارتکاب کرے) تو اسے سنگسار کرنے یا سزائے موت دینے کا حکم ہےاور اگر زنائے غیر محصنہ ہوتو پہلی مرتبہ ارتکاب کی صورت میں قاضی کے حکم سے زنا کرنے والے کو سو کوڑے مارے جائیں گےدوسری مرتبہ ارتکاب پر بھی اس پر یہی حد جاری کی جائے گیلیکن تیسری یا چوتھی مرتبہ اس جرم کے ارتکاب پر اس کے لیے سزائے موت کا حکم جاری کیا جائے گابعض مواقع پر زنا کرنے والے کو تازیا نے بھی مارے جائیں گے اور سنگسار بھی کیا جائے گاجیسے زنائے محصنہ کرنے والے بوڑھے مرد یا بوڑھی عورت کو(تحریر الوسیلہج۲ص۴۶۳)

ارتکاب ِزنا پر یہ سخت دنیوی سزائیں، اس گناہ کی شدت اور اسکے انتہائی برے اور تباہ کن اثرات کی جانب اشارہ ہیں اسلام جو ایک مقدس آئین ہے، اور سالم و صحت مند معاشرے اور ایک پرسکون گھریلو زندگی کا خواہشمند ہے، وہ ان سخت سزاؤں کے ذریعے ہر قسم کی جنسی گمراہی اور گناہ کی روک تھام چاہتا ہے، نیز یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرے کی عفت وپاکدامنی کو اس پر نقب لگانے والوں سے محفوظ رکھا جائے۔

۹۵

قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں، زنا کے مرتکب افراد کے لیے شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےمثلاً ارشاد ہوتا ہے:

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

زنا کار عورت اور زنا کار مرد، دونوں کو سو سو کوڑے لگاؤاور خبردار خدا کے دین کے معاملے میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا، اگر تمہارا ایمان اﷲ اور روزِ آخرت پر ہےاور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو اسکا مشاہدہ کرنا چاہیےسورئہ نور۲۴آیت۲

اس آیت میں تین ایسے نکات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک زنا کے اس سخت گناہ کے خلاف اسلام کے شدید موقف کی نشاندہی کرتا ہےپہلا نکتہ یہ ہے کہ: زنا کے مرتکب مرد اور عورت کو سو سو کوڑے لگائے جائیںدوسرا نکتہ یہ ہے کہ: اس حکم پر عمل درآمد کے موقع پر ان سے کسی قسم کی نرمی اور ہمدردی نہ کی جائے اور ان کے بارے میں قانونِ الٰہی کو دو ٹوک انداز میں جاری کیا جائےتیسرا نکتہ یہ ہے کہ: یہ حکمِ الٰہی برسر عام جاری کیا جائے، اور اس موقع پر کچھ لوگ موجود ہوں جو مجرموں کوکوڑے کھاتے دیکھیںتاکہ ایک طرف تو زنا کار اچھی طرح اس سزا کا مزہ چکھے اور دوسری طرف تماشائیوں کو بھی عبرت ہو اور وہ اس گناہ کے ارتکاب سے باز رہیں۔

۹۶

جنسی آلودگی سے پرہیز اور محفوظ رہنے کے راستے

یہاں سورئہ فرقان کی جس آیت پر گفتگو ہورہی ہے اُس میں عفت وپاکدامنی کی حفاظت اور جنسی گمراہی اور آلودگی (بالخصوص زنا) سے پرہیز کو خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی ایک صفت بتایا گیا ہے، نیز دوسری متعدد آیات میں بھی (جن میں سے ہم نے یہاں صرف دو کے بیان پر اکتفا کیا ہے) اس بڑے گناہ کے ارتکاب کی ممانعت کی گئی ہےلہٰذا سوال یہ ہے کہ اب ہم کون سے طریقے اختیار کریں جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ اس قبیح عمل کا مرتکب نہ ہو اور اس سے محفوظ رہے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس گناہ سے اجتناب اور اسکی روک تھام کے مجموعی طور پر دو راستے ہیں ایک نظری راستہ اور دوسرا عملی راستہ۔

پہلا راستہ جسے ہم نے نظری راستے کا نام دیا ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ اس گناہ کی شدت اور سنگینی کی طرف متوجہ رہا جائے اور جنسی گمراہی کی قباحت اور اسکے شرمناک آثار کے بارے میں ذہن کو حاضر رکھا جائے۔

اس طرح عقل، تجربے کی مدد کے ہمراہ ہم سے کہے گی کہ اگر جنسی گمراہی، بالخصوص زنا ہمارے معاشرے میں رائج ہوجائے (جیسا کہ پست مغربی تمدن میں دیکھا جارہا ہے اور لرزہ طاری کردینے والے اعداد وشمار اس کے گواہ ہیں) تو یہ بہت سی برائیوں اور تباہیوں کا موجب ہو جائے گاکیونکہ عفت وپاکدامنی کے منافی یہ عمل ایک طرف تو طرح طرح کے امراض مثلاً ” ایڈز“ کی لاعلاج مہلک بیماری کا باعث ہوا ہے، اور دوسری طرف اس نے وہاں کی نئی نسل کو گھر بسانے اور عائلی زندگی اپنانے سے دور رکھا ہے اور اس میں بے نظمی اور عزم وہمت میں کمی کا باعث بنا ہے۔

۹۷

عائلی زندگی گزارنے والوں اور رشتہ ازدواج کی بنیاد رکھنے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ گھر سے باہر جنسی تعلق کا قیام محبت بھری عائلی زندگی میں بحران اور بد اعتمادی کی وجہ بنتاہے اور اسکا آخری نتیجہ میاں بیوی کے درمیان طلاق اور خاندان کی تقسیم کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ زنا، ناجائز بچوں کی ولادت کا باعث ہے، جس کی وجہ سے وہ تعلق جو بچوں اور والدین کے درمیان قائم ہونا چاہیے وہ قائم نہیں ہوپاتا اور نتیجے کے طور پر افرادِ معاشرہ کا باہمی تعلق جس کی بنیاد اہل خانہ کے باہمی تعلقات پر استوار ہوتی ہے متزلزل ہوجاتا ہے اور معاشرہ زوال وانحطاط کی طرف چل پڑتا ہے۔

زنا کے عام ہوجانے کا ایک اور برا اثر یہ ہے کہ یہ عمل لوگوں کے ازدواجی زندگی سے دور ہونے کا باعث بن جاتا ہے اور اسکے نتیجے میں شادی کے نیک اور مثبت اثرات، جیسے روحانی سکون، صحیح اور فطری راستے سے جنسی خواہش کی تسکین، روحانی انس، زندگی کے کاموں میں باہمی تعاون، اچھے بچوں کی تربیت اور دوسرے اچھے معاشرتی اثرات مرتب ہونے کے بجائے گمراہی اور اس کے تباہ کن اثرات سامنے آتے ہیں۔

اس مسئلے پر غورو فکر، انسان کو اس برے عمل سے دور رکھے گا اور بڑی حد تک اسے جنسی گمراہی میں مبتلا ہونے بالخصوص پاکدامنی کے منافی عمل ” زنا“ کے ارتکاب سے باز رکھے گاکیونکہ کوئی بھی عقل مند آدمی ایسے عمل کا مرتکب نہیں ہوگا جو ایسے تباہ کن جسمانی اور روحانی اثرات کا باعث ہو، اور جس کے ایسے بھیانک نتائج برآمد ہوں۔

دوسرا راستہ جو عملی راستہ ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ یہ راستہ ہم سے کہتا ہے کہ ہمیں بے عفتی اور جنسی گمراہی کے عوامل واسباب سے آگاہ ہونا چاہئے اور اس سے چھٹکارے کے راستے جاننا چاہئیں اور منصوبہ بندی کے ذریعے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

۹۸

اس حوالے سے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنی نیت کو سالم اور پاک رکھیں، تاکہ ہمارا فیصلہ بھی پاک اور سالم ہو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: موسیٰ اپنے اصحاب سے کہتے تھے کہ زنا نہ کرنالیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ زنا کا خیال بھی دل میں نہ لانا (اس کے بعد انہوں نے یہ مثال پیش کی) اگر کوئی شخص ایک خوبصورت نقاشی سے مزین کمرے میں آگ جلائے، تو اس آگ کا دھواں اس کمرے کو دھواں آلود اور سیاہ کردے گا، اگرچہ آگ نے اس کمرے کو جلا کر راکھ نہیں کیا ہوگازنا کا خیال اسی دھویں کی مانند ہے جو انسان کے معنوی چہرے کو بدنما کردیتا ہے اگرچہ یہ چہرہ ختم نہیں ہوا ہوتا(سفینتہ البحارج۱ص۵۶)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم سلام اﷲ علیہا کی عفت، غیرت اور پاکیزگی کا عالم یہ تھا جب ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو ایک طرف تو آپ انتہائی خوش تھیں اور دوسری طرف یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں نادان لوگ ان کی پاکدامنی پر انگلیاں نہ اٹھائیں، مضطرب اور سخت پریشان بھی تھیں لہٰذا انہوں نے کہا کہ:

يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَكُنْتُ نَسْـيًا مَّنْسِـيًّا

اے کاش! میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور بالکل فراموش کردی گئی ہوتی سورئہ مریم۱۹آیت ۲۳

مغربی دنیا، جس کی اکثریت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کی پیروی کا دعویٰ کرتی ہے اور جس میں دن بدن بے راہ روی اور آوارگی بڑھ رہی ہے، درحقیقت حضرت عیسیٰ ؑاور ان کی والدہ حضرت مریم ؑکے دین وآئین سے دور ترین لوگ ہیں ان کی گستاخی اس حد تک جاپہنچی ہے کہ وہ حضرت مریم ؑکی تصویر کے طور پر ایک بدحجاب اور نیم عریاں عورت کی تصویر شائع کرتے ہیںیہ ایسی گستاخی اور شرمناک اہانت ہے جو یقینا حضرت مریم ؑکی پاک روح کو آزردہ کرتی ہوگیوہ آج اس صورتحال کو دیکھ کر فرماتی ہوں گی کہ: کاش! میں دنیا میں نہ آئی ہوتی اور بالکل بھلا دی گئی ہوتی اور مجھے اس قسم کی تصاویر اور مجسموں کی صورت میں پیش نہ کیا گیا ہوتا اور ایسی بے ہودہ تصو یر کے ذریعے، جس کا مجھ سے دور کا بھی واسطہ نہیں، میری عفت کا مذاق نہ اُڑایا گیا ہوتا۔

۹۹

بہرحال، فکر کی پاکیزگی کے مرحلے کے بعد ان عوامل واسباب کو پہچاننا اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے جو انسان کو جنسی گمراہی کے ہولناک گڑھے کے کنارے لے جاتے ہیں ان میں سے چند عوامل درج ذیل ہیں:

۱:- لوگوں کے سامنے بے حجابی یا حجاب سے بے پروائی کے ساتھ آناکیونکہ یہ چیز جنسی شہوت کی آگ کو بھڑکاتی اور جنسی آلودگیوں کا موجب ہوتی ہے۔

۲:- نگاہوں کو کنٹرول نہ کرنا اور وسوسہ پیدا کرنے والی نگاہوں سے اجتناب نہ کرنا۔

۳:- گمراہ کن فلموں اور شہوت انگیز مناظر دیکھنا اور مردوں اور عورتوں کا باہم مخلوط ہونا۔

۴:- بری باتیں سکھانے والی مطبوعات کا مطالعہ کرنا۔

۵:- ہیجان انگیز تصاویر دیکھنا۔

۶:- حرام غذاؤںکا استعمال اور پرخوری۔

۷:- برے دوستوں کی صحبت۔

۸:- شادی جو جنسی خواہش کی تسکین اور جنسی گمراہی سے نجات میں موثر کردار کی حامل ہے، اس میں بلاوجہ تاخیر کرنا۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177