عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف33%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92534 / ڈاؤنلوڈ: 6246
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس آیت میں قاتل کے لیے چار سخت سزائوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کاٹھکانہ دوزخ رہے گا، دوسرا یہ کہ وہ خدا کے غضب اور ناراضگی کا نشانہ بنے گا، تیسرا یہ کہ اس پر خدا کی لعنت پڑے گی اور چوتھا یہ کہ اسے خدا کے سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا

جس شخص نے کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے، یاروئے زمین پر فساد کی سزا کے علاوہ قتل کیا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا ہےسورہ مائدہ۵آیت ۳۲

اسلام نے قاتل کی دنیاوی سزایہ مقرر کی ہے کہ قصاص کے طور پر خود اسے بھی سولی پر چڑھا دیا جائےالبتہ اگر مقتول کے ورثاء اسے معاف کردیں، اور اسکے عوض دِیَت وصول کرلیں، یادیت بھی معاف کردیں تو وہ اس سزا سے بچ سکتا ہےلیکن اس کے باوجود قتل کے سخت گناہ سے اسے چھٹکارا نہیں مل سکے گا۔

کبھی کبھی ورثاء کا معاف کردینا بھی بے سود رہتا ہے اور قاتل کو لازماً سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہےایسا اس وقت ہوتا ہے جب وہ شخص شرپسندوں میں سے ہو اور سرد یا گرم اسلحہ کے زور پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا اور معاشرے کے امن و امان کو خطرے میں ڈالتا ہوایسے فرد کو ” محارب اور مفسدفی الارض“ کہا گیا ہے اور حکومت ِاسلامی اسے موت کی سزادیتی ہےاس بارے میں قرآنِ کریم میں ہے کہ:

۸۱

اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْ يُصَلَّبُوْا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ

بس خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کی یہی سزا ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھادیا جائے، یاان کے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں ارضِ وطن سے نکال باہر کیاجائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں سخت عذاب ہےسورہ مائدہ ۵۔ آیت۳۳

اس آیت کے ذریعے بھی انسانی قتل کے گناہ کی شدت واضح ہوتی ہے، جوسخت سزائوں کا موجب اور دنیا و آخرت کی ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔

انسان کے قاتلوں کے لیے قصاص اوردیت کی شدید سزائیں

معاشرے میںامن و امان ایک اہم ترین نعمت ہے جس کے زیر سایہ ایک صحت مند اور آئیڈیل معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہےاس کے برعکس امن وامان کا فقدان فتنہ و فساد، برائیوں اور طرح طرح کی آفات کا باعث ہےلہٰذا اسلام نے محکم اور سخت قوانین بناکر معاشرے کے مختلف شعبوں میں امن وامان کے تحفظ کی کوشش کی ہےپہلے مرحلے میں اسلام نے جان کی سلامتی پرزور دیا ہے اور امن وامان درہم برہم کرنے والوں کے لیے (اُخروی عذاب کے علاوہ) دنیوی سزائیں بھی تجویز کی ہیں۔ مثلاً قصاص کا قانون مقرر کیا ہے، جس پر اگر واقعی عمل ہو، تو انسانی قتل اور اُنہیں ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی روک تھام کی جاسکتی ہےقصاص اور حدودو دیات کا نفاذ معاشرے میں ایک پُرسکون اور سالم و صحت مند زندگی کی ضمانت فراہم کرے گاجیسا کہ قرآنِ مجید کہتا ہے کہ:

۸۲

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

صاحبانِ عقل تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، شاید تم اس طرح متقی بن جائو۔ سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۷۹

یعنی قصاص، انفرادی طور پر کسی سے انتقام لینے کانام نہیں، بلکہ یہ قانون آسودہ زندگی اور معاشرتی امن و سکون کا ضامن ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانوں کے قاتل سے قصاص نہ لیا جائے ایک مردہ معاشرہ ہےجس طرح علمِ طب، ذراعت اور ڈیری فارمنگ میں مویشیوں کی نگہداشت کے دوران خطرناک جراثیم کوختم کرنا ایک علمی اصول ہے، اسی طرح معاشرتی و سماجی علم میں جرائم پیشہ اور انسانوں کو قتل اور انہیں نقصان پہنچانے والے افراد کا قلع قمع کرنا ایک عقلی اور منطقی امر ہے۔

قصاص کا قانون عدل و انصاف کا ضامن اور زندگی وسکون کا باعث ہےاور معاشرے سے اضطراب، کشیدگی اور بے چینی کے خاتمے میں ایک موثر کردار کا حامل ہےیہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں قصاص کو تقویٰ کا موجب قرار دیا ہےیعنی قصاص، قتل وغارت گری کی روک تھام اور انسانوں کی جان و مال، عزت وآبرو کو نقصان سے بچانے کا باعث ہوتا ہےاس مقام پر یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ فرد اور معاشرے کا تقابل کیا جائے، تو معاشرے کو فرد پر تقدم اور فوقیت حاصل ہے۔

قتل کے علاوہ، انسانی بدن کو نقصان پہنچانے کا بھی قصاص ہےاگر کوئی کسی انسان کے ناک، کان، آنکھ، دانت، مختصر یہ ہے کہ اسکے بدن کے کسی بھی عضو کو نقصان پہنچائے، تو جسے نقصان پہنچاہے، اسے قانونی طور پر حق حاصل ہے کہ جس قدر اسے نقصان پہنچا ہے، اسی قدر نقصان پہنچانے والے سے اس کا قصاص لےاس بارے میں سورہ مائدہ کی ایک آیت ہے کہ:

۸۳

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ

اور ہم نے اس میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کابدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گاسورہ مائدہ ۵۔ آیت ۴۵

قانونِ قصاص، جسے اسلام نے انتہائی تفصیل اور جزیات کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ قانون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانی جان کو بہت زیادہ احترام حاصل ہے اور اس نے قانونِ قصاص مقرر کرکے چاہاہے کہ انسانی جان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ سکے۔

پس قانونِ قصاص، قانون حدودو دیات ہے جو خود اپنی جگہ سہواًاور بھول چوک سے بھی انسانوں کی جان اور معاشرتی امن و سکوں کی حفاظت کا ایک طاقت ور عامل ہے۔

سہواً اور غلطی سے سرزدہونے والا ہر گناہ، توبہ کے ذریعے معاف ہوجاتا ہےلیکن اگر کوئی بھولے سے اورنادانستگی میں کسی انسان کو قتل کردے، یا انسانی بدن کے کسی عضو کو نقصان پہنچابیٹھے، تو اسکی دیت ہے اور یہ حقوق العباد میں سے ہے جنہیں ادا کیے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔

دیت کے مسائل نہایت تفصیلی ہیں، جنہیں بیان کرنے کی اس مختصر مقالے میں گنجائش نہیں لیکن ہم یہاں مثال کے طور پر چند مسائل کا ذکر کرکے اسلام کی نظر میں انسانی جان کے احترام کی اہمیت جان سکتے ہیں۔ مثلاً چند چیزیں ایسی ہیں جن کی دیت اتنی ہی ہے جتنی ایک انسان کو قتل کرنے کی دیت ہوتی ہے۔

۸۴

مکمل دیت ایک ہزار مثقال سونا، یا سواونٹ یا دوسوگائیں ہےاگر کوئی کسی مسلمان کے کان پر مارے اور اسکی وجہ سے وہ شخص بہرا ہوجائے، تو مارنے والے کو مکمل دیت کی آدھی دیت ادا کرنی چاہیے اور اگر کسی کے دونوں کانوں پر مارے اور دونوں کو بہرا کردے، تو اسے مکمل دیت ادا کرنی چاہیے۔

حدیہ ہے کہ اگر والدین یا اساتذہ اپنے بچے یا شاگرد کو اس قدر زدوکوب کریںکہ ان پر اسکی دیت واجب ہوجائے، تو یہ سخت گناہ ہے۔

اگر کوئی کسی دوسرے کے منھ پر تمانچہ مارے، اور اس کے نتیجے میں تمانچہ کھانے والے کا چہرہ سرخ ہوجائے، تو مارنے والے پر ڈیڑھ مثقال سونا، یااسکی قیمت کے برابردیت کی ادائیگی واجب ہوگیاگر اس کا چہرہ نیلا پڑ جائے، تو تین مثقال اور اگر سیاہ پڑ جائے، تو چھ مثقال یا اسکی برابر قیمت اسکی دیت ہےاور اگر چہرے کے سوا جسم کے کسی اور حصے پر مارے، جس کی وجہ سے وہ حصہ سرخ، نیلا یا سیاہ پڑجائے، توچہرے کے بارے میں جس دیت کو بیان کیا گیا ہے مارنے والے پر اس کی نصف دیت ادا کرنا اور اس شخص کو راضی کرنا ضروری ہوگا۔

اسلام، انسان کو اس قدر احترام دیتا ہے کہ اگر انسان منعقدشدہ نطفے کی صورت میں بھی ہو، تو اسے ساقط کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

بچہ جس مرحلے میں بھی سقط کیا جائے، اسلام نے اسکی مناسبت سے دیت کا تعین کیا ہےفقہائے عظام فرماتے ہیں کہ: اگر انسان کوئی ایسا عمل انجام دے، جس کی وجہ سے حاملہ عورت کا بچہ ساقطہ (ضائع) ہوجائے، تو اگر سقط ہونے والا بچہ ابھی صرف نطفہ تھا، تو اس کی دیت بیس مثقال سکہ دار سونا ہے اور اگر علقہ (یعنی منجمد خون) ہو، تو اسکی دیت چالیس مثقال اور اگر مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں) ہو، تواسکی دیت ساٹھ مثقال اور اگر وہ ہڈیاں بننے کے مرحلے تک پہنچ گیا ہو، تو اسکی دیت اسّی مثقال اور اگر اس پر گوشت چڑھ گیا ہو، تو سو مثقال اور اگر اس میں روح آ چکی ہو، تو اگر وہ لڑکا ہو، تو اسکی دیت ہزار مثقال اور اگر لڑکی ہو، تو اسکی دیت پانچ سو مثقال ہوگی۔

۸۵

فقہایہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی حاملہ عورت کو قتل کردے، تو اسے عورت اور اس بچے کی دیت بھی دینا پڑے گی جو اس عورت کے شکم میں تھااگر اس عورت کے شکم میں دویادو سے زیادہ بچے ہوں، تو اسی مناسبت سے ساقط کرنے والے پر ان کی دیت واجب ہوگیلیکن اگر حاملہ عورت خود ہی بچے کو سقط کرے، تو اسے بچے کے ورثاء کو اسکی دیت ادا کرنی چاہیے اور اس دیت میں خود اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر دیت کے ساتھ ساتھ کفارہ جمع بھی واجب ہےیعنی اسے چاہیے کہ ایک غلام آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل دو ماہ روزے بھی رکھے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا بھی کھلائےاور اگر چند لوگوں نے مل کر کسی ایک شخص کو قتل کیا ہو، تو ان سب پر کفارہ واجب ہے(تحریر الوسیلہ۔ ج۲۔ ص۵۹۷، ۵۹۸اور۶۰۶)

ان سخت احکام میں سے ہر حکم، انسانی قتل اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے کے گناہ کی سنگینی کو واضح کرتا ہےلہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس عمل سے شدت کے ساتھ پرہیز کریںکیونکہ ان ظاہری سزائوں کا مستوجب بننے اور دنیوی رسوائی کا مستحق قرار پانے کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں معنوی رسوائی بھی ان کا مقدر بنے گی۔ مکافات ِعمل میں قتل کی مکافات بھی شامل ہے، جو بہت جلد قاتل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہےمناسب ہوگا کہ اس حوالے سے موجود سیکڑوں مثالوں میں سے، یہاں صرف دو مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔

۱علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ:اصفہان کے نواحی جنگل میں ایک شخص نے ایک مسلمان کو قتل کردیاپھر اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے مقتول کی لاش ایک کنویں میں پھینک دیمقتول کا کتا اس کنویں کے پاس آتا اور اس کے اطراف کی مٹی کنویں میں ڈالنے لگتا اور جوں ہی قاتل کودیکھتا اس کی جانب لپکتا اور زور زور سے بھونکنے لگتاکتے کے باربار یہ عمل دھرانے سے مقتول کے ورثاء کوتشویش ہوئیان لوگوں نے اس کنویں میں تلاش کیا، تو انہیں وہاں مقتول کی لاش مل گئیاسکے بعد انہیں اس شخص کے بارے میں شک ہوا جس کی جانب کتاباربار لپکتا تھا۔

۸۶

 اس شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا اور بالآخر اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا(بحارالانوار ج۶۲۔ ص۶۰) وہ شخص رسوا ہوا اور اسے اسکے جرم کی سزادی گئی۔

۲ایک ظالم اور بے رحم سردار، ایک دن ایک نیک دل شہزادے کے یہاں دعوت پر اس کے دسترخوان پر بیٹھا تھا۔ اتفاق سے اس دسترخوان پر دو بھنے ہوئے تیتر رکھے گئےجوں ہی اس سردار کی نگاہ ان تیتروں پر پڑی، یہ انہیں دیکھ کر ہنسنے لگاشہزادے نے جب اس سے اس بے موقع قہقہے کی وجہ پوچھی تو سردار نے جواب دیاکہ ایک روز جنگل میں مجھے ایک تاجر ملا، میں نے اسے پکڑا، اسکا مال و اسباب لوٹا اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیاوہ تاجر میرا ارادہ بھانپ گیا، اسی اثنا میں اس تاجر کی نگاہ ایک پہاڑی پتھر پر بیٹھے ہوئے دو تیتروں پر پڑی، تاجر نے ان تیتروں کو مخاطب کرکے کہا :اے تیترو! گواہ رہنا کہ یہ شخص میرا قاتل ہے۔

آج جب دسترخوان پر مجھے یہ دو تیتر بھنے ہوئے نظر آئے تو مجھے اس تاجر کی بے وقوفی یاد آگئی کہ وہ جن تیتروں کو اپنے قتل کا گواہ بنا رہا تھا وہ خود ذبح ہوکر ہماری خوراک بن رہے ہیں اور اب گواہی دینے کے لیے زندہ نہیں رہے ہیں۔

نیک دل شہزادے نے اس ظالم سردار سے کہا:اتفاقاً تیتروں نے گواہی دے دی ہےپھر اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اس سردار کی گردن اڑادی جائےاور یوں آخر کار اس ظالم کو اپنے جرم کی سزا بھگتنی پڑی۔ (حیات الحیوان)

۸۷

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ ؑکے اقوال میں انسانی قتل کا گناہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے کہ:جب کبھی مسلمانوں میں سے دو افراد ناحق ایک دوسرے کے خلاف تلوار نکال لیں، اور اس مڈبھیڑ کے دوران ان میں سے کوئی ایک مارا جائے، تو یہ دونوں افراد جہنمی ہوںگے۔

اس موقع پر موجود افراد میں سے ایک نے سوال کیا:اے اللہ کے رسولؐ! مقتول کیوں جہنمی ہوگا؟ آنحضرت ؐنے جواب دیا: لانّہ اراد قتلاً (کیونکہ وہ بھی قتل کا ارادہ رکھتا تھاوسائل الشیعہ ۔ ج۱۱۔ ص۱۱۳) لیکن اس کاارادہ پورا نہ ہوسکا اور وہ خود مارا گیا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:مَنْ اَعٰانَ عَلٰی قَتْلِ مُؤمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ لَقَی اللهُ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ مَکْتُوباًبَیْنَ عَیْنَیُهِ آیِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ (جو شخص کسی مومن کو قتل کرنے میں کسی قاتل کی مدد کرے (چاہے یہ مدد ایک لفظ کہہ کر ہی کیوں نہ کی گئی ہو) تو ایسا شخص روزِ قیامت خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکی پیشانی پر تحریر ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہےکنزالعمال۔ حدیث۳۹۸۹۵)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:قَتْلُ الْمُؤْمِنِ اَعْظَمُ عِنْدَاللهِ مِنْ زَواٰلِ الدُّنْیٰا (خدا کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کی بربادی سے زیادہ بڑی (بری) بات ہے۔ کنزالعمال حدیث۳۹۸۸۰)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے:مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّداً اَثْبَتَ اللهُ عَلٰی قٰاتِله جَمیعَ الذُّنُوبِ (جوشخص کسی مومن کو عمداًقتل کرتا ہے، تو خدا وند ِعالم مقتول کے تمام گناہ اس (قاتل) کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہےوسائل الشیعہ ج۔ ۱۹۔ ص۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے:جس شخص نے کسی مومن کو قتل کیاہو، جب اس شخص کی موت کا وقت آتا ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اسلام کے سوا جس دین پر چاہو مرو، چاہوتو یہودی، چاہو تو عیسائی اور چاہو تو مجوسی مرو۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال (مترجمہ فارسی) ص۲۳۵)

۸۸

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: قیامت کے روز سب سے پہلے اس شخص کا محاکمہ ہوگا جس نے کسی انسان کا خون بہایا ہوگاآدم کے بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کو لایا جائے گا اور ان کے بارے میں فیصلہ ہوگا (اور ہابیل کو قتل کرنے کے جرم میں قابیل کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا)اسکے بعد زمانے کی ترتیب کے لحاظ سے دوسرے افراد کو لایا جائے گا اور ان کا محاکمہ ہوگا، یہاں تک کے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے گاہر مقتول اپنے قاتل کو میدان میں لائے گااس موقع پر مقتول کا چہرہ اپنے خون سے رنگین ہوگا اور وہ لوگوں سے کہہ رہا ہوگا کہ: اس شخص نے مجھے قتل کیا ہےاور خدا وند ِعالم قاتل سے کہے گا کہ:کیا تو نے اس شخص کو قتل کیا ہے؟ اور (اس وقت) قاتل میں اتنی طاقت نہ ہوگی کہ وہ اپنا معاملہ خدا سے پوشیدہ رکھ سکے۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال(مترجمہ فارسی)۔ ص۲۳۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:واٰدٍفِی جَهَنَمَ لَوْ قَتَلَ النّٰاسَ جَمیعاً کٰان فِیهِ، وَلَوْ قَتَلَ نَفْساًواٰجدَةٌ کٰانَ فِیهِ (دوزخ میں ایک وادی ہے، اگر کوئی شخص تمام انسانوں کو قتل کردے تو یہ وادی اس کا ٹھکانہ ہوگی اور اگر کسی نے ایک انسان کو بھی قتل کیا ہوگا، تو اسے بھی اسی وادی میں ڈالا جائے گامیزان الحکم تہ۔ ج۸۔ ص۳۹)

نیز آپ ؑہی کا ارشاد ہے: خدا وند ِعالم نے حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو وحی کی کہ بنی اسرائیل سے کہو کہ انسانوں کو قتل کرنے سے پرہیز کریںکیونکہ جوشخص کسی مومن کو ناحق قتل کرے گا، تو خدا وند ِعالم اسے آتش دوزخ میں سو مرتبہ اس طرح قتل کرے گا جس طرح اس نے (اس انسان کو) قتل کیا ہوگا(اختصاص ازشیخ مفید۔ ص۲۳۵)

۸۹

ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ:رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا ایک مسلمان کا قتل ہوا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اسکا قاتل کون ہےرسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیظ میں آگئے اور اسی وقت لوگوں کو مسجد میں طلب کیا، منبر پر تشریف لے گئے اور حمدوثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:مسلمان کا قتل ہوتا ہے اور کسی کواسکے قاتل کا پتا نہیں !اُس خدا کی قسم، جس کے اختیار میں میری جان ہے، جب بھی آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں نے کسی مومن کے قتل پر اتفاق کیاہے، یا اس پر اظہارِ رضا مندی کیا ہے، تو خداوند ِعالم نے ان سب کو آتشِ جہنم میں ڈالا ہےخدا کی قسم، جوکوئی بھی ظلم کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک تازیانہ مارے گا، تو روز ِقیامت آتشِ جہنم کے درمیان ویسے ہی تازیانے سے اسے پیٹا جائے گا۔۔۔ ۔ (بحارالانوارج ۱۰۴۔ ص۳۸۴)

انسانی قتل کے گناہ کی سنگینی کو بیان کرنے والی سیکڑوں روایات میں سے منتخب کردہ مذکورہ روایات میں سے ہر روایت انسانی قتل کو سخت اور درد ناک سزائوں کی وجہ بننے والا گناہ قرار دیتی ہے اور مسلمانوں کو اس خطرناک عمل کے ارتکاب سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

۹۰

انسانی قتل میں تعاون کا گناہ

جس طرح انسان کو قتل کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہےاسی طرح کسی انسان کے قتل میں تعاون کرنا بھی سخت اور بڑے گناہوں میں سے ہےچاہے یہ تعاون براہِ راست نہ بھی کیا گیا ہو، انتہائی معمولی اور خفی ہی کیوں نہ ہو، چاہے مدد کرنے والے نے صرف ایک لفظ کے ذریعے ہی مدد کی ہو، تب بھی ایسا شخص شریک ِجرم اور ” اعوان الظّلمۃ“ سمجھا جائے گا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی متعدد روایات اس مسئلے پر تاکید کرتی ہیں، آیات ِقرآنی بھی اس نکتے پر گواہی دیتی ہےمثلاً ارشادِ الٰہی ہے:وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور گناہ اور ظلم وستم میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرناسورہ مائدہ۵۔ آیت۲)

اس حوالے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہلِ بیت علیہم السلام کے چند اقوال قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:

رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لَوْ اَنَّ رَجُلًا قُتِلَ بِالْمَشْرِقِ وَآخَرُ رَضِیَ بِهِ بِالْمَغْرِبِ کانَ کَمَنْ قَتَلَهُ وَشَرَکَ فِی دَمِهِ (اگر مشرق میں کسی شخص کا قتل ہو، اور مغرب میں رہنے والا کوئی شخص اس قتل پر راضی ہو، تو (یہ شخص بھی) قاتل کی مانند ہے اور مقتول کے خون میں شریک ہےبحارالانوار۔ ج۱۰۴۔ ص۳۸۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:قیامت کے دن ایک شخص کو ایک دوسرے شخص کے پاس لائیں گےپہلا شخص دوسرے شخص کو خون سے رنگین کرے گاجب دوسرا شخص اس سے خون آلود کرنے کی وجہ پوچھے گا، تو وہ جواب دے گا کہ: تم نے فلاں دن میرے بارے میں فلاں کلمہ کہا تھا جس کی وجہ سے میرا خون بہایاگیا تھا، آج تم اس کا جواب دو۔ (ثواب الاعمال ازشیخ صدوق(مترجمہ فارسی)ص ۶۳۴)

۹۱

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ مسجد ” جھینہ“ میں ایک مقتول کا جنازہ رکھا ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور پیدل اس مسجد کی جانب تشریف لے گئےلوگوں کو پتا چلا تو سب اس مسجد میں جمع ہوگئےرسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ اس شخص کو کس نے قتل کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا:اے اللہ کے رسول ؐ! ہمیں پتا نہیں آنحضرت ؐنے فرمایا:کیا یہ مناسب بات ہے کہ کسی مسلمان مقتول کا جنازہ مسلمانوں کے درمیان موجود ہو اوروہ اس بات سے بے خبر ہوں کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟ اس خدا کی قسم جس نے مجھے اپنی نبوت کے لیے برحق معبوث کیا ہے، اگر آسمانوں اور زمین کے رہنے والے تمام لوگ کسی مسلمان کا خون بہانے میںشریک ہوں، یا اس عمل پر راضی ہوں، تو خداوند ِعالم ان سب کو منھ کے بل آتشِ جہنم میں پھینک دے گا(ثواب الاعمال ازشیخ صدوق (مترجمہ فارسی)۔ ص۶۳۷)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے: قیامت کے دن ایک انسان کو لے کے آئیں گے جس نے دنیا میں کسی کا خون نہیں بہایا ہوگاپھر اسے خون سے بھرا ہوا ایک چھوٹا سا برتن دیں گے اور اس سے کہیں گے کہ یہ فلاں مقتول کے خون میں تمہارا حصہ ہےوہ عرض کرے گا: بارِ الٰہا! تو جانتا ہے کہ میں نے پوری زندگی کسی کا خون نہیں بہایاخداوند ِعالم فرمائے گا: ہاں (درست ہے لیکن) تو نے فلاں شخص کی ایک بات سنی اور اسے دوسروں سے نقل کیایہ بات دوسروں تک پہنچی، یہاں تک کہ وہ بات اس زمانے کے ظالم حکمراں کو بتائی گئی اور اس ظالم حکمراں نے اس شخص کو قتل کردیالہٰذا تو نے اس مقتول کا خون بہانے میں اتنا حصہ لیا ہے(محاسنِ برقیص ۱۰۴، بحار الانوارج ۱۰۴ص ۳۸۳)

۹۲

ہم اس امید کے ساتھ اس موضوع پر اپنی گفتگو تمام کرتے ہیں کہ یہ آیات وروایات اور دل ہلادینے والے کلمات ہم سب کے لئے باعث ِانتباہ ہوں گے اور ہم سختی کے ساتھ اس بات کا خیال رکھیں گے کہ کبھی کہیں کسی بے گناہ کا خون بہانے میں شریک نہ ہوں جس کی سزا انتہائی شدید ہے اور خدائے رحمٰن کے خاص بندے ہر قسم کی خونریزی سے شدت کے ساتھ پرہیز کرتے ہیں۔

اس گفتگو کو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ایک انتباہی حدیث پر ختم کرتے ہیں۔

مولا کی خدمت میں تین افراد کو لایا گیا اور بتایا گیا کہ ان میں سے ایک نے ایک شخص کو پکڑا اور اس کی نگرانی کرتا رہا، دوسرا آیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور تیسرا یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور انہیں روکنے کی کوشش نہیں کیحضرت علی ؑنے فیصلہ سنایا کہ: جس شخص نے مقتول کی نگرانی کی اسے قید کر دیا جائے، یہاں تک کہ قید ہی میں اس کی موت واقع ہوقتل کرنے والے شخص کو سولی پر چڑھادیا جائے اور جس شخص نے اس پورے واقعے کو دیکھا، اس کا تماشائی رہا اور اس کا سد ِباب نہیں کیا، سلائی پھیر کر اس کی آنکھیں اندھی کردی جائیں(بحار الانوارج۱۴ص ۳۸۶)

۹۳

ناجائز صنفی تعلقات سے سخت اجتناب

قرآنِ مجید سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی خدا کے ممتاز اور خاص بندوں کی بارہ خصوصیات میں سے آٹھویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

وَلَا يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا

اور (وہ) زنا بھی نہیں کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا عمل انجام دے گا وہ اسکی بہت سخت سزا پائے گاسورئہ فرقان ۲۵آیت ۶۸

اس آیت میں خدا کے صالح اور نیکو کار بندوں کی ایک انتہائی اہم فضیلت بیان کی گئی ہےیہ اہم فضیلت عفت وپاکدامنی کی حفاظت، اور ہر قسم کے ناجائز صنفی تعلقات سے شدت کے ساتھ اجتناب ہےکیونکہ عفت کے منافی عمل ” زنا“ بے عفتی کی ایک انتہائی گھناؤنی صورت ہے۔

یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ صحت مند اور سالم معاشرے کا ایک عامل عفت وپاکدامنی اور عزت وناموس کے بارے میں ” غیرت“ کا اصول ہے، جس کی غیر معمولی اہمیت کے تمام انبیاء، ائمہ اور صاحبانِ عقل ودانش قائل ہیں، یہ اصول انسانی برادری اور مردوں اور عورتوں کے درمیان جائز اور معقول تعلقات کو تقویت پہنچاتا ہے اور بہت سی معاشرتی اور گھریلو خرابیوں، گمراہیوں اور بدبختیوں سے تحفظ کے لیے ایک مضبوط ڈھال ہے۔

زنا جو گھناؤنا ترین جنسی گناہ ہے اسکے بہت سے شرمناک اور تباہ کن اثرات ہیں اور جو خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ، فتنہ وفساد، خود کشی، منشیات کا عادی ہوجانا، قساوتِ قلبی اور بہت سے بڑے بڑے جرائم کی بنیاد بنتا ہےیہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے اس برے عمل کے قریب جانے تک سے منع کیا ہے اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:

۹۴

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى اِنَّه كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيْلًا

اور دیکھو زنا کے قریب بھی نہ جانا کہ یہ بدکاری اور بہت برا راستہ ہےسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۲

اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ زنا نہ کرنا، بلکہ کہتی ہے کہ اس شرمناک اور قبیح عمل کے قریب بھی نہ جانا، اس تعبیر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اکثر اوقات انسان ایسے مقدمات کے نتیجے میں زنا میں مبتلا ہوتا ہے جو اسے تدریجا ً اس عمل کے قریب لیجاتے ہیںلہٰذا انسان کو چاہیے کہ ان مقدمات سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کرےنظر بازی، عریانی، پردے کی طرف سے بے توجہی، ہیجان انگیز فلمیں دیکھنا، گمراہ کن لٹریچر کا مطالعہ اور بے راہ روی کا باعث بننے والی موسیقی اور گانوں کا سننا وہ باتیں ہیں جن میں سے ہر ایک جنسی گمراہی اور زنا کے ارتکاب کی وجہ بن سکتی ہے اور انسان کو بے راہ روی کی جانب لے جاسکتی ہے۔

زنا، اسلام کی نظر میں بہت بڑا گناہ ہے لہٰذا اُس میں اسے انجام دینے والے کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی ہےاگر محرم عورتوں کے ساتھ زنا کیا جائےیا زنائے محصنہ (یعنی شادی شدہ مرد یا شادی شدہ عورت زنا کا ارتکاب کرے) تو اسے سنگسار کرنے یا سزائے موت دینے کا حکم ہےاور اگر زنائے غیر محصنہ ہوتو پہلی مرتبہ ارتکاب کی صورت میں قاضی کے حکم سے زنا کرنے والے کو سو کوڑے مارے جائیں گےدوسری مرتبہ ارتکاب پر بھی اس پر یہی حد جاری کی جائے گیلیکن تیسری یا چوتھی مرتبہ اس جرم کے ارتکاب پر اس کے لیے سزائے موت کا حکم جاری کیا جائے گابعض مواقع پر زنا کرنے والے کو تازیا نے بھی مارے جائیں گے اور سنگسار بھی کیا جائے گاجیسے زنائے محصنہ کرنے والے بوڑھے مرد یا بوڑھی عورت کو(تحریر الوسیلہج۲ص۴۶۳)

ارتکاب ِزنا پر یہ سخت دنیوی سزائیں، اس گناہ کی شدت اور اسکے انتہائی برے اور تباہ کن اثرات کی جانب اشارہ ہیں اسلام جو ایک مقدس آئین ہے، اور سالم و صحت مند معاشرے اور ایک پرسکون گھریلو زندگی کا خواہشمند ہے، وہ ان سخت سزاؤں کے ذریعے ہر قسم کی جنسی گمراہی اور گناہ کی روک تھام چاہتا ہے، نیز یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرے کی عفت وپاکدامنی کو اس پر نقب لگانے والوں سے محفوظ رکھا جائے۔

۹۵

قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں، زنا کے مرتکب افراد کے لیے شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےمثلاً ارشاد ہوتا ہے:

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

زنا کار عورت اور زنا کار مرد، دونوں کو سو سو کوڑے لگاؤاور خبردار خدا کے دین کے معاملے میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا، اگر تمہارا ایمان اﷲ اور روزِ آخرت پر ہےاور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو اسکا مشاہدہ کرنا چاہیےسورئہ نور۲۴آیت۲

اس آیت میں تین ایسے نکات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک زنا کے اس سخت گناہ کے خلاف اسلام کے شدید موقف کی نشاندہی کرتا ہےپہلا نکتہ یہ ہے کہ: زنا کے مرتکب مرد اور عورت کو سو سو کوڑے لگائے جائیںدوسرا نکتہ یہ ہے کہ: اس حکم پر عمل درآمد کے موقع پر ان سے کسی قسم کی نرمی اور ہمدردی نہ کی جائے اور ان کے بارے میں قانونِ الٰہی کو دو ٹوک انداز میں جاری کیا جائےتیسرا نکتہ یہ ہے کہ: یہ حکمِ الٰہی برسر عام جاری کیا جائے، اور اس موقع پر کچھ لوگ موجود ہوں جو مجرموں کوکوڑے کھاتے دیکھیںتاکہ ایک طرف تو زنا کار اچھی طرح اس سزا کا مزہ چکھے اور دوسری طرف تماشائیوں کو بھی عبرت ہو اور وہ اس گناہ کے ارتکاب سے باز رہیں۔

۹۶

جنسی آلودگی سے پرہیز اور محفوظ رہنے کے راستے

یہاں سورئہ فرقان کی جس آیت پر گفتگو ہورہی ہے اُس میں عفت وپاکدامنی کی حفاظت اور جنسی گمراہی اور آلودگی (بالخصوص زنا) سے پرہیز کو خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی ایک صفت بتایا گیا ہے، نیز دوسری متعدد آیات میں بھی (جن میں سے ہم نے یہاں صرف دو کے بیان پر اکتفا کیا ہے) اس بڑے گناہ کے ارتکاب کی ممانعت کی گئی ہےلہٰذا سوال یہ ہے کہ اب ہم کون سے طریقے اختیار کریں جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ اس قبیح عمل کا مرتکب نہ ہو اور اس سے محفوظ رہے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس گناہ سے اجتناب اور اسکی روک تھام کے مجموعی طور پر دو راستے ہیں ایک نظری راستہ اور دوسرا عملی راستہ۔

پہلا راستہ جسے ہم نے نظری راستے کا نام دیا ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ اس گناہ کی شدت اور سنگینی کی طرف متوجہ رہا جائے اور جنسی گمراہی کی قباحت اور اسکے شرمناک آثار کے بارے میں ذہن کو حاضر رکھا جائے۔

اس طرح عقل، تجربے کی مدد کے ہمراہ ہم سے کہے گی کہ اگر جنسی گمراہی، بالخصوص زنا ہمارے معاشرے میں رائج ہوجائے (جیسا کہ پست مغربی تمدن میں دیکھا جارہا ہے اور لرزہ طاری کردینے والے اعداد وشمار اس کے گواہ ہیں) تو یہ بہت سی برائیوں اور تباہیوں کا موجب ہو جائے گاکیونکہ عفت وپاکدامنی کے منافی یہ عمل ایک طرف تو طرح طرح کے امراض مثلاً ” ایڈز“ کی لاعلاج مہلک بیماری کا باعث ہوا ہے، اور دوسری طرف اس نے وہاں کی نئی نسل کو گھر بسانے اور عائلی زندگی اپنانے سے دور رکھا ہے اور اس میں بے نظمی اور عزم وہمت میں کمی کا باعث بنا ہے۔

۹۷

عائلی زندگی گزارنے والوں اور رشتہ ازدواج کی بنیاد رکھنے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ گھر سے باہر جنسی تعلق کا قیام محبت بھری عائلی زندگی میں بحران اور بد اعتمادی کی وجہ بنتاہے اور اسکا آخری نتیجہ میاں بیوی کے درمیان طلاق اور خاندان کی تقسیم کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ زنا، ناجائز بچوں کی ولادت کا باعث ہے، جس کی وجہ سے وہ تعلق جو بچوں اور والدین کے درمیان قائم ہونا چاہیے وہ قائم نہیں ہوپاتا اور نتیجے کے طور پر افرادِ معاشرہ کا باہمی تعلق جس کی بنیاد اہل خانہ کے باہمی تعلقات پر استوار ہوتی ہے متزلزل ہوجاتا ہے اور معاشرہ زوال وانحطاط کی طرف چل پڑتا ہے۔

زنا کے عام ہوجانے کا ایک اور برا اثر یہ ہے کہ یہ عمل لوگوں کے ازدواجی زندگی سے دور ہونے کا باعث بن جاتا ہے اور اسکے نتیجے میں شادی کے نیک اور مثبت اثرات، جیسے روحانی سکون، صحیح اور فطری راستے سے جنسی خواہش کی تسکین، روحانی انس، زندگی کے کاموں میں باہمی تعاون، اچھے بچوں کی تربیت اور دوسرے اچھے معاشرتی اثرات مرتب ہونے کے بجائے گمراہی اور اس کے تباہ کن اثرات سامنے آتے ہیں۔

اس مسئلے پر غورو فکر، انسان کو اس برے عمل سے دور رکھے گا اور بڑی حد تک اسے جنسی گمراہی میں مبتلا ہونے بالخصوص پاکدامنی کے منافی عمل ” زنا“ کے ارتکاب سے باز رکھے گاکیونکہ کوئی بھی عقل مند آدمی ایسے عمل کا مرتکب نہیں ہوگا جو ایسے تباہ کن جسمانی اور روحانی اثرات کا باعث ہو، اور جس کے ایسے بھیانک نتائج برآمد ہوں۔

دوسرا راستہ جو عملی راستہ ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ یہ راستہ ہم سے کہتا ہے کہ ہمیں بے عفتی اور جنسی گمراہی کے عوامل واسباب سے آگاہ ہونا چاہئے اور اس سے چھٹکارے کے راستے جاننا چاہئیں اور منصوبہ بندی کے ذریعے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

۹۸

اس حوالے سے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنی نیت کو سالم اور پاک رکھیں، تاکہ ہمارا فیصلہ بھی پاک اور سالم ہو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: موسیٰ اپنے اصحاب سے کہتے تھے کہ زنا نہ کرنالیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ زنا کا خیال بھی دل میں نہ لانا (اس کے بعد انہوں نے یہ مثال پیش کی) اگر کوئی شخص ایک خوبصورت نقاشی سے مزین کمرے میں آگ جلائے، تو اس آگ کا دھواں اس کمرے کو دھواں آلود اور سیاہ کردے گا، اگرچہ آگ نے اس کمرے کو جلا کر راکھ نہیں کیا ہوگازنا کا خیال اسی دھویں کی مانند ہے جو انسان کے معنوی چہرے کو بدنما کردیتا ہے اگرچہ یہ چہرہ ختم نہیں ہوا ہوتا(سفینتہ البحارج۱ص۵۶)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم سلام اﷲ علیہا کی عفت، غیرت اور پاکیزگی کا عالم یہ تھا جب ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو ایک طرف تو آپ انتہائی خوش تھیں اور دوسری طرف یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں نادان لوگ ان کی پاکدامنی پر انگلیاں نہ اٹھائیں، مضطرب اور سخت پریشان بھی تھیں لہٰذا انہوں نے کہا کہ:

يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَكُنْتُ نَسْـيًا مَّنْسِـيًّا

اے کاش! میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور بالکل فراموش کردی گئی ہوتی سورئہ مریم۱۹آیت ۲۳

مغربی دنیا، جس کی اکثریت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کی پیروی کا دعویٰ کرتی ہے اور جس میں دن بدن بے راہ روی اور آوارگی بڑھ رہی ہے، درحقیقت حضرت عیسیٰ ؑاور ان کی والدہ حضرت مریم ؑکے دین وآئین سے دور ترین لوگ ہیں ان کی گستاخی اس حد تک جاپہنچی ہے کہ وہ حضرت مریم ؑکی تصویر کے طور پر ایک بدحجاب اور نیم عریاں عورت کی تصویر شائع کرتے ہیںیہ ایسی گستاخی اور شرمناک اہانت ہے جو یقینا حضرت مریم ؑکی پاک روح کو آزردہ کرتی ہوگیوہ آج اس صورتحال کو دیکھ کر فرماتی ہوں گی کہ: کاش! میں دنیا میں نہ آئی ہوتی اور بالکل بھلا دی گئی ہوتی اور مجھے اس قسم کی تصاویر اور مجسموں کی صورت میں پیش نہ کیا گیا ہوتا اور ایسی بے ہودہ تصو یر کے ذریعے، جس کا مجھ سے دور کا بھی واسطہ نہیں، میری عفت کا مذاق نہ اُڑایا گیا ہوتا۔

۹۹

بہرحال، فکر کی پاکیزگی کے مرحلے کے بعد ان عوامل واسباب کو پہچاننا اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے جو انسان کو جنسی گمراہی کے ہولناک گڑھے کے کنارے لے جاتے ہیں ان میں سے چند عوامل درج ذیل ہیں:

۱:- لوگوں کے سامنے بے حجابی یا حجاب سے بے پروائی کے ساتھ آناکیونکہ یہ چیز جنسی شہوت کی آگ کو بھڑکاتی اور جنسی آلودگیوں کا موجب ہوتی ہے۔

۲:- نگاہوں کو کنٹرول نہ کرنا اور وسوسہ پیدا کرنے والی نگاہوں سے اجتناب نہ کرنا۔

۳:- گمراہ کن فلموں اور شہوت انگیز مناظر دیکھنا اور مردوں اور عورتوں کا باہم مخلوط ہونا۔

۴:- بری باتیں سکھانے والی مطبوعات کا مطالعہ کرنا۔

۵:- ہیجان انگیز تصاویر دیکھنا۔

۶:- حرام غذاؤںکا استعمال اور پرخوری۔

۷:- برے دوستوں کی صحبت۔

۸:- شادی جو جنسی خواہش کی تسکین اور جنسی گمراہی سے نجات میں موثر کردار کی حامل ہے، اس میں بلاوجہ تاخیر کرنا۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177