عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف33%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92504 / ڈاؤنلوڈ: 6236
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

قینان کے بعد ان کے وصی مہلائیل اپنی قوم کے درمیان آئے اور انھیں خدا وند عالم کی اطاعت اور اپنے باپ کی وصیت کا اتباع کر نے کا حکم دیا۔

جب مہلائیل کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے فر زند ( یرد) کو اپنا وصی اعلان کیا اورحضرت آدم کے جسد کی حفاظت کی وصیت کی پھر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۱ )

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

قینان نے موت کے وقت اپنے فرزندمہلائیل کو اپناوصی قرار دیا اور انھیںاُس نور کے بارے میںجو ان تک منتقل ہوا ہے آگاہ کیا. مہلائیل نے بھی باپ کی سیرت کو لوگوں کے ساتھ قا ئم رکھا۔( ۲ )

مہلائیل وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے گھر بنا یا، مسجدیں قائم کیں اور معدن ( کان) کا استخراج کیا:

تاریخ طبری میں مذ کور ہے کہ :

حضرت مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹ کر(اس کی لکڑی سے فا ئدہ اٹھا یا اور) گھر بنایا اور معدن کے استخراج میں مشغول ہوئے. اور اپنے زمانے کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ عبادت کے لئے کسی مخصوص جگہ کا انتظام کر یں ،وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے روئے زمین پر شہروں کی بنیاد ڈالی؛ انھوں نے دو شہروں کی بنیا د ڈالی ہے ایک کوفہ کے اطراف میں با بل اور دوسرا شوش نامی شہر ہے۔( ۳ )

تاریخ کامل ابن اثیر میں مذکور ہے کہ :

مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے لوہے کا استخراج کیا اور اس سے صنعت کے آلا ت بنائے انھوں نے لو گوں کوزراعت اور کسانی کی تشو یق دلائی اور حکم دیا کہ درندہ جا نوروں کو مار کر اور ان کی کھال سے جسم چھپائیں. گا ئے، بھیڑ اور دیگر جنگلی حیوا نات کا سر کاٹ کر ان کے گو شت سے استفادہ کریں یعنی کھا ئیں۔( ۴ )

____________________

( ۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۰.(۲)مرآة الزمان،ص ۲۲۴ (۳)تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۶۸.(۴)الکا مل فی التاریخ،۱،ص ۲۲.

۶۱

مہلائیل ـ کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

اخبار الز مان میں مذکور ہے کہ :مہلائیل نے اپنے فرزند یو ارد( یرد ) کو اپنا جانشین بنایا اور حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دی اور زمین کے حصّوں اور اس بات کی کہ دنیا میں کیا ہو گا انھیں تعلیم دی؛ اور کتاب سر ملکوت کہ جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور جسے اوصیاء مہر شدہ اور لفافہ بند میراث پا تے تھے ان کے حوا لے کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.

۶۲

مہلائیل کے فرزند یوارد

* یوارد کا پیدا ہونا اور حضرت خا تم الا نبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کاان میں منتقل ہونا.

* ان کے باپ مہلائیل کی ان سے وصیت.

* یوارد کی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس پیغمبر )سے وصیت.

۶۳

یرد کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور ان میں نور کا منتقل ہو نا

مروج الذھب میں مذکور ہے:

یوارد،( ۱ ) مہلائیل کے فرزنددنیا میں تشریف لائے اور وہ نور جو ( ایک وصی سے دوسرے وصی تک)بعنوان ارث پہنچتا رہا ان تک منتقل ہوا ، عہد و پیمان ہوا اور حق اپنی جگہ ثابت اور بر قرار ہو گیا۔( ۲ )

مہلائیل کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

کتاب مرآة الزمان میں مذکور ہے:

مہلائیل نے اپنے فر زند یر دسے وصیت کی اور انھیںسرِّمکنون(پو شیدہ راز ) اور حضرت خاتم محمدمصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے انتقال کے بارے میں خبر دی. یرد نے صالحین اور نیک افراد کی سیرت اپنائی۔

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

مہلائیل کے بعد یرد ان کے جا نشین ہوئے.وہ ایک با ایمان اور خدا وند عزّوجل کے کامل عبادت گذار انسان تھے اورشب وروز میں بہت زیادہ نما زیں پڑھتے تھے۔

یرد کا زمانہ تھا کہ شیث کے فرزندو نے کئے ہوئے عہدوپیمان کو توڑڈ الا (اور شیث او ر دیگر افراد کی وصیت کے بر خلا ف، کوہ رحمت سے ) نیچے آکر قابیلیوں کی سرزمین پر ق دم رکھ د یا اور ان کے ساتھ گنا ہوں میں شر یک ہوگئے۔( ۳ )

یرد کی اپنے فرزند ادریس سے وصیت

جب یرد کی موت کا زمانہ قر یب آیاتوان کی اولاد اور اولاد کی اولاد یعنی اخنوخ،متوشلح، نوح اور لمک ان کے پاس جمع ہوگئے یرد نے ان پر درو د بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی اس گھڑی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس ) کو حکم دیا کہ ہمیشہ غا ر گنج میں(کہ جس میں حضرت آدم کا جسد ہے ) نماز پڑھیں، پھر آنکھ بند ہوئی او ر دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

( ۱)عربی توریت کے نسخوں میں یرد کو '' یوارد '' لکھا گیا ہے اور مرآة الزمان کے ص ۲۲۴ میں ''یرد'' کو توریت میں موجود یوارد کی تقریب کے عنوان سے استعمال کیا گیا ہے.تاریخ یعقوبی کی پہلی جلد کے دسویں(۱۰) صفحہ میں یوارد کو مخفف کر کے یرد لکھا گیا ہے.مروج الذھب،ج۱، ص ۵۰ پر ''لور '' کو تحریف کر کے استعمال کیا گیا ہے لیکن اخبار الزمان ص ۷۷ اور تاریخ ابن اثیر،ج۱،ص ۲۲ اور طبری ،ج ۱،ص ۱۶۸ پر یوارد ہی مرقوم ہے.(۲)مروج الذھب ،مسعودی ،ج۱،ص۵۰.(۳)تاریخ یعقوبی،ج ۱، ص ۱۱ ، اخبار الزمان ،ص۷۷.(۴) تاریخ یعقوبی،ج۱ ، ص ۱۱.

۶۴

خدا کے پیغمبر ادریس (اخنوخ)

* قرآن کریم میں ادریس کا نام.

* ا دریس سیرت کی کتا بوں میں

* آسمانی صحیفوں کا ادریس پر نازل ہو نا.

* خدا وند عالم نے ادریس کو مہینوں اور ستاروں کے اسماء تعلیم دئیے.

* ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سوئی اور دھاگہ کا استعمال کیا اور کپڑا سلا.

* حضرت ادریس کے عہد میں شیث اور قابیل کے فرزندوں کے درمیان اختلاط

* ادریس کی ا پنے بیٹے متوشلح سے وصیت.

۶۵

۱۔قرآن کریم میں ادریس کا نام

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِدْریسَ اِنَّه کَانَ صِدِّیقاًًناَبِیاً٭وَرَفَعْناَهُ مَکَاناًًعلیا ً )

اس کتاب میں ادریس کو یاد کروکہ وہ صدیق پیغمبر تھے.اور ہم نے ان کو بلند مقا م عطا کیا ہے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

الف۔ صدّیق:

اللہ اور اس کے پیغمبر وںکے تمام اوامر کی تصدیق کر نے والا.جیسا کہ سورہ ٔحدید میں فر ماتا ہے۔

( وَالَّذِینَ آمَنُوا بِا للّٰهِ وَرُسُله اُولئکَ هُمْ الصِّدِّ یقون... ) ( ۲ )

جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ہیںوہ لوگ صدیق ہیں۔

ایسی چیز کا امکان نہیں ہے مگر جب امر الٰہی کے قبول کرنے اور خواہشات نفسانی کے ترک کرنے میں انسان کا قول و فعل ایک ہو. اس لحا ظ سے صد یقین کا مر تبہ انبیا ء کے بعد ہے اور ہر نبی صدیق ہے لیکن بعض صد یقین انبیاء میں سے نہیں ہیں۔

ب۔ علیّاً :

علےّاً یہاں پر بلند و بالا مکان کے معنی میں ہے اور تو ریت میں مذ کورہے کہ اخنوخ خدا کے ہمراہ گئے لیکن دکھا ٰئی نہیں دئیے کیونکہ خدا نے ان کو اٹھا لیا تھا ۔

۲ ۔ ادریس سیرت کی کتابوں میں

ادریس کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور خا تم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ان میں منتقل ہو نا.

____________________

(۱) سورۂ مریم: آیت: ۵۶،۵۷.۲۔(۲) سورۂ حدید: آیت: ۱۹.

۶۶

تاریخ طبری میں مذ کو ر ہے۔

حضرت ادریس کے والد یرد اور ان کی ماں برکنا تھیں وہ اُس وقت پیدا ہوئے جب حضرت آدم کی عمر کے ۶۲۲ سال گذ ر چکے تھے. وہ اس اعتبار سے ادریس کہلا ئے کہ انھوں نے آدم اور شیث کے صحیفوں کا کافی مطالعہ کیا کرتے تھے ۔

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے پیغمبر حضرت ادریس ہیں. وہ نور محمدی کے حامل تھے اور یہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے لباس سل کر زیب تن کیا تھا ۔

حدیث میں مذ کور ہے کہ انبیاء حضرات کا رزق یا کاشت کاری کے ذریعہ حاصل ہوتا تھا یا جانوروں کی رکھوا لی کے ذ ریعہ سوائے ادریس پیغمبر کے کہ وہ خیاط یعنی درزی تھے۔

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: کوفہ میں مسجد سہلہ حضرت ادریس کا گھر تھا جہاں آپ سلائی کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔

جب ادریس ۶۵ سال کے ہوئے تو (ادانہ) نامی ایک عورت سے شادی کی اور اس سے متوشلح اور دیگر بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں پھر اس وقت شیث کی اولاد سے خدا کی عبادت کی درخواست کی اور یہ خواہش کی کہ شیطان کی پیروی نہ کریں. اور قابیلیوں سے برے اعمال ، زشت افعال اور گمراہی میں اختلاط نہ کریں، لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان میں سے بعض گروہ قابیلیوں سے مخلو ط ہوگئے ، محر مات اور گنا ہوں کا ارتکاب انکے درمیان حد سے زیادہ ہو گیا .جس قدر حضرت ادریس انھیں خیر کی طرف راہنمائی کرتے اور گنا ہوں سے روکتے وہ اتنا ہی سرپیچی کرتے اور برے کاموں سے دست بر دار نہیں ہوتے تھے. لہٰذا انھوں نے راہ خدا میں ان سے جنگ کی،کچھ کو قتل کیا اور قابیلیوں کی اولا د کے کچھ گروہ کو اسیر کر کے غلام بنالیا یہ تمام واقعات حضرت آدم کی زندگی میں رو نما ہو چکے تھے.

جب حضرت ادریس ۳۰۸ سال کے سن کو پہنچے تو حضرت آدم دنیا سے رحلت کر گئے.

ادریس نے ۳۶۵ سال کی عمر میں فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنے فرزند متوشلح کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور ان کو اور ان کے اہل وعیال کو یاد دہا نی کرائی کہ خدا وندعالم قا بیل کی اولاد اور جو ان کے ساتھ معا شرت رکھے گا اور ان کی طرف ما ئل ہو گا ان کو عذاب کرے گا ،لہٰذا اس اعتبار سے انھیں ان کی معاشرت اور اختلاط سے منع کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)تاریخ طبری،ج۱،ص۱۱۵، ۱۱۷

۶۷

اسی ہنگام میں ان کے وصی ( متوشلح) کا سن جو کہ نور محمدی کے حا مل تھے، ۳۰۰ سال ہو چکا تھااور ان کے آبا ء و اجداد یرد سے لے کر شیث تک سب کے سب زندہ و حیات تھے۔( ۱ )

حضرت ادریس پر آسمانی صحیفوں کا نزول اور ان کا سلا ئی کر نا

مروج الذ ھب میں مذ کور ہے:

یرد کے بعد آپ کے فر زند اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں باپ کے جانشین ہوئے. صابئین( ۲ ) کا خیال یہ ہے کہ ادریس وہی ھرمس ہیں اور وہی ہیں جن کے بارے میں خدا وند عزو جل نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے کہ انھیں بلند جگہ تک لے گیا ، ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خیا طی کی اور سلنے کے لئے سوئی کا استعمال کیا. ادریس پیغمبر پر ۳۰ صحیفے نازل ہوئے اور ان سے قبل حضرت آدم پر ۲۱ صحیفے اور شیث پر ۲۹ صحیفے نازل ہوئے ہیں کہ اس میں تسبیح وتہلیل کا تذ کرہ ہے۔( ۳)

خدا وند عالم نے حضرت ادریس کو بر جو اور ستاروں کے اسماء کی تعلیم دی

ادریس پیغمبر حضرت آدم کے زمانے میں پیدا ہوئے وہ پہلے آدمی ہیں جنھوںنے قا بیل کی اولاد اور پو توںکو اسیر کیااور ان میں سے بعض کو غلام بنا یا .آپ علم نجو م، آسمان کی کیفیت،بارہ برجوں اور کواکب و سےّارات کے بارے میں کا فی اطلا ع رکھتے تھے.خداوند عالم نے انھیں ان تمام چیزوں کی شناخت کے بارے میں الہا م فر مایا تھا ۔( ۴ )

ادریس کے زمانے میں شیث اور قابیل کے پوتوںکے درمیان اختلاط

تاریخ یعقوبی میں مذ کو ر ہے:

یردکے بعد ان کے فرزند اخنوخ اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور خدا وند سبحا ن کی عبا دت میں مشغول ہوگئے اخنو خ کے زمانے میں حضرت شیث کی اولاد اور اولاد کی اولاد ان کی عورتیں اور ان کے بچے( کوہ رحمت سے ) نیچے آ گئے اور قابیلیوں کے پاس چلے گئے اور ان سے خلط ملط ہوگئے. شیث کے پوتوں کا یہ کارنامہ حضرت اخنوخ کو گراںگذر ا،لہذا اپنے فرزند متوشلح اور پوتے لمک اور نوح کو بلا یا اور ان سے کہا:

____________________

(۱)تاریخ طبری ج۱ ، صفحہ ۱۱۷ اور ۱۱۸ ملاحظہ ہو.(۲)فرھنگ فارسی معین،ج۵،ص ۹۶۳ ملاحظہ ہو.(۳)مروج الذھب، مسعودی، ج۱،ص۵۰ (۴)۔مرآة الزمان ۔ص ۲۲۹.

۶۸

''میں جا نتا ہوں کہ خدا وند عالم اس امت کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان پر رحم نہیں کرے گا ''.

اخنوخ وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قلم ہا تھ میں لیا اور تحریر لکھی. انھوں نے اپنے فرزندوں کو وصیت کی کہ خدا کی خا لصا نہ انداز میں عبادت کریں اور صدق ویقین کا استعمال کریں۔

پھر اُس وقت خدا نے حضرت ادریس کو زمین سے آسمان پر اٹھا لیا( ۱ ) .

جو کچھ ذ کر ہوا اس کی بناء پر حضرت ادریس صدیق اور نبی تھے ، خدا نے انھیں کتاب و حکمت عنایت کی تھی اور انھوں نے اپنے زمانے کے لو گوں کو اللہ کی شریعت کی طرف راہنمائی کی تھی پھر خدا نے انھیں بلند مقام عطا کیا ان تمام چیزوں اور خوبیوں کے باوجود وہ اپنی قوم کی پیغمبری کے لئے خدا کی طرف سے مبعوث نہیں ہوئے اور خدا کی طرف سے کسی آیت اور معجزہ کے ذریعہ ان کے ڈرانے والے اور منذ ر نہیں تھے.

طبقات ابن سعد میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے نبی حضرت ادریس تھے کہ وہی اخنوخ یرد کے فرزند ہیں...اخنوخ کے فرزند کا نام متوشلح تھا جو کہ اپنے باپ کے وصی تھے، ان کے علاوہ دیگر اولاد بھی تھی متوشلح کے فرزند لمک ہیں جو اپنے باپ کے وصی تھے اور ان کے علاوہ بھی دیگر اولاد تھی لمک کے فرزند حضرت نوح تھے( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۱،طبع بیروت دار صادر؛تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۷۳، ۳۵۰ طبع یورپ؛

طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں؛

اخبار الزمان،ص،۷۷ ؛مروج الذھب،ج۱،ص۵۰، مرآة الزمان،ص ۲۲۹ ؛

ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی خبر تاریخ یعقوبی اور مرآة الزمان میں آئی ہے.

(۲)طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں.یوارد کی وصیت اپنے فرزند اخنوخ سےکتاب اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

یوارد نے اخنوخ کو وصیت کی اور ان تمام علوم کی انھیں تعلیم دی جو خود جا نتے تھے اور مصحف سّر انکے سپرد کیا.

۶۹

اخنوخ یا ادریس پیغمبر کے فرزند متوشلح

* ادریس نے اپنے فرزند متوشلحکو وصیت کی اور انھیں حضرت خا تم الا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم

کے نور سے جو ان میں منتقل ہوا تھا آپ نے آگاہ کیا.

* شہروں کا ان کے ذریعہ آباد ہو نا.

* سب سے پہلے انسان جو سواری پر سوار ہوئے.

۷۰

حضرت ادریس کا اپنے فرزند سے وصیت کرنااور خا تم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانور

اخبار الز مان نامی کتاب میں مذ کور ہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کی کیو نکہ خدا وند سبحان نے انھیں وحی کی تھی کہ اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کرو کہ میں بہت جلد ہی ان کی صلب سے ایک پیغمبر مبعو ث کروں گا جس کے افعال میری رضا یت اور تا ئید کے حا مل ہیں۔( ۱ )

مرآة الزّمان نامی کتاب میں مذ کورہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح سے وصیت کی اور چو نکہ ان کے ساتھ عہد وپیمان کیا لہٰذا وہ نور جو ان کی طرف منتقل ہوا تھا ( حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ) اُس سے آگاہ کیا.متوشلح وہ پہلے آدمی ہیں جو اونٹ پر سوار ہوئے ۔( ۲ )

مروج الذھب نامی کتاب میں مذ کور ہے:

متوشلح اخنوخ کے فرزند اپنے باپ کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور شہروں کے بسانے میں مشغول ہوگئے اور ان کی پیشانی میں ایک تابندہ نور درخشاں تھا( ۳ ) اور وہ حضرت ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور تھا۔( ۴ )

تاریخ طبری میں مذکور ہے:

اخنوخ نے اس(متوشلح) کو فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور دنیا سے رحلت کر نے سے قبل ان سے اور ان کے اہل وعیال سے لازم وصیت فر مائی اور انھیں آگا ہ کیا کہ خداوندعالم بہت جلد ہی قابیلیوں اور جو ان کے ساتھ ہیںیا ان کے دوستدار ہیں ان پر عذا ب نازل کرے گا. اور

____________________

(۱) اخبار الزمان، ص، ۷۹.(۲) مرآة الزمان ص ۲۲۹، میں انھیں '' متوشلح '' یا '' متو شلخ '' کہا گیا ہے.(۳) اخبار الزمان،ص ۷۹ ؛مرآة الزمان،ص ۲۲۹ میں کہا گیا ہے کہ وہ '' متوشلح '' ہیں یا '' متو شلخ '' مروج الذھب،ج۱،ص ۵۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱ ،ص ۱۷۳.(۴) مروج الذھب، ج۱، ص ۵۰.

۷۱

انھیں ان کے ساتھ خلط ملط ہو نے سے منع کیا۔( ۱ )

سب سے پہلے سوار

تاریخ طبری میںمذکور ہے:

وہ (متوشلح) سب سے پہلے آدمی ہیں جو مر کب پر سوار ہوئے وہ جہا د میں اپنے باپ کے پیرو تھے اور اپنے ایام حیا ت میں خدا وند رحمان کی اطا عت وعبادت میں اپنے آباء و اجداد کی راہ اختیا ر کئے تھے ۔( ۲ )

____________________

(۱) تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۳.( ۲) تاریخ طبری،ج۱،ص۱۷۳.

۷۲

متوشلح کے فرزند لمک

* لمک سے متوشلح کی وصیت

* شیث اور قا بیل کے فرزندوں کا ازدواج اور ان کی

نسلوں کا اختلا ط اور سر کش وبا غی اور تباہ نسل کا دنیا میں آنا.

* حضرت شیث کی نسل سے ۸ افراد کا تنہا رہ جانا.

* لمک کی نوح سے وصیت.

متوشلح کی اپنے فرزند لمک سے وصیت

تاریخ طبری اور اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

جب متوشلح کی موت کا وقت قر یب آ یا ، تو اپنے بیٹے لمک (جا مع کے معنی میں ہے) کوجو نوح کے والد تھے وصیت کی اور ان سے عہد لیا اور حضرت ادریس پیغمبر کی مہر کردہ کتابیں اور صحیفے ان کے حو الے کئے اس طرح سے وصیت ان تک منتقل ہوئی۔( ۱ )

شیث اور قا بیل کے پو توں کاباہمی ازدواج اور اس شادی کے نتیجے میں ظا لم و جا بر، سرکش و باغی نسل کا دنیا میں آنا

مروج الذھب میں مذکور ہے :

لمک کے زمانے میں بہت سے واقعات اور نسلوں کے اختلا ط ظا ہر ہوئے ،( ۲) یعنی حضرت شیث اور قا بیل ملعو ن کی نسل کا اختلاط۔

تاریخ یعقوبی میں اختصا ر کے ساتھ مذ کورہے:

لمک اپنے باپ کے بعد خدا کی اطا عت اور عبادت میں مشغول ہوگئے.ان کے زمانے میں سرکشوں اور ستمگروں کی تعداد میں اضا فہ ہو گیا کیو نکہ شیث کے فرزندوں نے قا بیل کی لڑ کیوں سے ازدواج کر لیا تھا اور سرکش و ظالم لوگ ان سے پیدا ہوئے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان،ص،۸۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۸، طبع یورپ.(۲) مروج الذھب،مسعودی،ج۱،ص ۵۰.

۷۳

شیث کی اولاد میں سے صرف ۸ افراد کا باقی رہنا اور لمک کی نوح سے وصیت

جب لمک کی موت کا زمانہ قریب آیا تو نوح ، حام، سام،یافث اور ان کی عو رتوں کو بلا یا یہ لوگ آٹھ

آدمی تھے جو شیث کی اولاد میں بازماند گان میں شمار ہوتے تھے اور شیث کی اولاد میں ان ۸ افراد کے علاوہ کوئی(سچے دین پر) باقی نہیں رہ گیا تھا۔اور باقی لوگ کوہ مقدس سے نیچے اتر آئے اور قابیل کی اولا دکے پاس چلے گئے اور ان سے آمیز ش و اختلاط پیدا کر لیا تھا. لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور ان سے کہا:

اُس خدا وند متعال سے سوال کرتا ہوں جس نے آدم کو پیدا کیا کہ وہ ہمارے باپ آدم کی بر کت کو تم پر باقی رکھے اور سلطنت و قدرت تمہاری اولاد میں قرار دے..

اے نوح! میںمر جا ئوں گا اور اہل عذا ب میں سے تمہارے علاوہ کو ئی نجات نہیں پا ئے گا جب میں مر جا ؤں تو میرا جنا زہ غار گنج میں جہ حضرت آدم کا جنازہ ہے رکھ دینا اور جب خدا کی مرضی ہو کہ کشتی پر سوار ہو تو ہمارے باپ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے ساتھ اسے لے کر پائینتی کی طرف جا ؤ اور کشتی کے اوپر ی کمرہ میں رکھدو اور تم اور تمہاری اولادکشتی کے مشرقی سمت میں اور تمہاری بیوی اور بہوویں مغر بی سمت میں جگہ لیں.جسد آدم کو تمہارے درمیان میں ہو نا چا ہئے ، نہ تم ان عورتوں تک دستر سی رکھو اور نہ وہ عورتیں تم تک رسائی رکھیں نہ ان کے ساتھ کھا ؤ اور نہ ہی پیو اور ان سے نزدیک نہ ہو یہاں تک کہ کشتی سے باہر آجاؤ... جب طوفان تھمے اور کشتی سے نیچے اترجاؤ تو حضرت آدم کے جسد پر نماز پڑ ھو۔اس کے بعد اپنے فرزندارشد سام سے وصیت کرو کہ جسد حضرت آدم کو اپنے ہمراہ لے جائے اور زمین کے بیچ میں رکھ دے اور کسی ایک فرزند کو مقرر کرو کہ اس کے پاس رہے۔

یہاں تک فرمایا کہ :

خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو اس ( سام )کا راہنما قرار دے گا تا کہ اس کا مونس وغمخوار رہے اور زمین کے درمیان میں اس کی راہنما ئی کرے۔( ۱ )

٭٭٭

ہم حضرت نوح سے پہلے کے اوصیاء وانبیاء کے حالات کو قرآن کریم اوراسلامی منابع کی رو سے اتنی ہی مقدار میں نقل کرنے پر اکتفاء کر تے ہیں، اب خدا کی تائید و مرضی سے ان کی سوانح توریت سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی،ج،۱،ص۱۲،۱۳،طبع بیروت ۱۳۷۹ ھ.

۷۴

( ۴ )

پیغمبروں کے اوصیاء کی تاریخ توریت کی روشنی میں

توریت کی نقل کے مطابق حضرت نوح کے زمانے تک اوصیاء کی کچھ سر گذ شت

سفر تکوین اصحا ح پنجم میں مذکور ہے:

یہ کتاب میلاد آدم ہے جس دن خدا وند عالم نے آدم کو اپنے ہاتھ (دست قدرت) سے خلق فر مایا انھیں نر ینہ اور مادینہ پیدا کیا اور انھیں بر کت دی اور اسی روز تخلیق ان کا نام آدم رکھاحضرت آدم ایک سو تیس سال کے تھے کہ ان کی شکل وصورت کا ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام (شیث) رکھاآدم نے شیث کے پیدا ہونے کے بعد دنیا میں آٹھ سو سال زند گی گذاری اور اس مدت میں لڑکوں اور لڑکیوں کے باپ ہوئے (کثیر اولا دہوئی) حضرت آدم کی پوری مدت عمر نو سو تیس سال تھی اور آپ نے اسی عمر میں رحلت کی ہے.

شیث ایک سو پانچ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (انوش ) پیدا ہوئے شیث انوش کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سات سال زندہ رہے. اور اتنی مدت میں لڑ کوں اور لڑ کیوں کے مالک ہوئے شیث کی پوری مدت عمر ۹۱۲ سال تھی تب انتقال ہوا۔

انوش بھی نوّے سال کے تھے کہ ان کے فرزند (قینان) پیدا ہوئے انوش قینان کی پیدائش کے بعد آٹھ سوپندرہ سال زندہ رہے اور صاحب اولاد ہوئے پھر نو سو پانچ سال کی عمر میں رحلت کر گئے.قینان ستّر سال کے تھے کہ ان کے بیٹے ''مَہلَلْئِیْل'' ( مہلائیل) پیدا ہوئے، قینان مہلائیل کی پیدائش کے بعد آٹھ سو چالیس سال زندہ رہے اور ان بہت سے بیٹے اور بیٹیاں تھیں اور نو سو دس (۹۱۰ ) سال کی عمر میں وفات پائی۔

(مہلائیل) ۶۵ سال کے تھے کے ان کے فرزند (یارد) پیدا ہوئے مہلا ئیل یارد کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو تیس سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں وا لے ہوئے پھر انتقال کر گئے مہلا ئیل کی مدت عمر پورے ۸۹۵ سال ہے.

یارد ۱۶۲ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (اخنوخ ) پیدا ہوئے اخنوخ کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں والے ہوئے یارد کی پوری عمر ۹سو ۶۲ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے.

۷۵

اَخنوخ ۶۵ سال کے تھے کہ ان کے فرزند(مَتُو شَلَح)پیدا ہوئے. اخنوخ متوشلح کے پیدا ہونے سے خدا کے پاس جانے تک ۳۰۰ سال مزید زندہ رہے اور اس مدت میں صاحب اولاد ہوئے لہٰذا اخنوخ کی پو ری مدت حیات ۳۶۵ سال ہے اخنوخ خداکے جوار میں چلے گئے اس کے بعد کبھی دکھائی نہیں دئیے کیو نکہ خداوند عالم نے انھیں اٹھا لیا تھا۔

متوشلح ۱۸۷ سال کے تھے کہ ان کے بہت سے لڑ کے اور لڑ کیاں ہوئیں متوشلح کی پوری مدت حیات ۹۶۹ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے۔

(لا مک) ۱۸۲ سال کے سن میں صاحب فرزند ہوئے ان کا نام نوح رکھا اور کہا یہ بچہ ، ہمارے کاروبار اور اس زمین کے حا صل سے جس پر خدا نے لعنت کی ہے ہمیں بہرہ مند کرے گا۔

لا مک نوح کی پیدا ئش کے بعد ۵۹۵ سال زندہ رہے لڑکے اور لڑ کیاں پیدا ہوئیں لا مک کی پوری مدت حیا ت ۷۷۷ سال ہے پھر انتقا ل کر گئے،نوح پانچ سو سال کے تھے کہ ان کے بیٹے سام، حام اور یافث پیدا ہوئے۔

٭٭٭

اسی طرح توریت نے آدم اور نوح کے درمیان اوصیاء کے حالات نقل کرنے میںہر ایک کی مدت عمر کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے مگرا خنوخ کی خبر میں اس جملے (اور اخنوخ خدا کے پاس گئے کیو نکہ خدا وندعالم نے انھیں اُٹھا لیا تھا) کا بھی اضا فہ ہے. قرآن کریم نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر مایا ہے :

( و َ رَفَعْنٰاه مَکَا ناً علیّاً )

ہم نے اسے بلند جگہ پر اٹھا لیا۔

۷۶

اس بحث کا نتیجہ

خداوند عالم نے حضرت آدم کوبخش دیا اور انھیں لوگوںکی ہدایت اور اولین انسانوں کوجن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی ان کے زمانے کے انسا نوں کو جن اسلامی احکام کی ضرورت تھی اس کی تبلیغ کے لئے انتخاب کیا. پھر اس وقت انھیں اپنے پاس بلالیا اور ان کے بعد اوصیا ء شریعت کی حفا ظت اور پاسداری اور لوگوں کی ہدایت کے لئے اس کی تبلیغ کو اٹھ کھڑے ہوئے .انسان حضرت ادریس کے زمانے تک دھیرے دھیرے تہذ یب وتمدن سے نزدیک ہوتا گیا اور تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ زندگی کی راہ میں اسلامی احکام کی شرح وبیان کی نئے سرے سے ضرورت محسوس ہوئی یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے ادریس پیغمبر کو ان چیزوں کے لئے جن کی ان کے ہم عصر لوگوں کوضرورت تھی '' یعنی اسلامی احکام' ' کی وحی کی تو آپ نے بھی احسن طریقہ سے اپنی رسا لت انجام دی، خدا نے جس چیز کی انھیں وحی کی تھی لوگوں کی ہدایت کی خاطرانھیں تبلیغ کی ؛ اس کے بعد حکمت خدا وندی یہ رہی کہ انھیں بلند جگہ پرلے جا ئے ، خدا جانتا ہے کہ انھیں کیسے اور کہاں بلندی پر لے گیا ، اس بحث میں اس کی تحقیق کی گنجا ئش نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اسلا می مصا در میں انبیاء واوصیاء کی خبروں سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے وصی سے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے بارے میں جو کہ اس کو منتقل ہوتا تھا، عہد وپیمان لیا اور اس نے بھی اپنے بعد کے وصی کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اسے متعہد و پا بند بنایا۔اس عہد و پیمان پر تاکید قرآن مجید میں نما یاں اور روشن ہے:( وَإِذْ َخَذَ ﷲ مِیثَاقَ النّاَبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُول مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ََقْرَرْتُمْ وََخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ ِصْرِی قَالُوا َقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وََنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاهِدِین َ٭ فَمَنْ تَوَلَّی بَعْدَ ذَلِکَ فَُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ )

جب خدا وند عالم نے پیغمبروں سے پیمان لیا ،کہ چونکہ تمھیں کتاب وحکمت دی ، پھر جس وقت تمہارے پاس وہ پیغمبر جائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے تو تمھیں چا ہئے اُس پر ایمان لا کر اُس کی نصرت کرو( خدا وند عالم نے پیغمبروں سے فرمایا) آیا اقرار کر تے ہو اور اپنی امتوں سے اس کے مطابق پیمان لیا ہے؟

سب نے کہا ،ہاں : اقرار کرتے ہیں فر مایا اس پر گواہ رہنا کہ میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوںلہٰذا جو کوئی اس کے بعد( آخری رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کے بعد )حق سے رو گردانی کرے یقینا وہ فاسقوں میں ہو گا۔( ۱ )

طبری نے پہلی آیت کی تفسیر میں حضرت امام علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فر مایا:

____________________

(۱)آل عمران،۸۱ اور ۸۲

۷۷

خداوند عالم نے حضرت آدم اور ان کے بعد کے پیغمبر وں کو پیغمبری کے لئے مبعوث نہیں کیامگر یہ کہ ان سے حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلہ میں عہد وپیمان لیا پھر اس کے بعد اس آیت کی تلا وت فر ما ئی:

( وَاإِذْ اَخَذَاللّٰهُ مِیثَاقَ النَبْیِین... )

دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت سے نقل کیا ہے کہ آیہ کر یمہ اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ خدا وند فرما تا ہے : اس مطلب پر اپنی امتوں پر گواہ رہنا کہ میں تم پر بھی گواہ ہوں اور اُ ن پر بھی۔

لہٰذا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو بھی اس عہد و پیمان کے بعد ان تمام امتوں میں سے تم سے رو گردانی کرے وہ فاسقوں میں سے ہو گا۔( ۱ )

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قرطبی فر ماتے ہیں:

یہاں پر حضرت علی اور ابن عباس کے بقول ''رسول'' سے مراد حضر ت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

مؤلف فر ماتے ہیں:

یہ دو نوں مذ کورہ آیتیں اُن چند آیات کے مجمو عہ کے ضمن میں ذ کر ہوئی ہیں جو خود ہی ایسی بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی سے روایت کی گئی ہے، کہ جس کے آغا ز ہی میں خدا وند عالم نے اس طرح فر مایا:

( لَمْ تَرَ الَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ الَی کِتَابِ ﷲ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیق مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ )

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کتاب سے تھوڑا بہرہ مند ہوئے ہیں جب انھیں کتاب خدا وندی کی دعوت دی گئی تا کہ وہ لوگ اپنے درمیان قضا وت کر یں ، تو ان میں سے بعض گروہ نے پچھلے پاؤں لوٹ کر رو گردانی کی اور وہ لوگ اعرا ض( رو گردانی ) کر نے والوں میں ہیں؟( ۲ ) ( قُلْ اِنْ تُخَفُوا مَا فِی صَدُ وْرِکُم اَوتُبدُوهُ یَعْلَمهُ اللّٰهُ... )

(اے پیغمبر ) کہدو: اگر جو کچھ تم لوگ دل میں رکھتے ہو خواہ چھپا ؤ یا آشکا ر کرو خدا سب جانتا ہے۔( ۳ )

( قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ ﷲ فَاتّاَبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ ﷲ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَﷲ غَفُور رَحِیم )

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۳، ص ۲۳۶ اور ۲۳۸؛ زاد المسیر فی علم التفسیر، تالیف، ابن جوزی، ج۱، ص ۴۱۶؛تفسیرابن کثیر، ج۱، ص۳۷۸، الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ؛ اور تفسیر قرطبی، ج۴، ص ۱۲۵. (۲)سورۂ آل عمران، آیت:۲۳.(۳)سورۂ آل عمران، آیت:۲۹.

۷۸

(اے پیغمبر ) کہو: اگر خدا کو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تا کہ خدا تمھیں دوست رکھے اور تمہا رے گنا ہوںکو بخش دے۔( ۱ )

( قُلْ َطِیعُوا ﷲ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ ﷲ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ )

(اے پیغمبر ) کہو: خدا اور پیغمبر کی اطا عت کرو اگر ان دو سے رو گردانی کرو گے ، تو بیشک خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا ۔( ۲ )

چونتیسویں آیت ا ور اس کے بعد اسی سورہ میں بیان کر تا ہے کہ خدا نے آدم اور نوح کومنتخب کیا اور یہ کہ اس نے کس طرح عیسیٰ کو پیدا کیا اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا اور یہ کہ حواری ان پر ایمان لائے۔

پھر اس کے بعد فر ماتا ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َبْنَائَنَا وََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَا وََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲ عَلَی الْکَاذِبِینَ )

پھر جو بھی (حضرت عیسیٰ کے بارے میں ) علم آجانے کے بعد تم سے کٹ حجتی کرے، تو اس سے کہو: آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں، پھر مبا ہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیتے ہیں۔( ۳ )

پھر چند آیات کے بعد فرماتا ہے:

( یَااَهلَ الَکِتاب لِمَ تَلبِسُونَ الَحَقَّ بِِالبَاطِل وَ تَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ اَنْتُم تَعْلَمُون )

اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کے لباس میں ظاہر کرتے ہو ،جب کہ خود بھی جانتے ہو کہ حق چھپا رہے ہو؟( ۴ )

دوسری جگہ فر ماتا ہے:

( وَاِذَ اَخَذَ اللّٰهُ مِیثَاقَ النَّبیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ... )

جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا ، چو نکہ ہم نے تمھیں کتاب وحکمت بخشی ہے...( ۵ )

اس طرح سیاق آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند اعالم کی فرمایش سے مراد سورہ ٔآل عمران کی ۸۱ ویں

____________________

(۱)سورۂ آل عمران، آیت: ۳۱.(۲) سورۂ آل عمران، آیت: ۳۲.(۳) سورۂ آل عمران، آیت:۶۱(۴) سورۂ آل عمران، آیت:۷۱ (۵)سورۂ آل عمران، آیت:۸۱

۷۹

آیت میںکہ ا س میں فر ماتا ہے: (تمہا ری ہدایت کے لئے اے اہل کتاب! خدا کی طرف سے ایک رسول آیا جس نے تمہاری کتاب اور شریعت کی صداقت کی گو اہی دی، تا کہ ایمان لاؤ.اور اس کی نصرت کرو...)یہ چیز ہے کہ امتوں سے عہد لیا گیا ہے کہ حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر ایمان لائیں، جس طرح سے اس کی تفسیر ہم نے حضرت امیر المو منین علی سے نقل کی ہے. ان تمام چیزوں کے علا وہ اُن آیات کی طرف آپ کی تو جہ مبذول کریں گے جسے ہم نے کتاب کے آخر میں ''آخرین شریعت'' کے عنوان کے تحت ذ کر کیا ہے جیسے اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَعرِ فُونَهُ کَمَایَعِرفُونَ اَبْنَائِ هم )

اہل کتاب، خاتم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس طرح پہچا نتے ہیں جیسے کہ وہ اپنی اولا دکو پہچا نتے ہیں۔

ان تمام آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا وند متعال نے گزشتہ انبیاء سے عہد وپیمان لیا ہے کہ اپنی امتوں کو حضرت ختمی مرتبت کی رسا لت کے وجوب پر ایمان لا نے سے آگا ہ کریں( ۱ ) اور یہ بھی کہ ہرایک نبی نے اپنے وصی سے اس سلسلہ میں عہد وپیمان لیا ہے .جیساکہ اسلامی منا بع و مصادر سے حضرت نوح کے زمانے تک اس کی شرح وتفصیل گذر چکی ہے۔

یہ سب حضرت آدم سے حضرت نوح کے زمانے تک انبیا ء اور ان کے اوصیاء کی کچھ خبریں تھیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں شیث کے پو توں نے قا بیل کے پو توں سے آمیز ش اور اختلاط پیدا کیا اور نتیجہ کے طور پر ایک فاسد،سر کش، گمراہ ، بت پرست اور طاغی نسل کو جنم دیا۔

انشاء اللہ ان کے حالات کوحضرت نوح کے حالات کے ضمن میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)لباب التاویل فی معانی التنزیل معروف بہ تفسیر خازن ، متوفیّٰ ۷۴۱ھ، ج۱، ص۲۵۲.اورتفسیر البحر المحیط، ابوحیان،متوفیّٰ ۷۴۵ھ، ج۲، ص۵۰۸، ۵۰۹.اورتفسیر در منثور، سیوطی، متوفیّٰ ۹۱۱ھ، ج۲، ص۴۷، ۴۸.

۸۰

اس آیت میں قاتل کے لیے چار سخت سزائوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کاٹھکانہ دوزخ رہے گا، دوسرا یہ کہ وہ خدا کے غضب اور ناراضگی کا نشانہ بنے گا، تیسرا یہ کہ اس پر خدا کی لعنت پڑے گی اور چوتھا یہ کہ اسے خدا کے سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا

جس شخص نے کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے، یاروئے زمین پر فساد کی سزا کے علاوہ قتل کیا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا ہےسورہ مائدہ۵آیت ۳۲

اسلام نے قاتل کی دنیاوی سزایہ مقرر کی ہے کہ قصاص کے طور پر خود اسے بھی سولی پر چڑھا دیا جائےالبتہ اگر مقتول کے ورثاء اسے معاف کردیں، اور اسکے عوض دِیَت وصول کرلیں، یادیت بھی معاف کردیں تو وہ اس سزا سے بچ سکتا ہےلیکن اس کے باوجود قتل کے سخت گناہ سے اسے چھٹکارا نہیں مل سکے گا۔

کبھی کبھی ورثاء کا معاف کردینا بھی بے سود رہتا ہے اور قاتل کو لازماً سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہےایسا اس وقت ہوتا ہے جب وہ شخص شرپسندوں میں سے ہو اور سرد یا گرم اسلحہ کے زور پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا اور معاشرے کے امن و امان کو خطرے میں ڈالتا ہوایسے فرد کو ” محارب اور مفسدفی الارض“ کہا گیا ہے اور حکومت ِاسلامی اسے موت کی سزادیتی ہےاس بارے میں قرآنِ کریم میں ہے کہ:

۸۱

اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْ يُصَلَّبُوْا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ

بس خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کی یہی سزا ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھادیا جائے، یاان کے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں ارضِ وطن سے نکال باہر کیاجائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں سخت عذاب ہےسورہ مائدہ ۵۔ آیت۳۳

اس آیت کے ذریعے بھی انسانی قتل کے گناہ کی شدت واضح ہوتی ہے، جوسخت سزائوں کا موجب اور دنیا و آخرت کی ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔

انسان کے قاتلوں کے لیے قصاص اوردیت کی شدید سزائیں

معاشرے میںامن و امان ایک اہم ترین نعمت ہے جس کے زیر سایہ ایک صحت مند اور آئیڈیل معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہےاس کے برعکس امن وامان کا فقدان فتنہ و فساد، برائیوں اور طرح طرح کی آفات کا باعث ہےلہٰذا اسلام نے محکم اور سخت قوانین بناکر معاشرے کے مختلف شعبوں میں امن وامان کے تحفظ کی کوشش کی ہےپہلے مرحلے میں اسلام نے جان کی سلامتی پرزور دیا ہے اور امن وامان درہم برہم کرنے والوں کے لیے (اُخروی عذاب کے علاوہ) دنیوی سزائیں بھی تجویز کی ہیں۔ مثلاً قصاص کا قانون مقرر کیا ہے، جس پر اگر واقعی عمل ہو، تو انسانی قتل اور اُنہیں ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی روک تھام کی جاسکتی ہےقصاص اور حدودو دیات کا نفاذ معاشرے میں ایک پُرسکون اور سالم و صحت مند زندگی کی ضمانت فراہم کرے گاجیسا کہ قرآنِ مجید کہتا ہے کہ:

۸۲

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

صاحبانِ عقل تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، شاید تم اس طرح متقی بن جائو۔ سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۷۹

یعنی قصاص، انفرادی طور پر کسی سے انتقام لینے کانام نہیں، بلکہ یہ قانون آسودہ زندگی اور معاشرتی امن و سکون کا ضامن ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانوں کے قاتل سے قصاص نہ لیا جائے ایک مردہ معاشرہ ہےجس طرح علمِ طب، ذراعت اور ڈیری فارمنگ میں مویشیوں کی نگہداشت کے دوران خطرناک جراثیم کوختم کرنا ایک علمی اصول ہے، اسی طرح معاشرتی و سماجی علم میں جرائم پیشہ اور انسانوں کو قتل اور انہیں نقصان پہنچانے والے افراد کا قلع قمع کرنا ایک عقلی اور منطقی امر ہے۔

قصاص کا قانون عدل و انصاف کا ضامن اور زندگی وسکون کا باعث ہےاور معاشرے سے اضطراب، کشیدگی اور بے چینی کے خاتمے میں ایک موثر کردار کا حامل ہےیہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں قصاص کو تقویٰ کا موجب قرار دیا ہےیعنی قصاص، قتل وغارت گری کی روک تھام اور انسانوں کی جان و مال، عزت وآبرو کو نقصان سے بچانے کا باعث ہوتا ہےاس مقام پر یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ فرد اور معاشرے کا تقابل کیا جائے، تو معاشرے کو فرد پر تقدم اور فوقیت حاصل ہے۔

قتل کے علاوہ، انسانی بدن کو نقصان پہنچانے کا بھی قصاص ہےاگر کوئی کسی انسان کے ناک، کان، آنکھ، دانت، مختصر یہ ہے کہ اسکے بدن کے کسی بھی عضو کو نقصان پہنچائے، تو جسے نقصان پہنچاہے، اسے قانونی طور پر حق حاصل ہے کہ جس قدر اسے نقصان پہنچا ہے، اسی قدر نقصان پہنچانے والے سے اس کا قصاص لےاس بارے میں سورہ مائدہ کی ایک آیت ہے کہ:

۸۳

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ

اور ہم نے اس میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کابدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گاسورہ مائدہ ۵۔ آیت ۴۵

قانونِ قصاص، جسے اسلام نے انتہائی تفصیل اور جزیات کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ قانون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانی جان کو بہت زیادہ احترام حاصل ہے اور اس نے قانونِ قصاص مقرر کرکے چاہاہے کہ انسانی جان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ سکے۔

پس قانونِ قصاص، قانون حدودو دیات ہے جو خود اپنی جگہ سہواًاور بھول چوک سے بھی انسانوں کی جان اور معاشرتی امن و سکوں کی حفاظت کا ایک طاقت ور عامل ہے۔

سہواً اور غلطی سے سرزدہونے والا ہر گناہ، توبہ کے ذریعے معاف ہوجاتا ہےلیکن اگر کوئی بھولے سے اورنادانستگی میں کسی انسان کو قتل کردے، یا انسانی بدن کے کسی عضو کو نقصان پہنچابیٹھے، تو اسکی دیت ہے اور یہ حقوق العباد میں سے ہے جنہیں ادا کیے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔

دیت کے مسائل نہایت تفصیلی ہیں، جنہیں بیان کرنے کی اس مختصر مقالے میں گنجائش نہیں لیکن ہم یہاں مثال کے طور پر چند مسائل کا ذکر کرکے اسلام کی نظر میں انسانی جان کے احترام کی اہمیت جان سکتے ہیں۔ مثلاً چند چیزیں ایسی ہیں جن کی دیت اتنی ہی ہے جتنی ایک انسان کو قتل کرنے کی دیت ہوتی ہے۔

۸۴

مکمل دیت ایک ہزار مثقال سونا، یا سواونٹ یا دوسوگائیں ہےاگر کوئی کسی مسلمان کے کان پر مارے اور اسکی وجہ سے وہ شخص بہرا ہوجائے، تو مارنے والے کو مکمل دیت کی آدھی دیت ادا کرنی چاہیے اور اگر کسی کے دونوں کانوں پر مارے اور دونوں کو بہرا کردے، تو اسے مکمل دیت ادا کرنی چاہیے۔

حدیہ ہے کہ اگر والدین یا اساتذہ اپنے بچے یا شاگرد کو اس قدر زدوکوب کریںکہ ان پر اسکی دیت واجب ہوجائے، تو یہ سخت گناہ ہے۔

اگر کوئی کسی دوسرے کے منھ پر تمانچہ مارے، اور اس کے نتیجے میں تمانچہ کھانے والے کا چہرہ سرخ ہوجائے، تو مارنے والے پر ڈیڑھ مثقال سونا، یااسکی قیمت کے برابردیت کی ادائیگی واجب ہوگیاگر اس کا چہرہ نیلا پڑ جائے، تو تین مثقال اور اگر سیاہ پڑ جائے، تو چھ مثقال یا اسکی برابر قیمت اسکی دیت ہےاور اگر چہرے کے سوا جسم کے کسی اور حصے پر مارے، جس کی وجہ سے وہ حصہ سرخ، نیلا یا سیاہ پڑجائے، توچہرے کے بارے میں جس دیت کو بیان کیا گیا ہے مارنے والے پر اس کی نصف دیت ادا کرنا اور اس شخص کو راضی کرنا ضروری ہوگا۔

اسلام، انسان کو اس قدر احترام دیتا ہے کہ اگر انسان منعقدشدہ نطفے کی صورت میں بھی ہو، تو اسے ساقط کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

بچہ جس مرحلے میں بھی سقط کیا جائے، اسلام نے اسکی مناسبت سے دیت کا تعین کیا ہےفقہائے عظام فرماتے ہیں کہ: اگر انسان کوئی ایسا عمل انجام دے، جس کی وجہ سے حاملہ عورت کا بچہ ساقطہ (ضائع) ہوجائے، تو اگر سقط ہونے والا بچہ ابھی صرف نطفہ تھا، تو اس کی دیت بیس مثقال سکہ دار سونا ہے اور اگر علقہ (یعنی منجمد خون) ہو، تو اسکی دیت چالیس مثقال اور اگر مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں) ہو، تواسکی دیت ساٹھ مثقال اور اگر وہ ہڈیاں بننے کے مرحلے تک پہنچ گیا ہو، تو اسکی دیت اسّی مثقال اور اگر اس پر گوشت چڑھ گیا ہو، تو سو مثقال اور اگر اس میں روح آ چکی ہو، تو اگر وہ لڑکا ہو، تو اسکی دیت ہزار مثقال اور اگر لڑکی ہو، تو اسکی دیت پانچ سو مثقال ہوگی۔

۸۵

فقہایہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی حاملہ عورت کو قتل کردے، تو اسے عورت اور اس بچے کی دیت بھی دینا پڑے گی جو اس عورت کے شکم میں تھااگر اس عورت کے شکم میں دویادو سے زیادہ بچے ہوں، تو اسی مناسبت سے ساقط کرنے والے پر ان کی دیت واجب ہوگیلیکن اگر حاملہ عورت خود ہی بچے کو سقط کرے، تو اسے بچے کے ورثاء کو اسکی دیت ادا کرنی چاہیے اور اس دیت میں خود اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر دیت کے ساتھ ساتھ کفارہ جمع بھی واجب ہےیعنی اسے چاہیے کہ ایک غلام آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل دو ماہ روزے بھی رکھے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا بھی کھلائےاور اگر چند لوگوں نے مل کر کسی ایک شخص کو قتل کیا ہو، تو ان سب پر کفارہ واجب ہے(تحریر الوسیلہ۔ ج۲۔ ص۵۹۷، ۵۹۸اور۶۰۶)

ان سخت احکام میں سے ہر حکم، انسانی قتل اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے کے گناہ کی سنگینی کو واضح کرتا ہےلہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس عمل سے شدت کے ساتھ پرہیز کریںکیونکہ ان ظاہری سزائوں کا مستوجب بننے اور دنیوی رسوائی کا مستحق قرار پانے کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں معنوی رسوائی بھی ان کا مقدر بنے گی۔ مکافات ِعمل میں قتل کی مکافات بھی شامل ہے، جو بہت جلد قاتل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہےمناسب ہوگا کہ اس حوالے سے موجود سیکڑوں مثالوں میں سے، یہاں صرف دو مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔

۱علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ:اصفہان کے نواحی جنگل میں ایک شخص نے ایک مسلمان کو قتل کردیاپھر اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے مقتول کی لاش ایک کنویں میں پھینک دیمقتول کا کتا اس کنویں کے پاس آتا اور اس کے اطراف کی مٹی کنویں میں ڈالنے لگتا اور جوں ہی قاتل کودیکھتا اس کی جانب لپکتا اور زور زور سے بھونکنے لگتاکتے کے باربار یہ عمل دھرانے سے مقتول کے ورثاء کوتشویش ہوئیان لوگوں نے اس کنویں میں تلاش کیا، تو انہیں وہاں مقتول کی لاش مل گئیاسکے بعد انہیں اس شخص کے بارے میں شک ہوا جس کی جانب کتاباربار لپکتا تھا۔

۸۶

 اس شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا اور بالآخر اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا(بحارالانوار ج۶۲۔ ص۶۰) وہ شخص رسوا ہوا اور اسے اسکے جرم کی سزادی گئی۔

۲ایک ظالم اور بے رحم سردار، ایک دن ایک نیک دل شہزادے کے یہاں دعوت پر اس کے دسترخوان پر بیٹھا تھا۔ اتفاق سے اس دسترخوان پر دو بھنے ہوئے تیتر رکھے گئےجوں ہی اس سردار کی نگاہ ان تیتروں پر پڑی، یہ انہیں دیکھ کر ہنسنے لگاشہزادے نے جب اس سے اس بے موقع قہقہے کی وجہ پوچھی تو سردار نے جواب دیاکہ ایک روز جنگل میں مجھے ایک تاجر ملا، میں نے اسے پکڑا، اسکا مال و اسباب لوٹا اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیاوہ تاجر میرا ارادہ بھانپ گیا، اسی اثنا میں اس تاجر کی نگاہ ایک پہاڑی پتھر پر بیٹھے ہوئے دو تیتروں پر پڑی، تاجر نے ان تیتروں کو مخاطب کرکے کہا :اے تیترو! گواہ رہنا کہ یہ شخص میرا قاتل ہے۔

آج جب دسترخوان پر مجھے یہ دو تیتر بھنے ہوئے نظر آئے تو مجھے اس تاجر کی بے وقوفی یاد آگئی کہ وہ جن تیتروں کو اپنے قتل کا گواہ بنا رہا تھا وہ خود ذبح ہوکر ہماری خوراک بن رہے ہیں اور اب گواہی دینے کے لیے زندہ نہیں رہے ہیں۔

نیک دل شہزادے نے اس ظالم سردار سے کہا:اتفاقاً تیتروں نے گواہی دے دی ہےپھر اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اس سردار کی گردن اڑادی جائےاور یوں آخر کار اس ظالم کو اپنے جرم کی سزا بھگتنی پڑی۔ (حیات الحیوان)

۸۷

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ ؑکے اقوال میں انسانی قتل کا گناہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے کہ:جب کبھی مسلمانوں میں سے دو افراد ناحق ایک دوسرے کے خلاف تلوار نکال لیں، اور اس مڈبھیڑ کے دوران ان میں سے کوئی ایک مارا جائے، تو یہ دونوں افراد جہنمی ہوںگے۔

اس موقع پر موجود افراد میں سے ایک نے سوال کیا:اے اللہ کے رسولؐ! مقتول کیوں جہنمی ہوگا؟ آنحضرت ؐنے جواب دیا: لانّہ اراد قتلاً (کیونکہ وہ بھی قتل کا ارادہ رکھتا تھاوسائل الشیعہ ۔ ج۱۱۔ ص۱۱۳) لیکن اس کاارادہ پورا نہ ہوسکا اور وہ خود مارا گیا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:مَنْ اَعٰانَ عَلٰی قَتْلِ مُؤمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ لَقَی اللهُ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ مَکْتُوباًبَیْنَ عَیْنَیُهِ آیِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ (جو شخص کسی مومن کو قتل کرنے میں کسی قاتل کی مدد کرے (چاہے یہ مدد ایک لفظ کہہ کر ہی کیوں نہ کی گئی ہو) تو ایسا شخص روزِ قیامت خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکی پیشانی پر تحریر ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہےکنزالعمال۔ حدیث۳۹۸۹۵)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:قَتْلُ الْمُؤْمِنِ اَعْظَمُ عِنْدَاللهِ مِنْ زَواٰلِ الدُّنْیٰا (خدا کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کی بربادی سے زیادہ بڑی (بری) بات ہے۔ کنزالعمال حدیث۳۹۸۸۰)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے:مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّداً اَثْبَتَ اللهُ عَلٰی قٰاتِله جَمیعَ الذُّنُوبِ (جوشخص کسی مومن کو عمداًقتل کرتا ہے، تو خدا وند ِعالم مقتول کے تمام گناہ اس (قاتل) کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہےوسائل الشیعہ ج۔ ۱۹۔ ص۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے:جس شخص نے کسی مومن کو قتل کیاہو، جب اس شخص کی موت کا وقت آتا ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اسلام کے سوا جس دین پر چاہو مرو، چاہوتو یہودی، چاہو تو عیسائی اور چاہو تو مجوسی مرو۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال (مترجمہ فارسی) ص۲۳۵)

۸۸

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: قیامت کے روز سب سے پہلے اس شخص کا محاکمہ ہوگا جس نے کسی انسان کا خون بہایا ہوگاآدم کے بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کو لایا جائے گا اور ان کے بارے میں فیصلہ ہوگا (اور ہابیل کو قتل کرنے کے جرم میں قابیل کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا)اسکے بعد زمانے کی ترتیب کے لحاظ سے دوسرے افراد کو لایا جائے گا اور ان کا محاکمہ ہوگا، یہاں تک کے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے گاہر مقتول اپنے قاتل کو میدان میں لائے گااس موقع پر مقتول کا چہرہ اپنے خون سے رنگین ہوگا اور وہ لوگوں سے کہہ رہا ہوگا کہ: اس شخص نے مجھے قتل کیا ہےاور خدا وند ِعالم قاتل سے کہے گا کہ:کیا تو نے اس شخص کو قتل کیا ہے؟ اور (اس وقت) قاتل میں اتنی طاقت نہ ہوگی کہ وہ اپنا معاملہ خدا سے پوشیدہ رکھ سکے۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال(مترجمہ فارسی)۔ ص۲۳۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:واٰدٍفِی جَهَنَمَ لَوْ قَتَلَ النّٰاسَ جَمیعاً کٰان فِیهِ، وَلَوْ قَتَلَ نَفْساًواٰجدَةٌ کٰانَ فِیهِ (دوزخ میں ایک وادی ہے، اگر کوئی شخص تمام انسانوں کو قتل کردے تو یہ وادی اس کا ٹھکانہ ہوگی اور اگر کسی نے ایک انسان کو بھی قتل کیا ہوگا، تو اسے بھی اسی وادی میں ڈالا جائے گامیزان الحکم تہ۔ ج۸۔ ص۳۹)

نیز آپ ؑہی کا ارشاد ہے: خدا وند ِعالم نے حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو وحی کی کہ بنی اسرائیل سے کہو کہ انسانوں کو قتل کرنے سے پرہیز کریںکیونکہ جوشخص کسی مومن کو ناحق قتل کرے گا، تو خدا وند ِعالم اسے آتش دوزخ میں سو مرتبہ اس طرح قتل کرے گا جس طرح اس نے (اس انسان کو) قتل کیا ہوگا(اختصاص ازشیخ مفید۔ ص۲۳۵)

۸۹

ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ:رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا ایک مسلمان کا قتل ہوا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اسکا قاتل کون ہےرسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیظ میں آگئے اور اسی وقت لوگوں کو مسجد میں طلب کیا، منبر پر تشریف لے گئے اور حمدوثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:مسلمان کا قتل ہوتا ہے اور کسی کواسکے قاتل کا پتا نہیں !اُس خدا کی قسم، جس کے اختیار میں میری جان ہے، جب بھی آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں نے کسی مومن کے قتل پر اتفاق کیاہے، یا اس پر اظہارِ رضا مندی کیا ہے، تو خداوند ِعالم نے ان سب کو آتشِ جہنم میں ڈالا ہےخدا کی قسم، جوکوئی بھی ظلم کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک تازیانہ مارے گا، تو روز ِقیامت آتشِ جہنم کے درمیان ویسے ہی تازیانے سے اسے پیٹا جائے گا۔۔۔ ۔ (بحارالانوارج ۱۰۴۔ ص۳۸۴)

انسانی قتل کے گناہ کی سنگینی کو بیان کرنے والی سیکڑوں روایات میں سے منتخب کردہ مذکورہ روایات میں سے ہر روایت انسانی قتل کو سخت اور درد ناک سزائوں کی وجہ بننے والا گناہ قرار دیتی ہے اور مسلمانوں کو اس خطرناک عمل کے ارتکاب سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

۹۰

انسانی قتل میں تعاون کا گناہ

جس طرح انسان کو قتل کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہےاسی طرح کسی انسان کے قتل میں تعاون کرنا بھی سخت اور بڑے گناہوں میں سے ہےچاہے یہ تعاون براہِ راست نہ بھی کیا گیا ہو، انتہائی معمولی اور خفی ہی کیوں نہ ہو، چاہے مدد کرنے والے نے صرف ایک لفظ کے ذریعے ہی مدد کی ہو، تب بھی ایسا شخص شریک ِجرم اور ” اعوان الظّلمۃ“ سمجھا جائے گا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی متعدد روایات اس مسئلے پر تاکید کرتی ہیں، آیات ِقرآنی بھی اس نکتے پر گواہی دیتی ہےمثلاً ارشادِ الٰہی ہے:وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور گناہ اور ظلم وستم میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرناسورہ مائدہ۵۔ آیت۲)

اس حوالے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہلِ بیت علیہم السلام کے چند اقوال قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:

رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لَوْ اَنَّ رَجُلًا قُتِلَ بِالْمَشْرِقِ وَآخَرُ رَضِیَ بِهِ بِالْمَغْرِبِ کانَ کَمَنْ قَتَلَهُ وَشَرَکَ فِی دَمِهِ (اگر مشرق میں کسی شخص کا قتل ہو، اور مغرب میں رہنے والا کوئی شخص اس قتل پر راضی ہو، تو (یہ شخص بھی) قاتل کی مانند ہے اور مقتول کے خون میں شریک ہےبحارالانوار۔ ج۱۰۴۔ ص۳۸۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:قیامت کے دن ایک شخص کو ایک دوسرے شخص کے پاس لائیں گےپہلا شخص دوسرے شخص کو خون سے رنگین کرے گاجب دوسرا شخص اس سے خون آلود کرنے کی وجہ پوچھے گا، تو وہ جواب دے گا کہ: تم نے فلاں دن میرے بارے میں فلاں کلمہ کہا تھا جس کی وجہ سے میرا خون بہایاگیا تھا، آج تم اس کا جواب دو۔ (ثواب الاعمال ازشیخ صدوق(مترجمہ فارسی)ص ۶۳۴)

۹۱

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ مسجد ” جھینہ“ میں ایک مقتول کا جنازہ رکھا ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور پیدل اس مسجد کی جانب تشریف لے گئےلوگوں کو پتا چلا تو سب اس مسجد میں جمع ہوگئےرسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ اس شخص کو کس نے قتل کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا:اے اللہ کے رسول ؐ! ہمیں پتا نہیں آنحضرت ؐنے فرمایا:کیا یہ مناسب بات ہے کہ کسی مسلمان مقتول کا جنازہ مسلمانوں کے درمیان موجود ہو اوروہ اس بات سے بے خبر ہوں کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟ اس خدا کی قسم جس نے مجھے اپنی نبوت کے لیے برحق معبوث کیا ہے، اگر آسمانوں اور زمین کے رہنے والے تمام لوگ کسی مسلمان کا خون بہانے میںشریک ہوں، یا اس عمل پر راضی ہوں، تو خداوند ِعالم ان سب کو منھ کے بل آتشِ جہنم میں پھینک دے گا(ثواب الاعمال ازشیخ صدوق (مترجمہ فارسی)۔ ص۶۳۷)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے: قیامت کے دن ایک انسان کو لے کے آئیں گے جس نے دنیا میں کسی کا خون نہیں بہایا ہوگاپھر اسے خون سے بھرا ہوا ایک چھوٹا سا برتن دیں گے اور اس سے کہیں گے کہ یہ فلاں مقتول کے خون میں تمہارا حصہ ہےوہ عرض کرے گا: بارِ الٰہا! تو جانتا ہے کہ میں نے پوری زندگی کسی کا خون نہیں بہایاخداوند ِعالم فرمائے گا: ہاں (درست ہے لیکن) تو نے فلاں شخص کی ایک بات سنی اور اسے دوسروں سے نقل کیایہ بات دوسروں تک پہنچی، یہاں تک کہ وہ بات اس زمانے کے ظالم حکمراں کو بتائی گئی اور اس ظالم حکمراں نے اس شخص کو قتل کردیالہٰذا تو نے اس مقتول کا خون بہانے میں اتنا حصہ لیا ہے(محاسنِ برقیص ۱۰۴، بحار الانوارج ۱۰۴ص ۳۸۳)

۹۲

ہم اس امید کے ساتھ اس موضوع پر اپنی گفتگو تمام کرتے ہیں کہ یہ آیات وروایات اور دل ہلادینے والے کلمات ہم سب کے لئے باعث ِانتباہ ہوں گے اور ہم سختی کے ساتھ اس بات کا خیال رکھیں گے کہ کبھی کہیں کسی بے گناہ کا خون بہانے میں شریک نہ ہوں جس کی سزا انتہائی شدید ہے اور خدائے رحمٰن کے خاص بندے ہر قسم کی خونریزی سے شدت کے ساتھ پرہیز کرتے ہیں۔

اس گفتگو کو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ایک انتباہی حدیث پر ختم کرتے ہیں۔

مولا کی خدمت میں تین افراد کو لایا گیا اور بتایا گیا کہ ان میں سے ایک نے ایک شخص کو پکڑا اور اس کی نگرانی کرتا رہا، دوسرا آیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور تیسرا یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور انہیں روکنے کی کوشش نہیں کیحضرت علی ؑنے فیصلہ سنایا کہ: جس شخص نے مقتول کی نگرانی کی اسے قید کر دیا جائے، یہاں تک کہ قید ہی میں اس کی موت واقع ہوقتل کرنے والے شخص کو سولی پر چڑھادیا جائے اور جس شخص نے اس پورے واقعے کو دیکھا، اس کا تماشائی رہا اور اس کا سد ِباب نہیں کیا، سلائی پھیر کر اس کی آنکھیں اندھی کردی جائیں(بحار الانوارج۱۴ص ۳۸۶)

۹۳

ناجائز صنفی تعلقات سے سخت اجتناب

قرآنِ مجید سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی خدا کے ممتاز اور خاص بندوں کی بارہ خصوصیات میں سے آٹھویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

وَلَا يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا

اور (وہ) زنا بھی نہیں کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا عمل انجام دے گا وہ اسکی بہت سخت سزا پائے گاسورئہ فرقان ۲۵آیت ۶۸

اس آیت میں خدا کے صالح اور نیکو کار بندوں کی ایک انتہائی اہم فضیلت بیان کی گئی ہےیہ اہم فضیلت عفت وپاکدامنی کی حفاظت، اور ہر قسم کے ناجائز صنفی تعلقات سے شدت کے ساتھ اجتناب ہےکیونکہ عفت کے منافی عمل ” زنا“ بے عفتی کی ایک انتہائی گھناؤنی صورت ہے۔

یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ صحت مند اور سالم معاشرے کا ایک عامل عفت وپاکدامنی اور عزت وناموس کے بارے میں ” غیرت“ کا اصول ہے، جس کی غیر معمولی اہمیت کے تمام انبیاء، ائمہ اور صاحبانِ عقل ودانش قائل ہیں، یہ اصول انسانی برادری اور مردوں اور عورتوں کے درمیان جائز اور معقول تعلقات کو تقویت پہنچاتا ہے اور بہت سی معاشرتی اور گھریلو خرابیوں، گمراہیوں اور بدبختیوں سے تحفظ کے لیے ایک مضبوط ڈھال ہے۔

زنا جو گھناؤنا ترین جنسی گناہ ہے اسکے بہت سے شرمناک اور تباہ کن اثرات ہیں اور جو خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ، فتنہ وفساد، خود کشی، منشیات کا عادی ہوجانا، قساوتِ قلبی اور بہت سے بڑے بڑے جرائم کی بنیاد بنتا ہےیہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے اس برے عمل کے قریب جانے تک سے منع کیا ہے اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:

۹۴

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى اِنَّه كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيْلًا

اور دیکھو زنا کے قریب بھی نہ جانا کہ یہ بدکاری اور بہت برا راستہ ہےسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۲

اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ زنا نہ کرنا، بلکہ کہتی ہے کہ اس شرمناک اور قبیح عمل کے قریب بھی نہ جانا، اس تعبیر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اکثر اوقات انسان ایسے مقدمات کے نتیجے میں زنا میں مبتلا ہوتا ہے جو اسے تدریجا ً اس عمل کے قریب لیجاتے ہیںلہٰذا انسان کو چاہیے کہ ان مقدمات سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کرےنظر بازی، عریانی، پردے کی طرف سے بے توجہی، ہیجان انگیز فلمیں دیکھنا، گمراہ کن لٹریچر کا مطالعہ اور بے راہ روی کا باعث بننے والی موسیقی اور گانوں کا سننا وہ باتیں ہیں جن میں سے ہر ایک جنسی گمراہی اور زنا کے ارتکاب کی وجہ بن سکتی ہے اور انسان کو بے راہ روی کی جانب لے جاسکتی ہے۔

زنا، اسلام کی نظر میں بہت بڑا گناہ ہے لہٰذا اُس میں اسے انجام دینے والے کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی ہےاگر محرم عورتوں کے ساتھ زنا کیا جائےیا زنائے محصنہ (یعنی شادی شدہ مرد یا شادی شدہ عورت زنا کا ارتکاب کرے) تو اسے سنگسار کرنے یا سزائے موت دینے کا حکم ہےاور اگر زنائے غیر محصنہ ہوتو پہلی مرتبہ ارتکاب کی صورت میں قاضی کے حکم سے زنا کرنے والے کو سو کوڑے مارے جائیں گےدوسری مرتبہ ارتکاب پر بھی اس پر یہی حد جاری کی جائے گیلیکن تیسری یا چوتھی مرتبہ اس جرم کے ارتکاب پر اس کے لیے سزائے موت کا حکم جاری کیا جائے گابعض مواقع پر زنا کرنے والے کو تازیا نے بھی مارے جائیں گے اور سنگسار بھی کیا جائے گاجیسے زنائے محصنہ کرنے والے بوڑھے مرد یا بوڑھی عورت کو(تحریر الوسیلہج۲ص۴۶۳)

ارتکاب ِزنا پر یہ سخت دنیوی سزائیں، اس گناہ کی شدت اور اسکے انتہائی برے اور تباہ کن اثرات کی جانب اشارہ ہیں اسلام جو ایک مقدس آئین ہے، اور سالم و صحت مند معاشرے اور ایک پرسکون گھریلو زندگی کا خواہشمند ہے، وہ ان سخت سزاؤں کے ذریعے ہر قسم کی جنسی گمراہی اور گناہ کی روک تھام چاہتا ہے، نیز یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرے کی عفت وپاکدامنی کو اس پر نقب لگانے والوں سے محفوظ رکھا جائے۔

۹۵

قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں، زنا کے مرتکب افراد کے لیے شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےمثلاً ارشاد ہوتا ہے:

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

زنا کار عورت اور زنا کار مرد، دونوں کو سو سو کوڑے لگاؤاور خبردار خدا کے دین کے معاملے میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا، اگر تمہارا ایمان اﷲ اور روزِ آخرت پر ہےاور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو اسکا مشاہدہ کرنا چاہیےسورئہ نور۲۴آیت۲

اس آیت میں تین ایسے نکات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک زنا کے اس سخت گناہ کے خلاف اسلام کے شدید موقف کی نشاندہی کرتا ہےپہلا نکتہ یہ ہے کہ: زنا کے مرتکب مرد اور عورت کو سو سو کوڑے لگائے جائیںدوسرا نکتہ یہ ہے کہ: اس حکم پر عمل درآمد کے موقع پر ان سے کسی قسم کی نرمی اور ہمدردی نہ کی جائے اور ان کے بارے میں قانونِ الٰہی کو دو ٹوک انداز میں جاری کیا جائےتیسرا نکتہ یہ ہے کہ: یہ حکمِ الٰہی برسر عام جاری کیا جائے، اور اس موقع پر کچھ لوگ موجود ہوں جو مجرموں کوکوڑے کھاتے دیکھیںتاکہ ایک طرف تو زنا کار اچھی طرح اس سزا کا مزہ چکھے اور دوسری طرف تماشائیوں کو بھی عبرت ہو اور وہ اس گناہ کے ارتکاب سے باز رہیں۔

۹۶

جنسی آلودگی سے پرہیز اور محفوظ رہنے کے راستے

یہاں سورئہ فرقان کی جس آیت پر گفتگو ہورہی ہے اُس میں عفت وپاکدامنی کی حفاظت اور جنسی گمراہی اور آلودگی (بالخصوص زنا) سے پرہیز کو خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی ایک صفت بتایا گیا ہے، نیز دوسری متعدد آیات میں بھی (جن میں سے ہم نے یہاں صرف دو کے بیان پر اکتفا کیا ہے) اس بڑے گناہ کے ارتکاب کی ممانعت کی گئی ہےلہٰذا سوال یہ ہے کہ اب ہم کون سے طریقے اختیار کریں جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ اس قبیح عمل کا مرتکب نہ ہو اور اس سے محفوظ رہے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس گناہ سے اجتناب اور اسکی روک تھام کے مجموعی طور پر دو راستے ہیں ایک نظری راستہ اور دوسرا عملی راستہ۔

پہلا راستہ جسے ہم نے نظری راستے کا نام دیا ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ اس گناہ کی شدت اور سنگینی کی طرف متوجہ رہا جائے اور جنسی گمراہی کی قباحت اور اسکے شرمناک آثار کے بارے میں ذہن کو حاضر رکھا جائے۔

اس طرح عقل، تجربے کی مدد کے ہمراہ ہم سے کہے گی کہ اگر جنسی گمراہی، بالخصوص زنا ہمارے معاشرے میں رائج ہوجائے (جیسا کہ پست مغربی تمدن میں دیکھا جارہا ہے اور لرزہ طاری کردینے والے اعداد وشمار اس کے گواہ ہیں) تو یہ بہت سی برائیوں اور تباہیوں کا موجب ہو جائے گاکیونکہ عفت وپاکدامنی کے منافی یہ عمل ایک طرف تو طرح طرح کے امراض مثلاً ” ایڈز“ کی لاعلاج مہلک بیماری کا باعث ہوا ہے، اور دوسری طرف اس نے وہاں کی نئی نسل کو گھر بسانے اور عائلی زندگی اپنانے سے دور رکھا ہے اور اس میں بے نظمی اور عزم وہمت میں کمی کا باعث بنا ہے۔

۹۷

عائلی زندگی گزارنے والوں اور رشتہ ازدواج کی بنیاد رکھنے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ گھر سے باہر جنسی تعلق کا قیام محبت بھری عائلی زندگی میں بحران اور بد اعتمادی کی وجہ بنتاہے اور اسکا آخری نتیجہ میاں بیوی کے درمیان طلاق اور خاندان کی تقسیم کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ زنا، ناجائز بچوں کی ولادت کا باعث ہے، جس کی وجہ سے وہ تعلق جو بچوں اور والدین کے درمیان قائم ہونا چاہیے وہ قائم نہیں ہوپاتا اور نتیجے کے طور پر افرادِ معاشرہ کا باہمی تعلق جس کی بنیاد اہل خانہ کے باہمی تعلقات پر استوار ہوتی ہے متزلزل ہوجاتا ہے اور معاشرہ زوال وانحطاط کی طرف چل پڑتا ہے۔

زنا کے عام ہوجانے کا ایک اور برا اثر یہ ہے کہ یہ عمل لوگوں کے ازدواجی زندگی سے دور ہونے کا باعث بن جاتا ہے اور اسکے نتیجے میں شادی کے نیک اور مثبت اثرات، جیسے روحانی سکون، صحیح اور فطری راستے سے جنسی خواہش کی تسکین، روحانی انس، زندگی کے کاموں میں باہمی تعاون، اچھے بچوں کی تربیت اور دوسرے اچھے معاشرتی اثرات مرتب ہونے کے بجائے گمراہی اور اس کے تباہ کن اثرات سامنے آتے ہیں۔

اس مسئلے پر غورو فکر، انسان کو اس برے عمل سے دور رکھے گا اور بڑی حد تک اسے جنسی گمراہی میں مبتلا ہونے بالخصوص پاکدامنی کے منافی عمل ” زنا“ کے ارتکاب سے باز رکھے گاکیونکہ کوئی بھی عقل مند آدمی ایسے عمل کا مرتکب نہیں ہوگا جو ایسے تباہ کن جسمانی اور روحانی اثرات کا باعث ہو، اور جس کے ایسے بھیانک نتائج برآمد ہوں۔

دوسرا راستہ جو عملی راستہ ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ یہ راستہ ہم سے کہتا ہے کہ ہمیں بے عفتی اور جنسی گمراہی کے عوامل واسباب سے آگاہ ہونا چاہئے اور اس سے چھٹکارے کے راستے جاننا چاہئیں اور منصوبہ بندی کے ذریعے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

۹۸

اس حوالے سے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنی نیت کو سالم اور پاک رکھیں، تاکہ ہمارا فیصلہ بھی پاک اور سالم ہو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: موسیٰ اپنے اصحاب سے کہتے تھے کہ زنا نہ کرنالیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ زنا کا خیال بھی دل میں نہ لانا (اس کے بعد انہوں نے یہ مثال پیش کی) اگر کوئی شخص ایک خوبصورت نقاشی سے مزین کمرے میں آگ جلائے، تو اس آگ کا دھواں اس کمرے کو دھواں آلود اور سیاہ کردے گا، اگرچہ آگ نے اس کمرے کو جلا کر راکھ نہیں کیا ہوگازنا کا خیال اسی دھویں کی مانند ہے جو انسان کے معنوی چہرے کو بدنما کردیتا ہے اگرچہ یہ چہرہ ختم نہیں ہوا ہوتا(سفینتہ البحارج۱ص۵۶)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم سلام اﷲ علیہا کی عفت، غیرت اور پاکیزگی کا عالم یہ تھا جب ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو ایک طرف تو آپ انتہائی خوش تھیں اور دوسری طرف یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں نادان لوگ ان کی پاکدامنی پر انگلیاں نہ اٹھائیں، مضطرب اور سخت پریشان بھی تھیں لہٰذا انہوں نے کہا کہ:

يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَكُنْتُ نَسْـيًا مَّنْسِـيًّا

اے کاش! میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور بالکل فراموش کردی گئی ہوتی سورئہ مریم۱۹آیت ۲۳

مغربی دنیا، جس کی اکثریت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کی پیروی کا دعویٰ کرتی ہے اور جس میں دن بدن بے راہ روی اور آوارگی بڑھ رہی ہے، درحقیقت حضرت عیسیٰ ؑاور ان کی والدہ حضرت مریم ؑکے دین وآئین سے دور ترین لوگ ہیں ان کی گستاخی اس حد تک جاپہنچی ہے کہ وہ حضرت مریم ؑکی تصویر کے طور پر ایک بدحجاب اور نیم عریاں عورت کی تصویر شائع کرتے ہیںیہ ایسی گستاخی اور شرمناک اہانت ہے جو یقینا حضرت مریم ؑکی پاک روح کو آزردہ کرتی ہوگیوہ آج اس صورتحال کو دیکھ کر فرماتی ہوں گی کہ: کاش! میں دنیا میں نہ آئی ہوتی اور بالکل بھلا دی گئی ہوتی اور مجھے اس قسم کی تصاویر اور مجسموں کی صورت میں پیش نہ کیا گیا ہوتا اور ایسی بے ہودہ تصو یر کے ذریعے، جس کا مجھ سے دور کا بھی واسطہ نہیں، میری عفت کا مذاق نہ اُڑایا گیا ہوتا۔

۹۹

بہرحال، فکر کی پاکیزگی کے مرحلے کے بعد ان عوامل واسباب کو پہچاننا اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے جو انسان کو جنسی گمراہی کے ہولناک گڑھے کے کنارے لے جاتے ہیں ان میں سے چند عوامل درج ذیل ہیں:

۱:- لوگوں کے سامنے بے حجابی یا حجاب سے بے پروائی کے ساتھ آناکیونکہ یہ چیز جنسی شہوت کی آگ کو بھڑکاتی اور جنسی آلودگیوں کا موجب ہوتی ہے۔

۲:- نگاہوں کو کنٹرول نہ کرنا اور وسوسہ پیدا کرنے والی نگاہوں سے اجتناب نہ کرنا۔

۳:- گمراہ کن فلموں اور شہوت انگیز مناظر دیکھنا اور مردوں اور عورتوں کا باہم مخلوط ہونا۔

۴:- بری باتیں سکھانے والی مطبوعات کا مطالعہ کرنا۔

۵:- ہیجان انگیز تصاویر دیکھنا۔

۶:- حرام غذاؤںکا استعمال اور پرخوری۔

۷:- برے دوستوں کی صحبت۔

۸:- شادی جو جنسی خواہش کی تسکین اور جنسی گمراہی سے نجات میں موثر کردار کی حامل ہے، اس میں بلاوجہ تاخیر کرنا۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177