• ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29260 / ڈاؤنلوڈ: 5246
سائز سائز سائز
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

تالیف: استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

ترجمہ: سجاد حسین مہدوی

۱

عرضِ ناشر

خدا کی معرفت اور اُس کی عبادت قربِ الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہےلیکن اکثر اوقات انسان کی بے توجہی اور غفلت اُسے اپنے اِس مقصد سے گمراہ کردیتی ہے اور وہ خدا کی بندگی کی راہ چھوڑ بیٹھتا ہے، گمراہ ہوجاتا ہے

انسان کو اس گمراہی سے راہِ راست پر لانے اور اس غفلت سے اسے ہوشیار کرنے کی غرض سے خداوند عالم نے انسان کے اندر اور اس کے باہر سے اہتمام کیا ہے

باہر سے انبیا اور اولیائے الٰہی انسان کی رہنمائی کرتے اور اسے متنبہ کرتے ہیں جبکہ اندرسے اُس کاضمیر اسے بیدار کرتا ہے، اس میں پچھتاواپیدا کرتا ہے اوریوں راہِ راست سے بھٹکا ہوا، خدا کی مخالف سمت چلتا ہوا یہ انسان اپنی سمت بدل کر راہِ راست، صراطِ مستقیم اور خدا کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے

دراصل یہی متنبہ ہونا، نادم ہونا، پشیمان ہوکرتبدیل ہونے پر تیار ہونااور اپنا رُخ بدل لینا توبہ ہے

زیر نظر تحریر ”توبہ“ کے موضوع پر استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ کی دو تقاریر کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے ۲۵اور ۲۶رمضان ۱۳۹۰ھ کو حسینیہ ارشاد تہران، ایران میں کی تھیں آج قریب ۳۶، ۳۷ برس گزر جانے کے باوجود ان تقاریر کی تازگی اسی طرح محفوظ ہے، آج بھی استاد مطہریؒ کا ایک ایک لفظ دل کوچھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اُن کے لہجے کا اخلاص اُن کے بیان کردہ مفاہیم کو دل میں اتاردیتا ہے

ان تقاریر میں استاد مطہری ؒکی طرف سے توبہ کے مفہوم کی وضاحت اور اِن کے دل نشین ہونے کی صلاحیت ہی اس بات کا باعث بنی کہ دارالثقلین نے انہیں  اردو زبان میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا

۲

تقریر کو تحریر کی صورت میں لانا ایک دشوار کام ہے، بالخصوص دوسری زبان میں کی گئی تقریر کے ترجمے کو تحریری صورت دیناتواور دشوار ہوجاتا ہےبہر صورت بہتر سے بہتر ترجمے کے بعدبھی سرخیاں، بریکٹ، اور بعض الفاظ کے معنی حاشیے میں لکھ کرہم نے کوشش کی ہے کہ مقرر کی پوری پوری بات پڑھنے والوں تک پہنچ سکےاس سلسلے میں ہم کتنے کامیاب رہے ہیں  اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں

قارئین کے مشوروں، تجاویز اور تنقیدکی صورت میں ہماری رہنمائی ہمیں اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے میں مدد دیتی ہےلہٰذا ہم ہمیشہ اس کے منتظر رہتے ہیں

والسلام

۳

پہلا خطاب

بِسْم ِاللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

”اَلْحَمْدُ للّٰه رَبِّ الْعٰالَمِینَ بٰارِیءِ الْخَلٰاءِ قِ اَجْمَعینَ وَ الصَّلٰوةُ وَالسَّلاٰمُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَحَبیبِهِ وَصَفِیِّهِ، وَحَافِظِ سِرِّهِ وَ مُبَلِّغِ رِسَالاٰتِهِ سَیِّدِنٰا وَنَبِیِّنٰاوَمَوْلاٰنٰااَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّد وَ عَلٰی آلِهِ الطَّیِّبینَ الطَّاهِریِنَ الْمَعْصُومیِنَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجیمِ “

”وَذَاالنُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْهِ فَنَادآٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاآا اِٰلهَ اِلَّاآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَاِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَه وَ نَجَّیْنهُاٰا مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نَُنْجِی الْمُؤْ مِنِیْنَ “

(سورہ انبیا ۲۱آیت۸۷۸۸)

ہم عبادت اور دعا کے بارے میں گفتگو کررہے تھے(۱) گزشتہ دو راتوں میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اگرعبادت اور عبودیت صحیح شکل و صورت کے ساتھ انجام دی جائے، تولامحالہ اور لازماً انسان کے ذاتِ اقدسِ الٰہی سے حقیقی تقرب کاسبب ہوگیانسان عبودیت کے ذریعے خدا سے نزدیک ہوجاتا ہے اور اس (نزدیکی) میں مجاز کا شائبہ بھی نہیں  ہےبالفا ظِ دیگر عبودیت ”سلوک“ ہے، حرکت ہے، پروردگار کی سمت گامزن ہونا ہے

--------------

۱:- اس گفتگو کا اردو ترجمہ دارالثقلین ”عبادت اور نماز“کے نام سے شائع کر چکا ہے

۴

آج کی رات ہم ”سلوک“ کے سب سے پہلے مرحلے کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں  اگر انسان، اپنے پروردگار کی طرف سلوک (سفر) کرنا چاہتا ہے اور مقامِ قربِ خداوندی تک پہنچنے کا خواہشمند ہے، تو اسے اس منزل، اس مرحلے اور اس نقطے سے آغاز کرنا چاہئےاور جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے، وہ یہی ہےیعنی ہم لوگ، جنہوں نے اس طرف ایک قدم بھی نہیں  بڑھایا، ہمارے لئے سالکین کی اعلیٰ منازل کے بارے میں گفتگو بے سود ہےاگر ہم مردِ عمل بننا چاہتے ہیں ، تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قربِ الٰہی اور پروردگار کی جانب سلوک کی پہلی منزل کیا ہے؟ اس کا پہلا مرحلہ کیا ہے؟ اور ہم کہاں سے اپنی عبودیت اور عبادت کا آغاز کریں؟

خدا کی جانب سلوک کی سب سے پہلی منزل ”توبہ“ ہےآج کی رات ہم توبہ کے بارے میں گفتگو کا آغازکرنا چاہتے ہیں

۵

توبہ کیا ہے؟

توبہ کے کیامعنی ہیں ؟ نفسیاتی اعتبار سے انسان کے لئے توبہ کی حقیقت کیا ہے اور معنوی لحاظ سے یہ انسان پر کیا اثرمرتب کرتی ہے؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے خیال میں توبہ ایک بہت ہی سادہ سی چیز ہےہم کبھی یہ نہیں  سوچتے کہ آؤ چلیں نفسیاتی لحاظ سے توبہ کاتجزیہ کریں

بنیادی طورپر توبہ حیوانات کے مقابل انسان کا ایک امتیاز ہےیعنی انسان میں متعدد اعلیٰ امتیازات، خصوصیات، کمالات اور صلاحیتیں ایسی پائی جاتی ہیں  جن میں سے کوئی ایک بھی حیوانات میں موجودنہیں انہی اعلیٰ صلاحیتوں میں سے ایک یہی ”توبہ“ ہے

توبہ کے وہ معنی و مفہوم جس کی انشااﷲ ہم آپ کے سامنے وضاحت کریں گے، اُس میں توبہ یہ نہیں  ہے کہ ہم محض زبان سےاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بول دیںبات صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کی نہیں  ہےتوبہ ایک نفسیاتی اور روحانی حالت، بلکہ انسان کے اندر ایک روحانی انقلاب ہے، اوراَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه اس حالت کا اظہار ہے، خود وہ حالت نہیں  ہے، خود توبہ نہیں  ہےاُن بہت سی چیزوں کی مانند جن میں لفظ خود اُس چیز کی حقیقت نہیں  ہوتا بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے

یہ جو ہم دن میں کئی مرتبہاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بولتے ہیں ، اِس سے ہمیں یہ نہیں  سمجھ لینا چاہئے کہ ہم دن میں کئی مرتبہ توبہ کرتے ہیں ہم اگر روزانہ ایک مرتبہ بھی سچی توبہ کرلیں، تو یقیناً قربِ الٰہی کے مراحل اور منزلیں حاصل کرلیں

۶

توبہ، یعنی راہ بدلنا

تمہید کے طور پر کچھ عرائض پیش خدمت ہیں ، توجہ فرمایئے:

جمادات، نباتات اور حیوانات کے درمیان ایک فرق پایا جاتا ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ جمادات میں خود اپنا راستہ بدلنے کی صلاحیت نہیں  پائی جاتی، وہ از خوداپنارخ بدلنے پر قادر نہیں  ہیں جیسے زمین کی سورج کے گرد، یاخود اپنے محور پر گردش، یا وہ حرکتیں جو تمام ستارے اپنے مدار میں کرتے ہیں ، یا اُس پتھر کی حرکت جو اوپر سے چھوڑنے پرزمین کی طرف آتا ہےیہ بات مسلَّم اور قطعی ہےیعنی وہ پتھرجسے آپ چھوڑتے ہیں  اور وہ ایک معین راستے پر چلتا ہے، اسی راستے پر اور اسی رُخ پر رواں دواں رہتاہےخود اس پتھر کے لئے اپنے راستے کی تبدیلی اور رُخ کا بدلناممکن نہیں  ہےاس پتھر اور اس جماد کا راستہ بدلنے کے لئے باہر سے کسی عامل کا اس پر اثر انداز ہونا ضروری ہےاب خواہ یہ عامل کوئی مجسم شے ہو یا ہوا کے ایک جھونکے کی مانند کوئی چیز ہومثلاً جن ”اپالوز“ یا ”لونا“ کوفضا میں بھیجا جاتا ہے وہ از خود کبھی اپنا راستہ تبدیل نہیں  کرتے، ماسوا یہ کہ راستے کی تبدیلی کے لئے باہر سے اُنہیں  ہدایت دی جائےلیکن نباتات اور حیوانات جیسے زندہ موجودات میں خود اپنے آپ اپنا راستہ تبدیل کر لینے کی استعداد پائی جاتی ہےیعنی اگر وہ ایسے حالات کاسامنا کریں جو ان کی زندگی کی بقا کے لئے سازگارنہ ہوں، تو وہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں  یہ چیز حیوانات میں تو بہت ہی واضح ہےمثلاً ایک بھیڑ، ایک کبوتریا حتیٰ ایک مکھی بھی جب چلتی ہے، تو جوں ہی کسی مشکل کو سامنے پاتی ہے، فوراً اپنا راستہ بدل لیتی ہے

۷

حتیٰ ممکن ہے وہ ایک سو اسی درجے گھوم جائےیعنی اپنی پہلی سمت سے یکسر مخالف سمت میں حرکت شروع کردےحتیٰ نباتات بھی ایسے ہی ہیں  یعنی نباتات بھی خاص حالات اور معینہ حدود میں اپنے اندر سے اپنی ہدایت کرتے ہیں ، اپنا راستہ تبدیل کرتے ہیں  ایک درخت کی جڑیں جو زیرِ زمین حرکت کرتی ہیں  اور ایک سمت کو چل رہی ہوتی ہیں ، اگر کسی چٹان کا سامنا کریں، اب چاہے اُس تک پہنچی ہوں یا نہ پہنچی ہوں، ازخود اپنا راستہ بدل لیتی ہیں جیسے ہی انہیں  معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانے کی جگہ نہیں  ہے، وہاں کوئی گزرگاہ اور راستہ نہیں  ہے، تو فوراً اپنا راستہ تبدیل کرلیتی ہیں

واضح ہے کہ انسان بھی اس حد تک نباتات اور حیوانات کی مانند ہے، یعنی اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے

توبہ سے مراد انسان کا راہ بدل لینا ہےالبتہ سادہ سا راہ بدل لینا نہیں ، جیسے ایک پودا اپنا راستہ بدلتا ہے، یا جس طرح حیوان اپنا راستہ بدل لیتا ہےبلکہ اس انداز سے راہ بدلنا مراد ہے جو انسان کا خاصّہ ہےاوریہ نفسیاتی اور روحانی نکتہ نظر سے قابلِ تجزیہ و تحلیل اور تحقیق کے لائق ہے

۸

توبہ انسان کا امتیاز ہے

”توبہ“ ایک قسم کا باطنی انقلاب ہے، ایک قسم کا قیام ہے، انسان کاخود اپنے خلاف ایک قسم کا انقلاب ہےاس لحاظ سے یہ انسان کے امتیازات میں سے ہےنباتات اپنا راستہ بدلتے ہیں  لیکن اپنے خلاف قیام نہیں  کرتے، کربھی نہیں  سکتے، اُن میں یہ صلاحیت ہی نہیں  ہوتی جمادات اورنباتات کے درمیان فرق یہ ہے کہ جمادات اپنی بقا کے لئے خود سے اپناراستہ تبدیل نہیں  کرسکتے، جبکہ یہ حیرت انگیزصلاحیت نباتات میں پائی جاتی ہے (حیوانات میں بھی موجود ہے)

انسان میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے خلاف قیام کرتا ہے، حقیقتاً قیام کرتا ہےاپنے خلاف انقلاب بپا کرتا ہے، واقعاً انقلاب بپا کرتا ہےدو مختلف اور باہمی طور پر جدا جداچیزیں (ایک دوسرے کے خلاف) قیام اور انقلاب بپا کرسکتی ہیں مثلاً ایک ملک میں معاملات کی باگ ڈورکچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، بعد میں کچھ دوسرے لوگ ان کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں  ہے(کیونکہ) جن لوگوں کے خلاف انقلاب بپا ہوا ہے وہ دوسرے افراد ہیں  اورجنہوں نے انقلاب بپا کیا ہے وہ دوسرے لوگ ہیں  اُنہوں نے اِن پر ظلم کیاتھا، اِنہیں  ناراض اور باغی بنا دیاتھا، جو ان کی طرف سے بغاوت اور انقلاب کا سبب بنا اورانہوں نے اچانک انقلاب بپاکردیا، زمامِ حکومت ان سے چھین لی اور ان کی جگہ پر خود بیٹھ گئےاس میں کوئی نہ ہونے والی بات نہیں

۹

لیکن ایک انسان کے خود اپنے اندر سے انقلاب اٹھنا، خود اپنے خلاف قیام کرنا، یہ کیسے ممکن ہے؟

کیا ممکن ہے کہ ایک شخص خود اپنے خلاف اٹھ کھڑا ہو؟ ہاں ممکن ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک شخص ہے، جبکہ اس کے اس خیال کے برخلاف ایسا ہے نہیں وہ ایک واحد شخص ہے لیکن ایک مرکب شخص ہے، بسیط شخص نہیں  ہے(۱)   یعنی ہم جو یہاں بیٹھے ہیں ، حدیث میں آنے والی تعبیر کی رو سے ایک جماد یہاں بیٹھا ہے، ایک نبات بھی یہاں بیٹھا ہے، شہوت رکھنے والا ایک حیوان بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک درندہ بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک شیطان بھی یہاں بیٹھا ہے اورعین اسی حال میں ایک فرشتہ بھی یہاں بیٹھا ہےیعنی شاعروں کے بقول انسان ایک ایسا نادر و نایاب معجون ہے جس کے وجود میں تمام خصوصیات جمع ہیں کبھی وہ شہوانی حیوان (جس کا مظہر سُوَر کو سمجھا جاتا ہے) انسان کے وجود میں پایا جانے والا وہ سُوَر اُس پر حاوی ہوجاتا ہے، اور (اپنے اندر موجود) درندے، شیطان اور فرشتے کوابھرنے کا موقع نہیں  دیتاکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے، اورانسان کے وجود پر ایک نئی حکومت قائم ہوجاتی ہے

گناہ گار انسان، وہ انسان ہے جس کے اندر کا حیوان اس پر مسلط ہے، یا اس کے اندر کا شیطان اس پر مسلط ہے، یا اس کے وجود کا درندہ اس پر حاوی ہےعین اُسی وقت ایک فرشتہ، ایک عالی قوت بھی اس کے وجود میں محبوس اوراسیر ہے

--------------

۱:- بسیط یعنی غیر مرکب

۱۰

توبہ، یعنی خود انسان کے اندر سے قیام

جب انسان کے وجود میں پائے جانے والے عالی مقامات اُس کے اندر موجود اس کی باطنی مملکت کے امور پر قابض پست مقامات کے خلاف یکایک قیام کرتے ہیں ، ان سب (پست مقامات) کو پکڑ کر قید میں ڈال دیتے ہیں  اور خود اپنی فوج اور سپاہ کے ذریعے معاملات کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں ، تو یہ وہ حالت اور صورت ہے جو حیوان اور نبات میں نہیں  پائی جاتیاسی طرح اس کے برعکس بھی ہے، یعنی کبھی کبھی انسان کے وجود میں پائے جانے والے دانی اور پست مقامات اس کے وجود میں موجود عالی اور بلند مقامات کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں  انہیں  گرفتار کرکے قید کر دیتے ہیں  اور اس مملکت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں

۱۱

تربیت کا غلط انداز

اگر آپ نے تجربہ کیا ہو (تو دیکھا ہوگا کہ) کچھ لوگ جو تربیت کے فن سے واقف نہیں  ہوتے، وہ نہیں  جانتے کہ انسانی وجود میں جو قوتیں موجود ہیں  اُن سب میں تربیت کے حوالے سے حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں  اگر ہمارے اندر شہوانی غرائزپائی جاتی ہیں ، تو وہ لغو اوربے کار نہیں  ہیں ہمیں طبیعی احتیاج کی حد میں ان شہوانی غرائز کی تسکین کرنی چاہئےان کی ایک حد ہے، ایک حق ہے،  ایک حصہ ہےہمیں ان کا مقررہ حصہ انہیں  دینا چاہئےاس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ سواری کے لئے اپنے گھر میں ایک گھوڑارکھتے ہیں  یاحفاظت کے لئے گھر میں ایک کتّا پالتے ہیں  اس گھوڑے یااس کتّے کو خوراک کی ضرورت ہے،  آپ پر لازم ہے کہ اسے خوراک فراہم کریں

اب کچھ کج سلیقہ لوگ ایسے ملتے ہیں  جو اپنے آپ پر یا اپنے زیرِ کفالت بچوں پر جبر کرتے ہیں  بچے کے لئے کھیل کود ضروری ہے اور خودکھیل کود کی یہ ضرورت پروردگار کی حکمتوں میں سے ہےبچے کے بدن میں انرجی کی جو مقداراکھٹی ہوتی ہے اُسے وہ صرف کھیل کود کے ذریعے خارج کرسکتا ہےبچے میں کھیل کودکے لئے غریزہ پایا جاتا ہےاب ہمیں کچھ ایسے افراد نظر آتے ہیں  جو کہتے ہیں  کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ب ہت خوب،  اچھی بات ہے

۱۲

آپ کیسے تربیت کرنا چاہتے ہیں ؟

وہ اپنے پانچ چھے سالہ بچے کودوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی اجازت نہیں  دیتے، جس کسی محفل میں خود جاتے ہیں  اپنے بچے کو بھی ساتھ لیجاتے ہیں کیوں؟ تاکہ اس کی تربیت ہو، اسے ہنسنے سے منع کرتے ہیں ، اسے کھانے سے منع کرتے ہیں یا ایسے افراد بھی پیدا ہوگئے ہیں  (ہم نے خوددیکھا ہے) کیونکہ وہ خود عمامہ پہنتے ہیں ،  ایک عبا ایک عمامہ اور خاص چپل بنواتے ہیں ،  پھر اپنے آٹھ سالہ بچے کے سر پر عمامہ رکھتے ہیں ، اس کے شانوں پر عبا ڈالتے ہیں  اور اسے اپنے ہمراہ لئے ادہر ادہر پھرتے ہیں

یہ بچہ اس حال میں بڑا ہوتا ہے کہ اس کے وجود میں پائی جانے والی احتیاجات کی تسکین نہیں  ہوئی ہوتی، اس کے سامنے بس خدا، قیامت، آتش جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے،  یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عمر کو پہنچنے پراس میں اکھٹی ہونے والی وہ قوتیں،  وہ شہوتیں اوروہ تمایلات جن کی تسکین نہیں  ہوئی ہوتی یکلخت زنجیر توڑ ڈالتی ہیں

وہ بچہ جسے آپ دیکھا کرتے تھے کہ اپنے باپ کی تلقین کے زیرِ اثر بارہ سال کی عمر میں جس کی نماز بیس منٹ طویل ہوا کرتی تھی،  جو نمازِ شب پڑھاکرتا تھا،   دعا ئیں پڑھتا تھا، پچیس سال کی عمر میں یکایک آپ کو سرسے پیر تک فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے

۱۳

کیوں؟

اسلئے کہ آپ نے اعلیٰ روحانی مقامات کے بہانے اس کی تمام غرائز کوکچل دیا تھاالبتہ بچے کی فطرت میں خدا تھا، قیامت اور عبادت تھی لیکن آپ نے خدا اور عبادت کے اس فطری جذبے کو اس انداز سے اس کے اندرمضبوط کیا کہ اس کے سارے غرائز (کی تسکین) کا راستہ روک دیا، اس کے سارے غرائز کو قید کردیا، انہیں  غضبناک اور ناراض کردیا، انہیں  جیل میں ڈال دیا، ان کا حق اور حصہ انہیں  نہیں  دیا(اب وہ غرائز) ایک موقع کی تلاش میں تھے، جوں ہی انہیں  ایک موقع ملتا ہے، جوں ہی وہ بچہ ایک فلم دیکھتا ہے یا کسی محفل میں ایک جوان لڑکی سے راہ و رسم پیدا کرتا ہے،  اسی وقت یہ جمع شدہ اور کچلی ہوئی قوتیں یک بیک سارے بندھن توڑ ڈالتی ہیں  اور اس عمارت کو جسے اس کے باپ نے غلط انداز میں اس کے وجود میں تعمیر کیا تھامسمار کر ڈالتی ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے بارودپھٹتا ہے، پھٹ پڑتی ہیں

توبہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہےایسا انسان جو گناہ اور نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے، نفسانی خواہشات اور حیوانیت میں ڈوبا ہواہوتا ہے، جب وہ اپنے وجود کے فرشتے کو اس قدر اذیت دیتا ہے اور اس کی خواہشات کی تسکین نہیں  ہونے دیتا، تو اچانک ایک دھماکہ ہوتا ہے

آخر میں اور آپ بھی تو انسان ہیں ، ہمارا ایک دہان نہیں  ہوتااگر آپ یہ سمجھتے ہیں  کہ آپ کا صرف ایک دہان ہے اور آپ کو فقط اسی سے غذا فراہم کی جائے، تو آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں  آپ کے سینکڑوں دہان ہیں  آپ کے لاتعداد سر ہیں ، لاتعداد دہان ہیں ، ان سب سے آپ کو غذا پہنچنی چاہئے

۱۴

ان لاتعداد دہان میں سے آپ کاایک دہان عبادت کادہان ہےآپ کے لئے ضروری ہے کہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کی تسکین کریںیعنی آپ کو اسے اس کایہ حق اور یہ حصہ دیناچاہئےآپ ملکوتی صفات کا حامل ایک وجود ہیں  آپ کو اس عالم کی طرف محوپرواز ہوناچاہئےاگر آپ اس فرشتے کوقید کردیں، توکیا آپ جانتے ہیں  کہ اس کے بعد کیابیماریاں اور کتنی زیادہ مشکلات جنم لیں گی؟

بسا اوقات آپ دیکھتے ہیں  کہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والا جوان، ایک ایسا جوان جسے تمام وسائل اورآسائشیں فراہم ہیں ، وہ ایک انتہائی معمولی بات پر خودکشی کرلیتا ہےلوگ کہتے ہیں  نہ معلوم اس نے کیوں خودکشی کرلی؟ یا یہ کہتے ہیں  کہ ارے یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی! کیوں خودکشی کرلی؟

دراصل وہ جوان اس بات سے واقف نہیں  تھا کہ اس کے وجود میں کچھ مقدس قوتیں قید تھیںوہ مقدس قوتیں اُس کی زندگی کے اس انداز سے آزردہ تھیں، ان کی برداشت ختم ہوچکی تھی جس کے نتیجے میں اس طرح کا ایک طوفان اٹھا

کبھی کبھی آپ دیکھتے ہیں  کہ ایک انسان سب کچھ ہونے کے باوجود مضطرب اورپریشان ہےبقول شاعر :

آن یکی در کنج زندان مست و شاد

و ان دیگر در باغ ترش و بی مراد

وہ جیل کی کوٹھڑی میں بھی خوش و خرم ہے اور دوسرا باغ کے اندر رہتے ہوئے بھی غمگین اور نامراد ہے

آپ دیکھتے ہیں  کہ وہ ایک پر آسائش ماحول میں رہتا ہے، زندگی کی تمام سہولتیں اسے میسر ہیں ، اس کے باوجود وہ پریشان ہے، ناخوش اور زندگی سے ناراض ہے

۱۵

راہ لذت از درون دان نز برون

احمقی دان جستن از قصر و حصون

لذت کا راستہ اندر سے ہے نہ کہ باہر سےاس کو محل اور قلعہ میں تلاش کرنا حماقت ہے

اسلئے کہ کچھ لذتیں ایسی بھی ہیں  جوخود انسان کے اندر سے اسے پہنچنا چاہئیں نہ کہ باہر سےاوریہ لذتیں انسان کی معنوی لذتیں ہیں

چنانچہ ”توبہ“ انسانی روح کے اعلیٰ اور مقدس مقامات کا اُس کے حیوانی اور پست مقامات کے خلاف ظاہر ہونے والاردِ عمل ہے

”توبہ“یعنی انسان کی فرشتہ صفت مقدس قوتوں کااُس کی شیطانی اور درندہ صفات قوتوں کے خلاف قیام وانقلابیہ ہے توبہ کی حقیقت

رجوع کرنے، ندامت اور پشیمانی کی یہ حالت انسان میں کیسے پیدا ہوجاتی ہے؟

۱۶

توبہ کی کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے

پہلی بات یہ جان لیجئے کہ اگر انسان کے وجود میں کوئی ایسا عمل ہو جس کے نتیجے میں اس کے وجود میں پائے جانے والے یہ مقدس عناصر مکمل طور پر ناکارہ ہوجائیںوہ ایک ایسی مضبوط زنجیر سے باندھ دیئے جائیں جس سے وہ آزاد نہ ہوسکیں، توپھر انسان کو توبہ کی توفیق حاصل نہیں  ہوتیلیکن جس طرح ایک ملک میں انقلاب اور تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب وہاں اس ملک کی عوام کے درمیان پاکیزہ لوگوں کا ایک گروہ موجود ہوتا ہے، چاہے وہ گروہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہواسی طرح اگر انسانی وجود میں بھی کچھ مقدس اور پاک عناصر باقی بچے ہوں، تو انسان کو توبہ کی توفیق حاصل ہوجاتی ہےبصورتِ دیگر اسے ہرگز توبہ کی توفیق نہیں  ہوگی

اب کن حالات میں انسان رجوع کرتا ہے، پشیمان ہوتا ہے اور اگر خدا پرست ہو تو خدا کی جانب پلٹتا ہے اور اگر خداپرست نہ ہو تو اس میں ایک دوسری حالت پیدا ہوتی ہے، کبھی پاگل پن اور دیوانگی کا شکار ہوجاتا ہے،  اور کبھی دوسری صورتحال پیش آتی ہے

ہم نے کہا کہ ”توبہ“ ایک ردِعمل ہےآپ ایک گیند ہاتھ میں لیجئے اور اسے زمین پر ماریئےگیند زمین سے اچھلے گیآپ کاگیند کو پھینکنایعنی آپ کااپنے ہاتھ کی قوت سے گیند کو زمین پرمارنا، آپ کا عمل ہے اور گیند کا زمین سے اچھلنا ردِعمل ہےیہ ردِ عمل گیند کے زمین سے ٹکرانے سے پیدا ہوتا ہےپس وہ عمل ہے اور یہ ردِعمل، وہ فعل ہے اور یہ آج کل کی عربی اصطلاح میں ردُّالفعل ہے، وہ ایکشن ہے اور یہ ری ایکشن

۱۷

جب آپ گیند کو زمین پر مارتے ہیں  تو وہ کتنی بلند ہوتی ہے؟ اس کا تعلق ایک طرف اُس طاقت سے ہے جو اسے زمین پر مارنے میں استعمال ہوتی ہے، یعنی اُس قوت سے ہے جس سے آپ نے اُسے زمین پر مارا ہے اوردوسری طرف یہ سطحِ زمین کی کیفیت سے وابستہ ہےجس قدر زمین سخت اور ہموار ہوگی، جس قدروہ پختہ ہو گی،  اُس کا ردِعمل زیادہ ہوگا (یعنی اتنا ہی گیند زیادہ بلند ہوگی) پس ردِعمل کا تعلق ایک طرف آپ کے عمل کی شدت سے ہے اور دوسری طرف اس سطح کی سختی اور ہمواری سے ہے جس سے گیند جا کر ٹکراتی ہے

گناہوں کے مقابل انسانی روح کا ردِعمل بھی دو چیزوں سے وابستہ ہوتاہےایک طرف اس کاتعلق شدتِ عمل سے ہےیعنی گناہ اور نافرمانی کی شدت سے، اس ضرب کی شدت سے ہے جو آپ کی روح کے پست مقامات روح کے اعلیٰ مقامات پر لگاتے ہیں

انسان کا گناہ جتنا کمتر اور جتنا چھوٹا ہوگا،  وہ روح میں بھی اتنا ہی کم ردِعمل پیدا کرے گا، اور جس قدر معصیت بڑی ہوگی، ردِعمل بھی اتنا ہی زیادہ ایجاد کرے گیلہٰذا وہ لوگ جو بہت زیادہ شقی القلب اور سنگدل ہوتے ہیں ، اپنی شقاوت اور قساوت ِقلبی کے باوجود اگر ان کا گناہ بہت بڑا ہو،  تو ان کو بھی ہم دیکھتے ہیں  کہ ان کی روح ردِعمل ظاہر کرتی ہےآپ دیکھتے ہیں  کہ وہ امریکی پائلٹ جس نے وہ (ایٹم) بم لے جا کر ہیروشیما پر پھینکا تھا، جب وہ واپس آنے کے بعد اپنے عمل کے اثرپرایک نظر ڈالتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ اس نے ایک شہر نذرِ آتش کردیا ہے، بوڑھے جوان، مرد عورت، چھوٹے بڑے سب ایک دَھکتے ہوئے جہنم میں جل رہے ہیں  اسی وقت اس کے ضمیر میں ہلچل مچ جاتی ہے،  وہ اسے ملامت کرتا ہےحالانکہ ایسے لوگوں کو سنگدل ترین افراد میں سے منتخب کیا جاتا ہے

۱۸

جب وہ (ہواباز) اپنے ملک لوٹتا ہے تو اس کا استقبال کیا جاتا ہے،  اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں ،  اسے اعلیٰ عہدے پر ترقی دی جاتی ہے،  اس کی تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے، اخبارات میں اس کی تصویر چھپتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہےلیکن وہ ایسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا تھا،  اس کا گناہ اس قدر بڑا تھا کہ اُس نے ایسے قسی القلب انسان کے ضمیر کو بھی بیدار کردیایعنی اس کی روح پر لگنے والی ضرب اتنی شدید تھی کہ ایسے سنگدل انسان کی روح بھی ردِ عمل ظاہر کئے بنا نہ رہ سکییہ شخص بھی جب پارٹیوں میں جاتا تو ہنستا مسکراتا، لوگوں کو بتاتا کہ اس نے یہ کیا وہ کیا، لیکن جب وہ تنہا ہوتا، جب بستر میں سونے کے لئے لیٹتا،  تو یکدم وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا، (وہ سوچتا کہ) ہائے! یہ میں تھاجس نے اتنا بڑا جرم کیا!وائے ہو مجھ پر! میں کیسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا ہوں! نتیجتاً وہ شخص پاگل ہو جاتا ہے، اس کا عمل اسے پاگل خانے لیجاتا ہے

ایساکیوں ہوتا ہے؟

ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ اس کا جرم بہت بڑا تھا

معاویہ کی فوج کا ایک سرداربسر بن ارطاۃ انتہائی سنگدل اور عجیب انسان تھامعاویہ نے حضرت علیؑ کو پریشان اور بے بس کرنے کے لئے جو پالیسیاں اختیار کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ”بسر بن ارطاۃ“یا ”سفیان غامدی“جیسے ایک خبیث فرد کی سربراہی میں کچھ فوجیوں کو حضرت علیؑ کی حکومت کی حدود کے اندر بھیجتے اور ان سے کہتے کہ اب گناہگار اور بے گناہ کو نہ دیکھنا (اسی طرح جیسے آج اسرائیل اسلامی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے) جاؤانہیں  تباہ و برباد کرنے کے لئے ان پر شبخون مارو، آتش زنی کرو، بے خطا اور خطا کار میں تمیز کئے بغیر جو سامنے آئے اسے تہ تیغ کردو، چھوٹے بڑے کسی پر رحم نہ کرو، ان کا مال و دولت لوٹ لواور معاویہ کے فوجی ایسا ہی کرتےایک مرتبہ انہوں نے اسی بُسر بن ارطاۃ کو بھیجاوہ گیاادھر ادھر سے ہوتا ہوا یمن پہنچا،

۱۹

وہاں اس نے بہت مظالم ڈھائےان ہی میں سے اس کا ایک ظلم یہ بھی تھا کہ اس نے یمن میں امیر المومنین حضرت علی ؑکے گورنر اور آپ کے چچازاد بھائی عبید اﷲ ابن عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں کوپکڑ لیااور ان دو چھوٹے بے گناہ بچوں کی گردنیں اڑادیںکیونکہ یہ ظلم بہت بڑا تھا، لہٰذا آہستہ آہستہ اس سنگدل آدمی کا ضمیر بھی بیدار ہونے لگا اور پھر وہ ضمیر کے عذاب میں مبتلا ہوگیاوہ جب بھی سوتااسے خواب میں اپنا وہ ظلم نظر آتاجب راہ چلتا تو اس کی نظروں کے سامنے یہ دو بے گناہ بچے اور اس کے دوسرے مظالم آکھڑے ہوتےرفتہ رفتہ وہ دیوانہ ہوگیاوہ لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہوجاتا، لکڑی ہی کی ایک تلوار ہاتھ میں لیتا اورگلی کوچوں میں دوڑتاپھرتا اور کوڑے مارتابچے اس کے گرد جمع ہوجاتے اور اس کا مذاق اڑاتے

ہم نے عرض کیا کہ انسانی روح کی جانب سے ردِ عمل کے اظہار کا دوسرا عامل یہ ہے کہ جس سطح پر ضرب لگ رہی ہو وہ ہموار ہو،  مضبوط اور مستحکم ہویعنی اس انسان کا ضمیر،  اس کی فطرت اور اس کا ایمان قوی ہواس صورت میں معمولی ضرب کے باوجود ردِ عمل نسبتاً زیادہ ہوگالہٰذا آپ دیکھتے ہیں  کہ چھوٹی چھوٹی خطائیں،  گناہانِ صغیرہ،  حتیٰ وہ اعمال جو مکروہ ہیں  اور جنہیں  گناہ نہیں  سمجھا جاتاوہ باایمان افراد (ایسے افراد جو مضبوط روح کے مالک ہوتے ہیں ،  جن کا معنوی فرشتہ،  جن کا ایمان،  جن کا معنوی ضمیر مستحکم ہوتا ہے) کے نزدیک قابلِ مذمت ہوتے ہیں  اور یہ اعمال اُن میں ردِ عمل پیدا کرتے ہیں  ایسے اعمال جن کے ہم روزانہ سیکڑوں مرتبہ مرتکب ہوتے ہیں  اور جنہیں  انجام دینے کے بعد ہمارے اندریہ معمولی سا احساس بھی جنم نہیں  لیتا کہ ہم نے کچھ کیا ہے(جبکہ) پاک سرشت انسان جوں ہی کوئی مکروہ عمل بھی انجام دیتے ہیں  تو ان کی روح مضطرب ہوجاتی ہے اور وہ مسلسل اور بار بار توبہ واستغفارکرتے ہیں

۲۰

اگر اسے يہ معلوم ہوكہ اسے اپنى شريك زندگى كى بھر پور محبت حاصل ہے تو وہ اپنے خاندا ن كى فلاح و بہبودى اور خوشى كے لئے اپنى فداكارى كى حد تك كوشش كرنے كے لئے تيار رہے گا جس مرد كو محبت كى كمى محسوس نہيں ہوتى وہ بہت كم دماغى امراض اور اعصابى كمزوريوں كا شكار ہوتے ہيں _

خاتون عزيز اگر آپ كے شوہر يہ معلوم ہو كہ آپ اس سے محبت نہيں كرتيں تو وہ آپ سے سرد مہرى سے كام لے گا _ زندگى اور اپنے كام كاج سے اس كى دلچسپى كم ہوجائے گى _ پريشانيوں اور دماغى امراض ميں مبتلا ہوجائے گا _ زندگى اور خاندان سے فرار اختيار كرے گا اور زندگى ميدان ميں سرگرداں اور پريشان رہے گا _ ممكن ہے مجبور ہوكر شراب خانوں ، قمار خانوں اور تباہى و بردبارى كے مراكز ميں پناہ تلاش كرے _

اپنے دل ميں سوچے گا كہ ميں ايسے لوگوں كے لئے كيوں تكليف اٹھاؤں جو مجھے دوست نہيں ركھتے بہتر ہے عياشى اور آزادى كى زندگى گزاروں اور اپنے لئے حقيقى دوست پيدا كروں _

خواہر محترم اپنے شوہر كى گردن ميں رشتہ محبت ڈال ديجئے اور اس كے ذريعہ اس كى توجہ كو اپنے گھر اور خاندان كى طرف مركوز و مبذول كرايئے ممكن ہے آپ دل سے اپنے شوہر كو بہت چاہتى ہوں مگر اظہار نہ كرتى ہوں ليكن صرف اتنا ہى كافى نہيں ہے بلكہ اس كا اظہار بھى ضرورى ہے اور اپنى رفتار و گفتار اور حركات كے ذريعہ اپنے عشق و مبحت كو نمايان كيجئے _ اس ميں كيا ہر ج ہے اگر كبھى كبھى آپ اپنے شوہر سے كہيں كہ ميں واقعى آپ كو بہت چاہتى ہوں _ اگر وہ سفر سے واپس آيا ہے تو نيا لباس يا پھولوں كا ايك گلدستہ اس كى نذر كريں اور كہيں اچھا ہو آپ آگئے مجھے آپ كى جدائي گوارہ نہيں _ جب وہ باہر گيا ہو ت اسے خط لكھيں اور اس كے فراق و جدائي ميں اپنے غم كا اظہار كريں _ شوہر جہاں كام كرتا ہو وہاں ٹيليفوں ہو اور گھر بھى ٹيليفون ہو تو كبھى كبھى فو ن كركے اس كى خيريت پوچھ ليجئے (ليكن زيادہ نہيں ) اگر خلاف معمول دير سے گھر پہونچے تو اپنى پريشانى كا اظہار كيجئے _

۲۱

اس كى غير موجودگى ميں اپنے دوستوں اور عزيزوں ميں اس كى تعريف كيجئے كہئے واقعى ميں نے كيا شوہر پايا ہے _ ميں اس سے محبت كرتى ہوں _اگر كوئي اس كى برائي كرنا چاہے تو اس كا دفاع كيجئے _ آپ جتنا زيادہ اپنے عشق و محبت كا اظہار كريں گى وہ اتنى ہى زيادہ آپ سے محبت كرے گا _ اور اس طرح آپ كى ازدواجى زندگى كى رسى اتنى ہى مضبوط ہوتى جائے گى اور آپ كا گھرانہ ، ايك خوش و خرم اور خوش نصيب گھرانہ ہوگا _

شيكسپئر كہتا ہے : عورت كى جس چيز نے ميرے دل كو مسخر كيا وہ اس كى مہربانى ہے نہ كہ اس كے چہرے كى خوبصورتى _ ميں اس عورت كو زيادہ پسند كرتاہوں جو زيادہ مہربان ہو _

خداوند بزرگ و برتر مياں بيوى كے درميان پائي جانے والى محبت و انسيت كو اپنى قدرت كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى قرارديتے ہوئے قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

''خدا كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى يہ ہے كہ اس نے تمہارے لئے شريك زندگى (ہمسر)

پيدا كئے تا كہ تم ان سے چين حاصل كرواور تمہارے درميان دوستى و محبت پيدا كى _(۱۹)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہيں : بعض عروتيںاپنے شوہروں كے لئے بہترين نعمت ہيں يعنى ايسى عورتيں جو اپنے شوہر سے محبت و عشق كا اظہار كريں _(۲۰)

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : تم ميں سے بہتريں عورتيں وہ ہيں جو عشق و محبت كے جذبات سے مملو ہوں _(۲۱)

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : اگر كسى كو عزيز ركھتے ہو تو اس كو اس بات سے آگاہ كرو_(۲۲)

شوہر كا احترام

ہر انسان كو اپنى شخصيت سے پيار ہوتا ہے وہ اپنے آپ كو عزيز ركھتا ہے _ اس كا دل چاہتا ہے كہ دوسرے بھى اس كى شخصيت كا احترام كريں اور جو اس كى شخصيت كا احترام كرتا ہے وہ اس كا

۲۲

محبوب بن جاتا ہے او رتوہين كرنے والوں سے اس كا دل متنفرہوجاتا ہے _

خاتوں محترم اپنى ذات سے محبت او راحترام كى خواہش ، ايك فطرى جذبہ ہے ليكن ہر شخص آپ كے شوہر كے دلى جذبات كا احترام كرنے اور ان كى عزت كرنے كے لئے تيار نہيں _ گھر سے باہر سينكڑوں افراد اور طرح طرح كے بدتميز لوگوں سے اس كا سابقہ پڑتا رہتا ہے جو اكثر اوقات اس كى توہين كرديتے ہيں اس كى شخصيت كو مجروح كرديتے ہيں _ چونكہ آپ اس كى شريك زندگى اور مونس و غمخوار ہيں اس لئے وہ آپ سے اس بات كى توقع ركھتاہے كہ كم سے كم گھر ميں آپ اس كا احترام كريں اور اس كى مجروح شخصيت كو سہارا ديں _ اس كى عزت افزائي كركے آپ چھوٹى نہيں ہوجائيں گى بلكہ اس كو طاقت و توانائي اور حوصلہ عطا كريں گى _ آپ كے چند حوصلہ افزا جملے اس ميں سرگرم عمل رہنے كے لئے ايك نئي روح پھونك ديں گے _

خاتون محترم اپنے شوہر كو سلام كيجئے _ ہميشہ اس كو ، آپ سے مخاطب كيجئے _ گفتگو كے دوران اس كے كلام كو منقطع نہ كيجئے _ اس كا احترام كيجئے _ اس سے ادب سے بات كيجئے _ اس كے اوپر چيخئے چلايئےہيں _ اگر كسى محفل ميں ساتھ جارہى ہيں تو اس كو آگے ركھئے _ اس كو نام لے كر نہ پكاريئے بلكہ فيملى نام يا لقب سے مخاطب كيجئے _ دوسروں كے سامنے اس كى تعريف و تحسين كيجئے _ مہمانوں كے سامنے بھى اس كا احترام كيجئے_ اور انھيں كے برابر ، بلكہ ان سے زيادہ اس كى خاطر كيجئے _ كہيں ايسا نہ ہو كہ مہمانوں كى بزم آپ اپنے شوہر كے وجود كو نظر انداز كرديں اور آپ كى تما م تر توجہ مہمانوں پر مركوزرہے _ جب دروازہ كھٹكھٹائے تو كوشش كيجئے كہ آپ خود دروازہ كھوليں اور كشادہ پيشانى اور مسكراہٹ كے ساتھ اس كا استقبال كيجئے _ كيا آپ جانتى ہيں كہ آپ كا يہ چھوٹا سا فعل ، آپ كے شوہر كے دل پر كتنا اچھا اثر ڈالے گا ؟ شايد گھر كے باہر اسے گوناگوں مشكلات كا سامنا كرنا پڑا ہو اور وہ شكستہ دل اور پريشان گھر آيا ہو _آپ كا مسكراتے لبوں سے استقبال كرنا ، اس كے تھكے ماندے جسم ميں ايك تازہ

۲۳

روح پھونك دے گا اور اس كے دل كو سكون و اطمينان عطا كردے گا _ ممكن ہے خواتين ان باتوں پر تعجب كريں اور كہيں يہ كيسى عجيب و غريب تجويزہے _ بيوى شوہر كے خير مقدم كے لئے جائے اور اسے خوش آمديد كہے وہ كوئي غير اور اجنبى تو ہے نہيں كہ اسے اس بات كى احتياج ہو كہ اس كا خير مقدم كيا جائے اور خوش آمديدكہا جائے _

آداب كا لحاظ صرف احباب كے درميان ركھنا ، يہ طرز فكر ہمارى غلط تربيت كا نتيجہ ہے _ يہ كون كہتا ہے كہ دوستوں اور عزيزوں كا ادب و احترام كرنا لازم نہيں ہے _ كوئي مہمان آپ كے گھر آتاہے آپ اس كا خير مقدم كرتى ہيں _ اسے خوش آمديد كہتى ہيں اس كا احترام كرتى ہيں _ يہ بالكل صحيح ہے مہمان كا احترام كرنا چاہئے ليكن ذرا انصاف سے كہئے گا ايك شخص جو صبح سے شام تك آپ كے آرام و آسائشے اور ضروريات زندگى مہيا كرنے كى فكر ميں لگا ہوا ہے اور اس كے لئے سينكڑوں طرح كى پريشانيوں اور دشواريوں كا سامنا كرتا ہے اور جب خلوص كے خوان ميں اپنى محنت كى كمائي سجا كر ، گھر كے دروازے تك آنے كى زحمت گوارا كريں اور لبوں پر مسكراہٹ لاكر ايك خيرمقدمى جملے سے اس كا دل شاد كرديں _ يہ نہ كہئے كہ ہم آپس ميں ايك دوسرے سے مانوس ہيں اس لئے وہ احترام كى توقع نہيں ركھتا بلكہ دوسروں سے زيادہ وہ آپ سے احترام كا خواہاں ہے _ اگر آپ اس كا احترام نہيں كرتيں اور وہ خاموش رہتا ہے تو يہ اس بات كى دليل نہيں كہ وہ آپ سے احترام كى توقع نہيں ركھتا بلكہ آپ كا لحاظ كركے اپنى دلى خواہش كو دباديتا ہے _

خاتوں عزيز اگر آپ اپنے شوہر كى عزت كريں گى تو وہ بھى آپ كا احترام كرے گا _ آپ كے درميان رشتہ الفت و محبت استوارتر اور پيمان زناشوئي پائيدارتر ہوجائے گا _ گھر ، زندگى اور اپنے كام ميں اس كى دلچسپى بڑھ جائے گى _ اور يقينا يہ چيز آپ كے مفاد ميں ہوگى _

۲۴

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں : بيوى كا فرض يہ ہے كہ اپنے شوہر كا استقبال كے لئے گھركے دروازے تك جائے اور اس كو خوش آمديد كہے _(۲۳)

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں : وہ عورت جو اپنے شوہر كا احترام كرے اور اس كو تكليف نہ پہونچائے ، وہ خوش نصيب اور سعادت مند ہوگى _(۲۴)

پيغمبر اسلام كا ارشاد ہے _ عورت كا فرض ہے كہ اپنے شوہر كى لئے توليہ اور طشت لائے اور اس كے ہاتھ دھلائے _(۲۵)

اس بات كا خيال ركھئے كہ آپ اپنے شوہر كى توہين اور بے عزتى نہ كريں اسے بر ابھلانہ كہيں ، گالى نہ ديں ، اس كى طرف سے بے بى اعتنائي نہ برتيں ، اس پر چيخيں چلائيں نہيں ، دوسروں كے سامنے اس كى بے عزتى نہ كريں ،اس كو برے ناموں سے نہ پكاريں _ اگر آپ اس كو توہين كريں گى تو وہ بھى آپ كى توہين كرے گا _ وہ رنجيدہ ہوجائے گا ، آپ كى طرف سے اس كے دل ميں كينہ بيٹھ جائے گا _ آپ كے درميان انس و محبت كا خاتمہ ہوجائے گا اور آپ كى زندگى ميں ہميشہ كشمكش باقى رہے گى _ اگر ساتھ زندگى گزاريئےا ، تو يقينا آپ كى زندگى خوشگوار نہيں ہوگى _ ذہنى تناؤ كينہ ، اور نفسياتى الجنھيں ممكن ہے آپ كے لئے خطرہ پيدا كرديں اور ظلم و ستم كا باعث بنيں _

مندرجہ ذيل واقعات سے عبرت حاصل كيجئے :_

ايك ۲۲ سال مرد نے اپنى ۱۹ سالہ بيوى كو اس وجہ سے كہ اس نے اس كو اندھے گدھے ، كہكر پكارا تھا ، چاقو كى پندرہ ضربوں سے قتل كرديا _ اس نے عدالت ميں كہا : ايك سال پہلے ميں نے اس سے شادى كى تھى _ شروع ميں وہ مجھے بہت چاہتى تھى ليكن جلد ہى اس ميں تبديلى رونما ہوگئي اور حالات ناسازگار ہوتے گئے ، وہ ذرا ذرا سى بات پر مجھ كو گالى ديتي_ حتى كہ چونكہ ميرى ايك آنكھ ذرا سى ٹيڑھى ہے اس لئے مجھے ، اندھے گدھے ، كہہ كر مخاطب كرتى _ حادث كے دبن بھى اس نے

۲۵

اپنے شوہر كو ان ہى الفاظ سے پكاراتھا اور وہ اس قدر غضبناك ہوگيا كہ اپنى بيوى كى جان كے درپے ہوگيا اور چاقو كى ۱۵ ضربوں سے اس كو ہلاك كرديا _(۲۶)

ايك ۷۱ سالہ مرد جس نے اپنى بيوى كو ہلاك كرديا تھا قتل كى وجہ يوں بيان كرتا ہے : _

اچانك اس كے سلوك ميں فرق آگيا تھا وہ ميرى طرف سے بے پروا ہوگئي تھى ايك بار مجھ كو ، ناقابل برداشت بوڑھے، كہہ كر بھى پكارا _ اس بات سے پتہ چل گيا كہ وہ مجھ سے محبت نہيں كرتى _ ميں بدگمانى ميں مبتلا ہوگيا اور كلہاڑى كى دو ضربوں سے اس كاكام تمام كرديا _(۲۷)

شكوہ شكايت

كوئي انسان ايسا نہيں جسے پريشانيوں ، الجھنوں اور دشواريوں كا سامنا نہ كرنا پڑے _ ہر شخص كى يہ خواہش ہوتى ہے كہ اس كا كوئي غمخوار اور محرم راز ہوجس سے وہ اپنى پريشانيوں كو بيان كرے _ اور وہ اس سے اظہار ہمدردى كرے اور اس كا غم غلط كرے _ ليكن ہر بات كا ايك موقعہ و محل ہوتا ہے _ درد دل بيان كرنے كيلئے بھى مناسب موقع كا لحاظ ركھنا چاہئے _ ہر جگہ ، ہر وقت اور ہر حالت ميں شكلہ ميں شروع نہيں كردينى چاہئے _ وہ عورتيں جو نادان اور خود غرض ہوتى ہيں اور شوہر دارى كے آداب اور معاشرت كے رموز سے ناواقف ہوتى ہيں ان ميں اتنا بھى صبر و ضبط نہيں ہوتا كہ وہ اپنى پريشانيوں كو برداشت كريں اور درددل كو مناسب وقت كيلئے اٹھاركھيں جيسے ہيں بيچارہ شوہر تھكاماندہ گھر ميں داخل ہوتا ہے ، ذرا دم بھى وہيں لينے پاتا كہ اسى وقت اس كى نادان بيوى شكايتوں كے دفتر كھول ديتى ہے جو گھر سے بيزار بنايئےيلئے كافى ہے _ خود تو چلے جاتے ہو اور مجھے ان كم بخت بچوں ميں سركھپانے كے لئے چھوڑ جاتے ہو _ احمد نے كمرے كے دروازہ كا شيشہ توڑديا _ منيزہ اور پروين ميں خوب لڑائي ہوئي_ ان بچوں كى اودہم نے مجھے ديوانہ كرديا _ افوہ ، بہرام ذرا بھى سبق نہيں پڑھتا _ آج اسكوال سے اس كى رپورٹ آئي ہے _ بہت خراب نمبر ہيں _ ميں بيكارہى ان سب كے لئے زحمت اٹھائتى ہوں _ صبح سے اب تك اس قدر كام كئے ہيں كہ حالت خراب ہوگئي كسى كو ميرى پرواہ نہيں _ يہ بچے ذرا بھى كسى كام ميں ہاتھ نہيں لگاتے _ كاش بے اولاد ہوتى _ ہاں آج تمہارى بہن آئي تھى _ معلوم نہيں كيوںمجھ سے

۲۶

خار كھاتى ہے _ جيسے ميں اس كے باپ كا ہى تو كھاتى ہوں _ اور تمہارى ماں _ خدا كى پناہ _ ادھر ادھر ميرى برائيوں كرتى ہيں _ ميں ان سب سے تنگ آگئي ہوں _ لعنت ہو مجھ پر كہ كہ ايسے خاندان سے پالاپڑا ہے _ ميرے ہاتھ ديكھو_ كھانا پكارہى تھى چھرى سے ميرا ہاتھ كٹ گيا_ ہاں كل سہراب كے يہاں تساوى ميں گئي تھى كاش نہ گئي ہوتى _ وہاں جاكر عزّت مٹى ميں مل گئي _ حسن آغا كى بيوى آئي تھى _ كيا ميك اپ تھا اور كيا لباس تھا _ خدا ايسى قسمت سب كى بنائے _ لوگ اپنى بيويوں كا كس قدر خيال ركھتے ہيں _ كيسے اچھے اچھے لباس ان كے لئے خريد تے ہيں _

اس كو كہتے ہيں شوہر _ جب وہ محفل ميں آئي تو سب نے اس كا احترام كيا جى ہاں لوگ صر ف كپڑے ديكھتے ہيں _ آخر ميں اس سے كس بات ميں كم ہوں كہ اس كى اتنى شان ہے _ ہاں قسمت والى ہے _ اس كا شوہر اس كا خيال ركھتا ہے تمہارى طرح نہيں ہے _ اب ميں اس منحوس گھر ميں تمہارے اور تمہارے بچوں كے لئے جان نہيں كھپاسكتى _ جو چاہے كرو'' _ و غيرہ و غيرہ_

خاتون محترم شوہر داردى ، كا يہ طريقہ نہيں ہے _ كيا آپ سمجھتى ہيں كہ آپ كا شوہر تفريح اور سير سپاٹے كرنے كے لئے گھر سے باہر جاتا ہے _ روز ى كمانے ، ضروريات زندگى مہيا كرنے اور پيسے كمانے كى غرض سے باہر جاتا ہے _ صبح سے اب تك اس كو نہ جانے كن كن پريشانيوں كا سامنا كرنا پڑا كہ جن ميں سے ايك كى بھى آپ متحمل نہ ہو سكيں گي_ آفس يا بازار كى مشكلات كى آپ كو خبر نہيں ہے _ كيسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے اور كيسى كيسى ذہنى پريشانياں آجاتى ہيں_ آپ كو اپنے شوہر كى پمردہ روح اور تھكے ماندے اعصاب كى كوئي فكر نہيں _ اب جبكہ وہ باہر كى پريشانيوں سے جان چھڑا كر گھر ميں پناہ لينے آيا ہے كہ ذرا دير آرام كرلے تو بجائے اس كے كہ آپ اس كا غم غلط كريں، شكايتوں كے دفتر اس كے سامنے كھول كے بيٹھ جاتى ہيں _ آخر اس بے چارے نے مرد ہوكر كيا گناہ ہے كہ گھر سے باہر طرح طرح كى پريشانيوں ميں گرفتار رہتا ہے اور گھر آتے ہى اسے آپ كے شكوے شكايات كا سامنا كرنا پڑتا ہے _ ذرا انصاف سے كام ليجئے _ تھوڑا سا اس كے بارے ميں بھى سوچئے _ اس كے پاس بھى سوائے اس كے

۲۷

اور كوئي چارہ نہيں كہ چيخے چلائے تا كہ آپ كى بے جا شكايتوں اور بد زبانيوں سے نجات حاصل كرے يا اس گھر سے فرار اختيار كركے كسى ہوٹل ، سينما يا كسى دوسرى جگہ جاكر پناہ لے يا سڑكوں پر آوارہ گھومتا ہے _

خانم محترم خدا كى خوشنودى اور اپنے اور خاندان كى خاطر اس قسم كى بے جا شكايتوں اور ہنگاموں سے پرہيز كيجئے _ عقل مندى اور ہوشيارى سے كام ليجئے _ موقع شناس بنئے _ اگر آپ كو واقعى كوئي پريشانى لاحق ہے تو صبر كيجئے تا كہ آپ كا شوہر آرام كرلے _ اس كى تھكن دور ہوجائے اس كى بعد موقع كى مناسبت سے ضرورى باتيں اس سے بيان كيجئے _ ليكن اعتراض كى شكل ميں نہيں بلكہ اس طرح گويا آپ اس سے مشورہ لے رہى ہيں اور اس كو حل كرنے كى فكر كيجئے _ اگر آپ كے شوہر كو اپنے خاندان سے شديد لگاؤہے تو چھوٹى چھوٹى باتوں اور غير ضرورى واقعات كو اس سے بيان نہ كريں اور ہر وقت كى چپقلش سے اپنے شوہر كے اعصاب كو خستہ نہ كيجئے _ اس كو اس كے حال پر چھوڑ ديجئے اس كو اور بھى بہت سى پريشانياں لاحق رہتى ہيں _

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں : جو عورت اپنى زبان سے اپنے شوہر كو تكليف پہونچاتى ہے ، اس كى نمازيں اور دوسرے اعمال قبول نہيں ہوتے خواہ ہر روز روزہ ركھے اور راتوں كو عبادت او رتہجد كے لئے اٹھے_ غلاموں كو آزاد كرے اپنى دولت راہ خدا ميں خرچ كرے ايسى عورت جو بدزبان ہو اور اپنى بد زبانى سے اپنے شوہر كو رنج پہونچائے وہ پہلى شخص ہوگى جو دوزخ ميں داخل ہوگى _(۲۸)

رسول خدا (ص) ايك اور موقع پر فرماتے ہيں : جو عورت اپنے شوہر كو دنيا ميں تكليف پہونچاتى ہے حوريں اس سے كہتى ہيں ، تجھ پر خدا كى مار، اپنے شوہر كو اذيت نہ پہونچا ، يہ مرد تيرے لئے نہيں ہے _ تو اس كے لائق نہيں وہ جلدہى تجھ سے جدا ہوكر ہمارى طرف آجائے گا _(۲۹)

ميرى سمجھ ميں نہيں آتا كہ ان فضول باتوں سے خواتين كا مقصد كيا ہے _ اگر چاہتى ہيں كہ اس طرح سے شوہر كى توجہ كو اپنى طرف مبذول كراليں او راپنے آپ كو اس كے سامنے محبوب ،محنتى اور

۲۸

خير خواہ ظاہر كريں ، تو اطمينان ركھيں كہ اس كا نتيجہ برعكس ہوگا _ نہصرف يہ كہ اس طريقے سے آپ اس كى محبت حاصل نہ كر سكيں گى بلكہ شوہر كے غيظ و غضب كا شكار ہوجائيں گى _ اور اگر اس طرز عمل سے آپ كا مقصد اپنے شوہر كے اعصاب كو خستہ كرنا ہے تا كہ كام اور زندگى سے اس كا دل بھر جائے اور اعصابى امراض ميں مبتلا ہوجائے اگر گھر سے فرار اختيار كرے اور اعصاب كو بے حس بنادينے كے لئے خطرناك نشہ آور چيزوں كى عادت ڈال لے اور فتنہ و فساد كے مراكزكا رخ كرے اور آخر كار دق كا شكار ہوجائے تو ا س صورت ميں آپ كا كاميابى يقينى ہے _

خاتون عزيز اگر آپ كو اپنے شوہر اور زندگى سے محبت ہے تو اس غير عاقلانہ اور غلط روش كو چھوڑيئے كيا اس بات كا احتمال نہيں كہ آپ كى بے جا شكايتيں ، قتل و غارت گرى كا باعث بن جائيں يا آپ كى خاندانى زندگى كا شيرازہ بكھر جائے _ مندرجہ داستان پر توجہ كيجئے :_

''جس وقت گھر آيا ، اس كى بيوى نے ، ايسى حالت ميں كہ اپنى تين سالہ بچى كو گوديں لئے ہوئے تھى اپنے شوہر سے كہا: تمہارے آفس سے دو آدمى آئے تھے اور برابھلا كہہ رہے تھے _ مرد سخت غضبناك ہوگيا اور حالت جنوں ميں چاقو كى نوك اپنى ننّھى سى بچى كے پيٹ ميں بھونك كر اسے قتل كرديا _ اس مرد كو چار سال كے لئے قيد كى سزا ہوگئي _(۳۰)

عدالت ميں ايك ڈاكٹر شكايت كرتا ہے :'' سارى زندگى ميرى بيوى نے ايك بار بھى ميرے ساتھ ايك شائستہ اور اچھى خاتون جيسا سلوك نہيں كيا _ ہمارے گھر ميں ہميشہ بد نظمى اور بدسليقگى كافرمارہي_ اس كے نالہ و فرياد ، بہانہ بازيوں اور گاليوں سے ميں بے حد تنگ آچكا ہوں '' يہ ڈاكٹر اس بات پر تيارے كہ پچاس ہزار روپئے دے كر اس كے شرسے نجات حاصل كرلے _ اور بہت خوشى سے كہتا ہے كہ اگر ميرى تمام دولت ، حتى ميرى ميڈيكل كى ڈگرى بھى آپ چاہيں تو ديدوں گا تا كہ جلد سے جلد اس سے رہائي حاصل كرلوں _(۳۱)

خوش اخلاق بنئے : جو خوش اخلاق ہوتا ہے ، لوگوں سے خندہ پيشانى سے پيش آتا ہے

۲۹

مسكراكے بات كرتا ہے ، حادثات و مشكلات كے مقابلے ميں بردبارى سے كام ليتا ہے ، ايسا شخص سب كا محبوب ہوتا _ اس كے دوست زيادہ ہوتے ہيں _ سبھى چاہتے ہيں كہ اس سے تعلقات قائم كريں اور اس سے راہ و رسم بڑھائيں _ وہ شخص سب كى نظروں ميں عزيز و محترم ہوتا ہے _ ايسا شخص اعصابى كمزورى اور نفسياتى بيماريوں كا شكار نہيں ہوتا _ زندگى كى مشكلات اور پريشانيوں پر غلبہ پاليتا ہے _ خوش مزاج انسان زندگى كا صحيح لطف اٹھاتا ہے اور اس كى زندگى بہت سكون سے گزرتى ہے _

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں : خوش اخلاقى سے بڑھ كر زندگى ميں اوركوئي چيز نہيں _(۳۲)

البتہ جو شخص بد اخلاق ہوتا ہے _ لوگوں سے ترش روئي سے ملتا ہے _ حوادث و پريشانيوں كے وقت نالہ و فرياد كرتاہے ، بلا وجہ شوروہنگامہ كرتا ہے _ بد مزاج اور بدزبان ہوتا ہے اس كى زندگى تلخ و ناگوار گزرتى ہے ، خود بھى ہميشہ پريشان رہتا ہے اور اپنے ساتھ رہنے والوں كى زندگى بھى وبال جان بناديتا ہے _ لوگ اسے ناپسند كرتے ہيں اور اس سے ملنے سے كتراتے ہيں وہ نہ خود ہى چين سے رہتا اور نہ ہى اپنے گھر والوں كو چين سے رہنے ديتا ہے _ نہ اسے ٹھيك سے نيندآتى ہے نہ اچھى طرح كھاپى سكتا ہے _طرح طرح كى بيمارياں خصوصاً اعصابى امراض ايسے شخص كو گھير ليتے ہيں _ اس كى زندگى ہميشہ تلخ رہتى ہے او رنالہ و فرياد كرتا رہتا ہے _ اس كے دوست كم ہوتے ہيں اور وہ كسى كا محبوب نہيں ہوتا _

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : بداخلاق انسان اپنے نفس كو دائمى رنج و عذاب ميں مبتلا كرليتا ہے _(۳۳)

خوش اخلاقى سب كے لئے لازم ہے _ اور خاص طور پر بيان بيوى كے لئے تو بہت ضرورى ہے كيونكہ ہميشہ ساتھ رہتے ہيں اور ہم زندگى گزارنے پر مجور ہيں _

خاتون محترم اگر آپ چاہتى ہيں كہ آپ اور آپ كے شوہر اور بچوں كى زندگى اچھى طرح گزرے تو اپنے اخلاق كى اصلاح كيجئے _ ہميشہ خوش و خرم اور مسكراتى رہئے _ تلخى اور جھگڑے سے

۳۰

پرہيز كيجئے _ خوش گفتار اور شيريں بيان بنئے _ آپ اپنى خوش اخلاقى كے ذريعہ اپنے گوہر كو بہشت برين بنا سكتى ہيں _ كيا يہ افسوس كى بات نہيں كہ بداخلاقى سے آپ اپنے گھر كو جہنّم ميں تبديل كرديں اور خود كو اور اپنے شوہر اور بچوں كو اس عذاب ميں مبتلا كرديں _ آپ چاہيں تو فرشتہ رحمت بن سكتى ہيں گھر كے ماحول كو خوشگوار اور پرسكون بناسكتى ہيں _ متبسم چہرے اور خندہ پيشانى اور شيريں بيانى سے آپ اپنے شوہر اور بچوں كے دلوں كو مسرّت و شادمانى عطا كرسكتى ہيں ان كے دل سے رنج و غم مٹا سكتى ہيں _ كيا آپ جانتى ہيں_؟

صبح جب آپ كے بچے اسكول يا كام پر جارہے ہوں اور اگر آپ گر مجوشى اور مسكراہٹ كے ساتھ ان كو رخصت كريں تو ان كى روح او راعصاب پر كيسا اچھا اثر پڑے گا _ اور اپنے كاموں كو انجام دينے كے لئے ان ميں كيسى تازہ لہردوڑجائے گى _

اگر آپ كو زندگى اور اپنے شوہر سے محبت ہے تو بداخلاقى سے گريز كيجئے كيونكہ اچھا اخلاق رشتہ ازدواج كو مستحكم بنانے ميں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے _ اكثر طلاقيں بداخلاقى اور مياں بيوى ميں ہم آہنگى نہ ہونے كے سبب انجام پاتى ہيں _ طلاقوں كے اعداد و شمار سے اس بات كى تائيد ہوتى ہے _ اخلاقى اعتبار سے عدم ہم آہنگى ، خاندان ميں اختلافات اور كشيدگى كى اہم وجہ ہوتى ہے _

خاتون محترم خوش اخلاقى اور عشق و حبت كے ذريعہ اپنے شوہر كا دل جيت ليجئے _ تاكہ وہ زندگى اور خاندان سے محبت كرے اور پورى توجہ او رلگن كے ساتھ اپنے كام ميں مشغول رہے اور آپ كى آسائشے كے اسباب مہيا كرے _ آپ اگر اس سے خوش اخلاقى سے پيش آئيں گى تو وہ راتيں باہر گزار نے اور عياشى كى فكر ميں نہيں رہے گا اور جلدى گھر آئے گا _

ايك عورت نے عدالت ميں شكايت كى كہ ميرا شوہر ہميشہ دو پہر اور رات كا كھانا باہر كھاتا ہے _

شوہر نے جواب ديا كہ اس كى وجہ يہ ہے كہ ميرى بيوى ذرا بھى بناہ كرنا نہيں جانتى _ اور

۳۱

اس كا اخلاق بے حد خراب ہے _ اور دنيا كى بداخلاق ترين عورت ہے _

عورت فوراً اٹھى اورعدالت ميں موجود لوگوں كے سامنے اپنے شوہر كو تھپڑ مارديا _(۳۴)

يہ نادان عورت سمجھتى تھى كہ شكايات ، گالى ، اور مارپيٹ كے ذريعہ وہ اپنے شوہر كو گھر كى طرف ملتف كرسكے گى _جبكہ ايك عاقلانہ سادہ سى راہ موجود تھى اور وہ تھى خوش اخلاقى اور اچھا برتاؤ_

ايك عورت نے عدالت ميں كہا ميرا شوہر مجھ سے بات نہيں كرتا اور اخراجات اپنى ماں كے ذريعہ مجھے بھجواتا ہے _ مرد نے جواب ميں كہا كہ چونكہ ميں اپنى بيوى كى بداخلاقيوں سے تنگ آچكا ہوں اس لئے ميں نے فيصلہ كيا ہے كہ اس بات نہ كروں اور اس بات كو پندرہ مہينے ہورہے ہيں _(۳۵)

ازدواجى زندگى كى اكثر مشكلات كو ہوشيارى اور اچھے اخلاق كے ذريعہ حل كيا جا سكتا ہے _ اگر آپ كا شوہر كم محبت كرتا ہے ، گھر پر زيادہ توجہ نہيں ديتا ، دير سے گھر آتا ہے دوپہر اور رات كا كھانا باہر كھاتا ہے، بدسلوكى كرتا ہے ، بد مزاجى اور جھگڑاكرتا ہے ، اپنى دولت كو برباد كرتا ہے _ الگ ہونے اور طلاق دينے كى بات كرتا ہے تو آپ اس قسم كى سارى مشكلات كو اپنے اعلى اخلاق و كردار اور اچھے برتاؤ سے حل كرسكتى ہيں _ آپ اپنے رويئےيں تبديلى پيدا كيجئے اور اچھے اخلاق كا اعجاز آفرين نتيجہ ديكھئے _

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: خداوند عالم ، خوش اخلاق انسان كو جہاد كا ثواب عطا فرماتا ہے _ اور صبح و شام اس پر ثواب نازل فرماتا ہے _(۳۶)

امام جعفر صادق (ع) يہ بھى فرماتا ہيں كہ : جو عورت اپنے شوہر كو اذيّت پہونچاتى ہے اور اس كو رنجيدہ ركھتى ہے خدا كى رحمت سے دور رہتى ہے اور جو عورت اپنے شوہر كا احترام كرتى ہے ، اس كو تكليف نہيں پہونچاتى ، اس كى فرمانبردارى كرتى ہے ، وہ خوش نصيب اور عذاب سے نجات پانے والى ہوتى ہے _(۳۷)

كسى نے حضرت رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے عرض كيا كہ فلاں عورت بہت نيك ہے _ روزے ركھتی ہے ، راتوں كو عبادت كرتى ہے ،ليكن بداخلاق ہے اوراپنے ہمسايوں كو اپنى زبان سے آزار پہونچاتى ہے _

آپ نے فرمايا: اس ميں كوئي خوبى نہيں ہے _ وہ دوزخى ہے _(۳۸)

۳۲

بے جا توقعات

تمام افراد كے مالى وسائل اور آمدنى يكسان نہيں ہوتى _ سبھى ايك معيار كے مطابق زندگى نہيں گزار سكتے _ ہر خاندان كو اپنى آمدنى اور اخراجات كا حساب خود كرنا چاہئے اور اپنى آمدنى كے مطابق خرچ كرناچاہئے _ زندگى ہر طرح گزارى جا سكتى ہے _ يہ دانشمندوں كا شيوہ نہيں كہ غير ضرورى چيزوں كى فراہمى كے لئے قرض لے يا بعد ميں اس كى قيمت ادا كرتا رہے _

خاتون عزيز آپ گھر كى مالكہ ہيں _ عاقل اور سمجھدار ہيں _ اپنى آمدنى اور اخراجات كا اندازہ كيجئے اور ديكھئے كہ كس طرح خرچ كيا جائے كہ آپ كى عزت و آبرو قائم رہے اور آپ كے پاس ہميشہ كچھ روپيہ محفوظ بھى رہے _ عاقبت انديشى سے كام ليجئے _ دوسروں سے مقابلہ نہ كيجئے _ اگر كسى عورت كو نئے ڈيزائن كا لباس پہنے ہوئے ديكھا ہے اور آپ كى مالى حالت اس بات كى اجازت نہيں ديتى كہ آپ بھى ويسا ہى لباس خريد سيكيں تو اپنے شوہر كو اسے خريد نے كيلئے مجبور نہ كيجئے _ اگر آپ اپنے ہمسايہ كے گھر ميں كوئي خوبصورت سجاوٹ كى چيز ديكھيں تو اپنے شوہر كى جان نہ كھائيں كہ وہ بھى ويسى چيز لائے _ اگر آپ كسے دوست احباب اور عزيز و اقارب ميں كسى نے اپنے گھر كو قيمتى قالينوں اور بيش قيمت سامان سے سجايا ہے تو لازم نہيں كہ آپ ان كى نقل كرنے كے لئے اپنے آپ كو پريشانى ميں مبتلا كرليں اور اپنا سكون و چين حرام كرديں _ آپ جانتى ہيں كہ آپ كى مالى حالت اور آدمندى اس بات كى اجازت نہيں ديتى تو پھر كيوں اپنے شوہر كو قرض لينے ، بعد ميں قيمت ادا كرنے ، قسطوں پر خريدنے اور ناجائز كاموں كو انجام دينے كے لئے مجبور كرتى ہيں؟ كيا يہ بہتر نہ ہوگا كہ آپ تھوڑا صبر سے كام ليں كہ آپ كى مالى حالت سدھر جائے اور اپنى آمدنى ميں سے ہر ماہ تھوڑى رقم پس انداز كرتى رہيں اور كچھ رقم جمع ہوجانے كے بعد نقد قيمت ادا كركے اپنى ضرورت كى پسنديدہ چيز خريدليں _

۳۳

اكثر نادان اور خود غرض عورتيں اس قسم كى فضول خرچياں كرتى ہيں اور ايك دوسرے كو ديكھ كر رشك و حسد كرتى ہيں _ كسى كے گھر ميں سجاوٹ كى كوئي چيز ديكھى اور اس كو خريدنے كى دل ميں ہوس پيدا ہوگئي اور بے چارے شوہر كے سر ہوگئيں كہ جہاں سے بھى ہو ، ہمارے لئے بھى خريد كر لاؤ_ اس قدر اصرار كرتى ہيں اور ہنگامہ كرتى ہيں كہ شوہر بے چارہ مجبور ہوجاتا ہے كہ قرض لے يا قسطوں پر خريدے اور اپنے آپ كو مصيبت ميں گرفتار كركے ہميشہ مقروض رہے _ ايسى حالت ميں كبھى كبھى مجبور ہوجاتا ہے ، كہ ازدواجى زندگى كے تانے بانے كو توڑڈالے اور اپنى خود غرض بيوى كو طلاق ديدے تا كہ اس كى بيجا فرمائشےوں اور زبان درازيوں كے شرسے نجات حاصل كرلے يا خودكشى كرلے تا كہ اس مصيبت بھرى زندگى سے چھٹكارا پالے _

در اصل اس قسم كى عورتوں نے شادى كے اصل معنى و مقصد كو ذرا بھى نہيں سمجھا ہے _ وہ شادى كا مطلب ايك طرح سے غلام خريدنا سمجھتى ہيں اور شادى اس لئے كرتى ہيں كہ اپنى بچہ گانہ خواہشات اور حرص وہوس كو عملى جامہ پہنا سكيں _ وہ ايسا شوہر چاہتى ہيں جو ايك مفت كے نوكر ، بلكہ ايك زر خريد غلام كى مانند ان كے لئے زحمتيں اٹھائے _ اور اپنى محنت كى كمائي كو ہاتھ جوڑكے اپنى بيوى كى خدمت ميں پيش كردے تا كہ وہ انچى اڑان اڑسكيں اور اپنى بيجا اور غلط خواہشات پر صرف كرديں _ كاش اتنے پر ہى قناعت كرلى ہوتى اور حد سے زيادہ توقعات نہ ركھتيں _ كبھى ان كى توقعات اور خواہشات اتنى زيادہ ہو جاتى ہيں كہ شوہر كى كل آمدنى بھى اس كے لئے كافى نہيں _ انھيں شوہر كى آمدنى سے كيا مطلب _ بس جس چيز كى ہوس ہوئي اسے فوراً اور ضرور پورا ہونا چاہئے _ اس كے لئے جو بھى صورت حال پيش آجائے _ چاہے شوہر كا ديوليہ ہى كيوں نہ نكل جائے يا وہ ناجائز كام كرنے پر مجبور ہوجائے مگر بيوى كى خواہشات پور ہونى چاہئے _

مردوں كے ديواليہ ہونے كا بڑا سبب ، اكثر نا عاقبت انديش بيويوں كى بيجا خواہشات اور دوسروں كى نقل اور فضول خرچياں ہوتى ہيں _ اكثر بيويوں كى بڑبڑاہٹ اور تقاضے ، مرد كو

۳۴

ناجائز كام اختيار كرنے پر مجبور كرديتے ہيں _ اس قسم كو خود پسند اور خود غرض عورتيں ،صنف نازك كے لئے باعث ننگ و عار شمار كى جاتى ہيں _ فرض كيجئے ان باتوں كے سبب آپ نے طلاق لے لى _ تو كيا آپ كا مسئلہ حل ہوجائے گا ؟ جى نہيں _ اطمينان ركھئے _ آپ كى آرزوؤں كى تكميل كبھى نہ ہوسكے گى _ آپ اپنے ماں با پ كے گھر جا كر ان پر بوجھ بن جائيں گى اور ہميشہ كے لئے انس و محبت اور اولاد كى نعمت سے محروم رہ جائيں گى _

كيا آپ سمجھتى ہيں آپ سے خواستگارى كے لئے مرد صف باندھے گھرے ہيں ؟ جى نہيں ، ايسا نہيں ہے ، جو عورتيں طلاق لے ليتى ہيں انھيں دوسرى شادى كا موقع بہت كم ملتا ہے ، فرض كيجئے دوسرا شوہر مل بھى گيا تو كيا ضرورى ہے كہ وہ پہلے شوہر سے بہتر ہو _

كيا يہ آپ كے حق ميں بہتر نہ ہوگا كہ آپ عاقبت انديش نہيں _ انجام كاركے بارے ميں سوچيں _ اور اپنى آمدنى اور خرچ كا حساب لگائيں اور اسى كے مطابق خرچ كريں _ ان بلند پروازيوں اور بيجا ہواو ہوس كے بجائے ، زندگى ، امور خانہ دارى اور شوہر پر توجہ ديں _؟

مہر ومحبت كا اظہار كركے اپنے گھر كے ماحول كو خوشگوار اور پر مسرت بنايئے دوسروں كى زندگى سے آپ كو كوئي سروكار نہيں ہونا چاہئے _ اپنى آمدنى كے مطابق خرچ كيجئے اور انس و محبت كى نعمت سے لطف اٹھايئے اپنے شوہر اور بچوں سے ہنسٹے بولئے _ روزانہ كے اخراجات ميں كفايت شعارى سے كام ليجئے تا كہ آپ كى مالى حالت بہتر ہوجائے _ اور آبرومندانہ زندگى گزاريئےمكن ہے مستقبل ميں آپ اپنى خواہشات كى تكميل كرسكيں _ بلكہ اگر آپ كے شوہر فضول خرچ ہيں اور اپنى آمدنى سے زيادہ خرچ كرتے ہيں تو انھيں روكئے _ اگر وہ غير ضرورى اشياء كى خريدارى كے لئے قرض لينا چاہيں يا قسطوں پر خريديں تو آپ انھيں روكئے _ آپ كى زندگى مشترك ہے _ آپ كے شور كے پاس جو كچھ ہے وہ در حقيقت آپ كا ہے _ خوفزدہ نہ ہويئےہ اپنى دولت وہ كسى اور كودے دے گا _ تجملى اشياء اور غيرضرورى سامان كى خريدارى كے

۳۵

ضرورى چيزيں فراہم كيجئے _ ہر انسان كى زندگى ميں اچانك حادثے اور غير متوقّع واقعات رونما ہوتے ہيں ايسے برے وقت كے لئے كچھ بچا كے ركھنے كى عادت ڈالئے _

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں كہ جو عورت اپنے شوہر سے نباہ نہيں كرتى اور جو چيزيں اس كى استطاعت سے باہر ہيں ان كے لئے اسے مجبور كرتى ہے ايسى عورت كے اعمال خدا كى درگاہ ميں قبول نہيں ہوتے اور قيامت كے روز وہ خداوند عالم كے غيظ و غضب كا شكار ہوتى ہے _(۳۹)

ايك اور موقع پر حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں كہ ہر وہ عورت جو اپنے شوہر سے بناہ نہ كرے اور جو كچھ اس كو خدا كى جانب سے ملا ہے اس پر قناعت نہ كرے اور اپنے شوہر سے سختى سے پيش آئے اور اس كى استطاعت سے زيادہ كى خواہش كرے ، ايسى عورت كے اعمال قبول نہيں ہوں گے اور خدا اس پرعذاب نازل كرے گا _(۴۰)

پيغمبر اسلام (ص) كا ارشاد گرامى ہے كہ خدا پر ايمان كے بعد، كوئي نعمت ، اپنے شوہر كے ساتھ تعاون كرنے سے بڑھ كر نہيں ہے _(۴۱)

اپنے شوہر كى دلجوئي كيجئے

زندگى كا بوجھ مرد كے كندھوں پر ہوتا ہے _ خاندان كے اخراجات كو جس طرح بھى ممكن ہو ، پورا كرنا مرد كى ذمہ دارى ہے _ گھر سے باہر اسے سينكڑوں قسم كى مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے كبھى باس كى ڈانٹ پھٹكار سننا پڑتى ہے كبھى اپنے ساتھيوں كى اذيت رسانى كا شكار ہونا پڑتا ہے _ ممكن ہے اس كے مطالبات وصول نہ ہوئے ہوں _ ممكن ہے چيك يا ڈرافٹ كيش نہ ہوسكے _ ممكن ہے كساد و بازارى كا سامنا كرنا پڑے اور آمدنى نہ ہو _ ممكن ہے كوئي مناسب مقام حاصل نہ كر سكا ہو _ مرد كى ايك دو پريشانياں نہيں ہوتى _ روزمرہ كى زندگى ميں اس قسم كے گوناگوں حادثات كا سامنا برابر كرنا پڑتا ہے _ كم ہى ايسا اتفاق ہوتا ہے كہ كوئي نئي پريشانى نہ آكھڑى ہو ان ہى سبب كى بناپر مردوں كى عمر عموماً عورتوں سے كم ہوتى ہے _ آخر ايك انسان كے اعصاب ، فكروں اور پريشانيوں كو كب تك اور كس حد تك برداشت كرسكتے ہيں _

ايسے موقعوں پر انسان كو شدت سے اس بات كى ضرورت ہوتى ہے كہ كوئي دلسوز او رمہربان ہستى اس كي

۳۶

دلجوئي كرے اور اس كى روح و اعصاب كو تقويت پہونچائے _

خاتون گرامى آپ كے شوہر كا كوئي غمخوار نہيں ہے _ وہ تنہائي كا احساس كرتا ہے _ باہر كى مشكلات سے فرار حاصل كركئے اپنے گھر ميں آپ كے پاس پناہ حاصل كرنا چاہتا ہے _ اسے آپ كى دلجوئي اور تسلى كى ضرورت ہے _ اگر كسى دن وہ پريشان حال اور رنجيدہ و ملول گھر ميں داخل ہوتا ہے تو اسے ہر روز سے زيادہ آپ كى توجہ كى ضرورت ہے _ آپ كو چاہئے آپ جلدى سے اس كے آرام كرنے ، كھانے يا چائے و غيرہ كا انتظام كريں ايسے موقع پر دوسرے موضوعات پر بالكل بات نہ كريں _ نہ كسى بات پر نكتہ چينى كريں _ فرمائشے نہ كريں _ اس سے اپنى پريشانيوں اور درد دل كى شكايت نہ كريں _ اسے موقع ديجئے كہ كچھ دير آرام كرلے _ اگر بھوكا ہے تو اس كا پيٹ ھر جائے _ اگر سردى كھا گيا ہے تو گرم ہوجائے _ اگر گرمى لگ رہى ہے تو اس كے حواس ٹھيك ہوجائيں اور جب اس كى تھكن دور ہوجائے اور اس كے اعصاب ٹھكانے آجائيں تب محبت بھرے لہجے ميں اس كى پريشانى كا سبب دريافت كيجئے _ اور اگر وہ اپنا دردودل بيان كرنا شروع كرتا ہے تو اسے غور سے سنئے _ بيجا ہنسئے نہيں بلكہ اس كى پريشانى سن كر اظہار افسوس كيجئے _ اور اپنے رويہ سے يہ ظاہر كيجئے كہ اس كى پريشانيوں كو سن كر آپ كو اس سے زيادہ رنج پہونچاہے _ محبت و دلسوزى كا اظہار كركے اس كے زخموں پر مرہم ركھئے نرمى اور ملائمت سے اس كى دلجوئي كيجئے _ اس موضوع كو اس كے سامنے معمولى اور حقير ظاہر كيجئے اور مشكل كو حل كرنے ميں اس كى ہمت افزائي كيجئے _ اس سے كہئے كہ اس قسم كے حادثات تو زندگى كا لازمہ ہيں اور ہر شخص كو پيش آتے ہيں _ صبر واستقامت كے ذريعہ ان مشكلات پر غلبہ حاصل كيا جا سكتا ہے _ البتہ شرط يہ ہے كہ انسان خود ہمت نہ ہارجائے _ در اصل ايسے ہى موقعوں پر انسان كى شخصيت اور مردانگى ظاہر ہوتى ہے _ پريشان ہونے كے بجائے صبر اور كوشش سے كام ليا جائے تو مشكل آسانى سے حل ہوجاتى ہے _ اگر آپ كے شوہر كو رہنمائي كى ضرورت ہے اور اگر اس كے حل كى كوئي صورت آپ كى نظر ميں ہے تو اس كى رہنمائي كيجئے اور اگر كوئي صحيح راہ حل آپ كے سامنے نہيں تو اسے رائے ديجئے كہ اپنے كسى خيرخواہ دوست يا رشتہ دارى مشورہ كرے _

خاتون محترم آپ كے شوہر كو مشكلات اور پريشانيوں كے موقع پر آپ كى دلجوئي اور تسلى كى ضرورت ہوتى ہے _

۳۷

آپ كو اس كى مدد كرنى چاہئے ايك مہربان نرس بلكہ ايك ہمدرد ماہر نفسيات كى مانند ايسے موقع پر آپ كو اسكى دلجوئي كرنا چاہئے _ بلكہ اس سے بڑھ كر عرض كروں كہ اپنى شخصيت كو منظم و مستحكم كيجئے اور شوہر كى نگہداشت كيجئے _ جى ہاں كہيں ايك نرس يا نفسياتى ڈاكٹر بھلا ايك فداكار بيوى كى طرح ديكھ بھال كر سكتا ہے؟ آپ كو اپنى طاقت كا اندازہ نہيں كہ آپ كى مہربانياں اور تشفى و تسلّياں آپ كے شوہر كى روح پر كيا جادو كا سا اثر ڈال سكتى ہيں _ اس كے دل اور اعصاب كو سكون مل جاتا ہے _ زندگى سے اس كى دلچسپى بڑھ جاتى ہے _ مشكلات سے نبرد آزماہونے كے لئے وہ تيار ہوجاتا ہے _ اور اسے اندازہ ہوجاتا ہے كہ اس دنيا ميں وہ بيكس و تنہا نہيں ہے _ آپ كى وفادارى اور صميميت اس ميں اعتماد و يقين پيدا كرديتے ہيں _ يہ چيزيں اسے آپ كا دوست اور عاشق بناديتى ہيں _ آپ كى ازدواجى زندگى اور مستحكم و پائيدار ہوجاتى ہے _

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں : دنيا ميں شائستہ بيوى سے بہتر كوئي چيز نہيں _ ايسى بيوي، جس كو ديكھ كر اس كے شوہر كا دل مسرور و شاد ہوجائے _(۴۲)

حضرت امام رضا عليہ السلام فرماتے ہيں عورتوں كا ايك گروہ ايسا ہے جن كے زيادہ بچے ہوتے ہيں _ وہ عورتيں شفيق و مہربان ہوتى ہيں _ سختيوں اور زمانے كے حادثات كا خندہ پيشانى سے مقابلہ كرتى ہيں _ اپنے شوہر كى حمايت اور پشت پناہى كرنے والى ہوتى ہيں اور ايسے كام نہيں كرتيں جس سے ان كے شوہروں كو نقصان پہونچے ، اور ان كى پريشانيوں ميں اضافہ ہو_(۴۳)

شكر گزار كى عادت ڈالئے :

پيسہ كمانا آسان كام نہيں ہزاروں زحمتيں اور پريشانياں اٹھانى پڑتى ہيں _ انسان اپنے آرام و آسائشے كى خاطر مال و دولت پيدا كرتا ہے اور ذاتى طور پر اس بات سے دلچسپى ركھتا ہے _ اگر كسى پر احسان كرتا ہے يا كسى پر اپنى دولت خرچ كرتا ہے تو وہ اس بات كا متمنى ہوتا ہے كہ اس كى قدردانى كى جائے اور اس سلسلے ميں اظہار تشكر اس كى ترغيب و ہمت افزائي كا سبب بنتا ہے _ اور اسے احسان و نيكى كرنے كى جانب مائل كرتا ہے _ نہ صر ف اس شخص كے حق ميں زيادہ احسان كرنے كا باعث بنتا ہے ، بلكہ

۳۸

يہ احساس قدردانى مجموعى طور پر اس كو نيكى كرنے پر آمادہ كرتا ہے _ بلكہ ممكن ہے اظہار تشكر و سپاس گزارى اس پر اس حد تك اثر كرے كہ نيكى و احساس كرنا ، اس كى عادت ثانيہ بن جائے اور وہ ہر وقت اس كام كيلئے آمادہ رہے _ ليكن اگر اس كى قدردانى نہ كى جائے اور اس كے احسان كو نظر انداز كرديا جائے تو نيك كام انجام دينے ميں اسے كوئي دلچسپى محسوس نہ ہوگى _ اپنے دل ميں سوچے گا كہ ميں نے ايسے احساس فراموش كے ساتھ بيكارى احسان كيا _ اور مال و دولت اس پر خرچ كرديا _

حق شناسى اور شكرگزارى ، پسنديدہ او رنيك اخلاق شمار ہوتى ہے اور انسان كو احسان و نكى كى اجانب مائل كرنے كا ايك بہت بڑا وسيلہ ہے _ حتى كہ خداوند عالم بھى جو كہ بے نياز ہے _ اپنى نعمتوں پر شكر ادا كرنے نعمتوں كے جارى رہنے كى شرط قرارديتے ہوئے فرماتا ہے : اگر شكرادا كرو گے تو اپنى نعمتوں ميں مزيد اضافہ كروں گا _(۴۴)

خاتون محترم آپ كا شوہر بھى ايك انسان ہے اسے بھى قدردانى اچھى لگتى ہے _ وہ زندگى كے اخراجات پورے كرتا ہے _ محنت سے كماتا ہے اور اس عمل كو اپنا ايك اخلاقى اور شرعى فريضہ سمجھتا ہے اور اس كو انجام دے كر لذّت محسوس كرتا ہے _ ليكن آپ سے اس بات كا متمنى ہے كہ اس كے وجود كو غنيمت سمجھ كر اس كے كاموں كى قدردانى كيجئے _ جب كبھى ضروريات زندگى كى چيزيں خريد كر گھر لائے تو خوشى و مسرت كا اظہاركيجئے _ اس كا شكريہ ادا كيجئے _ جب آپ كے يا آپ كے بچوں كے لئے لباس ، جو تا يا كوئي دوسرى چيز لائے تو فوراً اس كا ہاتھ پكڑكے خوشى كا اظہار كيجئے _ اس سے اگر آپ '' شكريہ '' كہديں تو كيا مضائقہ ہے؟ اگر پھل ہٹھائي يا كوئي دوسرى چيز لائے تو جلدى سے اس كے ہاتھ سے لے كر جگہ پر ركھ ديجئے _ اگر آپ بيمار پڑگئيں اور اس نے آپ كے علاج كے لئے كوشش كى تو صحت ياب ہونے كے بعد اس كى زحمات كا شكريہ ادا كيجئے اگر آپ كو تفريح كے لئے لے گيا يا سفر پر لے گيا تو اس كا شكريہ ادا كيجئے _ اگر آپ كو پيسے ديئےيں تو اس كى قدردانى كيجئے _ اس امر كا خيال ركھيں كہ اس كے كاموں كو حقير اور معمولى نہ سمجھيں ، اس كى طرف سے بے اعتنائي نہ برتئے _ مذمّت نہ كيجئے _ اگر آپ اس كے كاموں كو سرا ہيں گى اور اس سے

۳۹

اظہار تشكر كريں گى تو يہ چيز اسے اپنى شخصيت كا احساس دلانے كا باعث بنے گى اور اس كى زندگى ميں جوش و خروش پيدا كرنے اور مزيد خرچ كرنے كے لئے اس ميں اہميت بندھانے كا سبب بنے گى _ وہ اور زيادہ كو شش كرے گا كہ آپ كى توجہ كو اپنى طرف مبذول كرے اور احسان كے ذريعہ آپ كے دل كو اپنے ہاتھ ميں لے لے _ ليكن اگر آپ اس كے كاموں كو حقير و معمولى سمجھيں گى اور اس كى زحمات كو يا اس كى شخصيت كو نظر انداز كريں گى تو اس كا دل سرد ہوجائے گا اور اپنے آپ سے كہے گا كہ ميں بيكارہى اتنى زحمت اٹھاتا ہوں اور اپنى محنت كى كمائي ايسے ناقدردانوں پر خرچ كرتا ہوں جو ميرى قدر نہيں كرتے اور ميرے احسانوں كو معمولى سمجھتے ہيں _ اور اس طرح رفتہ رفتہ گھر اور زندگى سے اس كى دلچسپى كم ہوتى جائے گى _ يہاں تك كہ ممكن ہے ايسا بھى ہو كہ وہ خرچ كرنے سے پہلو تہى كرنے لگے اور فكر معاش كى طرف سے بے پروا ہوجائے _ يا روپيہ پيسہ اپنى تفريح پر اڑانے لگے _ يا دوسروں پر خرچ كرنے لگے _ بيچارہ مرد تو صرف چند تعريفى جملوں اور مفت كے خالى تشكر كے اظہار سے ہى خوش ہوجاتا ہے اور آپ اس سے بھى دريغ كرتى ہيں _

آپ كا كوئي عزيز يا دوست كوئي معمولى سا تحفہ يا پھولوں كا ايك گلدستہ آپ كو پيش كرتا ہے تو اس كا تو آپ سينكڑوں بار شكريہ بار شكريہ ادا كرتى ہيںليكن اپنے شوہر كے دائمى احسانوں كے عوض آپ كہ منہ سے اظہار تشكر كے لئے معمولى سے الفاظ بھى نہيں نكلتے ؟

''شوہر داردى كے يہ طور طريقے نہيں ہيں_ در اصل آپ نے اپنے ذاتى مفادات كى تشخيص نہيں كى ہے _ غرور اور خودپسندى بڑى برى بلا ہے آپ سوچتى ہيں كہ شكريہ كا اظہار كركے آپ چھوٹى ہوجائيں گى حالانكہ اس كے برعكس آپ كى محبوبيت ميں اور اضافہ ہوجائے گا _ اور آپ حق شناس اور مہذب سمجھى جائيں گى _

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں كہ تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے كہ جب اس كا شوہر كوئي چيز خريد كرلائے تو اس كا شكريہ ادا كرے اور اگر نہ لائے تو راضى رہے _(۴۵) _ امام صادق (ع) يہ بھى فرماتے ہيں كہ جو عورت اپنے شوہر سے يہ كہے كہ تم نے ميرے ساتھ كوئي بھلائي نہيں كى ، تو اس كے تمام

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77