• ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26512 / ڈاؤنلوڈ: 3901
سائز سائز سائز
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

روحانیت کے اعتبار سے ایک انتہائی عظیم ہستی، میرے استاد جن کا میں نے گزشتہ برس ماہِ رمضان میں بھی ذکر کیا تھاوہ مرحوم حاج میرزا علی آقائی شیرازی اصفہانی رضوان اﷲ علیہ ہیں  آنجناب ان روحانی شخصیات میں سے ایک عظیم ترین شخصیت ہیں  جنہیں  میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہےایک رات وہ قم میں ہمارے مہمان تھے اور ہم بھی ان کے ساتھ قم کے ایک عالم کے یہاں دعوت میں مدعو تھےبعض ادبی ذوق رکھنے والے افراد اور شعرا بھی وہاں موجود تھےاُُس رات مجھے معلوم ہوا کہ آنجناب شعر وادب سے کس قدر شغف رکھتے ہیں  اور عربی و فارسی کے کس قدر بہترین اشعارانہیں  یاد ہیں دوسرے لوگ بھی شعر سنا رہے تھے لیکن انتہائی عام سے اشعار،  سعدی اور حافظ وغیرہ کے اشعارآنجناب بھی شعر پڑھ رہے تھے اور بتاتے جاتے تھے کہ فلاں شعرفلاں سے بہتر ہے،  فلاں مضمون کو فلاں نے بہتر انداز میں بیان کیا ہے،  کس نے اس طرح کہا ہے اور کس نے اُس طرح

شعر پڑھنا اور وہ بھی اس طرح کے شعر پڑھنا گناہ نہیں  ہےالبتہ رات کے وقت شعر پڑھنا مکروہ ہےخدا جانتا ہے،  جب ہم باہر نکلے تو وہ (ہمارے استاد) شدت کے ساتھ لرز رہے تھےکہتے تھے کہ میں بہت ارادہ کرتا ہوں کہ رات کو شعر نہ پڑھوں لیکن آخر کار اپنے آپ کو نہیں  روک پاتامسلسلاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه اُن کی زبان پر جاری تھاایک ایسے انسان کی مانند جو انتہائی عظیم گناہ کر بیٹھا ہومعاذ اﷲ اگر ہم نے شراب پی ہوتی، تب بھی اس قدر مضطرب نہیں  ہوتے جس قدر وہ ایک مکروہ عمل پر اظہارِ اضطراب کر رہے تھے

ایسے افراد کیونکہ خدا کے محبوب بندے ہوتے ہیں  اس لئے خدا کی طرف سے انہیں  ایک قسم کی سزا دی جاتی ہے،  جبکہ ہم اور آپ اس قسم کی سزاؤں کی اہلیت اور لیاقت نہیں  رکھتےآنجناب روزانہ صبح طلوع ہونے سے کم ازکم دو گھنٹے پہلے بیدار ہوجاتے تھے،

۲۱

 میں نے شب بیداری کا مفہوم انہی سے سیکھا ہےمیں نے ”شب ِمردانِ خدا روزِ جہان افروزاست“ (اﷲ والوں کی رات روشن دن کی طرح ہوتی ہے) کے معنی انہی سے سیکھے ہیں ، عبادت اور خداشناسی کا سبق انہی سے حاصل کیا ہے،  استغفار کامفہوم انہی سے سیکھا ہے، حال اور خدا میں مجذوب ہو جانا انہی سے سمجھا ہے

اس رات جب وہ بیدار ہوئے تو صبح کی اذان ہو رہی تھیخدا نے انہیں  سزا دے دی تھیبیدار ہوتے ہی انہوں نے ہمیں جگایااور کہا کہ یہ گزشتہ رات کی شعر خوانی کا اثر تھا!!

ایک ایسی روح جس کا ایمان اس قدر مستحکم ہو، جب اُس پر معمولی سی بھی ضرب پڑتی ہےیعنی جب اس کے پست مقامات کی جانب سے اس کے عالی مقامات پراس قسم کا چھوٹا سا حملہ بھی ہوتا ہے، تویہ عالی مقامات اس (حملے) پراپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں ، اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں ،  حتیٰ سزا بھی دیتے ہیں  کہ دیکھو!ہم تمہیں  بخشیں گے نہیں ،  یوں ہی چھوڑ نہیں  دیں گے!

ایک ایسا انسان جو رات کو شعر خوانی کرے،  اپنے دو گھنٹے شعر پڑھنے میں گزارے،  وہ دو گھنٹے خداوند متعال کے ساتھ مناجات کے لائق نہیں  رہتا

آپ کی خدمت میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں: اگر آپ ایک نہایت صاف وشفاف آئینہ لے کر، اسے صاف کرنے کے بعد ایک ایسی صاف فضا میں میز پررکھ دیں جس میں خود آپ بھی بخوشی سانس لینا پسند کرتے ہوںکچھ دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ اُس آئنے پر گرد جمی ہوئی ہےیہ گرد آپ کو پہلے محسوس نہیں  ہورہی تھی،  میز پر بھی یہ آپ کو دکھائی نہیں  دے رہی تھیدرو دیوار پر بھی اس کا احساس نہیں  ہو رہا تھا

۲۲

جتنی دیوار زیادہ گندی ہوگی،  اُس پرگندگی اور سیاہی کے اثرت اور داغ دھبے اتنے ہی کم دکھائی دیں گےیہاں تک کہ اگر وہ سیاہ اور تارکول زدہ ہو تو اس پر لگنے والا چراغ کا سیاہ دھواں بھی نظر نہ آئے گاپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر مجلس میں پچیس مرتبہ استغفار کرتے تھےکہا کرتے تھے کہ:اِنَّهُ لَیُغانُ عَلیٰ قَلْبِیْ وَ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّةٍ (سفینۃ البحارج ۲ص ۳۲۲)

یہ سب کیا ہے؟ ہم کہتے کیا ہیں  اور سمجھتے کیا ہیں ؟

فرماتے تھے: میں اپنے دل پر کدورت کے آثار محسوس کرتا ہوں اور اس کدورت کو دور کرنے کے لئے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں

یہ کدورتیں کیا ہیں ؟ یہ کدورتیں ہمارے لئے آئینہ ہیں ، ہمارے لئے نورانیت ہیں ، لیکن اُن کے لئے کدورت ہیں جب وہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہیں ، چاہے اُن کی بات خدا کے لئے ہو،  چاہے وہ ہمارے آئینہ وجود میں خدا کو دیکھ رہے ہوں، پھر بھی اُن کی نظر میں یہ کدورت ہے

”امِ سَلَمہ“ اور دوسروں نے کہا ہے کہ آنحضرت کی وفات سے ایک دو ماہ پہلے ہم دیکھا کرتے تھے کہ آپ جب بھی اٹھتے یابیٹھتے یا کوئی بھی کام کرتےسُبْحَانَ اللّٰهِ وَ اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه ضرور کہتےیہ ایک بالکل نیا ذکر تھا

امِ سلمہ کہتی ہیں ، میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! ان دنوں آپ اس قدر زیادہ استغفار کیوں کررہے ہیں ؟ فرمایا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہےنُعِیَتْ اِلیٰ نَفْسِی ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ آخری سورہ جو آنحضرت ؐکے وجودِ اقدس پر نازل ہوا،  وہ سورہ نصر ہےجب یہ سورہ نازل ہوا تو پیغمبر اکرم کو احساس ہوگیا کہ یہ اُن کی موت کی اطلاع ہےیعنی اب آپ کا وقت پورا ہوچکا ہے، اب تمہیں  یہاں سے کوچ کرناہےسورہ مبارک نصر یہ ہے:

۲۳

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اﷲِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اﷲِ اَفْوَاجً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْه اِنَّه کَانَ تَوَّابًا

یہ قرآن کس قدر لذت بخش ہے! کس قدر خوبصورت ہے!انسان اسے اپنی زبان پر جاری کرکے لطف اندوز ہوتا ہے،  خوشی محسوس کرتا ہے

ارشادِ الٰہی ہے:اے پیغمبر! جب پروردگار کی مدد آجائے، جب پروردگار کی مدد آکر آپ کو آپ کے مخالفین پر فتح عطا کردے،  جب آپ کو شہر کی فتح یعنی فتحِ مکہ نصیب ہوجائے، اور جب آپ دیکھ لیں کہ لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہورہے ہیں ، تواس کے بعدفَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد کیجئے اور استغفار کیجئے کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے

کیا تعلق ہے اُس ابتدا اور اِس انتہا کے درمیان؟

فتح و کامیابی اور لوگوں کے گروہ در گروہ دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد آنحضرت کیوں تسبیح کریں؟

مراد یہ ہے کہ اب آپ کی ذمے داری ختم ہوئی

یہ پیغمبر اسلام ؐ پر نازل ہونے والاآخری سورہ ہے،  حتیٰ یہ حضرت علی ؑکے بارے میں نازل ہونے والی آیاتاَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ   (سورہ مائدہ۵آیت۳)  اوریٰاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّک   (سورہ مائدہ۵آیت۶۷) کے بھی بعد نازل ہوا ہے

اب آپ اپنی ذمے داری ادا کرچکے ہیں ،  پس (اپنے پروردگار کی) تسبیح کیجئےپیغمبر اسلام نے محسوس کر لیا کہ مراد یہ ہے کہ اب میرا کام ختم ہو گیا ہے، پس اب اپنی فکر کرواسی لئے آپ ہر وقت تسبیح و استغفار میں مشغول رہاکرتے تھے

۲۴

لیکن ہم بدبختوں کا دل اُسی تارکول زدہ دیوار کی مانند ہےافسوس ایک کے بعد ایک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، ایک نافرمانی کے بعد دوسری نافرمانی کرتے ہیں ، لیکن ہماری روح میں کسی قسم کا ردِ عمل پیدا نہیں  ہوتامجھے نہیں  معلوم ہماری روح کے وہ فرشتے کہاں اورکس قدر قید ہوچکے ہیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کن زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ، کہ ہمارے دل میں ہلچل نہیں  مچتی، ہمارا دل نہیں  لرزتا

عبودیت کی پہلی منزل توبہ ہےاگر آپ کو اپنی روح میں کوئی ہلچل نظر آتی ہے، اگرکوئی ندامت دکھائی دیتی ہے، اگر احساسِ پشیمانی دکھائی دیتا ہے، اگر اپنا ماضی سیاہ محسوس ہوتا ہے، اگر یہ محسوس کرتے ہیں  کہ جس راستے پر آپ آج تک چلتے رہے ہیں ، وہ غلط تھا، زوال کی جانب تھا، جو آپ کو پستی کی طرف لے جا رہا تھااور اب آپ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سے باہر نکلنا ہے، اوپر کی جانب اٹھنا ہے،  خدا کی طرف آنا ہے، تو آپ عبودیت، عبادت اور سلوک کی پہلی منزل پر پہنچ چکے ہیں  اور یہاں سے آغاز کر سکتے ہیں ،  اور اگر ایسا نہیں ،  توپھر یہ ممکن نہیں

۲۵

عمل کے بغیر آخرت بخیر نہیں  ہوگی

ایک شخص مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے امیر المومنین! مجھے نصیحت فرمایئےحضرت ؑ نے اُسے کئی نصیحتیں کیںان نصائح کے پہلے دو جملے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوںہمارے لئے فی الحال یہی دو جملے کافی ہیں فرمایا:لاَ تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُواالْآخِرَةَ بِغَیْرِ عَمَلٍ وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِیَقُوْلُ فِی الدُّنْیَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِیْنَ وَ یَعْمَلُ فِیْهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِیْنَ  (۱)

فرمایا: تمہیں  میری نصیحت یہ ہے کہ، تم اُن لوگوں میں سے نہ ہونا جو آخرت کی امید رکھتے ہیں  لیکن چاہتے ہیں  کہ بغیر عمل کئے آخرت حاصل کرلیںہم سب لوگوں کی طرحہم بھی کہتے ہیں  کہ علی ابن ابی طالب ؑ کی محبت کافی ہے، جبکہ ہماری محبت بھی سچی محبت نہیں  ہے، اگر ہماری محبت سچی ہوتی تو اس کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہوتاہم کہتے ہیں  کہ (علی ؑ سے) یہی ظاہری تعلق کافی ہے! ہم سمجھتے ہیں  کہ علی ؑ ان لوگوں میں سے ہیں  جنہیں  (محبت کرنے والوں کی) ضرورت ہے، اور اگر کچھ لوگ ان سے جھوٹ موٹ کا تعلق رکھیں تو یہ بھی کافی ہے، ہمیں سرِ دست دکھاوے کے لئے لشکر کی ضرورت ہے، دکھاوے کے لئے یہی لشکری کافی ہیں

--------------

1:- تمہیں  اُن لوگوں میں سے نہیں  ہونا چاہئے جو عمل کے بغیر حسنِ انجام کی امید رکھتے ہیں  اور امید بڑھا کر توبہ میں تاخیر کرتے ہیں جو دنیا میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں  مگر اُن کے اعمال دنیا طلب لوگوں جیسے ہوتے ہیں (نہج البلاغہ کلماتِ قصار۱۵۰)

۲۶

ہم سمجھتے ہیں  کہ امام حسین علیہ السلام پر ایک جھوٹ موٹ کاگریہ کافی ہے، لیکن امیر المومنین نے فرمایا ہے: یہ جھوٹ ہےاگر علی ابن ابی طالب ؑکی محبت تمہیں  عمل کی طرف مائل کرے، تو جان لو کہ تمہاری محبت سچی ہے، اگر حسین ا بن علی ؑ پر گریہ تمہیں  عمل کی طرف لیجائے، تو جان لو کہ تم نے حسین ابن علی ؑ پر گریہ کیا ہے اور تمہارا گریہ سچا ہے، ورنہ شیطان کا فریب ہے

دوسرے جملے میں آپ ؑ نے فرمایا:وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَل اے شخص! ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا جو اپنے اندر توبہ کی ضرورت تو محسوس کرتے ہیں  لیکن یہ کہہ کر توبہ نہیں  کرتے کہ ابھی دیر نہیں  ہوئی، بہت وقت پڑا ہے

بھائیو! اگر حضرت علی ؑ تشریف لائیں اور ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں کہ آقا ہمیں نصیحت فرمائیے اور وہ وہی جملہ ہم سے کہیں  کہ:لاَ تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُواالْآخِرَةَ بِغَیْرِ عَمَلٍ وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِ ، توہم کب تک یہی کہتے رہیں  گے کہ ابھی دیر نہیں  ہوئی ہے، ابھی وقت پڑا ہے؟ ابھی تو ہم جوان ہیں کہیں  گے کہ:حضور! ابھی تو میں بیس سالہ جوان ہوں، ابھی میرے لئے توبہ کرنے کا وقت کہاں آیا ہے؟

۲۷

جوانی، توبہ کا بہترین وقت

عجیب بات یہ ہے کہ بعض بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد جب کسی جوان کو دیکھتے ہیں  کہ وہ عبادت کی طرف مائل ہے اور اپنے گناہ کی طرف متوجہ ہے، اور توبہ اور ندامت کی حالت میں ہے، تواُس سے کہتے ہیں : ارے بیٹا! تم توابھی جوان ہوابھی تمہارے لئے ان باتوں کا وقت نہیں  ہے

اتفاقاً جوانی ہی اس کا بہترین وقت ہےایک شاخ جب تک تازہ ہوتی ہے، اُس میں سیدھا ہونے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہےاور جوں جوں وہ بڑی اور خشک ہوتی چلی جاتی ہے، اُس کی یہ صلاحیت کم ہونے لگتی ہےعلاوہ ازیں کس نے اس جوان کو اس کی زندگی، ادھیڑ عمری اور اُس کے بعد بڑھاپے تک پہنچنے کی گارنٹی دی ہے؟

جب تک جوان ہوتے ہیں  کہتے ہیں  کہ جوان ہیں ، جب ادھیڑ عمرکو پہنچتے ہیں  تو کہتے ہیں  کہ ابھی بہت وقت پڑا ہےتوبہ تو بڑھاپے میں کی جاتی ہے، جب بوڑھے ہوجائیں گے، کسی کام کے نہ رہیں  گے اور تمام طاقتیں ہم سے چِھن جائیں گی، تواُس وقت توبہ کرلیں گے

ہم نہیں  جانتے کہ یہ ہماری غلط فہمی ہےاتفاقاً اُس وقت بھی ہم توبہ نہیں  کرتے، اُس وقت ہمارے پاس توبہ کا حوصلہ ہی نہیں  ہوگاگناہوں کے بوجھ سے ہماری کمر اس طرح خم ہوجائے گی کہ پھر ہمارا دل توبہ کرنے پر تیارہی نہیں  ہوگاایک بوڑھے سے زیادہ ایک جوان کا دل توبہ کے لئے تیار ہوتا ہےمولاناروم نے کیا خوب کہا ہے:

خار بن در قوت و برخاستن

خار کَن در سستی و در کاستن

۲۸

وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں کہتے ہیں  کہ ایک شخص نے سرِ راہ ایک خاردار جھاڑی لگائییہ جھاڑی بڑی ہونے لگی تولوگوں نے اُس سے کہا کہ جناب اس جھاڑی کو اکھاڑ دیجئےاُس نے کہا: ابھی جلدی کیا ہے، معمولی سی جھاڑی ہے آسانی سے اکھڑ جائے گی(کچھ دن بعد) لوگوں نے دوبارہ اُس سے درخواست کیاُس نے جواب دیا: کیا جلدی ہے، ابھی کاٹ پھینکیں گے، آئندہ سال کاٹ دیں گےاگلے سال وہ جھاڑی بڑھ کر تنومند ہوگئیاور جھاڑی بونے والا؟ وہ مزید بوڑھا ہوگیالوگوں نے کہا :آؤاسے کاٹ ڈالیںکہنے لگا: ابھی جلدی کیا ہے؟ بعد میں کاٹ ڈا لیں گے

خاردار جھاڑی ہر سال بڑھتی رہی، جڑیں پھیلاتی رہی، اس کا تنا موٹا ہوتا چلاگیا، اس کے کانٹے تیز تر ہوتے گئے او راس کا خطرہ بڑھتا گیاجبکہ اسے کاشت کرنے والا شخص بوڑھا ہوتا گیا اور اس کی طاقت کمزور پڑتی رہی:

خاربن در قوت و برخاستن

خار کن در سستی و در کاستن

مولانا روم ہم سے کہنا چاہتے ہیں  کہ تمہارے وجود میں بُری عادات اورناپسندیدہ اخلاق اُس خاردار جھاڑی کی مانندنشو ونما پاتے رہتے ہیں ، اُن کی جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں ، اُن کا تنا موٹے سے موٹا، اُن کے کانٹے تیز تراور زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن تم خوددن بدن بوڑھے ہوتے جاتے ہو، تمہاری قوت، تمہاری وہ مقدس قوتیں کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں

جوانی کے دنوں میں تم ایک ایسے طاقتور انسان کی مانندہوتے ہوجوایک پودے کو اکھاڑنا چاہتا ہے، تو اسے فوراً اکھاڑ سکتا ہے، اس کی جڑوں کو بھی کاٹ کر دور پھینک سکتا ہے، لیکن بوڑھا ہونے کے بعد تم ایک ایسے کمزور انسان کی مانند ہوگے جو اپنے ہاتھوں سے ایک مضبوط درخت اکھاڑنا چا ہے، تو خواہ وہ کتنا ہی زور لگا لے درخت جڑ سے نہیں  اکھاڑسکے گا

۲۹

خدا کی قسم! ایک ایک دن، ایک ایک گھنٹہ اہمیت کا حامل ہےاگر ہم ایک رات کی بھی تاخیر کریں تو غلطی پر ہیں !یہ نہ کہئے کہ کل رات شب ِ تئیس رمضان ہے، لیلۃ القدر میں سے ایک رات ہے اور توبہ کے لئے بہترین شب ہےنہیں ، یہی آج کی رات کل کی رات سے بہتر ہےیہی لمحہ اگلے لمحے سے بہتر لمحہ ہےتوبہ کے بغیر عبادت قبول نہیں  ہےپہلے لازم ہے کہ توبہ کریں

کہتے ہیں : ”صفائی ستھرائی کرو، پھر خرابے میں گھومو“پہلے صفائی کرو، اس کے بعد اس پاک وپاکیزہ جگہ میں داخل ہوہم توبہ نہیں  کرتے اور روزہ رکھتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور نماز پڑھتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور حج کو جاتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور قرآن پڑھتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور ذکر کرتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں !

خدا کی قسم! اگر آپ ایک توبہ کرکے پاک ہوجائیں اور پھراس توبہ اورپاکیزگی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں، تو یہی ایک دن اور ایک رات آپ کو دس سال کے برابر آگے لے جائے گی اور مقامِ قربِ الٰہی پرپہنچادے گیہم قبولیت ِدعا کادروازہ گم کر چکے ہیں ، اس کے راستے سے واقف نہیں  ہیں

۳۰

استغفار کی حقیقت

ایک شخص امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور استغفار کیاوہ شخص بھی ہماری طرح یہ سمجھتا تھا کہاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بول دینے سے توبہ ہوجاتی ہےاور اگر اس(اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ) کے ”غ“ کو زیادہ گاڑھا کر کے بولیں، تو ہماری توبہ بہت اچھی ہوجائے گیحضرت علی ؑ سمجھ گئے تھے کہ یہ بدبخت کس قدرگمراہ ہےبہت کم ایسا ہوا ہے کہ آپ ؑ نے اتنی شدت اختیار کی ہو اور اتنے سخت لہجے میں بات کی ہولیکن یہاں پر سخت لہجے میں بات کی اور فرمایا:

ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ

”خدا تجھے موت دے! تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے! کیا تجھے معلوم ہے استغفار کیا ہے؟ استغفار بلند مرتبہ انسانوں کا درجہ ہے۔“   (نہج البلاغہ کلماتِ قصار۴۱۷)

استغفار، توبہ کی حالت اور ایک مقدس کیفیت ہے، ایک مقدس اور پاک فضا ہےآپ توبہ کی حالت پیدا کیجئے، سچی توبہ کیجئے، اس کے بعد آپ خود کو ایک مقدس فضا میں محسو س کریں گےآپ کو احساس ہوگا کہ لطف و عنایت ِ الٰہی آپ کی روح پر سایہ فگن ہےمحسوس کریں گے کہ فرشتوں کے ایک گروہ نے آپ کو گھیراہوا ہےآپ پاک ہو جائیں گےکیونکہ توبہ کی حالت میں انسان خودپسندی سے دور ہو جاتا ہےاپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو نظر میں رکھتا ہے

۳۱

اسلام میں کہتے ہیں  کہ اگر توبہ کرنا چاہتے ہو، تو کسی پادری کے پاس جانے کی، کسی مولوی کے پاس جاکر اسے اپنے گناہ بتانے کی ضرورت نہیں  ہےخدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرو، اسے اپنے گناہ بتاؤکیوں کسی انسان کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار و اعتراف کرتے ہو؟ اپنے غفار الذنوب (گناہوں کو معاف کرنے والے) خدا کے سامنے اقرار کرو

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِهِمْ لااَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا

کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت ِ خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اﷲ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے(سورہ زمر۳۹آیت ۵۳)

یہ خدا کی آواز ہے: اے میرے زیادتی کرنے والے بندو! اے میرے گناہ گار بندو! اے میرے معصیت کار بندو! اے میرے وہ بندو جنہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے! میری رحمت سے ناامید نہ ہوناآؤ میرے پاس آؤمیں مان لوں گا، قبول کرلوں گاتوبہ کی فضا میں داخل ہوجاؤ

اس حدیث ِقدسی میں کتنے اعلیٰ اندازسے توبہ کی توصیف کی گئی ہے: اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِِ الْمُسَبِّحِیْنَ یعنی اﷲ تبارک و تعالیٰ، اس رحمت ِمطلق و کامل نے فرمایاہے کہ: گناہ گاروں کی نالہ و زاری، مجھے تسبیح کرنے والوں کی تسبیح سے زیادہ پسند ہےجاؤ اوراپنے خدا کی بارگاہ میں نالہ و فریاد کروسوچو تاکہ تمہارے گناہ تمہیں  یاد آجائیںکسی دوسرے سے نہ کہنادوسروں کے سامنے گناہ کا اقرار خود گناہ ہےلیکن اپنے دل میں (تم خود تو جانتے ہی ہو، خود ہی اپنے قاضی اور اپنے محتسب بن جاؤ) اپنے گناہوں کو نظر میں رکھو، اس کے بعد ان گناہوں کو ذات ِپروردگار کے سامنے لے جاؤ، اپنی کوتاہیاں بیان کرو، گریہ کرو، زاری کرو، مغفرت طلب کرو، پاکیزگی مانگوخدا تمہیں  بخش دے گا، تمہاری روح کو پاک و پاکیزہ کردے گا، تمہارے دل کو خالص کردے گا، اپنا لطف تمہارے شاملِ حال کردے گا

۳۲

 اور اس کے بعد ایک لذت، ایک ایسی حالت تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی کہ عبادت کی مٹھاس محسوس کروگے، گناہ اور گناہوں کی لذت تمہاری نظروں میں گر جائے گی، پھر تم میں فلاں شہوت انگیز فلم دیکھنے کی رغبت نہیں  رہے گی، لوگوں کی ناموس کی جانب دیکھنے کی طرف مائل نہیں  ہوگے، تمہارا دل غیبت کرنے، جھوٹ بولنے، لوگوں پر تہمت لگانے کو نہ چاہے گا، تم دیکھو گے کہ تمہاری پوری توجہ پاکیزہ اور اچھے کاموں کی جانب ہے

اس کے بعد حضرت علی ؑنے استغفار کے لئے چھے شرائط کا ذکر کیا، جن میں سے دو توبہ کی رکن ہیں ، دو توبہ کی قبولیت کی شرط ہیں ، اور آخری دو کمالِ توبہ کی شرائط ہیں  انشاء اﷲ کل رات آپ کے سامنے اس حدیث کی تشریح کریں گے

آپ دیکھتے ہیں  کہ اُن پاکیزہ ترین پاک لوگوں کو اس بات سے لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کریں، اپنی تقصیر و کوتاہی، اپنے گناہ (کہ ان کا گناہ ہماری نسبت ترکِ اولیٰ ہے اور ترکِ اَولیٰ سے بھی ایک درجہ بلند تر ہے) کے بارے میں بات کریںحَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (نیک لوگوں کی نیکیاں صاحبانِ قرب کے لئے گناہ ہیں )

دعائے ابوحمزہ ثمالی کو پڑھئے، دیکھئے کہ امام علی ابن الحسین ؑ اپنے خدا کے ساتھ کس طرح گفتگو کرتے ہیں ؟ کس طرح نالہ و فریاد کرتے ہیں ؟اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِ الْمُسَبِّحِیْنَ

دعائے ابوحمزہ ثمالی علی ابن الحسین ؑ کا نالہ وفریاد ہےآیئے خدا کے اس پاک وپاکیزہ بندے کے نالہ وفغاں کا کچھ حصہ دیکھتے ہیں  انہیں  اس بات سے لطف اور لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنی تمام تر حقارت، اپنے فقر، اپنی احتیاج ونیازاور اپنی کوتاہیوں کا ذکر کریں آپ کہا کرتے تھے کہ بارِ الٰہا !میری جانب سے کوتاہی ہی کوتاہی ہے اور تیری جانب سے لطف ورحمتمَوْلَایَ مَوْلَایَ اِذَا رَأیْتُ ذُنُوْبِیْ فَزَعْتُ وَ اِذَا رَأَیْتُ کَرَمَکَ طَمَعْتُ (دعائے ابو حمزہ ثمالی)

۳۳

علی ا بن الحسین ؑفرماتے ہیں : میرے خدا! میرے مولا! میرے آقا! جب میری نظر اپنے گناہوں پر پڑتی ہے تومجھ پرخوف وہراس طاری ہوجاتا ہےلیکن جوں ہی میری نگاہ تیری طرف اٹھتی ہے، تیری رحمت کو دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں امید پیدا ہوجاتی ہےمیں ہمیشہ خوف اور امید کے درمیان رہتا ہوںجب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں تو مجھ پر خوف طاری ہوجاتا ہے، اور جب تجھے دیکھتا ہوں تومجھ پر امید غالب آجاتی ہےجی ہاں، وہ ایسے تھے

دو جملے مصائب کے بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں گانو محرم کو عصر کے وقت لشکرِ عمر سعد نے عبید اﷲ ا بن زیاد کے حکم سے (امام حسین ؑپر) حملہ کردیاوہ اسی رات حسین ؑ سے جنگ کرنا چاہتے تھےامام حسین ؑ نے اپنے بھائی ابو الفضل العباس ؑکی وساطت سے ان سے ایک شب کی مہلت طلب کیفرمایا: بھیا! ان سے کہو کہ آج کی رات ہمیں مہلت دے دیںمیں کل جنگ کروں گامیں تسلیم ہونے والا نہیں  ہوںمیں جنگ کروں گا لیکن مجھے آج ایک رات کی مہلت دے دیں (غروب کا وقت تھا) پھر اسلئے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ حسین ؑ وقت گزارنا چاہتے ہیں ، یہ جملہ فرمایا: بھیا! خدا خود جانتا ہے کہ میں اس کے ساتھ مناجات کو پسند کرتا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ آج کی رات اپنی زندگی کی آخری رات کے طور پر اپنے خدا سے مناجات میں بسر کروں اوراسے اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں

عاشور کی وہ شب، اگر آپ جان لیں کہ وہ کیسی رات تھی! معراج تھی، اس رات خوشی، شادابی اور مسرت حکم فرما تھیاس رات انہوں نے خود کو پاک و صاف کیا، حتیٰ اپنے بالوں کی بھی آرائش کی

۳۴

ایک خیمہ تھا جس کا نام خیمہ ٔ تنظیف (صفائی کا خیمہ) تھااس خیمے میں کوئی موجودتھا اورباہر دو آدمی اپنی باری کے انتظار میں تھےان میں سے ایک نے جو بظاہر بُرَیر تھے، دوسرے کے ساتھ مذاق کیادوسرے نے اُن سے کہا: آج کی رات مذاق کرنے کی رات نہیں  ہےانہوں نے کہا: بنیادی طور پر میں بھی شوخ طبیعت آدمی نہیں  ہوں لیکن آج کی رات مذاق کی رات ہے

جب دشمن نے آکر ان توبہ کرنے والوں اور ان استغفار کرنے والوں کو دیکھا تو آپ جانتے ہیں  انہوں نے ان کے بارے میں کیا کہا؟ امام حسینؑ کے خیمے کے قریب سے گزرنے کے بعد کہنے لگے (یہ دشمن کے الفاظ ہیں !!): لَهُمْ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ مَا بَیْنَ رَاکِعٍ وَ سَاجِدٍ (دمع السجوم ص ۱۱۸) یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انسان شہد کی مکھیوں کے چھتے کے قریب سے گزرا ہو

شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کیسے بلند ہوتی ہے؟

امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب کے ذکر، دعا، نماز و استغفار کی آواز بھی اسی طرح بلند تھی

امام حسین ؑ فرماتے ہیں : میں چاہتا ہوں آج کی رات کو اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں (چاہتے ہیں  اپنی شب ِ معراج قرار دیں)

کیا ہمیں توبہ کی ضرورت نہیں  ہے؟

انہیں  تو ضرورت ہو اور ہمیں نہ ہو؟

جی ہاں، حسین ابن علی ؑ نے وہ رات اِس طرح بسر کیعبادت میں بسر کیاپنے اور اپنے اہلِ بیت کے کام انجام دیئے، اور اسی رات اپنے اصحاب کے سامنے وہ عظیم خطبہ ارشادفرمایا

۳۵

آپ کے سامنے صحرائے کربلا کے ایک تائب کا ذکر کرنے کے بعد اپنے عرائض ختم کروں گا:

ایک قبول ہونے والی توبہ، ایک انتہائی سچی توبہ، کربلا میں حر ابن یزید ریاحی کی توبہ ہےحر، ایک بہادر اورمضبوط انسان ہےپہلی بار جب عبید اﷲ ابن زیاد نے حسین ابن علی ؑ سے مقابلے کے لئے ایک ہزار سواروں کو بھیجنا چاہا، تو (اُن کی سربراہی کے لئے) اُسی کا انتخاب کیاوہ اہلِ بیت پیغمبر پر ظلم و ستم کا مرتکب ہوا

ہم نے عرض کیا تھا کہ جب بڑا ظلم سرزد ہوتا ہے تو انسان کا ضمیر، اگر نیم مردہ ضمیر بھی ہو، توردِعمل ظاہر کرتا ہےاب دیکھئے کہ روح کے پست مقامات کے مقابلے میں روح کے اعلیٰ مقامات کس انداز سے اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں ؟

راوی کہتا ہے کہ میں نے لشکرِ عمر سعد میں حرا بن یزید ریاحی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ بید کی طرح لرز رہے تھےمجھے تعجب ہوا، آگے بڑھا اور کہا: حر! میں تمہیں  بہت بہادر انسان سمجھتا تھااگر مجھ سے کوئی پوچھتا کہ کوفہ کا بہادر ترین انسان کون ہے، تو میں تمہارا نام لیے بغیر نہ رہتاتم کس طرح خوفزدہ ہو؟ تمہارے جسم پر لرزہ طاری ہےحر نے کہا: تم غلط سمجھ رہے ہومیں جنگ سے خوفزدہ نہیں  ہوں(اس نے کہا ہوگا:پھر کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ ) میں اپنے آپ کو جنت اور جہنم کے درمیان دیکھ رہا ہوںمیرے لئے جنت یادوزخ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہےمجھے سمجھ نہیں  آرہاکہ کیا کروں، یہ راستہ اختیار کروں یا وہ راستہ؟

لیکن آخرکار حر نے جنت کا راستہ اختیار کیااس نے آہستہ آہستہ اپنا گھوڑا ایک طرف کیااس طرح سے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا مقصد او رہدف کیا ہےجیسے ہی وہ ایک ایسے مقام پر پہنچاجہاں اب کوئی اس کا راستہ نہیں  روک سکتا تھا، اُس نے یکایک اپنے گھوڑے کو چابک رسید کی اور امام حسین ؑ کے خیموں کی طرف آگیا

۳۶

لکھا ہے کہ اس علامت کے طور پر کہ میں جنگ کی نیت سے نہیں  آیا ہوں، امان کی غرض سے آیا ہوں، حر نے اپنی ڈھال کو الٹا کرلیاتھاامام حسین ؑ کے قریب پہنچتا ہے، سلام عرض کرتا ہے، اور اس کا پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ:هَلْ تَریٰ لِیْ مِنْ تَوْبَةٍ؟ (لہوف ص۴۳) کیا اس گناہ گار کی توبہ قبول ہوگی؟ امام حسین ؑ فرماتے ہیں : ہاں! قبول ہے

امام حسین ؑ کی کرم نوازی دیکھئے! یہ نہیں  فرماتے کہ یہ کیسی توبہ ہے؟ ہمیں اس مشکل میں ڈالنے کے بعد اب توبہ کرنے آئے ہو؟ لیکن حسین ؑ اس طرح نہیں  سوچتے تھےحسین ؑ ؑہر صورت میں لوگوں کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں  اگرآپ ؑ کے تمام جوانوں کو قتل کرنے کے بعد بھی عمر سعد کا لشکر توبہ کرلیتا، تب بھی آپ ؑفرماتے کہ تم سب کی توبہ قبول کرتا ہوںاس کی دلیل یہ ہے کہ جب حادثہ کربلا کے بعد یزید ابن معاویہ نے علی ابن الحسین  (امام زین العابدین) سے کہاتھا کہ اگر میں توبہ کرلوں تو کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ توامام ؑ نے فرمایاتھا کہ: ہاں، اگر تو واقعی سچی توبہ کرلے توقبول ہوگی لیکن اُس نے توبہ نہیں  کی

حر نے امام حسین ؑ سے کہا: آقا!مجھے میدان میں جانے کی اجازت دیجئے تاکہ میں آپ پر اپنی جان فدا کردوںامام ؑ نے فرمایا: تم ہمارے مہمان ہو، گھوڑے سے نیچے آؤ، چند لمحے یہاں ٹھہروحر نے عرض کیا: آقا! آپ کی اجازت سے میرا جانا بہتر ہوگا

حر شرمندہ تھے، انہیں  شرم آرہی تھیکیوں؟ اسلئے کہ وہ دل میں کہہ رہے تھے کہ خدایا میں ہی وہ گناہگار ہوں جس نے سب سے پہلے تیرے اولیا کے دلوں کو تڑپایا تھاتیرے نبی کی اولاد کو دہشت زدہ کیا تھا

وہ کیوں حسین ابن علی ؑ کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں  ہوئے؟

۳۷

کیونکہ انہوں نے یہ سوچا ہوگاکہ میں یہاں بیٹھوں، تو کہیں  ایسا نہ ہو کہ حسین ؑ کا کوئی بچہ یہاں آجائے، اس کی نظر مجھ پر پڑے اور میں شرم کے مارے ڈوب مروں

’وَ لَاحَوْلَ وَ لَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ وَ صَلَّی اللّٰهُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلَهِ الطَّاهِرِیْنَ “

”بِاِسْمِکَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ، اَلْاَعَزِّ الْاَجَلِّ الْاَکْرَمِ یَااَللّٰه  اَللّٰهُمَّ اقْضِ حَوَائِجَنَا، وَاکْفِ مُهِمَّاتِنَا، وَاشْفِ مَرْضَانَا، وَ ارْحَمْ مَوْتَانَا، وَ اَدِّ دُیُوْنَنَا، وَوَسِّعْ فِیْ اَرْزَاقِنَا، وَاجْعَلْ عَاقِبَةَ اُمُورِنَا خَیْراً، وَ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضیٰ “

”رَحِمَ اللّٰهُ مَنْ قَرَأالْفَاتِحَةَ مَعَ الصَّلَوٰاتِ “

۳۸

دوسرا خطاب

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمِینَ بٰارِیِٔ الْخَلاٰئِقِ اَجْمَعیِنَ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلاٰمُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ وَحَبِیبِهِ وَصَفِیِّهٍ، وَحَافِظِ سِرِّه، ِ وَ مُبَلِّغِ رِسَالاتِهِ سَیِّدِنٰا وَنَبِیِّنٰا وَمَوْلاٰنٰااَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِهِ الطَّیِّبیِنَ الطَّاهِرِینَ الْمَعْصْومِینَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ:

قَالا اَارَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاوَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (سورہ اعراف۷آیت۲۳)

گزشتہ رات ہماری گفتگو توبہ کے بارے میں تھیہم نے عرض کیا تھا کہ توبہ اہلِ سلوک اور اہلِ عبادت و بندگی کی پہلی منزل ہےاگر کوئی پروردگار کے تقرب کا خواہشمند ہو، تواس کے لئے اپنے آپ کو تیارکرنے کی غرض سے اُسے چاہئے کہ اپنے سیاہ ماضی سے منھ موڑے اور توبہ کرے

۳۹

توبہ کی مہلت کب تک ہے؟

ہم نے وعدہ کیا تھا کہ توبہ کی جووضاحت حضرت علی علیہ السلام نے کی ہے، اور جس میں توبہ کی حقیقت، اس کی شرائط اور اس کے مرحلہ کمال کی نشاندہی کی ہے، اُسے آپ کی خدمت میں بیان کریں گےاس بارے میں امام ؑ کے بیان کو عرض کرنے سے پہلے مقدمے کے طور پر ایک سوال کا جواب عرض کرتے ہیں وہ سوال یہ ہے کہ: انسان کی توبہ کس وقت قبول ہوتی ہے، کونسا موقع توبہ کا وقت ہوتا ہے؟ یعنی کس وقت تک انسان کو توبہ کی مہلت حاصل ہے؟

انسان جب تک اس دنیا میں ہے اور اس کارشتہ حیات باقی ہے اور جب تک موت بالکل اس کے سر پر نہ آجائے، اسے توبہ کی مہلت حاصل ہےجب انسان موت کے چنگل میں گرفتار ہوچکا ہو اور اسے نجات کی کوئی امید نہ ہو، صرف اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں  ہوتیوہ آخری لمحات اور لحظات جنہیں  احادیث میں وقت ِ معائنہ کہا گیا ہے، یعنی وہ لمحہ جب انسان موت کااور اگلے جہان کا معائنہ کرتا ہے، انہیں  اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اور عین اس وقت جبکہ ابھی وہ زندہ ہوتا ہے اسکے باوجود اگلی دنیا کو اپنے سامنے موجود پاتا ہےاس لمحے سے پہلے پہلے انسان کی توبہ قبول ہوسکتی ہےلیکن خود اس لمحے میں توبہ قبول نہیں  ہوگیاسی طرح آخرت میں بھی توبہ بے معنی ہوجاتی ہےوہاں نہ انسان کو توبہ کا حوصلہ ہوگا اورنہ اگر بالفرض توبہ کرنابھی چاہے، جو قطعی طور پر حقیقی توبہ نہیں  ہوگی، صرف ایک ظاہری عمل ہوگا، اس کی توبہ قبول نہیں  ہوگیاس معاملے میں ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ اس سوال کا جواب ہماری گزشتہ رات کی گفتگو کو مکمل کرے گا، اسلئے ہم آج رات یہ گفتگوکر رہے ہیں

۴۰